بعثت نبوی کا بارهواں سال

مضامین سورۂ النحل(حصہ دوم)

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوكًا لَا یَقْدِرُ عَلَىٰ شَیْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ یَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَیْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلَىٰ شَیْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَیْنَمَا یُوَجِّهْهُ لَا یَأْتِ بِخَیْرٍ ۖ هَلْ یَسْتَوِی هُوَ وَمَنْ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ‎﴿٧٦﴾‏ وَلِلَّهِ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٧٧﴾‏ وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَیْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٧٨﴾‏(النحل)
’’  اللہ   تعالیٰ ایک مثال بیان کرتا ہے  کہ ایک غلام ہے  دوسرے  کی ملکیت کا،  جو کسی بات کا اختیار نہیں  رکھتا ، اور ایک اور شخص ہے  جسے  ہم نے  اپنے  پاس سے  معقول روزی دے  رکھی ہے ،  جس میں  سے  چھپے  کھلے  خرچ کرتا ہے ، کیا یہ سب برابر ہوسکتے  ہیں  ؟   اللہ   تعالیٰ ہی کے  لیے  سب تعریف ہے  بلکہ ان میں  سے  اکثر نہیں  جانتے ،    اللہ   تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے  دو شخصوں  کی،  جن میں  سے  ایک تو گونگا ہے  اور کسی چیز پر اختیار نہیں  رکھتا بلکہ وہ اپنے  مالک پر بوجھ ہے  کہیں  بھی اسے  بھیج دو کوئی بھلائی نہیں  لاتا،  کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے  اور ہے  بھی سیدھی راہ پر،  برابر ہوسکتے  ہیں  ؟ آسمانوں  اور زمین کا غیب صرف   اللہ   تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ،  اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے  جیسے  آنکھ کا جھپکنابلکہ اس سے  بھی زیادہ قریب،  بیشک   اللہ   تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ،    اللہ   تعالیٰ نے  تمہیں  تمہاری ماؤں  کے  پیٹوں  سے  نکالا ہے  کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں  جانتے  تھے ،  اسی نے  تمہارے  کان اور آنکھیں  اور دل بنائے  کہ تم شکر گزاری کرو ۔ ‘‘

اللہ   ایک مثال دیتاہے  ، ایک توہے  غلام جودوسرے  کامملوک ہے  اورخودکوئی قدرت و اختیارنہیں  رکھتا، دوسراشخص ایساہے  جسے  ہم نے  اپنی طرف سے  اچھارزق عطا کیاہے  اوروہ سخی اور بھلائی کوپسندکرنے  والاہے  وہ اپنے  مال سے  کھلے  چھپے  خرچ کرتاہے  ، بتاؤکیایہ دونوں  برابر ہوسکتے  ہیں  ؟باوجوداس بات کے  دونوں  انسان ہیں  ، دونوں    اللہ   کی مخلوق ہیں  اور بھی بہت سی چیزیں  دونوں  کے  درمیان مشترکہ ہیں  اس کے  باوجودرتبہ وشرف اورفضل ومنزلت میں  تم دونوں  کوبرابرنہیں  سمجھتے  ، تو  اللہ   تعالیٰ اورلکڑی یاپتھرکی ایک مورتی ، یاقبرکی ڈھیری یہ دونوں  کس طرح برابر ہوسکتے  ہیں  ، ہوسکتاہے  کسی نے  کہاہوکہ واقعی دونوں  برابرنہیں  ہوسکتے  ، اورکسی نے  خاموشی اختیارکرلی ہوگی ، اور نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  دونوں  جواب پا کرفرمایاالحمدللہ کہ اتنی بات توتمہاری سمجھ میں  آئی مگراکثرلوگ خالق اورمخلوق کے  فرق کو نہیں  سمجھتے ، پہلی مثال میں    اللہ   اورغیر  اللہ   کے  فرق کوصرف اختیار اوربے  اختیاری کے  اعتبارسے  نمایاں  کیاگیا تھا، دوسری مثال میں  وہی فرق اورزیادہ کھول کرصفات کے  لحاظ سے  بیان کیاگیاہے  ، فرمایا   اللہ   ایک اورزیادہ واضح مثال دیتاہے  دوآدمی ہیں  ایک گونگابہراہے کوئی کام نہیں  کرسکتااوراپنے  مالک پربوجھ بناہواہے جدھربھی وہ اسے  بھیجتاہے  کوئی صحیح کام کرنے  کے  بجائے  کام بگاڑکرآجاتاہے  ،  اس کی زندگی کا سارا انحصاراس کے  مالک کی ذات پرہے ، جبکہ دوسرا شخص وہ ہے  جوآزادہے  ، بولتااورسمجھتاہے  ، ہرکام کرنے  پر قادر ہے  ، خودبھی قول وفعل کے  اعتبارسے  راہ راست پرقائم ہے  اور لوگوں  کوبھی انصاف کاحکم دیتاہے  ، اب تم خودانصاف سے  بتاؤکیا یہ دونوں  انسان یکساں  ہوسکتے  ہیں  ؟اگرتمہاراضمیرزندہ ہے  توتم یہی فیصلہ کروگے  کہ یہ کسی صورت بھی برابر نہیں  ہوسکتے ، چنانچہ جس طرح یہ دونوں  شخص برابرنہیں  اسی طرح   اللہ   تعالیٰ اوروہ چیزیں  جن کولوگ   اللہ   کاشریک ٹھیراتے  ہیں  کبھی برابرنہیں  ہوسکتے ، مشرکین مکہ بطور استہزا رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم سے  قیامت کے  بارے  میں  دریافت کرتے  تھے  کہ وہ کب برپاہوگی۔

 وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۴۸ [1]

ترجمہ: کہتے  ہیں  اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے  تو آخر یہ کب پوری ہوگی ؟۔

ان کے  اعتراض کے جواب میں    اللہ   تعالیٰ نے  اپنے  کمال علم وقدرت کاذکر فرمایاکہ زمین وآسمان کے  بے  شمار پوشیدہ حقائق کاعلم تو   اللہ   ہی کو ہے  اور قیامت کے  برپا ہونے  کا معاملہ کچھ زیادہ دیرنہ لے  گاکہ تم سنبھل سکو، قیامت توبس اچانک چشم زدن میں  آجائے  گی اور یہ عظیم الشان کائنات پلک جھپکنے  میں  بلکہ اس سے  بھی کم لمحے  میں  تباہ وبرباد ہوجائے  گی ،  حقیقت یہ ہے  کہ   اللہ   اپنی غیرمتناہی قدرت و قوت سے  سب کچھ کر سکتا ہے ، اورمردوں  کوان کی قبروں  سے دوبارہ کھڑاکردینااس کے  لئے  کوئی مشکل کام نہیں  ہے  ،    اللہ   تعالیٰ نے  اپنے  احسان کاذکرفرمایاہم نے  تم کوتمہاری ماں  کے  پیٹوں  سے  نکالااس حالت میں  کہ تم نہ سعادت و شقاوت کوجانتے  تھے  اورنہ فائدے  اورنقصان کو، اس نے  تمہیں  کان دیے تاکہ تم حق بات سنو، آنکھیں  دیں  تاکہ   اللہ   کی نشانیوں  کودیکھو اورسوچنے  والے  دل دیے  تاکہ حق و باطل اورنفع یانقصان میں  تمیز کرسکو، اس لئے  کہ جس قادر مطلق نے  یہ بے  بہانعمتیں  تمہیں  عطاکی ہیں  تم عبادت واطاعت کر کے    اللہ   کی نعمتوں  پر عملی شکرگزاربنو، جیسے  فرمایا

 قُلْ ہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۲۳قُلْ ہُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [2]

ترجمہ:ان سے  کہو   اللہ   ہی ہے  جس نے  تمہیں  پیدا کیا،  تم کو سننے  اور دیکھنے  کی طاقتیں  دیں  اور سوچنے  سمجھنے  والے  دل دیے ،  مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے  ہو ، ان سے  کہو،    اللہ   ہی ہے  جس نے  تمہیں  زمین میں  پھیلایا ہے  اور اسی کی طرف تم سمیٹے  جاؤ گے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ،  وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِی بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْهِ،  وَمَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ،  فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یَسْمَعُ بِهِ،  وَبَصَرَهُ الَّذِی یُبْصِرُ بِهِ،  وَیَدَهُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا،  وَرِجْلَهُ الَّتِی یَمْشِی بِهَا،  وَإِنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّهُ،  وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیذَنَّهُ،  وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِی عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ،  یَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ فرماتاہے  کہ جس نے  میرے  کسی ولی سے  دشمنی کی اسے  میری طرف سے  اعلان جنگ ہے اورمیرابندہ جن جن عبادتوں  سے  میراقرب حاصل کرتاہے  اورکوئی عبادت مجھ کواس سے  زیادہ پسندنہیں  ہے  جومیں  نے  اس پرفرض کی ہیں  (یعنی فرائض مجھ کوبہت پسندہیں  جیسے  نماز، روزہ، حج، زکوٰة)اورمیرابندہ فرض اداکرنے  کے  بعدنفل عبادتیں  کرکے  مجھ سے  اتنانزدیک ہوجاتاہے  کہ میں  اس سے  محبت کرنے  لگ جاتا ہوں  ،  پھرجب میں  اس سے  محبت کرنے  لگ جاتا ہوں  تو میں  اس کاکان بن جاتاہوں  جس سے  وہ سنتاہے اوراس کی آنکھ بن جاتا ہوں  جس سے  وہ دیکھتاہے  اوراس کاہاتھ بن جاتاہوں  جس سے  وہ پکڑتاہے  اور اس کاپاؤں  بن جاتاہوں  جس سے  وہ چلتا ہے اور اگروہ مجھ سے  سوال کرتاہے  تومیں  اسے  دیتاہوں  ،  اوراگر کسی دشمن یاشیطان سے  میری پناہ کا طالب ہوتاہے  تو میں  اسے  محفوظ رکھتاہوں  ، اورمیں  جوکام کرناچاہتاہوں  اس میں  مجھے  اتناترددنہیں  ہوتا جتناکہ مجھے  اپنے مومن بندے  کی جان نکالنے  میں  ہوتا ہے ، وہ توموت کوبوجہ تکلیف جسمانی کے  پسندنہیں  کرتااورمجھ کوبھی اسے  تکلیف دینابرالگتاہے ۔  [3]

ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں

فَبِی یَسْمَعُ وَبِی یُبْصِرُ وَبِی یَبْطِشُ وَبِی یَمْشِی

وہ میرے  ساتھ ہی سنتامیرے  ساتھ ہی دیکھتامیرے  ساتھ ہی پکڑتااورمیرے  ساتھ ہی چلتاہے ۔ [4]

أَلَمْ یَرَوْا إِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَاءِ مَا یُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٧٩﴾وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُیُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُیُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَیَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿٨٠﴾‏ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیلَ تَقِیكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیلَ تَقِیكُمْ بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ‎﴿٨١﴾‏ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿٨٢﴾‏ یَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ یُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨٣﴾‏‏(النحل۷۹تا۸۳)
’’کیا ان لوگوں  نے  پرندوں  کو نہیں  دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں  ہیں ،  جنہیں  بجز   اللہ   تعالیٰ کے  کوئی اور تھامے  ہوئے  نہیں ،  بیشک اس میں  ایمان لانے  والے  لوگوں  کیلئے  بڑی نشانیاں  ہیں ،  اور   اللہ   تعالیٰ نے  تمہارے  لیے  گھروں  میں  سکونت کی جگہ بنادی ہے  اور اسی نے  تمہارے  لیے  چوپایوں  کی کھالوں  کے  گھر بنا دیئے  ہیں ،  جنہیں  تم ہلکا پھلکا پاتے  ہو اپنے  کوچ کے  دن اور اپنے  ٹھہرنے  کے  دن بھی،  اور ان کی اون اور روؤں  اور بالوں  سے  بھی اس نے  بہت سے  سامان اور ایک وقت مقررہ تک کے  لیے  فائدہ کی چیزیں  بنائیں ،    اللہ   ہی نے  تمہارے  لیے  اپنی پیدا کردہ چیزوں  میں  سے  سائے  بنائے  ہیں  اور اسی نے  تمہارے  لیے  پہاڑوں  میں  غار بنائے  ہیں  اور اسی نے  تمہارے  لیے  کرتے  بنائے  ہیں  جو تمہیں  گرمی سے  بچائیں  اور ایسے  کرتے  بھی جو تمہیں  لڑائی کے  وقت کام آئیں ،  وہ اس طرح اپنی پوری پوری نعمتیں  دے  رہا ہے  کہ تم حکم بردار بن جاؤ، پھر بھی اگر یہ منہ موڑے  رہیں  تو آپ پر صرف کھول کر تبلیغ کردینا ہی ہے ، یہ   اللہ   کی نعمتیں  جانتے  پہچانتے  ہوئے  بھی ان کے  منکر ہو رہے  ہیں ،  بلکہ ان میں  سے  اکثر ناشکرے  ہیں ۔ ‘‘

ان لوگوں  نے  کبھی رنگ برنگ کے  چھوٹے  بڑے  پرندوں  کونہیں  دیکھاجوتابع فرمان ہوکرکہ فضا میں  پروازکرتے  پھرتے  ہیں  ؟  اللہ   کے  سواکس نے  ان کوتھام رکھاہے ؟ جیسے  فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ۝۰ۭؔۘ مَا یُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ۝۰ۭ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍؚبَصِیْرٌ۝۱۹ [5]

ترجمہ:کیایہ لوگ اپنے  اوپر اڑتے  پرندوں  کوپرپھیلائے  اورسکیڑتے  نہیں  دیکھتے ؟رحمٰن کے  سواکوئی نہیں  جوانہیں  تھامے  ہوئے  ہو؟وہی ہرچیزکانگہبان ہے ۔

یعنی یہ   اللہ   ہی کی قدرت کاملہ ہے  جس نے  پرندوں  کواس طرح اڑنے  کی اورہواؤں  کوانہیں  اپنے  دوش پراٹھائے  رکھنے  کی طاقت بخشی ہے  ، ایمان لانے  والے  لوگوں  کے  لئے  اس میں    اللہ   کی قدرت کی بہت سی نشانیاں  ہیں  ،    اللہ   تعالیٰ نے  انسان پراپنے  احسانات ، انعامات کاذکرفرمایاکہ   اللہ   نے  تمہارے  لئے  تمہارے  گھروں  کوتمہارے  مال ومتاع اورتمہاری عزت وناموس کی حفاظت اور سکون کاذریعہ بنایا ، اس نے  جانوروں  کی کھالوں  سے  تمہارے  لئے  ہلکے  پھلکے  خیمے  پیداکیے  جنہیں  تم سفراورحضر دونوں  حالتوں  میں  آسانی سے  تہ کرکے  اٹھائے  پھرتے  ہو اور جہاں  ضرورت پڑتی ہے  اسے  کھول کر تان لیتے  ہواورسردی ، گرمی اوربارش سے  خودکومحفوظ کرلیتے  ہو، اس نے  بکریوں  کے  بالوں  ، بھیڑوں  ، دنبوں  کی اون اوراونٹ کے  صوف سے  تمہارے  لئے  پہننے  اوربرتنے  کی بہت سی چیزیں  پیدا کر دیں  جوزندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے  کام آتی ہیں  ، اس نے  درختوں  ، پہاڑوں  اورٹیلوں  سے  تمہارے  لئے  سائے  اورراحت کا انتظام کیا ،  پہاڑوں  میں  تمہارے  لئے  غاربنائے  جوگرمی، سردی ، بارش اوردشمنوں  سے  بچنے  کے  لئے  پناہ گاہوں  کاکام دیتی ہیں  ، سورۂ کے  شروع میں  سردیوں  کے  لباس کی بات فرمائی تھی۔

 لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ [6]

ترجمہ:جن میں  تمہارے  لیے  پوشاک بھی ہے  اورطرح طرح کے  دوسرے  فائدے  بھی۔

یہاں  گرمی کے  لباس کاذکرفرمایاکہ اس نے  تمہیں  روئی سے  بنی پوشاکیں  بخشیں  تاکہ تم اس سے  سترپوشی اورزیب وزینت حاصل کرواوریہ تمہیں  گرمی سے  بھی بچاتی ہیں  اورلوہے  کی زرہ بکتر جو جنگ میں  دشمنوں  کے  ہتھیاروں  کی زدسے  تمہاری حفاظت کرتی ہیں  ، اس طرح   اللہ   تم پراپنی بے  شمار نعمتوں  کی تکمیل کرتاہے  شایدکہ تم اپنے  منعم حقیقی کی عظمت کے  سامنے  سرتسلیم خم کرواور اطاعت گزار بنو ،  اب اگریہ لوگ دعوت حق پرایمان نہیں  لاتے  تو اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! تم پر پیغام حق صاف صاف پہنچادینے  کی ذمہ داری ہے  ،  ان کی ہدایت وتوفیق آپ کے  ذمہ نہیں  ہے  ، کسی کوراہ راست پرچلنے  کی توفیق بخش دینا   اللہ   کاکام ہے  ، یہ لوگ   اللہ   کے  احسانات کو پہچانتے  ہیں  کہ یہ ساری نعمتیں  پیدا کرنے  والا اور ان کواستعمال میں  لانے  کی صلاحیتیں  عطاکرنے  والاصرف مالک الارض وسماوات ہی ہے  ،  پھر  اللہ   کی ان نعمتوں  کودوسروں  کی طرف منسوب کرتے  ہیں  اور  اللہ   کو چھوڑ کران کی عبادت کرتے  ہیں  جونہ نفع پہنچاسکتے  ہیں  نہ نقصان بلکہ اپنی ذات کے  لئے  اپنے  رب کے  محتاج ہے  ،  اوران میں  اکثریت ایسے  لوگوں  کی ہے  جوحق کو جاننے  کے  باوجوداس پر ایمان لانے  کو تیارنہیں  ہیں  ۔

قَالَ مُجَاهِدٌ ما معناه: هُوَ قَوْلُ الرَّجُلِ: هذا مالی ورثته عن آبائی، وقال عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ:یقولون:لَوْلَا فُلَانٌ مَا كَانَ كَذَا وَكَذَاوقال قتیبة:یقولون: هذا بِشَفَاعَةِ آلِهَتِنَا

اس آیت کی تفسیرمیں  مجاہد رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  انسان کایوں  کہناکہ یہ مال تومجھے  آباؤاجدادکی طرف سے  ورثہ میں  ملاہے    اللہ   کی نعمت کاانکار ہے ،  عون بن عبد  اللہ   کہتے  ہیں  لوگوں  کایہ کہناکہ اگرفلاں  نہ ہوتاتویوں  ہوجاتا  اللہ   کی نعمت کا انکار ہے ، ابن قتیبہ فرماتے  ہیں  لوگوں  کایہ کہناکہ یہ چیزیں  ہمارے  معبودوں  کی سفارش سے  ملی ہیں  بھی   اللہ   تعالیٰ کی نعمت کاانکارہے ۔

قَالَ بَعْضُ السَّلَفِ: هُوَ كَقَوْلِهِمْ كَانَتْ الرِّیحُ طَیِّبَةً وَالْمَلَّاحُ حَاذِقًا،  ونحو ذلك مما هو جار على ألسنة كثیر

جیسے  لوگ کہتے  ہیں  کہ ہوابہت ہی خوب تھی، ملاح ماہراورتجربہ کارتھاوغیرہ جوالفاظ زدعام ہوتے  ہیں  (سب ناجائزہیں  کیونکہ اس طرح کہنے  سے    اللہ   کی نعمت کی نسبت غیر  اللہ   کی طرف ہوجاتی ہے )۔ [7]

وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِیدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِینَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَإِذَا رَأَى الَّذِینَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ یُنْظَرُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَإِذَا رَأَى الَّذِینَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِینَ كُنَّا نَدْعُو مِنْ دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَیْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿٨٦﴾‏ وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ یَوْمَئِذٍ السَّلَمَ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٨٧﴾‏الَّذِینَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا یُفْسِدُونَ ‎﴿٨٨﴾‏(النحل)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں  سے  گواہ کھڑا کریں  گے ،  پھر کافروں  کو نہ اجازت دی جائے  گی اور نہ ان سے  توبہ کرنے  کو کہا جائے  گا،  اور جب یہ ظالم عذاب دیکھ لیں  گے  پھر نہ تو ان سے  ہلکا کیا جائے  گا اور نہ وہ ڈھیل دیئے  جائیں  گے  ، اورجب مشرکین اپنے  شریکوں  کودیکھ لیں  گے  توکہیں  گے  اے  ہمارے  پروردگار!یہی ہمارے  وہ شریک ہیں  جنہیں  ہم تجھے  چھوڑکرپکاراکرتے  تھے  ، پس وہ انہیں  جواب دیں  گے  کہ تم بالکل ہی جھوٹے  ہو، اس دن وہ سب (عاجز ہو کر)   اللہ   کے  سامنے  اطاعت کا اقرار پیش کریں  گے  اور جو بہتان بازی کیا کرتے  تھے  وہ سب ان سے  گم ہوجائے  گی،  جنہوں  نے  کفر کیا اور   اللہ   کی راہ سے  روکا ہم انہیں  عذاب پر عذاب بڑھاتے  جائیں  گے ،  یہ بدلہ ہوگا ان کی فتنہ پردازیوں  کا۔ ‘‘

ہرامت کاگواہ :

ان مکذبین کو کچھ اس روزکی بھی فکرہے  جب کہ ہم ہرامت پراس امت کے  پیغمبرکواوراس کے  بعددعوت حق دینے  والے  کھڑاکریں  گے  اوروہ   اللہ   کے  حضوراس امر کی گواہی دیں  گے  کہ انہوں  نے  لوگوں  کو واضح طورپر   اللہ   کاپیغام پہنچااورشرک اورمشرکانہ اوہام ورسوم پرمتنبہ کردیاتھا مگر انہوں  نے  اس کی تکذیب کے  علاوہ ہرممکن طریقے  سے  اس دعوت کودبانے  کی بھی کوشش کی تھی،   اللہ   تعالیٰ انہیں  اپنی صفائی میں  بولنے  کاپوراپوراموقع دے  گااورپھرعدل وانصاف کے  تمام تقاضوں  کوپوراکرکے  کافروں  کے  جرائم اور ایسی صریح ناقابل انکاراورناقابل تاویل شہادتوں  سے  ثابت کردے  گاکہ مجرمین کے  پاس صفائی پیش کرنے  کی کوئی گنجائش نہیں  رہے  گی اورنہ ان سے  توبہ واستغفار ہی کا مطالبہ کیاجائے  گاکیونکہ وہ دن دارالعمل نہیں  روزجزاہوگا، جیسے  فرمایا

هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَ۝۳۵ۙوَلَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۝۳۶ [8]

ترجمہ: یہ وہ دن ہے  جس میں  وہ نہ کچھ بولیں  گے  اورنہ انہیں  موقع دیاجائے  گاکہ کوئی عذرپیش کریں  ۔

ظالم لوگ جب ایک دفعہ عذاب دیکھ لیں  گے  تواس کے  بعدنہ ان کے  عذاب میں  کوئی تخفیف کی جائے  گی اور نہ انہیں  ایک لمحہ بھرمہلت دی جائے  گی،

عَنْ عَبْدِ اللهِ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِجَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ،  مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ یَجُرُّونَهَا

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس دن(غیض وغضب سے  دیکتی) جہنم (میدان محشرمیں  )لائی جائے  گی ،  اس کی سترہزارلگامیں  ہوں  گی اورہرلگام کے  ساتھ ستر ہزارفرشتے  اسے  گھسیٹے  ہوں  گے ۔ [9]

جب وہ دورسے  دکھائی دینے  لگے  گی تومجرمین اس کے  غیض وغضب کی خوفناک دھاڑیں  سننے  لگیں  گے ۔

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۝۱۲وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭلَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴ [10]

ترجمہ:وہ جب دورسے  ان کودیکھے  گی تویہ اس کے  غضب اورجوش کی آوازیں  سن لیں  گے  اورجب یہ دست وپابستہ اس میں  ایک تنگ جگہ ٹھونسے  جائیں  گے  تواپنی موت کوپکارنے  لگیں  گے (اس وقت ان سے  کہاجائے  گا)آج ایک موت کونہیں  بہت سی موتوں  کوپکارو۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ یَوْمَ القِیَامَةِ لَهَا عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ وَلِسَانٌ یَنْطِقُ،  یَقُولُ: إِنِّی وُكِّلْتُ بِثَلاَثَةٍ،  بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ،  وَبِكُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ،  وَبِالمُصَوِّرِینَ

ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا قیامت کے  دن جہنم میں  سے  ایک گردن باہرنکلے  گی اس کی دوآنکھیں  ہوں  گی جس سے  دیکھتی ہوگی اوردوکان ہوں  گے  جس سے  سنتی ہوگی اور زبان ہوگی جس سے  بولتی ہوگی، وہ کہے  گی میں  تین شخصوں  کے  نگلنے  کے  لئے  مقررہوئی ہوں  ،  ایک سرکش متکبرکے  لئے ، دوسرے  جس نے    اللہ   کے  ساتھ کسی اورکوشریک کیاہوکے  لیے  اورتیسرے  مصورکے  لیے ۔ [11]

اس ساری کاروائی کے  بعد مجرمین خوب جان لیں  گے  کہ انہیں  اس بھڑکتی ہوئی جہنم میں  جھونکا جانے  والاہے ۔

 وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۝۵۳ۧ [12]

ترجمہ:سارے  مجرم اس روزآگ دیکھیں  گے  اورسمجھ لیں  گے  کہ اب انہیں  اس میں  گرناہے  اوروہ اس سے  بچنے  کے  لئے  کوئی جائے  پناہ نہ پائیں  گے  ۔

 لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَلَا هُمْ یُنْــصَرُوْنَ۝۳۹بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ۝۴۰  [13]

ترجمہ:کاش ان کافروں  کواس وقت کاکچھ علم ہوتاجبکہ نہ یہ اپنے  منہ آگ سے  بچا سکیں  گے  نہ اپنی پیٹھیں  اورنہ ان کوکہیں  سے  مددپہنچے  گی ، وہ بلااچانک آئے  گی اورانہیں  اس طرح یک لخت دبوچ لے  گی کہ یہ نہ اس کودفع کرسکیں  گے  اورنہ ان کولمحہ بھرمہلت ہی مل سکے  گی ۔

اور وہ لوگ جنھوں  نے  دنیامیں    اللہ   کی ذات وصفات، افعال اورحقوق میں  غیر   اللہ   کوشریک ٹھیرایا تھا اپنے  ٹھیرائے  ہوئے  شریکوں  کو دیکھیں  گے  تو کہیں  گے اے  پروردگار ! یہی ہیں  ہمارے  وہ شریک جنہیں  ہم مشکل کشا، حاجت روا، قسمتیں  سنوارنے  والا اورگنج بخشنے  والا سمجھتے  تھے  اورتجھ جیسے  عطا کرنے  والے  کو چھوڑکراپنی مشکلات ومصائب میں  انہیں  پکارا کرتے  تھے اوران کی خوشنودی کے  لئے  ان کے  مزاروں  پرنذرونیازپیش کرتے  تھے  ،  جانورقربان کرتے  تھے  اوران کی قبروں  کے  سامنے  اپنی پیشانیاں  رگڑتے  تھے  ، اس پر ان کے  معبودان کے  قول کی تردیدکرتے  ہوئے  کہیں  گے  کہ ہم نے  کبھی تم سے  یہ نہیں  کہاتھاکہ تم   اللہ   وحدہ لاشریک کوچھوڑکر ہمیں  پکاراکرواورنہ ہم نے  کبھی الوہیت کے  استحقاق کادعویٰ کیاتھا بلکہ ہمیں  تویہ بھی خبرنہیں  تھی کہ تم ہمیں  پکاررہے  ہو، اگرتم لوگوں  نے  اپنی خواہش نفس سے  ہمیں  سمیع الدعاء اورمجیب الدعوات اور دستگیر و فریاد رس قرار دیا ہواتھاتو اس بہتان کے  ذمہ دار تم خودہو ہمیں  اس کی ذمہ داری میں  لپیٹنے  کی کوشش نہ کرو جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔  وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ۝۲۸فَكَفٰى بِاللهِ شَهِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۲۹  [14]

ترجمہ : اوران کے  شریک کہیں  گے  کہ تم ہماری عبادت تونہیں  کرتے  تھے  ، ہمارے  اورتمہارے  درمیان   اللہ   کی گواہی کافی ہے  کہ (تم اگرہماری عبادت کرتے  بھی تھے  تو)ہم تمہاری اس عبادت سے  بالکل بے  خبرتھے ۔

وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ ۔ ۔ ۔ ۝۵۲ [15]

ترجمہ: پھر کیا کریں  گے  یہ لوگ اس روز جب کہ ان کارب ان سے  کہے  گا کہ پکارواب ان ہستیوں  کو جنہیں  تم میراشریک سمجھ بیٹھے  تھے ، یہ ان کوپکاریں  گے  مگروہ ان کی مددکونہ آئیں  گے ۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [16]

ترجمہ: ان لوگوں  نے    اللہ   کوچھوڑکراپنے  کچھ خدابنارکھے  ہیں  کہ وہ ان کے  پشتیبان ہوں  گے ، کوئی پشتیبان نہیں  ہوگاوہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں  گے  اورالٹے  ان کے  مخالف بن جائیں  گے ۔

ابراہیم علیہ السلام نے  اپنی قوم سے  فرمایاتھا

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا۝۰ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۡوَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۲۵ۤۙ [17]

ترجمہ:اوراس نے  کہاتم نے  دنیا کی زندگی میں  تو  اللہ   کوچھوڑ کربتوں  کواپنے  درمیان محبت کاذریعہ بنالیاہے  مگرقیامت کے  روزتم ایک دوسرے  کاانکاراورایک دوسرے  پرلعنت کرو گے  اورآگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اورکوئی تمہارا مددگارنہ ہو گا۔

 وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [18]

ترجمہ:آخراس شخص سے  زیادہ بہکا ہواانسان اورکون ہوگاجو  اللہ   کوچھوڑکران کو پکارے  جوقیامت تک اسے  جواب نہیں  دے  سکتے  بلکہ اس سے  بھی بے  خبرہیں  کہ پکارنے  والے  ان کوپکارر ہے  ہیں  ، اورجب تمام انسان جمع کیے  جائیں  گے  اس وقت وہ اپنے  پکارنے  والوں  کے  دشمن اوران کی عبادت کے  منکرہوں  گے ۔

اس وقت مشرکین   اللہ   کی بارگاہ میں  اپنے  شرک کوتسلیم کرلیں  گے  اوراس کے  فیصلے  کے  سامنے  جھک جائیں  گے  ،  جیسے  فرمایا

وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ۝۰ۭ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا۝۱۱۱        [19]

ترجمہ:لوگوں  کے  سراس حی وقیوم کے  آگے  جھک جائیں  گے  ، نامرادہوگاجواس وقت کسی ظلم کابارگناہ اٹھائے  ہوئے  ہو۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [20]

ترجمہ:کاش تم دیکھووہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے  اپنے  رب کے  حضورکھڑے  ہوں  گے  (اس وقت یہ کہہ رہے  ہوں  گے )اے  ہمارے  رب!ہم نے  خوب دیکھ لیااورسن لیااب ہمیں  واپس بھیج دے  تاکہ ہم نیک عمل کریں  ہمیں  اب یقین آگیاہے ۔

اوران کی وہ ساری افتراپردازیاں  جویہ دنیامیں  کرتے  رہے  تھے  رفوچکرہو جائیں  گی ، جن لوگوں  نے  خود کفر کی راہ اختیارکی اوردوسروں  کوبھی مختلف حیلے  بہانوں  اورباطل تاویلوں  سے   اللہ   کی راہ سے  روکتے  رہے ، جیسے  فرمایا

وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْــــَٔـوْنَ عَنْہُ۔ ۔ ۔ ۝۲۶ [21]

ترجمہ: وہ اس امر حق کو قبول کرنے  سے  لوگوں  کو روکتے  ہیں  اور خود بھی اس سے  دور بھاگتے  ہیں  ۔

انہیں  ہم دوگنا عذاب دیں  گے  اس فسادکے  بدلے  جووہ دنیا میں  برپا کرتے  رہے ،  جیسے    اللہ   تعالیٰ مجرمین کوجواب دیے  گا۔

۔ ۔ ۔ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸ [22]

ترجمہ:جواب میں  ارشادہوگاہرایک کے  لئے  دوہرا عذاب ہی ہے مگرتم جانتے  نہیں  ہو۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی كُلِّ أُمَّةٍ شَهِیدًا عَلَیْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ تِبْیَانًا لِكُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ ‎﴿٨٩﴾‏ ۞ إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَىٰ وَیَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ‎﴿٩٠﴾‏ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَیْكُمْ كَفِیلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٩١(النحل)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں  انہی میں  سے  ان کے  مقابلے  پر گواہ کھڑا کریں  گے  اور تجھے  ان سب پر گواہ بنا کر لائیں  گے ،  اور ہم نے  تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے  جس میں  ہر چیز کا شافی بیان ہے ،  اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے  مسلمانوں  کے  لئے ،   اللہ   تعالیٰ عدل کا،  بھلائی کا اور قرابت داروں  کے  ساتھ سلوک کرنے  کا حکم دیتا ہے  اور بے حیائی کے  کاموں ،  ناشائستہ حرکتوں  اور ظلم و زیادتی سے  روکتا ہے ،  وہ خود تمہیں  نصیحتیں  کر رہا ہے  کہ تم نصیحت حاصل کرو،  اور   اللہ   تعالیٰ کے  عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں  قول وقرار کرو اور قسموں  کو ان کی پختگی کے  بعد مت توڑو،  حالانکہ تم   اللہ   تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے  ہو،  تم جو کچھ کرتے  ہو   اللہ   اس کو بخوبی جان رہا ہے ۔ ‘‘

اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !انہیں  اس دن سے  خبردارکردوجب کہ ہم ہرامت میں  خوداسی کاپیغمبربطور گواہ اٹھاکھڑاکریں  گے  جواپنی قوم کے  بارے  میں  شہادت دے  گاکہ اس نے  دعوت حق کے  ساتھ کیابرتاؤکیاتھا، اورانبیاء کی بابت شہادت دینے  کے  لئے  ہم تمہیں  کھڑاکریں  گے ، جیسے  فرمایا

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍؚبِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِیْدًا ۝۴۱ۭ۬ [23]

ترجمہ:پھرسوچوکہ اس وقت یہ کیاکریں  گے  جب ہم ہرامت میں  سے  ایک گواہ لائیں  گے  اوران لوگوں  پرتمہیں  (یعنی محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم ) کوگواہ کی حیثیت سے  کھڑاکریں  گے ۔

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ۝۶ۙ [24]

ترجمہ:پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے  کہ ہم ان لوگوں  سے  باز پرس کریں  جن کی طرف ہم نے  پیغمبر بھیجے  ہیں  اور پیغمبروں  سے  بھی پوچھیں  ( کہ انہوں  نے  پیغام رسانی کا فرض کہاں  تک انجام دیا اور انہیں  اس کا کیا جواب ملا) ۔

 یَوْمَ یَجْمَعُ   اللہ   الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۝۰ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۰۹ [25]

ترجمہ:جس روز   اللہ   سب رسولوں  کو جمع کر کے  پوچھے  گا کہ تمہیں  کیا جواب دیا گیا تو وہ عرض کریں  گے  کہ ہمیں  کچھ علم نہیں  ، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں  کو جانتے  ہیں  ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،  قَالَ: قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْرَأْ عَلَیَّ،  قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ،  آقْرَأُ عَلَیْكَ،  وَعَلَیْكَ أُنْزِلَ،  قَالَ:نَعَمْ فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى أَتَیْتُ إِلَى هَذِهِ الآیَةِ: {فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ،  وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِیدًا} [26]،  قَالَ:حَسْبُكَ الآنَ فَالْتَفَتُّ إِلَیْهِ،  فَإِذَا عَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ

عبد  اللہ   بن مسعود رضی   اللہ   عنہما سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  مجھ سے  فرمایامجھے  قرآن مجیدپڑھ کرسناؤ، میں  نے  عرض کیااے    اللہ   کے رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !میں  آپ کوپڑھ کرسناؤں  آپ پرتوقرآن مجیدنازل ہوتاہے ، رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاہاں  سناؤ، چنانچہ میں  نے  سورہ النساء پڑھی ،  جب میں  آیت ’’پس کیاحال ہوگاجس وقت کہ ہرامت میں  سے  ایک گواہ ہم لائیں  گے  اورآپ کوان لوگوں  پرگواہ بناکرلائیں  گے ۔ ‘‘ تک پہنچا تو(مذکورہ منظرقیامت آنکھوں  میں  سماگیاتوآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم آبدیدہ ہوگئے  ) اورآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااب بس کرو ، میں  نے  آپ کی طرف دیکھاتو آپ کی آنکھوں  سے  آنسوجاری تھے ۔ [27]

ایک مقام پرفرمایا

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا۝۰۝۱۴۳ [28]

ترجمہ: اور اسی طرح توہم نے  تم مسلمانوں  کوایک امت وسط بنایاہے  تاکہ تم دنیاکے  لوگوں  پرگواہ ہواوررسول تم پرگواہ ہو۔

آپ اورآپ کی امت کے  لوگ انبیاء کی بابت گواہی دیں  گے  کہ یہ سچے  ہیں  اور انہوں  نے  یقیناًتیراپیغام پہنچادیاتھااوریہ اسی شہادت کی تیاری ہے  کہ ہم نے  یہ عظیم الشان کتاب تم پرنازل کردی ہے  جوہدایت و ضلالت ، حلال وحرام کی تفصیلات،  اور ماضی ومستقبل کی خبریں  جس کے  بندے  محتاج ہیں  کوواضح طور پرالفاظ ومعانی کے  ساتھ بیان کرنے  والی ہے  ، جولوگ اس کتاب پرایمان لائیں  گے  اور اطاعت کی روش اختیار کریں  گے  ان کے  لئے  دنیامیں  ہدایت و رہنمائی، رب کافضل وکرم ، دلی طمانت ،  دنیا و آخرت میں    اللہ   کے  رحم وکرم کا سبب ، اخروی کامیابی ا وررب کے  بے  بہا انعامات کی بشارت ہے ۔

اللہ   تعالیٰ نے  تین چیزوں  کاحکم فرمایا جن پرانسانی معاشرے  کی درستگی کا انحصارہے ۔

xیہ کہ   اللہ   تعالیٰ کے  حقوق اوربندوں  کے  حقوق میں  عدل انصاف کرو۔

xبندوں  سے  حسن سلوک ،  عفوو د رگزراورفیاضانہ برتاؤکا مظاہرہ کرو۔

x اور رشتہ داروں  سے  صلہ رحمی کرنے  کاحکم دیتاہے ۔

یعنی صرف یہی نہیں  کہ آدمی اپنے  عزیزواقارب کے  ساتھ اچھا برتاؤکرے  اورخوشی وغمی میں  ان کے  ساتھ شریک ہوجائے  بلکہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے  مال پرصرف اپنی ذات اوراپنے  بال بچوں  ہی کے  حقوق نہ سمجھے  بلکہ اپنے  رشتہ داروں  کے  حقوق بھی تسلیم کرے  ، جیسے  فرمایا

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا۝۲۶    [29]

ترجمہ:اور رشتے  داروں  کا اور مسکینوں  اور مسافروں  کا حق ادا کرتے  رہو اور اسراف اور بے جا خرچ سے  بچو۔

اگرکوئی رشتہ دارمالی لحاظ سے  کمزورہے  تواسے  بھوکاننگانہ چھوڑے بلکہ ہر خاندان کے  خوشحال افرادپرپہلاحق ان کے  اپنے  غریب رشتہ داروں  کاہے پھردوسروں  کے  حقوق ان پر عائد ہوتے  ہیں  ،

حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِیمِ بْنِ مُعَاوِیَةَ،  عَنْ أَبِیهِ،  عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: أُمَّكَ. قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمَّكَ. قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ،  ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:أُمَّكَ . قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أَبَاكَ،  ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ

بہز بن حکیم اپنے  والد سے  اور وہ بہز کے  دادا ( معاویہ ابن صدہ) سے  نقل کرتے  ہیں  میں  نے  عرض کیا اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! میں  کس کے  ساتھ بھلائی اور نیک سلوک کرو؟ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا اپنی ماں  کے  ساتھ، میں  نے  عرض کیا پھر کس کے  ساتھ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا اپنی ماں  کے  ساتھ، میں  نے  عرض کیااے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! پھر کس کے  ساتھ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا اپنی ماں  کے  ساتھ، میں  نے  عرض کیا پھر کس کے  ساتھ،  آپ نے  فرمایا اپنے  باپ کے  ساتھ،  اور پھر اس کے  ساتھ جو ماں  باپ کے  بعد تمہارا قریب تر عزیز ہے ( جیسے  بہن بھائی پھر اس کے  ساتھ جو ان بھائی بہن کے  بعد اوروں  میں  زیادہ قریبی عزیز ہے  جیسے  چچا اور ماموں  اور اسی ترتیب کے  مطابق چچاؤں  اور ماموں  کی اولاد وغیرہ)۔ [30]

 عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیكَرِبَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ إِنَّ اللَّهَ یُوصِیكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ ثَلَاثًا،  إِنَّ اللَّهَ یُوصِیكُمْ بِآبَائِكُمْ،  إِنَّ اللَّهَ یُوصِیكُمْ بِالْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ

مقدام بن معدیکرب رضی   اللہ   عنہا سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا   اللہ   تعالیٰ تمہیں  وصیت کرتا ہے  کہ اپنی ماؤں  کے  ساتھ،  اپنے  باپوں  کے  ساتھ اور درجہ بدرجہ قریبی رشتہ داروں  سے  حسن سلوک کرو۔ [31]

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ یُعَجِّلَ اللَّهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِی الدُّنْیَا،  مَعَ مَا یَدَّخِرُ لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِثْلُ الْبَغْیِ وَقَطِیعَةِ الرَّحِمِ

ابوبکرہ رضی   اللہ   عنہا سے مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاکوئی گناہ اس لائق نہیں  کہ   اللہ   تعالیٰ اس کی سزادنیامیں  جلدے  دے  دے  اوراس کے  ساتھ کے  ساتھ ساتھ آخرت میں  بھی اس کی سزاجمع رکھے  جیسے  کہ ظلم وزیادتی اور قطع رحمی ہے ۔  [32]

تین بھلائیوں  کے  ذکرکے  بعدتین برائیوں  کاذکرفرمایا۔

xاور بدی مثلاًشرک ، قتل ناحق ، زنا، برہنگی وعریانی، عمل قوم لوط، محرمات سے  نکاح ،  چوری ، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں  بکنااوربدکلامی ، خودپسندی ، تکبر ،  جھوٹا پروپیگنڈا ،  تہمت تراشی،  پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں  پرابھارنے  والے  افسانے ، ڈرامے  اورفلم ،  عریاں  تصاویر ، علی الاعلان مردوں  اورعورتوں  کے  درمیان اختلاط ہونا، اسٹیج پر عورتوں  کاناچنا اور ناز و اداکی نمائش کرنا۔

x ہروہ گناہ اورمعصیت جس کاتعلق حقوق   اللہ   کے  ساتھ ہو۔

x اور بغی یعنی اپنی حدسے  تجاوزکرنے  اورخالق ومخلوق کے  حقوق پردست درازی کرنے  سے  منع کرتاہے ۔

وہ تمہیں  نصیحت کرتاہے  کہ تاکہ تم سبق لو، اور اگر عہدوپیمان کے  وقت   اللہ   کوضامن بناکرتم نے  قسم کھائی ہے  تو اپنے  عہدوپیمان کوپوراکرو، اورعہدوپیمان پر  اللہ   کواپنے  اوپرگواہ بنانے  کے  بعدانہیں  توڑنہ ڈالو ،  بعض مرتبہ ایسابھی ہوتاہے  کہ کوئی اپنے  طورپرکوئی قسم کھالیتا ہے  کہ میں  فلاں  کام کروں  گایانہیں  کروں  گا

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ: مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ،  فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا،  فَلْیُكَفِّرْ عَنْ یَمِینِهِ،  وَلْیَفْعَلْ

تواس بارے  میں  ابوہریرہ رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاجو شخص کسی بات پرقسم کھائے  پھراس کے  خلاف بہترسمجھے  توجوبہترسمجھے  وہ کرے  اورقسم کاکفارہ ادا کرے  ۔ [33]

رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا،

عَنْ أَبِی بُرْدَةَ،  عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنِّی وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ،  لَا أَحْلِفُ عَلَى یَمِینٍ فَأَرَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا،  إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ یَمِینِی،  وَأَتَیْتُ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ،  أَوْ قَالَ:إِلَّا أَتَیْتُ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ،  وَكَفَّرْتُ یَمِینِی

ابوبردہ رضی   اللہ   عنہا کے  والد سے  مروی ہے نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فریاما جب میں  کسی بات پر قسم کھاؤں  اور بھلائی اس کے  خلاف ہو تو انشاء   اللہ   میں  اپنی قسم توڑ دوں  گا اور جس میں  بھلائی تھی اس کو اختیار کروں  گا۔ [34]

حَدَّثَنَا أَیُّوبُ،  عَنْ أَبِی قِلاَبَةَ،  قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِی مُوسَى،  فَأُتِیَ – ذَكَرَ دَجَاجَةً -،  وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَیْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مِنَ المَوَالِی،  فَدَعَاهُ لِلطَّعَامِ ،  فَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُهُ یَأْكُلُ شَیْئًا فَقَذِرْتُهُ،  فَحَلَفْتُ لاَ آكُلُ،  فَقَالَ: هَلُمَّ فَلْأُحَدِّثْكُمْ عَنْ ذَاكَ،  إِنِّی أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نَفَرٍ مِنَ الأَشْعَرِیِّینَ نَسْتَحْمِلُهُ،  فَقَالَ:وَاللَّهِ لاَ أَحْمِلُكُمْ،  وَمَا عِنْدِی مَا أَحْمِلُكُمْ،  وَأُتِیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ،  فَسَأَلَ عَنَّا فَقَالَ:أَیْنَ النَّفَرُ الأَشْعَرِیُّونَ؟ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى،  فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قُلْنَا: مَا صَنَعْنَا؟ لاَ یُبَارَكُ لَنَا،  فَرَجَعْنَا إِلَیْهِ،  فَقُلْنَا: إِنَّا سَأَلْنَاكَ أَنْ تَحْمِلَنَا،  فَحَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا،  أَفَنَسِیتَ؟قَالَ: لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُكُمْ،  وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ،  وَإِنِّی وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لاَ أَحْلِفُ عَلَى یَمِینٍ،  فَأَرَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا،  إِلَّا أَتَیْتُ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ،  وَتَحَلَّلْتُهَا

عبد  اللہ   حماد ایوب ابوقلابہ قاسم زہدم رضی   اللہ   عنہا سے  روایت کرتے  ہیں  ابوموسیٰ اشعری کے  پاس ہم بیٹھے  ہوئے  تھے  کہ اتنے  میں  ان کے  پاس مرغ مسلم کی ایک قاب آئی اور ان کے  پاس سرخ و سفید رنگ والا ایک آدمی بنو تیم کا بیٹھا ہوا تھا اور وہ غلام معلوم ہوتا تھا اس کو بھی کھانے  پر بلایا تو اس نے  کہا میں  نے  اس جانور کو نجاست کھاتے  دیکھا ہے  اس لئے  میں  اسے  مکروہ جانتا ہوں  اور میں  نے  قسم کھائی ہے  کہ یہ نہیں  کھاؤں  گاتو ابوموسیٰ اشعری نے  کہا کہ آؤ میں  تم کو اس کی بابت سناؤں  ،  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  چند اشعریوں  کے  ساتھ میں  نے  حاضری دی اور سواری طلب کی، تو آپ نے  فرمایا   اللہ   کی قسم! میں  تم کو سواری نہیں  دوں  گا اور میرے  پاس کوئی سواری ہے  ہی نہیں  ، پھر رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس مال غنیمت کے  کچھ اونٹ آئے  تو آپ نے  فرمایا وہ اشعری کہاں  ہیں  ؟ پھر آپ نے  ہم کو پانچ اونٹ سفید کوہان والے  دلوائے ، تو ہم نے  چلتے  وقت اپنے  دل میں  کہا کہ ہم نے  کیا حرکت کی،  اس میں  ہم کو کوئی برکت نصیب نہیں  ہوگی، تو ہم نے  سیدالامم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس لوٹ کر کہا ہمارے  مطالبہ پر آپ نے  قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں  تم کو سواریاں  نہیں  دوں  گا سواریاں  نہ دینے  کی اپنی قسم کو کیا آپ بھول گئے !جس پر سرور عالم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا تم کو ہم نے  سواریاں  نہیں  دیں  بلکہ   اللہ   تعالیٰ نے  تم کو سواریاں  مہیا کی ہیں  ،  اور   اللہ   کی قسم! ان شاء   اللہ   جب میں  کسی بات پر قسم کھاؤں  گا اور اس کے  خلاف کو بہتر پاؤں  گا تو جو بات بہتر ہوگی اس کو برسر عمل لاؤں  گا اور قسم توڑ ڈالا کروں  گا۔ [35]

اورقسم توڑنے  کے  کفارہ کے  بارے  میں  فرمایا

۔ ۔ ۔ فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ۝۰ۭ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰــثَةِ اَیَّامٍ ۔ ۔ ۔ ۝۸۹ [36]

ترجمہ:(ایسی قسم توڑنے  کا)کفارہ یہ ہے  کہ دس مسکینوں  کووہ اوسط درجہ کاکھاناکھلاؤجوتم اپنے  بال بچوں  کوکھلاتے  ہویاانہیں  کپڑے  پہناؤیاایک غلام آزادکرو اور جواس کی استطاعت نہ رکھتاہووہ تین دن کے  روزے  رکھے ۔

اللہ   تمہارے  سب افعال سے  باخبر ہے ، اوروہ نیت اورقصدکے  مطابق جزادے  گا۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَیْمَانَكُمْ دَخَلًا بَیْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِیَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا یَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ ۚ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٣﴾‏(النحل)
’’ اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے  اپنا سوت مضبوط کاتنے  کے  بعد ٹکڑے  ٹکڑے  کرکے  توڑ ڈالا کہ تم اپنی قسموں  کو آپس کے  مکر کا باعث ٹھہراؤ،  اس لیے  کہ ایک گروہ دوسرے  گروہ سے  بڑھا چڑھا ہوجائے  ، بات صرف یہی ہے  کی اس عہد سے    اللہ   تمہیں  آزما رہا ہے ، یقیناً   اللہ   تعالیٰ تمہارے  لیے  قیامت کے  دن ہر اس چیز کو کھول کر بیان کر دے  گا جس میں  تم اختلاف کر رہے  تھے ،  اگر   اللہ   چاہتا تم سب کو ایک ہی گروہ بنا دیتا لیکن وہ جسے  چاہے  گمراہ کرتا ہے  اور جسے  چاہے  ہدایت دیتا ہے ،  یقیناً تم جو کچھ کر رہے  ہو اس کے  بارے  میں  باز پرس کی جانے  والی ہے ۔ ‘‘

وَالسُّدِّیُّ: هَذِهِ امْرَأَةٌ خَرْقَاءُ كَانَتْ بِمَكَّةَ،  كُلَمَّا غَزَلَتْ شَیْئًا نَقَضَتْهُ بَعْدَ إِبْرَامِهِ

سدی سے  مروی ہے مکہ مکرمہ میں  ایک عورت رہتی تھی جس کی عقل میں  فتورتھا ، وہ سارادن بڑی محنت سے  سوت کاتنے  کے  بعدٹھیک ٹھاک اورمضبوط ہوجانے  کے  بعدشام کوبلاوجہ اسے  ٹکڑے  ٹکڑئے  کرکے  بکھیردیاکرتی تھی۔ [37]

اس طرح اس کے  حصے  میں  ناکامی ، تھکاوٹ ، حماقت اورعقل کی کمی کے  سواکچھ کام نہ آیا اس کا حوالہ دیتے  ہوئے  فرمایاتمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے  جس نے  آپ ہی محنت سے  سوت کاتااورپھرآپ ہی اسے  ٹکڑے  ٹکڑے  کرڈالا، یعنی ایسانہ کروکہ بڑی محنت اورلگن سے  نیکیاں  کماؤلیکن حلف عہدکو توڑ کر اپنی تمام نیکیوں  پرپانی پھیر دو اور ظالم ،  جاہل اوراحمق بن جاؤ،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كَانُوا یُحَالِفُونَ الْحُلَفَاءَ،  فَیَجِدُونَ أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَعَزَّفَیَنْقُضُونَ حِلْفَ هَؤُلَاءِ وَیُحَالِفُونَ أُولَئِكَ الَّذِینَ هُمْ أَكْثَرُ وَأَعَزُّ فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ

مجاہد رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  کہ وہ اپنے  حلیفوں  کے  ساتھ پیمان وفاباندھاکرتے  تھے مگرجب وہ یہ دیکھتے  کہ اپنے  حلیفوں  کی نسبت ان کی تعدادزیادہ ہے  اوریہ ان سے  معززبھی زیادہ ہیں  تو وہ ان سے  عہدوپیمان توڑکرایسے  لوگوں  کے  حلیف بن جاتے  جوتعداداورعزت وسربلندی میں  ان سے  زیادہ بڑھے  ہوتے  تھے ،  توایساکرنے  سے  انہیں  منع کردیاگیا ۔ [38]

مسلمانوں  کواس اخلاقی پستی سے  روکتے  ہوئے  فرمایاتم اپنی قسموں  کوآپس کے  معاملات میں  دھوکہ اور فریب کاہتھیاربناتے  ہوتاکہ ایک گروہ دوسرے  گروہ سے  بڑھ کر فائدے  حاصل کرے  ،  جیسے یہود مدینہ کا وطیرہ تھا

۔ ۔ ۔  لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ۔ ۔ ۔ ۝۰۝۷۵ [39]

ترجمہ: وہ کہتے  ہیں  امیوں  (غیریہودی لوگوں  )کے  معاملہ میں  ہم پرکوئی مواخذہ نہیں  ہے ۔

حالاں  کہ   اللہ   اس عہدوپیمان کے  ذریعہ سے  تم کو آزمائش میں  ڈالتاہے  تاکہ سچااوروفادارشخص بدعہداوربدبخت شخص سے  ممتازہوجائے ،  اورقیامت کے  روزوہ ضرور تمہارے  تمام اختلافات کی حقیقت تم پرکھول دے  گااور بدعہدی کرنے  والا  اللہ   کی عدالت میں  مواخذہ سے  بچ نہ سکے  گا ، اگر  اللہ   کی مشیت یہ ہوتی کہ تم میں  کوئی اختلاف نہ ہو تووہ تمہیں  انتشاروخلفشاراوربغض ودشمنی سے  محفوظ فرماکرتم میں  اتفاق واتحادپیدافرمادیتا، جیسے  فرمایا

 وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِیْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۝۹۹ [40]

ترجمہ:اگر تیرے  رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں  سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں  ) تو سارے  اہل زمین ایمان لے  آئے  ہوتے  ۔

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ۝۱۱۸ۙاِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ۝۰ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَہُمْ۔ ۔ ۔ ۝۱۱۹ [41]

ترجمہ:بے  شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں  کو ایک گروہ بنا سکتا تھا مگر اب تو وہ مختلف طریقوں  ہی پر چلتے  رہیں  گے ، اور بے راہ رویوں  سے  صرف وہ لوگ بچیں  گے  جن پر تیرے  رب کی رحمت ہے ، اسی (آزادی انتخاب و اختیاراورامتحان) کے  لیے  ہی تو اس نے  انہیں  پیدا کیا تھا ۔

۔ ۔ ۔ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَآ اٰتٰىكُمْ۔ ۔ ۔  ۝۴۸ۙ [42]

ترجمہ:اگر تمہارارب چاہتاتوتم سب کوایک امت بھی بناسکتاتھالیکن اس نے  یہ اس لئے  کیاکہ جوکچھ اس نے  تم لوگوں  کودیاہے  اس میں  تمہاری آزمائش کرے ۔

چنانچہ اس نے  انسان کواختیاروانتخاب کی آزادی دی ہے ، اب اگرکوئی گمراہی کی راہ منتخب کرتاہے  تو   اللہ   اس کے  لئے  یہ راستہ ہموارکر دیتا ہے  اورکوئی راہ راست کاطالب ہوتا ہے  تو  اللہ   اس کی ہدایت ورہنمائی کابندوبست فرمادیتاہے  ، اوروہ ضرورتم سے  تمہارے  اعمال کی بازپرس کرے  گا۔

وَلَا تَتَّخِذُوا أَیْمَانَكُمْ دَخَلًا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿٩٤﴾‏ وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِیلًا ۚ إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِینَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیَاةً طَیِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٩٧﴾‏(النحل)
’’اور تم اپنی قسموں  کو آپس کی دغابازی کا بہانہ نہ بناؤ،  پھر تمہارے  قدم اپنی مضبوطی کے  بعد ڈگمگا جائیں  گے  اور تمہیں  سخت سزا برداشت کرنا پڑے  گی کیونکہ تم نے    اللہ   کی راہ سے  روک دیا اور تمہیں  سخت عذاب ہوگا،  تم   اللہ   کے  عہد کو تھوڑے  مول کے  بدلے  نہ بیچ دیا کرو،  یاد رکھو   اللہ   کے  پاس کی چیز ہی تمہارے  لیے  بہتر ہے  بشرطیکہ تم میں  علم ہو،  تمہارے  پاس جو کچھ ہے  سب فانی ہے  اور   اللہ   تعالیٰ کے  پاس جو کچھ ہے  باقی ہے ،  اور صبر کرنے  والوں  کو ہم بھلے  اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں  گے ،  جو شخص نیک عمل کرے  مرد ہو یا عورت لیکن باایمان ہو تو ہم یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں  گے ،  اور ان کے  نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں  ضرور ضرور دیں  گے ۔ ‘‘

اللہ   کے  عہدکوپوراکرنے  کے  بارے  میں  مزیدتاکیدفرمائی کہ اے  مسلمانو!تم اپنی قسموں  کواپنی خواہشات نفس کاتابع نہ بناؤکہ جب چاہوپوراکردواورجب چاہوتوڑدوکہیں  ایسا نہ ہوکہ تمہاری اس اخلاقی پستی کودیکھ کر اسلام کی صداقت کاقائل ہوجانے  کے  بعدکوئی شخص دین اسلام سے  برگشتہ ہوکر ایمان لانے  سے  بیزارہو جائے اوراس طرح تم لوگوں  کو  اللہ   کے  راستے  سے  روکنے  کے  مجرم اورسزا کے  مستحق بن جاؤ، جوعہدومیثاق تم نے    اللہ   کوضامن بناکرکیاہویااسلام کے  نمائندے  ہونے  کی حیثیت سے  کیاہو اس کو تھوڑے  سے  متاع دنیاکے  بدلے  نہ بیچ ڈالو، اگرتم   اللہ   پریقین رکھتے  ہوتویادرکھواگرتم عہدوپیمان کی پابندی کروگے  تو  اللہ   قیامت کے  روز جوصلہ تمہیں  عطافرمائے  گاوہ متاع دنیا سے  کہیں  زیادہ بہترہوگا اوردنیاکی نعمتیں  خواہ وہ کتنی ہی زیادہ کیوں  نہ ہوں  زائل ہوجانے  والی ہیں  جبکہ آخرت کی نعمتیں  لازوال اورابدی ہیں  ، جیسے  فرمایا

 ۔ ۔ ۔ وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝۱۹۸ [43]

ترجمہ:اورجوکچھ   اللہ   کے  پاس ہے  نیک لوگوں  کے  لئے  وہی سب سے  بہترہے ۔

پس وہ شخص عقل مند نہیں  جوفانی اورخسیس چیزکوہمیشہ رہنے  والی نفیس چیز پر ترجیح دیتاہے  مگرانسان پھربھی جانتے  بوجھتے  دنیاکی زندگی کوآخرت پرترجیح دیتاہے  ، جیسے    اللہ   تعالیٰ نے  ارشادفرمایا

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ [44]

ترجمہ:مگرتم لوگ دنیاکی زندگی کوترجیح دیتے  ہوحالانکہ آخرت بہترہے  اورباقی رہنے  والی ہے ۔

اوران لوگوں  کوجوہرطمع اورخواہش اورجذبہ نفسانی کے  مقابلہ میں  حق اورراستی پرقائم رہیں  گے  ہم ان کوان کے  مرتبے  ان کے  بہترین اعمال کے  مطابق عطافرمائیں  گے ،  جوشخص بھی نیک عمل کرے  گاخواہ وہ مردہو یا عورت بشرطیکہ ہووہ مومن کیونکہ ایمان اعمال صالحہ کی صحت اوران کی قبولیت کے  لئے  شرط ہے  بلکہ اعمال صالحہ کوایمان کے  بغیراعمال صالحہ کہاہی نہیں  جاسکتا اسے  ہم دنیامیں  اطمینان قلب ،  سکون نفس اوررزق حلال عطافرمائیں  گے ،

وَقَالَ الضَّحَّاكُ: هِیَ الرِّزْقُ الْحَلَالُ وَالْعِبَادَةُ فِی الدُّنْیَاوَقَالَ الضَّحَّاكُ أَیْضًا: هِیَ الْعَمَلُ بِالطَّاعَةِ وَالِانْشِرَاحُ بِهَا

ضحاک رحمہ   اللہ   ’’پاکیزہ زندگی۔ ‘‘ کے  بارے  میں  کہتے  ہیں  اس سے  مراددنیامیں  رزق حلال اورعبادت کی توفیق کاحاصل ہوناہے  ،  ضحاک سے  یہ بھی مروی ہے  کہ اس سے  مرادانشراح قلب کے  ساتھ طاعت بجالاناہے  اورصحیح بات یہ ہے  کہ حیات طیبہ ان سب امورپرمشتمل ہے ۔ [45]

اورآخرت میں  ایسے  لوگوں  کوان کامرتبہ ان کے  بہترین اعمال کے  مطابق بخشیں  گے ۔

فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ‎﴿٩٨﴾‏ إِنَّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٩٩﴾‏ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِینَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏ وَإِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَكَانَ آیَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٠١﴾‏ قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ ‎﴿١٠٢﴾‏(النحل)
’’قرآن پڑھنے  کے  وقت راندے  ہوئے  شیطان سے    اللہ   کی پناہ طلب کرو، ایمان والوں  اور اپنے  پروردگار پر بھروسہ رکھنے  والوں  پر زور مطلقًا نہیں  چلتا،  ہاں  اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے  جو اسی سے  رفاقت کریں  اور اسے    اللہ   کا شریک ٹھہرائیں ،  جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے  ہیں  اور جو کچھ   اللہ   تعالیٰ نازل فرماتا ہے  اسے  وہ خوب جانتا ہے  تو یہ کہتے  ہیں  کہ تو تو بہتان باز ہے ،  بات یہ ہے  کہ ان میں  سے  اکثر جانتے  ہی نہیں ،  کہہ دیجئے  کہ اسے  آپ کے  رب کی طرف سے  جبرائیل حق کے  ساتھ لے  کر آئے  ہیں  تاکہ ایمان والوں  کو   اللہ   تعالیٰ استقات عطا فرمائے  اور مسلمانوں  کی رہنمائی اور بشارت ہوجائے  ۔ ‘‘

شیطان کاطریقہ واردات اوراس کاعلاج :

شیطان کی اصل چال یہ ہے  کہ انسان کو  اللہ   تعالیٰ کے  جلیل القدرکلام قرآن سے  دوررکھے  اوراسے    اللہ   کاپیغام وصول نہ کرنے  دے  ،  اس کاطریقہ کاریہ ہے  کہ اول توانسان قرآن پڑھنے  نہ پائے  اوراگرپڑھے  توسمجھ نہ پائے  اورکچھ سمجھ جائے  توعمل نہ کرنے  پائے  ،   اللہ   تعالیٰ نے  رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کوخطاب کرکے  ساری امت کواس کاشافی وکافی علاج بیان فرمایاکہ جب تم کتاب   اللہ   کی قرات کاارادہ کروتوپہلے  شیطان کے  گمراہ کن وسوسوں  ، بے  جاشکوک وشہبات اورغوروتدبر سے  رک جانے  سے  محفوظ رہنے  کے  لئے  دل کی گہرائیوں  سے  عَوْذٌ بِاللَّهِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ پڑھ کر  اللہ   کی پناہ حاصل کرنے  کی التجاکر لیاکرو، شیطان کو ان لوگوں  پرتسلط حاصل نہیں  ہوتاجو  اللہ   وحدہ لاشریک پر ایمان لاتے  اوراپنے  رب پربھروساکرتے  ہیں  ،

عَنْ سُفْیَانَ فِی قَوْلِهِ: {إِنَّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ} قَالَ: لَیْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى أَنْ یَحْمِلَهُمْ عَلَى ذَنْبٍ لَا یُغْفَرُ

سفیان ثوری رحمہ   اللہ   کہتے  ہیں  اس آیت کریمہ ’’اسے  ان لوگوں  پرتسلط حاصل نہیں  ہوتاجوایمان لاتے  اوراپنے  رب پربھروسہ کرتے  ہیں  ۔ ‘‘کے  معنی یہ ہیں  شیطان کاان لوگوں  پرزورنہیں  چلتاکہ وہ انہیں  ایسے  گناہ میں  مبتلاکردے  جس سے  وہ توبہ نہ کریں  ۔ [46]

پس   اللہ   تعالیٰ توکل کرنے  والے  اہل ایمان سے  شیطان کے  شرکو دور ہٹا دیتا ہے  اورشیطان کوان پرکوئی اختیارنہیں  رہتا، شیطان ملعون کازورتوانہی لوگوں  پرچلتاہے  جو  اللہ   تعالیٰ کی دوستی سے  نکل کرشیطان کواپناسرپرست بناکرغفلت وجہالت کی اتھاہ گہرائیوں  میں  مستغرق رہتے  ہیں  ، پھرشیطان ان کو  اللہ   کی نافرمانی پرابھارتارہتاہے  اوروہ اس کی فرمانبرداری کے  باعث شرک کرتے  ہیں  ، جب ہم اپنی حکمت ومشیت کے  تحت کسی مضمون کوایک مثال سے  اورکبھی دوسری مثال سے  سمجھاتے  ہیں  ، کبھی ایک ہی قصہ کے  ایک پہلوکوپیش کرتے  ہیں  توکبھی اس کے  دوسرے  پہلو کو اجاگر کرتے  ہیں  ، کبھی کسی معاملہ کی ایک دلیل پیش کرتے  ہیں  توکبھی دوسری دلیل تویہ کفارومشرکین کہتے  ہیں  کہ اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !   اللہ   کوکوئی حاجت نہیں  کہ وہ اپنے  کلام میں  کسی مضمون کوایک مثال سے  سمجھائے  اورکبھی دوسری مثال سے ، کبھی ایک ہی قصہ کے  ایک پہلوکوپیش کرے  توکبھی اس کے  دوسرے  پہلوکواجاگرکرے ، کبھی ایک دلیل پیش کرے  توکبھی دوسری دلیل ،  اگریہ کلام   اللہ   کی طرف سے  نازل ہواہوتاتووہ اپنی پوری بات بتدریج نازل کرنے  کے  بجائے  بیک وقت کہہ دیتااورمختلف مثالیں  اوردلائل بیان نہ کرتااس لئے  ہم سمجھتے  ہیں  کہ یہ قرآن تم خودتصنیف کرتے  ہواورخودہی اس میں  ردوبدل کرتے  رہتے  ہو، اصل بات یہ ہے  کہ ان میں  سے  اکثرلوگ حقیقت سے  ناواقف ہیں  ، اے  محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم !ان سے  کہوکہ یہ عظیم الشان پاکیزہ کلام میراگھڑاہوانہیں  ہے بلکہ اسے  تو   اللہ   رب العالمین نے  تمام انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے  لئے  نازل فرمایاہے  اور جبریل امین جیسے  مقرب فرشتے  نے  جوبشری کمزوریوں  اورنقائص سے  پاک ہے  پوری حقانیت وصداقت کے  ساتھ رب کے  حکم سے  تھوڑاتھوڑاکرکے  نازل کیاہے ، جیسے  فرمایا

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙ [47]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے  ، اسے  لے  کرتیرے  دل پرامانت دار روح اتری ہے  تاکہ توان لوگوں  میں  شامل ہوجو(  اللہ   کی طرف سے  خلق   اللہ   کو)متنبہ کرنے  والے  ہیں  ۔

تاکہ ایمان لانے  والوں  کے  ایمان کوپختہ کرے  ،  اورفرمان برداروں  کوزندگی کے  معاملات میں  سیدھی راہ بتائے  اورانہیں  اخروی فلاح وسعادت کی خوشخبری دے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِی، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ،  وَرُزِقَ كَفَافًا وقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ

عبد  اللہ   بن عمروبن العاص رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس نے  فلاح حاصل کرلی جو مسلمان ہوگیااور برابر سرابر روزی دیاگیااورجوملااسی پرقناعت نصیب ہوئی۔ [48]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ آمَنَ،  وَرُزِقَ كَفَافًا،  وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِهِ

عبد  اللہ   بن عمرو رضی   اللہ   عنہ سے ایک اور روایت میں  ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااس نے  نجات پائی جسے  اسلام کی راہ دکھادی گئی اورجسے  پیٹ پالنے  کا ٹکڑا میسرہوگیااور  اللہ   نے  اس کے  دل کوقناعت سے  بھردیا۔ [49]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،  قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً،  یُعْطَى بِهَا فِی الدُّنْیَا وَیُجْزَى بِهَا فِی الْآخِرَةِ ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَیُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِی الدُّنْیَا،  حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ،  لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ یُجْزَى بِهَا

انس بن مالک رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا  اللہ   تعالیٰ کسی مومن پرایک نیکی کے  لئے  بھی ظلم نہیں  کرے  گابلکہ اس کابدلہ دنیااورآخرت دونوں  جگہوں  پردے  گااور کافرکواس کی نیکیوں  کابدلہ دنیامیں  دے  دیاجاتاہے  یہاں  تک کہ جب آخرت ہوگی تو اس کے  ہاتھ میں  کوئی نیکی باقی نہیں  رہتی جس کابدلہ دیاجائے ۔ [50]

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِسَانُ الَّذِی یُلْحِدُونَ إِلَیْهِ أَعْجَمِیٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِینٌ ‎﴿١٠٣﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ لَا یَهْدِیهِمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٠٤﴾‏ إِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ ‎﴿١٠٥﴾(النحل)
’’ ہمیں  بخوبی علم ہے  کہ یہ کافر کہتے  ہیں  کہ اسے  تو ایک آدمی سکھاتا ہے  اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے  ہیں  عجمی ہے  اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں  ہے ،  جو لوگ   اللہ   تعالیٰ کی آیتوں  پر ایمان نہیں  رکھتے  انہیں    اللہ   کی طرف سے  بھی رہنمائی نہیں  ہوتی اور ان کے  لیے  المناک عذاب ہیں ، جھوٹ افترا تو وہی باندھتے  ہیں  جنہیں    اللہ   تعالیٰ کی آیتوں  پر ایمان نہیں  ہوتا،  یہی لوگ جھوٹے  ہیں  ۔ ‘‘

اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !ہمیں  بخوبی علم ہے  کہ یہ کفار تمہارے  متعلق کہتے  ہیں  کہ تمہیں  عامربن الحضرمی کارومی غلام جبر، یاعبدالعزیٰ کاغلام عائش یایعیش، یامکہ معظمہ کی ایک عورت کایہودی غلام یسارجس کی کنیت ابوفکیہہ ہے ، یاایک رومی غلام بلعان یابلعام سکھاتاپڑھاتاہے  حالانکہ ان کاجھوٹ تواسی بات سے  واضح ہے  کہ جس غلام کی طرف ان کاگمان ہے  کہ وہ تمہیں  سکھاتاپڑھاتا ہے  اس کی زبان عجمی ہے  اوروہ فصاحت کے  ساتھ عربی بولنے  پرقادرنہیں  ہے  جبکہ یہ کلام صاف عربی زبان میں  ہے  ، جوفصاحت وبلاغت اور اعجازبیان میں  بے  نظیرہے  ، اوردنیابھرکے  فصحاء وبلغاء چیلنج کے  باوجوداس کی نظیرپیش کرنے  سے  قاصرہیں  ، حقیقت یہ ہے  کہ جولوگ   اللہ   کی حق مبین پردلالت کرتی ہوئی آیات کونہیں  مانتے  ،   اللہ   کی بھیجی ہوئی ہدایت کوٹھکراتے  ہیں  توپھر  اللہ   بھی کبھی ان کوصحیح بات تک پہنچنے  کی توفیق نہیں  دیتااورایسے  لوگوں  کے  لئے  دردناک عذاب ہے ،   اللہ   تعالیٰ پرجھوٹی باتیں  نبی نہیں  گھڑتابلکہ جھوٹ وہ لوگ گھڑرہے  ہیں  جوواضح دلائل کے  باوجودقرآن کے  منزل من   اللہ   ہونے  کے  منکرہیں  ،  حقیقت میں  وہی جھوٹے  ہیں  ۔

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَٰكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٠٦﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیَاةَ الدُّنْیَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٠٧﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ‎﴿١٠٨﴾‏ لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِی الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿١٠٩﴾‏ (النحل)
’’جو شخص اپنے  ایمان کے  بعد   اللہ   سے  کفر کرے  بجز اس کے  جس پر جبر کیا جائے  اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو،  مگر جو لوگ کھلے  دل سے  کفر کریں  تو ان پر   اللہ   کا غضب ہے  اور انہی کے  لیے  بہت بڑا عذاب ہے ،  یہ اس لیے  کہ انہوں  نے  دنیا کی زندگی کو آخرت سے  زیادہ محبوب رکھا،  یقیناً   اللہ   تعالیٰ کافر لوگوں  کو راہ راست نہیں  دکھاتا،  یہ وہ لوگ ہیں  جن کے  دلوں  پر اور جن کے  کانوں  اور جن کی آنکھوں  پر مہر لگا دی ہے  اور یہی لوگ غافل ہیں ،  کچھ شک نہیں  کہ یہی لوگ آخرت میں  سخت نقصان اٹھانے  والے  ہیں ۔ ‘‘

مسلمانوں  کودین اسلام سے  روکنے  اوراپنی مشرکانہ ملت پرواپس لانے  کے  لئے  ان پر ناقابل برداشت مظالم ڈھائے  جارہے  تھے  ،   اللہ   تعالیٰ نے  ان کوفرمایاکہ جوشخص ایمان لانے  کے  بعدکفارکے  ظلم وستم، جبرواکراہ سے  مجبورہوکرمحض جان بچانے  کے  لئے  قولاًیافعلاًکفرکاارتکاب کرلے  مگراس کادل اس کے  ایمان پرمطمئن ہوتووہ کافرنہیں  ہوگا اور اس کامواخذہ نہ ہو گا مگراس رخصت کے  باوجوداہل ایمان کلمہ کفرکہنے  کوتیارنہ تھے  ، خباب بن ارت رضی   اللہ   عنہا کوآگ کے  انگاروں  پرلٹایاجاتایہاں  تک کہ ان کی چربی پگھلنے  سے  آگ بجھ جاتی تھی مگر وہ کلمہ کفرمنہ سے  نکالنے  کے  بجائے  سختی کے  ساتھ اپنے  ایمان پرقائم رہے ۔

وَأَمَّا سَائِرُهُمْ فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُونَ، وَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیدِ ،  وَصَهَرُوهُمْ فِی الشَّمْسِ،  فَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلَى مَا أَرَادُوا إِلَّا بِلَالًا،  فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَیْهِ نَفْسُهُ فِی اللَّهِ،  وَهَانَ عَلَى قَوْمِهِ،  فَأَخَذُوهُ فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ فَجَعَلُوا یَطُوفُونَ بِهِ فِی شِعَابِ مَكَّةَ، وَهُوَ یَقُولُ: أَحَدٌ أَحَدٌ

مشرکین بلال حبشی کوپکڑتے  اورلوہے  کی زرہ پہناکرمکہ مکرمہ کی چلچلاتی دھوپ میں  کھڑاکر دیتے ، ان میں  سے  کوئی ایسانہیں  تھاجس نے  مشرکوں  کے  ارادہ کی موافقت نہ کی، مگربلال رضی   اللہ   عنہ کہ   اللہ   کی عظمت کے  آگے  ان کانفس ان کی نظرمیں  ذلیل ہوگیااوروہ اپنی قوم کے  آگے ذلیل ہوگئے ،  مشرکین ان کوشریر لڑکوں  کے  حوالے  کردیتے  اوروہ انہیں  آگ کی طرح تپتی ریت پرلٹاکرمکہ کی گھاٹیوں  میں  گھسیٹے  ہوئے  لے جاتے  مگروہ منہ سے  کلمہ کفرکہنے  کے  بجائے    اللہ   کی توحیدأَحَدٍأَحَدٍہی کہتے  تھے ۔ [51]

وَیَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ كَلِمَةً هِیَ أَغْیَظُ لَكُمْ مِنْهَا لَقُلْتُهَا،  رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُ، وَكَذَلِكَ حَبِیبُ بْنُ زَیْدٍ الْأَنْصَارِیُّ لَمَّا قَالَ لَهُ مُسَیْلِمَةُ الْكَذَّابُ: أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ؟فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَیَقُولُ: أَتَشْهَدُ أَنِّی رَسُولُ اللَّهِ؟فَیَقُولُ: لَا أَسْمَعُ، فَلَمْ یَزَلْ یُقَطِّعُهُ إرْبًا إرْبًا وَهُوَ ثَابِتٌ عَلَى ذَلِكَ

اورفرمایاکرتے  تھے  کہ و  اللہ   اگراس سے  بھی زیادہ تمہیں  چھبنے والاکوئی لفظ میرے  علم میں  ہوتاتومیں  وہی کہتا، حبیب بن زید رضی   اللہ   عنہا بن عاصم سے  مسیلمہ کذاب نے  کہاتومحمد( صلی   اللہ   علیہ وسلم )کی رسالت کی گواہی دیتا ہے ؟ انہوں  نے  فرمایا ہاں  ، اس نے  پھرپوچھاکہ کیاتومیری رسالت کی گواہی دیتاہے  ؟انہوں  نے  فرمایامیں  بہرہ ہوں  مجھے  کچھ سنائی نہیں  دیتا، اس پرمسیلمہ کذاب نے  حکم دیاکہ حبیب بن زید رضی   اللہ   عنہا کے  جسم سے  ایک ایک عضو کاٹا جائے  ، ہرعضو کے  کٹنے  پران سے  یہ مطالبہ کیاگیاکہ وہ مسیلمہ کذاب کونبی تسلیم کرلیں  مگرہرمرتبہ وہ اس کی رسالت کاانکارکرتے  رہے  یہاں  تک کہ انہوں  نے  اپنی جان دے  دی ۔

عماربن یاسر رضی   اللہ   عنہ کی آنکھوں  کے  سامنے  ان کے  والداوروالدہ سمیہ کوانسانیت سوز عذاب دے  کرشہیدکردیاگیاپھرعمار رضی   اللہ   عنہا کوبھی ناقابل برداشت اذیتیں  پہنچائی گئیں  ،

أَخَذَ الْمُشْرِكُونَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ فَعَذَّبُوهُ حَتَّى قَارَبَهُمْ فِی بَعْضِ مَا أَرَادُوا فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟قَالَ: مُطَمْئِنًا بِالْإِیمَانِ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ عَادُوا فَعُدْ

محمدبن عماربن یاسرسے  مروی ہے آخرکارمشرکین نے  عماربن یاسر رضی   اللہ   عنہ کو پکڑا اور عذاب دینا شروع کئے ، یہاں  تک کہ آپ(جان بچانے  کے  لئے ) ان کے  ارادوں  کے  قریب ہوگئے ، پھر(وہاں  سے  آزاد ہو کر روتے  ہوئے ) رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت آکرشکایت کرنے  لگے ،  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھا تم اپنے  دل کا کیاحال پاتے  ہو؟ انہوں  نے  عرض کیامیں  اپنے  دل کوایمان پرپوری طرح مطمئن پاتاہوں  ، اس پر نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااگروہ پھراسی طرح کاظلم کریں  توتم پھریہی باتیں  کہہ دینا۔ [52]

اورامام بیہقی رحمہ   اللہ   نے  اس واقعہ کوزیادہ تفصیل سے  بیان کیاہے ،

مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ،  عَنْ أَبِیهِ،  قَالَ:قَالَ: أَخَذَ الْمُشْرِكُونَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ فَلَمْ یَتْرُكُوهُ حَتَّى سَبَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ آلِهَتَهُمْ بِخَیْرٍ ثُمَّ تَرَكُوهُ،  فَلَمَّا أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا وَرَاءَكَ؟قَالَ: شَرٌّ یَا رَسُولَ اللهِ مَا تُرِكْتُ حَتَّى نُلْتُ مِنْكَ وَذَكَرْتُ آلِهَتَهُمْ بِخَیْرٍ،  قَالَ: كَیْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟ قَالَ: مُطْمَئِنًّا بِالْإِیمَانِ، قَالَ: إِنْ عَادُوا فَعُدْ

عماربن یاسر رضی   اللہ   عنہ سے  مروی ہے مشرکین مکہ نے  عماربن یاسر رضی   اللہ   عنہ کوپکڑلیاانہوں  نے  ان پراس وقت تک ظلم وستم کیاجب تک کہ انہوں  نے  (معاذ  اللہ  )نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کو برا بھلااورمشرکوں  کے  بتوں  کااچھے  الفاظ میں  ذکرکردیاپھرانہوں  نے  انہیں  چھوڑدیا،  جب وہ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  پہنچے  توآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھاکیاہواتھا؟ انہوں  نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کی خدمت میں  ساراماجرابیان کرتے  ہوئے  عرض کی اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم !مجھے  اس وقت تک چھوڑاہی نہ گیا جب تک کہ میں  نے  آپ کی ذات گرامی کوگالی نہ دے  لی اوران کے  بتوں  کواچھانہ کہہ لیا، آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایاتمہارے  دل کی کیا کیفیت ہے  ؟انہوں  نے  عرض کی دل ایمان کے  ساتھ مطمئن ہے  ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااگرمشرکین دوبارہ درپے  آزارہوں  توتم پھراسی طرح کی بات کہہ(کرجان بچا)لینا۔ [53]

حافظ ابن عساکر رحمہ   اللہ   نے  صحابی رسول عبد  اللہ   بن حذافہ رضی   اللہ   عنہ کے  حالات میں  لکھاہے

أَنَّهُ أَسَرَتْهُ الرُّومُ،  فَجَاءُوا بِهِ إِلَى مَلِكِهِمْ،  فَقَالَ لَهُ: تَنَصَّرْ وَأَنَا أُشْرِكُكَ فِی مُلْكِی وَأُزَوِّجُكَ ابْنَتِی،  فَقَالَ لَهُ: لَوْ أَعْطَیْتَنِی جَمِیعَ مَا تَمْلِكُ وَجَمِیعَ مَا تَمْلِكُهُ الْعَرَبُ عَلَى أَنْ أَرْجِعَ عَنْ دِینِ مُحَمَّدٍ طَرْفَةَ عَیْنٍ،  مَا فَعَلْتُ! فَقَالَ: إِذًا أَقْتُلُكَ،  قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ! فَأَمَرَ بِهِ فَصُلِبَ،  وَأَمَرَ الرُّمَاةَ فَرَمَوْهُ قَرِیبًا مِنْ یَدَیْهِ وَرِجْلَیْهِ،  وَهُوَ یَعْرِضُ علیه دین النَّصْرَانِیَّةِ، فَیَأْبَى،  ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَأُنْزِلَ،

انہیں  رومیوں  نے  گرفتارکرلیااورانہیں  اپنے  بادشاہ کے  پاس لے  آئے ،  بادشاہ نے  انہیں  کہاتم عیسائی ہوجاؤتومیں  تمہیں  اپنی بادشاہت میں  شریک کرلیتاہوں  اوراپنی بیٹی کاتمہیں  رشتہ بھی دے  دیتاہوں  ،  عبد  اللہ   نے  جواب دیااگرتومجھے  اپنی ساری حکومت ودولت دے  دے اورعربوں  کی ساری حکومت ودولت بھی، اورمیں  ایک لمحے  کے  لیے  بھی محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  دین سے  پھرجاؤں  تویہ نہیں  ہوسکتا، بادشاہ نے  کہا اگرعیسائیت کو قبول نہیں  کروگے  تومیں  تمہیں  قتل کردوں  گا، عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ نے  کہاتم جانواورتمہاراکام، بادشاہ نے  حکم دیااورانہیں  لٹکا دیا گیا پھراس نے  تیراندازوں  کوحکم دیاکہ ان کے  ہاتھوں  اورپاؤں  پرتیرمارو،  تیراندازتیرچلارہے  تھے  اوربادشاہ انہیں  عیسائیت قبول کرنے  کے  لیے  اصرارکررہاتھا لیکن عبد  اللہ   مسلسل انکارکررہے  تھے ، بادشاہ نے  حکم دیااورآپ کونیچے  اتارلیاگیا،

ثُمَّ أَمَرَ بِقِدْر وَفِی رِوَایَةٍ: بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ،  فَأُحْمِیَتْ،  وَجَاءَ بِأَسِیرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَأَلْقَاهُ وَهُوَ یَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ عِظَامٌ تَلُوحُ،  وَعَرَضَ عَلَیْهِ فَأَبَى،  فَأَمَرَ بِهِ أَنْ یُلْقَى فِیهَا فَرُفِعَ فِی البَكَرَة لِیُلْقَى فِیهَا فَبَكَى،  فَطَمِعَ فِیهِ وَدَعَاهُ،  فَقَالَ لَهُ: إِنِّی إِنَّمَا بَكَیْتُ لِأَنَّ نَفْسِی إِنَّمَا هِیَ نَفْسٌ وَاحِدَةٌ،  تُلْقى فِی هَذِهِ الْقِدْرِ السَّاعَةَ فِی اللَّهِ،  فَأَحْبَبْتُ أَنْ یَكُونَ لِی بِعَدَدِ كُلِّ شَعْرَةٍ فِی جَسَدِی نَفْسٌ تُعَذَّبُ هَذَا الْعَذَابَ فِی اللَّهِ

پھراس کے  حکم سے  پیتل کے  ایک کڑاہے  میں  تیل گرم کیاگیااورعبد  اللہ   کی آنکھوں  کے  سامنے  اس میں  ایک مسلمان قیدی کوپھینک دیاگیا، لمحہ بھرمیں  اس کی ہڈیوں  سے  گوشت اترکرجداہوگیا،  بادشاہ نے  عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ کوعیسائیت کے  قبول کرنے  کی دعوت دی مگرعبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ نے  اب بھی انکارکردیا،  بادشاہ نے  حکم دیاکہ عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ کواس کھولتے  ہوئے  تیل میں  گرادو، آپ کومنجنیق میں  رکھ دیاگیاتاکہ تیل میں  گرا دیا جائے ،  اس وقت عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ رونے  لگے ،  بادشاہ کوخیال آیاعبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ شایدعیسائی ہونے  کوتیارہیں  اس نے  آپ کوبلایا اور پوچھاتوآپ نے  فرمایامیں  تواس لیے  رورہاہوں  کہ   اللہ   کی محبت کی خاطر نثار کرنے  کے  لیے  میرے  پاس اس وقت صرف ایک ہی جان ہے ، اے  کاش!میرے  پاس میرے  جسم کے  ہرہربال کے  عوض ایک ایک جان ہوتی اورمیں  ان سب کو  اللہ   کی محبت کی خاطرباری باری نثارکردیتا۔

وَفِی بَعْضِ الرِّوَایَاتِ: أَنَّهُ سَجَنَهُ وَمَنَعَ عَنْهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ أَیَّامًا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیْهِ بِخَمْرٍ وَلَحْمِ خِنْزِیرٍفَلَمْ یَقْرَبْهُ،  ثُمَّ اسْتَدْعَاهُ فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْكُلَ؟فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ حَلَّ لِی وَلَكِنْ لَمْ أَكُنْ لِأُشَمِّتَكَ فِیَّ،  فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ: فَقَبِّلْ رَأْسِی وَأَنَا أُطْلِقُكَ،  فَقَالَ: وَتُطْلِقُ مَعِی جَمِیعَ أَسَارَى الْمُسْلِمِینَ؟ قَالَ: نَعَمْ،  فَقَبَّلَ رَأْسَهُ فَأَطْلَقَهُ وَأَطْلَقَ مَعَهُ جَمِیعَ أَسَارَى الْمُسْلِمِینَ عِنْدَهُ ،  فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: حَقّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ یُقَبِّلَ رَأْسَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ وَأَنَا أَبْدَأُ فَقَامَ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ

بعض روایات میں  ہے  کہ رومی بادشاہ نے  آپ کوزندان میں  ڈال دیااورکچھ دن کھانے  پینے  کوبھی نہ دیا پھر شراب اورخنزیرکاگوشت بھیجا مگرآپ نے  ہاتھ لگانے  سے  بھی انکارکردیا،  بادشاہ نے  آپ کوبلایا اور پوچھا کہ آپ نے  کھاناکیوں  نہیں  کھایا؟ آپ نے  فرمایااگرچہ اضطراری حالت میں  میرے  لیے  یہ کھاناحلال تھا لیکن میں  تمہیں  اس بات سے  خوش نہیں  کرناچاہتاتھاکہ تم یہ کہوکہ میں  نے  ایک مسلمان کوشراب پلادی اورخنزیرکاگوشت کھلادیا، بادشاہ نے  کہامیں  اس شرط پرتمہیں  رہاکرنے  کے  لیے  تیارہوں  کہ میرے  سرکوبوسہ دے  دو، عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ نے  فرمایاہاں  بشرطیکہ تم تمام مسلمان قیدیوں  کورہاکردو؟بادشاہ نے  کہاہاں  میں  اس کے  لیے  تیارہوں  ، عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ نے  اس کے  سرکوبوسہ دیا تواس نے  آپ کورہاکردیااورآپ کے  ساتھ تمام مسلمان قیدیوں  کوبھی رہاکردیاجواس کے  پاس تھے ،  جب عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ مدینہ منورہ میں  واپس آئے  توسیدناعمر رضی   اللہ   عنہ بن خطاب نے  فرمایاکہ ہرمسلمان کے  لیے  یہ واجب ہے  کہ وہ عبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ بن حذافہ کے  سرکوبوسہ دے اورسب سے  پہلے  میں  بوسہ دیتاہوں  ،  چنانچہ آپ کھڑے  ہوئے  اورعبد  اللہ   رضی   اللہ   عنہ کے  سرکوبوسہ دینے  لگے ۔ [54]

مگر جن لوگوں  نے  راہ حق کوکٹھن پا کر ایمان کو خیر باد کہہ دیا اوراپنی کافرومشرک قوم میں  جاملے ، جودنیاکے  چندٹکڑوں  میں  طمع اوررغبت کی بناپراورآخرت کی بھلائی سے  روگردانی کرکے  الٹے  پاؤں  پھر گئے ، جنہوں  نے  ایمان کے  مقابلے  میں  کفرکوچن لیا وہ غضب الٰہی اورعذاب عظیم کے  مستحق ہوں  گے  ، جیسے  فرمایا

 ۔ ۔ ۔ وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۱۷ [55]

ترجمہ:(اوریہ خوب سمجھ لوکہ) تم میں  سے  جوکوئی اپنے  دین سے  پھرے  گااورکفرکی حالت میں  جان دے  گااس کے  اعمال دنیااورآخرت دونوں  میں  ضائع ہوجائیں  گے  ،  ایسے  سب لوگ جہنمی ہیں  اورہمیشہ اسی میں  ہی رہیں  گے ۔

یہ اس لئے  کہ انہوں  نے  آخرت کے  مقابلہ میں  دنیاکی زندگی کو پسند کر لیا اور  اللہ   کا قاعدہ ہے  کہ وہ ان لوگوں  کوراہ نجات نہیں  دکھاتاجواس کی نعمت کاکفران کریں  ، یہ وہ لوگ ہیں  جن کے  کفر کے  سبب   اللہ   نے  ان کے  دلوں  ، کانوں  اورآنکھوں  پر مہرلگادی ہے ، جیسے  فرمایا

خَتَمَ   اللہ   عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ۝۷ۧ       [56]

ترجمہ:  اللہ   نے  ان کے  دلوں  اور ان کے  کانوں  پر مہر لگا دی ہے  اور ان کی آنکھوں  پر پردہ پڑگیا ہے  ۔

پس اب یہ وعظ ونصیحت کی باتیں  سنتے  ہیں  نہ انہیں  سمجھتے  ہیں  اورنہ وہ حق کی طرف رہنمائی کرنے  والی نشانیاں  ہی دیکھتے  ہیں  ، بلکہ یہ ایسی غفلت میں  مبتلاہیں  جس نے  ہدایت کے  راستے  ان کے  لئے  مسدودکردیے  ہیں  ضرورہے  کہ آخرت میں  اپنی جان ، مال اوراہل وعیال کے  بارے  میں  خسارے  میں  رہیں  گے ۔

ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِینَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿١١٠﴾‏۞ یَوْمَ تَأْتِی كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿١١١﴾‏ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً یَأْتِیهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا یَصْنَعُونَ ‎﴿١١٢﴾‏ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿١١٣﴾(النحل)
’’جن لوگوں  نے  فتنوں  میں  ڈالے  جانے  کے  بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کا ثبوت دیا بیشک تیرا پروردگار ان باتوں  کے  بعد انہیں  بخشنے  والا اور مہربانیاں  کرنے  والا ہے  ، جس دن ہر شخص اپنی ذات کے  لیے  لڑتا جھگڑتا آئے  اور ہر شخص کو اس کے  کیے  ہوئے  اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے  گا اور لوگوں  پر (مطلقاً ) ظلم نہ کیا جائے  گا ،   اللہ   تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے  جو پورے  امن و اطمینان سے  تھی،  اس کی روزی اس کے  پاس با فراغت ہر جگہ سے  چلی آرہی تھی،  پھر اس نے    اللہ   تعالیٰ کی نعمتوں  کا کفر کیا تو   اللہ   تعالیٰ نے  اسے  بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے  کرتوتوں  کا ،  ان کے  پاس انہی میں  سے  رسول پہنچا پھر بھی انہوں  نے  اسے  جھٹلایا پس انہیں  عذاب نے  آدبوچا اور وہ تھے  ہی ظالم۔ ‘‘

بخلاف اس کے  جن کمزور لوگوں  کاحال یہ ہے  کہ جب دین اسلام قبول کرنے  کی وجہ سے  ان پر انسانیت سوزظلم وستم ڈھایاگیا توبالآخر  اللہ   تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کی خاطروہ اپنے  خویش واقارب ، وطن اورمال وجائیدادوغیرہ سب کچھ چھوڑکرہجرت کرگئے  ، پھررسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کی معیت میں  جہادفی سبیل   اللہ   میں  بھرپورحصہ لیااورکفارکے  ساتھ مردانہ وارلڑے  ، پھردنیامیں    اللہ   کے  کلمے  کوسربلندکرنے  میں  مشغول ہوگئے  اوراس راہ کی شدتوں  اورالم ناکیوں  کوصبرواستقامت کے  ساتھ برداشت کیا، ان کے  لئے  یقینا ً تیرا رب غفورورحیم ہے ، ان سب کافیصلہ اس دن ہوگاجب کہ ہرمتنفس اپنے  ہی بچاؤکی فکرمیں  لگاہواہوگایعنی ہرمتنفس نفسی نفسی پکارے  گا، جیسے  فرمایا

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ۝۳۳ۡیَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ ۭ [57]

ترجمہ: آخرکار جب وہ کان بہرے  کردینے  والی آوازبلندہوگی اس روزآدمی اپنے  بھائی ا وراپنی ماں  اوراپنے  باپ اوراپنی بیوی اوراپنی اولادسے  بھاگے  گا، ان میں  سے  ہرشخص پراس دن ایسا وقت آپڑے  گاکہ اسے  اپنے  سواکسی کاہوش نہ ہوگا۔

یوم الدین میں  ہرشخص کو اس کے  کیے  کابدلہ پوراپورادیاجائے  گا، نہ کسی نیکی کے  ثواب میں  کمی اورنہ کسی برائی کے  بدلے  میں  زیادتی کی جائے  گی ، جیسے  فرمایا

فَالْیَوْمَ لَا تُــظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــًٔا وَّلَا تُجْـزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۵۴ [58]

ترجمہ:آج کسی پرذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے  گا اورتمہیں  ویساہی بدلہ دیاجائے  گاجیسے  تم عمل کرتے  رہے  تھے ۔

اللہ   ایک بستی کی مثال دیتا ہے  ، وہ امن واطمینان کی زندگی بسرکررہی تھی ، ان کے  اردگردلڑائیاں  ہوتی تھیں  مگر ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھاکرنہیں  دیکھتاتھا، جیسے  فرمایا

وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا۝۰ۭ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓى اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا۔ ۔ ۔  ۝۵۷ [59]

ترجمہ:وہ کہتے  ہیں  اگر ہم تمہارے  ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں  تو اپنی زمین سے  اچک لیے  جائیں  گے ،  کیا یہ واقعہ نہیں  ہے  کہ ہم نے  ایک پر امن حرم کو ان کے  لیے  جائے  قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے  ثمرات کھچے  چلے  آتے  ہیں  ہماری طرف سے  رزق کے  طور پر؟ ۔

اللہ   تعالیٰ اس بے  آب وگیاہ بستی میں  ہرطرف سے  ہرطرح کاعمدہ رزق انہیں  بفراغت پہنچا رہاتھاکہ ان لوگوں  نے    اللہ   کی نعمتوں  کاکفران شروع کر دیا ،  جیسے  فرمایا

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ۝۲۸ۙ [60]

ترجمہ:تم نے  دیکھاان لوگوں  کو جنہوں  نے    اللہ   کی نعمت پائی اوراسے  کفران نعمت سے  بدل ڈالااور(اپنے  ساتھ)اپنی قوم کوبھی ہلاکت کے  گھرمیں  جھونک دیا۔

تب رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  ان کے  لئے  قحط سالی کی بددعاکی

اللَّهُمَّ أَعِنِّی عَلَیْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ یُوسُفَ

اے    اللہ   !ان کے  خلاف میری مددایسے  قحط سے  کرجیسایوسف علیہ السلام کے  زمانہ میں  پڑاتھا۔ [61]

چنانچہ   اللہ   تعالیٰ نے  اس بستی کے  باشندوں  کوان کے  کرتوتوں  کایہ مزاچکھایاکہ بفراغت رزق کی جگہ بھوک اورامن کے  بجائے  خوف کی مصیبتیں  ان پرچھاگئیں  ، اورانہوں  نے  بھوک کی شدت سے  مجبورہوکرہڈیاں  ، درختوں  کے  پتے  اور اونٹ کے  خون میں  لتھڑے  ہوئے  بال تک کھائے  (ابن عباس رضی   اللہ   عنہ کے  قول کے  مطابق یہاں  خودمکہ مکرمہ کونام لئے  بغیربطورمثال پیش کیاگیاہے ، جوامن کاگہوارہ اوراطمینان کی جگہ تھی اورجس خوف اوربھوک کی مصیبت کے  چھاجانے  کاذکرفرمایاگیاہے  اس سے  مرادوہ قحط ہوگاجونبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کی بعثت کے  بعدایک مدت تک اہل مکہ پرمسلط رہا)  اللہ   تعالیٰ نے  اپنے احسان کاذکرفرمایاکہ   اللہ   تعالیٰ نے  ان کے  پاس ان کی اپنی قوم میں  سے  ایک رسول مبعوث کیا، جیسے  فرمایا

كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَكِّیْكُمْ وَیُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۱۵۱ۭ ۛ فَاذْكُرُوْنِیْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِیْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ [62]

ترجمہ:جس طرح (تمہیں  اس چیز سے  فلاح نصیب ہوئی کہ ) میں  نے  تمہارے  درمیان خود تم میں  سے  ایک رسول بھیجا جو تمہیں  میری آیات سناتا ہے  ،  تمہارے  زندگیوں  کو سنوارتا ہے ،  تمہیں  کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے  اور تمہیں  وہ باتیں  سکھاتا ہے  جو تم نہ جانتے  تھے  ، لہٰذا تم مجھے  یاد رکھو میں  تمہیں  یاد رکھوں  گا اور میرا شکر ادا کرو کفران نعمت نہ کرو ۔

لَقَدْ مَنَّ   اللہ   عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَكِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱۶۴ [63]

ترجمہ:درحقیقت اہل ایمان پر تو   اللہ   نے  یہ بہت بڑا احسان کیا ہے  کہ ان کے  درمیان خود انہی میں  سے  ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں  سناتا ہے ،  ان کی زندگیوں  کو سنوارتا ہے  اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے  حالانکہ اس سے  پہلے  یہی لوگ صریح گمراہیوں  میں  پڑے  ہوئے  تھے ۔

۔ ۔ ۔  فَاتَّقُوا   اللہ   یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ۝۰ڀ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۭۣۛ قَدْ اَنْزَلَ   اللہ   اِلَیْكُمْ ذِكْرًا۝۱۰ۙ رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ   اللہ   مُبَـیِّنٰتٍ۔ ۔ ۔  ۝۱۱ [64]

ترجمہ: پس   اللہ   سے  ڈرو اے  صاحب عقل لوگو جو ایمان لائے  ہو،    اللہ   نے  تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کر دی ہے ، ایک ایسا رسول جو تم کو   اللہ   کی صاف صاف ہدایت دینے  والی آیات سنا تا ہے  ۔

جس کی صداقت اورامانت کووہ خوب جانتے  تھے  ، جوانہیں  دعوت حق پیش کرتاتھااوربرائیوں  سے  روکتاتھامگراس بستی کے  لوگوں  نے    اللہ   کی اس عظیم نعمت کو جھٹلا دیا آخرکاران کی بداعمالیوں  ، ان کے  کفراوران کی ناشکری کی پاداش میں  ایک وقت مقررہ پر  اللہ   کے عذاب نے  ان کو آ لیا ،  جیسے  فرمایا

۔ ۔ ۔  وَمَا ظَلَمَهُمُ اللهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۳۳ [65]

ترجمہ: پھر جو کچھ ان کے  ساتھ ہواوہ ان پر  اللہ   کاظلم نہ تھابلکہ ان کااپناظلم تھاجوانہوں  نے  خود اپنے  اوپرکیا۔

‏ فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَیِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِیَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎﴿١١٤﴾‏ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَیْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿١١٥﴾‏ وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ ‎﴿١١٦﴾‏ مَتَاعٌ قَلِیلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١١٧﴾‏(النحل)
’’جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی   اللہ   نے  تمہیں  دے  رکھی ہے  اسے  کھاؤ اور   اللہ   کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے  ہو ، تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر   اللہ   کے  سوا دوسرے  کا نام پکارا جائے  حرام ہیں ،  پھر اگر کوئی بے بس کردیا جائے  نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے  گزر جانے  والا ہو تو یقیناً   اللہ   بخشنے  والا رحم کرنے  والا ہے ،  کسی چیز کو اپنی زبان سے  جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے  اور یہ حرام ہے  کہ   اللہ   پر جھوٹ بہتان باندھ لو،  سمجھ لو کہ   اللہ   تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے  والے  کامیابی سے  محروم ہی رہتے  ہیں ،  انہیں  بہت معمولی فائدہ ملتا ہے  اور ان کے  لیے  ہی دردناک عذاب ہے ۔ ‘‘

حلال وحرام صرف   اللہ   کی طرف سے  ہیں  :

یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے  کہ خوراک کے  انسانی اخلاق وکردارپراثرات مرتب ہوتے  ہیں  ، اسی لئے  قرآن مجیدمیں  متعدد مقامات پراورتعلیمات نبوی میں  ان گنت مرتبہ رزق حلال کی طلب اورحلال اشیاء کے  کھانے  پینے  کاحکم ہے  ، یہاں  بھی فرمایا اے  لوگو!اگرتم واقعی   اللہ   کی بندگی کرنے  میں  مخلص ہوتواپنی خواہش اورمرضی کے  مطابق اشیاء کی حلت وحرمت کے  متعلق رائے  قائم نہ کیاکروبلکہ   اللہ   نے  جوکچھ حلال اورپاک رزق تم کوبخشاہے  اسے  کھاؤاورجوکچھ   اللہ   کے  قانون میں  حرام وخبیث ہے  اس سے  پرہیزکرو، اور  اللہ   کے  احسان کادل سے  اعتراف کرکے  اس نعمت پر  اللہ   کی حمدوثناکرکے  اوراس کو  اللہ   تعالیٰ کی اطاعت میں  صرف کر کے  شکراداکرو،   اللہ   نے  جوکچھ تم پرحرام کیاہے  وہ ہے  مرداراورخون اورسورکاگوشت اوروہ جانورجس پر  اللہ   کے  سواکسی اورکانام لیاگیاہوالبتہ بھوک سے  مجبور اور بیقرار ہو کر اگر کوئی ان چیزوں  کوکھالے ، بغیراس کے  کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کاخواہش مندہو یا حدضرورت سے  تجاوزکامرتکب ہوتویقیناً  اللہ   معاف کرنے  اوررحم فرمانے  والا ہے ، اسی مضمون کوتین اورمقامات پربیان کیاگیاہے ۔

 اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللهِ۝۰ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۷۳ [66]

ترجمہ:  اللہ   کی طرف سے  اگرکوئی پابندی تم پرہے  تووہ یہ ہے  کہ مردارنہ کھاؤ، خون سے  اورسورکے  گوشت سے  پرہیزکرواورکوئی ایسی چیزنہ کھاؤجس پر  اللہ   کے  سوا کسی اورکانام لیاگیاہو، ہاں  جوشخص مجبوری کی حالت میں  ہواوروہ ان میں  سے  کوئی چیزکھالے  بغیراس کے  کہ وہ قانون شکنی کاارادہ رکھتاہویاضرورت کی حدسے  تجاوزکرے  تو اس پرکچھ گناہ نہیں  ،   اللہ   بخشنے  والااوررحم کرنے  والاہے ۔

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ۝۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ۔ ۔ ۔ ۝۳ [67]

ترجمہ:تم پرحرام کیاگیا مردار ،  خون ،  سور کا گوشت، وہ جانورجو  اللہ   کے  سواکسی اورکے  نام پرذبح کیاگیاہو، وہ جوگلاگھٹ کریاچوٹ کھاکریابلندی سے  گرکریا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے  کسی درندے  نے  پھاڑاہوسوائے  اس کے  جسے  تم نے  زندہ پاکرذبح کرلیااوروہ جوکسی آستانے  پرذبح کیاگیاہو، نیزیہ بھی تمہارے  لئے  ناجائزہے  کہ پانسوں  کے  ذریعہ سے  اپنی قسمت معلوم کرو، یہ سب افعال فسق ہیں  ۔

قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ۝۰ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۴۵           [68]

ترجمہ:اے  نبی!ان سے  کہوکہ جووحی میرے  پاس آئی ہے  اس میں  تومیں  کوئی چیزایسی نہیں  پاتاجوکسی کھانے  والے  پرحرام ہوالایہ کہ وہ مردار ہو یابہایا ہوا خون ہویا سور کا گوشت ہوکہ وہ ناپاک ہے  ، یافسق ہوکہ   اللہ   کے  سواکسی اورکے  نام پرذبح کیاگیاہو، پھرجوشخص مجبوری کی حالت میں  (کوئی چیزان میں  سے  کھالے )بغیراس کے  کہ وہ نافرمانی کاارادہ رکھتاہواوربغیراس کے  کہ وہ حدضرورت سے  تجاوزکرے  تویقیناًتمہارارب درگزرسے  کام لینے  والااوررحم فرمانے  والاہے ۔

ان آیات میں  چارمحرمات کاذکرفرمایاگیاہے  تاہم’’ وَمَآاُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ ‘‘ کے  مفہوم میں  تاویلات اورتوجیہات کرکے  شرک کاچوردروازہ تلاش کیاجاتاہے ، اس سلسلہ میں  کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں  ، جوجانورغیر  اللہ   کے  لئے  نامزد کردیا جائے  اس کی مختلف صورتیں  ہیں  یہ کہ غیر  اللہ   کے  تقرب اوراس کی رضاوخوشنودی کیلئے  اسے  ذبح کیا جائے  اورذبح کرتے  وقت نام بھی اسی بت یابزرگ کالیاجائے  ،  بزعم خویش جس کوراضی کرنامقصود ہے  ، دوسری صورت یہ ہے  کہ مقصود توغیر  اللہ   کاتقرب ہی ہولیکن ذبح   اللہ   کے  نام پرکیاجائے  جس طرح کہ قبرکے  پجاریوں  میں  یہ سلسلہ عام ہے ، وہ جانوروں  کوبزرگوں  کے  لئے  نامزدتوکرتے  ہیں  مثلا ًیہ بکرافلاں  پیرکاہے ، یہ گائے  فلاں  پیرکی ہے  ،  یہ جانور شیخ عبدالقادرجیلانی گیارہویں  والے  پیرکے  لئے  ہے  وغیرہ اوران کووہ بسم   اللہ   پڑھ کرہی ذبح کرتے  ہیں  اس لئے  وہ کہتے  ہیں  کہ پہلی صورت تویقیناًحرام ہے  لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں  ہے بلکہ جائز ہے  کیوں  کہ یہ غیر  اللہ   کے  نام پرذبح نہیں  کیاگیاہے  اوراس طرح شرک کاچوردروازہ کھول دیاگیاہے ، حالانکہ فقہانے  اس دوسری صورت کوبھی حرام قراردیاہے  اس لئے  کہ یہ بھی وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ میں  شامل ہے ، چنانچہ حاشیہ بیضاوی میں  ہے  ہروہ جانورجس پرغیر  اللہ   کانام پکاراجائے  حرام ہے  اگرچہ ذبح کے  وقت اس پر  اللہ   ہی کانام لیاجائے  ، اس لئے  علما کااتفاق ہے  کہ کوئی مسلمان اگرغیر  اللہ   کا تقرب حاصل کرنیکی غرض سے  جانورذبح کرے  گاتووہ مرتد ہو جائے  گااوراس کاذبیحہ مرتدکاذبیحہ ہوگا۔

اورفقہ حنفی کی مشہورکتاب درمختارمیں  ہے

وَیَظْهَرُ ذَلِكَ أَیْضًا فِیمَا لَوْ ضَافَهُ أَمِیرٌ فَذَبَحَ عِنْدَ قُدُومِهِ،  فَإِنْ قَصَدَ التَّعْظِیمَ لَا تَحِلُّ وَإِنْ أَضَافَهُ بِهَا

بخوبی معلوم ہے  کہ حاکم اورکسی طرح کسی بڑے  کی آمدپر(حسن خلق یاشرعی ضیافت کی نیت سے  نہیں  بلکہ اس کی رضامندی اوراس کی تعظیم کے  طورپر)جانورذبح کیاجائے  تو وہ حرام ہوگا۔ [69]

اس لئے  کہ وہ وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ میں  داخل ہے  اگرچہ اس پر  اللہ   ہی کا نام لیاگیاہو، اسی طرح آستانوں  ، درباروں  اورتھانوں  پرذبح کیے  گئے  جانورحرام ہیں  وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ جو جانور بتوں  کے  پاس یاتھانوں  پر ذبح کیے  جائیں  اس لئے  کہ وہاں  ذبح کرنے  کایاوہاں  لے  جاکرتقسیم کرنے  کامقصدغیر  اللہ   سے تقرب حاصل کرنا ہی ہوتا ہے ،

ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ،  قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ،  فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَ: إِنِّی نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ،  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ كَانَ فِیهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِیَّةِ یُعْبَدُ؟قَالُوا: لَا،  قَالَ:هَلْ كَانَ فِیهَا عِیدٌ مِنْ أَعْیَادِهِمْ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَةِ اللَّهِ،  وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ

ثابت بن ضحاک سے  مروی ہے رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  دورمیں  ایک شخص نے  نذرمانی ہے  کہ میں  مقام بوانہ پرایک اونٹ ذبح کرے  گا، پھروہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  پاس آیااورکہابے  شک میں  نے  بوانہ میں  اونٹ ذبح کرنے  کی نذرمانی ہے ،  آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  دریافت فرمایا کیاوہاں  زمانہ جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی پرستش ہوتی رہی ہو ؟ صحابہ رضی   اللہ   عنہم نے  کہانہیں  ،  پھرآپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  پوچھاکیا وہ جگہ ان کے  لئے  میلہ گاہ تھی ؟صحابہ رضی   اللہ   عنہم نے  کہانہیں  ،  تورسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایااپنی نذرپوری کرلے ، تحقیق ایسی نذرکی کوئی وفانہیں  جس میں    اللہ   کی نافرمانی ہواورنہ اس کی جوانسان کی ملکیت میں  نہ ہو۔ [70]

اس سے  یہ معلوم ہواکہ بتوں  کے  ہٹائے  جانے  کے  بعدبھی غیرآبادآستانوں  پرجاکرجانورذبح کرنا جائز نہیں  ہے  چہ جائیکہ ان آستانوں  اوردرباروں  پر جاکرذبح کیے  جائیں  جوپرستش اور نذرونیازکے  لئے  مرجع عوام ہیں  ۔

أَعَاذَنَا اللَّهُ مِنْہ ،

مشرکین عرب مختلف جانوروں  کواپنے  معبودوں  کی خوشنودی حاصل کرنے  کے  لئے  ان کے  نام پروقف کرتے  تھے  اورانہیں  بَحِیْرَةٍ ، سَاۗىِٕبَةٍ، وَصِیْلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ کانام دے  کرخودپرحرام کرلیتے  تھے  ان کے  بارے  میں  فرمایاکہ یہ جو تمہاری زبانیں  جھوٹے  احکام لگایاکرتی ہیں  کہ یہ چیزحلال ہے  اوروہ حرام تواس طرح کے  ضابطے  بناکر  اللہ   پرجھوٹ نہ باندھو، جولوگ   اللہ   پرجھوٹے  افترا باندھتے  ہیں  وہ دنیاوآخرت میں  ہرگزفلاح نہیں  پایاکرتے ، دنیاکاعیش چندروزہ ہے  آخرکاران کے  لئے  دردناک عذاب ہے  ،  جیسے  فرمایا

مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ [71]

ترجمہ:دنیا کی چند روزہ زندگی میں  مزے  کرلیں  پھر ہماری طرف ان کو پلٹنا ہے پھر ہم اس کفر کے  بدلے  میں  جس کا وہ ارتکاب کر تے  رہے  ہیں  ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں  گے ۔

وَعَلَى الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿١١٨﴾‏ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِینَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿١١٩﴾‏ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِیفًا وَلَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٢٠﴾‏ شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ‎﴿١٢١﴾‏ وَآتَیْنَاهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿١٢٢﴾‏ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٢٣﴾‏ إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏(النحل۱)
’’ اور یہودیوں  پر جو کچھ ہم نے  حرام کیا تھا اسے  ہم پہلے  ہی سے  آپ کو سنا چکے  ہیں ،  ہم نے  ان پر ظلم نہیں  کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں  پر ظلم کرتے  رہے ،  جو کوئی جہالت سے  برے  عمل کرلے  پھر توبہ کرلے  اور اصلاح بھی کرلے  تو پھر آپ کا رب بلاشک و شبہ بڑی بخشش کرنے  والا اور نہایت ہی مہربان ہے ،  بیشک ابراہیم پیشوا اور   اللہ   تعالیٰ کے  فرماں  بردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ،  وہ مشرکوں  میں  نہ تھے ،    اللہ   تعالیٰ کی نعمتوں  کے  شکر گزار تھے ،    اللہ   نے  انہیں  اپنا برگزیدہ کرلیا تھا اور انہیں  راہ راست سمجھا دی تھی،  ہم نے  اس دنیا میں  بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں  بھی نیکوکاروں  میں  ہیں ،  پھر ہم نے  آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں  جو مشرکوں  میں  سے  نہ تھے ، ہفتے  کے  دن کی عظمت تو صرف ان لوگوں  کے  ذمے  ہی ضروری تھی جنہوں  نے  اس میں  اختلاف کیا تھا،  بات یہ ہے  کہ آپ کا پروردگار خود ہی ان میں  ان کے  اختلاف کا فیصلہ قیامت کے  دن کرے  گا۔ ‘‘

کفارمکہ کااعتراض یہ بھی تھاکہ بنی اسرائیل کی شریعت میں  تواوربھی بہت سی چیزیں  حرام ہیں  جن کوتم نے  حلال کررکھاہے  ، اگروہ شریعت   اللہ   کی طرف سے  تھی توتم خوداس کی خلاف ورزی کررہے  ہواوراگروہ بھی   اللہ   کی طرف سے  تھی اوریہ شریعت بھی   اللہ   کی طرف سے  ہے  تودونوں  میں  یہ اختلاف کیوں  ہے  ؟ایک اعتراض یہ بھی تھاکہ بنی اسرائیل کی شریعت میں  سبت کی حرمت کاجوقانون تھااس کوبھی تم نے  اڑادیاہے  ، یہ تمہارااپناخودمختارانہ فعل ہے  یا  اللہ   ہی نے  اپنی دوشریعتوں  میں  دومتضادحکم دے  رکھے  ہیں  ؟  اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاکہ وہ چیزیں  ہم نے  خاص طورپریہودیوں  کے  لئے  حرام کی تھیں  جن کاذکراس سے  پہلے  ہم تم سے  کرچکے  ہیں  اوریہ ان پرہماراظلم نہ تھابلکہ ان کااپناہی ظلم تھا جووہ اپنے  اوپرکررہے  تھے ، اورجوچیزیں  حرام قراردی گئی تھیں  وہ یہ تھیں  ۔

وَعَلَی الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ۝۰ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَــوَایَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ۝۰ۡۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝۱۴۶ [72]

ترجمہ: اور جن لوگوں  نے  یہودیت اختیارکی ان پرہم نے  سب ناخن والے  جانورحرام کردیے  تھے  اورگائے  اوربکری کی چربی بھی بجزاس کے  جوان کی پیٹھ یاان کی آنتوں  سے  لگی ہوئی ہویاہڈی سے  لگی رہ جائے  ،  یہ ہم نے  ان کی سرکشی کی سزاانہیں  دی تھی اوریہ جوکچھ ہم کہہ رہے  ہیں  بالکل سچ کہہ رہے  ہیں  ۔

 فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ كَثِیْرًا۝۱۶۰ۙوَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ۝۰ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۶۱     [73]

ترجمہ:غرض ان یہودیوں  کے  اسی ظالمانہ رویہ کی بناپراوراس بناپرکہ یہ بکثرت   اللہ   کے  راستے  سے  روکتے  ہیں  اورسودلیتے  ہیں  جس سے  انہیں  منع کیا گیا تھا اورلوگوں  کے  مال ناجائزطریقوں  سے  کھاتے  ہیں  ، ہم نے  بہت سی وہ پاک چیزیں  ان پرحرام کر دیں  جوپہلے  ان کے  لئے  حلال تھیں  ، اورجولوگ ان میں  سے  کافرہیں  ان کے  لئے  ہم نے  دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے  ۔

البتہ جن لوگوں  نے  جہالت کی بناپربراعمل کیا اور پھرتوبہ کرکے  اپنے  عمل کی اصلاح کرلی تویقیناًتوبہ واصلاح کے  بعدتیرارب ان کے  لئے  غفوراوررحیم ہے ،   اللہ   تعالیٰ نے  ابراہیم علیہ السلام خلیل   اللہ   کی تعریف فرمائی کہ واقعہ یہ ہے  کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات سے  ایک پوری امت تھایعنی جب دنیامیں  کوئی مسلمان نہ تھاوہ اکیلااسلام کا علمبردار تھا اوراس اکیلے  نے  وہ کام کیاجوایک امت کے  کرنے  کاتھااوریک سو ہوکر   اللہ   کامطیع فرمان تھا، وہ اپنے  قول وعمل اوراپنے  تمام احوال میں  مشرکین میں  سے  نہ تھا،   اللہ   کے  احسانات اوراس کی عطا کردہ نعمتوں  کا شکر ادا کرنے  والاتھا، جیسے  فرمایا

وَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی۝۳۷ۙ [74]

ترجمہ:ابراہیم علیہ السلام نے  وفاکاحق اداکردیا۔

اللہ   نے  اس کومنتخب کرکے  اپناخلیل بنایا اورانہیں  علم وعمل میں  صراط مستقیم پرگامزن کیا، جیسے  فرمایا

وَلَـقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَ۝۵۱ۚ  [75]

ترجمہ:اس سے  پہلے  ہم نے  ابراہیم کواس کی ہوشمندی بخشی تھی اورہم اس کوخوب جانتے  تھے ۔

اوروہ رب کے  تمام احکام کے  عامل تھے  ، ہم نے  دنیامیں  اس کوکشادہ رزق ، خوبصورت ونیک سیرت بیوی ، صالح اولاد اور اچھے  اخلاق وعادات سے  نوازا اورآخرت میں  وہ یقیناً عالی قدرومنزلت صالحین میں  سے  ہو گا، ابراہیم علیہ السلام کی امتیازی اورخصوصی فضیلت کی بناپرفرمایاکہ اب ہم نے  تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سوہوکرملت ابراہیمی علیہ السلام کی پیروی کرو اورابراہیم علیہ السلام یکسوہوکر   اللہ   وحدہ لاشریک کی عبادت واطاعت کرنے  والا تھا ،  جیسے  فرمایا

قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۰ۥۚ دِیْنًا قِــیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا۝۰ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۶۱ [76]

ترجمہ: اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم کہو ! میرے  رب نے  بالیقین مجھے  سیدھاراستہ دکھا دیا ہے  ،  بالکل ٹھیک دین جس میں  کوئی ٹیڑھ نہیں  ، ابراہیم علیہ السلام کاطریقہ جسے  یکسو ہو کراس نے  اختیارکیاتھااوروہ مشرکوں  میں  سے  نہ تھا۔

وَالَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِكُوْنَ۝۵۹ۙ   [77]

ترجمہ:(اوراہل ایمان وہ ہیں  )جو اپنے  رب کے  ساتھ کسی کو شریک نہیں  کرتے ۔

یعنی   اللہ   تعالیٰ نے  معترضین کے  اعتراض کاجواب دوجزمیں  فرمایا۔

xیہ کہ   اللہ   کی شریعت میں  تضادنہیں  ہے  جیساکہ تم نے  یہودیوں  کے  مذہبی قانون اورشریعت محمدیہ کے  ظاہری فرق کودیکھ کرگمان کرلیاہے  ، بلکہ دراصل یہودیوں  کوخاص طورپران کی نافرمانیوں  اورسرکشیوں  کی پاداش میں  چندنعمتوں  سے  محروم کیاگیاتھاجن سے  دوسروں  کومحروم کرنے  کی کوئی وجہ نہیں  ۔

xدوسرے  جزمیں  فرمایاکہ محمد صلی   اللہ   علیہ وسلم کوابراہیم علیہ السلام کی پیروی کاحکم دیاگیاہے  ، اورتمہیں  معلوم ہے  کہ ملت ابراہیمی میں  وہ چیزیں  حرام نہ تھیں  جویہودیوں  کے  ہاں  حرام ہیں  ،  مثلاً یہودی اونٹ نہیں  کھاتے  مگرملت ابراہیمی میں  وہ حلال تھا، یہودیوں  کے  ہاں  شترمرغ ، بطخ، خرگوش وغیرہ حرام ہیں  مگرملت ابراہیمی میں  یہ سب چیزیں  حلال تھیں  ، اس کے  ساتھ کفارمکہ کومتنبہ کیاگیاکہ نہ تمہیں  ابراہیم علیہ السلام سے  کوئی واسطہ ہے  اور نہ یہودیوں  کوکیونکہ تم دونوں  ہی شرک کررہے  ہو، ملت ابراہیمی کااگرکوئی صحیح پیروکارہے  تووہ یہ نبی اوراس کے  پیروکار ہیں  جن کے  عقائداوراعمال میں  شرک کاشائبہ تک نہیں  پایاجاتا۔

حُصَیْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،  قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ،  قَالَ: أَیُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِی انْقَضَّ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: أَنَا،  ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا إِنِّی لَمْ أَكُنْ فِی صَلاةٍ وَلَكِنِّی لُدِغْتُ ،  قَالَ: وَكَیْفَ فَعَلْتَ؟ قُلْتُ: اسْتَرْقَیْتُ،  قَالَ: وَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قُلْتُ: حَدِیثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِیُّ،  عَنْ بُرَیْدَةَ الْأَسْلَمِیِّ،  أَنَّهُ قَالَ: لَا رُقْیَةَ إِلا مِنْ عَیْنٍ أَوْ حُمَةٍ،  فَقَالَ سَعِیدٌ یَعْنِی ابْنَ جُبَیْرٍ: قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ،

حصین بن عبدالرحمٰن فرماتے  ہیں  میں  سعید بن جبیر رحمہ   اللہ   کے  پاس موجود تھا انہوں  نے  فرمایا تم میں  سے  کسی نے  رات کو ستارہ ٹوٹتے  ہوئے  دیکھا ہے ؟میں  نے  عرض کیا کہ میں  نے  دیکھا ہے میں  اس وقت نماز میں  نہیں  تھا البتہ مجھے  ایک بچونے  ڈس لیا تھا،  انہوں  نے  پوچھا پھر تم نے  کیا کیا؟میں  نے  عرض کیا کہ میں  نے  اسے  جھاڑ لیا،  انہوں  نے  پوچھا کہ تم نے  ایسا کیوں  کیا؟میں  نے  عرض کیا اس حدیث کی وجہ سے  جو ہمیں  امام شعبی رحمہ   اللہ   نے  بریدہ اسلمی کے  حوالے  سے  سنائی ہے  کہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا نظر بد یا ڈنک کے  علاوہ کسی اور چیز کی جھاڑ پھونک صحیح نہیں  ، سعید بن جبیر رحمہ   اللہ   کہنے  لگے  کہ جو شخص اپنی سنی ہوئی روایات کو اپنا منتہی بنالے  یہ سب سے  اچھی بات ہے ،

ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  قَالَ: “ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْأُمَمُ،  فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ وَمَعَهُ الرَّهْطَ،  وَالنَّبِیَّ وَمَعَهُ الرَّجُلَ،  وَالرَّجُلَیْنِ وَالنَّبِیَّ وَلَیْسَ مَعَهُ أَحَدٌ،  إِذْ رُفِعَ لِی سَوَادٌ عَظِیمٌ،  فَقُلْتُ: هَذِهِ أُمَّتِی،  فَقِیلَ: هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ،  وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْأُفُقِ،  فَإِذَا سَوَادٌ عَظِیمٌ،  ثُمَّ قِیلَ لِی: انْظُرْ إِلَى هَذَا الْجَانِبِ الْآخَرِ،  فَإِذَا سَوَادٌ عَظِیمٌ،  فَقِیلَ: هَذِهِ أُمَّتُكَ،  وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا،  یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلا عَذَابٍ

پھر فرمایا کہ ہم سے  ابن عباس رضی   اللہ   عنہ نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کا ارشادنقل کیا ہے  کہ مجھ پر مختلف امتیں  پیش کی گئیں  میں  نے  کسی نبی کے  ساتھ پورا گروہ دیکھا کسی نبی کے  ساتھ ایک دو آدمیوں  کو دیکھااور کسی نبی کے  ساتھ ایک آدمی بھی نہ دیکھا، اچانک میرے  سامنے  ایک بہت بڑا جم غفیر پیش کیا گیامیں  نے  پوچھا کہ یہ میری امت ہے ؟ لیکن مجھے  بتایا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے البتہ آپ افق کی طرف دیکھئے ،  وہاں  ایک بڑی جمعیت نظر آئی، پھر مجھے  دوسری طرف دیکھنے  کا حکم دیا گیا وہاں  بھی ایک بہت بڑا جم غفیر دکھائی دیا مجھ سے  کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے ، ان میں  ستر ہزار آدمی ایسے  ہیں  جو بغیر حساب اور عذاب کے  جنت میں  داخل ہوں  گے

ثُمَّ نَهَضَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ،  فَخَاضَ الْقَوْمُ فِی ذَلِكَ،  فَقَالُوا: مَنْ هَؤُلاءِ الَّذِینَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلا عَذَابٍ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَعَلَّهُمُ الَّذِینَ صَحِبُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَعَلَّهُمُ الَّذِینَ وُلِدُوا فِی الْإِسْلامِ،  وَلَمْ یُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَیْئًا قَطُّ،  وَذَكَرُوا أَشْیَاءَ،

پھر نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم اٹھے  اور اپنے  گھر میں  داخل ہو گئے اور لوگ یہ بحث کرنے  لگے  کہ بغیر حساب اور عذاب کے  جنت میں  داخل ہونے  والے  یہ لوگ کون ہوں  گے ؟بعض کہنے  لگے  کہ ہوسکتا ہے یہ نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کے  صحابہ ہوں  ، بعض نے  کہا کہ شاید اس سے  وہ لوگ ہوں  جو اسلام کی حالت میں  پیدا ہوئے  ہوں  اور انہوں  نے    اللہ   کے  ساتھ کبھی شرک نہ کیا ہو اسی طرح کچھ اور آراء بھی لوگوں  نے  دیں  ،

فَخَرَجَ إِلَیْهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَ:مَا هَذَا الَّذِی كُنْتُمْ تَخُوضُونَ فِیهِ؟ فَأَخْبَرُوهُ بِمَقَالَتِهِمْ،  فَقَالَ:هُمُ الَّذِینَ لَا یَكْتَوُونَ،  وَلا یَسْتَرْقُونَ،  وَلا یَتَطَیَّرُونَ،  وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ ،  فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ الْأَسَدِیُّ فَقَالَ: أَنَا مِنْهُمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:أَنْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ الْآخَرُ فَقَالَ: أَنَا مِنْهُمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ

جب نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم باہر تشریف لائے  تو فرمایا کہ تم لوگ کس بحث میں  پڑے  ہوئے  ہو ؟لوگوں  نے  نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم کو اپنی بحث کے  بارے  بتایا، نبی کریم صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا یہ وہ لوگ ہوں  گے  جو داغ کر علاج نہیں  کرتے ،  جھاڑ پھونک اور منتر نہیں  کرتے  اوربد شگونی نہیں  لیتے اور اپنے  رب پر بھروسہ کرتے  ہیں  ،  یہ سن کر عکاشہ بن محصن اسدی رضی   اللہ   عنہ کھڑے  ہو کر پوچھنے  لگے  اے    اللہ   کے  رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! کیا میں  بھی ان میں  سے  ہوں  ؟آپ صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا ہاں  ! تم ان میں  شامل ہو، پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے  لگااے    اللہ   کے رسول صلی   اللہ   علیہ وسلم ! کیا میں  بھی ان میں  شامل ہوں  ؟ رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  فرمایا عکاشہ رضی   اللہ   عنہ تم پر سبقت لے  گئے ۔ [78]

رہاسبت کے  قانون کی سختیاں  تووہ بھی ابتدائی حکم میں  نہ تھیں  بلکہ یہ بعدمیں  یہودیوں  کی شرارتوں  اور احکام کی خلاف ورزیوں  کی وجہ سے  ان پرعائدکردی گئی تھیں  اوریقیناًتیرارب قیامت کے  روزان سب باتوں  کافیصلہ کردے  گاجن میں  وہ اختلاف کرتے  رہے  ہیں  ۔

‏ ادْعُ إِلَىٰ سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ‎﴿١٢٥﴾‏ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ ‎﴿١٢٦﴾‏ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَلَا تَكُ فِی ضَیْقٍ مِمَّا یَمْكُرُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَالَّذِینَ هُمْ مُحْسِنُونَ ‎﴿١٢٨﴾‏(النحل)
’’اپنے  رب کی راہ کی طرف لوگوں  کو حکمت اور بہترین نصیحت کے  ساتھ بلائیے اور ان سے  بہترین طریقے  سے  گفتگو کیجئے  ، یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے  بہکنے  والوں  کو بھی بخوبی جانتا ہے  اور وہ راہ یافتہ لوگوں  سے  پورا واقف ہے ، اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں  پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بیشک صابروں  کے  لیے  یہی بہتر ہے  ،  آپ صبر کریں  بغیر توفیق الٰہی کے  آپ صبر کر ہی نہیں  سکتے  اور ان کے  حال پر رنجیدہ نہ ہوں  اور جو مکرو فریب یہ کرتے  رہتے  ہیں  ان سے  تنگ دل نہ ہوں ،  یقین مانو کہ   اللہ   تعالیٰ پرہیزگاروں  اور نیک کاروں  کے  ساتھ ہے ۔ ‘‘

دعوت و تبلیغ کے  اصول بیان فرمائے  کہ اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !اپنے  رب کے  راستے  کی طرف حکمت ، دانائی اوردانشمندی کے  ساتھ دعوت دو، یعنی بے  وقوفوں  اورجہلاء کی طرح اندھادھندتبلیغ نہ کروبلکہ دانائی کے  ساتھ مخاطب کی ذہنی استعداداورحالات کوسمجھ کربات کرواورمخاطب کوصرف دلائل ہی سے  مطمئن نہ کروبلکہ انسان کی فطرت میں  برائیوں  اور گمراہیوں  کے  خلاف جوپیدائشی نفرت پائی جاتی ہے  ا س کوبھی ابھارواوران کے  برے  نتائج کاخوف دلاؤ ، عمل صالح کی اچھائیوں  کوعقلاًہی ثابت نہ کروبلکہ ان کی طرف رغبت اورشوق بھی پیداکرو، اورلوگوں  سے  محض مناظرہ بازی نہ کروبلکہ نرم ومشفقانہ لب ولہجہ میں  مباحثہ کرو، جیسے  فرمایا

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ ۔ ۔ ۔  ۝۴۶ [79]

ترجمہ:اوراہل کتاب سے  بحث نہ کرومگرعمدہ طریقہ سے ۔

اور موسیٰ علیہ السلام کوفرعون کی طرف روانہ کرتے  ہوئے  ہدایت فرمائی تھی۔

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى ۝۴۴ [80]

ترجمہ:اس سے  نرمی کے  ساتھ بات کرناشایدکہ وہ نصیحت قبول کرے  یاڈرجائے ۔

دعوت وحکمت کی کچھ حسین مثالیں  پیش خدمت ہیں  کہ انبیاء کا اندازگفتگو کیا تھا، لوگ کس لہجے  میں  بات کرتے  اورانبیاء جواباًکیالہجہ اختیارکرتے  تھے ، ابراہیم علیہ السلام نے  نمرودسے  کہامیرارب وہ ہے  جوزندگی اورموت عطا کرتا ہے  تو نمرود نے  کہا میں  بھی زندہ کرسکتاہوں  اورمارسکتاہوں  ، نمرودکاجواب سن کرابراہیم علیہ السلام پیچھے  ہٹ گئے  اورپھرایک نئی بات لے  کرآئے  جس کانمرودجواب نہ دے  سکا، ابراہیم علیہ السلام نے  فرمایاکہ اچھابتاؤمیرارب سورج کومشرق سے  طلوع کرتاہے  تم خداہو، سورج پرتمہیں  اختیارتوہوگااس لئے  آج اسے  مشرق کے  بجائے  مغرب سے  طلوع کرکے  دکھادو ، ابراہیم علیہ السلام نے  یہ بات نہیں  فرمائی کہ تمہیں  اختیارنہیں  اورتم مغرب سے  طلوع نہیں  کرسکتے  بلکہ بڑاحسین اندازاختیارکیا

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللهُ الْمُلْكَ۝۰ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُـحْیٖ وَیُمِیْتُ۝۰ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ۝۰ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۲۵۸ۚ    [81]

ترجمہ:کیا تم نے  اس شخص کے  حال پر غور نہیں  کیا جس نے  ابراہیم سے  جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے  ،  اور اس بنا پر کہ اس شخص کو   اللہ   نے  حکومت دے  رکھی تھی جب ابراہیم نے  کہا کہ میرا رب وہ ہے  جس کے  اختیار میں  زندگی اور موت ہے  تو اس نے  جواب دیازندگی اور موت میرے  اختیار میں  ہے  ،  ابراہیم نے  کہا اچھا   اللہ   سورج کو مشرق سے  نکالتا ہے  تو ذرا اُسے  مغرب سے  نکال لا،  یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا ،  مگر   اللہ   ظالموں  کو راہِ راست نہیں  دکھایا کرتا ۔

نوح علیہ السلام نوسوپچاس سال تک قوم کوراہ راست کی طرف دعوت دیتے  رہے ، اس پرقوم نے  انہیں  کہاکہ ہم توتمہیں  کھلی ہوئی گمراہی میں  پاتے  ہیں  ، اب اگرکوئی عام آدمی ہوتا تو کہتا کہ اچھاکافرومشرک توتم ہوجو  اللہ   کوچھوڑکربتوں  کی پرستش کرتے  ہو،  شراب ، زنااورتمام دیگربرائیاں  تمہارے  اندرہیں  اورگمراہ مجھے  کہتے  ہو، لیکن نوح علیہ السلام نے  ان کے  گندے  اعمال کی طرف اشارہ نہیں  کیا، ان کوالزامی جواب نہیں  دیابلکہ فرمایاکہ اے  میری قوم! مجھے  کوئی گمراہی اپنے  اندرنظرنہیں  آرہی ،  میں  تمہیں  مختلف اس لئے  نظرآتاہوں  کہ میں  رب العالمین کی طرف سے  رسول بناکربھیجاگیاہوں  ، تم میرے  مقام کونہیں  سمجھتے  ، میری رسالت گمراہی نہیں  بلکہ یہ تو  اللہ   تعالیٰ کی طرف سے  ایک عظیم منصب ہے ۔

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۶۰قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّلٰكِـنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۶۱اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنْصَحُ لَكُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۶۲ [82]

ترجمہ:اس کی قوم کے  سرداروں  نے  جواب دیا ہم کو تو یہ نظر آتا ہے  کہ تم صریح گمراہی میں  مبتلا ہو، نوح نے  کہا اے  برادرانِ قوم ! میں  کسی گمراہی میں  نہیں  پڑا ہوں  بلکہ میں  رب العالمین کا رسول ہوں  ، تمہیں  اپنے  رب کے  پیغامات پہنچاتا ہوں  ،  تمہارا خیر خواہ ہوں  اور مجھے    اللہ   کی طرف سے  وہ کچھ معلوم ہے  جو تمہیں  معلوم نہیں  ہے ۔

ہود علیہ السلام کوان کی قوم نے  یوں  کہااے  ہود!ہم دیکھتے  ہیں  کہ تم بیوقوفی اورحماقت میں  پڑے  ہوئے  ہواورتم جھوٹوں  میں  سے  ہو ،  ذرا غور فرمائیں  کہ اس قوم نے  ایک نبی کواحمق اورجھوٹاقراردے  دیا(نعوذب  اللہ   )توکیاجوابی کاروائی کے  طور پر نبی اپنی قوم کوان کی گندگیوں  ، گناہوں  اورمصیبتوں  کا آئینہ دکھا دیتا کہ دیکھوتم کیاہو؟لیکن نبی نے  صرف اپنی ذات کادفاع کیااوروہ بھی بڑے  خوبصورت اندازمیں  صرف یہ الفاظ اداکئے  ، اے  میری قوم!مجھ میں  کوئی بیوقوفی اورحماقت کی بات نہیں  ، میں  اصل میں  رب العالمین کی طرف سے  رسول بناکربھیجاگیاہوں  ، تمہاری گفتگو اور ہمارے  اندازہائے  فکرمیں  بہت فرق ہے  ، اس لئے  میری شخصیت ، منصب اور تعلیم تمہاری سمجھ میں  نہیں  آرہی ، یہ بیوقوفی نہیں  بلکہ رسالت اورنبوت ہے ۔

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۶۶قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّلٰكِـنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۶۷اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ۝۶۸      [83]

ترجمہ:اس کی قوم کے  سرداروں  نے  جو اس کی بات ماننے  سے  انکار کر رہے  تھے  جواب میں  کہا ہم تو تمہیں  بے  عقلی میں  مبتلا سمجھتے  ہیں  اور ہمیں  گمان ہے  کہ تم جھوٹے  ہو، اس نے  کہا اے  برادرانِ قوم ! میں  بے  عقلی میں  مبتلا نہیں  ہوں  بلکہ میں  رب العالمین کا رسول ہوں  ،  تم کو اپنے  رب کے  پیغامات پہنچاتا ہوں  اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں  جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے  ۔

اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم آپ کاکام وعظ وتبلیغ ہے  ، اورتمہارارب ہی زیادہ بہترجانتاہے  کہ کون اس کی راہ سے  بھٹکاہواہے  اورکون راہ راست پرہے ،  بدبخت کون ہے  اور نیک بخت کون ، جیسے  فرمایا

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ   اللہ   یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۲۷۲ [84]

ترجمہ:اے  نبی ! لوگوں  کو ہدایت بخش دینے  کی ذمّے  داری تم پر نہیں  ہے  ہدایت تو   اللہ   ہی جسے  چاہتا ہے  بخشتا ہے ۔

اِنَّكَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ   اللہ   یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۝۵۶ [85]

ترجمہ:اے  نبی ( صلی   اللہ   علیہ وسلم ) ! تم جسے  چاہو اسے  ہدایت نہیں  دے  سکتے مگر   اللہ   جسے  چاہتا ہے  ہدایت دیتا ہے  اور وہ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے  جو ہدایت قبول کرنے  والے  ہیں  ۔

قصاص میں  اورحق کے  حاصل کرنے  میں  برابری اورانصاف کاحکم فرمایاکہ اوراگرتم لوگ بدلہ لوتوبس اسی قدرلے  لوجس قدرتم پرزیادتی کی گئی ہواگرتجاوزکروگے  تو خودظالم ہوجاؤ گے  لیکن اگربدلہ لینے  کے  بجائے  تم صبر کروتویقیناًیہ صبرکرنے  والوں  ہی کے  حق میں  بہترہے ، جیسے  فرمایا

 وَجَزٰۗؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا۝۰ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللهِ۝۰ۭ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِـمِیْنَ   [86]

ترجمہ:برائی کابدلہ ویسی ہی برائی ہے  پھرجوکوئی معاف کردے  اوراصلاح کرے  اس کااجر  اللہ   کے  ذمہ ہے ،   اللہ   ظالموں  کوپسندنہیں  کرتا۔

وَكَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۝۰ۙ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ۝۰ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ۝۰ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَكَفَّارَةٌ لَّهٗ۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۴۵    [87]

ترجمہ:توراة میں  ہم نے  یہودیوں  پریہ حکم لکھ دیاتھاکہ جان کے  بدلے  جان، آنکھ کے  بدلے  آنکھ ، ناک کے  بدلے  ناک، کان کے  بدلے  کان،  دانت کے  بدلے  دانت اورتمام زخموں  کے  لئے  برابرکابدلہ ، پھرجوقصاص کاصدقہ کردے  تووہ اس کے  لئے  کفارہ ہے  ، اورجولوگ   اللہ   کے  نازل کردہ قانون کے  مطابق فیصلہ نہ کریں  وہی ظالم ہیں  ۔

اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم !صبرواستقامت سے  دعوت دین کاکام کیے  جاؤاورتمہارایہ صبر  اللہ   ہی کی توفیق سے  ہے ، ان لوگوں  کی حرکات پررنج نہ کرواورنہ ان کی چال بازیوں  پردل تنگ ہو،   اللہ   ان لوگوں  کے  ساتھ ہے  جوتقویٰ سے  کام لیتے  ہیں  اورہرقسم کے  برے  طریقوں  سے  پرہیزکرتے  ہیں  اورہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے  ہیں  ،  جیساکہ غزوہ بدرکے  موقعہ پر  اللہ   تعالیٰ نے  فرشتوں  کی طرف وحی فرمائی تھی۔

 اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔ ۔ [88]

ترجمہ: اور وہ وقت جب کہ تمہارارب فرشتوں  کواشارہ کررہاتھاکہ میں  تمہارے  ساتھ ہوں  تم اہل ایمان کوثابت قدم رکھو۔

موسیٰ علیہ السلام وہارون علیہ السلام کوفرعون کی طرف روانہ کرتے  ہوئے    اللہ   تعالیٰ نے  فرمایاتھا

قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۝۴۶      [89]

ترجمہ:فرمایاڈرومت میں  تمہارے  ساتھ ہوں  سب کچھ سن رہاہوں  اور دیکھ رہا ہوں  ۔

ہجرت مدینہ کے  موقعہ پر رسول   اللہ   صلی   اللہ   علیہ وسلم نے  سیدنا ابوبکرصدیق سے  فرمایاتھا

۔ ۔ ۔  اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا۔ ۔ ۔  ۝۴۰ [90]

ترجمہ:جب وہ اپنے  ساتھی سے  کہہ رہاتھاکہ غم نہ کر  اللہ   ہمارے  ساتھ ہے ۔

۔ ۔ ۔ وَہُوَمَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَ  اللہ   بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۴        [91]

ترجمہ:وہ تمہارے  ساتھ ہے  جہاں  بھی تم ہو،  جو کام بھی تم کرتے  ہو اسے  وہ دیکھ رہا ہے  ۔

وَمَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ۝۰ۭ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶۱ [92]

ترجمہ:اے  نبی صلی   اللہ   علیہ وسلم ! تم جس حال میں  بھی ہوتے  ہو اور قرآن میں  سے  جو کچھ بھی سناتے  ہو،  اور لوگو،  تم بھی جو کچھ کرتے  ہو اس سب کے  دوران میں  ہم تم کو دیکھتے  رہتے  ہیں  ،  کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں  ایسی نہیں  ہے نہ چھوٹی نہ بڑی جو تیرے  رب کی نظر سے  پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں  درج نہ ہو ۔

[1] یونس۴۸

[2] الملک۲۳،۲۴

[3]صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ التَّوَاضُعِ ۶۵۰۲

[4] فتح الباری ۳۴۴؍۱۱ تحت الحدیث ۶۵۰۱،۶۵۰۲

[5]الملک۱۹

[6] النحل۵

[7] مجموع الفتاوی ۳۳؍۸

[8] المرسلات ۳۵،۳۶

[9] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابٌ فِی شِدَّةِ حَرِّ نَارِ جَهَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِهَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ۷۱۶۴،جامع ترمذی ابواب الجھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ النَّارِ ۲۵۷۳

[10] الفرقان ۱۲تا۱۴

[11] جامع ترمذی کتاب صفة جھنم باب ماجاء فی صفة النار۲۵۷۴

[12] الکہف۵۳

[13] الانبیائ۳۹،۴۰

[14] یونس۲۸، ۲۹

[15] الکہف۵۲

[16] مریم۸۱،۸۲

[17] العنکبوت۲۵

[18] الاحقاف۵،۶

[19] طہ۱۱۱

[20] السجدة۱۲

[21] الانعام۲۶

[22] الاعراف۳۸

[23] النسائ۴۱

[24] الاعراف۶

[25] المائدة۱۰۹

[26] النساء: 41

[27] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ قَوْلِ المُقْرِئِ لِلْقَارِئِ حَسْبُكَ ۵۰۵۰، وکتاب التفسیرباب سورة نساء بَابُ فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِیدًا۴۵۸۲،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ فَضْلِ اسْتِمَاعِ الْقُرْآنِ، وَطَلَبِ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَافِظِهِ لِلِاسْتِمَاعِ وَالْبُكَاءِ عِنْدَ الْقِرَاءَةِ وَالتَّدَبُّرِ ۲۸۶۸، مسند احمد ۳۶۰۶

[28] البقرة۱۴۳

[29] بنی اسرائیل۲۶

[30]مسنداحمد۲۰۰۲۸

[31] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ ۳۶۶۱، مسند احمد ۱۷۱۸۷

[32]سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ البَغْیِ ۴۹۰۲،جامع ترمذی ابواب صفة القیامة باب فی عظم الوعیدعلی البغی۔۔۔۲۵۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْبَغْیِ ۴۲۱۱

[33] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۷۳

[34] سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ الرَّجُلِ یُكَفِّرُ قَبْلَ أَنْ یَحْنَثَ۳۲۷۶

[35] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِینَ ۳۱۳۳،و كِتَابُ الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ باب قول   اللہ   تعالیٰ لایواخذکم   اللہ   باللغوفی ایمانکم۶۶۲۳،وبَابُ الیَمِینِ فِیمَا لاَ یَمْلِكُ، وَفِی المَعْصِیَةِ وَفِی الغَضَبِ ۶۶۸۰،وکتاب کفارات الایمان بَابُ الِاسْتِثْنَاءِ فِی الأَیْمَانِ ۶۷۱۹، وکتاب التوحیدالجھمیة بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ۷۵۵۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۶۳،مسنداحمد۱۹۵۹۱

[36] المائدة ۸۹

[37] تفسیرابن کثیر ۵۹۹؍۴، تفسیر المراغی۱۳۴؍۱۴

[38] تفسیرطبری۲۸۶؍۱۷

[39] آل عمران ۷۵

[40]یونس۹۹

[41] ھود۱۱۸،۱۱۹

[42] المائدة۴۸

[43] آل عمران۱۹۸

[44] الاعلیٰ۱۶،۱۷

[45] تفسیرابن کثیر۶۰۱؍۴،أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن۴۴۱؍۲، الأساس فی التفسیر۳۰۱۵؍۶

[46] تفسیر طبری ۲۹۴؍۱۷

[47]الشعراء ۱۹۲ تا ۱۹۴

[48] مسند احمد ۶۵۷۲، صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابٌ فِی الْكَفَافِ وَالْقَنَاعَةِ ۲۴۲۶،مستدرک حاکم ۷۱۴۹،شعب الایمان ۹۸۶۲،شرح السنة للبغوی ۴۰۴۳، السنن الکبری للبیہقی ۷۸۶۸

[49] جامع ترمذی ابواب الزھدبَابُ مَا جَاءَ فِی الكَفَافِ وَالصَّبْرِ عَلَیْهِ۲۳۴۸،مسنداحمد۶۶۰۹،تفسیرالبغوی ۲۶۹؍۵

[50] صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ جَزَاءِ الْمُؤْمِنِ بِحَسَنَاتِهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَتَعْجِیلِ حَسَنَاتِ الْكَافِرِ فِی الدُّنْیَا۷۰۸۹

[51] سنن ابن ماجہ کتاب افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم فَضْلُ سَلْمَانَ، وَأَبِی ذَرٍّ، وَالْمِقْدَادِ ۱۵۰،صحیح ابن حبان ۷۰۸۳،مستدرک حاکم۵۲۳۸

[52] تفسیرطبری ۳۰۴؍۱۷،تفسیرابن کثیر۶۰۵؍۴

[53] السنن الکبری للبیہقی۱۶۸۹۶

[54] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۵۸؍۲۷،شعب الایمان۱۵۲۲، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۴۱

[55] البقرة۲۱۷

[56] البقرة۷

[57] عبس۳۳تا۳۷

[58] یٰسین۵۴

[59] القصص۵۷

[60] ابراہیم۲۸

[61] صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سورة الدخان بَابُ یَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ ۴۸۲۱،وکتاب الاستسقاء بَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اجْعَلْهَا عَلَیْهِمْ سِنِینَ كَسِنِی یُوسُفَ ۱۰۰۷، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ الدُّخَانِ۷۰۶۷

[62] البقرة۱۵۱،۱۵۲

[63] آل عمران۱۶۴

[64] الطلاق۱۰،۱۱

[65] النحل۳۳

[66] البقرة۱۷۳

[67] المائدة۳

[68] الانعام۱۴۵

[69] رد المختار على الدر المختار ۳۱۰؍۶

[70] سنن ابوداودکتاب الایمان والنذوربَابُ مَا یُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ۳۳۱۳، المعجم الكبیرللطبرانی۱۳۴۱،السنن الكبرى للبیہقی۲۰۱۳۹

[71] یونس۷۰

[72] الانعام۱۴۶

[73]النسائ۱۶۰،۱۶۱

[74] النجم۳۷

[75] الانبیائ۵۱

[76] الانعام۱۶۱

[77] المومنون۵۹

[78] مسنداحمد۲۴۴۸

[79] العنکبوت ۴۶

[80] طہ۴۴

[81] البقرة۲۵۸

[82] الاعراف۶۰تا۶۲

[83]الاعراف۶۶تا۶۸

[84] البقرة۲۷۲

[85] القصص۵۶

[86] الشوریٰ ۴۰

[87] المائدة۴۵

[88]۔الانفال۱۲

[89] طہ۴۶

[90] التوبة۴۰

[91] الحدید۴

[92] یونس۶۱

Related Articles