بعثت نبوی کا نواں سال

مضامین سورۂ القمر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  منیٰ میں  تشریف فرماتھے کہ چانددوٹکڑے ہوگیاایک ٹکڑاایک پہاڑکی طر ف اوردوسرادوسرے پہاڑکی جانب چلا گیا اورکچھ لمحوں  کے بعدپھر یہ دونوں  ٹکڑے آپس میں  مل گئے،اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ میں  اس حیرت انگیز واقعہ کو بیان فرماکر کئی باتیں  واضح فرمائیں ۔

xیہ کہ یہ نظام کائنات ازلی وابدی اور غیر فانی نہیں  ہے ،اللہ کے حکم سے یہ بڑے بڑے سیارے اورستارے کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں  اور اپنے مرکزسے جداہوکرآپس میں  ٹکرا بھی سکتے ہیں  اورایک مقررہ وقت پریہ عظیم الشان نظام تباہ وبربادبھی ہوسکتاہے،مگراہل مکہ نے اس عظیم واقعہ کو جادو قرار دیا اور تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔

xہرطرح کے دلائل وبراہین کے باوجوداہل مکہ قیامت کے وقوع،حیات بعدالموت اورجزاوسزا کوبعیدازامکان اوربعیدازعقل سمجھتے تھے ،ان کے بارے میں فرمایاتم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرویانہ کرومگر ایک وقت مقررہ پرقیامت ضرورواقع ہوگی جس کاوقت بالکل قریب آچکا ہے،

سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ، أَوْ: كَهَاتَیْنِ  وَقَرَنَ بَیْنَ السَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى

سہل رضی اللہ عنہ  بن سعدالساعدی سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انگشت شہادت اوردرمیان والی انگلی اٹھاتے ہوئے ارشادفرمایاکہ مجھے اور قیامت کویوں  بھیجاگیاہے۔[1]

پھرلوگ اپنی اپنی قبروں  سے نکل آئیں  گے،ان کی نگاہیں جھکی ہوئی اورچہروں  پرذلت کی سیاہی چھائی ہوئی ہوگی،اورپھر یہ پکارنے والے کی آواز پر دوڑتے ہوئے میدان محشرمیں  جمع ہوجائیں  گے،اورخودکہیں  گے کہ یہ دن توہمارے لیے بڑاسخت ثابت ہواہے ،ابھی اگریہ لوگ اس عظیم خبرکو بعید از امکان سمجھتے ہیں  تو قوم نوح،قوم عاد وثمود،قوم لوط اورآل فرعون بھی اس حقیقت کوتسلیم نہیں  کرتے تھے،ان کے غلط عقائد و نظریات اور اعمال بد کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان پر دردناک عذاب نازل کیااور بعدوالی اقوام کے لیے انہیں  نشان عبرت بنادیا ، اگریہ لوگ اس حقیقت کوتسلیم نہیں  کریں  گے اورانہی جرائم کا ارتکاب کریں  گے جن جرائم کاوہ ارتکاب کرتے تھے تو ان کاانجام بھی انہی اقوام جیساہی ہوگا،البتہ یہ لوگ مہلت کی ان گھڑیوں  سے فائدہ اٹھاکرطاغوت کی بندگی سے توبہ کرکے اعمال صالحہ اختیار کر لیں  تو اللہ تعالیٰ کے دامن رحمت میں  انہیں  خاص جگہ دی جائے گی۔

x اگریہ لوگ عقائدو نظریات اوراعمال میں  سابقہ مغضوب اقوام کے نقش قدم پرہی چلیں  گے تویہ لوگ کسی امتازی سلوک کے حقدارکیوں  کرہوسکتے ہیں  ؟ اللہ تعالیٰ نے تو ہر دور میں  لوگوں  کے لیے یکساں  قوانین ہی رکھے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم نے قرآن کریم کوذکرکے لیے آسان بنادیاہے کوئی ہے جواس سے نصیحت حاصل کرے ،اوراگریہ لوگ اپنی جمعیت وقوت کے گھمنڈ میں  دعوت حق قبول نہیں  کرتے توعنقریب ان کی جمعیت شکست کھائے گی اوریہ پیٹھ پھیرکربھاگ کھڑے ہوں  گے۔

xسورۂ کے اختتام پرفرمایاکہ قیامت اورعذاب کامشاہدہ توہرانسان کرتاہے کہ جب کوئی آدمی مرجاتاہے یاکوئی قوم اللہ کے عذاب کاشکارہوتی ہے تو باقی رہنے والے لوگوں  کے لیے یہ مشاہدہ باعث عبرت ہوتاہے۔

xقیامت کے روزہرشخص کواس کانامہ اعمال تھماکراس کی آخری منزل کی جانب روانہ کردیاجائے گا،کفارومشرکین اورمنافقین کے لیے دہکتی ہوئی جہنم اورمومن ومتقی کے لیے انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں  بھری جنت ہوگی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ‎﴿١﴾‏ وَإِنْ یَرَوْا آیَةً یُعْرِضُوا وَیَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ ‎﴿٢﴾‏ وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ ‎﴿٣﴾‏ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِیهِ مُزْدَجَرٌ ‎﴿٤﴾‏ حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ ۖ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ ‎﴿٥﴾(القمر)
’’قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا، یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے، انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے، یقیناً ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں ڈانٹ ڈپٹ (کی نصیحت) ہے، اور کامل عقل کی بات ہےلیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا۔

عَنْ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّیْثِیَّ: مَا كَانَ یَقْرَأُ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ؟ فَقَالَ:كَانَ یَقْرَأُ فِیهِمَا بِ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ، وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےابوواقدلیثی  رضی اللہ عنہ  نےپوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نمازعیدالضحیٰ اورعیدالفطرکی نمازمیں  کیاپڑھتے تھے؟ اور انہوں  نے کہاکہ آپ ان میں  سورۂ ق اورسورۂ القمرپڑھاکرتے تھے۔[2]

اسی طرح بڑی بڑی محفلوں  میں  بھی آپ ان دونوں  سورتوں  کی تلاوت فرمایا کرتے تھے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ، وَنَحْنُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى حَتَّى ذَهَبَتْ فِرْقَةٌ مِنْهُ، خَلْفَ الْجَبَلِ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اشْهَدُوا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،حذیفہ  رضی اللہ عنہ  اورجبیربن مطعم  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےایک دن رات کے وقت جبکہ چودھویں  کا چاند ابھی طلوع ہوا تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  منٰی میں  تشریف فرماتھے ،یکایک چاند پھٹااوردوٹکڑوں  میں  تقسیم ہوگیااوردونوں  ٹکڑے اس طرح الگ الگ ہوئے کہ ایک ٹکڑاجبل ابی قبیس اوردوسرا ٹکڑاجبل قعیقعان کی جانب نظرآیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں  سے فرمایادیکھواورگواہ رہنا۔ [3]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ قُرَیْشٌ: هَذَا سِحْرُ ابْنِ أَبِی كَبْشَةَ، قَالَ: وَقَالُوا: انْتَظَرُوا مَا تَأْتِیكُمْ بِهِ السُّفَّارُ فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یَسْحَرَ النَّاسَ كُلَّهُمْ قَالَ: فَجَاءَ السُّفَّارُ فَقَالُوا ذَاكَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمیں  چانددوٹکڑے ہوگیامگرقریش نے اپنی ہٹ دھرمی اوربغض وعناد کے سبب کہایہ ابن ابی کبیثہ کاجادوہے، لیکن ان کے سمجھداروں  نے کہامان لوکہ ہم پرجادوکیاگیاہے لیکن ساری دنیاپرتوجادو نہیں  ہوسکتااب ملک کے دوسرے حصے سے بھی لوگوں  کوآنے دواوران سے دریافت کروکہ کیاانہوں  نے بھی اس رات چاندکو دوٹکڑوں  کی شکل میں  دیکھا تھا چنانچہ بعدمیں  متعددلوگوں  نے بھی اس معجزے کی تصدیق کی مگر اہل مکہ نے پھربھی پیغام ہدایت کوقبول نہ کیااور اعراض کی روش برقرار رکھی۔[4]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرِیَهُمْ آیَةً، فَأَرَاهُمُ القَمَرَ شِقَّتَیْنِ، حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَیْنَهُمَا

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ مطالبہ کیاکہ آپ انہیں  کوئی نشانی دکھائیں ، توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  چانددوٹکڑے ہوتے ہوئے دکھایاحتی کہ مکہ والوں  نے دیکھاکہ حراء چاندکے دونوں  ٹکڑوں  کے درمیان ہے۔[5]

عَن ابْن عَبَّاس فِی قَوْله {اقْتَرَبت السَّاعَة وَانْشَقَّ الْقَمَر} قَالَ:اجْتمع الْمُشْركُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُم الْوَلِید بن الْمُغیرَة وَأَبُو جهل بن هِشَام والعاصی بن وَائِل والعاصی بن هِشَام وَالْأسود بن عبد یَغُوث وَالْأسود بن الْمطلب وَزَمعَة بن الْأسود وَالنضْر بن الْحَرْث فَقَالُوا للنَّبِیِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَشُقَّ لَنَا الْقَمَرَ فرْقَتَیْن نصفا على أبی قُبَیْس وَنصفا على قعیقعان،  فَقَالَ لَهُم النَّبِی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِن فعلت تؤمنوا قَالُوا: نعم  ،وَكَانَت لَیْلَة بدر،  فَسَأَلَ  رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ربه أَن یُعْطِیهِ مَا سَأَلُوا فأمسى الْقَمَر قد مثل نصفا على أبی قبیس وَنصفا عَلَى قُعَیْقِعان،وَ  رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُنَادی یَا أَبَا سَلمَة بن عبد الْأسد والأرقم بن أبی الأرقم اشْهَدُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ اقْتَرَبت السَّاعَة وَانْشَقَّ الْقَمَرکے بارے میں  کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمبارک میں  مشرکین جن میں  ولیدبن مغیرہ،ابوجہل بن ہشام،عاص بن وائل،عاص بن ہشام،اسودبن عبدیغوث،اسودبن مطلب،زمعہ بن اسوداورنضربن حرث شامل تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جمع ہوئےاورکہااگرتم اپنے دعویٰ نبوت میں  سچے ہوتوچاندکودوٹکڑے کرکے دیکھادو،ایک ٹکڑاکٹ کرجبل ابی قبیس پراوردوسراٹکڑاکٹ کرجبل قعیقعان پرچلاجائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرمیں  تمہارے مطالبہ کوپوراکردوں توکیاتم اسلام قبول کرلوگے؟انہوں  نے کہاہاں  ہم ایمان لے آئیں  گے، وہ چودھویں  کی چاندرات تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب سے دعاکی کہ ان لوگوں  کے مطالبہ کے مطابق چاند کو دو ٹکڑے کردےچنانچہ چانددوٹکڑے ہوگیااوراس کاایک ٹکڑاجبل قبیس پراوردوسراٹکڑاجبل قعیقعان پرچلاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پکارکرفرمایااے ابوسلمہ بن عبدالاسداورارقم بن ارقم گواہ رہو۔[6]

اللہ تعالیٰ نے فرمایادنیاکازیادہ وقت بیت گیا اور قیامت کی گھڑی قریب آگئی، اورچاندجیساعظیم کرہ شق ہوکردوٹکڑے ہو گیا جواس امرکاواضح ثبوت ہے کہ زمین بھی شق ہوسکتی ہے اورافلاک کاسارانظام درہم برہم ہوسکتا ہے ،جیسے فرمایا:

اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۝۱ [7]

آ گیااللہ کافیصلہ ،اب اس کے لئے جلدی نہ مچاؤ۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ [8]

ترجمہ:قریب آگیاہے لوگوں  کے حساب کاوقت اوروہ ہیں  کہ غفلت میں  منہ موڑے ہوئے ہیں  ۔

مگر مشرکین کاحال یہ ہے کہ خواہ کوئی صریح نشانی دیکھ لیں ،ان کے دل اس حقیقت کوتسلیم کرلیں  مگرپھربھی تکذیب کرتے ہیں  اور پچھلی قوموں  کے ہم زبان ہو کر کہتے ہیں یہ توجادوکاکرشمہ ہے ،

عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا وَیُشِیرُ بِإِصْبَعَیْهِ فَیَمُدُّ بِهِمَا

سہل  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  اورقیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گئے ہیں  اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی دوانگلیوں  کے اشارہ سے(اس نزدیکی کو) بتایاپھران دونوں  کو پھیلایا۔[9]

عَن أَنَس؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ أَصْحَابَهُ ذَاتَ یَوْمٍ، وَقَدْ كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغْرُبَ فَلَمْ یَبْقَ مِنْهَا إِلَّا شِفٌّ  یَسِیرٌ فَقَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا بَقِیَ مِنَ الدُّنْیَا فِیمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِیَ مِنْ یَوْمِكُمْ هَذَا فِیمَا مَضَى مِنْهُ، وَمَا نَرَى مِنَ الشَّمْسِ إِلَّا یَسِیرًا

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے اصحاب کوخطبہ دیاجبکہ سورج کے ڈوبنے کا وقت تھوڑاساہی باقی رہ گیاتھاجس میں  فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے دنیاکے گزرے ہوئے حصے میں  اورباقی ماندہ حصے میں  وہی نسبت ہے جواس دن کے گزرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں  ہے،پھرجلدہی سورج غروب ہوگیا۔[10]

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالشَّمْسُ عَلَى قُعَیْقِعَانَ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ:مَا أَعْمَارُكُمْ فِی أَعْمَارِ مَنْ مَضَى، إِلَّا كَمَا بَقِیَ مِنَ النَّهَارِ فِیمَا مَضَى مِنْهُ

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم لو گ نماز عصرکے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سورج ابھی جبل قعیقعان پر تھا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا گذشتہ امتوں  کی عمروں  کے مقابلے میں  تمہاری عمریں  ایسی ہیں  جیسے دن کا یہ باقی حصہ کہ گذشتہ حصے کی نسبت بہت تھوڑا ہے۔[11]

عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَیْرٍ الْعَدَوِیِّ، قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ،فَإِنَّ الدُّنْیَا قَدْ آذَنَتْ بِصَرْمٍ وَوَلَّتْ حَذَّاءَ، وَلَمْ یَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الْإِنَاءِ، یَتَصَابُّهَا صَاحِبُهَا، وَإِنَّكُمْ مُنْتَقِلُونَ مِنْهَا إِلَى دَارٍ لَا زَوَالَ لَهَا، فَانْتَقِلُوا بِخَیْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ قَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْحَجَرَ یُلْقَى مِنْ شَفَةِ جَهَنَّمَ، فَیَهْوِی فِیهَا سَبْعِینَ عَامًا، لَا یُدْرِكُ لَهَا قَعْرًا، وَوَاللهِ لَتُمْلَأَنَّ، أَفَعَجِبْتُمْ؟ وَلَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ مَا بَیْنَ مِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِیعِ الْجَنَّةِ مَسِیرَةُ أَرْبَعِینَ سَنَةً، وَلَیَأْتِیَنَّ عَلَیْهَا یَوْمٌ وَهُوَ كَظِیظٌ مِنَ الزِّحَامِ

خالدبن عمیرالعدوی کہتے ہیں  عتبہ بن غزوان(امیربصرہ) نے خطبہ  فرمایاجس میں  انہوں  اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کی اورپھرفرمایاامابعد دنیاکے خاتمہ کااعلان ہوچکاہے،یہ پیٹھ پھیرکربھاگی جارہی ہے اورجس طرح برتن کاکھاناکھالیاجائے اورکناروں  میں  کچھ باقی لگالپٹارہ جائے اسی طرح دنیاکی عمرکاکل حصہ نکل چکاہے صرف برائے نام باقی رہ گیاہے تم یہاں  سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہوجسے فنانہیں ، پس تم سے جوہوسکے بھلائیاں  اپنے ساتھ لے کرجاؤ،سنوہم سے ذکرکیاگیاہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھرپھینکاجائے جوبرابرسترسال تک نیچے کی طرف جاتارہے گالیکن پیندے تک نہ پہنچے گا،اللہ کی قسم !جہنم کایہ گڑھاانسانوں  سے پرہونے والاہے،تم اس پرتعجب نہ کرو،اللہ کی قسم !ہم نے یہ بھی ذکرسناہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دولکڑیوں  کے درمیان چالیس سال کاراستہ ہےاوروہ بھی ایک دن اس قدرپرہوگی کہ بھیڑبھاڑنظرآئے گی ۔[12]

ان لوگوں  نے بھی قیامت پرایمان لانے کے بجائے اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی،جیسے فرمایا:

فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَاۗءَهُمْ  ۔۔۔۝۵۰ۧ [13]

ترجمہ:اب اگروہ تمہارایہ مطالبہ پورا نہیں  کرتے توسمجھ لوکہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیروہیں ۔

ہرکام کی ایک غایت اور انتہا ہے ،وہ کام اچھا ہویابرابالآخرایک دن اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا،اچھے کام کانتیجہ اچھااوربرے کام کابرا،اگراللہ کی مشیت ہوتواس نتیجے کا ظہور دنیا میں  بھی ہوسکتاہے ورنہ آخرت میں  تویقینی ہے ، ان لوگوں  کے سامنے پچھلی تباہ شدہ قوموں  کے عبرت ناک حالات بیان کیے جا چکے ہیں ،اگرکوئی ان سے سبق حاصل کرکے شرک و معصیت سے بچنا چاہتاہے توبچ سکتا ہے مگرجس کے لئے اللہ نے شقاوت لکھ دی ہو اوراس کے دل پرمہرلگادی ہو اس کو پیغمبروں  کی تنبیہات کیافائدہ پہنچاسکتی ہیں  ،جیسے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۶ [14]

ترجمہ: جن لوگوں  نے (ان باتوں  کوتسلیم کرنے سے )انکارکردیاان کے لئے یکساں  ہے خواہ تم انہیں  خبردار کرو یانہ کرو۔

ایک مقام پر فرمایا:

قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ۝۰ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۱۴۹ [15]

ترجمہ:پھرکہو(تمہاری اس حجت کے مقابلہ میں )حقیقت رس حجت تواللہ کے پاس ہے ،بے شک اگراللہ چاہتاتوتم سب کوہدایت دے دیتا۔

ایک مقام پر فرمایا:

۔۔۔وَمَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۱ [16]

ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں  چاہتے ان کے لیے نشانیاں  اور تنبیہیں  آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں ؟۔

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۘ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ إِلَىٰ شَیْءٍ نُكُرٍ ‎﴿٦﴾‏خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ ‎﴿٧﴾‏ مُهْطِعِینَ إِلَى الدَّاعِ ۖ یَقُولُ الْكَافِرُونَ هَٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ ‎﴿٨﴾(القمر)
پس (اے نبی) تم ان سے اعراض کروجس دن ایک پکارنے والا ناگوار چیز کی طرف پکارے گا، یہ جھکی آنکھوں   قبروں  سے اس طرح نکل کھڑے ہوں  گے کہ گویا وہ پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے، پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوں  گے اور کافر کہیں  گے کہ یہ دن تو بہت سخت ہے۔

پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !ان لوگوں  کوتمام معقول طریقوں  سے سمجھایاجاچکاہے ،گزشتہ قوموں  کے احوال بیان کیے جاچکے ہیں  جوانکارحق کی تکذیب کے باعث نشان عبرت بنادی گئیں ، ان کے حال پرچھوڑدو اورانہیں  قیامت کے انتظارمیں  رہنے دو،جس روزاللہ تعالیٰ کے حکم سے اسرافیل علیہ السلام صورپھونکیں  گے تویہی لوگ دہشت ناک نگاہوں  کے ساتھ اپنی قبروں  سے نکل کراس طرح پھیل جائیں  گے گویاوہ بکھری ہوئی ٹڈیاں  ہیں ،اورمیدان محشرکی طرف دوڑتے جارہے ہوں  گے اوروہی منکرین جو دنیا میں  حیات بعد الموت،حساب کتاب اورجزاوسزا کاانکارکرتے تھےجب اس ہولناکی کودیکھیں  گے تو کہیں  گے کہ یہ تو بڑابھاری،وحشت ناک،ہولناک اوربے حدسخت دن ہے،جیسے فرمایا

فَذٰلِكَ یَوْمَىِٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ۝۹ۙعَلَی الْكٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ۝۱۰ [17]

ترجمہ:وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگاکافروں  کے لئے ہلکانہ ہوگا۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ ‎﴿٩﴾‏ فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ ‎﴿١٠﴾‏ فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ ‎﴿١١﴾‏ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُیُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ‎﴿١٢﴾‏ وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ‎﴿١٣﴾‏ تَجْرِی بِأَعْیُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ ‎﴿١٤﴾‏ وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آیَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‎﴿١٥﴾‏ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِی وَنُذُرِ ‎﴿١٦﴾‏ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‎﴿١٧﴾‏(القمر)
’’ ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا، پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بےبس ہوں تو میری مدد کر،پس ہم نے آسمان کے دروازوں کو زور کے مینہ سے کھول دیا اور زمین سے چشموں کو جاری کردیا پس اس کام کے لیے جو مقدر کیا گیا تھا (دونوں) پانی جمع ہوگئے،اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی کشتی پر سوار کرلیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی، بدلہ اس کی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا، اور بیشک ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا پس کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا، بتاؤ میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں کیسی رہیں ؟ اور بیشک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔‘‘

دیرینہ اندازکفر:

جس طرح آج یہ مکذبین تمہاری رسالت، قیامت اوراعمال کی جزاوسزاکوجھٹلاتے ہیں ،تمہیں  جھوٹااوردیوانہ کہتے ہیں ،اسی طرح قوم نوح  علیہ السلام بھی اپنے زعم باطل میں  رسالت، قیامت،حیات بعدالموت،حساب کتاب اوراعمال کی جزاوسزاکوجھٹلاچکی ہے ، انہوں  نے بھی ہمارے بندے ورسول کوجھوٹااور دیوانہ قرار دیا تھا ،اوراسی پراکتفانہیں  کیابلکہ انہیں  صاف طورپر ہمارے پیغمبرکودھمکی دی کہ اگرتواپنی دعوت سے بازنہ آیاتوہم تجھے سنگسارکردیں  گے،جیسے فرمایا:

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ۝۱۱۶ۭ   [18]

ترجمہ : انہوں  نے کہا اے نوح ! اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں  میں  شامل ہو کر رہے گا۔

جب ہرطرح کے دلائل اورترغیبات کے باوجودقوم دعوت حق کوقبول کرنے اور اپنے خودساختہ معبودوں  کوچھوڑنے پرآمادہ نہ ہوئی،جیسے فرمایا

 وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۝۰ۥۙ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا۝۲۳ۚ [19]

ترجمہ:انہوں  نے کہاہرگزنہ چھوڑواپنے معبودوں  کواورنہ چھوڑووداورسواع کواورنہ یغوث اوریعوق اورنسرکو۔

توآخرکاروہ اپنی قوم سے مایوس ہوگیااوراس نے اپنی مغلوبیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے رب کوپکاراکہ پروردگار! ان کے مقابلے میں  میں  ناتواں  وضعیف ہوں  اب تومیری مدد کر اور مجھے غلبہ عطافرما،ہم نے اس کی دعاکوشرف قبولیت بخشا اورپھرہم نے چالیس دن تک آسمان سے موسلادھاربارش کے دروازے کھول دیئے اوردجلہ وفرات کی زمین کو پھاڑ کر چشموں  میں  تبدیل کردیا اور آسمان وزمین کے پانی نے مل کروہ کام پوراکردیاجوقضاوقدرمیں  لکھ دیاگیاتھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ} كَثِیرٍلَمْ تُمْطِرِ السَّمَاءُ قَبْلَ ذَلِكَ الْیَوْمِ وَلَا بَعْدَهُ، وَلَا مِنَ السَّحَابِ؛ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ بِالْمَاءِ مِنْ غَیْرِ سَحَابٍ ذَلِكَ الْیَوْمَ، فَالْتَقَى الْمَاءَانِ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ

ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے آیت’’پس ہم نے آسمانوں  کے دروازوں  کوزورکے مینہ سے کھول دیا۔‘‘ کے بارے میں  روایت ہے مُنْهَمِرٍ کے معنی بہت زیادہ کے ہیں ، اس سے پہلے یابعدمیں  جب بھی پانی برساتوبادلوں  سے برسالیکن اس دن بادلوں  کے بغیرہی آسمان کے دروازے کھول دیے گئےاورایک مقررہ فیصلے کے مطابق آسمان وزمین کاپانی باہم مل گیا۔[20]

اورعذاب کے وقت ہم نے نوح  علیہ السلام  کواس کشتی پر سوار کر دیا جوطوفان سے پہلے ہماری ہدایت کے مطابق تختوں  اورکیلوں  کوجوڑکربنائی گئی تھی اورہماری حفاظت میں  پانی پرتیر رہی تھی اورباقی قوم کوغرق کردیا،یہ اس شخص کی خاطربدلہ لینے کے لئے کیاگیا جس کی دعوت کی تکذیب کی گئی تھی، اور اس کشتی کوہم نے عبرت کی داستان بنا کر چھوڑ دیا جس کاوجودایک بلندوبالاپہاڑپرسینکڑوں  ہزاروں  برس تک لوگوں  کواللہ کے غضب سے خبردارکرتارہا، پھرکوئی ہے ،جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّــتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۴۱ۙوَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا یَرْكَبُوْنَ۝۴۲  [21]

ترجمہ: ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے اس کی نسل کوبھری ہوئی کشتی میں  سوارکردیااورپھران کے لئے ویسی ہی کشتیاں  اورپیداکیں  جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔

ایک اورمقام پر فرمایا

اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِ۝۱۱ۙلِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِیَهَآ اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ۝۱۲ [22]

ترجمہ:جب پانی کاطوفان حدسے گزرگیاتوہم نے تم کوکشتی میں  سوارکردیاتھاتاکہ اس واقعہ کوتمہارے لئے ایک سبق آموز یادگار بنا دیں اوریادرکھنے والے کان اس کی یاد محفوظ رکھیں  ۔

عَنْ قَتَادَةَ، فِی قَوْلِهِ: {وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آیَةً}قَالَ: أَلْقَى اللَّهُ سَفِینَةَ نُوحٍ عَلَى الْجُودِیِّ حَتَّى أَدْرَكَهَا أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ

قتادہ  رحمہ اللہ  آیت کریمہ ’’اوربیشک ہم نے اس واقعہ کونشانی بناکرباقی رکھا۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی کشتی کوجودی پہاڑی پرباقی رکھاحتی کہ اس امت کے پہلے لوگوں  نے بھی اسے دیکھاتھا۔[23]

دیکھ لومیرے رسولوں  کی تکذیب کرنے اورمیری نصیحت سے سبق حاصل نہ کرنے والوں  پرکیساعذاب نازل کیااور اپنے رسولوں  کے دشمنوں  سے کیسابدلہ لیاتھا، اس قرآن کوجواعجازوبلاغت کے اعتبارسے نہایت اونچے درجے کی کتاب ہے مگرلوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے ہم نے اس کے مطالب ومعافی کوسمجھنے کے لئے ہرطالب علم پر آسان بنادیاہے ،پھرعذاب پراصرارکرنے کے بجائے قرآن کے دلائل وبراہین اورنصیحت سے فائدہ کیوں  نہیں  اٹھاتے،جیسے فرمایا

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِهٖ وَلِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ [24]

ترجمہ: یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی!)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پرغورکریں  اور عقل و فکررکھنے والے اس سے سبق لیں ۔

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا۝۹۷  [25]

ترجمہ:پس اے نبی ! اس کلام کوہم نے آسان کرکے تمہاری زبان میں  اسی لئے نازل کیاہے کہ تم پرہیزگاروں  کوخوشخبری دے دواورہٹ دھرم لوگوں  کوڈرائو۔

كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِی وَنُذُرِ ‎﴿١٨﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی یَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ ‎﴿١٩﴾‏ تَنْزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ ‎﴿٢٠﴾‏ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِی وَنُذُرِ ‎﴿٢١﴾‏ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‎﴿٢٢﴾(القمر)
قوم عاد نے بھی جھٹلایا پس کیسا ہوا میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں ،ہم نے ان پر تیز و تند مسلسل چلنے والی ہوا ایک منحوس دن میں  بھیج دی جو لوگوں  کو اٹھا اٹھا کر دے پٹختی تھی گویا کہ وہ جڑ سے کٹے ہوئے کھجور کے تنے ہیں پس کیسی رہی میری سزا اور میرا ڈرانا، یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔

یمن کے ایک معروف قبیلے عادنے بھی قیامت،حیات بعدالموت،حشرنشراوراعمال کی جزاوسزا،دعوت حق اور ہمارے رسولوں  کو جھٹلایااورہماری تنبیہات کی کوئی پرواہ نہ کی ، جب وہ سرکشی میں  حدسے گزرگئے توہم نے ایک بدبختی والے دن(کہتے ہیں  بدھ کے دن عذاب نازل ہواتھا) ان پرسخت ٹھنڈی اور طوفانی ہوا بھیج دی،ایک مقام پر فرمایا:

۔۔۔فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ۔۔۔ ۝۱۶ [26]

ترجمہ: چند منحوس دنوں  میں ۔

ایک مقام پر فرمایا:

سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ۝۰ۙ حُسُوْمًا۔۔۔۝۷ۚ [27]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے اس کومسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پرمسلط رکھا۔

یہ طوفانی ہوامجرموں  کوجنہیں  اپنی قوت وطاقت پربڑا گھمنڈتھااٹھااٹھاکرزمین پر اس طرح پٹخ رہی تھی جیسے وہ جڑسے اکھڑے ہوئے کھجورکے تنے ہوں ،اوریہ عذاب اس وقت تک جاری رہاجب تک کہ پوری قوم ہلاک نہیں  ہوگئی ،پس دیکھ لومجرمین پرمیراکیسادردناک عذاب نازل ہوا جنہوں  نے ہماری تنبیہات کی کوئی پرواہ نہ کی تھی،ہم نے اس قرآن کونصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنادیاہے پھرکیاہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ ‎﴿٢٣﴾‏ فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِی ضَلَالٍ وَسُعُرٍ ‎﴿٢٤﴾‏ أَأُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ ‎﴿٢٥﴾‏ سَیَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ ‎﴿٢٦﴾‏ إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ ‎﴿٢٧﴾‏وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَیْنَهُمْ ۖ كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ ‎﴿٢٨﴾‏ فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَىٰ فَعَقَرَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِی وَنُذُرِ ‎﴿٣٠﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِیمِ الْمُحْتَظِرِ ‎﴿٣١﴾‏ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‎﴿٣٢﴾‏(القمر)
’’قوم ثمود نے ڈرانے والوں کو جھٹلایا اور کہنے لگے کیا ہمیں میں سے ایک شخص کی ہم فرماں برداری کرنے لگیں ؟ تب توہم یقیناً غلطی اور دیوانگی میں پڑے ہوئے ہوں گے، کیا ہمارے سب کے درمیان صرف اسی پر وحی اتاری گئی ؟ نہیں بلکہ وہ جھوٹا شیخی خور ہے، اب سب جان لیں گے کل کو کہ کون جھوٹا اور شیخی خور تھا ؟ بیشک ہم ان کی آزمائش کے لیے اونٹنی بھیجیں گے، پس (اے صالحؑ) تو ان کا منتظر رہ اور صبر کر، ہاں انہیں خبردار کر دے کہ پانی ان میں تقسیم شدہ ہے ہر ایک اپنی باری پر حاضر ہوگا، انہوں نے اپنے ساتھی کو آواز دی جس نے (اونٹنی پر) وار کیا اور (اس کی) کوچیں کاٹ دیں پس کیونکر ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا، ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی پس ایسے ہوگئے جیسے باڑ بنانے والے کی روندی ہوئی گھاس، اور ہم نے نصیحت کے لیے قرآن کو آسان کردیا پس کیا ہے کوئی جو نصیحت قبول کرے۔‘‘

فریب نظرکے شکارلوگ :

حجرکے علاقے میں  آباد قوم ثمودنے بھی اللہ کی تنبیہات کوجھٹلایااورشجروحجراوربتوں  کے پجاری تکبرسے کہنے لگے کیاہم اپنی ہی قوم کے ایک بشرکی پیروی کریں  ؟جوانسانیت سے بالاترنہیں ، اگرہم ایک بشر کی اتباع قبول کرلیں  تواس کے معنی یہ ہوں  گے کہ ہم بہک گئے ہیں  اورہماری عقل ماری گئی ہے،کیاہماری رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ کی نظرانتخاب اس پرپڑی ہے جس کے ساتھ کوئی بڑاجتھانہیں ،جس کی کوئی شان وشوکت نہیں ،ہرگزنہیں ،بشررسول نہیں  ہوسکتا،رسول کے لئے توکوئی فرشتہ ہوناچاہیے ،اورظالمانہ حکم لگایاکہ صالح  علیہ السلام جس نے رسالت کادعویٰ کیاہے پرلے درجے کاجھوٹااوربرخودغلط ہے،ہم نے اپنے پیغمبرسے کہابہت جلد انہیں  معلوم ہوجائے گاکہ کون پرلے درجے کاجھوٹااوربرخودغلط ہے،ہم ان کے مطالبہ پردن دھاڑے ان کی آنکھوں  کے سامنے معجزانہ طورپرپہاڑسے برآمدایک گابھن اونٹنی کوان کے لئے  آزمائش اورامتحان کے طورپر بھیج رہے ہیں  ،اب ذراصبرکے ساتھ دیکھ کہ یہ اپنے وعدے کے مطابق ایمان کاراستہ اختیارکرتے ہیں  یاتکذیب کرتے ہیں  ،اوران کوواضح طورپرآگاہ کردے کہ ایک دن یہ اونٹنی اس کنوئیں  سے پانی پیئے گی اورایک دن قوم اوراس کے جانور اس سے پانی پییں  گے اوراس روزصرف وہی پانی پرآئے گاجس کی باری ہوگی اورجس کی باری نہ ہوگی اس کے لئے پانی پرآنے کی ممانعت ہوگی ،جیسے فرمایا:

قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۱۵۵ۚ [28]

ترجمہ:صالح نے کہا یہ اونٹنی ہےایک دن اس کے پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا۔

چنانچہ اللہ کی اونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں  میں  دندناتی پھری اورکسی میں  اتنی جرات نہ ہوتی تھی کہ اونٹنی کے پانی کے دن کنوئیں  پرآئے  ،مگرآخرقوم اس بندش سے عاجزآگئی اورانہوں  نے اپنے قبیلے کے بدترین آدمی قداربن سالف کواس اونٹنی کاقصہ تمام کرنے کے لئے بلایا،

قَالَ الْمُفَسِّرُونَ: هُوَ عَاقِرُ النَّاقَةِ، وَاسْمُهُ قُدّار بْنُ سَالِفٍ، وَكَانَ أَشْقَى قَوْمِهِ. كَقَوْلِهِ: {إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا} [29].

مفسرین نے لکھاہے کہ اسی نے اونٹنی کی کونچیں  کاٹی تھیں  اس کانان قدرابن سالف تھااوریہ اپنی قوم میں  سب سے زیادہ بدبخت تھا،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا۝۱۲۠ۙ [30]

ترجمہ:جب اس قوم کاسب سے زیادہ شقی آدمی بپھرکراٹھا۔[31]

اورقوم کے بڑھاوے چڑھاوے دینے پراس نے اونٹنی کاقصہ تمام کرنے کابیڑا اٹھا لیا، اور پھراس بدبخت نے اونٹنی کی ٹانگیں  کاٹ کراسے ذبح کردیا،پھردیکھ لوہم نے ان لوگوں پرکیسادردناک عذاب نازل کیا جنہوں  نے ہماری تنبیہات کامذاق اڑایاتھا،ہم نے ان پربس ایک سخت چنگھاڑاورزلزلہ بھیجاجس سے پوری قوم ایک لحظہ میں  باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہوکررہ گئی،ہم نے اس قرآن کونصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنادیاہےاب ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ ‎﴿٣٣﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ ۖ نَجَّیْنَاهُمْ بِسَحَرٍ ‎﴿٣٤﴾‏ نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِی مَنْ شَكَرَ ‎﴿٣٥﴾‏ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ ‎﴿٣٦﴾‏ وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَیْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْیُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِی وَنُذُرِ ‎﴿٣٧﴾‏ وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ ‎﴿٣٨﴾‏ فَذُوقُوا عَذَابِی وَنُذُرِ ‎﴿٣٩﴾‏ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‎﴿٤٠﴾(القمر)
’’قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے، انہیں ہم نے سحر کے وقت نجات دی اپنے احسان سے، ہر ہر شکر گزار کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، یقیناً (لوط (علیہ السلام)) نے انہیں ہماری پکڑ سے ڈرایا تھا لیکن انہوں نے ڈرانے والے کے بارے میں (شک و شبہ اور) جھگڑا کیا، اور ان (لوط (علیہ السلام)) کو ان کے مہمانوں کے بارے میں پھسلایا پس ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں اور کہہ دیا میرا ڈرانا اور میرا عذاب چکھو،اور یقینی بات ہے کہ انہیں صبح سویرے ہی ایک جگہ پکڑنے والے مقررہ عذاب نے غارت کردیا پس میرے عذاب اور میرے ڈراوے کا مزہ چکھو،اور یقیناً ہم نے قرآن کو پند و واعظ کے لیے آسان کردیا ہےپس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا۔‘‘

ہم جنس پرستوں  کی ہلاکت وبربادی :

قوم لوط نے ہماری گرفت سے بے خوف ہوکر ڈرانے والوں  کی تکذیب کی اوراپنے شرک اورفواحش پرجمے رہے ،جس کی پاداش میں ہم نے ان کی بستیوں  کوتلپٹ کرکے نچلے کوالٹ کراوپرکردیاااورپھران پرنشان زدہ کھنگرپتھروں  کی بارش برسائی جس سے پوری قوم نشان عبرت بن گئی ،اورصرف لوط علیہ السلام اوران کی دوبیٹیاں  اس عذاب سے محفوظ رہیں ،جیسے فرمایا:

فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۳۵ۚفَمَا وَجَدْنَا فِیْہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۶ۚ [32]

ترجمہ:پھر ہم نے ان سب لوگوں  کو نکال لیا جو اس بستی میں  مومن تھے،اور وہاں  ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں  کا کوئی گھر نہ پایا ۔

ان کوہم نے اپنے رحمت اوراحسان سے رات کے آخری حصہ میں بچاکرنکال دیاتھا،جیسے فرمایا

قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْكَ فَاَسْرِ بِاَہْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ ۔۔۔۝۸۱ [33]

ترجمہ:تب فرشتوں  نے اس سے کہا کہ اے لوط! ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں  گے بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جا ۔

اس طرح ہم ہراس شخص کویہ جزادیتے ہیں  جوشکر گزار ہوتا ہے،لوط نے عذاب نازل ہونے سے پہلے اپنی قوم کوہماری سخت گرفت سے ڈرایا تھا مگر انہوں  نے کچھ پرواہ نہ کی اورہماری تنبیہات کومشکوک سمجھ کرمذاق اڑاتے رہے،پھرجب بھیجے گئے فرشتے (جبرائیل،میکائیل اوراسرافیل علیہ السلام ) خوبرونوجوانوں  کی شکل وصورت میں  لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اورقوم کومعلوم ہوا توقوم دیوانہ وار لوط علیہ السلام کے گھرکی طرف دوڑپڑی ،اورلوط علیہ السلام سے مطالبہ کیاکہ ان نوجوانوں  کوبدفعلی کے لئے ان کے سپردکردیاجائے، لوط علیہ السلام نے مہمانوں  کی حفاظت کے پیش نظران لوگوں  کی بڑی منت سماجت کی، مگرلاحاصل اورپھرانہوں  نے گھرمیں  گھس کر زبردستی مہمانوں  کونکال لینے کی کوشش کی ،یہ صورت دیکھ کرجبرائیل علیہ السلام نے اپنے پرکاایک حصہ انہیں  ماراجس سے ان کی آنکھوں  کے ڈھیلے باہرنکل آئے ،اورپھرصبح سویرے عذاب مستقر نازل ہوا،جس نے اس بدکارقوم کو صفحہ ہستی سے مٹادیا، چکھواب میرے عذاب اورمیری تنبیہات کامزا،ہم نے اس قرآن کونصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنادیاہے پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔

وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ ‎﴿٤١﴾‏ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِیزٍ مُقْتَدِرٍ ‎﴿٤٢﴾‏ أَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِی الزُّبُرِ ‎﴿٤٣﴾‏ أَمْ یَقُولُونَ نَحْنُ جَمِیعٌ مُنْتَصِرٌ ‎﴿٤٤﴾‏ سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ ‎﴿٤٥﴾‏ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَىٰ وَأَمَرُّ ‎﴿٤٦﴾‏ إِنَّ الْمُجْرِمِینَ فِی ضَلَالٍ وَسُعُرٍ ‎﴿٤٧﴾‏ یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ‎﴿٤٨﴾‏(القمر)
’’اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے انہوں نے ہماری تمام نشانیاں جھٹلائیں پس ہم نے بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لیا (اے قریشیو !) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ یا تمہارے لیے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے؟ یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں،  عنقریب یہ جماعت شکست دی جائے گی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی، بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہےاور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے، بیشک گناہ گار گمراہی میں اور عذاب میں ہیں، جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا) دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو۔‘‘

سچائی کے دلائل سے اعراض کرنے والی قوم :

اورہم نے موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام کوواضح دلائل اوربڑے بڑے معجزات کے ساتھ فرعون اوراس کی قوم کی طرف بھیجا،موسیٰ  علیہ السلام نے اپنی رسالت کی حقانیت وصداقت میں  انہیں نومعجزے دکھائے مگرانہوں  نے ہماری ساری نشانیوں  کوجھٹلادیا،تب اللہ تعالیٰ نے ان کوایک غالب اورقدرت رکھنے والی ہستی کی مانندعذاب کی گرفت میں  لے لیا،اوربنی اسرائیل کی آنکھوں  کے سامنےفرعون کواس کے سرداروں  اورلشکروں  سمیت سمندرمیں  غرق کردیاتواے اہل عرب!کیاتمہارے کفارومشرکین کچھ قوم نوح،قوم عاد،قوم ثموداورقوم فرعون سے بہترہیں ؟جب ان قوموں  کوجوتعداد،قوت اوروسائل میں  تم سے بڑھ کرتھے کفروشرک،تکذیب اورہٹ دھرمی کی پاداش میں  عذاب الٰہی کے مستحق ٹھہرے اورانہیں  صفحہ ہستی سے مٹادیاگیاتوتم سلامتی کی کیوں  امیدلگائے بیٹھے ہو؟جیسے فرمایا:

وَكَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ۝۰ۭ ہَلْ مِنْ مَّحِیْصٍ۝۳۶ [34]

ترجمہ:ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں  کو ہلاک کر چکے ہیں  جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں  اور دنیا کے ملکوں  کو انہوں  نے چھان مارا تھا پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پا سکے؟۔

جب تم بھی وہی روش اختیارکروگے توہم تمہیں  کیوں  چھوڑدیں  گے ؟یایہ بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ صحیفوں  میں  تمہارے ساتھ کوئی عہداورمیثاق کررکھاہے کہ کفروشرک کے ساتھ اللہ کی زمین پر جوبداعمالیاں چاہوکرتے رہو،ہم اس پرگرفت نہیں  کریں  گے ؟یاان لوگوں  کاگمان باطل یہ ہے کہ کثرت تعداداور وسائل قوت کی وجہ سے اللہ کے عذاب سے اپنابچاؤکرلیں  گے؟ہرگزنہیں ،اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !ببانگ دھل اعلان کردوبہت جلد قریشیوں  کا یہ مضبوط جتھاشکست فاش کھائے گااوریہ سب میدان میں  جم کرکھڑے ہونے کے بجائے پیٹھ پھیرکربھاگتے نظرآئیں  گے،چنانچہ اس پیش گوئی کے سات سال بعد غزوہ بدربرپاہونے سے پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ساری رات رب کے سامنے بہت الحاح وزاری کرلی اورسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اپنے خیمہ سے باہرتشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان پریہی آیت تھی

 سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۝۴۵

ترجمہ: عنقریب یہ جتھاشکست کھاجائے گااوریہ سب پیٹھ پھیرکربھاگتے نظرآئیں  گے۔[35]

اورپھرجب میدان جنگ سج گیاتوقریشیوں  نے تعداداوروسائل میں  بہترہونے کے باوجودہزیمت اٹھائی اورظہرسے پہلے نہتے مسلمانوں  کے ہاتھوں قریشیوں  کے ستر روسائے شرک اوراساطین کفرقتل ہوچکے تھے اورکئی گرفتاربھی ہوئے ، فرمایا دنیاکی اس ذلت آمیزسزاکے بعداصل سخت سزائیں  توانہیں  روزقیامت کودی جائیں  گی جن کاان سے وعدہ کیاجاتاہے اورقیامت کی وہ ساعت بڑی آفت اورزیادہ تلخ  چیز ہے،یہ مجرمین جن کی عقل ماری گئی ہے درحقیقت غلط فہمی میں  مبتلاہیں  کہ کوئی قیامت نہیں ،اعمال کی کوئی جزاوسزانہیں  ہے مگرمیدن محشرمیں  اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے بعدجب یہ مجرمین منہ کے بل جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں  گے،جیسے فرمایا:

 وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِہٖ۝۰ۭ وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۝۰ۭ مَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا۝۹۷ [36]

ترجمہ: جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہی میں  ڈال دے تو اس کے بعد ایسے لوگوں  کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں  پاسکتا، ان لوگوں  کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں  گے اندھے، گونگے اور بہرے ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں  گے۔

اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ اِلٰى جَہَنَّمَ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا۝۳۴ۧ [37]

ترجمہ:جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں  ان کا مؤقف بہت برا اور ان کی راہ حد درجہ غلط ہے۔

وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ۔۔۔۝۹۰  [38]

ترجمہ:اور جو برائی لیے ہوئے آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں  پھینکے جائیں  گے۔

اس روزان سے کہاجائے گا اپنے کفرکے باعث اب جہنم کے غیض وغضب اورشدت عذاب کامزاچکھو،جیسے فرمایا

 وَّنَقُوْل ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۱۸۱ [39]

ترجمہ:( جب فیصلہ کا وقت آئے گا اس وقت)ہم ان سے کہیں  گے کہ لواب عذاب جہنم کا مزا چکھو ۔

إِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ‎﴿٤٩﴾‏وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ‎﴿٥٠﴾‏ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْیَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‎﴿٥١﴾‏ وَكُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوهُ فِی الزُّبُرِ ‎﴿٥٢﴾‏ وَكُلُّ صَغِیرٍ وَكَبِیرٍ مُسْتَطَرٌ ‎﴿٥٣﴾‏ إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ‎﴿٥٤﴾‏ فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیكٍ مُقْتَدِرٍ ‎﴿٥٥﴾‏(القمر)
’’بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے سے پیدا کیا ہے، اور ہمارا حکم صرف ایک دفعہ (کا ایک کلمہ) ہی ہوتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا،اور ہم نے تم جیسے بہتیروں کو ہلاک کردیا ہے پس کوئی ہے نصیحت لینے والا،جو کچھ انہوں نے (اعمال) کئے ہیں سب نامہ اعمال میں لکھے ہوئے ہیں ،(اسی طرح) ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے، یقیناً ہمارا ڈر رکھنے والے جنتوں اور نہروں میں ہوں گےراستی اور عزت کی بیٹھک میں، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔‘‘

اوراللہ نے کوئی بھی چیزالل ٹپ پیدانہیں  کردی ہے بلکہ اس نے ہرچیزکی ایک تقدیرمقررکی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا۝۲ [40]

ترجمہ: جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝۱ۙالَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙوَالَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدٰى۝۳۠ۙ [41]

ترجمہ:(اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ۔

جس کے مطابق وہ عمل کرتی اورایک وقت مقررہ پرختم ہوجاتی ہے ،اسی عالمگیر ضابطہ کے مطابق اس کائنات کی بھی ایک تقدیرمقررہے اورایک خاص وقت میں  اس نے فنا ہو جانا ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:جَاءَ مُشْرِكُو قُرَیْشٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَاصِمُونَهُ فِی الْقَدَرِ، فَنَزَلَتْ: {یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} [42]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے مشرکین قریش نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تقدیرکے بارے میں  جھگڑاکرنے کے لیے آئےتویہ آیت کریمہ نازل ہوئی’’ جس روز یہ منہ کے بل آگ میں  گھسیٹے جائیں  گے اس روز ان سے کہا جائے گا کہ اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا، ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔‘‘[43]

عَنِ ابْنِ زُرَارَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ- صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ- أَنَّهُ تَلا هَذِهِ الْآیَةَ: ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ. إِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ،قَالَ: نَزَلَتْ فِی أُنَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَكُونُونَ فِی آخَرِ الزَّمَانِ یُكَذِّبُونَ بِقَدَرِ اللَّهِ

زرارہ نے اپنے والدسے روایت کیاہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آیت’’ اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا،ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔‘‘کی تلاوت فرمائی اور فرمایایہ آیت میری امت کے ان لوگوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ہے جوآخرزمانے میں  ہوں  گے اوراللہ تعالیٰ کی تقدیرکی تکذیب کریں  گے۔[44]

عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِی رَبَاح، قَالَ: أَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَهُوَ یَنزع مِنْ زَمْزَمَ، وَقَدِ ابْتَلَّتْ أَسَافِلُ ثِیَابِهِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ تُكُلّم فِی الْقَدَرِ. فَقَالَ: أَوَ [قَدْ] فَعَلُوهَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ إِلَّا فِیهِمْ: {ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ. إِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} ، أُولَئِكَ شِرَارُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَلَا تَعُودُوا مَرْضَاهُمْ وَلَا تُصَلّوا عَلَى مَوْتَاهُمْ، إِنْ رَأَیْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ فَقَأْتُ عَیْنَیْهِ بِأُصْبُعَیَّ هَاتَیْنِ.

عطابن ابررباح سے روایت ہےمیں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کی خدمت میں  حاضرہواجب وہ زمزم کی طرف سے آرہے تھے ان کے کپڑوں  کے نچلے حصے بھیگے ہوئے تھے، میں  نے عرض کی تقدیرکے بارے میں  گفتگوہورہی ہے، انہوں  نے فرمایاکیالوگوں  نے یہ بات شروع کردی ہے؟میں  نے عرض کی جی ہاں ،انہوں  نے فرمایااللہ کی قسم !یہ آیت ’’ اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا،ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔‘‘ انہی لوگوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ہے، یہ اس امت کے بدترین لوگ ہیں ،ان کے بیماروں  کی بیمارپرسی نہ کروان کے مردوں  کاجنازہ نہ پڑھواگرمیں  ان میں  سے کسی کودیکھوں تواپنی ان دوانگلیوں  کےساتھ اس کی آنکھیں  پھوڑدوں ۔[45]

عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ لِابْنِ عُمَرَ صَدِیقٌ مِنْ أَهْلِ الشَّأْمِ یُكَاتِبُهُ فَكَتَبَ إِلَیْهِ مَرَّةً عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِنَّهُ بَلَغَنِی أَنَّكَ تَكَلَّمْتَ فِی شَیْءٍ مِنَ الْقَدَرِ، فَإِیَّاكَ أَنْ تَكْتُبَ إِلَیَّ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:سَیَكُونُ فِی أُمَّتِی أَقْوَامٌ یُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ

نافع سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کاشام میں  ایک دوست تھاجوان سے خط کتابت کرتارہتاتھا،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں  لکھاکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم تقدیرکے بارے میں  گفتگوکرتے ہولہذامیری طرف آئندہ کوئی خط نہ لکھناکیونکہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے ہوئے سناہےعنقریب میری امت میں  کچھ لوگ ایسے ہوں  گے جوتقدیرکی تکذیب کریں  گے۔[46]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ شَیْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّى الْعَجْزُ وَالْكَیْسُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرچیزتقدیرکے ساتھ ہے حتی کہ عاجزی وعقل مندی بھی۔[47]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ، خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ، وَفِی كُلٍّ خَیْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا یَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَیْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّی فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قوی مسلمان، ضعیف مسلمان سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اور ہر مسلمان خواہ وہ قوی ہو یا ضعیف اپنے اندر نیکی وبھلائی رکھتا ہے،جو چیز تمہیں  دین وآخرت کے اعتبار سے نفع پہنچانے والی ہو اس کی حرص رکھواللہ تعالیٰ سے مددحاصل کرواورعاجزودرماندہ نہ ہواگرتمہیں  کوئی تکلیف پہنچےتویہ نہ کہوکہ اگرمیں  ایسے کرتاتوایسے ہوتابلکہ کہویہ اللہ کی تقدیرہے اوراس نے جوچاہاکیا پس بے شک(کلمہ )’’لو‘‘شیطانی عمل(کادروازہ)کھول دیتاہے۔[48]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا، فَقَالَ: یَا غُلاَمُ إِنِّی أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللَّهَ یَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ یَنْفَعُوكَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ یَضُرُّوكَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَیْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ.

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  ایک مرتبہ (سواری پر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لڑکے میں  تجھے چندکلمہ سکھاؤں ،تواللہ کویادرکھ اللہ تجھے یادرکھے گا،  تواللہ کویادرکھ اللہ کوتواپنے آس پاس گا،اوراپنی پریشانیوں  اورمشکلات میں جب مانگے تو اللہ وحدہ لاشریک سے مانگ،اورجب مددچاہے تواللہ سے مددمانگ،اور جان رکھ اگرتمام امت جمع ہوکرتجھے وہ نفع پہنچاناچاہے جواللہ نے تیری قسمت میں  نہیں  لکھاتونہیں  پہنچاسکتی،اور اگرسب اتفاق کرکے تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں  اورتیری تقدیرمیں  وہ نہ ہوتونہیں  پہنچاسکتے، قلمیں  خشک ہوچکیں  اوردفترلپیٹ کررکھ دیے گئے ۔[49]

حَدَّثَنِی عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَةَ، حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُبَادَةَ، وَهُوَ مَرِیضٌ أَتَخَایَلُ فِیهِ الْمَوْتَ فَقُلْتُ: یَا أَبَتَاهُ أَوْصِنِی وَاجْتَهِدْ لِی. فَقَالَ: أَجْلِسُونِی. فَلَمَّا أَجْلَسُوهُ قَالَ: یَا بُنَیَّ إِنَّكَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْإِیمَانِ، وَلَنْ تَبْلُغْ حَقَّ حَقِیقَةِ الْعِلْمِ بِاللَّهِ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِهِ وَشَرِّهِ

عبادہ بن ولیدبن عبادہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں  کہ مجھ سے میرے والدنے بیان کیامیں  (اپنے والد)عبادہ کے پاس گیاوہ مریض تھے اورمیراخیال تھاکہ انہیں  پیغام موت آنے والاہے،میں  نے عرض کی اباجان!مجھے وصیت کریں  اورمیری خاطراچھی طرح وصیت فرمائیں ،انہوں  نے کہاکہ مجھے بیٹھادوجب انہیں  اٹھا کر بٹھا دیا گیا تو انہوں  نے کہامیرے بیٹے!تم اس وقت تک ایمان کاذائقہ نہیں  چکھ سکتےاوراللہ تعالیٰ کے بارے میں  علم کی حقیقت کونہیں  پاسکتے حتی کہ اچھی بری تقدیرپرایمان لاؤ،

قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتَاهُ وَكَیْفَ لِی أَنْ أَعْلَمَ مَا خَیْرُ الْقَدَرِ مِنْ شَرِّهِ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ یَكُنْ لِیُصِیبَكَ، وَمَا أَصَابَكَ لَمْ یَكُنْ لِیُخْطِئَكَ. یَا بُنَیَّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ: اكْتُبْ فَجَرَى فِی تِلْكَ السَّاعَةِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ “ یَا بُنَیَّ إِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلَى ذَلِكَ دَخَلْتَ النَّارَ

میں  نے عرض کی اباجان!میں  یہ کیسے معلوم کروں  کہ اچھی بری تقدیرکیاہے ؟انہوں  نے جواب دیاخوب جان لوکہ جوتمہیں  حاصل نہیں  ہوسکاوہ تمہیں  حاصل ہوہی نہیں  سکتاتھااورجوتمہیں  حاصل ہوگیاہے وہ تم سے خطاہوہی نہیں  سکتاتھا،اے میرے بیٹے!میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے بے شک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایااوراس سے ارشادفرمایاکہ لکھوتواسی لمحے قلم اس سب کچھ کے ساتھ چل پڑا جو قیامت تک ہونے والاتھا،بیٹا!اگرتم فوت ہوگئے اورتمہارایہ عقیدہ نہ ہواتوجہنم رسیدہوجاؤگے۔[50]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:كَتَبَ اللهُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ  سےمروی ہےمیں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سناہےاللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیرکو آسمان وزمین کی پیدائش کے پچاس ہزار برس پہلے لکھااس وقت پرودگار کاعرش پانی پر تھا۔[51]

اورقیامت کو برپاکرنے کے لئے ہمیں  کسی وسائل کی ضرورت نہیں  پڑے گی ،جب ہم کسی چیزکوکرنے کاارادہ کرتے ہیں  توبس اپنی قدرت کا کلمہ کن کہتے ہیں  اورپلک جھپکتے وہ عمل پورا ہو جاتا ہے،ہم نے تم سے پہلے تم جیسے بہت سے مکذبین کوہم صفحہ ہستی سے مٹاکرنشان عبرت بناچکے ہیں ،انسانی تاریخ تمہارے سامنے ہے پھران کے عبرت ناک انجام سے تم کوئی سبق حاصل نہیں  کرتے ؟انہوں  نے جو بھی اعمال کیے ہیں  وہ کہیں  غائب نہیں  ہوگئے بلکہ سب ان کے نامہ اعمال میں  محفوظ ہیں ،اسی طرح ہرشخص،ہرگروہ اور ہرقوم کے تمام حقیریاجلیل اعمال ،اقوال وافعال لکھے ہوئے ہیں ،اورایک وقت مقررہ پرسامنے آجائیں  گے ،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَائِشَةُ إِیَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا !صغیرہ گناہ کوبھی ہلکانہ سمجھواللہ کی طرف سے اس کابھی مطالبہ ہونے والاہے۔[52]

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیزکرنے والے یقیناًمختلف اورمتنوع باغات اورنہروں  میں  ہوں  گے،جوسچی عزت واکرام کی جگہ ہے،جہاں  گناہ کی بات ہوگی نہ لغویات کا ارتکاب ، انہیں بڑے ذی اقتداربادشاہ کا قرب حاصل ہوگا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُقْسِطُونَ عِنْدَ اللَّهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ یَمِینِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، كِلْتَا یَدَیْهِ یَمِینٌ، الَّذِینَ یَعْدِلُونَ فِی حُكْمِهِمْ، وَأَهْلِیهِمْ وَمَا وَلُوا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاانصاف کرنے والے روزقیامت رحمان کے دائیں  جانب نورکے منبروں  پرجلوہ افروزہوں  گے،اوررحمان کے دونوں  دست مبارک دائیں  ہیں ،اوران سے مرادوہ لوگ ہیں  جواپنے فیصلے ،اپنے اہل وعیال اورجس منصب پروہ فائزہوں  عدل وانصاف کرتے ہیں ۔[53]

[1] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ اللِّعَانِ۵۳۰۱،صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ قُرْبِ السَّاعَةِ۷۴۰۲

[2] صحیح مسلم کتاب صلاة العیدین بَابُ مَا یُقْرَأُ بِهِ فِی صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۲۰۵۹،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا یُقْرَأُ فِی الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ۱۱۵۴،جامع ترمذی ابواب العیدین بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الْعِیدَیْنِ ۵۳۴،سنن نسائی کتاب صلاة العیدین بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الْعِیدَیْنِ بِقَافْ وَاقْتَرَبَتْ ۱۵۶۸،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ ۱۲۸۲

[3]صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ انْشِقَاقِ القَمَرِ ۳۸۶۹، وتفسیرسورۂ القمربَابُ وَانْشَقَّ القَمَرُ وَإِنْ یَرَوْا آیَةً یُعْرِضُوا ۴۸۶۴،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ انْشِقَاقِ الْقَمَرِ۷۰۷۲، جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ القَمَرِ۳۲۸۵ ، مسند احمد ۴۳۶۰،صحیح ابن حبان ۶۴۹۵

[4] مسندابوداودطیالسی۲۹۳

[5] صحیح بخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ انْشِقَاقِ القَمَرِ ۳۸۶۸

[6] الدر المنثورفی التفسیربالماثور۶۷۱؍۷

[7] النحل۱

[8] الانبیائ۱

[9] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَیْنِ۶۵۰۳،صحیح مسلم کتاب الفتن  بَابُ قُرْبِ السَّاعَةِ۷۴۰۳

[10] مسند البزار۷۲۴۲

[11] مسند احمد۵۹۶۶

[12] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۳۵

[13]القصص ۵۰

[14] البقرة۶

[15] الانعام ۱۴۹

[16] یونس۱۰۱

[17] المدثر۱۰

[18] الشعر ائ۱۱۶

[19] نوح۲۳

[20] الدر المنثور ۶۷۵؍۷

[21]یٰسین۴۱،۴۲

[22] الحاقة۱۱،۱۲

[23] تفسیرطبری۵۸۲؍۲۲

[24] ص۲۹

[25]مریم ۹۷

[26] حم السجدة۱۶

[27] الحاقة۷

[28] الشعراء ۱۵۵

[29] الشَّمْسِ:12

[30] الشمس۱۲

[31] تفسیرابن کثیر۴۷۹؍۷

[32] الذاریات۳۵،۳۶

[33] ھود۸۱

[34] ق۳۶

[35]صحیح بخاری تفسیرسورۂ القمربَابُ قَوْلِهِ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّعن ابن عباس رضی اللہ عنہ ۴۸۷۷

[36] بنی اسرائیل۹۷

[37] الفرقان۳۴

[38] النمل۹۰

[39]آل عمران۱۸۱

[40] الفرقان۲

[41] الاعلیٰ۱تا۳

[42] [القمر: 49]

[43] مسند احمد ۹۷۳۶، صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ كُلُّ شَیْءٍ بِقَدَرٍ ۶۸۵۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ القَمَرِ ۲۱۵۷،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۸۳، تفسیر طبری ۶۰۵؍۲۲، الدر المنثور۶۸۳؍۷

[44] تفسیرابن ابی حاتم ۳۳۲۱؍۱۰،الدر المنثور۶۸۳؍۷،المعجم الکبیرللطبرانی۵۳۱۶،السلسلہ الصحیحة۱۵۳۹

[45] السنن الکبری للبیہقی۲۰۸۸۰،سلسلة الأحادیث الصحیحة۲،تفسیرابن ابی حاتم۳۲۲۱؍۱۰، الدر المنثور۶۸۳؍۷

[46]مسنداحمد۵۶۳۹،السنن الکبری للبیہقی۲۰۸۸۱

[47] مسند احمد ۵۸۹۳، السنن الكبرى للبیہقی ۲۰۸۸۲،صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ كُلُّ شَیْءٍ بِقَدَرٍ ۶۸۵۱،تفسیرالقرطبی۱۴۷؍۱۷،الدر المنثور ۶۸۴؍۷

[48] صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابٌ فِی الْأَمْرِ بِالْقُوَّةِ وَتَرْكِ الْعَجْزِ وَالِاسْتِعَانَةِ بِاللهِ وَتَفْوِیضِ الْمَقَادِیرِ لِلَّهِ۶۷۷۴،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۷۹

[49] جامع ترمذی ابواب صفة القیامة باب یدخلون الجنة بغیر حساب   ۲۵۱۶، مسند احمد ۲۶۶۹، مسندابی یعلی۲۵۵۶

[50] مسند احمد ۲۲۷۰۵

[51] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ۶۷۴۸،جامع ترمذی ابواب القدر باب ۱۳۸۹،ح ۲۱۵۶،شرح السنة للبغوی ۶۷

[52] سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الذُّنُوبِ۴۲۴۳،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۳۳۷،مسنداحمد۲۴۴۱۵

[53] مسنداحمد۶۴۹۲، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ فَضِیلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ، وَعُقُوبَةِ الْجَائِرِ، وَالْحَثِّ عَلَى الرِّفْقِ بِالرَّعِیَّةِ، وَالنَّهْیِ عَنْ إِدْخَالِ الْمَشَقَّةِ عَلَیْهِمْ۴۷۲۱،السنن الکبری للنسائی ۵۸۸۵