بعثت نبوی کا اٹھواں سال

 مضامین سورۂ اللہب

مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ میں  اسلام مخالف لوگوں  کی کمی نہیں  تھی مگرقرآن مجیدمیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا

اسْمُهُ: عَبْدُ العُزّى بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَكُنْیَتُهُ أَبُو عُتبة. وَإِنَّمَا سُمِّیَ أَبَا لَهَبٍ لِإِشْرَاقِ وَجْهِهِ

جن کا نام عبدالعزیٰ بن عبد المطلب اورجس کی کنیت ابوعتبہ تھی ،مگرچہرے کی خوبصورتی اورسرخ وسفیدرنگت کی وجہ سے ابولہب کہاجاتاتھا۔

کی مذمت کی گئی ہے،اس کی کئی وجوہات ہیں ۔

نبوت کے ابتدائی دورمیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کودعوت اسلام عام کرنے کاحکم دیاگیاسب سے پہلے اپنے قریب ترین رشتہ داروں  ، عزیزوں  کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قریش کوجمع کرنے کے لئے صبح کوہ صفاپرچڑھ کربلند آواز سے یاصباہ یاصباہ پکارا،عرب میں  یہ صداخطرے کی علامت سمجھی جاتی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی آواز پہچان کرقریش کے تمام خاندان وہاں  اکٹھے ہوگئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمام قبیلوں  کو مخاطب کر کے فرمایااے بنی ہاشم ، اے بنی عبدالمطلب ،اے بنی فہر ، اے بنی فلاں ،اے بنی فلاں

أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَیْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ؟ قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَیْكَ كَذِبًا،قَالَ:فَإِنِّی نَذِیرٌ لَكُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ،فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ

اگرمیں  تمہیں  خبردارکروں  کہ اس پہاڑکے پیچھے سے ایک لشکرتم پر حملہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے تو کیا تم میری تصدیق کروگے ؟ سبھی نے ایک زبان ہوکر کہا کیوں  نہیں ،ہم نے آپ کوکبھی جھوٹ بولتے نہیں  سنا، لوگوں  کاجواب سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتومیں  تمہیں  تمہارے اعمال کے سبب اللہ کے آنے والے اللہ کے سخت عذاب سے خبردارکرتاہوں ،ابھی بات یہیں  تک پہنچی تھی کہ ابولہب بولا تیرے  ہاتھ ٹوٹ جائیں !کیاتونے اس بات کے لئے ہمیں  جمع کیا۔[1]

کہاجاتاہے کہ ابولہب نے یہ گستاخی کی کہ غصہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مارنے کے لئے پتھراٹھایا،اس کے بعدجب بھی اسے موقع ملتاوہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواذیت اورتکلیف پہنچانے سے گریزنہ کرتاتھا۔

كَانَتْ رُقَیّةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ عُتْبَةَ بْنِ أَبِی لَهَبٍ، وَأُمّ كُلْثُومٍ تَحْتَ عُتَیْبَةَ، فَطَلّقَاهُمَا بِعَزْمِ أَبِیهِمَا عَلَیْهِمَا وَأُمّهِمَا

نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دوبیٹیوں  میں  سے رقیہ  رضی اللہ عنہا کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سےاور ام کلثوم  رضی اللہ عنہا  کا نکاح عتیبہ سے ہو چکا تھا مگرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعوت اسلام دینی شروع کی تواس نے اپنے بیٹوں  سے کہاکہ جب تک تم دونوں  کوطلاق نہ دے دومیراتم سے ملناحرام ہے ،چنانچہ ان دونوں  نے ماں  باپ کے کہنے پراس عظیم نعمت کوٹھکرادیا ۔[2]

ثُمَّ تَفَلَ فِی وَجْهِهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَیْهِ ابْنَتَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ سَلِّطْ عَلَیْهِ كَلْبًا مِنْ كِلَابِكَ , فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ وَخَرَجُوا إِلَى الشَّامِ فَنَزَلُوا مَنْزِلًا فَأَشْرَفَ عَلَیْهِمُ الرَّاهِبُ مِنَ الدَّیْرِ , فَقَالَ لَهُمْ: هَذِهِ أَرْضُ مَسْبَعَةٍ فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَعِینُونَا هَذِهِ اللَّیْلَةَ فَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْهِ دَعْوَةَ مُحَمَّدٍ فَجَمَعُوا أَحْمَالَهُمْ فَفَرَشُوا لعُتَیْبَةُ عَلَیْهَا وَنَامُوا حَوْلَهُ فَجَاءَ الْأَسَدُ فَجَعَلَ یَتَشَمَّمُ وُجُوهَهُمْ ثُمَّ ثَنَى ذَنَبَهُ فَوَثَبَ فَضَرَبَهُ بِیَدَیْهِ ضَرْبَةً فَأَخَذَهُ فَخَدَشَهُ

اور اس کابیٹاعتیبہ توحدہی پارکرکے گیاایک دن اس نےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پرتھوک دیاجوآپ پرنہیں  پڑا،جس پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اللہ تعالیٰ سے بد دعاکی اے پروردگار! اپنے کتوں  میں  سے ایک کتااس پرمسلط کر دے،  اس کے بعدعتیبہ اپنے والدکے ساتھ شام روانہ ہوگیا،سفرکے دوران قافلہ نے ایک ایسی جگہ پڑاؤکیاجہاں  درندوں  کی بھرمارتھی،ابولہب کوکہاگیاکہ یہاں  درندوں  کی بھرمارہے،ابولہب کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بددعاکاعلم تھااسے خوب علم تھاکہ آپ کی دعارائیگاں  نہیں  جائے گی اس لئے درندوں  کاسن کراسے اپنے بیٹے کی زندگی کو خطرہ محسوس ہوا تواس نے کہا اے گروہ قریش !آج رات خبردار رہنا مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بدعا کے بارے میں  خطرہ ہےچنانچہ ساتھیوں  نے درندوں  سے حفاظت کے لئے رات کے وقت عتیبہ کے چاروں  طرف اونٹ بیٹھادیے اوربے فکرہوکر سوگئے ،رات کواللہ کے حکم سے ایک شیراس تک سونگتا ہوا پہنچا اور پلک جھپکتے ہی اپنے پنجوں  سے اسے چھیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ [3]

یہ ضعیف ومضطرب روایت ہے۔(مشہورواقعات کی حقیقت۱۴۹)

ابولہب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا قریب ترین ہمسایہ تھا،اس کے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھرکے درمیان ایک دیوارواقع تھی،اس کے علاوہ حکم بن عاص (مروان کاوالد) عقبہ بن ابی معیط،عدی بن حمرا ،ابن الاصداء الہذلی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے ہمسائے تھے ، مگرحق ہمسائیگی اداکرنے کے بجائے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کوخوب ستاتے،کبھی یہ لوگ صحن میں  پکتے سالن میں  غلاظت پھینک دیتے،

یَطْرَحُ عَلَیْهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَحِمَ الشَّاةِ وَهُوَ یُصَلِّی،وَكَانَ أَحَدُهُمْ یَطْرَحُهَا فِی بُرْمَتِهِ  إذَا نُصِبَتْ لَهُ، یَخْرُجُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعُودِ، فَیَقِفُ بِهِ عَلَى بَابِهِ، ثُمَّ یَقُولُ: یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ، أَیُّ جِوَارٍ هَذَا! ثُمَّ یُلْقِیهِ فِی الطَّرِیقِ

کبھی نمازکی حالت میں  آپ پر اوپرسے بکری کی اوجھڑی اورآنتیں  پھینک دیتے، کوئی اپنے گھرکاکوڑارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرڈال دیتا، جب کوئی شخص ایسی چیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ڈالتاتوآپ اس کولے کردروازے پرآتے اوران لوگوں  سے فرماتے اے بنی عبدمناف! یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟پھراس کوراستہ پرڈال دیتے۔[4]

ابوسفیان کی بہن اردیٰ جوابولہب کی بیوی تھی اوراس کی کنیت ام جمیل تھی وہ بھی کفروعناداورسرکشی و دشمنی میں  اپنے شوہرسے کسی طرح کم نہ تھی،

تَحْمِلُ الشَّوْكَ فَتَطْرَحَهُ عَلَى طَرِیقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَیْثُ یَمُرُّ

اس کاتومستقل وطیرہ ہی یہ تھاکہ رات کوآپ کے گھرکے دروازے پر خار دارجھاڑیاں  لاکرڈال دیتی تاکہ صبح اندھیرے میں  جب آپ باہرنکلیں  تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاؤں  میں  چبھیں  جس سے آپ کوتکلیف پہنچے۔[5]

عَنْ رَبِیعَةَ بْنِ عِبَادٍ، قَالَ:وَاللَّهِ إِنِّی لَأَذْكُرُهُ یَطُوفُ عَلَى الْمَنَازِلِ بِمِنًى، وَأَنَا مَعَ أَبِی غُلَامٌ شَابٌّ، وَوَرَاءَهُ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، أَحْوَلُ ذُو غَدِیرَتَیْنِ، كُلَّمَا وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ قَالَ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، یَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَیَقُولُ الَّذِی خَلْفَهُ: إِنَّ هَذَا یَدْعُوكُمْ إِلَى أَنْ تُفَارِقُوا دِینَ آبَائِكُمْ، وَأَنْ تَسْلُخُوا اللَّاتَ وَالْعُزَّى، وَحُلَفَاءَكُمْ مِنْ بَنِی مَالِكِ بْنِ أُقَیْشٍ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ مِنَ الْبِدْعَةِ وَالضَّلَالِ،قَالَ: فَقُلْتُ لِأَبِی: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عَمُّهُ أَبُو لَهَبٍ عَبْدُ الْعُزَّى بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

ربیعہ سے مروی ہےمیں  نے نوجوانی میں  اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو ذی المجاز نامی بازار میں  لوگوں  کے مختلف قبیلوں  میں  جاجا کر ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے ایک بھینگا آدمی بھی تھا اس کی رنگت اجلی اور بال لمبے تھے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک قبیلے کے پاس جا کر رکتے اور فرماتے اے بنی فلاں  میں  تمہاری طرف اللہ کا پیغمبر ہوں  میں  تمہیں  حکم دیتاہوں  کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کروتاکہ اللہ کا پیغام پہنچاسکوں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب اپنی بات سے فارغ ہوتے تو وہ آدمی پیچھے سے کہتا اے بنوفلاں  یہ شخص چاہتاکہ تم سے لات عزی اور تمہارے حلیف قبیلوں  کو چھڑا دے اور اپنے نوایجاد دین کی طرف تمہیں  لے جائے اس لیے تم اس کی بات نہ سننا اور نہ اس کی پیروی کرنا، میں  نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ پیچھے والا بھینگا آدمی کون ہے لوگوں  نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب ہے۔[6]

اس کے علاوہ یہ آپ کوپتھر مارتا جس سے آپ کی ایڑیاں  خون سے ترہو جاتیں  ۔

الولہب کے خبث نفس کایہ حال تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پہلے بیٹے قاسم کے بعدجب دوسرے بیٹے عبداللہ کی وفات ہوئی تواپنے حقیقی بھتیجے کے غم میں  شریک ہونے کے بجائے خوشی خوشی قریشی سرداروں  کے پہنچااور کہا آج محمدبے نام ونشان ہوگئے ہیں ۔

دورجاہلیت میں  پورے عرب میں  قتل وغارت اورطوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی ، کسی شخص کے لئے اپنے خاندان اورخونی رشتہ داروں  کی حمایت کے سواجان ومال اورعزت وآبرومحفوظ نہ تھی ،اس لئے صلہ رحمی کوبڑی اہمیت حاصل تھی اورقطع رحمی کوبہت بڑاگناہ تصورکیاجاتاتھااسی وجہ سے خاندان کے کسی فردکوکسی حالت میں  دشمنوں  کے حوالے نہیں  کیاجاتاتھا،مگر جب قریش نے بنو ہاشم اور بنی عبدالمطلب کامعاشی مقاطعہ کیا تو شعب بنوہاشم میں یہ دونوں  خاندان خونی رشتہ کی بناپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حمایت پرثابت قدم رہے حالاں  کہ ان میں  کئی لوگ مسلمان نہیں  ہوئے تھے مگرتنہا ابولہب نے خاندانی آداب وروایات کے مطابق اپنے خاندان کاساتھ نہیں  دیابلکہ تین سال تک قریش کے کندھے کے ساتھ کندھاملاکر کھڑا رہا اور مردوں ،عورتوں ،بچوں  اوربوڑھوں  کی حالت زارپرخوش ہوتارہا ، ان وجوہات کی بناپراس سورۂ میں  اس کانام لے کرمذمت کی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ وَتَبَّ ‎﴿١﴾‏ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ‎﴿٢﴾‏ سَیَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ‎﴿٣﴾‏ وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ‎﴿٤﴾‏ فِی جِیدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ ‎﴿٥﴾‏(اللہب)
’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا، نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی، وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا اور اس کی بیوی بھی (جائے گی) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے، اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے پشین گوئی فرمائی کہ قریش کے سرداراورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاچچا ابولہب کے دونوں  ہاتھ ٹوٹ گئے اوروہ ہلاک وبربادہوگیا ،چنانچہ یہ بات پوری ہوکررہی ،اس سورۂ کے نزول پرسات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ غزوہ بدرمیں  قریش کے ستربڑے بڑے سردارجہنم واصل ہو گئے ،جب مکہ میں  قریش کی شکست کی خبرپہنچی توابولہب کواپنے ساتھیوں  کے قتل کااتنارنج ہواکہ ایک ہفتہ سے زیادہ نہ رہ سکااوران کے ساتھ جہنم میں  داخل ہوگیا اس کی موت بھی بڑی عبرتناک تھی،اسے عدسیہ(طاعون کی طرح ایک گلٹی) کی بیماری ہوگئی،اس مہلک بیماری کی وجہ سے اس کے گھروالوں  نے اس سے دوری اختیارکرلی،چنانچہ اس کے مرنے کے بعد تین دن تک اس کی لاش پڑی رہی اور چھوت کے خوف سے اس کا کوئی بیٹابھی اس کے قریب نہیں  گیا،اس عرصہ میں  لاش سڑگئی اوراس کی بوپھیلنے لگی اور لوگوں  نے اس کے بیٹوں  کوطعنے دینے شروع کیے،

توایک روایت کے مطابق کچھ حبشیوں  نے اجرت لیکر اس کی لاش اٹھائی اورانہوں  نے ہی اس کودفن کردیا۔

ایک روایت ہے کہ بیٹوں  نے ایک گڑھاکھدوایااوردورسے لکڑیوں  کی مدد سے اس کی لاش کودھکیل کراس گھڑے میں  پھینکا اوراوپرسے مٹی پتھرڈال کرگڑھابرابرکردیا،یعنی اولادنے دولت مندہاشمی سردارکا عزت سے جنازہ تک نہ اٹھایا۔

ابولہب سخت بخیل اور زرپرست انسان تھا،وہ قریش کے ان چارلوگوں  میں  سے ایک تھاجوایک قنطارسونے کے مالک تھے (ایک قنطارمیں دوسواوقیہ ہوتے ہیں ،اورایک اوقیہ سواتین تولہ کا ہوتا ہے )یعنی تقریبا۵۷۵تولہ سونااس کے پاس موجودتھامگرجب اللہ نے اس پرگرفت کی تو اس کی کمائی ہوئی دولت جس نے اس کوسرکش بنادیاتھااس کے کام آئی اورنہ ہی اس کی اولاد ، جس دین کوروکنے کے لئے اس نے سردھڑکی بازی لگارکھی تھی اسی دین کواس کی اولادنے قبول کرلیا،سب سے پہلے اس کی بیٹی درہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچی اوراسلام قبول کرلیا، پھر فتح مکہ کے موقع پراس کے دونوں  بیٹے عتبہ اورمعتب نے بھی اسلام قبول کرلیا۔

عنقریب وہ اپنی بیوی کے ساتھ جو چغلیاں  کھاکر فسادکی آگ بھڑکانے والی اورگناہ اورظلم میں  اپنے خاوندکے ساتھ تعاون کرنے والی ہے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں  داخل کیا جائے گا،وہ اپنے گلے میں  ایک نفیس ہارپہنے رکھتی تھی اورکہتی تھی کہ میں  اسے فروخت کرکے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت میں  خرچ کروں  گی ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جہنم میں اس کے گلے میں  کھجور،یامونجھ یااونٹ کے بالوں سے خوب مضبوط بٹی ہوئی رسی ہوگی۔

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:لَمَّا نَزَلَتْ {تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَب وَتبٍ}جَاءَتِ الْعَوْرَاءُ أُمُّ جَمِیلٍ وَلَهَا ولوَلة، وَفِی یَدِهَا فِهْر

اسمابنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے منقول ہےجب ابولہب اوراس کی بیوی کی مذمت میں یہ سورت نازل ہوئی تویہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں  نوکدارمٹھی پتھرلئے یہ اشعارپڑھتے ہوئے تلاش میں  نکلی،

 مُذَمَّمًا ، وَأَمْرَهُ أَبَیْنَا،وَدِینَهُ قَلَیْنَا

مذمت کی ہم نے نافرمانی کی، اوراس کے حکم سے انکارکیا،اوراس کے دین کوقبول نہیں  کیا۔

وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا رَآهَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ أَقْبَلَتْ وَأَنَا أَخَافُ عَلَیْكَ أَنْ تَرَاكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّهَا لَنْ تَرَانِی، وَقَرَأَ قُرْآنًا اعْتَصَمَ بِهِ، كَمَا قَالَ تَعَالَى:وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا،  فَأَقْبَلَتْ حَتَّى وَقَفَتْ عَلَى أَبِی بَكْرٍ وَلَمْ تَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا أَبَا بَكْرٍ، إِنِّی أُخْبِرْتُ أَنَّ صَاحِبَكَ هَجَانِی؟ قَالَ: لَا وَرَبِّ هَذَا الْبَیْتِ مَا هَجَاكِ،فَوَلَّتْ وَهِیَ تَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی ابْنَةُ سَیِّدِهَا

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ  کے ساتھ مسجدمیں  تشریف فرما تھے،اسے اس حالت میں  دیکھ ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  !یہ آرہی ہے اورمجھے اندیشہ ہے کہ وہ آپ کودیکھ کرکوئی بیہودگی کرے گی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ مجھے دیکھ نہیں  سکے گی، پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خودقرآن فرماتاہے’’جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں  کے درمیان ایک (مخفی) پردہ حائل کر دیتے ہیں ۔‘‘یہ آکر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہوگئی گوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  کے پاس ہی بالکل سامنے بیٹھے ہوئے تھے لیکن قدرتی حجابوں  نے اس کی آنکھوں  پرپردہ ڈال دیااوروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کونہ دیکھ سکی،چنانچہ اس نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ  سے کہامیں  نے سناہے کہ تمہارے ساتھی نے میری ہجوکی ہے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے کہانہیں  نہیں  اس گھرکے رب کی قسم! انہوں  نے توتمہاری کوئی ہجونہیں  کی ہے،(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں  اللہ نے تمہاری ہجو کی ہے) یہ سن کروہ یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش جانتے ہیں  کہ میں  ان کے سردار کی بیٹی ہوں .[7]

ضعیف روایت ہے۔[8]

[1]  صحیح بخاری تفسیرسورۂ تبت یداابی لھب بَابُ قَوْلِهِ وَتَبَّ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ عن ابن عباسw ۴۹۷۲

[2]  الروض الانف ۱۲۸؍۵

[3] دلائل النبوةلابی نعیم ۳۸۱، ۴۵۴؍۱  

[4]  ابن ہشام۴۱۶؍۱

[5]  ابن ہشام۳۵۱؍۱

[6]  مسند احمد ۱۶۰۲۷

[7]  مستدرک حاکم ۳۳۷۶، ابن ہشام ۳۵۵؍۱، تفسیرابن ابی حاتم محققا۱۹۵۲۲،۳۴۷۲؍۱۰،تفسیرابن کثیر۵۱۶؍۸،تفسیرالقرطبی ۲۳۴؍۲۰

[8] مشہورواقعات کی حقیقت۱۵۳

Related Articles