بعثت نبوی کا بارهواں سال

مضامین سورۂ النحل(حصہ اول)

شرک کاابطال ، توحیدکااثبات ، دعوت اسلام کوقبول نہ کرنے  کے  برے  نتائج پرتنبیہ وفہمائش اورحق کی مخالفت ومزاحمت پرزجردوتوبیح اس سورہ کامرکزی مضمون ہے  ، دعوت اسلام قبول کرنے  کے  بجائے  اہل مکہ کاہروقت ایک ہی مطالبہ ہوتاتھاکہ جس عذاب کاوعدہ کیاجارہاہے  وہ فوری طورپرلے  آؤ،   اللہ   تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت سے  عذاب نازل نہیں  فرمارہاتھااوراس تاخیرکوکفاررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  رسول ناحق ہونے  کی دلیل بناتے  تھے ، سورۂ کاآغازبغیرکسی تمہیدکے  ایک تہدیدی جملے  سے  فرمایا

 اَتٰٓى اَمْرُ اللهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۔ ۔ ۔ [1]

ترجمہ:آگیا  اللہ   کافیصلہ، اب اس کے  لیے  جلدی نہ مچاؤ۔

اس کے  بعدتوحیدکے  اثبات کے  لیے  انفس وآفاق کے  کھلے  کھلے  آثار کو بطور شہادت پیش کیا ،  اثبات توحیدکے  ساتھ تردید شرک لازم امرہے  اس سلسلے  میں  منکرین کے  اعتراضات،  شکوک وشہبات حجتوں  اورحیلوں  کاایک ایک کرکے  جواب دیاگیا اور پھر حق کے  مسلسل انکاراورباطل پراڑے  رہنے  کالازمی نتیجہ   اللہ   کے  عذاب کی صورت میں  ظاہرہواکرتاہے ، مشرکین مکہ کے  ظلم وستم سے  عاجزہوکراہل ایمان کی ایک بڑی تعداد حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھی اوربعض ہجرت پرمجبورہوچکے  تھے  ،  اس لیے  کفارکی مزاحمتوں  اورجفاکاریوں  پراہل ایمان کوحوصلہ اورہمت کی تلقین فرمائی گئی، اہل ایمان اور کفار دونوں  پریہ بات واضح کرنے  کی کوشش کی گئی کہ دین صرف   اللہ   کی وحدانیت اور ربوبیت کے  اقراراورمحمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کی رسالت کوتسلیم کرلینے  کانام نہیں  بلکہ دین اس اقراروتسلیم کے  بعدان اخلاقی اورعملی تبدیلیوں  کواپنانے  کانام ہے  جواس کالازمی نتیجہ ہے  اور ایک مومن کی زندگی میں  ان انقلابی تبدیلیوں  کانمودارہوناہی اس دین کے  اپنالینے  کی اصلی پہچان ہے ، اس کے  علاوہ اشیاء کی حلت وحرمت کے  متعلق بھی چنداحکام کاذکرہے ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 شروع   اللہ   کے  نام سے  جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿١﴾‏ یُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ‎﴿٢﴾‏ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٣﴾(النحل)
’’  اللہ   تعالیٰ کا حکم آپہنچا اب اس کی جلدی نہ مچاؤ،  تمام پاکی اس کے  لیے  ہے  وہ برتر ہے  ان سب سے  جنہیں  یہ   اللہ   کے  نزدیک شریک بتلاتے  ہیں ،  وہی فرشتوں  کو اپنی وحی دے  کر اپنے  حکم سے  اپنے  بندوں  میں  سے  جس پر چاہتا ہے  اتارتا ہے  کہ تم لوگوں  کو آگاہ کردو کہ میرے  سوا اور کوئی معبود نہیں پس تم مجھ سے  ڈرو،  اسی نے  آسمانوں  اور زمین کو حق کے  ساتھ پیدا کیاوہ اس سے  بری ہے  جو مشرک کرتے  ہیں ۔ ‘‘

کفارمکہ کاہروقت ایک ہی مطالبہ ہوتاتھاکہ جس عذاب کاوعدہ کیاجاتاہے  وہ فوری طورپرلے  آؤاورعذاب کی تاخیرکووہ آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  رسول برحق نہ ہونے  کے  لئے  بطور دلیل پیش کرتے  تھے  ، ان کوسمجھانے  کے  لئے  فرمایا کہ   اللہ   کاحکم(یعنی عذاب گویا) آپہنچا ، اسے  انتہائی یقینی اورانتہائی قریب ہونے  کاتصوردلانے  کے  لئے  مستقبل کے  بجائے  صیغہ ماضی میں  بیان کیا جیسے  فرمایا

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ۚ [2]

ترجمہ: قریب آگیاہے  لوگوں  کے  حساب کاوقت اوروہ ہیں  کہ غفلت میں  منہ موڑے  ہوئے  ہیں  ۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۝۱ [3]

ترجمہ:قیامت کی گھڑی قریب آگئی اورچاندپھٹ گیا۔

یہ لوگ بے  خوف ہوکر  اللہ   کے  عذابوں  کے  لئے  جلدی مچا رہے  ہیں  جبکہ جہنم نے  ان کوگھیررکھاہے ۔ جیسے  فرمایا

وَیَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۝۰ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَہُمُ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَلَیَاْتِیَنَّہُمْ بَغْتَةً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۵۳ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۝۰ۭ وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ۝۵۴ۙ [4]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے  عذاب جلدی لانے  کا مطالبہ کرتے  ہیں  اگر ایک وقت مقرر نہ کردیا گیا ہوتا تو ان پر عذاب آچکا ہوتا اور یقینا (اپنے  وقت پر) وہ آکر رہے  گا اچانک اس حال میں  کہ انہیں  خبر بھی نہ ہوگی، یہ تم سے  عذاب جلدی لانے  کا مطالبہ کرتے  ہیں  حالانکہ جہنم ان کافروں  کو گھیرے  میں  لے  چکی ہے  ۔

اور یقینا (اپنے  وقت پر ) وہ آکر رہے  گا اچانک ،  اس حال میں  کہ انہیں  خبر بھی نہ ہوگی یہ تم سے  عذاب جلدی لانے  کامطالبہ کرتے  ہیں  حالاں  کہ جہنم ان کافروں  کوگھیرے  میں  لے  چکی ہے ۔ لہذااب   اللہ   کے  عذاب کے  لئے  جلدی نہ مچاؤ ، جیسے  فرمایا

یَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهَا۔ ۔ ۔   ۝۱۸ [5]

ترجمہ:جولوگ اس کے  آنے  پرایمان نہیں  رکھتے  وہ تواس کے  لئے  جلدی مچاتے  ہیں  ۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَطْلُعُ عَلَیْكُمْ عِنْدَ السَّاعَةِ سَحَابَةٌ سَوْدَاءُ مِنَ الْمَغْرِبِ مِثْلُ التُّرْسِ ، فَمَا تَزَالُ تَرْتَفِعُ فِی السَّمَاءِ،  ثُمَّ یُنَادِی مُنَادٍ فِیهَا: یَا أَیُّهَا النَّاسُ فَیُقْبِلُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ: هَلْ سَمِعْتُمْ؟ فَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ: نَعَمْ وَمِنْهُمْ مَنْ یَشُكُّ،  ثُمَّ یُنَادِی الثَّانِیَةَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ فَیَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: هَلْ سَمِعْتُمْ؟فَیَقُولُونَ: نَعَمْ،  ثُمَّ یُنَادِی الثَّالِثَةَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ،  أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ،  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنِ الرَّجُلَیْنِ لَیَنْشُرَانِ الثَّوْبَ فَمَا یَطْوِیَانِهِ أَبَدًا وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَمُدَّنَّ حَوْضَهُ فَمَا یَسْقِی فِیهِ شَیْئًا أَبَدًا وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَحْلِبُ نَاقَتَهُ فَمَا یَشْرَبُهُ أبدًا قال وَیَشْتَغِلُ النَّاسُ

عقبہ بن عامر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاقیامت کے  قریب مغرب کی طرف سے  ڈھال کی طرح کاایک سیاہ بادل نمودارہوگا جومسلسل آسمان کی طرف اٹھتا جائے  گا پھرایک منادی اس میں  یہ آوازدے  گااے  لوگو!لوگ ایک دوسرے  کی طرف متوجہ ہوکرکہیں  گے  کیاتم نے  سنا؟کچھ لوگ توکہیں  گے  ہاں  اورکچھ شک کریں  گے ،  پھروہ دوبارہ آوازدے  گااے  لوگو! لوگ ایک دوسرے  سے کہیں  گے  کیاتم نے  سنا؟ وہ جواب دیں  گے  ہاں  ،  پھروہ تیسری باراعلان کرے  گااے  لوگو!  اللہ   کاحکم آپہنچاہے  تواس کے  لیے  جلدی مت کرو،  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس ذات کی قسم جس کے  ہاتھ میں  میری جان ہے !اس وقت دوآدمیوں  نے  کپڑاپھیلارکھاہوگامگروہ اسے  کبھی لپیٹ نہ سکیں  گے  اورآدمی اپنے  حوض کوپانی سے  بھررہاہوگامگروہ اس میں  سے  کسی کوکبھی بھی پانی نہ پلاسکے  گااورآدمی اپنی اونٹنی کادودھ دوہ رہاہوگامگروہ اسے  کبھی بھی پی نہ سکے  گا آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاکہ لوگ مشغول ہوجائیں  گے (اوروہ اپنے  اس طرح کے  کام کرنہ سکیں  گے )۔ [6]

اگر   اللہ   اپنی حکمت ومشیت سے  تمہیں  ڈھیل دے  رہاہے  اورتمہارے  مطالبہ کے  باوجود تم پرعذاب نازل نہیں  کررہاتواس کامقصدیہ ہرگزنہیں  کہ محمدرسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم جودین پیش کر رہے  ہیں  وہ غلط ہے  اورتمہارادین سچاہے  اورتمہارے  معبودوں  نے    اللہ   کے  عذاب کوروکاہواہے ،    اللہ   تعالیٰ کاکوئی مدمقابل اور ہمسرنہیں  ، نہ وہ کسی کاجوابدہ ہے  اورنہ کوئی اس کے  حکم کوٹال سکتاہے ،    اللہ   تعالیٰ شریک، بیٹے  ، بیٹیاں  ،  بیوی اور ہمسروغیرہ کی نسبت سے  بالکل پاک اوربالا و برترہے  جن کویہ مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے  ہیں  ، یہ نسبت اس کے  جلال اوراس کے  کمال کے  منافی ہے  ،  مشرکین مکہ کا ایک بیہودہ اعتراض یہ بھی تھاکہ اگر  اللہ   نے  کسی بشرکورسول بناکر بھیجنا ہی تھا توطائف کے  بڑے  بڑے  صاحب ثروت سرداروں  میں  سے  کسی کوبنادیتا   اللہ   کی نگاہ مکہ مکرمہ کے  ایک یتیم اورکم مایہ شخص محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )پرہی کیوں  پڑی،    اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  اس اعتراض کا جواب فرمایا کہ   اللہ   کوتم سے  مشورہ کرنے  کی حاجت نہیں  ،    اللہ   علام الغیوب خوب جانتاہے  کہ کون اس عظیم منصب کے  لائق ہے  اورکون اس کی رسالت کابوجھ اٹھانے  کی صلاحیت رکھتاہے  ، چنانچہ وہ اس وحی کواپنے  جس منتخب بندے  پر چاہتاہے  اپنے  حکم سے  ملائکہ کے  ذریعے  سے  نازل فرمادیتاہے ، جیسے  فرمایا

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا۔ ۔ ۔  ۝۵۲ۙ [7]

ترجمہ: اور اسی طرح (اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !)ہم نے  اپنے  حکم سے  ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے ،  تمہیں  کچھ پتہ نہ تھاکہ کتاب کیاہوتی ہے  اور ایمان کیاہوتا ہے  ، مگراس وحی کوہم نے  ایک روشنی بنا دیاجس سے  ہم راہ دکھاتے  ہیں  اپنے  بندوں  میں  سے  جسے  چاہتے  ہیں  ۔

۔ ۔ ۔    اللہ   اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۔ ۔ ۔ ۝۱۲۴ [8]

ترجمہ:   اللہ   زیادہ بہتر جانتا ہے  کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے  لے  اور کس طرح لے  ۔

   اللہ   یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ۔ ۔ ۔ ۝۷۵ۚ [9]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   (اپنے  فرامین کی ترسیل کے  لیے ) ملائکہ میں  سے  بھی پیغام رساں  منتخب کرتا ہے ،  اور انسانوں  میں  سے  بھی۔

۔ ۔ ۔ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ۝۱۵ۙ [10]

ترجمہ: اپنے  بندوں  میں  سے  جس پر چاہتا ہے  اپنے  حکم سے  روح نازل کر دیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے  دن سے  خبردار کر دے ۔

اوراس وحی کے  ذریعے  سے  پیغمبرکو ہدایت کر دیتے  ہیں  کہ لوگوں  کوآگاہ کردو   اللہ   خالق کائنات کے  سوا تمہارا کوئی معبودحقیقی نہیں  ہے ، اس کی الوہیت اورربوبیت میں  کوئی شریک نہیں  لہذاتم   اللہ   کا تقویٰ اختیارکرو ،   اللہ   نے  آسمان وزمین کو محض تماشے  اورکھیل کود کے  طورپرنہیں  بلکہ ایک مقصدکے  پیش نظر پیداکیاہے ۔

 اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [11]

ترجمہ:کیا تم نے  یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے  تمہیں  فضول ہی پیدا کیا ہے  اور تمہیں  ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں  ہے ؟ ۔

بلکہ ہم نے  انسانوں  اورجنوں  کو اس لیے  پیداکیاہے  کہ ہم تمہاری آزمائش کریں  اورتمہارے  اعمال کے  مطابق تمہیں  جزادیں  ۔

۔ ۔ ۔  لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [12]

ترجمہ: تاکہ   اللہ   برائی کرنے  والوں  کو ان کے  عمل کا بدلہ دے  اور ان لوگوں  کو اچھی جزا سے  نوازے  جنہوں  نے  نیک رویہ اختیار کیا ہے  ۔

 وَہُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاۗءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ ۔ ۔ ۝۷[13]

ترجمہ:اور وہی ہے  جس نے  آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا جبکہ اس سے  پہلے  اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تم کو آزما کر دیکھے  تم میں  کون بہتر عمل کرنے  والا ہے  ۔

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷ [14]

ترجمہ:واقعہ یہ ہے  کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے  اس کو ہم نے  زمین کی زینت بنایا ہے  تاکہ ان لوگوں  کو آزمائیں  ان میں  کون بہتر عمل کرنے  والا ہے ۔

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ ۔ ۔ ۝۲ۙ [15]

ترجمہ:جس نے  موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں  کو آزما کر دیکھے  تم میں  سے  کون بہتر عمل کرنے  والا ہے  ۔

وہ بہت بالا وبرترہے  اس شرک سے  جویہ لوگ کرتے  ہیں  ، اس لئے    اللہ   کے  سواکسی کی عبادت ،  کسی اورسے  محبت اورکسی اور کے  سامنے  عاجزی کااظہارمناسب نہیں  ۔

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ ‎﴿٤﴾‏ وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِیهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ‎﴿٥﴾‏ وَلَكُمْ فِیهَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ ‎﴿٦﴾‏وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِیهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ ‎﴿٧﴾‏ وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِینَةً ۚ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٨﴾‏(النحل)
’’اس نے  انسان کو نطفے  سے  پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا ،  اسی نے  چوپائے  پیدا کئے  جن میں  تمہارے  لیے  گرم لباس ہیں  اور بھی بہت سے  نفع ہیں  اور بعض تمہارے  کھانے  کے  کام آتے  ہیں ،  ان میں  تمہاری رونق بھی ہے  جب چرا کر لاؤ تب بھی اور جب چرانے  لے  جاؤ تب بھی،  اور وہ تمہارے  بوجھ ان شہروں  تک اٹھا لے  جاتے  ہیں  جہاں  تم آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں  سکتے  تھے ،  یقیناً تمہارا رب بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے ،  گھوڑوں  کو خچروں  کو گدھوں  کو اس نے  پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں  اور بھی ایسی بہت سی چیزیں  پیدا کرتا ہے  جن کا تمہیں  علم نہیں  ۔ ‘‘

اللہ   تعالیٰ نے  انسان کوبدبودارپانی کے  ایک حقیر قطرے  سے  پیداکیا،   اللہ   اس ٹپکائی ہوئی بوندکوماں  کے  پیٹ میں  تخلیق کے  مختلف مراحل سے  گزارکر ایک متناسب انسانی شکل وصورت عطا فرماتا ہے ، پھراس میں  روح پھونکتاہے  اورپھرتمام صلاحیتیں  دے  کرماں  کے  پیٹ سے  نکال کراس دنیامیں  لے  آتاہے ، لیکن جب اسے  شعورآتاہے  تواپنے  رب کاشکراوراس کی بندگی کرنے  کے  بجائے  خودپسندی کاشکارہوگیااور اپنے  خالق کے  معاملے  میں  علانیہ جھگڑتا اوربحث کرتا،  اس کی الوہیت ، ربوبیت اوراس کی قدرتوں  کا انکار کرتا، اس کی آیات کی تکذیب کرتااوراس کی ذات وصفات اورافعال میں  اس کی مخلوق کواس کا شریک ٹھہراتاہے  جونہ کسی کونفع پہنچانے  پر قادرہیں  اورنہ نقصان ، جیسے  فرمایا

 وَہُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا۝۰ۭ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا۝۵۴وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ   اللہ   مَا لَا یَنْفَعُہُمْ وَلَا یَضُرُّہُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیْرًا۝۵۵ [16]

ترجمہ:اور وہی ہے  جس نے  پانی سے  ایک بشر پیدا کیا پھر اس نے  نسب اور سسرال کے  دو الگ سلسلے  چلائے ،  تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے ، اس   اللہ   کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے  ہیں  جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے  ہیں  نہ نقصان اور اوپر سے  مزید یہ کہ کافر اپنے  رب کے  مقابلے  میں  ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے ۔

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ۝۰ۭ وَہُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ۝۷۹ۙ [17]

ترجمہ: کیا انسان دیکھتانہیں  ہے  کہ ہم نے  اسے  نطفہ سے  پیدا کیا اورپھروہ صریح جھگڑالوبن کرکھڑاہوگیا؟اب وہ ہم پرمثالیں  چسپاں  کرتاہے  اور اپنی پیدائش کوبھول جاتا ہے  ،  کہتاہے  کون ان ہڈیوں  کوزندہ کرے  گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں  ؟اس سے  کہو انہیں  وہ زندہ کرے  گا جس نے  پہلے  انہیں  پیدا کیا تھ اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے  ۔

عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِیِّ،  بَزَقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی كَفِّهِ،  ثُمَّ وَضَعَ أُصْبُعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَّى تُعْجِزُنِی ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ،  حَتَّى إِذَا سَوَّیْتُكَ وَعَدَلْتُكَ،  مَشَیْتَ بَیْنَ بُرْدَیْنِ وَلِلْأَرْضِ مِنْكَ وَئِیدٌ،  فَجَمَعْتَ وَمَنَعْتَ،  حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ،  قُلْتَ: أَتَصَدَّقُ،  وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ؟

بسربن حجاش قرشی رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اپنی ہتھیلی پرتھوکاپھراپنی کلمہ کی انگلی اس پررکھی اور فرمایا  اللہ   عزوجل فرماتاہے  آدم کابیٹامجھے  کیسے عاجزکرسکتاہے  میں  نے  توتجھے  اس تھوک جیسی چیزسے  پیداکیاہے ،  جب تو زندگی پاکرتنومندہوگیا، لباس اورمکان مل گیاتوتومال سمیٹنے  اورلوگوں  کومیری راہ سے  روکنے  لگا، ؟ اورجب دم گلے  میں  اٹکاتوتوکہنے  لگاکہ اب میں  صدقہ کرتاہوں  ،   اللہ   کی راہ میں  خرچ کرتا ہوں  بس اب صدقے  خیرات کاوقت نکل گیا۔ [18]

اللہ   تعالیٰ نے  اپنادوسرااحسان ذکرفرمایاکہ اس نے  تمہاری ضروریات کے  لئے  مختلف جانوریعنی اونٹ ، گائے  اوربھیڑبکریاں  پیداکیے  جن کے  بالوں  اوراون سے  تم پوشاک،  بچھونے  اورخیمے  تیار کرتے  ہو ، ان کاصحت بخش دودھ اوران کاحلال گوشت تمہاری خوراک کے  کام آتا ہے اورتم ان سے  کھیتی باڑی کاکام لیتے  ہو،  جب صبح تم انہیں  چرنے  کے  لئے  چراگاہوں  میں  بھیجتے  ہواورجب کہ شام کو انہیں  چراگاہوں  سے  واپس باڑوں  میں  لاتے  ہو، ان دونوں  اوقات میں  یہ لوگوں  کی نظروں  میں  آتے  ہیں  جس سے  تمہارے  حسن و جمال میں  اضافہ ہوتاہے  ، وہ تمہاری خدمت کرتے  ہیں  اور بھاری بوجھ اپنی کمرپر اٹھاکرایسے  ایسے  مقامات تک لے  جاتے  ہیں  جہاں  تم سخت جانفشانی کے  بغیرنہیں  پہنچ سکتے ، جیسے  فرمایا

وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً۝۰ۭ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَلَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۝۲۱ۙوَعَلَیْهَا وَعَلَی الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ۝۲۲ۧ [19]

ترجمہ:اورحقیقت یہ ہے  کہ تمہارے  لئے  مویشیوں  میں  بھی ایک سبق ہے  ، ان کے  پیٹوں  میں  جوکچھ ہے  اسی میں  سے  ایک چیز(یعنی دودھ ) ہم تمہیں  پلاتے  ہیں  اورتمہارے  لئے  ان میں  بہت سے  دوسرے  فائدے  بھی ہیں  ،  ان کوتم کھاتے  ہواوران پراورکشتیوں  پرسواربھی کیے  جاتے  ہو۔

   اللہ   الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْہَا وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۷۹ۡوَلَكُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوْا عَلَیْہَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ۝۸۰ۭ وَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِہٖ۝۰ۤۖ فَاَیَّ اٰیٰتِ   اللہ   تُنْكِرُوْنَ۝۸۱ [20]

ترجمہ:  اللہ   ہی نے  تمہارے  لیے  یہ مویشی جانور بنائے  ہیں  تاکہ ان میں  سے  کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ، ان کے  اندر تمہارے  لیے  اور بھی بہت سے  منافع ہیں  وہ اس کام بھی آتے  ہیں  کہ تمہارے  دلوں  میں  جہاں  جانے  کی حاجت ہو وہاں  تم ان پر پہنچ سکو ، ان پر بھی اور کشتیوں  پر بھی تم سوار کیے  جاتے  ہو ،   اللہ   اپنی یہ نشانیاں  تمہیں  دکھا رہا ہے  آخر تم اس کی کن کن نشانیوں  کا انکار کرو گے  ۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ۝۷۱وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا یَاْكُلُوْنَ۝۷۲وَلَهُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۷۳ [21]

ترجمہ: کیایہ لوگ دیکھتے  نہیں  ہیں  کہ ہم نے  اپنے  ہاتھوں  کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  سے  ان کے  لئے  مویشی پیداکیے  ہیں  اور اب یہ ان کے  مالک ہیں  ، ہم نے  انہیں  اس طرح ان کے  بس میں  کردیاہے  کہ ان میں  سے  کسی پریہ سوارہوتے  ہیں  کسی کاگوشت کھاتے  ہیں  ، اوران کے  اندران کے  لئے  طرح طرح کے  فوائداورمشروبات ہیں  ، پھرکیایہ شکر گزارنہیں  ہوتے ۔

۔ ۔ ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ۝۱۲ۙلِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُہُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَـقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ۝۱۳ۙوَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۝۱۴ [22]

ترجمہ: اورجس نے  تمہارے  لئے  کشتیوں  اور جانوروں  کوسواری بنایاتاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے  رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ پاک ہے  وہ جس نے  ہمارے  لیے  ان چیزوں  کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں  قابو میں  لانے  کی طاقت نہ رکھتے  تھے ، اور ایک روز ہمیں  اپنے  رب کی طرف پلٹنا ہے  ۔

حقیقت یہ ہے  کہ تمہارارب بڑاہی شفیق اورمہربان ہے  ،  جس نے  تمہارے  لئے  ان تمام چیزوں  کومسخرکردیاجن کی تمہیں  ضرورت اورحاجت تھی ، پس ہرقسم کی حمدوثناکاوہی مستحق ہے  جیساکہ اس کے  جلال ، اس کی عظمت سلطنت اوراس کے  بے  پایاں  جودوکرم کے  لائق ہے  ، اس نے  گھوڑے  اورخچراورگدھے  پیداکیے  اوران تمام چوپاؤں  کو تمہارے  قابومیں  دے  دیا تاکہ تم ان پرسوارہواوروہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں  ،  گھوڑے  ، خچر اور گدھوں  کے  الگ ذکرکرنے  سے  بعض فقہانے  استدلال کیاہے  کہ گھوڑابھی اسی طرح حرام ہے  جس طرح گدھا اورخچر، علاوہ ازیں  کھانے  والے  چوپایوں  کا پہلے  ذکر آ چکاہے  ، اس لئے  اس آیت میں  جن تین جانوروں  کاذکرہے  یہ صرف سواری کے  لئے  ہیں  لیکن یہ استدلال صحیح نہیں  کیونکہ صحیح احادیث سے  گھوڑے  کی حلت ثابت ہے  ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ،  قَالَ: نَهَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ عَنْ لُحُومِ الحُمُرِ،  وَرَخَّصَ فِی لُحُومِ الخَیْلِ

جابربن عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  غزوہ خیبرمیں  گدھے  کاگوشت کھانے  کی ممانعت فرمادی تھی اور گھوڑوں  کاگوشت کھانے  کی اجازت دی تھی۔ [23]

عَنْ عَطَاءٍ،  عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،  قَالَ: كُنَّا نَأْكُلُ لُحُومَ الْخَیْلِ قُلْتُ: فَالْبِغَالُ،  قَالَ: لَا

جعطا رحمہ   اللہ   سے  مروی ہے جابربن عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایاہم ( زمانہ نبوی میں  ) گھوڑوں  کاگوشت کھاتے  تھے ،  میں  نے  کہااورخچروں  کا، انہوں  نے  جواب دیاکہ نہیں  ۔ [24]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: ذَبَحْنَا یَوْمَ خَیْبَرَ الْخَیْلَ،  وَالْبِغَالَ،  وَالْحَمِیرَفَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ البِغَالِ،  وَالْحَمِیرِ وَلَمْ یَنْهَنَا عَنِ الْخَیْلِ

جابربن عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ فرماتے  ہیں  ہم نے  غزوہ خیبرکے  روزگھوڑے ، خچراورگدھے  ذبح کیے ،  تورسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ہمیں  خچروں  اورگدھوں  سے  منع فرمادیا لیکن گھوڑوں  سے  منع نہیں  فرمایا [25]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  قَالَتْ:نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ

اسماء بن ابی بکر رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے ہم نے  مدینے  میں  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی موجودگی میں  گھوڑا ذبح کیااوراس کا گوشت کھایا۔ [26]

یہاں  گھوڑے  کا ذکرمحض سواری کے  ضمن میں  اس لئے  کیا گیا کہ اس کاغالب ترین استعمال اسی مقصدکے  لئے  ہے  مگریہ اس قدرگراں  اورقیمتی ہواکرتاہے  کہ خوراک کے  طور پر اس کااستعمال بہت ہی نادرہے  ،  بھیڑبکری کی طرح اس کو خوراک کے  لئے  ذبح نہیں  کیاجاتالیکن اس کے  یہ معنی نہیں  کہ اس کو بلادلیل حرام ٹھہرادیاجائے  ،  اورفرمایاوہ تمہارے  فائدے  اوربھلائی کے  لئے  بکثرت ایسی چیزیں  پیدا کرتا ہے  جن کاتمہیں  علم تک نہیں  ہے  ۔

‏ وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٩﴾‏ هُوَ الَّذِی أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَكُمْ مِنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ ‎﴿١٠﴾‏ یُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُونَ وَالنَّخِیلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿١١﴾‏ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِی الْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَذَّكَّرُونَ ‎﴿١٣﴾‏(النحل)
’’اور   اللہ   پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے  اور بعض ٹیڑھی راہیں  ہیں ،  اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا،  وہی تمہارے  فائدے  کے  لیے  آسمان سے  پانی برساتا ہے  جسے  تم پیتے  ہو اور اسی سے  اگے  ہوئے  درختوں  کو تم اپنے  جانوروں  کو چراتے  ہو،  اسی سے  وہ تمہارے  لیے  کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے  پھل اگاتا ہے ،  بیشک ان لوگوں  کے  لیے  تو اس میں  بڑی نشانی ہے  جو غور و فکر کرتے  ہیں ،  اسی نے  رات دن اور سورج چاند کو تمہارے  لیے  تابع کردیا ہے  اور ستارے  بھی اس کے  حکم کے  ماتحت ہیں ،  یقیناً اس میں  عقلمند لوگوں  کے  لیے  کئی ایک نشانیاں  موجود ہیں ،  اور بھی بہت سی چیزیں  طرح طرح کے  رنگ روپ کی اس نے  تمہارے  لیے  زمین پر پھیلا رکھی ہے ،  بیشک نصیحت قبول کرنے  والوں  کے  لیے  اس میں  بڑی بھاری نشانی ہے  ۔ ‘‘

اوردنیامیں  گمراہی کے  راستوں  اورصراط مستقیم کافرق واضح کرنا  اللہ   ہی کے  ذمہ ہے  ، جیسے    اللہ   تعالیٰ نے  ہدایت فرمائی

 وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ۔ ۔ ۔ ۝۱۵۳ [27]

ترجمہ:نیز اس کی ہدایت یہ ہے  کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے  لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے  راستوں  پر نہ چلو کہ وہ اس کے  راستے  سے  ہٹا کر تمہیں  پراگندہ کر دیں  گے  ۔

قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَــقِیْمٌ۝۴۱ [28]

ترجمہ:فرمایا یہ راستہ ہے  جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے ۔

عَنْ مُجَاهِدٍ:{وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِیلِ} قَالَ:طَرِیقُ الْحَقِّ عَلَى اللَّهِ

مجاہد رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  آیت کریمہ’’اور  اللہ   پرسیدھی راہ کابتادیناہے ۔ ‘‘ کے معنی یہ ہیں  یہ   اللہ   تعالیٰ کے  ذمہ ہے  کہ وہ راہ حق کوبیان فرمائے ۔ [29]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَوْلُهُ:وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِیلِ،  یَقُولُ:عَلَى اللَّهِ الْبَیَانُ،  أَنْ یُبَیِّنَ الْهُدَى وَالضَّلَالَةَ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  روایت ہے  اس آیت کریمہ’’اور  اللہ   پرسیدھی راہ کابتادیناہے ۔ ‘‘ کے  یہ معنی ہیں  یہ   اللہ   تعالیٰ کے  ذمہ ہے  کہ وہ ہدایت اورگمراہی کوبیان فرما دے ۔ [30]

جب کہ راستے  ٹیڑھے  بھی موجودہیں  ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  فِی قَوْلِهِ:وَمِنْهَا جَائِرٌ،  یَعْنِی: السُّبُلَ الْمُتَفَرِّقَةَ الْأَهْوَاءُ الْمُخْتَلِفَةُ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما نے ’’اوربعض ٹیڑھی راہیں  ہیں  ۔ ‘‘کے  بارے  میں  فرمایاہے  ان سے  مرادمختلف رستے  اورمتفرق آراء وخواہشات ہیں  ۔ [31]

چنانچہ   اللہ   نے  انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے  رسولوں  کوبھیج کراوران پرکتابیں  نازل کرکے  دونوں  راستوں  کوواضح کردیاہے ،  اورانسانوں  کوعقل وفکرکی صلاحیتیں  بخش کرانتخاب کی آزادی بخشی ہے  کہ ان میں  سے  جوراستہ چاہیں  اختیارکریں  ، اگراس کی مشیت کاتقاضا ہوتا تووہ تمام انسانوں  کوراہ راست پرگامزن کردیتااورکوئی اختلاف نہ رہتا، جیسے  فرمایا

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ۝۱۱۸ۙاِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ۝۰ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَہُمْ۝۰ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۝۱۱۹ [32]

ترجمہ:بے  شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں  کو ایک گروہ بنا سکتا تھا مگر اب تو وہ مختلف طریقوں  ہی پر چلتے  رہیں  گے  ، اور بے راہ رویوں  سے  صرف وہ لوگ بچیں  گے  جن پر تیرے  رب کی رحمت ہے ،  اسی (آزادی انتخاب و اختیاراورامتحان) کے  لیے  ہی تو اس نے  انہیں  پیدا کیا تھا اور تیرے  رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے  کہی تھی کہ میں  جہنّم کو جن اور انسانوں  سے  بھر دوں  گا۔

اس لئے    اللہ   تعالیٰ بعض انسانوں  کواپنے  فضل وکرم سے  ہدایت عطافرماتاہے  اوربعض کواپنے  عدل وحکمت کی بنا پر گمراہ کرتاہے  ، مزیداحسانات کاذکرفرمایاکہ وہ   اللہ   مالک الارض وسماوات ہی ہے  جو رقیق ولطیف بادلوں  سے  تمہارے  لئے  بکثرت صاف میٹھا پانی برساتاہے  جس سے  تم خودبھی سیراب ہوتے  ہواور تمہارے  جانوروں  کے  لئے  بھی چارہ پیدا ہوتا ہے ، پھر  اللہ   اس ایک پانی کے  ذریعہ سے  انواع واقسام کی کھیتیاں  اگاتا ہے ،  اورمختلف شکل وصورت ، رنگ ، ذائقہ اورخوشبوکے  حامل پھل مثلاًزیتون ، کھجور ،  انگور اوردیگرنعمتیں  پیداکرتاہے ، اس میں    اللہ   کی وحدانیت، عظمت اوراس کی قدرت کاملہ کی کافی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے  لئے  جوغوروفکر کرتے  ہیں  ، جیسے  فرمایا

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ۝۹ۙوَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ۝۱۰ۙرِّزْقًا لِّلْعِبَادِ۝۰ۙ وَاَحْیَیْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا۝۰ۭ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ۝۱۱ [33]

ترجمہ: اورآسمان سے  ہم نے  برکت والاپانی نازل کیا، پھراس سے  باغ اورفصل کے  غلے  اوربلند وبالا کھجورکے  درخت پیداکردیے  جن پر پھلوں  سے  لدے  ہوئے  خوشے  تہ بر تہ لگتے  ہیں  ، یہ انتظام ہے  بندوں  کورزق دینے  کا، اس پانی سے  ہم ایک مردہ زمین کوزندگی بخش دیتے  ہیں  (مرے  ہوئے  انسانوں  کا زمین )سے  نکلنا بھی اسی طرح ہوگا ۔

مگر تم لوگ   اللہ   کی ان گنت نعمتوں  کاشکراداکرنے  اوراس وحدہ لاشریک بندگی بجالانے  کے  بجائے  غیر  اللہ   کواس کاشریک ٹھہراتے  ہو۔

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَةٍ۝۰ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ   اللہ  ۝۰ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ۝۶۰ۭ [34]

ترجمہ:بھلا وہ کون ہے  جس نے  آسمانوں  اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے  لیے  آسمان سے  پانی برسایا پھر اس کے  ذریعہ سے  وہ خوشنما باغ اگائے  جن کے  درختوں  کا اگانا تمہارے  بس میں  نہ تھا ؟ کیا   اللہ   کے  ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی ( ان کاموں  میں  شریک) ہے ؟( نہیں  ) بلکہ یہی لوگ راہ راست سے  ہٹ کر چلے  جا رہے  ہیں  ۔

اگر   اللہ   چاہے  تواس پانی کوکھاری بنادے  پھر نہ تم خودسیراب ہو سکوگے  نہ تمہارے  جانوراورنہ تمہاری کھیتیاں  اور باغات پیداہوں  گی، پھر  اللہ   کے  سواتمہاراکون سامعبودہے  جو اس پانی کومیٹھاکرکے  تمہارے  رزق کابندوبت کر سکے  گا ،  جیسے  فرمایا

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ [35]

ترجمہ:کبھی تم نے  آنکھیں  کھول کردیکھا یہ پانی جوتم پیتے  ہواسے  تم نے  بادل سے  برسایاہے  یااس کے  برسانے  والے  ہیں  ہیں  ؟ہم چاہیں  تواسے  سخت کھاری بناکررکھ دیں  ،  پھرکیوں  تم شکر گزارنہیں  ہوتے  ۔

ایک اور نعمت کاذکر فرمایاکہ   اللہ   نے  انسانوں  کی بھلائی کے  لئے  رات اوردن کواورسورج اورچاندکوکام پر لگا رکھا ہے ، رات اور دن تمہارے  آرام اور معاش کے  لئے  ایک دوسرے  کے  پیچھے  آتے  جاتے  ہیں  ، اورسورج اورچانداپنے  مخصوص مدارمیں  تیرتے  ہوئے  اپنی اپنی منزلوں  کی طرف رواں  دواں  ہیں  اور ان کی گردش میں  کوئی فرق واقع نہیں  ہوتا ۔

اِنَّ رَبَّكُمُ   اللہ   الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۣ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا۝۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۝۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ   اللہ   رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۵۴ [36]

ترجمہ:درحقیقت تمہارا رب   اللہ   ہی ہے  جس نے  آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا،  پھر اپنے  تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے  اور پھر دن رات کے  پیچھے  دوڑا چلا آتا ہے  جس نے  سورج اور چاند اور تارے  پیدا کیے ،  سب اس کے  فرمان کے  تابع ہیں  ، خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے  اور اسی کا امر ہے  ،  بڑا برکت ہے    اللہ   سارے  جہانوں  کا مالک و پروردگار ۔

سب تاروں  کوبھی اسی نے  کام پرلگارکھاہے  جو آسمان دنیاکی زینت ہیں  ، جورات کے  اندھیروں  میں  چمک کر تمہیں  روشنی پہنچاتے  ہیں  ،  اوربحروبرکی تاریکیوں  میں  ان سے  تم راستہ اوروقت بھی معلوم کرتے  ہو، جیسے  فرمایا

وَعَلٰمٰتٍ۝۰ۭ وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۱۶ [37]

ترجمہ:اس نے  زمین میں  راستہ بتانے  والی علامتیں  رکھ دیں  اور تاروں  سے  بھی لوگ ہدایت پاتے  ہیں  ۔

اوریہ سرکش شیطانوں  کوآسمان پرجانے  سے  روکنے  کے  بھی کام آتے  ہیں  ، جیسے  فرمایا

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیْنَ۝۱۶ وَحَفِظْنٰہَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۝۱۷ۙۙاِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ۝۱۸ [38]

ترجمہ:یہ ہماری کارفرمائی ہے  کہ آسمان میں  ہم نے  بہت سے  مضبوط قلعے  بنائے  ان کو دیکھنے  والوں  کے  لیے  مزین کیا، اور ہر شیطان مردود سے  ان کو محفوظ کر دیاکوئی شیطان ان میں  راہ نہیں  پا سکتا الا یہ کہ کچھ سن گن لے  لے اور جب وہ سن گن لینے  کی کوشش کرتا ہے  تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے  ۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ۝۷ۚلَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ۝۸ۤۖۙدُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۝۹ۙ [39]

ترجمہ:ہم نے  آسمان دنیا کو تاروں  کی زینت سے  آراستہ کیا ہے اور ہر شیطان سرکش سے  اس کو محفوظ کر دیا ہے ، یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں  نہیں  سن سکتے  ،  ہر طرف سے  مارے  اور ہانکے  جاتے  ہیں  اور ان کے  لیے  پیہم عذاب ہے  ۔

ان تمام کاموں  میں    اللہ   تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے  لئے  جوغوروفکراورتدبروتفکر کرتے  ہیں  ،  اور  اللہ   نے  تمہاری ضروریات کے  لئے  زمین سے  جو انواع و اقسام کی معدنیات،  نباتات ،  جمادات وغیرہ پیدا کر رکھی ہیں  ان میں  بھی اس کی قدرت کاملہ، بے  پایاں  احسان اوربے  حساب فضل وکرم کی نشانیاں  ہیں  ،  جواس حقیقت پردلالت کرتی ہیں  کہ   اللہ   کے  سواکوئی معبودبرحق نہیں  ، اس کے  سواکوئی عبادت کے  لائق نہیں  ، وہ یکتا ہے  اس کاکوئی شریک نہیں  ،  ان لوگوں  کے  لئے  جوسبق حاصل کرنے  والے  ہیں  ۔

‏ وَهُوَ الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿١٤﴾‏وَأَلْقَىٰ فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِیدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٥﴾‏ وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُونَ ‎﴿١٦﴾‏ أَفَمَنْ یَخْلُقُ كَمَنْ لَا یَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿١٨﴾‏ وَاللَّهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ‎﴿١٩﴾(النحل)
’’ اور دریا بھی اس نے  تمہارے  بس میں  کردیئے  ہیں  کہ تم اس میں  سے  (نکلا ہوا) تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں  سے  اپنے  پہننے  کے  زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے  ہو کہ کشتیاں  اس میں  پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں  اور اس لیے  بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے  کہ تم شکر گزاری بھی کرو،  اور اس نے  زمین میں  پہاڑ گاڑ دیئے  ہیں  تاکہ تمہیں  لے  کر ہلے  نہ،  اور نہریں  اور راہیں  بنادیں  تاکہ تم منزل مقصود کو پہنچو،  اور بھی بہت سی نشانیاں  مقرر فرمائیں ،  اور ستاروں  سے  بھی لوگ راہ حاصل کرتے  ہیں ،  تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے  اس جیسا ہے  جو پیدا نہیں  کرسکتا ؟ کیا تم بالکل نہیں  سوچتے ؟ اور اگر تم   اللہ   کی نعمتوں  کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے  نہیں  کرسکتے ،  بیشک   اللہ   بڑا بخشنے  والا مہربان ہے ،  اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ظاہر کرو   اللہ   تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ۔ ‘‘

وہ   اللہ   وحدہ لاشریک ہی ہے  جس نے  تلاطم خیز موجوں  والے سمندروں  کوتمہارے  مختلف انواع کے  فوائدکے  لئے  انہیں  تمہارے  تابع کررکھاہے ، اوراس کے  تین فائدے  بیان کیے  تاکہ تم اس سے  مچھلیوں  کا تروتازہ اورصحت بخش گوشت لے  کر کھاؤ اور اس سے  نفیس قسم کے  موتی، سیپیاں  اورجواہر نکالو جنہیں  تم حسن وجمال کی زینت کے  لئے  پہنتے  ہو، اورحلال طریقوں  سے    اللہ   کافضل وکرم تلاش کرنے  کے  لئے  کشتیاں  اورجہازاس کاسینہ چیرتے  ہوئے  چلاتے  ہو، یہ اس لئے  ہے  تاکہ تم اپنے  معبودحقیقی کے  شکر گزار بنو اور اس کی حمدوثناکے  گن گاؤجس نے  تمہارے  لئے  یہ تمام چیزیں  تیارکرکے  تمہیں  میسرکیں  ، ایک اوراحسان عظیم کاذکرفرمایاکہ   اللہ   تعالیٰ نے  زمین کواضطراب اور ڈھلکنے  سے  بچانے  کے  لئے  اس میں  بلند وبالا ٹھوس پہاڑوں  کی میخیں  گاڑدیں  ، جیسے  فرمایا

وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا۝۳۲ۙ [40]

ترجمہ:اورپہاڑاس میں  گاڑ دیے  ۔

 وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ۔ ۔ ۔  ۝۱۹ [41]

ترجمہ:ہم نے  زمین کو پھیلایااور اس میں  پہاڑ جمائے ۔

وَہُوَالَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ۔ ۔ ۔  ۝۳ [42]

ترجمہ:اور وہی ہے  جس نے  یہ زمین پھیلا رکھی ہے اور اس میں  پہاڑوں  کے  کھونٹے  گاڑ رکھے  ہیں  ۔

وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ۔ ۔ ۔ ۝۳۱ [43]

ترجمہ:اور ہم نے  زمین میں  پہاڑ جما دیے  تاکہ وہ انہیں  لے  کر ڈھلک نہ جائے ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ ۔ ۔ ۔ ۝۱۰ [44]

ترجمہ:اس نے  آسمانوں  کو پیدا کیا بغیر ستونوں  کے  جو تم کو نظر آئیں  اس نے  زمین میں  پہاڑ جما دیے  تاکہ وہ تمہیں  لے  کر ڈھلک نہ جائے  ۔

 وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ۔ ۔ ۔  ۝۷ۙ [45]

ترجمہ:اور زمین کو ہم نے  بچھایا اور اس میں  پہاڑ جمائے  ۔

وَّجَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ۔ ۔ ۔  ۝۲۷ۭ [46]

ترجمہ:اور اس میں  بلند و بالا پہاڑ جمائے ۔

اور   اللہ   مالک الملک نے  پہاڑوں  کی بلندیوں  سے  میدانوں  کی طرف دریاؤں  اور چشموں  کو جاری کیا اور ان کی روانی کے  قدرتی راستے  بنائے  تاکہ تم اس سے  اپنی کھیتیوں  اور جانوروں  کوسیراب کرواورمنزل مقصودکو پہنچو ،  اس کے  علاوہ   اللہ   نے  زمین میں  راستہ بتانے  والی امتیازی علامتیں  رکھ دیں  ہیں  ، اور  اللہ   نے  رات کی تاریکیوں  میں  ستاروں  کے  ذریعہ صحراؤں  اورسمندروں  میں  بھی صحیح سمت معلوم کرنے  کا ایک فطری انتظام بھی کررکھاہے ،   اللہ   تعالیٰ کی ان تمام قدرتوں  سے  واضح ہے  کہ وہ ان تمام چیزوں  کاخالق ہے  جبکہ جن کی تم   اللہ   کوچھوڑکرپرستش کرتے  ہواوران کی خوشنودی کے  لئے  ان کے  آگے  رسوم عبادات بجا لاتے  ہو انہوں  نے  توکچھ بھی پیدانہیں  کیااورنہ پیداکرسکنے  کی قدرت رکھتے  ہیں  ، وہ تو بے  بس ، لاچاراور  اللہ   کے  فضل وکرم کی محتاج مخلوق ہیں  ، پھر بھلاخالق اورمخلوق کس طرح برابرہو سکتے  ہیں  ؟ خالق اورغیرخالقوں  کے  اختیارات کس طرح برابر ہو سکتے  ہیں  ، خالق اورغیرخالق کی صفات اور قدرتیں  کس طرح یکساں  ہو سکتی ہیں  ،  کیا تم کچھ بھی عقل وفہم سے  کام نہیں  لیتے  ؟زمین وآسمان کی پیدائش ، وجودانسانی کانکتہ آغاز، جانوروں  کی پیدائش ، ان کا چراگاہوں  میں  چرنا، ان کے  فوائد، آسمان سے  وجودحیات کے  باعث پانی کا برسنا ،  رات دن کااختلاف ، سورج چاندستاروں  کی چمک اورزینت، کھیتی ، باغات اورکھلیان ، دریائی اورسمندری مخلوقات ،  سمندرکے  ذریعے  سفرکے  فائدے  اوراس کی اتھاہ گہرائیوں  میں  سے  لعل وجواہرکی برآمدگی وغیرہ تو  اللہ   کی چندنعمتیں  ہیں  لیکن اگرتم   اللہ   کی ہرسوبکھری نعمتوں  کوگننا چاہو توان نعمتوں  کاشکرادا کرناتوکجاتم ان کاشماربھی نہیں  کر سکتے ۔

۔ ۔ ۔  وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ   اللہ   لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۝۳۴ۧ [47]

ترجمہ:اگر تم   اللہ   کی نعمتوں  کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں  سکتے  حقیقت یہ ہے  کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے  ۔

حقیقت یہ ہے  کہ انسان کابال بال   اللہ   کے  احسانات میں  بندھا ہوا ہے  لیکن انسان رب کی نعمتوں  پر شکرگزارہونے  کے  بجائے  سرکشی وبغاوت کامظاہرہ کرتا ہے  ، قادر مطلق اورمنعم حقیقی کی ذات ، صفات، اختیارات اورحقوق میں  غیرخالق ہستیوں  کواس کاشریک ٹھہراتاہے  مگروہ ایسارحیم ، علیم ، فیاض اورعالی ظرف ہے  کہ ن تمام حرکتوں  کے  باوجود ان باغیوں  کواپنی بے  حدوحساب نعمتوں  سے  شادکام رکھتاہے  حالانکہ وہ انسانوں  کے  تمام ظاہری اورپوشیدہ کرتوتوں  سے  خوب واقف ہے  اوراسی کے  مطابق روز قیامت جزاوسزادے  گا ۔

وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا یَخْلُقُونَ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ أَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَاءٍ ۖ وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ ‎﴿٢١﴾‏ إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِینَ ‎﴿٢٣﴾(النحل)
’’اور جن جن کو یہ لوگ   اللہ   تعالیٰ کے  سوا پکارتے  ہیں  وہ کسی چیز کو پیدا نہیں  کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے  ہوئے  ہیں  ، مردے  ہیں  زندہ نہیں  ، انھیں  تو یہ بھی شعور نہیں  کہ کب اٹھائے  جائیں  گے ،  تم سب کا معبود صرف   اللہ   تعالیٰ اکیلاہے  اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے  والوں  کے  دل منکر ہیں اور وہ خود تکبر سے  بھرے  ہوئے  ہیں  ،  بے  شک و شبہ   اللہ   تعالیٰ ہر اس چیز کو جسے  وہ لوگ چھپاتے  ہیں  اور جسے  ظاہر کرتے  ہیں  بخوبی جانتا ہے ،  وہ غرور کرنے  والوں  کو پسند نہیں  فرماتا۔ ‘‘

اوروہ دوسری ہستیاں  جنہیں    اللہ   کوچھوڑکرلوگ پکارتے  ہیں  وہ کچھ بھی تخلیق کرنے  پرقادر نہیں  ہیں  بلکہ ان کوپیداکیاگیاہے  ، وہ خوداپنے  وجودکے  لئے    اللہ   تعالیٰ کے  محتاج ہیں  ،  اوراس کے  ساتھ ساتھ وہ تمام اوصاف کمال اورعلم وغیرہ سے  بھی محروم ہیں  ، اپنی مشکلات ومصائب میں  تم انہیں  زندہ سمجھ کرپکارتے  ہوحالانکہ وہ زندہ نہیں  بلکہ بے  جان اور بے  شعورمردہ ہیں  ، وہ نہ سن سکتے  ہیں  ، نہ دیکھ سکتے  ہیں  اورنہ بول سکتے  ہیں  ، اس دنیاسے  اب ان کاکوئی تعلق واسطہ نہیں  رہا ہے  ، اب وہ عالم دنیاسے برزخ میں  چلے  گئے  ہیں  ،  مرنے  کے  بعدان کوتویہ بھی معلوم نہیں  ہے  کہ   اللہ   انہیں  کب دوبارہ ان کوان کی قبروں  سے  زندہ کرکے  اٹھائے  گا، پھران سے  کسی نفع یانقصان کی کیاتوقع کی جاسکتی ہے  ،  امیدتواس   اللہ   سے  رکھنی چاہئے  جوکائنات کاخالق ،  ہر چیز کاعالم ، مخلوقات کارازق ، مشکل کشااورجس کی رحمت بے  حدوحساب ہے  جوتمام کائنات پرسایہ کناں  ہے ، مخلوق میں  کوئی بھی اس کی کسی صفت کااحاطہ نہیں  کرسکتا،  مشرکین کہتے  ہیں  کہ یہ آیت اصحاب قبورکے  بارے  میں  نہیں  بلکہ لکڑی یاپتھر وغیرہ کی تراشی ہوئی مورتیوں  کی تردیدمیں  ہے  ،  حالانکہ لکڑی پتھرکی مورتیوں  کے  معاملہ میں  بعث بعدالموت کا کوئی سوال ہی نہیں  ہے  کیونکہ

۔ ۔ ۔  وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ [48]

ترجمہ:اور ان کوکچھ معلوم نہیں  ہے  کہ انہیں  کب دوبارہ زندہ کر کے  اٹھایا جائے گا۔ کے  الفاظ انہیں  خارج ازبحث کر دیتے  ہیں  ،

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ۔ ۔ ۔  ۝۲۰ۭ [49]

ترجمہ: اوروہ دوسری ہستیاں  جنہیں    اللہ   کوچھوڑکرلوگ پکارتے  ہیں  ۔

سے  مرادانبیاء ،  اولیا ،  شہدا،  صالحین اور دوسرٖے  غیر معمولی انسان ہی ہیں  جن کوان کے  معتقدین داتا، گنج بخش، مشکل کشا،  فریاد رس ،  غریب نواز،  وغیرہ قراردے  کراپنی حاجات کے  لئے پکارناشروع کردیتے  ہیں  ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِی كَانَتْ فِی قَوْمِ نُوحٍ فِی العَرَبِ بَعْدُ أَمَّا وَدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الجَنْدَلِ،  وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَیْلٍ،  وَأَمَّا یَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ،  ثُمَّ لِبَنِی غُطَیْفٍ بِالْجَوْفِ،  عِنْدَ سَبَإٍ،  وَأَمَّا یَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ،  وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْیَرَ لِآلِ ذِی الكَلاَعِ،  أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِینَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ،  فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّیْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ،  أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِی كَانُوا یَجْلِسُونَ أَنْصَابًا وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ،  فَفَعَلُوا،  فَلَمْ تُعْبَدْ،  حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ وَتَنَسَّخَ العِلْمُ عُبِدَتْ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے جوبت نوح علیہ السلام کی قوم میں  پوجے  جاتے  تھے  بعد میں  وہی عرب میں  پوجے  جانے  لگے ، وددومتہ الجندل میں  بنی کلب کابت تھااورسواع بنی ہذہل کااوریغوث بنی مرادکااورمرادکی شاخ بنی غطیف کاجووادی اجوف میں  قوم سباکے  پاس رہتے  تھے  اوریعوق بنی ہمدان کابت تھااورنسرحمیرکابت تھاجوذوالکلاع کی آل میں  سے  تھے ،  یہ پانچوں  نوح علیہ السلام کی قوم کے  نیک لوگوں  کے  نام تھے  ، جب ان کی موت ہوگئی توشیطان نے  ان کے  دل میں  ڈالاکہ اپنی مجلسوں  میں  جہاں  وہ بیٹھتے  تھے  ان کے  بت قائم کرلیں  اوران بتوں  کے  نام اپنے  نیک لوگوں  کے  نام پررکھ لیں  ، چنانچہ ان لوگوں  نے  ایساہی کیااس وقت ان بتوں  کی پوجانہیں  ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مرگئے  جنہوں  نے  بت قائم کئے  تھے  اورلوگوں  میں  علم نہ رہاتوان کی پوجاہونے  لگی۔ [50]

مکہ مکرمہ میں  اساف اورنائلہ کی بھی پوجاکی جاتی تھی جوبدکار انسان تھے ،

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ: مَا زِلْنَا نَسْمَعُ أَنَّ إسَافًا وَنَائِلَةً كَانَا رَجُلًا وَامْرَأَةً مِنْ جُرْهُمٍ،  أَحْدَثَا فِی الْكَعْبَةِ،  فَمَسَخَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى حَجَرَیْنِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے  ہم سنتی رہی ہیں  اساف اورنائلہ دونوں  قبیلے  جرہم کے  ایک مرد اورعورت کانام تھاجنہوں  نے  کعبہ میں  بدکاری کی تھی اور  اللہ   تعالیٰ نے  ان کوپتھرکابنادیا۔ [51]

اسی طرح کی روایت مناة اورعزیٰ کے  بارے  میں  بھی موجودہے ، مشرکین کایہ بھی عقیدہ تھاکہ لات اورعزیٰ   اللہ   تعالیٰ کے  اتنے  پیارے  تھے  کہ   اللہ   سردیاں  لات کے  ہاں  اورگرمیاں  عزیٰ کے  ہاں  بسرکرتے  تھے  ،  فرمایا تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے ، جیسے  فرمایا

قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللهُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ [52]

ترجمہ: جوایک اور یکتاہے  اوروہ بے  نیازہے  ، اس نے  کسی کوجنم دیاہے  نہ اس کوکسی نے  جنم دیاہے  اوراس کاکوئی بھی ہمسرنہیں  ہے ۔

وہ اکیلاہی خالق کائنات، اس میں  تدبیرکرنے  والا اوراپنی مخلوقات کارازق ہے ،  مگر جولوگ محض اپنی جہالت کی بناپر حیات بعدالموت اور آخرت کونہیں  مانتے  ان کے  لئے  ایک الٰہ کاماننابہت ہی مشکل ہے  اوروہ تکبرہی کی وجہ سے    اللہ   کی عبادت کاانکارکرتے  ہیں  ،  جیسے  فرمایا

وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ۝۰ۡوَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝۴ۖۚاَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [53]

ترجمہ: ان لوگوں  کواس بات پربڑاتعجب ہواکہ ایک ڈرانے  والا خودانہی میں  سے  آ گیا،  منکرین کہنے  لگے  کہ یہ ساحر ہے سخت جھوٹاہے  ، کیا اس نے  سارے  خداؤں  کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟یہ توبڑی عجیب بات ہے ۔

وَاِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [54]

ترجمہ:جب اکیلے    اللہ   کا ذکر کیاجاتاہے  توآخرت پرایمان نہ رکھنے  والوں  کے  دل کڑھنے  لگتے  ہیں  اورجب اس کے  سوادوسروں  کا ذکرہوتاہے  تویکایک وہ خوشی سے  کھل اٹھتے  ہیں  ۔

ایسے  لوگوں  کوزنجیروں  میں  جکڑکرگلے  میں  طوق ڈال کر ذلت کے  ساتھ منہ کے  بل گھسیٹتے  ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے  جہنم کے  گڑھے  میں  پھینک دیا جائے  گا جہاں  یہ دردناک عذاب سے  گھبرا کرموت کوپکاریں  گے  مگرموت نہیں  آئے  گی ۔

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ۝۰ۚ لَا یُقْضٰى عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا۔ ۔ ۔ ۝۳۶ۚ [55]

ترجمہ:اور جن لوگوں  نے  کفر کیاہے  ان کے  لیے  جہنم کی آگ ہے ،  نہ ان کا قصہ پاک کر دیا جائے  گا کہ مر جائیں  اور نہ ان کے  لیے  جہنم کے  عذاب میں  کوئی کمی کی جائے  گی۔

وَنَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ۝۰ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ۝۷۷لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِہُوْنَ۝۷۸ [56]

ترجمہ:وہ پکاریں  گے  اے  مالک! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے  تو اچھا ہے ،  وہ جواب دے  گا تم یوں  ہی پڑے  رہو گے ، ہم تمہارے  پاس حق لے  کر آئے  تھے  مگر تم میں  سے  اکثر کو حق ہی ناگوار تھا ۔

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭلَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴ [57]

ترجمہ:اور جب یہ دست و پا بستہ اس میں  ایک تنگ جگہ ٹھونسے  جائیں  گے  تو اپنی موت کو پکارنے  لگیں  گے ، اس وقت ان سے  کہا جائے  گا کہ آج ایک موت کو نہیں  بہت سی موتوں  کو پکارو۔

اللہ   یقیناً ان کے  سب ظاہری اورپوشیدہ سب قبیح کرتوتوں  کوبخوبی جانتاہے  ،   اللہ   تعالیٰ حق بات کی تکذیب اوردوسروں  کو حقیروکمترسمجھنے  والے  لوگوں  کوہرگز پسند نہیں  کرتا،  جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۝۶۰ۧ [58]

ترجمہ:جولوگ گھمنڈمیں  آکرمیری عبادت سے  منہ موڑتے  ہیں  ضروروہ ذلیل وخوارہوکرجہنم میں  داخل ہوں  گے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍوَلَا یَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیمَانٍ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاوہ شخص جنت میں  نہیں  جائے  گاجس کے  دل میں  ایک دانے  کے  برابربھی غرور ہوگا اوروہ شخص دوزخ میں  نہ جائے  گاجس کے  دل میں  رائی کے  دانے  کے  برابرایمان ہوگا۔ [59]

‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ لِیَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِینَ یُضِلُّونَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَاءَ مَا یَزِرُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَدْ مَكَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْیَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یُخْزِیهِمْ وَیَقُولُ أَیْنَ شُرَكَائِیَ الَّذِینَ كُنْتُمْ تُشَاقُّونَ فِیهِمْ ۚ قَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِی أَنْفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِینَ ‎﴿٢٩﴾(النحل)
’’ان سے  جب دریافت کیا جاتا ہے  کہ تمہارے  پروردگار نے  کیا نازل فرمایا ہے  ؟ تو جواب دیتے  ہیں  کہ اگلوں  کی کہانیاں  ہیں ،  اسی کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے  دن یہ لوگ اپنے  پورے  بوجھ کے  ساتھ ہی ان کے  بوجھ کے  حصے  دار ہوں  گے  جنہیں  بے علمی سے  گمراہ کرتے  رہے ،  دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے  ہیں ،  ان سے  پہلے  کے  لوگوں  نے  بھی مکر کیا تھا (آخر)   اللہ   نے  (ان کے  منصوبوں ) کی عمارتوں  کو جڑوں  سے  اکھیڑ دیا اور ان (کے  سروں ) پر (ان کی) چھتیں  اوپر سے  گرپڑیں  اور ان کے  پاس عذاب وہاں  سے  آگیا جہاں  کا انہیں  وہم و گمان بھی نہ تھا،  پھر قیامت والے  دن بھی   اللہ   تعالیٰ انہیں  رسوا کرے  گا اور فرمائے  گا کہ میرے  شریک کہاں  ہیں  جن کے  بارے  میں  تم لڑتے  جھگڑتے  تھے ،  جنہیں  علم دیا گیا تھا وہ پکار اٹھیں  گے  کہ آج تو کافروں  کو رسوائی اور برائی چمٹ گئی ، وہ جو اپنی جانوں  پر ظلم کرتے  ہیں  فرشتے  جب ان کی جان قبض کرنے  لگتے  ہیں  اس وقت وہ جھک جاتے  ہیں  کہ ہم برائی نہیں  کرتے  تھے ،  کیوں  نہیں  ؟   اللہ   تعالیٰ خوب جاننے  والا ہے  جو کچھ تم کرتے  تھے ، پس اب تو ہمیشگی کے  طور پر تم جہنم کے  دروازوں  میں  داخل ہوجاؤ،  پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے  غرور کرنے  والوں  کا۔ ‘‘

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی دعوت اسلام کاچرچاجب اطراف واکناف میں  پھیلاتوکفارومشرکین مکہ جب کسی قبیلے  میں  جاتے  تووہاں  کے  لوگ تجسس میں  ان سے  دریافت کرتے  کہ آخر محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )اپنے  آباؤاجدادکے  دین کوچھوڑکرکیاتعلیم دے  رہے  ہیں  ؟ان پرجوکلام نازل ہورہاہے  اس کے  مضامین کیاہیں  ؟  اللہ   تعالیٰ نے  ان کاقول بیان کیاہے  کہ جب کوئی بدو تجسس میں  ان مشرکین سے  پوچھتا ہے  کہ تمہارے  رب نے  کیاکلام نازل کی ہے  اوراس کے  مضامین کیا ہیں  اورتمہاری اس کی بابت کیارائے  ہے  تویہ مکذبین اس سوال پر اعراض اوراستہزاکامظاہرہ کرتے  ہیں  اورسائل کے  دل میں  شک وشبہ پیداکرنے  کے  لئے  بدترین جواب دیتے  ہیں  کہ   اللہ   تعالیٰ نے  کچھ بھی نازل نہیں  کیا ہے  ، محمد ( صلی   اللہ   علیہ وسلم )ہمیں  جوپڑھ کرسناتاہے  وہ تواگلے  وقتوں  کی فرسودہ ، دقیانوسی کہانیاں  ہیں  جوہزاروں  برس سے  گمراہ لوگ نسل درنسل نقل کرتے  چلے  آرہے  ہیں  ، محمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) بھی انہی باتوں  کودہرارہے  ہیں  ، جیسے  فرمایا

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰى عَلَیْہِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵ [60]

ترجمہ:کہتے  ہیں  یہ پرانے  لوگوں  کی لکھی ہوئی چیزیں  ہیں  جنہیں  یہ شخص نقل کراتا ہے  اور وہ اسے  صبح و شام سنائی جاتی ہیں  ۔

یہ قائدین ایسی باتیں  اس لئے  کرتے  ہیں  کہ قیامت کے  روزاپنے  گناہوں  کا بوجھ بھی پورے  اٹھائیں  اورساتھ ساتھ ان مقلدین کے  بوجھ بھی سمیٹیں  جنہیں  یہ بربنائے  جہالت گمراہ کررہے  ہیں  ،  دیکھو!کیسی سخت ذمہ داری ہے  جو یہ اپنے  سرلے  رہے  ہیں  ،  جیسے  ایک مقام پرفرمایا

وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ۔ ۔ ۔  ۝۱۳ۧ [61]

ترجمہ: ہاں  ضروروہ اپنے  بوجھ بھی اٹھائیں  گے  اوراپنے  بوجھوں  کے  ساتھ دوسرے  بہت سے  بوجھ بھی۔

عَنْ مُجَاهِدٍ،  قَوْلُهُ:{لِیَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ} وَمِنْ أَوْزَارِ مَنْ أَضَلُّوا احْتِمَالُهُمْ ذُنُوبَ أَنْفُسِهِمْ وَذُنُوبَ مَنْ أَطَاعَهُمْ،  وَلَا یُخَفِّفُ ذَلِكَ عَمَّنْ أَطَاعَهُمْ مِنَ الْعَذَابِ شَیْئًا

مجاہد رحمہ   اللہ   آیت کریمہ’’اسی کانتیجہ ہوگاکہ قیامت کے  دن یہ لوگ اپنے  پورے  بوجھ کے  ساتھ ہی ان کے  بوجھ کے  حصے  دارہوں  گے ۔ ‘‘کے  بارے  میں  فرماتے  ہیں  اس کامفہوم یہ ہے  کہ یہ لوگ اپنے  گناہوں  کابوجھ بھی اٹھائیں  گے  اوران لوگوں  کے  گناہوں  کابوجھ بھی جوان کی پیروی کریں  گے  اوراس سے  پیروی کرنے  والوں  کے  عذاب میں  کوئی تخفیف نہیں  کی جائے  گی۔ [62]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ:مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجوراہ حق کی دعوت دے  اسے  اس قدرثواب ہے  جس قدراس کی اتباع کرنے  والوں  کوہوگاان اتباع کرنے  والوں  میں  سے  کسی کے  ثواب میں  کوئی کمی نہیں  ہوگی، اورجس نے  کسی گمراہی کی دعوت دی تواسے  اس قدرگناہ ہوگاجس قدراس کی پیروی کرنے  والوں  کوہوگا، اس وجہ سے  ان کے  گناہوں  میں  کوئی کمی نہ ہوگی۔ [63]

ان سے  پہلے  بھی بہت سی اقوام حق کا راستہ روکنے ، پاکیزہ دعوت کوٹھکرانے  اوراس کونیچادکھانے  کے  لئے  ایسی ہی مکاریاں  کرچکی ہیں  ، جیسے  نوح علیہ السلام نے  اپنی قوم کے  بارے  میں  فرمایا تھا

 وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا۝۲۲ۚ [64]

ترجمہ:ان لوگوں  نے  بڑا بھاری مکرکاجال پھیلارکھاہے ۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِ  اللہ   وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۔ ۔ ۔ ۝۳۳ [65]

ترجمہ:وہ دبے  ہوئے  لوگ ان بڑے  بننے  والوں  سے  کہیں  گے  نہیں  بلکہ شب روز کی مکاری تھی جب تم ہم سے  کہتے  تھے  کہ ہم   اللہ   سے  کفر کریں  اور دوسروں  کو اس کا ہمسر ٹھیرائیں  ۔

تو دیکھ لوکہ   اللہ   کے  عذاب نے  ان کے  مکروفریب کی عمارت جڑسے  اکھاڑ پھینکی اور سازشوں  کا تانابانابن کر انہوں  نے  مکروفریب کی جو عمارت کھڑی کی تھی اس کی چھت اوپر سے  ان کے  سر پر آرہی، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ وَلَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَهْلِهٖ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۴۳ [66]

ترجمہ:بری چالیں  اپنے  چلنے  والوں  ہی کو لے  بیٹھتی ہیں  ۔

اوربالآخرایسے  رخ سے  ان پر عذاب آیا جدھرسے  اس کے  آنے  کاان کووہم وگمان تک نہ تھا، جیسے  فرمایا

هُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ۝۰ۭؔ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللهِ فَاَتٰىهُمُ اللهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا۔ ۔ ۔ ۝۰۝۲ [67]

ترجمہ:وہی ہے  جس نے  اہل کتاب کافروں  کوپہلے  ہی ہلے  میں  ان کے  گھروں  سے  نکال باہرکیا، تمہیں  ہرگزیہ گمان نہ تھاکہ وہ نکل جائیں  گے  ، اوروہ بھی یہ سمجھے  بیٹھے  تھے  کہ انکی گڑھیاں  انہیں    اللہ   سے  بچالیں  گی مگر  اللہ   ایسے  رخ سے  ان پرآیاجدھران کاخیال بھی نہ گیاتھا۔

دنیاکے  اس عذاب کے  بعدمعاملہ ختم نہیں  ہوابلکہ پھر قیامت کے  روز جب سارامعاملہ طشت ازبام ہوجائے  گا،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الغَادِرَ یُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ یَوْمَ القِیَامَةِ،  یُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ

اس وقت کے  بارے  میں  عبد  اللہ   بن عمر رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاہرعہدتوڑنے  والے کے  لئے  قیامت میں  ایک جھنڈاگاڑدیاجائے  گااورپکار دیا جائے  گاکہ یہ فلاں  بن فلاں  کی دغا بازی کانشان ہے ۔ [68]

تو   اللہ   انہیں  برسرعام خلائق کے  سامنے  ان کے  جھوٹ اور  اللہ   تعالیٰ پران کی افتراپردازی کوآشکاراکرے  گا اوران سے  کہے  گاجواب دوکہ کہاں  ہیں  تمہارے  ٹھیرائے  ہوئے  وہ شریک جن کوقدرتوں  واختیارت کے  حامل ثابت کرنے  کے  لئے  تم حزب   اللہ   سے  عداوت اوران سے  جھگڑے  کیاکرتے  تھے ؟آج مشکل کی اس گھڑی میں  وہ تمہاری مدد کیوں  نہیں  کرتے ؟اس عذاب سے  تمہاری خلاصی کیوں  نہیں  کرتے ؟  اللہ   تعالیٰ کے  اس سوال پرمیدان محشرمیں  ایک سناٹاچھاجائے  گا،  کفارومشرکین کی زبانیں  کنگ ہوجائیں  گی اوروہ دم بخودرہ جائیں  گے ۔

 فَمَا لَہٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ۝۱۰ۭ [69]

ترجمہ:اس وقت انسان کے  پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے  والا ہوگا۔

بڑی دیرکے  بعدوہ اپنی گمراہی کااقراراورعنادکااعتراف کرتے  ہوئے  جواب دیں  گے

 ۔ ۔ ۔ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَهِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ۝۳۷ [70]

ترجمہ:وہ کہیں  گے  کہ سب ہم سے  گم ہوگئے  اوروہ خوداپنے  خلاف گواہی دیں  گے  کہ ہم واقعی منکر حق تھے ۔

جن لوگوں  کودنیامیں  دین کا علم حاصل تھا اور وہ اس پرکاربندتھے  وہ عرض کریں  گے  اے  ہمارے  رب! آج کفار و مشرکین کے  لئے  ذلت و رسوائی اوربدبختی ہے  ،    اللہ   تعالیٰ اہل علم کے  قول پرمزیداضافہ فرمائے  گاکہ ہاں  ، انہی کفارومشرکین کے  لئے  جوتمام زندگی شرک میں  بسرکرنے  کے  بعدموت کے  وقت جب ملائکہ ان کی روحیں  قبض کرنے  لگتے  ہیں  توسرکشی وبغاوت چھوڑ کر فورا فرمانبرداری اورعاجزی کامظاہرہ کرتے  ہیں  اور ملائکہ کویقین دلانے  کے  لئے  کہتے  ہیں  ہم تو کوئی برا کام نہیں  کر رہے  تھے  ،  ایک مقام پر فرمایاکہ میدان محشرمیں  بھی وہ جھوٹی قسمیں  کھاکرکہیں  گے  کہ ہم ہرگزمشرک نہ تھے ۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْٓا اَیْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۲۲ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ۝۲۳ [71]

ترجمہ:جس روزہم ان سب کو اکٹھا کریں  گے  اور مشرکوں  سے  پوچھیں  گے  کہ اب وہ تمہارے  ٹھیرائے  ہوئے  شریک کہاں  ہیں  جن کو تم اپنا الہہ سمجھتے  تھے  تووہ اس کے  سوا کوئی فتنہ نہ اٹھاسکیں  گے  کہ (یہ جھوٹا بیان دیں  کہ ) اے  ہمارے  آقا!تیری قسم ہم ہرگزمشرک نہ تھے  ۔

یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللهُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَـمَا یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰی شَیْءٍ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ۝۱۸ [72]

ترجمہ: جس روز  اللہ   ان سب کواٹھائے  گاوہ اس کے  سامنے  بھی اسی طرح قسمیں  کھائیں  گے  جس طرح تمہارے  سامنے  کھاتے  ہیں  اور اپنے  نزدیک یہ سمجھیں  گے  کہ اس سے  ان کا کچھ کام بن جائے  گا، خوب جان لووہ پرلے  درجے  کے  جھوٹے  ہیں  ۔

ملائکہ انہیں  جہنم واصل ہونے  کی پیشگی خبردیتے  ہوئے  ڈانٹ کر کہتے  ہیں  تم جھوٹ بول رہے  ہوتمہاری توتمام عمرہی کفروشرک میں  گزری ہے  اور  اللہ   تعالیٰ نے  تمہارے  قبیح اعمال کاریکاڈمحفوظ کررکھاہے  ، اب تمہارا انکارمحض بے  کاراور لاحاصل ہے  اب جہنم کے  دروازوں  میں  ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے  داخل ہو جاؤ ، احادیث سے  ثابت ہے  کہ کفارو مشرکین کی روحیں  موت کے  فوراًبعدجہنم میں  چلی جاتی ہیں  اوران کے  جسم قبرمیں  رہتے  ہیں  جہاں    اللہ   تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے  جسم وروح میں  بعدکے  باوجودان میں  یک گونہ تعلق پیداکرکے  ان کو عذاب دیتاہے  اورصبح شام ان پرآگ پیش کی جاتی ہے ، جیسے  فرمایا

اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۔ ۔ ۔  ۝۴۶ [73]

ترجمہ:دوزخ کی آگ ہے  جس کے  سامنے  صبح وشام پیش کیے  جاتے  ہیں  ۔

پھرجب قیامت برپاہوگی توان کی روحیں  ان کے  جسموں  میں  لوٹ آئیں  گی اورہمیشہ کے  لئے  جہنم میں  داخل کردیے  جائیں  گے  پس حقیقت یہ ہے  کہ حق کی تکذیب کرنے  والوں  کے  لئے  جہنم بڑاہی برا ٹھکانا ہے ، کیونکہ یہ حسرت وندامت کاٹھکانا،  الم وشقاوت کی منزل، رنج وغم کامقام اور  اللہ   حیی وقیوم کی سخت ناراضی کامقام ہے  ۔

 وَقِیلَ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَیْرًا ۗ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا فِی هَٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٣٠﴾‏ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَهَا تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ لَهُمْ فِیهَا مَا یَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ یَجْزِی اللَّهُ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٣١﴾‏ الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَیِّبِینَ ۙ یَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَیْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ هَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِیَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ یَأْتِیَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ فَأَصَابَهُمْ سَیِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٣٤﴾‏(النحل)
’’اور پرہیزگاروں  سے  پوچھا جاتا ہے  کہ تمہارے  پروردگار نے  کیا نازل فرمایا ہے  ؟ تو جواب دیتے  ہیں  اچھے  سے  اچھا ، جن لوگوں  نے  بھلائی کی ان کے  لیے  اس دنیا میں  بھلائی ہے ،  اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے  اور کیا ہی خوب پرہیزگاروں  کا گھر ہے ،  ہمیشگی والے  باغات جہاں  وہ جائیں  گے  جن کے  نیچے  نہریں  بہہ رہی ہیں ،  جو کچھ طلب کریں  گے  وہاں  ان کے  لیے  موجود ہوگا،  پرہیزگاروں  کو   اللہ   تعالیٰ اسی طرح بدلے  عطا فرماتا ہے ، وہ جن کی جانیں  فرشتے  اس حال میں  قبض کرتے  ہیں  کہ وہ پاک صاف ہوں  کہتے  ہیں  کہ تمہارے  لیے  سلامتی ہی سلامتی ہے ،  جاؤ جنت میں  اپنے  ان اعمال کے  بدلے  جو تم کرتے  تھے  ،  کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے  ہیں  کہ ان کے  پاس فرشتے  آجائیں  یا تیرے  رب کا حکم آجائے  ؟ ایسا ہی ان لوگوں  نے  بھی کیا تھا جو ان سے  پہلے  تھے ،  ان پر   اللہ   تعالیٰ نے  کوئی ظلم نہیں  کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں  پر ظلم کرتے  رہے ،  پس ان کے  برے  اعمال کے  نتیجے  انہیں  مل گئے  اور جس کی ہنسی اڑاتے  تھے  اس نے  ان کو گھیر لیا۔ ‘‘

متقیوں  کے  لئے  بہترین جزا:

کفارو مشرکین کے  مقابلے  میں  اہل ایمان کاذکرفرمایاکہ جب مکہ مکرمہ سے  باہرکے  لوگ پرہیزگاروں  سے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اورکلام الٰہی کے  بارے  میں  پوچھتے  ہیں  تووہ لوگوں  کو بہکانے  اورشک وشبہ میں  ڈالنے  کی باتیں  نہیں  کرتے  بلکہ وہ کلام الٰہی کے  بارے  میں  کہتے  ہیں  کہ   اللہ   نے  اپنے  فضل وکرم سے  ایک ایسی عظیم نعمت نازل فرمائی ہے  جو سراسربرکت ورحمت ہے  اور انہیں  اسلام کی صحیح تعلیمات سے  آگاہ کرتے  ہیں  ، اس طرح جن لوگوں  نے  پرہیز گاری اختیارکی اور  اللہ   کے  بندوں  کے  ساتھ بھلائی کی ان کے  لئے  اس دنیامیں  ہی وسیع رزق ،  بہترین زندگی، اطمینان قلب اورامن وسرور ہے  اورآخرت کاگھرتودنیاکے  گھراوراس میں  موجودلذات وشہوات سے  بہتر ہے ۔

وَلَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۝۴ۭ [74]

ترجمہ:یقیناً تیرے  لئے  انجام آغاز سے  بہتر ہوگا ۔

متقیوں  کے  لئے  دائمی قیام کی جنتیں  ہیں  اور وہ بڑا ہی اچھا ٹھکانہ ہے جن میں  وہ   اللہ   کی رحمت سے  داخل ہوں  گے ، ان کے  محلات کے  نیچے  انواع و اقسام کی نہریں  بہ رہی ہوں  گی اور وہاں  انسان جس چیزکی تمنا اور آرزو کرے  گاوہی اسے  مل جائے  گاحتی کہ   اللہ   ان کوایسی ایسی نعمتیں  یاددلائے  گاجوکبھی ان کے  خواب وخیال میں  بھی نہ آئی ہوں  گی اورکوئی چیزاس کی پسنداور خواہش کے  خلاف نہیں  ہو گی۔

 ۔ ۔ ۔ وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ۝۰ۚ وَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۷۱ۚ [75]

ترجمہ: اور ہر من بھاتی اور نگاہوں  کو لذت دینے  والی چیز وہاں  موجود ہوگی،  ان سے  کہا جائے  گا تم اب یہاں  ہمیشہ رہو گے  ۔

نہایت بابرکت ہے  وہ ذات جس کے  کرم کی کوئی انتہااوراس کی سخاوت کی کوئی حدنہیں  ، اور  اللہ   پرہیزگاروں  اورتقویٰ شعارلوگوں  کوایسی ہی بہترین جزا دیتا ہے  ،  جیسے  فرمایا

لٰكِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۭ وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝۱۹۸ [76]

ترجمہ: جو لوگ اپنے  رب سے  ڈرتے  ہوئے  زندگی بسرکرتے  ہیں  ان کے  لئے  ایسے  باغ ہیں  جن کے  نیچے  نہریں  بہتی ہیں  ، ان باغوں  میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے  ،   اللہ   کی طرف سے  یہ سامان ضیافت ہے  ان کے  لئے  ، اورجوکچھ   اللہ   کے  پاس ہے  نیک لوگوں  کے  لئے  وہی سب سے  بہترہے ۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ   اللہ   خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۔ ۔ ۔ ۝۸۰ [77]

ترجمہ:مگر جو لوگ علم رکھنے  والے  تھے  وہ کہنے  لگے  افسوس تمہارے  حال پر ،    اللہ   کا ثواب بہتر ہے  اس شخص کے  لیے  جو ایمان لائے  اور نیک عمل کرے  ۔

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖوَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭاِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙصُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ [78]

ترجمہ:مگرتم لوگ دنیاکی زندگی کو ترجیح دیتے  ہو حالانکہ آخرت بہترہے  اورباقی رہنے  والی ہے یہی بات پہلے  آئے  ہوئے  صحیفوں  میں  بھی کہی گئی تھی ، ابراہیم اورموسیٰ کے  صحیفوں  میں  ۔

ان متقیوں  کوجن کی روحیں  پاکیزگی کی حالت میں  جب ملائکہ قبض کرتے  ہیں  توجنت کی خوشخبری دیتے  ہوئے  کہتے  ہیں  تم پر سلام ہو ،   اللہ   تعالیٰ پرایمان اوراس کے  حکم کی تعمیل کے  صلہ میں  جنت میں  داخل ہو جاؤ ،  جیسے  ایک مقام پرفرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰نَحْنُ اَوْلِیٰۗــؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭنُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۝۳۲ۧ [79]

ترجمہ:جن لوگوں  نے  کہاکہ   اللہ   ہمارارب ہے  اورپھروہ اس پر ثابت قدم رہے  یقیناًان پرفرشتے  نازل ہوتے  ہیں  اوران سے  کہتے  ہیں  کہ نہ ڈرونہ غم کرواورخوش ہوجاؤاس جنت کی بشارت سے  جس کاتم سے  وعدہ کیاگیاہے  ، ہم اس دنیا کی زندگی میں  بھی تمہارے  ساتھی ہیں  اورآخرت میں  بھی، وہاں  جوکچھ تم چاہوگے  تمہیں  ملے  گااورہرچیزجس کی تم تمناکروگے  وہ تمہاری ہوگی ، یہ ہے  سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے  جو غفورورحیم ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَنْ یُنَجِّیَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ، قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟قَالَ:وَلاَ أَنَا،  إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّهُ بِرَحْمَةٍ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا(یہ بات اچھی طرح جان لوکہ) تم میں  سے  کسی کو اس کاعمل نجات نہیں  دلاسکے  گاصحابہ کرام رضی   اللہ   عنہم نے  عرض کی آپ کوبھی نہیں  اے    اللہ   کے رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !؟فرمایااورمجھے  بھی نہیں  سوااس کے  کہ   اللہ   تعالیٰ مجھے  اپنے  دامن رحمت میں  سمیٹ لے  ۔  [80]

اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !ہم نے  ان کے  سامنے  کائنات کے  پورے  نظام کی شہادتیں  پیش کردی ہیں  ،   اللہ   کی الوہیت اورربوبیت کے  دلائل وبراہین بیان کر دیے  ہیں  ، راہ راست اور گمراہی کے  دونوں  راستوں  کوواضح کردیاہے  ، حق وباطل میں  فرق کرنے  والی کتاب نازل کردی ہے  ، سوچنے  اورسمجھنے  کے  لئے  کافی ڈھیل بھی دے  دی ہے  پھریہ لوگ کیوں  دعوت حق پرایمان لانے  میں  تامل کر رہے  ہیں  ، کیایہ اس کا انتظار کر رہے  ہیں  کہ ملک الموت دوسرے  ملائکہ کے  ہمراہ ان کی روحیں  قبض کرنے  آپہنچیں  ،  یا  اللہ   ان پرعذاب نازل کر دے  یا قیامت اپنی تمام ترہولناکیوں  اورحشرسامانیوں  کے  ساتھ برپاہو جائے  کیایہ اس وقت ایمان لائیں  گے ؟ مگراس وقت کاایمان لانامحض لاحاصل ہے  ، اسی طرح کی سرکشی وبغاوت اورحق کی تکذیب ان سے  پہلے  بھی بہت سی اقوام کرچکی ہیں  جس کی بناپروہ   اللہ   کے  قہروغضب کاشکارہوئے  ،    اللہ   نے  ان پرجوعذاب نازل کیاوہ ان پر  اللہ   کاظلم نہ تھابلکہ وہ دعوت حق کی تکذیب اور رسولوں  کی مخالفت کرکے  خوداپنے  اوپر ظلم کرنے  والے  تھے ،   اللہ   تعالیٰ نے  انہیں  سوچنے  سمجھنے  اورسنبھلنے  کے  لئے  لمبی ڈھیل دی مگراس پروہ اور سرکش ہوگئے  ،  آخرکارایک وقت مقررہ پران کے  اعمال بدکاوبال ان کے  دامنگیر ہو گیا اورجب رسول انہیں  تنبیہ کرتا تھا کہ ہرطرف سے  منہ موڑکر   اللہ   وحدہ لاشریک پرایمان لے  آؤاور  اللہ   اوراس کے  رسول کی اطاعت کرو تو یہ استہزا کرتے  ہوئے  کہتے  تھے  کہ اگرتوسچاہے  توہم پردردناک عذاب نازل کردے  ، چنانچہ جس عذاب کاوہ مذاق اڑایا کرتے  تھے  اس نے  انہیں  گھیرلیا اور وہ اپنے  معبودوں  سمیت فناہوگئے ۔

وَقَالَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَیْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَیْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿٣٥﴾‏ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ إِنْ تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی مَنْ یُضِلُّ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِینَ ‎﴿٣٧﴾‏(النحل)
’’مشرک لوگوں  نے  کہا اگر   اللہ   تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے  باپ دادے  اس کے  سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے ،  نہ اس کے  فرمان کے  بغیر کسی چیز کو حرام کرتے ، یہی فعل ان سے  پہلے  لوگوں  کا رہا،  تو رسولوں  پر تو صرف کھلم کھولا پیغام پہنچا دینا ہے ، ہم نے  ہر امت میں  رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف   اللہ   کی عبادت کرو اور اس کے  سوا تمام معبودوں  سے  بچو،  پس بعض لوگوں  کو تو   اللہ   تعالیٰ نے  ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی،  پس تم خود زمین میں  چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے  والوں  کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ گو آپ ان کی ہدایت کے  خواہشمند رہے  ہیں  لیکن   اللہ   تعالیٰ اسے  ہدایت نہیں  دیتا جسے  گمراہ کردے  اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے  ۔ ‘‘

یہ مشرکین مشیت الٰہی کودلیل بناکرکہتے  ہیں  اگر  اللہ   چاہتاتونہ ہم اورنہ ہمارے  باپ داداغیر  اللہ   کی عبادت کرتے  اورنہ ہم مویشیوں  کوحرام ٹھیراتے  جسے    اللہ   نے  حلال قرار دیا ہے ، مثلاًبحیرہ، وصیلہ اورحام وغیرہ ، اگرہماری یہ باتیں  غلط ہیں  تو  اللہ   اپنی قدرت کاملہ سے  ہمیں  ایساکرنے  سے  روک کیوں  نہیں  دیتا، اگروہ چاہے  توہم ان کاموں  کوکرہی نہیں  سکتے  اوراگروہ نہیں  روکتاتواس کا مطلب ہے  کہ ہم جوکچھ کر رہے  ہیں    اللہ   کی مشیت کے  مطابق ہے  ،   اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  اس مغالطے ، شبہات کاازالہ فرمایاکہ تم لوگ   اللہ   کی مشیت کو اپنی گمراہی اوربداعمالیوں  کے  لئے  حجت بنارہے  ہوتو کوئی نئی بات نہیں  کررہے  ہو تم سے  پہلی اقوام بھی ا پنے  ضمیرکودھوکادینے  اورناصحوں  کامنہ بندکرنے  کے  لئے  ایسے  ہی حیلے  بہانے  بناتی رہی ہیں  ، مگر تمہارا گمان صحیح نہیں  ہے  کہ   اللہ   تعالیٰ نے  تمہیں  ان کاموں  سے  روکانہیں  ہے  ،   اللہ   تعالیٰ توان مشرکانہ امورکوسختی سے  روکنے  کے  لئے  ہرقوم میں  رسول بھیجتا اورہدایت ورہنمائی کے  لئے  ان پر کتابیں  نازل فرماکرحجت قائم کرتارہاہے  ، اورہرنبی نے  قوم کے  معاشی ومعاشرتی مسائل کوبالائے  طاق رکھ کرسب سے  پہلے  یہی نصیحت کی کہ   اللہ   وحدہ لاشریک کی بندگی کروجواس عظیم الشان کائنات کاخالق اوراپنی بحروبر کی انگنت مخلوقات کارازق ہے  ،  جس نے  اپنے  فضل وکرم سے  انسانوں  کو ان گنت نعمتیں  عطافرمارکھی ہیں  اورغیر  اللہ   کی بندگی سے  بچو کہ یہ ظلم عظیم ہے  جس کی بخشش نہیں  ہے  ،  جیسے  ایک مقام پرفرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [81]

ترجمہ:ہم نے  تم سے  پہلے  جورسول بھی بھیجاہے  اس کویہی وحی کی ہے  کہ میرے  سواکوئی الٰہ نہیں  ہے  پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَةً یُّعْبَدُوْنَ۝۴۵ۧ [82]

ترجمہ: تم سے  پہلے  ہم نے  جتنے  رسول بھیجے  تھے  ان سب سے  پوچھ دیکھو کیا ہم نے  خدائے  رحمان کے  سوا کچھ دوسرے  معبود بھی مقرر کیے  تھے  کہ ان کی بندگی کی جاے ؟ ۔

جس سے  صاف ظاہرہے  کہ   اللہ   یہ پسندنہیں  کرتا کہ اس کی ذات وصفات ، افعال اورحقوق میں  اس کی مخلوق کواس کاشریک ٹھیرایاجائے لیکن اس کے  باوجودتم نے  دعوت حق اوررسولوں  کی تکذیب کرکے  شرک کاراستہ اختیارکیا ،  اگر   اللہ   نے  اپنی مشیت کے  تحت جبرا ًنہیں  روکاتویہ اس کی حکمت ومصلحت کاایک حصہ ہے  جس کے  تحت اس نے  انسانوں  کوارادہ واختیارکی آزادی دی ہے  کیوں  کہ اس کے  بغیر ان کی آزمائش ممکن ہی نہ تھی ،  جیسے  ایک مقام پرفرمایا

سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا۝۰ۭ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ۝۱۴۸قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ۝۰ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۱۴۹ [83]

ترجمہ:یہ مشرک لوگ(تمہاری ان باتوں  کے  جواب میں  )ضرورکہیں  گے  کہ اگر  اللہ   چاہتاتونہ ہم شرک کرتے  اورنہ ہمارے  باپ دادا اورنہ ہم کسی چیزکوحرام ٹھہراتے ، ایسی ہی باتیں  بنابناکران سے  پہلے  کے  لوگوں  نے  بھی حق کوجھٹلایاتھایہاں  تک کہ آخر کارہمارے  عذاب کامزاانہوں  نے  چکھ لیا، ان سے  کہو کیا تمہارے  پاس کوئی علم ہے  جسے  ہمارے  سامنے  پیش کرسکو؟تم تومحض گمان پرچل رہے  ہواورنری قیاس آرائیاں  کرتے  ہو، پھرکہو(تمہاری اس حجت کے  مقابلہ میں  ) حقیقت رس حجت تو  اللہ   کے  پاس ہے  ،  بے  شک اگر  اللہ   چاہتاتوتم سب کوہدایت دے  دیتا۔

جب رسولوں  نے  یہ پیغام پہنچادیاکہ   اللہ   وحدہ لاشریک کی بندگی کرواورطاغوت کی بندگی سے  بچوتواس کے  بعدان میں  سے  کسی کو  اللہ   نے  ہدایت بخشی اورانہوں  نے  علم وعمل کے  لحاظ سے  رسولوں  کی اتباع کی ، اورجن پرگمراہی ثابت ہوچکی تھی انہوں  نے  اس دعوت کی کوئی پرواہ نہ کی اوران پر ضلالت مسلط ہو کررہی ، پھر ذر ا زمین میں  چل پھر کر دیکھ لو کہ دعوت حق اور رسولوں  کی تکذیب کرنے  والوں  کاکیاانجام ہوچکاہے ، جیسے  فرمایا

وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ۝۱۸ [84]

ترجمہ:ان سے  پہلے  گزرے  ہوئے  لوگ جھٹلا چکے  ہیں  پھر دیکھ لو میری گرفت کیسی سخت تھی۔

اے  نبی!تمہاری خواہش یقیناًیہی ہے  کہ تمام لوگ طاغوت کی بندگی سے  تائب ہوکرراہ راست اختیارکر لیں  مگر  اللہ   جس کو راہ راست سے  بھٹکا دیتاہے  پھر اسے  ہدایت نہیں  دیاکرتااگرچہ وہ ہدایت کاہرسبب ہی کیوں  نہ استعمال کرلے  ،  جیسے  فرمایا

 ۔ ۔ ۔ وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَـیْـــــًٔـا۔ ۔ ۔ [85]

ترجمہ:جسے    اللہ   ہی نے  فتنہ میں  ڈالنے  کاارادہ کرلیاہواس کو  اللہ   کی گرفت سے  بچانے  کے  لئے  تم کچھ نہیں  کرسکتے ۔

نوح علیہ السلام نے  بھی اپنی قوم کویہی فرمایاتھا

وَلَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ ۔ ۔ ۔ ۝۳۴ۭ [86]

ترجمہ:اب اگرمیں  تمہاری کچھ خیرخواہی کرنابھی چاہوں  تومیری خیرخواہی تمہیں  کوئی فائدہ نہیں  دے  سکتی جب کہ   اللہ   ہی نے  تمہیں  بھٹکادینے  کاارادہ کرلیاہو۔

 مَنْ یُّضْلِلِ   اللہ   فَلَا ہَادِیَ لَہٗ۝۰ۭ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۝۱۸۶       [87]

ترجمہ:جس کو   اللہ   رہنمائی سے  محروم کر دے  اس کے  لیے  پھر کوئی رہنما نہیں  ہے ،  اور   اللہ   انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکتا ہوا چھوڑے  دیتا ہے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙوَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [88]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے  کہ جن لوگوں  پرتیرے  رب کاقول راست آگیاہے  ان کے  سامنے  خواہ کوئی نشانی آجائے  وہ کبھی ایمان لاکرنہیں  دیتے  جب تک کہ دردناک عذاب سامنے  آتانہ دیکھ لیں  ۔

اور اس طرح کے  لوگوں  کی   اللہ   کے  عذاب کے  مقابلے  میں  کوئی مددبھی نہیں  کرسکتااورنہ بچاسکتاہے ۔

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَیْمَانِهِمْ ۙ لَا یَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ یَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی یَخْتَلِفُونَ فِیهِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِینَ ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ ‎﴿٤٠﴾‏ وَالَّذِینَ هَاجَرُوا فِی اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿٤١﴾‏ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٤٢﴾‏(النحل)
’’وہ لوگ بڑی سخت سخت قسمیں  کھا کھا کر کہتے  ہیں  کہ مردوں  کو   اللہ   زندہ نہیں  کرے  گا،  کیوں  نہیں  ضرور زندہ کرے  گا یہ اس کا برحق لازمی وعدہ ہے ،  لیکن اکثر لوگ نہیں  جانتے  ،  اس لیے  بھی کہ یہ لوگ جس چیز میں  اختلاف کرتے  تھے  اسے    اللہ   تعالیٰ صاف بیان کردے ،  اور اس لیے  بھی کہ خود کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں  ،  ہم جب کسی چیز کا ارادہ کرتے  ہیں  تو صرف ہمارا یہ کہہ دینا ہوتا ہے  کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے ،  جن لوگوں  نے  ظلم برداشت کرنے  کے  بعد   اللہ   کی راہ میں  ترک وطن کیا ہے  ہم انھیں  بہتر سے  بہتر ٹھکانا دنیا میں  عطا فرمائیں  گے  اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے ،  کاش کہ لوگ اس سے  واقف ہوتے ،  وہ جنہوں  نے  دامن صبر نہ چھوڑا اور اپنے  پالنے  والے  ہی پر بھروسہ کرتے  رہے ۔ ‘‘

یقیناًایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوگی :

پچھلی تباہ شدہ اقوام کی طرح مشرکین مکہ بھی بعث بعدا لموت کوبعیدازامکان سمجھتے  تھے  ، اس لئے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم انہیں  حیات بعد الموت ، حشرونشراورجزاوسزاکے  بارے  میں  تنبیہ کرتے  تووہ بڑے  یقین کے  ساتھ   اللہ   کی تاکیدی قسمیں  کھاکرکہتے  کہ   اللہ   کسی مرنے  والے  کوپھرسے  زندہ کرکے  نہ اٹھائے  گا ،    اللہ   تعالیٰ نے  مشرکین کی تردید میں  فرمایا کیوں  نہیں  اٹھائے  گا ؟یہ تو ایک پکا وعدہ ہے  جسے  پوراکرنااس نے  اپنے  اوپرواجب کرلیاہے مگراکثرلوگ جہالت اوربے  علمی کی وجہ سے  رسولوں  کی تکذیب و مخالفت کرتے  ہیں  ،  وقوع قیامت کی حکمت وعلت بیان فرمائی کہ قیامت کا وقوع ہونااس لئے  ضروری ہے  کہ اس دن   اللہ   تعالیٰ عدل وانصاف کے  تمام تقاضے  پورے  کرکے  حق و باطل کے  درمیان فیصلہ فرمائے  گا اوراہل تقویٰ کو بہترین جزا اور اہل کفروفسق کوان کے  برے  اعمال کی سخت سزادے  گا، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ      [89]

ترجمہ: تاکہ   اللہ   برائی کرنے  والوں  کو ان کے  عمل کا بدلہ دے  اور ان لوگوں  کو اچھی جزا سے  نوازے  جنہوں  نے  نیک رویہ اختیار کیا ہے  ۔

اورتاکہ منکرین حق کومعلوم ہوجائے  کہ وہ قیامت کے  عدم وقوع پرجوکڑی قسمیں  کھاتے  تھے  ان میں  وہ جھوٹے  تھے  اوران کے  عقائدو اعمال ان کی حسرت کاباعث بن جائیں  ، چنانچہ جب مشرکوں  اورکافروں  کومنہ کے  بل گھسیٹ گھسیٹ کرجہنم میں  پھینک دیاجائے  گاتوجہنم پرمقررفرشتے  ان سے  کہیں  گے ۔

 ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۴اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ۝۱۵ۚاِصْلَوْہَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا۝۰ۚ سَوَاۗءٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۶      [90]

ترجمہ:اس وقت ان سے  کہا جائے  گا کہ یہ وہی آگ ہے  جسے  تم جھٹلایا کرتے  تھے ، اب بتاؤ یہ جادو ہے  یا تمہیں  سوجھ نہیں  رہا ہے  ؟ جاؤ اب جھلسو اس کے  اندر،  تم خواہ صبر کرو یا نہ کروتمہارے  لیے  یکساں  ہے  تمہیں  ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے  جیسے  تم عمل کر رہے  تھے  ۔

لوگوں  کے  نزدیک قیامت کابرپاہونا اور انسانوں  کا دوبارہ قبروں  سے  زندہ ہوناکتناہی بعیدازامکان ہومگر عظمتوں  اورعزتوں  والے    اللہ   کی قدرت سے  توکوئی چیزبعیدنہیں  ،    اللہ   کو توکسی چیزکووجودمیں  لانے  کے  لئے  کسی قسم کے  سروسامان، کسی قسم کے  اسباب ووسائل وغیرہ کی ضرورت نہیں  پڑتی، کوئی چیزاس کے  دائرہ اختیارسے  خارج نہیں  ، وہ جب کسی چیز کو وجود میں  لانے  کا ارادہ فرماتاہے  تو بس اسے  حکم دیتاہے  کہ ہو جااوروہ پلک جھپکنے  سے  بھی کم مدت میں  وجودمیں  آ جاتی ہے ۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷  [91]

ترجمہ:وہ آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے ،  اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے  لیے  بس یہ حکم دیتا ہے  کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے ۔

وَہُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَیَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۰ۥۭ قَوْلُہُ الْحَقُّ۔ ۔ ۔ ۝۷۳      [92]

ترجمہ:وہی ہے  جس نے  آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے  اور جس دن وہ کہے  گا کہ حشر ہو جائے  اسی دن وہ ہو جائے  گا اس کا ارشاد عین حق ہے  ۔

اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [93]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے  تو اس کا کام بس یہ ہے  کہ اسے  حکم دے  کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے ۔

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰   [94]

ترجمہ:اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے  اور پلک جھپکتے  وہ عمل میں  آ جاتا ہے ۔

جس طرح اس نے  اپنے  قدرت کے  کلمہ سے  اس فانی کائنات کووجودبخشاہے  اسی طرح اس کے  حکم سے  وہ دوسری دائمی دنیاآناًفاناًوجودمیں  آجائے  گی ، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَاَقْرَبُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۷۷ [95]

ترجمہ:اورقیامت کے  برپاہونے  کامعاملہ کچھ دیرنہ لے  گامگربس اتنی کہ جس میں  آدمی کی پلک جھپک جائے  بلکہ اس سے  بھی کچھ کم، حقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   سب کچھ کر سکتا ہے  ۔

مشرکین نے  جن لوگوں  پرشرک کی طرف واپس لانے  کے  لئے  انسانیت سوزظلم وستم ڈھایا، ان کوآزمائش اورابتلاء میں  ڈالاگیااورپھروہ صبرسے  کام لیتے  رہے  ، اورپھر   اللہ   کے  دین اور  اللہ   کی رضاوخوشنودی کی خاطراپناوطن، اپنے  رشتہ دار ،  دوست احباب اورکاروباروغیرہ چھوڑ کر ہجرت کرگئے  ہیں  ، وہ دونوں  جہانوں  میں    اللہ   کے  ہاں  معززو محترم ہیں  ، ہم ان کو دنیا میں  بھی اچھا نعم البدل عنایت فرمائیں  گے  یعنی کشادہ رزق اورخوشحال زندگی، دشمنوں  کے  خلاف فتح ونصرت، مال غنیمت وغیرہ عطافرمائیں  گے  اور آخرت کا اجر تو بہت بڑاہے  ،  جیسے  فرمایا

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ۝۰ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ۝۲۱ۙخٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۝۲۲    [96]

ترجمہ:   اللہ   کے  ہاں  توانہی لوگوں  کا بڑادرجہ ہے  جوایمان لائے  اورجنہوں  نے  اس کی راہ میں  گھربارچھوڑے  اورجان ومال سے  جہادکیا، وہی کامیاب ہیں  ان کارب انہیں  اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں  کی بشارت دیتاہے  جہاں  ان کے  لئے  پائیدارعیش کے  سامان ہیں  ، ان میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے  یقیناً  اللہ   کے  پاس خدمات کاصلہ دینے  کوبہت کچھ ہے  ۔

کاش جان لیں  وہ مظلوم جنہوں  نے  ایذاؤں  پر صبر کیاہے  اورجواپنے  رب پرتوکل کرتے  ہیں  کہ آخرت میں  کیسااچھا انجام ان کا منتظر ہے ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنْزَلْنَا إِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ أَفَأَمِنَ الَّذِینَ مَكَرُوا السَّیِّئَاتِ أَنْ یَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ یَأْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ أَوْ یَأْخُذَهُمْ فِی تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ أَوْ یَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ ‎﴿٤٧﴾(النحل)
’’ آپ سے  پہلے  بھی ہم مردوں  کو ہی بھیجتے  رہے ،  جن کی جانب وحی اتارا کرتے  تھے  پس اگر تم نہیں  جانتے  تو اہل علم سے  دریافت کرلو،  دلیلوں  اور کتابوں  کے  ساتھ،  یہ ذکر (کتاب) ہم نے  آپ کی طرف اتارا ہے  کہ لوگوں  کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے  آپ اسے  کھول کھول کر بیان کردیں  شاید کہ وہ غور و فکر کریں ،  بدترین داؤ پیچ کرنے  والے  کیا اس بات سے  بے خوف ہوگئے  ہیں  کہ   اللہ   تعالیٰ انہیں  زمین میں  دھنسا دے  یا ان کے  پاس ایسی جگہ سے  عذاب آجائے  جہاں  کا انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو،  یا انہیں  چلتے  پھرتے  پکڑلے  ، یہ کسی صورت میں    اللہ   تعالیٰ کو عاجز نہیں  کرسکتے ، یا انہیں  ڈرا دھمکا کر پکڑ لے ،  پس یقیناً تمہارا پروردگار اعلٰی شفقت اور انتہائی رحم والا ہے  ۔ ‘‘

بشررسول پراختلاف :

پچھلی اقوام کی طرح قریش مکہ بھی بشررسول کوتسلیم نہیں  کرتے  تھے  ، ان کاخیال تھاکہ اگر  اللہ   نے  کوئی رسول بھیجناہی تھاتوکسی فرشتے  کوبھیجتے  یااگرانسان ہی بھیجناتھاتوطائف کے  کسی بڑے  سردارکومنتخب کرتا، محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم میں  ایسی کیابات ہے  کہ   اللہ   نے  انہیں  اپنارسول منتخب کیاہے  ، ان کے  اس خیال کی تردیدمیں  فرمایا اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! ہم نے  تم سے  پہلے  بھی جس قوم میں  رسول بھیجے  وہ بشر ہی تھے  جن کی طرف ہم شریعت اوراحکام وحی کیاکرتے  تھے  ، جیسے  فرمایا

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۔ ۔ ۔  ۝۲ [97]

ترجمہ:کیالوگوں  کے  لئے  یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے  خودانہی میں  سے  ایک آدمی پروحی بھیجی کہ(غفلت میں  پڑے  ہوئے )لوگوں  کوچونکادے  اورجومان لیں  ان کوخوشخبری دے  دے  کہ ان کے  لئے  ان کے  رب کے  پاس سچی عزت وسرفرازی ہے  ؟ ۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔ ۔ ۔   [98]

ترجمہ:اے  نبی!تم سے  پہلے  ہم نے  جو پیغمبربھیجے  تھے  وہ سب بھی انسان ہی تھے  اور انہی بستیوں  کے  رہنے  والوں  میں  سے  تھے ۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِكُمْ۔ ۔ ۔ ۝۹      [99]

ترجمہ:ان سے  کہومیں  کوئی نرالا رسول تو نہیں  ہوں  میں  نہیں  جانتا کہ کل تمہارے  ساتھ کیا ہونا ہے  اور میرے  ساتھ کیا ۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۔ ۔ ۔  ۝۱۱۰ۧ     [100]

ترجمہ:اے  نبی ( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ! کہو کہ میں  تو ایک انسان ہوں  تم ہی جیسا۔

اگرتم لوگوں  کوگزشتہ امتوں  کے  بارے  میں  کوئی خبرنہیں  تو یہود و نصاریٰ سے  دریافت کرلو جو علم رکھتے  ہیں  ، جن پر  اللہ   تعالیٰ کی کتابیں  اورمعجزات نازل ہوئے  کہ انبیاء انسانوں  میں  سے  تھے  یاملائکہ میں  سے  ؟اگروہ ملائکہ تھے  توتم محمدرسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم رسالت کوتسلیم نہ کرنے  میں  حق بجانب ہو اوراگرانبیاء بشر ہی تھے  توپھرمحمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرکے  تم ایک بڑے  جرم کے  مرتکب ہورہے  ہو جس کی سزاجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے  ، پچھلے  رسولوں  کوبھی ہم نے  ان کی رسالت کی صداقت پرمبنی واضح دلائل دے  کر مبعوث کیاتھا اورہدایت ورہنمائی کے  لئے  ان پرکتابیں  اورصحیفے  نازل کیے  تھے  اوراب یہ ذکر (یعنی قرآن) تم پرنازل کیا ہے ، جیسے  فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹   [101]

ترجمہ:اس ذکرکوہم نے  نازل کیاہے  اورہم خوداس کے  نگہبان ہیں  ۔

تاکہ تم لوگوں  کے  سامنے  اس تعلیم کی زبان اورعمل سے  واضح تشریح وتوضیح کرتے  جاؤجوان کی ہدایت ورہنمائی کے  لئے  نازل کی گئی ہے اورتاکہ وہ سوچیں  ، سمجھیں  اورراہ پائیں  ، پھر کیاوہ لوگ جودعوت حق کی مخالفت میں  بدترین چالیں  چل رہے  ہیں  اس بات سے  بالکل ہی بے  خوف ہوگئے  ہیں  کہ   اللہ   ان کوزمین میں  دھنسادے  یاایسے  گوشے  سے  ان پر عذاب لے  آئے  جدھرسے  اس کے  آنے  کا ان کووہم وگمان تک نہ ہویااچانک چلتے  پھرتے  ان کوپکڑ لے  یاایسی حالت میں  انہیں  پکڑے  جب کہ انہیں  خودآنے  والی مصیبت کاکھٹکالگاہواہواوروہ اس سے  بچنے  کی فکرمیں  چوکنے  ہوں  ؟جیسے  فرمایا

ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ۝۱۶ۙاَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا۝۰ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ۝۱۷         [102]

ترجمہ: کیا تم اس سے  بے  خوف ہوکہ وہ جوآسمان میں  ہے  تمہیں  زمین میں  دھنسادے  اوریکایک یہ زمین جھکولے  کھانے  لگے ؟کیاتم اس سے  بے  خوف ہوکہ وہ جو آسمان میں  تم پر پتھراؤ کرنے  والی ہوابھیج دے ؟پھرتمہیں  معلوم ہوجائے  گاکہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے ۔

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِـیَهُمْ بَاْسُـنَا بَیَاتًا وَّهُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۹۷ۭاَوَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِـیَهُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّهُمْ یَلْعَبُوْنَ۝۹۸اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللهِ۝۰ۚ فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹۹ۧ      [103]

ترجمہ:پھرکیابستیوں  کے  لوگ اب اس سے  بے  خوف ہوگئے  ہیں  کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پررات کے  وقت نہ آجائے  گی جب کہ وہ سوئے  پڑے  ہوں  ؟یاانہیں  اطمینان ہوگیاہے  کہ ہمارامضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پردن کے  وقت نہ پڑے  گاجب کہ وہ کھیل رہے  ہوں  ؟کیایہ لوگ   اللہ   کی چال سے  بے  خوف ہیں  ؟ حالانکہ   اللہ   کی چال سے  وہی قوم بے  خوف ہوتی ہے  جوتباہ ہونے  والی ہو ۔

اللہ   تعالیٰ جب چاہے  ان صورتوں  میں  تمہارامواخذہ کرسکتاہے  اور تم لوگ اس کوعاجز کرنے  کی طاقت نہیں  رکھتے  ،  حقیقت یہ ہے  کہ تمہارارب بڑاہی نرم خو اور رحیم ہے ، اس لئے  گناہوں  پرفوراًمواخذہ نہیں  کرتابلکہ سوچنے  سمجھنے  اورتوبہ استغفار کے  لئے  ڈھیل دیتا ہے  ،

عَنْ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ،  قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللَّهِ یَدَّعُونَ لَهُ الوَلَدَ ثُمَّ یُعَافِیهِمْ وَیَرْزُقُهُمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاخلاف طبع باتیں  سن کر صبر کرنے  میں    اللہ   تعالیٰ سے  بڑھ کرکوئی نہیں  ، لوگ اس کی اولادٹھیراتے  ہیں  اورپھربھی وہ انہیں  معاف کرتاہے  اورانہیں  رزق دیتاہے ۔ [104]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ}[105]

ابوموسیٰ اشعری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں  مہلت دیتارہتاہے  لیکن جب پکڑ تاہے  توپھرنہیں  چھوڑتاپھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  آیت تلاوت فرمائی’’ اورتیرارب جب کسی ظالم بستی کوپکڑتاہے  توپھراس کی پکڑایسی ہی ہواکرتی ہے  ، فی الواقع اس کی پکڑبڑی سخت اوردردناک ہوتی ہے ۔ ‘‘[106]

اورایک مقام پرفرمایا

وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا۝۰ۚ وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۴۸ۧ   [107]

ترجمہ:کتنی ہی بستیاں  ہیں  جوظالم تھیں  میں  نے  ان کوپہلے  مہلت دی پھرپکڑلیااورسب کوواپس تومیرے  ہی پاس آناہے ۔

أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَیْءٍ یَتَفَیَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ یَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ ۩ ‎﴿٥٠﴾‏ ۞ وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَیْنِ اثْنَیْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِیَّایَ فَارْهَبُونِ ‎﴿٥١﴾‏ وَلَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّینُ وَاصِبًا ۚ أَفَغَیْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ (النحل)
’’کیا انہوں  نے    اللہ   کی مخلوق میں  سے  کسی کو بھی نہیں  دیکھا؟ کہ اس کے  سائے  دائیں  بائیں  جھک جھک کر   اللہ   تعالیٰ کے  سامنے  سر بسجود ہوتے  اور عاجزی کا اظہار کرتے  ہیں ،  یقیناً آسمان و زمین کے  کل جاندار اور تمام فرشتے    اللہ   تعالیٰ کے  سامنے  سجدے  کرتے  ہیں  اور ذرا بھی تکبر نہیں  کرتے ، اور اپنے  رب سے  جو ان کے  اوپر ہے  کپکپاتے  رہتے  ہیں  اور جو حکم مل جائے  اس کی تعمیل کرتے  ہیں ،    اللہ   تعالیٰ ارشاد فرما چکا ہے  کہ دو معبود نہ بناؤ،  معبود تو صرف وہی اکیلا ہے  پس تم سب میرا ہی ڈر خوف رکھو،  آسمانوں  اور زمین میں  جو کچھ ہے  سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے ،  کیا پھر تم اس کے  سوا اوروں  سے  ڈرتے  ہو ؟۔ ‘‘

عرش سے  فرش تک ہرمخلوق اپنے  معبودحقیقی کی بارگاہ میں  سربسجودہے  :

اللہ   تعالیٰ نے  اپنی عظمت وکبریائی اورجلالت شان کاذکرفرمایاکہ کائنات کی ہرچیزچاہے  وہ جمادات ہوں  یاحیوانات یاجن وانسان اورملائکہ سب کی پیشانیوں  پربندگی کا نشان لگاہواہے  ، کسی کا  اللہ   کی الوہیت یاربوبیت میں  ادنیٰ سابھی حصہ نہیں  ہے  ، چنانچہ ہروہ چیزجس کا سایہ ہے  اوراس کا سایہ دائیں  بائیں  جھکتاہے  تویہ اس کے  مادی ہونے  کی علامت ہے  اورکسی چیزکامادی ہونابندہ ومخلوق ہونے  کاکھلاثبوت ہے  ، اورہرمخلوق اظہار بندگی میں  صبح وشام اپنے  سایہ کے  ساتھ اپنے  خالق اورمعبودحقیقی کوعاجزی کے  ساتھ سجدہ کرتی ہے  اورکائنات کی ہرچیز اسی طرح اظہار عجز کررہی ہے ، زمین اورآسمانوں  میں  جس قدر جان دار مخلوقات اور جتنے  ملائکہ ہیں  سب کے  سب   اللہ   کے  غلام اورتابعداری میں    اللہ   کے  حضور عاجزی کے  ساتھ سربسجودہیں  اور ہرگزتکبر و سرکشی نہیں  کرتے  ، جیسے  فرمایا

وَلِلهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۱۵۞ [108]

ترجمہ:وہ تو  اللہ   ہی ہے  جس کوزمین وآسمان کی ہرچیزطوعاًوکرھاًسجدہ کررہی ہیں  اورسب چیزوں  کے  سائے  صبح وشام اس کے  آگے  جھکتے  ہیں  ۔

اَفَغَیْرَ دِیْنِ   اللہ   یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ۝۸۳ [109]

ترجمہ:اب کیا یہ لوگ   اللہ   کی اطاعت کا طریقہ (دین   اللہ  ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے  ہیں  ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں  چاروناچار   اللہ   ہی کی تابع فرمان (مسلم )ہیں  اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے ؟۔

فرشتے  بھی باوجوداپنی کثرت،  قدرومنزلت اورقوت کے  باوجود   اللہ   کی عبادت سے  انکارنہیں  کرتے ۔

 لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلهِ وَلَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ ۔ ۔  ۝۱۷۲ [110]

ترجمہ:مسیح علیہ السلام نے  کبھی اس بات کوعارنہیں  سمجھاکہ وہ   اللہ   کابندہ ہواورنہ مقرب ترین فرشتے  اس کواپنے  لئے  عارسمجھتے  ہیں  ۔

اوروہ اپنے  رب کے  خوف سے  جوان کے  اوپرہے  لرزاں  وترساں  رہتے  ہیں  اور  اللہ   انہیں  جوکچھ حکم فرماتاہے  اس میں  پس وپیش یاسستی کرنے  کے  بجائے  فوراًخوشی اورپسندیدگی سے  اس کی تعمیل کرتے  ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ ارشادفرماچکا ہے  کہ دومعبود نہ بنالو،   اللہ   توبس وہی ایک ہی اکیلا ہے  ، جسکی الوہیت اور ربوبیت میں  کوئی شریک نہیں  ، وہ اپنی ذات، اپنے  اسماء وصفات اوراپنے  افعال میں  متفردہے  اوروہی بلاشرکت غیرے  تمام کائنات کانظم ونسق چلا رہا ہے ،  اگر کائنات میں  دو الٰہ ہوتے  جیساکہ مجوسیوں  کاعقیدہ ہے  یادوسے  زیادہ معبودہوتے  جیساکہ مشرکین کا عقیدہ ہے  تونظام عالم قائم ہی نہیں  رہ سکتاتھا۔

لَوْ كَانَ فِیْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا۝۰ۚ فَسُبْحٰنَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۲۲     [111]

ترجمہ: اگرآسمان وزمین میں  ایک   اللہ   کے  سوادوسرے  الٰہ بھی ہوتے  تو(زمین و آسمان) دونوں  کا نظام بگڑ جاتا، پس پاک ہے    اللہ   رب العرش ان باتوں  سے  جویہ لوگ بنا رہے  ہیں  ۔

لہذاتم مجھ سے  ہی ڈرواورمیری عبادت واطاعت کولازم قرار دو، جیسے  فرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ۝۲ۭاَلَا لِلهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۳ [112]

ترجمہ:(اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !)یہ کتاب ہم نے  تمہاری طرف برحق نازل کی ہے  لہذاتم   اللہ   ہی کی بندگی کرودین کواسی کے  لئے  خالص کرتے  ہوئے  ، خبرداردین خالص   اللہ   کا حق ہے ۔

اورکائنات کاپورانظام   اللہ   کی اطاعت پرچل رہا ہے  ،  پھرکیاتم   اللہ   کوچھوڑکرکسی اورسے  ڈرتے  ہوجوتمہارے  لئے  کسی طرح کا نفع ونقصان کااختیارنہیں  رکھتے ۔

‏ وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَیْهِ تَجْأَرُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِیقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُونَ ‎﴿٥٤﴾‏لِیَكْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ وَیَجْعَلُونَ لِمَا لَا یَعْلَمُونَ نَصِیبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ وَلَهُمْ مَا یَشْتَهُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِیمٌ ‎﴿٥٨﴾‏ یَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَیُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ یَدُسُّهُ فِی التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ لِلَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٦٠﴾(النحل(
’’تمہارے  پاس جتنی بھی نعمتیں  ہیں  سب اسی کی دی ہوئی ہیں ،  اب بھی جب تمہیں  کوئی مصیبت پیش آجائے  تو اسی کی طرف نالہ اور فریاد کرتے  ہو،  اور جہاں  اس نے  وہ مصیبت تم سے  دفع کردی تم میں  سے  کچھ لوگ اپنے  رب کے  ساتھ شرک کرنے  لگ جاتے  ہیں  کہ ہماری دی ہوئی نعمتوں  کی ناشکری کریں ، اچھا کچھ فائدہ اٹھالو آخرکار تمہیں  معلوم ہو ہی جائے  گا،  اور جسے  جانتے  بو جھتے  بھی نہیں  اس کا حصہ ہماری دی ہوئی روزی میں  سے  مقرر کرتے  ہیں ،  و  اللہ   تمہارے  اس بہتان کا سوال تم سے  ضرور کیا جائے  گا،  اور وہ   اللہ   سبحانہ و تعالیٰ کے  لیے  لڑکیاں  مقرر کرتے  ہیں    اللہ   اس سے  پاک ہے  اور اپنے  لیے  وہ جو اپنی خواہش کے  مطابق ہو،  ان میں  سے  جب کسی کو لڑکی ہونے  کی خبر دی جائے  تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے  اور دل ہی دل میں  گھٹنے  لگتا ہے  اس بری خبر کی وجہ سے  لوگوں  سے  چھپا چھپا پھرتا ہے سوچتا ہے  کہ کیا اس کو ذلت کے  ساتھ لیے  ہوئے  ہی رہے  یا اسے  مٹی میں  دبا دے ،  آہ ! کیا ہی برے  فیصلے  کرتے  ہیں  ؟ آخرت پر ایمان نہ رکھنے  والوں  کی ہی بری مثال ہے ،    اللہ   کے  لیے  تو بہت ہی بلند صفت ہے ،  وہ بڑا ہی غالب اور با حکمت ہے  ۔ ‘‘

لوگو!تمہارے  پاس جتنی بھی جوبھی نعمتیں  ہیں  سب   اللہ   ہی کی عطاکی ہوئی ہیں  ، پھراس عطاکرنے  والے  کوچھوڑکرغیر  اللہ   کی پرستش کیوں  کرتے  ہو؟حالانکہ   اللہ   کے  ایک ہونے  کاعقیدہ تمہارے  قلب ووجدان کی گہرائیوں  میں  راسخ ہے  ، جواس وقت ابھرکرسامنے  آجاتاہے  جب ہرطرف مایوسی کے  گہرے  بادل تم پر چھاجاتے  ہیں  ، اس وقت تمہارے  دلوں  سے  تمام من گھڑت تصورات کازنگ ہٹ جاتاہے  اور تم پوری عاجزی کے  ساتھ اس کی بارگاہ میں  گڑگڑاتے  اورآہ وزاری کرتے  ہوئے  اپنی فریادیں  پیش کرتے  ہومگر جب   اللہ   تمہاری تکلیف ، بیماری، تنگ دستی اورنقصان وغیرہ کو دورکردیتاہے  تو یکایک تم میں  سے  ایک گروہ   اللہ   کاشکرگزارہونے  اوراس کی حمدوثناکرنے  کے  بجائے  اپنے  رب کے  ساتھ ساتھ کسی بزرگ یاکسی دیوی دیوتا پراس مہربانی کے  شکریے  میں  نیازیں  اورنذریں  چڑھانی شروع کردیتا ہے  ،  اوراپنے  عمل سے  یہ ظاہرکرتاہے  کہ اگریہ بزرگ اس پرمہربان ہوکر  اللہ   کومہربانی پرآمادہ نہ کرتے  تو  اللہ   ہرگز اس پرمہربانی نہ کرتا تاکہ   اللہ   کے  احسان کی ناشکری کرے ،  اچھا دنیامیں  چندروزاور مزے  کر لو ،  فائدے  حاصل کرلوعنقریب تمہیں  اپنے  اعمالوں  خبیثہ کاانجام معلوم ہوجائے  گا، جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔  قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَى النَّارِ۝۳۰       [113]

ترجمہ:ان سے  کہواچھامزے  کرلوآخرکارتمہیں  پلٹ کرجانادوزخ ہی میں  ہے ۔

یہ لوگ جن کوحاجت روا، مشکل کشااورمعبودسمجھتے  ہیں  وہ لکڑی پتھرکی بے  جان مورتیاں  ہیں  جونہ سن سکتی نہ دیکھ سکتی اورنہ کچھ بول سکتی ہیں  ، نہ نفع پہنچاسکتی ہیں  اورنہ نقصان یاجنات وشیاطین ہیں  جن کی حقیقت کاان کوعلم ہی نہیں  ہے  ،  اسی طرح قبروں  میں  مدفون لوگوں  کی حقیقت بھی کوئی نہیں  جانتاکہ ان کے  ساتھ وہاں  کیامعاملہ ہورہاہے ، لیکن ان ظالموں  نے  ان کی حقیقت سے  ناآشناہونے  کے  باوجود انہیں    اللہ   کاشریک ٹھیرارکھاہے ،  اور  اللہ   کے  عطا کیے  ہوئے  مال میں  سے  ان کے  تقرب کے  لئے  بھی نذرونیاز اور بھینٹ کے  طورپرحصہ مقرر کرتے  ہیں  بلکہ   اللہ   کاحصہ رہ جائے  توبے  شک رہ جائے  ان کے  حصے  میں  کمی نہیں  کرتے  ، جیسے  فرمایا

وَجَعَلُوْا لِلهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا۝۰ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللهِ۝۰ۚ وَمَا كَانَ لِلهِ فَهُوَیَصِلُ اِلٰی شُرَكَاۗىِٕهِمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۱۳۶     [114]

ترجمہ:ان لوگوں  نے    اللہ   کے  لئے  خوداسی کی پیداکی ہوئی کھیتیوں  اور مویشیوں  میں  سے  ایک حصہ مقررکیاہے  اورکہتے  ہیں  یہ   اللہ   کے  لئے  ہے  ،  بزعم خوداوریہ ہمارے  ٹھیرائے  ہوئے  شریکوں  کے  لئے  ، پھرجوحصہ ان کے  ٹھہرائے  ہوئے  شریکوں  کے  لئے  ہے  وہ تو  اللہ   کونہیں  پہنچتامگرجو  اللہ   کے  لئے  ہے  وہ ان کے  شریکوں  کوپہنچ جاتاہے  کیسے  برے  فیصلے  کرتے  ہیں  یہ لوگ۔

اللہ   کی قسم!جوافتراپردازی تم کرتے  ہواس کے  بارے  میں  روزقیامت تم سے  ضرور بازپرس ہوگی اوراس افتراکابدلہ جہنم کی آگ ہو گی،  جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔  قُلْ اٰۗللهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَی اللهِ تَفْتَرُوْنَ۝۵۹وَمَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۔ ۔ ۔  ۝۶۰ۧ [115]

ترجمہ:ان سے  پوچھو  اللہ   نے  تم کواس کی اجازت دی تھی ؟ یاتم   اللہ   پرافتراکررہے  ہو؟جولوگ   اللہ   پریہ جھوٹاافترا باندھتے  ہیں  ان کاکیاگمان ہے  کہ قیامت کے  روزان سے  کیا معاملہ ہوگا۔

مشرکین عرب کے  معبودوں  میں  دیوتاکم تھے  اور دیویاں  زیادہ تھیں  اوران کے  متعلق ان کاعقیدہ تھا کہ یہ   اللہ   کی بیٹیاں  ہیں  ، اسی طرح عرب قبائل خزاعہ اورکنانہ   اللہ   کے  مقرب بندے  فرشتوں  کو   اللہ   کی بیٹیاں  قراردے  کر ان کی عبادت کرتے  تھے  ، ان لوگوں  کو مخاطب کرکے  فرمایایہ لوگ جس بیٹی کو خودموجب ننگ وعار سمجھتے  ہیں  اس کو  اللہ   کے  لئے  بلاتامل تجویزکردیتے  ہیں  ، قطع نظراس کے  کہ   اللہ   کے  لئے  اولادتجویزکرنابجائے  خود ایک شدید جہالت اورگستاخی ہے اور اپنے  لئے  بیٹے  پسند کرتے  ہیں  ؟جیسے فرمایا

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى۝۲۱تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى۝۲۲ [116]

ترجمہ:کیابیٹے  تمہارے  لئے  ہیں  اوربیٹیاں    اللہ   کے  لئے  ؟ یہ توپھربڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی ۔

اَلَآ اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْكِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ۝۱۵۱ۙ وَلَدَ   اللہ  ۝۰ۙ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۱۵۲ اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ۝۱۵۳ۭمَا لَكُمْ۝۰ۣ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ۝۱۵۴ [117]

ترجمہ:خوب سن رکھو ،  دراصل یہ لوگ اپنی من گھڑت سے  یہ بات کہتے  ہیں  کہ   اللہ   اولاد رکھتا ہے  ، اور فی الواقع یہ جھوٹے  ہیں  ، کیا للہ نے  بیٹوں  کے  بجائے  بیٹیاں  اپنے  لیے  پسند کرلیں  ؟تمہیں  کیا ہوگیا ہے  کیسے  حکم لگا رہے  ہو؟ ۔

حالاں  کہ جب ان میں  سے  کسی کوبیٹی کے  پیدا ہونے  کی خوشخبری دی جاتی ہے  تو(کرب وغم سے )اس کے  چہرے  پرکلونس چھا جاتی ہے  اوروہ (حزن وغم کے  مارے  )بس خون کا سا گھونٹ پی کررہ جاتاہے ، جیسے  فرمایا

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَكَظِیْمٌ۝۱۷     [118]

ترجمہ:اور حال یہ ہے  کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے  رحمان کی طرف منسوب کرتے  ہیں  اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں  سے  کسی کو دیا جاتا ہے  تو اس کے  منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے  اور وہ غم سے  بھر جاتا ہے ۔

شرم کے  مارے  لوگوں  سے  چھپتا پھرتا ہے  کہ اس بری خبرکے  بعدکیاکسی کو منہ دکھائے  ،  سوچتاہے  کہ اہانت وذلت قبول کرکے  اسے  زندہ رہنے  دے  یا گڑھا کھود کرزندہ مٹی میں  دبادے  ؟ دیکھو   اللہ   کے  بارے  میں  یہ کیسے  برے  فیصلے  کرتے  ہیں  ، انہیں  بری صفات سے  متصف کیے  جانے  کے  لائق تو وہ لوگ ہیں  جوآخرت کایقین نہیں  رکھتے ، رہا   اللہ   تو اس کی ہرصفت مخلوق کے  مقابلے  میں  اعلی وبرترہے  ،   اللہ   ہی توسب پر غالب اورکامل حکمت والا ہے ۔

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ یُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ ‎﴿٦١﴾‏ وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا یَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٦٣﴾‏ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٦٤﴾‏(النحل)
’’اگر لوگوں  کے  گناہ پر   اللہ   تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے  زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا لیکن وہ تو انہیں  ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے ،  جب ان کا وہ وقت آجاتا ہے  تو وہ ایک ساعت نہ پیچھے  رہ سکتے  ہیں  اور نہ آگے  بڑھ سکتے  ہیں ،  اور وہ اپنے  لیے  جو ناپسند رکھتے  ہیں    اللہ   کے  لیے  ثابت کرتے  ہیں  اور ان کی زبانیں  جھوٹی باتیں  بیان کرتی ہیں  کہ ان کے  لیے  خوبی ہے ،  نہیں  نہیں ،  دراصل ان کے  لیے  آگ ہے  اور یہ دوزخیوں  کے  پیش رو ہیں  ، و  اللہ   ! ہم نے  تجھ سے  پہلے  کی امتوں  کی طرف بھی اپنے  رسول بھیجے  لیکن شیطان نے  ان کے  اعمال بد ان کی نگاہوں  میں  آراستہ کردیئے  ، وہ شیطان آج بھی ان کا رفیق بنا ہوا ہے  اور ان کے  لیے  دردناک عذاب ہے ،  اس کتاب کو ہم نے  آپ پر اس لیے  اتارا ہے  کہ آپ ان کے  لیے  ہر اس چیز کو واضح کردیں  جس میں  وہ اختلاف کر رہے  ہیں  اور یہ ایمان داروں  کے  لیے  راہنمائی اور رحمت ہے ۔ ‘‘

رحمت الٰہی :

رحمت الٰہی اس قدرعام اورزیادہ ہے  کہ انسان اس کاتصوربھی نہیں  کرسکتا، اس دنیامیں  ہماراہرنیک عمل   اللہ   کی رحمت کے  باعث ہی ہے  مگرانسان اس غلط فہمی میں  مبتلاہے  کہ یہ میرے  اعمال کی جزااورمیراحق ہے ، اس غلط فہمی سے  نکالنے  کے  لئے    اللہ   تعالیٰ نے  ایک ضابطہ بیان فرمایاکہ وہ اعمال کابدلہ اس دنیامیں  فوری طورپرنہیں  دیتااگرکہیں    اللہ   لوگوں  کوان کے  گناہوں  پرفوراًہی پکڑلیاکرتاتوروئے  زمین پرمعصیت کاارتکاب کرنے  والوں  کے  ساتھ چوپایوں  اورحیوانات میں  سے  بھی کوئی بھی نہ بچتااوردنیاکایہ سارا نظام تلپٹ ہوجاتا،

عَنْ أَبِی سَلَمَةَ،  عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا یَقُولُ: إِنَّ الظَّالِمَ لَا یَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ،  قَالَ: فَالْتَفَتَ إِلَیْهِ، فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: بَلَى،  وَاللَّهِ إِنَّ الْحُبَارَى لَتَمُوتُ فِی وَكْرِهَا هُزَالًا بِظُلْمِ الظَّالِمِ

ابوسلمہ سے  مروی ہے  ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ نے  ایک شخص کویہ کہتے  ہوئے  سناکہ ظالم صرف اپنے  آپ ہی کونقصان پہنچاتاہے ، ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ نے  اس کی طرف دیکھااورفرمایانہیں  ،   اللہ   کی قسم ! ظالم کے  ظلم کی وجہ سے  سرخاب اپنے  گھونسلے  میں  مرجاتاہے ۔ [119]

اس لئے    اللہ   نے  اعمال کے  حساب کے  لئے  ایک وقت مقررکررکھاہے  اسی وقت سب کوجزابھی ملے  گی اورسزابھی ، لیکن اس دنیامیں  وہ اتمام حجت کے  طورپرسب کو ایک وقت مقررتک مہلت دیتاہے  پھرجب   اللہ   کے  مواخذے  کا وقت آ جاتا ہے  تو اس سے  کوئی ایک گھڑی بھربھی آگے  پیچھے  نہیں  ہوسکتا، جیسے  فرمایا

 وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۳۴   [120]

ترجمہ:ہر قوم کے  لیے  مہلت کی ایک مدّت مقرر ہے ،  پھر جب کسی قوم کی مدّت آن پوری ہوتی ہے  تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں  ہوتی ۔

۔ ۔ ۔ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۴۹    [121]

ترجمہ:ہر امت کے  لیے  مہلت کی ایک مدّت ہے ،  جب یہ مدّت پوری ہو جاتی ہے  تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں  ہوتی۔

اس لئے  جب تک انہیں  مہلت کا وقت حاصل ہے  اس سے  پہلے  کہ وہ وقت آن پہنچے  جب کوئی مہلت نہ ہوگی انہیں  ڈرجاناچاہیے  ، آج یہ لوگ   اللہ   کے  لئے  بیٹیاں  تجویزکررہے  ہیں  جنہیں  یہ خود اپنے  لئے  ناپسندکرتے  ہیں  ،  اوران کی زبانیں  جھوٹ کہتی ہیں  کہ دنیاکے  نفع کے  مستحق ہم ہیں  ہی اورصحیح بات یہ ہے  کہ قیامت نے  آنانہیں  اور اگرآئی بھی تو وہاں  بھی ہمارے  لئے  بہتری ہوگی ، جیسے  فرمایا

وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ۝۰ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖٓ اَبَدًا۝۳۵ۙوَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا۝۳۶     [122]

ترجمہ:پھروہ اپنی جنت میں  داخل ہوااوراپنے  نفس کے  حق میں  ظالم بن کرکہنے  لگامیں  نہیں  سمجھتاکہ یہ دولت کبھی فناہو جائے  گی اورمجھے  توقع نہیں  کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے  گی تاہم اگرکبھی مجھے  اپنے  رب کے  حضورپلٹایابھی گیاتوضروراس سے  بھی زیادہ شاندارجگہ پاؤں  گا۔

وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ۝۰ۙ وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّیْٓ اِنَّ لِیْ عِنْدَہٗ لَــلْحُسْنٰى۔ ۔ ۔ ۝۵۰ [123]

ترجمہ: مگر جوں  ہی کہ سخت وقت گزر جانے  کے  بعد ہم اسے  اپنی رحمت کا مزا چکھاتے  ہیں  یہ کہتا ہے  کہ میں  اسی کا مستحق ہوں  ،  اور میں  نہیں  سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے  گی،  لیکن اگر واقعی میں  اپنے  رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں  بھی مزے  کروں  گا ۔

اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا۝۷۷ۭ   [124]

ترجمہ:پھر تو نے  دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے  سے  انکار کرتا ہے  اور کہتا ہے  کہ میں  تو مال اور اولاد سے  نوازا ہی جاتا رہوں  گا ؟ ۔

اللہ   تعالیٰ نے  ان کی تردیدمیں  فرمایاکہ انہیں  وہاں  بہتری توکیاملنی ہے  ان کے  لئے  تووہاں  صرف ایک ہی چیزہے  اوروہ ہے  دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ، اور سب سے  پہلے  ان کو ذلت وحقارت کے  ساتھ اس میں  پھینک کرفراموش کردیاجائے  گا، جیسے  فرمایا

الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَہْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا۝۰ۚ فَالْیَوْمَ نَنْسٰـىہُمْ كَـمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ یَوْمِہِمْ ھٰذَا۝۰ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ۝۵۱ [125]

ترجمہ:جنہوں  نے  اپنے  دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں  دنیا کی زندگی نے  فریب میں  مبتلا کر رکھا تھا   اللہ   فرماتا ہے  کہ آج ہم بھی انہیں  اسی طرح بھلا دیں  گے  جس طرح وہ اس دن کی ملاقات بھولے  رہے  اور ہماری آیتوں  کا انکار کرتے  رہے ۔

اوریہ ہمیشہ ہمیشہ اس دردناک عذاب میں  مبتلارہیں  گے  اوراپنی موت کوپکارتے  رہیں  گے  مگرموت نہیں  آئے گی ،   اللہ   کی قسم اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! تم سے  پہلے  بھی بہت سی قوموں  میں  ہم رسول بھیج چکے  ہیں  جواپنی اپنی قوم کوتوحیدکی دعوت پیش کرتے  تھے  اورپہلے  بھی یہی ہوتارہاہے  کہ شیطان نے  اپنے  دعوی کے  مطابق ان کے  برے  کرتوت انہیں  خوشنما بنا کر دکھائے اورانہوں  نے  رسولوں  کوجھٹلایا، اورانہوں  نے  یہ باطل گمان کیاکہ وہ جس راستے  پرچل رہے  ہیں  وہی حق اورہردکھ سے  نجات دینے  والاہے  ،  اورجس راستے  کی طرف انبیاء بلاتے  ہیں  وہ اس کے  برعکس ہے  اوران اقوام نے  ہرطرح کے  دلائل وبراہین کے  باوجود رسولوں  کی بات مان کرنہ دی جیسے  فرمایا

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [126]

ترجمہ:بولااچھاتوجس طرح تونے  مجھے  گمراہی میں  مبتلاکیاہے  میں  بھی اب تیری سیدھی راہ پران انسانوں  کی گھات میں  لگارہوں  گاآگے  اور پیچھے  ،  دائیں  اور بائیں  ہرطرف سے  ان کوگھیروں  گا اور توان میں  سے  اکثرکوشکرگزارنہ پائے  گا ۔

عَنْ سَبْرَةَ بْنِ أَبِی فَاكِهٍ،  قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ،  فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْإِسْلَامِ،  فَقَالَ لَهُ: أَتُسْلِمُ وَتَذَرُ دِینَكَ،  وَدِینَ آبَائِكَ،  وَآبَاءِ أَبِیكَ؟ قَالَ: فَعَصَاهُ،  فَأَسْلَمَ،  ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْهِجْرَةِ،  فَقَالَ: أَتُهَاجِرُ وَتَذَرُ أَرْضَكَ،  وَسَمَاءَكَ،  وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی الطِّوَلِ،

سبرة بن فاکہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے میں  نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کو یہ فرماتے  ہوئے  سنا ہے  کہ شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے  کے  لیے  مختلف راستوں  میں  بیٹھا ہوتا ہے ، پہلے  اسلام کے  راستے  میں  بیٹھتا ہے  اور اس سے  کہتا ہے  کہ کیا تو اسلام قبول کرکے  اپنا اور اپنے  اباؤ اجداد کا دین ترک کردے  گا؟وہ اس کی نافرمانی کر کے  اسلام قبول کرلیتا ہے ،  توشیطان ہجرت کے  راستے  میں  آکر بیٹھ جاتا ہے  اور اس سے  کہتا ہے  کہ تو ہجرت کرکے  اپنے  زمین اور آسمان کو چھوڑ کر چلاجائے  گا مہاجر کی مثال تو لمبائی میں  گھوڑے  جیسی ہے

قَالَ:فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ قَالَ: ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْجِهَادِ،  فَقَالَ: هُوَ جَهْدُ النَّفْسِ،  وَالْمَالِ،  فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ،  فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ وَیُقَسَّمُ الْمَالُ،  قَالَ:فَعَصَاهُ فَجَاهَدَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَمَاتَ،  كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ،  أَوْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ،  وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ،  أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّةٌ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ

وہ پھر اس کی نافرمانی کر کے  ہجرت کر جاتا ہے ، پھر شیطان جہاد کے  راستے  میں  بیٹھ جاتا ہے  اور اس سے  کہتا ہے  کہ اس سے  جان مال دونوں  کو خطرہ ہے  تو لڑائی میں  شرکت کرتا ہے  اور ماراجائے  گا تیری بیوی سے  کوئی اور نکاح کرلے  گا اور تیرے  مال کا بٹوارہ ہوجائے  گالیکن وہ اس کی نافرمانی کرکے  جہاد کے  لیے  چلاجاتاہے ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا جو شخص یہ کام کر کے  فوت ہوجائے  تو   اللہ   کے  ذمہ حق ہے  کہ اس کو جنت میں  داخل کرے ، اگر وہ شہید ہوجائے  یاسمندر میں  ڈوب جائے  یا جانور سے  گر کر فوت ہوجائے  تب بھی   اللہ   کے  ذمے  حق ہے  کہ اس کو جنت میں  داخل کرے ۔ [127]

پھران کاانجام درد ناک عذاب کے  سواکچھ نہ تھا، آج وہی شیطان ان لوگوں  کا بھی سر پرست بناہواہے اوروہ ان کوان کے  برے  اعمالوں  کوخوشنمابنا کر دکھارہاہے  ، ان سے  جھوٹے ، دلفریب وعدے  کر رہا ہے  جس کی بناپریہ دردناک سزاکے  مستحق بن رہے  ہیں  ۔

یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْہِمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۱۲۰    [128]

ترجمہ:وہ ان لوگوں  سے  وعدے  کرتا ہے  اور انہیں  امیدیں  دلاتا ہے مگر شیطان کے  سارے  وعدے  بجز فریب کے  اور کچھ نہیں  ہیں  ۔

۔ ۔ ۔ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۶۴      [129]

ترجمہ:اور شیطان کے  وعدے  ایک دھوکے  کے  سوا اور کچھ بھی نہیں  ۔

اورشیطان ہمیشہ کی طرح انہیں  عذاب میں  مبتلاچھوڑکرالگ ہوجائے  گا، جیسے  غزوہ بدرکے  موقع پرجب اس نے  فرشتوں  کواترتے  دیکھاتوقریش کوچھوڑکراپنی جان بچانے  کے  لئے  دم دباکربھاگاتھا۔

وَاِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ   اللہ  ۝۰ۭ وَ  اللہ   شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۴۸ۧ [130]

ترجمہ:ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے  ان لوگوں  کے  کرتوت ان کی نگاہوں  میں  خوشنما بنا کر دکھائے  تھے  اور ان سے  کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں  آسکتا اور یہ کہ میں  تمہارے  ساتھ ہوں  مگر جب دونوں  گروہوں  کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے  پاؤں  پھر گیا اور کہنے  لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں  ہے  میں  وہ کچھ دیکھ رہا ہوں  جو تم لوگ نہیں  دیکھتے ،  مجھے    اللہ   سے  ڈر لگتا ہے  اور   اللہ   بڑی سخت سزا دینے  والا ہے  ۔

اوروہ جہنم میں  اس کابرملااقرارکرتے  ہوئے  کہے  گا

وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ اِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۲     [131]

ترجمہ:اورجب فیصلہ چکا دیا جائے  گا تو شیطان کہے  گاحقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   نے  جووعدے  تم سے  کیے  تھے  وہ سب سچے  تھے  اورمیں  نے  جتنے  وعدے  کیے  ان میں  سے  کوئی بھی پورانہ کیا، میراتم پرکوئی زور تو تھا نہیں  ، میں  نے  اس کے  سواکچھ نہیں  کیاکہ اپنے  راستے  کی طرف تم کودعوت دی اورتم نے  میری دعوت پرلبیک کہااب مجھے  ملامت نہ کرو اپنے  آپ ہی کوملامت کرو یہاں  نہ میں  تمہاری فریادرسی کرسکتاہوں  اورنہ تم میری ، اس سے  پہلے  جوتم نے  مجھے  خدائی میں  شریک بنارکھاتھامیں  اس سے  بری الذمہ ہوں  ، ایسے  ظالموں  کے  لئے  تو دردناک سزایقینی ہے ۔

اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاکیااپنے  غفورورحیم رب سے  منہ موڑکراس دھوکے  بازاوراپنے  ازلی دشمن سے  دوستی کرتے  ہو۔

۔ ۔ ۔  اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّیَّتَهٗٓ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِیْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۝۰ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا۝۵۰    [132]

ترجمہ:اب کیاتم مجھے  چھوڑکراس کواوراس کی ذریت کواپناسرپرست بناتے  ہوحالانکہ وہ تمہارے  دشمن ہیں  ؟ ۔

اورتمہیں  باربارتلقین کی گئی تھی کہ اس کھلے  دشمن کی دعوت پرلبیک نہ کہواوراس کے  داؤپیچ، مکروفریب اورشیطانی وسووں  سے  بچ کررہو۔

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [133]

ترجمہ: آدم کے  بچو!کیامیں  نے  تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرووہ تمہاراکھلادشمن ہے ۔

ہم نے  یہ کتاب تم پراس لئے  نازل کی ہے  تاکہ تم عقائدواحکام شرعیہ کے  سلسلے  میں  یہودونصاریٰ ، مجوسیوں  ،  مشرکین اور دیگراہل ادیان کے  درمیان جوباہمی اختلافات ہیں  ،  اس کی اس طرح تفصیل بیان فرمائیں  کہ حق وباطل واضح ہوجائے  تاکہ لوگ حق کواختیاراورباطل سے  اجتناب کریں  ، یہ کتاب حق وباطل میں  فرق واضح کرنے  والی ہے اور ان لوگوں  کے  لئے  رہنمائی اور سراسررحمت بن کر اتری ہے  جو اوہام پرستی،  تقلیدی تخیلات ، مختلف مسلکوں  اورمذہبوں  سے  نکل کر اس پر ایمان لے  آئیں  ، جیسے  فرمایا

 ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ  ٻ فِیْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ [134]

ترجمہ: یہ کتاب ہے  اس میں  کوئی شک نہیں  ، پرہیزگاروں  کے  لئے  اس میں  ہدایت ہے ۔

وَاللَّهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ وَإِنَّ لَكُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُسْقِیكُمْ مِمَّا فِی بُطُونِهِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ ‎﴿٦٦﴾‏ وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿٦٧﴾(النحل)
’’اور   اللہ   آسمان سے  پانی برسا کر اس سے  زمین کو اس کی موت کے  بعد زندہ کردیتا ہے ، یقیناً اس میں  ان لوگوں  کے  لیے  نشانی ہے  جو سنیں ،  تمہارے  لیے  تو چوپایوں میں  بھی بڑی عبرت ہے  کہ ہم تمہیں  اس کے  پیٹ میں  جو کچھ ہے  اسی میں  سے  گوبر اور لہو کے  درمیان سے  خالص دودھ پلاتے  ہیں  جو پینے  والوں  کے  لیے  سہتا پچتا ہے  ، اور کھجور اور انگور کے  درختوں  کے  پھلوں  سے  تم شراب بنا لیتے  ہو اور عمدہ روزی بھی،  جو لوگ عقل رکھتے  ہیں  ان کے  لیے  تو اس میں  بہت بڑی نشانی ہے ۔ ‘‘

ایک سائنسی اعجاز۔ خوشگواردودھ :

تم برسات میں  مشاہدہ کرتے  ہوکہ   اللہ   آسمان سے  پانی برساتاہے  تو وہ زمین جومردہ پڑی تھی،  جس میں  زندگی کے  کوئی آثارنہ تھے  لیکن جیسے  ہی پانی کے  چندچھینٹے  اس پرپڑتے  ہیں  تو اسی مردہ زمین میں  زندگی کے  چشمے  ابلنے  شروع ہوجاتے  ہیں  ، زمین کی تہوں  میں  مری ہوئی مختلف اصناف کی نباتات کی جڑیں  یکایک جی اٹھتی ہیں  اوراپنی اپنی بہاریں  دکھانے  لگتی ہیں  ،   اللہ   کی قدرت کے  اس نظارے  کو تم بارباردیکھتے  ہومگرجب بعث بعدالموت کاکہاجاتاہے  تواس پرحیرت کااظہارکرتے  ہو اور اسے  بعید از امکان قراردیتے  ہو ،  حالانکہ وہ ہستی جوزمین کواس کے  مرجانے  کے  بعدزندہ کرسکتی ہے  وہ مردوں  کوبھی دوبارہ زندہ کرنے  پرقدرت رکھتی ہے  ، جولوگ اس بات کو غوروتوجہ سے  سنیں  ان کے  لئے  یقیناًاس میں    اللہ   کی قدرت کی ایک نشانی ہے  ، اورتمہارے  لئے  دودھ دینے  والے  چوپاؤں  اونٹ، گائے ، بھینس ، بکری، بھیڑ میں  بھی اپنے  خالق کی قدرت وحکمت کی نشانیاں  موجودہیں  ، جانورجوغذاکھاتے  ہیں  اس سے  ان کے  پیٹ میں  خون اورفضلہ بنتاہے ، اورپروردگارعالم ان کے  درمیان سے  ایک تیسری چیز بھی نکال لاتا ہے  یعنی ہرقسم کی آلائش سے  پاک خوشگوار دودھ جوخاصیت، رنگ وبو، فائدے  اورمقصدمیں  ان دونوں  سے  بالکل مختلف ہے  ، جیسے  فرمایا

وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً۝۰ۭ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا۝۲۱ۙ     [135]

ترجمہ:اورحقیقت یہ ہے  کہ تمہارے  لئے  مویشیوں  میں  بھی ایک سبق ہے  ، ان کے  پیٹوں  میں  جوکچھ ہے  اسی میں  سے  ایک چیز(یعنی خالص دودھ) ہم تمہیں  پلاتے  ہیں  ۔

اسی طرح   اللہ   تعالیٰ نے  کھجور اورانگورپیداکیے  ہیں  ،   اللہ   نے  ان پھلوں  کے  عرق میں  وہ مادہ بھی رکھ دیاہے  جو انسان کے  لئے  حیات بخش غذابن سکتاہے  اوروہ مادہ بھی رکھ دیا ہے  جوگل سڑکرالکوحل میں  تبدیل ہوجاتاہے  ، اب یہ انسان کی قوت انتخاب پرمنحصرہے  کہ وہ اس سرچشمے  سے  پاک رزق حاصل کرتاہے  یاعقل وخردکوزائل کردینے  والی شراب ،  یقیناًاس میں  عقل سے  کام لینے  والوں  کے  لئے  ایک نشانی ہے ۔

وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ ثُمَّ كُلِی مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِی سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِیهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ قَدِیرٌ ‎﴿٧٠﴾(النحل)
’’ آپ کے  رب نے  شہد کی مکھی کے  دل میں  یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں  میں  درختوں  اور لوگوں  کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں  میں  اپنے  گھر (چھتے ) بنا اور ہر طرح کے  میوے  کھا اور اپنے  رب کی آسان راہوں  میں  چلتی پھرتی رہ،  ان کے  پیٹ سے  رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے  جس کے  رنگ مختلف ہیں  اور جس میں  لوگوں  کے  لیے  شفا ہے  غور و فکر کرنے  والوں  کے  لیے  اس میں  بہت بڑی نشانی ہے ،    اللہ   تعالیٰ ہی نے  تم سب کو پیدا کیا وہی پھر تمہیں  فوت کرے  گا،  تم میں  ایسے  بھی ہیں  جو بدترین عمر کی طرف لوٹائے  جاتے  ہیں  کہ بہت کچھ جانتے  بوجھنے  کے  بعد بھی نہ جانیں ،  بیشک   اللہ   دانا اور توانا ہے ۔ ‘‘

ایک اور سائنسی اعجاز۔ شہدکی مکھی :

اوردیکھوتمہارے  رب نے  شہدکی مکھی پریہ بات القاء کردی کہ پہاڑوں  میں  اوردرختوں  میں  اورٹٹیوں  پرچڑھائی ہوئی بیلوں  میں  اپنے  چھتے  بنا اورہر طرح کے  پھلوں  اور پھولوں  کارس چوس اوراپنے  رب کے  مقررکیے  ہوئے  نظام پرعمل کرتی رہ ،  اس چوسے  ہوئے  رس سے  مادہ مکھی کے  منہ اوردبرسے  مختلف رنگ، چمک اورذائقہ کا ایک روح افزامشروب نکلتاہے جس میں  مخصوص بیماریوں  کے  لئے  شفاہے ، آج سے  ڈیڑھ ہزارسال پہلے  ہی جب کسی ڈاکٹر، طبیب، سائنس دان کو معلوم نہیں  تھا کہ شہد مادہ مکھی تیارکرتی ہے  یانرمکھی ،   اللہ   تعالیٰ نے  اس آیت میں  تینوں  جگہ بطورخاص مونث کاصیغہ استعمال کرکے  فرمادیاتھا

اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا (مونث کاصیغہ) ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ (مونث کاصیغہ) فَاسْلُــكِیْ سُـبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا(مونث کا صیغہ) کہ مادہ مکھی ہی شہدتیارکرتی ہے  جبکہ نرمکھی صرف غذا مہیا کرنے  کاکام سرانجام دیتی ہے  ،  اورجدید سائنس اب اس کا انکشاف کررہی ہے  کیا یہ قرآن کے  اعجاز اوراس کی صداقت کی دلیل نہیں  ہے ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَخِی یَشْتَكِی بَطْنَهُ،  فَقَالَ: اسْقِهِ عَسَلًاثُمَّ أَتَى الثَّانِیَةَ،  فَقَالَ:اسْقِهِ عَسَلًا ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ:اسْقِهِ عَسَلًا ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ؟ فَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ،  وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِیكَ،  اسْقِهِ عَسَلًا فَسَقَاهُ فَبَرَأَ

ابوسعید خدری رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے ایک صحابی رضی   اللہ   عنہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے  اورعرض کیاکہ میرا بھائی پیٹ کی تکلیف میں  مبتلاہے ، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااسے  شہدپلا، پھردوسری مرتبہ وہی صحابی حاضر ہوئے ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم اسے  اس مرتبہ بھی نے  دوبارہ شہدپلانے  کاکہا وہ تیسری دفعہ حاضرہوئے ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  اسے  اس مرتبہ بھی شہدپلانے کاکہا، وہ پھر آیااورعرض کیاکہ (حکم کے  مطابق)میں  نے  عمل کیا(لیکن شفانہیں  ہوئی)رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاکہ   اللہ   تعالیٰ سچاہے  اورتمہارے  بھائی پیٹ جھوٹاہے انہیں  پھرشہدپلاچنانچہ انہوں  نے  پھرشہد پلایا اور اسی سے  وہ تندرست ہوگیا۔ [136]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،  قَالَتْ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْجِبُهُ الحَلْوَاءُ وَالعَسَلُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کو شیرینی اورشہد پسند تھا۔ [137]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الشِّفَاءُ فِی ثَلاَثَةٍ: فِی شَرْطَةِ مِحْجَمٍ،  أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ،  أَوْ كَیَّةٍ بِنَارٍ وَأَنَا أَنْهَى أُمَّتِی عَنِ الكَیِّ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاتین چیزوں  میں  شفاہے  فصد کھلوانے  (پچھنے  لگانے )میں  ، شہدکے  پینے  میں  اورآگ سے  داغنے  میں  لیکن میں  اپنی امت کو داغ لگوانے  سے  منع کرتا ہوں  ۔ [138]

مکھی جیسی بے  طاقت چیز کاپھولوں  پھولوں  سے  رس چوسنا، مختلف جگہوں  پرکاری گری سے  بہترین ڈیزائن کے  چھتے  تیارکرنا، تمہارے  لئے  شہداورموم بنانا ،  اس کااس طرح آزادی سے  پھرنااوراپنے  چھتے  کونہ بھولناوغیرہ میں  غور وتدبر کرنے  والوں  کے  لئے    اللہ   کی عظمت کی بڑی نشانیاں  ہیں  ، اوردیکھو  اللہ   ہی تمہاری پرورش اوررزق کابندوبست فرماتاہے  ، اسی کے  ہاتھ میں  ہی تمہاری زندگی اورموت ہے  ، اس کے  علاوہ نہ کوئی رزق دے  سکتا، نہ زندگی اورنہ موت ، پھر  اللہ   کسی کو بچپن ،  جوانی اورادھیڑعمرمیں  موت دے  دیتاہے  اورکسی کو بد ترین عمر تک پہنچادیتاہے  ، اس عمر میں  قوی اور حافظہ بھی کمزورہو جاتا ہے  اوربعض مرتبہ عقل بھی ماؤف ہوجاتی ہے  اوروہی شخص جوکبھی صاحب عقل کہلاتاتھا گوشت کاایک لوتھڑابن کررہ جاتاہے  اور اسے  اپنے  تن بدن کابھی ہوش نہیں  رہتا ،  جیسے  فرمایا

اَللهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَةً۝۰ۭ یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَالْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ۝۵۴     [139]

ترجمہ:  اللہ   ہی توہے  جس نے  ضعف کی حالت سے  تمہاری پیدائش کی ابتداکی، پھراس ضعف کے  بعدتمہیں  قوت بخشی، پھراس قوت کے  بعدتمہیں  ضعیف اور بوڑھا کردیا، وہ جوچاہتاہے  پیداکرتاہے  اوروہ سب کچھ جاننے  والااورہر چیزپرقدرت رکھنے  والاہے ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو: أَعُوذُ بِكَ مِنَ البُخْلِ وَالكَسَلِ،  وَأَرْذَلِ العُمُرِ،  وَعَذَابِ القَبْرِ،  وَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ،  وَفِتْنَةِ المَحْیَا وَالمَمَاتِ

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم اپنی دعا میں  فرماتے  تھے ’’اے  میرے  رب!میں  بخیلی سے ، عاجزی سے ، بڑھاپے  سے ، ذلیل عمر سے  ،  قبرکے  عذاب سے ، دجال کے  فتنے  سے ، زندگی اورموت کے  فتنے  سے  تیری پناہ طلب کرتاہوں  ۔ ‘‘[140]

حق یہ ہے  کہ   اللہ   ہی علم وقدرت میں  کامل ہے  ۔

‏ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّی رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ یَجْحَدُونَ ‎﴿٧١﴾‏ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِینَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ یَكْفُرُونَ ‎﴿٧٢﴾‏وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَیْئًا وَلَا یَسْتَطِیعُونَ ‎﴿٧٣﴾‏ فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٧٤﴾‏(النحل)
’’  اللہ   تعالیٰ ہی نے  تم سے  ایک کو دوسرے  پر روزی میں  زیادتی دے  رکھی ہے ،  پس جنہیں  زیادتی دی گئی ہے  وہ اپنی روزی اپنے  ماتحت غلاموں  کو نہیں  دیتے  کہ وہ اور یہ اس میں  برابر ہوجائیں ،  تو کیا یہ لوگ   اللہ   کی نعمتوں  کے  منکر ہو رہے  ہیں ،   اللہ   تعالیٰ نے  تمہارے  لیے  تم میں  سے  ہی تمہاری بیویاں  پیدا کیں  اور تمہاری بیویوں  سے  تمہارے  لیے  بیٹے  اور پوتے  پیدا کیے اور تمہیں  اچھی اچھی چیزیں  کھانے  کو دیں ، کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں  گے  ؟اور   اللہ   تعالیٰ کی نعمتوں  کی ناشکری کریں  گے ؟اور وہ   اللہ   تعالیٰ کے  سوا ان کی عبادت کرتے  ہیں  جو آسمانوں  اور زمین سے  انہیں  کچھ بھی تو روزی نہیں  دے  سکتے  اور نہ قدرت رکھتے  ہیں  ، پس   اللہ   تعالیٰ کے  لیے  مثالیں  مت بناؤ   اللہ   تعالیٰ خوب جانتا ہے  اور تم نہیں  جانتے ۔ ‘‘

اللہ   تعالیٰ نے  شرک کے  ابطال اورتوحیدکے  اثبات میں  فرمایاکہ   اللہ   نے  اپنی حکمت ومشیت سے  تم میں  سے  بعض کوبعض پررزق میں  فضیلت عطاکی ہے  ،

وَعَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،  رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،  هَذِهِ الرِّسَالَةَ إِلَى أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ: وَاقْنَعْ بِرِزْقِكَ مِنَ الدُّنْیَا،  فَإِنَّ الرَّحْمَنَ فَضَّل بَعْضَ عِبَادِهِ عَلَى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ،  بَلْ یَبْتَلِی بِهِ كُلًّا فَیَبْتَلِی مَنْ بَسَط لَهُ،  كَیْفَ شُكره لِلَّهِ وَأَدَاؤُهُ الْحَقَّ الَّذِی افْتَرَضَ عَلَیْهِ فِیمَا رَزَقَهُ وَخَوَّلَهُ؟

حسن بصری رحمہ   اللہ   سے  روایت ہے  کہ سیدناعمر رضی   اللہ   عنہ بن خطاب نے  ابوموسیٰ اشعری رضی   اللہ   عنہ کے  نام یہ خط لکھادنیامیں  اپنے  رزق پرقناعت کرو   اللہ   تعالیٰ نے  اپنے  بعض بندوں  کوبعض پررزق میں  جوفضیلت دی ہے  تویہ بھی اس کی طرف سے  آزمائش ہے  جس کے  ساتھ وہ ہرایک کوآزماتاہے کہ کیاوہ   اللہ   تعالیٰ کاشکراداکرتاہے ، اور  اللہ   تعالیٰ نے  اسے  جس رزق سے  نوازا ہے  اس کے  حق کووہ اداکرتاہے  جو  اللہ   تعالیٰ نے  اس پرواجب قراردیاہے ؟۔ [141]

بعض کوآزادبنایا، ان کومال ودولت اورثروت سے  نوازااوربعض کوغلام بنایاوہ دنیامیں  کسی چیزکے  مالک نہیں  ہیں  ، پھرجن لوگوں  کومال ودولت میں  فضیلت دی گئی ہے  وہ ایسے  نہیں  ہیں  کہ اپنارزق اپنے  غلاموں  کی طرف پھیر دیا کرتے  ہوں  تاکہ مالک اورمملوک اس رزق میں  برابرکے  حصہ داربن جائیں  ، توکیاان لوگوں  کو  اللہ   کااحسان ماننے  سے  انکار ہے  یعنی جب تم اپنے  غلاموں  کواتنامال اور اسباب دنیا نہیں  دیتے  کہ وہ تمہارے  برابرہوجائیں  تویہ بات کس طرح صحیح ہوسکتی ہے  کہ احسانات تو   اللہ   کرے  اوران نعمتوں  کے  شکریے  میں    اللہ   کے  ساتھ اس کے  بے  اختیار غلاموں  کوبھی شریک کرلواوراپنی جگہ سمجھ بیٹھوکہ اختیارات اورحقوق میں    اللہ   کے  یہ غلام بھی اس کے  ساتھ برابرکے  حصہ دارہیں  ، جیسے  فرمایا

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۲۸ [142]

ترجمہ:وہ تمہیں  خودتمہاری اپنی ہی ذات سے  ایک مثال دیتاہے  ، کیاتمہارے  ان غلاموں  میں  سے  جو تمہاری ملکیت میں  ہیں  کچھ غلام ایسے  بھی ہیں  جوہمارے  دیے  ہوئے  مال ودولت میں  تمہارے  ساتھ برابرکے  شریک ہوں  اورتم ان سے  اس طرح ڈرتے  ہوجس طرح آپس میں  اپنے  ہمسروں  سے  ڈرتے  ہو،  اس طرح ہم آیات کھول کرپیش کرتے  ہیں  ان لوگوں  کے  لئے  جوعقل سے  کام لیتے  ہیں  ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَوْلُهُ: {وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّی رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ} یَقُولُ: لَمْ یَكُونُوا یُشْرِكُونَ عَبِیدَهُمْ فِی أَمْوَالِهِمْ وَنِسَائِهِمْ، فَكَیْفَ یُشْرِكُونَ عَبِیدِی مَعِی فِی سُلْطَانِی؟ فَذَلِكَ قَوْلُهُ: أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ یَجْحَدُونَ

عبد  اللہ   بن عباس رضی   اللہ   عنہما اس آیت کریمہ’’اوردیکھو  اللہ   نے  تم میں  سے  بعض کوبعض پررزق میں  فضیلت عطاکی ہے  ، پھرجن لوگوں  کویہ فضیلت دی گئی ہے  وہ ایسے  نہیں  ہیں  کہ اپنارزق اپنے  غلاموں  کی طرف پھیردیاکرتے  ہوں  ۔  کے  بارے  میں  فرماتے  ہیں  یہ لوگ اپنے  غلاموں  کوتواپنے  مالوں  اوراپنی عورتوں  میں  شریک نہیں  بناتے  تومیرے  غلاموں  کومیری سلطنت میں  کیوں  شریک بناتے  ہیں  ؟اسی لیے  فرمایاتوکیا  اللہ   ہی کااحسان ماننے  سے  ان لوگوں  کوانکارہے  ۔ [143]

فَیَقُولُ اللَّهُ: فَكَیْفَ تَرْضَوْنَ لِی بِمَا لَا تَرْضَوْنَ لِأَنْفُسِكُمْ؟

اورآپ سے  دوسری روایت میں  یہ الفاظ ہیں    اللہ   تعالیٰ فرماتاہے  کہ تم میرے  لیے  اس چیزکوکس طرح پسندکرتے  ہوجسے  تم اپنے  لیے  پسندنہیں  کرتے ۔ [144]

اور وہ   اللہ   ہی ہے  جس نے  تمہارے  لئے  تمہاری ہم جنس بیویاں  بنائیں  تاکہ تم ان کے  پاس سکون حاصل کرو اور ان بیویوں  سے  تمہیں  بیٹے  اوربیٹیاں  اوران کی اولادسے  پوتے  اورنواسیاں  عطاکیے  تاکہ ان سے  ان کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوں  ، یہ اولاد ان کی خدمت کرے  اورانواع و اقسام کی بہترین ذائقہ دار چیزیں  تمہیں  کھانے  کو دیں  ،  پھر کیایہ لوگ یہ سب کچھ جانتے  بوجھتے  ہوئے  بھی بے  حقیقت عقائدرکھتے  ہیں  اور غیر  اللہ   کو قسمتیں  بنانے  اور بگاڑنے  والا، مرادیں  برلانے  والا ، دعاؤں  کوسننے  والا، اولاددینے  والا ،  رزق دینے  والا اور بیماریوں  سے  شفادینے  والاسمجھ کران کی بندگی کرتے  ہیں  اور  اللہ   کا احسان ماننے  سے  انکارکرتے  ہیں  ،  اور  اللہ   کوچھوڑکران کوپوجتے  ہیں  جن کے  ہاتھ میں  نہ آسمانوں  سے  انہیں  کچھ بھی رزق دینا ہے  نہ زمین سے  اورنہ یہ کام وہ کرہی سکتے  ہیں  ؟

أَبِی هُرَیْرَةَ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَیَقُولُ:أَیْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ،  وَأُسَوِّدْكَ،  وَأُزَوِّجْكَ،  وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَیْلَ وَالْإِبِلَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاقیامت کے  دن   اللہ   تعالیٰ اپنے  بندوں  کواپنے  احسان جتاتے  ہوئے  فرمائے  گاکیامیں  نے  تجھے  ذی عزت نہیں  بنایا تھا ؟ اور تجھ کو سردارنہیں  بنایاتھااور میں  نے  تجھے  بیوی نہیں  دی تھی ؟میں  نے گھوڑوں  اور اونٹوں  کوتیرے  تابع نہیں  کیاتھا؟۔ [145]

مشرکین مثالیں  دیتے  ہیں  کہ اگربادشاہ سے  ملناہویااس سے  کوئی کام ہو توکوئی براہ راست بادشاہ سے  نہیں  مل سکتا، اسے  پہلے  بادشاہ کے  مقربین سے  رابطہ کرناپڑتاہے تب کہیں  جاکربادشاہ تک اس کی رسائی ممکن ہوتی ہے  ، اسی طرح   اللہ   کی ذات بھی بہت اعلیٰ وارفع ہے  اس تک پہنچنے  کے  لئے  ہم ان معبودوں  کوذریعہ بناتے  ہیں  یابزرگوں  کا وسیلہ پکڑتے  ہیں  ،   اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاتم   اللہ   کودنیاوی بادشاہوں  ،  راجوں  اور مہاراجوں  پرقیاس مت کرواورنہ   اللہ   کے  لئے  مثالیں  گھڑو   اللہ   توظاہروباطن اور حاضرو غائب ہر چیز کا علم رکھتاہے  اوروہ ہرایک کی فریادسننے  پربھی قادرہے  ، بھلا ایک انسان بادشاہ کا  اللہ   تعالیٰ کے  ساتھ کیا تقابل اور موازنہ ہے  ۔

[1] النحل۱

[2] الانبیائ۱

[3] القمر۱

[4] العنکبوت۵۳،۵۴

[5] الشوریٰ۱۸

[6] مستدرک حاکم۸۶۲۲،المعجم الکبیرللطبرانی ۸۹۹،تفسیرابن ابی حاتم۲۲۷۵؍۷

[7] الشوریٰ۵۲

[8] الانعام۱۲۴

[9] الحج۷۵

[10] المومن۱۵

[11] المومنون۱۱۵

[12] النجم۳۱

[13] ھود۷

[14] الکہف۷

[15] الملک۲

[16] الفرقان۵۴،۵۵

[17] یٰسین۷۷تا۷۹

[18] مسنداحمد۱۷۸۴۲،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایابَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِمْسَاكِ فِی الْحَیَاةِ وَالتَّبْذِیرِ عِنْدَ الْمَوْتِ ۲۷۰۷

[19] المومنون ۲۱،۲۲

[20] المومن۷۹تا۸۱

[21] یٰسین ۷۱تا۷۳

[22] الزخرف۱۲تا۱۴

[23] صحیح بخاری کتاب الذبائح بَابُ لُحُومِ الخَیْلِ ۵۵۲۰ ، صحیح مسلم کتاب الصیدبَابٌ فِی أَكْلِ لُحُومِ الْخَیْلِ ۵۰۲۲،سنن ابوداودکتاب الاطعمة بَابٌ فِی أَكْلِ لُحُومِ الْخَیْلِ ۳۷۸۸

[24] سنن ابن ماجہ کتاب الذبائح بَابُ لُحُومِ الْبِغَالِ ۳۱۹۷

[25]۔ مسنداحمد۱۴۸۴۰،صحیح مسلم کتاب الصید باب فی اکل لحوم الخیل۵۰۲۴، سنن ابوداود کتاب الاطعمةبَابٌ فِی أَكْلِ لُحُومِ الْخَیْلِ۳۷۸۹

[26] صحیح بخاری کتاب الذبائح بَابُ النَّحْرِ وَالذَّبْحِ ۵۵۱۰،۵۵۱۱،صحیح مسلم کتاب الصیدبَابٌ فِی أَكْلِ لُحُومِ الْخَیْلِ ۵۰۲۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۲۹۸،السنن الکبری للنسائی ۴۴۹۵،مصنف عبدالرزاق ۸۷۳۱

[27] الانعام۱۵۳

[28] الحجر۴۱

[29] تفسیرطبری۱۷۵؍۱۷

[30] تفسیر طبری۱۷۵؍۱۷

[31] تفسیرطبری۱۷۶؍۱۷

[32] ھود۱۱۸،۱۱۹

[33]ق۹تا۱۱

[34] النمل۶۰

[35]الواقعہ۶۸تا ۷۰

[36] الاعراف۵۴

[37] النحل۱۶

[38] الحجر۱۶تا۱۸

[39] الصافات۶تا۹

[40] النازعات۳۲

[41] الحجر۱۹

[42] الرعد۳

[43] الانبیائ۳۱

[44] لقمان۱۰

[45] ق۷

[46] المرسلات۲۷

[47] ابراہیم۳۴

[48] النحل۲۱

[49] النحل۲۰

[50] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة نوح بَابُ وَدًّا وَلاَ سُواعًا، وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ۴۹۲۰

[51] ابن ہشام۸۳؍۱،الروض الانف۲۱۸؍۱

[52] الاخلاص۱تا۴

[53] ص۴،۵

[54] الزمر ۴۵

[55] فاطر۳۶

[56] الزخرف۷۷،۷۸

[57] الفرقان۱۳،۱۴

[58] المومن۶۰

[59] سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ الْبَرَاءَةُ مِنَ الْكِبْرِ وَالتَّوَاضُعُ ۴۱۷۳،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ ۴۰۹۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الكِبْرِ ۱۹۹۸، مسنداحمد۳۹۱۳، مسند البزار ۱۵۱۲، صحیح ابن حبان۲۲۴،شعب الایمان۵۷۸۲،مصنف ابن ابی شیبة۲۶۵۸۰، مسندابی یعلی۵۰۶۵

[60] الفرقان۵

[61] العنکبوت۱۳

[62] تفسیرطبری۱۹۰؍۱۷

[63] سنن ابوداودکتاب السنة بَابُ لُزُومِ السُّنَّةِ۴۶۰۹

[64] نوح ۲۲

[65] سبا۳۳

[66] فاطر۴۳

[67] الحشر۲

[68] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَا یُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ ۶۱۷۷، وكِتَابُ الجِزْیَةِ والموادعہ بَابُ إِثْمِ الغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالفَاجِرِ۳۱۸۶،۳۱۸۷،صحیح مسلم کتاب الجھاد بَابُ تَحْرِیمِ الْغَدْرِ ۴۵۲۹

[69] الطارق۱۰

[70] الاعراف۳۷

[71] الانعام ۲۲ ، ۲۳

[72] المجادلة۱۸

[73] المومن ۴۶

[74] الضحیٰ۴

[75] الزخرف۷۱

[76] آل عمران۱۹۸

[77] القصص۸۰

[78] الاعلی ۱۶تا۱۹

[79] حم السجدة۳۰تا۳۲

[80]صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ۶۴۶۳،صحیح مسلم کتاب صفة المنافقین بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۱۱

[81] الانبیائ۲۵

[82] الزخرف۴۵

[83] الانعام۱۴۸،۱۴۹

[84] الملک۱۸

[85] المائدة۴۱

[86] ھود۳۴

[87] الاعراف۱۸۶

[88] یونس ۹۶،۹۷

[89] النجم۳۱

[90] الطور۱۴تا۱۶

[91] البقرہ۱۱۷

[92] الانعام۷۳

[93] یٰسین۸۲

[94] القمر۵۰

[95]النحل ۷۷

[96] التوبة۲۰تا۲۲

[97] یونس۲

[98]یوسف۱۰۹

[99] الاحقاف۹

[100] الکہف۱۱۰

[101] الحجر ۹

[102] الملک ۱۶،۱۷

[103] الاعراف۹۷تا۹۹

[104]صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتِینُ ۷۳۷۸

[105] هود: 102

[106] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة ھودبَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ۴۶۸۶

[107] الحج۴۸

[108] الرعد۱۵

[109] آل عمران۸۳

[110] النسائ۱۷۲

[111] الانبیائ۲۲

[112] الزمر۲،۳

[113] ابراہیم۳۰

[114] الانعام۱۳۶

[115] یونس۵۹،۶۰

[116] النجم ۲۱، ۲۲

[117] الصافات۱۵۱تا۱۵۴

[118] الزخرف۱۷

[119] تفسیرطبری۲۳۱؍۱۷،شعب الایمان ۷۰۷۵

[120] الاعراف۳۴

[121] یونس۴۹

[122] الکہف۳۵،۳۶

[123] حم السجدة۵۰

[124] مریم۷۷

[125] الاعراف۵۱

[126] الاعراف۱۶،۱۷

[127] مسنداحمد۱۵۹۵۸،سنن نسائی کتاب الجہادباب مَا لِمَنْ أَسْلَمَ وَهَاجَرَ وَجَاهَدَ ۳۱۳۶،السنن الکبری للنسائی ۴۳۲۷

[128] النسائ۱۲۰

[129] بنی اسرائیل۶۴

[130] الانفال۴۸

[131] ابراہیم۲۲

[132] الکہف۵۰

[133] یٰسین۶۰

[134] البقرة۲

[135] المومنون۲۱

[136] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ الدَّوَاءِ بِالعَسَلِ ۵۶۸۴،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ التَّدَاوِی بِسَقْیِ الْعَسَلِ۵۷۷۰

[137] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ الدَّوَاءِ بِالعَسَلِ۵۶۸۲،وکتاب الاشربة بَابُ شَرَابِ الحَلْوَاءِ وَالعَسَلِ ۵۶۱۴،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ وُجُوبِ الْكَفَّارَةِ عَلَى مَنْ حَرَّمَ امْرَأَتَهُ، وَلَمْ یَنْوِ الطَّلَاقَ ۳۶۷۹

[138] صحیح بخاری کتاب الطب بَابٌ الشِّفَاءُ فِی ثَلاَثٍ ۵۶۸۱

[139] الروم۵۴

[140] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النحل بَابُ قَوْلِهِ وَمِنْكُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ العُمُرِ۴۷۰۷،وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا یُتَعَوَّذُ مِنَ الجُبْنِ ۸۲۳،وکتاب الدعوات بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ فِتْنَةِ المَحْیَا وَالمَمَاتِ ۶۳۶۷، صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاءبَابُ التَّعَوُّذِ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَغَیْرِهِ۶۸۷۳

[141] تفسیرابن ابی حاتم۲۲۹۱؍۷

[142] الروم۲۸

[143] تفسیرطبری۲۵۲؍۱۷

[144] تفسیر طبری ۲۵۲؍۱۷

[145] شعب الایمان ۲۶۲، صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۳۸،صحیح ابن حبان۴۶۴۲،شرح السنة للبغوی۴۳۲۸

Related Articles