بعثت نبوی کا بارهواں سال

بیعت عقبہ اولیٰ( ذی الحجہ۱۲ نبوی ، جولائی ۶۲۱ء)

جب مکہ مکرمہ میں اصحاب رسول پرشدائدومصائب کی انتہاہوگئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرطائف سے بھی ناامیدی ہوئی تواللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت بھیجی اوردوسرے سال بارہ نبوی ذی الحجہ کوپہلی بیعت عقبہ(گیارہ نبوی ذی الحجہ) میں مدینہ منورہ سے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رباب ان کے ہمراہ نہیں تھے) اپنے ساتھ سات اورافرادکرلیکرحج کے لئے تشریف لائے اور آپکے دست مبارک پرآپ کی نصرت وحمایت کی بیعت کرکے واپس ہوئے جن کے نام یہ تھے۔

اس طرح دس افرادقبیلہ خزرج سے اوردوافرادقبیلہ اوس سے مسلمان ہوئے۔[1]

ہم بارہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے مدینہ منورہ سے آئے تھے،ہم نےمقام عقبہ میں جمع ہوکربیعت کی جوبیعت نساء کے نام سے مشہورہوئی اوراسی کے مطابق فتح مکہ کے روزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین سے بیعت لی تھی ،

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَایَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی رَهْطٍ، فَقَالَ:أُبَایِعُكُمْ عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَیْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ، وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَیْنَ أَیْدِیكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُونِی فِی مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا فَأُخِذَ بِهِ فِی الدُّنْیَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَطَهُورٌ، وَمَنْ سَتَرَهُ اللَّهُ فَذَلِكَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جماعت کے ساتھ بیعت کی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرفرمایاکہ میں تم سے عہدلیتاہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شرک نہیں ٹھیراؤ گے، تم چوری نہیں کرو گےاورزنانہیں کروگے،اپنی اولادکی جان نہیں لوگے،اپنے دل سے گھڑکرکسی پرتہمت نہیں لگاؤگے اورنیک کاموں میں میری نافرمانی نہ کروگے، پس تم میں سے جوشخص اس وعدے کوپوراکرے گا تواس کااجراللہ تعالیٰ پرلازم ہےاورجوکوئی ان میں سے کچھ غلطی کرگزرے گااوردنیامیں ہی اسے سزابھی مل گئی تویہ سزااس کے لئے کفارہ ہو گی اوراسے پاک کرنے والی ہوگی،اورجس کی غلطی کواللہ چھپالے گاتواس کامعاملہ اللہ کے ساتھ ہےچاہے تواسے عذاب دے اورچاہے تواس کی مغفرت کردے۔[2]

چنانچہ سب حضرات نے آپ کے دست مبارک پراس بات کا عہد کیا، بعدمیں یہی بیعت سورہ الممتحنہ ۱۲میں ان الفاظ میں نازل ہوئی ۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللهِ شَـیْـــــًٔــا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲ [3]

ترجمہ:اے نبی !جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں اوراس بات کاعہدکریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکوشریک نہ کریں گی ،چوری نہ کریں گی،زنا نہ کریں گی،اپنی اولادکوقتل نہ کریں گی،اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے بہتان گھڑکرنہ لائیں گی اورکسی امرمعروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی توان سے بیعت لے لواوران کے حق میں دعائے مغفرت کرویقیناًاللہ درگزرفرمانے والااوررحم کرنے والاہے۔

ذکوان رضی اللہ عنہ بن عبدقیس نے بیعت کے بعدمکہ مکرمہ میں ہی قیام فرمالیااورجب ہجرت مدینہ منورہ کاحکم فرمایاگیاتوہجرت فرماکرمدینہ چلے گئے ،

ذَكْوَانُ، مُهَاجِرِیٌّ أَنْصَارِیٌّ

اس لئے ذکوان رضی اللہ عنہ مہاجربھی ہیں اور انصار بھی۔[4]

مدینہ منورہ میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر عبدری کی کامیابی

فَلَمَّا انْصَرَفَ عَنْهُ الْقَوْمُ، بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ مُصْعَبَ بْنَ عُمَیْرِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ عَبْدِ الدَّارِ بْنِ قُصَیٍّ، وَأَمَرَهُ أَنْ یُقْرِئَهُمْ الْقُرْآنَ، وَیُعَلِّمَهُمْ الْإِسْلَامَ، وَیُفَقِّهَهُمْ فِی الدِّینِ، فَكَانَ یُسَمَّى الْمُقْرِئَ بِالْمَدِینَةِ: مُصْعَبٌ. وَكَانَ مَنْزِلُهُ عَلَى أَسْعَدِ بْنِ زُرَارَةَ بْنِ عُدَسَ، أَبِی أُمَامَةَ

بیعت کی تکمیل اور حج کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقین اولین میں سے ایک پرجوش نوجوان مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر عبدری اورعبداللہ رضی اللہ عنہ بن ام مکتوم کوان لوگوں کے ہمراہ مدینہ منورہ روانہ فرمایاتاکہ وہ ان لوگوں کوقرآن مجیدپڑھائیں اوراسلام اوراسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں ،تعمیل حکم میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرعبدری اورعبداللہ رضی اللہ عنہ بن ام مکتوم مدینہ منورہ چلے گئے اور اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے گھرقیام فرمایااوران دونوں نے مل کربڑے جوش وولولہ سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی اور لوگوں کوقرآن مجید اور نماز پڑھانے لگے جس کی وجہ سے مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر عبدری مقری (پڑھانے والا)کے نام سے مشہورہوئے،

عَبْدُ بْنِ حُمَیْدٍ قَالَ، قَالَ الْأَنْصَارُ: لِلْیَهُودِ یَوْمَ یَجْتَمِعُونَ فِیهِ كُلّ سَبْعَةِ أَیّامٍ وَلِلنّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ فَهَلُمّ فَلْنَجْعَلْ یَوْمًا نَجْتَمِعُ فِیهِ وَنَذْكُرُ اللهَ وَنُصَلّی وَنَشْكُرُ أَوْ كَمَا قَالُوا، فَقَالُوا: یَوْمُ السّبْتِ لِلْیَهُودِ وَیَوْمُ الْأَحَدِ لِلنّصَارَى، فَاجْعَلُوا یَوْمَ الْعَرُوبَةِ كَانُوا یُسَمّونَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ یَوْمَ الْعَرُوبَةِ فَاجْتَمَعُوا إلَى أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ فَصَلّى بِهِمْ یَوْمَئِذٍ رَكْعَتَیْنِ فَذَكّرَهُمْ فَسَمّوْا الْجُمُعَةَ حِینَ اجْتَمَعُوا إلَیْهِ فَذَبَحَ لَهُمْ شَاةً فَتَغَدّوْا وَتَعَشّوْا مِنْ شَاةٍ وَذَلِكَ لِقِلّتِهِمْ

عبدبن حمیدکہتے ہیں اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے دیکھایہودنے سات دنوں میں شنبہ (ہفتہ) کے روزاورنصاریٰ نے یک شنبہ(اتوار) کے روزاپنی عبادت گاہوں میں جمع ہوکراپنے دین کی باتیں بیان کرتے ہیں ،اس وقت تک نمازجمعہ کاکوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا یہ دیکھ کر ان کے دل میں خیال پیداہواکہ کیوں نہ مسلمان بھی ہفتہ میں ایک دن کسی جگہ جمع ہوکراللہ تعالیٰ کاذکرکریں ،نمازپڑھیں اوراللہ تعالیٰ کاشکر بجا لائیں ،جاہلیت میں اہل عرب جمعہ کے روزکویوم عروبہ کہاکرتے تھے اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے اپنے اجتہادسے یوم عروبہ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اوربندگی کے لئے منتخب فرمایااوراسے جمعہ کانام دے کر( نقیع الخضمات کے علاقہ میں بنی بیاضہ کی بستی ھزم النبیت جومدینہ سے ایک میل کے فاصلے پرتھی) مسلمانوں کو جمعہ کی دورکعت نماز پڑھائی اورایک بکری ذبح کی،مسلمانوں کی تعداداتنی کم تھی کہ وہی گوشت ان کے دووقت صبح وشام کے کھانے کے لئے کافی ہو گیا۔[5]

وَكَانَ أَسْعَدُ بْنُ زرارة یجمع بِالْمَدِینَةِ بِمَنْ أَسْلَمَ

اسعدبن زرارہ مدینہ میں مسلمانوں کوجمعہ کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔[6]

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کی اس کوشش کوپسندفرمایااورآیات نازل فرمائیں

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹ [7]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہوجب پکاراجائے نمازکے لئے جمعہ کے دن تواللہ کے ذکرکی طرف دوڑواورخریدوفروخت چھوڑدویہ تمہارے لئے(دنیاکی مصروفیت سے) زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔

سہلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیراتنابڑااہم دینی کام شروع کردیاپھرانہوں نے دارقطنی کے حوالہ سے یہ روایت ذکرکی ہے

عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ، قَالَ أَذِنَ النّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْجُمُعَةِ قَبْلَ أَنْ یُهَاجِرَ وَلَمْ یَسْتَطِعْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُجَمّعَ بِمَكّةَ وَلَا یُبْدِیَ لَهُمْ فَكَتَبَ إلَى مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ: أَمّا بَعْدُ فَانْظُرْ الْیَوْمَ الّذِی تَجْهَرُ فِیهِ الْیَهُودُ بِالزّبُورِ لِسَبْتِهِمْ فَاجْمَعُوا نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ فَإِذَامَالَ النّهَارُ عَنْ شَطْرِهِ عِنْدَ الزّوَالِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَتَقَرّبُوا إلَى اللهِ بِرَكْعَتَیْنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہجرت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے مسلمانوں کونمازجمعہ پڑھنے کاحکم دیامکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفارکے ظلم وستم کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھا سکتے تھے، اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے اس عمل کے کچھ روزبعدہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نامہ مبارک مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکو لکھاامابعد!سورج ڈھلنے کے بعدسب مسلمان مل کر دورکعت نمازپڑھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کاتقرب حاصل کرو۔ [8]

عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ قَائِدَ أَبِی كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ حِینَ ذَهَبَ بَصَرُهُ , وَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ بِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ فَسَمِعَ الْأَذَانَ بِهَا صَلَّى عَلَى أَبِی أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ , قَالَ: فَمَكَثَ حِینًا عَلَى ذَلِكَ , لَا یَسْمَعُ الْأَذَانَ لِلْجُمُعَةِ إِلَّا صَلَّى عَلَیْهِ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ , فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَعَجْزٌ بِی حَیْثُ لَا أَسْأَلُهُ مَا لَهُ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ بِالْجُمُعَةِ صَلَّى عَلَى أَبِی أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ؟ قَالَ: فَخَرَجْتُ بِهِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ كَمَا كُنْتُ أَخْرُجُ بِهِ , فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ بِالْجُمُعَةِ صَلَّى عَلَى أَبِی أُمَامَةَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ , فَقُلْتُ لَهُ: یَا أَبَتِ مَا لَكَ إِذَا سَمِعْتَ الْأَذَانَ بِالْجُمُعَةِ صَلَّیْتَ عَلَى أَبِی أُمَامَةَ؟ قَالَ:أَیْ بُنَیَّ , كَانَ أَوَّلَ مَنْ جَمَّعَ بِالْمَدِینَةِ فِی هَزْمِ بَنِی بَیَاضَةَ یُقَالُ لَهُ نَقِیعُ الْخَضَمَاتِ , قُلْتُ: وَكَمْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ رَجُلًا.

عبدالرحمٰن کہاکرتے تھےجب میرے والدکعب رضی اللہ عنہ بن مالک نابیناہوگئے تومیں ان کوجمعہ کی نمازکے لئے لے جایاکرتاتھا جب وہ جمعہ کی اذان سنتے تو اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے لئے دعائے مغفرت فرماتے، کافی عرصہ اسی طرح گزر گیا کہ جب بھی اذان جمعہ سنتے تو ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے،میں نے اپنے دل میں کہاواللہ!یہ معذورہیں میں ان سے دریافت کروں گاکہ جب یہ جمعہ کی اذان سنتے ہیں توابوامامہ اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے لیے کیوں دعاکرتے ہیں ؟ایک روزہم جمعہ کے لیے نکلےجیساکہ نکلاکرتے تھےجب انہوں نے جمعہ کی اذان سنی تواسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے لیے مغفرت کی دعاکی،میں نے انہیں کہااے اباجان!اس کی کیاوجہ ہے کہ جب آپ جمعہ کی اذان سنتے ہیں توابوامامہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعاکرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا اے بیٹے! اس کی وجہ یہ ہےکہ ابوامامہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مدینہ منورہ میں بنی بیضاکے سنگلاخ مقام کی زمین نَقِیعُ الْخَضَمَاتِ میں ہمیں جمعہ کی نمازپڑھائی تھی،میں نے کہاآپ اس وقت کتنے لوگ تھے؟کہاہم چالیس آدمی تھے۔[9]

مدینہ منورہ کے لوگ پہلے ہی حق کے پیاسے تھے اورمدت سے اس کے لئے تڑپ رہے تھے اس لئے مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکواشاعت اسلام میں کوئی خاص زحمت نہ ہوئی ، مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کی دعوت اسلام پرلوگ پروانہ وارٹوٹ رہے تھے اور مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر پورے جوش وجذبے سے ان کو علم دین سکھارہے تھے ،یہانتک کہ کچھ لوگ اندھی غیرت اور حمیت سے سرشارہوتے اوراسلام کی طرف دیکھنابھی عارسمجھتے لیکن جونہی دین کی برکتیں دیکھتے اورقرآن مجیدفرقان حمید کی چندآیات سنتے توپتھرموم ہوجاتے ،خودبھی اسلام میں داخل ہوجاتے اوردوسروں کوبھی اس کی دعوت دیتے ،جس کی ایک مثال یہ ہے

 أَنَّ أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ خَرَجَ بِمُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ یُرِیدُ بِهِ دَارَ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَدَارَ بَنِی ظَفَرٍ، وَكَانَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ امْرِئِ الْقَیْسِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَبْدِ الْأَشْهَلِ بْنَ خَالَةِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَدَخَلَ بِهِ حَائِطًا مِنْ حَوَائِطِ بَنِی ظَفَرٍابْن مَالِكِ بْنِ الْأَوْسِ قَالَا: عَلَى بِئْرٍ یُقَالُ لَهَا: بِئْرُ مَرَقٍ ، فَجَلَسَا فِی الْحَائِطِ، وَاجْتَمَعَ إلَیْهِمَا رِجَالٌ مِمَّنْ أَسْلَمَ

اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ ، مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرعبدری کوتبلیغ اسلام کے سلسلے میں اپنے ہمراہ لے کرقبیلہ بنی عبدالاشہل اوربنی ظفرکے علاقوں میں تشریف لے گئے جن کے سردارسعد رضی اللہ عنہ بن معاذاوراسید رضی اللہ عنہ بن حضیرتھے اورابھی تک اپنے آبائی دین شرک پرقائم تھے، دونوں حضرات بنی ظفرکے باغ کے اندرایک کنواں جس کانام مرق تھاکی منڈیر پربیٹھ گئےان کودیکھ کرچنداورلوگ بھی ان کے گردجمع ہوگئے اوراسلام کی باتیں کرنے لگے

وَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، وَأُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، یَوْمَئِذٍ سَیِّدَا قَوْمِهِمَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَكِلَاهُمَا مُشْرِكٌ عَلَى دِینِ قَوْمِهِ، فَلَمَّا سَمِعَا بِهِ قَالَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ لِأُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ: لَا أَبَا لَكَ، انْطَلِقْ إلَى هَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ قَدْ أَتَیَا دَارَیْنَا لِیُسَفِّهَا ضُعَفَاءَنَا، فَازْجُرْهُمَا وَانْهَهُمَا عَنْ أَنْ یَأْتِیَا دَارَیْنَا، فَإِنَّهُ لَوْلَا أَنَّ أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ مِنِّی حَیْثُ قَدْ عَلِمْتُ كَفَیْتُكَ ذَلِكَ، هُوَ ابْنُ خَالَتِی، وَلَا أَجِدُ عَلَیْهِ مُقَدَّمًا

کسی طورپردونوں سرداروں کوبھی اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ اور مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کی آمدکاعلم ہوگیاتوسعد رضی اللہ عنہ بن معاذنے اسیدبن حضیرکوکہاکہ جاؤاوران دونوں کوجو ہمارے کمزوروں کوبیوقوف بنانے آئے ہیں ڈانٹ ڈپٹ کرواورآئندہ ہمارے محلوں میں آنے سے منع کردومیں خودجاتامگراسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ چونکہ میراخالہ ذادبھائی ہے اس لئے تمہیں بھیج رہاہوں

قَالَ: فَأَخَذَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ حَرْبَتَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ إلَیْهِمَا، فَلَمَّا رَآهُ أَسْعَدُ ابْن زُرَارَةَ، قَالَ لِمُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ: هَذَا سَیِّدُ قَوْمِهِ قَدْ جَاءَكَ، فَاصْدُقْ اللَّهَ فِیهِ ، قَالَ مُصْعَبٌ: إنْ یَجْلِسْ أُكَلِّمْهُ،قَالَ: فَوَقَفَ عَلَیْهِمَا مُتَشَتِّمًا، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكُمَا إلَیْنَا تُسَفِّهَانِ ضُعَفَاءَنَا؟ اعْتَزِلَانَا إنْ كَانَتْ لَكُمَا بِأَنْفُسِكُمَا حَاجَةٌ، فَقَالَ لَهُ مُصْعَبٌ: أَوَتَجْلِسُ فَتَسْمَعَ، فَإِنْ رَضِیتَ أَمْرًا قَبِلْتَهُ، وَإِنْ كَرِهْتَهُ كُفَّ عَنْكَ مَا تَكْرَهُ؟

اسیدبن حضیرنے اپنی تلوار اٹھائی اورباغ میں ان دونوں مسلمانوں کے پاس جاپہنچے،دورسے اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرکوآتادیکھ کر اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرسے کہاوہ دیکھو قوم عبدالاشہل کاسردارتمہارے پاس چلاآرہاہے،اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سچائی اختیارکرنا،مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے کہا اگر یہ ہمارے پاس بیٹھاتومیں اس سے گفتگوکروں گا،اس اثنامیں اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرکنوئیں پرآن پہنچے اورآتے ہی دونوں مسلمانوں پربرس پڑے اورکہنے لگے کہ تم کیوں ہمارے محلوں میں آتے ہو؟ہماری عورتوں اوربچوں کو کیوں بہکاتے ہو ؟تمہارے لئے بہتریہی ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ اوراپنے ارادوں سے بازرہو،اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ اور مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر نے بڑے ضبط وتحمل سے ساری ڈانٹ ڈپٹ سنی،جب اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرچپ ہوئے تو مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے بڑے ادب سے گزارش کی کہ اے بنو عبدالاشہل کے سردار!کیایہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے پاس تشریف رکھیں اورہم جودعوت پیش کرتے ہیں اسے سنیں اگرہماری دعوت پسندآجائے توقبول کرلیں اوراگرپسندنہ آئے توآپ کواختیارہے؟

قَالَ: أَنْصَفْتَ، ثُمَّ رَكَزَ حَرْبَتَهُ وَجَلَسَ إلَیْهِمَا فَكَلَّمَهُ مُصْعَبٌ بِالْإِسْلَامِ، وَقَرَأَ عَلَیْهِ الْقُرْآنَ فَقَالَا: فِیمَا یُذْكَرُ عَنْهُمَا: وَاَللَّهِ لَعَرَفْنَا فِی وَجْهِهِ الْإِسْلَامَ قَبْلَ أَنْ یَتَكَلَّمَ فِی إشْرَاقِهِ وَتَسَهُّلِهِ،ثُمَّ قَالَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا الْكَلَامَ وَأَجْمَلَهُ! كَیْفَ تَصْنَعُونَ إذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا فِی هَذَا الدِّینِ؟ قَالَا لَهُ: تَغْتَسِلُ فَتَطَّهَّرُ وَتُطَهِّرُ ثَوْبَیْكَ، ثُمَّ تَشْهَدُ شَهَادَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ تُصَلِّی، فَقَامَ فَاغْتَسَلَ وَطَهَّرَ ثَوْبَیْهِ، وَتَشَهَّدَ شَهَادَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَیْنِ

یہ بات سن کراسید رضی اللہ عنہ بن حضیرنے کہاآپ انصاف کی بات کہہ رہے ہیں اورتلواررکھ کر دعوت اسلام سننے کے لئے بیٹھ گئے، مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے انہیں اسلام کی چندخوبیاں بیان کیں اورقرآن مجیدکی چندآیات کی تلاوت فرمائی جسے سنکراسیدبن حضیرکے چہرے کارنگ متغیرہوگیا،قرآن مجیدکی حقانیت،سادگی اوروسعت نے انکے دل میں گھر کرلیااللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں اپنے رسول کی رفاقت کے لئے چن لیا،دنیاوآخرت میں ان کے لئے کامیابیوں ،مرتبوں کے دروازے کھول دیئے، ان کے سچائی سے چمکتے چہرے دیکھ کردونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کوان کی دلی کیفیت کااندازہ ہوگیاکہ اللہ نے ان کے دل کی دنیابدل دی ہے،کچھ دیرخاموش رہنے کے بعداسید بن حضیربولے یہ تو بہت ہی عمدہ اوربہترین کلام ہے!تمہارے دین میں داخل ہونے کاکیاطریقہ ہے؟ مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے کہاآپ غسل کرکے پاک کپڑے زیب تن کرلیں اورپھرکلمہ شہادت پڑھ کر دو رکعت نمازاداکریں ،اسیدبن حضیرنے فوراًہی غسل فرمایاپاک کپڑے پہنے اور کلمہ شہادت پڑھ کردورکعت نمازادافرمائی اس طرح وہ مسلمانوں میں شامل ہوگئے،

ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: إنَّ وَرَائِی رَجُلًا إنْ اتَّبَعَكُمَا لَمْ یَتَخَلَّفْ عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ قَوْمِهِ، وَسَأُرْسِلُهُ إلَیْكُمَا الْآنَ، سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ ثُمَّ أَخَذَ حَرْبَتَهُ وَانْصَرَفَ إلَى سَعْدٍ وَقَوْمِهِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِی نَادِیهِمْ، فَلَمَّا نَظَرَ إلَیْهِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُقْبِلًا، قَالَ أَحْلِفُ باللَّه لَقَدْ جَاءَكُمْ أُسَیْدٌ بِغَیْرِ الْوَجْهِ الَّذِی ذَهَبَ بِهِ مِنْ عِنْدِكُمْ،فَلَمَّا وَقَفَ عَلَى النَّادِی قَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا فَعَلْتَ؟

اس کے بعدبولے میرے پیچھے سعدبن معاذہیں اگراس نے تمہارادین قبول کرلیاتو بنو عبدالاشہل کاکوئی فرددین اسلام سے پیچھے نہیں رہے گا میں جاکراسے تمہارے پاس بھیجتاہوں ،اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرنے اپنی تلواراٹھائی اورواپس سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ کے پاس جاپہنچے جواس وقت اپنی قوم کے لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے ، دورسے اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرکوآتادیکھ کرسعد رضی اللہ عنہ بن معاذاپنی قوم سے بولے بخدااسیدبن حضیر جوچہرہ لے کر آ رہا ہے اس چہرہ سے مختلف ہے جولے کرگیاتھا،جب اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر قریب پہنچ گئے تو سعد رضی اللہ عنہ بن معاذنے پوچھا اے سعد!تم نے ان دونوں مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟

قَالَ: كلّمت الرجلَیْن، فو الله مَا رَأَیْتُ بِهِمَا بَأْسًا، وَقَدْ نَهَیْتُهُمَا، فَقَالَا: نَفْعَلُ مَا أَحْبَبْتَ، وَقَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ بَنِی حَارِثَةَ قَدْ خَرَجُوا إلَى أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ لِیَقْتُلُوهُ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ قَدْ عَرَفُوا أَنَّهُ ابْنُ خَالَتِكَ، لِیُخْفِرُوكَ،قَالَ: فَقَامَ سَعْدٌ مُغْضَبًا مُبَادِرًا، تَخَوُّفًا لِلَّذِی ذُكِرَ لَهُ مِنْ بَنِی حَارِثَةَ، فَأَخَذَ الْحَرْبَةَمِنْ یَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَاَللَّهِ مَا أَرَاكَ أَغْنَیْتَ شَیْئًا، ثُمَّ خَرَجَ إلَیْهِمَا، فَلَمَّا رَآهُمَا سَعْدٌ مُطْمَئِنَّیْنِ، عَرَفَ سَعْدٌ أَنَّ أُسَیْدًا إنَّمَا أَرَادَ مِنْهُ أَنْ یَسْمَعَ مِنْهُمَافَوَقَفَ عَلَیْهِمَا مُتَشَتِّمًا، ثُمَّ قَالَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ: یَا أَبَا أُمَامَةَ، (أَمَا وَاَللَّهِ) ، لَوْلَا مَا بَیْنِی وَبَیْنَكَ مِنْ الْقَرَابَةِ مَا رُمْتَ هَذَا مِنِّی، أَتَغْشَانَا فِی دَارَیْنَا بِمَا نَكْرَهُ

اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرنے جواب دیاویسے تومیں نے انہیں یہاں آنے سے منع کردیاہے اورانہوں نے کہاہے کہ وہ وہی کچھ کریں گے جوآپ چاہیں گے مگرمیں نے ان دونوں سے گفتگوکی توواللہ مجھے ان کی باتوں میں کچھ غلط نظرنہیں آیااورمجھے معلوم ہواہے کہ بنی الحارثہ کے لوگ تمہارے خالہ زاداسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کوقتل کرنے گئے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کاعہد توڑ دیں ،اپنے خالہ زاد بھائی کے قتل کی بات سن کرسعد رضی اللہ عنہ بن معاذکی جاہلی حمیت بھڑک اٹھی اور وہ اپنی تلوار اٹھاکرسیدھے باغ میں دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس جا پہنچے جواطمینان سے بیٹھے باتیں کررہے تھے ، سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ ، اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر کی اس چال کوبھانپ گئے کہ اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرنے انہیں یہاں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ خوداپنے کانوں سے اس پاکیزہ کلام اوردعوت اسلام کو سنیں ،مگر سعدبن معاذانہیں برابھلاکہنے لگےاوراسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کی طرف متوجہ ہوکربولےاے ابو امامہ بخدا اگر میرے اورتمہارے درمیان قرابت کامعاملہ نہ ہوتا اور تم میرے خالہ زادبھائی نہ ہوتے توابھی تلوارسے تمہارا سرقلم کردیتا،قوم کے بھولے بھالے لوگوں کوبہکانے کے لئے تم ہی ان لوگوں کویہاں لے کرآئے ہو،

قَالَ: فَقَالَ لَهُ مُصْعَبٌ: أَوَتَقْعُدُ فَتَسْمَعَ، فَإِنْ رَضِیتَ أَمْرًا وَرَغِبْتَ فِیهِ قَبِلْتَهُ، وَإِنْ كَرِهْتَهُ عَزَلْنَا عَنْكَ مَا تَكْرَهُ؟قَالَ سَعْدٌ: أَنْصَفْتَ. ثُمَّ رَكَزَ الْحَرْبَةَ وَجَلَسَ،فَعَرَضَ عَلَیْهِ الْإِسْلَامَ، وَقَرَأَ عَلَیْهِ الْقُرْآنَ، قَالَا: فَعَرَفْنَا وَاَللَّهِ فِی وَجْهِهِ الْإِسْلَامَ قَبْلَ أَنْ یَتَكَلَّمَ، لِإِشْرَاقِهِ وَتَسَهُّلِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: كَیْفَ تَصْنَعُونَ إذَا أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَدَخَلْتُمْ فِی هَذَا الدِّینِ؟ قَالَا: تَغْتَسِلُ فَتَطَّهَّرُ وَتُطَهِّرُ ثَوْبَیْكَ، ثُمَّ تَشْهَدُ شَهَادَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ تُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ، قَالَ: فَقَامَ فَاغْتَسَلَ وَطَهَّرَ ثَوْبَیْهِ، وَتَشَهَّدَ شَهَادَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ رَكَعَ رَكْعَتَیْنِ

مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر نے کہااے سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ!آپ کچھ دیرہمارے پاس بیٹھیں اورہماری دعوت کوسنیں اگر ہماری دعوت آپ کی سمجھ میں آجائے توقبول کرلیں اوراگرہماری دعوت آپ کوبارخاطر محسوس ہوتوہم اس دعوت کوپھرآپ کے سامنے پیش نہیں کریں گے، سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ کو مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کا انداز بیاں بہت پسندآیا اورکہنے لگے آپ نے دل لگتی بات کی ہے میں آپ کی دعوت ضرورسنوں گایہ کہہ کراپنی تلوارگود میں رکھ کربیٹھ گئے،مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے انہیں اسلام پیش کیااورقرآن مجیدسے چندآیات تلاوت فرمائیں ،اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنتے ہی ان کے دل کی دنیابدل گئی، اللہ تعالیٰ نے ان پررحمت کے دروازے کھول دیئے اور اپنے رسول کی رفاقت کے لئے انہیں چن لیا ، سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکے چہرے کی تابانی دیکھ کر مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیراور اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے فوراًاندازہ لگا لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی دنیاروشن کرکے انہیں صراط مستقیم کی راہ عنایت فرمادی ہے کچھ دیر بعدسعد رضی اللہ عنہ بن معاذنے دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیاکہ جب تم لوگ اسلام قبول کرتے ہو تو کیاکرتے ہو؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیاآپ غسل کرکے پاک ہوجائیں ،پاک کپڑے پہنیں اورپھرکلمہ شہادت پڑھیں اوردو رکعت نمازپڑھیں ،سعد رضی اللہ عنہ بن معاذنے غسل کرکے پاک کپڑے پہنے پھرکلمہ شہادت پڑھ کر دو رکعت نمازپڑھی اور مسلمانوں میں شامل ہوگئے،

ثُمَّ أَخَذَ حَرْبَتَهُ، فَأَقْبَلَ عَامِدًا إلَى نَادِی قَوْمِهِ وَمَعَهُ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ.قَالَ: فَلَمَّا رَآهُ قَوْمُهُ مُقْبِلًا، قَالُوا: نَحْلِفُ باللَّه لَقَدْ رَجَعَ إلَیْكُمْ سَعْدٌ بِغَیْرِ الْوَجْهِ الَّذِی ذَهَبَ بِهِ مِنْ عِنْدِكُمْ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَیْهِمْ قَالَ: یَا بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، كَیْفَ تَعْلَمُونَ أَمْرِی فِیكُمْ؟قَالُوا: سَیِّدُنَا (وَأَوْصَلُنَا)وَأَفْضَلُنَا رَأْیًا، وَأَیْمَنُنَا نَقِیبَةً، قَالَ: فَإِنَّ كَلَامَ رِجَالِكُمْ وَنِسَائِكُمْ عَلَیَّ حَرَامٌ حَتَّى تُؤْمِنُوا باللَّه وبرسوله، قَالَا: فو الله مَا أَمْسَى فِی دَارِ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ رَجُلٌ وَلَا امْرَأَةٌ إلَّا مُسْلِمًا وَمُسْلِمَةً

پھرتلوار اٹھاکراسیدبن حضیرکے ہمراہ اپنے قبیلے میں تشریف لے گئے ،قبیلے کے لوگوں نے دورسے ہی ان کے بدلے ہوئے چہرے سے ہی اندازہ لگا لیاکہ یہ وہ سعد رضی اللہ عنہ بن معاذنہیں جواس محفل سے اٹھ کرگئے تھے،محفل میں پہنچ کراپنے قبیلے کے لوگوں سے مخاطب ہوکرگویاہوئے اے بنی عبدالاشہل!تم لوگ مجھے کیاسمجھتے ہو؟اہل محفل نے جواب دیاآپ ہمارے سردارہیں اوربہترین رائے اورمشورے میں افضل ہیں ،سعد رضی اللہ عنہ بن معاذنے فرمایا اچھا تو سنو آج سے مجھ کوتمہارے مردوعورت اوربچہ ،بوڑھے سب سے کلام کرنا حرام ہے جب تک تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ، سعد رضی اللہ عنہ بن معاذاپنے قبیلے میں بہت ہردلعزیزتھے ، قبیلہ کے لوگوں نے جب اپنے سردارکاایساسخت کلام سناتو سورج ڈھلنے سے پیشتر ہی تمام قبیلہ کلمہ شہادت پڑھ کرمسلمان ہوگیا۔

صرف ایک شخص عمروبن ثابت بن قیس جن کا لقب اصیرم تھا دائرہ اسلام سے باہررہااس نے غزوہ احد کے دن اسلام قبول کیا اورکوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اسی غزوہ میں ہی شہادت کے منصب پرفائزہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت سنائی ،ابن اسحاق سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے دریافت کرتے

كَانَ یَقُولُ: حَدِّثُونِی عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ لَمْ یُصَلِّ قَطُّ فَإِذَا لَمْ یَعْرِفْهُ النَّاسُ سَأَلُوهُ: مَنْ هُوَ؟فَیَقُولُ: أُصَیْرِمُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ عَمْرُو بْنُ ثَابِتِ بْنِ وَقْشٍ

بتاؤوہ کون شخص ہے جس نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی مگرجنت میں پہنچ گیاجب لوگ اس معمہ کاجواب نہ دے پاتے توخودہی جواب دیتے وہ شخص قبیلہ بنی عبدالاشہل میں اصیرم ہے۔ [10]

وَرَجَعَ أَسْعَدُ وَمُصْعَبٌ إلَى مَنْزِلِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَأَقَامَ عِنْدَهُ یَدْعُو النَّاسَ إلَى الْإِسْلَامِ، حَتَّى لَمْ تَبْقَ دَارٌ مِنْ دُورِ الْأَنْصَارِ إلَّا وَفِیهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ مُسْلِمُونَ

ادھرابوامامہ رضی اللہ عنہ اورمصعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوتلقین کرنی شروع کی یہاں تک کہ انصارمیں سے کوئی گھرایسانہ تھاجس میں مردوعورت سب مسلمان نہ ہوں ،اس طرح مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر اور اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کی کوششوں سے مدینہ منورہ کے ہر گھرمیں توحیدکی شمع روشن ہوگئی مگرکچھ بدنصیب تھے جوشرک پراڑے رہے اوراپنے آبائی دین کوچھوڑنے کے لئے تیارنہ ہوئے جیسے بنوامیہ بن زید، خطمہ ،وائل اورواقف کے گھرانوں کے کہ ابوقیس بن اسلت صیفی جوایک شاعر اوران کالیڈر تھااوروہ لوگ اس کے زیراثرتھے اس کی سعی سے غزوہ احزاب پانچ ہجری تک اسلام میں داخل نہ ہوئے، اس طرح ایک ہی سال میں مدینہ منورہ میں گھرگھردین کا چراغ روشن ہوگیااورگلی گلی اسلام کاڈنکابجنے لگا،تقریباًایک سال گزرچکاتھا حج کامہینہ آنے والاتھا

فَقَدِمَ مَكَّةَ فَجَاءَ مَنْزِلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلا وَلَمْ یَقْرَبْ مَنْزِلَهُ. فَجَعَلَ یُخْبِرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الأَنْصَارِ وَسُرْعَتِهِمْ إِلَى الإِسْلامِ وَاسْتِبْطَأَهُمْ

مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ منورہ کے حالات سے باخبر کرنے کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے توسب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورمدینہ منورہ میں تیزرفتاری سے مسلمان ہونے والے مردوزن،قبائل کے آپس کی اختلافات،یہودیوں کی شورشوں ، مخالفتوں اور ان کی جنگی طاقت ولیاقت کی رپورٹ پیش فرمائی۔[11]

وَبَلَغَ أُمَّهُ أَنَّهُ قَدْ قَدِمَ فَأَرْسَلَتْ إِلَیْهِ: یَا عَاقُّ أَتَقْدَمُ بَلَدًا أَنَا فِیهِ لا تَبْدَأُ بِی؟فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأَبْدَأَ بِأَحَدٍ قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا سَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرَهُ بِمَا أَخْبَرَهُ ذَهَبَ إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَتْ: إِنَّكَ لَعَلَى مَا أَنْتَ عَلَیْهِ مِنَ الصَّبْأَةِ بَعْدُ! قَالَ: أَنَا عَلَى دَیْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الإِسْلامُ الَّذِی رَضِیَ اللَّهُ لِنَفْسِهِ وَلِرَسُولِهِ

جب مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کی والدہ کوبیٹے کے آنے کی خبرہوئی تواس نے انہیں کہلابھیجا کہ تواس شہرمیں جس میں میں ہوں اس طرح آتاہے کہ پہلے مجھ سے نہیں ملتا؟انہوں نے کہامیں ایسانہیں ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی اورسے ملوں ، جب انہوں نے سلام کرلیااورجوکچھ بتاناتھابیان کرچکے تواپنی والدہ کے پاس گئے،اس نے کہاتم اب تک اسی غیردین پرہوجس پرتھے،مصعب رضی اللہ عنہ نے کہامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پرہوں جواسلام ہے جس کواللہ نے اپنے لئے اوراپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پسند فرمایا ہے،

قَالَتْ: مَا شَكَرْتَ مَا رَثَیْتُكَ مَرَّةً بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ وَمَرَّةً بِیَثْرِبَ.فَقَالَ: أُقِرُّ بِدِینِی إِنْ تَفْتُنُونِی. فَأَرَادَتْ حَبْسَهُ فَقَالَ: لَئِنْ أَنْتِ حَبَسْتَنِی لأحرصن على قتل من یتعرض لی، قال: فَاذْهَبْ لِشَأْنَكَ. وَجَعَلَتْ تَبْكِی، فَقَالَ مُصْعَبٌ: یَا أُمَّةُ إِنِّی لَكِ نَاصِحٌ عَلَیْكِ شَفِیقٌ فَاشْهَدِی أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. قَالَتْ:وَالثَّوَاقِبِ لا أَدْخَلُ فِی دِینِكَ فَیُزْرَى بِرَأْیِی وَیُضَعَّفَ عَقْلِی وَلَكِنِّی أَدَعُكَ وَمَا أَنْتَ عَلَیْهِ وَأُقِیمُ عَلَى دِینِی

اس نے کہاتم نے اس کاکیاشکرکیاجومیں نے ایک مرتبہ ملک حبشہ میں اورایک مرتبہ یثرب میں تمہاراغم کیا ،انہوں نے کہامیں اپنے دین پرقائم ہوں اگراب کسی نے مجھے ایذادینے کاارادہ کیاتومیں اسے قتل کردوں گاتم لوگ مجھے فتنے میں ڈالو(جب بھی)اس نے ان کے قیدکرنے کاارادہ کیاتوانہوں نے کہااگرتومجھے قیدکرے گی توجومجھے روکے گامجھے اس کے قتل کرنے کی حرص ہوگی،ماں نے کہاکہ اپنے حال پرچلاجااوررونے لگیں ، مصعب رضی اللہ عنہ نے اسے نہایت نرمی سے سمجھایاپیاری ماں !میں تیراخیرخواہ ہوں اورتجھ پرشفیق ہوں تولاالٰہ الااللہ محمدعبدہ ورسولہ کی شہادت دے کہ تمہاری بھلائی اسی میں ہے، لیکن کفروشرک ماں کی گھٹی میں پڑاہواتھااس نے کہاچمکتے ستاروں کی قسم !میں ہرگز تیرے دین میں داخل نہ ہوں گی کہ میری رائے کوعیب لگایاجائے اورعقل کوضعیف کہاجائے ،میں تجھے اورتیرے دین کوچھوڑتی ہوں (جی میں جیساآئے ویساکرنا)البتہ میں اپنے دین پرقائم ہوں ۔[12]

قیس رضی اللہ عنہ بن مالک ارحبی کاقبول اسلام

ابن ماکولا رحمہ اللہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ معظمہ ہی میں تھے (یعنی ہجرت سے قبل)کہ بنی ارحب کے ایک آدمی قیس رضی اللہ عنہ بن مالک ارحبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوااورعرض کیامیں آپ پرایمان لانے کے لئے حاضرہواہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آمدپرخوشی کااظہارفرمایاپھران سے مخاطب ہوکرپوچھااے گروہ ہمدان (بنو ارحب قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ تھے)کیاتم مجھے ان باتوں کے ساتھ(جن کی میں تبلیغ کرتاہوں )اپنے ساتھ لے جاؤگے؟قیس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پرقربان ہم دل وجاں سے آپ کواپنے ساتھ لے جائیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اپنی قوم کے پاس جاؤاوراسے حق کی طرف دعوت دو، چنانچہ حسب ہدایت قیس رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے میں چلے گئے اورلوگوں کودین حق کی طرف دعوت دیناشروع کردیایہاں تک کہ بنوارحب مشرف بہ اسلام ہوگئے،قیس رضی اللہ عنہ بن مالک نے واپس آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے قبیلے کے مسلمان ہونے کی اطلاع دی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت مسرورہوئے اورقیس رضی اللہ عنہ بن مالک کی تعریف فرمائی ،قوم کاایلچی قیس رضی اللہ عنہ کیاہی اچھا ہے، اے قیس تونے وعدہ وفائی کی ہے اللہ تجھ سے وعدہ وفائی فرمائے گا،آپ نے قیس رضی اللہ عنہ بن مالک کی پیشانی پراپنادست مبارک پھیرالیکن آپ یمن نہیں گئے۔

حافظ بن حجر رحمہ اللہ اورعلامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس رضی اللہ عنہ بن مالک ارحبی کوایک تحریربھیجی تھی(جس کازمانہ ہجرت کے کئی سال بعدکامعلوم ہوتاہے)اس تحریرکامتن یہ تھا ۔

بِاسْمِكَ اللهُمَّ:مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَیْسِ بْنِ مَالِكٍ

 سَلَامٌ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ

 أَمَّا بَعْدُ:ذَلِكُمْ إِنِّی أَسْتَعْمِلُكَ عَلَى قَوْمِكَ عَرَبِهِمْ وَخُمُورِهِمْ وَمَوَالِیهِمْ، وَأُقْطِعُكَ مِنْ ذُرَةِ نَشَانَ مِائَتَیْ صَاعٍ، وَمِنْ زَبِیبِ خَیْوَانَ مِائَتَیْ صَاعٍ، جَارٍ لَكَ ذَلِكَ وَلِعَقِبِكَ مِنْ بَعْدِكَ أَبَدًا أَبَدًا أَبَدًا

تم پر سلام ہو،بعداس کے واضح ہوکہ میں نے تم کوتمہاری قوم پرخواہ وہ بدوی ہویاشہری یاغلام سب پرحاکم بنایااورمقام نساء کے غلہ سے دوسوصاع اورخیوان کے انگورسے دو سو صاع تمہارے لئے مقررکیے،یہ عطیہ تمہارے لئے اورتمہاری اولادکے لئے ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

قَالَ قَیْسٌ: فَقَوْلُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَبَدًا أَبَدًا أَبَدًا أَحَبُّ إِلَیَّ، إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَبْقَى عَقِبِی أَبَدًا

قیس رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے تھے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاابدا،ابدا،ابدا کہنا بہت محبوب ہے ،اس سے مجھے امیدہے کہ میری نسل ہمیشہ قائم رہے گی۔[13]

[1] ابن ہشام۴۲۹ ؍۱،الروض الانف۴۵؍۴

[2] صحیح بخاری کتاب کفارات الایمان بَابُ تَوْبَةِ السَّارِقِ ۶۸۰۱،و کتاب تفسیرالقرآن سورة الممتحنة بَابُ إِذَا جَاءَكَ المُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَكَ ۴۸۹۴،وکتاب التوحیدالجھمیة بَابُ فِی المَشِیئَةِ وَالإِرَادَةِ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللَّهُ۷۴۶۸،مسنداحمد۲۲۷۳۳،ابن ہشام۴۳۱؍۱،الروض الانف ۵۲؍۴،ابن سعد۵؍۸

[3] الممتحنة ۱۲

[4]ابن ہشام ۴۳۱؍۱،الروض الانف۴۸؍۴

[5] فتح الباری ۶۹؍۸،الروض الانف۵۶؍۴

[6] ابن سعد۱۷۱؍۱

[7]الجمعة ۹

[8]الروض الانف ۵۷؍۴

[9] صحیح ابن خزیمة۱۷۲۴،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۷۶،مستدرک حاکم ۴۸۵۸،صحیح ابن حبان ۷۰۱۳،سنن الدارقطنی ۱۵۸۵،السنن الکبری للبیہقی ۵۶۰۵،معرفة السنن والآثار۶۳۱۱،السنن الصغیرللبیہقی۶۰۹،ابن ہشام ۴۳۵؍۱،الروض الانف۵۵؍۴،البدایة والنھایة۱۸۵؍۳

[10]مسند احمد ۲۳۶۳۴،شرح زرقانی علی المواھب۸۵؍۲،ابن ہشام۹۰؍۲،الروض الانف۱۴؍۶

[11] ابن سعد۸۸؍۳

[12] ابن سعد۸۸؍۳

[13] اسدالغابة۴۲۱؍۴ ، ۱۴۲؍۴،جامع المسانیدوالسنن۸۹۱۷، مجموعة الوثائق السیاسیة للعهد النبوی والخلافة الراشدة۲۳۲؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم۲۳۲۱؍۴

Related Articles