بعثت نبوی کا بارهواں سال

مضامین سورۂ الانعام(حصہ اول)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودعوت اسلام دیتے ہوئے بارہ سال بیت چکے تھے ،اورکفارمکہ کی مزاحمت اورستم گری وجفاکاری انتہاکوپہنچ چکی تھی،اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعدادان کے ظلم وستم سے عاجزآکرحبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائیدوحمایت کے لیے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچچا ابوطالب باقی تھااورنہ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں ،اس لیے ہردنیاوی سہارے سے محروم ہوکرآپ شدیدمزاحمتوں کے مقابلہ میں تبلیغ رسالت کافرض انجام دے رہے تھے،جس کے نتیجے میں گردونواح کے قبایل میں سلیم الفطرت افرادپے درپے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے لیکن بحیثیت مجموعی قوم تکذیب حق پرتلی ہوئی تھی، اگرکوئی شخص ادنیٰ سابھی اسلام کی طرف مائل ہوتا یااسلام قبول کرلیتاتووہ اس کوواپس اپنی مشرکانہ ملت پرواپس لانے اوردوسروں کوروکنے کے لیے ان بے بس اورمظلوم مسلمانوں پر طعن و ملامت ،مالی و معاشرتی مقاطعہ اور جسمانی ظلم وستم کا ہر طریقہ آزمایا جاتاتھا مگراس ظلم وستم کے باوجود مسلمان ان تکالیف کوبرداشت بھی کرتے اوردین حق کے فروغ کے لیے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے،ان کوششوں اورمجاہدانہ سرگرمیوں کے نتیجے میں مدینہ طیبہ کے لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے اوراہل ایمان کو امیدکی شمع روشن ہونے کی ایک سبیل نظرآنے لگی،ان حالات میں عقیدہ توحید اوراس پر ثابت قدمی،شرک کی بے ثباتی اوراس کے تاریک اثرات ،عقیدہ آخرت اور مابعد الموت کے احوال اوراقوام سابقہ کے احوال کاذکرکرکے اہل ایمان سے آخرت کے عظیم اجر وثواب کاوعدہ فرمایاگیا،اوردورجاہلیت کی معاشرتی برائیوں ، نظریاتی آلودگی اور اولادواقرباء کے ساتھ روارکھے جانے والے ظلم وستم سے روکاگیا،سورۂ کے اختتام پر مشرکانہ رسوم مثلانبیوں اوراولیاء کے نام منسوب کی گئی مذرومنت ، غیراللہ کے نام پر جانوروں کی نذرونیاز ، اولادکوبتوں کے نام پرقربان کرنا، اولاد کو افلاس وفقرکے خوف سے قتل کر ڈالنا وغیرہ کوخصوصیت کے ساتھ بیان کیااوران کے باطل ہونے کی وضاحت کی ، اسی طرح معاشرتی زندگی مثلاًوالدین کے ساتھ نیک سلوک ،ناپ تول پوراکرنا،عدل وانصاف ،ایفائے عہد،گفتگومیں عدل و انصاف اور ایمان کے اجروثواب کی عظمت کا ذکر ہے،اس سورہ کاخصوصی درس یہ ہے۔

 وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۵۳   [1]

ترجمہ:یہی میراسیدھاراستہ ہے لہذاتم اسی پرچلو اور دوسرے راستوں پرنہ چلوکہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکرتمہیں پراگندہ کردیں گے،یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شایدکہ تم کج روی سے بچو۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُونَ ‎﴿١﴾‏ هُوَ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن طِینٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَهُوَ اللَّهُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ ۖ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ‎﴿٣﴾(الانعام)
’’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایاپھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں،وہ ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر ایک وقت معین کیا اور دوسرا معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہےپھر بھی تم شک رکھتے ہو، اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے، اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔‘‘

عَن ابْن مَسْعُود قَالَ:قَالَ: نزلت سُورَة الْأَنْعَام یشیعها سَبْعُونَ ألفا من الْمَلَائِكَة

سورۂ الانعام کی فضیلت میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب سورۂ الانعام نازل ہوئی تواسے الوداع کرنے کے لیے سترہزارفرشتے بھی نازل ہوئے تھے۔[2]

ہرطرح کی تعریف اللہ رب العزت کے لئے ہی ہے جس نے سات زمین اورسات تہ بہ تہ بلندوبالابغیرستونوں کے آسمان بنائے،جواس کی قدرت کاملہ اورخلق وتدبیرمیں اس کی انفرادیت پردلالت کرتے ہیں ،جس نے تمہاری معیشت کے لئے دن کی روشنی اورآرام وسکون کے لئے رات کی تاریکیاں پیداکیں ،جواس پردلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت اوراخلاص کامستحق ہے ،مگراس روشن دلیل اورواضح برہان کے باوجود جن لوگوں نے دعوت حق کی تکذیب کی ہے ایسی قدرتوں والے رب کی حمدوستائش کرنے کے بجائے اس کی مخلوق کو اس کاہمسر ٹھہرارہے ہیں ، انہیں عبادت اورتعظیم میں اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار دیتے ہیں ،وہی ہے جس نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کوسوکھی ہوئی مٹی کے کھنکتے ہوئے بد بو دار گارے سے پیداکیاپھراس کی نسل کودنیامیں پھیلا دیا ، جیسے ایک مقام پرفرمایا

قُلْ ہُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [3]

ترجمہ:ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

وَهُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۹      [4]

ترجمہ: وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ ۔

تمہارے دنیامیں رہنے کے لئے زندگی کی ایک مدت مقررکردی جس میں تم اس دنیاسے فائدہ اٹھاتے ہواوررسول بھیج کرتمہارامتحان لیا جاتا ہے ، جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔۔۔۝۲ۙۙ [5]

ترجمہ:جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷        [6]

ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

اور قیامت برپاہونے کی بھی ایک مدت مقررفرمائی جس میں تمام اگلے پچھلے انسان ازسرنوپیداکیے جائیں گے اوراپنے اعمال کاحساب دینے کے لئے میدان محشرمیں اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں حاضرہوں گے ،وہ گھڑی کب آئے گی اس کاعلم اللہ کے سواکسی کو نہیں ،جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ۝۰ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً۝۰ۭ یَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸۷ [7]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا وہ تم پر اچانک آجائے گا، یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو کہو اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔

یَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰـىهَا۝۴۲ۭفِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا۝۴۳ۭاِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا۝۴۴ۭ     [8]

ترجمہ: یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخروہ گھڑی کب آ کرٹھیریگی؟تمہاراکیاکام کہ اس کاوقت بتاؤاس کاعلم تواللہ پرختم ہے۔

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۵قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللہِ۝۰۠ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۲۶ [9]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟کہو اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے ، میں تو بس صاف صاف خبردار کر دینے والا ہوں ۔

مگرپھربھی لوگ اللہ کے وعدو وعید اور قیامت کے دن جزاوسزاکے وقوع کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں ،جیسے مشرکین کہتے تھے ۔

۔۔۔قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸       [10]

ترجمہ:کہتاہےکون ان ہڈیوں کوزندہ کرے گا جب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ۔

یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِ۝۱۰ۭءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۝۱۱ۭ [11]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں کیاواقعی ہم پلٹا کر پھرواپس لائے جائیں گے ؟ کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟۔

اسی اللہ وحدہ لاشریک کی الوہیت آسمانوں اور زمین میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی شان کے لائق عرش پرمستوی ہے لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہرجگہ ہے اورکوئی چیزاس کے علم وخبرسے باہرنہیں ہے ،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ فِی السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰهٌ۝۰ۭ وَهُوَالْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ۝۸۴وَتَبٰرَكَ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا۔۔۔۝۰۝۸۵        [12]

ترجمہ:وہی ایک آسمان میں بھی خداہے اورزمین میں بھی خدااوروہی حکیم وعلیم ہےبہت بالاوبرترہے وہ جس کے قبضے میں زمین اورآسمانوں اورہراس چیزکی بادشاہی ہے جو زمین وآسمان کے درمیان پائی جاتی ہے۔

جوتمہارے ظاہروپوشیدہ اعمالوں ، دلوں کے چھپے ہوئے بھیداور آنکھوں کی خیانت بھی جانتاہے اورجوبرائی یابھلائی تم کماتے ہواس سے خوب واقف ہے،اس لئے تم اس کی نافرمانی سے بچو اور ایسے اعمال بجالاؤجوتمہیں اس کے قریب کر دیں اورتم اس کی رحمت کے مستحق بن جاؤاورہرایسے عمل سے بچوجوتمہیں اس کی رحمت سے دورکردیں ۔

وَمَا تَأْتِیهِم مِّنْ آیَةٍ مِّنْ آیَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِینَ ‎﴿٤﴾‏ فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ فَسَوْفَ یَأْتِیهِمْ أَنبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٥﴾‏ أَلَمْ یَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَیْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِی مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِینَ ‎﴿٦﴾(الانعام)
’’ اور ان کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آتی مگر وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں ،انہوں نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلایا جب کہ وہ ان کے پاس پہنچی، سو جلد ہی ان کو خبر مل جائے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ استہزا کیا کرتے تھے ،کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں، پھر ہم نے ان کو گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کردیا ۔‘‘

کفارکونافرمانی پرسخت انتباہ:

لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اورانبیائے کرام کی صداقت کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جوان کے سامنے آئی ہومگرحق پرقطعی دلیل ہونے کے باوجودانہوں نے اس پرتدبرکرنے کے بجائے اس سے اعراض نہ کیاہو،چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تواس پراللہ کی رحمت کاشکربجالانے اوراس کی پیروی کرنے کے بجائے اسے بھی انہوں نے جھٹلادیا،ان کی یہ خطرناک روش انہیں ایک دن ذلیل ورسواکردے گی ،یہ یوں نہ سمجھیں کہ ہم انہیں چھوڑدیں گے ،نہیں بلکہ جس چیزکاوہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں بہت جلد اس اعراض اورتکذیب کاوبال انہیں پہنچے گااس وقت انہیں احساس ہوجائے گاکہ کاش! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس پرمنزل کتاب برحق کی تکذیب اوراس کاستہزانہ کرتے ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِىَ تَفُوْرُ۝۷تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۝۰ۭ كُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَاَلَہُمْ خَزَنَــتُہَآ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ۝۸قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَاۗءَنَا نَذِیْرٌ۝۰ۥۙ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۚۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ۝۹وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰ۙفَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِہِمْ۝۰ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۱      [13]

ترجمہ:جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی ہولناک آوازیں سنیں گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی،شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی، ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا وہ جواب دیں گے ہاں ، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہےتم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو اور وہ کہیں گے کاش ہم سنتے اور سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے،اس طرح وہ اپنے قصورکا خود اعتراف کرلیں گےلعنت ہے ان دوزخیوں پر۔

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹     [14]

ترجمہ:ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتاہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتااس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بےوفا نکلا ۔

کیاان لوگوں کوان قوموں کے حالات کی خبرنہیں پہنچی جن کوسرکشی ونافرمانی کے سبب ہم ہلاک کرچکے ہیں ،جن کے لاؤلشکر، جاہ وعزت اور غرور و تمکنت ان سے زیادہ تھیں ، خوش حالی اوروسائل رزق کی فراوانی میں بھی ان سے بہت بڑھ کرتھیں ،اورہم نے ان کو زمین میں وہ اقتداربخشاتھا جو انہیں نہیں بخشاہے،ان پرہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اوران کے نیچے نہریں بہا دیں جس سے زمین خوب پیداواردیتی اورانواع و اقسام کے باغات پھلوں سے لدجاتے ،مگرجب انہوں نے کفران نعمت کیااورہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے توہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیااورلوگوں میں ان کے افسانے ہی رہ گئے اوران کی جگہ دوسرے دورکی قوموں کواٹھایاتاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں ۔

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَیْدِیهِمْ لَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٧﴾‏ وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنظَرُونَ ‎﴿٨﴾‏وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْهِم مَّا یَلْبِسُونَ ‎﴿٩﴾‏ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿١٠﴾‏ قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینَ ‎﴿١١﴾‏(الانعام)
’’ اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے، اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ بھی بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا، پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی ، اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے، اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب کا اشکال کر رہے ہیں، اور واقع آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے، پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے، آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والے کا کیا انجام ہوا۔‘‘

انسانوں میں سے ہی رسول، اللہ کاعظیم احسان ہے :

اے پیغمبر!اگرہم تمہارے اوپرکوئی کاغذمیں لکھی ہوئی کتاب بھی اتاردیتے اوریہ لوگ اسے آسمان سے اترتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنے ہاتھوں سے چھوکربھی دیکھ لیتے،یعنی انہیں یقین آجاتامگراتنے واضح نوشتہ الٰہی کے باوجودان کاکفرنہ ٹوٹتا اوراسے ایک ساحرانہ شعبدہ قراردے دیں گے،جیسے خالق الارض وسماوات نے فرمایا

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَ۝۱۴ۙلَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۝۱۵ۧ          [15]

ترجمہ:اگرہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کود ھوکہ ہورہا ہے بلکہ ہم پرجادوکردیاگیا ہے۔

ایک مقام پر فرمایا کہ یہ عذاب الٰہی کو دیکھ کربھی اس کی کوئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الٰہی کاکوئی دخل تسلیم کرنانہ پڑے ،حالانکہ اس عظیم الشان کائنات میں جو کچھ بھی ہوتاہے اللہ کی مشیت اورحکمت سے ہی ہوتا ہے۔

وَاِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ۝۴۴ [16]

ترجمہ:یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں توکہیں گے یہ بادل ہیں جو امڈے چلے آرہے ہیں ۔

مشرکین کے اعتراض کاپہلاجواب واضح فرمایاکہ اگرہم کفارکے مطالبے پرکسی فرشتے کورسول بناکر بھیجتے یااس رسول کی صداقت کی تصدیق کے لئے کوئی فرشتہ نازل کر دیتے جواس کام میں اس کی معاونت کرتا اورپھروہ اس پر ایمان نہ لاتے توانہیں کچھ مہلت دیے بغیرفوری طورپرہلاک کردیاجاتا ،جیسے فرمایا

مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِیْنَ۝۸ [17]

ترجمہ: ہم فرشتوں کویوں ہی نہیں اتار دیاکرتےوہ جب اترتے ہیں توحق کے ساتھ اترتے ہیں اورپھرلوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔

ایک اورمقام پر فرمایا

یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا۝۲۲  [18]

ترجمہ:جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہوگاچیخ اٹھیں گے کہ پناہ بخدا ۔

اور اگرہم نوری مخلوق فرشتے کورسول بناکربھیجنے کا فیصلہ کرتے تو لامحالہ اسے انسانی شکل وصورت ہی میں اتارتے تاکہ انسان انہیں دیکھ سکیں اور ان سے خوف زدہ ہونے کے بجائے قریب ومانوس ہو جائیں ،

عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا} یَقُولُ:مَا آتَاهُمْ إِلَّا فِی صُورَةِ رَجُلٍ، لِأَنَّهُمْ لَا یَسْتَطِیعُونَ النَّظَرَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ

ضحاک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا کے بارے میں روایت کیاہے کہ اگرانسانوں کے پاس کوئی فرشتہ پیغمبربن کرآتاتووہ بھی یقیناًانسانی صورت ہی میں آتاکیونکہ انسان فرشتوں کوان کی اصل نورانی شکل میں نہیں دیکھ سکتے۔[19]

لیکن یہ کفار پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ توانسان ہی ہے ،جواس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے سے پیش کررہے ہیں توپھرفرشتے کے بھیجنے کابھی کیافائدہ ؟ اوراگرزمین میں فرشتے بستےہوتے توہم یقیناًفرشتوں کوہی پیغمبربناکربھیجتے۔

قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝۹۵       [20]

ترجمہ:ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔

اس لئے یہ اللہ کاعظیم احسان ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا، جیسے فرمایا

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱۶۴     [21]

ترجمہ:درحقیقت اہل ایمان پرتواللہ نے یہ بہت بڑااحسان کیاہے کہ ان کے درمیان خودانہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایاجواس کی آیات انہیں سناتاہے ان کی زندگیوں کو سنوارتاہے اوران کو کتاب اوردانائی کی تعلیم دیتاہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی وتشفی فرمائی کہ آپ ان کفارکی باتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں ،آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا اسی طرح مذاق اڑایاجاچکاہے حالانکہ وہ واضح دلائل کے ساتھ اپنی امتوں کے پاس آئے مگرانہوں نے جھٹلایااوران کی تعلیمات کے ساتھ استہزاکیا،اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈھیل دی مگروہ اپنی روش پرقائم رہے تو بالآخرایک وقت مقررہ پر دعوت حق ،روزآخرت کی تکذیب اوررسولوں کا استہزا کرنے والوں کو اللہ نے صفحہ ہستی سے مٹادیا ،اسی طرح جولوگ آپ کامذاق اڑاتے ہیں اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو ایک روزوہ بھی نیست ونابودکردیے جائیں گے، ان سے کہواگرتمہیں اس بارے میں کوئی شک وشبہ ہے توزمین میں چل پھر کرتباہ شدہ اقوام کے آثارو کھنڈرات کودیکھوکہ دعوت حق،روز آخرت اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا کیا عبرت ناک انجام ہوا ہے۔

قُل لِّمَن مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَیَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیهِ ۚ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٢﴾‏ (الانعام)
’’آپ کہیے کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے،تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا اس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے اور وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

کائنات کی ہرچیزاللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے :

مشرکین اپنے مشرکانہ عقائدکے باوجود یہ تسلیم کرتے تھے کہ زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب اللہ وحدہ لاشریک ہی کی تخلیق اور ملکیت ہے،چنانچہ اس طرف انہیں متوجہ کرتے ہوئے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان دعوت حق کے جھٹلانے والوں سے پوچھوآسمانوں اورزمین میں جوکچھ ہے وہ کس کا تخلیق کردہ ،کس کی ملکیت اوران میں کون تصرف کرنے والاہے؟اگروہ لاجواب ہوکر جواب دینے کی جرات نہ کریں توکہواس عظیم الشان کائنات کی چھوٹی بڑی ہر چیز اللہ وحدہ لاشریک ہی کی تخلیق کردہ،اس کی ملکیت اوروہی اس میں تصرف کرنے والا ہے،یہ تواللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جب اس نے مخلوق کوپیداکیاتواسی وقت سے اس نے رحم و کرم کاشیوہ اپنے نفس مقدس پر لازم کرلیاہے اسی لئے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی نہیں پکڑتا،مگریہ بے پایاں رحمت روز قیامت صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی ، جبکہ کافروں پراللہ سخت غضب ناک ہوگا جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ۚ [22]

ترجمہ:مگرمیری رحمت ہرچیز پر چھائی ہوئی ہے اوراسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گاجونافرمانی سے پرہیزکریں گے ، زکوٰة دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ فِی كِتَابِهِ وَهُوَ یَكْتُبُ عَلَى نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَى العَرْشِ، إِنَّ رَحْمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیاتواپنی کتاب میں اسے لکھااس نے اپنی ذات کے متعلق بھی لکھا اوریہ اب بھی عرش پرلکھاہواموجودہے یقیناًمیری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ [23]

ایک مقررہ دن قیامت قائم ہوگی اور وہ اپنے بندوں کواعمال کی جزاکے لیےاس دن ضرورجمع کرے گا۔

لَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰ [24]

ترجمہ:ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے ۔

اوریہ بالکل ایک غیرمشتبہ حقیقت ہے مگر جن لوگوں نے دلائل و براہین کوٹھکراکرخود اپنے آپ کوتباہی کے خطرے میں مبتلا کر لیا ہے وہ حیات بعدالموت ،اس دن کی ہولناکی اور روز جزا پر ایمان نہیں لاتے ۔

وَلَهُ مَا سَكَنَ فِی اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿١٣﴾‏ قُلْ أَغَیْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٤﴾‏ قُلْ إِنِّی أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٥﴾‏ مَّن یُصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ ‎﴿١٦﴾‏ وَإِن یَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن یَمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٧﴾‏ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِیمُ الْخَبِیرُ ‎﴿١٨﴾‏(الانعام )
’’اور اللہ ہی کی ملک ہیں وہ سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیںاور وہی بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے،آپ کہیے کہ کیا اللہ کے سواجو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانےکو نہیں دیتا، اور کسی کو معبود قرار دوں، آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا، آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، جس شخص سے اس روز وہ عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے،اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوااللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں، اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ، اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے، اور وہی بڑی حکمت والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

رات کے اندھیرے اوردن کے اجالے میں جوکچھ ٹھیراہواہے سب اللہ رب العزت کاہی ہے اوروہ سب کچھ سنتااورجانتاہے،جب ہرچیزکامالک ومختاراللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ان سے عقل کے تقاضے کے تحت ہی دوسراسوال یوں کریں کہ کیامیں اللہ کوچھوڑکران عاجزمخلوقات میں سے کسی کواپنامعبود بنالوں ۔

قُلْ اَفَغَیْرَ اللہِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَیُّہَا الْجٰہِلُوْنَ۝۶۴   [25]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے کہو پھر کیا اے جاہلو، تم اللہ(وحدہ لاشریک) کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو؟۔

جوزمین وآسمان کاخالق ومالک اور متصرف ہے اوریہی نہیں کہ وہ مالک ہے بلکہ اس کی عظمت وجلالت تویوں ظاہرہورہی ہے کہ وہ اپنی بحروبرکی چھوٹی بڑی انگنت مخلوقات کوروزی بہم پہنچاتاہے،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ۝۵۷ اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ۝۵۸ [26]

ترجمہ:میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ،میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ،اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔

کائنات کی تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں اور وہ سب سے بے نیازہے ،جبکہ تمہارے خودساختہ معبودکسی کورزق نہیں دے سکتے بلکہ رزق پانے کے محتاج ہیں ، کیاعقل ونقل کے اعتبارسے یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کوچھوڑکر ان غلام اورمملوک ہستیوں کی عبادت کی جائے جونہ کچھ تخلیق کرسکتی ہیں ،نہ کسی کو نفع ونقصان پرقادرہیں ،نہ کسی کورزق ہی مہیاکرسکتے ہیں بلکہ خودمحتاج ہیں اور جونہ زندگی اورموت پرقادرہیں بلکہ انہیں تویہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳       [27]

ترجمہ:لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: دَعَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَهْلِ قُبَاءٍ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا طَعِمَ وَغَسَلَ یَدَهُ، أَوْ یَدَیْهِ عَلَیْنَا قَالَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ، مَنَّ عَلَیْنَا فَهَدَانَا وَأَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَكُلَّ بَلَاءٍ حَسَنٍ أَبْلَانَا، الْحَمْدُ لِلَّهِ غَیْرَ مُوَدَّعٍ، وَلَا مُكَافَئٍ وَلَا مَكْفُورٍ، وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَطْعَمَ مِنَ الطَّعَامِ، وَسَقَى مِنَ الشَّرَابِ، وَكَسَا مِنَ الْعُرْیِ، وَهَدَى مِنَ الضَّلَالَةِ، وَبَصَّرَ مِنَ الْعَمَى، وَفَضَّلَ عَلَى كَثِیرٍ مِنْ خَلْقِهِ تَفْضِیلًا، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاہل قبا میں سے ایک انصاری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی توہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئےجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھاناتناول فرما لیا اورہاتھ دھولیے تویہ دعافرمائی، سب تعریف اسی اللہ کے لیے ہے جواپنے بندوں کوکھلاتاہے مگرخودنہیں کھاتا، اس نے ہم پراحسان فرمایاکہ ہمیں ہدایت سے نوازا اور کھلایا پلایااورہراچھی نعمت سے سرفرازفرمایا،سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس کوکبھی خیربادنہیں کہاجاسکتانہ اس کا بدلہ دیاجاسکتاہے نہ ناشکری کی جاسکتی ہے اورنہ بے نیازی اختیارکی جاسکتی ہے،سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں کھاناکھلایا اور پانی پلایااورزیب تن کرنے کے لیے لباس عطافرمایااور ہمیں (گمراہی سے محفوظ فرما کر ) ہدایت سے نوازااورہمیں (کفرکے)اندھے پن سے(محفوظ فرماکرایمان کی)بینائی سے نوازااوراپنی بہت سے مخلوق کے مقابلے میں ہمیں شرف وفضل سے سرفرازفرمایا، ہرطرح کی تعریف اللہ ہی کی ذات گرامی کے لیے ہے جوتمام مخلوقات کاپروردگارہے۔[28]

کہومجھے تویہی حکم دیاگیاہے کہ سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کی توحیداوراس کی اطاعت کے ساتھ اس کے سامنے سرتسلیم خم کردوں کیونکہ میں ہی سب سے زیادہ اس بات کامستحق ہوں کہ اپنے رب کے احکام کی اطاعت کروں ، اورتاکیدکی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتاہے توکرے وہ اس کاخمیازہ خودبھگتے گامگر توہرگزہرگز مشرکوں کے اعتقادات ،ان کی مجالس اوران کے اجتماع میں شامل نہ ہو ،اوریہ بھی اعلان کردوکہ اگرمیں اپنے رب کی نافرمانی کروں اور اپنے معبود حقیقی کوچھوڑ کر کسی اورکو اپنامعبودبنالوں تو روزقیامت میں اللہ کے دردناک عذاب سے بچ نہیں سکتا ،اس خوفناک،ہولناک دن میں جوسزاسے بچ گیااس پراللہ نے بڑاہی رحم کیا اوریہی نمایاں کامیابی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۔۔۔[29]

ترجمہ:کامیاب دراصل وہ ہے جووہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے ۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اورانسان کے عجزودرماندگی کے اظہارکے لئے یوں ارشادفرمایاکہ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کسی چھوٹی بڑی ہستی میں کوئی دم خم نہیں جوتمہیں اس نقصان سے بچاسکے اوراگروہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مندکرے توکوئی روک نہیں سکتا،وہ ہرچیز پر قادر ہے ، یعنی نفع وضررکامالک ،اس عظیم الشان کائنات میں ہرطرح کاتصرف کرنے والاصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے اوراس کے حکم وقضاکوکوئی رد کرنے والانہیں ہے،جیسے فرمایا

مَا یَفْتَحِ اللهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا۝۰ۚ وَمَا یُمْسِكْ۝۰ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ۝۰ۭ وَهُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۲        [30]

ترجمہ: اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لئے کھول دے اسے کوئی روکنے والانہیں اورجسے وہ بندکردے اسے اللہ کے بعدپھرکوئی دوسراکھولنے والانہیں ،وہ زبردست اورحکیم ہے۔

عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ المُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَمْلَى عَلَیَّ المُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فِی كِتَابٍ إِلَى مُعَاوِیَةَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ مَكْتُوبَةٍ:لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ

مغیرہ بن شعبہ کے کاتب ورادسے مروی ہے مغیرہ بن شعبہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کوایک خط میں لکھوایانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نمازکے بعدیہ دعا پڑھا کرتے تھے:

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ

’’اللہ کے سواکوئی لائق عبادت نہیں ،اس کاکوئی شریک نہیں ،بادشاہت اس کی ہے اورتمام تعریف اسی کے لئے ہےوہ ہر چیز پر قادر ہے ، اے میرے رب!جس کوتو دے اس کوکوئی روکنے والانہیں اور جس سے توروک لے اس کوکوئی دینے والانہیں اورکسی صاحب حیثیت کواس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی۔‘‘[31]

وہ اپنے بندوں پرکامل اختیارات رکھتاہے اورتمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں ، تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہرکام میں حکیم ہے اورہرچیزسے باخبرہے،اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان وعطاکاکون مستحق ہے اورکون غیرمستحق۔

قُلْ أَیُّ شَیْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ ۚ وَأُوحِیَ إِلَیَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ‎﴿١٩﴾‏ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ یَعْرِفُونَهُ كَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآیَاتِهِ ۗ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٢١﴾‏ (الانعام)
’’ آپ کہیے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لیے کون ہے، آپ کہیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں ،کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا، آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے، اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں،جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے ، اور اس سے زیادہ بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے ایسے بےانصافوں کو کامیابی نہ ہوگی ۔‘‘ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو!مالک الارض وسماوات ہی اپنی وحدانیت اورربوبیت کاسب سے بڑاگواہ ہے اس سے بڑھ کرکوئی گواہ نہیں ہوسکتااوروہی میرے اورتمہارے درمیان گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامورہوں اورجوکچھ بھی کہہ رہاہوں اسی کےحکم سے کہہ رہاہوں ،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۝۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ۝۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ۝۴۶ۡۖفَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِیْنَ۝۴۷   [32]

ترجمہ:اوراگراس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے خودگھڑکرکوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی توہم اس کادایاں ہاتھ پکڑلیتے اوراس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے پھر تم میں سے کوئی (ہمیں ) اس کام سے روکنے والانہ ہوتا۔

اوراللہ نے یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجاہے تاکہ تمہیں اورقیامت تک جس جس کویہ پہنچے سب کواللہ کے دردناک عذاب سے متنبہ کردوں ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ۔۔۔۝۱۷   [33]

ترجمہ: اورانسانی گروہوں میں سے جوکوئی اس کا انکارکرے تواس کے لئے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔

عَنِ الرَّبِیعِ {وَأُوحِیَ إِلَیَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ} فَحَقٌّ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَدْعُوَ كَالَّذِی دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْ یُنْذِرَ كَالَّذِی أَنْذَرَ

ربیع بن انس آیت کریمہ’’اورمیرے پاس یہ قرآن بطوروحی کے بھیجاگیاہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کواورجس جس کویہ قرآن پہنچے ان سب کوڈراؤں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے تواس پرفرض ہے کہ وہ بھی اسی طرح دین کی دعوت دے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت دی تھی اورہراس چیزسے لوگوں کوڈرائے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا تھا ۔[34]

 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ قَوْلَهُ: مَنْ بَلَغَهُ الْقُرْآنُ فَكَأَنَّمَا رَأَى النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،, ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ} [35]

محمدبن کعب کاقول ہے جسے قرآن پہنچ گیااس نے گویاخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ لیا،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کادین پیش کردیاپھرانہوں نے اس آیت کی قرات کی’’کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ۔‘‘[36]

عَنْ قَتَادَةَ فِی قَوْلِهِ: {لأنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ} إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:بَلِّغُوا عَنِ اللَّهِ، فَمَنْ بَلَغَتْهُ آیَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَقَدْ بَلَغه أَمْرُ اللَّهِ

اورقتادہ رضی اللہ عنہ کا آیت ’’تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کواورجس جس کویہ قرآن پہنچے ان سب کوڈراؤں ۔‘‘کے بارے میں کاقول ہےاللہ کاپیغام اس کے بندوں کوپہنچاؤجسے ایک آیت قرآنی پہنچ گئی اسے اللہ کا امر پہنچ گیا ۔ [37]

تم لوگ اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسروں کواس کاہمسر ٹھیراتے ہوکیاتمہارے پاس کوئی ایسی سندہے جس کی بناپر تم لوگ یقین سے یہ شہادت دے سکو کہ اس جہان ہست وبودمیں اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہیں جوبندگی وپرستش کے مستحق ہوں ؟کہواگرتم بغیرعلم کے جھوٹی شہادت دیناچاہتے ہوتو دے دومیں تواس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاِنْ شَہِدُوْا فَلَا تَشْہَدْ مَعَہُمْ۔۔۔۝۰۝۱۵۰ۧ [38]

ترجمہ:پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا۔

کیونکہ میں جانتاہوں کہ اللہ تو وہی ایک ہے جو اس کائنات کامالک ،رازق اورمتصرف ہے اوراس کے سواکوئی عبودیت اور الوہیت کامستحق نہیں ،تم جن بتوں اوردیگرہستیوں کواللہ کاشریک ٹھیراتے ہواوروہ تمام چیزیں جن کواللہ کاشریک بنایاجاتاہے میں ان سے برات کا اظہار کرتا ہوں ،یہودو نصاریٰ اس کتاب کامنزل من اللہ ہونا اوراس پیغمبر کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح انسان اپنی اولادکوبغیرشک وشبہ کے پہچانتاہے ،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایان شان صفات، آپ کی بشارتیں ، آپ کی ہجرت اورآپ کی امت کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں اور ان بشارتوں کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظربھی تھے مگرجنہوں نے علم رکھنے کے باوجود اپنے آپ کوخودخسارے میں ڈال دیاہے وہ اس پر ایمان نہیں لاتے ، اوراس شخص سے بڑھ کرظالم کون ہوگا جویہ دعویٰ کرے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسری بہت سی ہستیاں بھی اس کی خدائی میں شریک اور اللہ کی صفات سے متصف ہیں اوراس بات کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیت کارویہ اختیارکرے،اسی طرح کوئی یہ دعویٰ کرے کہ فلاں فلاں ہستیوں کواللہ نے اپنامقرب خاص قراردیاہے اوراسی نے یہ حکم دیاہے کہ ان کی پرستش کی جائے ،یقیناًایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ أَشْرَكُوا أَیْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِینَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِینَ ‎﴿٢٣﴾‏ انظُرْ كَیْفَ كَذَبُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ ۚ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ ‏(الانعام)
’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وہ شرکاجن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے؟پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے ، ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بولا اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وہ سب غائب ہوگئے ۔‘‘

روزقیامت مشرکوں کاحشر:

جس روزہم سب خلائق کواعمال کی جوابدہی کے لئے ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کرکے اکٹھاکریں گے اوران لوگوں سے جواللہ کے شریک ٹھیراتے اوران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پرستش کرتے تھے انہیں شرمندہ کرنے کے لئے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کوتم دنیامیں اپناالٰہ سمجھتے تھے،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَاۗءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۶۲ [39]

ترجمہ:اور(بھول نہ جائیں لوگ)اس دن کو جب وہ ان کو پکارے گااورپوچھے گاکہاں ہیں میرے وہ شریک جن کاتم گمان رکھتے تھے۔

تووہ معذرت پیش کرکے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم توتمہیں اپنارب سمجھتے تھے،صرف تیری ہی عبادت کرتے تھے اورکسی کوتیرے ساتھ شریک نہیں کرتے تھے،دیکھواس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑ یں گے،مگروہاں اس کذب صریح کا کوئی فائدہ نہ ہوگااور ان کے سارے بناوٹی معبود جنہیں وہ اللہ کی الوہیت میں شریک گردانتے تھے گم ہوجائیں گے،جیسے فرمایا

ثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ۝۷۳ۙمِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَـیْـــــًٔا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللهُ الْكٰفِرِیْنَ۝۷۴ [40]

ترجمہ:پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ اب کہاں ہیں اللہ کے سوا وہ دوسرے خدا جن کو تم شریک کرتے تھے؟وہ جواب دیں گے کھوئے گئے وہ ہم سے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہ پکارتے تھے، اس طرح اللہ کافروں کا گمراہ ہونا متحقق کر دے گا ۔

اللہ تعالیٰ ان کی اس افترا پردازی سے بالاوبلندترہے ۔

وَمِنْهُم مَّن یَسْتَمِعُ إِلَیْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِن یَرَوْا كُلَّ آیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ یُجَادِلُونَكَ یَقُولُ الَّذِینَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْأَوْنَ عَنْهُ ۖ وَإِن یُهْلِكُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٢٦﴾‏(الانعام)
’’ اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اس سے کہ وہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے اور اگر وہ لوگ تمام دلائل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں، یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آرہی ہیں، اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں ،اور یہ لوگ اپنے ہی کو تباہ کر رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں رکھتے ۔‘‘

ان میں سے بعض مشرکین ایسے ہیں جوبسااوقات آپ کے پاس آکرقرآن مجیدکو غورسے سنتے ہیں مگران کے کفر،ہٹ دھرمی اورتعصب کے فطری نتیجہ میں ہم نے ان کے دلوں پر پردے اورکانوں میں ڈاٹ لگارکھی ہیں جن کی وجہ سے ان کے دل اللہ کے کلام کو سمجھنے سے قاصراورکان حق وصداقت کوسننے سے عاجزہیں ،اس طرح وہ اس کلام سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹     [41]

ترجمہ:اوریہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اورانسان ایسے ہیں جن کوہم نے جہنم ہی کے لئے پیداکیاہے ،ان کے پاس دل ہیں مگروہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگروہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگروہ ان سے سنتے نہیں ،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ،یہ وہ لوگ ہیں جوغفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔

ایک مقام پر ان کی مثال ان چوپائے جانوروں سے دی گئی ہے جواپنے چرواہے کی آواز تو سنتے ہیں مگراس کامطلب نہیں سمجھتے ،جیسے فرمایا

وَمَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۝۰ۭ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۝۱۷۱ [42]

ترجمہ:یہ لوگ جنہوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے ، ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے، یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔

اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے،اور ان کابغض وعناداس حدتک بڑھ گیاہے کہ وہ آپ کے پاس آتے ہیں توآپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں اوراس قرآن کریم کو ایک بے سند قصہ پارینہ کے سواکچھ نہیں سمجھتے،وہ آپ کوبرحق جانتے ہیں مگر اتباع حق نہیں کرتے ہیں اوراس کے ساتھ عام لوگوں کوبھی اپنے طرزعمل اورمختلف تاویلات سے قبول حق سے روکتے ہیں ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْأَوْنَ عَنْهُ} یَعْنِی: یَنْهَوْنَ النَّاسَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنْ یُؤْمِنُوا بِهِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’اوریہ لوگ اس سے دوسروں کوبھی روکتے ہیں اورخودبھی اس سے دوررہتے ہیں ۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگوں کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے سے روکتے ہیں ۔[43]

عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّةِ: {وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْأَوْنَ عَنْهُ} قَالَ: یَتَخَلَّفُونَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا یُجِیبُونَهُ، وَیَنْهَوْنَ النَّاسَ عَنْهُ

محمدبن حنیفہ رحمہ اللہ آیت ’’اوریہ لوگ اس سے دوسروں کوبھی روکتے ہیں اورخودبھی اس سے دوررہتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کفارقریش نہ توخودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اورنہ لوگوں کوآنے دیتے تھے بلکہ انہیں بھی آپ کی خدمت میں حاضرہونے سے منع کرتے تھے۔ [44]

اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ اس حرکت سے وہ تمہارا کچھ بگاڑ رہے ہیں حالانکہ وہ خودہی بے شعوری طورپر اپنی ہی تباہی کا سامان کررہے ہیں ۔

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا یَا لَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢٧﴾‏بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا یُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ وَقَالُوا إِنْ هِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَیْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ‎﴿٣٠﴾(الانعام)
’’اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہوجائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں، بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا، اور یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں ،اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے اور ہم زندہ نہ کئے جائیں گے ، اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے اللہ فرمائے گا کیا یہ امر واقعی نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے بیشک قسم اپنے رب کی! اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے عوض عذاب چکھو ۔‘‘

کفارکاواویلامگرسب بے سود:

اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روزمشرکین کے حال اورجہنم کے سامنے ان کوکھڑے کئے جانے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکاش! تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب کفارومشرکین دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے،توآپ بہت ہولناک منظر اوران کابہت براحال دیکھتے ،نیزآپ یہ دیکھتے کہ یہ لوگ اپنے کفروفسق کااقرارکریں گے اور جہنم کے طرح طرح کے عذابوں کودیکھ کرتمناکریں گے کہ کاش! کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھرواپس بھیجے جائیں اوراپنے رب کی نشانیوں کونہ جھٹلائیں اورایمان لانے والوں میں شامل ہوں ، لیکن اخروی زندگی سے دنیاوی زندگی میں دوبارہ آناممکن ہی نہیں ہوگا، اسی مضمون کوایک مقام پر یوں فرمایا

 رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸        [45]

ترجمہ: اے پروردگار!اب ہمیں یہاں سے نکال دے پھرہم ایسا قصور کریں توظالم ہوں گے ،اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے ، پڑے رہواسی میں اورمجھ سے بات نہ کرو ۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲   [46]

ترجمہ: کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیااورسن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ہمیں اب یقین آگیاہے۔

درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ دنیامیں جس کفروعناد اور نفاق پرانہوں نے پردہ ڈال رکھاتھاوہ اس وقت بے نقاب ہو کران کے سامنے آچکی ہوگی ورنہ اگر انہیں سابقہ زندگی کی طرف واپس بھیجاجائے توپھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیاگیا ہے وہ توہیں ہی جھوٹے،اس لئے اپنی اس خواہش کے اظہارمیں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے،آج یہ لوگ جوحیات بعدالموت کے قائل نہیں ہیں اپنے کفر وعصیان کے سبب کہتے ہیں کہ زندگی جوکچھ بھی ہے بس یہی دنیاکی زندگی ہے اورہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے،کاش! وہ منظرتم دیکھ سکوجب میدان محشر میں یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت ان کارب ان سے پوچھے گاتم حیات بعد الموت ،اعمال کی جوابدہی اور جزا و سزاکاانکارکرتے تھے اب تم لوگوں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیاہے کہواب تواس کاسچاہوناتم پرثابت ہو گیا؟

اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ۝۱۵ۚ     [47]

ترجمہ:اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھ نہیں رہا ہے ؟۔

اس وقت سرنگوں ہوکراعتراف کریں گے ہاں اے ہمارے رب!یہ بالکل سچ اورسراسرحق ہے،مگریہ اعتراف انہیں کچھ فائدہ نہ دے گااوراللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا ! تو اب اپنے انکار حقیقت کی پاداش میں عذاب کامزاچکھو۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا یَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِیهَا وَهُمْ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا یَزِرُونَ ‎﴿٣١﴾‏ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِینَ یَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٣٢﴾ (الانعام)
’’بے شک خسارہ میں پڑے وہ لوگ جس نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی، یہاں تک کہ جب وہ معین وقت ان پر دفعتًا آپہنچے گاکہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار اپنی پیٹھوں پر لادے ہونگے، خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ شے جس کو وہ لادیں گے ،اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو لعب کے، اور دار آخرت متقیوں کے لیے بہتر ہے، کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں۔‘‘

ندامت وخجالت مگرجہنم کودیکھ کر:

انسان کی سب سے بڑی غایت اورخواہش اللہ رب العزت سے ملاقات ہے ،اس بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے کہ خسارے سے دوچار ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے حیات بعدالموت اور اعمال کی جوابدہی کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اطلاع کوجھوٹ قراردیا،جب معین وقت پر دفعتاًوہ گھڑی ان پر آ جائے گی تو یہی لوگ نیک اعمال کے ترک اور اپنی کوتاہیوں پر کہیں گے افسوس! اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر و شرک کاارتکاب کرکے ہم سے کیسی تقصیرہوئی، اوران کا حال یہ ہوگاکہ اپنی پیٹھوں پراپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے،دیکھو!کیسابرابوجھ ہے جویہ اٹھارہے ہیں ،

قَالَ: ثنا أَسْبَاطٌ، عَنِ السُّدِّیِّ: {وَهُمْ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ} قَالَ: لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ظَالِمٍ یَمُوتُ فَیَدْخُلُ قَبْرَهُ ، إِلَّا جَاءَ رَجُلٌ، قَبِیحُ الْوَجْهِ أَسْوَدُ اللَّوْنِ مُنْتِنُ الرِّیحِ عَلَیْهِ ثِیَابٌ دَنِسَةٌ، حَتَّى یَدْخُلَ مَعَهُ قَبْرَهُ، فَإِذَا رَآهُ قَالَ لَهُ: مَا أَقْبَحَ وَجْهَكَ؟ قَالَ: كَذَلِكَ كَانَ عَمَلُكَ قَبِیحًا قَالَ: مَا أَنْتَنَ رِیحَكَ؟قَالَ: كَذَلِكَ كَانَ عَمَلُكَ مُنْتِنًا قَالَ: مَا أَدْنَسَ ثِیَابَكَ؟ قَالَ: فَیَقُولُ: إِنَّ عَمَلَكَ كَانَ دَنِسًا قَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا عَمَلُكَ، قَالَ: فَیَكُونُ مَعَهُ فِی قَبْرِهِ فَإِذَا بُعِثَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ قَالَ لَهُ: إِنِّی كُنْتُ أَحْمِلُكَ فِی الدُّنْیَا بِاللَّذَّاتِ وَالشَّهَوَاتِ فَأَنْتَ الْیَوْمَ تَحْمِلُنِی، قَالَ: فَیَرْكَبُ عَلَى ظَهْرِهِ فَیَسُوقُهُ حَتَّى یُدْخِلَهُ النَّارَ فَذَلِكَ قَوْلُهُ: {یَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ}

اسباط نے سدی سےآیت کریمہ وَهُمْ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ کے بارے میں روایت کیاہے جب بھی کوئی ظالم شخص اپنی قبرمیں داخل ہوتاہے، تواس کے پاس ایک ایساشخص آتاہے، جس کاچہرہ بہت برا،رنگ سیاہ،بدبوداراورمیلاکچیلا لباس ہوتاہے اورجب وہ اس کے پاس قبرمیں آتاہے تواسے دیکھتے ہی چلااٹھتاہے کہ تم کس قدربدصورت ہو؟وہ جواب دیتاہے کہ تمہاراعمل بھی اسی طرح بدترین تھا، وہ پوچھتاہے کہ تم سے بدبوکس قدرآرہی ہے؟وہ جواب دیتاہے کہ تمہاراعمل بھی اسی طرح بدبودارتھا ، وہ پوچھتاہے کہ تمہارالباس کس قدرمیلاکچیلاہے؟وہ جواب دیتاہے کہ تمہاراعمل بھی اسی طرح میلاکچیلاتھا،وہ پوچھتاہے کہ آخربتاؤتوسہی کہ تم ہوکون؟وہ جواب دیتاہے کہ میں تمہاراعمل ہی ہوں ،پھروہ اس کے ساتھ قبرہی میں رہتاہےاورجب روزقیامت اسے اٹھایاجائے گاتووہ اس سے کہے گاکہ دنیامیں میں تجھے لذتوں اورخواہشوں کے ساتھ اٹھائے پھرتاتھا،اس لیے آج تومجھے اٹھا، یہ کہہ کروہ اس کی پشت پرسوارہوجائے گااوراسے دھکیل کرجہنم رسیدکردے گااس آیت کریمہ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ کے یہی معنی ہیں ۔[48]

کائنات کے بارے میں نہیں کیونکہ اللہ نے اسے عبث نہیں بنایا،جیسے فرمایا

 اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵    [49]

ترجمہ:کیاتم نے یہ سمجھ رکھاہےکہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹناہی نہیں ہے۔

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى[50]

ترجمہ:کیاانسان نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟۔

دنیاکی زندگی جوایک فرصت امتحان ہے ،اوردارالعمل ہے کی حقیقت کویوں بیان فرمایاکہ آخرت کی حقیقی اوردائمی زندگی کے مقابلہ میں دنیاکی زندگی توچندروزہ کھیل اور تماشا ہے حقیقت میں آخرت ہی کامقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جوزیاں کاری سے بچناچاہتے ہیں ،

أَنَسًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ:كَانَتِ الأَنْصَارُ یَوْمَ الخَنْدَقِ تَقُولُ:نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدَا … عَلَى الجِهَادِ مَا حَیِینَا أَبَدَا، فَأَجَابَهُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:اللَّهُمَّ لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الآخِرَهْ … فَأَكْرِمِ الأَنْصَارَ، وَالمُهَاجِرَهْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانصار(غزوہ خندق کے موقع پر)خندق کھودتے ہوئے کہتے تھے۔

ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بیعت کی ہے جہادپرہمیشہ کے لئے، جب تک ہمارے جسم میں جان ہے

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس پرجواب میں یوں فرمایا ۔

اے اللہ!زندگی توصرف آخرت ہی کی زندگی ہے    پس تو(آخرت میں )انصاراورمہاجرین کااکرام فرمانا۔[51]

پھر کیاتمہارے پاس عقل وفہم نہیں جس کے ذریعے سے تم یہ ادراک کرسکوکہ دنیاوآخرت میں کون ساگھرترجیح دیئے جانے کامستحق ہے ؟

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَیَحْزُنُكَ الَّذِی یَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللَّهِ یَجْحَدُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّىٰ أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَأْتِیَهُم بِآیَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِینَ ‎﴿٣٥﴾‏۞ إِنَّمَا یَسْتَجِیبُ الَّذِینَ یَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَىٰ یَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَیْهِ یُرْجَعُونَ ‎﴿٣٦﴾(الانعام)
’’ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ،اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں، اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو اور پھر کوئی معجزہ لے آؤ توکرو اور اگر اللہ کو منظور ہو تو ان سب کوراہ راست پر جمع کردیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے، وہ ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں، اور مردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے۔‘‘

دشمن حق کواس کے حال پرچھوڑدیں :

 الحق ماشھدت بہ الاعدائ

حق وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں ۔

کفارمکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق ،رفعت کردار، امانت ودیانت اورصداقت کے قائل تھے،آپ کاسخت سے سخت مخالف بھی آپ کو صادق وامین تسلیم کرتا اور آپ کی راستبازی پرکامل اعتمادرکھتا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل نے بھی کبھی آپ کوجھوٹاقرارنہیں دیالیکن آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں تھا۔

عَنْ عَلِیٍّ: أَنَّ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لاَ نُكَذِّبُكَ، وَلَكِنْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِهِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ ابوجہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکرتے ہوئے کہاہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے مگرجوکچھ آپ پیش کررہے ہیں اسے جھوٹ قراردیتے ہیں ۔[52]

عَنْ أَبِی یَزِیدَ الْمَدَنِیِّ , أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَ أَبَا جَهْلٍ فَصَافَحَهُ، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَلَا أَرَاكَ تُصَافِحُ هَذَا الصَّابِئَ؟ ! فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّی أَعْلَمُ إِنَّهُ لَنَبِیٌّ، وَلَكِنْ مَتَى كُنَّا لِبَنِی عَبْدِ مَنَافٍ تَبَعًا؟

ابی یزیدمدنی سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل سے ملے اور اس سے مصافحہ کیاکسی نے اس سے کہاکہ اس(معاذاللہ) بے دین سے تومصافحہ کرتاہے؟اس نے جواب دیاکہ اللہ کی قسم! مجھے خوب علم ہے اورکامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں ہم صرف خاندانی بناپران کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے،ہم نے آج تک بنی عبدمناف کی تابعداری نہیں کی ۔[53]

فَخَلَا الْأَخْنَسُ بِأَبِی جَهْلٍ فَقَالَ: یَا أَبَا الْحَكَمِ، أَخْبِرْنِی عَنْ مُحَمَّدٍ: أُصَادِقٌ هُوَ أَمْ كَاذِبٌ؟ فَإِنَّهُ لَیْسَ هَاهُنَا مِنْ قُرَیْشٍ غَیْرِی وَغَیْرُكَ یَسْمَعُ كَلَامَنَا؟ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَیْحَكَ! وَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لِصَادِقٌ وَمَا كَذَبَ مُحَمَّدٌ قَطُّ، وَلَكِنْ إِذَا ذَهَبَتْ بَنُو قُصیّ بِاللِّوَاءِ وَالسِّقَایَةِ وَالْحِجَابِ وَالنُّبُوَّةِ، فَمَاذَا یَكُونُ لِسَائِرِ قُرَیْشٍ؟

ایک روایت میں ہے(غزوہ بدرکے موقع پر)خنس بن شریق نے علیحدگی میں ابوجہل سے پوچھا کہ یہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئی موجودنہیں ہےسچ سچ بتاؤکہ محمدکوتم جھوٹا سمجھتے ہویا سچا ؟امت کے فرعون ابوجہل نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم محمدایک سچاآدمی ہے اس نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، مگرجب بواء اورسقایت اور حجایت اورنبوت سب کچھ بنی قصی ہی کے حصہ میں آجائے توبتاؤباقی سارے قریشیوں کے پاس کیارہ گیا۔[54]

عَن الزُّهْرِیّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ صَخْر بنِ حَرْب، والأخْنَس بْنُ شِریْق، وَلَا یَشْعُرُ واحدٌ مِنْهُمْ بِالْآخَرِ. فَاسْتَمَعُوهَا إِلَى الصَّبَاحِ فَلَمَّا هَجَم الصُّبْحُ تَفرَّقوا فَجَمَعَتْهُمُ الطَّرِیقُ فَقَالَ كُلٌّ مِنْهُمْ لِلْآخَرِ: مَا جَاءَ بِكَ؟ فَذَكَرَ لَهُ مَا جَاءَ لَهُ ، ثُمَّ تَعَاهَدُوا أَلَّا یَعُودُوا، لِمَا یَخَافُونَ مِنْ عِلْمِ شَبَابِ قُرَیْشٍ بِهِمْ لِئَلَّا یَفْتَتِنُوا بِمَجِیئِهِمْ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الثَّانِیَةُ جَاءَ كُلٌّ مِنْهُمْ ظَنًا أَنَّ صَاحِبَیْهِ لَا یَجِیئَانِ، لِمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْعُهُودِ فَلَمَّا أَجْمَعُوا جَمَعَتْهُمُ الطَّرِیقُ، فَتَلَاوَمُوا، ثُمَّ تَعَاهَدُوا أَلَّا یَعُودُوا فَلَمَّا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الثَّالِثَةُ جَاؤُوا أَیْضًا فَلَمَّا أَصْبَحُوا تَعَاهَدُوا أَلَّا یَعُودُوا لِمِثْلِهَا [ثُمَّ تَفَرَّقُوا]

زہری رحمہ اللہ سے مروی ہےابو سفیان بن حرب،صخربن حرب اوراخنس بن شریق رات کو پوشیدہ طورصبح تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت سناکرتے تھے جب کچھ روشنی نمودار ہوئی توجلدی جلدی اپنے اپنے گھروں کوواپس پلٹے،اتفاقا ًایک مقام پرتینوں جمع ہوگئےاورحیرت سے ایک دوسرے سے پوچھاکہ اس وقت یہاں کہاں ؟(جب کوئی معقول جواب نہ سوجھاتو)تینوں نے صاف صاف کہہ دیاکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے قرآن مجیدسننے کے لئے پوشیدہ طو رپرآگئے تھے،اب تینوں نے معاہدہ کیاکہ ہم آئندہ ایسانہیں کریں گے اگرقریش کے نوجوانوں کواس کی خبرہوئی تووہ پکے مسلمان ہوجائیں گے،دوسری رات ہوئی توان تینوں میں سے ہرایک شخص پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقرآن سننے کے لیے آیااوراس نے اپنے ساتھیوں کے بارے میں یہ خیال کیاکہ وہ نہیں آئیں گے کیونکہ ہماراآپس میں معاہدہ ہوچکاہے( چنانچہ ہرایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن کی حلاوت کے مزے لیتارہا ) صبح کے وقت اپنے گھروں کوجاتے ہوئے پھرراستے میں ایک جگہ جمع ہوگئے،تو ایک دوسرے کوخوب ملامت کرنے لگے اورانہوں نےپھریہ عہدکیاکہ اب ایسی حرکت دوبارہ نہیں کریں گے،مگرتیسری رات ہوئی توپھرایساہی ہوا،صبح کوجب واپس گئے تو پھر ان کاایک جگہ میل ہوگیااورانہوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہااورسخت قسمیں کھاکرعہدوپیمان کیاکہ اب یہ حرکت دوبارہ بالکل نہیں کریں گے،پھریہ اپنےاپنےراستے کی طرف چلےگئے

فَلَمَّا أَصْبَحَ الْأَخْنَسُ بْنُ شَرِیق أَخَذَ عَصَاهُ ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى أَتَى أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ فِی بَیْتِهِ فَقَالَ: أَخْبِرْنِی یَا أَبَا حَنْظَلة عَنْ رَأْیِكَ فِیمَا سَمِعْتَ مِنْ مُحَمَّدٍ؟قَالَ: یَا أَبَا ثَعْلَبَةَ، وَاللَّهِ لَقَدْ سمعتُ أَشْیَاءَ أَعْرِفُهَا وَأَعْرِفُ مَا یُراد بِهَا، وَسَمِعْتُ أَشْیَاءَ مَا عَرَفْتُ مَعْنَاهَا وَلَا مَا یُرَادُ بِهَاقَالَ الْأَخْنَسُ: وَأَنَا وَالَّذِی حَلَفْتَ بِهِ،ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ حَتَّى أَتَى أَبَا جَهْلٍ، فَدَخَلَ عَلَیْهِ فِی بَیْتِهِ فَقَالَ: یَا أَبَا الْحَكَمِ، مَا رَأْیُكَ فِیمَا سَمِعْتَ مِنْ مُحَمَّدٍ؟قَالَ: مَاذَا سَمِعْتُ؟

صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق نے اپنا عصا پکڑااورچل دیا حتی کہ ابوسفیان بن حرب کے پاس اس کے گھرپہنچ گیااور کہنے لگااے ابوحنظلہ!ایمان سے بتاؤجوکلام تم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی سنااس کی بابت تمہاری اپنی کیارائے ہے؟ انہوں نے کہا اے ابوثعلبہ! سنو،اللہ کی قسم! بہت سی آیتوں کے الفاظ اورمطلب تومیں سمجھ گیااوربہت سی آیتوں کواوران کی مرادکومیں جانتاہی نہیں ،اخنس نے کہاواللہ یہی حال میرابھی ہے،یہاں سے اٹھ کراخنس ابوجہل کے پاس پہنچااورکہنے لگا اے ابوالحکم سچ سچ بتاؤ جو کلام تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے سنتے ہو اس بارے میں تمہاری کیارائے ہے ؟اس نے کہاسن،جوسناہے اسے توایک طرف رکھ دے

تَنَازَعْنَا نَحْنُ وَبَنُو عَبْدِ مَنَافٍ الشَّرَفَ: أَطْعَمُوا فأطعمنا وَحَمَلُوا فَحَمَلْنَا وَأَعْطَوْا فَأَعْطَیْنَاحَتَّى إِذَا تَجاثینا عَلَى الرُّكَب وَكُنَّا كَفَرَسی رِهَان، قَالُوا: مِنَّا نَبِیٌّ یَأْتِیهِ الْوَحْیُ مِنَ السَّمَاءِ! فَمَتَى نُدْرِكُ هَذِهِ؟وَاللَّهِ لَا نُؤْمِنُ بِهِ أَبَدًا وَلَا نُصَدِّقُهُ،قَالَ: فَقَامَ عَنْهُ الْأَخْنَسُ وَتَرَكَهُ

بات یہ ہے کہ بنو عبد مناف اورہم میں چشمک ہےوہ ہم سے اورہم ان سے بڑھنا اورسبقت کرناچاہتے ہیں مدت سے یہ رسہ کشی ہورہی ہے ، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں توہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کوسواریاں دیں توہم نے بھی مہیا کیں ، وہ لوگوں کومال ودولت سے نوازتے توہم بھی دریغ نہ کرتے حتی کہ دوڑکامقابلہ کرنے والے دوگھوڑوں کی طرح ہمارابھی آپس میں سخت مقابلہ تھا توانہوں نے یہ کہناشروع کردیاہم میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں جس کے پاس آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے توبھلاان کی اس بات کاہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم! ہم کبھی اس نبی پر ایمان نہیں لائیں گے اورنہ اس کی تصدیق کریں گے اخنس مایوس ہوکروہاں سے چل دیا۔[55]

قریش خودکو سچا ثابت کرنے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تکذیب کے لئے طرح طرح کی باتیں بناتے تھے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غم زدہ ہوتے ، جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُكَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ۔۔۔ ۝۸       [56]

ترجمہ:پس(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطرغم وافسوس میں نہ گھلے ۔

 لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۝۳     [57]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی کے لئے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں معلوم ہے کہ جوباتیں یہ کفارومشرکین بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے،لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے کیونکہ وہ آپ کی صداقت اورآپ کے تمام احوال کوخوب جانتے ہیں بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں ، مزیدتسلی کے لئے فرمایایہ پہلاموقع نہیں کہ آپ کی تکذیب کی جارہی ہے بلکہ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے، مگر اس تکذیب پراوران اذیتوں پرجوانہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا یہاں تک کہ انہیں ہماری مددپہنچ گئی ، پس آپ بھی ان اولوالعزم رسولوں کی اقتداکرتے ہوئے قوم کی تکذیب اورایذارسانی کو صبروتحمل اور بردباری کے ساتھ برداشت کریں ، جس طرح ہم نے ان رسولوں کو ظفریاب کیاآپ کوبھی ظفریاب کریں گے ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے ،جیسے فرمایا

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙ    [58]

ترجمہ: یقین جانوکہ ہم اپنے رسولوں اورایمان لانے والوں کی مدد اس دنیاکی زندگی میں بھی لازماًکرتے ہیں اوراس روزبھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۲۱     [59]

ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اورمیرے رسول ہی غالب ہوکررہیں گے ،فی الواقع اللہ زبردست اورزورآور ہے ۔

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۷۱ۚۖاِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳     [60]

ترجمہ:اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناًان کی مددکی جائے گی اورہمارا لشکرہی غالب ہو کررہے گا ۔

اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کی کشمکش کے لئے جوقانون بنادیاہے اسے تبدیل کردینا کسی کے بس میں نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے بندوں اوراہل ایمان سے جووعدہ کر رکھا ہے وہ پوراہوکررہے گاکہ آپ کفارپرغالب ومنصوررہیں گے ، اور پچھلی اقوام نے اپنے رسولوں کے ساتھ جومعاملہ کیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ، جن سے واضح ہے کہ ابتدامیں گو پیغمبروں کوان کی قوموں نے جھٹلایا،انہیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کردیالیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی وکامرانی اورنجات ابدی پیغمبروں اور اہل ایمان کامقدربنی ،تاہم اگران لوگوں کی روگردانی آپ پرشاق گزرتی ہے تواگرتم میں کچھ زورہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاکراوپرچڑھ جاؤ اور کوئی نشانی لانے کی کوشش کروجو ان کومطمئن کردے ،اول تو آپ ایسا کرنہیں سکتے اوراگربالفرض آپ ایسا کر کے دکھابھی دیں توبھی یہ ایمان نہیں لائیں گے ،کیونکہ ان کا ایمان قبول نہ کرنااللہ کی حکمت ومشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل وفہم نہیں کرسکتے ،جیسے فرمایا

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِیْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۝۹۹       [61]

ترجمہ:اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی ( کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں ) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں ؟ ۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:قَوْلُهُ: {وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى}قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَحْرِصُ أَنْ یُؤْمِنَ جَمِیعُ النَّاسِ وَیُتَابِعُوهُ عَلَى الْهُدَى، فَأَخْبَرَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا یُؤْمِنُ إِلَّا مَنْ قَدْ سَبَقَ لَهُ مِنَ اللَّهِ السَّعَادَةُ فِی الذِّكْرِ الْأَوَّلِ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہوَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى کے بارے میں روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شدیدخواہش تھی کہ سب لوگ ایمان لے آئیں اورہدایت قبول کرکے آپ کی اتباع شروع کردیں ،اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومطلع فرمادیاکہ ایمان صرف وہی لوگ لائیں گے جن کی قسمت میں لوح محفوظ میں یہ سعادت مقدر کر دی گئی ہے۔[62]

لہذاان کے کفر وشرک پر زیادہ حسرت وافسوس نہ کرواوران کامعاملہ اللہ کے سپرد کردو،وہی اپنی حکمت ومصلحت کو بہتر جانتاہے ،دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جواپنے دل کے کانوں سے سنتے ہیں ، جن کے ضمیرزندہ ہوں جبکہ کافروں کے ضمیرہی مردہ ہوچکے ہیں اس لئے ان کے سامنے کوئی دلیل پیش کرووہ اسے قبول نہیں کریں گے ، جیسے فرمایا

لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۝۷۰ [63]

ترجمہ:تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم جائے ۔

اللہ تعالیٰ نے حقارت اورکفارکی تنقیص کے لیے فرمایارہے مردے(کفارجن کے دل مردہ ہوچکے ہیں ) توانہیں توبس اللہ روز محشر قبروں ہی سے اٹھائے گااورپھروہ اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے میدان محشر میں اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے۔

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن یُنَزِّلَ آیَةً وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِی الْكِتَابِ مِن شَیْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ یُحْشَرُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَالَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِی الظُّلُمَاتِ ۗ مَن یَشَإِ اللَّهُ یُضْلِلْهُ وَمَن یَشَأْ یَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٣٩﴾(الانعام)
’’ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کو بے شک پوری قدرت ہے اس پر کہ وہ معجزہ نازل فرما دے لیکن ان میں اکثر بےخبر ہیں ،اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں، ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے ، اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں اللہ جس کو چاہے بے راہ کردےاوروہ جس کوچاہے سیدھی راہ پر لگا دے ۔‘‘

معجزات کے عدم اظہارکی حکمت :

مکذبین اپنے بغض وعنادکی بناپر کہتے ہیں کہ اس نبی پراس کے رب کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیاگیا ؟جیسے مشرکین مطالبہ کرتے تھے

 وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙاَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا۝۹۱ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙاَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ۔۔۔۝۹۳ۧۙ [64]

ترجمہ:اورانہوں نے کہاہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ توہمارے لئے زمین کوپھاڑکرایک چشمہ جاری نہ کردےیاتیرے لئے کھجوروں اورانگوروں کاایک باغ پیداہواورتواس میں نہریں رواں کردےیاتوآسمان کوٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپرگرادے جیساکہ تیرادعویٰ ہے یااللہ اور فرشتوں کورودرروہمارے سامنے لے آئےیاتیرے لئے سونے کاایک گھربن جائے یاتوآسمان پرچڑھ جائے اورتیرے چڑھنے کابھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ توہمارے اوپرایک ایسی تحریرنہ اتارلائے جسے ہم پڑھیں ۔

اللہ تعالیٰ نےفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو!اللہ تعالیٰ کی قدرت ایساکرنے سے قاصرنہیں کیونکہ ہرچیزاس کے غلبہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے اوراس کی قدرت وتسلط کی اطاعت کئے ہوئے ہے ،مگران میں سے اکثر لوگ جہالت ونادانی میں مبتلاہیں اس لئے اللہ کے حکم ومشیت کی حکمت بالغہ کاادراک نہیں کر سکتے ،اوراگراللہ ان کے مطالبہ پرکوئی نشانی نازل فرمادے اوریہ پھربھی ایمان نہ لائیں تواللہ تعالیٰ انہیں دنیاہی میں سزادے گاجس طرح اس نے سابقہ قوموں کودنیامیں ہی سزاکامزہ چکھادیاتھا،جیسے فرمایا

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ۝۰ۭ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِہَا۝۰ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۝۵۹     [65]

ترجمہ:اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں چنانچہ دیکھ لوثمود کو ہم علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا،ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں ۔

 اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خٰضِعِیْنَ۝۴ [66]

ترجمہ:ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں ۔

زمین پرچلنے والے کسی پالتواوروحشی جانوراورہوامیں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے اورپانی میں رہنے والی کسی مخلوق کودیکھ لویہ سب تمہاری ہی طرح کے مخلوق ہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ، فِی قَوْلِهِ: {وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ} یَقُولُ:الطَّیْرُ أُمَّةٌ وَالْإِنْسُ أُمَّةٌ وَالْجِنُّ أُمَّةٌ

قتادہ آیت کریمہ ’’اورجتنے قسم کے جاندارزمین پرچلنے والے ہیں اورجتنے قسم کے پرندجانورہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں سے کوئی قسم ایسی نہیں جوکہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں پرندے ایک امت ہیں اورانسان ایک امت ہیں اورجن ایک امت ہیں ۔[67]

عَنِ السُّدِّیِّ، قَوْلُهُ: {إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ} یَقُولُ:إِلَّا خَلْقٌ أَمْثَالُكُمْ

سدی آیت کریمہ ’’ان میں سے کوئی قسم ایسی نہیں جوکہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں ۔‘‘کےبارے میں فرماتے ہیں یعنی تمہاری جیسی مخلوق ہے [68]ہم نے ان کی تقدیرکے نوشتے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے ،جس طرح اللہ نے تمہیں پیداکیاہے ان کوبھی پیداکیاہے ،اورجس طرح تمہیں رزق دیتاہے انہیں بھی بہم پہنچاتاہے جیسے فرمایا

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا۔۔۔۝۶    [69]

ترجمہ: زمین میں چلنے والاکوئی جاندار ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔

وَكَاَیِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا۝۰ۖۤ اَللهُ یَرْزُقُهَا وَاِیَّاكُمْ ۔۔۔۝۶۰      [70]

ترجمہ:کتنے ہی جانور ہیں جواپنارزق اٹھائے نہیں پھرتےاللہ ان کورزق دیتاہےاورتمہارارازق بھی وہی ہے۔

پھریہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جائیں گے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , یَعْنِی قَوْلَهُ: {ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ یُحْشَرُونَ} قَالَ: حَشْرُهَا الْمَوْتُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’پھرسب اپنے پروردگارکے پاس جمع کئے جائیں گے۔‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے جمع کرنے سے مرادان کی موت ہے۔[71]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، فِی قَوْلِهِ: {إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ یُحْشَرُونَ ،قَالَ: یَحْشُرُ اللَّهُ الْخَلْقَ كُلَّهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ الْبَهَائِمَ وَالدَّوَابَّ وَالطَّیْرَوَكُلَّ شَیْءٍ، فَیَبْلُغُ مِنْ عَدْلِ اللَّهِ یَوْمَئِذٍ أَنْ یَأْخُذَ لِلْجَمَّاءِ مِنَ الْقَرْنَاءِ، ثُمَّ یَقُولُ: كُونِی تُرَابًا فَلِذَلِكَ یَقُولُ الْكَافِرُ:یَا لَیْتَنِی كُنْتُ تُرَابًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ ’’ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جوکہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں ،ہم نے دفترمیں کوئی چیزنہیں چھوڑی پھرسب اپنے پروردگارکے پاس جمع کیے جائیں گے۔‘‘کے متعلق بیان کیاگیاہے،ساری مخلوق کوقیامت کے دن جمع کیاجائے گا،جانوروں اورحیوانوں اورپرندوں اوردیگرتمام مخلوقات کوجمع کیاجائے گااوراللہ تعالیٰ کے عدل وانصاف کایہ عالم ہوگاکہ سینگوں والی بکری سے بے سینگوں کی بکری کوبھی انصاف دلایاجائے گاپھران سے کہا جائے گاکہ اب مٹی ہوجاؤ،انہیں مٹی ہوتے ہوئے دیکھ کرکافربھی خواہش کرے گااے کاش میں مٹی ہوجاتا۔[72]

مگرجولوگ ہماری نشانیوں کوجھٹلاتے ہیں وہ حق سننے سے بہرے اورحق بولنے سے گونگے ہیں ، کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں اس لئے انہیں کوئی ایسی چیزنظرنہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہوسکے ،جیسے فرمایا

مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا۝۰ۚ فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَهٗ ذَھَبَ اللهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ۝۱۷صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ۝۱۸ۙ    [73]

ترجمہ:ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اورجب اس نے سارے ماحول کوروشن کردیاتواللہ نے ان کانوربصارت سلب کرلیااورانہیں اس حال میں چھوڑ دیاکہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظرنہیں آتا،یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں یہ اب نہ پلٹیں گے۔

ایک مقام پر فرمایا

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ۝۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ۧ [74]

ترجمہ:پھران کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندرمیں اندھیراکہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے،اس پرایک اورموج اوراس کے اوپربادل تاریکی پر تاریکی مسلط ہے،آدمی اپناہاتھ نکالے تواسے بھی نہ دیکھنے پائے ،جسے اللہ نورنہ بخشے اس کے لئے پھرکوئی نورنہیں ۔

تمام قدرتیں اورتمام اختیارات اللہ وحدہ لاشریک کے ہاتھ میں ہیں ،وہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے سیدھے رستے پرلگا دیتا ہےلیکن یہ فیصلہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتا ہے ،وہ اس کوگمراہ کرتاہے جو خود گمراہی میں پھنساہوتاہے اور اس دلدل سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرتا، جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَمَا یُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ۝۲۶ۙ [75]

ترجمہ: اور اس سے گمراہی میں وہ انہی کومبتلاکرتاہے جوفاسق ہیں ۔

اور راہ راست اس پرکھول دیتاہے جواس کی جستجو کرتا ہے ، جیسے فرمایا

۔۔۔ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى۔۔۔ ۝۱۱۵ۧ [76]

ترجمہ :اس کوہم اسی طرف چلائیں گے جدھروہ خودپھرگیا۔

‏ قُلْ أَرَأَیْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَیْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ بَلْ إِیَّاهُ تَدْعُونَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَیْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ‎﴿٤١﴾(الانعام)
’’آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے،اگر تم سچے ہو،بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے۔‘‘

مشرکین مکہ اپنے ماحول اور اپنے آباؤاجدادکی تقلیدمیں مشرکانہ عقائدواعمال پرسختی سے کاربندتھے ،وہ اللہ کومانتے تھے مگراپنی جہالت میں غیراللہ کومشکل کشائی اورحاجت روائی سمیت تمام اختیارات کامالک سمجھتے تھے ،اس لئے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سجدے کرتے ، انہی کے نام کی نذرونیازنکالتے، انہی کے نام پرجانوروں کوپن کرتے تھے اور ان کے استھانوں پرجانوروں کی قربانی کرتے حتی کہ اپنی اولادوبھی قربان کردیتےلیکن جب خشکی یاسمندروں میں کسی ابتلاسے دوچارہوتے توفطری طورپران باطل معبودوں کوبھول کربے اختیارخالص اللہ کوپکارتے،اسی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایاکہ ان مشرکین سے کہو ذراسوچ کر بتاؤاگرکبھی تم پراللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یاموت کی آخری گھڑی آپہنچتی ہے توکیااس وقت تم معبود حقیقی اللہ رب العالمین کے سوا مشکل کشائی کے لئے کسی اور کو پکارتے ہو؟جواب دواگرتم سچے ہو؟حقیقت یہی ہے کہ اس وقت تم سب خودساختہ معبودوں کوبھول کرصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کوپکارتے ہوکیونکہ تم سمجھتے ہوکہ تمہارے معبودوں میں کچھ دم خم نہیں کہ کسی مصیبت کودفع کرسکیں یانفع یانقصان پہنچاسکیں یاموت وحیات پرقادرہوں ،کسی کی پکارکوسننااورمشکل کشائی اوردست گیری تو صرف اللہ ارحم الرحمین ہی کر سکتاہے، پھراگراس کی مشیت ہوتی ہے تواس مصیبت کوتم پرسے ٹال دیتاہے، ایسے موقعوں پرتم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کوبھول جاتے ہو، اورمشکل کشائی کے لئے اللہ احکم الحاکمین ہی کوپکارتے ہوجیسے فرمایا

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷     [77]

ترجمہ:جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو، انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔

عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کواسی نشانی کے مشاہدے سے اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی تھی،جب مکہ مکرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرفتح ہواتو عکرمہ رضی اللہ عنہ مکہ سے فرارہوکرجدہ کی طرف بھاگ نکلااورایک کشتی پر سوارہوکرحبش کی راہ لی ،اللہ کی قدرت کہ راستہ میں سخت طوفان آگیااورطوفانی موجوں کے زیروبم سے کشتی خطرے میں گھرگئی ،پہلے پہلے توکشتی میں سوارلوگوں نے اپنے عقائد کے مطابق اپنے دیوی دیوتاؤں کوپکارامگرجب طوفان کی شدت بڑھ گئی اور مسافروں کویقین آگیا کہ اب کشتی کے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو سب لوگ کہنے لگے کہ اس خطرے سے ہمیں دیوی دیوتا نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی بچاسکتاہے ،اس وقت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے دل نے آوازدی کہ اگرمشکل کی اس گھڑی میں اللہ کے سواکوئی مددگار نہیں تو کہیں اورکیوں ہو،اسی بات کو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بیس برس سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اورہم اپنی جہالت میں خواہ مخواہ ان سے لڑجھگڑرہے ہیں ،چنانچہ اسی لمحہ اس نے فیصلہ کرلیاکہ اگروہ اس طوفان سے بچ کرخشکی پرپہنچ گیا تو سیدھامحمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکراسلام قبول کرلوں گا،چنانچہ جب وہ خشکی پرپہنچا تو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پوراکرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکراسلام قبول کرلیااوربقیہ زندگی اسلام کے لئے جہادمیں گزاردی ۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ‎﴿٤٤﴾‏فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٥﴾‏(الانعام)
’’اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وہ اظہار عجز کرسکیں، سو جب ان کو ہماری سزا پہنچتی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا، پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے، پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔‘‘

دنیوی مادی ترقی وخوشحالی پراتراتے ہوئے انسان کوخودفریبی سے نکالنے اورحقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے سابقہ اقوام کاذکریوں فرمایاکہ تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے ہم نے ان کی طرف رسول بھیجے،جواخلاق وکردارکی پستیوں میں مبتلاہوکراپنے دلوں کوزنگ آلودکرچکے تھے ،مگرانہوں نے ہماری آیات اور رسولوں کی تکذیب کی ،ان قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور ان کے ضمیرکوجھنجھوڑنے کے لئے ہم نے انہیں مختلف مصائب وآلام میں مبتلاکیاتاکہ وہ اپنے معبود حقیقی کی طرف رجوع کرلیں اور اپنے گناہوں پرگریہ وزاری کریں اوراپنی بخشش کے لئے عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں ،مگرشیطان نے ان کے کفروشرک ، سرکشی ونافرمانی کو خوشنما بناکر دکھایا اورانہوں نے اپنی بداعمالیوں پر تاویلات وتوجیہات کے حسین غلاف چڑھاکراپنے دلوں کومطمئن کرلیااس لئے ان سختیوں پر عاجزی اختیار کرنے کے بجائے ان کے دل اورسخت ہوگئے ، پھر جب انہوں نے ہماری کتاب کوپس پشت ڈال کرہمارے فرمان سے منہ موڑلیا توہم نے بھی اپنی سنت کے مطابق انہیں ڈھیل دی اور وقتی طور پر ان کے لئے ہرطرح کی خوشحالیوں کے دروازے کھول دیئے ، یہاں تک کہ جب وہ عیش وعشرت میں خوب مگن ہوگئے اورغفلت کے گہرے گڑھے میں اترکراپنی دنیاوی مادی خوش حالی وترقی پر اترانے لگے توہم نے ناگہاں غفلت اوراطمینان کی حالت میں رسی کھینچ لی اور انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیا اوراب حال یہ تھاکہ وہ ہر خیر سوبھلائی ے مایوس ہو گئے ،اس طرح جن لوگوں نے ظلم کیاتھا انہیں صفحہ ہستی سے نیست ونابودکرکے رکھ دیاگیا،

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَیْتَ اللَّهَ یُعْطِی الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْیَا عَلَى مَعَاصِیهِ مَا یُحِبُّ، فَإِنَّمَا هُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ} [78]

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم دیکھوکہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجودکسی کواس کی خواہشات کے مطابق دنیادے رہاہے تویہ استدراج(ڈھیل دینا)ہے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی’’ پھرجب انہوں نے اس نصیحت کوجوانہیں کی گئی تھی بھلادیاتوہم نے ہرطرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے ، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جوانہیں عطاکی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تواچانک ہم نے انہیں پکڑلیااوراب حال یہ تھاکہ وہ ہرخیرسے مایوس ہو گئے۔‘‘[79]

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ [تَبَارَكَ وَتَعَالَى] إذا أراد الله بِقَوْمٍ بَقَاءً -أَوْ: نَمَاءً -رَزَقَهُمُ الْقَصْدَ وَالْعَفَافَ، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ اقْتِطَاعًا فَتَحَ لَهُمْ أَوْ فَتْحَ عَلَیْهِمْبَابَ خِیَانَةٍ{حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ} كَمَا قَالَ: {فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ}

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی قوم کی بربادی کاوقت آجاتاہے توان پرخیانت کا دروازہ کھل جاتاہے یہاں تک کہ وہاں دی گئی ہوئی چیزوں پر اترانے لگتے ہیں توہم انہیں ناگہاں پکڑلیتے ہیں اوراس وقت وہ محض ناامیدہوجاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایاظالموں کی باگ دوڑکاٹ دی جاتی ہے، اورہرطرح کی تعریف وتوصیف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔[80]

عَنِ الْحَسَنِ , قَالَ: مَنْ وُسِّعَ عَلَیْهِ فَلَمْ یَرَ أَنَّهُ یُمْكَرُ بِهِ فَلَا رَأْیَ لَهُ , وَمَنْ قُتِّرَ عَلَیْهِ فَلَمْ یَرَ أَنَّهُ یُنْظَرُ لَهُ فَلَا رَأْیَ لَهُ , ثُمَّ قَرَأَ: {فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ} [الأنعام: 44] قَالَ: وَقَالَ الْحَسَنُ: مُكِرَ بِالْقَومِ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أُعْطُوا حَاجَتَهُمْ ثُمَّ أُخِذُوا

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس شخص کواللہ تعالیٰ کشادہ رزق عطافرمائے اوروہ اسے اللہ کی تدبیرنہ سمجھے تووہ بے عقل ہےاورجس شخص کواللہ رزق کی تنگی میں مبتلاکردے اوروہ اسے آزمائش نہ سمجھے تووہ بھی بے عقل ہے پھرانہوں نے اس آیت کریمہ’’ یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جوانہیں عطاکی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تواچانک ہم نے انہیں پکڑلیااوراب حال یہ تھاکہ وہ ہرخیرسے مایوس ہو گئے ۔‘‘کی تلاوت فرمائی،حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایارب کعبہ کی قسم !یہ بھی لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تدبیرہے کہ پہلے ان کی ضرورتوں اورحاجتوں کے مطابق انہیں دے دیاجائے پھرانہیں اچانک گرفت میں لے لیاجائے۔[81]

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَیْرُ اللَّهِ یَأْتِیكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ قُلْ أَرَأَیْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ ۖ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَالَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا یَفْسُقُونَ ‎﴿٤٩﴾‏(الانعام)
’’آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہے کہ یہ تم کو پھیر دے،آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں ،آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آپڑے خواہ اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ظالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا ، اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور ڈرائیں پھر جو ایمان لے آئے اور درستی کرلے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے، اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں ۔‘‘

اللہ وحدانیت اورالوہیت میں منفردہے:

اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جس طرح وہ تمام کائنات کی تخلیق وتدبیرمیں منفردہے اسی طرح وہ وحدانیت اورالوہیت میں بھی منفردہے چنانچہ انسان کے اہم اعضاوجوارح کے بارے میں فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان مکذبین ومخالفین اسلام سے کہواللہ تعالیٰ نے تمہیں پیداکیااورتمہیں حق بات سننے کو کان اوربصائردیکھنے کوآنکھیں دیں ،جیسے فرمایا

قُلْ هُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ۔۔۔۝۰۝۲۳     [82]

ترجمہ:ان سے کہواللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا،تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے۔

ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ ۔۔۔۝۳۱    [83]

ترجمہ:یہ سماعت اوربینائی کی قوتیں کس کے اختیارمیں ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ۔۔۔۝۲۴     [84]

ترجمہ:اورجان رکھوکہ اللہ آدمی اوراس کے دل کے درمیان حائل ہے ۔

توکبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگراللہ تعالیٰ تمہارے کفر و معصیت کے سبب تمہاری بینائی اورسماعت کی خصوصیات اورسوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب کرلے یا اگر چاہے توان عضاء کوویسے ہی ختم کر دے تاکہ تم دعوت حق سمجھ ہی نہ سکو تواللہ کے سوااورکونسا الٰہ ہے جویہ صلاحتیں اورقوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو ؟یعنی اللہ کے سوا نہ کوئی اورالٰہ ہے اورنہ کسی کویہ قدرت حاصل ہے کہ اللہ کی تدبیر میں کسی طرح کی مداخلت کرسکے، غوروفکرکروکہ کس طرح ہم بارباراپنی توحیدکے دلائل وبراہین کو انذار وتبشیراورکبھی ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے کفارومشرکین کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ حق روشن اورمجرموں کی راہ واضح ہوجائے اور یہ دعوت حق قبول کرکے عذاب جہنم سے بچ جائیں مگر واضح دلائل وبراہین کے باوجودیہ حق کوتسلیم کرنے سے روگردانی اوراعراض کرتے ہیں ،ان منکرین سے کہوکبھی تم نے سوچاکہ اگرتمہارے کفرو طغیان اور معصیت الٰہی کے سبب اللہ کی طرف سے اچانک رات یادن میں تم پر عذاب آ جائے توکیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی اورہلاک ہوگا؟جیسے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَیَاتًا اَوْ نَهَارًا مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۵۰     [85]

ترجمہ:ان سے کہوکبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگراللہ کاعذاب اچانک رات کویادن کوآجائے (توتم کیاکرسکتے ہو) آخریہ ایسی کونسی چیز ہے جس کے لئے مجرم جلدی مچائیں ۔

ہم جوانبیاء ومرسلین کواس لئے تو بھیجتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کو جنت کی ان گنت دائمی نعمتوں کی خوشخبری سنائیں اور نافرمانوں کو جہنم کے دردناک سے ڈرائیں ، پھر جولوگ کفرو طغیان اور معصیت الٰہی کی روش ترک کرکے دعوت حق پرایمان لے آئیں اوراللہ کے فرمان اوررسول کی اطاعت میں اعمال صالحہ اختیارکرلیں توروزآخرت پیش آنے والے امورسے انہیں کوئی خوف اوررنج کااندیشہ نہیں ہوگا اورنہ وہ غم زدہ ہوں گے ،اوراس کے برعکس جولوگ ہماری دعوت اوررسولوں کو جھٹلائیں وہ اپنے تکفیروتکذیب کی پاداش میں عذاب جہنم بھگت کر رہیں گے۔

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِی خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّی مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَىٰ إِلَیَّ ۚ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِیرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ (الانعام)
’’آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتے ہیں سو کیا تم غور نہیں کرتے؟۔‘‘

کفارمکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین موقعوں پرمطالبات پیش کیے ۔

xیہ کہ اگرآپ واقعی اللہ کے رسول ہیں توبذریعہ معجزہ ہمارے لئے تمام دنیاکے خزانے جمع کردیں ۔

xیہ کہ اگرآپ واقعہ سچے رسول ہیں توہمیں مستقبل میں پیش آمدہ مفید یا مضر حالات وواقعات بتادیں تاکہ ہم مفیدچیزوں کوحاصل کرنے اورمضرچیزوں سے بچنے کے انتظامات پہلے ہی کرلیاکریں ۔

xیہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ ہماری ہی قوم کاایک جوان جوہماری ہی طرح پیداہوااورتمام بشری صفات مثلاًکھانے،پینے ،چلنے پھرنے اور بولنے میں ہمارا ساتھی ہے وہ اللہ کارسول بن جائے ،رسالت کے لئے توکوئی کوئی فرشتہ ہوناچاہئے تھاجس کی تخلیق اوراوصاف ہم سب سے ممتازہوتے توہم اس کواللہ کا رسول اوراپنا پیشوامان لیتے ۔

ان تینوں سوالات کے جوابات میں ارشادباری تعالیٰ ہوااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں میں اعلان کردوکہ میرے پاس کسی قسم کی کوئی قدرت وطاقت نہیں کہ میں تمہیں اللہ کے اذن ومشیت کے بغیرتمہاری خواہش کے مطابق کوئی ایسامعجزہ صادرکرکے دکھا سکوں جسے دیکھ کرتمہیں صداقت کایقین ہوجائے ،میں تم سے یہ نہیں کہتامیں اللہ کے خزانوں کامالک ہوں اوران میں تصرف کااختیاررکھتاہوں ،میں غیب کاعلم بھی نہیں رکھتاکہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات وواقعات سے تمہیں مطلع کردوں ،غیب کاعلم توتمام تراللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہی علام الغیوب ہے ،ہاں جن چیزوں سے وہ مجھے مطلع کردے ان پرمجھے اطلاع ہوجاتی ہے،جیسے فرمایا

عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰی غَیْبِهٖٓ اَحَدًا۝۲۶ۙاِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ۔۔۔۝۲۷ۙ  [86]

ترجمہ:وہ عالم الغیب ہے اپنے غیب پرکسی کومطلع نہیں کرتاسوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کاعلم دینے کے لئے )پسندکرلیاہو۔

یعنی رسول بجائے خودعالم الغیب نہیں ہوتابلکہ اللہ تعالیٰ جب اس کو رسالت کا فریضہ انجام دینے کے لئے منتخب فرماتاہے توغیب کے حقائق میں سے جن چیزوں کاعلم وہ چاہتا ہے اسے عطافرمادیتاہے، اور میں فرشتہ ہونے کادعوی ٰداربھی نہیں ہوں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امورپرمجبورکروجوانسانی طاقت سے بالاہوں ،نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کویہی جواب دیاتھا

وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ۔۔۔ ۝۳۱  [87]

ترجمہ:اورمیں تم سے نہیں کہتاکہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ یہ کہتاہوں کہ میں غیب کاعلم رکھتاہوں نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں ۔

میں اپنے مرتبہ ومقام سے بڑھ کرکوئی دعویٰ نہیں کرتا میں تواللہ کاایک بندہ ہوں اور صرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جواللہ تعالیٰ مجھ پرنازل فرماتا ہے اور اس سے بالشت بھرادھر ادھرنہیں ہوتا ،اس میں حدیث بھی شامل ہےجیسے

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ الْكِنْدِیِّ، قَالَ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ

مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے کتاب کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا ہے ، مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیاگیا(یہ مثل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے)۔[88]

عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّةَ، قَالَ: كَانَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ یَنْزِلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسُّنَّةِ كَمَا یَنْزِلُ عَلَیْهِ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُهُ إِیَّاهَا كَمَا یُعَلِّمُهُ الْقُرْآنَ

حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام (ایسے )سنت لے کرنازل ہوتے جس طرح قرآن لے کرنازل ہوتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسنت اسی طرح سکھاتے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن سکھاتے تھے۔[89]

پھران سے پوچھوکیاحق سے محروم اندھے اورحق کے تابعدار بصارت والے ، اورمومن وکافردونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟جیسے فرمایا

اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ ہُوَاَعْمٰى۝۰ۭ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۱۹ۙ   [90]

ترجمہ:بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں ؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔

کیاتم اس واضح فرق پر غوروتدبرنہیں کرتے کہ تمام اشیاکوان کے اپنے اپنے مرتبے اورمقام پررکھواوراسی چیزکواختیار کروجو اختیار کیے جانے اورترجیح دیے جانے کی مستحق ہے۔

وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِینَ یَخَافُونَ أَن یُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَیْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِیٌّ وَلَا شَفِیعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ‎﴿٥١﴾‏ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِم مِّن شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٥٢﴾‏(الانعام)
’’اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفیع ہوگا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں، اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں، ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں، ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘

مسلما نوطبقاتی عصبیت سے بچو:

اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !بے بنیادبھروسے پرزندہ رہنے والوں کوچھوڑکرتم اس قرآن کے ذریعہ سے ان لوگوں کونصیحت کرو،یعنی تبلیغ وہدایت کے لئے بنیادقرآن مجیدہے ،جولوگ اس بات کاخوف رکھتے ہیں ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْـیَةِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ۝۵۷ۙ    [91]

ترجمہ:بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پالینے والے تو درحقیقت وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں ۔

۔۔۔وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ۝۲۱ۭ   [92]

ترجمہ: اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے ۔

کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اللہ کے سواوہاں کوئی ایساذی اقتدارنہ ہو گا جوان کا حامی و مددگارہویاکوئی چھوٹی بڑی ہستی جوان کی سفارش کرےشایدکہ اس نصیحت سے متنبہ ہوکروہ پرہیزگاری کی روش اختیار کریں اورثواب کے مستحق بن جائیں ، انبیاء پر سب سے پہلے ایمان لانے والے بے مایہ ،خستہ حال لوگ ہی ہوتے ہیں ، جیسا کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہاتھا

۔۔۔وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ۔۔۔ [93]

ترجمہ:اورہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیارکرلی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی سب سے پہلے ایسے ہی لوگ ایمان لائے تھے ،

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ یَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ

جیساکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب شاہ روم ہرقل نے ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت دریافت کیابڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیارکی ہے یا ضعیف لوگوں نے ؟ توابوسفیان نے جواب دیا تھا کمزور لوگوں نے اس کی اتباع کی ہے ،ہرقل نے اس سے یہ نتیجہ نکالاتھافی الواقع تمام انبیاء کااول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے۔[94]

الغرض مشرکین مکہ ان غریب اہل ایمان کامذاق اڑاتے ،انہیں ستاتے اورجہاں تک بس چلتاانہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ اس کتاب پرایمان لاناکوئی اچھاکام ہوتاتوہم جیسے اعلیٰ حسب نسب ، عزت ومرتبہ والے دانشوراسے ماننے میں پیچھے کیسے رہ سکتے تھے ،جیسے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْهِ۔۔۔[95]

ترجمہ:جن لوگوں نے ماننے سے انکارکردیاہے وہ ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگراس کتاب کومان لیناکوئی اچھاکام ہوتاتویہ لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت نہ لے جا سکتے تھے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: مَرَّ الْمَلَأُ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ خَبَّابٌ، وَصُهَیْبٌ، وَبِلَالٌ، وَعَمَّارٌ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، أَرَضِیتَ بِهَؤُلَاءِ؟ فَنَزَلَ فِیهِمُ الْقُرْآنُ: {وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِینَ یَخَافُونَ أَنْ یُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ} [96]– إِلَى قَوْلِهِ – {وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِینَ} [97]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک مرتبہ قریش کے سرداررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صہیب رومی رضی اللہ عنہ ، بلال حبشی رضی اللہ عنہ ، خباب رضی اللہ عنہ بن ارت ،عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے، انہیں دیکھ کریہ مشرکین حقارت سے کہنے لگے دیکھوتوآپ ہمیں چھوڑ کرکن مساکین کے ساتھ بیٹھے ہیں ،انہیں ذرا اپنے سے ہٹاؤتوہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھیں ؟اس پرسورۂ انعام کی آیات۵۱تا۵۸ نازل ہوئیں ۔[98]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:مَرَّ الْمَلَأُ مِنْ قُرَیْشٍ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ صُهَیْبٌ وَعَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَخَبَّابٌ وَنَحْوُهُمْ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، أَرَضِیتَ بِهَؤُلَاءِ مِنْ قَوْمِكَ، هَؤُلَاءِ الَّذِینَ مَنَّ اللَّهُ عَلَیْهِمْ مِنْ بَیْنِنَا، أَنَحْنُ نَكُونُ تَبَعًا لِهَؤُلَاءِ؟ اطْرُدْهُمْ عَنْكَ، فَلَعَلَّكَ إِنْ طَرَدْتَهُمْ أَنْ نَتَّبِعَكَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {وَلَا تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ} [99] {وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ}[100] إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےایک اور روایت میں ہےایک مرتبہ قریش کے سرداررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صہیب رومی رضی اللہ عنہ ، بلال حبشی رضی اللہ عنہ ، خباب رضی اللہ عنہ بن ارت ،عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اوردوسرے کمزورمسلمان بیٹھے ہوئے تھے، انہیں دیکھ کرقریشی سردار حقارت سے کہنے لگے دیکھو توآپ اپنی قوم کو چھوڑ کرکن مساکین کے ساتھ بیٹھے ہیں ؟کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہواہے؟تو سورۂ انعام کی آیات ۵۲،۵۳ نازل ہوئیں ۔[101]

جیسے ایک مقام پر فرمایا

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ۝۰ۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا۝۲۸وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَكْفُرْ۝۰ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا۝۰ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۔۔۔ ۝۲۹ [102]

ترجمہ:اوراپنے دل کوان لوگوں کی معیت پرمطمئن کروجواپنے رب کی رضا کے طلب گاربن کرصبح وشام اسے پکارتے ہیں اوران سے ہرگزنگاہ نہ پھیروکیاتم دنیا کی زینت پسندکرتے ہو؟کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کروجس کے دل کوہم نے اپنی یاد سے غافل کردیاہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیارکرلی ہے اورجس کاطریق کارافراط وتفریط پرمبنی ہے ، صاف کہہ دوکہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے اب جس کاجی چاہے ما ن لے اور جس کاجی چاہے انکارکردے ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لئے ایک آگ تیارکر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں ۔

ان کے حساب میں سے کسی چیزکابارتم پرنہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیزکاباران پرنہیں ، یعنی ہرشخص اپنے عیب وصواب کاذمہ دارآپ ہے،کسی اہل ایمان کی جوابدہی کے لئے تم کھڑے نہ ہوگے اورنہ تمہاری جوابدہی کے لئے ان میں سے کوئی کھڑاہوگا،تمہارے حصہ کی کوئی نیکی یہ تم سے چھین نہیں سکتے اوراپنے حصہ کی کوئی برائی تم پرنہیں ڈال سکتے ، اس پر بھی اگر تم انہیں دورپھینکو گے تویہ ظلم ہوگاجوآپ کے شایان شان نہیں ، نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو جواب دیاتھا

۔۔۔وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللهُ خَیْرًا۝۰ۭ اَللهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ۝۰ۚۖ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۳۱ [103]

ترجمہ: اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتاکہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ،ان کے نفس کاحال اللہ ہی بہتر جانتاہے اگرمیں ایساکہوں تو ظالم ہوں گا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پوری طرح پیروی کی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقرائے مومنین کی مجلس میں بیٹھتے تودلجمعی سے ان کے ساتھ بیٹھتے ،ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ، ان کے ساتھ حسن خلق اورنرمی کامعاملہ کرتے اور انہیں اپنے قریب کرتے ۔

وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَیْهِم مِّن بَیْنِنَا ۗ أَلَیْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَیْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٥٤﴾‏ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٥٥﴾(الانعام)
’’ اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریںکیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے، یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے ، تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے، پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے، اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرمین کا طریقہ ظاہر ہوجائے۔‘‘

دراصل ہم نے اس طرح ضعفاء کو سب سے پہلے ایمان کی توفیق دے کر روساء کوجواپنی دولت،حیثیت اورعزت کے گھمنڈمیں مبتلاہیں آزمائش میں مبتلاکیاہے جو انہیں دیکھ کر حقارت سے کہتے ہیں کیایہ ہیں وہ لوگ جن پرہمارے درمیان اللہ کافضل وکرم ہواہے؟ ہاں !اللہ تعالیٰ ٹھاٹھ باٹھ اوررئیسانہ کروفروغیرہ کو نہیں دیکھتا،وہ تودلوں کی کیفیت کودیکھتاہے اور جانتا ہے کہ اس کے حق شناس اورشکرگزاربندے کون ہیں ؟

 شیخ الإسلام ابن تیمیة قدس الله روحه یقول: هم الذین یعرفون قدر نعمة الإیمان ویشكرون الله علیها

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جوایمان کی نعمت کی قدروقیمت کوپہچانتے اوراس پراللہ تعالیٰ کاشکراداکرتے ہیں ۔[104]

پس اس نے جن کے اندرحق شناسی اورشکرگزاری کی خوبی دیکھی انہیں ایمان کی لازوال نعمت سے سرفراز کر دیا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَا یَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ، وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ إِنَّمَا یَنْظُرُ إِلَى أَعْمَالِكُمْ، وَقُلُوبِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اوراموال کونہیں دیکھتابلکہ نیتوں اوراعمال کودیکھتاہے۔[105]

فرمایاجب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پرایمان لاتے ہیں توانہیں السلام علیکم کہیں یاان کے سلام کا جواب دے کران کے ساتھ اکرام، تعظیم،عزت واحترام کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں اللہ کی رحمت اوراس کے جودواحسان کی بشارت دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے شکرگزاربندوں پراپنا رحم وکرم کاشیوہ لازم کر لیاہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ فِی كِتَابِهِ وَهُوَ یَكْتُبُ عَلَى نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَى العَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیاتواپنی کتاب میں اسے لکھااس نے اپنی ذات کے متعلق بھی لکھااوریہ اب بھی عرش پرلکھاہواموجودہے کہ میری رحمت میرے غضب پرغالب ہے۔[106]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والوں میں بکثرت ایسے لوگ بھی تھے جن سے دور جہالت میں بڑے بڑے گناہ سرزدہوچکے تھے مگردائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعدان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو چکا تھااوران کے اعمال پہلی زندگی سے بالکل ہی مختلف ہو چکے تھے،لیکن مشرکین ان کوسابق زندگی کے عیوب اورافعال کے طعنے دیتے تھے ،اس پرفرمایااوریہ اللہ کارحم وکرم ہی ہے کہ اگرتم میں سے کوئی نادانی یاتقاضائے بشریت کسی گناہ کاارتکاب کربیٹھتاہے پھرگناہ پراصرار کرنے کے بجائے خلوص نیت سے توبہ کرتاہے اوراپنے احوال کی اصلاح کرلیتاہے تو اللہ ارحم الرحمین جو اپنے بندوں کے گناہوں کومعاف کردینے کوپسندکرتاہے اس کے پچھلے قصوروں پرگرفت کرنے کے بجائے معاف کردیتا اورنرمی سے کام لیتا ہے ،

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَا مُعَاذُ أَتَدْرِی مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى العِبَادِ؟ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،قَالَ:أَنْ یَعْبُدُوهُ وَلاَ یُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا أَتَدْرِی مَا حَقُّهُمْ عَلَیْهِ؟ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،قَالَ:أَنْ لاَ یُعَذِّبَهُمْ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ رضی اللہ عنہ !کیاتمہیں معلوم ہے کہ اللہ کااس کے بندوں پرکیاحق ہے ؟انہوں نے کہاکہ اللہ اوراس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیرائیں ،پھر فرمایاتمہیں معلوم ہے کہ پھر بندوں کااللہ پرکیاحق ہے ؟عرض کی کہ اللہ اوراس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایایہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔[107]

اوراس طرح ہم رشدو ہدایت اورضلالت کی راہوں کافرق واضح طورپر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہو جائے۔

قُلْ إِنِّی نُهِیتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِینَ ‎﴿٥٦﴾‏ قُلْ إِنِّی عَلَىٰ بَیِّنَةٍ مِّن رَّبِّی وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ یَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِینَ ‎﴿٥٧﴾‏ (الانعام)
’’ آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہو، آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہ کروں گا کیونکہ اس حالت میں تو میں بےراہ ہوجاؤں گا اور راہ راست پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا ،آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو ایک دلیل ہے میرے رب کی طرف سے اور تم اس کی تکذیب ہو، جس چیز کی تم جلد بازی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں، حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے، اللہ تعالیٰ واقعی بات کو بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔‘‘

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان مشرکین سے کہوکہ تم لوگ اللہ کے سواجن دوسری بے شمارہستیوں کی بندگی کرتے اوراپنی مشکلات ومصائب میں انہیں پکارتے ہو،مجھے اللہ رب العالمین نے ان کی بندگی کرنے سے منع فرمایاہے ،کہواگرمیں تمہاری خواہشات نفس کی اتباع میں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے بجائے غیراللہ کی عبادت شروع کردوں ،جوکسی نفع ونقصان کے مالک ہیں نہ موت وحیات اوردوبارہ اٹھانے کاکوئی اختیاررکھتے ہیں توکسی پہلوسے بھی راہ راست پررہنے کے بجائے یقیناًگمراہی کے اندھیرے گڑھوں میں گر جاؤں گا ،کہو میں تو اپنے رب کی طرف سے ایک پاکیزہ شریعت پرقائم ہوں جس میں توحیدالٰہی کواولین حیثیت حاصل ہے جسے تم لوگوں نے تصدیق کے بجائے بغیرغوروفکر کے جھٹلادیاہے ، اس عظیم الشان کائنات میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کاہی حکم چلتاہے ،اور تم میری صداقت اورکذب کاپتہ چلانے کے لئے جس عذاب کی جلدی مچارہے ہو وہ اللہ ہی کے اختیارمیں ہے ،اگراس کی حکمت و مشیت ہوئی توجلدی عذاب نازل کرکے تمہیں متنبہ یاتباہ وبربادکردے گا اوراگراس کی عظیم حکمت ومصلحت اس کی مقتضی ہوئی تو تمہیں مہلت عطافرما دے گا، ہر طرح کے فیصلہ کرنے کاتمام تراختیاراللہ رب العزت کوہے،اور وہ حق کے مطابق فیصلے کرتاہے اوروہی دنیاوآخرت میں اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والاہے۔

قُل لَّوْ أَنَّ عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِیَ الْأَمْرُ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ ۞ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی كِتَابٍ مُّبِینٍ ‎﴿٥٩﴾‏وَهُوَ الَّذِی یَتَوَفَّاكُم بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُكُمْ فِیهِ لِیُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٦٠﴾(الانعام)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو تو میرا اور تمہارا باہمی قصہ فیصل ہوچکا ہوتا اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے)ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتااور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں ،اور وہ ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کردیتا ہےاور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے، پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے تاکہ میعاد معین تمام کردی جائے پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو!جس عذاب کی تم جلدی مچارہے ہواگراسے نازل کرنے کا اختیارمیرے پاس ہوتایااللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پرفوراًعذاب نازل کردیتا تو میرے اورتمہارے درمیان کبھی کافیصلہ ہوچکاہوتامگریہ معاملہ کلیتاًاللہ کی مشیت پرموقوف ہے اوراللہ زیادہ بہترجانتاہے کہ ظالموں کے ساتھ کیامعاملہ کیاجاناچاہئے،

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ أَتَى عَلَیْكَ یَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ أُحُدٍ قَالَ: لَقَدْ لَقِیتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِیتُ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِیتُ مِنْهُمْ یَوْمَ العَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِی عَلَى ابْنِ عَبْدِ یَالِیلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ فَلَمْ یُجِبْنِی إِلَى مَا أَرَدْتُ،فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِی، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آپ پرکوئی دن احدکے دن سے بھی زیادہ سخت گزراہے،فرمایاکہ تمہاری قوم (قریش)کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دورمیں عقبہ کادن مجھ پرسب سے زیادہ سخت تھا،یہ وہ موقع تھاجب میں نے(طائف کے سردار)کنانہ ابن عبدیالیل بن عبدکلال کے ہاں اپنے آپ کوپیش کیالیکن اس نے(اسلام کوقبول نہیں کیااور) میری دعوت کو ٹھکرادیامیں وہاں سے سخت غمگین ہوکرواپس ہوا(مجھے نہیں معلوم تھاکہ میں کدھرجارہاہوں )جب میں قرن الثعالب پہنچاتب میرے اوسان ٹھیک ہوئے میں نے اپناسراٹھایا توکیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کاایک ٹکڑامیرے اوپرسایہ کیے ہوئے ہے

فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِیهَا جِبْرِیلُ فَنَادَانِی فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَیْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَیْكَ مَلَكَ الجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِیهِمْ، فَنَادَانِی مَلَكُ الجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَیَّ، ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ، ذَلِكَ فِیمَا شِئْتَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ یُشْرِكُ بِهِ شَیْئًا

اورمیں دیکھاکہ دیکھاجبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں انہوں نے مجھے آوازدی اورکہاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا ہے اورجوانہوں نے ردکیاہے وہ بھی سن چکاہے،آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجاہے،آپ ان کے بارے میں جوچاہیں انہیں حکم دے دیں ،اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے پکارااورسلام کیا اورپھر عرض کیااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !پھرانہوں نے بھی وہی بات کہی ،آپ جوچاہیں (اس کامجھے حکم فرمائیں ) إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْهِمُ الأَخْشَبَیْنِ؟ اگرآپ حکم دیں تومکہ مکرمہ کے ان دونوں پہاڑوں (ابوقبیس اورقعیقعان جوشمال وجنوب میں ہیں ) کولاکر اکٹھے کر دوں (یعنی ان تمام کوان دونوں کے درمیان پیس کررکھ دوں )رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تواس کی امیدہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولادپیداکرے گاجو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیرائیں گے۔[108]

اللہ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا،یعنی علم غیب خاصہ خداوندی ہے ،

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:{مَفَاتِحُ الغَیْبِ} [109]خَمْسٌ:إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنْزِلُ الغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغیب کی پانچ کنجیاں ہیں بے شک اللہ ہی کوقیامت کاعلم ہےاوروہی منیہ برساتاہےاوروہی جانتاہے جوکچھ (حاملاؤں کے) پیٹوں میں ہے اورکوئی متنفس نہیں جانتاکہ وہ کل کیاکام کرے وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ اورکوئی متنفس نہیں جانتاکہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی،بے شک اللہ ہی جاننے والااورخبردارہے۔[110]

اورجسے وہ چاہتاہے اسے ان غیوب میں سے کسی پرمطلع کر دیتا ہے، بحروبر میں جوکچھ ہے سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسا نہیں جس کااسے علم نہ ہو،زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسانہیں جس سے وہ باخبرنہ ہو،صحراؤں اوربیابانوں میں ریت ومٹی کے ذرات اورکنکروغیرہ سب اس کے علم میں ہیں ، جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹   [111]

ترجمہ: اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اوروہ رازتک جانتاہے جوسینوں میں چھپارکھے ہیں ۔

 سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۝۱۰ [112]

ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص خواہ زورسے بات کرے یا آہستہ اورکوئی رات کی تاریکی میں چھپاہواہویادن کی روشنی میں چل رہاہواس کے لئے سب یکساں ہیں ۔

خشک وترسب کچھ لوح محفوظ میں لکھاہواہے، وہ اکیلاہی ہے جوبندوں کی ان کے سوتے جاگتے میں تدبیرکرتاہے ،وہ رات کو ایک گونہ تمہاری روحیں قبض کرتا ہے (یعنی وفات اصغر) جیسے فرمایا

اَللهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا۝۰ۚ فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۰۝۴۲ [113]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جوموت کے وقت روحیں قبض کرتاہے اور جوابھی نہیں مراہے اس کی روح نیندمیں قبض کرلیتاہے پھرجس پروہ موت کافیصلہ نافذکرتاہے اسے روک لیتاہے اوردوسروں کی روحیں ایک وقت مقررکے لئے واپس بھیج دیتاہے۔

اورجوکچھ تم دن میں کرتے ہواسے جانتاہے،یعنی وہ مخلوق کے لیل ونہاراوران کی ہرحرکت کااحاطہ کیے ہوئے ہے،جیسے فرمایا

سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ۝۱۰ [114]

ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہواس کے لیے سب یکساں ہیں ۔

پھر زندگی کی مقرر مدت پوری کرنے کے لئے دوسرے روزوہ تمہاری روح لوٹاکر اسی دنیا میں واپس بھیج دیتاہے ، آخر کار قیامت والے دن زندہ ہوکرسب کواللہ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے حاضرہوناہے،اس دن وہ ہرایک کواس کے اعمال کابدلہ دے گا۔

‏ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَیُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا یُفَرِّطُونَ ‎﴿٦١﴾‏ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ‎﴿٦٢﴾‏ قُلْ مَن یُنَجِّیكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِینَ ‎﴿٦٣﴾‏ قُلِ اللَّهُ یُنَجِّیكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ ‎﴿٦٤﴾(الانعام)
’’ اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہےیہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے ، پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جائیں گے ، خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ بہت جلد حساب لے گا، آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے؟ تم اس کو پکارتے ہو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔‘‘

وہی ذات ہے جوہرچیزپرغالب وقادرہے ،اس کی جلالت ،عظمت عزت کے سامنے ہرکوئی پست ہے ،وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتاہے اورتم پرنگرانی کرنے والے فرشتے مقررکرکے بھیجتاہے،ایک فرشتے تووہ ہیں جوبلاؤں سے اس کی جسمانی حفاظت کرتے ہیں جیسے فرمایا

لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللهِ ۔۔۔۝۱۱ [115]

ترجمہ:ہرشخص کے آگے اورپیچھے اس کے مقررکیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جواللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں ۔

دوسری قسم کے فرشتے وہ ہیں جوانسانوں کے اعمال کی دیکھ بھال کرتے ہیں اوران کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں ۔

وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙ [116]

ترجمہ: حالانکہ تم پرنگراں مقررہیں ایسے معززکاتب جوتمہارے ہرفعل کوجانتے ہیں ۔

اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۝۱۷مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸ [117]

ترجمہ:(اورہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ )دوکاتب اس کے دائیں اوربائیں بیٹھے ہرچیزثبت کررہے ہیں کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضرباش نگراں موجودنہ ہو۔

یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کاوقت آجاتاہے تو اس کے مقررکردہ فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا قَالَ: أَعْوَانُ مَلَكِ الْمَوْتِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورکئی ائمہ نے فرمایاہے کہ بہت سے فرشتے ملک الموت کے معاون ہیں ۔[118]

وہ جسم سے روح کونکالتے ہیں اورجب وہ حلق تک پہنچ جاتی ہے توملک الموت اسے اپنے قبضے میں کے لیتاہے، اوروہ اپنافرض انجام دینے اور متوفی کی روح کی حفاظت میں ذراکوتاہی نہیں کرتے،پھرسب کے سب اللہ اپنے حقیقی آقاکی طرف واپس لائے جاتے ہیں ،اورنیک روحوں کواللہ کے حکم سے علیین اور بری روحوں کوسجین میں ڈال دیتے ہیں ،قرآن مجیدمیں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔

 اَللهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا۔۔۔۝۴۲ [119]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جوموت کے وقت روحیں قبض کرتاہے۔

اس کی نسبت ایک فرشتے ملک الموت کی طرف بھی کی گئی ہے۔

قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۝۱۱ۧ [120]

ترجمہ:ان سے کہو موت کاوہ فرشتہ جوتم پرمقررکیاگیاہے تم کوپوراکاپورااپنے قبضے میں لے لے گااورپھرتم اپنے رب کی طرف پلٹالائے جاؤگے۔

اور اس کی نسبت متعددفرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ۔۔۔۝۰۝۹۷ۙ [121]

ترجمہ: جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے ؟ ۔

والوجه فی ذلك أن الله تعالى هو الآمر بل هو الفاعل الحقیقی، والأعوان هم المزاولون لإخراج الروح من نحو العروق والشرایین والعصب، والقاطعون لتعلقها بذلك، والملك هو القابض المباشر لأخذها بعد تهیئتها

علامہ الوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل آمر(حکم دینے والا)بلکہ فاعل حقیقی ہے،متعددفرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت(عزرائیل علیہ السلام ) کے مددگار ہیں ،وہ رگوں ،شریانوں ،پٹھوں سے روح نکالنے اوراس کاتعلق ان تمام چیزوں سے کاٹنے کاکام کرتے ہیں اورملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخرمیں وہ روح قبض کرکے آسمانوں کی طرف جاتاہے۔[122]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ الْمَیِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِی أَیَّتُهَا النَّفْسُ الطَّیِّبَةُ، كَانَتْ فِی الْجَسَدِ الطَّیِّبِ، اخْرُجِی حَمِیدَةً، وَأَبْشِرِی بِرَوْحٍ، وَرَیْحَانٍ، وَرَبٍّ غَیْرِ غَضْبَانَ ، قَالَ: فَلَا یَزَالُ یُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ یُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَیُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَیُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَیُقَالُ: فُلَانٌ، فَیَقُولُونَ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّیِّبَةِ، كَانَتْ فِی الْجَسَدِ الطَّیِّبِ، ادْخُلِی حَمِیدَةً، وَأَبْشِرِی بِرَوْحٍ، وَرَیْحَانٍ، وَرَبٍّ غَیْرِ غَضْبَانَ قَالَ: فَلَا یَزَالُ یُقَالُ لَهَا حَتَّى یُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِی فِیهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامرنے والے کی روح کونکالنے کے لئے فرشتے آتے ہیں اوراگروہ شخص نیک ہوتا ہےتواس سے کہتے ہیں نکل اے پاک روح!جوپاک جسم میں ہے، نکل جاتونیک ہے اوراللہ کی رحمت اورخوشبوسے خوش ہوجا اورایسے مالک سے جوتیرے اوپر خفانہ ہے، فرمایاوہ اس سے برابریہی کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جان بدن سے نکل جاتی ہے،پھرفرشتے اس کو آسمانوں پرلے جاتے ہیں ،اس کے لئے آسمان کا دروازہ کھولاجاتاہےوہاں کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں فلاں شخص ہے،وہ کہتے ہیں مرحباہے اے پاک روح!جوپاک بدن میں تھی، تعریف کیاگیااندرداخل ہوجااوراللہ کی رحمت اور خوشبو سےخوش ہو جا اوراس مالک سے جوتجھ پرغصہ نہیں ہے،فرمایااس سے برابر(ہرآسمان پر)یہی کہا جاتاہے،یہاں تک کہ یہ نیک روح اس آسمان تک پہنچتی ہے جہاں اللہ عزوجل ہے،

وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِی أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِیثَةُ، كَانَتْ فِی الْجَسَدِ الْخَبِیثِ، اخْرُجِی ذَمِیمَةً، وأَبْشِرِی بِحَمِیمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٍ، فَلَا تَزَالُ تَخْرُجُ، ثُمَّ یُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَیُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَیُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَیُقَالُ: فُلَانٌ، فَیُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِیثَةِ، كَانَتْ فِی الْجَسَدِ الْخَبِیثِ، ارْجِعِی ذَمِیمَةً، فَإِنَّهُ لَا یُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِیرُ إِلَى الْقَبْرِ

اورجب کوئی براآدمی ہوتاہےتوموت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اے خبیث روح جوگندے جسم میں تھی توبرائی کے ساتھ نکل اورگرم کھولتے ہوئے پانی اورسڑی بھسی غذااورطرح طرح کے عذابوں سے خوش ہوجا ،وہ اس سے یہی کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ روح نکل آتی ہے، پھراسے آسمان کی طرف چڑھاتے ہیں مگرآسمان کادروزہ نہیں کھلتاوہاں کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے؟فرشتے کہتے ہیں فلاں شخص ہے،وہ کہتے ہیں اس خبیث روح کے لئے مرحبانہیں ہے جوناپاک بدن میں تھی،توبرائی کے ساتھ لوٹ جا تیرے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھلیں گے،چنانچہ اسے زمین کی طرف پھینک دیاجاتاہے،پھرقبرلائی جاتی ہے پھرقبرمیں ان دونوں روحوں سے سوال وجواب ہوتے ہیں ۔[123]

خبردارہو جاؤ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کوحاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پراحسان کرتے ہوئے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے پوچھوصحرا کے بیابانوں اورلق ودق سنسان جنگلوں اور سمندرکی تلاطم خیزموجوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ؟ کون ہے جس سے تم(مصیبت کے وقت) گڑگڑا،گڑگڑاکراور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ اپنی شدیدمشکلات وپریشانیوں میں کس سے کہتے ہو ۔

۔۔۔لَىِٕنْ اَنْجَیْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ [124]

ترجمہ: اگرتونے ہم کواس بلاسے نجات دے دی توہم شکرگزاربندے بنیں گے۔

کہواللہ تمہیں اس سے اورہرتکلیف سے نجات دیتاہے پھرخوش حالی میں تم دوسروں کواس کاشریک ٹھیراتے ہو،یعنی توحیدربوبیت اورتوحیدالوہیت تو انسان کی فطرت میں چھپی ہوئی ہے کہ کائنات میں اللہ وحدہ لاشریک ہی قادرمطلق ہے اور وہی تمام قدرتوں اور اختیارات کامالک ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تم پر کوئی بڑی مصیبت آتی ہے اورنجات کا کوئی بھی حیلہ تمہیں نظرنہیں آتا تواس وقت تم ہرطرف سے منہ موڑ کربے اختیارخشوع وخضوع کے ساتھ اسی کواپنی حاجت کے لئے پکارتے ہو،لیکن اس واضح حقیقت کے باوجود تم لوگوں نے اس کی قدرتوں اور اختیارات میں بلا دلیل اور بغیر کسی سند کے دوسروں کوجواس کی مخلوق ہیں اس کاشریک بنارکھاہے ،وہ رزاق ہے اور آسمان وزمین سے تمہیں رزق بہم پہنچاتاہے مگرتم اعتراف نعمت کے بجائے غیراللہ کو ان داتابناتے ہو،ہرطرف سے مایوس ہوکرمشکلات ومصائب میں اسے پکارتے ہواوروہ اپنے فضل وکرم سے تمہاری پریشانیوں کودورکردیتاہے مگراس کے احسان مندہونے کے بجائے غیراللہ کواپناحامی وناصر سمجھتے ہو،اللہ تمہاراخالق ہے اورتم اس کے غلام ہومگراپنے معبودحقیقی کے بجائے غیراللہ کی بندگی کرتے ہو ، کٹھن حالات میں اس کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہومگرجب وہ اس مصیبت کوٹال دیتاہے تواسے مشکل کشااورحاجت رواسمجھنے کے بجائے غیر اللہ کو مشکل کشا اور حاجت رواکہتے ہواوران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نذریں اورنیازیں پیش کرنے لگتے ہو ،اسی مضمون کومتعددمقامات پربیان کیاگیاہے جیسے فرمایا

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷ [125]

ترجمہ:جب سمندرمیں تم پر مصیبت آتی ہے تواس ایک کے سوادوسرے جن جن کوتم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ،مگرجب وہ تم کوبچاکرخشکی پرپہنچادیتاہے توتم اس سے منہ موڑجاتے ہو،انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔

ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ۝۰ۚ وَجَرَیْنَ بِهِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِهِمْ۝۰ۙ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَیْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۲۲فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۔۔۔ ۝۲۳ [126]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جوتم کوخشکی اورتری میں چلاتاہے ،چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوارہوکربادموافق پرفرحاں وشاداں سفرکررہے ہوتے ہواورپھر یکایک بادمخالف کا زور ہوتاہے اور ہرطرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اورمسافرسمجھ لیتے ہیں کہ وہ طوفان میں گھرگئے ،اس وقت سب اپنے دین کواللہ ہی کے لئے خالص کرکے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگرتونے ہم کواس بلاسے نجات دے دی توہم شکرگزاربندے بنیں گے ،مگرجب وہ ان کوبچالیتاہے توپھروہی لوگ حق سے منحرف ہوکرزمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ۔

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ۝۵۳ۚثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَ۝۵۴ۙ [127]

ترجمہ: تم کوجونعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھرجب کوئی سخت وقت تم پرآتاہے توتم لوگ خوداپنی فریادیں لے کراسی کی طرف دوڑتے ہومگرجب اللہ اس وقت کو ٹال دیتاہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو(اس مہربانی کے شکریے میں )شریک کرنے لگتاہے۔

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن یَبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُل لَّسْتُ عَلَیْكُم بِوَكِیلٍ ‎﴿٦٦﴾‏ لِّكُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٦٧﴾‏(الانعام)
’’آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سےیا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے، آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیںشاید وہ سمجھ جائیں،اور آپ کی قوم اس کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ وہ یقینی ہے، آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں، ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت ہے اور جلد ہی تم کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘

جولوگ عذاب الٰہی کواپنے سے دورپاکرحق دشمنی میں جرات پرجرات دکھارہے تھے انہیں متنبہ کیاگیاکہ اللہ کے عذاب کے آتے کچھ دیرنہیں لگتی،تمہیں نجات دینے کے بعد اللہ اب بھی اس پرقادرہے کہ وہ تم پرکوئی عذاب اوپرسے نازل کردے یاتمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے ، جیسے فرمایا

رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـیْمًا۝۶۶وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًا۝۶۸ۙاَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا۝۶۹[128]

ترجمہ:تمہارا (حقیقی )رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہےتاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے ،جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے،اچھاتوکیاتم اس بات سے بالکل بے خوف ہوکہ اللہ کبھی خشکی پرہی تم کوزمین میں دھنسادے یاتم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اورتم اس سے بچانے والاکوئی حمایتی نہ پاؤ؟اورکیاتمہیں اس کااندیشہ نہیں کہ اللہ پھرکسی وقت سمندرمیں تم کو لے جائے اورتمہاری ناشکری کے بدلے تم پرسخت طوفانی ہوابھیج کرتمہیں غرق کر دے اورتم کوایساکوئی نہ ملے جواس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے؟یا تمہارے معاملے کوغلط ملط یامشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اورجماعتوں میں تقسیم ہوجاؤ پھر تمہارا ایک دوسرے کوقتل کرے اس طرح ہرگروہ دوسرے گروہ کولڑائی کامزہ چکھائے۔

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {قُلْ هُوَ القَادِرُ عَلَى أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ} [الأنعام: 65]، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، قَالَ: {أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ} [129]، قَالَ:أَعُوذُ بِوَجْهِكَ {أَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ} [130]قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا أَهْوَنُ – أَوْ هَذَا أَیْسَرُ

جابربن عبداللہ سے مروی ہےجب یہ آیت کریمہ’’ کہووہ اس پرقادرہے کہ تم پرکوئی عذاب اوپرسے نازل کردے۔‘‘ نازل ہوئی ، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی اے اللہ!میں تیرے چہرہ اقدس کے ساتھ پناہ چاہتاہوں ،اورجب فرمایا’’یاتمہارے قدموں کے نیچے سے برپاکردے۔‘‘ تواس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی اے اللہ!میں تیرے چہرہ اقدس کے ساتھ پناہ چاہتاہوں ’’یاتمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کودوسرے گروہ کی طاقت کامزہ چکھوادے۔‘‘اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ (پہلی دوصورتوں کے مقابلے میں )ہلکااورکم ترعذاب ہے۔[131]

عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ مِنَ الْعَالِیَةِ، حَتَّى إِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِی مُعَاوِیَةَ دَخَلَ، فَرَكَعَ فِیهِ رَكْعَتَیْنِ، وَصَلَّیْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِیلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: سَأَلْتُ رَبِّی ثَلاثًا فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ، وَمَنَعَنِی وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّی: أَنْ لَا یُهْلِكَ أُمَّتِی بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِیهَا، وَسَأَلْتُهُ: أَنْ لَا یُهْلِكَ أُمَّتِی بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِیهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا یَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَیْنَهُمْ فَمَنَعَنِیهَا

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہے تھے کہ ہماراگزرمسجدبنی معاویہ کے پاس سے ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدکے اندرتشریف لے گئے اور دو رکعت نمازادافرمائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ مل کرنمازادافرمائی،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے طویل دعاکی،پھرہماری طرف متوجہ ہوئےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں ، میں نے دعامانگی کہ میری تمام امت کوغرق نہ کرے،اللہ تعالیٰ نے یہ چیزمجھے عطافرمادی،پھرمیں نے دعا کی کہ میری امت عام قحط سالی سے ہلاک نہ ہو،اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعابھی قبول فرمالی،پھرمیں نے دعاکی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے ، میری یہ دعاقبول نہ ہوئی۔[132]

خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ، مَوْلَى بَنِی زُهْرَةَ، وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: رَاقَبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِی لَیْلَةٍ صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُلَّهَا حَتَّى كَانَ مَعَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ جَاءَهُ خَبَّابٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، لَقَدْ صَلَّیْتَ اللَّیْلَةَ صَلَاةً مَا رَأَیْتُكَ صَلَّیْتَ نَحْوَهَا؟

خباب بن ارت مولی بنی زہرہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدرمیں شرکت کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے سے مروی ہےمجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسی رات میں حاضررہنے کاشرف حاصل ہواہے جوساری رات آپ نے نمازپڑھتے ہوئے گزاری تھی حتی کہ صبح ہوگئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں آج توساری رات آپ نے اس طرح نمازمیں گزاری ہے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھاتھاکہ آپ نے اس طرح نمازادافرمائی ہو؟

 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغَبٍ وَرَهَبٍ، سَأَلْتُ رَبِّی ثَلَاثَ خِصَالٍ: فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ، وَمَنَعَنِی وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّی أَنْ لَا یُهْلِكَنَا بِمَا أَهْلَكَ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا، فَأَعْطَانِیهَا، وَسَأَلْتُ رَبِّی أَنْ لَا یُظْهِرَ عَلَیْنَا عَدُوًّا غَیْرَنَا، فَأَعْطَانِیهَا، وَسَأَلْتُ رَبِّی أَنْ لَا یَلْبِسَنَا شِیَعًا فَمَنَعَنِیهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں !یہ شوق اورڈرپرمبنی نمازتھی،میں نے اس میں اپنے رب سے تین دعائیں کیں تواس نے میری دودعائیں کوشرف قبولیت سے نوازااورایک کوقبول کرنے سے انکارکردیا،میں نے رب سے دعاکی کہ وہ ہمیں اس طرح ہلاک نہ کرے جس طرح اس نے ہم سے پہلی امتوں کوہلاک کیاتھاتواللہ تعالیٰ نے میری اس دعاکوقبول فرمالیا،میں نے رب سے دعاکہ کہ وہ ہمارے غیرمیں سے ہمارے کسی دشمن کوہم پرغالب نہ کرے ،اللہ تعالیٰ نے میری اس دعاکوشرف قبولیت سے نوازا،اورمیں نے اپنے رب سے دعاکی کہ وہ ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے سے بچائے،اللہ تعالیٰ نے میری اس دعاکوقبول نہیں فرمایا۔[133]

عَنْ أَبِی عَامِرٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ لُحَیٍّ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَتَفْتَرِقُ هَذِهِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ(فِرْقَةً) كُلُّهَا فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً

ابوعامرعبداللہ بن لحی سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور (میری )یہ امت تہترفرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اورایک فرقے کے سوادیگرسب جہنم رسیدہوں گے ۔[134]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَى أُمَّتِی مَا أَتَى عَلَى بنی إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِیَةً لَكَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بنی إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِی النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْهِ وَأَصْحَابِی.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ، یہاں تک کہ اگر ان کی امت میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گا، بنی اسرائیل بہترگروہوں میں تقسیم ہوگئے اورمیری امت تہترفرقوں میں بٹ جائے گی ، سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک گروہ کے،صحابہ نے عرض کی اےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں ؟فرمایاجس پرمیں ہوں اورمیرے اصحابی۔[135]

دیکھوہم کس طرح بار بار مختلف پہلووں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کررہے ہیں شایدکہ یہ حق کوپہچان کرراہ راست اختیارکریں ، تمہاری قوم کلام الٰہی کاانکارکررہی ہے حالانکہ وہ سراسرحق ہے،ان سے کہہ دوکہ میں تم پرحوالدارنہیں بنایاگیاہوں کہ میں تمہارے اعمال کی نگرانی کروں اوراس پرتمہیں بدلہ دوں میراکام توصرف حق اورباطل کو ممیز کرکے تمہارے سامنے پیش کر دینا ہے پھرتمہیں اختیار ہے کہ اللہ کی دعوت کوقبول کرویا انکار کردو ،جیسے فرمایا

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَكْفُرْ ۔۔۔ ۝۲۹     [136]

ترجمہ: صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔

اگرتم نہیں مانتے توجس برے انجام سے تمہیں ڈراتاہوں اس کاایک وقت مقررہے جوآگے پیچھے نہیں ہوسکتا،جیسے فرمایا

۔۔۔ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ۝۳۸ [137]

ترجمہ:ہروعدے کے لیے لکھاہواوقت ہے۔

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۳۴ [138]

ترجمہ:ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدّت مقرر ہےپھر جب کسی قوم کی مدّت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی ۔

یعنی یہ عظیم الشان کائنات اورزندگی کوئی بے عقل حادثاتی نظام نہیں بلکہ کائنات کاسارانظام ایک قانون ،ایک مقررشدہ پروگرام کے تحت چل رہاہے جسے ہم تقدیرکہتے ہیں اور جس عذاب کی وعیدسنائی گئی ہے تم اسے عنقریب جان لوگے۔

وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ۝۸۸ۧ [139]

ترجمہ: اور تھوڑی مدت ہی گزرے گی کہ تمہیں اس کا حال خود معلوم ہوجائے گا۔

وَإِذَا رَأَیْتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِی آیَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِهِ ۚ وَإِمَّا یُنسِیَنَّكَ الشَّیْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٦٨﴾‏وَمَا عَلَى الَّذِینَ یَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَیْءٍ وَلَٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ وَذَرِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَیْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِیٌّ وَلَا شَفِیعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا كَانُوا یَكْفُرُونَ ‎﴿٧٠﴾‏(الانعام)
’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں، اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کردینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں ، ور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہےاور دنیوی زندگی نے انہیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے اور اس قرآن کے ذریعہ سے نصیحت بھی کرتے ہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردارکے سبب (اس طرح) نہ پھنس جائے کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے، ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے، ان کے لیے نہایت گرم پانی پینے کے لیے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب فرماکرامت مسلمہ کے ہرفردکوتاکیدی حکم دیاگیاکہ اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جب تم دیکھوکہ لوگ ہماری آیات پرنکتہ چینیاں کررہے ہوں ،اقوال باطلہ کی تحسین کررہے ہوں ،ان کی طرف دعوت دے رہے ہوں یااہل بدعت واہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اورتوجیہات نحیفہ کے ذریعے آیات الٰہی کوتوڑمروڑرہے ہوں توان سے اعراض کریں یہاں تک کہ وہ اپنی شیطانیت کوچھوڑکرکسی دوسری باتوں میں مشغول نہ ہو جائیں ،جیسے فرمایا

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللهِ یُكْفَرُ بِھَا وَیُسْتَهْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖٓ ۝۰ۡۖ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَۨا۝۱۴۰ۙ [140]

ترجمہ:اللہ اس کتاب میں تم کوپہلے ہی حکم دے چکاہے کہ جہاں تم سنوکہ اللہ کی آیات کے خلاف کفربکاجارہاہے اوران کامذاق اڑایاجارہاہے وہاں نہ بیٹھوجب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں اب اگرتم ایساکرتے ہوتوتم بھی انہی کی طرح ہو،یقین جانوکہ اللہ منافقوں اورکافروں کوجہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے ۔

اوراگرکبھی غفلت ونسیان کی وجہ سے ہماری یہ ہدایت تمہیں یادنہ رہے اورتم بھول سے ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے رہو توجس وقت تمہیں اس غلطی کااحساس ہوجائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِی عَمَّا تُوَسْوِسُ بِهِ صُدُورُهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ، أَوْ تَتَكَلَّمْ بِهِ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَیْهِ

ابوذر رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطا اوربھول سے درگزرفرمالیاہے اوران کاموں سے بھی جوان سے زبردستی مجبور کرکے کرائے جائیں ۔[141]

جواہل ایمان ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے تو استہزابآیات اللہ کا جو گناہ مذاق اڑانے والوں کوملے گاوہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے ،البتہ ایسے گمراہ لوگوں کووعظ ونصیحت اورامربالمعروف ونہی المنکرکافریضہ حتی المقدورادا کرنا ان کافرض ہے شاید کہ وہ اللہ سے ڈریں اور غلط روی سے بچ جائیں ،اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! چھوڑوان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کوکھیل اورتماشابنا رکھا ہے اورجنھیں دنیاکی زندگی فریب میں مبتلاکیے ہوئے ہے ، ہاں مگریہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو تاکہ کوئی شخص اپنی بد اعمالیوں کے وبال میں گرفتارنہ ہوجائے، جیساکہ فرمایا

كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ رَہِیْنَةٌ۝۳۸ۙ اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ۝۳۹ۭۛ [142]

ترجمہ: ہرشخص اپنے کسب کے بدلے رہن ہے،دائیں بازو والوں کے سوا ۔

اور گرفتاربھی اس حال میں ہوکہ اللہ سے بچانے والاکوئی حامی ومددگاراورسفارشی اس کے لئے نہ ہو ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ۔۔۔۝۰۝۲۵۴ [143]

ترجمہ: اے لوگو!جوایمان لائے ہوجوکچھ مال متاع ہم نے تم کوبخشاہے اس میں سے خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی،نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔

اوراگروہ ہرممکن چیزفدیہ میں دے کرعذاب جہنم سے چھوٹناچاہئے تووہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ ۔۔۔ ۝۹۱ۧ [144]

ترجمہ:یقین رکھوجن لوگوں نے کفراختیارکیااورکفرہی کی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگراپنے آپ کوسزاسے بچانے کے لئے روئے زمین بھرکربھی سونافدیہ میں دے تواسے قبول نہ کیاجائے گا۔

کیونکہ ایسے لوگ تو خوداپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے ان کوتواپنے کفروشرک کے معاوضہ میں کھولتاہواپانی پینے کوملے گاجوان کے چہروں کوبھون اوران کی انتڑیوں کوکاٹ ڈالے گا اور جہنم کادردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔

قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَنفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیَاطِینُ فِی الْأَرْضِ حَیْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ یَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٧١﴾‏ وَأَنْ أَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِی إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَیَوْمَ یَقُولُ كُن فَیَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِیمُ الْخَبِیرُ ‎﴿٧٣﴾‏(الانعام)
’’آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائےاور کیا ہم الٹے پھرجائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کردی ہے، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطان نے کہیں جنگل میں بےراہ کردیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو، اس کے ساتھی بھی ہوں کہ وہ اس کوٹھیک راستہ کی طرف بلارہے ہیں کہ ہمارے پاس آ ، آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے پورے مطیع ہوجائیں،اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو اور وہی ہے جس کے پاس تم جمع کئے جائوگے،اوروہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا اور جس وقت اللہ تعالیٰ اتنا کہہ دے گا تو ہوجا وہ ہو پڑے گا، اس کا کہنا حق اور با اثر ہے ، اور ساری حکومت خاص اسی کی ہوگی جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا اور وہی ہے بڑی حکمت والا پوری خبر رکھنے والا۔

اسلام کے سواسب راستوں کی منزل جہنم ہے :

قَالَ السُّدِّی: قَالَ الْمُشْرِكُونَ لِلْمُؤْمِنِینَ: اتَّبِعُوا سَبِیلَنَا، وَاتْرُكُوا دِینَ مُحَمَّدٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَلا یَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا

سدی کہتے ہیں مشرکین اہل ایمان سے کہتے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کوچھوڑکرہمارے رستے پریعنی اپنے آباؤاجدادکے دین میں پلٹ آؤ،اس پریہ آیت کریمہ’’آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے۔‘‘ نازل ہوئی۔[145]

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان مشرکین سے پوچھوکیاہم مالک الارض وسماوات کوچھوڑکراس کی مخلوق کوپکاریں جونہ ہمیں کسی طرح کا نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟اورجبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے توکیااب ہم ایمان کے بعدکفراورتوحیدکے بعدضلالت کی طرف لوٹ جائیں ؟نعمتوں بھری جنت کے راستے کوچھوڑکران راستوں پرچل نکلیں جواپنے سالک کو عذاب الیم کی منزل پرپہنچادیتے ہیں ،ایسی حالت والے شخص کی مثال اس شخص جیسی ہوگی جواپنے ساتھیوں کے ساتھ سیدھے راستے پرگامزن تھامگر شیطانوں نے اسے بیابان میں بھٹکا دیاہو اور وہ حیران وسرگرداں ادھرادھربھٹکتا پھرتارہاہو،دراں حالے کہ اس کے ساتھی خیرخواہی کے ساتھ اسے پکار رہے ہوں کہ گمراہی کی راہوں سے نکل کر ہماری طرف آجاؤ،یہ روشن راہ راست تمہارے سامنے موجودہے جوسیدھی اللہ رب العزت کی طرف جاتی ہے؟جس میں اس کی خوشنودی ،رحمت اوربخشش ہے،اس راستے کے سواکوئی راستہ ہدایت کاراستہ نہیں ہے ،اس راستے کے علاوہ دیگرراستے گمراہی ،موت اورہلاکت کے سواکچھ نہیں ، لیکن یہ بدنصیب ان کی پکار پرتوجہ اوراعتمادنہیں کرتا ، حقیقت تویہ ہے کہ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے وہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ،جیسے فرمایا

۔۔۔ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۔۔۔ [146]

ترجمہ: صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔

وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ۔۔۔ ۝۳۷ [147]

ترجمہ:اور جسے وہ ہدایت دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں ؟ ۔

 ۔۔۔فَاِنَّ اللهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُضِلُّ وَّمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۳۷ [148]

ترجمہ:اللہ جس کوبھٹکادیتاہے پھراسے ہدایت نہیں دیاکرتااوراس طرح کے لوگوں کی مددکوئی نہیں کرسکتا۔

یہ نہیں کہ اللہ یوں ہی کسی کو ہدایت اورکسی کو گمراہ کردیتاہے بلکہ یہ اللہ کے مقررہ قانون کے مطابق ہوتی ہے، اوراس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کی وحدانیت کومانیں اوراس کے اوامرونواہی کے سامنے سراطاعت خم کر دیں اورتقویٰ اورخشوع وخضوع کے ساتھ مقررہ وقت پرنمازقائم کریں ، اورجس چیزکااس نے حکم دیا اسے بجالائیں اورجس چیزسے روکاہے اس سے اجتناب کریں ،ایک مقررہ وقت پراعمال کی جوابدہی کے لئے اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ،وہی ہے جس نے آسمان وزمین کوعبث اوردل بہلانے کے لئے نہیں بلکہ ایک خاص مقصداور عدل اورحکمت کے ساتھ کائنات کی تخلیق کی ہے ، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا

۔۔۔رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاسُبْحٰنَكَ۔۔۔ ۝۱۹۱ [149]

ترجمہ: اے پرورگار!یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہےتوپاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ۝۱۶ [150]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان وزمین اورجوکچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طورپر نہیں بنایاہے۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [151]

ترجمہ:توکیاتم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیداکیاہے اورتمہیں ہماری طرف کبھی پلٹناہی نہیں ہے ۔

اس لئے اپنے خالق کویادرکھاجائے اوراس کی نعمتوں پرشکرگزارہوناچاہیے، اور جس دن وہ کہے گاکہ حشرہوجائے اسی دن وہ ہو جائے گا،اس کا ارشادعین حق ہے اور جس روزصور پھونکا جائے گااس روزپادشاہی اسی کی ہو گی، جیسے فرمایا

اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۝۰ۭ وَكَانَ یَوْمًا عَلَی الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا۝۲۶ [152]

ترجمہ: اس روزحقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی اوروہ منکرین کے لئے بڑاسخت دن ہوگا۔

 لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ۝۰ۭ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۱۶ [153]

ترجمہ: (اس روز پکارکر پوچھا جائے گا)آج بادشاہی کس کی ہے؟ (سارا عالم پکاراٹھے گا ) اللہ واحدقہارکی ۔

قیامت کے روزاللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صورپھونکاجائے گا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ أَنْعَمُ وَقَدِ التَقَمَ صَاحِبُ القَرْنِ القَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ یَنْتَظِرُ أَنْ یُؤْمَرَ أَنْ یَنْفُخَ فَیَنْفُخَ

ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں کیونکر آرام کروں حالانکہ نرسنگے والا( اسرافیل علیہ السلام ) نر سنگا کومنہ میں لئے اوراپنی پیشانی جھکائے حکم الٰہی کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انہیں کہاجائے تواس میں پھونک دیں ۔[154]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:قَالَ أَعْرَابِیٌّ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الصُّورُ؟ قَالَ قَرْنٌ یُنْفَخُ فِیهِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک اعرابی نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !صورسے کیامرادہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس سے مرادوہ سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ [155]

جس کی ہولناک آواز سے کائنات کاموجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گااورتمام مخلوقات ہلاک ہوجائیں گی، پھرجب اللہ چاہے گا دوسرا صور پھونکاجائے گاجس سے ایک دوسرانظام،نئی صورت اورنئے قوانین کے ساتھ قائم ہوجائے گا،

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ۔۔۔۝۴۸ [156]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے۔

اور تمام اولین وآخرین اپنی قبروں سے ازسرنوزندہ ہوکراپنے آپ کومیدان محشر میں پائیں گے ، وہ غیب اور شہادت ہرچیز کاعالم ہے اور دانا اور باخبرہے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ لِأَبِیهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّی أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٧٤﴾‏ وَكَذَٰلِكَ نُرِی إِبْرَاهِیمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِیَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ ‎﴿٧٥﴾‏ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّی ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِینَ ‎﴿٧٦﴾‏ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّی ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ یَهْدِنِی رَبِّی لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ‎﴿٧٧﴾‏ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّی هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ‎﴿٧٨﴾‏ إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿٧٩﴾(الانعام)
’’ اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے ؟ بے شک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں،اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں ، پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا ،پھر جب چاند کو دیکھاچمکتاہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا، پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ، میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر ،اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

اہل عرب بالعموم ابراہیم علیہ السلام کواپناپیشوااورمقتدامانتے تھے خصوصاقریش کے فخرونازکی ساری بنیادہی یہی تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاداوران کے تعمیرکردہ خانہ کعبہ کے متولی ہیں ، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے عقیدہ توحیداورشرک سے ان کے انکاراورمشرک قوم سے ان کی نزاع کے واقع کواس امرکی تائیداورشہادت میں پیش کیاکہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں نے شرک کاانکارکیاہے اوربے شمار خودساختہ معبودوں سے منہ موڑکرایک اللہ وحدہ لاشریک کے آگے سراطاعت خم کردیا ہے اسی طرح پہلے ابراہیم علیہ السلام بھی کرچکے ہیں ،جس طرح آج تم لوگ اپنی جہالت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑرہے ہواسی طرح ابراہیم کی قوم بھی یہی جھگڑاکرچکی ہے اور جو جواب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کودیاتھاآج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے پیروں کی طرف سے ان کی قوم کوبھی وہی جواب ہے، اگرتم واقعی ہی ابراہیم علیہ السلام کواپناپیشوااورمقتدامانتے ہو،ان کے نسب میں ہونے اورخانہ کعبہ کے خادم ہونے پر فخرونازکرتے ہوتوطاغوت کی بندگی سے منہ موڑکران کے طریقے کی پیروی کرو،فرمایاابراہیم علیہ السلام کاواقعہ یادکروجب کہ اس نے اپنے باپ آزرکووعظ ونصیحت کرتے ہوئے کہاتھا،بعض تاریخ داں ان کانام تارخ بھی بیان کرتے ہیں ،ممکن ہے ایک نام ہواوردوسرالقب ،کیاتو اللہ رب العالمین کوچھوڑکر جو تیرا خالق ،مالک اوررزاق ہے مختلف چیزوں کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کوالٰہ بناتے ہو؟اللہ کے بجائے ان کے سامنے الحاج اورعاجزی اختیار کرتے ہو ، جونہ نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان،میں توتجھے اورتیری قوم کوکھلی گمراہی میں پاتاہوں ،ایک مقام پر ان کی اپنے والدکوتبلیغ یوں بیان کی گئی ہے۔

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَـیْــــــًٔــا۝۴۲یٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا۝۴۳یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ۝۰ۭ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۝۴۴یٰٓاَبَتِ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا۝۴۵قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِــهَـتِیْ یٰٓــاِبْرٰهِیْمُ۝۰ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِیْ مَلِیًّا۝۴۶قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ۝۰ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا۝۴۷ وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ۝۰ۡۖ عَسٰٓى اَلَّآ اَكُوْنَ بِدُعَاۗءِ رَبِّیْ شَقِیًّا۝۴۸ [157]

ترجمہ:(انہیں ذرااس موقع کی یاد دلاؤ کہ ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہااباجان!آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جونہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اورنہ آپ کاکوئی کام بناسکتی ہیں ؟ اباجان!میرے پاس ایک ایساعلم آیاہے جوآپ کے پاس نہیں آیا،آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کوسیدھاراستہ بتاؤں گا،اباجان!آپ شیطان کی بندگی نہ کریں شیطان تورحمٰن کا نافرمان ہے ،اباجان!مجھے ڈرہے کہ کہیں آپ رحمٰن کے عذاب میں مبتلانہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کررہیں ،باپ نے کہاابراہیم کیا تومیرے معبودوں سے پھرگیاہے ؟اگرتوبازنہ آیاتومیں تجھے سنگسارکردوں گابس توہمیشہ کے لئے مجھ سے الگ ہو جا ، ابراہیم علیہ السلام نے کہاسلام ہے آپ کو،میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کومعاف کردے ، میرارب مجھ پربڑاہی مہربان ہے ،میں آپ لوگوں کوبھی چھوڑتاہوں اوران ہستیوں کوبھی جنہیں آپ لوگ اللہ کوچھوڑکرپکاراکرتے ہیں ، میں تو اپنے رب ہی کوپکاروں گا امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکرنامرادنہ رہوں گا۔

ایک مقام پرابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا

وَلَـقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ۝۵۱ۚاِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّـمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰكِفُوْنَ۝۵۲ [158]

ترجمہ:اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اس کو خوب جانتے تھے،یاد کرو وہ موقع جب کہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟۔

ابراہیم علیہ السلام اپنے والدکے لئے دعا کرتے رہے مگرجب انہیں علم ہواکہ انکاوالدحالت کفرمیں ہی مرگیاہے توآپ نے اس کے لئے استغفار کرنا چھوڑ دیا، جیسے فرمایا

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ۔۔۔۝۰۝۱۱۴[159]

ترجمہ:ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے جودعائے مغفرت کی تھی وہ تواس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیاتھامگرجب اس پریہ بات کھل چکی کہ اس کاباپ اللہ کادشمن ہے تووہ اس سے بیزارہوگیا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یَلْقَى إِبْرَاهِیمُ أَبَاهُ آزَرَ یَوْمَ القِیَامَةِ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ،فَیَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِیمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِی، فَیَقُولُ أَبُوهُ: فَالیَوْمَ لاَ أَعْصِیكَ،فَیَقُولُ إِبْرَاهِیمُ: یَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِی أَنْ لاَ تُخْزِیَنِی یَوْمَ یُبْعَثُونَ، فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزَى مِنْ أَبِی الأَبْعَدِ؟ فَیَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّی حَرَّمْتُ الجَنَّةَ عَلَى الكَافِرِینَ، ثُمَّ یُقَالُ: یَا إِبْرَاهِیمُ، مَا تَحْتَ رِجْلَیْكَ؟ فَیَنْظُرُ، فَإِذَا هُوَ بِذِیخٍ مُلْتَطِخٍ،فَیُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَیُلْقَى فِی النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزرسے ملاقات کریں گے تواس کے چہرے پرسیاہی اورگردوغباردیکھیں گے ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیامیں نے آپ سے نہیں کہاتھاکہ میری مخالفت نہ کریں ،وہ کہے گاآج میں تیری کسی بات کی مخالفت نہ کروں گا،ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعاکریں گے کہ اے اللہ! تونے مجھ سے وعدہ کیاہے کہ قیامت کے دن تومجھے رسوانہ کرے گااس سے زیادہ رسوائی اورکیاہوگی کہ میراباپ تیری رحمت سے سب سے زیادہ دورہیں ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کوکافروں پرحرام کردیاہے، پھرکہا جائے گاکہ اے ابراہیم علیہ السلام !تمہارے قدموں کے نیچے کیاچیزہے؟وہ دیکھیں گے کہ ایک ذبح کیاہواجانور،خون میں وہاں لتھڑا ہوا، وہاں پڑاہوگا اورپھراس کو پاؤں سے پکڑ کرجہنم میں ڈال دیاجائے گا۔[160]

ابراہیم علیہ السلام کی قوم مظاہرپرست تھی اورچاند،سورج ،مریخ ،زہرہ ،عطادر،مشتری اورزحل کی پرستش کرتی تھی ، چنانچہ فرمایاکہ جس طرح تمہیں اللہ کی نشانیاں دکھائی جارہی ہیں مگرتم ان پرکوئی غوروفکرنہیں کرتے ، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کوبھی ہم زمین اورآسمانوں کے عجائبات دکھاتے تھے تا کہ وہ چشم بصیرت سے ان قطعی دلائل اورروشن براہین کامشاہدہ کرلے جن پرزمین اورآسمان کی بادشاہی مشتمل ہے تاکہ وہ ان پر غوروفکراوران سے صحیح استدلال کرکے امرحق معلوم کرلے ،چنانچہ ایک دن جب رات ہوئی تواپ نے زہرہ ستارے کومشرق سے نکلتے ہوئے دیکھ کر کہایہ میرارب ہے،مگرجب وہ مقررہ چال سے مقررہ جگہ پر چلتا ہوا غروب ہو گیا تو بولایہ تو خود آزادنہیں اورنہ ہی اسے خودپرقابوہے ، طلوع اورغروب ہوتاہے ،پھرطلوع ہوتاہے توتم پریادنیاپراس کاکیاتصرف ہوگایہ توخودرب کی مخلوق ہے ، جسے میرے رب نے روشنی دی ہوئی ہے پروردگارعالم تودوام ، لازوال اورانقلاب سے پاک ہوتاہے ،یہ میرامعبودہونے کی صلاحیت نہیں رکھتامیں اسے اپنامعبودنہیں مان سکتا ،

عَنْ قَتَادَةَ: {فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّی فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِینَ} عَلِمَ أَنَّ رَبَّهُ دَائِمٌ لَا یَزُولُ

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’پھرجب رات کی تاریکی ان پرچھاگئی تواس نے ایک ستارہ دیکھاآپ نے فرمایایہ میرارب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیاتوآپ نے فرمایامیں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ رب تعالیٰ کی ذات گرامی دائم ہے اوراسے کبھی زوال نہیں ۔[161]

پھرجب چاند چمکتا نظر آیاجس کی روشنی ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے اوریہ ان کے مخالف بھی ہے تو کہا یہ ہے میرارب مگرکچھ دیربعدجب وہ بھی غروب ہو گیاتوآپ نے اس کوبھی عبادت کے لائق نہ ہونے کوظاہرفرمایا، پھر جب چاندوستارے چھپ گئے اورسورج کواپنی پوری آب وتاب سے طلوع ہوتے دیکھاتوکہایہ ہے میرارب ،یہ حجم اورروشنی میں سب سے بڑاہے،مگرجب وہ بھی غروب ہو گیاتوابراہیم علیہ السلام نے اس کی بھی لاچاری اوراپنی توحید کا اظہار کرتے ہوئے کہااے برادران قوم !میرارب رات کودن سے اوردن کورات سے ڈھانپتاہے ، سورج،چانداورستارے سب اسی کے زیرفرمان ہیں ،میں اللہ تعالیٰ کے سواتمام معبودوں کی عبادت ،عقیدت اورمحبت سے بیزار ہوں ، اور اپنی تمام عبادت اللہ وحدہ لاشریک کے لئے مخصوص کرتاہوں جس نے بغیرکسی نمونے کے زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے تخلیق فرمایا،میرارب مجھے ہدایت نہ بخشتا تومیں بھٹک جاتا اور تمہاری طرح مظاہرفطرت کی پوجاپاٹ میں لگ جاتا اورمیں ہرگزشرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔

‏ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّی فِی اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن یَشَاءَ رَبِّی شَیْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّی كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ وَكَیْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ عَلَیْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَیُّ الْفَرِیقَیْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٨١﴾‏الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاهَا إِبْرَاهِیمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِیمٌ عَلِیمٌ ‎﴿٨٣﴾(الانعام)
’’اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا، آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلادیا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی کوئی امرچاہے،میراپروردگار ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے،اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو،جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہےاور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں، اور ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں، بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔‘‘

مشرکین کاتوحیدسے فرار:

ابراہیم علیہ السلام کی توحیدالٰہی کوظاہرکرنے والے دلائل وبراہین سن کرقوم ان پرتفکرکرنے کے بجائے اس سے بحث ومباحثہ کرنے لگی،جب وہ کسی طرح نہ سمجھے توابراہیم علیہ السلام نے قوم سے کہامجھے اس پرسخت تعجب ہے کہ تم لوگ اپنے خودساختہ محض بے بس ولاچارمعبودوں کوسچاثابت کرنے کے لئے جنکی حقانیت کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں مجھ سے اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں بحث ومباحثہ اورجھگڑاکرتے ہوجوتمہاری فطرت کی ہرمانگ پوری کرتاہے ،تمہاری زندگی کے لئے جوکچھ مطلوب ہوتاہے مہیاکرتاہے ،جس نے تمہاری بقااورارتقاء کے لئے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب فراہم کئے،جس کی قدرت کے دلائل اسی کی دکھائی ہوئی راہ راست تمہارے سامنے پیش کرچکاہوں ،افسوس! اتنے دلائل سن کربھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟مجھے تومیرے رب نے راہ راست دکھادی ہے،اس لیےمیں توتمہاری فضول باتوں میں ہرگزہرگزآنے والانہیں اورنہ ہی تمہاری دھمکیوں سے خوف کھانے والاہوں ،تم اورتمہارے باطل معبودمل کرمیرے خلاف نقصان پہنچانے کاکوئی اختیاررکھتے ہوتومیرے خلاف جوبھی بن پڑے جلدی کرگزرو،ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو یہی کہاتھا

قَالُوْا یٰہُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِیْٓ اٰلِہَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۵۳قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۵۴ۙمِنْ دُوْنِهٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۶ [162]

ترجمہ:انہوں نے جواب دیا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے ، اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں ،ہودنے کہامیں اللہ کی شہادت پیش کرتاہوں اورتم گواہ رہوکہ جواللہ کے سوادوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرارکھاہے اس سے میں بیزارہوں ،تم سب کے سب مل کرمیرے خلاف اپنی کرنی میں کسرنہ اٹھارکھواورمجھے ذرامہلت نہ دو،میرابھروسہ اللہ پرہے جومیرارب بھی ہے اورتمہارارب بھی،کوئی جاندارایسانہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو،بیشک میرارب سیدھی راہ پرہے ۔

میراتوکل اللہ رب العالمین پرہے ،اس کی مشیت کے بغیرتم مجھے کسی قسم کاکوئی نقصان یافائدہ نہیں پہنچاسکتےاوروہ کائنات کی ہر چیزکا علم رکھتا ہے،پھرکیاتم اس حقیقت سے واقف ہوکربھی ہوش میں نہ آؤگے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلامعبودہے اوروہی عبودیت کامستحق ہے ؟اورمیں تمہارے خودساختہ معبودوں سے کیوں ڈروں جونہ کسی چیزکے خالق ہیں ،نہ سن سکتے ،نہ دیکھ سکتے اورنہ بول سکتے ہیں اور خوداتنے بے بس ہیں کہ خوداپنی مددکرنے پرقادرنہیں ،اگرایک مکھی بھی ان سے کچھ چیزلے جائے تواس سے واپس نہیں لے سکتے تو مجھے یاکسی اورکوکیانفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـیْـــــًٔـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳ [163]

ترجمہ:لوگو! ایک مثال دی جاتی ہےغور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔

حالانکہ ڈرناتوتمہیں چاہیے کہ اللہ اپنے خالق ورازق کوبھول کراس کی مخلوقات کو بغیرکسی دلیل یا سند کے اس کاشریک بناتے ہوتوتم خودفیصلہ کرلوکہ جومعبودحقیقی کابندہ ہوگا،اس کوہی تمام قدرتوں اوراختیارات کامالک تسلیم کرے گا،اس کے حضورہی اپنی پیشانی جھکائے گا،اس سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارے گا،حیات بعدالموت اورروزآخرت پرایمان رکھتاہوگا،روزقیامت ہرقسم کے خوف سے مامون ہوکرامن وچین کی بانسری بجائے گا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {وَلَمْ یَلْبِسُوا}[164] إِیمَانَهُمْ بِظُلْمٍ قَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ؟ فَنَزَلَتْ: {إِنَّ الشِّرْكَ} [165]لَظُلْمٌ عَظِیمٌ

عبداللہ سے مروی ہےجب یہ آیت کریمہ ’’اوراپنے ایمان کوشرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔‘‘نازل ہوئی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہم میں سے کس نے اپنے نفس پرظلم نہیں کیاتواس کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی’’یقیناًشرک بڑابھاری ظلم ہے۔‘‘[166]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا}[167] إِیمَانَهُمْ بِظُلْمٍ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، وَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَیُّنَا لَا یَظْلِمُ نَفْسَهُ؟ قَالَ: إِنَّهُ لَیْسَ الَّذِی تَعْنُونَ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: {یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ}[168] لَظُلْمٌ عَظِیمٌ إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب یہ آیت کریمہ ’’جولوگ ایمان رکھتے ہیں اوراپنے ایمان کوشرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔‘‘نازل ہوئی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریہ بہت گراں گزری،اورانہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے کس نے اپنے آپ پرظلم نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس سے یہ مرادنہیں ،کیاتم نے وہ بات نہیں سنی جواللہ کے نیک بندے(لقمان)نے کہی تھی’’اے میرے بیٹے!اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنابے شک شرک توبڑاظلم ہے۔‘‘اس آیت میں بھی شرک ہی مراد ہے۔[169]

یاتم جیسے غروروتکبرمیں ڈوبے ہوئے مشرک؟جوکسی کوبارش کادیوتا،کسی کواولاددینے والا،کسی کومال ودولت دینے والاسمجھتے اورمانتے ہیں ،جیسے فرمایا

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْۢ بِهِ اللهُ۝۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِیَ بَیْنَهُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۱ [170]

ترجمہ: کیایہ لوگ کچھ ایسے شریک خدارکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کی نوعیت رکھنے والاایک ایساطریقہ مقررکردیاہے جس کااللہ نے اذن نہیں دیا؟اگرفیصلے کی بات طے نہ ہوگئی ہوتی تو ان کاقضیہ چکادیاہوتا،یقیناًان ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ۝۰ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى۝۲۳ۭ [171]

ترجمہ:دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگربس چندنام جوتم نے اورتمہارے باپ دادانے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کے لئے کوئی سندنازل نہیں کی ،حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کی پیروی کررہے ہیں اورخواہشات نفس کے مریدبنے ہوئے ہیں ،حالاں کہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔

بتاؤاگرتم کچھ علم رکھتے ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دلیلوں کے آگے مشرکین کھڑے نہ ہوسکے اورابراہیم علیہ السلام قوم پرغالب آگئے ،ہم جسے چاہتے ہیں بلندمرتبے عطاکرتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔یَرْفَعِ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝۰ۙ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۔۔۔۝۰۝۱۱ [172]

ترجمہ:تم میں سے جولوگ ایمان رکھنے والے ہیں اورجن کوعلم بخشاگیاہے ،اللہ ان کوبلنددرجے عطافرمائے گا۔

حق یہ ہے کہ تمہارارب نہایت دانااورعلیم ہے۔

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَیْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَیْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَأَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَزَكَرِیَّا وَیَحْیَىٰ وَعِیسَىٰ وَإِلْیَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَإِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿٨٦﴾‏ وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَیْنَاهُمْ وَهَدَیْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٨٧﴾(الانعام)
’’ اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اولاد میں سے داؤدکو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں،اور (نیز) زکریا کو یحییٰ کو عیسیٰ اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں شامل تھے، اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی، اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو، اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی۔‘‘

خلیل اللہ کواولادکی بشارت :

آگ سے نکلنے کے بعدابراہیم علیہ السلام نے دوران ہجرت جبکہ ان کی عمر۸۰سال ہوچکی تھی اللہ سے گڑگڑاکرایک نیک اورصالح لڑکے کی دعامانگی تاکہ وہی توحیدمیں ساتھ دے ،پکارکوسننے والے نے یہ دعاقبول فرمائی

 وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ۝۹۹رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۰۰فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـیْمٍ۝۱۰۱ [173]

ترجمہ: ابراہیم علیہ السلام نے کہامیں اپنے رب کی طرف جاتاہوں وہی میری رہنمائی کرے گااے پروردگار!مجھے ایک بیٹاعطاکرجوصالحوں میں سے ہو(اس دعاکے جواب میں )ہم نے اس کوایک حلیم(بردبار)لڑکے کی بشارت دی۔

فَلَمَّا اعْتَزَلَہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۙ وَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ۝۰ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا۝۴۹ [174]

ترجمہ:پس جب وہ ان لوگوں سے اور ان کے معبودان غیر اللہ سے جدا ہوگیا تو ہم نے اس کو اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا۔

چنانچہ جب ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل علیہ السلام پیداہوئے تواللہ کے حکم سے ابراہیم علیہ السلام نے انہیں بیت اللہ کے پاس جابسایا،جہاں اس وقت ایک لق ودق ویرانہ کے سواکچھ نہ تھا،جب ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے ہوگئے اوراولادسے ناامیدہوگئے تو پھرجب اللہ نے فرشتوں کوقوم لوط کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بھیجاتوپہلے فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کوسارہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے جوبانجھ تھیں اسحاق علیہ السلام اور پوتے یعقوب علیہ السلام کی بشارت سنائی،جیسے فرمایا:

 وَامْرَاَتُهٗ قَاۗىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱قَالَتْ یٰوَیْلَــتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا۝۰ۭ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ۝۷۲ قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللہِ رَحْمَتُ اللہِ وَبَرَكٰتُہٗ عَلَیْكُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ۝۰ۭ اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۝۷۳ [175]

ترجمہ:ابراہیم کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی،وہ بولی ہائے میری کم بختی!کیااب میرے ہاں اولادہوگی جب کہ میں بڑھیاپھونس ہوگئی اورمیرے میاں بھی بوڑھے ہوچکے،بے شک یہ توبڑی عجیب بات ہے،فرشتوں نے کہا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ابراہیم کے گھر والو ! تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں اوریقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔

۔۔۔وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ۝۲۸فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ۝۲۹ [176]

ترجمہ:اوراسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مُژدہ سنایا،یہ سن کراس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اوراس نے اپنامنہ پیٹ لیا اور کہنے لگی بوڑھی ،بانجھ۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے بشارت فرمائی کہ ان کی اولادکاسلسلہ چلے گااوروہ نبی بھی ہوں گے۔

وَبَشَّرْنٰہُ بِـاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۱۲ [177]

ترجمہ: اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی ایک نبی صالحین میں سے ۔

اورہرایک کوہم نے راہ راست دکھائی،وہی راہ راست جواس سے پہلے نوح علیہ السلام کودکھائی تھی،طوفان نوح علیہ السلام میں ان کی قوم پانی میں غرق ہوگئی اورنوح علیہ السلام کی نسل پھیلی ، انہیں کی نسل سے انبیاء ہوتے رہے ،پھرابراہیم علیہ السلام کے بعدتونبوت انہی کے گھرانے میں رہی ،جیسے فرمایا

 وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ۔۔۔۝۲۷ [178]

ترجمہ: اور ہم نے اسے اسحاق علیہ السلام اوریعقوب (جیسی اولاد) عنایت فرمائی اوراس کی نسل میں نبوت اورکتاب رکھ دی۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ۔۔۔ ۝۲۶ [179]

ترجمہ:ہم نے نوح علیہ السلام اورابراہیم علیہ السلام کوبھیجااوران دونوں کی نسل میں نبوت اورکتاب رکھ دی ۔

فرمایااورنوح علیہ السلام یاابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہم نے داود علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام ،موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام کوہدایت بخشی،اس طرح ہم نیکوکاروں کوان کی نیکی کابدلہ دیتے ہیں ،اسی کی اولاد سے زکریا علیہ السلام ،یحییٰ علیہ السلام ،عیسیٰ علیہ السلام اورالیاس علیہ السلام کوعلم وعمل میں راہ یاب کیا ان میں سے ہرایک اخلاق ،اعمال اورعلوم میں صالح تھا ، اسی کے خاندان سے اسماعیل علیہ السلام ،الیسع علیہ السلام ،یونس علیہ السلام اورلوط علیہ السلام کو راہ راست دکھائی،ان میں سے ہرایک کوہم نے تمام دنیاوالوں پرفضیلت عطاکی،نیزان کے آباؤاجداداوران کی اولاداوران کے بھائی بندوں میں سے بہتوں کو ہم نے نوازا، انہیں اپنی خدمت کے لئے چن لیااورسیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَ۝۰ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ۝۰ۡوَّمِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۡوَمِمَّنْ ہَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا۝۰ۭ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِیًّا۝۵۸۞ [180]

ترجمہ:یہ ہیں وہ لوگ جن پر انعام فرمایا اللہ نے انبیاء میں سے اولادِآدم علیہ السلام میں سے اور ان لوگوں (کی نسل) میں سے جنہیں سوار کرایا ہم نے نوح علیہ السلام کے ساتھ اور ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کی نسل میں سے ‘ اور ان میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور جنہیں ہم نے چن لیا جب ان پر رحمن کی آیا ت تلاوت کی جاتیں تو وہ سجدہ میں گر پڑتے تھے اور روتے رہتے تھے۔

ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ یَهْدِی بِهِ مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن یَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوا بِهَا بِكَافِرِینَ ‎﴿٨٩﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِینَ ‎﴿٩٠﴾‏(الانعام)
’’اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے، اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے،یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی ،سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لیے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں، یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے، آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے ۔‘‘

اٹھارہ انبیاء کاذکرکرکے اللہ تعالیٰ نے شرک کی قباحت اوراس کے وبال کوان الفاظ میں بیان فرمایا کہ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتاہے رہنمائی کرتاہے،پس اسی سے ہدایت طلب کرو،اگروہ رہنمائی نہ کرے تواس کے سواتمہیں راہ راست دکھانے والاکوئی نہیں ، لیکن اگرکہیں ان پیغمبروں نے بھی تمہاری طرح شرک کیا ہوتاتوان کے سارے اعمال بربادہوجاتے ،پیغمبروں سے گناہ کاصدورممکن نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توسط سے امتوں کوشرک کی خطرناکی اورہلاکت خیزی سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا

وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۶۵ [181]

ترجمہ:تمہاری طرف اورتم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اگرتم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گااورتم خسارے میں رہو گے۔

وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اوراس کاصحیح فہم،اس کے اصولوں کومعاملات زندگی میں منطبق کرنیکی صلاحیت اورمسائل حیات میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی خداداد قابلیت اورنبوت عطاکی تھی،اب اگریہ مخالفین،مشرکین اورکفار کتاب وحکمت ونبوت کوماننے سے انکارکرتے ہیں توخواہ قریش ہوں ،اہل کتاب ہوں یاکوئی اور عربی یاعجمی ہوں توکوئی پروا نہیں ،ہم نے مہاجرین وانصاراورقیامت تک آنے والے اہل ایمان کویہ عظیم الشان نعمت سونپ دی ہے اوروہ اس کی قدرکرنے والے ہیں ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہی انبیائے کرام اوران کے آباؤاجداد،اولاداوربھائی جن کی طرف نسبت کی گی ہے اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھےلہذامسئلہ توحیداوران احکام وشرائع میں جومنسوخ نہیں ہوئے انہی کی پیروی اوران کی ملت کی اتباع کیجئے، کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہاہے گو شرائع میں کچھ کچھ اختلاف رہا،جیسے فرمایا

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰى وَعِیْسٰٓى اَنْ

 اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ۔۔۔ ۝۱۳ [182]

ترجمہ:اس نے تمہارے لئے دین کاوہی طریقہ مقررکیاہے جس کاحکم اس نے نوح علیہ السلام کودیا تھا اورجسے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہےاورجس کی ہدایت ہم ابراہیم علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام کودے چکے ہیں ،اس تاکیدکے ساتھ کہ قائم کرواس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔

اورواقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پہلے انبیاء ومرسلین کی پیروی کی اور ان کے ہرکمال کواپنے اندرجمع کرلیا ،

أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَفِی ص سَجْدَةٌ؟ فَقَالَ:نَعَمْ، ثُمَّ تَلاَ: {وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ} [183]إِلَى قَوْلِهِ {فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ} [184]، ثُمَّ قَالَ:هُوَ مِنْهُمْ،عَنْ مُجَاهِدٍ، قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:نَبِیُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ أُمِرَ أَنْ یَقْتَدِیَ بِهِمْ

مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے میں نےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیاکیاسورہ ص میں سجدہ ہے ؟آپ نے فرمایاہاں ہے،پھرآپ نے سورۂ انعام کی آیت ۸۴تا۹۰تک تلاوت کی اورکہاداود علیہ السلام بھی ان انبیاء میں شامل ہیں (جن کاذکر آیت میں ہواہے)میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھاتوانہوں نے کہاتمہارے نبی بھی ان میں سے ہیں جنہیں اگلے انبیاء کی اقتداء کاحکم دیاگیاہے۔[185]

اورکہہ دوکہ میں اس تبلیغ ود عوت کے کام پرتم سے کسی مال اور تاوان کامطالبہ نہیں کرتا جوتمہارے اسلام نہ لانے کاسبب بنے ،میرے اس کام کاصلہ تواللہ رب العالمین کے ذمہ ہے اوروہ قیامت کے روزمجھے میرا صلہ عطافرمائے گا،یہ قرآن تو تمام دنیاوالوں کے لئے ایک عام نصیحت ہے،جواس سے نصیحت حاصل کرناچاہے گاتویہ اسے کفروشرک کے گھپ اندھیروں سے نکال کرہدایت کی روشنی عطاکرے گا۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَیْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِیسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِیرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِی خَوْضِهِمْ یَلْعَبُونَ ‎﴿٩١﴾‏ وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ یُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ (الانعام)
’’ اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی، آپ یہ کہئے وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھےجس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لیے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے،اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں، اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں۔‘‘

 قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِیرٍ: إِنَّهُ سَمِعَ مُجَاهِدًا، یَقُولُ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ} قَالَهَا مُشْرِكُو قُرَیْشٍ

عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے مجاہد رحمہ اللہ کوآیت کریمہ’’اوران لوگوں نے اللہ کی جیسی قدرکرناواجب تھی ویسی قدرنہ کی جب کہ یوں کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشرپرکوئی چیزنازل نہیں کی۔‘‘کے بارے میں کہتے ہوئے سناکہ یہ آیت مشرکین قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[186]

مشرکین مکہ نے اللہ کی حکمتوں اوراس کی قدرتوں کااندازہ لگانے میں غلطی کی ہے ورنہ وہ نبوت و رسالت کا انکارکرکے یہ نہ کہتے کہ اللہ نے کسی بشرپرکچھ نازل نہیں کیا ہے،جیسے فرمایا

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ۔۔۔۝۰۝۲ [187]

ترجمہ: کیا لوگوں کے لئے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خودانہی میں سے ایک آدمی پروحی بھیجی کہ(غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کوچونکادے اورجومان لیں ان کوخوشخبری دے دے کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس سچی عزت وسرفرازی ہے۔

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۴ قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝۹۵ [188]

ترجمہ:لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تواس پرایمان لانے سے ان کوکسی چیزنے نہیں روکامگران کے اسی قول نے کہ اللہ نے بشرکوپیغمبربناکربھیج دیا،ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔

اپنے اسی خیال کی بنیادپرانہوں نے اس بات کی تکذیب کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پرکوئی کتاب نازل کی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادعویٰ تھاکہ میں اللہ کا پیغمبرہوں اوراللہ نے تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے مجھ پریہ کتاب نازل کی ہے ،کفارقریش اوردوسرے مشرکین عرب کے یہودونصاریٰ سے تجارتی تعلقات تھے اوریہ جانتے تھے کہ موسیٰ پرتورات اورعیسیٰ علیہ السلام پرانجیل نازل ہوئی تھی اس لئے رسول اللہ کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے وہ اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے تھے،اوران سے دریافت کرتے تھے کہ کیاواقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اورکیاان پراللہ کاکلام نازل ہواہے،مگروہ اپنی مخالفت کے جوش میں اس قدراندھے ہوچکے تھے کہ ان باتوں کی تصدیق نہیں کرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگرایسی بات ہے توان سے پوچھوپھرتورات جسے موسیٰ علیہ السلام پرنازل کیاگیاتھاجوتمام انسانوں کے لئے روشنی اورہدایت تھی،جسے تم متفرق اوراق میں رکھتے ہو،جوتمہاری خواہشات کے موافق ہوتاہے اسے ظاہرکردیتے ہواورجوتمہارے خلاف ہوتاہے اسے چھپاکرکتمان حق کے مرتکب ہوتے ہو،جیسے مسئلہ رجم یانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کامسئلہ اورجس کے ذریعہ سے تم کووہ علم دیاگیا جو نہ تمہیں حاصل تھااورنہ تمہارے باپ داداکوآخراس کانازل کرنے والاکون تھا؟اورابراہیم علیہ السلام پر صحیفہ،داود علیہ السلام پرزبور ، عیسیٰ علیہ السلام پرانجیل کس نے نازل کی تھی ،یہ سارے انبیاء انسان نوع بشرمیں سے تھے،اوراللہ کے قرب اوراس کی وحی کی وجہ سے ان کامقام ومرتبہ عام انسانوں سے بہت بلندتھا، یعنی رسول بشرہوسکتاہے اوربشررسول پراللہ تعالیٰ کاکلام بھی نازل ہوچکاہے توپھراس کتاب کے نازل ہونے کی تم تکذیب کیوں کررہے ہو،یہ لوگ تواس کا کیاجواب دیں گے ، آپ اتناکہہ دیں کہ اسے اللہ نے نازل کیاتھا ،پھرانہیں اپنی خرافات اور دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لئے چھوڑدویہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جا ملیں جس کاان سے وعدہ کیاجارہاہے ،حقیقت یہ ہے کہ صحیفہ ابراہیم ،زبور،تورات اورانجیل کی طرح یہ بھی ایک کتاب ہے جسے ہم نے اپنی رحمت سے نازل کیاہے،یہ جلیل القدر کتاب بڑی خیرو برکت والی ہےجوصحیح عقائدکی تعلیم دیتی ہے ،بھلائیوں کی ترغیب دیتی ہے،اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتی ہے،پاکیزہ زندگی بسرکرنے کی ہدایت کرتی ہے ، اور جہالت،خودغرضی،تنگ نظری،ظلم،فحش اوردوسری ان برائیوں سے جن کاانبارتم لوگوں نے کتب مقدسہ کے مجموعے میں بھررکھاہے سے بالکل پاک ہے،اوریہ کتاب پہلے سے منزل کتابوں سے ہٹ کرکوئی مختلف تعلیم پیش نہیں کرتی بلکہ جو کچھ ان میں پیش کیاگیاتھا اس کی تائیدوتصدیق کرتی ہے، اوراس کتاب کے نازل کرنے کامقصدیہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اس مرکز یعنی مکہ مکرمہ اورعرب قبائل اورعجمیوں کوغفلت اورکج روی کے انجام بد پر متنبہ کردو، جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَیُـحْیٖ وَیُمِیْتُ۔۔۔۝۰۝۱۵۸ [189]

ترجمہ:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہوکہ اے انسانومیں تم سب کی طرف اس اللہ کا پیغمبر ہوں جوزمین اورآسمانوں کی بادشاہی کامالک ہے،اس کے سواکوئی الٰہ نہیں ،وہی زندگی بخشتاہے اوروہی موت دیتاہے۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَۨا۝۱ۙ [190]

ترجمہ:نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پرنازل کیاتاکہ سارے جہان والوں کے لئے خبردارکردینے والاہو ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۝۰ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ۝۰ۭ وَاللهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰ۧ [191]

ترجمہ:پھراہل کتاب اورغیراہل کتاب دونوں سے پوچھوکیاتم نے بھی اس کی اطاعت وبندگی قبول کی ؟اگرکی تووہ راہ راست پاگئے اوراگراس سے منہ موڑاتوتم پرصرف پیغام پہنچادینے کی ذمہ داری ہے ،آگے اللہ خوداپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والاہے۔

جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الأَنْبِیَاءِ قَبْلِی: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی الغَنَائِمُ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ

جابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں ، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئی تھیں ،میری ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ مدد دی گئی،اورزمین میرے لئے مسجد اور پاک بنا دی گئی، لہذا میری امت میں جس شخص پر نماز کا وقت (جہاں ) آجائے، اسے چاہئے کہ (وہیں زمین پر) نماز پڑھ لے،اورمیرے لئے مال غنیمت حلال کر دئیے گئے،اورہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں ،اور مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔[192]

جولوگ اللہ کی توحید،رسالت، حیات بعدالموت اورروزجزا کوبرحق مانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی منزل اس جلیل القدر کتاب پربھی ایمان لاتے ہیں اوراللہ کی یادکے لئے فرض نمازوں کواپنے وقتوں پرخضوع وخشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔

[1] الانعام ۱۵۳

[2] الدر المنثور ۲۴۳؍۳

[3] الملک۲۴

[4] المومنون۷۹

[5] الملک۲

[6] الکہف۷

[7] الاعراف ۱۸۷

[8] النازعات ۴۲تا ۴۴

[9] الملک۲۵،۲۶

[10] یٰسین۷۸

[11] النازعات۱۰،۱۱

[12] الزخرف۸۴،۸۵

[13] الملک۷تا۱۱

[14] الفرقان۲۷تا۲۹

[15] الحجر ۱۴،۱۵

[16]الطور ۴۴

[17] الحجر۸

[18] الفرقان۲۲

[19] تفسیرطبری۲۶۸؍۱۱

[20]بنی اسرائیل۹۵

[21]آل عمران ۱۶۴

[22] الاعراف۱۵۶

[23]صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَیُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ۷۴۰۴ ، وکتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَهُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَیْهِ۳۱۹۴ ، صحیح مسلم کتاب التوبة بَابٌ فِی سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ۶۹۶۹

[24] الواقعة۵۰

[25] الزمر۶۴

[26] الذاریات۵۶تا۵۸

[27] الفرقان۳

[28] السنن الکبری للنسائی۱۰۰۶۰،مستدرک حاکم۲۰۰۳،شعب الایمان للبیہقی ۴۰۶۷

[29] آل عمران ۱۸۵

[30] فاطر۲

[31] صحیح بخاری کتاب الاعتصام والقدر والدعوات،کتاب الاذان بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ۸۴۴، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة والمساجد بَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ ۱۳۳۸،سنن ابوداودکتاب الْوِتْرِ بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ۱۵۰۵،سنن نسائی كِتَابُ السَّهْوِ باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الْقَوْلِ عِنْدَ انْقِضَاءِ الصَّلَاةِ۱۳۴۱

[32] الحاقة۴۴تا۴۷

[33] ھود۱۷

[34] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۷۲؍۴

[35] الأنعام: 19

[36] ابن ابی حاتم۷۱۶۵، تفسیر طبری ۲۹۱؍۱۱، تفسیرالقرطبی۳۹۹؍۶، تفسیرالبغوی ۱۱۶؍۲،تفسیرابن کثیر۲۴۵؍۳

[37] تفسیرابن کثیر۲۴۵؍۳،تفسیرطبری ۲۹۰؍۱۱، تفسیر ابن ابی حاتم ۷۱۶۶

[38] الانعام۱۵۰

[39] القصص۶۲

[40] المومن۷۳،۷۴

[41] الاعراف۱۷۹

[42] البقرة۱۷۱

[43] تفسیر طبری۳۱۱؍۱۱،تفسیرابن ابی حاتم۱۲۷۷؍۴

[44] تفسیر طبری ۳۱۱؍۱۱

[45] المومنون۱۰۷،۱۰۸

[46] السجدة۱۲

[47] الطور۱۵

[48] تفسیرطبری۳۲۸؍۱۱

[49] المومنون۱۱۵

[50] القیامة۳۶

[51]صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ البَیْعَةِ فِی الحَرْبِ أَنْ لاَ یَفِرُّوا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَى المَوْتِ۲۹۶۱

[52] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ ۳۰۶۴، مستدرک حاکم۳۲۳۰، تفسیرطبری۳۳۴؍۱۱، تفسیرابن ابی حاتم۱۲۸۲؍۴، تفسیر ابن کثیر۲۵۱؍۳،تفسیرالقرطبی۴۱۶؍۶

[53] تفسیرابن ابی حاتم۷۲۳۹

[54] تفسیرابن کثیر۲۵۱؍۳ ،تفسیرطبری ۳۳۳؍۱۱

[55] الخصائص الکبری ۱۹۲؍۱،ابن ہشام ۳۱۵؍۱،عیون الاثر۱۳۱؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۵۰۶؍۱، البدایة والنہایة۶۴؍۳

[56] فاطر۸

[57] الشعرائ۳

[58] المومن۵۱

[59] المجادلة۲۱

[60] الصافات ۱۷۱تا۱۷۳

[61] یونس۹۹

[62] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۸۵،۱۲۸۴؍۴

[63] یٰسین۷۰

[64] بنی اسرائیل۹۰تا۹۳

[65] بنی اسرائیل۵۹

[66] الشعرائ۴

[67] تفسیرطبری۲۴۵؍۱۱،تفسیرابن ابی حاتم۱۲۸۵؍۴

[68]تفسیر طبری ۲۴۵؍۱۱، تفسیرابن ابی حاتم۱۲۸۶؍۴

[69] ھود۶

[70] العنکبوت۶۰

[71] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۸۶؍۴

[72] تفسیر طبری ۳۴۷؍۱۱

[73]البقرة۱۷،۱۸

[74] النور۴۰

[75] البقرة۲۶

[76] النسائ۱۱۵

[77] بنی اسرائیل۶۷

[78] الأنعام: 44

[79] مسند احمد ۱۷۳۱۱،تفسیرالقرطبی۲۰۹؍۱

[80] تفسیرابن کثیر ۲۵۷؍۳، تفسیرابن ابی حاتم۱۲۹۰؍۴

[81] تفسیرابن ابی حاتم ۱۲۹۱؍۴، الدر المنثور ۲۷۰؍۳

[82] الملک۲۳

[83] یونس۳۱

[84] الانفال۲۴

[85]یونس ۵۰

[86] الجن۲۶،۲۷

[87] ھود۳۱

[88] مسند احمد ۱۷۱۷۴،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی لُزُومِ السُّنَّةِ ۴۶۰۴،شرح السنة للبغوی۱۰۱،الخصائص الکبری۲۵۴؍۲، تفسیر القرطبی ۳۷؍۱

[89] المراسیل لابی داود۵۳۶،صحیح السنة للمروزی ۱۰۲

[90] الرعد۱۹

[91] المومنون۵۷

[92] الرعد۲۱

[93] ھود۲۷

[94] صحیح بخاری کتاب بدء الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۷، صحیح مسلم کتاب الجھادبَابُ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ یَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ۴۶۰۷

[95] الاحقاف۱۱

[96] الأنعام: 51

[97] الأنعام: 58

[98] مسند احمد ۳۹۸۵

[99] الأنعام: 52

[100] الأنعام: 53

[101] تفسیرطبری۳۷۴؍۱۱

[102] الکہف۲۸،۲۹

[103] ھود۳۱

[104] المستدرك على مجموع فتاوى شیخ الإسلام۱۸۰؍۱

[105] صحیح مسلم کتاب البرو الصلة بَابُ تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِه ِ۶۵۴۲، سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْقَنَاعَةِ۴۱۴۳، مسند احمد۷۸۲۷

[106] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَیُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ۷۴۰۴ ،صحیح مسلم کتاب التوبةبَابٌ فِی سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ۶۹۷۱

[107] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ مَا جَاءَ فِی دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ إِلَى تَوْحِیدِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ۷۳۷۳،وکتاب الجہادبَابُ اسْمِ الفَرَسِ وَالحِمَارِ ۲۸۵۶،صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات علی التوحیددخل الجنة قطعاً ۱۴۳،جامع ترمذی ابواب الایمان باب مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ ۲۶۴۳،مسنداحمد۲۱۹۹۱،السنن الکبری للنسائی ۹۹۴۳

[108] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِینَ وَالمَلاَئِكَةُ فِی السَّمَاءِ، آمِینَ ۳۲۳۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا لَقِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِینَ وَالْمُنَافِقِینَ ۴۶۵۳

[109]الأنعام: 59

[110] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الغَیْبِ لاَ یَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ۴۶۲۷،السنن الکبری للنسائی ۷۶۸۱،مسنداحمد۶۰۴۳

[111] المومن۱۹

[112] الرعد۱۰

[113] الزمر۴۲

[114] الرعد۱۰

[115] الرعد۱۱

[116] الانفطار۱۰،۱۱

[117] ق۱۷،۱۸

[118] تفسیرابن ابی حاتم۱۳۰۷؍۴

[119] الزمر۴۲

[120] السجدة۱۱

[121] النسائ۹۷

[122] تفسیرروح المعانی۱۲۱؍۳

[123] مسنداحمد۸۷۶۹، سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالِاسْتِعْدَادِ لَهُ ۴۲۶۲

[124] یونس۲۲

[125] بنی اسرائیل۶۷

[126] یونس ۲۲، ۲۳

[127] النحل۵۳،۵۴

[128] بنی اسرائیل۶۶تا۶۹

[129] الأنعام: 65

[130] الأنعام: 65

[131] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ قُلْ: هُوَ القَادِرُ عَلَى أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ۴۶۲۸،مسنداحمد۱۴۳۱۶

[132] مسنداحمد۱۵۷۴،صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ هَلَاكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ۷۲۶۰، مسندالبزار۱۱۲۵، صحیح ابن خزیمة۱۲۱۷،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ مَا یَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ ۳۹۵۲،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۵۰۹

[133] مسنداحمد۲۱۰۵۳، السنن الکبری للنسائی ۱۳۳۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا جَاءَ فِی سُؤَالِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا فِی أُمَّتِهِ ۷۱۲۵،صحیح ابن حبان۷۲۳۶

[134] مستدرک حاکم۴۴۳،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابُ شَرْحِ السُّنَّةِ۴۵۹۶،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ ۲۶۴۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ افْتِرَاقِ الْأُمَمِ ۳۹۹۲

[135] جامع ترمذی کتاب الایمان مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ ۲۶۴۱

[136] الکہف۲۹

[137] الرعد۳۸

[138] الاعراف ۳۴

[139] ص۸۸

[140]النسائ۱۴۰

[141] سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِی ۲۰۴۴، ۲۰۴۵

[142] المدثر۳۸،۳۹

[143] البقرة۲۵۴

[144] آل عمران۹۱

[145] تفسیرطبری۴۵۲؍۱۱

[146]البقرة۱۲۰

[147] الزمر۳۷

[148] النحل۳۷

[149]آل عمران۱۹۱

[150]الانبیائ۱۶

[151] المومنون ۱۱۵

[152]الفرقان ۲۶

[153] المومن۱۶

[154] جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ۳۲۴۳، مسنداحمد۱۱۰۳۹،المعجم الکبیر للطبرانی ۱۲۶۷۰

[155] مسند احمد ۶۵۰۷

[156] ابراہیم۴۸

[157] مریم۴۲تا۴۸

[158] الانبیائ۵۱،۵۲

[159] التوبة۱۱۴

[160] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ۳۳۵۰

[161] تفسیرطبری۴۸۰؍۱۱

[162] ھود۵۴تا۵۶

[163] الحج۷۳

[164] الأنعام: 82

[165] لقمان: 13

[166] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ۴۶۲۹

[167] الأنعام: 82

[168] لقمان: 13

[169] مسنداحمد۳۵۸۹

[170] الشوریٰ ۲۱

[171] النجم۲۳

[172] المجادلة۱۱

[173] الصافات ۹۹تا۱۰۱

[174] مریم۴۹

[175] ھود۷۱تا۷۳

[176] الذاریات۲۸،۲۹

[177] الصافات۱۱۲

[178] العنکبوت۲۷

[179] الحدید۲۶

[180] مریم۵۸

[181] الزمر۶۵

[182] الشوریٰ۱۳

[183] الأنعام: 84

[184] الأنعام: 90

[185] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الانعام بَابُ قَوْلِهِ أُولَئِكَ الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۴۶۳۲

[186] تفسیرطبری۵۲۴؍۱۱

[187] یونس۲

[188] بنی اسرائیل۹۴،۹۵

[189] الاعراف۱۵۸

[190] الفرقان۱

[191] آل عمران۲۰

[192] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا۴۳۸، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ باب جُعلت لی الأرض مسجدًا وطهورًا۱۱۶۳

Related Articles