پیش لفظ

الْحَمْدُ لِلَّهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ ،امابعد

خالق کائنات نے آد م علیہ السلام اوراماں حوا کوجنت سے زمین پراتارااور اپنی رحمت سے انسانوں  کی ہدایت و رہنمائی کے لئے پیغمبروں کاسلسلہ شروع فرمایا ، سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور آخرمیں تمام دنیاکےانسانوں کے لئے سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایااور نبوت کاسلسلہ ختم کردیا گیا ،اس طرح پیغمبرآخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل کردہ قرآن مجید پوری انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کاآخری پیغام ہے، قیامت تک کے لئے نازل شدہ یہ کتاب اخلاقی ضابطوں اور علم وحکمت کے خزانوں کاسرچشمہ ہے ،اس کااسلوب بے مثل اورموضوعات ہمہ گیر اور بیانات زمانی ومکانی حدودسے بلندترہیں ، اس کا ایک ایک لفظ حق ا ورسچ ہے اور شک وشبہ سے بالاتر ہے، یہ جلیل القدر کتاب قیامت تک انسانوں اورجنات کے لئے جامع ترین ضابطہ حیات ہے جوتمام عوالم (موجودہ دنیا،عالم برزخ ،عالم حشر ،جنت ودوزخ) ہر جگہ کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے اس میں درج ہدایات نہ صرف انسان کی مختصرارضی زندگی بلکہ آخرت کی ابدی زندگی میں بھی کامیابی کی ضمانت ہیں ،جواس کی پاکیزہ تعلیمات پرعمل پیراہوگاوہ دنیاوی اور اخروی زندگی میں ہر خوف وغم سے آزاد ہو گا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸ [1]

ترجمہ:جولوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہ ہوگا۔

۔۔۔ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲ [2]

ترجمہ:جوبھی اللہ اور روزآخرپرایمان لائے گااورنیک عمل کرے گااس کااجراس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ۔

بَلٰی۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلهِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۝۱۱۲ۧ [3]

ترجمہ:حق یہ ہے کہ جوبھی اپنی ہستی کواللہ کی اطاعت میں سونپ دے اورعملاًنیک روش پرچلے اس کے لیے اس کے رب کے پاس اجرہے اورایسے لوگوں کے لیے کسی خوف اوررنج کاکوئی موقع نہیں ۔

 اَلْاَخِلَّاۗءُ یَوْمَىِٕذٍؚبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۝۶۷ۭۧیٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ۝۶۸ۚ [4]

ترجمہ:وہ دن جب آئے گا تو متقین کوچھوڑکرباقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے، اس روزان لوگوں سے جوہماری آیات پرایمان لائے تھے اورمطیع فرمان بن کررہے تھے کہاجائے گا کہ اے میرے بندو!آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اورنہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔

اسی مقدس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو اسوہ حسنہ قرار دیا ہے،جیسے فرمایا

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِیْرًا۝۲۱ ۭ   [5]

ترجمہ:درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے ۔

اوراللہ تعالیٰ نے اس آخری ذکر یعنی قرآن مجیداورسیرت سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کوقیامت تک محفوظ رکھنے کا ذمہ لیا ہے،جیسے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ [6]

ترجمہ:رہایہ ذکر،تواس کوہم نے نازل کیاہےاور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے معلم قرآن سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہرگوشہ کوبھی محفوظ کردیاہے،کوئی بھی شخص جس کے دل میں تقویٰ اورآخرت کی کامیابی کے لئے صراط مستقیم پرچلنے کاجذبہ ہووہ قرآن مجیداورسیرت امام المتقین صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرکے بلاخوف وخطر سیدھی راہ پرگامزن ہوسکتاہے جواسے رب کی رحمت ،فضل وکرم ، بخشش اورانعام کی طرف لے جاتی ہے ،خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پرچلنے کی پوری کوشش کرناہی ایک مسلمان کی شان ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آنکھوں سے احمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کودیکھتے تھےمگرپھربھی ان کے دلوں میں یہ شوق تھاکہ اگرکچھ ان سے اوجھل ہو گیا ہے توکسی دوسرے سے پوچھ کر اپنے کردارو گفتار اورعمل کواس کے مطابق ڈھال لیں ،اوراس سلسلہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردارکی سب سے بڑی گواہ تھیں ،اس لیے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے مختلف سوالات پوچھنے کے لیے تشریف لاتے تھے،

كَانَتْ عَائِشَةُ أَعْلَمَ النَّاسِ یَسْأَلُهَا الأَكَابِرَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابن سعدنے امام زہری کا قول نقل کیاہےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں ،بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے پوچھاکرتے تھے۔[7]

 عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: مَا أَشْكَلَ عَلَیْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدِیثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا

ابوموسی ٰاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کوکوئی ایسی مشکل بات کبھی پیش نہیں آئی کہ جس کے بارے میں ہم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاہواوران کے پاس اس سے متعلق کچھ معلومات ہم کونہ ملی ہوں ۔[8]

عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ، أَفْقَهَ النَّاسِ وَأَعْلَمَ النَّاسِ وَأَحْسَنَ النَّاسِ رَأْیًا فِی الْعَامَّةِ

مشہورتابعی عطاء ابن ابی رباح فرماتے ہیں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ فقیہ ،سب سے زیادہ صاحب علم اورعوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں ۔[9]

عَنِ الزُّهْرِیِّ، قَالَ: لَوْ جُمِعَ عِلْمُ النَّاسِ كُلِّهِمْ، ثُمَّ عِلْمُ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَكَانَتْ عَائِشَةُ أَوْسَعَهُمْ عِلْمًا

امام زہری رحمہ اللہ کاقول ہےاگرتمام مردوں کااورامہات المومنین رضی اللہ عنہن کاعلم ایک جگہ جمع کیاجاتاتوام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کاعلم اب سب سے زیادہ گیرائی اورگہرائی والاہوتا۔[10]

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ قال: كان أزواج النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَحْفَظْنَ مِنْ حَدِیثِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَثِیرًا وَلا مِثْلا لِعَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ

محمودبن لبید فرماتے ہیں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث زبانی یادرکھتی تھیں لیکن ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے برابرنہیں ۔[11]

وقال عروة: ما رأیت أحدا أعلم بالقرآن ولا بفریضة، ولا بحرام، ولا بحلال، ولا بفقه، ولا بشعر، ولا بطب، ولا بحدیث العرب، ولا نسب من عائشة

آپ کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قرآن ، فرائض ،حلال وحرام ،فقہ ،شاعری ، طب ،عرب کی تاریخ اورعلم الانساب کاام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کراورکسی کوعالم نہیں دیکھا۔[12]

قَالَ قَتَادَةُ:فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَنْبِئِینِی عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ:فَإِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ

چنانچہ قتادہ سے مروی ہےمیں  نے عرض کیا اے ام المومنین رضی اللہ عنہا ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے! عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ہاں پڑھتاہوں ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔[13]

یعنی پوراقرآن مجید ہی سیدعرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند سیرت ہے ،

عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَتَیْتُ عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، أَخْبِرِینِی بِخُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ،

سعدبن ہشام بن عامرسے مروی ہےمیں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیااے ام المومنین رضی اللہ عنہا ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں بتلائیں  تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخلق قرآن ہی ہے۔[14]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ،

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں دریافت کیاتوانہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخلق قرآن ہی ہے۔[15]

اوراس پاکیزہ کلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ۝۰ۭ وَاللهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۔۔۔ ۝۶۷ [16]

ترجمہ:اے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔

كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۝۲ [17]

ترجمہ:یہ ایک کتاب ہے جوتمہاری طرف نازل کی گئی ہے،پس اے نبی!تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو، اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے(منکرین کو)ڈراؤاورایمان لانے والے لوگوں کویاددہانی ہو۔

اوراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی

 فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا۝۵۲ [18]

ترجمہ:پس اے نبی ! کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔

وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۝۵۱ [19]

ترجمہ:اوراے نبی!تم اس(علم وحی) کے ذریعے سے ان لوگوں کونصیحت کروجواس کاخوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اس کے سواوہاں (ایساذی اقتدار)نہ ہو گاجوان کاحامی ومددگارہویاان کی سفارش کرے ،شایدکہ(اس نصیحت سے متنبہ ہوکر)وہ خداترسی کی روش اختیارکرلیں ۔

وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَذَكِّرْ بِهٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ۝۰ۤۖ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ۝۰ۚ وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا۝۰ۚ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ [20]

ترجمہ:چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے،ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو ۔

یعنی جس تبلیغ میں قرآن شامل نہیں وہ تبلیغ ناقص ہوگی ، اور بار بار قرآن میں یہی کہاجارہاہے کہ اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کواسلام کی طرف دعوت دواس میں حدیث بھی شامل ہے،

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ الْكِنْدِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ

مقدام بن معدی کرب الکندی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایامجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیاگیا ۔[21]مثل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔

  • حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرہردورمیں کتابیں لکھی گئی ہیں اوررہتی دنیاتک لکھی جاتی رہیں گی کیونکہ مثال مشہورہے

مَنْ أَحَبَّ شَیْئاً، أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِهِ

انسان جس چیزسے محبت کرتاہے بارباراسی کاتذکرہ کرتاہے۔

مگرچندسیرت نگاروں کوچھوڑکرجنہوں نے ضعیف روایات کی کچھ تحقیقات کی ہیں اور عملی زندگی کے کچھ پہلوبھی واضح کئے ہیں مگراکثرسیرت نگاروں نے جوکچھ لکھاہے وہ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے چند واقعات ہی ہیں جیسے پیدائش سے قبل ہی یتیمی ، پیدائش کے وقت بے شمارمافوق الفطرت واقعات کاپیش آنا،کم عمری میں والدہ کافوت ہوجانا ، دادا عبدالمطلب اورپھر چچا ابو طالب کی کفالت،کفروجہالت کی گھٹاگھپ اندھیروں میں یتیمی وغربت میں بچپن بسرکرکے الصادق والامین کالقب پانا،قریش کے دوسرے نوجوانوں کی طرح تجارت کاپیشہ اپنانا،ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح،بعثت سے قبل غار حرا میں عبادات میں منہمک ہوجانا ،وحی کانزول ،تین سالہ خفیہ دعوت کے بعدکھلم کھلا اعلان نبوت ،اس پاکیزہ دعوت کاراستہ روکنے کے لئے ایمان لانے والوں پر مشرکین مکہ کا ظلم وستم،اولین مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت ،شعب بنی ہاشم میں محصورہونا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحاب رضی اللہ عنہم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ، میثاق مدینہ ، یہودیوں کی سازشیں ، پے درپے غزوات ، اس دورکے طاقتور حکمرانوں کو خطوط کے ذریعے دعوت اسلام دینا،خطبہ حج الوداع اوراس دنیافانی سے رحلت۔

  •   کیاآپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت ہے ،بلکہ یہ توزمانی اعتبارسے چندواقعات ہیں یازمانی اعتبارسے حالات زندگی کااحاطہ ہے،یہ توچندواقعات ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آئے ،چندکوششیں ہیں مگران واقعات اورکوششوں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں صرف یہی کہ ظلم وستم کی ان آندھیوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا اوراللہ تعالیٰ پرمکمل بھروسہ اور ہر آزمائش میں صبروشکرکیا ، کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت یہیں مکمل ہوجاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت کے تحت وقت کے ساتھ ساتھ مختلف احکام نازل فرمائے جیسے معاشرتی ،معاشی، تجارتی، سیاسی، دیوانی اورفوجداری قوانین ،غیرمسلموں سے معاہدات ،ان کے حقوق وفرائض ، عبادات کے طریقے اوران کے مسائل، اسی طرح والدین ، بیویوں ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، دوست واحباب کے بارے میں ہر طرح کی ہدایت فرمائیں مگرسیرت کی اکثر کتابیں ان سے خالی ہیں اوران کوپڑھ کربڑی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
  • خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کاسکہ جمانے ، انہیں شرک سے متنفرکرنے ،دنیاسے بے رغبتی اختیار کرنے ،تجارت و کاروبار میں ایمانداری ودیانت داری اختیارکرنے،دین اسلام کابول بالاکرنے کے لئے لوگوں کومالی اورجسمانی جہادپرابھارنے ،جنت کی نعمتوں اوردوزخ کی ہولناکیوں وغیرہ کا جمعہ و عیدین اورضرورت کے مختلف اوقات میں خطبات ارشادفرمایاکرتے تھےجن کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی زندگیاں سنواراکرتے تھے مگرسیرت کی کتابیں اس سے بھی خالی ہیں کیایہ خطبات سیرت کاحصہ نہیں ؟
  •  انسان جب اس رنگ وبوسے بھری دنیامیں آتاہے تواپنے ساتھ اپنے مقدرکی خوشیاں اوردکھ دردبھی ساتھ لے کرآتاہے،اسے جب راحت نصیب ہوتی ہے تواپنے خالق مالک کاشکراداکرتاہے اورجب کوئی رنج والم پیش آتاہے تواپنے مالک کے حضورالتجائیں فریادیں کرتاہے اورجب اس سے کوئی گناہ سرزدہوجاتاہے توغفورورحیم رب سے معافی کاطلب گارہوتاہے ،وہ اپنی عبادات میں  اپنے رب کی حمدوثنابیان کرتاہےاورانواع واقسام کی اس دلفریب رنگوں سے بھری عارضی دنیامیں بھٹک جانے سے بچنے کے لئے ہدایت کی دعامانگتاہے،وہ قبرکی وحشت سے پناہ اورآ خرت کی بھلائی چاہتاہے ،دنیاکے تمام انسانوں کویہ سب دعائیں مانگنے کاطریقہ اورسلیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا ہے،مگرسیرت کی کتابیں ان دعاؤں سے خالی ہیں کیاوہ سیرت کاحصہ نہیں ؟
  • صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے ایمان میں سچے اور یقین میں کامل تھے ،وہ اپنے رب کی خوشنودی کے لئے جستجومیں رہتے تھے کہ کون ساایساعمل کریں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاوخوشنودی کے مستحق ٹھہریں ،وہ دن کوکسب معاش میں مشغول رہتے تورات کوعبادت میں منہمک ہوجاتے ،وہ اپنی پاکیزہ کمائی کوجمع کرنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے تاکہ آخرت کازادراہ بن جائے مگروہ فرشتے نہیں انسان تھے،بشری تقاضوں کے تحت چند مردوں وعورتوں سے لغزشیں بھی ہوئیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کے دیوانی اورفوجداری مقدمات بھی آئے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف سے نمٹایااورحدود بھی لاگوفرمائیں ،وحی کی تبلیغ اوراللہ کے احکام پہنچانے میں پیغمبرسے کوئی غلطی یا سہوسرزدنہیں ہوسکتااس کے علاوہ دیگرمعاملات میں پیغمبرکی حیثیت بھی ایک انسان ہی کی ہوتی ہے، اوراحادیث میں متعددمرتبہ بیان ہواہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیاوی معاملات میں میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں ،

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَیَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ یَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَأَقْضِیَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِیهِ شَیْئًا فَلاَ یَأْخُذْ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں بھی انسان ہوں اوربعض اوقات جب تم باہمی جھگڑامیرے پاس لاتے ہوتوممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنامقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اوراس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کردوں جومیں تم سے سنتاہوں ،پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیزکافیصلہ کردوں تووہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کاایک ٹکڑا دیتا ہوں ۔[22]

عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ صَلَّى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِبْرَاهِیمُ: لاَ أَدْرِی زَادَ أَوْ نَقَصَ فَلَمَّا سَلَّمَ قِیلَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِی الصَّلاَةِ شَیْءٌ؟ قَالَ: وَمَا ذَاكَ، قَالُوا: صَلَّیْتَ كَذَا وَكَذَا، فَثَنَى رِجْلَیْهِ، وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْهِهِ، قَالَ: إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِی الصَّلاَةِ شَیْءٌ لَنَبَّأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِیتُ فَذَكِّرُونِی،

علقمہ سے مروی ہےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازپڑھائی، ابراہیم نے کہامجھے نہیں معلوم کہ نمازمیں زیادتی ہوئی یاکمی، پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیانمازمیں کوئی نیاحکم آیاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟لوگوں نے کہاآپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں ،یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کرلیااور(سہوکے)دوسجدے کیے اورسلام پھیراپھرہماری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاکہ اگرنمازمیں کوئی نیاحکم نازل ہواہوتاتومیں تمہیں پہلے ہی ضرورکہہ دیتا لیکن میں توتمہارے ہی جیساآدمی ہوں  جس طرح تم بھولتے ہومیں بھی بھول جاتاہوں اس لیے جب میں بھول جایاکروں توتم مجھے یاد دلایا کرو ۔[23]

سیاسی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت اسلامی کے ایک فردتھے اوران قوانین کے جن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نافذ فرماتے تھے خود بھی پوری طرح پابندتھے مثلاًمال غنیمت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی اتناہی حصہ ہوتاجتنافوج کے عام سپاہی کا،اس کے علاوہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حقوق العبادکے معاملے میں انہی عام قوانین کے پابندتھے جن کے عام مسلمان ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ضرورت پراپنی ذات کے خلاف مقدمات سنے اورمنصفانہ فیصلہ کیا ۔[24]

مگرسیرت کی کتابیں ان باتوں کے تذکرہ سے خالی ہیں ۔

  • عام طورپرسیرت کی کتابوں میں چندوفودکاذکرکے بات ختم کردی جاتی ہے حالانکہ عرب کے مختلف دورونزدیک علاقوں سے وفودکاآنابہت اہمیت رکھتاہے کیوں کہ یہی چند لوگ جب صادق وامین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل کرتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وسادگی سے متاثرہوتے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کااپنے اصحاب سے حسن سلوک دیکھتے،سیدعرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کامشاہدہ کرتے،رحمت العالمین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کودیکھتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کا سنتے ، محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سےاسلام کی پاکیزہ تعلیمات کوسنتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی اوراخلاق حسنہ کامشاہدہ کرتے تومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےقول وفعل میں مطابقت پاتے، پھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کودیکھتے،دن میں ان کے معاملات کامشاہدہ کرتے توراتوں کواللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے دیکھتے اورواپسی پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےتحائف حاصل کرتے تودعوت حق کے گرویدہ ہوجاتےپھر واپس اپنے قبیلے میں جاکرانہیں دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرتے اوران کی کوششوں سے ساراقبیلہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا،پھروہ اپنے ہاتھوں سے ان بے بس باطل معبودوں کوتوڑکرجلادیتے جن کی ان کے آباواجداداوروہ خودپرستش کرتے تھےچنانچہ ان وفودکے آنے کاہی نتیجہ تھاکہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی جوتعداددس ہزارسے زائدنہ تھی وہ حجة الوداع کے موقع پرنوے ہزاریاایک لاکھ بیس ہزارتک جاپہنچی اس لئے ہم نے ان وفودکاقدرے تفصیل سے ذکرکیاہے۔
  • اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی حکمت ومشیت کے تحت حسب ضرورت قرآن نازل فرماتارہا تھااورخاتم النبیین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی تعلیمات کے مطابق اپنے اصحاب کی تعلیم و تربیت فرماتے رہے جن میں غریب ، تنگ دست غلام ا ورلونڈیاں بھی تھیں ، جن کاکوئی سہارانہ تھامگرجن کے کرداروں میں پاکیزگی ،حق کی جستجواورحق ملنے کے بعداس پرقائم رہنے کی پامردگی واستقلال تھا ، جن کواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرکی مصاحبت کے لئے چن لیاتھا،جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کی محبت ڈال دی اور دل پسند بنا دیا اور انہیں کفروفسق اورنافرمانی سے متنفرکردیاتھا،جیسے فرمایا

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللهِ۝۰ۭ لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ۝۷ۙ [25]

ترجمہ:خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبّت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا اور کُفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفرّ کر دیاایسے ہی لوگ اللہ کے فضل واحسان سے راست روہیں ۔

اس تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جاہلیت کےاس بدترین معاشرے میں رہنے والے یہ پاکیزہ لوگ قرآنی سانچے میں ہنسی خوشی ڈھلتے چلے گئے اوروہی لوگ جوبے شمارمعبودوں کی پرستش میں گم تھے ،جوشراب اورجوئے کے رسیا تھے، قتل وغارت جن کامحبوب مشغلہ تھا،لوٹ مارجن کاپیشہ تھا،جواتنے سنگدل تھے کہ معصوم لڑکیوں کوزندہ دفن کردیتے تھے اورجوکسی قانون وضابطہ میں رہناپسندنہ کرتے تھے مگرجب اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرغیرمتزلزل ایمان لائےاورآخرت کی جوابدہی کاخوف ان کے دلوں میں رچ بس گیاتووہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے تابع ہوگے اور ان کے کردار یوں بن گئے،

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا۝۰ ۡ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ۝۰ۚۖۛ وَمَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۝۰ۣۚۛ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ۝۰ۭ وَعَدَ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۝۲۹ۧ [26]

ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھوگے انہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤگے، سجودکے اثرات ان کے چہروں پرموجودہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں ،یہ ہے ان کی صفت تو راة میں اور انجیل میں ،ان کی مثال یوں دی گئی ہےکہ گویاایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی پھر اس کوتقویت دی، پھروہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی،کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ ان کے پھلنے پھولنے پرجلیں،اس گروہ کے لوگ جوایمان لائے اورجنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اوربڑے اجرکاوعدہ فرمایاہے۔

اللہ تعالیٰ کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہ کاایمان ویقین اتناپسندآیاکہ رہتی دنیاتک کے لئے ان کے ایمان کونمونہ بناکر فرمایا

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۝۰ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللهُ۝۰ۚ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۱۳۷ۭ [27]

ترجمہ:پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو ہدایت پرہیں اور اگراس سے منہ پھیریں توکھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں ،لہذااطمنان رکھوکہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے، وہ (سب سنتااور جانتا ہے۔

اپنی معاشی ،معاشرتی اورگھریلوزندگی میں اللہ اوراس کے رسول کی مکمل اطاعت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگیوں میں ہی انہیں اپنی رضامندی کاپروانہ دے دیا،جیسے فرمایا

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۙ رَّضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۰۰ [28]

ترجمہ:وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔

جَزَاۗؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا۝۰ۭ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔۔۔۝۸ۧ [29]

ترجمہ:ان کی جزا ، ان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گےاللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ۝۷۴وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۔ [30]۝۷۵

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ،ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہےاور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدو جہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی اوربخشش کے ساتھ ساتھ ان پاکیزہ نفوس کواپنی پارٹی قرار دیا ،جیسے فرمایا

۔۔۔اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ۝۰ۭ وَیُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللهِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲ۧ  [31]

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے،وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اِن میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں ،خبرداررہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کی رضاورحمت کے متعدد اعلانات قرآن حکیم کی آیات کی شکل میں نازل ہوچکے ہیں ، ارشادفرمایا

۔۔۔ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔۔۔ ۝۱۱۹        [32]

ترجمہ:اللہ ان سے راضی ہوااوروہ اللہ سے ۔

 ۔۔۔وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ [33]

ترجمہ:اوروہی فلاح پانے والے ہیں ۔

۔۔۔اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ۝۷ۙ [34]

ترجمہ:ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل واحسان سے راست روہیں ۔

اورسورۂ فتح میں ان کے لیے بخشش اوراجرعظیم کاذکرفرمایا

۔۔۔ یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ۔۔۔ ۝۱۰ۧ [35]

ترجمہ: ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔

وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَیْهِمْ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمِ الْجَنَّةُ ٍ

ایک روایت میں ہےتمہیں کیامعلوم ہے کہ حق تعالیٰ نے اہل بدرکے انجام پرمطلع ہونے پرہی یہ فرمایاہےاے اہل بدر!تم جوچاہوکرو تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی ۔[36]

أَوْ: فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ

یایہ فرمایامیں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔[37]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ كَلَامٌ، فَقَالَ خَالِدٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: تَسْتَطِیلُونَ عَلَیْنَا بِأَیَّامٍ سَبَقْتُمُونَا بِهَا؟ فَبَلَغَنَا أَنَّ ذَلِكَ ذُكر لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دَعُوا لِی أَصْحَابِی فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَوْ أَنْفَقْتُمْ مِثْلَ أُحُدٍأَوْ مِثْلَ الْجِبَالِ ذَهَبًا، مَا بَلَغْتُمْ أَعْمَالَهُمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےخالدبن ولید رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ میں (بنوجذیمہ کے بارے) اختلاف ہوگیاخالد رضی اللہ عنہ نے فرمایاتم اسی بات پراکڑ رہے ہوکہ ہم سےکچھ دن پہلے ایمان لائے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کاعلم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے صحابہ کو میرے لئے چھوڑدواللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگرتم احدکے یاکسی اور پہاڑ کے برابرسوناخرچ کرڈالوتب بھی ان کے اعمال کونہیں پہنچ سکتے۔[38]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِی، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِیفَهُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایاہے کہ میرے صحابہ پرسب وشتم نہ کروقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگرتم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونابھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تووہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مدبلکہ نصف مدکے برابربھی نہیں ۔[39]

أَكْرِمُوا أَصْحَابِی

ایک روایت میں ہےمیرے صحابہ کااحترام کرو۔[40]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللَّهَ اللَّهَ فِی أَصْحَابِی، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِی فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِی أَبْغَضَهُمْ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور انکو حدف ملامت(تنقید) نہ بنانا،اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کی اس نے مجھ سے بغض کیا۔[41]

جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر موت پربیت رضوان کی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت فرمائی تھی ،

عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ: عَلَى أَیِّ شَیْءٍ بَایَعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الحُدَیْبِیَةِ؟ قَالَ: عَلَى المَوْتِ

یزیدبن ابی عبید رحمة اللہ نے بیان کیامیں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاصلح حدیبیہ کے موقع پرآپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیزپربیعت کی تھی ؟انہوں نے بتلایاموت پر۔[42]

عَنْ جَابِرٍ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:لَا یَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج اس درخت تلے بیعت کرنے والوں میں سے ایک بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔[43]

عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیَدْخُلَنَّ الجَنَّةَ مَنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ إِلاَّ صَاحِبَ الجَمَلِ الأَحْمَرِ.

جابر رضی اللہ عنہ سےایک اورروایت میں ہےاس درخت کے نیچے بیعت کرنے والے سب جنتی ہیں سب کواللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہےبجزایک سرخ اونٹ والے کے(یہ شخص بنوسلمہ کاجدبن قیس تھاجواونٹنی کے پیچھے چھپ گیاتھا)۔[44]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:أَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِأَیِّهِمُ اقْتَدَیْتُمُ اهْتَدَیْتُمْ

اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے اصحاب ستاروں کی مانندہیں ،اگرتم کسی کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤگے۔[45]

پہلی تباہ شدہ قوموں کی طرح مشرکین مکہ نے بھی ان کواپنی ملت پرواپس لانے کے لئے دعوت حق کامذاق اڑایا، معجزات کامطالبہ کیا،اس پاکیزہ دعوت کودبانے اورطاغوت کابول بالاکرنے کے لئے انسانیت سوزمظالم ڈھائے مگرکیاکوئی بتاسکتاہے کہ ان میں کوئی بھی شخص چاہے وہ آزاد نوجوان یابوڑھاتھایاکمزورعورت تھی،بے بس غلام تھایالونڈی اس ظلم وجبر کے سامنے پسپاہوکر اپنی پرانی ملت پرپلٹ گیاہو،بلکہ اس کے برعکس ان کاایمان اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پختہ ہوتا چلا گیا اوریہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت اورفیض صحبت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ دین اسلام کے فروغ کے لیے ساری دنیا کے طاغوت کے سامنے جان ومال کے ضائع سے بےخوف ہوکرآنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکھڑے ہو گئے،وہ نہ صرف ارفع واعلیٰ اخلاق ،حسن معاملات ، حسن معاشرت ، زہدواتقااورخوف خداکے پیکرتھے بلکہ عسکری اورانتظامی صلاحیتوں سے بھی پوری طرح بہرہ ورتھے،انہوں نےاپنی عظمت کردارکے جونقوش صفحہ تاریخ پر مرقسم کیے انہیں ملت اسلامیہ دینی ،علمی،اخلاقی ،سیاسی ،عسکری ہرشعبہ حیات میں دنیاکے سامنے فخرکے ساتھ پیش کرسکتے ہیں ،روشنی کے ان عظیم مناروں نے کبھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کبھی نہیں کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے دنیاکے مال ودولت،جاہ ومنصب کے لیے دعافرمائیں بلکہ حصول جنت کے لیے کس قدرکوشاں اورحریص تھے کہ اکثروبیشتر ان کے سوالات کامحورآخرت ہوتی تھی ، صرف چندواقعات پیش ہیں ،

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِی عَمَلًا یُدْخِلُنِی الْجَنَّةَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوااورعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایساعمل فرمائیں جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ۔[46]

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّةَ وَیُبَاعِدُنِی عَنْ النَّارِ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل اور جہنم سے دور کر دے ۔[47]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَقَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّةَ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نےعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی ایساعمل فرمائیں جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ۔ [48]

عَنْ أَبِی أَیُّوبَ، قَالَ: قِیلَ:یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الجَنَّةَ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے کوئی ایساعمل بتلائیں جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں ۔[49]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: أَنْبِئْنِی عَنْ أَمْرٍ إِذَا أَخَذْتُ بِهِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبھی یہی سوال کیامیں نے عرض کی مجھے ایک ایساکام بتادیں کہ میں اس کے کرنے سے جنت میں داخل ہوجاؤں ۔[50]

حَدَّثَنِی مَعْدَانُ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ الْیَعْمَرِیُّ، قَالَ: لَقِیتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُهُ یُدْخِلُنِی اللهُ بِهِ الْجَنَّةَ؟ أَوْ قَالَ قُلْتُ: بِأَحَبِّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ ،ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَسَكَتَ ثُمَّ سَأَلْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ: سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: عَلَیْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلَّا رَفَعَكَ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِیئَةً

معدان بن ابی طلحہ یعمری سے مروی ہےمیں ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمولیٰ( آزادکردہ غلام)تھےاورکہا مجھے کوئی ایساکام بتلاؤجس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے یایوں کہاکہ مجھے وہ کام بتلاؤجواللہ کوسب کاموں سے زیادہ پسندیدہ ہو یہ سن کرثوبان رضی اللہ عنہ چپ ہورہے،پھرمیں نے ان سے پوچھاتوچپ رہے، پھرتیسری بارپوچھاتوکہامیں نے بھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوسجدہ بہت کیاکر،اس واسطے کہ ہرایک سجدہ سے اللہ تعالیٰ تیراایک درجہ بلندکرے گااورتیراایک گناہ معاف کرے گا۔[51]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف جنت میں ہی داخل نہیں ہوناچاہتے تھے بلکہ اخروی زندگی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت چاہتے تھے،

رَبِیعَةَ بْنَ كَعْبٍ الْأَسْلَمِیَّ، یَقُولُ: كُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آتِیهِ بِوَضُوئِهِ وَبِحَاجَتِهِ فَقَالَ لِی:سَلْنِی، فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِی الْجَنَّةِ، قَالَ:أَوْ غَیْرَ ذَلِكَ، قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ، قَالَ:فَأَعِنِّی عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ

ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہاکرتااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو اور حاجت کاپانی لایاکرتاتھا(ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھ سے کچھ مانگو ؟میں نے عرض کیا میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے علاوہ کچھ اورمیں نے عرض کیابس یہی گزارش ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھاکثرت سجود سے تومیری مددکر(یعنی توسجدہ بہت کیاکراس لئے کہ یہ عبادت اللہ تعالیٰ کوبہت پسندہے ،پس شایدمجھے تیرے لئے سفارش کرنے اوراپنے ساتھ جنت میں لے جانے کاموقع مل جائے )۔[52]

مگرسیرت کی کتابیں روشنی کے ان عظیم میناروں کے ذکرسے خالی ہیں ۔

  • قرآن مجیدمختلف سورتوں میں موقع کی مناسبت سے کہیں اجمالاًاورکہیں تفصیل کے ساتھ تباہ شدہ قوموں کی قیام کی جگہیں ،ان کی طاقت وسائل ، تعمیرات کی بلندیاں ، مذہبی عقائد ،رسولوں کی طرف سے دعوت حق،اس دعوت کوماننے والے کمزوروبے بس مسلمانوں کاحال ،قوموں کادعوت ماننے سے کفراورپھرایک وقت مقررہ پراندازتباہی وبربادی کی پوری عبرت انگیزداستان کو بیان کرتاہے(جیساکہ ہم اپنی کتاب فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ(عبرت حاصل کرواے آنکھوں والو) میں تمام تباہ شدہ اقوام کا عبرت ناک حال قرآن مجیدکی مددسے بیان کرچکے ہیں )اسی طرح قرآن مجید مکی دورمیں مشرکین مکہ،مجوس وغیرہ کے عقائد ،مشرکین کاکلام الٰہی کاانکار،اپنے باطل معبودوں کی حمایت اوراپنی دینوی منفعت کے حصول کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ ،پھرمدنی دورمیں اس دعوت حق کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ منافقین ، اہل کتاب (یہودونصارٰی)اورمشرکین وغیرہ کی پوری کشمکش کوبڑے خوبصورت اندازمیں بیان کرتاہےچنانچہ ان چندوجوہات کی بناپر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو قرآن مجید ، احادیث نبوی اورتاریخ کی مددسے لکھنے کی کوشش کی ہے، ہماری کوشش یہ ہے کہ جس ترتیب سے قرآن مجیدنازل ہوتاگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحا ب رضی اللہ عنہم کوان کی تشریح وتفسیرسمجھاتے اوروہ پاکیزہ نفوس اپناسرتسلیم خم کرتے چلے گئے اسی ترتیب سے ہم عقائد،توحید باری تعالیٰ ، رسالت،آخرت ، کفر و شرک، زندگی گزارنے کے معاشرتی ، معاشی،سیاسی احکام ،نظام عفت وعصمت، ہرقسم کی عبادات کے عملی طریقے،دعائیں ،حقوق وفرائض ، خطبات وغیرہ تحریرکریں اور اس کامل دعوت کوپیش کرنے کے نتیجے میں جوحوصلہ شکن واقعات پیش آئے انہیں بھی تفصیل سے پیش کریں ۔
  •  قَالَ مُجَاهِدٌ: یَعْنِی الْقُرْآنُ كُلُّهُ مُتَشَابِهٌ مَثَانِی

مجاہدکہتے ہیں سارے کاساراقرآن باہم ملتاجلتا اور باربار دہرایا جاتاہے۔[53]

وَقَالَ قَتَادَةُ: الْآیَةُ تُشْبِهُ الْآیَةَ، وَالْحَرْفُ یُشْبِهُ الْحَرْفَ

اورقتادہ کہتے ہیں آیت آیت سے اورحرف حرف سے ملتاجلتاہے۔[54]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {مَثَانِیَ} قَالَ: الْقُرْآنُ یُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا، ویُرَدُّ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے ’’جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں ۔ ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن مجیدکاایک حصہ دوسرے سے ملتاجلتااورمشابہت رکھتاہے۔[55]

اس لئےقرآن کریم کی تشریح کرتے ہوئے میں نےقرآن کی آیات کے حوالے پیش کیے ہیں تاکہ قرآن مجیدکی بات کوقرآن کریم سے سمجھایاجاسکےاورکہیں پراحادیث کی ضرورت تھی تواحادیث پیش کی ہے اس لئے آپ کوکثرت سے حوالہ جات ملیں گے۔

  • خیرالاولین ولاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدان الہامی قوانین میں وقت کے ساتھ ساتھ فقہی مسائل پیداہوئے ،ائمہ کرام( اللہ تعالیٰ ان پررحم فرمائے اورانہیں جنتوں میں اعلی درجات عطافرمائے)نے ان پربڑاکام کیااوران کی پر خلوص کاوشوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح علمائے سلف میں بھی اختلافات پیدا ہوئے مگروہ لوگ دین کے بارے میں بڑے ہی مخلص تھے،ان کادین صرف اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت تھا،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۵۹ۧ [56]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!اطاعت کرواللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوں کی جوتم میں صاحب امر ہوں ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تواسے اللہ اوراس کے رسول کی طرف پھیردواگرتم واقعی اللہ اور روز آخرپرایمان رکھتے ہویہی ایک صحیح طریق کارہے اورانجام کے اعتبارسے بہترہے۔

اس لیے اگران میں کوئی فقہی اختلاف پیداہوتاتھاتووہ اپنی رائے پراڑنہیں جاتے تھے بلکہ جیسے ہی انہیں صحیح مسئلہ کاعلم ہوتاتھابرسرعام حق کی طرف رجوع فرمالیاکرتے تھےاورفرماتے تھے کہ صحیح حدیث ہی ان کامذہب ہے، جیسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا

إِذا صَحَّ الحَدِیث فَهُوَ مذهبی

صحیح حدیث ہی میرامذہب ہے ۔[57]

 عَلَیْك بالأثر، وَطَرِیقَة السّلف، وَإِیَّاك وكل محدثة فَإِنَّهَا بِدعَة

ایک مقام پرفرمایاحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اورسلف صالحین کے طریقہ کار پرعمل کرناضروری ہے اور ہرنئی چیزبدعت ہے۔[58]

اورامام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:

لیس أحد بعد النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلا ویؤخذ من قوله ویترك؛ إلاالنبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہرشخص کی بات کوردوقبول کیا جا سکتا ہے۔[59]

وَقَالَ الشَّافِعِیُّ : إذَا صَحَّ الْحَدِیثُ فَاضْرِبُوا بِقَوْلِی الْحَائِطَ

اورامام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایامیرے قول کے مقابلے میں اگر حدیث سامنے آجائے تومیرے قول کو دیوارپردے مارو۔[60]

إذَا وَجَدْتُمْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خِلَافَ قَوْلِی فَخُذُوا بِالسُّنَّةِ وَدَعُوا قَوْلِی، فَإِنِّی أَقُولُ بِهَا

اورفرمایااگرتم میرے قول کوسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف پاؤتومیرے قول کوچھوڑدویہی میرامنہج ہے۔[61]

اورامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا

 لَا تُقَلِّدْنِی وَلَا تُقَلِّدْ مَالِكًا وَلَا الثَّوْرِیَّ وَلَا الْأَوْزَاعِیَّ، وَخُذْ مِنْ حَیْثُ أَخَذُوا

تم میری، امام مالک رحمہ اللہ ،امام ثوری رحمہ اللہ اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کی تقلیدمت کروبلکہ وہاں سے(دین کے احکامات) لوجہاں سے انہوں نے لیے ہیں ۔[62]

عَنْ الْحَافِظِ ابْنِ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَارِفِ الشَّعْرَانِیِّ عَنْ كُلٍّ مِنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ أَنَّهُ قَالَ إذَا صَحَّ الْحَدِیثُ فَهُوَ مَذْهَبِی

حافظ بن عبدالبر رحمہ اللہ اور عارف شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں چاروں ائمہ کرام رحمہم اللہ کایہی کہنا ہے کہ اگرتمہیں صحیح حدیث مل جائے تواس پرعمل کرویہی ہمارامذہب ہے۔ [63]

چنانچہ ہم نے قارئین کی رہنمائی کے لئے چنداہم قوانین پرفقہی مسائل بھی نقل کیے ہیں ۔

  • بیشک یہ کہاجاسکتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہرپہلوپربڑی بڑی ضخیم کتابیں موجودہیں اوران کی مددسے کوئی بھی رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت کا مطائعہ کرسکتاہے ، میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتاہوں اورمیں نے بھی انہی کتابوں سے بھرپوراستفادہ کرکے اس کتاب کو مکمل کیا ہے، مگراصل مسئلہ یہ ہے کہ اگرکوئی مسلمان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کامطالعہ کرکے اپنی زندگی سنوارناچاہتاہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک کی مختلف پہلوپر اتنی ساری کتابیں نہیں خریدے گابلکہ ایسی کتاب پسندکرے گاجس میں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اوراللہ تعالیٰ کےپیغام کے بارے میں مکمل رہنمائی ہو،اسی طرح اگرکوئی غیرمسلم جس کے دل میں کسی طرح ایمان کی روشنی پرگئی ہو اوروہ بے چین ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے بارے میں پڑھناچاہے گا تووہ بھی بہت سی کتابوں کی جگہ ایسی کتاب منتخب کرے گا جس میں اس کومکمل رہنمائی ملے، اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوہرپہلوسے اس کتاب کومکمل کیا جائے ،اس کے ساتھ ہم نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ بغیر کسی گروہ بندی کے حق کوواضح کرنے کے لئے بعض ضعیف روایات کومختصرتشریح اورحوالہ جات کے ساتھ تحریرکریں تاکہ آپ یقین کامل کے ساتھ ایک کامل انسان کی مکمل سیرت کامطالعہ کرکے خودکواس کے مطابق ڈھالیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعام واکرام کے حق داربن جائیں ، اس کے علاوہ بعض چندروایات پرمختلف لوگوں کے اعتراضات بھی نقل کیے ہیں جن کامقصدصرف قارئین کوان کانقطہ نظربتلاناہے ۔اس کتاب کولکھنے کادوسرابڑامقصدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پرعمل کرنا بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے روز فرمایاتھا.

فَلْیُبَلِّغْ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ

پس تم میں سے جوحاضرہے وہ میرایہ پیغام ان لوگوں کوپہنچادے جوغائب ہیں ۔[64]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوْ آیَةً  وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَا حَرَجَ  وَمَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

  • اورعبداللہ بن عمروبن العاص سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہےمیری بات دوسرے لوگوں کو پہنچا دو اگرچہ وہ ایک ہی آیت ہو، اور بنی اسرائیل کے واقعات (اگر تم چاہو تو) بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں ،اور جس شخص نے مجھ پر قصدا جھوٹ بولا تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہیے۔[65]

عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ  نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ اس شخص کوتروتازہ رکھے جوہم سے کوئی بات سنے اورجیسااس نے سناہے ویساہی پہنچادے،اس لیے کہ بہت سے لوگ جن کوئی حدیث پہنچے گی سننے والے سے زیادہ یادرکھنے والے ہوں گے۔[66]

فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ

اورصحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں یہاں موجودغائب کوپہنچادیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گاسننے والوں سے زیادہ (پیغام کو)یادرکھنے والے ثابت ہوں گے۔[67]

اس کے علاوہ تیسرامقصداپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کرنابھی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے لیکن تین عمل (جاری رہتے ہیں اور ان کا ثواب ملتا رہتا ہے) ایک صدقہ جاریہ دوسرے وہ علم جس سے لوگ بعد تک فائدہ اٹھاتے رہیں تیسرے نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرتی رہے۔[68]

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَتْبَعُ المَیِّتَ ثَلاَثَةٌ، فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ: یَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَیَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَیَبْقَى عَمَلُه

انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دوتوواپس آجاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتاہے،اس کے ساتھ اس کے گھروالے ،اس کامال اوراس کاعمل چلتاہے،اس کے گھروالے اورمال(جن کی محبت اورفکرمیں انسان زندگی بھر ڈوبا رہتا ہے اوران کی طرف لگاؤکی وجہ سے آخرت کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا) توواپس آجاتے ہیں اوراس کاعمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتاہے(اوروہی اس کے ساتھی اور سہارابنتے ہیں )۔[69]

اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ مجھے بغیرہر قسم کی گروہ بندیوں اوراپنے نفس اورابلیس کے شرسے بچا کر صحیح لکھنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

  • عام طورپرسیرت کی کتابوں میں حوالہ جات کی جگہ صرف صحیح بخاری،صحیح مسلم یاابن ہشام،البدایة والنہایة،طبری وغیرہ لکھ دیاجاتاہےجس سے کسی بھی پڑھنے والےکو یقین ہی نہیں ہوتاکہ جوکچھ لکھ دیاگیاہے وہ صحیح بھی ہے یانہیں ، چنانچہ ہم نے ممکن حدتک کوشش کی ہے کہ اگر قرآن مجیدکاحوالہ ہوتووہ آیات لکھ دی جائیں ،کتب احادیث یا تاریخ یافقہ کی کتاب کاحوالہ ہوتواس کااصل عربی متن اورساتھ ہی پوراریفرنس بھی لکھ دیاجائے تاکہ پڑھنے والے کوتسلی وتشفی ہواوروہ ایک یقین کے ساتھ مطالعہ کرسکے کہ جووہ پڑھ رہاہے اس کی ایک حقیقت ہے اوراگرکوئی طالب علم تحقیق کرناچاہے تواسے بھی بہت دورنہ جاناپڑے ۔
  • عام طورپرسیرت کی کتابوں میں اگرکوئی حدیث لکھی جاتی ہے توپوری حدیث لکھ کراس کے نیچے اردوترجمہ لکھ دیاجاتا ہےاس طرح پڑھنے والے کوکچھ سمجھ نہیں آتاکہ عربی کے کس لفظ کاکیامعنی ہیں ،اس لیے یہ بھی کوشش کی ہے کہ احادیث نبوی ہو،کوئی تاریخی یافقہی حوالہ ہوتوعربی کی اس عبارت کومناسب مختصرجزومیں تقسیم کرکے وہاں اردولکھی جائے تاکہ قاری یہ سمجھ سکے کہ کس عبارت کاکیامعنی ہیں ،اوراگرکوئی خطیب خطبہ دینے لگے تواسے بھی آگے پیچھے نہ دیکھناپڑے اوراس طرح عربی کابھی فروغ ہوگا،مگرجب کام مکمل ہوچکااورکچھ بھائیوں نے اس طرزعمل کودیکھاتو مشورہ دیاکہ اس طریقہ سے قارئین کوپڑھنے میں الجھن ہوگی اورانہوں نے پوری خلوص نیت سے مشورہ دیاکہ میں یہ طریقہ بدل دوں اور جیسے مذہبی کتابوں میں لکھاجاتا ہے ویسے ہی لکھ دوں ، میں نے اس پرغوروتدبرکیااوراس طریقہ کودوبارہ بدل کررائج طریقہ پرکردیاہے۔
  • میری کوشش تویہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کاچاہے مختصرہی ہواحاطہ کرلوں مگرمیری کم علمی اورصحت اڑے آئی اورمیں چاہنے کے باوجودبھی بہت سے پہلو پیش نہیں کرسکا،زندگی رہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان گوشوں کودوسرے ایڈیش میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا۔
  • آخرمیں ان تمام اصحاب کاشکرگزارہوں جنہوں نے اس کام میں میری مدد و رہنمائی فرمائی ،سب سے پہلے میں نائب مدیرجامعہ ابی بکرالاسلامیہ گلشن اقبال کراچی اورخطیب مسجدسلمان فارسی گلستان جوہرکراچی فضیلة الشیخ علامہ نورمحمدصاحب حفظہ اللہ کاشکرگزارہوں جنہوں نے اس کتاب کے لکھنے میں برابر حوصلہ افزائی فرماتے رہے اورجامعہ ابی بکر الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی کی قابل رشک لائبریری سے استفادہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اوراس کے علاوہ اس کارخیرمیں شامل ہونے کے لئے کئی کتابیں تحفتاًپیش کیں ،میں جناب حافظ محمدخان فاروقی صاحب حفظہ اللہ فارغ التحصیل جامعہ ابی بکرالاسلامیہ گلشن اقبال کراچی کابھی شکر گزارہوں جنہوں نے اس کتاب کے ابتدائی مراحل میں کتب احادیث کے حوالہ جات کو درست کرنے میں معاونت فرمائی،مگروہ اپنی مصروفیات کے سلسلہ میں لاہورقیام پذیرہوگے مگرٹیلی فون پران سے رابطہ برقرار رہا ، ان کے بعداسی جامعہ سےفارغ التحصیل جناب حافظ محمدساجد حفظہ اللہ اورجناب طیب معاذ حفظہ اللہ نے اس ضخیم کتاب کے کتب احادیث ، تاریخ اورفقہ میں حوالہ جات کو درست کرنے میں معاونت فرمائی ۔میں جناب عبدالحمیدصغیرصاحب اور ان کے بھائی محمد امین کابھی شکرگزارہوں کہ انہوں نے کتاب لکھنے کے وقت سے ہی کمپیوٹرکی ٹیکنیکی معاونت بہم پہنچائی اورکتاب مکمل ہونے پر سرورق اورکتاب کی فارمیٹنگ کامشکل کام بھی سرانجام دیا ۔جناب انجینئر نویدقمرصاحب حفظہ اللہ پہلی مرتبہ میرے معززمہمان کے ساتھ میرے غریب خانہ پرتشریف لائے تو انہیں میری دینی مصروفیت کاعلم ہوا،اس مختصروقت میں  تومیری ان سے زیادہ بات نہ ہوسکی مگرچنددنوں  بعد اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کردوبارہ تشریف لائے اوراس کتاب کے سلسلے میں کافی دیرتک ان سے گفتگوہوتی رہی ،اسی دوران وہ کتاب کی بڑی دلچسپی سے ورق گردنی کرتے رہے اور اس کے مضامین کوپسند کیااور چنددنوں بعد انہوں نےاس کارخیر میں شامل ہونے کے لیے مجھے جناب حافظ عبدالسلام بن محمد کی تفسیرالقرآن الکریم کاایک سیٹ اورقرآن مجیدکاترجمہ تحفتاً عنایت کیاجس کے لیے میں اللہ رب العزت سے ان کے لیے دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس جذبہ کوقبول فرمائے اورانہیں اس کابے بہاصلہ عنایت فرمائے،میں روزنامہ جنگ سے وابستہ جناب اشتیاق علی خاں صاحب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے اس کتاب کولکھنے کے لئے مجھے اپنی لائبریری سے استفادہ کرنے کاموقعہ عطا فرمایا میری شدید خواہش تھی کہ وہ اس کتاب کامطالعہ فرمائیں ،اپنے وسیع علم اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں اوراس میں انداز بیاں کی خامیوں کو درست کریں مگروہ اپنی مصروفیت کی بناپرایسانہ کر سکے جس کا مجھے افسوس ہےمگربہت جلدوہ اس دنیاکوخیربادکہہ کرخالق حقیقی سے جاملے،اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے آمین ،میں محترم ظفر احمد منصورصاحب کابھی ممنون ہوں جنہوں نے اس کارخیرمیں شامل ہونے کے لیے ابوظہبی سے چندکتابیں روانہ فرمائیں ،میں دل کی انتہائی گہرائیوں سے اپنی بیٹی ضوبیہ ہاشمی کے لئے جس نے اس کتاب  کے سلسلہ میں ہر طرح کے اخراجات برداشت کیے، اور اپنی سب سے چھوٹی بیٹی  ڈاکٹر زنیرا ہاشمی کے لئے  جس نے اس کتاب کو لکھنے کے دوران پرنٹنگ کے تمام مراحل میں مدد کی اوراپنی بیٹی ڈاکٹرصوبیہ ہاشمی اوران کے شوہرجناب شفیق الرحمٰن صاحب کے لیے کہ جب انہیں میری کتاب کے بارے میں علم ہواتواس کارخیرمیں شامل ہونے کے لیے ائرلینڈسے ایک پوڑٹیبل ہارڈدسک بھیجی،اوراپنےبیٹے ڈاکٹر محمدہاشمی (Cardiologist)نے اس کام کے سلسلہ میں لیپ ٹاپ گفٹ کیاتاکہ میں جلدسے جلداس کام کوسرانجام دے سکوں ،نیز اس کتاب کی طباعت اور اس سے متعلقہ تمام اخراجات میرے بچوں نے برداشت کئے، اورآخرمیں میں اپنی شریک حیات خواجہ ناہیدمنصور جنہوں نے مجھے بے شمارکتب کے مطالعہ اوراس کتاب کو لکھنے کے لئے وقت اور ہرممکن آرام وسکون بہم پہنچانے کی کوشش کی اورمیری بہت سی ذمہ داریوں کوسنبھال کرمیری مددکی ،اس کے علاوہ انہوں نے اس صدقہ جاریہ میں شامل ہونے کے لئے مختلف مقامات پراپنی ذاتی جیب سے خرچہ بھی برداشت کیا،بارگاہ رب العزت سے ان سب کے لیے دعاگوہوں کہ وہ ان سب کی کوششوں کوقبول فرمائے،ان تمام کوایمان کے ساتھ زندگی اورصحت کاملہ عطافرمائے،اپنی حفاظت اورامان میں رکھے ،دین کی سمجھ اوراس پرچلنے کی توفیق عطافرمائے ،انہیں اپنے دین کی سربلندی کے لیے استعمال کرے اورانہیں دنیاوآخرت میں اپنی رحمت ومغفرت سے نوازے،ان محترم احباب کے علاوہ میں ان تمام علمائے سلف جن کی کتب سے میں نے استفادہ کیاہے کے لئے دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کوجنت کاگہوارہ بنا دے ، ان کے درجات بلندفرمائے اورجنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اوران تمام موجودہ قابل قدر مصنفین کے لئے بھی جن کی کتابوں اورتحقیق سے میں نے بھرپور استفادہ کیاہے دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کوایمان والی زندگی اورصحت کاملہ عطافرمائے اپنی حفاظت اورامان میں رکھے، ان تمام کو مزیدعلم سے نوازے، اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے اور ہدایت کے راستے پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔
  • بھائیو!میراشجرہ تیس واسطوں سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تک پہنچتاہے ،میرے بزرگ نواب آف بہاول پورمحمدبہاول خاں ثالث کے دورمیں جلال پورکھاکھاں میں قیام پذیرتھے اورفرمانروائے وقت کی قدردانی اورعزت افزائی کے سلسلہ میں بہاول پورکی آبادی کے دوران میں بہاول پورمیں آکرسکونت پذیرہوئے ،میرے پردادامولوی محمداعظم رحمہ اللہ ہاشمی قریشی جومولوی صالح محمدہاشمی قریشی صاحب کی اولادمیں سے تھے اور نواب آف بہاول پورکے دربارکے معززرکن تھے ،اس زمانہ میں قلعہ دیراورکے اندربرج ککوہا میں جو عالیشان دارالانشائ قائم تھاآپ اس کے مہتمم تھے،نواب صاحب نے ان کے علم وفضل کی وجہ سے انہیں مولوی کا خطاب عطا فرمایا اورشہزادگان عباسی کااتالیق مقررفرمایاتھا۔مولوی محمداعظم رحمہ اللہ صرف عالم وفاضل ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے ریاست بھاول پورکے استحکام کے لیے مختلف مہمات میں حصہ بھی لیااوربہادری کے کارنامے دکھائے جس کے صلہ میں انہیں مختلف اوقات میں چھ جاگیریں عطاکی گئیں ،مہارجہ رنجیت سنگھ نے جب ملتان کوفتح کرلیااوراس کی علمداری ڈیرہ اسماعیل خاں اور لودھراں تک قائم ہوگئی تو ریاست بہاول پورکوبھی اپنی بقاکاخطرہ پیداہوگیاکہ کہیں اس پربھی حملہ نہ کردیاجائے تواس پرخطروقت میں میرے یہی بزرگ ایلچی بن کرکئی مرتبہ رنجیت سنکھ کے دربارمیں گئے تھے اور کامیاب سفارت کاری کے نتیجے میں وہ ریاست پر حملہ کرنے سے بازرہابلکہ مظفرگڑھ اورڈیرہ اسماعیل خاں کاعلاقہ بھی ریاست بہاول پور کوپٹے پردے دیا،چنانچہ نواب اف بہاول پور نے بہترین کارکردگی کے اعتراف میں انہیں مزیدایک جاگیراورخلعت فاخرہ عطافرمائی ،انہوں نے فارسی زبان میں جواہرعباسیہ کے نام سے تاریخ ریاست بہاول پوربھی لکھی (جس کی فوٹوکاپی میرے پاس موجودہے)،اس کے علاوہ بھی متعددکتابیں تاریخ ،تصوف اوردوسرے علوم میں تصنیف کیں ۔میرے دادامولوی محمداحسن ہاشمی قریشی رحمة اللہ نے دین سے لگن ومحبت کی وجہ سے کئی مساجد تعمیرکرائیں اور درس وتدریس کافریضہ سرانجام دیتے رہے،میرے والدمولوی محمدرفیق ہاشمی قریشی رحمةاللہ کوبھی مذہبی اورتاریخی کتابوں کےمطائعہ کابہت شوق تھا،وہ صادق ریڈنگ لائبریری سے کتابیں لےکرآتے اوربڑے شوق سے ان کامطالعہ کرتے ، موقع پاکرمیں بھی ان کتابوں کو پڑھتاتھااس طرح مجھے اپنے والدکی طرف سے کتب بینی کاشوق پیداہوگیاجوآج تک قائم ہے۔

1967میں جب میں کالج میں داخل ہوتوپروفیسرحافظ محمدعبداللہ رحمة اللہ بہاول پوری (اللہ تعالیٰ ان کی قبرکواپنی بے پناہ رحمت سے بھردے اوران کے درجات بلندفرمائے)نے نمازمغرب کے بعدجامع مسجد شکارپوری گیٹ میں درس قرآن کاسلسلہ شروع فرمایا تومیں بھی اس حلقے کاایک معمولی رکن بن گیا ،درس میں ہر ہر آیت پربحث ومباحثہ ہوتا،ہم بھی اپنی کم عمری اورلاعلمی کی وجہ سے لایعنی سوال کرتے مگروہ غصے یاچڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے کے بجائےبڑے تحمل مزاجی اورخوش مزاجی سے جواب عنایت فرماتے بلکہ سوال کے لیے اکساتے،میں دوسرے طالب علموں کی طرح احادیث کا حوالہ نوٹ کرلیتا اورگھر جا کر انہیں خودمطالعہ کرتا،درس قرآن کایہ سلسلہ کئی بارجاری رہا،اس دوران تفہیم القرآن اورتفسیرابن کثیرکامطالعہ بھی جاری رہاجس سے قرآنی تعلیمات ذہن میں نقش ہو گئیں ۔

حافظ صاحب رحمہ اللہ اسی مسجدمیں جب توحیدسے بھرپور خطبات جمعہ ارشادفرماتے اورچھوٹے چھوٹے عام فہم دلائل کے ساتھ توحیدورسالت کوواضع کرتے تو مسجد میں موجود حاضرین کرام کادل چاہتاتھاکہ وہ اسی طرح وعظ ارشادفرماتے رہیں اوروہ آنکھ جھپکے بغیرانہیں دیکھتے رہیں ،میرےشوق کایہ عالم تھاکہ جب وہ تبلیغی دعوت پر کہیں تشریف لے جاتے تومیں بھی ان کاہم سفربن جاتا تھا،اسی طرح جب وہ مختلف موضوع پرمبنی مناظروں کے لیے تشریف لے جاتے تو میں بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتا جس سے دین کی کچھ باریکیوں کوسمجھنے میں مددملی۔

اس طرح میں ایک دین دارعلمی گھرانے سے تعلق توضروررکھتاہوں مگرمیں عالم فاضل ،محقق یاادیب ہونے کادعوی دارنہیں ہوں ،میں توایک عاجز انسان ہوں اوراس خوش فہمی میں ہرگزمبتلانہیں ہوں کہ میری کوشش کسی قسم کے اعتراض اور حرف گیری سے پاک ہوسکتی ہے تاہم میں نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ جو بات لکھوں وہ بلاسنداوربلاتحقیق نہ ہو،میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہواہوں اس کافیصلہ قارئین کرام ہی کرسکتے ہیں ۔

جب میں نے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیاتوبہاول پور میں میرے ایک دوست  نے کہاہاشمی!تم نے کتاب لکھنے کافیصلہ توکرلیا ہے اورمجھے معلوم ہے تم اپنی طبیعت کے مطابق حق اورسچ ہی لکھوگے مگرلوگ اس کو قبول نہیں کریں گےاورتمہیں پتھرماریں گے،اورحقیقت بھی یہی ہے تاریخ کامطائعہ کرکے دیکھ لیں جب بھی کسی نے حق وسچ کی آوازبلندکی شیطان اپنے پورے لاؤلشکرکے ساتھ اس آوازکودبانے کے لیے اس پرحملہ آورہوتاہے اوراس شخص کوذلیل ورسواکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا ، مگر جلدہی جھوٹ وفریب کی یہ آندھی اپنی موت آپ مرجاتی ہےاورحق ہمیشہ ہی سربلندرہتاہے، میں ان کی بات سن کرخاموش ہوگیااوردل میں کچھ پسپائی بھی اختیارکی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے آگی ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِیبًا، فَكَانَ فِیمَا قَالَ:أَلَا لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَیْبَةُ النَّاسِ أَنْ یَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ ، قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِیدٍ، وَقَالَ:قَدْ وَاللَّهِ رَأَیْنَا أَشْیَاءَ فَهِبْنَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے توجوباتیں کہیں اس میں یہ بات بھی تھی آگاہ رہو!کسی شخص کولوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے جب وہ حق کو جانتا ہو،یہ حدیث بیان کرکے ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اورفرمایااللہ کی قسم!ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع)دیکھیں لیکن ہم ڈراورہیبت کاشکارہوگے۔[70]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یَحْقِرْ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ كَیْفَ یَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟ قَالَ: یَرَى أَمْرًا لِلَّهِ عَلَیْهِ فِیهِ مَقَالٌ، ثُمَّ لَا یَقُولُ فِیهِ ،فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَ فِی كَذَا وَكَذَا؟ فَیَقُولُ: خَشْیَةُ النَّاسِ،فَیَقُولُ: فَإِیَّایَ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَى

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتم میں سے کوئی خودکوحقیرنہ سمجھے،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے کوئی خودکوکیسے حقیربناسکتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی شخص خلاف شرع امردیکھے اورکچھ نہ کہے توقیامت کے روزاللہ تعالیٰ اسے فرمائے گاکہ فلاں موقع پرحق بات کہنے سے تمہیں کون سی چیزمانع ہوئی، وہ عرض کرے گاکہ لوگوں کاخوف، تواللہ تعالیٰ فرمائے گامیں اس بات کازیادہ مستحق تھاکہ تومجھ سے ڈرتا۔[71]

چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائیدسمجھ کرمیں نے لکھنے کامصمم ارادہ کرلیااور اللہ کانام لے کرلکھناشروع کردیا۔

بہرصورت قارئین کرام سے میری عاجزانہ استدعا ہے کہ اس کتاب میں انہیں جو تسامحات اوراسقام نظرآئیں وہ ان سے مجھے آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ اشاعت میں انہیں دور کیا جاسکے،یہ ان کامجھ پراحسان ہوگااوروہ عنداللہ ماجورہوں گے۔

  • میں اللہ تعالیٰ سے دعاگوہوں کہ اے اللہ!اے میرے رب!میری اس حقیرسی کوشش کوقبول فرما،اس سلسلہ میں مجھ سے جوغلطیاں سرزدہوئی ہوں میں اس کے لیے اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں معافی کاطلب گارہوں ،اے میرے رب!دنیااورآخرت میں ہمارے سفرکوآسان بنادے،اے میرے رب!ہماری کوتاہیوں ، غلطیوں کو معاف فرما دے،

 رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا       [72]

ترجمہ:اے ہمارے رب!ہم سے بھول چوک میں جوقصورہوجائیں ان پرگرفت نہ کر ۔

اورمیں اپنے رب سے دعاگوہوں ،

اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو فَلَا تَكِلْنِی إِلَى نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِی شَأْنِی كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

اے اللہ!میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں تو مجھے آنکھ جھپکنے کے لیے بھی میری اپنی جان کے حوالے نہ کراورمیرے سارے معاملات درست فرمادے تیرے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ۔[73]

اور اے اللہ!اے میرے رب!توہم گناہگاروں کو اتناخوش نصیب کردے کہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثرپرپیارکی نگاہوں سے ہمیں خوش آمدید فرمائیں ۔(آمین)

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ

مولوی محمداصغرہاشمی

کراچی

 www.alburhaan.org


[1] البقرة۳۸

[2] البقرة۶۲

[3] البقرة۱۱۲

[4] الزخرف۶۷،۶۸

[5] الاحزاب ۲۱

[6] الحجر۹

[7] ابن سعد ۲۸۶؍۲

[8] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا۳۸۸۳،شرح الزرقانی على المواهب۲۸۹؍۴،ابن سعد۲۸۶؍۲

[9] مستدرک حاکم۶۷۴۸،شرح الزرقانی على المواهب۲۸۹؍۴

[10] مستدرک حاکم ۶۷۳۴

[11] ابن سعد۲۸۶؍۲

[12] شرح الزرقانی علی الموھب ۲۸۹؍۴

[13] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ جَامِعِ صَلَاةِ اللَّیْلِ، وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ۱۷۳۹

[14] مسنداحمد۲۵۳۰۲،صحیح مسلم کتاب المسافرین باب جامع صلاة اللیل ومن نام عنہ او مرض۱۷۳۹

[15] شعب الایمان۱۳۶۰

[16] المائدة ۶۷

[17] الاعراف۲

[18] الفرقان۵۲

[19] الانعام۵۱

[20] الانعام۷۰

[21] مسنداحمد۱۷۱۷۴،سنن ابوداود كِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی لُزُومِ السُّنَّةِ۴۶۰۴،شرح السنة للبغوی۱۰۱، معرفة السنن والآثار۵۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۹۴۶۹یہ

[22] صحیح بخاری كِتَابُ الحِیَلِ بَابُ إِذَا غَصَبَ جَارِیَةً فَزَعَمَ أَنَّهَا مَاتَتْ، فَقُضِیَ بِقِیمَةِ الجَارِیَةِ المَیِّتَةِ، ثُمَّ وَجَدَهَا صَاحِبُهَا فَهِیَ لَهُ، وَیَرُدُّ القِیمَةَ وَلاَ تَكُونُ القِیمَةُ ثَمَنًا۶۹۶۷،الموطأ امام مالک۱۰۴۰؍۴

[23] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَیْثُ كَانَ۴۰۱،صحیح ابن حبان۲۶۶۲،مسند أبی یعلى ۵۱۴۲

[24] ابن ہشام۴۴۴،کامل ابن الاثیر۱۴۱؍۶

[25] الحجرات۷

[26]الفتح۲۹

[27] البقرة ۱۳۷

[28] التوبة۱۰۰

[29] البینة۸

[30] الانفال۷۵

[31] المجادلة۲۲

[32] المائدة۱۱۹

[33] البقرة۵

[34] الحجرات۷

[35] الفتح۱۰

[36] فتح الباری۳۹۸۲، ۲۸۶؍۷،مسنداحمد۸۲۷

[37] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا۳۹۸۳،مسنداحمد۶۰۰

[38] مسند احمد ۱۳۸۱۲

[39]صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا ۳۶۷۳، صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ بَابُ تَحْرِیمِ سَبِّ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ۶۴۸۸،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۶۵۸،السنن الکبری للنسائی۸۲۵۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۲۴۰۴، مسنداحمد۱۱۰۷۹،مسندابی یعلی۱۰۸۷،صحیح ابن حبان۷۲۵۳، شرح السنة للبغوی ۳۸۵۹،معجم ابن عساکر۳۶۷

[40]السنن الکبری للنسائی۹۱۷۸

[41] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِیمَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۸۶۲،فتح الباری۶۵؍۱

[42] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ ۴۱۶۹

[43] مسنداحمد۱۴۷۷۸،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْخُلَفَاءِ ۴۶۵۳،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ مَنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۳۸۶۰

[44] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِیمَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۸۶۳

[45] الشریعة للآجری ۱۱۶۶، الجامع الصحیح للسنن والمسانید۱۳۸؍۱۷

[46] مسند احمد ۱۸۶۴۷

[47] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حُرْمَةِ الصَّلاَةِ۲۶۱۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَةِ ۳۹۷۳،مسنداحمد۲۲۰۱۶

[48] مسنداحمد ۲۲۲۷۶

[49] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ فَضْلِ صِلَةِ الرَّحِمِ۵۹۸۲

[50] مسنداحمد۷۹۳۲

[51] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْهِ۱۰۹۳ ،سنن نسائی کتاب الافتتاح بَابُ ثَوَابِ مَنْ سَجَدَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سَجْدَةً ۱۱۴۰، مسند احمد ۲۲۳۷۷

[52]صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْهِ۱۰۹۴،سنن ابوداودکتاب التطوع بَابُ وَقْتِ قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّیْلِ ۱۳۲۰،سنن نسائی کتاب الافتتاح باب فَضْلُ السُّجُودِ۱۱۳۹

[53] تفسیر طبری:279/21

[54] تفسیر طبری:279/21

[55] تفسیر طبری:279/21، الدر المنثور 221/7

[56] النساء ۵۹

[57] أصول الدین عند الإمام أبی حنیفة ،ص: ۶

[58] السنن والمبتدعات المتعلقة بالأذكار والصلوات ،ص: ۶

[59] أصل صفة صلاة النبی صلى الله علیه وسلم ۲۷؍۱

[60] إعلام الموقعین عن رب العالمین ۲۲۰۱؍۲

[61] إعلام الموقعین عن رب العالمین ۲/۲۰۳

[62] إعلام الموقعین عن رب العالمین ۱۳۹؍۲

[63] البنایة شرح الهدایة ۱۶۴؍۳

[64] ابن ہشام ۴۱۴؍۲، الروض الانف۲۳۷؍۷

[65] مسند احمد ۶۴۸۶،صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ۳۴۶۱،سنن الدارمی۵۵۹،صحیح ابن حبان۶۲۵۶

[66] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْعِلْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الحَثِّ عَلَى تَبْلِیغِ السَّمَاعِ ۲۶۵۷،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابُ مَنْ بَلَّغَ عِلْمًا۲۳۲

[67] صحیح بخاری كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الخُطْبَةِ أَیَّامَ مِنًى۱۷۴۱

[68] صحیح مسلم كِتَابُ الْوَصِیَّةِ بَابُ مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ ۴۲۲۳،سنن ابوداودكِتَاب الْوَصَایَا بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۸۸۰،سنن نسائی كِتَابُ الْوَصَایَا فَضْلُ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ۳۶۵۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَحْكَامِ بَابٌ فِی الوَقْفِ۱۳۷۶،مسنداحمد۸۸۴۴

[69] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ ۶۵۱۴،صحیح مسلم کتاب الزھد الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ۷۴۲۴،جامع ترمذی ابواب الزھدباب ۱۴۸۵،ح ۲۳۷۹

[70] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۰۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا جَاءَ مَا أَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ۲۱۹۱، شرح السنة للبغوی ۴۰۳۹، المسند الموضوعی الجامع للكتب العشرة۱۱

[71] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَ۴۰۰۸

[72] البقرة۲۸۶

[73] مسند احمد ۲۰۴۳۰، صحیح ابن حبان ۹۷۰،الأدب المفرد بالتعلیقات۷۰۱، السنن الكبرى للنسائی۱۰۴۱۲،عمل الیوم واللیلة للنسائی۶۵۱،سنن أبو داود أَبْوَابُ النَّوْمِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ ۵۰۹۰

Related Articles