ہجرت نبوی کا دسواں سال

حجة الوداع(ذی قعدہ دس ہجری)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیات مبارکہ میں  ایک ہی حج کیا ۔مگر مختلف روایات میں  ہے کہ جیسا جابر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل دوحج کیے۔ابن اثیرکہتے ہیں  کہ ہجرت سے پہلے آپ ہرسال حج کیاکرتے تھے۔ابن جوزی کہتے ہیں  کہ اس امرکاصحیح علم نہیں  ہوسکاکہ آپ نے کتنے حج کیے۔

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِینَ لَمْ یَحُجَّ، ثُمَّ أَذَّنَ فِی النَّاسِ فِی الْعَاشِرَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ، فَقَدِمَ الْمَدِینَةَ بَشَرٌ كَثِیرٌ، كُلُّهُمْ یَلْتَمِسُ أَنْ یَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ

ہجرت کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومدینہ منورہ میں  نوسال ہوچکے تھے لیکن اس زمانہ میں  آپ نے کوئی حج نہیں  کیاتھا ،نوہجری میں حج کی فرضیت کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کوامیرالحاج بناکرمکہ روانہ فرمایاتھااوراس سال مسلمانوں  نے ان کی زیرامارت حج کیاتھا، ہجرت کے دسویں  سال ماہ ذی القعدہ الحرام میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خودبنفس نفیس حج کاارادہ فرمایااوراطراف واکناف میں  اس کااعلان کرودیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس سال حج کے لئے تشریف لے جائیں  گے ، اعلان ہوتے ہی بڑی کثیرتعدادمیں  مسلمان مدینہ منورہ میں  جمع ہونے شروع ہوگئے ہرشخص اس بات کامشتاق تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی (میں  حج ادا) کرے۔[1]

میقات کے متعلق سوال:

أَنَّ رَجُلًا، قَامَ فِی المَسْجِدِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مِنْ أَیْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُهِلُّ أَهْلُ المَدِینَةِ مِنْ ذِی الحُلَیْفَةِ، وَیُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنَ الجُحْفَةِ، وَیُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَیُهِلُّ أَهْلُ الیَمَنِ مِنْ یَلَمْلَمَ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسجدمیں  تشریف فرماتھے کہ اتنے میں  ایک شخص کھڑاہوااس نے سوال کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  آپ ہمیں  کہاں  سے احرام باندھنے کاحکم دیتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامدینہ طیبہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں ،شام والے جحفہ سے احرام باندھیں ،نجدوالے قرن سے احرام باندھیں  اور یمن والے یلملم سے احرام باندھیں ۔[2]

صحیح مسلم میں  سوال کرنے کا ذکر نہیں ۔

وفدبنی محارب:

بنومحارب کانام سات قبائل کے لئے بولاجاتاتھاجوسب کے سب عدنانی تھے ،بنی محارب کی جس شاخ کے لوگ بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے اس کاتعلق بنو خصفہ بن قیس عیلان سے تھایہ لوگ عراق اورنجدمیں  آبادتھے ،قریش الظواہرکی ایک شاخ کانام بھی بنومحارب تھااس قبیلہ کے لوگ بڑے تندخواوردرشت مزاج تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب ایام حج میں  لوگوں  کواسلام کی دعوت دیتے تھے تویہ لوگ نہایت سختی سے آپ کے ساتھ پیش آتے تھے۔

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ مُحَارِبٍ عَامَ حِجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهُمْ كَانُوا أَغْلَظَ الْعَرَبِ وَأَفَظَّهُمْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی تِلْكَ الْمَوَاسِمِ أَیَّامَ عَرْضِهِ نَفْسَهُ عَلَى الْقَبَائِلِ یَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ، فَجَاءَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ نَائِبِینَ عَمَّنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ فَأَسْلَمُوا،فَأُنْزِلُوا دَارَ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ وَكَانَ بلال یَأْتِیهِمْ بِغَدَاءٍ وَعَشَاءٍ

دس ہجری میں  حجة الوداع کے موقع پربنومحارب کا ایک وفدبارگاہ رسالت میں  حاضرہوا،یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے تمام عربوں  سے زیادہ قوی الایمان تھے ،اس موقع پرجب موسم حج تھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قبائل عرب کواللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دے رہے تھے اسی قوم میں  سے دس آدمیوں  پرمشتمل ایک وفد اپنی پوری قوم کی جانب سے نائب بن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئےاوراسلام قبول کرلیا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفدکورملہ رضی اللہ عنہا  بنت حارث کے مکان پر ٹھہرایا اور بلال  رضی اللہ عنہ  کوان کی خاطر مدرات (مہمانداری) پرمامور فرمایا بلال  رضی اللہ عنہ صبح وشام ان کے لیے کھانالاتے،

إِلَى أَنْ جَلَسُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا مِنَ الظُّهْرِ إِلَى الْعَصْرِفَعَرَفَ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَأَمَدَّهُ النَّظَرَ فَلَمَّا رَآهُ المحاربی یُدِیمُ النَّظَرَ إِلَیْهِ قَالَ: كَأَنَّكَ یَا رَسُولَ اللهِ تُوهِمُنِی؟قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُكَ،قَالَ المحاربی: أَیْ وَاللهِ، لَقَدْ رَأَیْتَنِی وَكَلَّمْتَنِی، وَكَلَّمْتُكَ بِأَقْبَحِ الْكَلَامِ، وَرَدَدْتُكَ بِأَقْبَحِ الرَّدِّ بِعُكَاظَ، وَأَنْتَ تَطُوفُ عَلَى النَّاسِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہرسے عصرتک کاوقت ان سے گفتگوکے لئے وقف کردیا،اثنائے گفتگومیں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کوپہچان لیااورغورسے ملاحظہ فرمانے لگے، جب محاربی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نگاہیں  اپنی طرف دیکھیں  توکہنے لگااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !شایدآپ مجھے پہچان رہے ہیں ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے تمہیں  پہلے بھی کہیں  دیکھاہے،محاربی نے جواب دیا ہاں  اللہ کی قسم !ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بالکل درست فرمایاآج سے بہت عرصہ پہلے آپ بازارعکاظ میں  تشریف لائے تھے اور قبائل عرب کومخاطب فرمارہے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے وہاں  دیکھاتھا اورمجھے دعوت اسلام بھی دی تھی تومیں  نے آپ کواس دعوت کے جواب میں نہایت گستاخانہ جواب دیاتھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے ٹھیک ہے مجھے یادآگیا،

ثُمَّ قَالَ المحاربی: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا كَانَ فِی أَصْحَابِی أَشَدُّ عَلَیْكَ یَوْمَئِذٍ وَلَا أَبْعَدُ عَنِ الْإِسْلَامِ مِنِّی، فَأَحْمَدُ اللهَ الَّذِی أَبْقَانِی حَتَّى صَدَّقْتُ بِكَ، وَلَقَدْ مَاتَ أُولَئِكَ النَّفَرُ الَّذِینَ كَانُوا مَعِی عَلَى دِینِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ بِیَدِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،فَقَالَ المحاربی: یَا رَسُولَ اللهِ اسْتَغْفِرْ لِی مِنْ مُرَاجَعَتِی إِیَّاكَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ مِنَ الْكُفْرِ

اس محاربی نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن میرے دوستوں  میں  سے مجھ سے زیادہ بدبخت کوئی نہ تھامیں  نے سب سے بڑھ چڑھ کرآپ کی مخالفت کی تھی ، میرے سب ساتھی تواپنے آبائی مذہب پرمرگئے میں اللہ کی حمدکرتاہوں  کہ اس نے مجھے اب تک زندہ رکھااوراسلام قبول کرنے کی سعادت بخشی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب کے دل اللہ عزوجل ہی کے ہاتھ میں  ہیں ،محاربی نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں  پرحاضرہوجانے کے باعث میری گزشتہ لغرشوں  کی بخشش کے لئے دعافرمائیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسلام لاتے ہی وہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں  جوحالت کفرمیں  سرزدہوئے ہوں  ۔[3]

اس شخص کے علاوہ اس وفدکے دوسرے اراکین نے بھی نہایت خلوص سے اسلام قبول کیااورعرض کیاکہ ہم اپنے قبیلے کے پیچھے رہ جانے والے لوگوں  کے بھی نمائندہ ہیں ۔

قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ مُحَارِبٍ سَنَةَ عَشْرٍ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهُمْ عَشَرَةُ نَفَرٍ فِیهِمْ: سَوَاءُ بْنُ الْحَارِثِ، وَابْنُهُ خُزَیْمَةُ بْنُ سَوَاءٍ

دس ہجری حجة الودع سے پہلےمحارب کادس رکنی وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہواجس میں  عظیم  رضی اللہ عنہ بن حارث،ان کے بھائی سواء رضی اللہ عنہ  بن حارث اورسواء  رضی اللہ عنہ  کے بیٹے خزیمہ  رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ان تینوں  کوبعض واقعات کی بناپرشہرت حاصل ہوئی۔[4]

ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ

 أبوه أهدى للنبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المرتجز فرسه، فأثابه على ذلك الفرعاء ناقته، فأولادها عندهم

عظیم  رضی اللہ عنہ بن حارث نے بارگاہ نبوی میں  حاضری کے وقت مرتجزنامی اپنی سواری کاگھوڑانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  بطورہدیہ پیش کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے قبول فرمالیااوراس کے عوض فرعاء نامی اپنی اونٹنی ان کوعطافرمائی جبکہ اس اونٹی کے بچے انہیں  کے پاس تھے۔ [5]

اس کے علاوہ آپ نے ایک تحریری فرمان کے ذریعے ان کوفخ نام کی ایک جاگیربھی مرحمت فرمائی ۔

اس فرمان کا متن یہ ہے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحَمْنِ الرَّحِیمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ لِعَظِیمِ بن الْحَارِثِ الْمُحَارِبِیِّ

أَنَّ لَهُ فَجًا لا یَحَاقُّهُ فِیهَا أَحَدٌ ۔

وَكَتَبَ الأَرْقَمُ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرہے محمدرسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے عظیم بن الحارث المحاربی کے نام

کہ فج   ان کاہے اس میں  کوئی دوسرااپناحق نہیں  جتائے گا۔

کاتب ارقم رضی اللہ عنہ ۔[6]

(فخ پانی کاایک تلاب یاچشمہ تھا،بعض نے اس کانام فج لکھاہے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کانام فخ تھا۔جیساکہ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ ،یاقوت الحموی،حافظ ابن کثیر اورمتعدددوسرے اہل علم نے اس کی تصریح کی ہے)

سواء بن حارث وہی شخص ہیں  جوقبول اسلام سے پہلے ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے تھے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گھوڑے کاسوداکیاتھالیکن بعدمیں  اس سودے سے پھر گئے تھے

عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَیْمَةَ، أَنَّ عَمَّهُ، حَدَّثَهُ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِیٍّ، فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَقْضِیَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ، فَأَسْرَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَشْیَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِیُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ یَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِیَّ، فَیُسَاوِمُونَهُ بِالْفَرَسِ وَلَا یَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ، فَنَادَى الْأَعْرَابِیُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسِ وَإِلَّا بِعْتُهُ؟

عمارہ بن خزیمہ رحمہ اللہ  سے مروی ہے کہ ان کے چچانے بیان کیاجونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کےا صحاب میں  سے تھے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بدوی سے گھوڑاخریدااوربدوی سے کہا میرے ساتھ آؤتاکہ تمہارے گھوڑے کی قیمت اداکردوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جلدی جلدی چلے جبکہ اعرابی آہستہ آہستہ چلاتولوگ اس بدوی کے سامنے آئے اورگھوڑے کا سوداکرنے لگے انہیں  علم نہیں  تھاکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے خریدلیاہے،تواس بدوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوپکارااورکہااگرگھوڑاخریدناہے توخریدلوورنہ میں  اسے بیچ دوں  گا

فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ سَمِعَ نِدَاءَ الْأَعْرَابِیِّ، فَقَالَ:أَوَ لَیْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟ فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ: لَا، وَاللهِ مَا بِعْتُكَهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَلَى، قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ ،فَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ، یَقُولُ هَلُمَّ شَهِیدًا فَقَالَ خُزَیْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَایَعْتَهُ،فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَیْمَةَ فَقَالَ:بِمَ تَشْهَدُ؟ فَقَالَ: بِتَصْدِیقِكَ یَا رَسُولَ اللهِ ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَیْمَةَ بِشَهَادَةِ رَجُلَیْنِ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی آوازسن کررک گئے اورفرمایاکیامیں  نے اسے تم سے خریدنہیں  لیابدوی نے کہانہیں  قسم اللہ کی !میں  نے تواسے تم کونہیں  بیچا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیوں  نہیں  میں  نے تم سے خریدلیاہے،بدوی کہنے لگاچلوگواہ لاؤ،توخزیمہ بن ثابت  رضی اللہ عنہ (جوانتہائی ذکی،فطین اورقوی الایمان صحابی تھے)بولے میں  گواہی دیتاہوں  کہ تونے یہ بیچ دیاہے ،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  خزیمہ  رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاتم کس طرح گواہی دیتے ہو؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! آپ کی تصدیق کی بناپر(یعنی آپ اللہ کے رسول ہیں  جھوٹ نہیں  بول سکتے اورآپ ہمیں  وہ کچھ بتاتے ہیں  جوہم ملاحظہ نہیں  کرتے لیکن اس کے باوجودہم وہ سب کچھ تسلیم کرتے ہیں  تویہ کیوں  تسلیم نہیں  کرسکتے)چنانچہ اس واقعہ کے بعدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےخزیمہ رضی اللہ عنہ  کی گواہی کو دوآدمیوں  کی گواہی کے برابرقراردے دیا۔[7]

وَمَسَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَ خُزَیْمَةَ بْنِ سَوَاءٍ فَصَارَتْ لَهُ غُرَّةٌ بَیْضَاءُ ،وَأَجَازَهُمْ كَمَا یُجِیزُ الْوَفْدَ وَانْصَرَفُوا إِلَى بِلَادِهِمْ

خزیمہ  رضی اللہ عنہ بن سواء رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے توآپ نے ازراہ شفقت اپنادست مبارک ان کے چہرے پرپھیرااس کے ساتھ ہی ان کاچہرہ نورسے چمکنے لگا (سفیدروشن ہوگیا)یہ وفدمدینہ منورہ سے چلنے لگاتوسیدالامم   صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق وفدکوبہت کچھ دے دلاکررخصت کیا۔[8]

مدینہ منورہ سے روانگی :

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لِخَمْسٍ بَقِینَ مِنْ ذِی القَعْدَةِ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ (حج کے لیے نکلے)توذی قعدہ میں  سے پانچ دن باقی رہے تھے۔[9]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:صَلَّیْتُ الظُّهْرَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ أَرْبَعًا، وَبِذِی الحُلَیْفَةِ رَكْعَتَیْنِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے پچیس یاچھبیس ذوقعدہ کوہفتہ کے دن میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مدینہ منورہ میں  ظہرکی چاررکعت پڑھی۔[10]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:انْطَلَقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ المَدِینَةِ بَعْدَ مَا تَرَجَّلَ، وَادَّهَنَ وَلَبِسَ إِزَارَهُ وَرِدَاءَهُ هُوَ وَأَصْحَابُهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے حجة الوداع میں  ہفتہ کے دن ظہر اورعصرکے درمیان نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بالوں  میں  کنگھا کرنے اورتیل لگانے اورازاراوررداپہننے کے بعداپنے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔[11]

معه نساءه كلهنّ فى الهوادج

تمام ازواج مطہرات (فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا  بھی )کچاووں  میں  سوار تھیں ۔[12]

فَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ أَبَا دُجَانَةَ السَّاعِدِیَّ، وَیُقَالُ: سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَةَ الْغِفَارِیَّ

اس موقعہ پرآپ نے ابودجانہ ساعدی رضی اللہ عنہ  اورایک قول کے مطابق سباع بن عرفطہ غفاری  رضی اللہ عنہ  کومدینہ منورہ کاحاکم مقررفرمایاتھا۔

وَكَانَ عَلَى هَدْیِهِ نَاجِیَةُ بْنُ جُنْدُبٍ الْأَسْلَمَیُّ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے جانوروں  پرناجیہ  رضی اللہ عنہ بن جندب (ذکوان رضی اللہ عنہ )کونگران مقررفرمایا۔[13]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِثَمَانِیَ عَشْرَةَ بَدَنَةً مَعَ  رَجُلٍ، فَأَمَرَهُ فِیهَا بِأَمْرِهِ، فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیْهِ، فَقَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ أَزْحَفَ عَلَیْنَا مِنْهَا شَیْءٌ؟ فَقَالَ:انْحَرْهَا، ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَهَا فِی دَمِهَا، ثُمَّ اجْعَلْهَا عَلَى صَفْحَتِهَا، وَلا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ، وَلا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (حجة الوداع کے موقع پر)ایک شخص کے ساتھ سولہ اونٹ مکہ مکرمہ روانہ فرمائے اوراس کوان اونٹوں  کانگہبان مقررکیا،وہ شخص چلاگیا اور پھردوبارہ واپس آکرعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگران اونٹوں  میں  سے کوئی کسی بیماری یاتھکاوٹ کی وجہ سے چل نہ سکے تومیں  کیاکروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کوذبح کرلے اوراس کے خون میں  ان جوتیوں  کوجواس کے گلے میں  پڑی ہیں  ڈبوکراس کے کوہان پرنشان لگادے اوراس کاگوشت نہ توکھااورنہ تیرے ساتھی۔[14]

اس روایت میں  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما نے اونٹوں  کے نگہبان کانام نہیں  لیا لیکن السنن الکبری نسائی کی ایک حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ یہ نگہبان ذکوان رضی اللہ عنہ (ناجیہ الاسلمی )ہی تھے،

عَنْ نَاجِیَةَ الْخُزَاعِیِّ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَیْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنَ الْبُدْنِ؟، قَالَ:انْحَرْهَا، ثُمَّ اغْمِسْ نَعْلَهَا فِی دَمِهَا، ثُمَّ خَلِّ بَیْنَ النَّاسِ وَبَیْنَهَا یَأْكُلُونَهَا

ذکوان  رضی اللہ عنہ بن جندب(ناجیہ الخزاعی رضی اللہ عنہ  یاناجیہ الاسلمی رضی اللہ عنہ )سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قربانی کے جانوروں  میں  سے جوجانورمرنے کے قریب ہوں  میں  ان کوکیا کروں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاان کوذبح کرلے اوران کے خون میں  ان کوڈبوکرجوان کی گردن میں  ہیں  ،ان کی گردنوں  پرنشان لگادے اورپھران کولوگوں  میں  چھوڑدے تاکہ وہ ان کو کھائیں ۔[15]

وَالعَصْرَ بِذِی الحُلَیْفَةِ رَكْعَتَیْنِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےذوالحلیفہ میں  دورکعت نماز عصر ادا کی ۔[16]

حَتَّى أَتَیْنَا ذَا الْحُلَیْفَةِ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِی بَكْرٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ أَصْنَعُ؟ فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍاغْتَسِلِی، وَاسْتَثْفِرِی بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِی

یہاں  تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے تواسی مقام پراسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا  کے ہاں  محمدبن ابی بکر پیدا ہوئے ،انہوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوکہلابھیجاکہ میں  کیاکروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیاکہ وہ انہیں  نہانے اورلنگوٹ باندھ کراحرام پہننے کا کہیں ۔[17]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ:طَیَّبْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِحُرْمِهِ حِینَ أَحْرَمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبولگائی احرام پر جب آپ نے احرام پہنا۔[18]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے چادریں  اوڑھ لیں  اورتہ بندباندھ لئے،

فَلَمْ یَنْهَ عَنْ شَیْءٍ مِنَ الأَرْدِیَةِ وَالأُزُرِ تُلْبَسُ  إِلَّا المُزَعْفَرَةَ الَّتِی تَرْدَعُ عَلَى الجِلْدِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی قسم کی چادر اور تہ بندسے منع نہ فرمایا البتہ آپ نے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کوجس سے بدن پرزعفران جھڑے پہننے سے منع فرمایا۔[19]

احرام پہننے کے بعدبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مانگ میں  وہ خوشبونظرآتی رہی جو عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے قبل احرام آپ کے لگائی تھی،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى وَبِیصِ الطِّیبِ فِی مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےگویامیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مانگ میں  خوشبوکی چمک دیکھ رہی ہوں  جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  محرم ہیں ۔[20]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:قَالَ: وَأَحْسِبُهُ بَاتَ بِهَا حَتَّى أَصْبَحَ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رات صبح تک ذوالحلیفہ میں  ہی گزاری۔[21]

قَالَ: أَتَانِی اللیْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّی، وَهُوَ بِالعَقِیقِ، أَنْ صَلِّ فِی هَذَا الوَادِی المُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ وَحَجَّةٌ

صبح کو آپ نے فرمایاآج رات کومیرے رب کی طرف سے ایک آنے والاآیاآپ اس وقت وادی عقیق میں تھے اورکہاکہ اس مبارک وادی میں  نمازپڑھیں  اورکہیں  کہ میں  حج اورعمرہ دونوں  کی نیت کرتاہوں ۔[22]

(فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ)،یَرْكَبُ رَاحِلَتَهُ بِذِی الحُلَیْفَةِ، ثُمَّ یُهِلُّ حَتَّى تَسْتَوِیَ بِهِ قَائِمَةً،لَبَّیْكَ اللهُمَّ لَبَّیْكَ، لَبَّیْكَ لاَ شَرِیكَ  لَكَ لَبَّیْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِیكَ لَكَ

صبح کومسجد ذی الحلیفہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دورکعت نمازپڑھی،مسجدکے قریب ہی آپ قصواء اونٹنی پرسوارہوئے ،جب اونٹنی آپ کولے کرکھڑی ہوگئی توآپ نے لبیک کہنا شروع کردیا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے بھی لبیک کہناشروع کردیا،ہم حاضرہیں ،اے اللہ ہم حاضرہیں ،ہم حاضرہیں  تیراکوئی شریک نہیں  ،ہم حاضرہیں ،بیشک حمداورنعمت تیری ہے اور بادشاہت تیری ہے ،تیراکوئی شریک نہیں ۔[23]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

عَنْ الْبَهْزِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ یُرِیدُ مَكَّةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالرَّوْحَاءِ إِذَا حِمَارُ وَحْشٍ عَقِیرٌ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:ودَعُوهُ فَإِنَّهُ یُوشِكُ أَنْ یَأْتِیَ صَاحِبُهُ فَجَاءَ الْبَهْزِیُّ وَهُوَ صَاحِبُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْكَ وَسَلَّمَ شَأْنَكُمْ بِهَذَا الْحِمَارِ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ فَقَسَّمَهُ بَیْنَ الرِّفَاقِ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْأُثَایَةِ، بَیْنَ الرُّوَیْثَةِ وَالْعَرْجِ، إِذَا ظَبْیٌ حَاقِفٌ فِی ظِلٍّ وَفِیهِ سَهْمٌ، فَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ رَجُلًا یَقِفُ عِنْدَهُ لَا یُرِیبُهُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، حَتَّى یُجَاوِزَهُ

زید  رضی اللہ عنہ بن کعب بہزی سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  احرام باندھ کرمکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے توجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ اورمدینہ کے درمیان) مقام روحاء میں  پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک زخمی نیل گائے دیکھی، لوگوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کاذکرکیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کوکچھ نہ کہواس کوشکارکرنے والاخودآکردیکھ لے گا اتنے میں  اس کا شکاری بھی آگیااورکہنے لگااے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  !میری طرف سے اجازت ہے آپ حضرات اس نیل گائے کوکھاسکتے ہیں ،چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوحکم دیاکہ اس کاگوشت سب رفقاء میں  تقسیم کردیں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  چلے جب روثیہ اورعرج کے درمیان مقام اثایہ میں  پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک زخمی ہرن دیکھاجس کے جسم میں  تیرپیوست تھااوروہ سائے میں  سرجھکائے کھڑاتھا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں  ایک آدمی کھڑاکیاجولوگوں  کوبتائے کہ اس کاکھاناجائزنہیں  اس لئے کوئی اس کوپکڑے کی کوشش نہ کرے یہاں  تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آگے بڑھ جائیں ۔[24]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ، قَالَتْ:حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَزَلْنَا فَجَلَسَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم، وَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِی وَكَانَتْ زِمَالَةُ أَبِی بَكْرٍ وَزِمَالَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدَةً مَعَ غُلَامٍ لِأَبِی بَكْرٍ فَجَلَسَ أَبُو بَكْرٍ یَنْتَظِرُ أَنْ یَطْلُعَ عَلَیْهِ فَطَلَعَ وَلَیْسَ مَعَهُ بَعِیرُهُ قَالَ: أَیْنَ بَعِیرُكَ؟ قَالَ: أَضْلَلْتُهُ الْبَارِحَةَ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَعِیرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّهُ قَالَ: فَطَفِقَ یَضْرِبُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَبَسَّمُ وَیَقُولُ:انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا یَصْنَعُ قَالَ ابْنُ أَبِی رِزْمَةَ فَمَا یَزِیدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ یَقُولَ:انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ مَا یَصْنَعُ وَیَتَبَسَّمُ

اسماء بنت ابوبکر  رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آگے چلئے اورمقام عرج میں  پڑاؤکیااورہم بھی اترپڑے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اترے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طرف سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  اوردوسری طرف ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  بیٹھی تھیں ،اورسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا  ان کے پہلومیں  بیٹھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورسیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کامال برداری کاایک اونٹ تھاجس پرکھانے کاسامان وغیرہ لدا ہوا تھا ، سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے وہ اونٹ اپنے ایک غلام کے سپرد کیا ہواتھا،،ابوبکر  رضی اللہ عنہ  غلام کا انتظار کرنے لگےتھوڑی دیرکے بعدوہ آیاتووہ تنہاتھااونٹ اس کے پاس موجودنہیں  تھا،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے پوچھااونٹ کہاں  ہے ؟  وہ بولااونٹ رات کوکہیں  گم ہوگیا ہے،سیدنا  ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کہنے لگے تیرے سپردایک ہی اونٹ تھا اوراسے بھی تم نے گم کردیاہے،پھراسے مارنے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دیکھ کرمسکراتے تھے اور فرماتے تھے اس محرم کو دیکھو کیاکررہاہے؟ابن ابی رزمہ کے الفاظ ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہاکہ دیکھواس محرم کوکیاکررہاہے اور مسکراتے رہےآپ تبسم فرماتے تھے اوراس سے زیادہ کچھ نہیں  فرماتے تھے۔[25]

اسنادہ ضعیف،ابن اسحاق مدلس ولم اجدتصریع سماعہ

اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس میں  ابن اسحاق مدلس راوی ہے اور تصریح سماعت بھی نہیں ۔

تَقُولُ:كُلَّمَا مَرَّتْ بِالحَجُونِ صَلَّى اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ هَا هُنَا

اسماء بنت ابوبکر  رضی اللہ عنہ جب بھی حجون پہاڑسے ہوکرگزرتیں  تویہ کہتیں  اللہ تعالیٰ کی آپ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پررحمتیں  نازل ہوں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ یہیں  قیام کیاتھا۔[26]

ہود علیہ السلام  اورصالح   علیہ السلام  وادی عسفان سے گزرے تھے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِوَادِی عُسْفَانَ حِینَ حَجَّ، قَالَ:یَا أَبَا بَكْرٍ، أَیُّ وَادٍ هَذَا؟ قَالَ: وَادِی عُسْفَانَ، قَالَ:لَقَدْ مَرَّ بِهِ هُودٌ، وَصَالِحٌ عَلَى بَكَرَاتٍ حُمْرٍ خُطُمُهَا اللِّیفُ، أُزُرُهُمْ الْعَبَاءُ، وَأَرْدِیَتُهُمْ النِّمَارُ، یُلَبُّونَ یَحُجُّونَ الْبَیْتَ الْعَتِیقَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حج پرجاتے ہوئے وادی عسفان سے گزرے تو پوچھااےابوبکر  رضی اللہ عنہ !یہ کونسی وادی ہے؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ وادی عسفان ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی اپنی زندگی میں  ہود  علیہ السلام  اورصالح   علیہ السلام  دوسرخ اونٹوں  پرجن کی مہاریں  کھجورکے چھلکے سے تیارہوئی تھیں  سوارہوکراس وادی سے گزرے تھے،اوروہ بیت اللہ کے حج کے لئے لبیک پکارتے ہوئے گئے تھے۔[27]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کااحرام حج:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ نَذْكُرُ إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ، فَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِی، فَقَالَ: مَا یُبْكِیكِ؟ قُلْتُ: لَوَدِدْتُ وَاللَّهِ أَنِّی لَمْ أَحُجَّ العَامَ، قَالَ:لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ ذَلِكِ شَیْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِی مَا یَفْعَلُ الحَاجُّ، غَیْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِی بِالْبَیْتِ حَتَّى تَطْهُرِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم ادائیگی حج کی غرض سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نکلے جب ہم مقام سرف پہنچے تومجھےاذیت ماہانہ شروع ہوگئی،(اس غم سے)میں  رورہی تھی کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھاکیوں  رورہی ہو؟میں  نے عرض کیاکاش !میں  اس سال حج کاارادہ ہی نہ کرتی ،اب میں  عمرہ نہ کرسکوں  گی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا شاید تمہیں اذیت ماہانہ شروع ہوگئی،میں  نے کہاہاں !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ توایسی بات ہے کہ اللہ نے آدم  علیہ السلام  کی تمام بیٹیوں  پراسے ضروری قرار دیا ہے لہذاتم وہ سب کام کروجوحاجی کرتاہے سوائے اس کے کہ جب تک تم پاک نہ ہوجاؤکعبہ کا طواف نہ کرنا۔[28]

حائضہ اورجنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے جیساکہ مولاناعبدالرحمٰن مبارکپوری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اعلم ان البخاری عقدبابافی صحیحہ یَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ لَا یَجُوزُ لِلْجُنُبِ وَلَا لِلْحَائِضِ قِرَاءَةُ شَیْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَقَدْ وَرَدَتْ أَحَادِیثُ فی تحری قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِلْجُنُبِ

امام بخاری کی نظرمیں  کوئی صحیح روایت ایسی نہیں  جس میں  جنبی اورحائضہ کوقرات قرآن سے روکاگیاہوگواس سلسلےمیں  متعددروایات ہیں ۔[29]

عَلَى البَیْدَاءِ، أَهَلَّ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَقَلَّدَ بَدَنَتَه

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام بیداء پرپہنچے،لبیک آپ کی زبان پرجاری تھی یہیں  آپ نے قربانی کے جانوروں  کے گلے میں  پٹے ڈالے ،اوراپنے بالوں  کو گوند سے جمالیاپھرآپ نے اللہ کی حمدبیان کی تسبیح پڑھی،تکبیرکہی اورحج اورعمرہ کے ساتھ لبیک کہا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بھی حج اورعمرہ کے ساتھ لبیک کہا۔[30]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَخْرُجُ مِنْ طَرِیقِ الشَّجَرَةِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب مدینہ منورہ سے نکلتے توشجرہ کی راہ سے نکلتے تھے۔[31]

اس روایت کی روشنی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس راستہ کواختیارکیاجس راستہ پرشجرہ نامی مقام آتاہے(شجرہ ذوالحلیفہ کے قریب ایک درخت تھانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اسی راستے سے آتے اورجاتے تھے،اب وہاں  ایک مسجدبن گئی ہےآج کل اس جگہ کانام بئرعلی ہے)

نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِی بَیْنَ یَدَیْهِ، مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ، وَعَنْ یَمِینِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ یَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْهُرِنَا، وَعَلَیْهِ یَنْزِلُ الْقُرْآنُ، وَهُوَ یَعْرِفُ تَأْوِیلَهُ، وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَیْءٍ عَمِلْنَا بِهِ،

جابر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں آگے ،پیچھے،دائیں ،بائیں  جہاں  نظرجاتی تھی آدمی ہی آدمی نظرآتے تھے جن میں  سواربھی تھے ،پیادے بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے درمیان میں  تھے ، آپ پرقرآن نازل ہوتاتھااورآپ ہی اس کے معانی کوخوب جانتے تھے لہذاجوکام آپ کرتے تھے ہم بھی کرتے جاتے تھے۔[32]

راستہ میں  جب مقام شجرہ آیاتوآپ نے مسجد شجرہ میں  نمازپڑھی،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ یُصَلِّی فِی مسْجِدِ الشَّجَرَةِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب مکہ مکرمہ جاتے توشجرہ کی مسجدمیں  نمازپڑھتے تھے۔[33]

پیدل حج کی نذر:

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى شَیْخًا یُهَادَى بَیْنَ ابْنَیْهِ، فَقَالَ:مَا بَالُ هَذَا؟ قَالُوا: نَذَرَ أَنْ یَمْشِیَ، قَالَ: إِنَّ اللهَ عَنْ تَعْذِیبِ هَذَا نَفْسَهُ لَغَنِیٌّ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَرْكَبَ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےراستہ میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بوڑھے آدمی کودیکھاکہ اپنے دوبیٹوں  کے درمیان ان دونوں  پرسہاراکئے ہوئے چلاجارہاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ کیامعاملہ ہے؟انہوں  نے کہااس نے پیدل حج کرنے کی نذرمانی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے بوڑھے شخص تم سوارہوجاؤکیونکہ اللہ تم سے اوراس مشقت سے بے نیازہے۔[34]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: نَذَرَتْ أُخْتِی أَنْ تَمْشِیَ إِلَى بَیْتِ اللهِ حَافِیَةً، فَأَمَرَتْنِی أَنْ أَسْتَفْتِیَ لَهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَیْتُهُ، فَقَالَ:لِتَمْشِ، وَلْتَرْكَبْ

عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیری بہن نے بھی ننگے پیرپیدل حج کرنے کی نذرمانی تھی،دوران سفرانہوں  نے مجھ سے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کریں  کہ مجھے کیا کرناچاہیے؟میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپیدل بھی چلیں  اورسواربھی ہوجائیں ۔[35]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا یَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ:ارْكَبْهَافَقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ فَقَالَ: ارْكَبْهَاقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ:ارْكَبْهَا وَیْلَكَ فِی الثَّالِثَةِ أَوْ فِی الثَّانِیَةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے راستہ میں  دیکھاکہ ایک آدمی قربانی کے اونٹ کوپیچھے سے ہنکاتاہوالے کرجارہاہے اوراس کی گردن میں  ہارڈالاہواتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایااس پرسوارہوجا،اس نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ قربانی کااونٹ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایاتیرے لئے خرابی ہو سوار ہوجا  تیرے لئے خرابی ہوسوارہوجاکے لفظ دویاتین مرتبہ کہے۔[36]

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ کی آمد:

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمٍ بِالیَمَنِ، فَجِئْتُ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:بِمَا أَهْلَلْتَ؟ قُلْتُ: أَهْلَلْتُ كَإِهْلَالِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:هَلْ مَعَكَ مِنْ هَدْیٍ؟قُلْتُ: لَا، فَأَمَرَنِی، فَطُفْتُ بِالْبَیْتِ، وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، ثُمَّ أَمَرَنِی

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے یمن بھیجاتھا،جب (حجة الوداع کے موقع پر)میں  آیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مقام بطحاء (سنگریزی زمین) میں  میری ملاقات ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایاتم نے کس چیزکااحرام باندھاہے؟میں  نے عرض کیاجس چیزکانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھاہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیاتمہارے ساتھ قربانی کاجانور ہے؟ میں  نے عرض کیا نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے حکم فرمایاکہ میں  بیت اللہ کاطواف اور صفااورمروہ کی سعی کروں  ،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے احرام کھول دینے کے لیے فرمایاابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ نے ایساہی کیا۔[37]

مقام البطح میں  قیام:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام البطح میں  پہنچے تووہاں  آپ نے قیام فرمایا،

قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ وَرَأَیْتُ بِلاَلًا أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَرَأَیْتُ النَّاسَ یَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الوَضُوءَ ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَیْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ یُصِبْ مِنْهُ شَیْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِهِ،ثُمَّ رَأَیْتُ بِلاَلًا أَخَذَ عَنَزَةً، فَرَكَزَهَاوَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حُلَّةٍ حَمْرَاءَ

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں  دیکھااورمیں  نے یہ بھی دیکھاکہ بلال  رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو(خیمہ کے اندر)وضوکرارہے ہیں  بلال  رضی اللہ عنہ  وضوکا(بچاہواپانی لے کر باہر نکلے ) تو ہرشخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضوکاپانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہاہے،اگرکسی کوتھوڑاسابھی پانی مل جاتاتووہ اسےاپنے چہرےپرمل لیتااوراگرکوئی پانی نہ پاسکتاتو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا،پھرمیں  نے بلال  رضی اللہ عنہ کودیکھاکہ انہوں  نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگاہوا تھا اور اسے انہوں  نے گاڑھ دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( خیمہ میں  سے)ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے نکلے۔

وَإِنَّمَا الْحُلَّةُ الْحَمْرَاءُ: بُرْدَانِ یَمَانِیَّانِ مَنْسُوجَانِ بِخُطُوطٍ حُمْرٍ مَعَ الْأَسْوَدِ

امام ابن قیم  رحمہ اللہ نے فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ جوڑانراسرخ نہ تھابلکہ اس میں  سرخ اورکالی دھاریاں  تھیں ۔[38]

سرخ رنگ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے سات مذہب بیان کیے ہیں  اورکہاہے کہ صحیح یہ ہے کہ کافروں  یاعورتوں  کی مشابہت کی نیت سے مردکوسرخ رنگ والے کپڑے پہننے درست نہیں  ہے اورکسم میں  رنگاہواکپڑامردوں  کے لیے بالاتفاق ناجائزہے،اسی طرح لال زین پوشوں  کااستعمال جس کی ممانعت میں  صاف حدیث موجودہے ۔

(كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى بَیَاضِ سَاقَیْهِ)، مُشَمِّرًا صَلَّى إِلَى العَنَزَةِ بِالنَّاسِ،( فَصَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَیْنِ، وَالْعَصْرَ رَكْعَتَیْنِ)، وَرَأَیْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ یَمُرُّونَ مِنْ بَیْنِ یَدَیِ العَنَزَةِ

تہبنداٹھائے ہوئے، گویامیں  اس وقت میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پنڈلیوں  کی سفیدی دیکھ رہاہوں  باہرتشریف لائے،اوربرچھی کی طرف منہ کرکے لوگوں  کو پہلے ظہرکی دورکعتیں  پڑھائیں  ، پھر عصرکی دورکعتیں  پڑھائیں  (اس حدیث سے سفرمیں  قصراورجمع دونوں  ثابت ہوئیں ) میں  نے دیکھاکہ آدمی اورجانوربرچھی کے اس طرف سے گزررہے تھے(یعنی سترہ کے باہرسے کوئی آدمی نمازی کے آگے سے نکلے توکوئی گناہ نہیں  ہے اورنہ نمازمیں  خلل ہوتا ہے)۔[39]

خط کشیدہ عبارت صحیح مسلم میں  ہے۔

ذی طوٰی میں  اقامت:

عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَاإِذَا دَخَلَ أَدْنَى الحَرَمِ أَمْسَكَ عَنِ التَّلْبِیَةِ، ثُمَّ یَبِیتُ بِذِی طِوًى، ثُمَّ یُصَلِّی بِهِ الصُّبْحَ، وَیَغْتَسِلُ، وَیُحَدِّثُ أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَفْعَلُ ذَلِكَ

نافع  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ جب حرم کی سرحدکے قریب پہنچتے توتلبیہ کہنابندکردیتے ،رات ذی طوی میں  گزارتے ، صبح کی نمازوہیں  پڑھتے اورغسل کرتے (پھرمکہ مکرمہ میں  داخل ہوتے)آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح کرتے تھے۔[40]

اس روایت کی روشنی میں  البطح سے روانہ ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ معظمہ کے قریب پہنچ کرمقام ذی طوی میں  قیام فرمایاایک رات وہاں  گزاری،صبح کی نمازوہیں  ادا فرمائی نمازکے بعدآپ نے غسل فرمایا۔

عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنْتُ أَرْحَلُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَالَ: فَقَالَ لِی لَیْلَةً مِنَ اللَّیَالِی:یَا مَعْمَرُ، لَقَدْ وَجَدْتُ اللَّیْلَةَ فِی أَنْسَاعِی اضْطِرَابًا، قَالَ: فَقُلْتُ: أَمَا وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ شَدَدْتُهَا كَمَا كُنْتُ أَشُدُّهَا، وَلَكِنَّهُ أَرْخَاهَا مَنْ قَدْ كَانَ نَفَسَ عَلَیَّ مَكَانِی مِنْكَ لِتَسْتَبْدِلَ بِی غَیْرِی، قَالَ: فَقَالَ:أَمَا إِنِّی غَیْرُ فَاعِلٍ

معمربن عبداللہ عدوی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں حجة الوادع کے موقع پرسیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سواری کااہتمام میرے سپردتھا اورکجاوہ وغیرہ میں  ہی کستا تھا،ایک دن کسی شخص نے دانستہ یانادانستہ اس کوڈھیلاکردیاخیررات تواسی طرح گزرگئی صبح ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معمر  رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکرفرمایارات کجاوہ کاتنگ ڈھیلامعلوم ہوتاتھا،مجھےبڑی ندامت ہوئی اورمیں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  نے توحسب دستورکس کے باندھاتھاشایدکسی نے اس خیال سے ڈھیلاکردیاہوکہ مجھ سے یہ شرف چھن جائے اورآپ یہ خدمت کسی دوسرے کے سپردکردیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم اطمینان رکھومیں  یہ خدمت تمہارے علاوہ کسی دوسرے کے سپردنہ کروں  گا۔[41]

مکہ معظمہ میں  داخلہ:

ذی طوٰی سے روانہ ہوکرچارذوالحجہ کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ثنیتة العلیا کی طرف(جوحجون کے قریب واقع ہے) مکہ معظمہ میں (چاشت کے وقت) داخل ہوئے۔[42]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، اسْتَقْبَلَتْهُ أُغَیْلِمَةُ بَنِی عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَحَمَلَ وَاحِدًا بَیْنَ یَدَیْهِ، وَآخَرَ خَلْفَهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ مکرمہ میں  داخل ہوئے توبنوعبدالمطلب کے بچوں  نے آپ کااستقبال کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بچہ کواپنے آگے اورایک کوپیچھے بٹھالیا۔[43]

فَقَدِمْنَا مَكَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ یُهْدِ، فَلْیُحْلِلْ، وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى، فَلاَ یُحِلُّ حَتَّى یُحِلَّ بِنَحْرِ هَدْیِهِ، وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، فَلْیُتِمَّ حَجَّهُ

مکہ معظمہ پہنچ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے عمرہ کااحرام باندھاہواورقربانی کاجانورساتھ نہ لایاہواسے چاہیے کہ(عمرہ کرکے)احرام کھول دے اورجس نے عمرہ کا احرام باندھاہے اورقربانی کاجانوربھی ساتھ لایاہے تواسے چاہیے کہ جب تک قربانی کاجانورذبح نہ ہوجائے احرام نہ کھولے،اورجس نے صرف حج کااحرام باندھاہے وہ اس کوعمرہ میں  بدل دے۔[44]

قَالَتْ: فَكَانَ الْهَدْیُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَكْرٍ وَعُمَرَ وَذَوِی الْیَسَارَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعض مقدوروالوں سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  فاروق اور دوسرے تمام ذی حیثیت صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے ساتھ قربانی کے جانور تھے (اس لئے انہوں  نے عمرہ کرکے احرام نہیں  کھولا)۔[45]

فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِی الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِی بَدَنَةٍ

قربانی کے سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایاکہ اونٹ اورگائے میں  سات آدمی شریک ہو جائیں ۔[46]

عمرہ کاطریقہ:

عمرہ کاطریقہ بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

وَمَنْ لَمْ یَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى، فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ، ثُمَّ لِیُهِلَّ بِالحَجِّ

جن کے ساتھ قربانی کاجانورنہیں  ہے تووہ بیت اللہ کاطواف کرلیں ،پھرصفاومروہ کی سعی کرکے بال ترشوالیں اور احرام کھول دیں ،پھرترویہ کے روز (۸ذوالحجہ کوازسرنو)حج کااحرام باندھیں (درمیانی وقفہ میں  وہ احرام کی پابندیوں  سے آزادہوکراس آزادی اورآسانی سے متمتع ہوں )یعنی حج تمتع کریں ۔[47]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حجراسودکے سامنے آئے توآپ نے استلام کیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  داہنی جانب سے ہولئے اوربیت اللہ کواپنی بائیں  جانب چھوڑا،دروازے کے نزدیک میزاب رحمت کے نیچے،کعبة اللہ اوراس کے رکنوں  کے سامنے آپ نے کوئی دعانہیں  پڑھی،نہ ہی طواف کے وقت کوئی معین ذکرکیانہ اس کی تعلیم دی ،مگرپھربھی یہ دعائیں  پڑھی جاتی ہیں ،

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ بَیْنَ الرُّكْنَیْنِ: اللَّهُمَّ قَنِّعْنِی بِمَا رَزَقْتَنِی وَبَارِكْ لِی فِیهِ وَاخْلُفْ عَلَیَّ كُلَّ غَائِبَةٍ لِی بِخَیْرٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  دو رکنوں  کے درمیان یہ دعا فرما کرتے تھے’’ الٰہی مجھ کوجوکچھ تونے نصیب فرمایااس پرقناعت کرنے کی توفیق عطافرمااوراس میں  برکت عطافرمااورمیرے اہل وعیال ومال اور میری ہرپوشیدہ چیزکی توخیریت کے ساتھ حفاظت فرما۔‘‘[48]

وَعَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ اللَّهُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ الشَّكِّ وَالشِّرْكِ وَالنِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعافرماتے تھے الٰہی میں  شرک سے،دین میں  شک کرنے سے اورنفاق اوردوغلے پن ونافرمانی اوربری عادتوں  سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔[49]

اوررکن یمانی پرزیادہ تریہ دعاپڑھنی چاہیے۔

حَدَّثَنِی أَبُو هُرَیْرَةَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وُكِلَ بِهِ سَبْعُونَ مَلَكًا، فَمَنْ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً، وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالُوا: آمِینَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایارکن یمانی پرسترفرشتے معین ہیں  جوکوئی کہے’’اےاللہ!میں  تجھ سے دنیااورآخرت میں  سلامتی چاہتاہوں  اے معبود برحق!تومجھ کودنیاوآخرت کی تمام نعمتیں  عطافرمااوردوزخ کی آگ سے ہم کوبچالے۔‘‘توفرشتے آمین کہتے ہیں ۔[50]

ہاں  رکن یمانی اورحجراسودکے درمیان آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعاثابت ہے۔

۔۔۔رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [51]

ترجمہ:اے ہمارے رب!ہمیں  دنیامیں  بھی بھلائی عطافرمااورآخرت میں  بھی بھلائی عطافرمااورہمیں  آگ کے عذاب سے بچا۔

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، طَافَ مُضْطَبِعًا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نےاپنی چادرکے ساتھ اضطباع کیایعنی چادرکوایک کندھے کے اوپرکیااوردوسرے بازواور کندھے کوننگاکیا۔ [52]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَعَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَةَ أَشْوَاطٍ، وَمَشَى أَرْبَعَةً فِی الحَجِّ وَالعُمْرَةِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کعبہ کے طواف میں  رمل کیاتین چکر دوڑ کر لگائے اورچارچکرمعمول کی چال سے عمرہ اورحج میں ۔[53]

جب آپ حجراسودکے سامنے تشریف لاتے اس کی طرف اشارہ کرتے ،اپنی چھڑی کے ساتھ استلام کرتے اورچھڑی کوبوسہ دیتے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:طَافَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ عَلَى بَعِیرٍ، یَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجة الوداع کے موقع پراپنی اونٹنی پرطواف کیاتھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  حجراسودکااستلام ایک چھڑی کے ذریعہ کررہے تھے اوراس چھڑی کوچومتے تھے۔[54]

رکن یمانی کا استلام آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن اس کوبوسہ نہیں  دیایااپنے ہاتھ سے یاچھڑی سے اس کااستلام کیایااپنے ہاتھ کواس پررکھااورہاتھ کوبوسہ دیا(یہ تین طریقے ہوئے) ۔

ارکان میں  سے رکن یمانی کے علاوہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی رکن کونہ چھوااورنہ ہی استلام کیا۔

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:لَمْ أَرَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَلِمُ مِنَ البَیْتِ إِلَّا الرُّكْنَیْنِ الیَمَانِیَیْنِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  میں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوصرف دونوں  یمانی ارکان کااستلام کرتے دیکھا(کعبہ کے چارکونے ہیں  حجراسودرکن یمانی،رکن شامی اوررکن عراقی ، حجراسوداوررکن یمانی کورکنین یمانیین اورشامی اورعراقی کوشامیین کہتے ہیں  ،حجراسودکے علاوہ رکن یمانی کوچھونایہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا طریقہ رہاہے اوراسی پرعمل درآمدہے)۔[55]

ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَام

طواف سے فارغ ہوئےتومقام ابراہیم پرتشریف لائے  اوریہ آیت پڑھی۔

۔۔۔وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى۔۔۔[56]

ترجمہ:ابراہیم  علیہ السلام جہاں  عبادت کے لئے کھڑاہوتاتھااس مقام کومستقل جائے نمازبنالو ۔

وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَیْنِ

اوراس حکم کی تعمیل میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نمازاداکی۔[57]

كَانَ یَقْرَأُ فِی الرَّكْعَتَیْنِ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ وَقُلْ یَا أَیُّهَا الْكَافِرُونَ

ان رکعتوں  میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  سورۂ اخلاص اورسورۂ الکافرون  تلاوت فرمائیں ۔

َعَن عَمْرو بن شُعَیْب عَن أَبِیه عَن جده قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم الْمَرْء یُرِید الطّواف بِالْبَیْتِ أقبل یَخُوض الرَّحْمَة فَإِذا دَخلته غمرته ثمَّ لَا یرفع قدماً وَلَا یضع قدماً إِلَّا كتب الله لَهُ بِكُل قدم خَمْسمِائَة حَسَنَة وَحط عَنهُ خَمْسمِائَة سَیِّئَة وَرفعت لَهُ خَمْسمِائَة دَرَجَة

طواف کی فضیلت میں  عمروبن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاانسان جب بیت اللہ کے طواف کاارادہ کرتاہے تورحمت الٰہی میں  داخل ہوجاتاہے پھر طواف شروع کرتے وقت رحمت الٰہی اس کوڈھانپ لیتی ہے پھروہ طواف میں  جوبھی قدم اٹھاتاہے اورزمین پررکھتاہے ہرہرقدم کے بدلے اس کوپانچ سونیکیاں  ملتی ہیں  اور پانچ سوگناہ معاف ہوتے ہیں  اوراس کے پانچ سودرجے بلندکئے جاتے ہیں ۔[58]

عَن جَابر بن عبد الله قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم من طَاف بِالْبَیْتِ سبعا وَصلى خلف الْمقَام رَكْعَتَیْنِ وَشرب من مَاء زَمْزَم غفرت لَهُ ذنُوبه كلهَا بَالِغَة مَا بلغت

جابر بن عبد الله سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے بیت اللہ کاسات مرتبہ طواف کیاپھرمقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نماز ادا کی اورزمزم کاپانی پیااس کے جتنے بھی گناہ ہوں  سب معاف کردیئے جاتے ہیں ۔[59]

اورطبرانی میں  ہے سلام پھیرکرنہایت انکساری سے اورخلوص دل سے اپنے اوردوسروں  کے لیے یہ دعا مانگے،

اللهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ سَرِیرَتِی، وَعَلَانِیَتِی فَاقْبَلْ مَعْذِرَتِی، وَتَعْلَمُ حَاجَتِی فَأَعْطِنِی سُؤْلِی، وَتَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی ذَنْبِی،  اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ إِیمَانًا یُبَاشِرُ قَلْبِی، وَیَقِینًا صَادِقًا حَتَّى أَعْلَمُ أَنَّهُ لَا یُصِیبُنِی إِلَّا مَا كَتَبْتَ لِی، وَرِضًا بِمَا قَسَمْتَ لِی یاارحم الراحمین

اے اللہ!تومیری ظاہروپوشیدہ حالت سے واقف ہے پس میرے عذروں  کو قبول فرما لےتومیری حاجتوں  سے بھی واقف ہے پس میرے سوال کوپوراکردےتومیرے نفس کی حالت جانتاہے پس میرے گناہوں  کوبخش دے،اے مولا!میں  ایساایمان چاہتاہوں  جومیرے دل میں  رچ جائے اوریقین صادق کاطلبگارہوں  یہاں  تک کہ میرے دل میں  جم جائے کہ مجھے وہی دکھ پہنچ سکتاہے جوتولکھ چکااورقسمت کے لکھے پر ہر وقت راضی برضاہوں ،اے سب سے بڑے مہربان!تومیری دعاقبول فرمالے ، آمِینَ۔[60]

ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا

نمازسے فارغ ہونے کے بعدآپ پھرحجراسودکے پاس آئے اوراس کوبوسہ دیا پھراس دروازے سے آپ باہرنکلے جوصفا کی طرف ہے۔

فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا

پھرصفاپرپہنچے اوریہ آیت تلاوت فرمائی۔

 إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ۔۔۔[61]

ترجمہ:یقیناًصفااورمروہ اللہ کی نشانیوں  میں  سے ہیں ۔

پھر فرمایا

أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ

ہم طواف کواسی (پہاڑی)سے شروع کرتے ہیں  جس سے اللہ نے شروع کیاہے۔[62]

فَبَدَأَ بِالصَّفَا، فَرَقِیَ عَلَیْهِ، حَتَّى رَأَى الْبَیْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَوَحَّدَ اللهَ وَكَبَّرَهُ

پھرآپ کوہ صفاپرچڑھے اوربیت اللہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو گئے،پھرآپ نے اللہ کی توحیداوربڑائی بیان کی ،پھریہ ثناپڑھی۔

وَقَالَ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ

ترجمہ:اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ،وہ اکیلاہے،اس کاکوئی شریک نہیں ،بادشاہت اسی کی ہے،سب تعریف اسی کے لئے ہے اوروہ ہرچیزپرقادرہے،اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  وہ اکیلاہے ،اس نے اپناوعدہ پوراکردیا،اپنے بندہ کی مددفرمائی اوراس اکیلے نے تمام لشکروں  کوشکست دے دی۔

ثُمَّ دَعَا بَیْنَ ذَلِكَ، قَالَ: مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ، حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِی بَطْنِ الْوَادِی سَعَى، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا مَشَى، حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ، فَقَالَ:

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعامانگی اوراس طرح آپ نے تین دفعہ کیاپھراترے اور مروہ کی طرف چلے،بطن وادی میں  تیزی سے چلے اورچڑھائی پرآہستہ،پھرآپ نے مروہ پربھی وہی کیاجوصفاپرکیاتھاپھرجب آپ (ان دونوں  پہاڑیوں  کے درمیان سات مرتبہ دوڑچکے اور)آخری مرتبہ مروہ پرپہنچے توفرمایا

لَوْ أَنِّی اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْیَ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَیْسَ مَعَهُ هَدْیٌ فَلْیَحِلَّ، وَلْیَجْعَلْهَا عُمْرَةً،فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟فَشَبَّكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِی الْأُخْرَى، وَقَالَ: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِی الْحَجِّ

اگرمجھے پہلے معلوم ہوجاتاجوبعدمیں  معلوم ہوا تو میں  اپنے ساتھ قربانی کے جانورنہ لاتا(اورمکہ مکرمہ ہی میں  خریدلیتا)اوراس احرام کوعمرہ میں  تبدیل کردیتا،تواب تم میں  سے جس کے ساتھ قربانی کاجانورنہ ہووہ احرام کھول دے (یعنی طواف وسعی توہوچکی اورعمرہ کے افعال پورے ہوگئے)سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوئے اورعرض کیاکہ یہ (حج تمتع)اسی سال کے لئے ہے یاہمیشہ کے لئے اس کی اجازت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ہاتھ کی انگلیاں  دوسرے ہاتھ کی انگلیوں  میں  داخل کیں  اور دو مرتبہ فرمایا،عمرہ ایام حج میں  داخل ہوگیااورہمیشہ کے لئے اس کی اجازت ہے۔[63]

فَمَنْ لَمْ یَجِدْ هَدْیًا، فَلْیَصُمْ ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ فِی الحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ

پھرحج تمتع کرنے والوں  کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہدایت کہ جن کوقربانی کاجانورمیسرنہ ہووہ ایام حج میں  تین روزے رکھیں  اورسات روزے اپنے گھرپہنچ کر رکھیں ۔[64]

فَقَالُوا: كَیْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً، وَقَدْ سَمَّیْنَا الحَجَّ؟فَقَالَ:افْعَلُوا مَا أَمَرْتُكُمْ، فَلَوْلاَ أَنِّی سُقْتُ الهَدْیَ لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِی أَمَرْتُكُمْ، وَلَكِنْ لاَ یَحِلُّ مِنِّی حَرَامٌ حَتَّى یَبْلُغَ الهَدْیُ مَحِلَّهُ

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیاکہ ہم اسے تمتع کیسے بناسکتے ہیں  ؟ہم نے توحج کااحرام باندھاتھا(اورآپ فرماتے ہیں  کہ احرام کھول دویہ بات سمجھ نہیں  آئی)اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجومیں  کہوں  وہ کرواگرمیں  قربانی کاجانورساتھ نہ لاتاتومیں  بھی وہی کرتاجس کاتمہیں  حکم دیاہے،میں  اس وقت تک احرام نہیں  کھول سکتاجب تک قربانی کاجانوراپنی جگہ پرپہنچ (کرذبح) نہ (ہو)جائے۔ [65]

بعض لوگوں  کواحرام کھول کرتمام پابندیوں  سے آزادہوناعجیب سامعلوم ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوان کی اس بات پرغصہ آگیا

فَقَالَ:قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ، وَلَوْلاَ هَدْیِی لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، فَحِلُّوافَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَیْتُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جانتے ہوکہ میں  تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہوں ،سب سے زیادہ سچااورسب سے زیادہ نیکی کرنے والاہوں ،اگرمیرے ساتھ قربانی کاجانورنہ ہوتاتومیں  بھی (عمرہ کر کے ) احرام کھول دیتاجیسے تم کھول رہے ہو، اگرمجھے پہلے یہ بات معلوم ہوجاتی جوبعدمیں  معلوم ہوئی تومیں  قربانی کاجانورساتھ نہ لاتا۔[66]

وَنِسَاؤُهُ لَمْ یَسُقْنَ فَأَحْلَلْنَ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواج مطہرات قربانی کاجانورساتھ نہیں  لے گئی تھیں  اس لیے انہوں  نے بھی احرام کھول ڈالے۔[67]

عَنْ حَفْصَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوا بِعُمْرَةٍ، وَلَمْ تَحْلِلْ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِكَ؟ قَالَ:إِنِّی لَبَّدْتُ رَأْسِی، وَقَلَّدْتُ هَدْیِی، فَلاَ أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ

ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیابات ہے اورلوگ توعمرہ کرکے حلال ہوگئے لیکن آپ احرام نہیں  کھولتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے سر پر گوند لگایا ہے،قربانی کے جانورکے گلے میں  پٹہ ڈالاہے،میں  احرام نہیں  اتارسکتاجب تک قربانی کاجانورذبح نہ ہوجائے۔[68]

فَدَخَلَ عَلَیَّ وَهُوَ غَضْبَانُ فَقُلْتُ: مَنْ أَغْضَبَكَ، یَا رَسُولَ اللهِ؟ أَدْخَلَهُ اللهُ النَّارَ، قَالَ:أَوَمَا شَعَرْتِ أَنِّی أَمَرْتُ النَّاسَ بِأَمْرٍ، فَإِذَا هُمْ یَتَرَدَّدُونَ؟وَلَوْ أَنِّی اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا سُقْتُ الْهَدْیَ مَعِی حَتَّى أَشْتَرِیَهُ،

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرہ مبارک پرابھی تک غصہ کے آثارپائے جاتے تھے لہذا)ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کوکس نے غصہ دلایا ہے،اللہ اسے آگ میں  داخل کرے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابعض لوگوں  کایہ حال ہے(کہ انہیں  احرام کھولنے پرتعجب ہورہاہے)مجھے جوبات اب معلوم ہوئی اگر پہلے معلوم ہوجاتی تومیں  بھی اپنے ساتھ قربانی کاجانورنہ لاتابلکہ یہیں  سے خریدتا(اس قول سے معلوم ہواکہ انبیاء  علیہ السلام  کوعلم غیب نہیں )۔[69]

فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَكُنْ سَاقَ الهَدْیَ أَنْ یَحِلَّ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم تھاکہ جوقربانی اپنے ساتھ نہ لایاہووہ حلال ہوجائے چنانچہ جن کے پاس قربانی کاجانورنہ تھاوہ حلال ہوگئے۔[70]

قَالَ: كَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ العُمْرَةَ فِی أَشْهُرِ الحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الفُجُورِ فِی الأَرْضِ، وَیَجْعَلُونَ المُحَرَّمَ صَفَرًا، وَیَقُولُونَ: إِذَا بَرَا الدَّبَرْ، وَعَفَا الأَثَرْ، وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ العُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ

دورجاہلیت میں  لوگ حج کے مہینوں  میں  عمرہ کرنے کوروئے زمین پربہت بڑاگناہ سمجھتے تھے،یہ لوگ جب چاہتے محرم کو صفر قرار دے دیتے اوریہ کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوجائے اوراس پرخوب بال اگ جائیں  یعنی زخم کانشان بالکل مٹ جائے اورصفرکامہینہ ختم ہوجائے(یعنی حج کے ایام گزرجائیں ) تو عمرہ کرناحلال ہے(یعنی صفرکامہینہ گزرنے سے پہلے عمرہ حلال نہیں  ہوتا)

قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِیحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّینَ بِالحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَیُّ الحِلِّ؟قَالَ:حِلٌّ كُلُّهُ

اس لحاظ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  چارذوالحجہ کی صبح کواپنے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  حکم دیاکہ اپنے حج کوعمرہ بنالیں  ،یہ حکم (عرب کے پرانے رواج کی بناپر)عام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوبڑاگراں گزرا انہوں  نے(تعجب سے)پوچھااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم پرکون کونسی چیزیں  حلال ہوگئیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسب چیزیں  حلال ہوجائیں  گی۔[71]

ام المومنین ام سلمہ   رضی اللہ عنہا  کوسواری پرطواف کرنے کی اجازت:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنِّی أَشْتَكِی، فَقَالَ:طُوفِی مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَئِذٍ یُصَلِّی إِلَى جَنْبِ البَیْتِ وَهُوَ یَقْرَأُ: “ وَالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ

ام المومنین ام سلمہ   رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کواپنی بیمارہونے کی شکایت کی(کہ میں  پیدل طواف نہیں  کرسکتی) تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم سوارہوکراور لوگوں  سے علیحدہ رہ کرطواف کرلونانچہ میں  نے عام لوگوں  سے الگ رہ کرطواف کیااوراس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کعبہ کے پہلومیں  فجرکی نمازپڑھارہے تھے اورسورہ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔[72]

ایام حج میں  تجارت:

جس طرح دورجاہلیت میں  اہل عرب عمرہ وحج اکٹھانہیں  کرتے اسی طرح حج کے ایام میں  تجارت بھی نہیں  کی جاتی تھی،حالانکہ حج سے پہلے عکاظ کامیلہ جو پندرہ ذوالقعدسے ذی الحجہ کے چاندنظرآنے تک نجداور عرفات کے درمیان جاری رہتاتھا ،

وذو المجاز: موضع سوق بعرفة على ناحیة كبكب على فرسخ من عرفة، كانت تقوم فی الجاهلیة ثمانیة أیام

ذوالمجارکامیلہ یکم ذوالحجہ سے نو ذوالحجہ(یوم ترویہ)تک عکاظ کے قریب ہی کبکب کی جانب ایک فرسخ کے فاصلے پرمنعقد ہوتاتھا۔[73]

یہاں  سے فارغ ہوکرلوگ منیٰ کو چلے جاتے تھے اس کے شمال میں  ایک بازارمجنہ بھی لگتا تھا،چونکہ عرب کسب معاش کودنیاداری کافعل تصورکرتے تھے اس لئے دوران سفر حج کسب معاش کاارتکاب مذموم سمجھتے تھےجس کی وجہ سے حج کی حیثیت ابراہیم  علیہ السلام  کی سنت کے بجائے ایک میلہ سے زیادہ نہیں  رہی تھی،جس میں  مختلف جگہوں  سے بھانت بھانت کے لوگ جمع ہوجاتے ،بعض لوگ عکاظ اور ذوالمجار میلوں  میں  تجارت کے لئے آتے تھے کیونکہ حج اور تجارت کا الگ الگ سلسلہ تھااس لئے ان بیوپاری حضرات کو حج سے کوئی سروکارنہ ہوتاتھابس ان کی آمدسے ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ،ان لوگوں  کی وجہ سے حج میں ننگی ہوکرطواف کرنے والی عورتوں  سے چھڑخانی ہوتی ،لوگوں  کابے ہنگم شوروغل،دھکم پھیلی اورلڑائی جھگڑے ہوتے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كَانَتْ عُكَاظُ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو المَجَازِ أَسْوَاقًا فِی الجَاهِلِیَّةِ، فَتَأَثَّمُوا أَنْ یَتَّجِرُوا فِی المَوَاسِمِ، فَنَزَلَتْ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ}، [74]. فِی مَوَاسِمِ الحَجِّ “

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےعکاظ ،مجنہ اورذوالمجاززمانہ جاہلیت کے بازار(میلے)تھے اس لیے (اسلام کے بعد)موسم حج میں  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے وہاں  کاروبارکوبراسمجھا تو یہ آیت ’’حج کے دوران اگر اللہ کافضل بھی تلاش کرلیاجائے توکوئی مضائقہ نہیں ۔‘‘ نازل ہوئی ،اس طرح اللہ نے تجارت اورحج کوجمع فرمادیاجس سے تمام خبائث کاخاتمہ ہو گیا۔[75]

زادراہ کے متعلق حکم:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الیَمَنِ یَحُجُّونَ وَلاَ یَتَزَوَّدُونَ، وَیَقُولُونَ: نَحْنُ المُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَى}۔، [76]

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں اہل یمن کاایک نرالادستورتھاکہ جب وہ حج کی نیت سے بیت اللہ کی طرف سفرکرتے توسفرکے لئے کوئی زادِراہ لے کرنہیں  چلتے تھے ان کا خیال تھاکہ وہ اللہ کے گھرکی طرف جارہے ہیں  پھردنیاوی سامان ساتھ کیوں  لیں چنانچہ مکہ میں  پہنچ جاتے توبھیگ مانگ کرگزارہ کرتے ،اللہ تعالی نے ان کے اس طریقہ کی نفی فرمائی اور یہ آیت’’زادراہ ساتھ لے کرچلوکہ بہترین زادراہ پرہیزگاری ہے۔‘‘ نازل فرمائی۔[77]

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کی آمد:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوردوسرے لوگ عمرہ کرچکے اورجولوگ قربانی ساتھ نہیں  لائے تھے انہوں  نے احرام اتاردیا۔

وَقَدِمَ عَلِیٌّ مِنَ الْیَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ، وَلَبِسَتْ ثِیَابًا صَبِیغًا، وَاكْتَحَلَتْ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَیْهَا، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِی أَمَرَنِی بِهَذَا، قَالَ: فَكَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ، بِالْعِرَاقِ: فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ لِلَّذِی صَنَعَتْ، مُسْتَفْتِیًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا ذَكَرَتْ عَنْهُ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّی أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَیْهَا، فَقَالَ:صَدَقَتْ صَدَقَتْ، مَاذَا قُلْتَ حِینَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟ قَالَ قُلْتُ: اللهُمَّ، إِنِّی أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ، (قَالَ:فَإِنَّ مَعِیَ الْهَدْیَ فَلَا تَحِلُّ)

تواس وقت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اونٹ لے کریمن سے آ گئےاورجب وہ اپنی زوجہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  بنت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے تودیکھاکہ انہوں  نے احرام کھول دیا ہے اوررنگین کپڑے پہن رکھے ہیں ،اورسرمہ لگارکھاہےتوسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے اسے بہت براسمجھا،فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا  نے کہامیرے والد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہی حکم دیا ہے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  غصہ کی حالت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ساراحال بیان کیا اوریہ بھی عرض کیاکہ میں  نے اس فعل کوبہت براسمجھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایافاطمہ  رضی اللہ عنہا  نے سچ کہا ، فاطمہ  رضی اللہ عنہا  نے سچ کہا(یعنی میں  نے ہی ان کواحرام کھولنے کاحکم دیاہے)پھرسیدنا علی  رضی اللہ عنہ  سے پوچھاتم نے کس چیزکااحرام باندھاتھا ؟انہوں  نے عرض کیامیں  نے تویہ کہاتھاکہ اے اللہ جس چیزکااحرام نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھاہے میں  بھی اسی چیزکااحرام باندھتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیرے ساتھ قربانی کا جانور ہے(اس لیے میں  نے احرام نہیں  کھولا)لہذاتم احرام نہ کھولو،اگرمیرے ساتھ قربانی کاجانورنہ ہوتاتومیں  بھی(عمرہ کرکے)احرام کھول دیتا جیسے تم کھول رہے ہو ۔[78]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

آٹھ ذوالحجہ کی مصروفیات:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَمَرَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَحْلَلْنَا، أَنْ نُحْرِمَ إِذَا تَوَجَّهْنَا إِلَى مِنًى، قَالَ: فَأَهْلَلْنَا مِنَ الْأَبْطَحِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایاتوہم نے احرام کھول ڈالااورفرمایاکہ جب ہم منی کوچلیں (یعنی ۸  ذوالحجہ یوم ترویہ )تواحرام باندھ لیں  چنانچہ ہم نےمقام ابطح   (محصب سے قریب)سے حج کی لبیک پکاری(یعنی صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے  ۸  ذوالحجہ یوم ترویہ کومقام ابطح میں  حج کااحرام باندھا)۔[79]

فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى، فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ، وَرَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ

پھرجب ترویہ کادن ہوا (یعنی آٹھویں  ذی الحجہ جمعرات کے روزچاشت کے وقت )تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سوارہوکر اورسب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  مکہ معظمہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اورحج کی لبیک کہناشروع کردیا،منیٰ پہنچ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر،عصر،مغرب اورعشاء اورفجر کی نمازیں  (اپنے اپنے وقت پر)اداکیں ۔[80]

عرفہ کی رات:

أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَهْلَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ، فَكُنْتُ مِمَّنْ تَمَتَّعَ وَلَمْ یَسُقْ الهَدْیَ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا حَاضَتْ وَلَمْ تَطْهُرْ حَتَّى دَخَلَتْ لَیْلَةُ عَرَفَةَ، فَقَالَتْ:یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ لَیْلَةُ عَرَفَةَ وَإِنَّمَا كُنْتُ تَمَتَّعْتُ بِعُمْرَةٍ،فَقَالَ:انْقُضِی رَأْسَكِ وَامْتَشِطِی وَأَهِلِّی بِالْحَجِّ وَدَعِی الْعُمْرَةَ فَعَسَى اللهُ أَنْ یَرْزُقَكِیهَاقَالَتْ: فَفَعَلْتُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حجة الوداع کیامیں حج تمتع کرنے والوں  میں  سے تھی اورقربانی کاجانوراپنے ساتھ نہیں  لے گئی تھی پھرمیں  حائضہ ہوگئی اور عرفہ کی رات تک اذیت ماہانہ سے پاک نہیں  ہوئی تومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ عرفہ کی رات ہے میں  نے عمرہ کے ساتھ تمتع کیاتھا(لیکن میں  ابھی تک پاک نہیں  ہوئی کہ عمرہ کی تکمیل کرسکوں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم اپنا سرکھول دوکنگھی کرو اور حج کااحرام باندھ لواورعمرہ چھوڑ دواللہ تعالیٰ تمہیں  عنقریب عمرہ بھی نصیب فرمائے گا فرماتی ہیں میں  نے ایساہی کیا(یعنی حج کااحرام باندھ لیا)پھرمیں  نے حج پوراکرلیا،عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے حکم کی تعمیل کی۔[81]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

نوذوالحجہ کی مصروفیات:

عرفہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منیٰ میں  گزاری پھرنوذوالحجہ کوصبح کی نمازبھی وہیں  اداکی،

ثُمَّ مَكَثَ قَلِیلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَسَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَشُكُّ قُرَیْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، كَمَا كَانَتْ قُرَیْشٌ تَصْنَعُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ،فَأَجَازَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَنَزَلَ بِهَاحَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِی،فَخَطَبَ النَّاسَ ،

پھرطلوع آفتاب کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوئے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیمہ کاجوبالوں  کابناہواتھا مقام نمرہ میں  نصب کرنے کاحکم فرمایا،تعمیل حکم میں  آپ کے لئے مقام نمرہ پر بالوں  کاایک خیمہ نصب کردیاگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  روانہ ہوئے اورقریش کویقین تھاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  المشعرالحرام میں  وقوف فرمائیں  گے جیسے ایام جاہلیت میں  قریش کے لوگوں  کی عادت تھی، لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مشعرالحرام کوچھوڑتے ہوئے آگے بڑھ گئےیہاں  تک کہ عرفات پہنچے،عرفات کے میدان میں  نمرہ  نے قصوٰی اونٹنی کوکسنے کاحکم دیا،اونٹنی کس دی گئی،(اس پرسوارہوکر)آپ بطن وادی میں  تشریف لائےاورلوگوں  سے خطاب فرمایا۔[82]

میدان عرفات میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاتاریخی خطبہ

میدان عرفات میں  جبکہ آپ کے گردایک لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں  کاٹھاٹھیں  مارتاہواایک سمندرتھا،رحمة للعالمین ، خاتم النبیین،سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک تاریخی جامع خطبہ ارشاد فرمایا

فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ ذَكَرَ المَسِیحَ الدَّجَّالَ فَأَطْنَبَ فِی ذِكْرِهِ،  وَقَالَ: مَا بَعَثَ اللهُ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَهُ،أَنْذَرَهُ نُوحٌ وَالنَّبِیُّونَ مِنْ بَعْدِهِ  وَإِنَّهُ یَخْرُجُ فِیكُمْ،فَمَا خَفِیَ عَلَیْكُمْ مِنْ شَأْنِهِ فَلَیْسَ یَخْفَى عَلَیْكُمْ: أَنَّ رَبَّكُمْ لَیْسَ عَلَى مَا یَخْفَى عَلَیْكُمْ ثَلاَثًا، إِنَّ رَبَّكُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ وَإِنَّهُ أَعْوَرُ عَیْنِ الیُمْنَى، كَأَنَّ عَیْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِیَةٌ

پہلے آپ نے اللہ وحدہ لاشریک کی حمدوثنابیان کی پھرمسیح دجال کاذکرتفصیل کے ساتھ کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے سب نے اپنی اپنی امت کو دجال سے ڈرایاہے، نوح   علیہ السلام  نے اپنی امت کو اس (کے فتنہ)سے اوردوسرے بعدمیں  آنے والے انبیاء نے بھی ڈرایایقیناوہ تم لوگوں  میں  سے ہی نکلے گا تم پراس کا حال پوشیدہ ہے تواللہ کاحال توپوشیدہ نہیں ،تین مرتبہ آپ نے اس جملہ کودوہرایاپھرفرمایاتمہارارب کانانہیں  ہے اوروہ کاناہوگااوراس کی سیدھی آنکھ انگورکی طرح پھولی ہوئی ہو گی ۔[83]

قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَیْكُمُ الْحَجَّ، فَحُجُّوافَقَالَ رَجُلٌ: أَكُلَّ عَامٍ یَا رَسُولَ اللهِ؟ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ  وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ:ذَرُونِی مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِیَائِهِمْ فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَیْتُكُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوهُ

اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ ارشادفرمایااے لوگو!اللہ نے تم پرحج فرض کردیاہے لہذاتم حج کرو،ایک شخص نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کیاہرسال حج کیاکریں ؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئےاس نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  خاموش رہے،پھر(تھوڑی دیربعد)رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگرمیں  ہاں  کہہ دیتاتوہرسال حج کرنافرض ہو جاتااورپھرتم اسے ادا نہ کرسکتے،پھرفرمایاجب میں  تمہیں  چھوڑے رکھوں  توتم بھی مجھے چھوڑدیاکرو(سوال نہ کیاکرو)کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں  نے اپنے انبیاء سے بکثرت سوال کیے اور(پھر)ان سے اختلاف کیا لہذاجب میں  تمہیں  کسی بات کاحکم دوں  توجہاں  تک ہوسکے اسے پورا کرواورجب کسی چیزسے منع کروں  تواس سے رک جایا کرو ۔[84]

وَقَالَ:إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَیْكُمْ، كَحُرْمَةِ یَوْمِكُمْ هَذَا فِی شَهْرِكُمْ هَذَا، فِی بَلَدِكُمْ هَذَاأَلَا كُلُّ شَیْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِیَّةِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوعٌ وَدِمَاءُ الْجَاهِلِیَّةِ مَوْضُوعَةٌ  وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِیعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِی بَنِی سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَیْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِیَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہارے خون اورتمہارے مال ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں  جیسے کہ آج کے دن کی حرمت اس مہینہ میں  اوراس شہرمیں  حرام ہیں ،جاہلیت کے تمام امور میرے قدموں  کے نیچے ہیں ،جاہلیت کے تمام خون میرے قدموں  کے نیچے ہیں (یعنی میں  جاہلیت کے تمام اموراورتمام خون ختم کررہاہوں )سب سے پہلا خون جو میں  اپنے خونوں  میں  سے معاف کرتاہوں  وہ ابن ربیعہ بن الحارث کا خون ہے جس کوقبیلہ ہذیل نے اس زمانہ میں  قتل کیاتھاجبکہ وہ قبیلہ بنی سعدمیں  دودھ پیتا تھا اسی طرح ایام جاہلیت کے تمام سودمیرے قدموں  کے نیچے ہیں  اورسب سے پہلاسودجوہم اپنے ہاں  کے سودسے چھوڑتے ہیں  وہ عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب کا سود ہےوہ پوراکاپورامعاف کردیاگیا،

فَاتَّقُوا اللهَ فِی النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ  وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ،وَلَكُمْ عَلَیْهِنَّ أَنْ لَا یُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ  فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ  ،وَلَهُنَّ عَلَیْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ،وَقَدْ تَرَكْتُ فِیكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابُ اللهِ،وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّی، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ، فَقَالَ: بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، یَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَیَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ اللهُمَّ، اشْهَدْ، اللهُمَّ، اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

عورتوں  کے معاملہ میں  اللہ سے ڈرتے رہوتم نے انہیں  اللہ کی امان میں (اپنے عقد میں ) لیاہے،اوراللہ کے کلمہ کے ساتھ ان کی شرمگاہوں  کوحلال کیاہے، تمہاراحق ان پریہ ہے کہ وہ تمہارے بسترپرکسی ایسے شخص کونہ بیٹھنے دیں  جس کابیٹھناتمہیں  ناگوار ہو،اگروہ ایساکریں  توان کواس طرح ماروکہ ان کے چوٹ نہ لگے،ان کاحق تم پریہ ہے کہ ان کو روٹی ، کپڑادستورکے مطابق دیتے رہو،اورمیں  تمہارے درمیان ایسی چیزچھوڑرہاہوں  کہ اگرتم اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہوگے توکبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب ،تم سے قیامت کے روزمیرے متعلق سوال ہوگا تم کیاجواب دوگے؟سب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیاہم گواہی دیں  گے کہ بے شک آپ نے اللہ کاپیغام پہنچادیا ، رسالت کا حق ادا کردیااورامت کی خیرخواہی کی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی شہادت کی انگلی کوآسمان کی طرف اٹھاکرلوگوں  کی طرف جھکایااورفرمایااے اللہ گواہ رہ،اے اللہ گواہ رہ،اے اللہ گواہ رہ تین مرتبہ یہی کلمات دھرائے ۔[85]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْمُخَضْرَمَةِ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ:أَتَدْرُونَ أَیُّ یَوْمٍ هَذَا، وَأَیُّ شَهْرٍ هَذَا، وَأَیُّ بَلَدٍ هَذَا؟قَالُوا: هَذَا بَلَدٌ حَرَامٌ، وَشَهْرٌ حَرَامٌ، وَیَوْمٌ حَرَامٌ قَالَ: أَلَا وَإِنَّ أَمْوَالَكُمْ، وَدِمَاءَكُمْ عَلَیْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، فِی بَلَدِكُمْ هَذَا، فِی یَوْمِكُمْ هَذَا، أَلَا وَإِنِّی فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الْأُمَمَ، فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْهِی، أَلَا وَإِنِّی مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّی أُنَاسٌ، فَأَقُولُ: یَا رَبِّ أُصَیْحَابِی؟ فَیَقُولُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااوراس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عرفات میں  اپنی کنکٹی اونٹنی پرسوارتھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجانتے ہویہ کون سادن ہے؟کون سامہینہ ہے؟کون ساشہرہے؟لوگوں  نے کہایہ حرام شہرہے،حرام مہینہ ہے اورحرام دن ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہارے مال اورخون بھی ایسے ہی ایک دوسرے پر حرام ہیں  جیسے اس مہینہ کی حرمت ہےتمہارے اس شہرمیں  اس دن میں ، آگاہ رہومیں  حوض کوثرپرتمہاراپیش خیمہ ہوں  اورمیں  تمہاری وجہ سے اورامتوں  پراپنی امت کی کثرت پرفخرکروں  گاتومیرامنہ کالانہ کرنا(یعنی میرے بعدبرے کام مت کرناکہ قیامت کے دن اورامتوں  کے مقابل میں  شرمندہ ہوں  بلکہ ایسے عمدہ کام کرناکہ مجھ کواورامتوں  کے سامنے فخرحاصل ہو) آگاہ رہوبعض لوگوں  کومیں  چھوڑآؤں  گا(عذاب کے فرشتوں  سے یادوزخ سے شفاعت کرکے)اوربعض لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں  گے ،فرشتے مجھ سے ان کوچھین کرلے جائیں  گے میں  کہوں  گااے مالک!یہ تومیرے اصحاب ہیں  مالک فرمائے گاتونہیں  جانتاجوانہوں  نے تیرے بعدبدعتیں  پیدا کیں  ۔[86]

ایک روایت میں  یہ بھی ہےکہ اللہ کی کتاب کاذکر کرنے کے بعد فرمایا

فَقَالَ: لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَلَا أُمَّةَ بَعْدَكُمْ؛ فَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ وَأَدُّوا زَكَاتَكُمْ وَصُومُوا شَهْرَكُمْ وَأَطِیعُوا وُلَاةَ أَمْرِكُمْ تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ

اے لوگو!یادرکھومیرے بعدکوئی نبی نہیں  ہے اورتمہارے بعدکوئی امت نہیں  لہذااپنے معبودحقیقی کی عبادت کرنا،پانچوں  وقت نماز ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا،اپنے مالوں  سے زکوٰة اداکرتے رہنا(اگراستعدادہوتوزندگی میں  کم ازکم ایک بار) بیت اللہ کاحج کرنا اور اپنے حکمرانوں  کی اطاعت کرنااگران ہدایات پرعمل کروگے تواپنے رب کی (نعمتوں  بھری )جنت میں  (جہاں  کوئی دکھ اوررنج وغم نہ ہوگا)داخل ہوجاؤگے۔[87]

كَانَ الرَّجُلُ الَّذِی یَصْرُخُ فِی النَّاسِ یَقُولُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُعْرِفَةٌ، رَبِیعَةُ بْنُ أُمَیَّةَ بْنِ خَلْفٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات کوربیعہ بن امیہ بن خلف اپنی بلندآوازسے لوگوں  تک پہنچارہے تھے۔[88]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاخطبہ ختم ہوا،بعض لوگ لبیک کہتے رہے بعض لوگ اللہ اکبرکہتے رہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کومنع نہیں  کیا،

أَنَّهُ سَأَلَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَهُمَا غَادِیَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ: كَیْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ فِی هَذَا الیَوْمِ، مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:كَانَ یُهِلُّ مِنَّا المُهِلُّ فَلاَ یُنْكِرُ عَلَیْهِ، وَیُكَبِّرُ مِنَّا المُكَبِّرُ فَلاَ یُنْكِرُ عَلَیْهِ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدونوں  صبح کومنیٰ سے عرفات جارہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ آپ لوگ آج کے دن کس طرح کرتے تھے ؟انس  رضی اللہ عنہ  نے فرمایاکوئی ہم میں  سے لبیک پکارتاتھااس پرکوئی اعتراض نہ کرتااورکوئی تکبیرکہتااس پربھی کوئی انکارنہ کرتا(اسی طرح عرفہ کاتمام دن تکبیراورتلبیہ کی صداؤں  میں  گزرا )۔[89]

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا یَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا السَّرَاوِیلَاتِ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَحَدٌ لَا یَجِدُ النَّعْلَیْنِ، فَلْیَلْبَسِ الْخُفَّیْنِ، وَلْیَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَیْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّیَابِ شَیْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ

ایک شخص نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھامحرم کون سے کپڑے پہن سکتاہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامحرم نہ قمیص پہنے نہ عمامہ باندھے نہ شلوار پہنے نہ ٹوپی پہنے اورنہ موزے،اگرکسی کوجوتیاں  میسرنہ ہوں  تووہ موزے پہن سکتاہے لیکن ان کوکاٹ کرٹخنوں  سے نیچے کرلے،اگرتہ بندمیسرنہ ہوتوپیجامہ پہن سکتاہے،البتہ ایساکوئی کپڑانہ پہنے جس کوزعفران یاورس(یمن کی ایک خوشبودارگھاس) سے رنگا گیا ہو(اس کے علاوہ جوچاہے پہنو )۔[90]

قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ یَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ، أَنْ یُعْتِقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِیهِ، عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ یَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَیَدْنُو عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ یُبَاهِی بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَیَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ عزوجل اتنے آدمی کسی دن دوزخ سے آزادنہیں  کرتاجتنے عرفہ کے دن کرتاہے اورپروردگارنزدیک ہو جاتاہے پھراورنزدیک ہوجاتاہے اورپھراپنے بندوں  کی وجہ سے اپنے فرشتوں  پرفخرکرتاہے اورفرماتاہے یہ لوگ کیاچاہتے ہیں ۔ [91]

عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِیُّ، أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِأُمَّتِهِ عَشِیَّةَ عَرَفَةَ، بِالْمَغْفِرَةِ فَأُجِیبَ: إِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، مَا خَلَا الظَّالِمَ، فَإِنِّی آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ قَالَ: أَیْ رَبِّ إِنْ شِئْتَ أَعْطَیْتَ الْمَظْلُومَ مِنَ الْجَنَّةِ، وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ فَلَمْ یُجَبْ عَشِیَّتَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، أَعَادَ الدُّعَاءَ، فَأُجِیبَ إِلَى مَا سَأَلَ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ تَبَسَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِیهَا، فَمَا الَّذِی أَضْحَكَكَ؟ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ قَالَ:إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِیسَ، لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَدِ اسْتَجَابَ دُعَائِی، وَغَفَرَ لِأُمَّتِی أَخَذَ التُّرَابَ، فَجَعَلَ یَحْثُوهُ عَلَى رَأْسِهِ، وَیَدْعُو بِالْوَیْلِ وَالثُّبُورِ، فَأَضْحَكَنِی مَا رَأَیْتُ مِنْ جَزَعِهِ

عباس بن مرداس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم نے عرفہ کے تیسرے پہرکو اپنی امت کے لیے مغفرت کی دعافرمائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملاکہ میں  نے تیری امت کوبخش دیامگرجوان میں  ظالم ہوگا( یعنی ناجائزجبراًمال کھائے یاجان کونقصان پہنچائے یاعزت وآبروکے درپے ہو ) تواس سے میں  مظلوم کابدلہ ضرورلوں  گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے پروردگار!اگرتوچاہے تومظلوم کوجنت نصیب فرمادے اورظالم کوبخش دے(یعنی مظلوم کوجنت عطافرماکر)اس کوراضی کردے کہ وہ ظالم سے اپنابدلہ معاف کردےلیکن عرفہ کی شام تک اس کاجواب نہیں  ملاجب مزدلفہ میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوصبح ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھربھی دعاکی،اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی درخواست قبول فرمائی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (خوشی سے)ہنسے یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تبسم فرمایا،سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے عرض کیاہمارے ماں  باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پرفداہوں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت میں  کبھی نہیں  ہنستے تھے (یعنی حج کے مقاموں  میں  کیونکہ یہ عبادت اوردعاکے مقام ہیں )توآج کیوں  ہنسےاللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوہنستاہی رکھے ،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کے دشمن ابلیس نے یہ دیکھاکہ اللہ عزوجل نے میری دعاقبول فرمالی ہے اورمیری امت کوبخش دیاہے تواس نے مٹی اٹھائی اوراپنے سرمیں  ڈالنے لگااورکہنے لگاہائے خرابی! ہائے تباہی!جب میں  نے اس کاتڑپنادیکھا تومجھے ہنسی آگئی۔[92]

اختلاف کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں  یانہیں :

أَنَّ نَاسًا اخْتَلَفُوا عِنْدَهَا یَوْمَ عَرَفَةَ فِی صَوْمِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَیْسَ بِصَائِمٍ فَأَرْسَلْتُ إِلَیْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِیرِهِ، فَشَرِبَهُ

ام الفضل  رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ لوگوں  میں  عرفہ کے روزہ سے متعلق اختلاف ہوابعض کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  روزے سے ہیں  اوربعض کہتے تھے کہ روزے سے نہیں  ہیں  ، اس بات کی تحقیق کرنے کے لئے ام المومنین میمونہ  رضی اللہ عنہا  یاام الفضل  رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت بابرکت میں  دودھ کاایک پیالہ بھیجا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابھی تک اونٹ پر سواروقوف فرمائے ہوئےتھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اونٹ پربیٹھے بیٹھے دودھ پی لیا (اس طرح لوگوں  کومعلوم ہوگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  روزے کے ساتھ نہیں  ہیں )۔[93]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَیْنَةَ، جَاءَتْ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّی نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ:نَعَمْ حُجِّی عَنْهَا، أَرَأَیْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَیْنٌ أَكُنْتِ قَاضِیَةً؟ اقْضُوا اللَّهَ فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالوَفَاءِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےقبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے پوچھا(اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم )میری والدہ نے حج کرنے کی نذرمانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے مرگئیں  کیامیں  ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ،تم ان کی طرف سے حج کروبتاؤ اگر تمہاری والدہ پرقرض ہوتاتوتم اس کوادانہ کرتیں ؟ان کی نذرپوری کرو،اللہ اپنے حق کی ادائیگی کازیادہ حقدار ہے۔[94]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَوَقَفْتُ هَاهُنَا، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ

اسی موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے یہاں  وقوف کیاہے لیکن عرفات ساراوقوف کامقام ہے(جہاں  چاہے ٹھہرسکتاہے)۔[95]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: بَیْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ ، إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ: فَأَوْقَصَتْهُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِی ثَوْبَیْنِ، وَلاَ تُحَنِّطُوهُ، وَلاَ تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ یُبْعَثُ یَوْمَ القِیَامَةِ مُلَبِّیًا وَلَا وَجْهَهُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے ایک شخص میدان عرفہ میں (احرام باندھے ہوئے)کھڑاہواتھاکہ اپنی سواری سے گرااوراورسواری نے انہیں  کچل دیا(اوروہ مرگیا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسے پانی اوربیری سے غسل دو(یعنی پانی میں  بیری کے پتے ابال کراس پانی سے غسل دو)اوراس کوان ہی دونوں  کپڑوں  کاکفن دو(جویہ بحالت احرام پہنے ہوئے تھا)اوریہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں  خوشبونہ لگاؤ،نہ اس کاسرڈھانکونہ اس کا منہ ڈھانکو، بے شک اللہ اس کوقیامت کے دن لبیک کہتاہوااٹھائے گا۔[96]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

تکمیل دین کی بشارت

ذوالحجہ کی نوتاریخ تھی اور جمعہ کادن تھاابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میدان عرفات ہی میں  تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین اسلام کی تکمیل کی بشارت سنائی،

۔۔۔ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔۝۰۝۳ [97]

ترجمہ:آج میں  نے تمہارے دین کوتمہارے لئے مکمل کردیاہے اوراپنی نعمت تم پرتمام کردی ہے اورتمہارے لئے اسلام کوتمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَیْسَ شَیْءٌ یُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ , وَیُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ , وَلَیْسَ شَیْءٌ یُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ , وَیُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَیْتُكُمْ عَنْهُ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لوگو! کوئی ایسی چیز نہیں  ہے جو تم کو جنت سے قریب کر دے اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس کو اختیار کرنے کا حکم میں  نے تمہیں  دیا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں  ہے جو تم کو دوزخ کی آگ سے قریب کر دے اور جنت سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس سے میں  نے تمہیں  منع کیا ہے۔[98]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، أَنَّ رَجُلًا، مِنَ الیَهُودِ قَالَ لَهُ: یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، آیَةٌ فِی كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الیَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الیَوْمَ عِیدًا. قَالَ: أَیُّ آیَةٍ؟ قَالَ: {الیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا}، [99] قَالَ عُمَرُ:قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الیَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِی نَزَلَتْ فِیهِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ یَوْمَ جُمُعَةٍ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےایک یہودی نے ان سے کہاکہ اے امیرالمومنین! تمہاری کتاب(قرآن مجید)میں  ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہواگروہ ہم یہودیوں  پر نازل ہوتی توہم اس(کے نزول کے)دن کویوم عیدبنالیتے،آپ رضی اللہ عنہ  نے پوچھاوہ کونسی آیت ہے؟اس نے کہا’’آج میں  نے تمہارے دین کوتمہارے لئے مکمل کردیاہے اوراپنی نعمت تم پرتمام کردی ہے اورتمہارے لئے اسلام کوتمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایاہم اس دن اوراس مقام کو(خوب)جانتے ہیں  جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل ہوئی(اس وقت)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عرفات میں  جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے(حالت حج میں  نہ جمعہ کی نمازہے نہ عیدالاضحیٰ کی ) ۔[100]

قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ  وَذَلِكَ یَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، بَكَى عُمَرُ  فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا یُبْكِیكَ؟ قَالَ: أَبْكَانِی أَنَّا كُنَّا فِی زِیَادَةٍ مِنْ دِینِنَا، فَأَمَا إذْ أُكْمِلَ  فَإِنَّهُ لَمْ  یَكْمُلْ شَیْءٌ إِلَّا نَقُصَ، فَقَالَ:صَدَقْتَ

ایک روایت میں  ہےحج اکبرکے دن جب یہ آیت نازل ہوئی کہ آج ہم نے تمہارادین مکمل کردیاہے تو سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  سمجھ گئے کہ جب دین مکمل ہوگیاتواب رسول اللہ کی جدائی کا وقت آپہنچاہے اس لئے یہ آیت سن بے ساختہ رونے لگے،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے دریافت فرمایاکیوں  رورہے ہو؟ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے عرض کیاہم دین کی تکمیل میں  کچھ زیادی ہی تھے اب وہ مکمل ہوگیاہے اوردستوریہ ہے کہ کمال کے بعدنقصان شروع ہوجاتاہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا سچ ہے۔[101]

ثُمَّ أَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ  وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَهُمَا شَیْئًا

پھربلال  رضی اللہ عنہ  نے اذان دی اوراقامت کہی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہرکی نمازادافرمائی ،بلال  رضی اللہ عنہ  نے پھر اقامت کہی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عصرکی نمازاداکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں  نمازوں  کے درمیان میں  کوئی نمازنہ پڑھی۔[102]

(سفرمیں  دونمازوں  کاجمع کرناجائزہے،عرفات اورمزدلفہ میں  بحالت حج دونمازوں  کاجمع کرناسنت ہے)

ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَیْنَ یَدَیْهِ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ یَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِیلًا، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ

نمازکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پھرسواری پرسوارہوگئے اورموقف میں  تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی اونٹنی کاپیٹ پتھروں  کی طرف کردیا،جبل مشاة (پیدل چلنے والوں  کی راہ میں  واقع ریتیلے تودے)کواپنے سامنے کرلیااورقبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح کھڑے رہے یہاں  تک کہ سورج غروب ہوگیااورزردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اورسورج کی ٹکیہ ڈوب گئی۔[103]

عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِیُّ، أَنَّ أَبَاهُ، أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِأُمَّتِهِ عَشِیَّةَ عَرَفَةَ، بِالْمَغْفِرَةِ فَأُجِیبَ: إِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، مَا خَلَا الظَّالِمَ، فَإِنِّی آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ قَالَ: أَیْ رَبِّ إِنْ شِئْتَ أَعْطَیْتَ الْمَظْلُومَ مِنَ الْجَنَّةِ، وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ فَلَمْ یُجَبْ عَشِیَّتَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، أَعَادَ الدُّعَاءَ، فَأُجِیبَ إِلَى مَا سَأَلَ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ تَبَسَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِیهَا، فَمَا الَّذِی أَضْحَكَكَ؟ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ قَالَ:إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِیسَ، لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَدِ اسْتَجَابَ دُعَائِی، وَغَفَرَ لِأُمَّتِی أَخَذَ التُّرَابَ، فَجَعَلَ یَحْثُوهُ عَلَى رَأْسِهِ، وَیَدْعُو بِالْوَیْلِ وَالثُّبُورِ، فَأَضْحَكَنِی مَا رَأَیْتُ مِنْ جَزَعِهِ

عباس بن مرداس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم نے عرفہ کے تیسرے پہرکو اپنی امت کے لیے مغفرت کی دعافرمائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملاکہ میں  نے تیری امت کوبخش دیامگرجوان میں  ظالم ہوگا( یعنی ناجائزجبراًمال کھائے یاجان کونقصان پہنچائے یاعزت وآبروکے درپے ہو ) تواس سے میں  مظلوم کابدلہ ضرورلوں  گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے پروردگار!اگرتوچاہے تومظلوم کوجنت نصیب فرمادے اورظالم کوبخش دے(یعنی مظلوم کوجنت عطافرماکر)اس کوراضی کردے کہ وہ ظالم سے اپنابدلہ معاف کردےلیکن عرفہ کی شام تک اس کاجواب نہیں  ملاجب مزدلفہ میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوصبح ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھربھی دعاکی،اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی درخواست قبول فرمائی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (خوشی سے)ہنسے یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تبسم فرمایا،سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے عرض کیاہمارے ماں  باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پرفداہوں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت میں  کبھی نہیں  ہنستے تھے (یعنی حج کے مقاموں  میں  کیونکہ یہ عبادت اوردعاکے مقام ہیں )توآج کیوں  ہنسےاللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوہنستاہی رکھے ،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کے دشمن ابلیس نے یہ دیکھاکہ اللہ عزوجل نے میری دعاقبول فرمالی ہے اورمیری امت کوبخش دیاہے تواس نے مٹی اٹھائی اوراپنے سرمیں  ڈالنے لگااورکہنے لگاہائے خرابی! ہائے تباہی!جب میں  نے اس کاتڑپنادیکھا تومجھے ہنسی آگئی۔[104]

قال الألبانی: ضعیف

میدان عرفات سے روانگی:

وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَیُصِیبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ،وَیَقُولُ بِیَدِهِ الْیُمْنَى أَیُّهَا النَّاسُ، السَّكِینَةَ السَّكِینَةَ ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِیلًا، حَتَّى تَصْعَد

میدان عرفات سے روانگی کے وقت اسامہ  رضی اللہ عنہ  کواپنے پیچھے بٹھالیاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  عرفات سے روانہ ہوئےآپ نے قصواء اونٹنی کی لگام اس قدرکھینچ رکھی تھی کہ اس کاسرکجاوہ کے اگلے حصہ سے لگ رہاتھا راستہ میں  آپ داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے جارہے تھے کہ اے لوگو!اطمینان سے چلو، اطمینان کے ساتھ چلو،جب آپ کسی ٹیلہ پر چڑھتے تو لگام ڈھیلی کردیتے تاکہ اونٹنی آسانی سے چڑھ جائے۔ [105]

حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَال  ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ یُسْبِغِ الوُضُوءَ، فَقُلْتُ الصَّلاَةَ یَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ:الصَّلاَةُ أَمَامَكَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ،فَسَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِیدًا، وَضَرْبًا وَصَوْتًا لِلْإِبِلِ، فَأَشَارَ بِسَوْطِهِ إِلَیْهِمْ وَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ عَلَیْكُمْ بِالسَّكِینَةِ فَإِنَّ البِرَّ لَیْسَ بِالإِیضَاعِ،فَجَاءَ المُزْدَلِفَةَ، فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلاَةُ وَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِیرَهُ فِی مَنْزِلِهِ  ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلاَةُ  وَصَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَیْنِ فَصَلَّى وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَهُمَا

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں  پہنچے توسواری پرسے اترے،وہاں  آپ نے پیشاب کیا،پھروضوکیالیکن کامل وضونہ کیاجب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وضوکرچکے تواسامہ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !نمازپڑھ لیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا نمازآگے جاکرپڑھیں  گے(یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں  گے)یہ کہہ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پھر سوار ہو گئے ،آپ کی سواری کی رفتارتیزتھی اورجب آپ میدان سے گزرتے(اورہجوم نہ پاتے) تورفتارکو اور تیزکر دیتے، راستہ میں  آپ نے اپنے پیچھے (اونٹ ہانکنے کا) شوروغل اور اونٹوں  کی ماردھاڑ کی آوازسنی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی طرف کوڑے سے اشارہ کیااورفرمایااے لوگو!سکون اختیارکروسواری کودوڑانانیکی نہیں  ہے،راستہ بھر آپ لبیک کہتے رہے یہاں  تک کہ مزدلفہ پہنچے، مزدلفہ پہنچ کرآپ سواری سے اترے،وضوکیااورکامل وضوکیا پھربلال  رضی اللہ عنہ  نے آذان دی اوراقامت کہی اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی تین رکعتیں  پڑھائیں ،پھرہرشخص نے اپنے اونٹ کواپنی منزل میں  لیجاکر بٹھا دیااس کے بعدعشاکی اقامت ہوئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عشاءکی دورکعت پڑھائیں ،مغرب اور عشاء کے درمیان آپ نے کوئی نماز(سنت یانفل)نہیں  پڑھی۔[106]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

دس ذوالحجہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مزدلفہ میں  گزاری،

اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ جَمْعٍ، وَكَانَتْ ثَقِیلَةً ثَبْطَةً، فَأَذِنَ لَهَا أَنَا مِمَّنْ قَدَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ المُزْدَلِفَةِ فِی ضَعَفَةِ أَهْلِهِ

ام المومنین سودہ  رضی اللہ عنہا بھاری جسم کی خاتون تھیں  لہذاانہوں  نے مزدلفہ سے رات ہی کے وقت منیٰ جانے کی اجازت طلب کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  اجازت فرمادی پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل بیت کے کمزورافرادکورات ہی کے وقت منیٰ روانہ کردیا،انہیں  میں  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  بھی شامل تھے۔[107]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میں  نے یہاں  وقوف کیاہے(لیکن وقوف کرنااسی جگہ پرموقوف نہیں )بلکہ جمع(مزدلفہ)پوراوقوف کامقام ہے(کہیں  بھی قیام کیا جا سکتا ہے )

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَزَلْ یُلَبِّی

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب تک مزدلفہ میں  رہے برابرلبیک کہتے رہے  ۔[108]

ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  طلوع فجر تک لیٹے رہے،فجرکی نمازآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ ہی میں  اداکی۔[109]

مشعرحرام میں  آمد:

ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ، حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ، فَلَمْ یَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا

نمازفجرکے بعدآپ اپنی سواری قصواء اونٹنی پرسوارہوگئے اورمشعرحرام میں  تشریف لائے،مشعرحرام میں  آپ نے قبلہ کے طرف منہ کرلیاپھراللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتے رہے،اللہ اکبراورلاالٰہ الااللہ پڑھتے رہے اوراللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرتے رہے یہاں  تک کہ خوب روشنی ہوگئی۔[110]

[1] صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[2] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ ذِكْرِ العِلْمِ وَالفُتْیَا فِی المَسْجِدِ عن ابن عمررضی اللہ عنہما ۱۳۳،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ مَوَاقِیتِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ۲۸۱۰

[3] زادالمعاد۵۷۹؍۳،عیون الآثر۳۱۸؍۲،البدایة والنہایة۸۹؍۵،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۴۰۹؍۶

[4] المتظم فی تاریخ الملوک والامم۳۸۱؍۳،البدایة والنہایة۱۰۴؍۵

[5]الاصابة فی تمییز الصحابة۴۱۷؍۴

[6] اعلام السائلین عن کتب سیدالمرسلین لابن طولون۱۴۷؍۱

[7] سنن ابوداودکتاب القضائ بَابٌ إِذَا عَلِمَ الْحَاكِمُ صِدْقَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ یَجُوزُ لَهُ أَنْ یَحْكُمَ بِهِ۳۶۰۷ ، مسنداحمد۲۱۸۸۳،مستدرک حاکم ۲۱۸۷،الاصابة فی تمییزالصحابة۱۷۹؍۳

[8]البدایة والنہایة۳۵۵؍۷

[9] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ ذَبْحِ الرَّجُلِ البَقَرَ عَنْ نِسَائِهِ مِنْ غَیْرِ أَمْرِهِنّ َ۱۷۰۹

[10] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ یَقْصُرُ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَوْضِعِهِ۱۰۸۹

[11]صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَا یَلْبَسُ المُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ وَالأَرْدِیَةِ وَالأُزُرِ ۱۵۴۵

[12]تاریخ الخمیس ۱۴۹؍۲

[13] ابن سعد۱۳۱؍۲

[14] مسنداحمد۱۸۶۹،مصنف ابن شیبة۱۵۳۴۱،السنن الکبری للنسائی۴۱۲۲

[15] السنن الکبری للنسائی۶۶۰۵

[16] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالإِهْلاَلِ عنانس ۱۰۸۹،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر  ۲۹۵۰

[17] صحیح مسلم  کتاب  الحج بَابُ إِحْرَامِ النُّفَسَاءِ وَاسْتِحْبَابِ اغْتِسَالِهَا لِلْإِحْرَامِ، وَكَذَا الْحَائِضُ عن عائشہ ۲۹۰۸،وبَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[18] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ الطِّیبِ لِلْمُحْرِمِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ ۲۸۲۴

[19] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَا یَلْبَسُ المُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ وَالأَرْدِیَةِ وَالأُزُرِ  ۱۵۴۵

[20] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الطِّیبِ عِنْدَ الإِحْرَامِ، وَمَا یَلْبَسُ إِذَا أَرَادَ أَنْ یُحْرِمَ، وَیَتَرَجَّلَ وَیَدَّهِنَ۱۵۳۸،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ الطِّیبِ لِلْمُحْرِمِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ ۲۸۳۹

[21] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ بَاتَ بِذِی الحُلَیْفَةِ حَتَّى أَصْبَحَ ۱۵۴۷

[22] صحیح بخاری کتاب  الاعتصام بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ ۷۳۴۳، وبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:العَقِیقُ وَادٍ مُبَارَكٌ عن ابن عمر  ۱۵۳۴،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ التَّعْرِیسِ بِذِی الْحُلَیْفَةِ، وَالصَّلَاةِ بِهَا إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ۳۲۸۵،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابٌ فِی الْإِقْرَانِ ۱۸۰۰،مسنداحمد۱۶۱

[23] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّلْبِیَةِعن ابن عمر ۱۵۱۴،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر  ۲۹۵۰

[24]سنن نسائی کتاب الحج مَا یَجُوزُ لِلْمُحْرِمِ أَكْلُهُ مِنَ الصَّیْدِ ۲۸۲۲ 

[25] سنن ابوداودکتاب   المناسک بَابُ الْمُحْرِمِ یُؤَدِّبُ غُلَامَهُ۱۸۱۸،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ التَّوَقِّی فِی الْإِحْرَامِ۲۹۳۴،مسنداحمد ۲۶۹۱۶

[26] صحیح بخاری ابواب العمرة بَابٌ مَتَى یَحِلُّ المُعْتَمِرُ ۱۷۹۶

[27] مسنداحمد۲۰۶۷

[28] صحیح بخاری کتاب الحیض بَابٌ تَقْضِی الحَائِضُ المَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ۳۰۵،وکتاب الحیض بَابُ كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الحَیْضِ وَقَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَذَا شَیْءٌ كَتَبَهُ اللهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ۲۹۴،وکتاب الاضاحی بَابُ الأُضْحِیَّةِ لِلْمُسَافِرِ وَالنِّسَاءِ ۵۵۴۸،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ یَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى یَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ۲۹۱۸،سنن ابوداودکتاب المناسک  بَابٌ فِی إِفْرَادِ الْحَجِّ ۱۷۸۲، مسند احمد۲۵۸۳۸

[29] تحفة الاحوذی۳۴۶؍۱

[30] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَا یَلْبَسُ المُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ وَالأَرْدِیَةِ وَالأُزُرِ عن ابن عباس ۱۵۴۵،وبَابُ التَّحْمِیدِ وَالتَّسْبِیحِ وَالتَّكْبِیرِ، قَبْلَ الإِهْلاَلِ، عِنْدَ الرُّكُوبِ عَلَى الدَّابَّةِعنانس ۱۵۵۱، وبَابُ مَنْ لَبَّدَ رَأْسَهُ عِنْدَ الإِحْرَامِ وَحَلَقَ عن حفصہ ۱۷۲۵،بَابُ مَنْ أَهَلَّ مُلَبِّدًا ۱۵۴۰،صحیح مسلم  کتاب الحج  بَابُ تَقْلِیدِ الْهَدْیِ وَإِشْعَارِهِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ عن ابن عباس ۳۰۱۶

[31] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ دُخُولِ مَكَّةَ مِنَ الثَّنِیَّةِ الْعُلْیَا وَالْخُرُوجِ مِنْهَا مِنَ الثَّنِیَّةِ السُّفْلَى وَدُخُولِ بَلَدِهِ مِنْ طَرِیقٍ غَیْرَ الَّتِی خَرَجَ مِنْهَا ۳۰۴۰

[32] صحیح مسلم کتاب الحج باب حجتہ النبی ﷺ ۲۹۵۰

[33] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ خُرُوجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى طَرِیقِ الشَّجَرَةِعن ابن عمر ۱۵۳۳

[34] صحیح مسلم کتاب النذر بَابُ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَمْشِیَ إِلَى الْكَعْبَةِ۴۲۴۷

[35] صحیح مسلم کتاب النذر بَابُ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَمْشِیَ إِلَى الْكَعْبَةِ ۴۲۵۰

[36] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ رُكُوبِ البُدْنِ۱۶۸۹، صحیح مسلم کتاب الج باب جوازرکوب البدنة المھداة لمن احتاج الیھا۳۲۰۸،مسنداحمد۷۳۵۰

[37] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ أَهَلَّ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَإِهْلاَلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن ابی موسیٰ ۱۵۵۹، وکتاب المغازی باب حجتہ الوداع۴۳۹۷،صحیح مسلم کتاب الحج بَابٌ فِی نَسْخِ التَّحَلُّلِ مِنَ الْإِحْرَامِ وَالْأَمْرِ بِالتَّمَامِ۲۸۵۹،مسنداحمد۱۹۵۴۸

[38] زادالمعاد۱۳۲؍۱

[39] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ الصَّلاَةِ فِی الثَّوْبِ الأَحْمَرِ ۳۷۶،وکتاب الوضو بَابُ اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ ۱۸۷،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّی ۱۱۲۰، ۱۱۲۲

[40] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الِاغْتِسَالِ عِنْدَ دُخُولِ مَكَّة۱۳۷۳َ،وبَابُ الإِهْلاَلِ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ ۱۵۵۳، وبَابُ دُخُولِ مَكَّةَ نَهَارًا أَوْ لَیْلًا عن ابن عمر ۱۵۷۴

[41] مسنداحمد۲۷۲۴۹

[42] صحیح بخاری کتاب الماسک بَابٌ مِنْ أَیْنَ یَدْخُلُ مَكَّةَ؟ عن ابن عمر ۱۵۷۵، وبَابٌ مِنْ أَیْنَ یَخْرُجُ مِنْ مَكَّةَ؟ عن عایشہ۱۵۷۷، وبَابُ مَا یَلْبَسُ المُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ وَالأَرْدِیَةِ وَالأُزُرِ عن ابن عباس ۱۵۴۵،صحیح مسلم  کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ الْمَبِیتِ بِذِی طُوًى عِنْدَ إِرَادَةِ دُخُولِ مَكَّةَ، وَالِاغْتِسَالِ لِدُخُولِهَا وَدُخُولِهَا نَهَارًا۳۰۴۴ ، وبَابُ جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِی أَشْهُرِ الْحَجِّ۳۰۱۳

[43] صحیح بخاری ابواب العمرة بَابُ اسْتِقْبَالِ الحَاجِّ القَادِمِینَ وَالثَّلاَثَةِ عَلَى الدَّابَّةِ ۱۷۹۸

[44]صحیح بخاری کتاب الحیض بَابٌ كَیْفَ تُهِلُّ الحَائِضُ بِالحَجِّ وَالعُمْرَةِ  عن عائشہ ۳۱۹، وکتاب المناسک بَابُ مَنْ لَبَّى بِالحَجِّ وَسَمَّاهُ عن جابربن عبداللہ۱۵۷۰،صحیح مسلم کتاب  الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ۲۹۱۰

[45] صحیح بخاری ابواب العمرة بَابُ المُعْتَمِرِ إِذَا طَافَ طَوَافَ العُمْرَةِ ثُمَّ خَرَجَ، هَلْ یُجْزِئُهُ مِنْ طَوَافِ الوَدَاعِ۱۷۸۸ ،صحیح مسلم  کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ عن  عائشہ صدیقہ ۲۹۲۲

[46] صحیح مسلم کتاب  الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ عن عائشہ ۲۹۱۹، مسنداحمد ۱۴۱۱۶، زادالمعاد ۲۴۵؍۲

[47] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ سَاقَ البُدْنَ مَعَهُ عن ابن عمر ۱۶۹۱،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ وُجُوبِ الدَّمِ عَلَى الْمُتَمَتِّعِ، وَأَنَّهُ إِذَا عَدَمَهُ لَزِمَهُ صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ عن ابن عمر ۲۹۸۲،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابٌ فِی الْإِقْرَانِ۱۸۰۵،مسنداحمد۶۲۴۷

[48] نیل الاوطار۵۷؍۵،مستدرک حاکم۱۸۷۸

[49] نیل الاوطار۵۷؍۵

[50] سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ فَضْلِ الطَّوَافِ ۲۹۵۸

[51] البقرة۲۰۱

[52] سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الِاضْطِبَاعِ عن ابی یعلی  ۲۹۵۵

[53] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الرَّمَلِ فِی الحَجِّ وَالعُمْرَةِ ۱۶۰۴

[54] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ اسْتِلاَمِ الرُّكْنِ بِالْمِحْجَنِ ۱۶۰۷،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ مَنِ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ، بِمِحْجَنِهِ ۲۹۴۹

[55] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ اسْتِلاَمِ الرُّكْنِ بِالْمِحْجَنِ ۱۶۰۹

[56] البقرة ۱۲۵

[57] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى۳۹۵،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یَلْزَمُ مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، ثُمَّ قَدِمَ مَكَّةَ مِنَ الطَّوَافِ وَالسَّعْیِ ۲۹۹۹

[58] الدرالمنثور۲۹۴؍۱

[59] الدرالمنثور۲۹۳؍۱

[60]المعجم الاوسط۵۹۷۴

[61] البقرة۱۵۸

[62] مسنداحمد۱۴۴۴۰

[63]صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰

[64] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِی المَسْجِدِ الحَرَامِ۱۵۷۲،بَابُ وُجُوبِ الدَّمِ عَلَى الْمُتَمَتِّعِ، وَأَنَّهُ إِذَا عَدَمَهُ لَزِمَهُ صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ ۲۹۸۲

[65] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ هَدْیٌ ۱۵۶۸

[66] صحیح بخاری کتاب المناسک بابُ نَهْیِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّحْرِیمِ إِلَّا مَا تُعْرَفُ إِبَاحَتُهُ، وَكَذَلِكَ أَمْرُهُ۷۳۶۴  ،صحیح مسلم کتاب الحج   بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ عن عائشہ ۲۹۳۱

[67] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ هَدْیٌ۱۵۶۱

[68] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ هَدْیٌ۱۵۶۶،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک  بَابُ مَنْ لَبَّدَ رَأْسَهُ ۳۰۴۷

[69]صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ عن عائشہ ۲۹۳۱

[70] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ هَدْیٌ ۱۵۶۱،و بَابُ التَّحْمِیدِ وَالتَّسْبِیحِ وَالتَّكْبِیرِ، قَبْلَ الإِهْلاَلِ، عِنْدَ الرُّكُوبِ عَلَى الدَّابَّةِعنانس ۱۵۵۱

[71] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ هَدْیٌ عن ابن عباس ۱۵۶۴،وکتاب  فضائل اصحاب النبیﷺبَابُ أَیَّامِ الجَاهِلِیَّةِ ۳۸۳۲،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِی أَشْهُرِ الْحَجِّ ۳۰۰۹

[72] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ طَوَافِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ۱۶۱۹، وکتاب التفسیرباب سورة طور۴۸۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک  بَابُ الْمَرِیضِ، یَطُوفُ رَاكِبًا ۲۹۶۲

[73] مرویات غزوة حنین وحصار الطائف ۳۷

[74]البقرة: 198

[75] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرة بَابُ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ   عن ابن عباس ۴۵۱۹

[76]البقرة: 197

[77] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَى ۱۵۲۳

[78] صحیح بخاری کتاب المناسکبَابُ مَنْ أَهَلَّ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَإِهْلاَلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عنانس ۱۵۵۸، وکتاب المغازی بَابُ بَعْثِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِیدِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ عنانس ۴۳۵۳،صحیح مسلم  کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ عن جابر ۲۹۴۳

[79] صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ  ۲۹۴۱

[80] صحیح بخاری کتاب المناسک  بَابٌ أَیْنَ یُصَلِّی الظُّهْرَ یَوْمَ التَّرْوِیَةِ عنانس ۱۶۵۳، وبَابُ مَنْ صَلَّى العَصْرَ یَوْمَ النَّفْرِ بِالأَبْطَحِ ۱۷۶۳،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ۲۹۲۲، وبَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰، وبَابُ التَّقْصِیرِ فِی الْعُمْرَةِ عن ابی سعید ۳۰۲۳،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ الْخُرُوجِ إِلَى مِنًى ۱۹۱۲،جامع ترمذی ابواب الحج  باب بَابٌ ۹۶۴

[81] صحیح بخاری کتاب الحیض بَابُ امْتِشَاطِ المَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنَ المَحِیضِ عن عائشہ صدیقہ ۳۱۶، وکتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ۱۵۶۰، صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ۲۹۱۰

[82] صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[83] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ عن عائشہ صدیقہ  ۴۴۰۲

[84] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِی الْعُمُرِ عن ابی ہریرہ  ۳۲۵۷

[85] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰،ابن ہشام۶۰۳؍۲، الروض الانف ۵۰۶؍۷، دلائل النبوة للبیہقی۴۳۳؍۵،البدایة والنہایة۱۶۶؍۵

[86] سنن ابن ماجہ کتاب المناسکبَابُ الْخُطْبَةِ، یَوْمَ النَّحْرِ ۳۰۵۸

[87] الآحاد والمثانی لابن ابی حاتم  ۲۷۷۹

[88] ابن ہشام۶۰۴؍۲

[89]صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّلْبِیَةِ وَالتَّكْبِیرِ إِذَا غَدَا مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ عنانس ۱۶۵۹،وکتاب العیدین بَابُ التَّكْبِیرِ أَیَّامَ مِنًى، وَإِذَا غَدَا إِلَى عَرَفَةَ ۹۷۰،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ التَّلْبِیَةِ وَالتَّكْبِیرِ فِی الذَّهَابِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ  فِی یَوْمِ عَرَفَةَ عن ابن عمر ۸۰۹۷،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الْغُدُوِّ مِنْ مِنًى، إِلَى عَرَفَاتٍ ۳۰۰۹

[90] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ البَرَانِسِ ۵۸۰۳،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یُبَاحُ لِلْمُحْرِمِ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، وَمَا لَا یُبَاحُ وَبَیَانِ تَحْرِیمِ الطِّیبِ عَلَیْهِ عن ابن عمر ۲۷۹۱،۲۷۹۲،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ مَا یَلْبَسُ الْمُحْرِمُ ۱۸۲۴،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ مَا یَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّیَابِ ۲۹۲۹

[91] سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الدُّعَاءِ بِعَرَفَةَ ۳۰۱۵

[92] سنن ابن ماجہ کتاب المناسک  بَابُ الدُّعَاءِ بِعَرَفَةَ ۳۰۱۴

[93]صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الوُقُوفِ عَلَى الدَّابَّةِ بِعَرَفَةَ ۱۶۶۱،وکتاب الصوم بَابُ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ ۱۹۸۸، ۱۹۸۹،وکتاب الاشربة  بَابُ شُرْبِ اللبَنِ۵۶۰۴،وبَابُ مَنْ شَرِبَ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِیرِهِ ۵۶۱۸،وبَابُ الشُّرْبِ فِی الأَقْدَاحِ۵۶۳۶،صحیح مسلم کتاب الصیام  بَابُ اسْتِحْبَابِ الْفِطْرِ لِلْحَاجِّ بِعَرَفَاتٍ یَوْمَ عَرَفَةَ ۲۶۳۲، سنن ابوداودکتاب الصیام  بَابٌ فِی صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ ۲۴۴۱ 

[94] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الحَجِّ وَالنُّذُورِ عَنِ المَیِّتِ، وَالرَّجُلُ یَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ ۱۸۵۲،وکتاب  الاعتصام  بَابُ مَنْ شَبَّهَ أَصْلًا مَعْلُومًا بِأَصْلٍ مُبَیَّنٍ، قَدْ بَیَّنَ اللهُ حُكْمَهُمَا، لِیُفْهِمَ السَّائِلَ۷۳۱۵

[95] صحیح مسلم کتاب الحج   بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ عن جابر ۲۹۵۲

[96] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الكَفَنِ فِی ثَوْبَیْنِ ۱۲۶۵،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یُفْعَلُ بِالْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ۲۸۹۱،۲۸۹۶

[97] المائدة۳

[98] شعب الایمان۹۸۹۱،شرح السنة للبغوی۴۱۱۱،مصنف ابن ابی شیبہ۳۴۳۳۲

[99]المائدة: 3 

[100] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ زِیَادَةِ الإِیمَانِ وَنُقْصَانِهِ ۴۵، وکتاب المغازی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ ۴۴۰۷،وکتاب التفسیرسورة المائدہ بَابُ قَوْلِهِ الیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ۴۶۰۶ ، وکتاب الاعتصام باب الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ۷۲۶۸، صحیح مسلم کتاب التفسیرباب فی تفسیرآیات متفرقة ۷۵۲۵، مسند احمد ۱۸۸

[101] تفسیرطبری ۵۱۹؍۹، تفسیر القرطبی۶۱؍۶

[102] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[103] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر  ۲۹۵۰

[104] سنن ابن ماجہ کتاب المناسک  بَابُ الدُّعَاءِ بِعَرَفَةَ ۳۰۱۴،أخبار مكة وما جاء فیها من الأثار للفاکہی۳۱۰ ؍۴

[105] صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[106] صحیح بخاری کتاب الوضوبَابُ إِسْبَاغِ الوُضُوءِعن اسامہ ۱۳۹، وکتاب المناسک بَابُ الرُّكُوبِ وَالِارْتِدَافِ فِی الحَجِّ عن ابن عباس ۱۵۴۴، وبَابُ السَّیْرِ إِذَا دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ عن اسامہ ۱۶۶۶، وبَابُ أَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّكِینَةِ عِنْدَ الإِفَاضَةِ، وَإِشَارَتِهِ إِلَیْهِمْ بِالسَّوْطِ عن ابن عباس ۱۶۷۱، وبَابُ الجَمْعِ بَیْنَ الصَّلاَتَیْنِ بِالْمُزْدَلِفَةِ۱۶۷۲ ،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰،وبَابُ اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِیَةَ حَتَّى یَشْرَعَ فِی رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ۳۰۸۷، وبَابُ الْإِفَاضَةِ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ وَاسْتِحْبَابِ صَلَاتَیِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ جَمِیعًا بِالْمُزْدَلِفَةِ فِی هَذِهِ اللیْلَةِ۳۱۱۱

[107] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ بِلَیْلٍ، فَیَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَیَدْعُونَ، وَیُقَدِّمُ إِذَا غَابَ القَمَرُ عن عائشہ صدیقہ ۱۶۸۰،۱۶۷۸،صحیح مسلم  کتاب بَابُ اسْتِحْبَابِ تَقْدِیمِ دَفْعِ الضَّعَفَةِ مِنَ النِّسَاءِ وَغَیْرِهِنَّ مِنْ مُزْدَلِفَةَ إِلَى مِنًى فِی أَوَاخِرِ اللیْلِ قَبْلَ زَحْمَةِ النَّاسِ، وَاسْتِحْبَابِ الْمُكْثِ لِغَیْرِهِمْ حَتَّى یُصَلُّوا الصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةَ۳۱۱۸

[108] صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَعن جابر ۲۹۵۰، و بَابُ اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِیَةَ حَتَّى یَشْرَعَ فِی رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِعن کریب

[109] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَتَى یُدْفَعُ مِنْ جَمْعٍ  عن عبداللہ بن مسعود ۱۶۸۲،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[110] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

Related Articles