قرآنی سورتوں  کی ترتیب نزول

رب کریم کی مشیت کے مطابق قرآن مجیدمکہ معظمہ میں رمضان کے مقدس مہینہ سے مختلف حالات واوقات میں گوناگوں احکامات وہدایات لیکر جبریل علیہ السلام کے ذریعہ آیات کی شکل میں اترناشروع ہو ااور مشہورقول کے مطابق تقریبا ًتیرہ سال تک یہیں نازل ہوتارہا،اس دوران کچھ سورتیں مکمل طورپرپربھی نازل ہوئیں جیسے سورۂ الفاتحہ، سورۂ انعام وغیرہ مگر زیادہ ترآیات کی شکل میں ہی نازل ہوتارہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام مکہ معظمہ کے دوران جو سورتیں نازل ہوئیں انہیں مکی سورتیں کہاجاتاہے ، اہل مکہ ان پڑھ تھے اس لئے ان کے ہاں کسی بات کومحفوظ کرنے کاکوئی رواج ہی نہ تھابس وہ اپنے شعراء کے جاہلانہ وفوححش اشعارزبانی یادرکھتے تھے اور بڑے فخرسے دہراتے تھے اس لئے مکی دور میں قرآن کاجوحصہ نازل ہوااس کی حقیقی ترتیب نزول کے بارے میں معلوم کرناتومشکل ہی ہے البتہ قیام مکہ کے دوران بعثت نبوی کے بعد دعوت دین کے مختلف ادواربدلتے رہے ۔

(۱)جیسے پہلے تین سال توخفیہ دعوت کادوررہاکیونکہ تعلیم ودعوت کی ابتدامیں لوگوں کے دل اچھی طرح نہیں کھلتے جس کے سبب سے نہ توتفصیلات کلام کے لئے ان کے اندر گنجائش ہوتی ہے اورنہ جزئیات احکام کے لئے ،اس وجہ سے ابتدامیں لوگوں کوجوتعلیم دی جاتی ہے وہ چھوٹے چھوٹے پرحکمت فقروں اور جملوں میں دی جاتی ہے ،اس سے جب بیج پھوٹتے ہیں توپھرتفصیلات سے ان کی آبیاری کی جاتی ہے ،اس طرح آہستہ آہستہ دل کی وسعت اوراس کے علم دونوں میں اضافہ ہوتا جاتاہے ، اہل عرب کلام میں ایجاز و اختصار کوبھی بہت زیادہ پسندکرتے تھے ،اس لئے عرب کے کاہنوں کاکلام ایجازواختصارکامجموعہ ہوتاتھاچنانچہ پہلے پہل ان تین سالوں میں عام طورپرچھوٹی چھوٹی سورتوں میں اسی اسلوب کلام میں ان کودعوت حق دی گئی جس کووہ پسندکرتے تھے تاکہ یہ کلام ان کواپیل کرسکےاور امثال کی طرح زبانوں پرچڑھ جائیں ،اس کے اصول ہمیشہ ذہنوں کے سامنے رہیں ،مگریہ چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی اپنی عظمت ، حکمت اور ربط ونظام کے محاسن کے لحاظ سے بڑی سورتوں کے ہمسر ہیں ،ان کے اندربھی ربط وپیوستگی کی تمام نزاکتیں موجود ہیں جوبڑی سورتوں کے اندرہیں ،یہ چھوٹی سورتیں اپنے قامت کے اعتبارسے جتنی چھوٹی ہیں معنی کے اعتبارسے اتنی ہی بڑی ہیں ،ان کے چھوٹے سے حجم کے اندر اسراروحکمت کے بے بہا خزانے بندہیں اگروہ کھول دیے جائیں تودفاترکے اندربھی نہ سمائیں ،اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے تقریبا ًایک سوتینتیس(۱۳۳) افرادجن میں کچھ غلام اورلونڈیاں بھی تھیں ،جاہلیت کے گھٹاگھپ اندھیروں سے نکل کردین اسلام کی روشن اورسیدھی شاہراہ پرگامزن ہو گئے ۔

(۲)پھراللہ کے حکم سے اعلانیہ دعوت کادوسرادورشروع ہواجودوسال چار بعثت نبوی اورپانچ بعثت نبوی کے درمیان تقریباًدوسال رہااس دور میں پہلے پہل تواہل مکہ نے ظلم وستم کا بازارگرم نہ کیا اور لاپرواہی اختیارکی مگرآخر کار رفتہ رفتہ اس دعوت حق کو روکنے کے لئے مزاحمت اختیارکرتے ہوئے جارحیت پراترآئے۔

(۳)پھرتیسرادورچھ نبوی تادس نبوی شروع ہواجس میں کفارمکہ نے اہل ایمان پراتنے ظلم وزیادتیاں کیں کہ اہل ایمان اپناوطن چھوڑکربے یارومدگاراللہ تعالیٰ کی نصرت پر یقین کامل کرتے ہوئے حبشہ جانے پرمجبورہوگئے اوراس کے ساتھ ہی اہل مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوربنوہاشم کامعاشی ومعاشرتی مقاطعہ کردیاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنوہاشم کے ہمراہ سوائے اپنے چچا ابولہب کے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکے ساتھ والے گھرمیں رہتاتھا شعب بنوہاشم میں جوبنوہاشم کی ایک مشترکہ گھاٹی تھی محصور ہو گئے ،جہاں اہل ایمان بھوک کی شدت سے چمڑا، گھاس پھونس اوردرختوں کے پتے تک کھانے پرمجبورہوگئے ،چھوٹے بچوں کی چیخ وپکارسے کلیجے منہ کوآتے تھے مگرقریش کادل زرانہ پسیجا،اس دعوت حق کو روکنے کے لئے ویسے تو قریش کے کئی نامی گرامی لوگ شامل تھے،جیسے حکیم بن ہشام (ابوجہل) عبدالعزیٰ(ابولہب) بن عبدالمطلب،اسودبن یغوث،حارث بن قیس بن عدی جس کی کنیت ابن غلیطہ تھی ، ولید بن مغیرہ،ابی بن خلف،ابوقیس بن فاکہ بن مغیرہ،عاص بن وائل،نضربن حارث،منبہ بن حجاج،زہیربن ابی امیہ،سائب بن سفیی بن عابد ، اسودبن عبدالاسد،عاص بن سعید بن عاص ،عاص بن ہاشم،عقبہ بن ابی معیط ، ابواصدی ہذلی، حکم بن ابی العاص،عدی بن حمرا،ابوسفیان وغیرہ مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کئی وجوہات کی بنا پر قرآن مجید میں صرف اسی دشمن چچا ابولہب کانام لیکرذکرکیا ہے ،جس کی تفصیل سورۂ تبت میں بیان کی جائے گی۔

(۴)تین سال تک آپ اسی گھاٹی میں محصوررہے اورجب اس سے باہر آئے توچچاابوطالب اور عزیز اہلیہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں ،ان کی وفات کے بعد کفارکاجوروستم از حد بڑھ گیا،یہ گیارہ بعثت نبوی تاتیرہ بعثت نبوی پرمشتمل تین سالہ چوتھا دورانتہائی اذیت ناک تھاجس میں مشرکین مکہ نے اہل اسلام پرظلم و زیادتی کوہرطرح خودپرحلال کرلیا ، اس دوران آپ دعوت دین کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے طائف تشریف لے گئے مگراہل ثقیف اہل مکہ سے کم ثابت نہ ہوئے اورانہوں نے آپ کے جسم مبارک پرپتھربرسا کر لہولہان کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ ایک مشرک کی پناہ میں داخل ہوئے،اس دورمیں اہل مکہ آپ کوجلاوطن کرنے ،قیدکرنے اورقتل تک کردینے کے مشورے کرتے رہے ، چنانچہ جیسے جیسے وقت بدلتارہا موقع ومحل کی مناسبت سے لوگوں کی حالت وکیفیت کے مطابق اللہ سبحان وتعالیٰ آیات یاسورتیں نازل فرماتارہا،جیساکہ روایتوں میں آتا ہے کہ فلاں فلاں آیات فلاں فلاں معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں ،اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس سورۂ کے نزول کے وقت یہ یہ احوال ومسائل درپیش تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیت یا سورۂ کے نزول کے لئے کیا محرکات اوراسباب موجودتھے ،جس وقت جوبھی سورۂ نازل کی گئی اس کی غرض وغایت یہ تھی کہ جومعاملات محتاج توضیح و تشریح ہیں ان کی توضیح و تشریح کردی جائے ۔

مگر ایک ہی دور میں کئی سورتیں نازل ہوئی ہیں ان کے بارے میں یہ کہناکہ کون سی سورت پہلے نازل ہوئی اورکون سی بعدمیں معلوم کرنا بڑاہی دقت طلب مسئلہ ہے ، بس کچھ اہم واقعات کے پس منظرمیں سورتوں کاپہلے یابعدنزول کاتعین کیاجاتاہے جیسےسورۂ الدخان ،سورۂ طہ ،سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے قبل نازل ہوئی ،سورۂ الحاقہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے قبل نازل ہوئی یاسورۂ الشعراء سیدالشہداحمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے قبول اسلام کے بعد نازل ہوئی ،یا سورۂ الروم ہجرت حبشہ کے دور میں نازل ہوئی اورسورۂ الصافات ہجرت حبشہ کے بعدنازل ہوئی ۔ایسانہیں ہے کہ مختلف اوقات میں نازل شدہ آیات کاکوئی ربط یانظم نہ تھابلکہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدس کلام کے نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حکم دیتے کہ اس آیت کوفلاں سورۂ میں فلاں آیت کے ساتھ رکھا جائے ، اور وہ اسی جگہ رکھی جاتی ، پھر جب وہ سورۂ مکمل ہوجاتی اور کلام کے تمام تقاضے پورے ہوجاتے توسورۂ تمام کردی جاتی اور ناممکن تھاکہ وہ اپنے حدوداقتضاء سے زرابھی کم وبیش ہو ، یہ اس امرکی بین دلیل ہے کہ موجودہ ترتیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہے،روایت صحیحہ میں ہے کہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے ایک صندوق میں پوراقرآن مجید رکھاتھا ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس پورا لکھا ہوا قرآن موجودتھا۔

پھر سورتوں کی پہچان کے لئے ان سورتوں کے ابتدائی الفاظ سے سورتوں کے نام رکھے گئے جیسے الحمد،براء ة ،طہ ،یٰسین، الرحمٰن ، والنازعات ،تبت ۔

بعض سورتوں کے نام ایسے الفاظ پررکھ دیے گئے ہیں جوان سورتوں میں نمایاں استعمال ہوئے تھے،مثلاًالزخرف ،الشعراء،الحدید،الماعون وغیرہ اہل عرب اس اصول پراشخاص اور اشیاء کے نام رکھتے تھے ۔

بعض سورتوں کے نام ایسے الفاظ سے رکھے گئے ہیں جوسورۂ کے کسی اہم مضمون کاپتہ دیتے ہیں مثلاًسورۂ نور،سورۂ آل عمران ،سورۂ النساء، سورۂ ابراہیم ،سورۂ یونس ۔

بعض سو رتوں کے نام ان کے اس مقصدکے لحاظ سے رکھے گئے ہیں جوسورۂ میں روح کی طرح جاری وساری ہے مثلاًسورۂ فاتحہ کانام سورۂ صلوٰة ہے اسی طرح سورۂ برات اورسورۂ بنی اسرائیل اورسورۂ محمدسورۂ قتال کے نام سے موسوم ہوئیں سورۂ اخلاص اورمعوذتین بھی اسی ذیل میں شمارہیں ،گویاایک شہر بسا کر اس کے گردا گرد شہر پناہ کھینچ دی جاتی تھی پھر جبرئیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری سورت ازسرنوسنادیتے ،سورت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے کہ فلاں سورۂ کو فلاں سورۂ کے ساتھ رکھا جائے ، پھراحادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السلام سال میں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن مجید کا اعادہ کرایاکرتے تھے۔

اس لئے اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیوں کہ قرآن آیات کی شکل میں نازل ہواہے اس لئے اس میں میں نظم نہیں تویہ صحیح بات نہیں ہوگی بلکہ محض قلت تدبرکانتیجہ ہے ،بس ایک نگاہ جستجو کی ہونی چاہیے اورمیں یقین رکھتاہوں کہ جولوگ جستجوکی یہ راہ اختیارکریں گے وہ ہدایت کی راہ پالیں گے۔

وَالَّذِیْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ۝۱۷ [1]

ترجمہ:اور جو لوگ ہدایت رکھتے ہیں ان کو وہ اور بھی ہدایت دیتا ہے اور پرہیزگاری عنایت کرتا ہے۔

پھر اگر کوئی شخص قرآن کی آیات کو غوروفکر سے دیکھے گاتواسے سب نظم وربط نظرآئے گااورپھراسے قرآن مجیدپڑھنے اورسمجھنے میں لطف بھی آئے گا ، بسا اوقات پہلی سورۂ کے بعد ضرورت باقی رہ جاتی تواس وقت دوسری سورۂ مختلف اسلوب کے ساتھ نازل کردی جاتی تاکہ سورۂ کی یکسانیت سننے والوں کی طبیعت پربارنہ ہو،یہی وجہ ہے کہ ابتدائے بعثت کی بہت سی سورتوں میں توحیدباری تعالیٰ ،اللہ کے مبعوث کئے ہوئے رسول کی تصدیق ،حشرنشر اور اس سے ملتے جلتے ہوئے مضامین ملتے ہیں صرف طرز بیاں اور اسلوب کافرق ہے ، اسی طرح کبھی ایسابھی ہوتاکہ کوئی مسئلہ فوری توضیح وتشریح کامحتاج ہوتااس وقت کوئی آیت نازل ہوتی اورجہاں ضرورت ہوتی اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہیں رکھ دیاجاتا ،ایسے مواقع پرزمانہ نزول کالحاظ نہ ہوتا بلکہ نظم کلام کالحاظ کیاجاتا اوربالعموم اس قسم کی آیات کے بعدتنبیہ بھی کردی جاتی کہ یہ آیت بطور تشریح نازل ہوئی ہے ۔

مشرکین مکہ کے ظلم وجبر اورجاہلانہ ضدکے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کواس دارکفرسے ہجرت کا حکم فرمایااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آبائی وطن اوربیت اللہ سے بادل نخواستہ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے ،ہجرت کے بعد جوآیات یامکمل سورتیں خواہ وہ مدینہ منورہ یااس کے کسی اورشہر میں حتی کہ مکہ یاعرفہ میں بھی نازل ہوئیں انہیں مدنی سورتیں کہا جاتا ہے ،مکی سورتوں کے برعکس مدنی سورتوں کے بارے میں مرکزی مضمون کے علاوہ بہترین شہادتیں مل جاتی ہیں بلکہ آیات تک کی شہادتیں بھی مل جاتی ہیں کہ کون سی آیت کب اورکس موقعہ پرنازل ہوئی تھی ،بعض مفسرین کے نزدیک ان کی اپنی تحقیق کے مطابق کچھ مکی سورتوں میں اختلاف ہے کہ یہ مکی سورۂ ہے یامدنی،مگر قابل قدرمفسرین مکی اورمدنی سورتوں کے مرکزی مضامین،اندازبیان اورواقعاتی یاتاریخی شہادتوں کودیکھ کرباآسانی اس کی پہچان کر لیتے ہیں اوران حالات وواقعات کوجس میں خاص امورکومدنظررکھ کرکلام کیاگیاتھا مکی ومدنی سورتوں کے شان نزول ترتیب دیتے ہیں ۔

قَالَ قَتَادَةُ:فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَنْبِئِینِی عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى،قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ

قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے! عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ہاں پڑھتاہوں ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔[2]

عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَتَیْتُ عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، أَخْبِرِینِی بِخُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ

سعدبن ہشام بن عامرسے مروی ہےمیں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضرہوااور عرض کیااے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں بتلائیں ،توانہوں نے فرمایا آپ کاخلق قرآن ہی ہے۔[3]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں دریافت کیاتوانہوں نے فرمایا آپ کاخلق قرآن ہی ہے۔[4]

یعنی پوراقرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے بھراپڑاہے اس لئے ہمارے خیال کے مطابق قرآن مجیدکی رہنمائی کے بغیرسیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھی ہی نہیں جاسکتی،کیونکہ قرآن مجیدہی قدم قدم پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی ندگی کے ہرشعبہ میں واضح احکامات وہدایات دے کر مکمل رہنمائی کرتاچلاآرہاتھا،جس کے عقیدہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی معرفت ،رسولوں کامقام وفرائض ، قیامت اور حشر نشر،جنت ودوزخ ،ہرطرح کی عبادات ،نشست وبرخاست اوررہن سہن کے طریقوں کے طریقے، نکاح وطلاق کے احکامات ،معاشرتی ومعاشی زندگی گزارنے کے اصول ،مختلف اقسام کے حقوق وفرائض،دیوانی وفوجداری وعائلی قوانین اورجنگی معاملات وغیرہ ۔اس لئے ہم اپنی اس سیرت کی کتاب میں قرآن مجیدکی نازل کردہ سورتوں کی مختصرتشریح تحریرکریں گے تاکہ سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوبہترسے بہتراندازسے سمجھ سکیں ،صحیح ترتیب نزول تواللہ سبحان و تعالیٰ ہی جانتاہے مگرقابل قدر محقیین،مفسرین وسیرت نگاروں نے اس سمت میں گراں قدرکوشش کی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ پہلے ان کی قابل قدرتحقیقات کابغور جائزہ لیاجائے کہ قرآن کی ممکن حدتک ایک سوچودہ سورتوں کی صحیح ترتیب نزول کیاتھی ، اورپھران کی تحقیق سے استفادہ حاصل کیاجائے۔

ان محقیقین کرام کی کچھ کاوشیں حاضر خدمت ہیں ۔

امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے قرآن مجیدکے نزول کی یہ ترتیب بیان کی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَتْ إِذَا أنزلت فاتحة الكتاب بِمَكَّةَ كُتِبَتْ بِمَكَّةَ ثُمَّ یَزِیدُ اللَّهُ فِیهَا مَا شَاءَ وَكَانَ أَوَّلَ مَا أَنْزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ثُمَّ ن ثُمَّ یا أیها المزمل ثم یا أیها الْمُدَّثِّرُ ثُمَّ تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ ثُمَّ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ثُمَّ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ثُمَّ وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَى ثُمَّ وَالْفَجْرِ ثُمَّ وَالضُّحَى ثُمَّ أَلَمْ نَشْرَحْ ثُمَّ وَالْعَصْرِ ثُمَّ وَالْعَادِیَّاتِ ثُمَّ إِنَّا أَعْطَیْنَاكَ ثُمَّ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ثُمَّ أَرَأَیْتَ الَّذِی یُكَذِّبُ ثُمَّ قُلْ یا أیها الْكَافِرُونَ ثُمَّ أَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ ثُمَّ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ثُمَّ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُمَّ وَالنَّجْمِ ثُمَّ عَبَسَ ثُمَّ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ ثُمَّ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ثُمَّ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ ثُمَّ والتین ثُمَّ لِإِیلَافِ قُرَیْشٍ ثُمَّ الْقَارِعَةُ ثُمَّ لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ ثُمَّ وَیْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ ثُمَّ وَالْمُرْسَلَاتِ ثُمَّ ق ثُمَّ لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ ثُمَّ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ ثُمَّ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ثُمَّ ص ثُمَّ الْأَعْرَافُ ثُمَّ قُلْ أُوحِیَ ثُمَّ یس ثُمَّ الْفُرْقَانُ ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ ثم كهیعص ثم طه ثُمَّ الْوَاقِعَةُ ثُمَّ طسم الشُّعَرَاءِ ثُمَّ طس ثُمَّ الْقَصَصُ ثُمَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ ثُمَّ یُونُسَ ثُمَّ هَودٌ ثُمَّ یُوسُفَ ثُمَّ الحجر ثم الأنعام ثم الصافات ثم لقمان ثم سبأ ثم الزمر ثم حم الْمُؤْمِنِ ثُمَّ حم السَّجْدَةِ ثُمَّ حم عسق ثُمَّ حم الزُّخْرُفِ ثُمَّ الدُّخَانِ ثُمَّ الْجَاثِیَةِ ثُمَّ الْأَحْقَافِ ثُمَّ الذَّارِیَاتُ ثُمَّ الْغَاشِیَةُ ثُمَّ الْكَهْفُ ثُمَّ النَّحْلُ ثُمَّ إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا ثُمَّ سُورَةُ إِبْرَاهِیمَ ثُمَّ الأنبیاء ثم المؤمنین ثُمَّ تَنْزِیلُ السَّجْدَةِ ثُمَّ الطَّوْرُ ثُمَّ تَبَارَكَ الْمُلْكِ ثُمَّ الْحَاقَّةُ ثُمَّ سَأَلَ ثُمَّ عَمَّ یَتَسَاءَلُونَ ثُمَّ النَّازِعَاتُ ثُمَّ إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ ثُمَّ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ثم الروم ثم الْعَنْكَبُوتُ ثُمَّ وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ فَهَذَا مَا أَنْزَلَ الله بمكة.

ثم أُنْزِلَ بِالْمَدِینَةِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ثُمَّ الْأَنْفَالِ ثُمَّ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ الْأَحْزَابِ ثُمَّ الْمُمْتَحَنَةِ ثُمَّ النِّسَاءِ ثُمَّ إِذَا زُلْزِلَتِ ثُمَّ الْحَدِیدِ ثُمَّ الْقِتَالِ ثُمَّ الرَّعْدِ ثُمَّ الرَّحْمَنِ ثُمَّ الْإِنْسَانِ ثُمَّ الطَّلَاقِ ثُمَّ لَمْ یَكُنْ ثُمَّ الْحَشْرِ ثُمَّ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ ثُمَّ النُّورِ ثُمَّ الْحَجِّ ثُمَّ الْمُنَافِقُونَ ثُمَّ الْمُجَادَلَةِ ثُمَّ الْحُجُرَاتِ ثُمَّ التَّحْرِیمِ ثُمَّ الْجُمْعَةِ ثُمَّ التَّغَابُنِ ثُمَّ الصَّفِّ ثُمَّ الْفَتْحِ ثُمَّ الْمَائِدَةِ ثُمَّ بَرَاءَةٍ .۔۔[5]

علاء الدین علی بن محمدبن ابراہیم بن عمرالشیحی الوالحسن نے قرآن مجیدکے نزول کی یہ ترتیب بیان کی ہے۔

فأما ترتیب نزوله على رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأول ما نزل من القرآن بمكة اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ. ثم ن وَالْقَلَمِ ثم یا أَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ. ثم المدثر. ثم تَبَّتْ یَدا أَبِی لَهَبٍ. ثم إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ. ثم سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى. ثم وَاللَّیْلِ إِذا یَغْشى ثم وَالْفَجْرِ. ثم وَالضُّحى. ثم أَلَمْ نَشْرَحْ ثم وَالْعَصْرِ ثم وَالْعادِیاتِ ثم إِنَّا أَعْطَیْناكَ الْكَوْثَرَ ثم أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ ثم أَرَأَیْتَ الَّذِی ثم قُلْ یا أَیُّهَا الْكافِرُونَ. ثم الْفِیلِ. ثم قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ. ثم وَالنَّجْمِ. ثم عَبَسَ. ثم سورة القدر. ثم سورة البروج. ثم التین. ثم لِإِیلافِ قُرَیْشٍ . ثم الْقارِعَةُ. ثم القیامة. ثم الهمزة. ثم المرسلات. ثم ق. ثم سورة البلد. ثم الطَّارِقِ ثم اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ثم ص. ثم الأعراف. ثم الجن. ثم یس. ثم الفرقان. ثم فاطر . ثم مریم. ثم طه. الواقعة. ثم الشعراء ثم النمل ثم القصص. ثم سورة بنی إسرائیل. ثم یونس. ثم هود ثم یوسف. ثم الحجر. ثم الأنعام. ثم والصافات. ثم لقمان. ثم سبأ. ثم الزمر.ثم المؤمن. ثم السجدة. ثم حم عسق. ثم الزخرف. ثم الدخان. ثم الجاثیة. ثم الأحقاف. ثم الذاریات. ثم الغاشیة. ثم الكهف. ثم النحل. ثم نوح. ثم إبراهیم. ثم الأنبیاء. ثم قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. ثم تنزیل السجدة ثم الطور ثم الملك. ثم الحاقة. ثم سَأَلَ سائِلٌ. ثم عَمَّ یَتَساءَلُونَ ثم النازعات. ثم إِذَا السَّماءُ انْفَطَرَتْ ثم إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ. ثم الروم. ثم العنكبوت، واختلفوا فی آخر ما نزل بمكة فقال ابن عباس العنكبوت وقال الضحاك وعطاء المؤمنین، وقال مجاهد: ویل للمطففین، فهذا ترتیب ما نزل من القرآن بمكة فذلك ثلاث وثمانون سورة على ما استقرت علیه روایات الثقات.

وأمّا ما نزل بالمدینة فإحدى وثلاثون سورة، فأول ما نزل بها سورة البقرة. ثم الأنفال. ثم آل عمران. ثم الأحزاب. ثم الممتحنة. ثم النساء. ثم إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ. ثم الحدید. ثم سورة محمد صلّى الله علیه وسلّم. ثم الرعد. ثم سورة الرحمن. ثم هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ. ثم الطلاق. ثم لَمْ یَكُنِ ثم الحشر. ثم الفلق. ثم الناس. ثم إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ثم النور. ثم الحج. ثم إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ ثم المجادلة. ثم الحجرات. ثم التحریم. ثم الصف. ثم الجمعة. ثم التغابن. ثم الفتح.ثم التوبة. ثم المائدة. ومنهم من یقدم المائدة على التوبة فهذا ترتیب ما نزل من القرآن بالمدینة واختلفوا فی الشورى فقیل نزلت بمكة وقیل نزلت بالمدینة، وسنذكر ذلك فی مواضعه إن شاء الله تعالى۔[6]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے قرآن مجیدکی سورتوں کی ترتیب نزول یوں بیان کی ہے۔

 قَالَا: أَنْزَلَ اللهُ مِنَ الْقُرْآنِ بِمَكَّةَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ. . .، وَن وَالْقَلَمِ. . .، وَالْمُزَّمِّلَ، وَالْمُدَّثِّرَ، وَتَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ. .، وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَى، وَالْفَجْرِ , وَالضُّحَى , وَالِانْشِرَاحَ: أَلَمْ نَشْرَحْ، وَالْعَصْرِ، وَالْعَادِیَاتِ، وَالْكَوْثَرَ، وَأَلْهَاكُمُ، وَأَرَأَیتَ، وَقُلْ یَا أَیُّهَا الْكَافِرُونَ، وَأَصْحَابِ الْفِیلِ، وَالْفَلَقَ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، وَقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ، وَالنَّجْمِ، وَعَبَسَ وَتَوَلَّى، وَإِنَّا أَنْزَلْنَاهُ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ، وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ، وَلِإِیلَافِ قُرَیْشٍ، وَالْقَارِعَةَ، وَلَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَالْهُمَزَةَ، وَالْمُرْسَلَاتِ، وَق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ، وَلَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ، وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ، وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ، وَص وَالْقُرْآنِ، وَالْجِنَّ، وَیس، وَالْفُرْقَانَ، وَالْمَلَائِكَةَ، وَطه، وَالْوَاقِعَةَ، وَطسم، وَطس، وَطسم، وَبَنِی إِسْرَائِیلَ، وَالتَّاسِعَةَ، وَهُودَ، وَیُوسُفَ، وَأَصْحَابَ الْحِجْرِ، وَالْأَنْعَامَ , وَالصَّافَّاتِ، وَلُقْمَانَ، وَسَبَأَ، وَالزُّمَرَ، وَحم الْمُؤْمِنِ، وَحم الدُّخَانِ، وَحم السَّجْدَةِ، وَحم عسق، وَحم الزُّخْرُفِ، وَالْجَاثِیَةَ، وَالْأَحْقَافَ، وَالذَّارِیَاتِ، وَالْغَاشِیَةَ، وَأَصْحَابَ الْكَهْفِ، وَالنَّحْلَ، وَنُوحَ، وَإِبْرَاهِیمَ، وَالْأَنْبِیَاءَ، وَالْمُؤْمِنُونَ، وَالم السَّجْدَةَ، وَالطُّورِ، وَتَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْكُ. .، وَالْحَاقَّةَ، وَسَأَلَ سَائِلٌ. .، وَعَمَّ یَتَسَاءَلُونَ. .، وَالنَّازِعَاتِ، وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ. .، وَإِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ.، وَالرُّومَ، وَالْعَنْكَبُوتَ.

 وَمَا نَزَلَ بِالْمَدِینَةِ: وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ. .، وَالْبَقَرَةُ، وَآلُ عِمْرَانَ، وَالْأَنْفَالُ، وَالْأَحْزَابُ، وَالْمَائِدَةُ، وَالْمُمْتَحَنَةُ، وَالنِّسَاءُ، وَإِذَا زُلْزِلَتْ. .، وَالْحَدِیدُ، وَمُحَمَّدٌ , وَالرَّعْدُ، وَالرَّحْمَنُ، وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ. .، وَالطَّلَاقُ، وَلَمْ یَكُنِ، وَالْحَشْرُ، وَإِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ. .، وَالنُّورُ، وَالْحَجُّ، وَالْمُنَافِقُونَ، وَالْمُجَادَلَةُ، وَالْحُجُرَاتُ، وَیَا أَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ. .، وَالصَّفُّ، وَالْجُمُعَةُ، وَالتَّغَابُنُ، وَالْفَتْحُ، وَبَرَاءَةٌ” قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالتَّاسِعَةُ یُرِیدُ سُورَةَ یُونُسَ قُلْتُ: وَقَدْ سَقَطَ مِنْ هَذِهِ الرِّوَایَةِ ذِكْرُ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَالْأَعْرَافِ، وَكهیعص فِیمَا نَزَلَ بِمَكَّةَ۔[7]

ابراہیم بن اسماعیل بیاری المتوفی ۱۴۱۴ ہجری قرآن کی ترتیب نزول کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔

وكان أول ما أنزل من القرآن:اقرأ باسم ربك ثم ن، ثم یا أیها المزمل، ثم یا أیها المدثر، ثم تبت یدا أبى لهب، ثم إذا الشمس كورت، ثم سبح اسم ربك الأعلى، ثم واللیل إذا یغشى، ثم والفجر، ثم والضحى، ثم ألم نشرح، ثم والعصر، ثم والعادیات، ثم إنا أعطیناك، ثم ألهاكم التكاثر، ثم أرأیت الذى یكذب، ثم قل یا أیها الكافرون، ثم ألم تر كیف فعل ربك، ثم قل أعوذ برب الفلق، ثم قل أعوذ برب الناس، ثم قل هو الله أحد، ثم والنجم، ثم عبس، ثم إنا أنزلناه فى لیلة القدر، ثم والشمس وضحاها، ثم والسماء ذات البروج، ثم والتین، ثم لإیلاف قریش، ثم القارعة، ثم لا أقسم بیوم القیامة، ثم ویل لكل همزة، ثم والمرسلات، ثم ق، ثم لا أقسم بهذا البلد، ثم والسماء والطارق، ثم اقتربت الساعة، ثم ص، ثم الأعراف، ثم قل أوحى، ثم یس، ثم الفرقان، ثم الملائكة، ثم كهیعص، ثم طه، ثم الواقعة، ثم طسم الشعراء، ثم طس، ثم القصص، ثم بنى إسرائیل، ثم یونس، ثم هود، ثم یوسف، ثم الحجر، ثم الأنعام، ثم الصافات، ثم لقمان، ثم سبأ، ثم الزمر، ثم حم، ثم حم السجدة، ثم حمعسق، ثم حم الزخرف، ثم الدخان، ثم الحاثیة، ثم الأحقاف، ثم الذاریات، ثم الكهف، ثم النحل، ثم إنا أرسلنا نوحا، ثم سورة إبراهیم، ثم الأنبیاء، ثم المؤمنون، ثم تنزیل السجدة، ثم الطور، ثم تبارك الملك، ثم الحاقة، ثم عم یتساءلون، ثم النازعات، ثم إذا السماء انفطرت، ثم إذا السماء انشقت، ثم الروم، ثم العنكبوت، ثم ویل للمطففین.

ثم أنزل بالمدینة سورة البقرة، ثم الأنفال، ثم آل عمران، ثم الأحزاب، ثم الممتحنة، ثم النساء، ثم إذا زلزلت، ثم الحدید، ثم القتال، ثم الرعد، ثم الرحمن، ثم الإنسان، ثم الطلاق، ثم لم یكن، ثم الحشر، ثم إذا جاء نصر الله، ثم النور، ثم الحج، ثم المنافقون، ثم المجادلة، ثم الحجرات، ثم التحریم، ثم الجمعة، ثم التغابن، ثم الصف، ثم الفتح، ثم المائدة، ثم براءة.[8]

شیخ محمدرضا رحمہ اللہ نے سورتوں کی ترتیب نزول یوں بیان فرمائی ہے۔

صاحب فضیلت شیخ محمدرضا(سابق مدیرجامعہ فوادقاہرہ )کی تحقیق کے مطابق قرآنی سورتوں کی ترتیب نزول جوانہوں نے اپنی تالیف سیرت محمدرسول اللہ میں مکی سورتوں کو صفحہ ۲۴۳ پر اور مدنی سورتوں کوصفحہ۶۹۳ پر ایک فہرست کی شکل میں درج کیاہے ،مگراس ترتیب کی کوئی وجہ تحریرنہیں کی ،ان کی مرتب کی ہوئی ترتیب کچھ اس طرح ہے ۔

ان کی تحقیق کے مطابق مکہ معظمہ میں بیاسی سورتیں اس ترتیب سے نازل ہوئیں ۔

اوربتیس سورتیں  مدینہ منورہ میں  اس ترتیب سے نازل ہوئیں ۔

شیخ التفسیر والقرآن مولانا محمد طاہر رحمہ اللہ نے مکی اور مدنی سورتوں کی ترتیب نزول کو کچھ اس طرح تحریر فرمایا ہے

(سمط الدرر فی ربط الایات والسوروخلاصتھا المختصر)

سیارہ ڈائجسٹ کے مطابق قرآنی سورتوں کی ترتیب نزول کچھ یوں تھی۔
سیارہ ڈائجسٹ والوں نے کافی عرصہ پہلے بڑے خوبصورت نمبروں والے ڈائجسٹ شائع کیے تھے ،ان میں ایک ڈایجسٹ قرآن نمبرکے نام سے نکالاتھا،جس میں قرآن مجید کے بارے میں بڑی قابل قدرتحریریں شامل تھیں اس میں انہوں نے قرآنی سورتوں کی ترتیب نزول کے بارے میں ایک لسٹ شامل تھی جوکچھ اس طرح تھی۔

قابل قدرمفسر ڈاکڑملک غلام مرتضیٰ رحمہ اللہ نے سورتوں کی ترتیب نزول کچھ یوں بیان فرمائی ہے۔

زمانہ نزول اورشان نزول کے تذکرے سے پہلے مکی سورتوں کی وجہ تسمیہ اوران کے خصائص پرنظرڈالناضروری ہے۔

مکی سورتیں وہ ہیں جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت سے قبل نازل ہوئیں ،جوسورتیں سفرہجرت کے بعد نازل ہوئیں انہیں مدنی کہاجاتاہے ،ان دونوں میں مضامین کے اعتبار سے یوں فرق کیاجاسکتاہے کہ مکی دوردراصل نبوت اوردین اسلام کے تعارف کادورہے،اس دورمیں مبادیات دین کے متعلق بحث کی جاتی ہے مثلاً

(الف)شرک اورتوحیدکااس اندازسے بیان کرناکہ شرک کی قباحت اوراس کابطلان ازخودواضح ہوجائے اورتوحیدکے فضائل وبرکات کااس اندازسے تذکرہ کرناکہ فطرت انسانی اس کے قبول کرنے کی طرف مائل ہو۔

(ب)موت اورمابعدالموت زندگی کاحق ہونااوراس باطل نظریہ کی تردیدکہ اس زندگی کے بعدکوئی اورزندگی نہیں ۔

(ج)رسومات جاہلیت اورتوہمات کی تردیداوراسلام کے اخلاق حسنہ کی تبلیغ تاکہ انہی خطوط پرآئندہ معاشرہ تشکیل دیاجاسکے۔

(د)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق اوررسالت پراعتراضات کی تردیداورمتکبرین ومخالفین کوان کی ہٹ دھرمی پرزجروتوبیخ نیزمسلمانوں کودعوت دین کے فوری اثرات کے ظاہر نہ ہونے پرتسلی دینا۔

ایک طالب علم جب مکی دورمیں نازل ہونے والی سورتوں اورآیات کی اس خصوصیت کوجان لیتاہے تواس کے لیے قرآن مجیدکے اسلوب کوسمجھناازخودآسان ہوجاتاہے۔

اس کے برعکس مدنی دورمیں نازل ہونے والی آیات اورسورتوں میں احکام اوراصول جہانبانی کاذکرکیاگیاہے،مدنی دورکی آیات اورسورتوں کے نزول کے دورکا تعین نسبتاًآسان اورمکی دورکی تعلیمات کے دورکاتعین قدرے مشکل ہوتاہے ،البتہ آسانی کی خاطرہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کی مکی زندگی کومختلف ادوارمیں یوں تقسیم کرسکتے ہیں :۔

(۱)آغازنبوت کے دورمیں دعوت توحیدانفرادی اورخفیہ تھی۔

(۲)اس کے بعدپیغام توحیدکوعلانیہ پہنچانے کاحکم دیاگیااوریہ زمانہ بعثت کے بعدچوتھے سال سے شروع ہوتاہے،اسی میں مخالفت اورظلم وستم کاآغازہوا۔

(۳)تیسرادورسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اورابوطالب کے انتقال کے کچھ عرصہ پہلے کادورہے جس میں مسلمانوں کوحبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت مل گئی،اسی دورمیں خاندان نبوی اور مسلمانوں کو شعب ابی طالب(شعب بنی ہاشم) میں محصورہوناپڑا۔

(۴)اس دورکے بعدآپ نے مضافات مکہ میں پیغام حق پہنچانے کے لئے سفرکئے،طائف کاسفربھی اسی دورمیں ہوا،بایں ہمہ اب مکہ میں رہنامسلمانوں بلکہ خودنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی مشکل ہوتاجارہاتھا،یہاں تک کہ کفارمکہ آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے انصارمدینہ کے دلوں میں محبت پیداکردی اوراسلام کی نشرواشاعت کے لئے مدینہ منورہ میں ایک مضبوط اورمستحکم بنیادرکھ دی گئی۔


پہلادور

انفرادی اورخفیہ دعوت

۱بعثت نبوی تا۳بعثت نبوی

سورۂ العلق

یہ سورۂ دوالگ الگ حصوں میں مکی دور میں مختلف اوقات میں نازل ہوئی۔

سورۂ القلم۔

مکی زندگی کے دور اول میں نازل ہوئی ۔

سورۂ الضحیٰ

کی زندگی کے بالکل ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ۔

سورةالفاتحہ

یہ نبوت کے ابتدائی دورمیں ایک ہی مرتبہ مکمل طورپرنازل ہوئی،اس سے قبل متفرق آیات کانزول ہوتارہاتھاکوئی مکمل سورت نازل نہیں ہوئی تھی ۔

سورۂ الشمس

زمانہ نبوت کے آغازمیں نازل ہوئی۔

سورۂ البروج

دورنبوت کے آغازمیں نازل ہوئی۔

سورۂ التکویر

مکی زندگی کے دوراول میں نازل ہوئی۔

سورۂ الاعلیٰ

زمانہ نبوت کے اوائل میں نازل ہوئی۔

سورۂ اللیل۔

زمانہ نبوت کے دوراول میں نازل ہوئی۔

سورۂ الفیل

کی زندگی کے ابتدائی دورمیں اس کانزول ہوئی۔

سورۂ الجن

سورت کے مضامین میں اس قسم کے اشارات ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ یہ سورۂ دورنبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی اس سے قبل سورۂ الاحقاف میں جنات کے قرآن سننے اورایمان لانے کاذکرہوچکاہے ،حقیقت یہ ہے کہ جنات متعددمرتبہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ دین حق سے آگاہی حاصل کر سکیں ۔

سورۂ المرسلات

مکی زندگی کے دوراول میں نازل ہوئی۔

سورۂ البلد

زمانہ نبوت کے دوراول میں یہ سورت نازل ہوئی۔

سورۂ الانفطار

مکی زندگی کادوراول اس کازمانہ نزول ہے ۔

سورۂ الواقعہ

یہ سورت مکی زندگی کے دوراول میں نازل ہوئی،اس میں قرآن کوچھونے کے لئے طہارت کاحکم ہے اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے واقعے میں آپ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا کاایک قول بھی مذکورہے

لَا یَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ

اس قرآن کوصرف پاک آدمی ہی ہاتھ لگاسکتاہے۔

سورۂ المطففین

مکی زندگی کے دوراول میں نازل ہوئی۔

سورۂ المعارج

مکی زندگی کے دوراول میں نازل ہوئی۔

سورۂ الحاقہ

یہ سورۂ مکی زندگی کے دوراول میں نازل ہوئی۔

سورۂ النازعات

مکی زندگی کا دوراول زمانہ نزول ہے۔

سورۂ عبس

مکی زندگی کادوراول اس کازمانہ نزول ہے۔

سورۂ الطارق

زمانہ نبوت کے اوائل میں نازل ہوئی۔

سورۂ القیامہ

یہ سورۂ نبوت کے ابتدائی دورمیں نازل ہوئی۔

سورۂ النباء

زمانہ نبوت کے ابتدائی دورمیں اس کا نزول ہوئی۔

سورۂ القریش

مکہ مکرمہ میں اس کانزول ہوا۔

سورۂ الانشقاق

دورنبوت کے اوائل میں یہ سورۂ نازل ہوئی۔

سورۂ العادیات

مکی زندگی کے اوائل میں نازل ہوئی۔

سورۂ العصر

مکی زندگی میں اس سورۂ کانزول ہوا۔

سورۂ التکاثر

یہ سورةمکہ میں نازل ہوئی۔

سورۂ الماعون

مکہ مکرمہ میں اس سورۂ کانزول ہوا۔


دوسرا دور

۴بعثت نبوی تا۵بعثت نبوی

اعلانیہ دعوت حق

سورۂ المدثر

یہ سورۂ مکی دورمیں نازل ہوئی اوراس کے مضامین حسب ضرورت ایک سے زائدمواقع پرنازل ہوئے ،امام زہری سے نقل کیاگیاہے جس کاخلاصہ یہ ہے ، منصب رسالت پرفائزہوتے ہی ایک عرصہ تک نزول وحی کاسلسلہ رکارہا،آپ اس کے باعث اس قدرپریشان ہوئے کہ اپنے آپ کوپہاڑکی چوٹی سے گرا دینے کے لئے تیارہوجاتے لیکن پھرجبرائیل ظاہرہوکرتسلی دلاتے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں ۔اس کے بعدحضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اس سلسلے کو مزید واضح کرتی ہے ، آپ علیہ السلام ایک روزراستے میں تشریف لے جارہے تھے کہ آ پ نے ایک آوازسنی ،آسمان کی جانب نظراٹھاکردیکھاتووہی فرشتہ نظرآیاجس کوغار حرا میں دیکھا تھا ، اس کودیکھ کرآپ علیہ السلام دہشت زدہ گھرپہنچے اورفرمایامجھے چادراڑھادواوراس کے بعد ابتدائی سات آیات نازل ہوئیں ۔

سورۂ المزمل۔

اس سورۂ کاپہلاحصہ مکہ معظمہ میں اورآخری آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں ۔

سورۂ اللہب۔

مکہ مکرمہ میں اس سورۂ کانزول ہوا۔

سورةالحجر

یہ سورۂ نبوت کے ابتدائی مگردوسرے دورمیں نازل ہوئی جب اللہ تعالیٰ کے پیغام کوعام کرنے کاحکم دیاگیا،اس کااندازہ درج ذیل آیت مبارکہ سے ہوتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خصوصی خطاب ہے فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَر(جوحکم آپ کودیاگیاہے اسے کھول کربیان کریں )۔

سورۂ الغاشیہ

عمومی تبلیغ کے آغازکے بعدیعنی زمانہ نبوت کے آغازہی میں یہ نازل ہوئی۔

سورۂ الم نشرح

مکہ مکرمہ میں اس سورۂ کانزول ہوا۔

سورہ التین

مکی زندگی میں اس سورۂ کانزول ہوا۔

سورۂ الکافرون

اعلانیہ نبوت کے آغازکے بعدمخالفت کاطوفان امنڈ آیا اور قریش ایک فارمولالے کرآپ کے پاس آئے کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اورایک سال ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معبودکی عبادت کریں اس وقت نازل ہوئی۔

سورۂ الرحمٰن

یہ سورۂ مضمون کے اعتبارسے مکی دورکی سورتوں کے ساتھ مشابہ ہے ،اس بارے میں ابن اسحاق سے روایت منقول ہے کہ سرداران قریش حرم میں اپنی اپنی مجالس سجاکربیٹھے تھے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مقام ابراہیم پربیٹھ کرسورۂ الرحمٰن کی تلاوت ترتیل اوربلندآوازکے ساتھ شروع کردی ،قریشی سردار کچھ دیر تو جائزہ لیتے رہے اورپھر یہ یقین کرکے کہ یہ وہی کلام پڑھاجارہاہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہواتھا،یہ سنتے ہی قریش عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پرٹوٹ پڑے اورانہیں اس قدرماراکہ ان کامنہ سوج گیا۔

سورۂ الفجر

اہل مکہ نے جب مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کرناشروع کر دیا تواس دورمیں یہ سورۂ نازل ہوئی۔

سورۂ القدر

یہ سورۂ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔

سورۂ القارعہ

مکی زندگی میں اس کانزول ہوا۔

سورۂ الھمزہ

مکہ مکرمہ میں یہ سورۂ نازل ہوئی۔

سورۂ النجم

یہ سورةنبوت کے پانچویں سال رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں نازل ہوئی۔

سورةلقمان

اس سورۂ کانزول اس دورمیں ہواجومکہ میں مسلمانوں پرمصائب کا دورتھااوروالدین کے حقوق کے حوالے سے نوجوانوں کودین اسلام سے روکنے کی سازش تیار کی گئی تھی ،اس سورۂ میں بتایاگیاہے کہ والدین کے سارے حقوق اداکرنامومن پرلازم ہے مگروالدین کے حکم پرشرک نہیں اپنایاجاسکتا۔

سورۂ نوح

یہ مکی زندگی کے اس دورمیں نازل ہوئی جب قریش مکہ پہلی مرتبہ ابوطالب کے پاس گئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتبلیغ سے روک دیں ۔

سورۂ الدھر

سورۂ کااکثرحصہ مکہ مکرمہ میں اورکچھ حصہ مدینہ منورہ میں نازل ہواہے ۔

سورۂ الاخلاص

مکی زندگی میں اس سورۂ کانزول ہوا۔

سورۂ الکوثر

مکی زندگی میں نازل ہوئی ۔

سورۂ ق

یہ سورةہجرت حبشہ سے قبل نازل ہوئی۔

سورةالانعام

پوری سورۂ مکہ میں جب کہ قریش مکہ نے مسلمانوں پرظلم وجبر کی انتہاکررکھی تھی ایک ہی وقت میں نازل ہوئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رات اس کو لکھوا دیا، اس کے مضامین پرغورکرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ سورۂ مکی دورکے آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہوگی۔

سورةالذاریات۔

ہجرت حبشہ سے قبل نازل ہوئی،جب مسلمانوں پرظلم وستم کی انتہاہوچکی تھی۔

سورةالانبیاء

دوسرے دورکاآخراورتیسرے دورکاآغازاس کازمانہ نزول ہے۔

سورةمریم

یہ سورۂ ہجرت حبشہ سے قبل نازل ہوئی،یہ سورۂ مکی زندگی کے تیسرے دورکانقطہ آغازہےجس میں قریش مکہ نے استہزاء وتمسخر،لالچ،خوف اور جھوٹے پروپیگنڈے میں ناکامی کے بعدمسلمانوں پرظلم وجبراورمعاشرتی ومعاشی مقاطع کاآغازکیا ۔

سورۂ الطور

یہ سورةبھی ہجرت سے قبل نازل ہوئی ہے۔


متوسط دور

۶بعثت نبوی تا۱۰بعثت نبوی

ہجرت حبشہ کادور

سورۂ الصافات

مکی زندگی کے دورمتوسط یعنی ہجرت حبشہ کے دورمیں یہ سورۂ نازل ہوئی ۔

سورۂ ص

ہجرت حبشہ کا دوریعنی مکی زندگی کادورمتوسط اس سورۂ کازمانہ نزول ہے ۔

سورةالم السجدہ

مکی زندگی کادورمتوسط اس سورۂ کازمانہ نزول ہے۔

سورۂ الزمر

ہجرت حبشہ کادوراس سورۂ کازمانہ نزول ہے ۔

سورۂ المومن

یہ سورۂ الزمرکے بعد نازل ہوئی۔

سورةالروم

ہجرت حبشہ کے دورمیں نازل ہوئی۔

سورةالفرقان

ہجرت حبشہ کادورہی اس سورۂ کازمانہ نزول ہے۔

سورةالعنکبوت

یہ سورت ہجرت کے دورکے ساتھ متعلق ہے اورظاہرہے کہ ہجرت کاآغازہجرت حبشہ سے ہوچکاتھا۔

سورةالنحل

سورۂ کے مضامین سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ سورۂ ہجرت حبشہ کے بعدنازل ہوئی،بعض مفسرین کاخیال ہے کہ اس سورۂ کی آخری دوآیات جنگ احد کے بعد نازل ہوئیں ۔

سورۂ الملک

یہ سورۂ مکی دورمیں ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی۔

سورةیٰسین

مکی زندگی کا دورمتوسط اس سورۂ کازمانہ نزول ہے ۔

سورةالکہف

اس سورۂ کاتعلق مکی زندگی کے تیسرے دورکے ساتھ ہے جب اہل مکہ کاظلم وستم انتہاکوپہنچ گیااورمسلمانوں کے معاشرتی مقاطعے کی بابت سوچ وبچارکی جا رہی تھی،اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کواصحاب کہف کے واقعہ سے ہمت دلائی کیونکہ اس سورۂ میں پہلے دورکے اہل ایمان پرکیے جانے والےمظالم کا ذکر ہے ۔

سورةسبا

چھ نبوی کے لگ بھگ زمانے میں یہ سورۂ نازل ہوئی۔

سورۂ الدخان

اس سورۂ کازمانہ نزول حتمی طورپرمعلوم نہیں البتہ قرائن اس بات کے شاہدہیں کہ یہ سورۂ حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے قبل نازل ہوئی۔

سورۂ الجاثیہ

سورۂ الدخان اوراس سورۂ کازمانہ نزول ایک ہی ہے۔

سورۂ الشوریٰ

حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان اورہجرت حبشہ کے بعدیہ سورۂ نازل ہوئی ۔

سورۂ حم السجدة

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ سورۂ نبوت کے چوتھے سال حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان قبول کرنے کے بعداورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان قبول کرنے سے پہلے نازل ہوئی ۔

سورةالرعد

حمزہ رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کازمانہ تقریباًایک ہی ہے اوریہ سورةبھی اسی دورمیں نازل ہوئی۔

سورةالمومنون

سورۂ کے مضمون میں اس بات کی جانب اشارہ موجودہے کہ اس سورۂ کانزول اس دورمیں ہواجب مکہ شدیدقحط کی ذدمیں تھا، عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ سورۂ نازل ہوئی توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایمان قبول کرچکے تھے ۔

سورۂ طہٰ

یہ سورةہجرت حبشہ کے زمانے میں نازل ہوئی ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان سے قبل اس سورۂ کاابتدائی حصہ نازل ہوچکاتھا۔

سورةالشعراء

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق یہ سورۂ طہٰ کے بعد نازل ہوئی ،اوریہ یقینی بات ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام قبول کرچکے تھے۔

سورةیوسف

اس سورۂ میں عقل مندوں کوعبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ قصہ یوسف علیہ السلام میں جھانک کردیکھو،تم کس جانب ہو؟ یوسف کی طرف یا برادران یوسف کی طرف ؟اس بھول میں مت رہناکہ زندگی توگزاروبرادران یوسف کے رنگ ڈھنگ سے اورانجام پاجاؤ یوسف علیہ السلام کا،یہ سنت الٰہیہ کے خلاف ہے ،قریش مکہ کا ساراطورطریقہ برادران یوسف کاتھااس طرح انہیں انجام بدسے خبردارکیاگیاہے ۔

سورةالقصص

شعب ابی طالب کے محاصرے کادوراس سورۂ کازمانہ نزول بیان کیاگیاہے۔

سورةفاطر

مکی زندگی کے آخری دوریادورمتوسط کے آخری حصہ میں اس سورۂ کانزول ہوا،اس دورمیں کفارکی مخالفت شدت پکڑچکی تھی ۔

سورۂ القمر

اس میں شق القمرکاواقعہ مندرج ہے جوہجرت سے تقریبا پانچ سال قبل پیش آیا(یعنی ۸ نبوی)۔


چوتھادور

دس بعثت نبوی تا۱۳بعثت نبوی

انتہائی ظلم وستم کادور

سورہ احقاف

مکی زندگی کے آخری دورمیں یہ سورۂ نازل ہوئی،جب آپ طائف سے واپسی پرمقام نخلہ میں نمازکے دوران تلاوت فرمارہے تھے کہ جنوں کی ایک جماعت کاادھرسے گزرہوا،انہوں نے اس پرکشش کلام کوسناتوایمان لے آئے اورواپس جاکراپنی قوم میں اسلام کاپرچارشروع کردیا۔

سورۂ الزخرف

قرائن سے اندازہ ہوتاہے کہ اس سورۂ کانزول سفرطائف کے بعد ہوا۔

سورةبنی اسرائیل

یہ سورۂ سفرمعراج کے بعدنازل ہوئی،جس کی تفصیلات سیرت وحدیث کی کتب میں مذکورہیں ۔

سورةابراہیم

اس سورۂ کاروئے سخن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف ہے اورمضامین کااندازاس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ یہ سورۂ بھی مکی دورکے آخری حصے میں نازل ہوئی۔

سورةھود

اس سورۂ کازمانہ نزول بھی مکی زندگی کاآخری دورہی ہے،اس سورۂ کے بارے میں حدیث کی کتب میں ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

شَیَّبَتْنِی هُودٌ وأَخَوَاتُهَا

سورہ ھوداوراس جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ) ۔[9]

سورةیونس

یہ سورۂ مکی ہے ،یہ سورۂ اپنے مضامین کے اعتبارسے صراحتا ًدلالت کرتی ہے کہ اس کانزول ہجرت سے قبل مکی زندگی کے آخری دورمیں ہوا،کیونکہ سورةکا مرکزی خیال منکرین ومعاندین کویہ بات بتلاناہے کہ اگرقبولیت حق کی استعدادتم سے سلب ہوچکی ہے اورتم حیلوں بہانوں سے دعوت حق کو ٹھکرانے کا فیصلہ کر چکے ہو اورتلقین حق اورفریضہ رسالت کی ادائیگی اب تمہیں ناگوارنہیں گزرتی بلکہ تم اپنے آپ اس کوختم کرنے کافیصلہ کرچکے ہوتو اس سلسلے میں پہلے انبیاء کے مخالفوں کے انجام پر غور کروکہ ان کے اس انتہائی اقدام کاکیانتیجہ نکلا۔

سورةالنمل

یہ سورۂ مکی زندگی کے آخری دورکے ساتھ متعلق ہے ۔

سورةالاعراف

یہ مکی سورت ہے،ترتیب نزول کے اعتبارسے یہ سورۂ اس دورکے ساتھ متعلق ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کوطویل عرصے تک سمجھاچکے مگروہ اپنی ہٹ دھرمی اورتعصب کے باعث اس دعوت حق کواپنانے کی بجائے نہ صرف یہ کہ اس کی مخالفت پرڈٹے رہے بلکہ داعی حق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو راستے سے ہٹانے کاپروگرام بناتے رہے۔


 مدنی دور

۱ ہجری تا۲ ہجری

سورةالبقرہ

یہ سورۂ مدنی ہے جس میں بعض آیات ایسی بھی ہیں جو ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں ،مگرمضمون کی مناسبت سے ان آیات کوبھی اس سورۂ میں شامل کردیاگیااس سورۂ کا بیشترحصہ مدنی زندگی کے اوائل میں نازل ہوامگر سودکی حرمت کاحکم آخری زمانہ میں ہوا،وہ بھی اس سورۂ کاحصہ قرار دیا گیا ۔

سورةالحج

اس سورۂ کی کچھ آیات مکہ معظمہ میں اورکچھ آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں ۔

سورۂ الطلاق

اس سورۂ کانزول سورۂ بقرہ کے بعدہواتاکہ اس کے احکام معاشرت میں جہاں کہیں کوئی بات مجمل رہ گئی ہواس کی وضاحت ہوجائے ۔

سورۂ محمد

لڑائی کاحکم آجانے کے بعدمدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔

سورۂ البینہ

جمہورمفسرین کاقول ہے کہ یہ سورةمدنی زندگی میں نازل ہوئی۔

سورۂ الزلزال

جمہورمفسرین کے قول کے مطابق یہ سورۂ مدینہ میں نازل ہوئی۔

سورۂ التغابن

مدنی دورمیں نازل ہوئی۔

سورۂ الفلق

مدنی زندگی میں اس سورۂ کانزول ہوا۔

سورۂ الناس

مدینہ منورہ میں اس کانزول ہوا۔

سورۂ الجمعہ

یہ سورۂ دومواقع پرمرحلہ وارنازل ہوئی، پہلارکوع جنگ خیبرکے بعد اور دوسرارکوع ہجرت سے کچھ عرصہ بعد نازل ہوا۔

سورۂ الحجرات

سورۂ کے مضمون سے یہ محسوس ہوتاہے کہ مختلف مواقع پرنازل کردہ احکامات وآیات کوجمع کردیاگیا ہے۔

سورۂ النصر

سورۂ ایام تشریق میں منیٰ کے مقام پرنازل ہوئی اس کے بعد آپ علیہ السلام نے حجة الوداع کاخطبہ ارشاد فرمایا۔

سورةالانفال

یہ سورۂ مدینہ طیبہ میں جنگ بدرکے بعدنازل ہوئی۔

سورۂ الصف

یہ سورۂ مدینہ منورہ میں جنگ بدراورجنگ احدکے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی۔

سورةآل عمران

یہ سورۂ مدنی ہے، جنگ احدکے بعدکے دورمیں نازل ہوئی۔

سورۂ الحشر

محمد بن اسحاق اوریزیدبن رومان کاقول ہے کہ یہ سورۂ غزوہ بنی نضیرکے بارے میں نازل ہوئی۔زمانہ نزول کے اعتبارسے یہ سورةغزوہ احدکے بعد نازل ہوئی ۔

سورةالنساء

یہ مدنی سورۂ ہے،اگرتاریخی اعتبارسے اس سورۂ کے مضامین اورہجرت کے بعدکے حالات کاتجزیہ کیاجائے تواس سورۂ کے نزول کازمانہ سمجھنے میں آسانی ہو گی،یہ غالباً چاریاپانچ ہجری کازمانہ ہے۔

سورةالنور

مضامین کی ترتیب کے اعتبارسے واضح ہے کہ یہ سورۂ مدنی دورمیں نازل ہوئی،پانچ ہجری اس کازمانہ نزول بیان کیاگیاہے ،یہ سورۂ غزوہ بنی المصطلق کے بعد نازل ہوئی،اس سورۂ کی شان نزول کے سلسلے میں مشہورتاریخی واقعہ افک کاذکرملتاہے۔

سورۂ المنافقون

یہ مدنی سورت ہے غزوہ بنی المصطلق کے بعد اس کانزول ہوا۔

سورةالاحزاب

پانچ ہجری اس سورۂ کازمانہ نزول ہے ۔

سورۂ المجادلہ

اس سورۂ میں ظہارکے قانون کاذکرکیاگیاہے جو پانچ ہجری میں نازل ہوا۔

سورۂ الفتح

ذی قعدہ چھ ہجری اس سورت کازمانہ نزول ہے۔

سورةالمائدہ

یہ جنگ خندق کے بعد چھ ہجری کونازل ہوئی۔

سورۂ الممتحنہ

یہ سورۂ صلح حدیبیہ اورفتح مکہ کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی۔

سورةالحدید

یہ سورۂ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی،اس سورۂ کانزول فتح مکہ سے قبل ہوا ۔

سورۂ التحریم

نو ہجری میں اس کانزول ہوا۔

سورةالتوبہ

اس سورۂ کے نزول کازمانہ مدنی دورکاآخری زمانہ یعنی نو ہجری ہے[10] ( انوارالقران)مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے ترتیب نزول یوں بیان فرمائی ہے۔

پاکستان کے قابل قدرمایہ نازمحقق ومفسر،سیرت نگارمولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ مرحوم قرآنی سورتوں کے نزول کے بارے میں اپنی مایہ نازتفسیرتفہیم القران میں سورۂ الانعام کے شروع میں جلدنمبرا صفحہ نمبر۱۲۵پراس طرح رقمطراز ہیں ،جہاں تک مدنی سورتوں کاتعلق ہے ان میں سے توقریب قریب ہرایک کازمانہ نزول معلوم ہے یاتھوڑی سی کاوش سے متعین کیاجاسکتاہے بلکہ ان کی بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبرروایات میں مل جاتی ہے لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں ،بہت کم سورتیں یاآیتیں ایسی ہیں جن کے زمانہ نزول اورموقع نزول کے بارے میں کوئی صحیح ومعتبرروایت ملتی ہو،کیونکہ اس زمانے کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دورکی تاریخ ہے ،اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملہ میں ہم کوتاریخی شہادتوں کے بجائے زیادہ تران اندرونی شہادتوں پراعتمادکرناپڑتاہے جو مختلف سورتوں کے موضوع ،مضمون اوراندازبیاں اوراپنے پس منظرکی طرف جلی یاخفی اشارات میں پائی جاتی ہیں اورظاہرہے کہ اس نوعیت کی شہادت سے مددلے کرایک ایک سورۂ اور ایک ایک آیت کے متعلق تعین نہیں کیاجاسکتاکہ یہ فلاں تاریخ کویافلاں سنہ میں فلاں موقع پرنازل ہوئی ہے ،زیادہ صحت کے ساتھ جوکچھ کہاجاسکتاہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کواوردوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کی تاریخ کوآمنے سامنے رکھیں اورپھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورۂ کس دورسے تعلق رکھتی ہے ،اس طرزتحقیق کوذہن میں رکھ کرجب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی پرنگاہ ڈالتے ہیں تووہ دعوت اسلامی کے نقطہ نظرسے چاربڑے بڑے نمایاں ادوار پرمنقسم نظرآتی ہے:

پہلادور

ا ٓغاز بعثت سے لے کراعلان نبوت تک تقریباً تین سال جس میں دعوت خفیہ طریقہ سے خاص خاص آدمیوں کودی جارہی تھی اورعام اہل مکہ کواس کاعلم نہ تھا۔

دوسرادور

اعلان نبوت سے لے کرظلم وستم اورفتنہ کے آغازتک تقریباًدوسال ،جس میں پہلے پہل مخالفت شروع ہوئی پھراس نے مزاحمت کی شکل اختیارکی پھر تضحیک ، استہزاء ،الزامات ،سب وشتم ،جھوٹے پروپیگنڈے اورمخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی اوربالآخران مسلمانوں پرذیادتیاں شروع ہوگئیں جونسبتہ زیادہ غریب ،کمزوراوربے یارومددگارتھے ۔

تیسرادور

آغازفتنہ (پانچ بعثت نبوی)سے لے کرابوطالب اورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات (دس بعثت نبوی)تک تقریباًپانچ سال ،اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی ، بہت سے مسلمان کفارمکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکرحبشہ کی طرف ہجرت کرگئے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خاندان اورباقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی ومعاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اورساتھیوں سمیت شعب ابی طالب(شعب بنی ہاشم) میں محصورکردیئے گئے ۔

چوتھادور

دس بعثت نبوی سے تیرہ بعثت نبوی تک تقریباًتین سال ۔یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں کے لئے انتہائی سختی ومصیبت کازمانہ تھا،مکہ میں آپ کے لئے زندگی دوبھرکردی گئی تھی ،طائف گئے تووہاں بھی پناہ نہ ملی ،حج کے موقع پرعرب کے ایک ایک قبیلہ سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ کی دعوت قبول کریں اورآپ کا ساتھ دیں مگرہرطرف سے کوراجواب ہی ملتارہااورادھراہل مکہ بارباریہ مشورے کرتے رہے کہ آپ کوقتل کردیں یاقیدکردیں یااپنی بستی سے نکال دیں آخر کاراللہ کے فضل سے انصارکے دل اسلام کے لئے کھل گئے اوران کی دعوت پرآپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

ان میں سے ہردورمیں قرآن مجیدکی جوسورتیں نازل ہوئیں وہ اپنے مضامین اوراندازبیاں میں دوسرے دورکی سورتوں سے مختلف ہیں ان میں بکثرت مقامات پرایسے اشارات پائے جاتے ہیں جن سے پس منظرکے حالات اورواقعات پرصاف روشنی پڑتی ہے ،ہردورکی خصوصیات کااثراس دورکے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حدتک نمایاں نظرآتاہے ،انہی علامات پراعتمادکرکے ہم آئندہ ہرمکی سورۂ کے دیباچہ میں یہ بتائیں گے کہ وہ مکہ کے کس دورمیں نازل ہوئی ہے۔

پہلادور

انفرادی اورخفیہ دعوت

۱ بعثت نبوی تا۳ بعثت نبوی

سورۂ العلق

یہ دوالگ الگ حصوں میں مکہ میں نازل ہوئی،جب آپ پروحی کانزول ہواتو پہلی پانچ آیات اقْرَاْ سے مَا لَمْ یَعْلَمْ تک نازل ہوئیں ۔

دوسراحصہ( ۶تا۱۹) اس وقت نازل ہواجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم میں اسلامی طریقہ پرنمازپڑھنی شروع کی اورابوجہل نے آپ کودھمکیاں دے کراس سے روکنے کی کوشش کی۔[11]

 سورةالضحیٰ

اس کامضمون صاف بتارہاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہے،روایات سے بھی معلوم ہوتاہے کہ کچھ مدت تک وحی کے نزول کا سلسلہ بندرہاتھاجس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت پریشان ہوگئے تھے اورباربارآپ کویہ اندیشہ لاحق ہورہاتھاکہ کہیں مجھ سے کوئی ایساقصورتونہیں ہو گیا جس کی وجہ سے میرارب مجھ سے ناراض ہوگیاہے اوراس نے مجھے چھوڑدیاہے،اس پرآپ کواطمینان دلایاگیاکہ وحی کے نزول کاسلسلہ کسی ناراضی کی بناپر نہیں روکاگیاتھابلکہ اس میں وہی مصلحت کارفرماتھی جوروزروشن کے بعدرات کاسکون طاری کرنے میں کارفرماہوتی ہے ،یعنی وحی کی تیزروشنی اگر آپ پربرابرپڑتی رہتی توآپ کے اعصاب اسے برداشت نہ کرسکتے،اس لئے بیچ میں وقفہ دیاگیاتاکہ آپ کوسکون مل جائے ،یہ کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ابتدائی دورمیں گزرتی تھی جبکہ ابھی آپ کووحی کے نزول کی شدت برداشت کرنے کی عادت نہیں پڑی تھی،اس بناپربیچ بیچ میں وقفہ دیناضروری ہوتاتھا۔ [12]

 سورةالمدثر

اس کی پہلی سات آیات(۱تا۷) مکہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دورکی نازل شدہ ہیں ۔

آیت اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى تا كَلَّا ۭ لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ اس وقت نازل ہوئیں جب اسلام کی علانیہ تبلیغ شروع ہوجانے کے بعد مکہ میں پہلی مرتبہ حج کاموقع آیا۔ [13]

سورةالقدر

اس کے مکی اورمدنی ہونے میں اختلاف ہے ،ابوحیان نے البحرالمحیط میں دعویٰ کیاہے کہ اکثراہل علم کے نزدیک یہ مدنی ہے ،علی بن احمدالواحدی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ پہلی سورۂ ہے جومدینہ میں نازل ہوئی ،بخلاف اس کے الماوردی کہتے ہیں کہ اکثراہل علم کے نزدیک یہ مکی ہے اوریہی بات امام سیوطی رحمہ اللہ نے الاتقان میں لکھی ہے ،ابن مردویہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،ابن الزبیر رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ قول نقل کیاہے کہ یہ سورۂ مکہ میں نازل ہوئی تھی، سورۂ کے مضمون پرغورکرنے سے بھی یہی محسوس ہوتاہے کہ اس کومکہ ہی میں نازل ہوناچاہیے تھا،قرآن مجیدکی ترتیب میں اسے سورہ علق کے بعد رکھنے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ جس کتاب پاک کے نزول کاآغازسورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہواتھااسی کے متعلق اس سورہ میں لوگوں کوبتایا گیا ہے کہ وہ تقدیرسازرات میں نازل ہوئی ہے،کیسی جلیل القدرکتاب ہے اوراس کانزول کیامعنی رکھتاہے؟۔[14]

سورةالبینہ

اس کے بھی مکی اورمدنی ہونے میں اختلاف ہے،بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جمہورکے نزدیک یہ مکی ہے اوربعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے ،ابن الزبیراورعطاء بن یسارکاقول ہے کہ یہ مدنی ہے ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورقتادہ رحمہ اللہ سے دوقول منقول ہیں ،ایک یہ کہ یہ مکی ہے ،دوسرایہ کہ مدنی ہے ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسے مکی قراردیتی ہیں ،ابوحیان صاحب البحرالمحیط اورعبدالمنعم ابن الفرس صاحب احکام القرآن اس کے مکی ہونے ہی کوترجیح دیتے ہیں ،جہاں تک اس کے مضمون کاتعلق ہے اس میں کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی جواس کے مکی یامدنی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہو،قرآن مجید کی ترتیب میں اس کوسورہ علق اورسورہ قدرکے بعدرکھنابھی معنی خیزہے،سورہ علق میں پہلی وحی درج کی گئی ہے ،سورہ قدرمیں بتایاگیاکہ وہ کب نازل ہوئی اور اس سورۂ میں بتلایا گیا ہے کہ کتاب پاک کے ساتھ ایک رسول بھیجناکیوں ضروری تھا۔[15]

سورةالم نشرح

اس کامضمون سورۂ الضحیٰ سے اس قدرملتاجلتاہے کہ یہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے اورایک جیسے حالات میں نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ مکہ معظمہ میں والضحیٰ کے بعدنازل ہوئی ہے۔[16]

سورۂ الاعلیٰ

اس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ بالکل ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اورآیت نمبر چھ کے یہ الفاظ بھی کہ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى ہم تمہیں پڑھوا دیں گے ،پھرتم نہیں بھولوگے یہ بتاتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوابھی وحی اخذکرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئی تھی اور نزول وحی کے وقت آپ کواندیشہ ہوتا تھاکہ کہیں میں اس کے الفاظ بھول نہ جاوں ،اس آیت کے ساتھ اگرسورہ طہٰ کی آیت

  فَتَعٰلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ۝۰ۡوَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۝۱۱۴

اورسورہ قیامہ کی آیات

 لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ۝۱۶ۭ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ۝۱۷ۚۖ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ۝۱۸ۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ۝۱۹ۭ [17]

کو ملا کر دیکھا جائے اور تینوں آیتوں کے اندازبیان اورموقع ومحل پربھی غورکیاجائے توواقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس سورۂ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطمینان دلایاگیاکہ آپ فکرنہ کریں ہم یہ کلام آپ کوپڑھوادیں گے اورآپ اسے نہ بھولیں گے۔پھرسورۂ قیامہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار وحی کے الفاظ دہرانےلگے تواس میں فرمایاکہ اے نبی علیہ السلام اس وحی کوجلدی جلدی یادکرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دواس کویادکرادیناا ور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے،لہذاجب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرات کوغورسے سنتے رہو، پھراس کا مطلب سمجھا دینابھی ہمارے ہی ذمہ ہے ،پھر آخری مرتبہ سورہ طہ میں جب ایک سوتیرہ آیات متواترنازل ہوئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواندیشہ ہواتواللہ نے فرمایا قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کرو ، اس کے بعدپھرکبھی اس کی نوبت نہیں آئی،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایساکوئی خطرہ لاحق ہوتاکیونکہ ان تین مقامات کے سواکوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اس معاملہ کی طرف کوئی اشارہ پایاجاتاہو۔ [18]

سورۂ القیامہ

ابتدائی دورمیں نازل ہوئی،جب نزول وحی کانیانیاتجربہ ہورہاتھااورآپ کووحی اخذکرنے کی اچھی طرح عادت نہیں پڑی تھی جس کی وجہ سے آپ وحی کو جلدی جلدی یادکرنے کے لئے تاکہ بھول نہ جائیں اپنی زبان مبارک کو حرکت دیتے تھے۔ [19]

سورۂ الدھر( الانسان)

اکثرمفسرین اس کومکی قراردیتے ہیں ۔علامہ زمحشری ،امام رازی ،قاضی بیضاوی ،علامہ نظام الدین نیساپوری ،حافظ ابن کثیراوردوسرے بہت سے مفسرین نے اسے مکی ہی لکھاہے اورعلامہ آلوسی کہتے ہیں کہ یہی جمہورکاقول ہے ،لیکن بعض دوسرے مفسرین نے پوری سورۂ کومدنی کہاہے اوربعض کا قول یہ ہے کہ یہ سورۂ ہے تومکی مگرآیات

 وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا۝۸اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝۹اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۝۱۰(8تا10)

مدینے میں نازل ہوئی ہیں ،جہاں تک اس سورۂ کے مضامین اور انداز بیان کاتعلق ہے وہ مدنی سورتوں کے مضامین اور اندازبیان سے بہت مختلف ہے ،بلکہ اس پرغورکرنے سے توصاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف مکی ہے بلکہ مکہ معظمہ کے بھی اس دورمیں نازل ہوئی ہے جو سورۂ مدثرکی ابتدائی سات آیات کے بعد شروع ہوا تھا،رہیں آیات

 وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا۝۸اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝۹اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۝۱۰( 8تا10)

تووہ پوری سورۂ کے سلسلہ بیان میں اس طرح پیوست ہیں کہ سیاق و سباق کے ساتھ کوئی ان کوپڑھے توہرگزیہ محسوس نہیں کرسکتا کہ ان سے پہلے اوربعدکامضمون توپندرہ سولہ سال پہلے نازل ہواتھااوراس کے کئی سال بعدنازل ہونے والی یہ تین آیتیں یہاں لا کر ثبت کردی گئیں ۔ [20]

سورةالفاتحہ

یہ نبوت محمدی کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے بلکہ معتبرروایات سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ یہی ہے ،اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جوسور ةعلق ،مزمل اورسورۂ مدثرمیں شامل ہیں ۔[21]

سورۂ الجن۔

نبوت کے ابتدائی دورمیں آپ چندصحابہ کے ہمراہ مکہ سے عکاظ کے میلے میں تبلیغ کے لئے جارہے تھے ،راستہ میں نمازفجرادافرمائی توجنوں کی ایک جماعت جومنکرین آخرت ورسالت میں سے تھے وہاں سے گزری جوکافر تھے ،قرآن سن کرایمان لے آئے ۔


۲بعثت نبوی

سورۂ المرسلات

اس کاپورامضمون یہ ظاہرکررہاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہے اس سے پہلے کی دوسورتیں سورہ قیامہ اورسورہ دہراوراس کے بعدکی دو سورتیں سورہ نبااورسورہ نازعات اگرملاکرپڑھی جائیں توصاف محسوس ہوتاہے کہ یہ سب ایک ہی دورکی نازل شدہ سورتیں ہیں اورایک ہی مضمون ہے جس کوان میں مختلف پیرایوں سے اہل مکہ کو ذہن نشین کرایاگیاہے۔[22]

سورۂ النباء

جیساکہ ہم سورۂ المرسلات کے دیباچے میں بیان کرچکے ہیں سورةالقیامہ سے سورةالنازعات تک سب کامضمون ایک دوسرے سے مشابہ ہے اوریہ سب مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں ۔[23]

سورۂ النازعات

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ یہ سورہ النباکے بعدنازل ہوئی ہے ،اس کامضمون بھی یہی بتارہاہے کہ یہ ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ [24]

سورةالتکویر

مضمون اوراندازبیاں سے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔[25]

سورةالانفطار

اس کااورالتکویرکامضمون ایک دوسرے سے نہایت مشابہ ہے اس سے معلوم ہوتاہے دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہوئی ہیں ۔ [26]

سورۂ الغاشیہ

سورةکاپورامضمون اس امرپردلالت کرتاہے کہ یہ بھی ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے مگریہ وہ زمانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ عام شروع کر چکے تھے اورمکہ کے لوگ بالعموم اسے سن سن کرنظراندازکیے جارہے تھے۔[27]

سورہ التین

قتادہ کہتے ہیں کہ یہ سورۂ مدنی ہے ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دوقول منقول ہیں ایک یہ کہ یہ مکی ہے اوردوسرایہ کہ مدنی ہے لیکن جمہورعلماء اسے مکی ہی قراردیتے ہیں اور اس کے مکی ہونے کی کھلی ہوئی علامت یہ ہے کہ اس میں شہرمکہ کے لئے  وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ (یہ پرامن شہر)کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ظاہرہے کہ اگر اس کانزول مدینہ میں ہواہوتاتومکہ کے لئے یہ شہرکہناصحیح نہیں ہوسکتاتھا،علاوہ بریں سورۂ کے مضمون پرغورکرنے سے محسوس ہوتاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے بھی ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے کیونکہ اس میں کوئی نشان اس امرکانہیں پایاجاتاکہ اس کے نزول کے وقت کفرو اسلام کی کشمکش برپاہوچکی تھی اوراس کے اندرمکی دورکی ابتدائی سورتوں کاوہی اندازبیان پایاجاتاہے جس میں نہایت مختصراوردل نشین طریقہ سےلوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ آخرت کی جزاء وسزاضروری اورسراسرمعقول ہے۔[28]

سورۂ الزلزال

اس میں اختلاف ہے کہ یہ مکی ہے یامدنی ،مگراس کے مضامین کوپڑھ کرایسامعلوم ہوتاہے کہ یہ مکہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہوگی جب نہایت مختصراور انتہائی دل نشین طریقہ سے لوگوں کے بنیادی عقائدلوگوں کے سامنے پیش کیئے جارہے تھے۔[29]


۳بعثت نبوی

سورۂ العادیات

اس میں اختلاف ہے کہ مکہ میں نازل ہوئی یامدینہ میں ،مگرسورۂ کااندازاورمضامین صاف بتلارہے ہیں کہ یہ نہ صرف مکی ہے بلکہ مکہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔[30]

سورۂ القارعہ

اس کے مکی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون سے ظاہرہوتاہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے ۔[31]

سورۂ التکاثر

یہ مکے کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے،ویسے توعذاب قبرکے بارے میں الانعام ۹۳،النحل ۲۸،المومنون ۹۹،۱۰۰،المومن ۴۵ ،۴۶ میں صریح الفاظ میں ذکرکیا گیا ہے مگرحضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ ہم عذاب قبرکے بارے میں برابرشک میں پڑے رہے یہاں تک کہ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ  نازل ہوئی [32]

سورۂ العصر

اگرچہ مجاہد،قتادہ اورمقاتل نے اسے مدنی سورۂ قراردیاہےلیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اسے مکی قراردیتی ہے ،اوراس کامضمون یہ شہادت دیتاہےکہ یہ مکہ کے بھی ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہوگی جب اسلام کی تعلیم کومختصر اورانتہائی دل نشین فقروں میں بیان کیاجاتاتھاتاکہ سننے والے ایک دفعہ ان کوسن کر بھولنابھی چاہیں تونہ بھول سکیں اوروہ آپ سے آپ لوگوں کی زبانوں پرچڑھ جائیں ۔[33]

سورۂ الھمزہ

اس کے مکی ہونے پرتمام مفسرین کااتفاق ہے اوراس کے مضمون اوراندازبیان پرغورکرنے سے محسوس ہوتاہے کہ یہ بھی مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔[34]

سورۂ الفیل

یہ سورۂ بالاتفاق مکی ہے اوراس کے تاریخی منظرکواگرنگاہ میں رکھ کردیکھاجائے تومحسوس ہوتاہے کہ اس کانزول مکہ معظمہ کے بھی ابتدائی دورمیں ہواہوگا ۔ [35]

سورۂ القریش

بعض لوگ ضحاک اورکلبی اسے مدنی کہتے ہیں مگرمفسرین کی عظیم اکثریت اس کے مکی ہونے پرمتفق ہے،اس کے مضمون کاسورہ فیل کے مضمون سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ غالبااس کانزول اس کے متصلاًبعدہی ہواہوگا۔[36]

سورۂ الاخلاص

مکی دورکے ابتدامیں نازل ہوئی،اس سورۂ کے لفظ احدکی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنے مالک کے ظلم وستم پراحد،احدکہتے تھے۔[37]

سورۂ الملک

کسی معتبرروایت سے یہ نہیں معلوم ہوتاکہ یہ کس زمانے میں نازل ہوئی ہے مگرمضامین اوراندازبیان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔[38]

سورۂ عبس

حدیث کی جن روایات میں یہ واقعہ بیان کیاگیاہے ان میں سے بعض سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت وہ اسلام لاچکے تھے اوربعض سے ظاہرہوتاہے کہ اسلام کی طرف مائل ہوچکے تھے اورتلاش حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ انہوں نے آکرعرض کیا یَا رَسُولَ اللَّهِ أَرْشِدْنِی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سیدھا راستہ بتائیں [39]حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ وہ آکر قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھنے لگے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِی مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ علم سکھائیے جواللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ [40]ان بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کا رسول اورقرآن کواللہ کی کتاب تسلیم کرچکے تھے ،دوسری طرف آیت ۳کے الفاظ لَعَلَّهٗ یَزَّكّىٰٓ کا مطلب لعلہ یُسْلِمُ شایدکہ وہ اسلام قبول کرے بیان کرتے ہیں ۔[41] اوراللہ تعالیٰ کااپنایہ ارشادبھی کہ تمہیں کیاخبر،شایدوہ سدھر جائے یا نصیحت پردھیان دے اور نصیحت کرنااس کے لئے نافع ہو؟ اوریہ کہ جوخود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اوروہ ڈر رہا ہوتاہے ، اس سے تم بے رخی برتتے ہو،اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ اس وقت ان کےاندرطلب حق کاگہراجذبہ پیداہوچکاتھااوروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کوہدایت کا منبع سمجھ کرآپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئےتھے کہ ان کی یہ طلب یہیں سے پوری ہوگی اور یہ بات ان کی حالت سے ظاہرہورہی تھی کہ انہیں ہدایت دی جائے تووہ اس سے مستفیدہوں گے۔ ثالثاًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جولوگ اس وقت بیٹھ تھے مختلف روایات میں ان کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے ، اس فہرست میں ہمیں عتبہ، شیبہ، ابوجہل، امیہ بن خلف، ابی بن خلف جیسے بدترین دشمنانان اسلام کے نام ملتے ہیں ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ اس زمانے میں پیش آیاتھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان لوگوں کا میل جول ابھی باقی تھا اور کشمکش اتنی نہ بڑھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کی آمدورفت اورآپ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بندہوگیاہو،یہ سب اموراس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سورۂ مکہ کے بہت ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے ۔[42]


دوسرادور

 اعلانیہ دعوت حق

 ۴ بعثت نبوی تا۵بعثت نبوی

سورةالمزمل

xپہلارکوع بالاتفاق مکی ہے ،اس کے مضامین اوراحادیث کی روایات دونوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے،رہایہ سوال کہ یہ مکی زندگی کے کس دور میں نازل ہوئی ہے اس کاجواب ہمیں روایات سے تونہیں ملتا،لیکن اس رکوع کے مضامین کی داخلی شہادت اس کازمانہ متعین کرنے میں بڑی مدددیتا ہے ، اولاً،اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی گئی تھی کہ آپ راتوں کواٹھ کراللہ کی عبادت کیاکریں تاکہ آپ کے اندرنبوت کے بارعظیم کو اٹھانے اوراس کی ذمہ داریاں اداکرنے کی قوت پیداہو،اس سے معلوم ہواکہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی دورہی میں نازل ہوا ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب کے لئے آپ کی تربیت کی جارہی تھی،ثانیاً،اس میں حکم دیاگیاہے کہ نمازتہجدمیں آدھی آدھی رات یااس سے کچھ کم وبیش قرآن مجیدکی تلاوت کی جائے ، یہ ارشادخودبخوداس بات پردلالت کرتاہے کہ اس وقت قرآن مجیدکاکم ازکم اتناحصہ نازل ہوچکاتھاکہ

اس کی طویل قرات3 کی جا سکے،ثالثاً،اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخالفین کی زیادتیوں پرصبرکی تلقین کی گئی ہے اورکفارمکہ کوعذاب کی دھمکی دی گئی ہے ، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ رکوع اس زمانے میں نازل ہواہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علانیہ تبلیغ شروع کرچکے تھے اورمکہ میں آپ کی مخالفت زورپکڑچکی تھی۔

xدوسرے رکوع کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسرین نے یہ خیال ظاہرکیاہے کہ وہ بھی مکہ ہی میں نازل ہواہے ،لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اسے مدنی قراردیاہے اوراس رکوع کے مضامین سے ہی اسی خیال کی تائیدہوتی ہے، کیونکہ اس میں قتال فی سبیل اللہ کاذکرہے اورظاہرہے کہ مکہ میں اس کا کوئی سوال پیدانہ ہوتاتھااوراس میں فرض زکوٰة اداکرنے کابھی حکم دیاگیاہے اوریہ بات ثابت ہے کہ زکوٰة ایک مخصوص شرح اورنصاب کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔[43]

سورةسبا

اس کے نزول کاٹھیک زمانہ کسی معتبرروایت سے معلوم نہیں ہوتاالبتہ اندازبیان سے محسوس ہوتاہے کہ یاتووہ مکہ کادورمتوسط ہے یادوراول ،اوراگر دور متوسط ہے توغالبااس کاابتدائی زمانہ ہے جبکہ ظلم وستم کی شدت شروع نہ ہوئی تھی اورابھی صرف تضحیک واستہزاء ،افواہی جنگ ،جھوٹے الزامات اور وسوسہ اندازیوں سے اسلام کی تحریک کودبانے کی کوشش کی جارہی تھی۔[44]

سورۂ المطففین

اس کے اندازبیان اورمضامین سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہے،جب اہل مکہ کے ذہن میں آخرت کا عقیدہ بٹھانے کے لئے پے درپے سورتیں نازل ہورہی تھیں اوراس کانزول اس زمانے میں ہواہے جب اہل مکہ نے سڑکوں ،بازاروں اورمجلسوں میں مسلمانوں پر آوازے کسنے اوران کی توہین وتذلیل کرنے کاسلسلہ شروع کر دیاتھامگرظلم وستم ،مارپیٹ کادورابھی شروع نہیں ہواتھا۔[45]

سورۂ الطور

مضامین کی اندرونی شہادتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دورمیں نازل ہوئی ہے جس میں سورةالذاریات نازل ہوئی تھی اس کو پڑھتے ہوئے یہ توضرورمحسوس ہوتاہے کہ اس کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعتراضات اورالزامات کی بوچھاڑ ہورہی تھی ،مگریہ محسوس نہیں ہوتاکہ ظلم وستم کی چکی زوروشور سے چلنی شروع ہوگئی ہے۔[46]

سورۂ الانشقاق

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے ،اس کے مضمون کی داخلی شہادت یہ بتارہی ہے کہ ابھی ظلم وستم کادورشروع نہیں ہواتھا ، البتہ قرآن کی دعوت کومکہ میں برملاجھٹلایاجارہاتھااورلوگ یہ ماننے سے انکارکررہے تھے کہ کبھی قیامت برپاہوگی اورانہیں اپنے اللہ کے سامنے جواب دہی کے لئے حاضرہوناپڑے گا۔[47]

سورةالحاقہ۔

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اوراس کے مضامین سے معلوم ہوتاہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت توشروع ہوچکی تھی مگراس نے ابھی زیادہ شدت نہ اختیارکی تھی۔[48]

سورۂ المعارج۔

اس کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ اس کانزول بھی قریب قریب انہی حالات میں ہواہے جن میں سورہ الحاقہ نازل ہوئی تھی۔[49]

سورۂ ق

کسی معتبرروایت سے یہ پتہ نہیں چلتاکہ یہ ٹھیک کس زمانہ میں نازل ہوئی ہے مگرمضامین پرغورکرنے سے محسوس ہوتاہے کہ اس کازمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دورہے جونبوت کے تیسرے سال سے شروع ہوکرپانچویں سال تک رہا،اس دورکی خصوصیات ہم سورہ انعام کے دیباچہ میں بیان کرچکے ہیں ان خصوصیات کے لحاظ سے اندازایہ قیاس کیاجاسکتاہے کہ یہ سورۂ پانچویں سال میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ کفارکی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی مگر ابھی ظلم وستم کاآغازنہیں ہواتھا۔[50]

سورۂ الذاریات

مضامین اوراندازبیان سے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ سورۂ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کامقابلہ تکذیب واستہزاء اور جھوٹے الزامات سے توبڑے زورشورکے ساتھ ہورہاتھامگرابھی ظلم وتشددکی چکی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی ،اس لئے یہ بھی اسی دورکی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے جس میں سورہ ق نازل ہوئی ہے۔[51]

سورۂ نوح

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے مگراس کے مضمون کی داخلی شہادت اس امرکی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ کے مقابلہ میں کفارمکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیارکرچکی تھی۔[52]

سورۂ الشمس۔

مضمون اوراندازبیان سے معلوم ہوتاہے کہ یہ سورۂ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہے ،مگراس کانزول اس زمانے میں ہواہے جب مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت خوب زورپکڑچکی تھی۔[53]

سورۂ اللیل۔

اس کامضمون سورہ شمس سے اس قدرمشابہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک دوسرے کی تفسیرمحسوس ہوتی ہیں ایک ہی بات ہے جسے سورہ شمس میں ایک طریقہ سے سمجھایاگیاہے اوراس سورہ میں دوسرے طریقے سے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ دونوں قریب قریب ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں ۔[54]

سورۂ القلم۔

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے مگراس کے مضمون سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیارکرچکی تھی۔[55]

سورۂ الفجر۔

اس کے مضمون سے ظاہرہوتاہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب مکہ معظمہ میں اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف ظلم کی چکی چلنی شروع ہو چکی تھی ، اسی بناپراہل مکہ کوعاداورثموداورفرعون کے انجام سے خبردارکیاگیاہے۔[56]

سورةالم السجدہ

اندازبیان سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس کازمانہ نزول مکہ کادورمتوسط ہے اوراس کابھی ابتدائی زمانہ ،کیونکہ اس کلام کے پس منظرمیں ظلم وستم کی وہ شدت نظرنہیں آتی جوبعدکے ادوارکی سورتوں کے پیچھے نظرآتی ہے۔[57]

سورةلقمان

اس کے مضامین پرغورکرنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کودبانے اورروکنے کے لئے ظلم وجبر کاآغاز ہوچکاتھااورہرطرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفان مخالفت نے پوری شدت اختیارنہ کی تھی اس کی نشان دہی آیت

 وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ۝۰ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۝۰ۭ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۱۴وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۝۰ۡوَّاتَّبِــعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۵

سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایاگیاہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک اللہ کے بعدسب سے بڑھ کر ہیں لیکن اگروہ تمہیں اسلام قبول کرنے سے روکیں اور شرک کی طرف پلٹنے پر مجبورکریں توان کی یہ بات ہرگزنہ مانو،یہی بات سورہ عنکبوت میں بھی ارشادہوئی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دورمیں نازل ہوئی ہیں ،لیکن دونوں کے مجموعی اندازبیان اورمضمون پر غور کر نے سے اندازہ ہوتاہے کہ سورہ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے ،اس لئے اس کے پس منظرمیں کسی شدیدمخالفت کانشان نہیں ملتا اور اس کے برعکس سورہ عنکبوت کوپڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم ہورہاتھا۔[58]

سورۂ البلد۔

اس کامضمون اوراندازبیان مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی سورتوں کاساہے مگرایک اشارہ اس میں ایساموجودہے جوپتہ دیتاہے کہ اس کے نزول کازمانہ وہ تھا جب کفارمکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی پرتل گئے تھے اورآپ کے خلاف ہر ظلم وزیادتی کوانہوں نے اپنے لئے حلال کرلیاتھا۔[59]

سورةفاطر۔

اندازکلام کی اندرونی شہادت سے مترشح ہوتاہے کہ اس سورۂ کے نزول کازمانہ غالبامکہ معظمہ کادورمتوسط ہے اوراس کابھی وہ حصہ جس میں مخالفت اچھی خاصی شدت اختیارکرچکی تھی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کوناکام کرنے کے لئے ہرطرح کی بری سے بری چالیں چلی جارہی تھیں ۔[60]

سورةالصافات

مضامین اورطرزکلام سے مترشح ہوتاہے کہ یہ سورۂ غالبامکی دورکے وسط میں بلکہ شایداس دورمتوسط کے بھی آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے ،انداز بیان صاف بتارہاہے کہ پس منظرمیں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپاہے اورنبی واصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کونہایت دل شکن حالات سے سابقہ درپیش ہے۔[61]

سورۂ ص

بعض روایات کی روسے یہ سورۂ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں اعلانیہ دعوت کاآغازفرمایاتھا،اورقریش کے سرداروں میں اس پرکھلبلی مچ گئی تھی ،اس لحاظ سے اس کازمانہ نزول تقریبانبوت کاچوتھاسال قرارپاتاہے ،بعض دوسری روایات اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد کاواقعہ بتاتی ہیں اورمعلوم ہے کہ وہ ہجرت حبشہ کے بعدایمان لائے تھے ،ایک اورسلسلہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ابوطالب کے آخری مرض الموت کے زمانہ میں وہ معاملہ پیش آیاتھاجس پریہ سورت نازل ہوئی،اسے اگرصحیح ماناجائے تواس کازمانہ نزول نبوت کا دسواں یاگیارواں سال ہے ۔[62]

سورۂ البروج

اس کامضمون خودیہ بتارہاہے کہ یہ سورۂ مکہ معظمہ کے اس دورمیں نازل ہوئی ہے جب ظلم وستم پوری شدت کے ساتھ برپاتھااورکفارمکہ مسلمانوں کو سخت سے سخت عذاب دے کرایمان سے پھیردینے کی کوشش کررہے تھے ۔[63]

سورۂ الکافرون

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ،حسن بصری رحمہ اللہ اورعکرمہ رحمہ اللہ اسے مکی سورۂ کہتے ہیں ،عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اسے مدنی قراردیتے ہیں ،اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورقتادہ رحمہ اللہ سے دو قول منقول ہیں ایک یہ کہ یہ مکی ہے اوردوسرایہ کہ مدنی ہے ،لیکن جمہورمفسرین کے نزدیک یہ مکی سورۂ ہے اعلانیہ نبوت کے آغازکے بعدمخالفت کا طوفان امنڈ آیا اور قریش ایک فارمولالے کرآپ کے پاس آئے کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اورایک سال ہم آپ ؑ کے معبودکی عبادت کریں اس وقت نازل ہوئی،اس وقت تک قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت سے مایوس نہیں ہوئے تھے۔[64]

سورۂ الفلق

حسن بصری ،عکرمہ ،عطاء اورجابربن زیدکہتے ہیں یہ مکی سورۂ ہے ،عبداللہ بن عباس بھی یہی کہتے ہیں ،مگران سے دوسری روایت ہے کہ یہ مدنی ہے اور یہی قول عبداللہ بن زبیراورقتادہ کابھی ہے ،لیکن اس سورۂ کامضمون صاف بتلارہاہے کہ یہ مکہ میں اس وقت نازل ہوئی ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ الکافرون پڑھ کران کو اس طرف سے مایوس کردیاکہ آپ ان کے ساتھ دین کے معاملہ میں کوئی مصالحت کرنے پرآمادہ ہوسکیں گے ،تو کفار کی دشمنی اپنے پورے عروج پرپہنچ گئی ،ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاگیاکہ یہ سورۂ پڑھیں [65]

سورۂ الناس

سورۂ الفلق کے ساتھ نازل ہوئی۔ [66]


۵بعثت نبوی

سورةالکہف

یہاں سے ان سورتوں کاآغازہوتاہے جومکی زندگی کے تیسرے دورمیں نازل ہوئی ہیں ،مکی زندگی کوہم نے چاربڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیاہے ، اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرادورتقریبا ً پانچ بعثت نبوی کے آغازسے شروع ہوکرقریب قریب دس بعثت نبوی تک چلتاہے ،اس دورکوجوچیزدوسرے دورسے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دورمیں توقریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی تحریک اورجماعت کودبانے کے لئے زیادہ تر تضحیک ،استہزاء ، اعتراضات ، الزامات ،تخویف ، اطماع اورمخالفانہ پروپیگنڈے پراعتمادکررکھاتھامگراس تیسرے دورمیں انہوں نے ظلم وستم ،مارپیٹ اورمعاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے،یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکوملک چھوڑکرحبشہ کی طرف نکل جاناپڑااورباقی ماندہ مسلمانوں کواوران کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خاندان کوشعب ابی طالب میں محصورکرکے ان کامکمل معاشی اورمعاشرتی مقاطعہ کردیاگیا،تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ابو طالب اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کے ذاتی اثرکی وجہ سے قریش کے دوبڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی کررہے تھے ،دس بعثت نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بندہوتے ہی یہ دورختم ہوگیااورچوتھادورشروع ہواجس میں مسلمانوں پرمکے کی زندگی تنگ کردی گئی یہاں تک کہ آخرکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کومکہ سے نکل جاناپڑا۔سورہ کہف کے مضمون پرغورکرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ تیسرے دور کے آغازمیں نازل ہوئی ہو گی جب کہ ظلم وستم اور مزاحمت نے شدت تواختیارکرلی تھی مگر ہجرت حبشہ واقع نہیں ہوئی تھی اس وقت جو مسلمان ستائے جارہے تھے ان کواصحاب کہف کا قصہ سنایاگیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اورانہیں معلوم ہوکہ اہل ایمان اپناایمان بچانے کے لئے اس سے پہلے کچھ کر چکے ہیں ۔[67]

سورۂ الزمر۔

آیت وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ(۱۰)

سے اس امرکی طرف صاف اشارہ نکلتاہے کہ یہ سورۂ ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوئی تھی ،بعض روایات میں یہ تصریح آئی ہے کہ اس آیت کانزول حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اوران کے ساتھیوں کے حق میں ہواتھاجبکہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کاعزم کیا.[68]

سورۂ المومن

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورجابربن زیدکابیان ہے کہ یہ سورۂ سورہ الزمرکے بعدمتصلاًنازل ہوئی ہے اوراس کاجومقام قرآن مجیدکی موجودہ ترتیب میں ہے وہی ترتیب نزول کے اعتبارسے بھی ہے۔[69]

سورةمریم

اس کازمانہ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کاہے معتبرروایات سے معلوم ہوتاہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربارمیں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے یہی سورۂ بھرے دربارمیں تلاوت کی تھی۔[70]

سورةالعنکبوت

آیات ۵۶ تا۶۰ سے صاف مترشح ہوتاہے کہ یہ سورہ ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اس کی تائیدکرتی ہے ، کیونکہ پس منظرمیں اسی زمانہ کے حالات جھلکتے نظرآتے ہیں بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بناپرکہ اس میں منافقین کاذکرآیاہے اورنفاق کا ظہور مدینہ میں ہواہے ،یہ قیاس قائم کرلیاکہ اس سورۂ کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اورباقی سورۂ مکی ہے حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکرہے وہ وہ لوگ ہیں جوکفارکے ظلم وستم اورشدیدجسمانی اذیتوں کے ڈرسے منافقانہ روش اختیارکررہے تھے اورظاہرہے کہ اس نوعیت کانفاق مکہ ہی میں ہوسکتاتھانہ کہ مدینہ میں ،اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کرکہ اس سورہ میں مسلمانوں کوہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورۂ قرار دے دیاہے حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے ،یہ تمام قیاسات دراصل کسی روایت پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادت پران کی بنارکھی گئی ہے ،اوریہ اندرونی شہادت اگرپوری سورۂ کے مضامین پربحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے ،مکہ کے آخری دورکی نہیں بلکہ اس دورکے حالات نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی۔ [71]

سورةطہٰ

اس سورۂ کازمانہ نزول سورۂ مریم کے قریب ہی کاہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یااس کے بعدنازل ہوئی ہو،بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہوچکی تھی ،عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کاواقعہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعدہی کاہے۔[72]

سورۂ الواقعہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سورتوں کی جوترتیب نزول بیان کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ پہلے سورہ طہ نازل ہوئی پھرالواقعہ اوراس کے بعد الشعراء (الاتقان للسیوطی )یہی ترتیب عکرمہ نے بھی بیان کی ہے (بیہقی دلائل النبوة) ۔[73]

سورةالشعراء

مضمون اوراندازبیان سے محسوس ہوتاہے اورروایات اس کی تائیدکرتی ہیں کہ اس سورۂ کازمانہ نزول مکہ کادورمتوسط ہے ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ پہلے سورہ طہ نازل ہوئی پھرسورہ واقعہ اور اس کے بعدالشعراء [74]اورسورہ طہ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہوچکی تھی ( سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے قبل انتالیس مرداورایک عورت مشرف باسلام ہوچکے تھے)۔[75]

سورةالنمل۔

مضمون اوراندازبیان مکہ کے دورمتوسط کی سورتوں سے پوری مشابہت رکھتاہےاوراس کی تائیدروایات سے بھی ہوتی ہے ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورجابربن زید کا بیان ہے کہ پہلے سورہ شعراء نازل ہوئی پھرالنمل پھرالقصص۔[76]

سورةالقصص

سورۂ النمل کے دیباچے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورجابربن زید رضی اللہ عنہ کایہ قول ہم نقل کرچکے ہیں کہ سورۂ الشعراء ،سورۂ النمل اورسورۂ القصص یکے بعددیگرے نازل ہوئی ہیں ، زبان،اندازبیان اورمضامین سے بھی یہی محسوس ہوتاہے کہ ان تینوں سورتوں کازمانہ نزول قریب قریب ایک ہی ہے اوراس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسٰی کے قصے کے مختلف اجزاء جوان میں بیان کیے گئے ہیں وہ باہم مل کرایک پوراقصہ بن جاتے ہیں ،سورۂ الشعراء میں نبوت کا منصب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے حضرت موسیٰ ؑ عرض کرتے ہیں کہ قوم فرعون کاایک جرم میرے ذمہ ہے جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہاں جاؤ ں گاتووہ مجھے قتل کردیں گے پھرجب حضرت موسیٰ ؑ فرعون کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں تووہ کہتاہے کیاہم نے اپنے ہاں تجھے بچہ سانہیں پالاتھا اورتوہمارے ہاں چندسال رہاپھرکرگیاجوکچھ کہ کرگیا،ان دونوں باتوں کی کوئی تفصیل وہاں نہیں بیان کی گئی ،اس سورۂ میں اسے بالتفصیل بیان کیاگیا ہے ، اسی طرح سورہ نمل میں قصہ یکایک اس بات سے شروع ہوگیاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ اپنے اہل وعیال کولے کرجارہے تھے اوراچانک انہوں نے ایک آگ دیکھی،وہاں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ یہ کیساسفرتھا،کہاں سے وہ آرہے تھے اورکدھرجارہے تھے،یہ تفصیل اس سورۂ میں بیان ہوئی ہے اس طرح یہ تینوں سورتیں مل کرقصہ موسٰی کی تکمیل کردیتی ہیں ۔[77]

سورةالروم

آغازہی میں جس تاریخی واقعہ کاذکرکیاگیاہے اس سے زمانہ نزول قطعی طورپرمتعین ہوجاتاہے اس میں ارشادہواہے کہ قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ، اس زمانے میں عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن،شام اورفلسطین تھے اوران علاقوں میں رومیوں پرایرانیوں کاغلبہ۵ ۶۱ میں مکمل ہواتھا اس لئے پوری صحت کے ساتھ یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ سورۂ اسی سال نازل ہوئی اوریہ وہی سال تھاجس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی ۔[78]

سورۂ النجم۔

نبوت کے پانچویں سال رمضان المبارک کے مقدس[79] مہینہ میں نازل ہوئی۔


۶ بعثت نبوی

سورۂ حم السجدہ

معتبرروایات کی روسے اس کازمانہ نزول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعداورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے پہلے ہے۔[80]

سورۂ الشوریٰ

کسی معتبرروایت سے معلوم نہیں ہوسکاہے ،لیکن اس کے مضمون پرغورکرنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ سورہ حٰم السجدہ کے متصلاًبعدنازل ہوئی ہو گی ، کیونکہ یہ ایک طرح سے بالکل اس کاتتمہ نظرآتاہے اس کیفیت کوہروہ شخص خودمحسوس کرے گاجوپہلے سورۂ حم السجدہ کوبغورپڑھے اورپھراس سورۂ کی تلاوت کرے ،وہ دیکھے گاکہ اس سورۂ میں سرداران قریش کی اندھی بہری مخالفت پربڑی کاری ضربیں لگائی گئی تھیں تاکہ مکہ معظمہ اوراس کے گرد و پیش کے علاقے میں جس کسی کے اندربھی اخلاق ،شرافت اورمعقولیت کی کوئی حس باقی ہووہ جان لے کہ قوم کے بڑے لوگ کس قدربے جا طریقے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کررہے ہیں اوران کے مقابلہ میں آپ کی بات کتنی سنجیدہ ،آپ کاموقف کتنامعقول اورآپ کارویہ کیساشریفانہ ہے ، اس تنبیہ کے معابعدیہ سورۂ نازل کی گئی جس نے تفہیم کاحق اداکردیااورایسے دل نشین اندازمیں دعوت محمدی کی حقیقت سمجھائی جس کااثرقبول نہ کرنا کسی ایسے شخص کے بس میں نہ تھا جو حق پسندی کاکچھ بھی مادہ اپنے اندررکھتاہواورجاہلیت کی گمراہیوں کے عشق میں بالکل اندھانہ ہوچکاہو۔[81]

سورةالمومنون

اندازبیاں اورمضامین دونوں سے یہی معلوم ہوتاہے کہ اس سورۂ کازمانہ نزول مکے کادورمتوسط ہے ،پس منظرمیں صاف محسوس ہوتاہے کہ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورکفارکے درمیان سخت کشمکش برپاہے لیکن ابھی کفارکے ظلم وستم نے پورازورنہیں پکڑاہے آیت ۷۵،۷۶ سے صاف طورپریہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جومعتبرروایات کی روسے اسی دورمتوسط میں برپاہواتھا،عروہ بن زبیرکی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لاچکے تھے ،وہ عبدالرحمن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۂ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے وہ خود نزول وحی کی کیفیت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم پرطاری ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوئے توآپ نے فرمایاکہ مجھ پراس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگرکوئی ان کے معیارپرپورااترجائے تویقیناًجنت میں جائے گا،پھرآپ نے اس سورۂ کی ابتدائی آیات سنائیں ۔[82]

سورةالفرقان

اندازبیاں اورمضامین پرغورکرنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ اس کازمانہ نزول بھی وہی ہے جو سورۂ مومنون وغیرہ کاہے یعنی زمانہ قیام مکہ کا دور متوسط ۔ ابن جریراورامام رازی نے ضحاک بن مزاحم اورمقاتل بن سلمان کی یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ سورۂ سورہ النساء سے آٹھ سال پہلے اتری تھی ، اس حساب سے بھی اس کازمانہ نزول وہی دورمتوسط قرارپاتاہے۔[83]


۷بعثت نبوی

سورةالانبیاء

مضمون اوراندازبیاں دونوں سے یہی معلوم ہوتاہے کہ اس کازمانہ نزول مکے کادورمتوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے ،اس کے پس منظرمیں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جوآخری دورکی سورتوں میں نمایاں طورپرمحسوس ہوتی ہے۔[84]

سورۂ الزخرف۔

کسی معتبرروایت سے معلوم نہیں ہوسکاہے لیکن اس کے مضامین پرغورکرنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ سورہ بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہے جس میں المومن،حم السجدہ اورالشورٰی نازل ہوئیں ،یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کانزول اس وقت سے شروع ہواجب کفارمکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہوگئے تھے ،شب وروزاپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کرمشورے کررہے تھے کہ آپ کوکس طرح ختم کیاجائے اورایک حملہ آپ کی جان پرہوبھی چکاتھا ، اس صورت حال کی طرف آیات ۷۹،۸۰ میں صاف اشارہ موجودہے۔[85]

سورۂ الدخان

اس کازمانہ نزول بھی کسی معتبرروایت سے معلوم نہیں ہوتامگرمضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اسی دورمیں نازل ہوئی ہے جس میں سورۂ الزخرف اوراس سے پہلے کی چندسورتیں نازل ہوئی تھیں ،البتہ یہ اس سے کچھ متاخرہے ،تاریخی پس منظریہ ہے کہ جب کفارمکہ کی مخالفانہ روش شدید سے شدیدتر ہوتی چلی گئی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی کہ یا اللہ!یوسف کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مددفرما،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال یہ تھاکہ جب ان لوگوں پر مصیبت پڑے گی توانہیں اللہ یادآئے گااوران کے دل نصیحت قبول کرنے کے لئے نرم پڑجائیں گے ،اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاقبول فرمائی اور سارے علاقےمیں ایسے زورکاقحط پڑا کہ لوگ بلبلااٹھے ،آخرکاربعض سرداران قریش جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے خاص طورپر ابو سفیان کا نام لیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورآپ سے درخواست کی کہ اپنی قوم کواس بلاسے نجات دلانے کے لئے اللہ سے دعاکریں یہی موقع ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ سورۂ نازل فرمائی۔[86]

سورۂ الجاثیہ۔

اس سورۂ کازمانہ نزول بھی کسی معتبرروایت میں بیان نہیں ہواہے مگراس کے مضامین سے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ سورہ دخان کے بعدقریبی زمانے میں نازل ہوئی ہے ،دونوں سورتوں کے مضامین میں ایسی مشابہت ہے جس سے یہ دونوں توام نظرآتی ہیں ۔[87]

سورۂ الطارق۔

اس کے مضمون کااندازبیان مکہ معظمہ کی ابتدائی سورتوں سے ملتاجلتاہے مگریہ اس زمانے کی نازل شدہ ہے جب کفارمکہ قرآن اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لئے ہرطرح کی چالیں چل رہے تھے ۔[88]


۸بعثت نبوی

سورةیٰسین

اندازبیان پرغورکرنے سے محسوس ہوتاہے کہ اس سورۂ کازمانہ نزول یاتومکہ کے دورمتوسط کاآخری زمانہ ہے یاپھریہ زمانہ قیام مکہ کے آخری دورکی سورتوں میں سے ہے۔[89]

سورۂ اللہب

بعیدنہیں کہ اس کانزول اس زمانے میں ہواہوجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خاندان والوں کامقاطعہ کرکے قریش کے لوگوں نے ان کو شعب ابی طالب میں محصورکردیاتھااورتنہاابولہب ہی ایساشخص تھاجس نے اپنے خاندان والوں کوچھوڑ کردشمنوں کاساتھ دیاتھا،ہمارے اس قیاس کی بنایہ ہے کہ ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اوربھتیجے کی زبان سے چچاکی کھلم کھلامذمت کرانااس وقت تک مناسب نہ ہوسکتاتھاجب تک چچاکی حدسے گزری ہوئی زیادتیاں علانیہ سب کے سامنے نہ آگئ ہوں ، اگر ابتدا ہی میں یہ سورۂ نازل کردی گئی ہوتی تولوگ اس کواخلاقی حیثیت سے معیوب سمجھتے کہ بھتیجااپنے چچا کی اس طرح مذمت کرے ۔[90]


۹بعثت نبوی

سورۂ القمر

اس میں شق القمرکے واقعہ کاذکرآیاہے جس سے اس کازمانہ نزول متعین ہوجاتاہے ،محدثین ومفسرین کااس پراتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پرپیش آیاتھا۔[91]

سورۂ القمر

اس میں شق القمرکے واقعہ کاذکرآیاہے جس سے اس کازمانہ نزول متعین ہوجاتاہے ،محدثین ومفسرین کااس پراتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریبا پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پرپیش آیاتھا۔[92]


 چوتھادور

عام الحزن (غم کاسال )

۱۰ بعثت نبوی تا۱۳بعثت نبوی( ۶۲۰تا۶۲۳)

سورۂ الرحمٰن

علمائے تفسیربالعموم اس سورة کومکی قراردیتے ہیں ،اگرچہ بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن عباس اورعکرمہ اورقتادہ سے یہ قول منقول ہے کہ یہ سورة مدنی ہے،لیکن اول توانہی بزرگوں سے بعض دوسری روایات اس کے خلاف بھی منقول ہوئی ہیں ،دوسرے اس کامضمون مدنی سورتوں کی بہ نسبت مکی سورتوں سے زیادہ مشابہ ہے،بلکہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ مکہ کے بھی ابتدائی دورکی معلوم ہوتی ہے،اورمزیدبراں متعددروایات سے اس امرکا ثبوت ملتاہے کہ یہ مکہ معظمہ ہی میں ہجرت کے کئی سال قبل نازل ہوئی تھی،مسنداحمدمیں اسماء بنت ابی بکرکی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم میں خانہ کعبہ کے اس گوشے کی طرف رخ کرکے نماززپڑھتے دیکھاجس میں حجراسودنصب ہے،یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ ابھی فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ جس چیز کا تمہیں حکم دیاجارہاہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو،کافرمان الٰہی نازل نہیں ہواتھا ، مشرکین اس نمازمیں آپ کی زبان سے  فَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ  کے الفاظ سن رہے تھے،اس سے معلوم ہواکہ یہ سورة سورة الحجرسے پہلے نازل ہوچکی تھی،البزار،ابن جریر،ابن المنذر ، دارقطنی(فی الافراد)ابن مردویہ اورالخطیب(فی التاریخ)نے حضرت عبداللہ بن عمرسے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة الرحمٰن خودتلاوت فرمائی یاآپ کے سامنے یہ سورة پڑھی گئی پھرآپ نے لوگوں ں سے فرمایاکہ کیاوجہ ہے کہ میں تم سے ویساجواب نہیں سن رہا ہوں جیسا جنوں نے اپنے رب کودیاتھا ،لوگوں نے عرض کیا،وہ کیاجواب تھا؟آپ نے فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ کاارشاد فَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ پڑھتاتو جن اس کے جواب میں کہتے جاتے تھے کہ وَلَا بِشَیْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ ہم اپنے رب کی کسی نعمت کونہیں جھٹلاتے، اسی سے ملتاجلتامضمون (جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن سورة الرحمٰن ۳۲۹۱ ،مستدرک حاکم ۳۷۶۶،اورحافظ ابوبکربزارنے مسندالبزار ۵۸۵۳) میں حضرت جابربن عبداللہ سے نقل کیاہے،ان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب لوگ سورہ رحمٰن کوسن کرخاموش رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الجِنِّ لَیْلَةَ الجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ كُنْتُ كُلَّمَا أَتَیْتُ عَلَى قَوْلِهِ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

تووہ کہتے تھے

لَا بِشَیْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الحَمْدُ

یعنی میں نے یہ سورة اس رات جنوں کو سنائی تھی جس میں وہ قرآن سننے کے لیے جمع ہوئے تھے ،وہ اس کاجواب تم سے بہتردے رہے تھے ،جب میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشادپرپہنچتاتھاکہ اے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے تووہ اس کے جواب میں کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار،ہم تیری کسی نعمت کونہیں جھٹلاتے،حمدتیرے ہی لیے ہے ،اس روایت سے معلوم ہواکہ سورة احقاف(آیات۲۹تا۳۲)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جنوں کے قرآن سننے کاجوواقعہ بیان کیاگیاہے ،اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں سورہ رحمٰن تلاوت فرمارہے تھے،یہ۱۰نبوی کاواقعہ ہے جب آپ سفر طائف سے واپسی پرنخلہ میں کچھ مدت ٹھیرے تھے،اگرچہ بعض دوسری روایات میں یہ بیان کیاگیاہے کہ اس موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ معلوم نہ تھاکہ جن آپ سے قرآن سن رہے ہیں بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کویہ خبردی کہ وہ آپ کی تلاوت سن رہے تھے،لیکن یہ بات بعیدازقیاس نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجنوں کی سماعت قرآن پرمطلع فرمایاتھا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کویہ اطلاع بھی دے دی ہوکہ سورة رحمٰن سنتے وقت وہ اس کا کیا جواب دیتے جارہے تھے، ان روایات سے توصرف اسی قدرمعلوم ہوتاہے کہ سورة رحمٰن سورة الحجر اورسورة الاحقاف سے قبل نازل ہوچکی تھی،اس کے بعدایک اورروایت ہمارے سامنے آتی ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دورکی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے،ابن اسحاق حضرت عروہ بن زبیرسے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک روز صحابہ کرام نے آپس میں کہاکہ قریش نے کبھی کسی کوعلانیہ باوازبلندقرآن پرھتے نہیں سناہے،ہم میں کون ہے جوایک دفعہ ان کوئی کلام پاک سناڈالے ؟ عبداللہ بن مسعود نے کہامیں یہ کام کرتاہوں ،صحابہ نے کہا ہمیں ڈرہے کہ وہ تم پر زیادتی کریں گے ، ہمارے خیال میں کسی ایسے شخص کویہ کام کرنا چاہئے جس کاخاندان زبردست ہوتاکہ اگرقریش کے لوگ اس پردست درازی کریں تو اس کے خاندان والے اس کی حمایت پراٹھ کھڑے ہوں ، حضرت عبداللہ نے فرمایامجھے یہ کام کرڈالنے دو،میرامحافظ اللہ ہے،پھروہ دن چڑھے حرم میں پہنچے جبکہ قریش کے سردار وہاں اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے تھے،حضرت عبداللہ نے مقام ابراہیم پرپہنچ کرپورے زورسے سورہ رحمٰن کی تلاوت شروع کردی،قریش کے لوگ پہلے تو سوچتے رہے کہ عبداللہ کیاکہہ رہے ہیں ،پھرجب انہیں پتہ چلاکہ یہ وہ کلام ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خداکے کلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں تووہ ان پرٹوٹ پڑے اوران کے منہ پرتھپڑ مارنے لگے،مگرحضرت عبداللہ نے پرواہ نہ کی ، پٹتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے،کب تک ان کے دم میں دم رہا قرآن سناتے چلے گئے ،آخرکارجب وہ اپناسوجاہوامنہ لے کرپلٹے تو ساتھیوں نے کہاہمیں اسی چیز کاڈرتھا،انہوں نے جواب دیاآج سے بڑھ کر یہ اللہ کے دشمن میرے لیے کبھی ہلکے نہ تھے،تم کہوتوکل پھرانہیں قرآن سناؤ ں ،سب نے کہابس اتناہی کافی ہے،جوکچھ وہ نہیں سننا چاہتے تھے وہ تم نے انہیں سنادیا۔[93]

سورةھود

اس سورۂ کے مضمون پرغورکرنے سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ یہ اسی دورمیں نازل ہوئی ہوگی جس میں سورۂ یونس نازل ہوئی تھی بعیدنہیں کہ یہ اس کے ساتھ متصلًاہی نازل ہوئی ہوکیونکہ موضوع تقریروہی ہے مگرتنبیہ کااندازاس سے زیادہ سخت ہے ،حدیث میں آتاہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیامیں دیکھتاہوں کہ آپ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں اس کی کیاوجہ ہے ؟جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شَیَّبَتْنِی هُودٌ وأَخَوَاتُهَا  مجھ کو سورۂ ھوداوراس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھاکردیاہے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ زمانہ کیسا سخت ہوگاجب کہ ایک طرف کفار قریش اپنے تمام ہتھیاروں سے اس دعوت حق کوکچل دینے کی کوشش کررہے تھے اوردوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں ، ان حالات میں آپ کوہروقت یہ اندیشہ گھلائے دیتاہوگاکہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اوروہ آخری ساعت نہ آ جائے جب کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑلینے کافیصلہ فرمادیتاہے،فی الواقع اس سورۂ کوپڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کوہے اوراس غافل آبادی کوجواس سیلاب کی زد میں آنے والی ہے ،آخری تنبیہ کی جارہی ہے۔[94]

سورةیونس

زمانہ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی ،لیکن مضمون سے ایساہی ظاہرہوتاہے کہ یہ سورۂ زمانہ قیام مکہ کے آخری دورمیں نازل ہوئی ہوگی ، کیونکہ اس کے اندازکلام سے صریح طورپرمحسوس ہوتاہے کہ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیارکرچکی ہے ،وہ نبی اورپیروان نبی کواپنے درمیان برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں ،ان سے اب یہ امیدباقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم وتلقین سے راہ راست پرآجائیں گے اوراب انہیں اس انجام سے خبردار کرنے کاموقع آگیاہے جونبی کوآخری اورقطعی طورپرردکردینے کی صورت میں انہیں لازماًدیکھناہوگا۔مضمون کی یہی خصوصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کونسی سورتیں مکہ کے آخری دورسے تعلق رکھتی ہیں ،لیکن اس سورہ میں ہجرت کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں پایاجاتا،اس لئے اس کازمانہ ان سورتوں سے پہلے کا سمجھناچاہئے جن میں کوئی نہ کوئی خفی یاجلی اشارہ ہم کوہجرت کے متعلق ملتاہے۔[95]

سورۂ الاحقاف

اس کازمانہ نزول ایک تاریخی واقعہ سے متعین ہوجاتاہے جس کاذکرآیات ۲۹تا۳۲ میں آیاہے ،ان آیات میں جنوں کے آنے اورقرآن سن کر واپس جانے کاجوواقعہ بیان ہواہے وہ حدیث وسیرت کی متفق علیہ روایات کی روسے اس وقت پیش آیاتھاجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف پلٹتے ہوئے نخلہ کے مقام پر ٹھیرے تھے اورتمام معتبرتاریخی روایات کے مطابق آپ کے طائف تشریف لے جانے کاواقعہ ہجرت سے تین سال پہلے کا ہے لہذا یہ متعین ہو جاتاہے کہ یہ سورۂ دس بعثت نبوی کے آخریا گیارہ نبوی کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی۔[96]


۱۱بعثت نبوی

سورةالرعد

رکوع ۴ اوررکوع ۶ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورۂ بھی اسی دورکی ہے جس میں سورہ یونس،سورہ ہود،اورسورہ اعراف نازل ہوئیں ،یعنی زمانہ قیام مکہ کاآخری دور۔اندازبیاں سے صاف ظاہرہورہاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدت درازگزرچکی ہے ،مخالفین آپ کوزک دینے اورآپ کے مشن کوناکام کرنے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں ،مومنین باربارتمنائیں کررہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کرہی ان لوگوں کو راہ راست پرلایاجائے اوراللہ تعالیٰ مسلمانوں کوسمجھارہاہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کایہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمنان حق کی رسی درازکی جا رہی ہے تویہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبرااٹھو،پھرآیت ۳۱ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ باربارکفارکی ہٹ دھرمی کا ایسامظاہرہ ہوچکاہے جس کے بعدیہ کہنابالکل بجامعلوم ہوتاہے کہ اگرقبروں سے مردے بھی اٹھ کرآجائیں تویہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعہ کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرڈالیں گے ، ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتاہے کہ یہ سورہ مکہ کے آخری دورمیں نازل ہوئی ہوگی۔[97]

سورةابراہیم

عام اندازبیاں مکہ کے آخری دورکی سورتوں کاساہے،سورۂ الرعدسے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے ،خصوصاًآیت ۱۳کے الفاظ

 وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا

انکارکرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہاکہ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگاورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔کاصاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پرظلم وستم انتہا کوپہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافرقوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کوخارج البلدکردینے پر تل گئے تھے ۔اسی بناپران کووہ دھمکی سنائی گئی جو ان جیسے رویے پرچلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ہم ظالموں کوہلاک کرکے رہیں گے،اوراہل ایمان کووہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش رووں کودی جاتی رہی کہ

 وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ

ہم ان ظالموں کوختم کرنے کے بعدتم ہی کواس سرزمین میں آبادکریں گے، اسی طرح آخری رکوع کے تیور بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ سورہ مکہ کے آخری دورسے تعلق رکھتی ہے۔[98]

سورةالحجر

مضامین اوراندازبیاں سے صاف مترشح ہوتاہے کہ اس سورۂ کازمانہ نزول سورہ ابراہیم سے متصل ہے ،اس کے پس منظرمیں دوچیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں ،ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودعوت دیتے ایک مدت گزرچکی ہے اورمخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی ،استہزاء ،مزاحمت اورظلم وستم کی حدہوگئی ہے جس کے بعداب تفہیم کاموقع کم اورتنبیہ وانزارکاموقع زیادہ ہے ،دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفروجموداورمزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھکے جا رہے ہیں اوردل شکستگی کی کیفیت باربارآپ پرطاری ہورہی ہے جسے دیکھ کراللہ تعالیٰ آپ کوتسلی دے رہاہے اورآپ کی ہمت بندھا رہا ہے۔[99]


۱۲بعثت نبوی

سورةبنی اسرائیل

پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کردیتی ہے کہ یہ سورۂ معراج کے موقع پرنازل ہوئی ہے ،معراج کاواقعہ حدیث اورسیرت کی اکثرروایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیاتھااس لئے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جومکی دورکے آخری زمانے میں نازل ہوئیں ۔[100]

سورۂ الکوثر

سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا ،کلبی،مقاتل اورجمہورمفسرین اسے مکی سورۂ کہتے ہیں ،لیکن حسن بصری،عکرمہ،مجاہداورقتادہ اس کومدنی قراردیتے ہیں ،امام سیوطی نے الاتقان میں اسی قول کوصحیح ٹھیرایاہے اورامام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اسی کوترجیح دی ہے ،اس زمانے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوانتہائی دل شکن حالات سے سابقہ در پیش تھا اس وقت آپ کوتسلی دینے اورآپ کی ہمت بندھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے متعددآیات نازل فرمائیں ،جیسے سورۂ اضحٰی،سورةالم نشرح ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندقا سم،پھرآپ ؑکے فرزندعبداللہ فوت ہوگئے اورقریش نے باتیں بنائیں اس وقت نازل ہوئی،ایسے ہی حالات میں اللہ نے مخالفین کی بربادی کی پشین گوئی فرمائی،یہ سورہ معراج کے بعدنازل ہوئی۔[101]

سورةالنحل

متعدداندرونی شہادتوں سے اس کے زمانہ نزول پرروشنی پڑتی ہے مثلاً

xآیت ۴۱ کے فقرے وَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اس وقت ہجرت حبشہ واقع ہوچکی تھی ۔

xآیت ۱۰۶  مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖٓ  سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت ظلم وستم پوری شدت کے ساتھ ہورہاتھا اوریہ سوال پیداہوگیاتھاکہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبورہوکرکلمہ کفرکہہ بیٹھے تواس کاکیاحکم ہے ۔

xآیات ۱۱۲ تا ۱۱۴

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللهِ فَاَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۝۱۱۲وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۱۳ فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۝۰۠ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۝

کاصاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعدمکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھاوہ اس سورۂ کے نزول کے وقت ختم ہو چکا تھا ، اس سورہ میں آیت ۱۱۵ ایسی ہے جس کاحوالہ سورۂ الانعام آیت ۱۱۹ میں دیا گیا ہے ،اور دوسری آیت ۱۱۸ ایسی ہے جس میں سورۂ انعام کی آیت ۱۴۶ کا حوالہ دیاگیاہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کانزول قریب العہد ہے ،ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورةکازمانہ نزول بھی مکے کاآخری دورہی ہے اوراسی کی تائید سورۂ کے عام انداز بیاں سےبھی ہوتی ہے۔[102]

سورةالانعام

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ یہ پوری سورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی ،حضرت معاذبن جبل کی چچاذادبہن اسماء بنت یزیدکہتی ہیں کہ جب یہ سورۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہورہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پرسوارتھے میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اوربوجھ کے مارے اونٹنی کایہ حال ہورہاتھاکہ معلوم ہوتاتھاکہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی،روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کوآپ نے اسے قلمبند کرا دیا تھا ۔اس کے مضامین پرغورکرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ سورۂ مکی دورکے آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہوگی،حضرت اسماء بنت یزیدکی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے ،کیونکہ موصوفہ انصارمیں سے تھیں اورہجرت کے بعدایمان لائیں ،اگرقبول اسلام سے پہلے محض بربناء عقیدت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضرہوئی ہوں گی تویقینایہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال ہی میں ہوئی ہوگئی ،اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کاآپ کی خدمت میں حاضرہوناممکن ہوتا۔[103]


۱۳بعثت نبوی

سورةالاعراف

اس کے مضامین پرغورکرنے سے بین طورپرمحسوس ہوتاہے کہ اس کازمانہ نزول تقریباوہی ہے جوسورہ انعام کاہے،یہ بات تویقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہے یاوہ ،مگراندازتقریرسے صاف ظاہرہورہاہے کہ یہ اسی دورسے متعلق ہے،لہذااس کے تاریخی پس منظرکوسمجھنے کے لئے اس دیباچہ پرایک نگاہ ڈال لیناکافی ہوگاجوہم نے سورہ الانعام پرلکھاہے۔[104]

سورةیوسف

اس سورةکے مضمون سے مترشح ہوتاہے کہ یہ بھی زمانہ قیام مکہ کے آخری دورمیں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پرغورکررہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کردیں یا جلاوطن کریں یاقیدکردیں ،اس زمانہ میں بعض کفارمکہ نے (غالبا یہودیوں کے اشارے پر)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاامتحان لینے کے لئے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصرجانے کاکیاسبب ہوا،چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے اس کانام ونشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایاجاتاتھااورخودنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کاذکرنہ سناگیاتھا،اس لئے انہیں توقع تھی کہ آپ یاتواس کومفصل جواب نہ دے سکیں گے یااس وقت ٹال مٹول کرکے بعدمیں کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اوراس طرح آپ کابھرم کھل جائے گالیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہی نہیں کیاکہ فوراًاسی وقت یوسف ؑ کایہ پوراقصہ آپ کی زبان پرجاری کردیابلکہ مزید برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملہ پرچسپاں بھی کردیاجووہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کررہے تھے۔[105]

سورةالحج

اس سورةمیں مکی اورمدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں ،اسی وجہ سے مفسرین میں اس امرپراختلاف ہواہے کہ یہ مکی ہے یامدنی،لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اوراندازبیاں کایہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کاایک حصہ مکی دورکے آخرمیں اوردوسراحصہ مدنی دورکے آغازمیں نازل ہواہے ،اس لئے دونوں ادوارکی خصوصیات اس میں جمع ہوگئی ہیں ۔

xابتدائی حصے کامضمون اوراندازبیاں صاف بتاتاہے کہ یہ مکہ میں نازل ہواہے اوراغلب یہ ہے کہ مکی زندگی کے آخری دورمیں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو،یہ حصہ آیت وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ښ وَهُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ(۲۴)پرختم ہوتاہے۔

xاس کے بعدآیت ۲۵ اِ نَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ  سے یک لخت مضمون کارنگ بدل جاتاہے اورصاف محسوس ہوتاہے کہ یہاں سے آخرتک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہواہے ،بعیدنہیں کہ یہ ہجرت کے بعدپہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہواہو،کیونکہ آیت ۲۵سے ۴۱ تک کا مضمون اس بات کی نشان دہی کرتاہے اورآیت ۳۹،۴۰ کی شان نزول بھی اس کی مویدہے،اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھربارچھوڑکرمدینے میں آئے تھے ،حج کے زمانے میں ان کواپنا شہر اور حج کااجتماع یادآرہاہوگااوریہ بات بری طرح کھل رہی ہوگی کہ مشرکین قریش نے ان پرمسجدحرام کا راستہ تک بندکردیا ہے ، اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظرہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کوگھروں سے نکالا، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا اور اللہ کا راستہ اختیارکرنے پران کی زندگی تک دشوارکردی ،ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے ،یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھاان آیات کے نزول کا ،ان میں پہلے توحج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایاگیاہے کہ یہ مسجدحرام اس لئے بنائی گئی تھی اوریہ حج کا طریقہ اس لئے شروع کیاگیاتھاکہ دنیا میں اللہ واحدکی بندگی کی جائے مگر آج وہاں شرک ہو رہاہے اوراللہ واحدکی بندگی کرنے والوں کے لئے اس کے راستے بندکردیے گئے ہیں ،اس کے بعد مسلمانوں کواجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اورانہیں بے دخل کرکے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبیں اورنیکیاں فروغ پائیں ۔عبداللہ بن عباس، مجاہد،عروہ بن زبیر،زیدبن اسلم،مقاتل بن حیان ، قتادہ اوردوسرے اکابرمفسرین کابیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کوجنگ کی اجازت دی گئی اورحدیث وسیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعدفوراًہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اورپہلی مہم صفر۲ھ میں ساحل بحراحمرکی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ دوان یا غزوہ ابواء کے نام سے مشہور ہے۔[106]


مدنی دور

سورۂ الجمعہ

xپہلے رکوع کازمانہ نزول ۷ ہجری ہے اورغالبایہ فتح خیبرکے موقع پریااس کے بعدقریبی زمانے میں نازل ہواہے ،بخاری ،مسلم ،ترمذی ،نسائی اور ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے جب یہ آیات نازل ہوئیں ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ صلح حدیبیہ کے بعداورفتح خیبرسے پہلے ایمان لائے تھے ،اورخیبرکی فتح ابن ہشام کے بقول محرم اورابن سعد کے بقول جمادی الاول ۷ ہجری میں ہوئی ہے ،پس قرین قیاس یہ ہے کہ یہودیوں کے اس آخری گڑھ کوفتح کرنے کے بعداللہ تعالیٰ نے ان کوخطاب کرتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائی ہونگی یاپھران کانزول اس وقت ہواہوگاجب خیبرکاانجام دیکھ کرشمالی حجازکی تمام یہودی بستیاں اسلامی حکومت کی تابع فرمان بن گئی تھیں ۔

xد وسرارکوع ہجرت کے بعدقریبی زمانے ہی میں نازل ہواہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی پانچویں روزجمعہ قائم کردیاتھااوراس رکوع کی آخری آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہ صاف بتارہاہے کہ وہ اقامت جمعہ کاسلسلہ شروع ہونے کے بعدلازماکسی ایسے زمانے ہی میں پیش آیاہوگا جب لوگوں کودینی اجتماعات کے آداب کی پوری تربیت ابھی نہیں ملی تھی۔[107]

سورۂ التغابن

مقاتل اورکلبی کہتے ہیں کہ اس کاکچھ حصہ مکی ہے اورکچھ مدنی ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورعطاء بن یسارکہتے ہیں کہ ابتداسے آیت ۱۳تک مکی ہے اور آیت ۱۴سے آخرسورۂ تک مدنی ،مگرمفسرین کی اکثریت پوری سورۂ کومدنی قراردیتی ہے اگرچہ اس میں کوئی اشارہ ایسانہیں پایاجاتاجس سے اس کا زمانہ نزول متعین کیا جا سکتاہولیکن مضمون کلام پرغورکرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ غالباًیہ مدینہ طیبہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہوئی ہوگی ،اسی وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کاسااورکچھ مدنی سورتوں کاساپایاجاتاہے۔[108]

سورةالبقرہ

اس سورۂ کابیشترحصہ ہجرت مدینہ کے بعدمدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دورمیں نازل ہواہے،اورکمترحصہ ایساہے جوبعدمیں نازل ہوااورمناسبت مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کردیاگیا۔

xحتی کہ سودکی ممانعت کے سلسلہ میں جوآیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اتری تھیں ۔

xسورۂ کاخاتمہ جن آیات پرہواہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوچکی تھیں مگرمضمون کی مناسبت سے ان کوبھی اسی سورۂ میں ضم کردیاگیاہے۔[109]


۲ہجری

سورۂ محمد۔

اس کے مضامین یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ہجرت کے بعدمدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب جنگ کاحکم تودیاجاچکاتھامگرابھی جنگ عملاً شروع ہوئی نہ تھی۔[110]

سورةالانفال

یہ سورۂ دوہجری میں جنگ بدرکے بعدنازل ہوئی ہے اوراس میں اسلام وکفرکی اس پہلی جنگ پرمفصل تبصرہ کیاگیاہے ،جہاں تک سورہ کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتاہے ،غالباًیہ ایک ہی تقریرہے جوبیک وقت نازل فرمائی گئی ہوگی ،مگرممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدرہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعدمیں اتری ہوں اورپھران کوسلسلہ تقریرمیں مناسب جگہوں پردرج کرکے ایک مسلسل تقریربنادیاگیاہو،بہرحال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتاجس سے یہ گمان کیاجاسکے کہ یہ الگ الگ دوتین خطبوں کامجموعہ ہے۔[111]

سورۂ الماعون

ابن مردویہ نے عبداللہ بن عباس اورابن الزبیر رضی اللہ عنہما کاقول نقل کیاہے کہ یہ مکی سورۂ ہے ،عطاء اورجابرکابھی یہی قول ہے لیکن ابوحیان نے البحرالمحیط میں عبداللہ بن عباس اور قتادہ اورضحاک کایہ قول نقل کیاہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے،کیونکہ اس سورۂ میں منافقین جومدینہ میں ہی پائے جاتے تھے اورجو نماز میں غفلت برتتے اوردکھاوے کے لئے نمازپڑھتے تھے،چنانچہ اس داخلی شہادت کی بناپریہ مدنی سورۂ ہے۔[112]

سورۂ الصف

کسی معتبرروایت سے اس کازمانہ نزول معلوم نہیں ہوسکالیکن اس کے مضامین پرغورکرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ غالباًجنگ احدکے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہوگی کیونکہ اس کے بین السطورمیں جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتاہے وہ اسی دورمیں پائے جاتے ہیں ۔[113]


۳ہجری

سورةآل عمران

اس میں چارتقریریں شامل ہیں :

xپہلی تقررآغازسورۂ سے چوتھے رکوع کی ابتدائی دوآیتوں تک ہے اورغالباجنگ بدرکے بعدقریبی زمانے ہی میں نازل ہوئی ہے۔

xدوسری تقریرآیت

 اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ

اللہ نے آدم اورنوح اورآل ابراہیم اورآل عمران کو تمام دنیاوالوں پرترجیح دے کراپنی رسالت کے کام کے لئے منتخب کیاتھا۔سے شروع ہوتی ہے اورچھٹے رکوع کے اختتام پرختم ہوتی ہے،یہ نوہجری میں وفد نجران کی آمدکے موقع پرنازل ہوئی۔

xتیسری تقریرساتویں رکوع کے آغازسے لے کربارھویں رکوع کے اختتام تک چلتی ہے اوراس کازمانہ پہلی تقریرسے متصل ہی معلوم ہوتاہے۔

xچوتھی تقریر تیرھویں رکوع سے ختم سورۂ تک جنگ احدکے بعد نازل ہوئی۔[114]

سورةالنساء

یہ سورۂ متعدد خطبوں پرمشتمل ہے جوغالباً تین ہجری کے اواخرسے لے کر چارہجری کے اواخریاپانچ ہجری کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں اگرچہ یہ تعین کرنامشکل ہے کہ کس مقام سے کس مقام تک کی آیات ایک سلسلہ تقریرمیں نازل ہوئی تھیں اوران کاٹھیک زمانہ نزول کیاتھا،لیکن بعض احکام اور واقعات کی طرف بعض اشارے ایسے ہیں جن کے نزول کی تاریخیں ہمیں روایات سے معلوم ہوجاتی ہیں اس لئے ان کی مددسے ہم ان مختلف تقریروں کی ایک سرسری سی حدبندی کرسکتے ہیں جن میں یہ احکام اوریہ اشارے واقع ہوئے ہیں ۔مثلاً ہمیں معلوم ہے کہ وراثت کی تقسیم اوریتیموں کے حقوق کے متعلق ہدایات جنگ احدکے بعد نازل ہوئی تھیں جب کہ مسلمانوں کے سترآدمی شہید ہو گئے تھے اورمدینہ کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے کی وجہ سے بہت سے گھروں میں یہ سوال پیداہوگیاتھاکہ شہداء کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے اورجویتیم بچے انہوں نے چھوڑے ہیں ان کے مفادکاتحفظ کیسے ہو ، اس بناپر ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ ابتدائی چاررکوع اورپانچویں رکوع کی پہلی تین آیتیں اسی زمانہ میں نازل ہوئی ہونگی ۔

x روایات میں صلوٰة خوف(عین حالت جنگ میں نمازپڑھنے)کاذکرہمیں غزوہ ذات الرقاع میں ملتاہے جو۴ھ میں نازل ہوا،اس لئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسی کے لگ بھگ زمانہ میں وہ خطبہ نازل ہواہوگاجس میں اس نمازکی ترکیب بیان کی گئی ہے(رکوع ۱۵)

xمدینہ سے بنی نضیرکااخراج ربیع الاول ۴ھ میں ہوااس لئے غالب گمان یہ ہے کہ وہ خطبہ اس سے پہلے قریبی زمانہ ہی میں نازل ہواہوگاجس میں یہودیوں کوآخری تنبیہ کی گئی ہے کہ ایمان لے آوقبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑکرپیچھے پھیردیں ۔

xپانی نہ  ملنے کی وجہ سے تیمم کی اجازت غزوہ بنی المصطلق کے موقع پردی گئی تھی جو۵ ھ میں ہوا،اس لئے وہ خطبہ جس میں تیمم کاذکرہے اسی سے متصل عہدکا سمجھنا چاہئے(رکوع ۷)۔[115]

سورۂ الطلاق

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے صراحت فرمائی ہے اورسورۂ کے مضمون کی اندورنی شہادت بھی یہی ظاہرکرتی ہے کہ اس کانزول لازماًسورہ بقرہ کی ان آیات کے بعدہواہے جن میں طلاق کے احکام پہلی مرتبہ دیے گئے تھے اگرچہ یہ تعین کرنامشکل ہے کہ اس کاٹھیک زمانہ نزول کیاہے لیکن بہرحال روایات سے اتنا ضرورمعلوم ہوتاہے کہ جب سورہ بقرہ کے احکام کوسمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے اورعملاًبھی ان سے غلطیوں کاصدورہونے لگا تب اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لئے یہ ہدایات نازل فرمائیں ۔[116]

سورۂ الحشر۔

صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت سعیدبن جبیرکی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سورہ حشرکے متعلق پوچھاتوانہوں نے بتایاکہ یہ غزوہ بنی نضیرکے بارے میں نازل ہوئی تھی جس طرح سورہ انفال غزوہ بدرکے بارے میں نازل ہوئی ،حضرت سعیدبن جبیرکی دوسری روایت میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ یہ ہیں کہ قل سورۂ النضیر یعنی یوں کہوکہ یہ سورہ نضیرہے ،یہی بات مجاہد،قتادہ ،زہری ،ابن زید،یزیدبن رومان ،محمدبن اسحاق وغیرہ سے بھی مروی ہے ان سب کامتفقہ بیان یہ ہے کہ اس میں جن اہل کتاب کے نکالے جانے کاذکرہے ان سے مرادبنی نضیرہی ہیں ،یزیدبن رومان ، مجاہد رحمہ اللہ اور محمدبن اسحاق کاقول یہ ہے کہ ازاول تاآخریہ پوری سورۂ اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔اب رہایہ سوال کہ یہ غزوہ کب واقع ہوا تھا امام زہری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق عروہ بن زبیرکے حوالہ سے بیان کیاہے کہ یہ جنگ بدرکے چھ مہینے بعدہواہے ،لیکن ابن سعد،ابن ہشام اور بلاذری اسے ربیع الاول چار ہجری کا واقعہ بتاتے ہیں اوریہی صحیح ہے کیونکہ تمام روایات اس امرمیں متفق ہیں کہ یہ غزوہ بئرمعونہ کے سانحہ کے بعدپیش آیاتھا اوریہ بات تاریخی طورپر ثابت ہے کہ بئرمعونہ کاسانحہ جنگ احدکے بعدرونماہواہے نہ کہ اس سے پہلے۔[117]


۵ہجرت نبوی

سورةالاحزاب

شعبان پانچ ہجری کونازل ہوئی۔

سورۂ المجادلہ

کسی روایت میں اس امرکی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مجادلہ کایہ واقعہ کب پیش آیاتھا،ایک علامت اس سورہ کے مضمون میں ایسی ہے جس کی بناپریہ بات تعین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس کازمانہ غزوہ الاحزاب (شوال پانچ ہجری)کے بعدکاہے ۔سورۂ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے حقیقی بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ ارشادفرماکرچھوڑدیاتھاکہ

وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ

اور اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہارکرتے ہوتمہاری مائیں نہیں بنادیاہے ۔مگراس میں یہ نہیں بتایاگیاتھاکہ ظہارکرناکوئی گناہ یاجرم ہے اورنہ یہ بتایا گیا تھا کہ اس فعل کا شرعی حکم کیاہے ،بخلاف اس کے اس سورہ میں ظہارکاپوراقانون بیان کردیاگیاہے ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مفصل احکام اس مجمل ہدایت کے بعدنازل ہوئے ہیں ۔[118]


۶ہجرت نبوی

سور المنافقون

یہ سورۂ غزوہ بنی المصطلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی پریاتودوران سفرمیں نازل ہوئی ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد فوراً ہی اس کا نزول ہوا ہے ۔غزوہ بنی المصطلق شعبان ۶ ہجری میں واقع ہواتھا،اس طرح اس کی تاریخ نزول ٹھیک ٹھیک متعین ہوجاتی ہے۔[119]

سورة النور

یہ امرمتفق علیہ ہے کہ یہ سورۂ غزوہ بنی المصطلق کے بعدنازل ہوئی ہے۔خودقرآن کے بیان سے ظاہرہوتاہے کہ اس کانزول واقعہ افک کے سلسلے میں ہوا ہے(جس کاذکرتفصیل کے ساتھ دوسرے اورتیسرے رکوع میں آیاہے)اوروہ تمام معتبرروایات کی روسے غزوہ بنی المصطلق کے سفرمیں پیش آیا تھا لیکن اختلاف اس امرمیں ہے کہ آیایہ غزوہ پانچ ہجری میں غزوہ احزاب سے پہلے ہواتھایا چھ ہجری میں غزوہ احزاب کے بعد۔اصل واقعہ کیاہے اس کی تحقیق اس لئے ضروری ہے کہ پردے کے احکام قرآن مجیدکی دوہی سورتوں میں آئے ہیں ایک یہ سورۂ ،دوسری سورۂ احزاب جس کانزول بالاتفاق غزوہ احزاب کے موقع پرہواہے ،اب اگرغزوہ احزاب پہلے ہوتواس کے معنی یہ ہیں کہ پردے کے احکام کی ابتداان ہدایات سے ہوئی جو سورۂ الاحزاب میں واردہوئی ہیں اور تکمیل ان احکام سے ہوئی جواس سورۂ میں آئے ہیں اوراگرغزوہ بنی المصطلق پہلے ہو تو احکام کی ترتیب الٹ جاتی ہے اور آغازسورۂ النورسے مان کر تکمیل سورۂ الاحزاب والے احکام پرماننی پڑتی ہے ، اس طرح اس حکمت تشریع کاسمجھنامشکل ہوجاتاہے جواحکام حجاب میں پائی جاتی ہے ،اسی غرض کے لئے ہم آگے بڑھنے سے پہلے زمانہ نزول کی تحقیق کرلیناضروری سمجھتے ہیں ،ابن سعدکابیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان پانچ ہجری میں پیش آیا اور پھر ذی القعدہ پانچ ہجری میں غزوہ احزاب(یاغزوہ خندق)واقع ہوا۔اس کی تائیدمیں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ واقعہ افک کے سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ اورسعد رضی اللہ عنہ بن معاذکے جھگڑے کا ذکر آتا ہے اور تمام معتبر روایات کی روسے حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکاانتقال غزوہ بنی قریظہ میں ہواتھاجس کازمانہ وقوع غزوہ احزاب کے متصلاًبعدہے ،لہذا چھ ہجری میں ان کے موجود ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ دوسری طرف محمدبن اسحاق کابیان ہے کہ غزوہ احزاب شوال پانچ ہجری کاواقعہ ہے اورغزوہ بنی المصطلق شعبان چھ ہجری کا۔اس کی تائیدوہ کثیرالتعداد معتبر روایات کرتی ہیں جواس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اوردوسرے لوگوں سے مروی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ واقعہ افک سے پہلے احکام حجاب نازل ہوچکے تھے اوروہ سورہ احزاب میں پائے جاتے ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کانکاح ہوچکا تھا اوروہ غزوہ احزاب کے بعدذی القعدہ پانچ ہجری کاواقعہ ہے اورسورہ احزاب میں اس کابھی ذکر آتاہے ،علاوہ بریں ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بہن حمنہ بنت حجش نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پرتہمت لگانے میں محض اس وجہ سے حصہ لیا تھاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی بہن کی سوکن تھیں اورظاہر ہے کہ بہن کی سوکن کے خلاف اس طرح کے جذبات پیداہونے کے لئے سوکناپے کا رشتہ شروع ہونے کے بعدکچھ نہ کچھ مدت درکارہوتی ہے ،یہ سب شہادتیں ابن اسحاق کی روایت کومضبوط کردیتی ہیں ،اس روایت کوقبول کرنے میں صرف یہ چیزمانع ہوتی ہے کہ واقعہ افک کے زمانے میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکی موجودگی کاذکرآیاہے مگراس مشکل کو جو چیزرفع کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکاذکرہے اوربعض میں ان کے بجائے حضرت اسیدبن حضیرکا،اوریہ دوسری روایت ان دوسرے واقعات کے ساتھ پوری طرح مطابق ہوجاتی ہے جواس سلسلہ میں خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہیں ورنہ محض سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ کے زمانہ حیات سے مطابق کرنے کی خاطر اگرغزوہ بنی المصطلق اورقصہ افک کوغزوہ احزاب وقریظہ سے پہلے کے واقعات مان لیاجائے تواس پیچیدگی کاکوئی حل نہیں ملتا کہ پھرآیت حجاب کا نزول اورنکاح زینب رضی اللہ عنہا کاواقعہ اس سے بھی پہلے پیش آنا چاہیے ، حالانکہ قرآن اور کثیر التعدادروایات صحیحہ دونوں اس پرشاہدہیں کہ نکاح زینب رضی اللہ عنہا اورحکم حجاب احزاب وقریظہ کے بعد کے واقعات ہیں اسی بنا پر ابن حزم رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ اور بعض دوسرے محققین نے محمد بن اسحاق کی روایت ہی کوصحیح قراردیاہے اور ہم بھی اسی کوصحیح سمجھتے ہیں ۔[120]

سورۂ الحدید

یہ بالاتفاق مدنی سورۂ ہے اوراس کے مضامین پرغورکرنے سے محسوس ہوتاہے کہ غالباً یہ جنگ احداورصلح حدیبیہ کے درمیان کسی زمانے میں نازل ہوئی ہے ، وہی زمانہ تھاجب مدینہ کی مختصرسی اسلامی ریاست کوہرطرف سے کفارنے اپنے نرغے میں لے رکھاتھااورسخت بے سروسامانی کی حالت میں اہل ایمان کی مٹھی بھرجماعت پورے عرب کی طاقت کامقابلہ کررہی تھی ،اس حالت میں اسلام کواپنے پیروکاروں سے صرف جانی قربانی ہی درکارنہ تھی بلکہ مالی قربانی بھی درکارتھی ،اوراس سورۂ میں اسی قربانی کے لئے پر زوراپیل کی گئی ہے ،اس قیاس کوآیت ۱۰ مزیدتقویت پہنچاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جماعت کوخطاب کرکے فرمایاہے کہ فتح کے بعدجولوگ اپنے مال خرچ کریں گے اوراللہ کی راہ میں جنگ کریں گے وہ ان لوگوں کے برابرکبھی نہیں ہوسکتے جو فتح سے پہلے جان ومال کی قربانیاں دیں ،اوراسی کی تائیدحضرت انس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن مردویہ نے نقل کیاہے وہ آیت

 اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِہ

کے متعلق فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کے آغازسے سترہ برس بعداہل ایمان کوجھنجھوڑنے والی یہ آیت نازل ہوئی ، اس حساب سے اس کازمانہ نزول چار ہجری اورپانچ ہجری کے درمیان قرارپاتاہے۔[121]

سورةالمائدہ

سورۂ کے مضامین سے ظاہرہوتاہے اورروایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد چھ ہجری کے اواخریاسات ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے ، ذی القعدہ چھ ہجری کاواقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ہمراہ عمرہ اداکرنے کے لئے مکہ تشریف لے گئے ،مگرکفارقریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپ کوعمرہ نہ کرنے دیااوربڑی روکدکے بعدیہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ زیارت کے لئے آ سکتے ہیں اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کوایک طرف زیارت کعبہ کے لئے سفرکے آداب بتائے جائیں تاکہ آئندہ سال عمرے کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہو سکے اوردوسری طرف انہیں تاکیدکی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کوعمرہ سے روک کرجوزیادتی کی ہے اس کے جواب میں وہ خود کوئی ناروازیادتی نہ کریں اس لئے کہ بہت سے کافرقبیلوں کے حج کاراستہ اسلامی مقبوضات سے گزرتاتھااورمسلمانوں کے لئے یہ ممکن تھاکہ جس طرح انہیں زیارت کعبہ سے روکاگیاہے اسی طرح وہ بھی ان کوروک دیں ۔یہی تقریب ہے اس تمہیدی تقریرکی جس سے اس سورۂ کا آغاز ہواہے ۔آگے چل کر تیرھویں رکوع میں پھراسی مسئلہ کوچھیڑاگیاہے جواس بات کاثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلہ تقریر چل رہاہے ، اس کے علاوہ جودوسرے مضامین اس سورۂ میں ہم کوملتے ہیں وہ بھی سب کے سب اسی دورکے معلوم ہوتے ہیں ۔بیان کے تسلسل سےغالب گمان یہی ہوتاہے کہ یہ پوری سورۂ ایک ہی خطبہ پرمشتمل ہے جوبیک وقت نازل ہواہوگا،ہوسکتاہے کہ متفرق طورپراس کی بعض آیتیں بعدمیں نازل ہوئی ہوں اور مضمون کی مناسبت سے اس کواس سورۂ میں مختلف مقامات پرپیوست کردیاگیاہو،لیکن سلسلہ بیان میں کہیں کوئی خفیف ساخلابھی محسوس نہیں ہوتاجس سے یہ قیاس کیا جا سکے کہ یہ سورۂ دویاتین خطبوں کامجموعہ ہے۔[122]


۷ہجرت نبوی

سورۂ التحریم

اس میں تحریم کے جس واقعہ کاذکرکیاگیاہے اس کے متعلق احادیث کی روایات میں دوخواتین کاذکرآیاہے جواس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں تھیں ، ایک حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا دوسری حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ،ان میں سے ایک یعنی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فتح خیبرکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور خیبر کی فتح بالاتفاق سات ہجری میں ہوئی ہے ،دوسری خاتون حضرت ماریہ کو سات ہجری میں مصرکے فرمانروامقوقس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور ان کے بطن سے ذی الحجہ آٹھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندحضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پیداہوئے تھے ،ان تاریخی واقعات سے یہ بات قریب قریب متعین ہو جاتی ہے کہ اس سورہ کانزول سات ہجری یاآٹھ ہجری کے دوران میں کسی وقت ہواہے۔[123]


۸ہجرت نبوی

سورۂ الممتحنہ

اس میں دوایسے معاملات پرکلام فرمایاگیاہے جن کازمانہ تاریخی طورپرمعلوم ہے ،پہلامعاملہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کاہے جنہوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پرحملہ کرنے والے ہیں ،اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کاہے جوصلح حدیبیہ کے بعدمکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آنے لگی تھیں اوران کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھاکہ شرائط صلح کی روسے مسلمان مردوں کی طرح کیاان عورتوں کوبھی کفارکے حوالہ کردیاجائے ؟ان دومعاملات کے ذکرسے یہ بات قطعی طورپرمتعین ہوجاتی ہے کہ یہ سورةصلح حدیبیہ اورفتح مکہ کے درمیانی دورمیں نازل ہوئی ہے ،ان کے علاوہ ایک تیسرامعاملہ بھی ہے جس کاذکرسورة کے آخر میں آیاہے اوروہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لاکربیعت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوں توآپ ان سے کن باتوں کاعہد لیں ، اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہواہے ،کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعدادمیں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اوراسی موقع پریہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طورپران سے عہدلیاجائے۔[124]

سورة الفتح

روایات اس پرمتفق ہیں کہ اس کانزول ذی قعدہ ۶ ہجری میں اس وقت ہواتھاجب آپ کفارمکہ سے صلح حدیبیہ کامعاہدہ کرنے کے بعدمدینہ واپس تشریف لے جارہے تھے۔[125]


۹ ہجرت نبوی

سورۂ الحجرات

یہ بات روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے اورسورۂ کے مضامین بھی اس کی تائیدکرتے ہیں کہ یہ سورةمختلف مواقع پرنازل شدہ احکام وہدایات کا مجموعہ ہے جنہیں مضمون کی مناسبت سے یک جاکردیاگیاہے ۔علاوہ بریں روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے اکثراحکام مدینہ طیبہ کے آخری دورمیں نازل ہوئے ہیں ، مثلا ًآیت نمبر۴ کے متعلق مفسرین کابیان ہے کہ یہ بنی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن کے وفدنے ازواج مطہرات کے حجروں کے باہرسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارناشروع کر دیا تھا ، اور تمام کتب سیرت میں اس وفدکی آمدکازمانہ نو ہجری بیان کیاگیاہے ۔اسی طرح آیت نمبر چھ کے متعلق حدیث کی بکثرت روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ولیدبن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی،جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی المصطلق سے زکاة وصول کرنے کے لئے بھیجاتھا اوریہ بات معلوم ہے کہ ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے موقع پرمسلمان ہوئے ہیں ۔[126]

سورةالتوبہ

یہ سورہ تین تقریروں پرمشتمل ہے:

xپہلی تقریرآغازسورہ سے پانچویں رکوع کے آخرتک چلتی ہے ،اس کازمانہ نزول ذی القعدہ نوہجری یااس کے لگ بھگ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوامیرحج مقررکرکے مکہ روانہ کرچکے تھے کہ یہ تقریرنازل ہوئی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًعلی رضی اللہ عنہ کوان کے پیچھے بھیجا تاکہ حج کے موقع پرتمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اوراس کے مطابق جوطرزعمل تجویزکیاگیاتھااس کااعلان کردیں ۔

xدوسری تقریر رکوع چھ کی ابتدا سے رکوع نو کے اختتام تک چلتی ہے اوریہ رجب نوہجری یااس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کی تیاری کررہے تھے ، اس میں اہل ایمان کو جہادپراکسایاگیاہے اوران لوگوں کوسختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جونفاق یاضعف ایمان میں سستی وکاہلی کی وجہ سے راہ للہ میں جان ومال کازیاں برداشت کرنے سے جی چرارہے تھے۔

xتیسری تقریررکوع دس سے شروع ہوکرسورۂ کے ساتھ ختم ہوتی ہے اوریہ غزوہ تبوک سے واپسی پرنازل ہوئی ،اس میں متعددٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پراترے اوربعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ الہی سے ان سب کویکجا کرکے ایک سلسلہ تقریرمیں منسلک کردیا،مگرچونکہ وہ ایک ہی مضمون اورایک ہی سلسلہ واقعات سے متعلق ہیں اس لئے ربط تقریرمیں کہیں خلل نہیں پایاجاتا،اس میں منافقین کی حرکات پرتنبیہ ،غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پرزجروتوبیخ اوران صادق الایمان لوگوں پرملامت کے ساتھ معافی کااعلان ہے جو اپنے ایمان میں سچے تو تھے مگر جہادفی سبیل اللہ میں حصہ لینے سے بازرہے تھے۔ نزولی ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخرمیں آنی چاہئے لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی اس لئے مصحف کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوپہلے رکھا اوربقیہ دونوں تقریروں کوموخرکردیا۔[127]


۱۰ ہجرت نبوی

سورۂ النصر

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما بن عباس کابیان ہے کہ یہ قرآن مجیدکی آخری سورۂ ہے یعنی اس کے بعدکوئی مکمل سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل نہیں ہوئی (مسلم ،نسائی ، طبرانی ، ابن ابی شیبہ ،ابن مردویہ )حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ یہ سورت حجة الوداع کے موقع پرایام تشریق کے وسط میں بمقام منیٰ نازل ہوئی اوراس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوارہوکراپنامشہورخطبہ ارشادفرمایا(ترمذی،بزار،بیہقی،ابن ابی شیبہ،ابویعلیٰ،ابن مردویہ )۔[128]

تمام محققین اپنی تحقیق کے مطابق صرف سورتوں کی ترتیب بیان کرتے ہیں مگران پرکچھ بحث نہیں کرتے کہ آخریہ ترتیب کیسے تیارکی گئی جبکہ سید ابواعلی مودودی رحمہ اللہ ممکن حدتک سورتوں کی ترتیب بیان کرتے ہوئے بحث کرتے ہیں اس لئے ہم نے انہی کی بیان کردہ ترتیب کواختیارکرنے کی کوشش کی ہے ،اورآسان اورعام فہم ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں انہی کاترجمہ اختیارکیاہےجبکہ قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے مولاناجوناگڈھی کاکاترجمہ اختیارکیاہے ۔۔

[1] محمد۱۷

[2] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ جَامِعِ صَلَاةِ اللَّیْلِ، وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ۱۷۳۹

[3] مسنداحمد۲۵۳۰۲،صحیح مسلم کتاب المسافرین باب جامع صلاة اللیل ومن نام عنہ او مرض۱۷۳۹

[4] شعب الایمان۱۳۶۰

[5] الاتقان فی علوم القرآن۴۲تا۸۴؍۱

[6] تفسیرالخازن۔لباب التأویل فی معانی التنزیل۹،۱۰؍۱

[7] دلائل النبوة للبیہقی۱۴۲؍۷

[8] ۔الموسوعة القرآنیة۷؍۲

[9] المعجم الکبیر للطبرانی ۵۸۰۴

[10]انوارالقرآن

[11] تفہیم القران۳۹۲؍۶

[12] تفہیم القرآن ۳۶۸؍۶

[13] تفہیم القرآن۱۳۸؍۶

[14] تفہیم القرآن۴۰۲؍۶

[15]تفہیم القرآن ۴۱۰؍۶

[16] تفہیم القرآن۳۷۶؍۶

[17] القیامة ۱۶تا۱۹

[18] تفہیم القران ۳۰۸؍۶

[19] تفہیم القران ۱۶۰؍۶

[20] تفہیم القران ۱۸۰؍۶

[21] تفہیم القران ۲۷۲؍۶

[22] تفہیم القران ۲۰۶؍۶

[23] تفہیم القران ۲۲۰؍۶

[24] تفہیم القران ۲۳۶؍۶

[25] تفہیم القران ۲۶۲؍۶

[26] تفہیم القران ۲۷۲؍۶

[27] تفہیم القران ۳۱۸؍۶

[28] تفہیم القران ۳۸۴؍۶

[29] تفہیم القران ۴۱۸؍۶

[30] تفہیم القران ۴۲۸؍۶

[31] تفہیم القران ۴۳۴؍۶

[32] تفہیم القران ۴۴۰؍۶

[33] تفہیم القران ۴۴۸؍۶

[34] تفہیم القران ۴۵۶؍۶

[35] تفہیم القران ۴۶۲؍۶

[36] تفہیم القران ۴۷۴؍۶

[37] تفہیم القران ۵۳۲؍۶

[38] تفہیم القران ۳۸؍۶

[39] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن سورۂ عبس ۳۳۳۱،مستدرک حاکم ۳۸۹۶، صحیح ابن حبان۵۳۵، تفسیرطبری۲۱۷؍۲۴، مسندابی یعلی۴۸۴۸

[40] تفسیر طبری۲۱۸؍۲۴،تفسیرابن ابی حاتم محققا۱۹۱۲۵، ۳۳۹۹؍۱۰، تفسیرقرطبی ۲۱۲؍۱۹

[41] تفسیرطبری۲۰۱؍۲۴

[42] تفہیم القران ۲۵۰؍۶

[43] تفہیم القرآن ۱۲۴؍۶

[44] تفہیم القران ۱۷۲؍۴

[45] تفہیم القران ۲۷۸؍۶

[46] تفہیم القران ۱۶۰؍۵

[47] تفہیم القران ۲۸۶؍۶

[48] تفہیم القران ۷۰؍۶

[49] تفہیم القران ۸۴؍۶

[50] تفہیم القران ۱۰۶؍۵

[51] تفہیم القران ۱۳۰؍۵

[52] تفہیم القران ۹۶؍۶

[53] تفہیم القران ۳۴۸؍۶

[54] تفہیم القران ۳۵۸؍۶

[55] تفہیم القران ۵۶؍۶

[56] تفہیم القران ۳۲۴؍۶

[57] تفہیم القران ۳۲؍۴

[58] تفہیم القران ۶؍۴

[59] تفہیم القران ۳۳۶؍۶

[60] تفہیم القران ۲۱۶؍۴

[61] تفہیم القران ۲۷۶؍۴

[62] تفہیم القران ۳۱۶؍۴

[63] تفہیم القران ۲۹۴؍۶

[64] تفہیم القران ۵۰۰؍۶

[65] تفہیم القران ۵۴۶؍۶

[66] تفہیم القران۵۴۶؍۶

[67] تفہیم القران ۶؍۳

[68] روح المعانی ۲۲۶؍۲۳۔تفہیم القران ۳۵۴؍۴

[69] تفہیم القران ۳۸۸؍۴

[70] تفہیم القران ۵۲؍۳

[71] تفہیم القران ۶۷۲؍۳

[72] تفہیم القران ۸۴؍۳

[73] تفہیم القران ۲۷۴؍۵

[74] روح المعانی ۶۴؍۱۹

[75] تفہیم القران ۴۷۴؍۳

[76] تفہیم القران ۵۵۲؍۳

[77] تفہیم القران ۶۱۰؍۳

[78] تفہیم القران ۷۲۴؍۳

[79] تفہیم القران ۱۸۸؍۵

[80] تفہیم القران ۴۳۴؍۴

[81] تفہیم القران ۴۷۴؍۴

[82] مسنداحمد،جامع ترمذی ،سنن نسائی ،مستدرک حاکم ۔ تفہیم القران ۲۵۸؍۳

[83] ابن جریر۲۸،۳۰؍۱۹ ،تفسیرکبیر۳۵۸؍۶۔تفہیم القران ۴۳۰؍۳

[84] تفہیم القران ۱۴۲؍۳

[85] تفہیم القران ۵۲۰؍۴

[86] تفہیم القران ۵۵۶؍۴

[87] تفہیم القران ۵۷۶؍۴

[88] تفہیم القران ۳۰۲؍۶

[89] تفہیم القران ۲۴۴؍۴

[90] تفہیم القران ۵۲۰؍۶

[91] تفہیم القران ۲۲۶؍۵

[92] تفہیم القران ۲۲۶؍۵

[93] ابن ہشام ۳۳۶؍۱۔تفہیم القران ۲۴۴؍۵

[94] تفہیم القران ۳۲۰؍۲

[95] تفہیم القران ۲۵۸؍۲

[96] تفہیم القران ۵۹۶؍۴

[97] تفہیم القران ۴۴۰؍۲

[98] تفہیم القران۴۶۸؍۲

[99] تفہیم القران ۴۹۶؍۲

[100] تفہیم القران ۵۸۶؍۲

[101] تفہیم القران ۴۸۸،۴۸۹؍۶

[102] تفہیم القران ۵۲۲؍۲

[103] تفہیم القران ۵۲۰؍۱

[104] تفہیم القران ۵؍۲

[105] تفہیم القران۳۷۸؍۲

[106] تفہیم القران ۱۹۶؍۳

[107] تفہیم القران ۴۸۲؍۵

[108] تفہیم القران ۵۲۴؍۵

[109] تفہیم القران ۴۲؍۱

[110] تفہیم القران ۶؍۵

[111] تفہیم القران ۱۱۸؍۲

[112] تفہیم القران ۴۸۰؍۶

[113]تفہیم القران

[114] تفہیم القران ۲۲۸؍۱

[115] تفہیم القران ۳۱۶؍۱

[116] تفہیم القران ۵۵۰؍۵

[117] تفہیم القران ۳۷۰؍۵

[118] تفہیم القران ۳۳۶؍۵

[119] تفہیم القران ۵۰۸؍۵

[120] تفہیم القران ۳۰۶؍۳

[121] تفہیم القران ۲۹۸؍۵

[122] تفہیم القران ۴۳۴؍۱

[123] تفہیم القرآن ۱۰؍۶

[124] تفہیم القران ۴۲۰؍۵

[125] تفہیم القران ۳۴؍۵

[126] تفہیم القران ۶۸؍۵

[127] تفہیم القران ۱۶۶؍۲

[128] تفہیم القران ۵۱۲؍۶

Related Articles