ہجرت نبوی کا نواں سال

وفدبنی جرم

قبیلہ جرم بنوقضاعہ کاایک بطن تھا،یہ لوگ حجازکے شمال میں  آبادتھے،

حِینَ أَسْلَمَ النَّاسُ.وَتَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَقَضُوا حَوَائِجَهُمْ،فَقَالُوا لَهُ: مَنْ یُصَلِّی بِنَا أَوْ لَنَا؟فَقَالَ: لِیُصَلِّ بِكُمْ أَكْثَرُكُمْ جَمْعًا أَوْ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ،قَالَ: فَقَدَّمُونِی بَیْنَ أَیْدِیهِمْ فَكُنْتُ أُصَلِّی بِهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتِّ سِنِینَ. قَالَ: وَكَانَ عَلَیَّ بُرْدَةٌ كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّی،قَالَ: فَكَسُونِی قَمِیصًا مِنْ مَعْقَدِ الْبَحْرَیْنِ

فتح مکہ کے بعدقبیلہ جرم کاایک وفدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پہنچااوراسلام قبول کر لیااسلام قبول کرنے کے بعدوفدکے اراکین کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں  مقیم رہے اس دوران انہوں  نے قرآن پڑھا اور دین اسلام کے احکامات سیکھے،جب وفد رخصت ہونے لگے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں  نماز کون پڑھایاکرے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں  سے ایک آدمی اذان دے اورجس کوقرآن سب سے زیادہ یاد ہو اوروہ امامت کرائے، یہ لوگ اپنے قبیلے میں  واپس آئے توجستجوکرنے پرکوئی ایساشخص نہ ملاجومجھ (عمروبن سلمہ )سے زیادہ قرآن کاجاننے والاہوحالانکہ میں  اس زمانہ میں  اتناچھوٹا تھا کہ میرے بدن پرصرف ایک چادرتھی جومیری سترپوشی کے لئے بمشکل کفالت کرتی تھی،بالخصوس سجدے کے وقت اس کاسترقائم نہ رہتاان لوگوں  نے انہیں  امام بنالیایہ دیکھ کرقبیلہ کے لوگوں  میں  سے ایک شخص نے اسے بحرین کاگرہ دارقمیص پہنادی۔

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے عمرو رضی اللہ عنہ بن سلمہ کابیان نقل کیاہے کہ میں  بنوجرم کے اس وفدمیں  شریک تھاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہواتھامگرابن سعدکی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ بن سلمہ کے والدحاضرہوئے تھے،

قَالَ: كُنَّا بِحَضْرَةِ مَاءٍ مَمَرُّ النَّاسِ عَلَیْهِ. وَكُنَّا نَسْأَلُهُمْ مَا هَذَا الأَمْرُ فَیَقُولُونَ: رَجُلٌ زَعَمَ أَنَّهُ نَبِیٌّ وَأَنَّ اللهَ أَرْسَلَهُ. وَأَنَّ اللهَ أَوْحَى إِلَیْهِ كَذَا وَكَذَا. فَجَعَلْتُ لا أَسْمَعُ شَیْئًا مِنْ ذَلِكَ إِلا حَفِظْتُهُ كَأَنَّمَا یُغْرَى فِی صَدْرِی بِغِرَاءٍ. حَتَّى جَمَعْتُ فِیهِ قُرْآنًا كَثِیرًا، قَالَ: وَكَانَتِ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلامِهَا الْفَتْحَ. یَقُولُونَ: انْظُرُوا فَإِنْ ظَهَرَ عَلَیْهِمْ فَهُوَ صَادِقٌ وَهُوَ نَبِیٌّ،فَلَمَّا جَاءَتْنَا وَقْعَةُ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلامِهِمْ. فَانْطَلَقَ أَبِی بِإِسْلامِ حِوَائِنَا ذَلِكَ وَأَقَامَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یُقِیمَ

اس روایت کاخلاصہ یہ ہے کہ ہماراقیام عام گزرگاہ پرواقع ایک چشمہ پرتھاہم اس طرف سے گزرنے والوں  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  سنتے رہتے تھے کہ اللہ نے انہیں  رسول بناکربھیجاہےاوران پروحی نازل ہوتی ہے،ان میں  سے بعض ہمیں  نازل کردہ کلام بھی سنایاکرتے تھےجومیں  یاد کرلیتاتھااس طرح مجھے قرآن مجیدکاکافی حصہ حفظ ہوگیا اہل عرب قبول اسلام کے لیے فتح مکہ کے منتظرتھے اورکہتے تھے کہ دیکھتے رہواگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں  پرغالب آجائیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں  ،جب فتح مکہ مکرمہ کی خبرآئی تو اردگردکے تمام قبائل اسلام قبول کرنے میں  سبقت کرنے لگے میرے والدبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے اورکچھ مدت مدینہ منورہ میں  قیام کرنے کے بعدواپس آگئے،

فَلَمَّا رَأَیْنَاهُ قَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللهِ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ حَقًّا. ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُ یَأْمُرُكُمْ بِكَذَا وَكَذَا.وینهاكم عن كذا وكذا. وأن تصلوا كذا فی حین وكذا. وَصَلاةَ كَذَا فِی حِینِ كَذَا، وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاةُ فَلْیُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ. وَلْیَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا ، قَالَ: فَنَظَرَ أَهْلُ حِوَائِنَا فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّی لِلَّذِی كُنْتُ أَحْفَظُهُ مِنَ الرُّكْبَانِ، قَالَ: فَقَدَّمُونِی بَیْنَ أَیْدِیهِمْ فَكُنْتُ أُصَلِّی بِهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتِّ سِنِینَ.

انہوں  نے کہااللہ کی قسم !میں  سچے رسول کے پاس سے آیاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں  اس اس بات کا حکم فرماتے ہیں  اوراس اس بات سے منع فرماتے ہیں  ،فلاں  نمازفلاں  وقت پڑھواورفلاں  نمازفلاں  وقت پرپڑھو،اورجب نمازکاوقت آئے توکوئی تم میں  سے اذان کہے اور حکم دیاہے کہ تم میں  سے جس آدمی کوزیادہ قرآن حفظ ہووہ تمہیں  نماز پڑھایا کرے،لوگوں  نے جستجوکی تومجھ سے زیادہ کسی کو قرآن مجیدحفظ نہ تھااس لیے کہ میں  شترسواروں  سے سن کرقرآن یادکرلیاکرتاتھاچنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انہوں  نے مجھے امام بنالیااس وقت میری عمرچھ سال کی تھی،

قَالَ: وَكَانَ عَلَیَّ بُرْدَةٌ كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّی،فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْحَیِّ: أَلا تُغَطُّونَ عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ؟ قَالَ: فَكَسُونِی قَمِیصًا مِنْ مَعْقَدِ الْبَحْرَیْنِ،قَالَ: فَمَا فَرِحْتُ بِشَیْءٍ أَشَدَّ مِنْ فَرَحِی بِذَلِكَ الْقَمِیصِ

اورمیرے پاس اتنی چھوٹی چادرتھی کہ میں  بمشکل اس سے اپناسترڈھانپ سکتاتھا ،اوربالخصوس سجدے کے وقت اس کاسترقائم نہ رہتا،قبیلے کی ایک عورت نے کہاکہ تم لوگ اپنے قاری کے سرین کوہم سے کیوں  نہیں  چھپاتے؟چنانچہ میرے قبیلہ والوں  نے مجھے بحرین کاکرتاپہنایا،مجھے قمیص کے ملنے سے بڑھ کرکسی چیزکے ملنے کی خوشی نہیں  ہوئی۔[1]

سریہ قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہ انصاری خزرجی (تبالہ کی طرف)صفرنو ہجری

وَكَانَتْ فِی صَفَرٍ سَنَةَ تِسْعٍ، قَالَ ابن سعد: قَالُوا: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ قطبة بن عامر فِی عِشْرِینَ رَجُلًا إِلَى حَیٍّ مِنْ خَثْعَمَ بِنَاحِیَةِ تَبَالَةَ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَشُنَّ الْغَارَةَ،فَخَرَجُوا عَلَى عَشَرَةِ أَبْعِرَةٍ یَعْتَقِبُونَهَا، فَأَخَذُوا رَجُلًا فَسَأَلُوهُ فَاسْتَعْجَمَ عَلَیْهِمْ، فَجَعَلَ یَصِیحُ بِالْحَاضِرَةِ وَیُحَذِّرُهُمْ فَضَرَبُوا عُنُقَهُ ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفرنوہجری میں  قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کوجن کی کنیت ابوزیدتھی بیس مجاہدین کے ایک دستہ پرامیرمقررفرماکرخثعم کے ایک قبیلے کی طرف تبالہ نامہ جگہ کی طرف بھیجا(یہ یمن کے راستے میں  ارض تہامہ کاایک قصبہ ہے،تبالہ اورمکہ کے درمیان ۵۲فرسخ کافاصلہ ہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  حکم فرمایاکہ دشمن پراچانک حملہ کردینا ، مجاہدین کے پاس دس اونٹ تھے جن پروہ باری باری سفرکرتے ہوئے دشمن کے علاقہ میں  پہنچ گئے،وہاں  انہوں  نے ایک آدمی کوگرفتارکرکے معلومات حاصل کرنی چاہیں  مگرخوف کے غلبہ سے اس سے کچھ جواب نہ بن پڑااورآبادی والوں  کو چیخ چیخ کرپکارنے اورخطرہ سے ہوشیارکرناشروع کردیامجاہدین نے یہ صورت دیکھ کراسے قتل کردیا،

ثُمَّ أَقَامُوا حَتَّى نَامَ الْحَاضِرَةُ فَشَنُّوا عَلَیْهِمُ الْغَارَةَ فَاقْتَتَلُوا قِتَالًا شَدِیدًا حَتَّى كَثُرَ الْجَرْحَى فِی الْفَرِیقَیْنِ جَمِیعًا، وَقَتَلَ قطبة بن عامر مَنْ قَتَلَ، وَسَاقُوا النَّعَمَ وَالنِّسَاءَ وَالشَّاءَ إِلَى الْمَدِینَةِ ،وَكَانَتْ سُهْمَانُهُمْ أَرْبَعَةَ وَالْبَعِیرُ یُعْدَلُ بِعَشْرٍ مِنَ الْغَنَمِ بَعْدَ أَنْ أفراد الْخُمُسُ

پھریہ لوگ رات گئے تک رکے رہے یہاں  تک کہ آبادی کے لوگ سوگئے ،تب یہ لوگ یکایک چاروں  طرف سے ان پرٹوٹ پڑے ،فریقین میں  گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں  دونوں  طرف کے بہت سے افراد زخمی ہوئےمگردشمن کوشکست ہوئی،امیردستہ قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ان کے بہت سے آدمی قتل کیے اوردشمن کے بہت سے اونٹ و بکریاں  اور عورتیں  بطور غنیمت پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے،خمس نکالنے کے بعدہرشخص کے حصہ میں  چارچاراونٹ آئے،ایک اونٹ کودس بکریوں  کے مساوی قراردیاگیا۔[2]

وفدبنی عذرہ :

بنوعذرہ ،قحطانی قبیلہ قضاعہ کاایک عظیم بطن تھا،یہ لوگ شمالی حجازمیں  مدائن صالح کے شمال میں  آبادتھے،

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ عُذْرَةَ فِی صَفَرٍ سَنَةَ تِسْعٍ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، فِیهِمْ جمرة بن النعمان،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنِ الْقَوْمُ ؟فَقَالَ مُتَكَلِّمُهُمْ: مَنْ لَا تُنْكِرُهُ، نَحْنُ بَنُو عُذْرَةَ، إِخْوَةُ قُصَیٍّ لِأُمِّهِ، نَحْنُ الَّذِینَ عَضَّدُوا قُصَیًّا، وَأَزَاحُوا مِنْ بَطْنِ مَكَّةَ خُزَاعَةَ وَبَنِی بَكْرٍ، وَلَنَا قَرَابَاتٌ وَأَرْحَامٌ ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَرْحَبًا بِكُمْ وَأَهْلًا، مَا أَعْرَفَنِی بِكُمْ، فَأَسْلَمُوا، وَبَشَّرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِفَتْحِ الشَّامِ، وَهَرَبِ هرقل إِلَى مُمْتَنِعٍ مِنْ بِلَادِهِ

صفرنو ہجری میں  اس قبیلہ کے انیس اورایک روایت کے مطابق بارہ یاپندرہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئےان میں  ایک جمرہ بن نعمان بھی تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم کون لوگ ہو؟انہوں  نے عرض کیاہم بنی عذرہ ہیں  ،قصی کے(ماں  کی طرف سے)بھائی ہیں  ،ہم نے قصی کے انصاربن کرخزاعہ اوربنی بکرکومکہ مکرمہ سے نکالاتھااس لئے ہم آپ کے قرابت داربھی ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوخوش آمدید کہا،ان لوگوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہیں  ؟آپ نے فرمایا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرواوراس بات کی شہادت دوکہ میں  تمام لوگوں  کی طرف اللہ کارسول ہوں  ،ان لوگوں  نے فرائض اسلام دریافت کیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوفرائض اسلام کی خبردی ،پھران لوگوں  نے اسلام قبول کرلیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  بشارت دی کہ انشاء اللہ جلدہی شام کاعلاقہ فتح ہوجائے گااورہرقل وہاں  سے بھاگ جائے گا۔

وَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سُؤَالِ الْكَاهِنَةِ، وَعَنِ الذَّبَائِحِ الَّتِی كَانُوا یَذْبَحُونَهَا وَأَخْبَرَهُمْ أَنْ لَیْسَ عَلَیْهِمْ إِلَّا الْأُضْحِیَّةُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  نصیحت فرمائی کہکاہنوں  سے سوال نہ پوچھاکرواورجوقربانیاں  تم(بتوں  کے نام پر) اب دیتے ہووہ سب منسوخ ہیں  ،صرف عید الاضحیٰ کی قربانی باقی رہ گئی ہے استطاعت ہوتوضروردیاکرو۔

فَأَقَامُوا أَیَّامًا بِدَارِ رَمْلَةَ، ثُمَّ انْصَرَفُوا وَقَدْ أُجِیزُوا

یہ لوگ چنددن بطورمہمان آپ کے پاس ٹھیرے ،جب رخصت ہونے لگے توآپ نے انہیں  عطیات سے نوازا۔[3]

ثم جاؤوا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمُوا بِسَلامِ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ وَقَالُوا: نَحْنُ إِخْوَةُ قُصَیٍّ لأُمِّهِ ،مَا مَنَعَكُمْ مِنْ تَحِیَّةِ الإِسْلامِ؟ قَالُوا:قَدِمْنَا مُرْتَادِینَ لِقَوْمِنَا،وَسَأَلُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْیَاءَ مِنْ أَمْرِ دِینِهِمْ فَأَجَابَهُمْ فِیهَا.وَأَسْلَمُوا وَأَقَامُوا أَیَّامًا ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى أَهْلِیهِمْ. فَأَمَرَ لَهُمْ بِجَوَائِزَ كَمَا كَانَ یُجِیزُ الْوَفْدَ

ایک روایت میں  ہےبنوعذرہ کے وفدنے بارگاہ نبوی میں  حاضری کے وقت جاہلیت کاسلام کہااورکہاہم قصی کی ماں  کی طرف سے بھائی ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکہ تمہیں  اسلام کے سلام سے کس بات نے روکا ہے؟انہوں  نے عرض کیاہم یہاں  چراگاہ کی تلاش میں  آئے ہیں  ،پھرانہوں  نے دین کے بارے میں  کچھ باتیں  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیں  ،آپ نے ان کاجواب دیااوروہ مسلمان ہوگئے ،وہ چنددن مدینہ منورہ میں  قیام پذیررہے پھروہ اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت کےوقت انہیں  تحائف دینے کاحکم فرمایاجس طرح دوسرے وفودکوعطاکیاجاتاتھا۔[4]

وفدبنوازد:

جمہورمورخین کے نزدیک یہ ایک قحطانی قبیلہ تھا،یہ پہلے یمن میں  آبادتھے سدمارب ٹوٹنے کے بعدازدی قبائل یمن سے نکل کرشام،عراق ،نجد،عمان،یمامہ ، بحرین ، حجازاورعرب کے دوسرے مختلف مقامات پرآبادہوگئے(جزیرة العرب،غزوہ تبوک) ایک خیال یہ ہے کہ بنوازدنابت بن اسمٰعیل علیہ السلام کی اولادسے تھے (یعنی عدنانی النسل تھے ) وہ کسی نہ معلوم زمانہ میں  مکہ سے یمن جاکرآبادہوئے اورقحطانی النسل مشہورہوگئے۔ (سیرانصارجلداول ازمولاناسعیدانصاری)

قَالَ:وَفَدْتُ سَابِعَ سَبْعَةٍ مِنْ قَوْمِی عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَیْهِ وَكَلَّمْنَاهُ، أَعْجَبَهُ مَا رَأَى مِنْ سَمْتِنَا وَزِیِّنَا،فَقَالَ مَن أَنْتُمْ؟قُلْنَا: مُؤْمِنُونَ،فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:إِنَّ لِكُلِّ قَوْلٍ حَقِیقَةً، فَمَا حَقِیقَةُ قَوْلِكُمْ وَإِیمَانِكُمْ؟

فتح مکہ کے بعدبنوازدکاایک سات رکنی وفدصرد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کی سربراہی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدت میں  حاضرہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی خوش کلامی اوروضع قطع بہت پسندآئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم لوگ کون ہو؟انہوں  نے عرض کیاہم مومن ہیں  ،ان کے جواب پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایااورکہاہردعویٰ کی ایک حقیقت ہوتی ہے ،تم بتاؤتمہارے قوم اورایمان کی کیاحقیقت ہے؟

قُلْنَا: خَمْسَ عَشْرَةَ خَصْلَةً؛ خَمْسٌ مِنْهَا أَمَرَتْنَا بِهَا رُسُلُكَ أَنْ نُؤْمِنَ بِهَا، وَخَمْسٌ أَمَرْتَنَا أَنْ نَعْمَلَ بِهَا، وَخَمْسٌ تَخَلَّقْنَا بِهَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ، فَنَحْنُ عَلَیْهَا الْآنَ، إِلَّا أَنْ تَكْرَهَ مِنْهَا شَیْئًا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا الْخَمْسُ الَّتِی أَمَرَتْكُمْ بِهَا رُسُلِی أَنْ تُؤْمِنُوا بِهَا؟

انہوں  نے عرض کیاہم میں  پندرہ خصلتیں  ہیں  ان میں  سے پانچ توایسی ہیں  جن کے متعلق داعیان اسلام نے ہمیں  حکم دیاہے کہ ان پرایمان رکھیں  ،پانچ خصلتیں  ایسی ہیں  جن کے متعلق ہدایت کی جاتی ہے کہ ان پرعمل کریں  اورپانچ خصلتیں  وہ ہیں  کہ ہم زمانہ جاہلیت سے پابندہیں  اوراب تک ان پرقائم ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاوہ پانچ خصلتیں  کون سی ہیں  جن پرتمہیں  ایمان رکھنے کاحکم دیاگیاہے؟

قُلْنَا: أَمَرَتْنَا أَنْ نُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ،قَالَ: وَمَا الْخَمْسُ الَّتِی أَمَرْتُكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِهَا؟قُلْنَا: أَمَرْتَنَا أَنْ نَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَنُقِیمَ الصَّلَاةَ، وَنُؤْتِیَ الزَّكَاةَ، وَنَصُومَ رَمَضَانَ، وَنَحُجَّ الْبَیْتَ الْحَرَامَ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْهِ سَبِیلًا

اہل وفدنے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کہ اللہ،اس کے فرشتوں  ،اس کی نازل کردہ کتابوں  اوراس کے رسولوں  کومانیں  اورمرنے کے بعدروزقیامت دوبارہ زندہ ہونے کا یقین رکھیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاوہ پانچ خصلتیں  کون سی ہیں  جن پرتمہیں  عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے؟انہوں  نے عرض کیایہ کہ ہم اقرارکریں  کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں  ،پابندی سے نمازقائم کریں  ،سال میں  ایک مرتبہ زکوٰة اداکریں  ،رمضان المبارک کے روزے رکھیں  اور اگر استطاعت ہوتوزندگی میں  کم ازکم ایک باربیت اللہ کاحج کریں  ۔

فَقَالَ: وَمَا الْخَمْسُ الَّتِی تَخَلَّقْتُمْ بِهَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ؟قَالُوا:الشُّكْرُ عِنْدَ الرَّخَاءِ، وَالصَّبْرُ عِنْدَ الْبَلَاءِ، وَالرِّضَى بِمُرِّ الْقَضَاءِ، وَالصِّدْقُ فِی مَوَاطِنِ اللِّقَاءِ، وَتَرْكُ الشَّمَاتَةِ بِالْأَعْدَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: حُكَمَاءُ عُلَمَاءُ كَادُوا مِنْ فِقْهِهِمْ أَنْ یَكُونُوا أَنْبِیَاءَ ثُمَّ قَالَ: وَأَنَا أَزِیدُكُمْ خَمْسًا، فَتَتِمُّ لَكُمْ عِشْرُونَ خَصْلَةً إِنْ كُنْتُمْ كَمَا تَقُولُونَ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھااچھااب وہ پانچ خصلتیں  بیان کروجن پرتم زمانہ جاہلیت سے کار بند ہو۔انہوں  نے عرض کیاخوشحالی کے وقت شکربجالانا،مصیبت کے وقت صبرکرنااوراللہ کی رضا پرراضی رہنا،آزمائش کے وقت راستبازی پرقائم رہنااوردشمنوں  کی مصیبت پرہنسی نہ اڑانا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگ توبڑے حکیم اورعالم نکلے،تمہاری حکمت ودانش گویاانبیاء کی حکمت ودانش ہے،

اچھااب میں  تمہیں  پانچ باتیں  بتلاتاہوں  تاکہ کل بیس باتیں  ہوجائیں  ۔

فَلَا تَجْمَعُوا مَا لَا تَأْكُلُونَ، وَلَا تَبْنُوا مَا لَا تَسْكُنُونَ، وَلَا تَنَافَسُوا فِی شَیْءٍ أَنْتُمْ عَنْهُ غَدًا تَزُولُونَ، وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ، وَعَلَیْهِ تُعْرَضُونَ، وَارْغَبُوا فِیمَا عَلَیْهِ تَقْدَمُونَ وَفِیهِ تَخْلُدُونَ

ضرورت سے زیادہ اشیائے خوردونوش کاذخیرہ نہ کرو، ضرورت سے زیادہ مکانات تعمیرنہ کرو، جس چیزکوکل تمہیں  چھوڑکررخصت ہوجاناہے اس میں  ایک دوسرے کی حرص نہ کرو، اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہوجس کی طرف تمہیں  لوٹ کرجاناہے،اوراس کے حضوراپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، ان چیزوں  کی طرف رغبت رکھوجوروزآخرت تمہارے کام آئیں  گی جہاں  تمہیں  ہمیشہ ہمیشہ رہناہے۔

فَانْصَرَفَ الْقَوْمُ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَحَفِظُوا وَصِیَّتَهُ وَعَمِلُوا بِهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سن کراہل وفد نےان باتوں  کوتسلیم کیا اورواپس لوٹ کرہمیشہ ان پرعمل کیا۔[5]

عَنْ مُنِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَزْدِیِّ قَالَ: قَدِمَ صُرَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَزْدِیُّ فِی بَضْعَةَ عَشَرَ رَجُلا مِنْ قَوْمِهِ وَفْدًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – فَنَزَلُوا عَلَى فَرْوَةَ بْنِ عَمْرٍو فَحَیَّاهُمْ وَأَكْرَمَهُمْ. وَأَقَامُوا عِنْدَهُ عَشَرَةَ أَیَّامٍ. وَكَانَ صُرَدٌ أَفْضَلَهُمْ فَأَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – عَلَى مَنْ أَسْلَمَ مِنْ قَوْمِهِ.وَأَمَرَهُ أَنْ یُجَاهِدَ بِهِمْ مَنْ یَلِیهِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ مِنْ قَبَائِلِ الْیَمَنِ. فَخَرَجَ حَتَّى نَزَلَ جُرَشَ. وَهِیَ مَدِینَةٌ حَصِینَةٌ مُغَلَّقَةٌ. وَبِهَا قَبَائِلُ مِنَ الْیَمَنِ قَدْ تَحَصَّنُوا فِیهَا.

منیربن عبداللہ الازدی کابیان ہے صردبن عبداللہ الاذدی اپنی قوم کے انیس آدمیوں  کے ہمراہ بطوروفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورفروہ بن عمروکے پاس اترے،فروہ نے ان لوگوں  کوسلام کیااوران کااکرام کیا یہ لوگ فروہ بن عمروکے یہاں  دس روزٹھہرے ،وفد میں  صروان سب سے افضل تھے چنانچہ جب یہ وفدرخصت ہونے لگاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کوقبیلہ بنوازدکے مسلمانوں  پرامیرمقررفرمایااورانہیں  حکم دیاکہ مسلمانوں  کوساتھ لے کریمن کے قریبی مشرک قبائل کے ساتھ جہادکرو،انہوں  نے تعمیل ارشادکاوعدہ کیا۔[6]

وفدجرش:

یہ قحطانی حمیری قبیلہ تھا،اس قبیلے کی سکونت جرش میں  تھی جویمن کاایک بہت بڑاشہراوروسیع صوبہ تھا

فَخَرَجَ صُرَدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ یَسِیرُ بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى نَزَلَ بِجُرَشَ ، وَهِیَ یَوْمئِذٍ مَدِینَةٌ مُعَلَّقَةٌ، وَبِهَا قَبَائِلُ مِنْ قَبَائِلِ الْیَمَنِ،وَقَدْ ضَوَتْ إلَیْهِمْ خَثْعَمُ ، فَدَخَلُوهَا مَعَهُمْ حِینَ سَمِعُوا بِسَیْرِ الْمُسْلِمِینَ إلَیْهِمْ، فَحَاصَرُوهُمْ فِیهَا قَرِیبًا مِنْ شَهْرٍ، وَامْتَنَعُوا فِیهَا مِنْهُ ثُمَّ إنَّهُ رَجَعَ عَنْهُمْ قَافِلًا، حَتَّى إذَا كَانَ إلَى جَبَلٍ لَهُمْ یُقَالُ لَهُ شَكْرُ، ظَنَّ أَهْلُ جُرَشَ أَنَّهُ إنَّمَا وَلَّى عَنْهُمْ مُنْهَزِمًا، فَخَرَجُوا فِی طَلَبِهِ، حَتَّى إذَا أَدْرَكُوهُ عَطَفَ عَلَیْهِمْ، فَقَتَلَهُمْ قَتْلًا شَدِیدًا

صرد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ الازدی نے اپنے وطن پہنچ کرتعمیل حکم میں  یمن کے مشہورشہر جرش پر جہاں  قلعہ شکن آلات منجنیقین،دبابے وغیرہ اوردیگردفاعی آلات حرب تیار کیے جاتے تھے حملہ کردیاشہرکے گردایک مضبوط فصیل تھی چنانچہ اہل شہرنے لشکراسلام کی آمدکی خبرسن کر کھلے میدان میں  لڑنے کے بجائے قلعہ بندہوکرلڑنامناسب تصورکیااورانہوں  نے اندرداخل ہوکر شہرپناہ کے تمام دروازے بندکردیئے،ایک روایت کے مطابق قبیلہ خثعم کے مشرکین بھی ان کی مددکے لئے پہنچ گئے مگرانہیں  شہرسے باہرنکل کرلڑنے کی ہمت نہ ہوئی،مجاہدین اسلام نے شہرکاایک ماہ تک محاصرہ جاری رکھامگرشہرفتح ہونے کے کوئی آثارنظرنہ آئے، آخرامیرلشکرصرد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ نے اہل شہرکوقلعہ سے باہرنکالنے کے لئے ایک منصوبہ بنایاانہوں  نے محاصرہ اٹھایااورواپسی کی راہ لی جب وہ شکرنامی پہاڑکے قریب تک پہنچ گئے تواہل جرش نے خیال کیاکہ مسلمان پسپاہوکرچلے گئے ہیں  چنانچہ انہوں  نے شہرسے نکل کرمسلمانوں  کا تعاقب کیا،مگرجب وہ مجاہدین کے قریب پہنچے توانہوں  نے منصوبے کے مطابق یکایک پلٹ کران پراس قدرزوردارحملہ کردیاکہ مشرکین کے کشتوں  کے پشتے لگ گئے،

وَقَدْ كَانَ أَهْلُ جَرْشٍ بَعَثُوا رَجُلَیْنِ مِنْهُمْ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ یَرْتَادَانِ وَیَنْظُرَانِ ،فَبَیْنَا هُمَا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَشِیَّةً بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ، إذْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بِأَیِّ بِلَادِ اللهِ شَكْرُ؟فَقَامَ إلَیْهِ الْجُرَشِیَّانِ فَقَالَا: یَا رَسُولَ اللهِ، بِبِلَادِنَا جَبَلٌ یُقَالُ لَهُ كَشْرُ، وَكَذَلِكَ یُسَمِّیهِ أَهْلُ جُرَش،فَقَالَ: إِنَّه لَیْسَ بكشر، وَلَكِنَّهُ شَكْرُ

محاصرہ کے دوران اہل جرش نے حالات کاجائزہ لینے کے لئے اپنے دوآدمیوں  کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  روانہ کیاتھااوران کے آنے کے منتظرتھے،ایک دن یہ دونوں  عصرکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشکرنامی پہاڑکہاں  ہے ؟ان دونوں  نے جواب دیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے علاقہ میں  ایک پہاڑ کشرہے اورجرش کے لوگ اس کوکشرہی کہتے ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کشرنہیں  بلکہ اس کانام شکر ہے،

قَالَا: فَمَا شَأْنُهُ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ: إنَّ بُدْنَ اللهِ لَتُنْحَرُ عِنْدَهُ الْآنَ، قَالَ: فَجَلَسَ الرَّجُلَانِ إلَى أَبِی بَكْرٍ أَوْ إلَى عُثْمَانَ، فَقَالَ لَهُمَا: وَیْحَكُمَا! إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیَنْعَى لَكُمَا قَوْمكُمَا،فَقُومَا إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْأَلَاهُ أَنْ یَدْعُوَ اللهَ أَنْ یَرْفَعَ عَنْ قَوْمِكُمَافَقَامَا إلَیْهِ، فَسَأَلَاهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: اللهمّ ارْفَعْ عَنْهُمْ

انہوں  نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس پہاڑ کے بارے میں  کیاخبرہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہاں  اللہ تعالیٰ کے اونٹ ذبح کیے جارہے ہیں  ،مگران دونوں  کواس کامطلب سمجھ نہ آیاوہ دونوں  وہاں  سے اٹھ کرسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ یاسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آکربیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ فرمایا تھا انہیں  گوش گزارکیاانہوں  نے فرمایااللہ کے بندو!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری قوم کی ہلاکت کی خبردے رہے ہیں  ،تم لوگ ان کی خدمت اقدس میں  عرض کروکہ آپ اللہ سے تمہاری قوم کی ہلاکت سے بچانے کی دعاکریں  ،انہوں  نے اس ہدایت پرعمل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کے حق میں  دعاکی درخواست کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی الٰہی !جرش والوں  سے ہلاکت کواٹھالے،

فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعِینَ إلَى قَوْمِهِمَا، فَوَجَدَا قَوْمَهُمَا قَدْ أُصِیبُوا یَوْمَ أَصَابَهُمْ صُرَدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، فِی الْیَوْمِ الَّذِی قَالَ فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ، وَفِی السَّاعَةِ الَّتِی ذَكَرَ فِیهَا مَا ذَكَرَ، وَخَرَجَ وَفْدُ جُرَشَ حَتَّى قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمُوا، وَحَمَى لَهُمْ حِمًى حَوْلَ قَرْیَتِهِمْ، عَلَى أَعْلَامٍ مَعْلُومَةٍ، لِلْفَرَسِ وَالرَّاحِلَةِ وَلِلْمُثِیرَةِ، بَقَرَةُ الْحَرْثِ، فَمَنْ رَعَاهُ مِنْ النَّاسِ فَمَا لَهُمْ سُحْتٌ

جب یہ دونوں  واپس اپنے وطن پہنچے تو انہیں  معلوم ہواکہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں  کے ذبح ہونے کی بات فرمائی تھی اسی دن مجاہدین نے اہل جرش پرحملہ کیا تھا ، جب مجاہدین اسلام نے پلٹ کراہل جرش پرتباہ کن حملہ کیا،اوران کے بہت سے لوگ مارے گئے تووہ پسپاہوکردوبارہ شہرپناہ میں  داخل ہوگئے،اب ان کے ہوش ٹھکانے لگ گئے اورانہیں  اسلام کی طرف رغبت ہوئی،چنانچہ انہوں  نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  ایک وفدروانہ کیااوراپنے اسلام قبول کرنے کی اطلاع پہنچائی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شہرکے آس پاس کی جگہ اونٹوں  گھوڑوں  کی چراگاہ مقررفرمائی اوردوسرے لوگوں  کے لیے اس میں  جانورچرانے سے ممانعت فرمائی۔ [7]

اس سلسلہ میں  اہل جرش کوایک تحریری فرمان عطافرمایاجس کامضمون یہ تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحَمْن الرَّحیمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ لأَهْلِ جَرْشٍ

أَنَّ لَهُمْ حِمَاهُمُ الَّذِی أَسْلَمُوا عَلَیْهِ، فَمَنْ رَعَاهُ بِغَیْرِ بِسَاطِ أَهْلِهِ فَمَالُهُ سُحْتٌ، وَإِنَّ زُهَیْرَ بْنَ الْحماطَةَ , فَإِنَّ ابْنَهُ الَّذِی كَانَ فِیخَثْعَمٍ فَأَمْسِكُوهُ فَإِنَّهُ عَلَیْهِم ضَامِنٌ

وَشَهِدَ عُمُرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَمُعَاوِیَةُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ

،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرہے محمدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل جرش کے حق میں

اسلام قبول کرتے وقت یہ جس محفوظ چراگاہ کے مالک تھے وہ انہی کی رہے گی،جس نے اپنے خاندان کی وسیع زمین کوچھوڑکراس محفوظ چراگاہ میں  اپنے مویشی چرائے اس کے مال مویشی لیناجائزہے(یعنی یہ ضبط کرلئے جائیں  گے)اورزہیربن الحماطہ اس کابیٹاقبیلہ خثعم میں  فرارہے اسے گرفتارکروکیونکہ وہ ان کاضامن ہے۔

کاتب معاویہ رضی اللہ عنہ       گواہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب ومعاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان۔[8]

ابن الاثیر رحمہ اللہ نے نومسلم اہل جرش کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کاذکرکرتے ہوئے لکھاہےحدیث میں  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جرش کے لئے ایک چراگاہ مخصوص فرمائی تھی اوران کے لئے اس بارے میں  ایک فرمان لکھاجس کے الفاظ یہ تھے،

فَمَنْ رَعَاهُ مِنَ النَّاسِ فَمَالُهُ سُحْتٌ

لوگوں  میں  سے (اہل جرش کے علاوہ)جس نے بھی اپنے مویشی اس چراہ گاہ میں  چرائے اس کامال ہدر ہے(یعنی اس کے مویشی ضبط کرلئے جائیں  گے)۔[9]

اہل جرش نے معاہدہ کیاان کی جائدادانہی کی رہے گی ،آئندہ مسلمان مسافروں  کی گزرتے وقت یہ مہمان نوازی کیاکریں  گے ،نیزیہاں  کے اہل کتاب یہودوغیرہ پرجزیہ بھی لگایا گیااورابوسفیان رضی اللہ عنہ کویہاں  کاگورنرمقررکرکے بھیجاگیا۔[10]

سریہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عوسجہ  صفرنوہجری

كَانَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بعثه بكتابه إِلَى بنی حارثة بْن عَمْرو بْن قریط، یدعوهم إِلَى الْإِسْلَام، فأخذوا الصحیفة فغسلوها، فرقعوا بها أسفل دلوهم، وَأَبُو أن یجیبوا رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أذهب الله عقولهم فهم أهل سفة، وكلام مختلط

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر۹ہجری کو عبداللہ بن عوسجہ رضی اللہ عنہ کودعوت اسلام کاایک دعوت نامہ دے کربنی عمروبن حارثہ کی طرف روانہ فرمایا،مگران لوگوں  نے دعوت اسلام کوقبول کرنے سے انکارکردیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت نامہ کودھوکرڈول کی تلی میں  باندھ دیا،عبداللہ بن عوسجہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکررسول اللہ کویہ ساراواقع بیان کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاان لوگوں  کی عقل جاتی رہے ؟اس وقت سے اس وقت تک اس قبیلہ کے لوگ احمق اورنادان ہیں  ،فاترالعقل اورگونگے ہیں  ۔أَعَاذَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مِنْ ذلک ،أَمِین ۔[11]

وفدازدعمان:

قبیلہ ازدکی جوشاخ عمان میں  آبادہوئی وہ ازدعمان کہلائی،

قالوا: أسلم أهل عمان فَبَعَثَ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العلاء بن الحضرمی لیعلمهم شرائع الإسلام ویصدق أموالهم،فخرج وفدهم إلى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فیهم أسد بن یبرح الطاحی. فلقوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فسألوه أن یبعث معهم رجلا یقیم أمرهم،فقال مخربة العبدی.واسمه مدرك بن خوط: ابعثنی ألیهم. فإن لهم علی منة. أسرونی یوم جنوب فمنوا علی، فوجهه معهم إلى عمان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازدکے لوگوں  کوجوعمان پرطویل مدت تک بڑی شان وشوکت سے حکومت کر چکے تھے دعوت اسلام دی جسے انہوں  نے قبول کرلیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے قبول اسلام کی اطلاع ملی توآپ نے علاء رضی اللہ عنہ بن عبداللہ حضرمی کواہل عمان کواسلامی احکامات کی تعلیمات اورصدقات کی وصولی پرمامورفرمایاکچھ مدت کے بعدازدعمان کاایک وفدآپ کی خدمت اقدس میں  حاضر ہوا، اس وفدمیں  اس قبیلہ کے ایک سرکردہ شخص اسد رضی اللہ عنہ بن یبرح الطاحی بھی تھے،انہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ ہمارے ساتھ کسی ایسے شخص کوبھیجیں  جوہم میں  صحیح دینی شعور اور احکام اسلام کا پابندبنائے،اس موقعہ پرمخربہ العبدی جب کانام مدرک رضی اللہ عنہ بن خو ط تھابھی موجودتھے،انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے ان کے ہاں  بھیجیں  کیونکہ ان لوگوں  کامیرے اوپرایک احسان ہے، انہوں  نے مجھے جنوب کی جنگ میں  گرفتارکرلیاتھاپھرمجھ پراحسان کیا(یعنی بغیرکسی معاوضہ کے رہاکردیاتھا،اس طرح وہ ان کی اصلاح وتبلیغ کے ذریعہ احسان کا بدلہ چکاناچاہتے تھے )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست قبول فرمالی اورانہیں  ازدعمان کے وفدکے ساتھ عمان بھیج دیا۔

وقدم بعضهم سلمة بن عیاذ الأزدی فی ناس من قومه فَسَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عما یعبد وما یدعو إلیه،فأخبره رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فقال:ادْعُ اللهَ أَنْ یَجْمَعَ كَلِمَتَنَا وَأُلْفَتَنَا، فَدَعَا لَهُمْ، وَأَسْلَمَ سَلَمَةُ وَمَنْ مَعَهُ

ان کے بعدسلمہ رضی اللہ عنہ بن عیاذ ازدی ایک وفد کے ساتھ بارگاہ نبوی میں  حاضرہوئے ،انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ آپ کس کی عبادت کرتے ہیں  اورکس کی طرف دعوت دیتے ہیں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےسوالوں  کاجواب دیا، تو انہوں  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اللہ سے دعافرمائیں  کہ وہ ہمیں  متحدکردے اور ہم میں  باہم الفت پیدا کر دے،آپ نے ان کے لئے دعافرمائی ،اورسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے دوسرے اراکین وفدکے ساتھ مسلمان ہوگئے۔ [12]

سریہ ضحاک رضی اللہ عنہ بن سفیان کلابی (بنوکلاب کی طرف) ربیع الاول نو ہجری

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَیْشًا إِلَى بَنِی كِلَابٍ، وَعَلَیْهِمُ الضحاك بن سفیان بن عوف الطائی، وَمَعَهُ الأصید بن سلمة، فَلَقُوهُمْ بِالزَّجِّ زَجِّ لَاوَةَ، فَدَعَوْهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَأَبَوْا فَقَاتَلُوهُمْ فَهَزَمُوهُمْ، فَلَحِقَ الأصید أَبَاهُ سلمة، وسلمة عَلَى فَرَسٍ لَهُ فِی غَدِیرٍ بِالزَّجِّ، فَدَعَاهُ إِلَى الْإِسْلَامِ وَأَعْطَاهُ الْأَمَانَ، فَسَبَّهُ وَسَبَّ دِینَهُ، فَضَرَبَ الأصید عُرْقُوبَیْ فَرَسِ أَبِیهِ، فَلَمَّا وَقَعَ الْفَرَسُ عَلَى عُرْقُوبَیْهِ ارْتَكَزَ سلمة عَلَى الرُّمْحِ فِی الْمَاءِ ، ثُمَّ اسْتَمْسَكَ حَتَّى جَاءَ أَحَدُهُمْ فَقَتَلَهُ وَلَمْ یَقْتُلْهُ ابْنُهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول نوہجری میں  ضحاک بن سفیان بن عوف طائی رضی اللہ عنہ جن کی کنیت ابوسعیدتھی،یہ مدینہ کے نواح میں  رہتے تھے اور بڑے دلیراوربہادرلوگوں  میں  سے تھے کو بنو کلاب کی شاخ قرطاء کی طرف دعوت اسلام دینے کے لئے روانہ کیا ان کے ساتھ اصیدبن سلمہ بن قرط رضی اللہ عنہ بھی تھے،مقام زج لاوہ پر دشمن سے آمناسامناہوا

(زجّ لاوة موضع نجدیّ،بزجّ بناحیة ضریة

زج لاوہ نجدکاایک مقام ہے،نیززج ضریہ کے نواح میں  ایک تالاب کانام ہے۔[13]

امیردستہ ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں  دعوت اسلام پیش کی مگرانہوں  نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیااورمقابلہ کے لئے تیارہوگئے،بالآخر لڑائی شروع ہوگئی اورخوب لڑائی ہوئی اور مجاہدین اسلام نے دشمن کوشکست فاش دی،اسی دوران اصید رضی اللہ عنہ کااپنے باپ سلمہ سے آمنا سامنا ہوا جوگھوڑے پرسوارتھاانہوں  رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کودعوت اسلام پیش کی اوراسے امن دینے کاوعدہ کیا، مگران کے والدنے اسلام قبول کرنے کے بجائے اصید اوردین اسلام کوگالیاں  دیں  ،اصید رضی اللہ عنہ نے غصہ سے اپنے باپ کے گھوڑے کی کونچوں  پر تلوارماری جس سے گھوڑااپنے سوارسمیت زمین پرگرگیا،توان کاوالداپنانیزہ گاڑکراس کے سہارے پانی میں  کھڑا ہوگیایہاں  تک کہ ایک مجاہدنے اسے قتل کردیا، اصید رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کے قتل سے اجتناب کیااورمجاہدین مظفرومنصورہوکرمال غنیمت لے کرواپس مدینہ منورہ آگئے۔[14]

سریہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب (بنوطے کی طرف) ربیع الاول نو ہجری

قبیلہ طے کے دوسرے بڑے سردارمشہورسخی حاتم طائی کے بیٹے عدی تھے ،ان کے قبیلے نے مدت سے عیسائیت قبول کرلی تھی اوروہ عیسائیوں  کے فرقہ رکوی میں  شامل ہوگیاتھا

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فِی خَمْسِینَ وَمِائَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ عَلَى مِائَةِ بَعِیرٍ وَخَمْسِینَ فَرَسًا، وَمَعَهُ رَایَةٌ سَوْدَاءُ وَلِوَاءٌ أَبْیَضُ، إِلَى الْفُلْسِ لِیَهْدِمُوهُ وَمَعَهُ رَایَةٌ سَوْدَاءُ وَلِوَاءٌ أَبْیَضُ،فَشَنُّوا الْغَارَةَ عَلَى مَحِلَّةِ آلِ حَاتِمٍ مَعَ الْفَجْرِ، فَهَدَمُوا الْفُلْسَ وَحَرَّقُوهُ، وملأوا أَیْدِیَهُمْ مِنَ السَّبْیِ وَالنَّعَمِ وَالشَّاءِ، وَفِی السَّبْیِ أُخْتُ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَهَرَبَ عَدِیٌّ إِلَى الشَّامِ، وَوَجَدُوا فِی خِزَانَةِ الْفُلْسِ ثَلاثَةَ أَسْیَافٍ رسوب، والمخدم، وَسَیْفٍ یُقَالُ لَهُ الْیَمَانِیُّ، وَثَلاثَةَ أَدْرَاعٍ رَسُوبً،الْمِخْذَمَ السّیْفُ

نوہجری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوجن کی کنیت ابوالحسن وابوتراب اورلقب حیدرتھاانصارکے ایک سوپچاس مجاہدین کے دستہ کاامیرمقررفرماکربنوطے کافلس نامی بت توڑنے اوران میں  تبلیغ اسلام کے لئے روانہ فرمایا،مجاہدین کے پاس ایک سو اونٹ اورپچاس گھوڑے تھے، سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے پاس ایک بڑاسیاہ اورایک چھوٹا سفیدجھنڈاتھا، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے صبح ہوتے ہی آل حاتم کے محلہ پرحملہ کردیااوران کے معبودفلس کومنہدم کرکے جلادیا ،مجاہدین کوقیدیوں  ، مویشیوں  ،بکریوں  اورچاندی کی ایک معقول مقدارہاتھ آئی ،ان قیدیوں  میں  عدی بن حاتم کی بہن بھی تھی مگرعدی بھاگ کر شام چلے گئے،مجاہدین اسلام کوفلس کے خزانہ سے تین تلواریں  اسیاف، رسوب،اورمخدم ملیں  جوحارث بن شمرنے چڑھائی تھیں  اورتین زرہیں  دستیاب ہوئیں  ،

فَاسْتُعْمِلَ عَلَیْهِمْ أَبُو قَتَادَةَ، وَاسْتُعْمِلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَتِیكٍ السّلَمِیّ عَلَى الْمَاشِیَةِ وَالرّثّة،ثُمّ سَارُوا حَتّى نَزَلُوا رَكَكَ فَاقْتَسَمُوا السّبْیَ وَالْغَنَائِمَ، وَعَزَلَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَفِیّا رَسُوبًا وَالْمِخْذَمَ، ثُمّ صَارَ لَهُ بَعْدُ السّیْفُ الْآخَرُ، وَعَزَلَ الْخُمُسَ، وَعَزَلَ آلَ حَاتِمٍ ، فَلَمْ یَقْسِمْهُمْ حَتّى قَدِمَ بِهِمْ الْمَدِینَةَ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قیدیوں  پرابوقتادہ رضی اللہ عنہ اورمویشیوں  اورسونے چاندی پرعبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کونگراں  مقررکیا،راستہ میں  مقام رکک پرپہنچے توباہم غنیمت تقسیم کی،مال غنیمت میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ کی رسوب اورمخذم تلواریں  علیحدہ کردی گئیں  ،بعدمیں  آپ کوسیف بھی پیش کردی گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپانچواں  حصہ صفی نکال کر الگ کرلیااورآل حاتم کوتقسیم کیے بغیرمدینہ لے آئے۔[15]

 وفد قبیلہ بلی:

یہ قحطانی قبیلہ قضاعہ کاایک بطن تھا،اوران کی بستیاں  مدینہ اوروادی القریٰ (العلا)کے مابین اورنبک عینونا(بحیرہ احمرکیء ساحل پر)تبوک،جبال شراة،معان (اردن)اورایلہ تک پھیلی ہوئی تھیں  ،امج اورغران کی وادیوں  میں  بھی بلی آبادتھے ،یہ دونوں  ندیاں  حرہ بنی سلیم سے نکل کرسمندرمیں  گرتی ہیں  ،ابن خلدون کے بقول بلی صعیدمصر،نوبیہ اورحبشہ کے علاقوں  میں  بھی پھیل گئے تھے،ظہوراسلام سے پہلے ہندکے گرم مسالوں  وغیرہ کی تجارت انہی کے ذریعہ ہوتی تھی،غزوہ موتہ میں  یہ قبیلہ ہرقل کے جھنڈے کے نیچے تھا ۔

وَقَدِمَ عَلَیْهِ وَفْدُ بَلِیٍّ فِی رَبِیعٍ الْأَوَّلِ مِنْ سَنَةِ تِسْعٍ، فَأَنْزَلَهُمْ رویفع بن ثابت البلوی عِنْدَهُ وَقَدِمَ بِهِمْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: هَؤُلَاءِ قَوْمِی،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَرْحَبًا بِكَ وَبِقَوْمِكَ ، فَأَسْلَمُوا

اس قبیلہ کا وفدربیع الاول نوہجری میں  بارگاہ رسالت میں  حاضرہوارویفع بن ثابت بلوی نے انہیں  اپنے ہاں  ٹھیرایا، پھروہی ان لوگوں  کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  لے کرحاضرہوئے اورعرض کیایہ میری قوم کے لوگ ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھے اورتیری قوم کوہم خوش آمدیدکہتے ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے محاسن اسلام بیان فرمائے جسے سن کرتمام اراکین وفدحلقہ بگوش اسلام ہوگئے اورآپ کے دست مبارک پربیعت کی ۔

وَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَاكُمْ لِلْإِسْلَامِ، فَكُلُّ مَنْ مَاتَ عَلَى غَیْرِ الْإِسْلَامِ فَهُوَ فِی النَّارِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  فرمایاہرطرح کی حمدوثنااس ذات کے لیے ہےجس نے تمہیں  اسلام کی ہدایت عطافرمائی جوشخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین پرمرے گاوہ جہنم میں  جائے گا۔

فَقَالَ لَهُ أبو الضبیب شَیْخُ الْوَفْدِ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِی رَغْبَةً فِی الضِّیَافَةِ، فَهَلْ لِی فِی ذَلِكَ أَجْرٌ؟قَالَ: نَعَمْ، وَكُلُّ مَعْرُوفٍ صَنَعْتَهُ إِلَى غَنِیٍّ أَوْ فَقِیرٍ فَهُوَ صَدَقَةٌ، قَالَ یَا رَسُولَ اللهِ: مَا وَقْتُ الضِّیَافَةِ؟قَالَ: ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ، فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ،فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلَا یَحِلُّ لِلضَّیْفِ أَنْ یُقِیمَ عِنْدَكَ فَیُحْرِجَكَ

وفدکے قائدبوڑھاآدمی ابوالضبیب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے مہمانی کابڑاشوق ہے کیااس میں  میرے لئے کوئی اجرہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  ،اس میں  بھی اجرہے ، امیریافقیرجس پربھی تواحسان کرے گا وہ صدقہ ہے، اس نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کسی مہمان کی کتنے دن تک ضیافت کی جاسکتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامہمانی تین دن ہے، اس نے عرض کیااس کے بعدکیاہے ؟فرمایاپھرخیرات ہے،مہمان کے لئے جائزنہیں  کہ اس سے زیادہ مدت تک تمہارے پاس ٹھیرارہے اور میزبان کوتنگی میں  ڈالے،

قَالَ یَا رَسُولَ اللهِ: أَرَأَیْتَ الضَّالَّةَ مِنَ الْغَنَمِ أَجِدُهَا فِی الْفَلَاةِ مِنَ الْأَرْضِ؟قَالَ: هِیَ لَكَ أَوْ لِأَخِیكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: فَالْبَعِیرَ؟قَالَ: مَا لَكَ وَلَهُ؟ادَعْهُ حَتَّى یَجِدَهُ صَاحِبُهُ

اس نے پھر پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کسی نا معلوم شخص کی گمشدہ بکری مل جائے تواس بارے میں  کیاکیاجائے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاوہ تمہارے لئے ہے یاتمہارے بھائی کے لئے ہے یاپھربھیڑیئے کے لئے ہے،اس نے اسی سے ملتاجلتاسوال کیا گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا کیا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاتمہیں  اس سے کیاواسطہ ؟اسے چھوڑدویہاں  تک کہ اسکامالک اسے پالے ،

قَالَ رویفع: ثُمَّ قَامُوا فَرَجَعُوا إِلَى مَنْزِلِی، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْتِی مَنْزِلِی یَحْمِلُ تَمْرًا فَقَالَ:اسْتَعِنْ بِهَذَا التَّمْرِ ، وَكَانُوا یَأْكُلُونَ مِنْهُ وَمِنْ غَیْرِهِ، فَأَقَامُوا ثَلَاثًا، ثُمَّ وَدَّعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَجَازَهُمْ وَرَجَعُوا إِلَى بِلَادِهِمْ

رویفع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  پھریہ لوگ کھڑے ہوگئے اورمیرے گھرواپس آگئے، فرماتے ہیں  اچانک میں  نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے کھجوروں  کاایک بوجھ خود اٹھا کر لا رہے ہیں  ، اور فرمایاان کھجوروں  سے ان کی دعوت کرنے کی سکت پیداکرو،وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخلق عظیم دیکھ کرششدررہ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوتین دن مہمان رکھااورپھرہرایک کوانعام واکرام دے کررخصت کیااوروہ اپنے علاقہ کی طرف لوٹ گئے۔[16]

وفدبنی عقیل بن کعب:

یہ قبیلہ ہوزان کے بطن عامربن صعصعہ کی ایک شاخ تھا۔

 وَفَدَ مِنَّا مِنْ بَنِی عَقِیلٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبِیعُ بْنُ مُعَاوِیَةَ بْنِ خَفَاجَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَقِیلٍ. وَمُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الأَعْلَمِ بْنِ عَمْرِو بْنِ ربیعة عَقِیلٍ. وَأَنَسُ بْنُ قَیْسِ بْنِ الْمُنْتَفِقِ بْنِ عَامِرِ بْنِ عَقِیلٍ. فَبَایِعُوا وَأَسْلَمُوا وَبَایَعُوهُ عَلَى مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ ، فَأَعْطَاهُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – الْعَقِیقَ عَقِیقَ بَنِی عَقِیلٍ. وَهِیَ أَرْضٌ فِیهَا عُیُونٌ وَنَخْلٌ

فتح مکہ کے بعدبنوعقیل بن کعب سے ربیع بن معاویہ ،مطرف رضی اللہ عنہ بن عبداللہ اورانس رضی اللہ عنہ بن قیس پرمشتمل تین رکنی وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکراسلام قبول کرلیااورآپ کے دست مبارک پراپنی اوراپنے قبیلے کے پیچھے رہ جانے والے لوگوں  کی طرف سے بیعت کی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  (مقام) عقیق بن عقیل عطا فرمایا یہ ایک زمین تھی جس میں  کھجورکے درخت اورپانی کے چشمے تھے،اوران کے لئے سرخ چمڑے پرایک دستاویزلکھوائی جس کامتن یہ تھا۔

بِسْمِ الله ِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هَذَا مَا أَعْطَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ صلّى الله علیه وسلم رَبِیعًا وَمُطَرَّفًا وَأَنَسًا أَعْطَاهُمُ الْعَقِیقَ مَا أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَسَمِعُوا وَأَطَاعُوا وَلَمْ یُعْطِهِمْ حَقًّا لِمُسْلِمٍ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ اللہ کے رسول محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے ربیع،مطرف اورانس کوعقیق عطاکیاہے،جب تک وہ نمازقائم کریں  ،زکوٰة اداکریں  اورسمع واطاعت کریں  اورانہیں  کسی مسلمان کاحق نہیں  دیا۔

فَكَانَ الْكِتَابُ فِی یَدِ مُطَرِّفٍ

یہ دستاویز مطرف رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کے پاس تھی۔[17]

وفدبنی رؤاس :

قبیلہ رؤاس ،بنوہوزان کے بطن عامربن صعصعہ کی ایک شاخ تھا۔

قَدِمَ رَجُلٌ مِنَّا یُقَالُ لَهُ عَمْرُو بْنُ مَالِكِ بْنِ قَیْسِ بْنِ بُجَیْدِ بْنُ رُؤَاسِ بْنِ كِلابِ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ -فَأَسْلَمَ ثُمَّ أَتَى قَوْمَهُ فَدَعَاهُمْ إِلَى الإِسْلامِ،فَقَالُوا: حَتَّى نُصِیبَ مِنْ بَنِی عَقِیلِ بْنِ كَعْبٍ مِثْلَ مَا أَصَابُوا مِنَّا،فَخَرَجُوا یُرِیدُونَهُمْ. وَخَرَجَ مَعَهُمْ عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ فَأَصَابُوا فِیهِمْ ثُمَّ خَرَجُوا یَسُوقُونَ النَّعَمَ، فَأَدْرَكَهُمْ فَارِسٌ مِنْ بَنِی عَقِیلٍ یُقَالُ لَهُ رَبِیعَةُ بْنُ الْمُنْتَفِقِ بْنِ عَامِرِ بْنِ عَقِیلٍ وَهُوَ یَقُولُ:

عمرو رضی اللہ عنہ بن مالک جوقبیلہ رؤاس سے تعلق رکھتے تھے(ایک روایت کے مطابق اپنے والدکے ہمراہ)بارگاہ رسالت میں  حاضرہوکراسلام قبول کرلیاپھر اپنے قبیلہ میں  واپس لوٹ کرانہوں  نے اپنی قوم کے لوگوں  کوبھی دعوت اسلام پیش کی ،اس دعوت کے جواب میں  بنورؤاس نے عمرو رضی اللہ عنہ بن مالک سے کہاجب ہم بنی عقیل بن کعب کواتنانقصان پہنچالیں  گے جتناانہوں  نے ہمیں  پہنچایاہے توپھرہم تمہاری دعوت کوتسلیم کرلیں  گے،چنانچہ وہ عمرو رضی اللہ عنہ بن مالک کے ہمراہ ہوکربنوعقیل بن کعب پرحملہ آورہوئےاوران کے مویشی ہنکاتے ہوئے نکلے، بنی عقیل کے ایک سوارنے جس کانام ربیعہ بن منتفق بن عامربن عقیل تھاان کوپالیاوہ یہ شعرکہہ رہاتھا۔

أَقْسَمْتُ لا أَطْعَنُ إِلا فَارِسًا ،إِذَا الْكُمَاةُ لَبِسُوا الْقَوَانِسَا

میں  نے قسم کھائی ہے کہ سوائے سوارکے کسی کونیزہ نہ ماروں  گاجبکہ مسلم لوگ خودپہنیں

قَالَ أَبُو نُفَیْعٍ: فَقُلْتُ نَجَوْتُمْ یَا مَعْشَرَ الرَّجَّالَةِ سَائِرَ الْیَوْمِ. فَأَدْرَكَ الْعُقَیْلِیُّ رَجُلا مِنْ بَنِی عُبَیْدِ بْنِ رُؤَاسٍ. یُقَالُ لَهُ الْمُحْرِسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُبَیْدِ بْنِ رُؤَاسٍ. فَطَعَنَهُ فِی عَضُدِهِ فَاخْتَلَّهَا، فَاعْتَنَقَ الْمُحْرِسُ فَرَسَهُ وَقَالَ: یَا آلَ رُؤَاسٍ! فَقَالَ رَبِیعَةُ: رُؤَاسٌ خَیْلٌ أَوْ أُنَاسٌ؟فَعَطَفَ عَلَى رَبِیعَةَ عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ

ابونفیع بے کہااے پیادہ گروہ!آج کے دن توتم بچ گئے (کیونکہ تم پیادہ ہواوریہ سوارکے قتل کی قسم کھاتاہے)اسی عقیلی نے بنی عبیدبن رؤاس کے ایک شخص کوجس کانام محرس بن عبداللہ بن عمروبن عبیدبن رؤاس تھاپالیااوراس کے بازومیں  نیزہ ماکراسے بے کارکردیا،محرس اپنے گھوڑے کی گردن سے لپٹ گئے اورکہااے رؤاس والو! ربیعہ نے کہاکہ گھوڑوں  کے رؤاس کوپکارتے ہویاآدمیوں  کے؟عمروبن مالک ربیعہ کی طرف پلٹ پڑے اور نیزہ مارکراسے قتل کردیا،

قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا نَسُوقُ النَّعَمَ. وَأَقْبَلَ بَنُو عَقِیلٍ فِی طَلَبِنَا حَتَّى انْتَهَیْنَا إِلَى تُرَبَةَ. فَقَطَعَ مَا بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ وَادِی تُرَبَةَ. فَجَعَلَتْ بَنُو عَقِیلٍ یَنْظُرُونَ إِلَیْنَا وَلا یَصِلُونَ إِلَى شَیْءٍ ، فَمَضَیْنَا، قَالَ عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ: فَأَسْقَطَ فِی یَدَیَّ وَقُلْتُ قَتَلْتُ رَجُلا وَقَدْ أَسْلَمْتُ وَبَایَعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم

ابونفیع نے کہاکہ ہم لوگ مویشیوں  کوہنکاتے ہوئے نکلے بنی عقیل ہماری تلاش میں  آگئے یہاں  تک کہ ہم لوگ وادی تربہ پہنچ گئے ،وادی تربہ نے ہمارے اوران کے درمیان سلسلہ منقطع کردیا،بنی عقیل ہماری طرف دیکھ رہے تھے مگرکوئی چیزحاصل نہیں  کرسکتے تھے ،پھرہم لگاتارچل پڑے، عمرو رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں  میں  حیران تھاکہ میں  نے بنوعقیل کاایک آدمی قتل کردیاہےحالانکہ میں  نے اسلام قبول کیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پربیعت کی تھی ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواس واقعہ کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو رضی اللہ عنہ بن مالک کے اس فعل پرناراضگی کااظہارفرمایا،عمرو رضی اللہ عنہ بن مالک کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کاعلم ہوگیا،

فَشَدَدْتُ یَدِیَّ فِی غُلٍّ إِلَى عُنُقِی ثُمَّ خَرَجْتُ أُرِیدُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ بَلَغَهُ ذَلِكَ. فَقَالَ: لَئِنْ أَتَانِی لأَضْرِبَنَّ مَا فَوْقَ الْغُلِّ مِنْ یَدِهِ ،قَالَ: فَأَطْلَقْتُ یَدِیَّ ثُمَّ أَتَیْتُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ فَأَعْرَضَ عَنِّی ،فَأَتَیْتُهُ عَنْ یَمِینِهِ فَأَعْرَضَ عَنِّی. فَأَتَیْتُهُ عَنْ یَسَارِهِ فَأَعْرَضَ عَنِّی، فَأَتَیْتُهُ مِنْ قِبَلَ وَجْهِهِ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ الرَّبَّ لَیُتَرَضَّى فَیَرْضَى فَارْضَ عَنِّی. رَضِیَ اللهُ عَنْكَ، قَالَ: قَدْ رَضِیتُ عَنْكَ

چنانچہ انہوں  نے اپناہاتھ اپنی گردن کے طوق سے باندھ دیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ واقعہ معلوم ہواتوفرمایاکہ اگریہ (عمروبن مالک)میرے پاس آئیں  گے تومیں  طوق اوپرضرورماروں  گا،کہتے ہیں  میں  نے اپناہاتھ کھول دیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوکرسلام عرض کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف سے اعراض فرمایا، میں  داہنی طرف سے آیااورسلام کہامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ منہ پھیرلیااور جب میں  باہنی طرف سے آیا تو آپ نے اپنا چہرہ مبارک موڑ لیا،میں  بائیں  طرف سے آیااورعرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ بھی راضی ہوجاتاہے(یعنی خطاکاروں  کی خطاؤں  کومعاف فرما دیتاہے) آپ بھی مجھ سے راضی ہوجائیں  اللہ آپ سے راضی ہوگا،اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے اورفرمایامیں  تجھ سے راضی ہوگیاہوں  ۔[18]

وفدبنی جیشان:

جیشان عرب کاایک غیرمعروف قبیلہ تھا،بعض اہل سیرکے مطابق اس کاتعلق یمن سے تھابظاہریہی معلوم ہوتاہے کہ یہ قحطانی قبیلہ تھا۔

قَالَ: قَدِمَ أَبُو وَهْبٍ الْجَیْشَانِیُّ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَسَأَلُوهُ عَنْ أَشْرِبَةٍ تَكُونُ بِالْیَمَنِ،قَالَ: فَسَمُّوا لَهُ الْبِتْعَ مِنَ الْعَسَلِ وَالْمِزْرَ مِنَ الشَّعِیرِ،فقال رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تَسْكَرُونَ مِنْهَا؟قَالُوا: إِنْ أَكْثَرْنَا سَكِرْنَا،قَالَ: فَحَرَامٌ قَلِیلُ مَا أَسْكَرَ كَثِیرُهُ،وَسَأَلُوهُ عَنِ الرَّجُلِ یَتَّخِذُ الشَّرَابَ فَیَسْقِیهِ عُمَّالَهُ،فَقَالَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ

فتح مکہ کے بعد بنو جیشان کاایک وفدابووہب الجیشانی کی سرکردگی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہواانہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یمن میں  استعمال کی جانے والی دو شرابوں  کے بارے میں  دریافت کیاایک شراب شہدسے تیارکی جاتی تھی اور دوسری جوسے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیاکیاان کے پینے سے تمہیں  نشہ ہوتا ہے ؟انہوں  نے عرض کیا اگر زیادہ مقدارمیں  پیئیں  تونشہ ہوجاتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس چیزکے زیادہ مقدارنشہ لائے اس کی قلیل مقداربھی حرام ہے،پھراہل وفدنے سوال کیااس شخص کے بارے میں  آپ کاکیاارشادہے جوشراب بناتااوراپنے کارندوں  کو پلاتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنشہ آورچیزحرام ہے،اس وفدکے بارے میں  اس سے زیادہ معلومات نہیں  ملتیں  ۔[19]

 وفدبنی تغلب:

یہ ایک بڑاعدنانی قبیلہ تھا،اورجزیرة العرب کے شمال مشرق میں  اس تجارتی راستے پرآبادتھاجوعرب سے عراق کوجاتاہے ،اس قبیلے نے نصرانیت قبول کرلی تھی ، اس کی بعض شاخیں  عراق میں  بخارااورنصیبین کے نواح میں  آبادتھیں  ۔

قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ علیه وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِی تَغْلِبَ سِتَّةَ عَشَرَ رَجُلا مُسْلِمِینَ وَنَصَارَى عَلَیْهِمْ صُلُبُ الذَّهَبِ،فَنَزَلُوا دَارَ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ،فَصَالَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّصَارَى عَلَى أَنْ یُقِرَّهُمْ عَلَى دِینِهِمْ عَلَى أَنْ لا یُصْبِغُوا أَوْلادَهُمْ فِی النَّصْرَانِیَّةِ، وَأَجَازَ الْمُسْلِمِینَ مِنْهُمْ بِجَوَائِزِهِمْ

فتح مکہ کے بعدبنوتغلب کاایک سولہ رکنی وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،وفدکے اراکین میں  سے کچھ لوگ پہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھے،جبکہ کچھ نصاریٰ (عیسائی)تھے جنہوں  نے اپنے سینوں  پرطلائی صلیبیں  سجارکھی تھیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفد کورملہ رضی اللہ عنہا بنت حارث کے گھرٹھہرایا،وفدکے مسلمان اراکین نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کوشرف حاصل کیااوردین اسلام کے احکامات سیکھےلیکن نصاریٰ بددستوراپنے دین پرقائم رہے اورصرف صلح کی درخواست کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس شرط پرصلح کرلی کہ وہ اپنی اولادکونصرانیت کے رنگ میں  نہیں  رنگیں  گے،جب یہ وفدواپس جانے لگاتو سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفدکے مسلمان اراکین کوعطیات سے نوازا۔[20]

وفدبنی کلاب:

بنوکلاب کانام متعددعدنانی قبائل کے لئے بولاجاتاہے،بنوکلاب کے جولوگ حاضرخدمت ہوئے تھے وہ کلاب بن ربیعہ بن عامربن صعصعہ کی اولادسے تھے یہ قبیلہ بنوہوزان کاایک بطن تھا۔

قَدِمَ وَفْدُ بَنِی كِلابٍ فِی سَنَةِ تِسْعٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ ثَلاثَةَ عَشَرَ رَجُلا فِیهِمْ لَبِیدُ بْنُ رَبِیعَةَ. وَجَبَّارُ بْنُ سَلْمَى، فَأَنْزَلَهُمْ دَارَ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ،وَكَانَ بَیْنَ جَبَّارٍ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ خُلَّةٌ. فَبَلَغَ كَعْبًا قُدُومُهُمْ فَرَحَّبَ بِهِمْ وَأَهْدَى لِجَبَّارٍ وَأَكْرَمَهُ ، وَخَرَجُوا مَعَ كعب فدخلوا على رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. فَسَلَّمُوا عَلَیْهِ بِسَلامِ الإِسْلامِ وَقَالُوا: إِنَّ الضَّحَّاكَ بْنَ سُفْیَانَ سَارَ فِینَا بِكِتَابِ اللهِ وَبِسُنَّتِكَ الَّتِی أَمَرْتَهُ. وَإِنَّهُ دَعَانَا إِلَى اللهِ فَاسْتَجَبْنَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ. وَإِنَّهُ أَخَذَ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِیَائِنَا فَرَدَّهَا عَلَى فُقَرَائِنَا

نوہجری میں  بنوکلاب کاایک تیرہ رکنی وفدآپ کی خدمت میں  حاضرہوا،اراکین وفدمیں  جبار رضی اللہ عنہ بن سلمیٰ اورعرب کے نامورشاعرلبید رضی اللہ عنہ بن ربیعہ بھی شامل تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفدکورملہ بنت حارث کے گھرپرٹھیرایا،جباربن سلمیٰ اوراورانصارکے مشہورشاعرکعب بن مالک میں  دوستی تھی جب کعب کوان لوگوں  کے آنے کے بارے میں  معلوم ہواتوانہوں  نے ان لوگوں  کوخوش آمدیدکہاجبارکوہدیہ دیااوران کی خوب خاطرتواضع کی، یہ لوگ کعب کے ہمراہ نکلے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  پہنچےاور اسلامی طریقے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کیااورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کی طرف سے ضحاک بن سفیان ہمارے پاس اللہ کی کتاب اورآپ کی وہ سنت لے کرپہنچے جس کاآپ نے انہیں  حکم دیاہے،انہوں  نے ہمیں  دین حق کی دعوت دی چنانچہ ہم نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کوقبول کرلیا،ضحاک بن سفیان نے ہمارے اغنیاء سے صدقہ وصول کیااوراسے ہمارے فقراء ومساکین پرتقسیم کردیا۔[21]

سریہ علقمہ رضی اللہ عنہ بن مجززمدلجی (جدہ کی طرف) ربیع الآخر نو ہجری(جولائی۶۳۰ء)

فَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ نَاسًا مِنَ الْحَبَشَةِ تَرَایَاهُمْ أَهْلُ جَدَّةَ، فَبَعَثَ إِلَیْهِمْ علقمة بن مجزز فِی ثَلَاثِمِائَةٍ، فَانْتَهَى إِلَى جَزِیرَةٍ فِی الْبَحْرِ وَقَدْ خَاضَ إِلَیْهِمُ الْبَحْرَ فَهَرَبُوا مِنْهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ملی کہ حبشہ کے کچھ آدمیوں  کواہل جدہ نے مسلمانوں  کے خلاف اپناہم نوا بنا لیا ہے، اور وہ ایک جزیرہ میں  جمع ہوکراہل مکہ کے خلاف ڈاکہ زنی کرناچاہتے ہیں  ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول نوہجری کو علقمہ بن مجرزمدلجی رضی اللہ عنہ کوتین سومجاہدین پر امیر مقرر فرما کران کے مقابلے کے لئے ساحل جدہ کی طرف روانہ کیا، علقمہ رضی اللہ عنہ نے بحیرہ قلزم کے اس جزیرے کی طرف پیش قدمی کی مگرجیسے ہی حبشیوں  کومجاہدین کے آنے کی خبرہوئی تو وہ وہاں  سے فرارہوگئے۔[22]

فَلَمَّا رَجَعَ تَعَجَّلَ بَعْضُ الْقَوْمِ إِلَى أَهْلِهِمْ فَأَمَّرَ وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْهِمْ عَبْدَ اللهِ ابْنَ حُذَافَةَ السَّهْمِیَّ،فَغَضِبَ، فَقَالَ: أَلَیْسَ أَمَرَكُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِیعُونِی؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَاجْمَعُوا لِی حَطَبًافَجَمَعُوا،فَقَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا، فَأَوْقَدُوهَا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا ،فَهَمُّوا وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ یُمْسِكُ بَعْضًا، وَیَقُولُونَ: فَرَرْنَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ، فَمَا زَالُوا حَتَّى خَمَدَتِ النَّارُ، فَسَكَنَ غَضَبُهُ،فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ،الطَّاعَةُ فِی المَعْرُوفِ

مقابلہ سے واپسی پر کچھ مسلمانوں  نے اپنے اہل وعیال میں  جلدواپس ہوناچاہا، علقمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں  اجازت دے دی اور عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کوان پر امیر مقررکردیا،راستے میں  کسی بات پر امیر دستہ کوغصہ آگیا،عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں  سے کہاکیاتم پرمیری اطاعت لازم نہیں  ہے،سب مجاہدین نے کہابیشک آپ کی اطاعت ہم پرلازم ہے،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر لکڑیاں  جمع کرو،لوگوں  نے لکڑیاں  جمع کردیں  ،پھرامیردستہ نے کہاآگ جلاؤ،انہوں  نے آگ جلادی،پھرامیردستہ نے کہااس آگ میں  چھلانگ لگادو،اس حکم پربعض لوگ آگ کے گردجمع ہوگئے(اوربعض نے تعمیل سے انکارکردیابلکہ وہ دوسروں  کوبھی)تعمیل سے روکتے رہے،انہوں  نے کہاہم آگ ہی سے توبھاگ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں  (اوراب خودکشی کرکے کیوں  دوزخ کی آگ میں  چلے جائیں  )اس بحث وتمحیص میں  آگ ٹھنڈی ہوگئی اورامیرلشکرکاغصہ بھی ٹھنڈاہوگیا،جب یہ خبرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی توآپ نے فرمایااگرتم آگ میں  داخل ہوجاتے توقیامت تک اس میں  سے نہ نکلتے،پھرآپ نے ان لوگوں  کی تعریف کی جنہوں  نے آگ میں  داخل ہونے سے انکارکردیاتھا،اس کے بعدفرمایااطاعت توصرف معروف کاموں  میں  ہے ،اللہ کی نافرمانی میں  کسی کی اطاعت جائزنہیں  ۔[23]

سریہ عکاشہ رضی اللہ عنہ بن محصن اسدی (جناب کی طرف) ربیع الآخر نو ہجری(جولائی۶۳۰ء)

سریة عُكّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ الْأَسَدِیَّ إِلَى الْجِبَابِ أَرْضُ عَذَرَةَ وَبَلَى

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کوعذرہ(قحطانی قبیلہ کی ایک شاخ)اوربلی(یہ قحطانی قبیلہ بھی قضاعہ کی ایک شاخ ہے)کی طرف روانہ فرمایاجوکے آس پاس رہتے تھے،چنانچہ عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے ان کی سرکوبی کی۔[24]

کعب رضی اللہ عنہ بن زہیربن ابی سلمی مزنی کااسلام قبول کرنا

کعب رضی اللہ عنہ بن زہیراوران کے بھائی بجیر رضی اللہ عنہ بن زہیردونوں  بڑے فاضل شعراء میں  سے تھے ،جس زمانے میں  ان دونوں  بھائیوں  کی شاعری کی شہرت نجدسے نکل کرعرب کے دوردرازگوشوں  تک جاپہنچی تھی ،اسلام کی نورہدایت نے بھی عرب کے گوشے گوشے کومنورکرناشروع کردیاتھا،کعب رضی اللہ عنہ اور بجیر رضی اللہ عنہ کے کانوں  تک بھی دعوت توحیدکی آوازپہنچی مگروہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے، بلکہ کعب رضی اللہ عنہ نے اسلام کی پرزورمخالفت کی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجومیں  اشعار کہے ، ذلقیعدہ ۶ہجری صلح حدیبیہ کے کچھ عرصہ بعدکعب رضی اللہ عنہ اوربجیرہ رضی اللہ عنہ اپنے وطن سے نکل کرمقام ابرق العزاف میں  آئے(یاقوت حموی کابیان ہے کہ ابرق العزاف بنی اسدبن خزیمہ کاایک مشہور چشمہ اورپانی کاگھاٹ تھا،یہ مقام بصرہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے راستے میں  آتاہے)یہاں  بجیر رضی اللہ عنہ نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہاتم یہیں  ٹھہرے رہواوراپنی بھیڑبکریوں  کی نگرانی کرو میں  مدینہ منورہ جاکرقریش کے اس شخص سے دریافت کرتاہوں  کہ وہ کس چیزکی دعوت دیتے ہیں  ،چنانچہ بجیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پہنچے اوراسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر بلاتامل مشرف بہ اسلام ہو گئے ،اورمدینہ طیبہ میں  ہی سکونت اختیارکرلی اورکعب کواپنے قبول اسلام کی اطلاع دی، اورانہیں  بھی دین حق قبول کرنے کامشورہ دیا،لیکن کعب نے اسلام قبول کرنے کے بجائے کچھ اورہجویہ اشعارکہہ ڈالے۔

مَنْ مُبْلِغٌ عَنِّی بُجَیْرًا رِسَالَةً ،عَلَى أَیِّ شَیْءٍ وَیْبَ غَیْرِكَ دَلَّكَا

بجیرکومیرایہ پیغام کون پہنچائے گا آخرکس چیزنے تمہیں  غیروں  کی تباہی وہلاکت اپنے سرلینے پرمجبورکیا۔

عَلَى خُلُقٍ لَمْ تُلْفِ أُمًّا وَلَا أَبًا ،عَلَیْهِ وَلَمْ تُدْرِكْ عَلَیْهِ أَخًا لَكَا

تم نے وہ وطیرہ اختیارکرلیاجونہ تیرے ماں  باپ کاتھااورنہ تمہارے بھائی نے اسے اختیارکیا۔

سَقَاكَ بِهَا الْمَأْمُونُ كَأْسًا رَوِیَّةً،فَأَنْهَلَكَ الْمَأْمُونُ مِنْهَا وَعَلَّكَا

مامون نے تمہیں  کوئی(نشے کا)بھرپورپیالہ پلادیاہے اورمامون نے توتمہیں  اس پیالے سے خوب سیراب کیاہے۔[25]

بجیر رضی اللہ عنہ نے جواب میں  اپنے بھائی کعب کویہ اشعارلکھے۔

مَنْ مُبْلِغٌ كَعْبًا فَهَلْ لَكَ فِی الَّتِی، تَلُومُ عَلَیْهَا بَاطِلًا وَهْیَ أَحْزَمُ

کون شخص جاکرکعب کومیرایہ پیغام پہنچائے گااوراس سے پوچھے گاکہ جس دین کی تم مذمت کرتے ہواس میں  آخرکون سی بات غلط ہے ،وہ دین توسراسربھلائی ہے

إلَى اللهِ (لَا الْعُزَّى وَلَا اللاتِ) وَحْدَهُ ، فَتَنْجُو إذَا كَانَ النَّجَاءُ وَتَسْلَمُ

نجات کی طرف لے جانے والاصرف اللہ کاراستہ ہے،عزیٰ اورلات کے راستے نہیں  ،اگرنجات اورسلامتی چاہتے ہوتواللہ کے راستے پرچل کرحاصل کرو

لَدَى یَوْمِ لَا یَنْجُو وَلَیْسَ بِمُفْلِتٍ ،مِنْ النَّاسِ إلَّا طَاهِرُ الْقَلْبِ مُسْلِمُ

ایک دن یقیناآنے والاہے جب پاکبازاورنیک دل مسلمان کے سواکوئی نجات نہ پاسکے گا

فَدِینُ زُهَیْرٍ وَهُوَ لَا شَیْءَ دِینُهُ ،وَدِینُ أَبِی سُلْمَى عَلَىَّ مُحَرَّمِ

ہمارے باپ زہیرکادین بے حقیقت تھااوراسی طرح (ہمارے دادا)ابی سلمی کا(باطل)دین بھی مجھ پرحرام ہے۔[26]

چنانچہ دونوں  بھائیوں  کی راہیں  جدا جدا ہوگئیں  ،بجیر رضی اللہ عنہ راہ حق کے جانبازسپاہی بن گئے، اورکعب مکہ مکرمہ واپس جاکرمشرکین مکہ سے مل گئے اوراسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیوں  میں  حصہ لینے لگے،وہ اپنے اشعار میں  مسلمانوں  کی ہجوکرتے اورمشرکین کواہل حق کے خلاف خوب اشتعال دلاتے تھے،بجیر رضی اللہ عنہ بن زہیرغزوہ خیبر،فتح مکہ،غزوہ حنین اورغزوہ طائف میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کاشرف حاصل کیا۔کعب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورعام مسلمانوں  کی ہجوکرنا،مسلم خواتین کے بارے میں  عشقیہ اشعارکہنا،مشرکین کومسلمانوں  کے خلاف اشتعال دلانا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاپہنچانے کامنصوبہ بنانااورآپ کی شان میں  گستاخی کاارتکاب جیسے جرائم کی بناپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب کوواجب القتل قراردے دیا

قَالَ: خَرَجَ كَعْبٌ وَبُجَیْرٌ ابْنَا زُهَیْرٍ حَتَّى أَتَیَا أَبْرَقَ الْعَزَّافِ ، وَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّائِفِ كَتَبَ بجیر بن زهیر إِلَى أَخِیهِ كعب یُخْبِرُهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَتَلَ رِجَالًا بِمَكَّةَ مِمَّنْ كَانَ یَهْجُوهُ وَیُؤْذِیهِ، وَأَنَّ مَنْ بَقِیَ مِنْ شُعَرَاءِ قُرَیْشٍ ابن الزبعرى وهبیرة بن أبی وهب، قَدْ هَرَبُوا فِی كُلِّ وَجْهٍ، فَإِنْ كَانَتْ لَكَ فِی نَفْسِكَ حَاجَةٌ فَطِرْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَا یَقْتُلُ أَحَدًا جَاءَهُ تَائِبًا مُسْلِمًا، وَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَانْجُ إِلَى نَجَائِكَ مِنْ الْأَرْضِ

فتح مکہ کے وقت جب اسے علم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کاحکم فرما دیا ہے توڈرکربھاگ گیااورمقام ابرق العزاف میں  جاٹھہرا(مَاء لبنى أَسد فِی طَرِیق القاصد إِلَى الْمَدِینَة من الْبَصْرَة یہ مدینہ منورہ اوربصرہ کے درمیان قاصدوں  کی گزرگاہ تھی اور بنی اسدکی پانی کی جگہ تھی ) علامہ ابن خلدون کابیان ہے کہ کعب فتح مکہ کے بعدنجران کی طرف فرارہوگئے تھے ، بجیر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کابھائی بھی اسلام کی بے بہا نعمت سے بہرہ مندہوجائےاوراچانک قتل نہ ہوجائے،چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس ہوکرمدینہ طیبہ پہنچے تو بجیر رضی اللہ عنہ بن زہیر نے کعب کو ایک خط لکھ کراطلاع دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں  ان شاعروں  کوقتل کردیاہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوکیاکرتے تھے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایذاپہنچایاکرتے تھے،اورقریش کے شعراء میں  سے ابن زبعری اورہبیرہ بن ابی وہب بھاگ گئے ہیں  اوران کاکہیں  پتہ نہیں  ہے،اس لئے اگرتمہارادل چاہے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکراسلام اختیارکرلوکیونکہ آپ کی خدمت میں  جوشخص تائب ہوکرحاضرہوجاتاہے آپ اسے قبول فرمالیتے ہیں  ، اوراس کی گزشتہ خطاؤں  سے درگزرفرماتے ہیں  ، اگریہ بات تمہارادل قبول نہ کرے تواپنی نجات کی کوئی جگہ تلاش کرلو،کعب نے مختلف قبیلوں  میں  پناہ لینے کی کوشش کی مگرکسی قبیلے نے بھی انہیں  پناہ دینے کی ہامی نہ بھری،اب انہیں  زمین خودپرتنگ محسوس ہونے لگی اور عافیت اسی میں  نظرآئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہو کرآپ کی مدح کرے ۔

کعب بن زہیربارگاہ نبوت میں  کس طرح حاضرہوئے اس سلسلہ میں  پانچ مختلف روایات ہیں  ۔

ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِینَةَ، فَنَزَلَ عَلَى رَجُلٍ كَانَتْ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ مَعْرِفَةٌ، مِنْ جُهَیْنَةَ، كَمَا ذُكِرَ لِی، فَغَدَا بِهِ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ صَلَّى الصُّبْحَ، فَصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشَارَ لَهُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذَا رَسُولُ اللهِ، فَقُمْ إلَیْهِ فَاسْتَأْمِنْهُ. فَذُكِرَ لِی أَنَّهُ قَامَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى جَلَسَ إلَیْهِ، فَوَضَعَ یَدَهُ فِی یَدِهِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یَعْرِفُهُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنَّ كَعْبَ بْنَ زُهَیْرٍ قَدْ جَاءَ لِیَسْتَأْمِنَ مِنْكَ تَائِبًا مُسْلِمًا، فَهَلْ أَنْتَ قَابِلٌ مِنْهُ إنْ أَنَا جِئْتُكَ بِهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ كَعْبُ بْنُ زُهَیْرٍ

xکعب نے مدینہ پہنچ کر جہینہ کے اپنے ایک واقف کارشخص کے ہاں  قیام کیا،اس شخص نے صبح کی نمازکے بعد کعب کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیاپھر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کھڑے ہوکر ان سے امان طلب فرمائیں  چنانچہ وہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ کے سامنے اس حالت میں  بیٹھا کہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں  رکھ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعب کوپہچانتے نہیں  تھےیہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا اوراجنبی بن کرعرض کیااے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کعب بن زہیرتائب اورمسلمان ہو کر آناچاہتاہے اگرمیں  اس کوآپ کی خدمت میں  لے آؤں  توکیاآپ اسے امان دے دیں  گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،ہاں  اگروہ سچے دل سے ایمان لے آئے اورگزشتہ خطاؤں  سے توبہ کرلے تواس کوامان ہے،اس پرکعب نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  گنہگار ہی کعب بن زہیرہوں  ،میں  اسلام قبول کرتاہوں  آپ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائیں  ۔[27]

فأتى أبا بكررَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فاستجاره، فقال: أكره أن أجیر على رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وقد أهدر دمك، فأتى عمررَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فقال له مثل ذلك، فأتى علیاًرَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فقال: أدلك على أمرٍ تنجو به. قال: وما هو؟ قال: تصلی مع رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فإذا انصرف فقم خلفه، وقل: یدك یَا رَسُولَ اللهِ أبایعك! فإنه سیناولك یده من خلفه، فخذ یده فاستجره، فإنی أرجو أن یرحمك، ففعل، فلما ناوله رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یده استجاره

xکعب نے مدینہ منورہ میں  سب سے پہلے سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے پناہ طلب کی انہوں  نے فرمایامیں  تمہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف پناہ نہیں  دے سکتارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے قتل کاحکم فرمایاہے،اس کے بعدوہ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضرہوکرپناہ کے خواستگارہوئےانہوں  نے بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح کہااورپناہ دینے سے انکارکردیا،پھروہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے پاس گئے انہوں  نے بھی پناہ دینے کی ہامی نہ بھری البتہ انہیں  مشورہ دیاکہ تم مسجدمیں  جاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں  نمازپڑھواورنمازکے بعدآپ کی خدمت میں  عرض کرواے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے اسلام قبول کیاہے اوراب آپ کی بیعت چاہتاہوں  آپ اپنادست مبارک بڑھائیں  گے توتم اسے تھام کرامان طلب کرنا،کعب رضی اللہ عنہ نے ان کے مشورہ پرعمل کیااورمعافی پائی۔[28]

قَالَ كَعْبٌ: فَأَنَخْتُ رَاحِلَتِی بِبَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَعَرَفْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصِّفَةِ، فَتَخَطَّیْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَیْهِ، فَأَسْلَمْتُ، فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، الْأَمَانَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا كَعْبُ بْنُ زُهَیْرٍ، قَالَ: الَّذِی یَقُولُ ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقَالَ:كَیْفَ یَا أَبَا بَكْرٍ، فَأَنْشَدَهُ أَبُو بَكْرٍ

x کعب کہتے ہیں  میں  نے مسجدنبوی کے دروازے پراپنی سانڈنی (اونٹنی)بٹھائی اورمسجدمیں  داخل ہوااس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چبوترے میں  تشریف فرماتھے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے گردحلقہ باندھے بیٹھے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایک جانب متوجہ ہوتے اورکبھی دوسری جانب،میں  آپ کی خدمت میں  جاکربیٹھ گیااورکلمہ شہادت اشھدان لاالٰہ الااللہ وانک محمدرسول اللہ پڑھ کراپنے اسلام کااعلان کیاپھرعرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  امان کاطالب ہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم کون ہو؟اس نے عرض کیامیں  کعب بن زہیرہوں  ،اچھاتوتم وہی ہوجس نے اشعارکہے تھے،پھرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ !اس نے کیاکہاتھا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے تعمیل ارشادکی،جب تیسرے شعرکادوسرا مصرع پڑھا

وَأَنْهَلَكَ الْمَأْمُورُ مِنْهَا وَعَلَّكَا

توکعب نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مصرع یوں  ہوناچاہیے تھا

فَأَنْهَلَكَ الْمَأْمُونُ مِنْهَا وَعَلّكَا

مامون نے تجھے اس پیالے سے خوب سیراب کیا ہے،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَأْمُونٌ وَاللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  اللہ کی قسم مامون ہی درست ہے،پھرارشادہواکہ تم کوامان ہے اورتم بھی اب مامون ہو۔[29]

فقدم على رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فبدأ بأبى بكر، فلما سلّم النبىّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من صلاة الصّبح جاء به وهو متلثّم بعمامته، فقال: یَا رَسُولَ اللهِ، هذا رجل جاء یبایعك على الإسلام، فبسط النبىّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یده، فحسر كعب عن وجهه، وقال: هذا مقام العائذ بك یَا رَسُولَ اللهِ،أَنَا كَعْبُ بْنُ زُهَیْرٍ

x مدینہ منورہ پہنچ کرکعب سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضرہوئےانہوں  نے دوسرے دن نمازفجرکے بعدکعب کوبارگاہ رسالت میں  پیش کیااس وقت کعب نے چہرہ اپنی پگڑی سے ڈھانک رکھاتھا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ شخص اسلام لاناچاہتاہے اورآپ کی بیعت کاشرف حاصل کرنے کامتمنی ہے ،یہ سن کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنادست مبارک آگے بڑھادیا،کعب کلمہ توحیدپڑھنے کے بعدآپ کی بیعت کرچکے توانہوں  نے اپناڈھکا ہوا چہرہ کھول دیااورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  کعب بن زہیرہوں  اورامان کا خواستگار ہوں  ۔[30]

علامہ ابن کثیرنے کعب رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ واقعہ اس طرح نقل کیاہے۔

قَالَ كَعْبٌ: فأنخت رَاحِلَتی بِبَاب الْمَسْجِدَ [ثمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ] فَعَرَفْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسلم بِالصّفةِ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَیْهِ فَأَسْلَمْتُ وَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّكَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ الْأَمَانَ یَا رَسُولَ اللهِ.قَالَ: وَمَنْ أَنْت؟ قَالَ: كَعْبُ بْنُ زُهَیْرٍ.قَالَ:الَّذِی یَقُولُ ثُمَّ الْتَفَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَیْفَ قَالَ یَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَأَنْشَدَهُ أَبُو بكر: سقاك بهَا الْمَأْمُون كأسا رَوِیَّةٍ * وَأَنْهَلَكَ الْمَأْمُورُ مِنْهَا وَعَلَّكَا قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا قُلْتُ هَكَذَا قَالَ: فَكَیْفَ قلت؟ قَالَ قلت: سقاك بهَا الْمَأْمُون كأسا رَوِیَّةٍ * وَأَنْهَلَكَ الْمَأْمُونُ مِنْهَا وَعَلَّكَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَأْمُونٌ وَاللهِ

x کعب کہتے ہیں  میں  نے مسجدنبوی کے دروازے پراپنی سانڈنی (اونٹنی)بٹھائی اورمسجدمیں  داخل ہوااس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چبوترے میں  تشریف فرماتھے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے گردحلقہ باندھے بیٹھے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایک جانب متوجہ ہوتے اورکبھی دوسری جانب،میں  آپ کی خدمت میں  جاکربیٹھ گیااورکلمہ شہادت اشھدان لاالٰہ الااللہ وانک محمدرسول اللہ پڑھ کراپنے اسلام کااعلان کیا،پھرعرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  کعب بن زہیرہوں  اورامان کا طالب ہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاتوتم وہی ہوجس نے یہ شعرکہے تھے،پھرآپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وہ اشعارپڑھنے کے لئے کہا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے شعرپڑھتے ہوئے جب المامور کہا تو میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !االمامورنہیں  بلکہ المامون، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں  اللہ کی قسم مامون ہی صحیح ہے۔[31]

ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے بیان کیاہے عاصم بن عمربن قتادہ کہتے ہیں

أَنَّهُ وَثَبَ عَلَیْهِ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، دَعْنِی وَعَدُوَّ اللهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُ عَنْكَ، فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَ تَائِبًا، نَازِعًا

جب لوگوں  کوعلم ہواکہ امان طلب کرنے والاکعب بن زہیرشاعرہے جس کاخون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدرکردیاہے تو ایک انصاری جوش میں  آگیا اور کہنے لگا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت فرمائیں  میں  اللہ کے اس دشمن کی گردن اڑادوں  ،رسول اللہ نے فرمایا اسے چھوڑدویہ اپنے سابقہ رویہ سے تائب ہوکرہمارے پاس آگیا ہےاب اس سے کوئی تعرض نہ کیاجائے۔[32]

اب کعب رضی اللہ عنہ مسروراورمطمئن ہوگئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے ایک قصیدہ کہاہے اگراجازت ہوتوپیش کروں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  تم اپنے اشعار سناؤ ، اس پر کعب رضی اللہ عنہ بن زہیر نے آپ کواپنا۵۸اشعارپرمشتمل وہ قصیدہ سنایاجوبانت سعاد(اورلامیہ کعب)کے نام سے مشہورہے ،جس کامطلع یہ ہے۔

بَانَتْ سُعَادُ فَقَلْبِی الْیَوْمَ مَتْبُولُ،مُتَیَّمٌ إِثْرَهَا لَمْ یُفْدَ مَكْبُولُ

سعادمجھ سے جداہو گئی آج میرادل بے قراری سے کٹاجارہاہے،اوروہ ایساغلام اورقیدی ہے جسے کوئی فدیہ دے کربھی رہائی دلانے والانہیں  ۔

وَمَا سُعَادُ غَدَاةَ الْبَیْنِ إذْ رَحَلُوا ،إلَّا أَغَنُّ غَضِیضُ الطَّرْفِ مَكْحُولُ

جوانی کی صبح ،جبکہ انہوں  نے کوچ کیا،سعاداپنی سرمگیں  آنکھوں  کوجھکائے ہوئے گنگنارہی تھی

هَیْفَاءُ مُقْبِلَةً عَجْزَاءُ مُدْبِرَةً ،لَا یُشْتَكَى قِصَرٌ مِنْهَا وَلَا طُولُ

گردن درازکیے آنے والی،لیکن عاجزہوکرجانے والی،جس سے کوتاہ قامت ہونے یادرازی قدکی شکایت نہیں  ہوتی

یَسْعَى الْغُوَاةُ جَنَابَیْهَا وَقَوْلُهُمُ ،إِنَّكَ یَا ابْنَ أبی سلمى لَمَقْتُولُ

مفسدلوگ بغلیں  بجارہے ہیں  اوران کاکہنایہ ہے کہ،اے ابن ابی سلمی،اب تمہیں  قتل کردیاجائے گا

وَقَالَ كُلُّ صَدِیقٍ كُنْتُ آمُلُهُ ،لَا أَلْهِیَنَّكَ إِنِّی عَنْكَ مَشْغُولُ

ہراس دوست نے جس سے مجھے اعانت کی توقع تھی،مجھ سے ہی کہاکہ مجھ سے تعاون کی توقع مت رکھوکیونکہ میں  مشغول ہوں

فَقُلْتُ خَلُّوا طَرِیقِی لَا أَبًا لَكُمُ،فَكُلُّ مَا قَدَّرَ الرَّحْمَنُ مَفْعُولُ

تومیں  نے کہامیرا راستہ چھوڑوتمہاراباپ نہ ہو،رحمان نے میرے لئے جومقدرکررکھاہے وہی ہوکررہے گا

كُلُّ ابْنِ أُنْثَى وَإِنْ طَالَتْ سَلَامَتُهُ ، ،یَوْمًا عَلَى آلَةٍ حَدْبَاءَ مَحْمُولُ

ہرعورت زادخواہ اس کی صحت وسلامتی کتنی ہی درازکیوں  نہ ہو،ایک دن ضرورمیت والی چارپائی پراٹھایاجائے گا

بعض روایتوں  میں  ہے کہ جب کعب رضی اللہ عنہ نے درج ذیل اشعارپڑھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتوجہ سے سننے کے لئے ارشادفرمایا۔

نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ أَوْعَدَنِی ،وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ مَأْمُولُ

مجھے خبرملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے حالانکہ (ہمیں  )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عفواوردرگزرکی امیدہے۔

مَهْلًا هُدَاكَ الَّذِی أَعْطَاكَ نَافِلَةَ الْ ، ،قُرْآنِ فِیهَا مَوَاعِیظٌ وَتَفْصِیلُ

ٹھہریں  !اللہ آپ کی رہنمائی کرے ،جس نے نبوت کے علاوہ آپ پرمواعظ اورتفصیل سے بھراہواقرآن نازل فرمایاہے

لَا تَأْخُذَنِّی بِأَقْوَالِ الْوُشَاةِ وَلَمْ ،أُذْنِبْ وَلَوْ كَثُرَتْ فِیَّ الْأَقَاوِیلُ

غیبت کرنے والے لوگوں  کی بناپرمیرامواخذہ نہ کریں  میرے بارے میں  بہت کچھ کہاگیاہے لیکن میں  نے کوئی گناہ نہیں  کیا

لَقَدْ أَقُومُ مَقَامًا لَوْ یَقُومُ بِهِ ،أَرَى وَأَسْمَعُ مَا لَوْ یَسْمَعُ الْفِیلُ

میں  اس جگہ کھڑاہوں  ،کاش وہ بھی اسی جگہ کھڑاہو،جہاں  میں  ایسی چیزیں  دیکھتااورسنتاہوں  کہ اگرہاتھی بھی سن لے

لَظَلَّ تُرْعَدُ مِنْ خَوْفٍ بَوَادِرُهُ ،إِنْ لَمْ یَكُنْ مِنْ رَسُولِ اللهِ تَنْوِیلُ

تووہ خوف سے کانپنے لگے الایہ کہ،اس کھڑے ہونے والے پراللہ کے حکم سے رسول کی نوازش ہو،

حَتَّى وَضَعْتُ یَمِینِی مَا أُنَازِعُهَا،فِی كَفِّ ذِی نَقَمَاتٍ قَوْلُهُ الْقِیلُ

میں  نے اپناہاتھ بدلہ لینے والی ہتھیلی میں  دے دیاہے ،جسے میں  چھڑانے والانہیں  ہوں  کیونکہ آپ کی بات ہی اصل بات ہے

 فَلَهْوَ أَخْوَفُ عِنْدِی إِذْ أُكَلِّمُهُ،وَقِیلَ إِنَّكَ مَنْسُوبٌ وَمَسْئُولُ

یہ بات میرے لئے انتہائی خوفناک ہے کہ میں  آپ سے گفتگوکروں  ،توکہاجائے کہ تیری طرف یہ باتیں  منسوب ہیں  اورتجھ سے بازپرس کی جائے گی

مِنْ ضَیْغَمٍ بِضَرَاءِ الْأَرْضِ مُخْدَرُهُ،فِی بَطْنِ عَثَّرَ غِیلٌ دُونَهُ غِیلُ

اس وقت آپ میرے لئے گھنے جنگل میں  رہنے والے شیرسے بھی زیادہ ہیبتناک تھے ،جس کی کچھارکسی ہلاکت خیزوادی کے بطن میں  واقع کسی ایسی سخت زمین میں  ہوجس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو

إِنَّ الرَّسُولَ لَنُورٌ یُسْتَضَاءُ بِهِ،مُهَنَّدٌ مِنْ سُیُوفِ اللهِ مَسْلُولُ

بلاشبہ رسول اکرم وہ نورہیں  جن کی روشنی سے اکتساب فیض کیاجاتاہے ،اورآپ اللہ کی تلواروں  میں  سے ایک (بے نیام)کھنچی ہوئی ہندی تلوارہیں  ۔

کیونکہ مہاجرین نے کعب کی آمدپرکوئی حرکت نہیں  کی تھی جبکہ انصارکے اس شخص اس پرتلوارلے کرکھڑے ہوگئے تھے اس لئے پھرکعب نے مہاجرین قریش کی تعریف کی اور انصارپرطنزکیا ۔

فِی عُصْبَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ قَالَ قَائِلُهُمْ،بِبَطْنِ مَكَّةَ لَمَّا أَسْلَمُوا زُولُوا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے شریف اورکریم النفس جوانمردوں  کی جماعت میں  مبعوث ہوئے جب وہ جماعت اسلام لائی (اوراس کواذیتیں  پہنچائی گئیں  ) تو ان کے ایک ترجمان نے مکہ میں  اعلان کیاکہ سب لوگ ہجرت کرجائیں  ۔

یَمْشُونَ مَشْیَ الْجِمَالِ الزُّهْرِ یَعْصِمُهُمْ ،ضَرْبٌ إِذَا عَرَّدَ السُّودُ التَّنَابِیلُ

وہ سفید اونٹوں  کی چال چلتے ہیں  ،شمشیرزنی ان کی حفاظت کرتی ہے جب سیاہ رنگت والے کوتاہ قامت لوگ بھاگ جائیں

شُمُّ الْعَرَانِینِ أَبْطَالٌ لَبُوسُهُمُ ،مِنْ نَسْجِ دَاوُدَ فِی الْهَیْجَا سَرَابِیلُ

وہ اونچی ناکوں  والے بہادرہیں  ،میدان جنگ میں  ان کے لباس داؤدکی زرہیں  ہیں

جب انہوں  نے مہاجرین کی تعریف اورنصارکی مذمت کی توانصاران سے ناراض ہوگئے تاہم لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد جب اس سے جاہلیت کی عادت اورفخروغرورختم ہوگیاتواس نے انصارکی مدح میں  کہا۔

مَنْ سَرَّهُ كَرَمُ الْحَیَاةِ فَلَا یَزَلْ ،فِی مِقْنَبٍ مِنْ صَالِحِی الْأَنْصَارِ

جس شخص کوباعزت زندگی بسرکرنا پسندہو،اسے چاہئے کہ وہ انصارکے صالح ،مجاہدین کے کسی دستے میں  رہے

وَرِثُوا الْمَكَارِمَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ ،إِنَّ الْخِیَارَ هُمُ بَنُو الْأَخْیَارِ

انہوں  نے خوبیاں  آباؤاجدادسے ورثہ میں  پائی ہیں  ،بلاشبہ بہترین لوگ صرف انصارکی نسل کے لوگ ہیں

الْمُكْرِهِینَ السَّمْهَرِیَّ بِأَذْرُعٍ ،كَسَوَالِفِ الْهِنْدِیِّ غَیْرَ قِصَارِ

یہ اپنے ہاتھوں  سے سمہری نیزوں  کو،جولمبی لمبی ہندی تلواروں  کے کناروں  کی طرح ہیں  ،خوب چلاتے ہیں  ۔[33]

(حاکم کی روایت میں  ہے کہ کعب نے مِنْ سُیُوفِ الہندپڑھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس طرح کہومِنْ سُیُوفِ اللهِ مَسْلُولُ

جب وہ قصیدہ سناتے ہوئے اس شعرپرپہنچے

إن الرسول لنور یستضاء به ،مهند من سیوف الله مسلول

رمى عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إلیه بردة كانت علیه. وَأَنَّ مُعَاوِیَةَ بذل فیها عشرة آلاف فقال: ما كنت لأوثر بِثَوْبٍ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أحدا،فَلَمَّا مَاتَ كعب بَعَثَ مُعَاوِیَةُ إِلَى وَرِثْتُهُ بِعِشْرِینَ أَلْفًا فَأَخْذُهَا مِنْهُمْ.قَالَ وَهِیَ الْبُرْدَةُ الَّتِی عِنْدَ السَّلَاطِینِ إلى الیوم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بردیمانی جو اوڑھے ہوئے تھے اتارکرکعب کے کندھوں  پرڈال دی ،امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں  اس چادرکے عوض ابن زہیرکودس ہزاردرہم دینے چاہے ، انہوں  نے جواب دیاکہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادرمبارک کوجوآپ نے مجھے عطافرمائی ہے کسی دوسرے کودے کراپنے اوپرترجیح نہیں  دے سکتاپھران کا انتقال ہوگیاتو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ورثہ کے پاس بیس ہزاردرہم بھیج کریہ چادرمبارک حاصل کرلی ،یہ چادرمبارک بعدکوآنے والے سلاطین کے پاس منتقل ہوتی رہی جسے تمام خلفاء آج تک عیدوجشن کے مواقع پرزیب تن کیاکرتے تھے،کہاجاتاہے یہ چادرتاتاری حملہ میں  ضائع ہوگئی۔[34]

وفدبنی سعدہذیم:

بنوسعدہذیم قبیلہ قضاعہ کی ایک شاخ تھے،یہ لوگ مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں  کئی سوکلومیڑکے فاصلہ پرآبادتھے۔

قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَافِدًا فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِی، وَقَدْ أَوْطَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْبِلَادَ غَلَبَةً، وَأَدَاخَ الْعَرَبَ، وَالنَّاسُ صِنْفَانِ: إِمَّا دَاخِلٌ فِی الْإِسْلَامِ رَاغِبٌ فِیهِ، وَإِمَّا خَائِفٌ مِنَ السَّیْفِ، فَنَزَلْنَا نَاحِیَةً مِنَ الْمَدِینَةِ، ثُمَّ خَرَجْنَا نَؤُمُّ الْمَسْجِدَ حَتَّى انْتَهَیْنَا إِلَى بَابِهِ ، فَنَجِدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی عَلَى جِنَازَةٍ فِی الْمَسْجِدِفَقُمْنَا نَاحِیَةً، وَلَمْ نَدْخُلْ مَعَ النَّاسِ فِی صَلَاتِهِمْ

ابن نعمان سے مروی ہے میں  اپنی قوم کی ایک جماعت کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلادکوفتح کرچکے تھے اورعربوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلی تھی اورلوگوں  کی دوقسمیں  ہوچکی تھیں  یاتووہ بارضاورغبت اسلام میں  داخل ہورہے تھے یاتلوارسے خوفزدہ ہوکراسلام میں  داخل ہورہے تھے،چنانچہ ہم مدینہ منورہ کی ایک جانب ٹھیرے،پھرہم مسجدنبوی میں  جانے کے ارادے سے نکلے حتی کہ ہم مسجدنبوی کے دروازے تک پہنچ گئے،ہم نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی نمازجنازہ پڑھارہے تھے،یہ لوگ اگرچہ پہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ہم نے جنازہ میں  شرکت نہ کی اورالگ ہوکرکھڑے رہے،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اوران سے بیعت سے پہلے یہ کرنانہیں  چاہتے تھے،

ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَفَنَظَرَ إِلَیْنَا فَدَعَا بِنَا، فَقَالَ مَنْ أَنْتُمْ؟فَقُلْنَا: مِنْ بَنِی سَعْدِ هُذَیْمٍ،فَقَالَ:أَمُسْلِمُونَ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا: نَعَمْ،قَالَ: فَهَلَّا صَلَّیْتُمْ عَلَى أَخِیكُمْ؟قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ ظَنَنَّا أَنَّ ذَلِكَ لَا یَجُوزُ لَنَا حَتَّى نُبَایِعَكَ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیْنَمَا أَسْلَمْتُمْ فَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ،قَالُوا: فَأَسْلَمْنَا وَبَایَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازجنازہ سے فارغ ہوئے اورہم لوگوں  کوالگ کھڑا دیکھا توہمیں  بلالیااور دریافت کیاتم کون لوگ ہو؟ہم نے عرض کیاہم قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنو سعدہذیم کے لوگ ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیاتم لوگ مسلمان ہو؟ہم نے عرض کیاہاں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ پرایمان لاچکے ہیں  اوربیعت کے لئے حاضرخدمت ہوئے ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتم اپنے بھائی کی نمازجنازہ میں  شریک کیوں  نہیں  ہوئے ؟ ہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے خیال کیاکہبیعت کے بغیرہمیں  نمازمیں  شریک ہونے کاحق نہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجہاں  بھی تم نے اسلام قبول کرلیاتوتم مسلمان ہو،ان لوگوں  نے اسلام قبول کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پراسلام کی بیعت کی،

ثُمَّ انْصَرَفْنَا إِلَى رِحَالِنَا قَدْ خَلَّفْنَا عَلَیْهَا أَصْغَرَنَافَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی طَلَبِنَا، فَأُتِیَ بِنَا إِلَیْهِ، فَتَقَدَّمَ صَاحِبُنَا إِلَیْهِ فَبَایَعَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ،فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ أَصْغَرُنَا، وَإِنَّهُ خَادِمُنَا،فَقَالَ: أَصْغَرُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ، بَارَكَ اللهُ عَلَیْهِ،قَالَ: فَكَانَ وَاللهِ خَیْرَنَا، وَأَقْرَأَنَا لِلْقُرْآنِ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُ، ثُمَّ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا، فَكَانَ یَؤُمُّنَا،وَلَمَّا أَرَدْنَا الِانْصِرَافَ أَمَرَ بلالا فَأَجَازَنَا بِأَوَاقٍ مِنْ فِضَّةٍ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنَّا،فَرَجَعْنَا إِلَى قَوْمِنَا، فَرَزَقَهُمُ اللهُ الْإِسْلَامَ

ہم لوگ پھراپنی سواریوں  کی طرف گئے جہاں  ہم اپنے ایک ساتھی کوسواریوں  کے پاس بٹھاآئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں  آدمی بھیجاچنانچہ اسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایاگیااوراس نے بھی آگے بڑھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پربیعت کی،اراکین وفدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتلایااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ہم میں  سب سے کم عمرہے اس لئے ہماری خدمت کرتے ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچھوٹااپنے بڑوں  کاخادم ہوتاہےاللہ تعالیٰ اسے برکت دے، راوی جمرہ رضی اللہ عنہ بن نعمان کہتے ہیں  اللہ کی قسم ! وہ ہم میں  سب سے بہترتھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکی برکت سے ہم سے زیادہ قرآن پڑھ گیاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پرامیر مقرر فرمایا اور وہی ہمیں  نماز پڑھاتاتھا،جب انہوں  نے واپس جانے کاارادہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو انعامات دینےکا حکم فرمایاانہوں  نے وفدکے ہرآدمی کوچاندی کے کئی کئی اوقیہ تحفہ دیا،چنانچہ یہ لوگ وطن واپس ہوئے توان کی وعظ ونصیحت سے ساراقبیلہ مسلمان ہوگیا۔[35]وأقطعه النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رمیة سوطه وحضر فرسه من وادی القرى

اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفدکے سردار جمرہ رضی اللہ عنہ بن نعمان کووادی القریٰ میں  بقدران کاکوڑا مارنےاوران کاگھوڑادوڑانے کے زمین کاایک ٹکڑابطور جاگیر عطا فرمایا۔[36]

وفدبنی عریض:

بنوعریض یہودیوں  کاایک قبیلہ تھاجو وادی قریٰ میں  آبادتھا،ان کاپیشہ کھیتی باڑی اورزراعت تھاانہوں  نے زراعت اورآب رسانی کوبڑی ترقی دی تھی،ان کے وہاں  آبادہونے کے بعدقبائل سعدہذیم بھی نقل مکانی کرکے وہیں  آبسے تھے،اس ہمسائیگی کی بناپربنوعریض اورسعدہذیم ایک دوسرے کے حلیف بن گئے،ان کے درمیان ایک معاہدہ قرارپایاجس کی روسے سعدہذیم نے دوسرے قبائل کے مقابلے میں  بنوعریض کی حفاظت کاذمہ اٹھایا،اوربنوعریض نے اس کے عوض سعدہذیم کوہرسال غلہ کی ایک مخصوص مقداراداکرنے کاعہدکیا ،۹ہجری میں  جب سعدہذیم کاوفدبارگاہ رسالت میں  حاضرہواتویہودبنی عریض بھی (الگ وفدکی صورت میں  )ان کے ساتھ تھےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کرنے کے لئے کچھ تحائف بھی ساتھ لائے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدہذیم کے سردارجمرہ رضی اللہ عنہ بن نعمان کوزمین کاایک ٹکڑا بطور جاگیر عطا فرمایا توبنی عریض پربھی ازراہ شفقت یہ احسان فرمایاکہ جتناغلہ یہ سعدہذیم کواداکرتے تھے اتناہی غلہ بیت المال سے ہرسال ان کے لئے مخصوص فرمادیاحالانکہ بنوعریض نے اسلام قبول نہیں  کیاتھا،اس سلسلے میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص سے یہ فرمان لکھواکربنوعریض کوعنایت فرمایا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

هذا كتاب من مُحَمَّد رَسُولُ اللهِ لبنی عریض: طعمة من رَسُولُ اللهِ عشرة أوسق قمح، وعشرة أوسق شعیر فی كل حصاد، وخمسین وسقا تمر؛ یوفون فی كل عام لحینه، لا یظلمون شیئا.

وكتب خالد بن سعید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنوعریض کے حق میں  ۔

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کی مددمعاش کے لئے دس وسق گہیوں  اور دس وسق جَو فصل کی کٹائی کے موقع پراورپچاس وسق کھجوریں  جب بھی کھجوریں  توڑی جائیں  ، ہر سال اپنے موسم پران کوپوری پوری دی جائیں  اوراس دینے دلانے پران پرذرابھربھی ظلم نہ ہونے پائے۔

وکتب خالدبن سعید۔[37]

وَلَمّا نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَادِیَ الْقُرَى أَهْدَى لَهُ بَنُو عُرَیْضٍ الْیَهُودِیّ هَرِیسًا فَأَكَلَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَطْعَمَهُمْ أَرْبَعِینَ وَسْقًا، فَهِیَ جَارِیَةٌ عَلَیْهِمْ،تَقُولُ امْرَأَةٌ مِنْ الْیَهُودِ: هَذَا الّذِی صَنَعَ بِهِمْ مُحَمّدٌ خَیْرٌ مِمّا وَرِثُوهُ مِنْ آبَائِهِمْ، لِأَنّ هَذَا لَا یَزَالُ جَارِیًا عَلَیْهِمْ إلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک تشریف لے جارہے تھے تووادی القریٰ میں  بنوعریض نے آپ کی خدمت میں  ہریسہ پیش کیاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا اور پھروادی القریٰ کی کھجوروں  کے چالیس وسق انہیں  ہرسال عطافرمائے، ایک یہودی عورت نے کہاجو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کیا یہ ان کے آباء واجداد کی وراثت سے کئی گناہ بہتر ہے کیونکہ یہ تاقیامت جاری وساری رہے گا۔[38]

وفدبنی صدف:

بنوصدف کانام تین قحطانی قبائل کے لئے بولاجاتاہے ،ان میں  سے دوقبیلے حضرمی تھے اورایک یمانی حمیری ،اس وفدکے بارے میں  معلوم نہیں  کہ وہ بنو صدف کی کس شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔

قَالُوا: قَدِمَ وَفْدُنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم وهم بَضْعَةَ عَشَرَ رَجُلا عَلَى قَلائِصَ لَهُمْ فِی أُزُرٍ وَأَرْدِیَةٍ،فَصَادَفُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا بَیْنَ بَیْتِهِ وَبَیْنَ الْمِنْبَرِ،فَجَلَسُوا وَلَمْ یُسَلِّمُوافَقَالَ: مُسْلِمُونَ أَنْتُمْ؟قَالُوا: نَعَمْ،قَالَ: فَهَلا سَلَّمْتُمْ؟فَقَامُوا قِیَامًا فَقَالُوا: السَّلامُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللهِ!قَالَ:وَعَلَیْكُمُ السَّلامُ!اجْلِسُوا،فَجَلَسُوا وَسَأَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوْقَاتِ الصَّلاةِ فأخبرهم بها

فتح مکہ کے بعددس پندرہ آدمیوں  پرمشتمل بنوصدف کاایک وفدمدینہ طیبہ آیایہ لوگ تہبندباندھے اورچادریں  اوڑھے اپنی اونٹنیوں  پرسوارتھے،جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ اقدس اور منبر کے درمیان تشریف فرماتھے،وفدکے اراکین نے اسلامی طریقہ سے سلام کرنے کے بجائے خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکیاتم مسلمان ہو؟انہوں  نے عرض کیاہاں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم مسلمان ہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتم نے سلام کیوں  نہیں  کیا؟آپ کایہ فرمان سن کراراکین وفدکھڑے ہوگئے اورکہااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پرسلامتی اوراللہ کی رحمت ہو،آپ نے جواب دیاتم پربھی سلامتی ہواورپھران سے بیٹھنے کے لئے کہا،یہ لوگ بیٹھ گئے اورانہوں  نے آپ سے اوقات نماز دریافت کیے جوآپ نے انہیں  بتلادیئے۔[39]

وفدبنی جعدہ:

یہ قحطانی قبیلہ تھااوراس کی سکونت حضرموت میں  تھی۔

وفد إلى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرُّقَادُ بْنُ عَمْرِو بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ جَعْدَةَ بْنِ كَعْبٍ. وَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْفَلْجِ ضَیْعَةٍ وَكَتَبَ لَهُ كِتَابًا. وهو عندهم

اسی سال بنی جعدہ کے ایک نمائندے رقاد رضی اللہ عنہ بن عمروبن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے اورشرف اسلام سے بہرہ ورہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  فلج(یافلج افلاج میں  کھیت،درخت اورچشمے تھے)میں  جاگیرعطافرمائی اوراس کے لئے انہیں  ایک تحریری فرمان عنایت فرمایاجوان لوگوں  کے پاس ہے۔[40]

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی باب باب۴۳۰۲،البدایة والنہایة۳۶۸؍۴،ابن سعد۲۵۳؍۱

[2]ابن سعد۱۲۲؍۲، عیون الآثر ۲۵۶؍۲،زادالمعاد۴۴۹؍۳

[3] زادالمعاد۵۷۴؍۳

[4] ابن سعد ۲۵۰؍۱

[5] زادالمعاد۵۸۷؍۳،البدایة والنہایة۱۰۹؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۲۹؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر ۵۸۶؍۳

[6] ابن سعد۲۵۴؍۱،ابن ہشام۵۸۷؍۲

[7] زادالمعاد ۵۴۲؍۳،ابن ہشام۵۸۷؍۲،عیون الآثر۳۰۱؍۲،الروض الانف ۴۸۴؍۷،تاریخ طبری ۱۳۰؍۳،اسدالغابة۱۶؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۳۷۲؍۵، شرح الزرقانی علی المواھب ۱۶۹؍۵

[8] إعلام السائلین عن كتب سید المرسلین لابن طولون ۱۶۱ا، ۱۶۲؍۱،مجموعة الوثائق السیاسیہ العہدالنبوی والخلافتہ الراشدہ۲۹۰؍۱،تاریخ طبری ۱۳۱؍۳

[9] مجموعة الوثائق السیاسیہ العہدالنبوی والخلافتہ الراشدہ ۲۹۰؍۱،ابن ہشام۵۸۸؍۲،الروض الانف ۴۸۵؍۷ ،رسول اللہ کی سیاسی زندگی۳۰۵

[10] رسول اللہ کی سیاسی زندگی۳۰۴

[11] اسدالغابة۳۵۴؍۳

[12] ابن سعد۲۶۳؍۱

[13] معجم البلدان ۱۳۳؍۳

[14]زادالمعاد۴۵۰؍۳،عیون الآثر۲۵۶؍۲،ابن سعد۱۲۳؍۲، مغازی واقدی۹۸۲؍۳

[15] عیون الآثر۲۵۷؍۲،ابن سعد۱۲۴؍۲

[16]زاد المعاد۵۷۴،۵۷۵؍۳،عیون الآثر۳۱۵؍۲

[17] ابن سعد۳۰۲؍۱

[18] ابن سعد۲۳۰؍۱، اسدالغابة ۲۹۳؍۵

[19] ابن سعد ۲۶۹؍۱

[20]ابن سعد۲۳۹؍۱،البدایة والنہایة ۱۰۸؍۵، السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۸؍۴

[21] ابن سعد۲۲۸؍۱

[22] فتح الباری۵۸؍۸،ابن سعد۱۲۳؍۲،زادالمعاد۴۵۲؍۳،عیون الآثر۲۵۷؍۲،مغازی واقدی۹۸۴؍۳

[23] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ سَرِیَّةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِیِّ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ مُجَزِّزٍ المُدْلِجِیِّ وَیُقَالُ: إِنَّهَا سَرِیَّةُ الأَنْصَارِ۴۳۴۰، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِعن علی ۴۷۶۶

[24] ابن ہشام۲۵۸؍۲

[25] الاصابة فی تمییز الصحابة ۴۴۳؍۵،اسدالغابة ۴۴۹؍۴،الاستیعاب ۱۳۱۴؍۳

[26] ابن هشام ۵۰۲؍۲

[27] ابن ہشام۵۰۱؍۲

[28] جمہرة اشعار العرب ۳۶؍۱

[29] دلائل النبوة للبیہقی۲۰۷؍۵،الاصابة فی تمیزالصحابة۴۴۳؍۵، اسدالغابة۴۴۹؍۴

[30] الشعراوالشعراء لابن بن قتیبہ۲۵۳؍۱

[31] دلائل النبوة للبیہقی ۲۰۷؍۵، البدایة والنہایة۴۲۸؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۷۰۶؍۳

[32]ابن ہشام۵۰۱؍۲

[33] زاد المعاد ۴۵۷تا۴۵۹؍۳، ابن هشام ۵۰۳تا۵۱۴؍۲

[34] المواھب اللدنیة۴۱۷؍۱

[35] زادالمعاد۵۶۹،۵۷۰؍۳،عیون الآثر ۳۱۰؍۲، المواھب اللدنیة۵۹۲؍۱

[36] اسدالغابة۵۵۲؍۱،ابن سعد۲۶۴؍۴

[37] مجموعة الوثائق السیاسیة للعہدالنبوی والخلافة۹۸؍۱

[38] مغازی واقدی۱۰۰۶؍۳،امتاع الاسماع۲۹۹؍۷

[39] ابن سعد۲۴۸؍۱، البدایة والنہایة۱۱۰؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۱۸۱؍۴

[40] ابن سعد۲۳۰؍۱

Related Articles