بعثت نبوی کا اٹھواں سال

مضامین سورۂ یٰسین

سورت کے شروع میں قرآن حکیم کی قسم کھاکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کی سچائی بیان کی گئی ہے ،پھرسورۂ میں  اسلامی عقائد توحید،آخرت وغیرہ کوزوردارطریقہ پراورپوری وضاحت سے بیان کیاگیااوراس سلسلہ میں  انسان کے اپنے وجوداورمردہ زمین جسے بارش سے زندہ کردیاجاتاہے ،گردش لیل ونہاراورشمس وقمر،کشتیاں  اور جہاز جوسمندرمیں  رواں  دواں  ہوتے ہیں  سے استدلات کیے گئے ہیں ،پچھلے انبیاء اکرم کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی رسالت کے بارے میں  بھی وہی کہاگیاجوہمیشہ سے انبیاء کہتے چلے آرہے تھے کہ میں  رب کی طرف سے ہدایت یافتہ ہوں  اورتمہیں  اللہ رب العالمین کے حکم سے دنیاوی فلاح اورآخروی بھلائی کی طرف دعوت ہوں  اور میری ساری تگ ودو اور وعظ وتبلیغ بغیرکسی غرض اورلالچ کے ہے ،میں تم سے کسی بھی طرح کا معاوضہ،عہدہ اوراقتدار نہیں  مانگتا ،اس کے علاوہ اللہ کی راہ میں  اس کی رضاوخوشنودی کے لئے خرچ کرنے کی فضیلت،رب کریم نے جوان گنت نعمتیں  انسان کوعطاکی ہوئی ہیں  ان کاشکربجالانے کی تلقین فرمائی اوراس سلسلہ میں  ترغیب دیتے ہوئے فرمایاہم نے اپنے رحم وکرم سے تمہیں  سب نعمتیں  دیں  ہیں  تو اپنے اموال مساکین ویتیموں  پرخرچ کرو اورانہیں کھاناکھلاو،مکہ میں  جوکفروشرک کے علمبرداربنے ہوئے تھے اوردین کامذاق اڑانا  جن کاشیوہ تھاان کے برے انجام کوبطورعبرت بیان کیاگیاہے۔

قیامت کے بارے میں  فرمایاکہ آج یہ لوگ قیامت کوبعیدازامکان سمجھ کراس کے متعلق سوال کرتے ہیں  مگرایک وقت مقررہ پربس ایک دھماکاہوگااوراس عظیم الشان کائنات کاتمام نظام فناہوجائے گی،آج یہ کہتے ہیں  کہ ہماری بوسیدہ ہڈیوں  کوکون زندہ کرے گا،فرمایاان کووہی قادرمطلق زندہ کرے گاجس نے اس کائنات کاپیداکیاہے ،جس نے زمین کی نباتات،جمادات اورخودان کے جوڑے بنائے ہیں ،پھریہ صورکی زوردارآوازسن کریہ اپنی قبروں  سے نکل کرمیدان محشرمیں  حاکم حقیقی کی بارگاہ میں  حاضر ہوجائیں  گے کراماًکاتبین کے تیارکردہ اعمال نامہ کے علاوہ ان کے اعضاء خودان کے خلاف گواہی دیں  گے ،پھراس روزنیکوکاروں  کوجنت کے عیش وآرام اوربدکاروں  کوجہنم کاایندھن بنادیا جائے گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یس ‎﴿١﴾‏ وَالْقُرْآنِ الْحَكِیمِ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٣﴾‏ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ‎﴿٤﴾‏ تَنْزِیلَ الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ ‎﴿٥﴾‏ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ‎﴿٦﴾‏ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِیَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُونَ ‎﴿٩﴾‏ وَسَوَاءٌ عَلَیْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٠﴾‏(یٰس)
’’یٰسین،قسم ہے قرآن با حکمت کی کہ بیشک آپ پیغمبروں میں سے ہیں، سیدھے راستے پر ہیں، یہ قرآن اللہ زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے  تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے تھے، سو (اسی وجہ سے) یہ غافل ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے، ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں جس سے انکے سر اوپر الٹ گئے ہیں، اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کردی جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا سو وہ نہیں دیکھ سکتے،اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں دونوں برابر ہیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوتسلی:

مشرکین مکہ اپنے جاہلانہ خیالات میں پوری شدت سے حیات بعدازموت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کاانکارکرتے تھے،حالانکہ ابراہیم  علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام جنہیں  یہ رسول تسلیم کرتے تھے اوران کی راہ پرچلنے کے دعویٰ داربھی تھے، بشررسول ہی تھے مگراس کے باوجودقدیم قوموں  کی طرح وہ یہ عقیدہ تسلیم کرنے کوتیارہی نہ ہوتے تھے کہ کوئی بشررسول بھی ہوسکتاہے ،اورکہتے تھے۔

وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا۔۔۔۝۰۝۴۳ۧ [1]

ترجمہ:یہ منکرین کہتے ہیں  کہ تم اللہ کے بھیجے ہوئے نہیں  ہو۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے شرف وفضل کے اظہارکے لیے قسم کھاکرفرمایااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم یہ تصدیق کرتے ہیں  کہ آپ یقیناًجملہ انبیاء ومرسلین میں  شامل ہیں اوراس راستے پر ہیں  جو سیدھا منزل مقصودیعنی اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی اوراکرام وتکریم کے گھر تک پہنچانے والاہے ہے ،جیسےفرمایا:

۔۔۔ وَاِنَّكَ  لَـــتَهْدِیْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۲ۙ صِرَاطِ اللهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔۔۔۝۰۝۵۳ۧ  [2]

ترجمہ: یقیناًتم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کررہے ہو،اس خداکے راستے کی طرف جوزمین اور آسمانوں  کی ہرچیزکامالک ہے۔

اوریہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے آپ پرنازل فرمایاہے سراسرحکمت سے لبریزہے،جسے دنیا کا کوئی انسان تصنیف کرنے پر قادر نہیں  ہوسکتاآپ کی رسالت کی کھلی شہادت دے رہاہے مگراس کے باوجودجولوگ آپ کی رسالت کے منکرہیں  وہ یقینابھٹکے ہوئے ، گمراہ ہیں ،یہ تواللہ کی رحمت ومہربانی ہے کہ ان لوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے رسول کوبھیجاہے،جس پرکتاب عظیم نازل کی ہے جوزندگی کے ہرشعبے میں  انسانوں  کی رہنمائی کرتی ہے تاکہ لوگ ان ہدایات واحکامات کی روشنی میں  پاکیزہ زندگی گزاریں  اورصراط مستقیم پرچل کردنیاوآخرت میں  کامیابیوں  سے ہمکنار ہو جائیں ، چونکہ ایک عرصہ درازسے ( اسماعیل علیہ السلام کے بعد)ان میں  براہ راست کوئی پیغمبر مبعوث نہیں  کیاگیااس لئے یہ لوگ دین حق سے بے خبرہیں ، گمراہی ان پرچھاگئی ہے ،جہالت نے ان کواندھاکردیاہے اوریہ اپنے اوپراوراپنی بے وقوفی پرجگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں ،آپ اپنے فرض منصبی کے مطابق انہیں  کتاب وحکمت کی تعلیم دیں ،اور رب سے بے خوفی، شرک کے انجام،حدوداللہ سے تجاوز،قتل ناحق ،اللہ کے کمزور بندوں پرظلم وستم، یتیموں  ، بیواؤں  کی حق تلفی ،وعدہ خلافی وخیانت وغیرہ سے اللہ کی شدیدپکڑاورعذاب جہنم سے ڈرائیں ، حالانکہ اللہ جانتاہے کہ ان میں  سے اکثر لوگ جیسے ابوجہل ،عتبہ،شیبہ وغیرہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوفی،حق واضح ہونے کے باوجودحق سے انحراف ونفرت،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عنادومخالفت ، تعصبات اورکبرونخوت میں  مبتلاہوکرگمراہی کے اس مقام پرپہنچ چکے ہیں  کہ آپ انہیں  ڈرائیں  یانہ ڈرائیں  یہ ہرگزہرگز ایمان نہیں  لائیں  گے اور اپنی شامت اعمال کے نتیجے میں جنت میں  داخل ہونے سے انکارکرکے جہنم کاایندھن بنیں  گے،جیسے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙ  [3]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں  پرتیرے رب کاقول راست آگیاہے ،ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکرنہیں  دیتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عداوت اوردعوت حق سے نفرت ،تکبر ونخوت،تعصبات اور ہٹ دھرمی نے ان کواندھاکر دیا ہےجس کی وجہ سے انہیں  کھلے کھلے حقائق نظرنہیں  آتے ،اور نہ یہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں  اورنہ مستقبل کے نتائج پرکبھی غوروفکر کرتے ہیں  اوریہی چیزان کے اورایمان کے درمیان مانع اورحجاب ہے ،آخرت کاتصوران کے ذہنوں  سے نکال دیاگیاہے ، اس وجہ سے نہ یہ نصیحت قبول کرتے ہیں  اورنہ اللہ سے اپنے گناہوں  کی مغفرت طلب کرتے ہیں ۔

إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَیْبِ ۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِیمٍ ‎﴿١١﴾‏ إِنَّا نَحْنُ نُحْیِی الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاهُ فِی إِمَامٍ مُبِینٍ ‎﴿١٢﴾‏(یٰس)
’’بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بےدیکھے ڈرے، سو آپ اس کو مغفرت اور با وقار اجر کی خوش خبریاں سنا دیجئے، بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔‘‘

نامہ اعمال کی تیاری:

اے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  !جولوگ اپنی ہٹ دھرمی کی بناپر انکارواستکباراورعنادومخالفت پرجمے ہوئے ہیں ،ان کی روش سے دل برداشتہ ہوکراپنے کام سے غافل نہ ہوجائیں  بلکہ ان ہٹ دھرموں  کوچھوڑکر اپنافرض منصبی اداکرتے رہیں ،کیونکہ وعظ ونصیحت سے فائدہ تواسی شخص کوہوتاہے جوحق کی تلاش میں  سرگرداں  ہوتاہے اورجب اسے حق نظرآتاہے توخشیت الٰہی سے ڈرکرراہ راست اختیارکرتاہے،یہی لوگ ہیں  جوآپ کی رسالت سے فیض یاب اورآپ کی تعلیم سے تزکیہ نفس کرسکتے ہیں ،تم اس کے ایمان اورنیک اعمال کے سبب گناہوں  سے بخشش مغفرت اورآخرت میں  اجرکریم کی بشارت دے دو،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ۝۱۲    [4]

ترجمہ:جو لوگ بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں  ، یقینا ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ۔

اللہ تعالیٰ نے پھراس بات کااثبات کیاکہ یقیناًاس زندگی کے بعدایک اورزندگی ہے جودائمی زندگی ہوگی ،جس میں  موت نہیں  ہوگی،ہرشخص اس زندگی میں  جن خیالات،نیتوں  اورارادوں  کے ساتھ جواعمال کرے گا اور معاشرے میں  جو بھلائیاں  یابرائیاں  بھی اس نے پھیلائی ہوں  گی اوراس کے بعداس کی اقتدامیں  لوگ وہ اعمال بجالائیں  گےاس کاپوراریکارڈلکھا جارہاہے،اور ان کے مطابق جزا یا سزا سنائی جائے گی اوروہ شخص جنت یاجہنم میں  داخل کردیاجائے گا،

عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِیرٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا،وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً، كَانَ عَلَیْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَیْءٌ

منذربن جریر رضی اللہ عنہ  اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے اسلام میں  کوئی نیک طریقہ جاری کیا(بشرطیکہ وہ کام شریعت میں  موجودہو،اگرکوئی شخص ایساکام جاری کرے جوشریعت میں  موجودنہ ہوتویہ بدعت ہوگی خواہ وہ ظاہرمیں  نیک کام ہی نظرآئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص دین میں  ایساکام رائج کرے جودین سے نہ ہوتووہ مردودہے،کیونکہ اس طرح دین میں  تحریف ہوجائے گی اوردین کی اصل شکل وصورت قائم نہیں  رہے گی)اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اوراس کا بھی جواس کے بعداس پر عمل کرے گابغیراس کے کہ ان میں  سے کسی کے اجرمیں  کمی ہو اور جس نے کوئی براطریقہ جاری کیااس پراس کے اپنے گناہ کابھی بوجھ ہوگااوراس کا بھی جواس کے بعداس پر عمل کرے گابغیراس کے کہ ان میں  سے کسی کے بوجھ میں  کمی ہو۔ [5]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب انسان مرجاتاہے تو سوائے تین چیزوں  کےاس کے عمل کاسلسلہ ختم ہوجاتاہے،صدقہ جاریہ جس سے اس کے مرنے کے بعدبھی لوگ فیض یاب ہوں ،علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ،نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعاکریں ۔[6]

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْیَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ ‎﴿١٣﴾‏ إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَیْكُمْ مُرْسَلُونَ ‎﴿١٤﴾‏ قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَٰنُ مِنْ شَیْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ‎﴿١٥﴾‏ قَالُوا رَبُّنَا یَعْلَمُ إِنَّا إِلَیْكُمْ لَمُرْسَلُونَ ‎﴿١٦﴾‏ وَمَا عَلَیْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿١٧﴾(یٰس)
’’اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک) بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے (اول) دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں، ان لوگوں نے کہا تم تو ہماری طرح معمولی آدمی ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی، تم نرا جھوٹ بولتے ہو، ان (رسولوں) نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بیشک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیںاور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔‘‘

ایک قصہ پارینہ :

اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کی رسالت کی تکذیب کرنے اورآپ کی دعوت کوٹھکرادینے والوں  کے سامنے یہ مثال بیان کردیں تاکہ ان کوعبرت ہواورشایدیہ اللہ کے دردناک عذاب سے ڈرکرراہ راستے اختیارکرلیں ،یہ ان بستی والوں  کی مثال ہے جب اس بستی میں  اللہ کے کئی رسول مبعوث ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے انہی میں  سے اپنے دورسولوں  کوکفروشرک ،فتنہ وفساددورکرنے اوررشدوہدایت کی تبلیغ ودعوت کے لئے کھڑا کیا مگروہ قوم ان کی بات تک سننے کو تیار نہ تھی انہوں  نے بھی حسب سابق قوموں  کی روش پرچلتے ہوئے ان کی تکذیب کی پھر اللہ ارحم الرحمین نے تیسرے رسول کوان کی مددکے لئے بھیجا اب تینوں  رسولوں  نے قوم کے لوگوں  کووعظ وتبلیغ کرتے ہوئے کہااے لوگو!اللہ رب ارض وسماوات نے ہمیں  تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لیے رسول بناکر بھیجا ہے ،اوراس کاپیغام ہے کہ تم اس وحدہ لاشریک کے سواکسی کی بندگی نہ کرو، اور اللہ کے حکم سے ہماری اطاعت کرو،کیاتم اپنے خالق کی نافرمانی کرتے ہو جس نے تمہیں  پہلے پہل مٹی سے تخلیق فرمایا اور پھر مرد و عورت سے تمہارا سلسلہ افزائش جاری کیا،تمہاری پہچان کے لئے تمہارے خاندان اورقبیلے بنائے ،تمہیں  اولادیں  ،مال ودولت اورعزت ومرتبہ سے نوازا ، جوتمہارااورتمام جانداروں  کا رزاق ہے ، جوعلیم وبصیر ذات جواپنے بندوں  سے بڑی محبت اور پرورش کرتاہے اور تمہارے دکھ درداور ضرورتوں  کوجانتاہے ،اورہرلمحے چاہے رات ہویادن تمہاری پکارکوبغیرکسی واسطے یا وسیلے کے سنتا اور پورا کرنے کی قدرت وطاقت رکھتاہے ،تم پر اپنی رحمت نازل کرتے ہوئے ہمیں  تمہاری طرف رسول بناکربھیجاہے تاکہ ہم تمہیں  کفروشرک کی دلدل سے نکال کرصراط مستقیم پر گامزن کردیں ،پس تم دعوت توحیدکوقبول کرواور اپنے خالق ومالک رب کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی ہی عبادت کروجس کی عبادت کرنا تم پرحق ہے  ، اس پاکیزہ دعوت اور بلا مانگی ہوئی بے شمارنعمتوں  پراس رب کاشکربجالاواوردنیاوآخرت میں اس کی رحمتوں  کے  امیدوار بن جاو ، تمہارے اپنے ہاتھوں  سے تراشے ہوئے پتھروں  کے یہ معبود جن کی تم پرستش کرتے ہویہ تو خود اللہ کی ایک بے بس بے شعورادنیٰ مخلوق ہے جونہ سن سکتے نہ دیکھ سکتے اورنہ بول کر تمہاری کوئی رہنمائی کر سکتے ہیں الغرض یہ دنیاوآخرت میں  تمہارے کسی کام نہیں  آ سکتے ، تم لوگوں  نے ہی اپنی جہالت وگمراہی سے ان بتوں  سے الوہیت وربوبیت کی صفات منسوب کردی ہیں  ورنہ تمہارے پاس ان کی حقانیت کی کوئی دلیل نہیں  ہے،تم پہلی قوموں  کے وطیرہ کی طرح اس گمراہی کی راہ پرچل کر رب حقیقی سے بغاوت اور اس کی عطاکردہ نعمتوں  پرناشکری کرتے ہو اور خود ہی رب کے قہرو غضب کو للکاررہے ہو ،بھائیو!گمراہیوں  کے اندھیروں  میں  ٹھوکریں  نہ کھاو،اپنے باطل عقایدسے تائب ہوجاواوراپنی ہرپریشانی ، تکالیف ومصائب میں اپنے خالق کوپکارواوراس سے امیداوراس پربھروسہ کرو،اپنی زندگی گزارنے کے طریقے اور رب کی عبادات اپنی من مرضی پرنہیں بلکہ اس کے فرمانوں  کے مطابق سرانجام دو چاہئے ان کی حکمتیں تمہاری سمجھ میں  آئیں  یانہ آئیں جس میں  تمہارااپناہی فائدہ ہے ،یہ دنیا تو چندروزہ ہے اورایک وقت معین پرجس کاعلم سوائے رب کے کسی کے پاس نہیں اس نے ختم ہوجاناہے،اگرصاحب ایمان ہوجاؤگے تو وہ رب اس دنیا میں  بھی تمہیں  اپنی بے بہا نعمتوں  سے نوازے گا اور روزآخرت جب نفسانفسی کاعالم ہوگاجہاں  کوئی گروہ بندی ، خاندان ،حیثیت ومرتبہ ،مال ودولت اوراولاد کچھ کام نہ آئے گی بلکہ صرف تمہارے عمل صالحہ کی قدرہوگی اور اسی کے مطابق انعامات دیئے جائیں  گے،اس وقت وہ تمہیں  اپنی رحمت سے اپنی جنتوں  میں  داخل فرمائے گاجس میں  تم عیش ونشاط کے مزے اڑاوگے،اوراگرپچھلی قوموں  کی طرح اپنے باطل معبودوں  پرتکیہ کرو گے توتمہاراانجام بڑا درد ناک ہو گا اللہ تعالیٰ تمہیں  باعث عبرت بنادے گااورجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ تمہارااوڑنابچھوناہوگی ،مگروائے قسمت! ان لوگوں  نے بھی رسولوں  کی قدرنہ کی ،ان کی درد مندانہ خیرخواہی کو ٹھکرادیا،اللہ خالق کائنات نے جب سے اس عظیم الشان کائنات کو وجودمیں  لایاہے ،اور انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے بشررسولوں  کاسلسلہ جاری فرمایاہے ہرزمانے کے کفارومشرکین کے لیے اپنے ہی جیسے ایک بشرکورسول تسلیم کرنامشکل ہی رہا ہے ،

جیساکہ قوم نوح کے سرداروں  نے اسی بات پرنوح  علیہ السلام کی رسالت کاانکار کیاتھا۔

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَةً۝۰ۚۖ مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴ۚ [7]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں  نے ماننے سے انکارکیاوہ کہنے لگے کہ یہ شخص کچھ نہیں  ہے مگرایک بشرتم ہی جیسا ،اس کی غرض یہ ہے کہ تم پربرتری حاصل کرے،اللہ کواگربھیجناہوتاتوفرشتے بھیجتایہ بات توہم نے کبھی اپنے باپ داداکے وقتوں  میں  سنی ہی نہیں (کہ بشررسول بن کر آئے)۔

ہود علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی اعتراض کیا تھا۔

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ وَاَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۙ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۝۳۳۠ۙوَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ۝۰ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ۝۳۴ [8]

ترجمہ: یہ شخص کچھ نہیں  ہے مگرایک بشرتم ہی جیسا ، جوکچھ تم کھاتے ہووہی یہ کھاتاہے اورجوکچھ تم پیتے ہووہی یہ پیتاہے،اب اگرتم نے اپنے ہی جیسے ایک بشرکی اطاعت قبول کرلی توتم گھاٹے ہی میں  رہے۔

قوم ثمودنے بھی صالح  علیہ السلام کے بارے میں  انہی خیالات کااظہارکیا تھا

فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗٓ۝۰ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝۲۴ [9]

ترجمہ:اور کہنے لگے ! ایک اکیلا آدمی جو ہم ہی میں  سے ہے کیا اب ہم اس کے پیچھے چلیں ، اگر اس کا اتباع ہم قبول کر لیں  تو اس کے معنی یہ ہوں  گے کہ ہم بہک گئے ہیں  اور ہماری عقل ماری گئی ہے۔

اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۡفَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۵ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا۝۰ۡفَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا۔۔۔۝۶ [10]

ترجمہ: کیا تمہیں  ان لوگوں  کی کوئی خبرنہیں  پہنچی جنہوں  نے اس سے پہلے کفرکیااورپھراپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا ؟ اور آگے ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے،اس انجام کے مستحق وہ اس لیے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں  اورنشانیاں  لے کرآتے رہے مگر انہوں  نے کہاکیاانسان ہمیں ہدایت دیں  گے؟اس طرح انہوں  نے ماننے سے انکارکردیااورمنہ پھیر لیا ۔

ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔قَالُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۭ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا ۔۔۔۝۱۰ [11]

ترجمہ: انہوں  نے جواب دیاتم کچھ نہیں  ہومگرویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ،تم ہمیں  ان ہستیوں  کی بندگی سے روکناچاہتے ہوجن کی بندگی باپ داداسے ہوتی چلی آرہی ہے۔

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۴ [12]

ترجمہ:لوگوں  کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تواس پرایمان لانے سے ان کوکسی چیزنے نہیں  روکا مگران کے اسی قول نے کہ کیااللہ نے بشرکوپیغمبربناکربھیج دیا ؟ ۔

پچھلی تباہ شدہ اقوام کی طرح بستی والوں  نے رسولوں  کے ساتھ بحث وتمحیص کی اوروہی جواب دیا جو انبیاء ومرسلین کی دعوت ٹھکرانے والے دیتے چلے آئے ہیں ،انہوں  نے کہاکہ تم تو ہماری طرح کے معمولی انسان ہو ،تم کوہم پرکوئی فضیلت اور خصوصیت حاصل نہیں ،تم ہماری طرح چلتے پھرتے ،کھاتے پیتے ،کاروبارکرتے ،شادی بیاہ کرتے ہوپھرتم میں  وہ کیاخاص بات پیداہوگئی کہ تم اللہ کے رسول بن کر آگئے ہم تم پرایمان نہیں  لائیں  گے اوررسالت کی عمومیت کاانکارکرتے ہوئے کہااللہ نے ہماری ہدایت کے لیے کچھ نازل نہیں  کیا تم ہم سے جھوٹ وفریب کررہے ہو اگراللہ کوکوئی رسول بھیجناہوتاتوکسی فرشتے کوبھیجتا ، رسولوں  نے کہاہمارا رب جانتاہے کہ ہم ضرورتمہاری طرف رسول بناکربھیجے گئے ہیں  ،جیسے فرمایا

قُلْ كَفٰی بِاللهِ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ شَهِیْدًا۝۰ۚ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۔۔۔۝۵۲ [13]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !) کہو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے، وہ آسمانوں  اور زمین میں  سب کچھ جانتا ہے۔

اگرہم جھوٹے ہوتے تواللہ تعالیٰ ہمیں  سرعام رسواکردیتااورہمیں  فوراًسزادے دیتا،ہماراتم پرکوئی زورنہیں  ، ہماراکام تورب کی صراط مستقیم کی دعوت پوری امانت و دیانت اورپورے دلائل وبراہین  کے ساتھ تم تک پہنچا دیناہے ،ہماری دعوت میں  زور زبردستی ہرگز نہیں ان روشن اورواضح دلائل پرایمان لانا ہے یا نہیں  لانااس کا آزادنہ فیصلہ تم نے کرنا ہے ،اگر ایمان لاوگے تواپنے فائدہ کے لئے اوراگر تکذیب کروگے توتم ہی خسارہ اٹھانے والوں  میں  سے ہوگے ،تمہارے ایمان لانے یانہ لانے سے رب کی خدائی میں  ذرہ بھر فرق نہیں  آئے گا۔

قَالُوا إِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَیَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٨﴾‏ قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ ۚ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ ‎﴿١٩﴾(یٰس)
’’انہوں نے کہا کہ ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کردیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی،ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ، کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جائے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔‘‘

انبیاء ورسل سے کافروں  کارویہ :

چنانچہ پچھلی قوموں  کی طرح کچھ غریب مگرصالح فطرت لوگ ان رسولوں  پر ایمان لائے ہوں  گے اوراکثرت نے تکذیب کی روش اختیارکی ہوگی ،اورہمیشہ کی طرح قوم دوگرہوں  میں  بٹ گئی ہوگی ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ۝۴۵  [14]

ترجمہ:اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو تو یکایک وہ دومتخاصم فریق بن گئے ۔

ممکن ہے رب نے اپنی سنت کے مطابق انہیں  راہ راست پرلانے کے لئے تاکہ وہ سوچیں  اورشایدایمان لے آئیں  چھوٹے موٹے عذاب جیسے بارش کارک جانا،دریاوں  کاسوکھ جانا،فصلوں  اورثمرات کا پیدا نہ ہونا اور قحط سالی کاپھیل جانا،جانوروں  کامرجانا وغیرہ نازل کئے ہوں  ، چنانچہ تکذیب کرنے والے گروہ نے اہل ایمان و تقویٰ رسولوں  سے کہاتمہارے آنے سے ہمیں  کوئی خیرو برکت نہیں  بلکہ مصیبتیں  ہی ملی ہے ، ہم توتمہیں  اپنے لئے بدشگون سمجھتے ہیں ،

قوم ثمودبھی صالح  علیہ السلام اوران کے پیروکاروں  کے بارے میں  یہی کہتے تھے،

قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۝۰ۭ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۝۴۷ [15]

ترجمہ:انہوں  نے کہاہم نے توتم کواورتمہارے ساتھیوں  کوبدشگونی کانشان پایاہے،صالح  علیہ السلام نے جواب دیاتمہارے نیک و بد کا سر رشتہ تواللہ کے پاس ہےاصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں  کی آزمائش ہورہی ہے۔

فرعون کی قوم بھی موسیٰ علیہ السلام  اوربنی اسرائیل کے بارے میں یہی کہتے تھے،

 فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَـنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَهٗ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۳۱ [16]

ترجمہ:مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں  اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں  کو اپنے لیے فالِ بد ٹھہراتے حالانکہ درحقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی مگر ان میں  سے اکثر بے علم تھے ۔

اور دھمکاکر کہنے لگے اگرتم اپنی واعظ ونصیحت سے بازنہ رہے توہم تمہیں بڑی دردناک اورعبرت ناک سزادیں  گے اور پتھروں  سے مارمارکرموت کے گھات اتارکرتمہارا کام تمام کر دیں  گے ،

شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہاتھا

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا۝۰ۚ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ۝۰ۡوَمَآ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ۝۹۱ [17]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیا اے شعیب! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں  سے بہت سی باتیں  ہماری سمجھ میں  نہیں  آتیں  بلاشبہ ہم تم کو اپنے درمیان (بہت ہی) کمزور پاتے ہیں ، اور اگر تمہاری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تمہیں  سنگسار کر دیتے، ہم پر تمہارا دباؤ تو ہے نہیں ۔

ابراہیم  علیہ السلام کے والدنے بھی یہی کہاتھا۔

قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِــهَـتِیْ یٰٓــاِبْرٰهِیْمُ۝۰ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِیْ مَلِیًّا۝۴۶ [18]

ترجمہ:باپ نے کہا ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں  سے پھرگیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر ڈالوں  گابس تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے الگ ہو جا۔

رسولوں  نے جواب دیا کیاتم ہماری خیرخواہی اور رب کی رحمت کونحوست سمجھتے ہو، تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے اعمال بدکانتیجہ ہےجو تمہاری گردن میں  لٹکاہواہے ،جیسے فرمایا

وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ۝۰ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا۝۱۳ [19]

ترجمہ:ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں  لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں  گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔

اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ حدسے گزرجانے والے ہو  اور جو لوگ حدسے گزرجاتے ہیں  رب کے عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں  جن کے لئے رب نے دردناک عذاب تیار کررکھاہے جس میں  وہ نہ جی سکیں  گے اورنہ ہی انہیں  موت آئے گی ۔

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِینَةِ رَجُلٌ یَسْعَىٰ قَالَ یَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ اتَّبِعُوا مَنْ لَا یَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَمَا لِیَ لَا أَعْبُدُ الَّذِی فَطَرَنِی وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ یُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّی شَفَاعَتُهُمْ شَیْئًا وَلَا یُنْقِذُونِ ‎﴿٢٣﴾‏ إِنِّی إِذًا لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ‎﴿٢٤﴾‏ إِنِّی آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ‎﴿٢٥﴾(یٰس)
’’اور ایک شخص (اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم ! ان رسولوں کی راہ پر چلو، ایسے لوگوں کی راہ پر چلو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں،اور مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیااور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، کیا میں اسے چھوڑ کر ایسوں کو معبود بناؤں کہ اگر (اللہ) رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ مجھے بچاسکیں، پھر تو یقیناً کھلی گمراہی میں ہوں ، میری سنو ! میں تو (سچے دل سے) تم سب کے رب پر ایمان لا چکا ۔‘‘

ایک مسلمان کی شان :

ایک مسلمان شخص کو(جس کانام حبیب نجاربیان کیاجاتاہے )جوشہرسے دوردرازایک گوشے پررہتاتھاجب پتہ چلاکہ اس کی گمراہ قوم پیغمبروں  کی پاکیزہ دعوت حق کو نہیں  اپنا رہی اوررسولوں  کو خطرناک دھمکیاں  بھی دی جارہی ہیں  تووہ اپنے گھرسے دوڑتاہواآیااوراس نے آکراپنی قوم کورسولوں  کی حمایت اوران کی اتباع کی ترغیب دی ،قوم کے لوگ اس سے کہنے لگے کیا تو بھی اس معبودکی عبادت کرتاہے جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں  بلارہے ہیں ؟ ان کے جواب میں  وہ حق پرست مسلمان کہنے لگا اے میری قوم !وہ  اللہ رب العالمین کے بھیجے ہوئے سچے رسول ہیں  اس لیے ان کی اتباع و پیروی کرو،رسولوں  کی راہ پرچلوجوراہ راست پر ہیں ،اس راہ پرچلو جوسچ کی راہ ہے اورسیدھی اپنی منزل پر پہنچتی ہے جس میں  کوئی ڈروخوف نہیں  ،جس میں  تمہارے لئے انعامات اور خوشخبریاں  ہیں  ، اورپھراس بھلائی کودینے کے لئے وہ تم سے کسی قسم کے مال ومتاع یامرتبہ کالالچ نہیں  رکھتے ،تم لوگوں  سے قوم کی سرداری نہیں  مانگتے بلکہ تمہیں  جہنم کے اندھے گڑہوں  میں  گرنے سے بچانے میں  تمہارے سچے خیرخواہ ہیں  ، اگرتم لوگ انکی دعوت کوتسلیم کرلوگے تودنیاوآخرت میں رب کی رحمت اوربخشش تمہارے حصہ میں  آئے گی ،اوراے لوگو!تم خودتعصب ،بے جاغروروتکبرسے ہٹ کرسوچوآخر ہم اس اللہ کی بندگی کیوں  نہ کریں ؟اوراس کی نازل کردہ ہدایات واحکامات کے تحت زندگی کیوں  نہ گزاریں  ؟ جس نے آسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے پیدا کیا ہے ،جیسے فرمایا

وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۔۔۔۝۳۸ [20]

ترجمہ:ان لوگوں  سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں  کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں  گے کہ اللہ نے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ۝۹ۙ [21]

ترجمہ:اگر تم ان لوگوں  سے پوچھو زمین اور آسمانوں  کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں  گے کہ انہیں  اسے زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔

جوہمیں  اوردوسری مخلوقات کو آسمانوں  اورزمین سے رزق بہم پہنچاتاہے،جیسے فرمایا:

 قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ قُلِ اللہُ۔۔۔۝۲۴ [22]

ترجمہ:پوچھئے کہ تمہیں  آسمانوں  اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے؟ (خود) جواب دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ۔

مشکلات اورمصیبتوں  میں  ہماری داررسی فرماتاہے ،جس کی پیداکردہ ہرچیز اپنی مثال آپ ہے، جیسے فرمایا

الَّذِیْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ ۔۔۔۝۷ۚ [23]

ترجمہ:جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی ۔

جس میں  کوئی نقص نہیں ،جیسے فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَحَسِیْرٌ۝۴ [24]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے، تم رحمن کی تخلیق میں  کسی قسم کی بےربطی نہ پاؤگے، پھر پلٹ کر دیکھو کہیں  تمہیں  کوئی خلل نظر آتا ہے؟بار بار نگاہ دوڑآؤ ، تمہای نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔

کیاان چیزوں  کو تمہارے پتھرکےبے جان کے معبودوں  نے پیداکئے ہیں ؟ جنہیں  تم نے خوداپنی من مرضی کی شکل پرتراش کراپنی مرضی کی صفات منسوب کی ہوئی ہیں ، جواتنے بودے اوراتنے لاچارہیں  کہ اللہ تعالیٰ  کی پیداکردہ ایک ادنیٰ مخلوق مکھی تک پیدانہیں  کرسکتے اوراگرایک مکھی ان سے کوئی چیزاٹھاکرلے جائے اس سے واپس نہیں  لے سکتے، آسمان وزمین اوراس کے درمیان جوکچھ ہے کیا تخلیق کریں  گے؟ جیسے فرمایا:

۔۔۔ وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۝۱۳ۭ [25]

ترجمہ:جنہیں  تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں  ۔

۔۔۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـیْـــــًٔـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۔۔۔۝۷۳ [26]

ترجمہ:جن معبودوں  کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں  تو نہیں  کر سکتےبلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں  سکتے۔

اورنہ ہی یہ تمہاری پکار کو سن سکتے ہیں ،جب سن ہی نہیں  سکتے توتمہاری مرادیں  کیا پوری کریں  گے؟

جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدسے یہی تو فرمایاتھا

اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَـیْــــــًٔــا۝۴۲ [27]

ترجمہ:(انہیں  ذرا اس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا ابا جان! آپ کیوں  ان چیزوں  کی عبادت کرتے ہیں  جو نہ سنتی ہیں  نہ دیکھتی ہیں  اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ؟۔

اگر تمہارے پاس ان کی قدرت وطاقت کی کوئی کوئی دلیل ہے تولاؤ؟ جیسے فرمایا::

۔۔۔قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۱۱ [28]

ترجمہ: ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں  سچے ہو ۔

۔۔۔ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۶۴ [29]

ترجمہ:کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی (ان کاموں  میں  حصہ دار)ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو ۔

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً۝۰ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ۔۔۔۝۰ۚ۝۲ [30]

ترجمہ:کیا اسے چھوڑ کر انہوں  نے دوسرے الٰہ بنا لیے ہیں ؟ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہو کہ لاؤ اپنی دلیل۔

اس رب نے یہ دنیامحض کھیل تماشہ کے لئے نہیں  بنائی اورنہ ہی اللہ اسے لایعنی کام کرتاہے ،جیسے فرمایا:

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۔۔۔۝۲۷ۭ [31]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں  کر دیا ہے ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۝۳۸ [32]

ترجمہ:یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں  ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں  بنا دی ہیں  ۔

کیاتم سمجھتے ہوکہ اللہ نے تمہیں پیداکرکے ایسے ہی چھوڑ دیاہے اوروہ تمہارے اعمال کامحاسبہ نہیں  کرے گا؟جیسے فرمایا:

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭ [33]

ترجمہ:کیا انسان یہ سمجھتا ہے کے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا۔

ایسانہیں  ہے بلکہ یہ چند روزہ دنیاتوتمہاری امتحان گاہ ہے، تمہارے چھوٹے بڑے،چھپے ہوئے اورظاہر اعمال لکھے جارہے ہیں کہ تم اپنے خالق کی الوہیت وربوبیت کا اقرار کرتے ہویانہیں ،اعمالحہ صالحہ اختیارکرتے ہویااعمال خبیثہ، اس کے شکرگزار بندے بنتے ہویااس کی نعمتوں  کی ناشکری کرتے ہو، روزمحشر وہ تمہارانامہ اعمال تمہارے ہاتھوں  میں  تھماکر تم سے تمہارے اعمال کی بابت بازپرش کرے گا ، اس وقت یہ بودے معبود مجھے اللہ کی گرفت سے بچانہ سکیں  گے،اگرمیں  تمہاری طرح اندھااوربے وقوف بن کران کی عبادت کرتارہوں  تو پھر میں  یقیناًکھلی گمراہی میں  جاگروں  گا اورہر گمراہی کا انجام جہنم ہے جو درد ناک ٹھکانہ ہے ، میراایمان تواسی رب پرہے جوتمہارابھی رب ہے ، جو جہانوں  کارب ہے جس کے حکم سے یہ آسمان وزمین قائم ہیں  ، جس کے حکم کے بغیرکچھ بھی نہیں  ہوسکتا،ہرطرح کے اختیارات اورقدرتیں  اسی کے پاس ہیں ، اب تم جو چاہو کر گزرولیکن میرامخلصانہ مشورہ ہے کہ تم لوگ بھی شیطان کی راہ چھوڑکرصراط مستقیم اختیارکرو۔

قِیلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ یَا لَیْتَ قَوْمِی یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ بِمَا غَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ الْمُكْرَمِینَ ‎﴿٢٧﴾‏وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِینَ ‎﴿٢٨﴾‏ إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ یَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا یَأْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ أَلَمْ یَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَیْهِمْ لَا یَرْجِعُونَ ‎﴿٣١﴾‏ وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ ‎﴿٣٢﴾(یٰس)
’’ (اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش ! میری قوم کو بھی علم ہوجاتا کہ مجھے رب نے بخش دیا اور مجھے با عزت لوگوں میں سے کردیا ، اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارا اور نہ اس طرح ہم اتارا کرتے ہیں وہ تو صرف ایک زور کی چیخ تھی کہ یکایک وہ سب کے سب بجھ بھجا گئے، (ایسے) بندوں پر افسوس ! کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انہوں نے نہ اڑائی ہو، کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہم نے غارت کردیا کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے، اور نہیں ہے کوئی جماعت مگر یہ کہ و ہ جمع ہو کر ہمارے سامنے حاضر کی جائے گی۔‘‘

حق کی پاداش میں  قتل :

مشرک قوم کھلم کھلااپنے معبودوں  کی بے بسی اورلاچاری کااعلان کیسے سن سکتی تھی اس کی زبان بند کرنے کے لئے فوراًاس مسلمان پرٹوٹ پڑی ،کوئی ان کا ہاتھ روکنے والانہ تھا اوراس کوحق بات کہنے کی پاداش میں اتناذدکوب کیا کہ وہ اس دنیاسے رخصت ہوگیا ،قدردان رب نے اس کے ایمان ویقین کوقبول فرمایا اور اسے جنت میں  داخل کردیا،وہ شخص اپنی قوم کے ساتھ اتنامخلص اورخیرخواہ تھاکہ جنت میں  پہنچ کر کہنے لگاکاش! میری گمراہ قوم کوعلم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ایمان اوراس پر استقامت کی وجہ سے میری بخشش ومغفرت کردی اورمجھے اپنی لازوال اورانواع واقسام کی نعمتوں  بھری جنت میں  باعزت لوگوں کے ساتھ داخل کردیاہے تا کہ وہ بھی ایمان وتوحید کی روش اپنائیں  ، رسولوں  کی پیروی کریں  اوراللہ کی مغفرت اور اس کی بے بہا نعمتوں  کی مستحق ہو جائیں ،آخراللہ نے اس قوم کوجن کواپنی طاقت ،قوت واختیار پر گھمنڈتھا،جن کے دلوں  میں  دین حق کے خلاف جوش وخروش ،بغض وعنادتھا،جن کواپنے معبودوں  کی طاقت واختیاراورقدرت پرمکمل بھروسہ تھاان کی سرکوبی کے لئے کوئی لشکرنازل نہ فرمایااورنہ ہی فرشتے نازل نہیں  فرمائے بلکہ ایک معمولی سے دھماکے سے نیست ونابود کردیا،اوران کی تہذیب وتمدن اوران کی نسلوں کانشان تک باقی نہ چھوڑا ، اللہ رب العزت نے بندوں  کے حال پرافسوس کرتے ہوئے فرمایاہم نے انسانوں  کی رشدو ہدایت کے لیے جورسول بھی بھیجاانہوں  نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیااوراس کی رسالت ،اس کی تعلیمات اور عقیدہ آخرت کا مذاق اڑاتے اوردعوت حق کوروکنے کی کوششیں  ہی کرتے رہے ،جیسے فرمایا:

وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۱ [34]

ترجمہ:کبھی ایسا نہیں  ہوا کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہو اور انہوں  نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔

مگرقیامت کے روزاللہ کاعذاب دیکھ لینے کے بعدیہ منکرین حق حسرت وندامت کا اظہارکریں  گے کہ کاش! انہوں  نے اللہ کے بارے میں  کوتاہی نہ کی ہوتی، کاش !شیطان کے ساتھی بن کررسول کی دعوت توحید کامذاق نہ اڑایاہوتا،مگراس وقت یہ افسوس وندامت ان کے کسی کام نہ آسکے گی اورایسے لوگ اپنے گروشیطان کے ساتھ جہنم میں  ڈال دیئے جائیں  گے ،اوراہلیان مکہ کودھمکی دی کہ اللہ ورسول کی تکذیب واستہزا اورمعبودان باطلہ کی طاقت ،قوت واختیارپربھروسہ کی وجہ سے جس طرح پچھلی بے شمار قومیں  تباہ ہوئیں  اوران کانام ونشان بھی باقی نہ رہا اسی طرح تم لوگوں  پربھی عذاب نازل کیا جا سکتا ہے،تمہیں  بھی صفحہ ہستی سے نیست ونابودکیا جاسکتاہے اوراس کے لئے اللہ کوکوئی خاص بندوبست کرنے کی ضرورت نہیں  ،جس قوم کا تمہیں  واقعہ سنایاگیاہے انہیں  کی طرح ایک چیخ سے تمہیں  بھی صفحہ ہستی سے مٹایاجاسکتاہے، اور جس طرح پچھلی اقوام واپس پلٹ کردنیامیں  نہیں  آئیں  تم بھی دنیا کی طرف کبھی پلٹ کرنہ آؤگے؟پھر ایک وقت مقررہ پراولین وآخرین تمام لوگ اللہ کی بارگاہ میں  حاضرہوں  گے، جہاں  عدل وانصاف کے تمام تقاضوں  کے مطابق ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگااوراسی کے مطابق جزایاسزاسنائی جائے گی،جیسے فرمایا:

وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۱۱۱ [35]

ترجمہ: اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں  ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا ، یقیناً وہ اِن کی سب حرکتوں  سے باخبر ہے۔

وَآیَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَیْتَةُ أَحْیَیْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَأْكُلُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَجَعَلْنَا فِیهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِیهَا مِنَ الْعُیُونِ ‎﴿٣٤﴾‏ لِیَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَیْدِیهِمْ ۖ أَفَلَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٣٥﴾(یٰس)
’’اور ان کے لیے ایک نشانی (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کردیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں،اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کردیئے اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کردیئے ہیں تاکہ (لوگ) اس کے پھل کھائیں، اور اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا پھر کیوں شکر گزاری نہیں کرتے۔‘‘

وجودباری تعالیٰ کی ایک نشانی :

کفارمکہ کوانکاروتکذیب اورمخالفت حق کے رویہ پرملامت کرنے کے بعداللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اورعقیدہ آخرت پر چنددلائل پیش کرکے غوروفکرکی دعوت دی ،زمین کی روئیدگی کودلیل کے طورپرپیش کرکے فرمایاتم لوگوں  کے لئے بے جان زمین اللہ تعالیٰ کے وجود،اس کے وحدہ لاشریک ہونے ،اس کی قدرت تامہ اور مردوں  کودوبارہ زندہ کرنے،حساب کتاب اوراعمال کی جزاوسزا پرایک نشانی ہے،ہم اپنی رحمت سے آسمان سے بارش برساکر اس مردہ زمین کوزندگی بخشتے ہیں  اور اپنی قدرت سے ایک دانے اورایک گھٹلی سے اس سے بکثرت انواع و اقسام کے غلہ جات ،مختلف ذائقوں ،رنگوں  اورخصوصیات کے لذیذ پھل ،میوہ جات اورمختلف نباتات نکال لاتے ہیں ،جوشب وروزان کی اور ان کے مویشیوں  کی خوراک کے کام آتے ہیں ،ہم نے اس مردہ زمین میں  بے شماردرخت اورخاص طورپر کثیرالمنافع کھجوروں  اور انگوروں  کے باغ پیداکیے ہیں ، اورہم اپنی عظیم حکمت وقدرت سے زمین کے اندرسے بعض جگہ چشمے اورنہریں  رواں  کر دیتے ہیں  جن کاپانی ان کے باغوں ، کھیتوں  کوسیراب کرکے سرسبزوشاداب کرتاہے،تاکہ یہ اس کے میٹھے پانی سے پیداہونے والے غلہ جات اور پھل کھائیں ،کھیتوں  اور باغات سے نفع حاصل کریں ،یہ سب کچھ تو اللہ احکم الحاکمین اورخیرالرازقین کی قدرت سے پیداہورہے ہیں ،اللہ کے سوا کسی کویہ قدرت نہیں  کہ وہ ان چیزوں  کو تخلیق کر سکے،اور ان میں  تمہاری کوئی صنعت کاری ہے نہ ان کی کسی کاری کاعمل دخل ،توپھرجس ہستی نے تمہاری زندگی کے سروسامان کے لیے یہ سب کچھ تخلیق کیاہے تم لوگ اس کی بے شمار نعمتوں  کاشکر کیوں  ادا نہیں  کرتے؟ جوقادرمطلق یہ سب کچھ پیداکرسکتاہے کیاوہ مردوں  کودوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟کیوں  نہیں ،وہ ہرچیزپرقادرہے ،توبغض وعناداورتعصب سے بالاتر ہوکر سوچوتم اپنے رب کی عطاکی ہوئی ان گنت نعمتیں  کھاکردوسروں  کا شکر کیوں  اداکرتے ہو؟اپنے مالک حقیقی کے حضور پیشانی جھکانے کے بجائے جھوٹے معبودوں  کے آگے کیوں  سجدہ ریز ہوتے ہو جو ایک تنکابھی پیداکرنے کی قدرت نہیں  رکھتے۔

سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَآیَةٌ لَهُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ ‎﴿٣٨﴾‏ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ ‎﴿٣٩﴾‏ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِی فَلَكٍ یَسْبَحُونَ ‎﴿٤٠﴾‏(یٰس)
’’وہ پاک ذات ہے جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں، اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے، جس سے ہم دن کو کھنچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں، اور سورج کے لیے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے، یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا، اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں  یہاں تک کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ، نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔‘‘

گردش شمس وقمر:

وہ ہستی ہرنقص سے پاک ہے جس نے نوح انسانی،زمین کی پیداوار،پانی میں  رہنے والی تمام مخلوقات اوران تمام مخلوقات کے جوڑے (نراورمادہ)بنائے ہیں  جن کوانسان جانتے تک نہیں  ہیں ،جیسےفرمایا

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [36]

ترجمہ:اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں  شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اللہ تعالیٰ کے وجود،اس کی یکتائی ،اس کی قدرت کاملہ اورمشیت کے نفاذ کی ایک روشن دلیل یہ رات ہے جس سے ہم دن کوکھینچ دیتے ہیں  تووہ ااندھیروں  میں  ڈوب جاتے ہیں  ،پھرہم سورج کوطلوع ہونے کاحکم دیتے ہیں تودن کااجالاپھیل جاتاہے ، اس طرح رات اوردن برابر ایک دوسرے کے پیچھے چلے آرہے ہیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا۔۔۔۝۰۝۵۴ [37]

ترجمہ: جو رات کو دن پرڈھانک دیتاہے اورپھردن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔

 ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَاَنَّ اللهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۶۱ [38]

ترجمہ:وہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں  اور دن کو رات میں  داخل کیا کرتا ہے اور بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

مشرکین چاندوسورج اوردوسرے ستاروں  کی بھی پرستش کرتے ہیں ان کوفرمایاکہ یہ چمکتادھمکتاہواسورج بھی الٰہ نہیں  بلکہ اللہ ہی کی ایک مخلوق ہے جوساکن نہیں  بلکہ اپنے رب کے حکم سے دائمی طورپربیس کلومیٹرفی سکینڈکے حساب سے اپنے مستقر کی طرف رواں  دواں  ہےاوراس کی منزل عرش کے نیچے ہے ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِی ذَرٍّ حِینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ:أَتَدْرِی أَیْنَ تَذْهَبُ؟، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنُ لَهَا وَیُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ یُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَهَا یُقَالُ لَهَا: ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ}[39]

ابوذر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  جب سورج غروب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تمہیں  معلوم ہے کہ سورج کہاں  جاتا ہے؟میں  نے عرض کیااللہ اوراس کارسول بہترجانتے ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج جاتاہے اور عرش کے نیچے جاکرسجدہ ریزہوجاتاہے اوروہاں  سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتاہے، پھراسے (طلوع ہونے کا)حکم دیاجاتاہےاور عنقریب وہ وقت آئے گا کہ یہ (جا کر) سجدہ کرے گا تو وہ مقبول نہ ہوگااور (طلوع ہونے کی) اجازت چاہے گا تو اجازت نہ ملے گی بلکہ اسے حکم ہوگا کہ جہاں  سے آیا ہے وہیں  واپس چلا جا اس وقت یہ مغرب سے طلوع ہوگا اور یہی اس آیت کریمہ کا مطلب ہے’’ اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس کا جو زبردست ہے علم والا ہے۔‘‘[40]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى:وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا، قَالَ:مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ العَرْشِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ارشادباری تعالیٰ’’اورسورج کے لئے جومقررہ راہ ہے وہ اسی پرچلتارہتاہے۔‘‘ کے بارے میں  پوچھا توآپ نے فرمایااس کامستقرعرش کے نیچے ہے۔[41]

سورج و چاند اور ستاروں کی گردشوں  کایہ بے داغ نظام ایک زبردست علیم ہستی نے قائم کیاہے ،اوراس نے اپنی حکمت کاملہ سے چاندکی بھی ۲۸ منزلیں  مقرر کر دی ہیں  ،وہ روزانہ ایک منزل طے کرتاہے اوربڑھتاہوابدرکامل بن جاتاہے پھر گھٹتاہواجب آخری منزل پر پہنچتاہے تو کھجورکی سوکھی ٹہنی کے مانند نظر آتا ہے ،جب سے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق فرمائی ہے چاند کایہ حساب پوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہاہے اوراس کی مقررہ منزلوں  میں  کبھی کوئی فرق نہیں  آیا،چاندکی انہی گردشوں  سے انسان مہینوں  ، سالوں  اور اپنی عبادت کے اوقات متعین کرتے ہیں ، جیسے فرمایا:

 یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّةِ۝۰ۭ قُلْ ہِىَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔۔۔۝۱۸۹ [42]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں  کے متعلق پوچھتے ہیں  کہو یہ لوگوں  کے لیے تاریخوں  کی تعیین کی اور حج کی علامتیں  ہیں ۔

 ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ۔۔۔۝۵ [43]

ترجمہ:وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی کہ گھَٹنے بھڑھنے کی منزلیں  ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں  تاکہ تم اس سے برسوں  اور تاریخوں  کے حساب معلوم کرو ۔

وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّہَارَ اٰیَـتَیْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰیَةَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَآ اٰیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ۔۔۔۝۱۲ [44]

ترجمہ:دیکھو ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں  بنایا ہے، رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنایااور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو ۔

مدبر کائنات کے وجودکی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ نہ سورج کے بس میں  یہ ہے کہ وہ چاند کو اپنی طرف کھینچ لے یاخوداس کے مدارمیں  داخل ہو کراس سے جاٹکرائے اورنہ رات کے بس میں  ہے کہ وہ دن سے پہلے آجائے بلکہ یہ بھی ایک نظام میں  بندھے ہوئے ہیں  اور ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں ، جیسے فرمایا:

۔۔۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا۔۔۔۝۵۴ [45]

ترجمہ:جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔

چاند ہو یا سورج یا پورا نظام شمسی سب دائمی طورپر اپنے اپنے مدار میں  مقررہ رفتارسے تیر رہے ہیں  اوران کاباہمی ٹکرائونہیں  ہوتا،

عَنْ قَتَادَةَ، {لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ} لِكُلٍّ مِنْهُمَا حَدٌّ لَا یَعْدُوهُ وَلَا یَقْصِرُ دُونَهُ، إِذَا جَاءَ سُلْطَانُ هَذَا ذَهَبَ هَذَا وَإِذَا ذَهَبَ سُلْطَانُ هَذَا جَاءَ سُلْطَانُ هَذَا

قتادہ رحمہ اللہ  آیت کریمہ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِکے بارے میں  کہتے ہیں  ان میں  سے ہرایک کی حدمقررہے جس سے وہ نہ تجاوزکرسکتاہے اورنہ اس سے پیچھے رہ سکتاہے،جب ایک کی بادشاہی کاوقت آتاہے تودوسراچلاجاتاہے اورجب دوسرے کی بادشاہی کاوقت چلاجاتاہے تو پہلا آجاتا ہے ۔ [46]

خالق کائنات نے یہ سائنسی نقطہ اس وقت بیان فرمایا جب زمین کوچپٹاسمجھاجاتاتھا،اس کے گول ہونے یااس کے سیارہ ہونے یا اس کی حرکت کاکوئی تصورنہیں  پایاجاتاتھا، قرآن کریم نے سورج ،چانداورزمین سب کوسیارگان قرار دیا اور کہا کہ ہرایک کا اپنا اپنا فلک ہے اورہرایک کااپنااپنامدارہے اوریہ مقررہ رفتارسے تیررہے ہیں ۔

وَآیَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ‎﴿٤١﴾‏ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا یَرْكَبُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ یُنْقَذُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿٤٤﴾(یٰس)
’’اوران کے لیے ایک نشانی (یہ بھی) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیااور ان کے لیے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں، اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ڈبو دیتے پھر نہ تو کوئی ان کا فریاد رس ہوتا نہ بچائے جائیں، لیکن ہم اپنی طرف سے رحمت کرتے ہیں اور ایک مدت تک کے لیے انہیں فائدے دے رہے ہیں۔‘‘

سمندرکی تسخیر:

اللہ نے اپنےاحسان کاتذکرہ فرمایاکہ ہم نے ہی ان وسیع وعریض گہرے سمندروں  کوتمہارے لیے مسخرکردیاہے اورہم نے ہی بندوں  کوکشتی کی نعمت اوراس کی تعلیم سے نوازاہے تاکہ وہ مسافروں  کے ساتھ ساتھ بھاری سامان کی ترسیل کرسکیں ،ہم نے بحری جہازوں  کے علاوہ خشکی میں  سفرکرنے کے لیے دوسری چیزیں  مثلاًہوائی جہاز، ریل گاڑیاں ،بسیں ،کاریں  اوردیگرنقل وحمل کی اشیا بھی پیداکیں  ہیں  جن پریہ سوار ہوتے ہیں ،مگرہم جب چاہیں  ان کوسمندروں  میں غرق کردیں یاخشکی میں  تباہ و برباد کردیں ، پھرمشکلات وآزمائش کی اس کٹھن گھڑی میں  اللہ کے سوا تمہارے معبود نہ تو تمہاری دردبھری التجائیں  سن سکیں  گے اورنہ ہی تمہارے کسی کام نہ آسکیں  گے ، خشکی وتری کے یہ سفرتم صرف اللہ کی رحمت اورلطف وکرم سے ہی طے کررہے ہو تاکہ اللہ نے تمہیں زندگی کی جوسانسیں  عطافرمائی ہوئی ہیں  انہیں  پوراکرواورجورزق عنایت کیا ہوا ہے اسے کھاؤ،اورجوچیزیں  تمہاری خدمت کے لئے مسخرکردی گئیں  ہیں  ان سے فائدہ اٹھاؤ ۔

          وَإِذَا قِیلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَیْنَ أَیْدِیكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَمَا تَأْتِیهِمْ مِنْ آیَةٍ مِنْ آیَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ یَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ‎﴿٤٧﴾‏(یٰس)
’’اور ان سے جب (کبھی) کہا جاتا ہے کہ اگلے پچھلے (گناہوں) سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے، اور ان کے پاس تو ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں آتی جس سے یہ بےرخی نہ برتتے ہوں، اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں ؟ جنہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا، تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں۔‘‘

کفارکاتکبروعناد:

جب ان لوگوں  کونصیحت کی جاتی ہے کہ اللہ اوراس کے رسول اورمنزل کتاب پرایمان لاؤ،اللہ سے اپنے گناہوں  کی توبہ مانگواوراعمال صالحہ اختیارکرکے برزخ ،قیامت کے احوال اوردنیاوی سزاؤں  سے بچنے کی تگ ودوکرو تاکہ اللہ تم پررحم فرمائے اورتمہیں  عذابوں  سے بچالے ،مگران کی سرکشی اورنادانی کی انتہایہ ہے کہ اس نصیحت کو سنی ان سنی کرجاتے ہیں جس میں  خودان کاہی فائدہ ہے ،اورجب ان کے سامنے اللہ کی وحدانیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کی دلیل اورگزشتہ تباہ شدہ اقوام کا کوئی عبرت ناک واقعہ بیان کیاجاتاہے تو اس پرغوروفکرکرنے اور عبرت حاصل کرنے کے بجائے اعراض کرتے ہیں  ، رزق اللہ ہی عطافرماتاہے اگراللہ چاہتا تو اپنے خزانوں  کو تمام انسانوں  میں برابر برابر تقسیم کرسکتاتھااوراس کے خزانوں  میں  قطعاًکوئی کمی واقع نہ ہوتی مگر یہ اس کی حکمت ومصلحت ہے کہ کسی کواس نے زیادہ عطافرمایاہواہے اورکسی کو کم ،جس کوزیادہ عنایت فرمایاہے اس پرذمہ داریاں  بھی زیادہ ہیں ان کوروزآخرت اس دولت کاحساب بھی دیناہوگاکہ اللہ کے عطاکردہ فضل کو کس راہ پرخرچ کیا گیا تھا ، اگر اللہ کی راہ میں  خرچ کیاگیاہوگاتواللہ کے وعدے کے مطابق کئی گنابڑھ کر مل جائے گااوراگربے جااصراف اور نمودونمائش پرخرچ کیاہوگاتواس کابھی حساب دیناہوگا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَدْخُلُ الْفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِیَاءِ بِخَمْسِمِائَةِ عَامٍ نِصْفَ یَوْمٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مفلس جنت میں  اغناء سے آدھادن پیشتر داخل ہوں  گے (امراء تواپناحساب دے رہے ہوں  گے)اوروہ پانچ سوبرس کادن ہے۔[47]

چنانچہ جب مشرکین کونصیحت کی جاتی کہ اللہ کے عنایت فرمائے گئے رزق سے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کے لئے اپنے اعزاء واقارب میں  سے غریبوں ،یتیموں  اوربے کسوں  پربھی کچھ خرچ کردیا کرو تاکہ روزآخرت کچھ زادراہ کے کام آئے توحق کی مخالفت اوراپنی فطری بخل سے اس کاالٹاجواب دیتے کہ ہم اپنے مال کیوں  ان محتاجوں ،ضرورت مندوں  کے نان ونفقہ پرخرچ کریں ،انہیں  کیوں  کھلائیں  پلائیں  اگراللہ خودان کی بہتری چاہتاتوخودہی ان کے رزق میں  اضافہ کردیتاہم ان کودے کراللہ کی مشیت کی خلاف ورزی کیوں  کریں ،کیاتم لوگ بالکل ہی سٹک گئے ہوکہ اتنی سی بات بھی تم لوگوں  کی سمجھ میں  نہیں  آتی،حقیقت یہ ہے کہ یہ بیوقوف نظام دنیاکے بارے میں  اتنی سے بات نہیں  سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیاکھانے پینے کے لیے بنائی ہے نہ کھلانے پلانے کے لیے،یہ رنگ برنگی دنیاتوایک امتحان گاہ ہے ،یہاں  کچھ لوگوں  کوبھوکارکھ کر اورکسی کو کھلا پلا کر آزمایا جا رہاہے ۔

وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ مَا یَنْظُرُونَ إِلَّا صَیْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ یَخِصِّمُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ فَلَا یَسْتَطِیعُونَ تَوْصِیَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٥٠﴾(یٰس)
’’وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگاسچے ہو تو بتلاؤ؟ انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جو انہیں آپکڑے گی اور یہ باہم لڑائی جھگڑے میں ہی ہوں گے ، اس وقت نہ تو یہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف لوٹ سکیں گے۔‘‘

حشرکی منظرکشی :

توحید باری تعالیٰ کے بعددوسرابڑامسئلہ جس پرکفاراوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے درمیان نزاع برپاتھاوہ آخرت کامسئلہ تھا،وہ حیات بعدالموت ،اعمال کی جزاوسزکے عقیدے اورجنت وجہنم کوتسلیم نہیں  کرتے تھے ،اس لیے محض کج بحثی اورتمسخرانہ اندازمیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کرتے تھے کہ اچھا یہ توبتلائیں  وہ قیامت جس کے بارے میں  آپ ہمیں  ڈراتے رہتے ہیں کب قائم ہوگی؟ ان کے سوالوں  کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے کوئی تاریخ بتلانے کے بجائے عالم آخرت کاایک عبرتناک نقشہ ان کے سامنے پیش کرکے بتلایاکہ جس قیامت کے متعلق تم بے دھڑک ہوکر سوال کرتے ہووہ تم سے دورنہیں  بلکہ قریب ہے ،جیسے فرمایا:

اَللہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ۝۰ۭ وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ۝۱۷ [48]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہےاور تمہیں  کیا خبرشاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آ لگی ہو ۔

اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا۔۔۔۝۴۰ۧ [49]

ترجمہ:ہم نے تم لوگوں  کو اس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آلگا ہے۔

اور اس طرح اچانک واردہوگی کہ تمہارے حاشیہ خیال میں  بھی یہ تصورنہیں  ہوگاکہ دنیاکے خاتمے کی گھڑی آپہنچی ہے،بس اچانک ایک زوردارآوازبلندہوگی پھرنہ تم لوگ کوئی وصیت کرسکوگے اورنہ تم میں  گھروں  کوواپس جانے کی طاقت ہوگی ،بس اس آوازکے ساتھ ہی تم وہیں  ڈھیرہوکررہ جاؤگے ،جیسے فرمایا:

وَلِلهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَاَقْرَبُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۷۷ [50]

ترجمہ:اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں  آدمی کی پلک جھپک جائے بلکہ اس سے بھی کچھ کم، حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرَّجُلُ یَحْلُبُ اللِّقْحَةَ، فَمَا یَصِلُ الْإِنَاءُ إِلَى فِیهِ حَتَّى تَقُومَ، وَالرَّجُلَانِ یَتَبَایَعَانِ الثَّوْبَ، فَمَا یَتَبَایَعَانِهِ حَتَّى تَقُومَ، وَالرَّجُلُ یَلِطُ فِی حَوْضِهِ، فَمَا یَصْدُرُ حَتَّى تَقُومَ

ابوہریرہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقیامت قائم ہوجائے گی اور مرداونٹنی دوہتاہوگابرتن اس کے منہ تک نہ پہنچے گاکہ قیامت آجائے گی،اوردومردبازار میں  خریدوفروخت کررہے ہوں  گے ،کپڑے کی خریدوفروخت نہ کرچکے ہوں  گے کہ قیامت آجائے گی،اورکوئی مرداپناحوض درست کررہاہوں  ابھی اس کودرست کرکے واپس نہ آئے گاکہ قیامت آجائے گی۔[51]

‏ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ یَنْسِلُونَ ‎﴿٥١﴾‏ قَالُوا یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٥٤﴾‏(یٰس)
’’تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے، کہیں گے ہائے ہائے ! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا، یہی ہے جس کا وعدہ رحمٰن نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا،یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کردیئے جائیں گے، پس آج کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں انہیں بدلہ دیا جائے گا، مگر صرف ان ہی کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘

قیامت کادوسرانفخہ :

پھرجب اللہ تعالیٰ چاہے گا زمین وآسمان اوران کے طبعی قوانین کوبدل دے گا ،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ۔۔۔ ۝۴۸  [52]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں  اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں  گے ۔

اوراللہ اسرافیل علیہ السلام  کوصورپھونکنے کاحکم دے گاجس کی آوازکے ساتھ تمام جن وانس اپنے رب کی بارگاہ میں  پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں  سے دنیاوی جسم وجان کے ساتھ زندہ ہوکرکھڑے ہوجائیں  گے اورآوازدینے والے کی طرف بھاگے جارہے ہوں  گے ، جیسے فرمایا

یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۝۴۳ۙ [53]

ترجمہ: جب یہ اپنی قبروں  سے نکل کر اس طرح دوڑے جا رہے ہوں  گے جیسے اپنے بتوں  کے استھانوں  کی طرف دوڑ رہے ہوں ۔

اورپھرقبرکے عذاب کی نسبت میدان محشرکے ہول وشدت اورتکلیف ومصیبت کودیکھ کرحواس باختہ ہوجائیں  گے اور حسرت وندامت کااظہارکرتے ہوئے کہیں  گے ہائے ہماری کم بختی !یہ کس نے ہمیں  ہماری قبروں  میں  نیند سے اٹھاکھڑاکیا؟ پھریاتوانہیں  خودحقیقت حال کاادراک ہو جائے گایااہل ایمان یافرشتے انہیں  جواب دیں  گے کہ یہ تووہی چیزہے جس کااللہ رحمان نے وعدہ کیاتھااورجس کی خبراللہ کے رسول ہمیں  دیتے تھے اورہم اسے جھٹلاتے تھے، جیسے فرمایا:

وَقَالُوْا یٰوَیْلَنَا ھٰذَا یَوْمُ الدِّیْنِ۝۲۰ھٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲۱ۧ [54]

ترجمہ:اس وقت یہ کہیں  گےہائے ہماری کم بختی! یہ تو یوم الجزا ہے(ارشاد ہوگا ہاں ) یہی وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

ایک ہی زورکی آوازبلندہوگی اوراولین وآخرین سب ہماری بارگاہ میں  پیش کردیئے جائیں  گے،جیسے فرمایا:

فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَةِ۝۱۴ۭ [55]

ترجمہ:حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی اور یکایک یہ کھلے میدان میں  موجود ہوں  گے۔

۔۔۔ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ہُوَاَقْرَبُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۷۷  [56]

ترجمہ:اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں  آدمی کی پلک جھپک جائےبلکہ اس سے بھی کچھ کم، حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

اس دن حقیقی اقتدار صرف رحمٰن کاہوگا،جیسے فرمایا:

اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۝۰ۭ وَكَانَ یَوْمًا عَلَی الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا۝۲۶ [57]

ترجمہ: اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہوگا۔

اورتمام آوازیں  رحمٰن کے آگے دب جائیں  گی۔

یَوْمَىِٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَهٗ۝۰ۚ وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا هَمْسًا۝۱۰۸  [58]

ترجمہ: اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں  گے ، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا اور آوازیں  رحمان کے آگے دب جائیں  گی، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔

اللہ مالک یوم الدین کفارومشرکین اورفساق ومجرمین سے فرمائے گاآج نہ تمہاری نیکیوں  میں  کوئی کمی کی جائے گی نہ تمہاری برائیوں  میں  کوئی اضافہ کیاجائے گابلکہ دنیامیں جس خیروشرکاتم ارتکاب کرتے رہے ہواس کی تمہیں  جزاوسزادی جائے گی ،پس جو بھلائی پائے وہ اپنے رب کی حمدوثنابیان کرے اورجسے اس کے علاوہ ملے تواسے صرف اپنے نفس کوملامت کرنی چاہیے۔

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِی شُغُلٍ فَاكِهُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِی ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ لَهُمْ فِیهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا یَدَّعُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ ‎﴿٥٨﴾(یٰس)
’’جنتی لوگ آج کے دن اپنے (دلچسپ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہیں ،وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے، ان کے لیے جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور بھی جو کچھ وہ طلب کریں، مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ۔‘‘

پرہیزگارلوگوں  کوبلاحساب یاہلکاحساب لے کرجلدازجلدجنتوں  میں  داخل کردیاجائے گاپھراللہ مالک یوم الدین مجرموں  کوکہے گاجن اہل ایمان اور پرہیز گار لوگوں  کا تم حقارت سے مذاق اڑاتے تھے،آنکھوں  ہی آنکھوں  میں  جن کی طرف اشارے کرتے تھے ،جیسے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَكُوْنَ۝۲۹ۡۖ وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ یَتَغَامَزُوْنَ۝۳۰ۡۖ [59]

ترجمہ:مجرم لوگ دنیا میں  ایمان لانے والوں  کا مذاق اڑاتے تھےجب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں  مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے۔

جن کی مفلسی کی بدولت تم قابل التفات ہی نہیں  سمجھتے تھےوہ لوگ تو ہماری جنتوں  میں  ہشاش بشاش اورگوناں  گوں  نعمتوں  اورراحتوں  میں  مشغول ہیں ،وہ اوران کی خوبصورت چہروں  ، آنکھوں  ، بدنوں  اورخوبصورت سیرت والی بیویاں  شاہانہ شان سے جنت کے گھنے اورٹھنڈے سایوں  والے درختوں  کے نیچے خوبصورت چادروں  سے مزین مسندوں  پر گاؤ تکیوں  پرٹیک لگائے ہوئے کمال راحت اورطمانیت کے ساتھ اللہ کی مہمانداری سے لطف اندوزہورہے ہیں  ، ان کے موتیوں  کی طرح خوبصورت نوجوان خدمت گار ان کوہرقسم کے من پسند میوہ جات اورلذیذپھل وغیرہ پیش کررہے ہیں  ، اور جو کچھ بھی وہ تمنا کریں  گے ان کوپیش کردیاجائے گا ،اورتم لوگ دنیامیں  اپنے مال واسباب کے غرورمیں  اپنے آپ کوبڑازیرک ودانا سمجھتے تھے یہاں  کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو،اورفرشتے اہل جنت کو رب رحیم کی طرف سے سلام پہنچائیں  گے،جیسے فرمایا:

تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ۝۰ۖۚ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا۝۴۴ [60]

ترجمہ: جس روزوہ اس سے ملیں  گے ان کااستقبال سلام سے ہوگااوران کے لیے اللہ نے بڑاباعزت اجرفراہم کررکھاہے ۔

وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیُّهَا الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ ۞ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَیْكُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ ‎﴿٦٠﴾‏ وَأَنِ اعْبُدُونِی ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ‎﴿٦١﴾‏ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِیرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ اصْلَوْهَا الْیَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ‎﴿٦٤﴾(یٰس)
’’اے گناہ گارو ! آج تم الگ ہوجاؤ ،اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور میری عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے، شیطان نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا کیا تم عقل نہیں رکھتے، یہی وہ دوزخ ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لیے آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔‘‘

مجرموں  کی چھانٹ :

جب سب لوگ میدان حشرمیں  جمع ہوجائیں  گے تواللہ تعالیٰ اہل توحید اور کفارومشرکین سے کہیں  گے کہ موت کے ساتھ ہی تمہارے سارے دنیاوی رشتے اورتعلقات کاٹ دیئے گئے ہیں  ،لہذااب تم میں  سے ہرشخص کوتنہااپنی ذاتی حیثیت میں  اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی اس لیے اب تم دونوں  گروہ الگ الگ ہو جاؤ، چنانچہ اہل ایمان اورکفارومشرکین الگ الگ گروہوں  میں  بٹ جائیں  گےاورہرایک گھٹنوں  کے بل گرپڑے گاجیسے فرمایا:

وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ۝۱۴ [61]

ترجمہ:اور جس دن قیامت برپا ہو گی اس دن (سب انسان)الگ الگ گروہوں  میں  بٹ جائیں  گے۔

۔۔۔ یَوْمَىِٕذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ۝۴۳ [62]

ترجمہ: اس دن لوگ پھٹ کر ایک دوسرے سےالگ ہو جائیں  گے۔

پھراللہ رب العزت مجرموں  کوڈانٹ کرکہیں  گے اے اولادآدم ! کیاہم نے عہدالست کے وقت تمہیں  خبردارنہیں  کردیاگیاتھاکہ صرف میری عبادت کرنااورمیری مخلوق میں  سے کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرانا،اور یہ کہ شیطان تمہاراکھلادشمن ہے ،اس کے حکم کی تابعداری نہ کرناورنہ وہ تمہیں  راہ راست سے بھٹکادے گا ،ہم نے اپنے فضل وکرم سے اس وعدہ الست کی یاد دہانی اورشیطان کے خطرناک واروں سے بچانے کے لئے ہربستی میں  پیغمبرمبعوث فرمائے ،تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لیے کتابیں  نازل کیں ،انبیاء ومرسلین نے اپنی اپنی قوموں  کودلائل وبراہین سے باورکرایاکہ صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کی عبادت کرو ، اللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں  جو ہرطرح کی طاقت ،قوت واختیارکامالک ہے ،اس نے اپنی مخلوق میں  سے کسی کو کوئی قوت ،طاقت واختیارنہیں  سونپا، شیطان مردود نے تمہیں  صراط مستقیم سے گمراہ کردیاہے ،حقیقت کو پہچانو اور معبودان باطلہ کی پرستش سے تائب ہوکراللہ سے مغفرت چاہو،وہ غفورورحیم ہے اوراپنے بندوں  کے گناہوں  کو بخش دینا پسندکرتا ہے وہ تمہیں  بخش دے گا ،مگر تم لوگوں  نے میرے عہدکی حفاظت کی نہ میری وصیت پرعمل کیابلکہ ر سولوں  کے وعظ ونصیحت اورمیری کتابو ں  کوجھٹلایااورعقل کوخیربادکہہ کرشیطان کے اطاعت گزار ساتھی بن کردعوت حق کاراستہ روکنے کے لیے ان کے مقابل کھڑے ہوگئے، چنانچہ اپنی عہدشکنی ، اللہ وحدہ لاشریک سے کفروشرک اوردوسرے گناہوں  کی پاداش میں  کے لئے جہنم میں  داخل ہوجاؤ،جوباغیوں  اورنافرمانوں  کی جگہ ہے ،جس کی ہولناکی کے بارے میں  پیغمبرتمہیں  ڈراتے تھےمگرتم لوگ دنیامیں  ہی مست رہے اورآخرت کے لئے کوئی تگ ودونہ کی ،عذاب کی شدت سے تم چیخوچلاؤ گے مگر تمہاری چیخ وپکارکوسننے والااورمددکرنے والاکوئی نہ ہوگا۔

 الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَیْدِیهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّىٰ یُبْصِرُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِیًّا وَلَا یَرْجِعُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا یَعْقِلُونَ ‎﴿٦٨﴾(یٰس)
’’ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے، اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے،اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں بےنور کردیتے پھر یہ راستے کی طرف دوڑتے پھرتے لیکن انہیں کیسے دکھائی دیتا ؟ اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں مسخ کردیتے پھر وہ چل پھر سکتے اور نہ لوٹ سکتے، اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے۔‘‘

اعضاء کی گواہی :

جب مجرم غیض وغضب سے پھٹتی جہنم کواپنے سامنے دیکھیں  گے جس میں  داخل ہونے کاحکم دیاگیاتھاتوکانپ جائیں  گے ،خوف سے ان کی آنکھیں  نیلی پڑ جائیں  گی ،اس لئے جہنم سے بچنے کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عدالت میں  قسمیں  کھاکراپنے جرائم کااقبال کرنے سے انکارکردیں  گے،انبیاء ،فرشتوں  اورصالح انسانوں  کی گواہی کو جھٹلائیں  گے ،کراماً کاتبین کے تیارکردہ نامہ اعمال کی صحت تسلیم نہیں  کریں  گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے عذاب جہنم سے بچنے کے لئے کراماً کاتبین کے تیار کردہ نامہ اعمال اورگواہوں  کو جھٹلادیاتواب ہم تمہارے اعضاء سے ہی تمہارے اعمال کی گواہی لے لیتے ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں  پرمہرلگادے گا جس سے وہ کفرو تکذیب پرمبنی اپنے اعمال کاانکارکرنے پرقادرنہیں  ہوں  گے ،پھراللہ تعالیٰ ان کے اعضائے انسانی کوقوت گویائی عطافرما دے گااوراللہ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں ، آنکھیں ، کان،زبان،ہونٹ اورجسم کی کھال تک سچ سچ گواہی دے گی کہ اس ظالم شخص نے تیری مرضی کے خلاف ہمیں  کہاں  کہاں  استعمال کیا تھا،جیسے فرمایا:

 تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۴ [63]

ترجمہ:وہ اس دن کوبھول نہ جائیں  جبکہ ان کی اپنی زبانیں  اوران کے اپنے ہاتھ پاؤں  ان کے کرتوتوں  کی گواہی دیں  گے۔

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰ [64]

ترجمہ: پھرجب سب وہاں  پہنچ جائیں  گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں  اور ان کے جسم کی کھالیں  ان پر گواہی دیں  گی کہ وہ دنیا میں  کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔

پھران کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کی کھالوں سے کہیں  گے۔

وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا ۔۔۔ ۝۲۱ [65]

ترجمہ:وہ اپنے جسم کی کھالوں  سے کہیں  گے تم نے ہمارے خلاف کیوں  گواہی دی ۔

ان کے اعضاء جواب دیں  گے،

 قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّهُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳ [66]

ترجمہ:وہ جواب دیں  گی ہمیں  اسی اللہ نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویاکر دیا ہے ،اسی نے تم کوپہلی مرتبہ پیداکیاتھااوراب اسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو،تم دنیامیں  جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے توتمہیں  یہ خیال نہ تھاکہ کبھی تمہارے اپنے کان اورتمہاری آنکھیں  اورتمہارے جسم کی کھالیں  تم پرگواہی دیں  گی بلکہ تم نے تویہ سمجھاتھاکہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کوبھی خبرنہیں  ہے،تمہارایہی گمان جوتم نے اپنے رب کے ساتھ کیاتھاتمہیں  لے ڈوبااوراسی کی بدولت تم خسارے میں  پڑگئے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، فَقَالَ:هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ؟قَالَ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، یَقُولُ: یَا رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِی مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ: یَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَیَقُولُ: فَإِنِّی لَا أُجِیزُ عَلَى نَفْسِی إِلَّا شَاهِدًا مِنِّی، قَالَ: فَیَقُولُ: كَفَى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ شَهِیدًا، وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِینَ شُهُودًا، قَالَ: فَیُخْتَمُ عَلَى فِیهِ، فَیُقَالُ لِأَرْكَانِهِ: انْطِقِی، قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ یُخَلَّى بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْكَلَامِ، قَالَ فَیَقُولُ: بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہنسے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جانتے ہومیں  کس واسطے ہنسا؟ہم نے عرض کیااللہ اوراس کارسول خوب جانتاہےمیں  بندے کی گفتگوپرہنستاہوں جووہ اپنے مالک سے کرے گابندہ کہے گااے میرے مالک !کیاتومجھ کوظلم سے پناہ نہیں  دے چکاہے (یعنی تو نے وعدہ کیاہے کہ ظلم نہ کروں  گا) اللہ تعالیٰ نے فرمایاہاں ،فرمایاپھربندہ کہے گاکہ میں  سوائے اپنی ذات کی گواہی کے کسی کی گواہی کو اپنے اوپر جائزنہیں  رکھتا، پروردگارفرمائے گااچھاتیری ذات کی گواہی تجھ پرآج کے دن کفایت کرتی ہے اورکراماکاتبین کی گواہی، فرمایا پھر بندہ کے منہ پرمہرلگ جائے گی اوراس کے ہاتھ پاؤں سے کہاجائے گاتم بولو،وہ اس کے سارے اعمال بول دیں  گےپھربندہ کوبات کرنے کی اجازت دی جائیگی،بندہ اپنے ہاتھ پاؤں  سے کہے گا چلو دور ہوجاؤ،اللہ کی مارتم پرمیں  توتمہارے ہی فائدے کے لیے جھگڑا کررہاتھا۔[67]

ہم چاہیں  توایک اشارے سے ان کی بینائی سلب کرلیں پھریہ راستے کی طرف بڑھیں  تواس تک پہنچ نہیں  پائیں  گے لیکن یہ ہماراحلم وکرم ہے کہ ہم نے ایسانہیں  کیا،ہم چاہیں  توایک اشارے سے انہیں  ان کے مکانوں  ہی پران کی صورتیں  بدل دیں  ،یعنی ہم ان کی حرکت سلب کرلیں  توپھر یہ نہ آگے چل سکیں  گے نہ پیچھے پلٹ سکیں  گے بلکہ پتھرکے ایک بے جان بت کی طرح ایک جگہ پڑے رہیں  گے،جس شخص کوہم لمبی عمردیتے ہیں  اس کے قویٰ اورعقل میں  ضعف پیدا ہوجاتاہے حتی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذورہوجاتاہے اور اس کی سمجھ بوجھ ایک بچے کی طرح ہوجاتی ہے،اوروہ ناسمجھی کی باتیں  کرنے لگتاہے ، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـیْــــًٔا۔۔۔۝۰۝۵ [68]

ترجمہ:اورتم میں  سے کوئی بدترین عمرکی طرف پھیردیاجاتاہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعدپھرکچھ نہ جانے ۔

پھرغوروتدبرکروجواللہ ایک پانی کے ایک حقیرقطرے سے بچے کو پیدا کر سکتا ہے ،جوبہت ناتواں  ہوتاہے ،پھروقت کے ساتھ ساتھ اللہ اسے نشونمادے کرایک طاقت ورجوان بنادیتاہے، پھرجوانی سے انتہائی بوڑھاکردیتاہے حتی کہ اس کی گفتگومیں  بھی بچپناجھلکتا ہے، ایسی عمرجب انسان معذورہوجائے،اس کی قویٰ مختل ہو جائیں ،عقل جاتی رہے،نہ کسی کوٹھیک طرح سے پہچان سکے ،نہ کسی کے ساتھ ٹھیک طرح بات کرسکے،کھانے ،پینے،چلنے پھرنے،حتی کہ رفع حاجت تک میں  محتاج ہوجائے، کیااس عظیم الشان کائنات کاخالق انسانوں  کودوبارہ پیداکرنے پرقادرنہیں  ہوسکتا؟

‏ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِی لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِینٌ ‎﴿٦٩﴾‏ لِیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِینَ ‎﴿٧٠﴾‏(یٰس)
’’ نہ تو ہم نے اس پیغمبر کو شعر سکھائے اور نہ یہ اس کے لائق ہے، وہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے تاکہ وہ ہر شخص کو آگاہ کر دے جو زندہ ہےاور کافروں پر حجت ثابت ہوجائے۔‘‘

مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تبلیغ کوبے وزن ٹھہرانے کے لیے مختلف قسم کے بہتان لگاتے رہتے تھے ،ان میں  ایک بہتان یہ بھی تھا کہ آپ شاعرہیں  اوریہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام نہیں  بلکہ آپ کی شاعرانہ تک بندی ہے،جیسے فرمایا:

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍؚبَلِ افْتَرٰىہُ بَلْ ہُوَشَاعِرٌ۝۰ۚۖ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَـمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ۝۵ [69]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں  بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں  بلکہ یہ اس کی من گھڑت ہے بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں  کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝۳۰ [70]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں  کہ یہ شخص شاعر ہے جس کے حق میں  ہم گردش ایام کا انتظار کر رہے ہیں  ؟۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوشاعری سے منزہ قراردیا اور مشرکین کوسمجھایاکہ محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تمہیں  توحید و آخرت،حیات بعدازموت،میدان محشر کے احوال اورجزاوسزاکے لئے نعمتوں  بھری جنت وہولناک جہنم کی جوباتیں  تمہیں  سمجھاتے ہیں  وہ شعروشاعری نہیں  اورنہ ہی اللہ کے پیغمبروں  کوشعروشاعری زیب دیتی ہے ، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے تمہاری رشدوہدایت کے لئے منزل کتاب ہے،جیسے فرمایا:

لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [71]

ترجمہ:باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے ، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

تاکہ وہ اس کے ذریعے سے ہرسوچنے سمجھنے والے شخص کو آخرت کے حالات سےخبردارکردے، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۔۔۔۝۰۝۱۹ۘ [72]

ترجمہ:اوریہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجاگیاہے تاکہ تمہیں  اورجس کویہ پہنچے سب کومتنبہ کر دوں ۔

اورجواللہ کی دوسری کتابوں  کی طرح اس کتاب کواللہ کی منزل کتاب تسلیم نہ کرے وہ جہنمی ہے۔

۔۔۔وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۔۔۔ ۝۱۷  [73]

ترجمہ: اور انسانی گروہوں  میں  سے جوکوئی اس کاانکارکرے تواس کے لیے جس جگہ کاوعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔

تاکہ عقل وبصیرت رکھنے والے لوگ اس پاکیزہ کلام کے دلائل وبراہین میں  غورفکرکریں  اورطاغوتی راستہ چھوڑکراپنی آخرت کی دائمی زندگی کی فکر کریں ، اوران لوگوں  پراتمام حجت قائم ہوجائے جن کوخواہ کتنی ہی معقولیت اور دردمندی سے دعوت حق پیش کی جائے وہ اپنے بغض وعناد،تکبروغرورمیں حقائق کوتسلیم نہیں  کرتے، تاکہ روزآخرت وہ یہ عذرنہ کرسکیں  کہ ہمارے پاس ہمیں  ڈرانے اور خوشخبری دینے والا کوئی نہیں  بھیجاگیاتھا ۔

أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَیْدِینَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ‎﴿٧١﴾‏ وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا یَأْكُلُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ وَلَهُمْ فِیهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٧٣﴾‏ وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ یُنْصَرُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ لَا یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ‎﴿٧٦﴾(یٰس)
’’ کیا وہ نہیں دیکھتے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے( بھی) پیدا کئے جن کے کہ یہ مالک ہوگئے ہیں اور ان مویشیوں کو ہم نے ان کے تابع فرمان کردیاہے جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں،انہیں ان میں سے اور بھی بہت سے فائدے ہیں، اور پینے کی چیزیں، کیا پھر (بھی) یہ شکر ادا نہیں کریں گے ؟ اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں ،(حالانکہ) ان میں ان کی مدد کی طاقت ہی نہیں، (لیکن) پھر بھی (مشرکین) ان کے لیے حاضر باش لشکری ہیں، پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے ہم ان کی پوشیدہ اور اعلانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں۔‘‘

مویشیوں  کے فوائد:

اوراللہ نے دوسری مخلوقات کے علاوہ پالتو مویشی پیدافرمائے اورانہیں  انسانوں  کے لئے مسخرفرمادیاہےجن سے تم لوگ خوش ذائقہ ،حیات بخش دودھ حاصل کرتے ہو،ان کا گوشت کھاتے ہو،ان کی کھالوں  سے پہننے کے لئے جوتے اورموسمی اثرات سے بچنے کے لئے خیمے تیارکرتے ہو،ان کی خریدوفروخت سے فائدے حاصل کرتے ہو،کیاان کی یاکائنات کی دوسری مخلوقات کی پیدائش میں  ( نعوذباللہ) اللہ کے ساتھ کوئی اورشامل تھا،یہ بات تم لوگ تسلیم کرتے ہوکہ تمام کائنات اوراس کے اندرجوکچھ ہے کی پیدائش میں  تمہاراکوئی معبودشامل نہیں  تھاتوپھرتم لوگوں  نے اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کیوں  دوسرے معبودبنالئے ہیں ؟ منعم حقیقی کی نعمتوں  کاکفران کیوں  کرتے ہو؟اللہ کوچھوڑکرکیوں  خودساختہ معبودوں  کے حضورنذرونیازپیش کرتے ہو؟ان کے آستانوں  یاقبروں  پرکیوں چڑہاوے چڑھاتے ہو؟ان کی قبروں  پرکیوں  قربانیاں  کرتے ہو،کیوں  ان کے لئے جانوروں  کوپن کرتے ہو؟اوران گونگے،بہرے اندھے بے بس معبودوں  سے جنہوں  نے کچھ بھی تخلیق نہیں  کیا،جن کے اختیارمیں  برائے نام بھی کچھ نہیں  ان سے یہ امیدبھی رکھتے ہوکہ وہ تمہاری پکارکوسن کرتمہاری دادرسی بھی کریں  گے،تمہاری رسومات عبادت کی وجہ سے روزی میں  برکت ڈالیں  گے،اولادوں  سے نوازیں  گے،عزت ووقارعطاکریں  گے،یادرکھویہ کچھ بھی نہیں  کرسکتے،یہ بے جان ٹکڑے توخودعبادت گزاروں  کے محتاج ہیں ،یہ تو تم لوگ ہی ان کی بارگاہیں  بنا اور سجا کر ان کے حضورحاضرباش بنے ہوئے ہو،اورخودہی انہیں  اختیارات عطافرما کر پروپیگنڈا کرتے ہو،ان کی حمایت میں  لڑتے اورجھگڑتے ہوکہ یہ ایسی کرنے والے ہیں  اور ویسی کرنے والے ہیں ،تم لوگوں  نے شیطان کے جھانسے میں  الجھ کران کی خدائی کوقائم رکھا ہوا ہے اگرتم لوگ ان سے کنارہ کش ہوجاؤتوان کی خدائی ایک لمحے میں  ختم ہو جائے، بہرحال تم لوگ اپنی زبانوں  سے رب حقیقی کو مانویانہ مانوجس کے اختیار میں  سب کچھ ہے،کائنات کی ہرشے جس کی حمدوستائش کررہی ہے ، تمہارے دل ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں  مگرصرف تعصبات ،فخروغرور،بغض و حسد سے انکارکرتے ہو،لوگوں  کواللہ کے رسول سے بدگمان کرنے کے لئے کاہن ،ساحر،مجنون وغیرہ القاب دیتے ہو ، دعوت حق کوزک پہنچانے کے لئے جھوٹی باتیں  گھڑتے ہو،سچائی کامقابلہ جھوٹ وفریب سے کرتے ہو،مگرجھوٹ ،سچائی کے مقابلہ میں  کبھی بھی سربلندنہیں  ہوسکتا ،اللہ کانام بلند ہے اورہمیشہ بلندہی رہے گا،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَكَلِمَةُ اللہِ ہِىَ الْعُلْیَا۔۔۔۝۴۰ [74]

ترجمہ: اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے ۔

تم لوگ دعوت حق کوروکنے کی لاکھ کوششیں  کرلومگرناکام ونامرادہی رہوگے ،پھراس دنیامیں  بھی ذلیل وخوارہوگے اور آخرت میں  بھی اپنابرا انجام دیکھ لوگے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! کفارآپ کی دعوت کاراستہ روکنے کے لیے پروپیگنڈے کا جوطوفان اٹھارہے ہیں ،اس سے تم رنجیدہ خاطرنہ ہوہم ان کی ہرچھپی اورکھلی سب باتوں  کوخوب جانتے ہیں ۔

أَوَلَمْ یَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ ‎﴿٧٧﴾‏ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ یُحْیِی الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیمٌ ‎﴿٧٨﴾‏ قُلْ یُحْیِیهَا الَّذِی أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ‎﴿٧٩﴾‏ الَّذِی جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ ‎﴿٨١﴾‏ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ ‎﴿٨٢﴾‏(یٰس)
’’کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا، اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا کہنے لگا ان کی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے ؟ آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے اول مرتبہ پیدا کیا ہے،  جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے، وہی جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیاہے کیا وہ ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں، بیشک قادر ہے، اور وہی پیدا کرنے والا دانا (بینا) ہے، وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہوجا، تو وہ اسی وقت ہوجاتی ہے۔‘‘

آخرت پرقوی دلائل :

اسلام کے چھ بنیادی عقائدمیں  پانچواں  عقیدہ حیات بعدالموت ہےلیکن کفارومشرکین اس عقیدے کوماننے کے لئے تیارنہیں  تھے،

وَقَتَادَةُ: جَاءَ أُبی بْنُ خَلَفٍ [لَعَنَهُ اللَّهُ]  إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی یَدِهِ عَظْمٌ رَمِیمٌ وَهُوَ یُفَتِّتُه وَیُذْرِیهِ فِی الْهَوَاءِ، وَهُوَ یَقُولُ: یَا مُحَمَّدُ، أَتَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ یَبْعَثُ هَذَا؟ فَقَالَ: “نَعَمْ، یُمِیتُكَ اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ یَبْعَثُكَ، ثُمَّ یَحْشُرُكَ إِلَى النَّارِ. وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَاتُ مِنْ آخِرِ “یس”: {أَوَلَمْ یَرَ الإنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ} ، إِلَى آخِرِهِنَّ.

چنانچہ قتادہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمشرکین مکہ کاایک سردارعاص بن وائل یاابی بن خلف اللہ اس پرلعنت کرےبطحاء مکہ سے ایک بوسیدہ ہڈی اٹھاکررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لایااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے کسی مردے کی اس پرانی ہڈی کوہاتھوں  سے مسل کراس کے ذرات کوہوامیں  اڑادیااورتمسخراوراستہزا کے لہجے میں کہاکیااللہ تعالیٰ اس خاک سے انسان کودوبارہ زندہ کرے گا ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  اللہ تعالیٰ تجھے موت دے گاپھرتجھے زندہ کرے گااورپھرتجھےتیرے گندے عقیدے اور بداعمالیوں  کے سبب جہنم میں  داخل کرے گا،اللہ تعالیٰ نے اسی وقت اس کے تمسخراوراستہزاکاجواب دیا’’ یہ قیامت کا منکرانسان اپنی اصل حقیقت پر غوروتدبرنہیں  کرتا کہ ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے ماں  کے پیٹ میں  پانی کے ایک بدبودار حقیر قطرے سے آہستہ آہستہ مختلف مراحل سے گزار کراسے پیدا کیا۔‘‘[75]

جیسے فرمایا:

اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِیْنٍ۝۲۰ۙ [76]

ترجمہ: کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں  کیا؟۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ۝۰ۤۖ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۝۲ [77]

ترجمہ:ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں  اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔

عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِیِّ قَالَ:بَزَقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی كَفِّهِ، ثُمَّ وَضَعَ أُصْبُعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ:  یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَّى تُعْجِزُنِی ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ،  فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَذِهِ  وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ  قُلْتَ: أَتَصَدَّقُ وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ؟

بسربن حجاش قرشی سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ہتھیلی میں  تھوکاپھراس پرشہادت کی انگلی رکھ کرفرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے اے ابن آدم کیاتومجھے عاجزکرسکتاہے ؟ میں  نے تجھے اس جیسی چیزسے پیدا کیا پھر جب ٹھیک ٹھاک درست اورچست کردیااورتوذراکس بل والاہوگیاتوتونے مال جمع کرنااورمسکینوں  کودینے سے روکناشروع کر دیا،ہاں  جب دم نرخرے میں  اٹکاتوکہنے لگا اب میں  اپناتمام مال اللہ کی راہ میں  صدقہ کرتاہوں ،بھلااب صدقے کاوقت کہاں ؟۔[78]

اور جب اس میں  شعوروتعقل اوربحث واستدلال اورتقریرخطابات کی قابلیتیں  پیداہو گئیں  تواپنے خالق کے منہ کوآنے لگااوراپنی پیدائش کو بھول کرمخلوقات کی طرح ہمیں  عاجزسمجھنے لگا ، کیا وہ نہیں  جانتا کہ ماں  کے پیٹ میں کتنے مراحل سے گزارکر ہم نے اس کوپیداکیاہے ،اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی خوراک کابندوبست کیا ہے ،کس طرح ماں  باپ کے دل میں  اس کی محبت ڈال دی کہ وہ اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں  اوراس کی پرورش کرتے ہیں ،اوراب یہ ہماری بے پناہ قدرتوں  پرانگلی اٹھا کر کہتاہے ان ہڈیوں  کوکون زندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ،اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات عالیہ کی دوسری دلیل بیان فرمائی کہ اس احسان فراموش سے کہوان بوسیدہ ہڈیوں  کو وہی زندہ کرے گاجس نے انہیں  پہلی مرتبہ بغیرکسی نمونے کے پیداکیا تھا اور وہ تخلیق کے ہرکام کو جانتاہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں  کی تیسری دلیل بیان فرمائی کہ انہیں وہی اللہ زندہ کرے گا جس نے اپنی قدرت سے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت مرخ اورعفار سے آگ پیداکردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو،اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں  کی چوتھی دلیل بیان فرمائی کہ جس ہستی نے آسمانوں  اورزمین کو وسعت اورعظمت کے باوجود چند دنوں  میں تخلیق فرمایا ہے کیا وہ اس پرقدرت نہیں  رکھتا کہ ان جیسوں  کو دوبارہ پیداکرسکے ؟کیوں  نہیں ،وہ ان کودوبارہ وجودبخشنے پر قادر ہے ، کیونکہ آسمانوں  اورزمین کی تخلیق انسان کی تخلیق سے زیادہ مشکل اورزیادہ بڑی ہے،جیسے فرمایا

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۷ [79]

ترجمہ:آسمانوں  اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناًزیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں ۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳ [80]

ترجمہ: اور کیا ان لوگوں  کو یہ سجھائی نہیں  دیتا کہ جس اللہ نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں  اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں  کو جلا اٹھائے ؟ کیوں  نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔

اورپانچویں  خاص دلیل بیان فرمائی کہ وہ ماہرخلاق ہےیعنی بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام چھوٹی بڑی مخلوقات کو پیداکرنے والاہے ،خواہ وہ پہلے گزرچکی ہوں  یاآنے والی ہوں ،سب کی سب اس کی تخلیق اورقدرت کے آثارہیں ،

وَسَمِعْتُهُ یَقُولُ:إِنَّ رَجُلًا حَضَرَهُ المَوْتُ، فَلَمَّا یَئِسَ مِنَ الحَیَاةِ أَوْصَى أَهْلَهُ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَاجْمَعُوا لِی حَطَبًا كَثِیرًا، وَأَوْقِدُوا فِیهِ نَارًا، حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِی وَخَلَصَتْ إِلَى عَظْمِی فَامْتُحِشَتْ، فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا، ثُمَّ انْظُرُوا یَوْمًا رَاحًا فَاذْرُوهُ فِی الیَمِّ، فَفَعَلُوا، فَجَمَعَهُ اللَّهُ فَقَالَ لَهُ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: مِنْ خَشْیَتِكَ، فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ  قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو: وَأَنَا سَمِعْتُهُ یَقُولُ ذَاكَ: وَكَانَ نَبَّاشًا

حذیفہ  رضی اللہ عنہ  سےمنقول ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناکہ ایک شخص کی جب موت کا وقت آگیااوروہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہوگیا تواس نے اپنے گھروالوں  کووصیت کی، جب میری موت ہوجائے تومیرے لئے بہت ساری لکڑیاں  جمع کرنا اوران میں  آگ لگادیناجب آگ میرے گوشت کوجلاچکے اورآخری ہڈی کوبھی جلادے توان جلی ہوئی ہڈیوں  کوپیس ڈالنااورکسی تندہواوالے دن کاانتظارکرنااور(ایسے کسی دن)میری راکھ کو دریا میں  بہادینا،اس کے گھروالوں  نے ایساہی کیا،اللہ قادرمطلق نے اس کی ساری راکھ جمع کر کے اسے زندہ کر دیا اور اس سے پوچھا تونے ایساکیوں  کروایا تھا؟ اس شخص نے جواب دیااے اللہ تیرے خوف سے،اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی، اسے معاف فرما دیا،عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا میں  نے آپ کویہ فرماتے سناتھاکہ یہ شخص کفن چورتھا۔[81]

اس کی شان اوراس کی قدرتوں  کاکمال تویہ ہے کہ جب وہ کسی چیزکاارادہ کرتا ہے تواس کاکام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجااوروہ ہوجاتی ہے،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، یَقُولُ: یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ، إِلَّا مَنْ عَافَیْتُ، فَسَلُونِی الْمَغْفِرَةَ فَأَغْفِرَ لَكُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّی ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ، فَاسْتَغْفَرَنِی بِقُدْرَتِی غَفَرْتُ لَهُ، وَكُلُّكُمْ ضَالٌّ، إِلَّا مَنْ هَدَیْتُ، فَسَلُونِی الْهُدَى أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِیرٌ، إِلَّا مَنْ أَغْنَیْتُ، فَسَلُونِی أَرْزُقْكُمْ، وَلَوْ أَنَّ حَیَّكُمْ، وَمَیِّتَكُمْ، وَأَوَّلَكُمْ، وَآخِرَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ، وَیَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا،

ابو ذر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےاے میرے بندو! تم سب کے سب گنہگار ہو سوائے اس کے جسے میں  عافیت عطاء کردوں  اس لئے مجھ سے معافی مانگا کرو میں  تمہیں  معاف کردوں  گا   اور جو شخص اس بات پریقین رکھتا ہے کہ مجھے معاف کرنے پر قدرت ہے اور وہ میری قدرت کے وسیلے سے مجھ سے معافی مانگتا ہے تو میں  اسے معاف کر دیتا ہوں  اور کوئی پرواہ نہیں  کرتا،تم میں  سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں  ہدایت دے دوں  لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگا کرو میں  تم کو ہدایت عطاء کروں  گا،تم میں  سے ہر ایک فقیر ہے سوائے اس کے جسے میں  غنی کردوں  ، لہٰذا مجھ سے غناء مانگا کرو میں  تم کو غناء عطاء کروں  گا، اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب کے سب میرے سب سے زیادہ شقی بندے کے دل کی طرح ہو جائیں  تو میری حکومت میں  سے ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں  کر سکتے،

فَكَانُوا عَلَى قَلْبِ أَتْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِی، لَمْ یَزِدْ فِی مُلْكِی جَنَاحُ بَعُوضَةٍ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا فَكَانُوا عَلَى قَلْبِ أَشْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِی، لَمْ یَنْقُصْ مِنْ مُلْكِی جَنَاحُ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ حَیَّكُمْ، وَمَیِّتَكُمْ، وَأَوَّلَكُمْ، وَآخِرَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ، وَیَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا، فَسَأَلَ كُلُّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِیَّتُهُ، مَا نَقَصَ مِنْ مُلْكِی، إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِشَفَةِ الْبَحْرِ، فَغَمَسَ فِیهَا إِبْرَةً، ثُمَّ نَزَعَهَا، ذَلِكَ بِأَنِّی جَوَادٌ مَاجِدٌ، عَطَائِی كَلَامٌ، إِذَا أَرَدْتُ شَیْئًا، فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ: كُنْ فَیَكُونُ

اور اگر وہ سب کے سب میرے سب سے زیادہ متقی بندے کے دل پر جمع ہو جائیں  تو میری حکومت میں  ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں  کر سکتے، اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب جمع ہوجائیں  اور ان میں  سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں  تک اس کی تمنا پہنچتی ہو اور میں  ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق مطلوبہ چیزیں  دیتا جاؤں  تو میرے خزانے میں  اتنی بھی کمی واقع نہ ہوگی کہ اگر تم میں  سے کوئی شخص ساحل سمندر سے گذرے اور اس میں  ایک سوئی ڈبوئے اور پھر نکالے میری حکومت میں  اتنی بھی کمی نہ آئیگی کیونکہ میں  بے انتہا سخی، بزرگ اور بے نیاز ہوں  میری عطاء بھی ایک کلام سے ہوتی ہے اور میرا عذاب بھی ایک کلام سے آجاتا ہے، میں  کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں  توکن کہتا ہوں اور وہ چیز وجود میں  آجاتی ہے۔[82]

 (‏ فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَیْءٍ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٨٣﴾‏یٰسین)
 پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں  ہر چیز کی بادشاہت ہےاور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

اپنی قدرتوں  کی چھٹی دلیل بیان فرمائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہرقسم کے شرک سے پاک ہے ،اس کاکوئی شریک ،کوئی ساجی نہیں اوراس عظیم الشان کائنات میں  اسی وحدہ لاشریک کی ہی حکومت ہے،کائنات کی تمام چیزیں  اس کی ملکیت اوراس کے درکے سوالی ہیں ،اوراس کے دست تدبیرکے تحت مسخرہیں ،جیسے فرمایا:

تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ۝۰ۡوَهُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۨ۝۱ۙ [83]

ترجمہ:نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ (ذات) جس کے ہاتھ میں  (اس کائنات کی) بادشاہی ہے اوروہ ہرچیزپرقدرت رکھتا ہے۔

اس دنیاوی زندگی کی مقررہ سانسیں  گزارنے کے بعدتمہیں  موت آئے گی اورپھرجب اللہ مالک یوم الدین چاہے گاتمہیں  حساب کتاب کے لئے دوبارہ جسم وجان کے ساتھ قبروں  سے زندہ کرئے گااورتمہارے اعمال کے مطابق تمہیں  اچھی یابری جزادے گااوروہاں  تمہیں  کوئی پناہ دینے والابھی نہ ہوگا۔

[1]  الرعد۴۳

[2]  الشوریٰ۵۲،۵۳

[3]  یونس۹۶

[4]  الملک۱۲

[5] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، أَوْ كَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ۲۳۵۱،سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ التَّحْرِیضِ عَلَى الصَّدَقَة۲۵۵۵،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَیِّئَةً۲۰۳، مسنداحمد۱۹۱۵۶، مسندالبزار۲۹۶۳،المعجم الکبیرللطبرانی ۲۳۷۲،شعب الایمان ۳۰۴۸،السنن الکبری للنسائی ۲۳۴۶،السنن الکبری للبیقی ۷۷۴۱،السنن الصغیرللبیہقی ۱۲۴۷، مصنف ابن ابی شیبة۹۸۰۳،شرح السنة للبغوی ۱۶۶۱

[6]  صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ۴۲۲۳

[7]  المومنون۲۴

[8]  المومنون ۳۳،۳۴

[9]  القمر۲۴

[10]  التغابن۵،۶

[11]  ابراہیم ۱۰

[12]  بنی اسرائیل۹۴

[13] العنکبوت ۵۲ 

[14] النمل ۴۵ 

[15] النمل۴۷

[16]  الاعراف۱۳۱

[17] ھود۹۱

[18]  مریم۴۶

[19]  بنی اسرائیل۱۳

[20]  الزمر۳۸

[21]  الزخرف۹

[22]  سبا۲۴

[23]  السجدة۷

[24]  الملک۳،۴

[25]  فاطر۱۳

[26]  الحج۷۳

[27]  مریم۴۲

[28]  البقرة۱۱۱

[29]  النمل۶۴

[30]  الانبیائ۲۴

[31]  ص۲۷

[32]  الدخان۳۸

[33]  القیامة۳۶

[34]  الحجر۱۱

[35]  ھود۱۱۱

[36]  الذاریات۴۹

[37]  الاعراف۵۴

[38]  الحج۶۱

[39] یس: 38

[40]  صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ۳۱۹۹ ، وکتاب التفسیر سورہ یٰسین  بَابُ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ۴۸۰۲ ، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الزَّمَنِ الَّذِی لَا یُقْبَلُ فِیهِ الْإِیمَانُ ۳۹۹،مسنداحمد۲۱۳۵۲

[41] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ یٰسین  بَابُ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ۴۸۰۳  

[42]  البقرة۱۸۹

[43] یونس۵

[44]  بنی اسرائیل۱۲

[45]  الاعراف۵۴

[46]  تفسیرطبری۵۲۰؍۲۰

[47]  جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِینَ یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِیَائِهِمْ۲۳۵۵ ،مسنداحمد۱۰۶۵۴،شعب الایمان ۹۸۹۷

[48]  الشوری۱۷

[49] النبا۴۰

[50]  النحل۷۷

[51]  صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ قُرْبِ السَّاعَةِ۷۴۱۳  ،مسندابی یعلی۶۲۷۱

[52] ابراہیم۴۸

[53]  المعارج۴۳

[54]  الصافات۲۰،۲۱

[55]  النازعات۱۳،۱۴

[56] النحل۷۷

[57]  الفرقان۲۶

[58] طہ۱۰۸

[59]  المطففین۲۹،۳۰

[60]  الاحزاب۴۴

[61]  الروم ۱۴

[62]  الروم ۴۳

[63] النور۲۴

[64]  حم السجدة۲۰

[65]  حم السجدة۲۱

[66]  حم السجدة۲۱تا۲۳

[67]  صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن لمومن وجنة للکافر ۷۴۳۹، صحیح ابن حبان ۷۳۵۸،شعب الایمان ۲۶۱،السنن الکبریٰ للنسائی ۱۱۵۸۹

[68] الحج۵

[69]  الانبیائ۵

[70]  الطور۳۰

[71]  حم السجدة۴۲

[72]  الانعام۱۹

[73] ھود ۱۷ 

[74]  التوبة۴۰

[75]  تفسیرابن کثیر۵۹۳؍۶

[76]  المرسلات۲۰

[77]  الدھر۲

[78]  سنن ابن ماجہ کتاب الوصایابَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِمْسَاكِ فِی الْحَیَاةِ وَالتَّبْذِیرِ عِنْدَ الْمَوْتِ ۲۷۰۸، مسنداحمد ۱۷۸۴۴

[79]  المومن۵۷

[80]  الاحقاف۳۳

[81]  صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۴۵۰،وکتاب الرقاق بَابُ الخَوْفِ مِنَ اللَّهِ ۶۴۸۰،سنن   ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ۴۲۵۵، مسنداحمد۲۳۳۵۳، مسند البزار۲۸۲۲،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۴۲،شعب الایمان ۶۷۶۰،شرح السنة للبغوی ۴۱۸۳

[82]  سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ ۴۲۵۷،جامع ترمذی کتاب صفة القیامة باب ۱۵۱۴،ح ۲۴۹۵، مسنداحمد۲۱۳۶۷،مسندالبزار۳۹۹۵

[83]  الملک۱

Related Articles