بعثت نبوی کا بارهواں سال

مضامین سورۂ الانعام(حصہ دوم)

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَیْدِیهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ ‎﴿٩٣﴾‏ وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِینَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِیكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ‎﴿٩٤﴾‏(الانعام)
’’اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گےاور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ،اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ہمراہ تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں شریک ہیں، واقع تمہارے آپس میں قطع تعلق تو ہوگیا اور تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا ہے۔‘‘

مغضوب لوگ :

اوراس شخص سے بڑاظالم اورکون ہوگاجواللہ پرجھوٹابہتان گھڑے کہ اللہ اولادرکھتاہےیااس کے کئی شریک ہیں یایہ کہے کہ وہ اللہ کارسول ہے اور مجھ پروحی آئی ہے درآں حالے کہ نہ وہ اللہ کارسول ہواورنہ اس پرکوئی وحی نازل کی گئی ہو،

عَنْ عِكْرِمَةَ، قَوْلُهُ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ، قَالَ: نَزَلَتْ فِی مُسَیْلِمَةَ

عکرمہ آیت کریمہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ کے بارے میں فرماتے ہیں یہ آیت مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے[1]

یاجواللہ کی نازل کردہ وحی کے مقابلہ میں صف آراہوکر کہے کہ میں بھی ایساکلام پیش کرسکتاہوں ؟ یعنی وہ بھی اسی طرح شریعت بناسکتاہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے ،جیسے فرمایا

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ ۔۔۔۝۳۱ [2]

ترجمہ:جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں ۔

کاش تم ظالموں کواس حالت میں دیکھ سکوجب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھارہے ہوتے ہیں اور فرشتے جان نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھابڑھاکراورمارپیٹ کرکہہ رہے ہوتے ہیں ،

عَنِ الضَّحَّاكِ:وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَیْدِیهِمْ، قَالَ:بِالْعَذَابِ

ضحاک رحمہ اللہ اورابوصالح رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَیْدِیهِمْ کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ وہ ان کی طرف عذاب کے لیے ہاتھ بڑھارہے ہوں گے ۔[3]

جیسےایک اورمقام پر فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا۝۰ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۔۔۔ ۝۵۰ [4]

ترجمہ: کاش! تم اس حالت کودیکھ سکتے جب کہ فرشتے مقتول کافروں کی روحیں قبض کررہے تھے وہ ان کے چہروں اوران کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے ۔

جبکہ روحیں جسموں سے نکلنے سے انکارکریں گی تو فرشتے کہتے ہیں کہ لاؤنکالواپنی جان،آج سے تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت ورسوائی کا عذاب دیاجائے گاجو تم اللہ پر تہمت رکھ کرناحق بکاکرتے تھے اوراس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے،تفصیل کے ساتھ توحیدپردلائل بیان کرتے ہوئے مشرکین کودعوت فکردی گئی اوراس سلسلہ میں حشرکاایک منظربیان کیاگیاکہ جب اللہ انسانوں کو اسی جسم وجان کے ساتھ قبروں سے زندہ کرے گااورپکارنے والے کی آوازپروہ میدان محشرمیں جمع ہوجائیں گے تواللہ فرمائے گاتم توحیات بعدالموت،حساب کتاب اورجزاوسزاکومحال سمجھتے تھے تواب دیکھ لو تم ویسے ہی تنہاہماری بارگاہ میں حاضرہوگئے جیساہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیداکیاتھا،جیسے فرمایا

وَعُرِضُوْا عَلٰی رَبِّكَ صَفًّا۝۰ۭ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍؚ۝۰ۡبَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا۝۴۸ [5]

ترجمہ: اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے جائیں گے لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔

جوکچھ ہم نے تمہیں دنیامیں دیاتھا،جن نعمتوں سے ہم نے تمہیں نوازاتھا،جس مال ودولت اورحیثیت ومرتبہ پرتم اتراتے اورجس کی وجہ سے ایمان لانے سے گریزاں تھے وہ سب تم دنیامیں چھوڑآئے ہووہ سب کچھ اب تمہارے کسی کام نہ آئے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: یَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِی، مَالِی، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ، وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانسان کہتاہے میرامال،میرامال ،حالانکہ تیرامال وہی ہے جسے تونے کھاپی لیا،وہ فناہوگیا یاتونے پہن اوڑھ لیا،وہ پھٹاپراناہوکرضائع ہوگیایاتونے اللہ کے نام پرخیرات کیاوہ باقی رہا،اس کے سواجوکچھ ہے اسے توتواوروں کے لئے چھوڑکریہاں سے جانے والاہے۔[6]

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ یُؤْتَى بِابْنِ آدَمَ یَوْمَ القیامة كأنه بذبح فَیَقُولُ لَهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَیْنَ مَا جَمَعْتَ؟ فَیَقُولُ یَا رَبِّ جَمَعْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَوْفَرَ مَا كَانَ، فَیَقُولُ: فَأَیْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِكَ فَلا تَرَاهُ قَدَّمَ شَیْئًا وَتَلا هَذِهِ الآیَةَ:وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ ما خولناكم وراء ظهوركم.

حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایاابن آدم کوقیامت کے دن اس طرح لایاجائے گاکہ وہ بکری کے بچے کی طرح کمزوراورلاغرساہوگااللہ عزوجل فرمائے گاتونے جومال جمع کیاتھاوہ کہاں ہے؟بندہ جواب دے گاکہ اے میرے رب!میں نے اسے جمع توکیامگرجتناجمع کیااس سے بھی زیادہ پیچھے چھوڑآیاہوں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گاابن آدم!ذرایہ توبتاکہ تونے اپنے لیے آگے کیابھیجاتھا؟لیکن وہ کوئی ایسی چیزنہیں دیکھے گاجسے اس نے آگے بھیجاہوپھرحسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ’’ (اوراللہ فرمائے گا)لواب تم ویسے ہی تنہاہمارے سامنے حاضرہوگئے جیساہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلاپیداکیاتھا، جوکچھ ہم نے تمہیں دنیامیں دیاتھا وہ سب تم پیچھے چھوڑآئے ہو۔‘‘کی تلاوت فرمائی۔[7]

اوراب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کوبھی نہیں دیکھتے ،جو دنیامیں تمہاری زندگیوں اورتمہارے دین وایمان کے ساتھ کھیلتے تھے،اللہ کوچھوڑکر جن کوتم مستحق عبادت سمجھتے تھے اورجن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ تمہارے بگڑے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ ساجھاہے، اور روزقیامت وہ تمہاری شفاعت کریں گے اوراللہ کے عذاب سے بچالیں گے،بے بس اورلاچارمعبودان کی بے چارگی کو متعدد مقامات پربیان فرمایا

 وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَاۗءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۶۲ [8]

ترجمہ:اور بھول نہ جائیں یہ لوگ اس دن کو جب کہ وہ ان کو پکارے گااور پوچھے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے؟ ۔

 وَقِیْلَ لَہُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ۝۹۲ۙمِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ ہَلْ یَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ یَنْتَصِرُوْنَ۝۹۳ۭ [9]

ترجمہ:اور ان سے پوچھا جائے گا کہ اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ؟۔

لیکن آج تمہارے اورتمہارے شرکاء کے مابین سفارش وغیرہ کے تمام روابط اورتعلقات منقطع ہوگئے اوروہ سب شریک تم سے گم ہوگئے ہیں جن کاتم زعم رکھتے تھے ۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُرِیْہِمُ اللہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ۝۰ۭ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۝۱۶۷ۧ [10]

ترجمہ:جب وہ سزادے گااوراس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوااوررہنماجن کی دنیامیں پیروی کی گئی تھی ،اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہرکریں گے ،مگرسزاپاکررہیں گے اوران کے سارے اسباب ووسائل کاسلسلہ کٹ جائے گا،اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے کہیں گے کہ کاش! ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بےزاری ظاہر کر رہے ہیں ہم ان سے بےزار ہو کر دکھا دیتے، یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱۰۱ [11]

ترجمہ:پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا۝۰ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۡوَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۲۵ۤۙ [12]

ترجمہ:اور اس نے (ابراہیم علیہ السلام ) کہا تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گےاور آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا۔

وَقِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ۔۔۔۝۰۝۶۴ [13]

ترجمہ:پھر ان سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو، یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْٓا اَیْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۲۲ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللہِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ۝۲۳ اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۲۴ [14]

ترجمہ:جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا الٰہ سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ(یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے،دیکھو، اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے، اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو جائیں گے۔

إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ ‎﴿٩٦﴾‏ وَهُوَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٩٧﴾‏ وَهُوَ الَّذِی أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَهُونَ ‎﴿٩٨﴾(الانعام)
’’بے شک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے، وہ جاندار کو بےجان سے نکال لاتا ہے اور وہ بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو،وہ صبح کا نکالنے والاہےاور اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے، یہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جو قادر ہے بڑے علم والا ہے، اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کرسکو ،بے شک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں ان لوگوں کے لیے جو خبر رکھتے ہیں، اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے رہنے کی، بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی حیرت ناک قدرت :

آخرت کی تصویرکشی کے بعدوحدانیت،بے مثال قدرت اورانوکھی صنعت گری پردلائل کاسلسلہ شروع کرتے ہوئے فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ ہی مردہ دانے اورمردہ گھٹلی کوجسے کاشت کارزمین کی تہ میں دبادیتاہے ،جنہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتاہے لیکن جس جس چیزکے وہ دانے یاگھٹلیاں ہوتی ہیں ان کوزمین کی تہوں میں پھاڑکر غلوں اور انواع واقسام کے پھلوں کے تناور درخت ان سے پیدافرمادیتاہے ، جیسے فرمایا

وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙلِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ۝۰ۙ وَمَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۳۵ [15]

ترجمہ:ان لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ، ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالاجسے یہ کھاتے ہیں ،ہم نے اس میں کھجوروں اورانگوروں کے باغ پیداکیے اوراس کے اندرسے چشمے پھوڑنکالے تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ،یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کاپیداکیاہوانہیں ہےپھرکیایہ شکرادانہیں کرتے۔

وہی اللہ وحدہ لاشریک بے جان مادہ سے زندہ مخلوق کوپیداکرتاہے اور جانداراجسام میں سے بے جان مادوں کو خارج کرتا ہے ،یہ سارے حیرت ناک افعال سرانجام دینے والاتو اللہ وحدہ لاشریک ہے ،چنانچہ تمام مخلوق پرفرض ہے کہ وہ اس کی الوہیت وعبودیت کوتسلیم کرے مگرتم اس شان کے مالک رب کی عبادت کوچھوڑکرایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہوجوخوداپنے لئے کسی نفع ونقصان،موت وحیات اوردوبارہ اٹھانے پرقادرنہیں ہیں ،جس طرح اللہ تعالیٰ دانے اورگھٹلی کوپھاڑتاہے اسی طرح وہی رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کودن کی نورانیت سے پھاڑ دیتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا۔۔۔۝۰۝۵۴ [16]

ترجمہ:جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔

اورچونکہ مخلوق سکون ،آرام اورٹھہرنے کی محتاج ہوتی ہے اور یہ اموردن اوررات کے وجودکے بغیرمکمل نہیں ہوتے ،اس لئے فرمایااسی وحدہ لاشریک نے تمہارے لئے رات کوراحت وسکون کاوقت بنایا ہے ،جیسے فرمایا

وَالضُّحٰى۝۱ۙوَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰى۝۲ۙ [17]

ترجمہ:قسم ہے روزروشن کی اوررات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے۔

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى۝۱ۙوَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى۝۲ۙ [18]

ترجمہ:قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے اوردن کی جبکہ وہ روشن ہو۔

وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا۝۳۠ۙوَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰـىهَا۝۴۠ۙ [19]

ترجمہ: اور دن کی قسم جب کہ وہ (سورج کو)نمایاں کردیتاہے،اوررات کی قسم جبکہ وہ(سورج کو) ڈھانک لیتی ہے۔

اسی نے روشن چانداورچمکتے دھمکتے سورج کے طلوع وغروب کا حساب مقررکیاہےجس میں کوئی تغیرو اضطراب نہیں ہوتاہرایک کی منزل مقرر ہے ،جیسے فرمایا

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ ۔۔۔۝۵ [20]

ترجمہ:وہی ہے جس نے روشن کو اجیالا بنایااورچاندکوچمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقررکردیں ۔

اب نہ توسورج ہی سے بن پڑتاہے کہ چاندکوجاپکڑے اورنہ رات دن پر سبقت حاصل کرسکتی ہے ،ہرایک اپنے اپنے دائرے میں تیررہاہے۔

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [21]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاندکوجاپکڑے اورنہ رات دن پرسبقت لیجاسکتی ہے،سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔

۔۔۔وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۔۔۔۝۰۝۵۴ [22]

ترجمہ: جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیےسب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔

یہ سب اسی کی زبردست قدرت اورعلم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں جواس کی بے انتہاعظمت اورعظیم سلطنت پردلیل ہے ،جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّہُمُ الَّیْلُ۝۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۝۳۷وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭۙ [23]

ترجمہ:ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے ہم نے اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ۔

۔۔۔وَزَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۝۱۲ [24]

ترجمہ: اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کامنصوبہ ہے۔

اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے تاروں کوصحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کاذریعہ بنایا اوران کادوسرا مقصد آسمان دنیاکی زینت ہے اورتیسرامقصدیہ ہے کہ جب شیطان سن گن لینے کے لئے آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تویہ ان پرشعلہ بن کرگرتے ہیں ،ان تین باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارے میں اگرکوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتاہے تووہ غلطی پرہے اوراللہ پرجھوٹ باندھتاہے، دیکھو ہم نے اس حقیقت کی نشانیاں کہ اس عظیم الشان کائنات میں اللہ صرف ایک ہے،وہی اپنی حکمت ومشیت کے مطابق اس کائنات میں تدبیروتصرف کرتاہے اس کے سوا کوئی ہستی نہ اس جیسی صفات کی مالک ہے اورنہ اس کے اختیارات میں کچھ ساجھے دارہے،اہل دانش کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کربیان کردی ہیں ،اوروہی ہے جس نے ایک متنفس سے تم کوپیداکیا،جیسے فرمایا

 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً ۔۔۔۝۱ [25]

ترجمہ:لوگو!اپنے رب سے ڈروجس نے تم کوایک جان(آدم علیہ السلام ) سے پیداکیااوراسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اوران دونوں سے بہت مردوعورت دنیامیں پھیلا دیے۔

هُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا۔۔۔۔۝۱۸۹ [26]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔

خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا۔۔۔۝۶ [27]

ترجمہ:اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیاپھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا ۔

پھرہرایک کے لئے ایک جائے قرار ہے ا ورسونپے جانے کی جگہ ۔

قُلْتُ: {فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ} [28]قَالَ: الْمُسْتَقَرُّ فِی الرَّحِمِ وَالْمُسْتَوْدَعُ فِی الصُّلْبِ ،

امام حاکم رحمہ اللہ آیت فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ کے بارے میں لکھتے ہیں فَمُسْتَقَرٌ سے مراد رحم مادر اور مُسْتَوْدَعٌ سے مراد صلب پدر ہے۔ [29]

بے شک سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے ہم نے انفس وآفاق کے مشاہداتی دلائل وبراہین خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں تاکہ وہ غوروفکر کریں ۔

وَهُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَیَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكُمْ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٩٩﴾(الانعام)
’’ اور وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گچھے میں سے، خوشے ہیں جو نیچے کو لٹکے جاتے ہیں اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار کہ بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیںاور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے، ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

اوریہ بھی اللہ وحدہ لاشریک ہی کی کاریگری ہے کہ انسانوں کی ضرورت اورحاجت کے وقت آسمان سے پے درپے پانی برساتاہے اوراس کے ذریعہ سے ہرقسم کی نباتات اگاتا ہے جسے انسان اورحیوانات کھاتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ۔۔۔ ۝۳۰ [30]

ترجمہ:اورپانی سے ہرزندہ چیزپیداکی۔

اوراسی پانی سے ہرے بھرے کھیت اورانواع واقسام کے درخت پیداکردیتاہے ،پھران سرسبز کھیتوں سے گندم ،جو، جوار ،باجرہ اورچاول وغیرہ کی اوپرتلے چڑھے ہوئے دانوں کی بالیاں نکالتاہے اوراسی پانی سے کھجورکے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیداکرتاہے جوبوجھ کے مارے زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ} یَعْنِی بِالْقِنْوَانِ الدَّانِیَةِ: قِصَارَ النَّخْلِ لَاصِقَةً عُذُوقَهَا بِالْأَرْضِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےروایت کیاہےقِنْوَانٌ دَانِیَةٌسے مرادکھجوروں کے وہ چھوٹے چھوٹے درخت ہیں جن کے گھچے زمین کے ساتھ لگے ہوتے ہیں ۔[31]

اوراسی پانی سے انگوروں کے باغات پیداکیے،جیسے فرمایا

وَجَعَلْنَا فِیْہَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ۔۔۔۝۳۴ۙ [32]

ترجمہ:ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے ۔

اورزیتون اورانار کے باغ اگاتاہے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مگرشکل وصورت، رنگ، ذائقے ،خوشبو اوردوائدمیں جداجداہوتے ہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ , قَوْلَهُ: {مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ} یُقَالُ: مُتَشَابِهًا وَرَقُهُ مُخْتَلِفًا ثَمَرُهُ

قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ نے آیت کریمہ ’’بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اورکچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے۔‘‘کے بارے میں فرمایاہے کہ یہ پتوں اورشکلوں کے اعتبارسے ایک دوسرے سے ملتے چلتے ہیں مگرپھلوں کی شکل،ذائقے اورفوائدکے اعتبارسے یہ پھل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔[33]

ان پھل دار درختوں پر پھول آنے پھر ان پھولوں سے پھل بننے اورپھران کے پکنے کی کیفیت کو ذرا تفکروتدبر اور عبرت کی نظرسے دیکھو،اہل ایمان کے لئے ا ن تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت کی واضح نشانیاں ہیں ۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِینَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا یَصِفُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ یَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١٠١﴾‏ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ وَكِیلٌ ‎﴿١٠٢﴾‏ لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ ‎﴿١٠٣﴾‏ قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَیْكُم بِحَفِیظٍ ‎﴿١٠٤﴾‏ (الانعام)
’’اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں،وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کارساز ہے،اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے، اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گااور میں تمہارا نگران نہیں ہوں۔‘‘

  مشرکین کی مذمت :

اس پربھی لوگ جنوں ،بتوں اورقبروں میں مدفون اشخاص کواللہ کاشریک ٹھہراتے ہیں ،اپنی پریشانیوں اورمصائب میں ان کوپکارتے ہیں اوران کی خوشنودی کے لئے عبادت کرتے ہیں جواللہ کی مخلوق ہیں اورجن میں ربوبیت اورالوہیت کی کوئی بھی صفت نہیں ہے،وہ ان کواس ہستی کاشریک ٹھہراتے ہیں جوخلق وامرکی مالک ہے اوروہ ہرقسم کی نعمت عطاکرنے والی اورتمام دکھوں اورتکلیفوں کودورکرنے والی ہے،اس پربھی لوگوں نے جنوں کوجواللہ کی ایک مخلوق ہےاللہ کاشریک ٹھہرا دیا ، جنات سے مرادشیاطین ہیں اوراس کے کہنے سے ہی شرک کیاجاتاہے اس لئے گویاشیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے ،جیسے فرمایا

اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝۰ۚ وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا۝۱۱۷ۙلَّعَنَهُ اللهُ۝۰ۘ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝۱۱۸ ۙ وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا۝۱۱۹ۭ [34]

ترجمہ: وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کومعبودبناتے ہیں ،وہ اس باغی شیطان کومعبودبناتے ہیں جس کواللہ نے لعنت زدہ کیا ہے،(وہ اس شیطان کی اطاعت کررہے ہیں ) جس نے اللہ سے کہاتھاکہ میں تیرے بندوں سے ایک مقررحصہ لے کررہوں گا،میں انہیں بہکاؤں گا،میں انہیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا،میں انہیں حکم دوں گااوروہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے،اورمیں انہیں حکم دوں گااوروہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے ، اس شیطان کوجس نے اللہ کے بجائے اپناولی وسرپرست بنالیاوہ صریح نقصان میں پڑگیا۔

وہ شیطان اللہ کی بارگاہ میں اپنے دعویٰ کے مطابق ان کووعدے دیتاہے اورامیدیں دلاتاہے اورجوکچھ شیطان انہیں وعدے دیتاہے وہ دھوکاہی دھوکاہے۔

یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْہِمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۱۲۰   [35]

ترجمہ:وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں ۔

۔۔۔وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۶۴ [36]

ترجمہ: اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔

ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے والدکویہی فرمایاتھا

یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ۝۰ۭ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۝۴۴ [37]

ترجمہ: اباجان!آپ شیطان کی بندگی نہ کریں شیطان تورحمٰن کانافرمان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کوپیغمبروں کی زریعے ہمیشہ یہی ہدایت فرمائی۔

 اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ۝۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِیْمٌ۝۶۱ۙ [38]

ترجمہ: آدم کے بچو!کیا میں نے تم کوہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو وہ تمہاراکھلادشمن ہےاور میری ہی بندگی کرویہ سیدھا راستہ ہے۔

اورفرشتے بھی قیامت کے روز مجرمین کے بارے میں یہی کہیں گے۔

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ۝۰ۚ بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ۝۰ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ۝۴۱(سبا۴۱)

ترجمہ:تووہ جواب دیں گے کہ پاک ہے آپ کی ذات،ہماراتعلق توآپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں سے،دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے ان میں سے اکثرانہی پرایمان لائے ہوئے تھے۔

یہودی عزیر علیہ السلام کواورنصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کا بیٹا کہتے ہیں اورمشرکین عرب فرشتوں کوبغیرکسی دلیل کے اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں سمجھتے تھے ،فرمایااوراسی طرح مشرکین نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ وبہتان باندھتے ہوئے بغیرکسی علم کے اس کے لئے بیٹے اوربیٹیاں تصنیف کردیں حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جویہ لوگ کہتے ہیں ،وہ توبغیرکسی سابقہ نمونے کے ساتوں آسمانوں اورزمین کوبہترین شکل میں بہترین نظام اورخوبصورتی کے ساتھ تخلیق کرنے والا ہے، یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ اس کا کوئی بیٹایابیٹی ہواوراس کا کوئی بیٹایابیٹی کیسے ہوسکتاہے جبکہ کوئی اس کا ہم کفوہی نہیں ،اس کی کوئی شریک زندگی ہی نہیں ہے،وہ اپنی تمام مخلوق سے بے نیازاورتمام مخلوق اس کی محتاج ہے جیسے فرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚ [39]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں رحمان نے کسی کوبیٹا بنایا ہے،سخت بے ہودہ بات ہے جوتم لوگ گھڑ لائے ہو،قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ،زمین شق ہوجائے اورپہاڑگرجائیں اس بات پرکہ لوگوں نے رحمان کے لئے اولاد ہونے کادعوی کیا،رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کوبیٹابنائے۔

اس نے کائنات کی ہر مخلوق کوبلاکسی شریک کے تخلیق کیاہے اور وہ ہرچیزکاعلم رکھتا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَهُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـیْمُ۝۸۱ [40]

ترجمہ: جب کہ وہ ماہرخلاق ہے۔

یہ ہے اللہ تمہارا رب،جوانتہائی تذلل اورانتہائی محبت کامستحق ہے ،اس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے ، جوآسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے کاخالق ہے ، جیساکہ ابراہیم علیہ السلام نے قوم سے کہاتھا

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ۝۹۵ۙوَاللهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۝۹۶ [41]

ترجمہ: اس نے کہاکیاتم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کوپوجتے ہو ؟حالاں کہ اللہ ہی نے تم کوبھی پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جنہیں تم بناتے ہو۔

لہذاتم اپنے معبودحقیقی کوپہچانو،اس کی وحدانیت کااقرارکرواورہرطرف سے منہ موڑکر صرف اسی کی بندگی کرو،اپنی تمام عبادات کواسی کے لئے خالص کرواوران عبادات میں صرف اسی کی رضاکو مقصد بناؤ ، تخلیق کائنات کامقصدبھی یہی ہے اوراسی کی خاطران کو پیدا کیا گیا ہے ،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ [42]

ترجمہ:میں نے جن اورانسانوں کواس کے سواکسی کام کے لئے پیدانہیں کیاکہ وہ میری بندگی کریں ۔

اور وہ ہر چیزکاکارساز ہے ، اس کی مثال تو کجادنیاوی آنکھ سے کوئی پیغمبربھی اللہ تعالیٰ کواس کی عظمت اوراس کے جلال وکمال کی بناپرنہیں دیکھ سکتا،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں

مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ}[43]

جس شخص نے بھی یہ دعوی کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (شب معراج میں ) اللہ تعالیٰ کودیکھاہے اس نے قطعاًجھوٹ بولاہےپھرانہوں نے اس آیت کی تلاوت کی’’ نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اوروہ نگاہوں کوپالیتاہے،وہ نہایت باریک بیں اور باخبرہے۔‘‘[44]

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ، وَلَا یَنْبَغِی لَهُ أَنْ یَنَامَ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُهُ، یُرْفَعُ إِلَیْهِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ – وَفِی رِوَایَةِ أَبِی بَكْرٍ: النَّارُ – لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاًمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں فرمائیں اللہ عزوجل سوتا نہیں اور نہ ہی سونا اس کی شان ہے،میزان اعمال کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے،اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے بلند کیا جاتا ہے،اور اس کا حجاب نور ہے اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ اس کا حجاب آگ ہے اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں جہاں تک اس کی نگاہیں پہنچتی ہیں مخلوق کو جلا دیں ۔[45]

لیکن روز قیامت اہل ایمان جنت میں داخل ہونے کے بعداللہ تعالیٰ کے چہرہ مکرم کے نظارے سے خوش ہوں گے اوراس کے مقابلہ میں جنت کی ہرنعمت انہیں ہیچ محسوس ہوگی ، جیسے فرمایا

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙاِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ [46]

ترجمہ:اس روزکچھ چہرے تروتازہ ہوں گے،اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ کی دیدکے بارے میں بہت سی روایات ہیں مگرمعتزلہ کہتے ہیں کہ آخرت میں کہیں بھی اللہ کادیدارنہ ہوگاحالاں کہ اہل ایمان کے برعکس کفار اپنے رب کے دیدارسے محروم ہوں گے،جیسے فرمایا

كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ۝۱۵ۭ [47]

ترجمہ:ہرگزنہیں ،بالیقین اس روزیہ اپنے رب کی دیدسے محروم رکھے جائیں گے۔

مگروہ نگاہوں کوپالیتاہے،وہ نہایت باریک بیں اور باخبرہے،جیسے فرمایا

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ۝۰ۭ وَهُوَاللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۝۱۴ۧ [48]

ترجمہ:کیاوہی نہ جانے گاجس نے پیداکیا ہے ؟ حالاں کہ وہ باریک بین اور با خبر ہے ۔

اورلقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی

 یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [49]

ترجمہ: (اور لقمان نے کہاتھاکہ)بیٹا!کوئی چیزرائی کے دانے برابربھی ہواورکسی چٹان یاآسمانوں یازمین میں کہیں چھپی ہوئی ہواللہ اسے نکال لائے گاوہ باریک بین اور باخبر ہے۔

دیکھوتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں جوحق کوواضح کرتی ہیں اورجنہیں ہم نے قرآن مجیدمیں بارباربیان کیاہےاور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان کیاہے ،ان دلائل وبراہین کودیکھ کرجوراہ راست اورعمل صالحہ اختیارکرے گاتوروزآخرت کامیاب وکامران ہوکرجنت کی انوع واقسام کی لازوال نعمتوں سے استفادہ کرے گاکیونکہ اللہ تعالیٰ توبے نیازاورقابل تعریف ہے، اور جو ان سے صرف نظرکرکے نفس اورخواہشات کابندہ بنے گا تو ناکام ونامرادہوکرجہنم کے گڑھے میں پھینک دیاجائے گا،جیسے فرمایا

مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْــتَدِیْ لِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا۝۰ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۔۔۔ ۝۱۵ [50]

ترجمہ:جوکوئی راہ راست اختیارکرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لئے مفیدہے اورجوگمراہ ہواس کی گمراہی کاوبال اسی پرہے،کوئی بوجھ اٹھانے والادوسرے کابوجھ نہ اٹھائے گا۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہہ دیں کہ میں توداعی اوربشیرونذیر ہوں ، میراکام تواللہ کے احکام پوری امانت ودیانت کے ساتھ پہنچادیناہے،اس کے بعدان ہدایات پر تفکروتدبرکرناتمہارااپناکام ہے ،میرایہ کام نہیں ہے کہ تمہارے اعمال پرنظررکھوں اور تمہیں زور و زبردستی سے راہ راست پرلاؤں ۔

وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ وَلِیَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَهُ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿١٠٥﴾‏ اتَّبِعْ مَا أُوحِیَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَیْهِم بِوَكِیلٍ ‎﴿١٠٧﴾‏ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَیَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٠٨﴾‏(الانعام)
’’ اور ہم اس طور پر دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ یوں کہیں کہ آپ نے کسی سے پڑھ لیا ہے اور تاکہ ہم اس کو دانشمندوں کے لیے خوب ظاہر کردیں،آپ خود اس طریقہ پر چلتے رہیے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے،اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کا نگران نہیں بنایا، اور نہ آپ ان پر مختار ہیں! اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے، پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

اس طرح ہم توحیدکے دلائل وبراہین کوباربارمختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں تاکہ کفارومشرکین یوں کہیں کہ تم کسی سے پڑھ اورسیکھ کر آئے ہو،جیسے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىهُ وَاَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۝۰ۚۛ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَزُوْرًا۝۴ۚۛوَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵ [51]

ترجمہ:جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکارکردیاہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیزہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑلیاہے اورکچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مددکی ہے ،بڑاظلم اورسخت جھوٹ ہے جس پریہ لوگ اترآئے ہیں ،کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتاہے اوروہ اسے صبح وشام سنائی جاتی ہیں ۔

اورکفارکے ایک سردارکاذکریوں فرمایا

اِنَّہٗ فَكَّرَ وَقَدَّرَ۝۱۸ۙفَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ۝۱۹ۙ ثُمَّ قُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ۝۲۰ثُمَّ نَظَرَ۝۲۱ۙثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ۝۲۲ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ۝۲۳ۙفَقَالَ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ۝۲۴ۙۙۙاِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۝۲۵ۭ [52]

ترجمہ:اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی ،تو اللہ کی مار اس پر کیسی بات بنانے کی کوشش کی،ہاں اللہ کی مار اس پر کیسی بات بنانے کی کوشش کی،پھر( لوگوں کی طرف) دیکھاپھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایاپھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیاآخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آرہا ہےیہ تو ایک انسانی کلام ہے۔

اورجولوگ علم رکھتے ہیں ان پرہم حقیقت کو روشن کردیں ،یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کولوگوں کی ہدایت اوررہنمائی کے لیے نازل فرمایاہے،جیسے فرمایا

لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْقَاسِـیَةِ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍؚبَعِیْدٍ۝۵۳وَّلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوْا بِہٖ فَتُخْبِتَ لَہٗ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۴ۙ [53]

ترجمہ:(وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے ) تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو( نفاق کا ) روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں ،اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں ، یقینا اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔

درزخ کے فرشتوں کی تعدادکے بارے میں فرمایا

وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً۝۰۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۙ لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا وَّلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۙ وَلِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْكٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللہُ مَنْ یَّشَاۗءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَمَا ھِیَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ۝۳۱ۧ [54]

ترجمہ:ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں ، اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائےاور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں ، اور دل کے بیماراور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہو سکتا ہے، اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے، اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور اس دوزخ کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو ۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۙ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا۝۸۲ [55]

ترجمہ:ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔

قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًى وَّشِفَاۗءٌ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّہُوَعَلَیْہِمْ عَمًى۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ۝۴۴ۧ [56]

ترجمہ: ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے یہ کاتوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے، ان کا حال تو ایسا ہے جیسے ان کو دور سے پکارا جا رہا ہو ۔

مدارنجات یعنی اتباع کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وحی کی پیروی کیے جاؤجوتم پرتمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیوں کہ اس ایک رب کے سواکوئی اورمعبودبرحق نہیں ہےاوران مشرکین سے درگزراوران کی ایذادہی پر صبر کرو،یقین مانو کہ تمہارے غلبہ کاوقت دورنہیں ،اللہ کی مصلحتوں کوکوئی نہیں جانتا اگر اللہ کی مشیت وحکمت ہوتی تو(وہ خودایسا بندوبست کرسکتاتھاکہ)یہ لوگ شرک نہ کرتے ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوْا۝۰ۣ وَلٰكِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۝۲۵۳ ۧ [57]

ترجمہ:اگراللہ چاہتاتوممکن نہ تھاکہ ان رسولوں کے بعدجولوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے وہ آپس میں لڑتے ،مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کوجبراًاختلاف سے روکے،اس وجہ سے )انہوں نے باہم اختلاف کیاپھرکوئی ایمان لایااورکسی نے کفرکی راہ اختیارکی،ہاں اللہ چاہتا تو وہ ہرگزنہ لڑتےمگراللہ جوچاہتا ہے کرتاہے۔

اوردوٹوک اندازمیں اعلان فرمایاکہ ہم نے اپنے رسول کوتم پرنگراں بناکرنہیں بھیجا،یعنی وہ لوگوں کے اقوال و اعمال کے جوابدہ نہیں ہیں ۔

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۭۙ [58]

ترجمہ:اچھا (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! نصیحت کیے جاؤ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہوکچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔

اپ کے ذمہ صرف اللہ کے احکام پہنچادیناہے حساب لیناہماراذمہ ہے۔

 ۔۔۔ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰ [59]

ترجمہ: بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے ۔

داعی اورمبلغ کوہدایت فرمائی گئی کہ جوش خطابت میں کہیں ایسانہ ہوکہ تم اپنے دشمن کے پیشواؤں اور معبودوں کوسب وشتم کرنے لگو،یہ چیزان کوحق سے قریب لانے کے بجائے اورزیادہ دورپھینک دے گی اوروہ شرک سے آگے بڑھ کر لاعلمی اور تعصب کے باعث اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے لگیں گے۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَیَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ} قَالَ: قَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، لَتَنْتَهِیَنَّ عَنْ سَبِّ آلِهَتِنَا أَوْ لَنَهْجُوَنَّ رَبَّكَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ یَسُبُّوا أَوْثَانَهُمْ فَیَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ ’’اورگالی مت دوان کوجن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کوچھوڑکرعبادت کرتےہیں کیونکہ پھروہ براہ جہل حدسے گزرکراللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔‘‘کی تفسیرمیں روایت کیاہے کہ مشرکوں نے کہاتھاکہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )تم ہمارے معبودوں کوبراکہنے سے باز آجاؤ ورنہ ہم بھی تمہارے رب کوبراکہیں گے تواللہ تعالیٰ نے ان کے بتوں کوبراکہنے سے منع فرمایا(کیونکہ انہیں براکہنے کے نتیجے میں )کہیں ایسانہ ہوکہ یہ شرک سے آگے بڑھ کرجہالت کی بناپراللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔[60]

عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ یَسُبُّونَ أَصْنَامَ الْكُفَّارِ , فَیَسُبُّ الْكُفَّارُ اللَّهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ

معمرنے قتادہ سے روایت کیاہے کہ مسلمان کفارکے بتوں کوبراکہاکرتے تھے توجواب میں کفاربے ادبی سے اوربے سمجھے اللہ تعالیٰ کوبراکہنے لگ جاتے تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’اور(اے ایمان لانے والو!)یہ لوگ اللہ کے سواجن کوپکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو۔‘‘نازل فرمائی۔[61]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الكَبَائِرِ أَنْ یَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ» قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ؟ قَالَ:یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ، فَیَسُبُّ أَبَاهُ، وَیَسُبُّ أُمَّهُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پرلعنت بھیجے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے( حیرانی سے) دریافت کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کوئی شخص اپنے ہی والدین پرکیسے لعنت بھیجے گا ؟فرمایاکہ وہ شخص دوسرے کے باپ کوگالی دیتاہے تو(جواب میں ) دوسرا بھی پہلے شخص کے ماں باپ کو گالی دے گا۔[62]

اسی طرح ہم نے ہرگروہ کے لئے اس کے اعمال قبیحہ کو خوشنما بنا دیا ہےاوروہ خودفریبی کاشکارہوکر ان پرعمل پیرا رہتا ہے،مگرانجام کارایک وقت مقررہ پر تمام مخلوق کو اپنے رب کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اس وقت وہ انہیں بتادے گا کہ وہ کیسے اعمال کرتے رہے ہیں اوران کے مطابق انہیں جزاوسزادے گا۔

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَیْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَتْهُمْ آیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا یُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٠٩﴾‏ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ‎﴿١١٠﴾‏ وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُونَ ‎﴿١١١﴾‏(الانعام)
’’اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے،اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے،اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کردیتے ہیں تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے، ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

معجزوں کے طالب لوگ :

اہل ایمان کو شک وشبہ میں مبتلاکرنے کے لئے یہ مشرکین کڑی کڑی قسمیں کھاکھاکرکہتے ہیں کہ اگرہماری خواہش کے مطابق کوئی معجزہ ظہورمیں آ جائے توہم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی دعوت اوران کی رسالت پرضرورایمان لے آئیں گے،اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبے کے جواب میں فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہوکہ معجزات بنالانے کی قدرت مجھے حاصل نہیں ہے بلکہ اس کاتمام تر اختیاراللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اگراس کی مشیت ہوئی تووہ تمہارا مطالبہ پوراکردے گا،مشرکین کی باتوں سے متاثر ہوکر بعض اہل ایمان بے تاب ہوکرتمناکرتے اورکبھی اس خواہش کااظہاربھی کردیتے تھے کہ کوئی ایسامعجزہ ظاہرہوجائے تاکہ یہ لوگ ایمان لے آئیں ،ان کی اس تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشادفرمایاکہ ان لوگوں کامطالبہ معجزہ محض دفع اعتراض کے طور پرہے طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ، اگرہم ان کی خواہشات کے مطابق معجزات دکھا بھی دیں تب بھی یہ دعوت توحیدپرایمان نہیں لائیں گے،کیونکہ تاریخ انسانیت اس بات کی شاہدہے کہ بے شماراقوام ایسی گزری ہیں کہ معجزات دیکھ کربھی راہ ہدایت ان کے حصے میں نہ آسکی ،جیسے فرمایا

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ۔۔۔۝۰۝۵۹ [63]

ترجمہ:اورہم کونشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کوجھٹلاچکے ہیں ۔

ان لوگوں کی تکذیب اورکفرکی بناپرہم نے ان کے دلوں اورنگاہوں کوپھیردیاہے،اب یہ کسی بات پرایمان نہیں لائیں گے ، اگر ان کی قسمت میں ایمان لاناہوتاتوحق کی آواز پرپہلے ہی لبیک پکاراٹھتے ،اس لئے اب ہم نے انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیاہے،ان کی ذہنی کیفیت تویہ ہے کہ اگرہم ان کے مطالبے میں فرشتے بھی ان کے روبرو کردیتے۔

۔۔۔اَوْ تَاْتِیَ بِاللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙ [64]

ترجمہ:یا اللہ اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے۔

یہ بھی کفارکامطالبہ تھا

وَاِذَا جَاۗءَتْہُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللہِ۔۔۔۝۰۝۱۲۴ [65]

ترجمہ:جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے۔

یہ بھی مطالبہ تھا

وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا۝۰ۭ لَـقَدِ اسْـتَكْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا۝۲۱ [66]

ترجمہ:جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں ؟یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ، بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں ۔

قریب ہے وہ وقت جب یہ مجرم اپنی مکّاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلّت اور سخت عذاب سے دوچار ہوں گے۔ اور مردے زندہ ہوکر ان کواللہ کی پاکیزہ دعوت اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرتے اور روئے زمین کی چیزوں کوہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے الایہ کہ مشیت الٰہی یہی ہوکہ وہ ایمان لائیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙوَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [67]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پرتیرے رب کا قول راست آگیاہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لیکرنہیں آتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتانہ دیکھ لیں ۔

مگر اکثرلوگوں کی جہالت ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہے۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ ‎﴿١١٢﴾‏ وَلِتَصْغَىٰ إِلَیْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِیَرْضَوْهُ وَلِیَقْتَرِفُوا مَا هُم مُّقْتَرِفُونَ ‎﴿١١٣﴾(الانعام)
’’ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیںاور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افتراپردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے اور تاکہ اس طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اورتاکہ مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی وتشفی کے لئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آج اگریہ شیاطین جن وانس متحد ہوکردعوت حق کوروکنے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں تویہ کوئی نرالی بات نہیں ہے جو تمہارے ساتھ پیش آرہی ہو،ہردور میں ایساہی ہوتاآیاہے کہ جب کوئی پیغمبرلوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے مبعوث کیاگیاتو شیطان جن وانس اس دعوت کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے ،یہ شیطان جن وانس داعی حق کے خلاف شکوک وشبہات پیداکرتےاوردعوت حق کاراستہ روکنے کے لئے ایک دوسرے کوچالبازیاں اورحیلے سکھاتے ہیں ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰٓی اَتٰىہُمْ نَصْرُنَا۔۔۔۝۳۴ [68]

ترجمہ: تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں ، مگر اس تکذیب پر اور ان اذیّتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیایہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔

مَا یُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ۝۴۳ [69]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو ،بےشک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ بڑی درد ناک سزا دینے والا بھی ہے ۔

 وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ۔۔۔۝۰۝۳۱ [70]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے تواسی طرح مجرموں کوہرنبی کا دشمن بنایا ہے ۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے غارحرا سے واپسی پر جب ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں تواس نے کہاتھا

لَمْ یَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِیَ

جوشخص بھی آپ کی طرح امرحق لے کرآیالوگ اس کے دشمن ہی ہوگئے ہیں ۔[71]

لہذا اللہ تعالیٰ پرتوکل ک/ریں اور ان کی عداوت کا کچھ بھی خیال نہ کریں ،ان کاجھوٹ اورعداوت آپ کوکچھ نقصان نہیں پہنچاسکے گا، اللہ تعالیٰ ان شیطانی ہتھکنڈوں کوناکام بنانے پر قدرت رکھتاہے ،لیکن وہ بالجبرایسانہیں کرتا کیونکہ یہ اس کے نظام اوراصول کے خلاف ہے جواس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا ہے جس کی حکمتیں اورمصلحتیں وہی بہتر جانتاہے،پس تم انہیں ان کے حال پرچھوڑ دوکہ اپنی افتراپردازیاں کرتے رہیں ،ہم انہیں یہ سب کچھ اس لئے کرنے دے رہے ہیں کہ جولوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس خوشنمادھوکے کی طرف مائل ہوکر راضی ہو جائیں اوروہ بے فکرہوکران برائیوں کا اکتساب کریں جن کااکتساب وہ کرناچاہتے ہیں ،جیسے فرمایا

فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ۝۱۶۱مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفٰتِـنِیْنَ۝۱۶۲ۙ ۙ اِلَّا مَنْ ہُوَصَالِ الْجَحِیْمِ۝۱۶۳ [72]

ترجمہ:پس تم اور تمہارے یہ معبوداللہ سے کسی کو پھیر نہیں سکتےمگر صرف اس کو جو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھلسنے والا ہو ۔

 اِنَّكُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ۝۸یُّؤْفَكُ عَنْہُ مَنْ اُفِكَ۝۹ۭۙ [73]

ترجمہ:(آخرت کے بارے میں ) تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے ۔

 أَفَغَیْرَ اللَّهِ أَبْتَغِی حَكَمًا وَهُوَ الَّذِی أَنزَلَ إِلَیْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ ‎﴿١١٤﴾‏ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿١١٥﴾‏ (الانعام)
تو کیا اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں حالانکہ وہ ایسا ہے اس نے ایک کتاب کامل تمہارے پاس بھیج دی، اس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو یقین کے ساتھ جانتےہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں ، آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، اس کے کلام کا کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

اللہ کے فیصلے اٹل ہیں :

سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے امت مسلمہ کوتعلیم دی گئی کہ جب حال یہ ہے توکیامیں اللہ کے سواکوئی اورفیصلہ کرنے والا تلاش کروں جواس کے فیصلہ پرنظرثانی کرے اورایسامعجزہ بھیجے جس سے یہ لوگ ایمان لانے پرمجبوررہوجائیں حالانکہ اس نے تمہاری طرف ایک کتاب کامل بھیج دی ہے،جس میں حلال وحرام ، احکام شریعت اوردین کے اصول وفروع واضح کئے گئے ہیں ،جس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں ،جوحق وباطل میں واضح فرق ظاہر کرنے والی ہے ، جو عدل وانصاف کے مطابق فیصلہ کرنے والی ہے اورسابقہ کتب تورات وانجیل کے حاملین یہودونصاریٰ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں جوکچھ بیان کیاجارہاہے ٹھیک ٹھیک امرحق ہے ،اوروہ ازلی وابدی حقیقت ہے جس میں کبھی فرق نہیں آیاہے ، لہذاتم شک وشبہ کرنے والوں میں شامل نہ ہو، جیسے فرمایا

 فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۝۹۴ۙ[74]

ترجمہ:اب اگرتجھے اس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہوجوہم نے تجھ پرنازل کی ہے توان لوگوں سے پوچھ لے جوپہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں ،فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیاہے تیرے رب کی طرف سے لہذاتوشک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔

تمہارے رب نے اس کتاب عزیزمیں جوخبریں بیان کی ہیں اس سے سچی خبرکوئی نہیں اوراللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی سے بڑھ کرکسی حکم میں عدل وانصاف نہیں ،یعنی اس کاہر امر اور نہی عدل وانصاف پرمبنی ہے ،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ، یَقُولُ:صِدْقًا وَعَدْلًا فِیمَا حَكَمَ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’آپ کے رب کاکلام سچائی اورانصاف کے اعتبارسے کامل ہے،اس کے کلام کوکوئی بدلنے والانہیں ۔‘‘ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں قول کے اعتبارسے سچی اورحکم کے اعتبارسے انصاف پرمبنی ہیں ۔[75]

کیونکہ اس نے انہی باتوں کاحکم دیاہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اورانہی چیزوں سے منع کیاہے جن میں نقصان اور فسادہے گو انسان اپنی جہالت یاشیطانی وسوسوں کی بناپراس حقیقت کاادراک نہ کرسکیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ۔۔۔ ۝۱۵۷ۧ [76]

ترجمہ:وہ انہیں نیکی کاحکم دیتاہے بدی سے روکتاہے۔

اس آیت کے نزول نے گویاختم وحی وعصمت پرمہرثبت کردی کہ جب رب کی باتیں اپنی سچائی اورانصاف میں کامل ہوچکی ہیں تومزیدکسی نبی کی ضرورت وحاجت نہ رہی البتہ یہ فریضہ رسالت اورپیغام ربانی آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری امت مسلمہ کے سبھی افرادپرڈال دی گئی ،اس عظیم الشان کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کے فرامین پر اعتراض،نظرثانی یاان میں تغیروتبدل کرسکے اوروہ اپنے بندوں کی حاجتوں کو سننے والااوران کی حرکات وسکنات کوبخوبی جاننے والاہے،اورروزقیامت ہرایک کواس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِی الْأَرْضِ یُضِلُّوكَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ ۚ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ ‎﴿١١٦﴾‏ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن یَضِلُّ عَن سَبِیلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ‎﴿١١٧﴾‏(الانعام)
اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں وہ محض بےاصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ، بالیقین آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بےراہ ہوجاتا ہے، اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ پر چلتے ہیں ۔

لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوتی ہے :

اللہ تعالیٰ نے سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولوگوں کی اکثریت کی اطاعت سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرتم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تووہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکادیں گےکیونکہ ان میں سے اکثرلوگ اپنے دین ،اعمال اورعلوم سے منحرف ہوچکے ہیں یعنی حق و باطل کامعیاردلائل وبراہین ہیں لوگوں کی اکثریت یااقلیت حق کامعیار نہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ حق وصداقت کے راستے پرچلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں مگراللہ تعالیٰ کے ہاں قدرومنزلت اوراجرمیں بہت عظیم ہوتے ہیں ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۷۱ۙ [77]

ترجمہ: حالاں کہ ان سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے تھے۔

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳ [78]

ترجمہ:مگرتم خواہ کتناہی چاہوان میں سے اکثرلوگ مان کردینے والے نہیں ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَى أُمَّتِی مَا أَتَى عَلَى بنی إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِیَةً لَكَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بنی إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً،قَالُوا: وَمَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْهِ وَأَصْحَابِی

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ،یہاں تک کہ اگر ان کی امت میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گااوربنی اسرائیل بہترفرقوں میں تقسیم ہوگئے اورمیری امت تہترفرقوں میں بٹ جائے گی سوائے ایک فرقہ کےسب فرقے والے دوزخی ہیں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی وہ کون ہیں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس پرمیں اورمیرے صحابہ ہیں یعنی کتاب وسنت پر[79]

اللہ کے سیدھے راستے کو چھوڑکروہ تو محض ظن وو گمان کی پیروی کرتے ہیں ، اور ان کے عقائد،تخیلات ،فلسفے ،اصول زندگی اورقوانین عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پرمبنی ہیں ،جبکہ ظن وگمان اور قیاس آرائیاں حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتیں ،جیسے فرمایا

وَمَا یَتَّبِـــعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۝۰ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَـیْــــًٔـا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۝۳۶ [80]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا ۔

۔۔۔ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۝۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَـیْــــًٔا۝۲۸ۚ [81]

ترجمہ: وہ محض گمان کی پیروی کر رہےہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔

درحقیقت تمہارارب ہی صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے لوگوں کوجانتاہے اوران پرگمراہیاں آسان کردیتاہے اوروہ راہ راست پرچلنے والوں کابھی یقینی علم رکھتاہے اورانہیں ہدایت آسان فرمادیتاہے،ہرشخص پروہی کام آسان ہوتے ہیں جن کے لئے وہ پیدا کیا گیاہے۔

فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَیْهِ إِن كُنتُم بِآیَاتِهِ مُؤْمِنِینَ ‎﴿١١٨﴾‏وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِیرًا لَّیُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَیْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِینَ ‎﴿١١٩﴾‏ وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِینَ یَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا یَقْتَرِفُونَ ‎﴿١٢٠﴾‏ وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِیَائِهِمْ لِیُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ‎﴿١٢١﴾(الانعام)
سوجس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو ،اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتادی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے، مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے خیالات پر بلا کسی سند کے گمراہ کرتے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے، اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو، بلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی، اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہوجاؤ گے۔

صرف اللہ کے نام کاذبیحہ حلال باقی سب حرام :

مشرکین ازخودمرجانے والے اوربتوں کے استھانوں پرغیراللہ کے نام پرذبح کیے ہوئے جانوروں کو کھالیاکرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے اس کی تردیدکرتے ہوئے فرمایا اگرتم لوگ اللہ پرایمان لائے ہواوراس کے احکام کومانتے ہو توجس حلال جانورپرشکار یاذبح یانحرکرتے وقت اللہ کانام لیا گیا ہو اس کاگوشت کھاؤ آخرکیاوجہ ہے کہ تم وہ چیزنہ کھاؤ جس پراللہ کا نام لیاگیا ہو ،

عَنْ عَامِرٍ، قَالَ:فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ یَقَعُ فِی أَیْدِیكُمْ أَوْفَرَ مَا یَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُم

عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں سے کہاتھاتمہارے لئے ہروہ ہڈی غذا ہے جس پراللہ کانام لیاجائے،تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پرہوجائے گی اورہرایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہڈی اورمینگنی سے استنجامت کروکیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اوران کے جانوروں کی خوراک ہے۔[82]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ قَوْمًا یَأْتُونَا بِاللَّحْمِ، لاَ نَدْرِی: أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَیْهِ أَمْ لاَ؟ فَقَالَ:سَمُّوا عَلَیْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے(گاؤں کے)کچھ لوگ ہمارے یہاں گوشت (بیچنے) لاتے ہیں اورہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم کھاتے وقت ان پراللہ کانام لے لیا کرو اور کھالیاکرو۔[83]

حالانکہ جن چیزوں کااستعمال حالت اضطرارکے سوادوسری تمام حالتوں میں اللہ نےحرام کردیاہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ،پھرکوئی اشکال اورکوئی شبہ باقی نہیں رہتاکہ حرام میں پڑنے کے خوف کی وجہ سے بعض حلال چیزیں بھی کھانی چھوڑدی جائیں ،جیسے فرمایا

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ۝۰ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۱۵ [84]

ترجمہ:اللہ نے جوکچھ حرام کیاہے وہ ہے مرداراورخون اورسورکاگوشت اوروہ جانورجس پراللہ کے سواکسی اورکانام لیا گیا ہو البتہ بھوک سے مجبوراور بیقرار ہوکراگرکوئی ان چیزوں کوکھائے بغیراس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کاخواہش مندہویاحدضرورت سے تجاوزکامرتکب ہوتویقیناًاللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والاہے۔

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ۝۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۝۰ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳ [85]

ترجمہ:تم پر حرام کیا گیا مردار ، خون ، سور کا گوشت ، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہویا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرویہ سب افعال فسق ہیں ،آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو ) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ بغیرعلم کے محض اپنی خواہشات اورظن وگمان کی بناپرگمراہ کن باتیں کرتے ہیں ،ان حدودسے گزرنے والوں کو تمہارارب خوب جانتا ہے ،تم کھلے اور چھپے گناہوں مثلاًتکبر،خودپسندی اورریاوغیرہ سے بھی پرہیزکرو،

عَنْ قَتَادَةَ: {وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ} :أَیْ قَلِیلُهُ وَكَثِیرُهُ وَسِرُّهُ وَعَلَانِیَتُهُ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اورتم ظاہری گناہ کوبھی چھوڑدواورباطنی گناہ کوبھی چھوڑدو۔‘‘ سے مرادظاہری اورپوشیدہ طورپرکیاجانے والاگناہ کاکام ہو،خواہ تھوڑاہویابہت۔ [86]

عَنْ مُجَاهِدٍ:وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ}مَعْصِیَةُ اللَّهِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَةِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اورتم ظاہری گناہ کوبھی چھوڑدواورباطنی گناہ کوبھی چھوڑدو۔‘‘اس سے مرادظاہری اورپوشیدہ طورپرکیاجانے

والامعصیت کاکام ہے۔[87]

جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ۔۔۔ ۝۳۳ [88]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں بےشرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے۔

بے شک جولوگ گناہ کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کیے کی سزاپائیں گے،

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ،فَقَالَ:الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِی صَدْرِكَ،وَكَرِهْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْهِ النَّاسُ

نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی اوربرائی کے متعلق سوال کیا گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابھلائی حسن خلق کوکہتے ہیں اورگناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اورتونہ چاہے کہ کسی کواس کی اطلاع ہوجائے۔[89]

اورجس جانور کو عمداً اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیاگیاہواس کا گوشت نہ کھاؤ ایسا کرنا فسق اورناجائز ہے،شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القاکرتے ہیں کہ مسلمان اللہ کے ذبح کیے ہوئے جانور(یعنی مردہ)کوتوحرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کوحلال قراردیتے ہیں اوردعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں تاکہ وہ اس دلیل کوبنیادبناکر تم سے جھگڑا کریں مگر آپ شیطان اوراس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگیں ، جو جانوربغیرذبح کئے مرگیاوہ مردہ ہے اوراس کاکھاناحلال نہیں سوائے سمندری میتہ کے کہ وہ حلال ہے لیکن اگر تم نے اللہ کی شریعت اورفرمان کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کی اطاعت قبول کرلی تویقینا ًتم مشرک ہو،

عَنِ السُّدِّیِّ: {وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَیْهِ} [90] :إِنَّ الْمُشْرِكِینَ قَالُوا لِلْمُسْلِمِینَ: كَیْفَ تَزْعُمُونَ أَنَّكُمْ تَتَّبِعُونَ مَرْضَاةَ اللَّهِ، وَمَا ذَبَحَ اللَّهُ فَلَا تَأْكُلُونَهُ، وَمَا ذَبَحْتُمْ أَنْتُمْ أَكَلْتُمُوهُ؟ فَقَالَ اللَّهُ: {وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ} [91]فَأَكَلْتُمُ الْمَیْتَةَ {إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ} [92]

سدی نے اس آیت’’اورایسے جانوروں میں سے مت کھاؤجن پراللہ کانام نہ لیاگیاہو۔‘‘ کی تفسیرمیں بیان کیاہے کہ مشرکوں نے مسلمانوں سے یہ کہاکہ تم یہ کیسے دعوی کرسکتے ہوکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضاکے طلب گار ہوکیونکہ جس جانورکواللہ قتل کردے تم اسے کھاتے نہیں اورجس کوخودذبح کرتے ہوتواسے کھالیتے ہو؟اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اوراگرتم لوگ ان کے کہنے پرچلے اورمردارکوکھالیا توبے شک تم بھی ضرورمشرک ہوگے۔‘‘[93]

‏ أَوَمَن كَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا یَمْشِی بِهِ فِی النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكَافِرِینَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٢٢﴾‏ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِی كُلِّ قَرْیَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِیهَا لِیَمْكُرُوا فِیهَا ۖ وَمَا یَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ‎﴿١٢٣﴾‏ وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آیَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِیَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَیُصِیبُ الَّذِینَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا كَانُوا یَمْكُرُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏(الانعام)
ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے، کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا ؟ اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں ،اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ لوگ وہاں فریب کریں ،اور لوگ اپنے ہی ساتھ فریب کر رہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں ،اور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے، اس موقع کو تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے؟ عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیا اللہ کے پاس پہنچ کر ذلت پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کے مقابلے میں سزائے سخت۔

مومن اورکافرکاتقابلی جائزہ:

کیاوہ شخص جوپہلے کفر اورگناہوں کی تاریکیوں میں ڈوباہوا تھاپھرہم نے اس کے دل کوعلم وادراک ،حقیقت شناسی اوراطاعت کے ذریعے سے زندگی بخشی اوراس کو کلام الٰہی کی روشنی عطا کی، جس کے احکام کی روشنی میں وہ ٹیڑھے راستوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ کودیکھ کرزندگی گزارتا ہےجس کانتیجہ کامیابی و کامرانی ہے، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جوکفروضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہو اورکسی طرح ان سے نہ نکلتاہو؟جس کا نتیجہ ہلاکت وبربادی ہے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّیْلَمِیِّ، قَالَ:قَالَ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِی ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَلْقَى عَلَیْهِمْ مِنْ نُورِهِ یَوْمَئِذٍ فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ نُورِهِ یَوْمَئِذٍ، اهْتَدَى وَمَنْ أَخْطَأَهُ، ضَلَّ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق کواندھیرے میں پیدافرمایاپھران پراس دن اپنے نورکوڈالاجس پراس دن نورالٰہی(کااثر)پہنچاوہ ہدایت یاب ہوگیا اورجواسے محروم رہاوہ گمراہ ہوگیا۔[94]

جیسے متعددمقامات پر فرمایا

اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِیٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ یُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۵۷ۧ(البقرة۲۵۷)

ترجمہ:جولوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی ومددگار اللہ ہے اوروہ ان کوتاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتاہے اور جو لوگ کفرکی راہ اختیارکرتے ہیں ان کے حامی ومددگار طاغوت ہیں اوروہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ۝۰ۭ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۲۴ۧ [95]

ترجمہ:ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھابہرااوردوسراہودیکھنے اورسننے والاکیایہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم(اس مثال سے)کوئی سبق نہیں لیتے؟ ۔

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙوَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۝۲۰ۙوَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚوَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۔۔۔۝۰۝۲۲ [96]

ترجمہ: اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے،نہ تاریکیاں اورروشنی یکساں ہیں ،نہ ٹھنڈی چھاؤں اوردھوپ کی تپش ایک جیسی ہے ، اورنہ زندے اور مردے مساوی ہیں ۔

اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰی وَجْهِهٖٓ اَهْدٰٓى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۲۲ [97]

ترجمہ: بھلا سوچو جوشخص منہ اوندھائے چل رہاہووہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یاوہ جوسراٹھائے سیدھاایک ہموارسڑک پرچل رہا ہو ؟۔

جن لوگوں کو دعوت حق پیش کی جائے اوروہ اس کی تکذیب کریں اورٹیڑھے راستوں پرچلنے کوترجیح دیں ،ان کے لئے اللہ کاقانون یہی ہے کہ پھر انہیں کفروضلالت کی تاریکیاں خوشنما بنا دی جاتی ہیں ، وہ اپنی برائیوں کوہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ،پھریہ چیزیں عقیدہ بن کران کے دل میں بیٹھ جاتی ہیں ،اوران کاوصف راسخ بن کران کے کردارمیں شامل ہوجاتی ہیں ،کیونکہ کفارومشرکین کے سرداراورقائدین جودنیاوی دولت اورخاندانی وجاہت کے اعتبار سے نمایاں اور دینی معاملات میں مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں ، اس لئے ہمیشہ ہی انبیاء اورداعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں ،انہی کے بارے میں فرمایاکہ اسی طرح ہم نے ہربستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگادیاہے کہ وہاں اپنے مکروفریب کاجال پھیلائیں ،انبیاء ومرسلین کی مخالفت کریں ،جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ۔۔۔۝۰۝۳۱ [98]

ترجمہ:اے محمد ! ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔

اوران کے پیروکاروں کوچکنی چپڑی باتوں ،لالچ اورظالم وستم سے راہ راست پرچلنے سے روکنے کی کوشش کریں اور اپنے گناہوں میں مزیداضافہ کریں ،مگران کی سازشیں اورمکروفریب انجام کارانہی کے خلاف پڑتاہے مگرانہیں اس کاشعور نہیں ،جیسے فرمایا

وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ۝۰ۡوَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ [99]

ترجمہ:ہاں ضروروہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی،اورقیامت کے روزیقیناان سے ان افتراپردازیوں کی بازپرس ہوگی جووہ کرتے رہے ہیں ۔

لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا یَزِرُوْنَ۝۲۵ۧ [100]

ترجمہ:یہ باتیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ قیامت کے روزاپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں اورساتھ ساتھ ان لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بربنائے جہالت گمراہ کررہے ہیں ، دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جویہ اپنے سر لے رہے ہیں ۔

جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تووہ غروروتکبر اور خودپسندی میں اللہ پراعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ہم اس وقت تک اس پرایمان نہ لائیں گے جب تک کہ اللہ ہمیں بھی نبوت ورسالت کے منصب سے سرفراز نہ کرے اورفرشتے ہمارے پاس بھی وحی لے کرنازل ہوں ،ایک مقام پرکفارکایہ اعتراض بیان کیاگیا

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَـتَیْنِ عَظِیْمٍ۝۳۱ [101]

ترجمہ:کہتے ہیں یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ؟۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے فاسداعتراض کورد کرتے ہوئے فرمایااللہ زیادہ بہترجانتاہے کہ کون ہرقسم کے خلق جمیل سے متصف اورہرقسم کے گندے اخلاق سے مبراہے اور کون منصب نبوت ورسالت کااہل ہے ، مجرموں کو وعیدسناتے ہوئے فرمایاقریب ہے وہ وقت جب یہ مجرم اپنی سازشوں اورمکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اورجہنم کے دردناک عذاب سے دوچارہوں گے،اس دن ان کی ساری عیاریاں اورمکاریاں کھل جائیں گی ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الغَادِرَ یُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ یَوْمَ القِیَامَةِ، فَیُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہربدعہدکی راہوں کے پاس قیامت کے دن ایک جھنڈالہراتاہوگااوراعلان ہوتا ہوگاکہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔ [102]

عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا خَلَعَ النَّاسُ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ بَنِیهِ وَأَهْلَهُ، ثُمَّ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّا قَدْ بَایَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَیْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ الْغَادِرَ یُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ ، وَإِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْغَدْرِ أَنْ لَا یَكُونَ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ تَعَالَى، أَنْ یُبَایِعَ رَجُلٌ رَجُلًا عَلَى بَیْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ یَنْكُثَ بَیْعَتَهُ، فَلَا یَخْلَعَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ یَزِیدَ، وَلَا یُشْرِفَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ فِی هَذَا الْأَمْرِ، فَیَكُونَ صَیْلَمٌ بَیْنِی وَبَیْنَهُ

نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں جب لوگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے سارے بیٹوں اور اہل خانہ کو جمع کیا شہادتین کا اقرار کیااور فرمایا امابعد! ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر اس شخص کی بیعت کی تھی، اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر دھوکے باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کی دھوکہ بازی ہے،اور شرک کے بعد سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کسی کی بیعت کرے اور پھر اسے توڑ دے،اس لئے تم میں سے کوئی بھی یزید کی بیعت توڑے اور نہ ہی امیر خلافت میں جھانک کر بھی دیکھے ورنہ میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہیں رہے گا ۔[103]

فَمَن یُرِدِ اللَّهُ أَن یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن یُرِدْ أَن یُضِلَّهُ یَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَیِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ یَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٢٥﴾‏ وَهَٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَذَّكَّرُونَ ‎﴿١٢٦﴾‏ ۞ لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِیُّهُم بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏(الانعام)
سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کردیتا ہےاور جس کو بےراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کردیتا ہے ، اور یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے ،ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا،ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے ۔

جس پراللہ کاکرم اس پرراہ ہدایت آسان :

پس یہ حقیقت ہے کہ جسے اللہ ایمان و ہدایت بخشنے کاارادہ کرتاہے اس کاسینہ اسلام کے لئے کھول دیتاہے،یعنی اس کے دل سے شکوک وشبہات اورتذبذب وترددکودورکر کے اسلام کی صداقت پرپوری طرح مطمئن کردیتاہے،اس کانفس نیکی سے محبت اورنیکی میں لذت محسوس کرتاہے جیسے فرمایا

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۔۔۔[104]

ترجمہ:اب کیاوہ شخص جس کاسینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیااوروہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پرچل رہاہے(اس شخص کی طرح ہوسکتاہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا)۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللهِ۝۰ۭ لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ۝۷ۙ [105]

ترجمہ:خوب جان رکھوکہ تمہارے درمیان اللہ کارسول موجودہے اگروہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیاکرے توتم خودہی مشکلات میں مبتلا ہوجاؤ،مگراللہ نے تم کوایمان کی محبت دی اور اس کوتمہارے لئے دل پسندبنادیا؟اورکفروفسو اورنافرمانی سے تم کومتنفرکردیاایسے ہی لوگ اللہ کے فضل واحسان سے راست روہیں اوراللہ علیم وحکیم ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: فَمَنْ یُرِدِ اللَّهُ أَنْ یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ یَقُولُ: یُوَسِّعْ قَلْبَهُ لِلتَّوْحِیدِ وَالإِیمَانِ بِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ’’سوجس شخص کواللہ تعالیٰ راستہ پرڈالناچاہے اس کے سینہ کواسلام کے لیے کشادہ کردیتاہے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کوتوحیداورایمان کے لیے کشادہ فرمادیتاہے۔[106]

اورجسے گمراہی میں ڈالنے کاارادہ کرتاہے اس کے سینے کوعلم ،ایمان اوریقین کے بجائے شبہات وشہوات کے سمندرمیں غرق کردیتاہے اوراس کے سینے کو ایسابھینچتاہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کاتصورکرتے ہی اسے یوں معلوم ہونے لگتاہے کہ گویااس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے،

وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْر: یَجْعَلُ صَدْرَهُ {ضَیِّقًا حَرَجًا} قَالَ: لَا یَجِدُ فِیهِ مَسْلَكًا إِلَّا صُعدا

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے سینے کوتنگ اورگھٹاہواکردیتاہے کہ وہ یوں محسوس کرتاہے گویاوہ آسمان پرچڑھ رہاہے اوراس کے سواوہ کوئی اوررستہ نہیں پاتا۔[107]

أَنْبَأَ الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ:كَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ، یَقُولُ: فَكَمَا لَا یَسْتَطِیعُ ابْنُ آدَمَ أَنْ یَبْلُغَ السَّمَاءَ , فَكَذَلِكَ لَا یَقْدِرُ عَلَى أَنْ یُدْخِلَ التَّوْحِیدَ وَالْإِیمَانَ قَلْبَهُ حَتَّى یُدْخِلَهُ اللَّهُ فِی قَلْبِهِ

حکیم بن ابان نے عکرمہ سے اورانہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’جیسے کوئی آسمان پرچڑھتاہے۔‘‘کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ابن آدم آسمان تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتااسی طرح اسے اس بات کی بھی استطاعت نہیں کہ توحیداورایمان اس کے دل میں داخل ہوسوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ توحیداورایمان کواس کے دل میں داخل فرمادے۔[108]

أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِیرٍ:وَهَذَا مَثَلٌ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ ضَرَبَهُ لِقَلْبِ هَذَا الْكَافِرِ فِی شِدَّةِ تَضْیِیقِهِ إِیَّاهُ عَنْ وُصُولِهِ إِلَیْهِ، مِثْلُ امْتِنَاعِهِ مِنَ الصَّعُودِ إِلَى السَّمَاءِ وَعَجْزِهِ عَنْهُ ، لِأَنَّ ذَلِكَ لَیْسَ فِی وِسْعِهِ وَطَاقَتِهِ

ابوجعفربن جریرفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ کافرکے دل کی ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ ایمان کے قبول نہ کرنے اورایمان کے اس تک پہنچنے کے لیے اس طرح تنگ ہوتا ہے جس طرح وہ آسمان پرچڑھنے سے عاجزودرماندہ ہے کیونکہ یہ بات اس کی استطاعت وقوت سے باہر ہے کہ وہ آسمان پرچڑھ سکے۔[109]

دعوت حق سے فرار اور نفرت کی ناپاکی کے سبب اللہ ایسے لوگوں پر شیطان مسلط کردیتاہے جوانہیں بہکاتے رہتے ہیں ۔

وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِیْنٌ۝۳۶وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۳۷ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ۝۳۸ [110]

ترجمہ:جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے،یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ،آخرکار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بعد ہوتا تو تو بدترین ساتھی نکلا ۔

حالانکہ توحید،ایمان اوراطاعت کا راستہ تمہارے رب کی سیدھی اورصاف جرنیلی سڑک ہے ، جس پرکوئی اندھی کھائی کوئی اونچ نیچ اورکوئی چوراورلٹیرانہیں ،جوعزت وتکریم کے گھرتک پہنچانے والامعتدل راستہ ہے ، اس راستہ کی صداقت کے دلائل وبراہین ان سلیم الفطرت لوگوں کے لئے واضح کر دیئے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں ،راہ راست پرچلنے والوں کے لئے ان کے رب کے پاس انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنت ہے، طرح طرح کے انعامات کی بارش ہے ،راحت واطمینان ،سرور اور خوشی ہی خوشی ہے،اللہ رب العزت کے چہرہ انورکادیدارہے جسے دیکھ کرجنت کی ہرنعمت ہیچ معلوم ہوگی ، اور ان کے صحیح طرزعمل کی وجہ سے وہ ان کاایسادوست ہے جوان کے تمام معاملات میں ان کے ساتھ لطف وکرم سے پیش آتاہے،اورہرمشکل میں ان کی دست گیری فرماتاہے ۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِیَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِی أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِینَ فِیهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِیمٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿١٢٩﴾(الانعام)
اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا (کہے گا) اے جماعت جنات کی ! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لیے جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تو نے جو ہمارے لئے معین فرمائی، اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے، ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے، بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے، اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب۔

 یوم حشر:

روزمحشرجب اللہ مالک یوم الدین تمام خلائق کوگھیرکرجمع کرے گا،انسان ،جنات ،عابداورمعبودسب خوف ودہشت سے سرجھکائے ایک ہموارمیدان میں کھڑے ہوں گے اس روز اللہ شیاطین جنوں سے خطاب کرکے فرمائے گاکہ اے گروہ جن!تم نے تو انسانوں کے ایک کثیرتعدادکو بہکااورورغلاکر اپنا پیرو کار بنا لیا ، جیسےایک مقام پرفرمایا

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙوَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ۝۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِیْمٌ۝۶۱وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِیْرًا۝۰ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ۝۶۲ [111]

ترجمہ:آدم کے بچو!کیامیں نے تم کوہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو،وہ تمہاراکھلادشمن ہےاورمیری ہی بندگی کرو یہ سیدھاراستہ ہے؟مگراس کے باوجوداس نے تم میں سے ایک گروہ کثیرکوگمراہ کردیاکیاتم عقل نہیں رکھتے تھے۔

انسانوں میں سے جو جنوں کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے پروردگار!ہم میں سے ہرایک نے دوسرے سے ناجائزفائدے حاصل کیے ، ہرایک دوسرے کوفریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہاہے،

قَالَ الْحَسَنُ: وَمَا كَانَ اسْتِمْتَاعُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ إِلَّا أَنَّ الْجِنَّ أَمَرَتْ وَعَمِلَتِ الْإِنْسُ

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ تھی کہ جن حکم دیتے اورانسان اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔[112]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَوْلُهُ:{رَبَّنَا اسْتَمْتَعْ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ} قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَنْزِلُ الْأَرْضَ فَیَقُولُ: أَعُوذُ بِكَبِیرِ هَذَا الْوَادِی فَذَلِكَ اسْتِمْتَاعُهُمْ، فَاعْتَذِرُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ

ابن جریح رحمہ اللہ آیت’’اے ہماے پروردگار!ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیاتھا۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھاکہ جب کوئی شخص کسی جگہ پڑاؤڈالتاتووہ کہتاکہ میں اس وادی کے سربراہ کی پناہ طلب کرتاہوں تویہ تھاان کافائدہ حاصل کرناجسے وہ قیامت کے دن بطورمعذرت ذکرکریں گے۔[113]

یوں جنوں نے انسانوں سے اپنی اطاعت ،اپنی عبادت اور اپنی تعظیم کرواکے اوران کی پناہ کی طلب سے فائدہ اٹھایااورانسان جنوں کی خدمت کے مطابق اپنی اغراض اورشہوات کے حصول میں ان سے فائدے اٹھاتے ہیں ، پھر گریہ زاری اوررقت سے کہیں گے اب ہم مقررہ وقت پراپنی قبروں سے دوبارہ زندہ ہوکر میدان محشرمیں پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اعمال کابدلہ دیاجائے گا ،اب توجوچاہے ہمارے ساتھ سلوک کراورجوتیراارادہ ہے ہمارے بارے میں وہی فیصلہ کرہمارے پاس کوئی عذرباقی نہیں رہا، اللہ تعالیٰ عدل پرمبنی فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا جہنم کے دردناک عذاب میں داخل ہوجاؤاب یہی تمہارادائمی ٹھکاناہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ [114]

ترجمہ:اورتیرارب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے ۔

اس الم ناک عذاب سے صرف وہی نجات پائیں گے جنہیں اللہ اپنے علم وحکمت سے بچانا چاہئے گا،اس سے نہ وہ عاجزہے اور نہ کوئی اسے روکنے والاہے ، جیسے فرمایا

خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۝۱۰۷ [115]

ترجمہ:اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین وآسمان قائم ہیں الایہ کہ تیرارب کچھ اورچاہے ،بے شک تیرارب پورااختیاررکھتاہے کہ جو چاہے کرے،بیشک تمہارا رب دانااورعلیم ہے۔

دیکھواس طرح ہم آخرت کی سزا پانے میں ظالموں کوایک دوسرے کاساتھی بنائیں گے اس کمائی کی وجہ سے جووہ دنیامیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کرکرتے تھے،

عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَكَذَلِكَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا} فِی الدُّنْیَا ویَتْبَعُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِی النَّارِ

معمرنے قتادہ سے آیت ’’اوراسی طرح ہم بعض کفارکوبعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب۔‘‘کےبارے میں روایت کیاہے کہ اللہ تعالیٰ دنیامیں بعض ظالموں کوبعض پرمسلط کردے گااوروہ جہنم میں ایک دوسرے کے پیچھے چلیں گے۔[116]

کسی شاعرنے کیاخوب کہا ہے۔

وَمَا مِن یَد إِلَّا یدُ اللَّهِ فَوْقَهَا ،وَلَا ظَالِمٍ إِلَّا سَیُبلى بِظَالِمٍ

ہرہاتھ کے اوپراللہ تعالیٰ کاہاتھ ہے اورہرایک ظالم کواپنے سے بڑےظالم کے ساتھ واسطہ پیش آتاہے۔[117]

یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ یَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْكُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ یَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِینَ ‎﴿١٣٠﴾‏ ذَٰلِكَ أَن لَّمْ یَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ ‎﴿١٣١﴾‏(الانعام)
اے جنات اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیتے ؟ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے ، اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بےخبر ہوں ۔

میدان محشرمیں اللہ تعالیٰ کافرجنوں اورانسانوں سے سرزنش کرتے ہوئے یہ بھی پوچھے گاکہ اے گروہ جن وانس!کیاتمہارے پاس خودتم ہی میں سے ہمارے پیغمبرنہیں آئے تھے جوتم کومیرے احکام بیان کرتے اوراس دن کی ملاقات اوراس کے انجام سے ڈراتے تھے،تمام ائمہ سلف خلف کامذہب یہی ہے کہ سارے انبیاء انسان ہی تھے کبھی کوئی جن رسول نہیں ہوا،جنات میں نیک لوگ جنوں کونیکی کی تعلیم کرتے تھے،

عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزاحم: أَنَّهُ زَعَمَ أَنَّ فِی الْجِنِّ رُسُلًا وَاحْتَجَّ بِهَذِهِ الْآیَةِ الْكَرِیمَةِ

مگرضحاک بن مزاحم سے ایک روایت مروی ہے جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اوروہ اس آیت کوبطوردلیل پیش کرتے ہیں ۔

مگر یہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں صراحت نہیں اوریہ آیت بالکل اس آیت جیسی ہے۔

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۝۱۹ۙبَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۝۲۰ۚفَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۲۱یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۝۲۲ۚ [118]

ترجمہ:دوسمندروں کواس نے چھوڑدیاکہ باہم مل جائیں ،پھربھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوزنہیں کرتے پس اے جن وانس!تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤگے؟ان سمندروں سے موتی اورمونگے نکلتے ہیں ۔

حالانکہ موتی اورمونگے صرف کھاری پانی کے سمندروں سے نکلتے ہیں ، میٹھے پانی سے نہیں ،لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کانکلناپایاجاتاہے کہ ان کی جنس میں سے مرادیہی ہے اس طرح اس آیت میں مرادانسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دونوں میں سے ہرایک میں سے ،اوررسولوں کے صرف انسان ہونے کی دلیل یہ ہے۔

 اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ كَـمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّـبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ۝۰ۚ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَعِیْسٰى وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَیْمٰنَ۝۰ۚ وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۝۱۶۳ۚ [119]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح علیہ السلام اوراس کے بعدکے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ،ہم نے ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ،یونس علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام اورسلیمان علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی،ہم نے داود علیہ السلام کوزبوردی۔

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَا۝۰ۚ وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۲۷ [120]

ترجمہ:اورہم نے اسے اسحاق علیہ السلام اوریعقوب علیہ السلام (جیسی اولاد)عنایت فرمائی اوراس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی اوراسے دنیامیں اس کااجرعطاکیااورآخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہوگا۔

اس سے ثابت ہواکہ ابراہیم خلیل اللہ کے بعدنبوت آپ کی اولادمیں ہی رہی ، اوراس بات کاکوئی بھی قائل نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے جنات میں رسول ہوتے تھے اور پھر ان میں نبوت ختم کردی گئی،ایک اورمقام پر فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ ۔۔۔ ۝۲۰ۧ [121]

ترجمہ:اے نبی!تم سے پہلے جورسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اوربازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے ۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔۔۔ ۝۱۰۹ [122]

ترجمہ:اے نبی!تم سے پہلے ہم نے جوپیغمبربھیجے وہ سب بھی انسان ہی تھے اورانہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اورانہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔

اورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس تشریف لارہے تھے اورفجرکی نمازمیں سورہ الرحمٰن تلاوت کررہے تھے اس وقت کلام الٰہی کوسن کرجن اپنی قوم کی طرف چلے گئے اور انہیں یوں وعظ ونصیحت کی تھی۔

وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝۰ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ۝۲۹قَالُوْا یٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِیْقٍ مُّسْـتَقِیْمٍ۝۳۰ یٰقَوْمَنَآ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللهِ وَاٰمِنُوْا بِهٖ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۱وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَلَیْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَاۗءُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ۝۳۲ [123]

ترجمہ:(اوروہ واقعہ بھی قابل ذکرہے) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کوتمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں ،جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انہوں نے آپس میں کہاخاموش ہوجاؤ پھر جب وہ پڑھا جاچکا تووہ خبردارکرنے والے بن کراپنی قوم کی طرف پلٹےانہوں نے جاکرکہااے ہماری قوم کے لوگو!ہم نے ایک کتاب سنی ہے جوموسٰی کے بعدنازل کی گئی ہے ،تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی،رہنمائی کرتی ہے حق اورراہ راست کی طرف،اے ہماری قوم کے لوگو!اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرلواوراس پر ایمان لے آؤاللہ تمہارے گناہوں سے درگزرفرمائے گااورتمہیں عذاب الیم سے بچادے گااورجوکوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتارکھتاہے کہ اللہ کوزچ کردے اورنہ اس کے کوئی ایسے حامی وسرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچالیں ،ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔

اگرجنات میں رسول ہوتے تووہ موسیٰ علیہ السلام پرمنزل کتاب تورات کاحوالہ نہ دیتے اورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایمان لانے کی دعوت دیتےبلکہ یوں کہتے کہ جس طرح ہمارے فلاں رسول پر کتاب نازل ہوئی تھی ویسی ہی کتاب انسانوں میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی ہے ،اوراگرجنات میں رسول ہوتے ہیں توپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوانہیں دعوت حق دینے کے لئے تشریف لے جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی ،ایک مقام پر فرمایا

سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَا الثَّقَلٰنِ۝۳۱فَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۳۲ۚ [124]

ترجمہ:اے زمین کے بوجھو (یعنی اے جنو و انسانو)عنقریب ہم تم سے بازپرس کرنے کے لئے فارغ ہوئے جاتے ہیں ،پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟۔

الغرض اس آیت میں جنوں کوبطور خطاب شامل کرلیاگیاہے ورنہ رسول سب کے سب انسان ہی تھے ۔

کیونکہ نامہ اعمال کے مطابق عدل پر مبنی فیصلہ ہوچکاہوگااس لئے مجرمین کواپنے گناہوں کااقرارکیے بغیرکوئی چارہ نہیں ہو گااس لئے عرض کریں گے ہاں ہمارے پاس تمہارے پیغمبرآئے تھے ،جنہوں نے وعظ و تبلیغ کاحق اداکردیاتھامگرہم نے ان کوسختی سےجھٹلایااورکھل کران کی مخالفت کی اوردعوت حق کوروکنے کی ہرممکن کوشش کی ،ہم اپنی سرکشی وبغاوت اور گناہوں کی خودگواہی دیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں الم ناک عذاب کافیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا۔

قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ۔۔۔۝۳۸ [125]

ترجمہ:اللہ فرمائے گاجاؤتم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤجس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن وانس جاچکے ہیں ۔

آج دنیا کے مال ودولت ،جاہ و حشمت اور گمراہ کن عقائد نے ان لوگوں کودھوکے میں ڈال دیاہےاوردنیاکی رنگینیوں نے انہیں آخرت سے غافل کررکھاہے مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے،جیسے فرمایا

تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۝۰ۭ كُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ۝۸قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَاۗءَنَا نَذِیْرٌ۝۰ۥۙ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۚۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ۝۹وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ۝۰ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۱ [126]

ترجمہ:شدتِ غضب سے پھٹی جاتی ہوگی ،ہربارجب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گااس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کیاتمہارے پاس کوئی خبردارکرنے والانہیں آیاتھا؟وہ جواب دیں گے ہاں خبردارکرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگرہم نے اسے جھٹلا دیا اورکہااللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیاہےتم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو،اورکہیں گے کاش! ہم سنتے یاسمجھتے توآج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں شامل نہ ہوتے ،اس طرح وہ اپنے قصورکا خود اعتراف کرلیں گے،لعنت ہے ان دوزخیوں پر۔

یہ شہادت ان سے اس لئے لی جائے گی کہ یہ ثابت ہو جائے کہ تمہارا رب بستیوں کواس وقت تک ہلاک نہیں کرتاجب تک کہ رسولوں کوبھیج کرحجت قائم نہ کردے ، اسی مضمون کو متعدد مقامات پر فرمایا

۔۔۔وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ۝۲۴وَاِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۝۰ۚ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ۝۲۵ [127]

ترجمہ:اورکوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والانہ آیاہواب اگریہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں توان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلاچکے ہیں ،ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب لے کر آئے تھے۔

قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۶ [128]

ترجمہ :ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کونیچادکھانے کے لئے)ایسی ہی مکاریاں کرچکے ہیں تودیکھ لوکہ اللہ نے ان کے مکرکی عمارت جڑسے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپرسے ان کے سر پر آ رہی اورایسے رخ سے ان پرعذاب آیاجدھرسے اس کے آنے کاان کوگمان تک نہ تھا۔

مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْــتَدِیْ لِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا۝۰ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵ [129]

ترجمہ:جوکوئی راہ راست اختیارکرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لئے مفیدہے اور جو گمراہ ہواس کی گمراہی کاوبال اسی پرہے،کوئی بوجھ اٹھانے والادوسرے کابوجھ نہ اٹھائے گااورہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کوحق وباطل کافرق سمجھانے کے لئے) ایک پیغام برنہ بھیج دیں ۔

وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٣٢﴾‏ وَرَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ إِن یَشَأْ یُذْهِبْكُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا یَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ ‎﴿١٣٣﴾‏ إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِینَ ‎﴿١٣٤﴾‏ قُلْ یَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّی عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ‎﴿١٣٥﴾(الانعام)
اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب ان کے اعمال سے بےخبر نہیں ہے، اور آپ کا رب بالکل غنی ہے رحمت والا ہے، اگر وہ چاہے تم سب کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ آباد کردے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے، جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ بیشک آنے والی چیز ہے تم عاجز نہیں کرسکتے، آپ یہ فرما دیجئے اے میری قوم ! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں ، سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لیے نافع ہوگا ،یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔

اللہ سب مخلوق سے بے نیازہے :

ہرانسان اورجن کے ان کے باہمی درجات میں عملوں کے مطابق فرق وتفاوت ہوگا اورتمہارارب لوگوں کے اعمال سے بے خبرنہیں ،

الْقَوْلُ فِی تَأْوِیلِ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ} [130]یَقُولُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَكُلُّ ذَلِكَ مِنْ عَمَلِهِمْ یَا مُحَمَّدُ بِعِلْمٍ مِنْ رَبِّكَ یُحْصِیهَا وَیُثْبِتُهَا لَهُمْ عِنْدَهُ لِیُجَازِیهِمْ عَلَیْهَا عِنْدَ لِقَائِهِمْ إِیَّاهُ وَمَعَادِهِمْ إِلَیْهِ

ابن جریرفرماتے ہیں آیت ’’اورآپ کارب ان کے اعمال سے بے خبرنہیں ہے۔ کامفہوم یہ ہے کہ(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ کارب ان کے کسی عمل سے بھی بےخبرنہیں ہے اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کو شمار کرکے اپنے پاس محفوظ کررہاہے اورجب یہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے تووہ قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق انہیں بدلہ دے گا۔[131]

تمہارا رب مخلوق سے بے نیازہے،وہ نہ توتمہارامحتاج ہے اورنہ تمہاری عبادتوں کاحاجت مند،سارے انسانوں وجنوں کاایمان لانا ان کے لئے نفع بخش ہے اورنہ ان تمام کا کفر اس کے لئے ضرررساں ،لیکن اس شان غناکے ساتھ وہ رحیم وکریم ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۶۵ [132]

ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اوررحیم ہے۔

اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پررحمت کرنے میں مانع نہیں ہے ،اس لئے وہ تمہیں صحیح طرزعمل کی تعلیم دیتا ہے تاکہ تم راہ راست اختیارکرکے اس کی انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنتوں کے وارث بنواورعذاب جہنم سے بچ جاؤ،اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ قوت اورغیر محدود قدرت کااظہار فرمایااگرتم اس کی پاکیزہ دعوت کی تکذیب اوراس کے رسول کوجھٹلارہے ہوتویادرکھوکہ جس طرح اس نے کئی قوموں کوحرف غلط کی طرح مٹادیااوران کی جگہ نئی قوموں کوکھڑا کر دیااسی طرح اگروہ چاہے تو تمہیں تمہارے اعمال کے سبب نیست ونابود کر دے اورتمہاری جگہ ایسی قوم کوپیداکردے جواپنے معبودحقیقی کی طاعت وفرمانبرداری کریں ، اس مضمون کومتعددمقام پر فرمایا

اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَلٰی ذٰلِكَ قَدِیْرًا۝۱۳۳ [133]

ترجمہ:اگروہ چاہے توتم لوگوں کوہٹاکر تمہاری جگہ دوسروں کولے آئے اوروہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

۔۔۔ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۱۹ۙ [134]

ترجمہ وہ چاہے توتم لوگوں کولے جائے اورایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللهِ۝۰ۚ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۝۱۵اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۱۶ۚوَمَا ذٰلِكَ عَلَی اللهِ بِعَزِیْزٍ۝۱۷ [135]

ترجمہ: لوگو !تم ہی اللہ کے محتاج ہواوراللہ توغنی وحمیدہے،وہ چاہے توتمہیں ہٹاکرکوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئےایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوارنہیں ۔

۔۔۔ وَاللهُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ۝۰ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۝۳۸ۧ [136]

ترجمہ:اللہ توغنی ہے تم ہی اس کے محتاج ہو،اگرتم منہ موڑو گے تواللہ تمہاری جگہ کسی اورقوم کولے آئے گااوروہ تم جیسے نہ ہوں گے ۔

اورلوگو!قیامت کے قائم ہونے،حیات بعدالموت ،حشرنشراوراعمال کی جزا کاتم سے جو وعدہ کیاجارہاہے وہ یقیناًایک وقت مقررہ پرپوراہوکررہے گا،تم اللہ کوعاجزنہیں کر سکتے ، اس کے عذاب سے کہیں بھاگ کرنہیں جاسکتے ،کیونکہ تمہاری پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اورتم اس کی تدبیراورتصرف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہو،اللہ اس پرمکمل قدرت رکھتاہے کہ جب تم مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوچکے ہو گے تو تمہیں تمہاری قبروں سے دوبارہ پیداکردے اورتمہیں میدان محشرمیں جمع کرکے اچھے اعمال کی جزااوربرے اعمال کی سزادے ،اورکفارو مشرکین کووعیددیتے ہوئے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کفار و مشرکین سے کہہ دوکہ لوگو!اگرتم میرے وعظ ونصیحت پر تدبروتفکرکرنے پرتیارنہیں اور شیطان جوتمہاراازلی دشمن ہے کواپناولی اورسرپرست بناکردعوت حق کی تکذیب کررہے ہو،بغیرکسی دلیل اورسندکے غیراللہ کو اللہ وحدہ لاشریک کاشریک ٹھہرانے پرمصر ہو اور اپنی خواہش نفس کواپناالٰہ بنارہے ہوتوٹھیک ہے اپنے انہی عقائدواعمال پرقائم رہو اوراپنے کفرو بداعمالیوں پرپھولے نہ سماؤ، اورمیں بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اعمال بجالا تاہوں اوراس کی مرضی کی اتباع کرتاہوں اوراپنی بھول چوک پراس سے بخشش ومغفرت کاطلب گارہوں ، روز قیامت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون ہدایت پر تھا اور کون کفروضلالت پر، کس کا انجام بہتر ہوتا ہے، کون اللہ کی جنتوں میں داخل ہو کر سرفرازاور کامران ہوتاہے،کس کا استقبال ہوتاہے اورکون سلامتی کے ترانے سنتاہے اورکون جہنم کے دردناک عذاب میں مبتلا ہوکرموت کوپکارتا ہے ، جیسے فرمایا

وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلٰی مَكَانَتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّا عٰمِلُوْنَ۝۱۲۱ۙوَانْتَظِرُوْا۝۰ۚ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۝۱۲۲ [137]

ترجمہ:وہ لوگ جوایمان نہیں لاتے توان سے کہہ دوکہ تم اپنے طریقے پرکام کرتے رہواورہم اپنے طریقے پرکیے جاتے ہیں انجام کارکاتم بھی انتظارکرواورہم بھی منتظرہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول سے جووعدے کیے ہیں وہ اٹل ہیں اوریہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ» قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [138]

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ظالم کوڈھیل دیتاہے یہاں تک کہ جب اس کوپکڑلیتاہے تواسے چھوڑتانہیں ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے ، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے۔‘‘[139]

وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا یَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ یَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ ‎﴿١٣٦﴾‏ وَكَذَٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِینَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ ‎﴿١٣٧﴾‏(الانعام)
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیدا کیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اوربزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے، پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں ،اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو برباد کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تویہ ایسا کام نہ کرتے تو آپ ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔

بدعت کاآغاز:

کفارومشرکین نے مویشیوں اورزرعی پیداوارمیں بھی اپنے خودساختہ عقائدگھڑرکھے تھے ،مشرکین اس بات کے قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اوروہی اس میں سے پیداوار اگاتاہے ،اسی طرح جانوروں کاخالق بھی اللہ ہی ہےجن سے وہ خدمت لیتے ہیں ،لیکن ان کاجاہلی تصوریہ تھاکہ ان پراللہ کایہ فضل وکرم ان بے شمار دیویوں ، دیوتاؤں ، فرشتوں ، جنات ،اجرام فلکی اورآباؤاجداد کی ارواح کامرحون منت ہے جوان پرنظرکرم رکھتے ہیں ،اس لئے وہ مال مویشیوں اورزرعی پیداوارمیں سے ایک مخصوص حصہ شکرانے کے طورپر اللہ کے لئے مقررکردیتے جس نے انہیں یہ کھیت اورجانوربخشے اور ایک مخصوص حصہ اپنے خودساختہ معبودوں کے لئے مقرر کر دیتے تاکہ ان کی نظر کرم شامل حال رہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ} [140]الْآیَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ أَعْدَاءَ اللَّهِ كَانُوا إِذَا احْتَرَثُوا حَرْثًا أَوْ كَانَتْ لَهُمْ ثَمَرَةٌ، جَعَلُوا لِلَّهِ مِنْهَا جُزْءًا، وَلِلْوَثَنِ جُزْءًا، فَمَا كَانَ مِنْ حَرْثٍ أَوْ ثَمَرَةٍ أَوْ شَیْءٍ مِنْ نَصِیبِ الْأَوْثَانِ حَفَظُوهُ وَأَحْصَوْهُ، فَإِنْ سَقَطَ مِنْهُ شَیْءٌ فِیمَا سُمِّیَ لِلَّهِ رَدُّوهُ إِلَى مَا جَعَلُوا لِلْوَثَنِ، وَإِنْ سَبَقَهُمُ الْمَاءُ إِلَى الَّذِی جَعَلُوهُ لِلْوَثَنِ فَسَقَى شَیْئًا جَعَلُوهُ لِلَّهِ، جَعَلُوا ذَلِكَ لِلْوَثَنِ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ کی تفسیرمیں روایت کیاہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمن جب کوئی کھتی بوتے یاکسی پھل کوحاصل کرتے تواس میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اورایک بت کے لیے مقررکردیتے،اورفصل ،پھل یاکسی بھی دوسری چیزمیں سے جوحصہ بتوں کے لیے ہوتااس کی توخوب حفاظت کرتے،اسے گن گن کررکھتےاوراللہ تعالیٰ کے لیے مقررکیے ہوئے حصے میں سے اگرکوئی چیزگرجاتی تواسے اٹھاکربت کے حصے میں شامل کردیتے اوراگربت کے لیے مقررکی ہوئی چیزکوپانی سیراب کرتے اوراللہ کے لیے مقررکیے ہوئے حصے کوبھی سیراب کردیتاتوسب کوبت کے لیے کردیتے(بت کاحصہ اوراللہ کاحصہ جوسیراب ہوجاتا)

وَإِنْ سَقَطَ شَیْءٌ مِنَ الْحَرْثِ وَالثَّمَرَةِ الَّتِی جَعَلُوا لِلَّهِ فَاخْتَلَطَ بِالَّذِی جَعَلُوا لِلْوَثَنِ، قَالُوا: هَذَا فَقِیرٌ، وَلَمْ یَرُدُّوهُ إِلَى مَا جَعَلُوا لِلَّهِ. وَإِنْ سَبَقَهُمُ الْمَاءُ الَّذِی جَعَلُوا لِلَّهِ فَسَقَى مَا سُمِّیَ لِلْوَثَنِ تَرَكُوهُ لِلْوَثَنِ. وَكَانُوا یُحَرِّمُونَ مِنْ أَنْعَامِهِمُ: الْبَحِیرَةَ، وَالسَّائِبَةَ، وَالْوَصِیلَةَ، وَالْحَامَ، فَیَجْعَلُونَهُ لِلْأَوْثَانِ، وَیَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ یُحَرِّمُونَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ اللَّهُ فِی ذَلِكَ: {وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا} [141]الْآیَةَ

اوراگرکھیتی یاپھل میں سے اللہ تعالیٰ کے لیے مقررکیے ہوئے حصے میں سے کوئی چیزگرجاتی تواسے بت کے لیے وقف کردیتے اورکہتے کہ یہ فقیرہےاوراسے اللہ تعالیٰ کے لیے مقررکیے ہوئے حصے میں شامل نہ کرتے،اوراگراللہ تعالیٰ کے لیے مقررکیے ہوئے حصے کوپانی سیراب کردیتااوراسے بھی سیراب کردیتاجسے بت کے لیے وقف کیاہوتاتواسے بت کے لیے چھوڑدیتے تھے،اوراپنے اموال میں سے بحیرہ،سائبہ،وصیلہ اورحام کوحرام قراردے کربتوں کے لیے وقف کردیتے تھے،اورعقیدہ یہ رکھتے تھے کہ انہوں نے اپنے ان اموال کوتقرب الٰہی کے حصول کے لیے حرام قراردیاہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے’’ان لوگوں نے اللہ کے لئے خوداسی کی پیداکی ہوئی کھیتیوں اورمویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے۔‘‘[142]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِیهِ مَعِی غَیْرِی، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے میں تمام شریکوں سے بڑھ کرشرک سے بے نیازہوں ،جوکوئی میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراتاہے میں اسے اوراس کے شرک کوچھوڑدیتاہوں ۔[143]

انہی ظالموں کے بارے میں فرمایاکہ ان لوگوں نے اللہ کے لئے خوداسی کی پیداکی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقررکیاہے اوربزعم خودکہتے ہیں یہ اللہ کاحصہ ہے اوریہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کاحصہ ہے،پھرجوحصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کاحصہ ہے وہ تواللہ کونہیں پہنچتامگرجواللہ کاحصہ ہے وہ ان کے شریکوں کوپہنچ جاتاہےیہ لوگ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں ،

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا} [144]حَتَّى بَلَغَ: {وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ یَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ} [145] ، قَالَ: كُلُّ شَیْءٍ جَعَلُوهُ لِلَّهِ مِنْ ذَبْحٍ یَذْبَحُونَهُ لَا یَأْكُلُونَهُ أَبَدًا حَتَّى یَذْكُرُوا مَعَهُ أَسْمَاءَ الْآلِهَةِ، وَمَا كَانَ لِلْآلِهَةِ لَمْ یَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ مَعَهُ. وَقَرَأَ الْآیَةَ حَتَّى بَلَغَ: {سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ} [146]

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم نے اس آیت’’ان لوگوں نے اللہ کے لئے خوداسی کی پیداکی ہوئی کھیتیوں اورمویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے۔‘‘کے بارے میں بیان کیاہےکہ وہ لوگ جوچیزاللہ کے نام پرذبح کرتے اسے اس وقت تک نہیں کھاتے تھے جب تک اس پراپنے بتوں کے نام نہ لیتے تھے اورجسے وہ اپنے بتوں کے نام پرذبح کرتے تھے اس پراللہ کانام لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے،پھرانہوں نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ [147]

عرب میں قتل اولادکی تین صورتیں تھیں ۔

xمشرکین اپنی لڑکیوں کوزندہ گاڑ دیتے تھے تاکہ قبائلی لڑائیوں میں وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑجائیں ،یاان کاکوئی دامادنہ بنے ،یاکسی دوسرے سبب سے ان کے لئے عارکاسبب نہ بن سکیں ۔

x ذرائع معاش کی کمی کے سبب اپنے چھوٹے لڑکوں کوبھی قتل کردیتے تھے تا کہ ان کی پرورش کابوجھ نہ اٹھانا پڑے۔

x وہ نذر ونیاز کے نام پراپنے لڑکوں کوبتوں کی بھینٹ بھی چڑھاتے تھے۔

جیسے زمزم کے معاملہ کے موقع پر عبدالمطلب نے نذرمانی تھی کہ اگراس کے دس بیٹے ہوئے تو ایک بیٹے کوبتوں کی خوشنودی کے لئے بھینٹ چڑھائیں گے مگرمعاملہ سواونٹوں پرٹل گیا

كَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ هَاشِمٍ قَدْ نَذَرَ حِینَ لَقِیَ مِنْ قُرَیْشٍ فی حَفْرِ زَمْزَمَ ما لقی: لِئَنْ وُلِدَ لَهُ عَشَرَةُ نَفَرٍثُمَّ بَلَغُوا مَعَهُ حَتَّى یَمْنَعُوهُ، لَیَنْحَرَنَّ أَحَدَهُمْ للَّه عِنْدَ الْكَعْبَةِ

اس لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب کاچاہ زمزم کھودنے کے معاملہ پرقریش سے جھگڑاہوااوران کودبناپڑاتوانہوں نے نذرمانی کہ اگران کے دس بیٹے ہوئے اوروہ ان کی زندگی میں سن بلوغ کوپہنچ کران کی حمایت کے قابل ہوگئے تووہ ان میں سے ایک کوکعبہ میں اللہ کے لئے قربان کردیں گے۔[148]

اس طرف اشارہ فرمایاکہ ان کے سرداروں اور شیاطین نے مشرکین کے لئے ان کی اپنی اولادکے زندہ درگور اوربھینٹ چڑھانے کے عمل کو خوشنمابنادیا ہے تاکہ ان کوہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کومشتبہ بنادیں ،جیسے فرمایا

تَاللهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَوَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۶۳[149]

ترجمہ:اللہ کی قسم اے نبی!تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اورپہلے بھی یہی ہوتارہاہے کہ)شیطان نے ان کے برے کرتوت انہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کرنہ دی)وہی شیطان آج ان لوگوں کابھی سرپرست بناہواہے اوریہ دردناک سزاکے مستحق بن رہے ہیں ۔

اگر اللہ اپنے اختیارات اورقدرت سے ان کے ارادہ و اختیارکی آزادی سلب کرلیتاتو پھریقیناًوہ ایسا نہ کرتے،لیکن ایساکرناچونکہ جبرہوتاجس سے انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی جبکہ اللہ انسان کوارادہ واختیارکی آزادی دے کر آزمانا چاہتاہے اس لئے اللہ نے جبرنہیں کیا، لہذاان کے بارے میں غم زدہ نہ ہوں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنی افتراپردازیوں میں لگے رہیں ،اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کے اوران کے درمیان خودفیصلہ فرمادے گا۔

وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا یَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَیْهَا افْتِرَاءً عَلَیْهِ ۚ سَیَجْزِیهِم بِمَا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿١٣٨﴾‏ وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ هَٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِن یَكُن مَّیْتَةً فَهُمْ فِیهِ شُرَكَاءُ ۚ سَیَجْزِیهِمْ وَصْفَهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِیمٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٣٩﴾‏ قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِینَ ‎﴿١٤٠﴾(الانعام)
اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مواشی ہیں اور کھیت ہیں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں اور مواشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی، اور کچھ مواشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر ،ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے،اور وہ کہتے ہیں کہ جو چیز ان مواشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہیں ، اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں سب برابر ہیں ، ابھی اللہ ان کی غلط بیانی کی سزا دیئے دیتا ہے بلاشبہ وہ حکمت والا اور بڑا علم والا ہے، واقع خرابی میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو محض براہ حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈالا اور جو چیزیں ان کو اللہ نے ان کو کھانے پینے کے لیے دی تھیں ان کو حرام کرلیا محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر، بیشک یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے اور کبھی راہ راست پر چلنے والے نہیں ہوئے۔

مشرکین نے جانوروں اورکھیتیوں کے سلسلے میں مختلف اصطلاحات وضح کررکھی تھیں ۔

x وہ خودساختہ پابندی لگاکرکہتے کہ فلاں جانوراورفلاں کھیت کااستعمال ممنوع ہے ان کو صرف وہی لوگ کھاسکتے ہیں جنہیں ہم کھلاناچاہیں ( اوریہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین کے لئے ہوتی)

x وہ مختلف قسم کے جانوروں کواپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑدیتے اوران پر سواری اور باربرداری کے کام حرام قرار دیتے ،اس کی صورت یوں ہوتی۔

فَأَمَّا الْبَحِیرَةُ فَهِیَ بِنْتُ السَّائِبَةِ، وَالسَّائِبَةُ: النَّاقَةُ إذَا تَابَعَتْ بَیْنَ عَشْرِ إنَاثٍ لَیْسَ بَیْنَهُنَّ ذَكَرٌ، سُیِّبَتْ فَلَمْ یُرْكَبْ ظَهْرُهَا، وَلَمْ یُجَزَّ وَبَرُهَا وَلَمْ یَشْرَبْ لَبَنَهَا إلَّا ضَیْفٌ

جو اونٹنی دس مادہ بچے پے درپے جن لیتی تھی اوران کے درمیان کوئی نربچہ پیدانہ ہوتاتھاتواس کو آزادچھوڑ دیا جاتا تھاپھراس پرنہ توسواری کرتے تھے اورنہ اس کے بال کترتے تھے اوراس کادودھ بھی سوائے مہمان کے کسی کونہیں پلاتے تھے ایسی اونٹنی کوسائبہ کہاکرتے تھے۔

فَمَا نُتِجَتْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْ أُنْثَى شُقَّتْ أُذُنُهَا، ثُمَّ خُلِّیَ سَبِیلُهَا مَعَ أُمِّهَا فَلَمْ یُرْكَبْ ظَهْرُهَا، وَلَمْ یُجَزَّ وَبَرُهَا، وَلَمْ یَشْرَبْ لَبَنَهَا إلَّا ضَیْفٌ كَمَا فُعِلَ بِأُمِّهَا

اگریہ اونٹنی اس حالت میں کوئی مادہ جنتی تواس بچہ کاکان چیرکراس کوبھی ماں کے ساتھ چھوڑدیتے اوراس پربھی سواری نہ کرتے نہ اس کے بال کترتے اورنہ اس کادودھ سوائے مہمان کے کسی کوپلاتے اس کانام بحیرہ ہوتاتھا۔

ایک روایت میں ہے

وَالسَّائِبَةُ:الَّتِی یَنْذِرُ الرَّجُلُ أَنْ یسیبها إِن بَرِیء مِنْ مَرَضِهِ، أَوْ إنْ أَصَابَ أَمْرًا یَطْلُبُهُ. فَإِذَا كَانَ أَسَابَ نَاقَةً مِنْ إبِلِهِ أَوْ جَمَلًا لِبَعْضِ آلِهَتهمْ، فَسَابَتْ فَرَعَتْ لَا یُنْتَفَعُ بِهَا

جب کوئی ان میں سے بیمارہوجاتایاکسی مصیبت میں مبتلاہوتاتووہ نذرمانتاکہ اگروہ اس مصیبت سے رہا ہو جائے تواونٹنی کوآزادکردے گاپھرجب اس کی مرادپوری ہوجاتی تواپنے معبودکے نام پرکوئی اونٹنی یااونٹ آزادکردیتااوراس سے کسی قسم کافائدہ نہ اٹھاتا اونٹ یااونٹنی کو جسے کسی نے اپنی کسی بیماری سے شفا مندی یاکسی ضرورت کے پوراہونے یاکسی بڑے خطرے سے نجات پانے کے بعداپنی نذرکوپوراکرنے کے لئے شکرانے کے طور پر آزاد چھوڑ دیتا تھا اسے سائبہ کہتے تھے۔

قَدْ وَصَلَتْ، فَكَانَ مَا وَلَدَتْ بَعْدَ ذَلِكَ لِلذُّكُورِ مِنْهُمْ دُونَ إنَاثِهِمْ، إلَّا أَنْ یَمُوتَ مِنْهَا شَیْءٌ فَیَشْتَرِكُوا فِی أَكْلِهِ، ذُكُورُهُمْ وَإِنَاثُهُمْ.

اگربکری کا پہلا بچہ نرپیداہوتاتووہ اپنے دیوتاوں کی خوشنودی کے لئے ذبح کردیاجاتالیکن اگربکری پہلابچہ مادہ جنتی تواسے ذبح نہ کیاجاتااسے وصیلہ کہتے تھے،اس کے بعداگروہ کوئی بچہ جنتی تھی تواس کوصرف ان کے مردکھاسکتے تھے نہ کہ عورتیں ،عورتوں کے واسطے اس کاگوشت خرام خیال کیاجاتاتھامگرمردہ گوشت میں مردوعورت مساوی خیال کیے جاتے تھے،

ایک روایت میں ہے

فَكَانَ مَا وَلَدَتْ بَعْدَ ذَلِكَ لِذُكُورِ بَنِیهِمْ دُونَ بَنَاتِهِمْ

اگرکوئی بکری پانچ حمل میں دس مادہ بچے متواترجنتی تھی تواس کووصیلہ کہتے تھے۔

ایک روایت میں ہے

وَالْوَصِیلَةُ: الَّتِی تَلِدُ أُمُّهَا اثْنَیْنِ فِی كُلِّ بَطْنٍ، فَیَجْعَلُ صَاحِبُهَا لِآلِهَتِهِ الْإِنَاثَ (مِنْهَا) وَلِنَفْسِهِ الذُّكُورُ مِنْهَا، فَتَلِدُهَا أُمُّهَا وَمَعَهَا ذَكَرٌ فِی بَطْنٍ، فَیَقُولُونَ: وَصَلَتْ أَخَاهَا. فَیُسَیَّبُ أَخُوهَا مَعَهَا فَلَا یُنْتَفَعُ بِهِ

اگرکوئی بکری ایک حمل میں دوبچے ایک ساتھ دیتی جن میں ایک نر ہوتا اورایک مادہ تومادہ کواپنے معبودکے واسطے رکھ دیتے اورنرکواپنے واسطے مگراس کوبھی آزادکردیتے اوراس سے کچھ فائدہ نہ اٹھاتے،اسے وصیلہ کہتے تھے۔

وَالْحَامِی: الْفَحْلُ إذَا نُتِجَ لَهُ عَشْرُ إنَاثٍ مُتَتَابِعَاتٍ لَیْسَ بَیْنَهُنَّ ذَكَرٌ، حُمِیَ ظَهْرُهُ فَلَمْ یُرْكَبْ، وَلَمْ یُجَزَّ وَبَرُهُ، وَخُلِّیَ فِی إبِلِهِ یَضْرِبُ فِیهَا، لَا یُنْتَفَعُ مِنْهُ بِغَیْر ذَلِك

اگرکسی اونٹ کے نطفہ سے دس بچے متواترجنوائے جاتے تواس کو آزادچھوڑدیتے تھےاس پرسواری کرنااوراس کے بالوں کوکاٹناحرام خیال کرتے اوراس سے کسی قسم کافائدہ نہ اٹھاتے اسے حام کہتے تھے۔

x اورتیسری صورت یہ ہوتی کہ کچھ جانور وں پر سوارہونے کی حالت میں ،بتوں کے استھانوں پرذبح کرتے وقت یاکھانے کے وقت اللہ کے بجائے صرف اپنے بتوں کانام لیتے ۔

اوریہ سب کچھ انہوں نے اللہ پرجھوٹ باندھا رکھاتھاحالانکہ اللہ نے انہیں ایساکوئی حکم نہیں دیاتھا،جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

مَا جَعَلَ اللهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِیْلَةٍ وَّلَا حَامٍ۝۰ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ۔۔۔۝۰۝۱۰۳ [150]

ترجمہ: اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرکیاہے نہ سائبہ نہ وصیلہ اورنہ حام مگر یہ کافراللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا۝۰ۭ قُلْ اٰۗللهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَی اللهِ تَفْتَرُوْنَ۝۵۹ [151]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوتم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچاہے کہ جورزق اللہ نے تمہارے لئے اتاراتھااس میں سے تم نے خودہی کسی کوحرام اورکسی کوحلال ٹھیر ا لیا ، ان سے پوچھواللہ نے تم کواس کی اجازت دی تھی یاتم اللہ پر افترا کررہے ہو؟۔

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ} [152]الْآیَةَ،تَحْرِیمٌ كَانَ عَلَیْهِمْ مِنَ الشَّیَاطِینِ فِی أَمْوَالِهِمْ وَتَغْلِیظٌ وَتَشْدِیدٌ، وَكَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّیَاطِینِ وَلَمْ یَكُنْ مِنَ اللَّهِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’یہ کچھ مواشی اورکھیت ہیں جن کااستعمال ہرشخص کوجائزنہیں ۔‘‘ سے مرادوہ چیزیں ہیں جنہیں شیطان نے ان کے اموال میں سے ان کے لیے نہایت شدت سے حرام قراردے رکھاتھا اوریہ حرمت شیطان کی طرف سے تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی۔[153]

شرک کوحلال ٹھیرانے اورکھانے پینے اوردیگرمنفعت کی اشیاء کوحرام ٹھیرانے پراللہ تعالیٰ بہت جلدانہیں دردناک عذاب سے دوچارکرے گا،پھرمشرکین ان آزاد کیے ہوئے بعض معین جانوروں کے بارے میں کہتے کہ ان کے پیٹ سے پیدا ہونے والا زندہ بچہ اوردودھ صرف مردوں کے لئے حلال اورعورتوں کے لئے حرام ہے اوراگراس جانورکے پیٹ سے بچہ مردہ پیداہوتاتو کہتے اسے مرد و عورت دونوں کھاسکتے ہیں ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا} [154]الْآیَةَ،فَهُوَ اللَّبَنُ كَانُوا یُحَرِّمُونَهُ عَلَى إِنَاثِهِمْ وَیَشْرَبُهُ ذُكْرَانُهُمْ، وَكَانَتِ الشَّاةُ إِذَا وَلَدَتْ ذَكَرًا ذَبَحُوهُ وَكَانَ لِلرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ، وَإِنْ كَانَتْ أُنْثَى تُرْكَبْ فَلَمْ تُذْبَحُ، وَإِنْ كَانَتْ مَیْتَةً فَهُمْ فِیهِ شُرَكَاءُ. فَنَهَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ

عوفی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے’’اوروہ کہتے ہیں کہ جوچیزان مواشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے۔‘‘ سے مراددودھ ہے، اسے وہ عورتوں کے لیے حرام قراردیتے تھے اورمرداسے پیتے تھے،بکری جب بچہ جنم دیتی تووہ اس بچے کوذبح کردیتے اوراسے صرف مردکھاسکتے تھے عورتیں نہیں اوراگربکری مادہ بچے کوجنم دیتی تواسے چھوڑدیتے اورذبح نہ کرتے اوراگروہ مردارہوتاتومرداورعورتیں سب مل کرکھاتے تواس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا۔[155]

وَقَالَ الشَّعْبِیُّ: الْبَحِیرَةُ لَا یَأْكُلُ مِنْ لَبَنِهَا إِلَّا الرِّجَالُ، وَإِنْ مَاتَ مِنْهَا شَیْءٌ أَكَلَهُ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ،وَكَذَا قَالَ عِكْرِمة، وَقَتَادَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ

شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بحیرہ جانوروں کے دودھ صرف مردہی استعمال کرسکتے تھے اوراگرکوئی بحیرہ جانورمرجاتاتواس کے کھانے میں مردوعورتیں سب شریک ہوجاتے تھے، عکرمہ،قتادہ اورعبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم نے بھی اسی طرح بیان کیاہے۔[156]

فرمایایہ جھوٹ جوانہوں نے اللہ پرباندھ لئے ہیں ان کابدلہ اللہ انہیں دے کررہے گا ،جیسے فرمایا

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ۝۰۠ وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۱۱۷ۭ [157]

ترجمہ:اور یہ وہ تمہاری زبانیں جھو ٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے ،دنیا کا عیش چند روزہ ہے آخر کار ان کے لیے دردناک سزا ہے۔

یقیناً وہ اپنے افعال واقوال اورشریعت وتقدیرمیں حکیم ہے اوراسےاپنے بندوں کی سب باتوں کی خبرہےاوراپنے علم وحکمت کے مطابق وہ جزا وسزا کاپوراپورااہتمام فرمائے گا،یقیناًخسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولادکوجہالت ونادانی کی بناپر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کواللہ پر افترا پردازی کرکے حرام ٹھیرالیا،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۶۹مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۭۧ [158]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پا سکتے، دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کرلیں پھر ہماری طرف ان کو پلٹنا ہےپھر ہم اس کفر کے بدلے میں جس کا وہ ارتکاب کر تے رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

یقیناًان کے اسلاف صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور ہرگزوہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے ۔

وَهُوَ الَّذِی أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ ‎﴿١٤١﴾‏ وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِینٌ ‎﴿١٤٢﴾‏(الانعام)
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی مختلف چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے ، ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے، اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو اور حد سے مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے، اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے ) جو کچھ اللہ نے تم کو دیا کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو بلاشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے،اس کی ذات وصفات اوراختیارات میں کوئی شریک نہیں ، جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انواع و اقسام کے باغات پیداکیے،ان میں کچھ کمزور تنوں والے ہیں جوچھتریوں پرچڑھائے جاتے ہیں جوانہیں اوپراٹھنے میں مدددیتی ہیں اوربعض درخت اپنے مضبوط تنے پرکھڑے ہوتے یازمین پربچھ جاتے ہیں ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:{مَعْرُوشَاتٍ} یَقُولُ:مَسْمُوكَاتٌ،وَبِهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَهُوَ الَّذِی أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ}[159] فَالْمَعْرُوشَاتٌ: مَا عَرَشَ النَّاسُ، وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ: مَا خَرَجَ فِی الْبَرِّ وَالْجِبَالِ مِنَ الثَّمَرَاتِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’جوٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں ۔‘‘ سے بلندوبالا اور طویل درخت مرادہیں اورایک روایت میں ہے’’ مَعْرُوشَاتٍ‘‘سے مرادوہ باغات ہیں جنہیں لوگوں نے چھتریوں پرچڑھایا ہو اور ’’غَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ‘‘ سے مرادجنگلوں اورپہاڑوں میں پیداہونے والے پھل ہیں ۔[160]

عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِیِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَهُوَ الَّذِی أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ}قَالَ:مَا یُعْرَشُ مِنَ الْكُرُومِ،{وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ} قَالَ:مَا لَا یُعْرَشُ مِنَ الْكَرْمِ

عطاء خراسانی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’جوٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں ۔‘‘ سے مرادانگوروں کی بیلیں ہیں جنہیں چھتریوں پرچڑھالیاگیاہو اور’’اوروہ بھی جوٹٹیوں پرنہیں چڑھائے جاتے۔‘‘سے مرادایسی بیلیں ہیں جنہیں چھتریوں پرنہ چڑھایا گیاہو۔[161]

اور کھجورکے درخت پیداکیےاورطرح طرح کی کھیتیاں اگائیں جس سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ،جس نے زیتون اورانارکے درخت پیداکیے جس کے درخت ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اورجداجدابھی ،ان سب کوایک ہی پانی سے سیراب کیاجاتاہے مگران کے پھل صورت، رنگ ،ذائقہ ، خوشبو اور فوائد میں مختلف ہوتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَوْلُهُ: {مُتَشَابِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ} قَالَ:مُتَشَابِهًا فِی الْمَنْظَرِ، وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ فِی الطَّعْمِ

ابن جریج نے کہاہے’’جوباہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں ۔‘‘سے مرادوہ پھل ہیں جوشکل وصورت کے اعتبارسے آپس میں ملتے جلتے ہیں اور’’اورایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے۔‘‘ سے مرادوہ ہیں جواپنے ذائقے کے اعتبارسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔[162]

جب کھیتیاں تیارہوجائیں اورپھل پک کرتیارہوجائیں تواللہ کی عطاکردہ ان حلال وپاکیزہ چیزوں کوکھاؤ،اورجب فصل کاٹو یاباغات سے پھل توڑو تونصاب کے مطابق اللہ کاحق ادا کرو،یعنی اگرزمین بارانی ہوتودسواں حصہ اوراگرزمین کنوئیں ،ٹیوب ویل یانہری پانی سے سیراب ہوتی ہوتوبیسواں حصہ عشر ادا کرو ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: {وَآتُوا حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ}قَالَ:إِذَا حَضَرَكَ الْمَسَاكِینُ طَرَحْتَ لَهُمْ مِنْهُ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’اوراس میں جوحق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیاکرو۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگرمسکین آجائیں توانہیں بھی پھلوں میں سے دو۔[163]

عَنْ مُجَاهِدٍ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَآتُوا حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ} قَالَ:عِنْدَ الزَّرْعِ یُعْطَى الْقَبْضُ , وَعِنْدَ الصِّرَامِ یُعْطى الْقَبْضُ , وَیَتْرُكُهُمْ یَتَّبِعُونَ آثَارَ الصِّرَامِ

امام عبدالرزاق نے مجاہد رحمہ اللہ سے آیت کریمہ’’اوراس میں جوحق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیاکرو۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے کہ کھیتی کاٹتے وقت اورپھل توڑتے وقت مسکینوں کوبھی مٹھی بھردے دیاجائے۔[164]

 عَنْ شَرِیكٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سَعِیدٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَآتُوا حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ}قَالَ:كَانَ هَذَا قَبْلَ الزَّكَاةِ لِلْمَسَاكِینِ الْقَبْضَةُ، وَالضِّغْثُ لِعَلَفِ دَابَّتِهِ

ابن مبارک نے سعیدبن جبیرسے آیت کریمہ’’اوراس میں جوحق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیاکرو۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے کہ یہ حکم زکوة کی فرضیت سے پہلے تھاکہ مسکینوں کومٹھی بھرغلہ یاپھل دے دیاجائے اوران کے جانوروں کے لیے بھی ایک مٹھی چارہ دے دیاجائے۔(تفسیرطبری۱۶۷؍۱۲)

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جواس موقع پرغریبوں اورمسکینوں کی دل جوئی کے لیے صدقہ وخیرات نہیں کرتے،جیسے فرمایا

اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ كَـمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ۝۰ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِیْنَ۝۱۷ۙ وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ۝۱۸ فَطَافَ عَلَیْہَا طَاۗىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۱۹فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ۝۲۰ۙفَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ۝۲۱ۙاَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ۝۲۲ فَانْطَلَقُوْا وَہُمْ یَتَخَافَتُوْنَ۝۲۳ۙاَنْ لَّا یَدْخُلَنَّہَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ۝۲۴ۙوَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ۝۲۵فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ۝۲۶ۙبَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۝۲۷قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ۝۲۸قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ۝۲۹فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ۝۳۰ قَالُوْا یٰوَیْلَنَآ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ۝۳۱عَسٰى رَبُّنَآ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْہَآ اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ۝۳۲كَذٰلِكَ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ۝۰ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۝۳۳ۧ [165]

ترجمہ:ہم نے (ا ن اہل مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا ، جب انہوں نے قسم کھائی کے صبح و سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے،اور وہ کوئی استثناء نہیں کر رہے تھے،رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلا اس باغ پر پھر گئی ،اور اس کا ایسا حال ہو گیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو صبح ان لوگوں نے ایک دوسرے کو پکاراکہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلوچنانچہ وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے کہ آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں نہ آنے پائے،وہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ( پھل توڑنے پر ) قادر ہیں مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راستہ بھول گئےہیں بلکہ ہم محروم رہ گئے،ان میں جو سب سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟وہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب ! واقعی ہم گنہگار تھے،پھر ان میں سے ہر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگا،آخر کو انہوں نے کہا افسوس ہمارے حال پربےشک ہم سرکش ہو گئے تھےبعید نہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلے میں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ،ایسا ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے بھی بڑا ہے، کاش یہ لوگ اس کو جانتے۔

اورکھانے پینے اورصدقہ وخیرات میں اعتدال سے کام لو،کیونکہ اللہ حدسے تجاوزکرنے والوں کوپسندنہیں کرتا،

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: نَزَلَتْ فِی ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، جَدَّ نَخْلًا فَقَالَ: لَا یَأْتِیَنَّ الْیَوْمَ أَحَدٌ إِلَّا أَطْعَمْتُهُ، فَأَطْعِمْ حَتَّى أَمْسَى وَلَیْسَتْ لَهُ ثَمَرَةٌ، فَقَالَ اللَّهُ: {وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ} [166]

ابن جریج بیان کرتے ہیں یہ آیت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے،انہوں نے اپنی کھجوروں کاپھل توڑا اورکہاکہ آج جوبھی میرے پاس آئے گامیں اسے کھجوریں کھانے کے لیے دوں گا حتی کہ شام تک انہوں نے تمام کھجوریں تقسیم کردیں اوران کے پاس کچھ بھی باقی نہ بچیں تو اس موقع پراللہ تعالیٰ نےحکم نازل فرمایا’’ اور حد سے مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘ [167]

جیسے فرمایا

۔۔۔ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۝۳۱ۧ [168]

ترجمہ:اورکھاؤپیواورحدسے تجاوزنہ کرواللہ حدسے بڑھنے والوں کوپسندنہیں کرتا۔

ایک مقام پرفرمایا

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا۝۲۷ [169]

ترجمہ:فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ یُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِیلَةٌ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور پہنو اوڑھولیکن اسراف اورتکبرسے بچو۔[170]

اسی رب نے تمہارے لئے مویشیوں میں سے وہ جانوربھی پیداکیے جن سے سواری وبار برداری کاکام لیاجاتاہے اوروہ بھی جو کھانے اوربچھانے کے کام آتے ہیں ، جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ۝۷۱وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا یَاْكُلُوْنَ۝۷۲ [171]

ترجمہ:کیایہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے مویشی پیداکیے ہیں اوراب یہ ان کے مالک ہیں ،ہم نے انہیں اس طرح ان کے بس میں کردیاکہ ان میں سے کسی پریہ سوارہوتے ہیں ،کسی کایہ گوشت کھاتے ہیں ۔

وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِیْنَةً۝۰ۭ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸ [172]

ترجمہ:اس نے گھوڑے اورخچراورگدھے پیداکیے تاکہ تم ان پرسوارہواوروہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں وہ اوربہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لئے)پیداکرتاہے جن کاتمہیں علم تک نہیں ہے۔

ایک مقام پر فرمایا

وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً۝۰ۭ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۶۶ [173]

ترجمہ:اورتمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجودہے ان کے پیٹ سے گوبراورخون کے درمیان ہم ایک چیزتمہیں پلاتے ہیں ،یعنی خالص دودھ جوپینے والوں کے لئے نہایت خوشگوارہے۔

کھاؤپھلوں ،فصلوں اورچوپایوں میں سے جواللہ نے اپنی رحمت سے تمہیں بخشی ہیں اورمشرکین کی طرح شیطان کی پیروی نہ کروکہ غیراللہ کاحصہ مقررکرنے لگواور حلال چیزکوحرام اورکسی حرام چیزکو حلال کردو،بیشک شیطان تمہاراازلی کھلادشمن ہے،اس مضمون کومتعدد مقامات پربیان فرمایا

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا۝۰ۭ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ [174]

ترجمہ:درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنے پیروؤں کو اپنی راہ پر بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں ۔

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا۔۔۔ ۝۲۷ [175]

ترجمہ:اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنّت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔

۔۔۔اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِیْ وَہُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۝۰ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا۝۵۰ [176]

ترجمہ: اب کیا تم مجھے چھوڑ کو اس کو اور اس کی ذریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں ۔

ثَمَانِیَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَیَیْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَیَیْنِ ۖ نَبِّئُونِی بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٤٣﴾‏ وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَیَیْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَیَیْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٤٤﴾‏(الانعام)
 (پیدا کئے) آٹھ نر مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم ،آپ کہئے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو ؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہوئے ہوں ؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے بتاؤ اگر سچے ہو، اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم ،آپ کہئے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو ؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہوئے ہوں ؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا؟تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ،یقیناً اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو راستہ نہیں دکھلاتا۔

اوراسی رب نے جانوروں میں آٹھ نرومادہ پیداکیے اورانسانوں کے لئے انہیں حلال قراردیا ،جیسے فرمایا

وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ ۝۶ [177]

ترجمہ:اوراسی نے تمہارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ نرومادہ پیداکیے۔ان میں سے دوبھیڑاورمینڈھاکی قسم سے اوردوبکری اوربکراکی قسم سے ہیں ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے پوچھوکہ اللہ نے ان جانوروں کے نرحرام کیے ہیں یامادہ یاوہ بچے جوبھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ تم نے مختلف جانوروں کو بحیرہ،وصیلہ،سائبہ اورحام وغیرہ قراردے کرخود پر حرام کر دیتے ہواگرتمہارے پاس وہم و گمان یاآباؤاجدادکے رسم ورواج کے بجائے کوئی یقینی دلیل ہے توپیش کرو،یعنی اللہ نے نرکو حرام کیاہے نہ مادہ کواورنہ ان کے بچوں کو، اوراسی طرح دواونٹ واونٹنی کی قسم سے اوردوگائے وبیل کی قسم سے پیداکیے ،ان سے پوچھوان کے نراللہ نے حرام کیے ہیں یامادہ یاوہ بچے جو اونٹنی اورگائے کے پیٹ میں ہوں ؟یعنی یہ کتنی نامعقول بات ہے کہ ایک ہی جانورکانرتوحلال ہواورمادہ حرام ،یامادہ حلال ہواورنرحرام اوریاجانورخودحلال ہواوراس کابچہ حرام ہو،

وَقَالَ العَوْفی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: {ثَمَانِیَةَ أَزْوَاجٍ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ} فَهَذِهِ أَرْبَعَةُ أَزْوَاجٍ، {وَمِنَ الإبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ قُلْ آلذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ أَمِ الأنْثَیَیْنِ} یَقُولُ: لَمْ أُحَرِّمْ شَیْئًا مِنْ ذَلِكَ { [أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ أَرْحَامُ الأنْثَیَیْنِ] }یَعْنِی: هَلْ یَشْمَلُ الرَّحِمُ إِلَّا عَلَى ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، فَلِمَ تُحَرِّمُونَ بَعْضًا وَتُحِلُّونَ بَعْضًا؟ {نَبِّئُونِی بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ} یَقُولُ: كُلُّهُ حَلَالٌ

عوفی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ ’’یہ آٹھ قسم کے جانورہیں دو (دو) بھیڑوں میں سے اوردو(دو)بکریوں میں سے(ایک ایک نراورایک ایک مادہ)کے بارے میں روایت کیاہےاے پیغمبر!ان سے پوچھیں کہ اللہ نے دونوں (کے)نروں کوحرام کیاہے یادونوں (کی ماداؤں کو) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ میں نے توان میں سے کسی چیزکوحرام قرار نہیں دیا یاجوبچہ دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہواسے۔ یعنی رحم میں جوبچہ ہوتاہے وہ نر یا مادہ ہی ہوتاہےپھرکیابات ہے کہ تم ان میں سے بعض کوتوحرام اوربعض کوحلال قراردے دیتے ہو؟اگرتم سچے ہوتومجھے سندسے بتاؤ اللہ تعالیٰ کے فرمانے کامقصدیہ ہے کہ یہ سب چیزیں حلال ہیں ۔[178]

کیاتم اس وقت حاضرتھے جب اللہ نے ان کے جانوروں کے حرام ہونے کاحکم تمہیں دیا تھا ؟یعنی تمہارے پاس اپنے دعویٰ کے سواباقی کچھ بھی نہیں جس کی صداقت اورصحت کوپرکھنے کے لئے تمہارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کاکوئی حکم نہیں دیایہ سب تمہارااللہ پربہتان عظیم ہے، پھراس شخص سے بڑھ کر ظالم اورکون ہوگا جواللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیرلوگوں کوغلط راہ نمائی کرے،

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتُ جَهَنَّمَ یَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَرَأَیْتُ عَمْرًا یَجُرُّ قُصْبَهُ، وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ سَیَّبَ السَّوَائِبَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے جہنم کودیکھاکہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کو کھائے جارہے ہیں اورمیں نے عمروبن عامرخزاعی کودیکھاکہ وہ اپنی انتڑیاں اس میں گھسیٹتاپھررہاہے یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے( بتوں کے نام پر) سانڈ(بحیرہ،وصیلہ،سائبہ اورحام )چھوڑنے کاسلسلہ شروع کیاتھا۔[179]

یقیناًاللہ ایسے ظالموں کوراہ راست نہیں دکھاتا۔

[1] تفسیرطبری۵۳۳؍۱۱

[2] الانفال۳۱

[3] تفسیرطبری۵۳۹؍۱۱

[4] الانفال۵۰

[5] الکہف۴۸

[6] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۲۲

[7] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۴۹؍۴

[8] القصص۶۲

[9] الشعرائ۹۲،۹۳

[10] البقرہ۱۶۶،۱۶۷

[11] المومنون۱۰۱

[12] العنکبوت۲۵

[13] القصص۶۴

[14] الانعام۲۲تا۲۴

[15] یٰسین۳۴،۳۵

[16] الاعراف۵۴

[17] الضحی۱،۲

[18] اللیل۱،۲

[19] الشمس۳،۴

[20] یونس۵

[21] یٰسین ۴۰

[22] الاعراف۵۴

[23] یٰسین۳۷،۳۸

[24] حم السجدة۱۲

[25] النسائ۱

[26] الاعراف۱۸۹

[27] الزمر۶

[28] الأنعام: 98

[29] مستدرک حاکم۳۸۷۷

[30] الانبیائ۳۰

[31] تفسیرطبری۵۷۶؍۱۱،تفسیرابن ابی حاتم ۱۳۵۹؍۴

[32] یٰسین۳۴

[33] تفسیر طبری ۵۷۸؍۱۱، تفسیرابن ابی حاتم۱۳۵۹؍۴

[34] النساء ۱۱۷تا۱۱۹

[35] النساء ۱۲۰

[36] بنی اسرائیل ۶۴

[37] مریم۴۴

[38] یٰسین ۶۰،۶۱

[39] مریم۸۸تا۹۱

[40] یٰسین۸۱

[41] الصافات۹۵،۹۶

[42] الذاریات۵۶

[43] الأنعام: 103

[44] صحیح بخاری تفسیر سورة النجم باب ۱،ح ۴۸۵۵، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى۴۳۹

[45] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ: إِنَّ اللهُ لَا یَنَامُ، وَفِی قَوْلِهِ: حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ۴۴۵،سنن ابن ماجہ کتاب افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۹۵،۱۹۶

[46] القیامة ۲۲، ۲۳)

[47] المطففین ۱۵

[48] الملک۱۴

[49]لقمان۱۶

[50] بنی اسرائیل۱۵

[51] الفرقان ۴،۵

[52] المدثر۱۸تا۲۵

[53] الحج۵۳،۵۴

[54] المدثر۳۱

[55] بنی اسرائیل۸۲

[56] حم السجدة۴۴

[57] البقرة۲۵۳

[58] الغاشیة۲۱،۲۲

[59]الرعد۴۰)

[60] تفسیرطبری۳۳؍۱۲

[61] تفسیرعبدالرزاق۸۴۰

[62] صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ لاَ یَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ ۵۹۷۳، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۶۳، جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی عُقُوقِ الوَالِدَیْنِ۱۹۰۲،مسنداحمد۷۰۲۹

[63] بنی اسرائیل ۵۹

[64] بنی اسرائیل۹۲

[65] الانعام۱۲۴

[66] الفرقان۲۱

[67] یونس۹۶،۹۷

[68] الانعام۳۴

[69] حم السجدة۴۳

[70] الفرقان۳۱

[71] صحیح بخاری کتاب بدء الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۳،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۰۳

[72] الصافات۱۶۱تا۱۶۳

[73] الذریات۸،۹

[74] یونس۹۴

[75] تفسیرطبری۶۳؍۱۲

[76] الاعراف۱۵۷

[77] الصافات۷۱

[78] یوسف ۱۰۳

[79] جامع ترمذی کتاب الایمان مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ ۲۶۴۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۲،شرح السنة للبغوی ۱۰۴

[80] یونس۳۶

[81] النجم۲۸

[82] صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ۱۰۰۷،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَحْقَافِ۳۲۵۸

[83] صحیح بخاری کتاب الذبائح بَابُ ذَبِیحَةِ الأَعْرَابِ وَنَحْوِهِمْ ۵۵۰۷

[84] النحل۱۱۵

[85] المائدة۳

[86] تفسیرطبری۷۲؍۱۲

[87]تفسیرطبری۷۳؍۱۲

[88] الاعراف۳۳

[89] صحیح مسلم کتاب البر و الصلة بَابُ تَفْسِیرِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ۶۵۱۶، مسنداحمد۱۷۶۳۱، مستدرک حاکم ۲۱۷۲،صحیح ابن حبان ۳۹۷،شعب الایمان ۶۸۸۸،سنن الدارمی ۲۸۳۱،السنن الکبری للبیہقی ۲۰۷۸۵،مصنف ابن ابی شیبة۲۵۳۳۵،شرح السنة للبغوی ۳۴۹۴،تفسیرابن ابی حاتم۱۳۷۸؍۴

[90] الأنعام: 121

[91] الأنعام: 121

[92] الأنعام: 121

[93] تفسیر طبری ۸۱؍۱۲

[94] مسند احمد ۶۶۴۴

[95] ھود۲۴

[96] فاطر ۱۹تا۲۲

[97] الملک۲۲

[98] الفرقان۳۱

[99]۝۱۳ۧالعنکبوت۱۳

[100] النحل۲۵

[101] الزخرف۳۱

[102] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَا یُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ ۶۱۷۸،صحیح مسلم کتاب الجھادبَابُ تَحْرِیمِ الْغَدْرِ۴۵۲۹،مسنداحمد۵۸۰۴

[103] مسنداحمد۵۰۸۸

[104] الزمر۲۲

[105] الحجرات۷

[106] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۸۴؍۴

[107] تفسیر طبری ۱۰۵؍۱۲

[108] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۸۶؍۴

[109] تفسیرطبری۱۰۹؍۱۲

[110] الزخرف۳۶تا۳۸

[111] یٰسین۶۰تا۶۲

[112] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۸۷؍۴، الدر المنثور۳۵۷؍۳

[113] تفسیرطبری۱۱۶؍۱۲

[114] حم السجدة۴۶

[115] ھود۱۰۷

[116] تفسیرعبدالرزاق۶۶؍۲

[117] أدب الدنیا والدین۳۲۵؍۱،موارد الظمآن لدروس الزمان ۵۱۸؍۴

[118] الرحمٰن۱۹تا۲۲

[119] النساء ۱۶۳

[120] العنکبوت۲۷

[121] الفرقان۲۰

[122] یوسف۱۰۹

[123] الاحقاف۲۹تا۳۲

[124] الرحمٰن۳۱،۳۲

[125] الاعراف۳۸

[126] الملک ۸تا۱۱

[127] فاطر۲۴،۲۵

[128] النحل۲۶

[129] بنی اسرائیل۱۵

[130] الأنعام: 132

[131] تفسیر طبری۱۲۵؍۱۲

[132] الحج۶۵

[133] النسائ۱۳۳

[134] ابراہیم ۱۹

[135] فاطر۱۵تا۱۷

[136] محمد۳۸

[137]ھود۱۲۱،۱۲۲

[138] هود: 102

[139] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ۴۶۸۶

[140] الأنعام: 136

[141] الأنعام: 136

[142] تفسیرطبری۱۳۲؍۱۲،تفسیرابن ابی حاتم۱۳۹۱؍۴

[143] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِی عَمَلِهِ غَیْرَ اللهِ ۷۴۷۵

[144] الأنعام: 136

[145] الأنعام: 136

[146]الأنعام: 136

[147] تفسیرطبری۱۳۴؍۱۲،تفسیرابن ابی حاتم۱۳۹۲؍۴

[148] تاریخ الرسل والملوک ۲۶۴؍۱، سیرة ابن اسحاق۳۲؍۱،ابن ہشام۱۵۱؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۹۸؍۱،الروض الانف۸۴؍۲

[149] النحل۶۳

[150] المائدة ۱۰۳

[151] یونس۵۹

[152] الأنعام: 138

[153] تفسیر طبری ۱۴۳؍۱۲

[154] الأنعام: 139

[155] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۹۶؍۵، تفسیر طبری۱۴۷؍۱۲

[156] تفسیرطبری۱۴۷؍۱۲

[157] النحل۱۱۶،۱۱۷

[158] یونس۶۹،۷۰

[159] الأنعام: 141

[160] تفسیرطبری۱۴۷؍۱۲

[161] تفسیرطبری۱۵۶؍۱۲

[162] تفسیرطبری۱۵۷؍۱۲

[163] تفسیرطبری۱۶۳؍۱۲

[164] تفسیرعبدالرزاق ۶۷؍۲

[165] القلم۱۷تا۳۳

[166] الأنعام: 141

[167] تفسیرطبری۱۷۴؍۱۲

[168] الاعراف ۳۱

[169] بنی اسرائیل۲۷

[170] صحیح بخاری کتاب اللباس باب قل من حرم زینة اللہ۔۔۔،سنن ابن ماجہ کتاب اللباس بَابُ الْبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أَخْطَأَكَ سَرَفٌ أَوْ مَخِیلَةٌ ۳۶۰۵

[171] یٰسین۷۱،۷۲

[172] النحل۸

[173] النحل۶۶

[174] فاطر۶

[175] الاعراف۲۷

[176] الکہف۵۰

[177] الزمر۶

[178] تفسیرابن کثیر۳۵۲؍۳،تفسیرطبری۱۸۷؍۱۲

[179] صحیح بخاری تفسیرسورة المائدہ بَابُ مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ، وَلاَ وَصِیلَةٍ وَلاَ حَامٍ ۴۶۲۴ ،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ عن ابی ہریرہؓ۷۱۹۲

Related Articles