ہجرت نبوی کا دسواں سال

مضامین سورةالنصر

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ:إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ  ، [النصر ] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نُعِیَتْ إِلَیَّ نَفْسِی بِأَنَّهُ مَقْبُوضٌ فِی تِلْكَ السَّنَةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے جب سورت النصر نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا(اس سورت میں )مجھے میری وفات کی خبردی گئی ہے کہ آپ اسی سال اللہ تعالیٰ کوپیارے ہوجائیں  گے۔[1]

اس روایت سے واضح ہوگیاکہ عنقریب عرب فتح ہواچاہتاہے اورآپ کوجومشن سونپاگیاتھااس کی تکمیل ہوچکی ہے اور اس قدر مختصر مدت میں  زندگی کے ہرشعبہ میں  مصلحانہ انقلاب اورجہالت میں  غرق قوم کواس قابل بنادیاگیاہے کہ وہ اقوام عالم کومسخرکر دے،کیونکہ اس قدرعظیم کام آپ کی ذاتی محنت سے نہیں  بلکہ محض اللہ کے فضل سے پایہ تکمیل کو پہنچاہے اس لئے ان فتوحات اورنعمتوں  پر اب آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنااورتسبیح وتقدیس میں  مشغول ہوجائیں ،

ام سلمہ   رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پریہ الفاظ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم زندگی کے آخری ایام میں  ہمہ وقت جاری ہوتے ۔

اس سورۂ کے نزول کے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ریاضت ومجاہدہ میں  اس حدتک مشغول ہوگئے کہ اس سے قبل ایسانہ ہواتھا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ}،[2]  إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: نُعِیَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَفْسُهُ حِینَ أُنْزِلَتْ، فَأَخَذَ فِی أَشَدِّ مَا كَانَ اجْتِهَادًا فِی أَمْرِ الْآخِرَةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آخرت کے لئے محنت و ریاضت کرنے میں  اس قدرشدت کے ساتھ مشغول ہوگئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے۔[3]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ:إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْسَطَ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے سورۂ النصر حجة الوداع کے موقع پرایام تشریق کے وسط میں  بمقام منٰی نازل ہوئی۔[4]

یہ قرآن کی سب سے آخری سورت ہے جورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تقریباًتین مہینے پہلے نازل ہوئی۔

عَنْ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: یَا ابْنَ عُتْبَةَ، أَتَعْلَمُ آخِرَ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ نَزَلَتْ؟ قُلْتُ: نَعَمْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ}،[5] قَالَ: صَدَقْتَ

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے مروی ہےعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے مجھ سے فرمایااے ابن عتبہ!کیاتمہیں  معلوم ہے کہ قرآن مجیدکی کون سی سورت سب سے آخرمیں  نازل ہوئی تھی؟ میں  نے عرض کی جی ہاں   مجھے معلوم ہے،  سب سے آخرمیں  سورہ النصر نازل ہوئی تھی،انہوں  نے فرمایاآپ سچ کہتے ہیں ۔[6]

اس کے بعدبعض آیتیں  تونازل ہوئیں  مگرکوئی پوری سورت نازل نہیں  ہوئی،

فَعَرَفَ أَنَّهُ الْوَدَاعُ، فَأَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ الْقَصْوَاءِ فَرحَلت، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَذَكَرَ خُطْبَتَهُ الْمَشْهُورَةَ

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سمجھ گئے کہ رخصت کاپیغام آپہنچاہے ،اسی وقت اپنی سواری کوکسنے کاحکم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اونٹنی قصویٰ کس دی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس پرسوارہوئے اور اپناپرزور مشہور خطبہ ارشادفرمایا۔[7]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ‎﴿١﴾‏ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ‎﴿٢﴾‏(النصر)
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائےاور تو لوگوں  کو اللہ کے دین میں  جوق در جوق آتا دیکھ لے ۔

دورجاہلیت میں بیت اللہ ایک بڑاصنم کدہ بن چکاتھاجس میں  ہرقبیلہ کابت رکھاہواتھا،قبائل عرب بیت اللہ کی بڑی تعظیم کرتے تھے ،وہ اپنے معبودوں  کے استھانوں  کے علاوہ اپنے رسم ورواج کے مطابق بیت اللہ کابھی حج اورقربانی کرتے تھے،چنانچہ بیت اللہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے اردگردکے قبائل پرقریش مکہ کی سیادت قائم تھی ،اسی سیادت کی بناپر وہ خوداوران کی تجارت بھی محفوظ تھی ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھلم کھلادین اسلام کی تبلیغ کاکام شروع کیاجس میں  توحیدباری تعالیٰ ،رسالت ،آخرت کی تعلیم ہوتی تھی تو قریش مکہ کواپنی سیادت وقیادت ختم ہوجانے کایقین ہوگیااس لئے انہوں  نے دعوت اسلام کومٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگادیا،اسی مقصدکے لئے پہلاغزوہ بدراور آخری غزوہ حزاب برپاہوا،مگررب کی تدبیرکے مقابلے میں  کسی کی تدبیرنہیں  چلتی،

وَكَانَتِ العَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلاَمِهِمُ الفَتْحَ، فَیَقُولُونَ: اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَیْهِمْ فَهُوَ نَبِیٌّ صَادِقٌ

آٹھ ہجری فتح مکہ سے پہلے اردگردکے قبائل قریش مکہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اس دعوت کومٹاسکتے ہیں  یاپسپاہوتے ہیں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قوم پرغالب آتے ہیں  یانہیں اگرایساہوجاتاہے توپھران کے نبی ہونے میں  کوئی شک وشبہ نہیں ۔[8]

اس لئے اکادکا لوگ ہی دائرہ اسلام میں  داخل ہوتے تھےمگر جب تائیدایزدی سے مکہ مکرمہ فتح ہوگیاتومشرکین عرب کی ہمتیں  کافی حدتک پست ہوگئیں ،جب یہ روکاوٹ دورہوگئی تولوگوں  نے اچھی طرح جان لیاکہ اسلام ہی دین حق ہے ،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے سچے پیغمبرہیں  جوسیدھی راہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اوران پرنازل کتاب قرآن جومعبودحقیقی کی بندگی ،نیکی ،پاکیزگی واخلاقیات کی تعلیم دیتی ہے سچی کتاب ہےجس کے بغیرآخروی نجات ممکن نہیں ، تولوگ جن میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمن بھی شامل تھے گروہ درگروہ دین اسلام میں  داخل ہونے لگےاوردوسال کے عرصے میں  پوراعرب دائرہ اسلام میں  داخل ہوگیا۔

چنانچہ دواشارے فرمائے اول یہ کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل وکرم سے مختصروقت میں  جہالت میں  غرق قوم کے عقائد،افکار،عادات ،اخلاق تہذیب وتمدن ، معاشرت ،معیشت ،سیاست اورحربی قابلیت کوبالکل ہی بدل دیااوریہ کرشمہ دیکھ لیاکہ پورے کے پورے قبیلے،بڑے بڑے علاقوں  کے باشندے کسی جنگ اورکسی مزاحمت کے بغیر لوگ دین اسلام میں  داخل ہورہے ہیں  توسمجھ لیں  کہ جس مقصدعظیم کے لئے آپ کودنیامیں  بھیجا گیاتھاوہ مکمل ہوگیا،اب یہی لوگ اقوام عالم کومسخرکریں  گے اور دین اسلام دائمی فتح ونصرت سے بہرہ مندرہے گا۔

‏ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ‎﴿٣﴾‏(النصر)
تواپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔

اس لئے اس فیصلہ کن فتح ونصرت پرجشن منانے،چراغاں  کرنے اوراپنی قیادت پرفخرکرنے کے بجائے قلب وزبان سے اللہ کاشکراداکریں  جس کی تائیدونصرت سے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا،اس لئے عاجزی کے ساتھ سرجھکاکر اللہ رب العزت کی حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح وتقدیس بیان کریں اوراس کام میں  جوبھول چوک یاکوتاہی ہوگئی ہوتواس کے لئے توبہ واستغفارکاخوب اہتمام کریں تاکہ وہ ان پرچشم پوشی اوردرگزرفرمائے ،کیونکہ تسبیح واستغفارشکرہی میں  شمارہوتے ہیں ،اوراللہ کی نعمتوں  پرشکراداکرنے پربے پایاں  رحمت اور لطف وکرم سے نوازتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ۔۔۔۝۷ [9]

ترجمہ:اگرتم شکرکروگے تومیں  تمہیں  اورزیادہ (نعمتیں ، مرتبے، رحمتیں ) عطاکروں  گا ۔

دوئم یہ کہ تبلیغ رسالت کاجوفرض اللہ نے آپ کے ذمہ لگایاتھاپوراہوگیااب آپ کادینافانی سے کوچ کرنے کاوقت قریب آگیاہے ، اس لئے رب کی ملاقات کے لئے مستعد اور تیار ہو جائیں ،بیشک اللہ اپنے بندوں  کااستغفارکرناپسنداورقبول فرماتاہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ}، [10] إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: نُعِیَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَفْسُهُ حِینَ أُنْزِلَتْ، فَأَخَذَ فِی أَشَدِّ مَا كَانَ اجْتِهَادًا فِی أَمْرِ الْآخِرَةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آخرت کے لئے محنت و ریاضت کرنے میں  اس قدرشدت کے ساتھ مشغول ہوگئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے۔[11]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ یُدْخِلُنِی مَعَ أَشْیَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِی نَفْسِهِ، فَقَالَ: لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، فَدَعَاهُ ذَاتَ یَوْمٍ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ، فَمَا رُئِیتُ أَنَّهُ دَعَانِی یَوْمَئِذٍ إِلَّا لِیُرِیَهُمْ، قَالَ: مَا تَقُولُونَ فِی قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالفَتْحُ}،[12] ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا، وَفُتِحَ عَلَیْنَا، وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا، فَقَالَ لِی: أَكَذَاكَ تَقُولُ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ؟ فَقُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَمَا تَقُولُ؟ قُلْتُ: هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ، قَالَ: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالفَتْحُ}،[13]  وَذَلِكَ عَلاَمَةُ أَجَلِكَ، {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}، [14]، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےسیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  مجھے بھی( علم کی بناپر) بڑی عمروالے بدری مجاہدین میں  شامل کرلیاکرتے تھے ،اس بات پرشایدبعض بزرگوں  (عبدالرحمان  رضی اللہ عنہ بن عوف) کو ناگوار گزری،اورانہوں  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ سے کہاآپ اسے مجلس میں  ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں  ،ہمارے لڑکے بھی تواسی لڑکے جیسے ہیں (اس کوخاص طورپرہمارے ساتھ کیوں  شریک کیاجاتاہے)سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہادین میں  سمجھ بوجھ کی بنا پر جو مقام اس کوحاصل ہے تم اسے خوب جانتے ہو،چنانچہ (اس بات کے امتحان کے لئے)ایک دن سب کوبلایا اورمجھے بھی بلابھیجا،میں  فوراًسمجھ گیاکہ آج مجھے یہ دکھانے کے لئے بلایاگیاہے کہ مجھے ان بزرگوں  کی مجلس میں  کیوں  شریک کیاجاتاہے،دوران گفتگو سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے بدری صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے پوچھا سورہ النصر کے بارے میں  تمہیں  کیاعلم ہے ؟بعض لوگوں  نے کہاجب اللہ کی مددونصرت آپہنچے اورہماری فتح ہوتوہم اللہ کی حمدوثنابیان کریں  اورگناہوں  پربخشش مانگنے کاحکم کیا گیاہے،بعض نے کہااس سے مرادشہروں  اورقلعوں  کی فتح ہےبعض لوگ خاموش رہے اورکوئی جواب نہ دیا،پھرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے میری طرف توجہ فرمائی اورپوچھا اے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما !کیاتم بھی یہی کہتے ہو؟ میں  نے کہانہیں ،پوچھاپھرتم کیاکہتے ہو؟میں  نے کہااس سورہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے رحلت کاپیغام ہے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوپیغام دیاجارہاہے کہ جب اللہ کی نصرت آجائے اورفتح نصیب ہوجائے تویہ اس بات کی علامت ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی قریب الختم ہے،اس لئے آپ اللہ کی حمدوثنااوراستغفارمیں  مشغول ہوجائیں ، سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایامیں  بھی یہی جانتا ہوں ۔[15]

فَقَالَ لَهُمْ عُمَرُ: كَیْفَ تَلُومُونِی عَلَیْهِ بَعْدَ مَا تَرَوْنَ؟

ایک روایت میں  یہ اضافہ ہے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے بدری صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے فرمایاآپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں  جبکہ اس لڑکے کواس مجلس میں  شریک کرنے کی وجہ آپ نے دیکھ لی ۔[16]

عَنْ أُمِّ حَبِیبَةَ قَالَت: لَمَّا نَزَلَتْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَا مَیِّتٌ فِی هذه السَّنَةِ،فَبَكَتْ فَاطِمَةُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَوَّلُ أَهْلِ بَیْتِی لُحُوقًا بِی فَتَبَسَّمَتْ.

ام المومنین ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے جب سورہ النصر نازل ہوئی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس سال میراانتقال ہونے والاہے،یہ بات سن کرفاطمہ الزہرہ  رضی اللہ عنہا  رودیں ،اس پرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے خاندان میں  سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آکرملوگی،یہ سن کروہ ہنس دیں ۔[17]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی

چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی نمازکے اندررکوع وسجودمیں  بکثرت یہ پڑھاکرتے تھے،اے اللہ اے ہمارے رب!ہم تیری حمدوثناکے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں ،اے اللہ مجھے بخش دے۔[18]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُكْثِرُ أَنْ یَقُولَ قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ:سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیْكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی آخری عمرمیں  ان کلمات کابکثرت وردفرماتے تھےاللہ کی ذات پاک ہے ،سب تعریفیں  اسی کے لئے سزاوار ہیں میں  اللہ سے استغفارکرتاہوں  اوراسی کی طرف جھکتاہوں  ۔[19]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ أَمْرِهِ لَا یَقُومُ وَلَا یَقْعُدُ، وَلَا یَذْهَبُ وَلَا یَجِیءُ إِلَّا قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تُكْثِرُ مِنْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، لَا تَذْهَبُ وَلَا تَجِیءُ، وَلَا تَقُومُ وَلَا تَقْعُدُ إِلَّا قُلْتَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، قَالَ:إِنِّی أُمِرْتُ بِهَا

ام المومنین ام سلمہ   رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی آخری عمرمیں  اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرتے ،میں  نے ایک مرتبہ پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اس کی کیاوجہ ہے کہ آپ اٹھتے بیٹھتے سبحان اللہ وبحمدہ کی تسبیح فرماتے ہیں  ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سورت کی تلاوت فرمائی اور فرمایاکہ اللہ نے مجھے حکم دیاہے۔[20]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ، كَانَ یُكْثِرُ إِذَا قَرَأَهَا وَرَكَعَ أَنْ یَقُولَ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ثَلَاثًا

عبداللہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےجب سورت النصرنازل ہوئی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اکثراسے اپنی نمازمیں  تلاوت فرماتے اوررکوع میں   سُبْحَانَكَ اللهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللهُمَّ اغْفِرْ لِی إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ تین مرتبہ پڑھتے ۔[21]

اپنے شواہدکے ساتھ حسن ہے۔

منی کوروانگی :

إِنَّ المُشْرِكِینَ كَانُوا لاَ یُفِیضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ  وَأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ

مشرکین سورج نکلنے سے پہلے یہاں  سے روانہ نہیں  ہوتے تھے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مشرکین کی مخالفت کی اورطلوع آفتاب سے پہلے ہی منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔[22]

ثُمَّ أَرْدَفَ الفَضْلَ مِنَ المُزْدَلِفَةِ إِلَى مِنًى

اورمزدلفہ سے منیٰ جاتے وقت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس  رضی اللہ عنہ  کواپنے پیچھے بٹھالیا۔[23]

فَلَأَنْ أَكُونَ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  بھی آپ کے ہمراہ تھیں ،ہجوم بیحدتھاہجوم کودیکھ کرانہیں  یہ خواہش ہوئی کاش وہ بھی ام المومنین سودہ  رضی اللہ عنہا کی طرح اجازت لے کررات ہی کومنیٰ روانہ ہو جاتیں  ۔[24]

حِینَ دَفَعُواعَلَیْكُمْ بِالسَّكِینَةِ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں  سے فرماتے جارہے تھے سکون کولازم پکڑو،سکون کولازم پکڑو۔[25]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَزَلْ یُلَبِّی

راستہ بھرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  تلبیہ پڑھتے رہے۔[26]

فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ یَجْرِینَ

منیٰ کی طرف جاتے ہوئےراستہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو عورتوں  کی جماعت ملی جوایک ایک اونٹ پرسوار( راستہ کے دونوں  طرف) چلی جارہی تھیں ۔[27]

فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَشْعَمَ، فَجَعَلَ الفَضْلُ یَنْظُرُ إِلَیْهَا وَتَنْظُرُ إِلَیْهِ، وَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَصْرِفُ وَجْهَ الفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ،فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ فَرِیضَةَ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ فِی الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِی شَیْخًا كَبِیرًا، لاَ یَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟قَالَ:نَعَمْ

اسی اثناء میں  قبیلہ خشعم کی ایک عورت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی،فضل بن عباس  رضی اللہ عنہ  اس کو دیکھنے لگے اوروہ ان کودیکھنے لگی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فضل  رضی اللہ عنہ  کامنہ دوسری طرف پھیردیا اس عورت نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میرے والدپرایسے وقت میں  حج فرض ہواہے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں سواری پرجم کرنہیں  بیٹھ سکتے کیامیں  ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ۔[28]

قَالَ:عَلَیْكُمْ بِحَصَى الْخَذْفِ الَّذِی یُرْمَى بِهِ الْجَمْرَةُ

راستہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بطن محسرسے گزرے توعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کوحکم دیاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے کنکریاں  اٹھالیں  تاکہ ان سے جمرہ کوماراجائے۔[29]

فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَیَاتٍ، هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ، فَجَعَلَ یَنْفُضُهُنَّ فِی كَفِّهِ وَیَقُولُ أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ، فَارْمُوا ثُمَّ قَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِیَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّینِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّینِ

میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے سات چھوٹی چھوٹی (مٹر کے دانوں  کے برابر)کنکریاں  خذف میں  سے چنیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کواپنی ہتھیلی میں  ہلاتے تھے اورفرماتے تھے بس اس جیسی ،بس اس جیسی نیزفرمایااے لوگو!دین میں  غلوسے بچوتم سے پہلے لوگ اسی غلوکی وجہ سے ہلاک ہوئے۔[30]

حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ، فَحَرَّكَ قَلِیلًا، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِیقَ الْوُسْطَى الَّتِی تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِی عِنْدَ الشَّجَرَةِ،رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِی، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، یُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا

پھرآپ نے اونٹنی کوتیزی سے چلانا شروع کردیا اور درمیانی راستہ کو اختیار کیا جوجمرہ کبرٰی پرجاکرنکلتاہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  برابرچلتے رہے یہاں  تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس جمرہ کے قریب آئے جودرخت کے قریب ہے(وہاں  پہنچ کر آپ رک گئے)اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وادی کے نشیب میں  تھے(کہ کعبہ آپ کی بائیں  جانب اورمنیٰ ،عرفات اورمزدلفہ داہنی جانب تھا)پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جمرہ کبرٰی پرسات(چھوٹی چھوٹی) کنکریاں  ماریں ،ہرکنکری مارتے وقت آپ اللہ اکبر کہتے جارہے تھے۔[31]

عَلَى رَاحِلَتِهِ یَوْمَ النَّحْرِ، وَیَقُولُ: لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّی لَا أَدْرِی لَعَلِّی لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِی هَذِهِ

یہ چاشت کاوقت تھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اونٹنی پرتشریف فرماتھے اورفرماتے جارہے تھے مجھ سے اپنے مناسک حج سیکھ لوکیونکہ مجھے نہیں  معلوم کہ اس حج کے بعدمیں  حج کرسکوں  گا۔[32]

وَمَعَهُ بِلَالٌ وَأُسَامَةُ أَحَدُهُمَا یَقُودُ بِهِ رَاحِلَتَهُ، وَالْآخَرُ رَافِعٌ ثَوْبَهُ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّمْسِ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں  سے روانہ ہوئے (منیٰ پہنچ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  رک گئے) بلال  رضی اللہ عنہ  اوراسامہ  رضی اللہ عنہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے ان میں  سے ایک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھااوردوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کودھوپ سے بچانے کے لئے کپڑا تانے ہوئے تھے۔[33]

دس ذوالحجہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاخطبہ

خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بمنى ونزلهم مَنَازِلهمْ فَقَالَ: لِیَنْزِلِ الْمُهَاجِرُونَ هَاهُنَا. وَأَشَارَ إِلَى مَیْمَنَةِ الْقِبْلَةِ وَالْأَنْصَارُ هَاهُنَا. وَأَشَارَ إِلَى مَیْسَرَةِ الْقِبْلَةِ.ثُمَّ لِیَنْزِلِ النَّاسُ حَوْلَهُمْ.قَالَ: وَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ، فَفُتِحَتْ أَسْمَاعُ أَهْلِ مِنًى حَتَّى سَمِعُوهُ فِی مَنَازِلِهِمْ.

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کوقبلہ کے دائیں  جانب اورانصارکواس کی بائیں  جانب ٹھہرایاجبکہ دیگرلوگ ان کے اردگردتھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمارہے تھے مجھ حج کے ارکان سیکھ لو،اللہ تعالیٰ نے لوگوں  کی سماعت کوآپ کے لئے کھول دیا حتی کہ آپ کے اس خطبہ کواہل منٰی نے اپنے گھروں  میں  سنا۔[34]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کومخاطب کرتے ہوئے ایک خطبہ ارشادفرمایا

أَیُّهَا النَّاسُ: إنَّ النَّسِیءَ زِیادَةٌ فِی الْكُفْرِ، یُضَلُّ بَهْ الَّذِینَ كَفَرُوا، یُحِلُّونَهُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَهُ عَاما، لِیُواطِؤُا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ، فَیُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللهُ، وَیُحَرِّمُوا مَا أَحَلَّ اللهُ،

اے لوگو!نسی کی بدعت کفارنے ایجادکی تھی یہ کفرکی زیادتی میں  شمارہے یعنی حرام مہینوں  کوحلال مہینوں  کے بدلہ میں  حلال مہینوں  کوحرام کر لینا۔[35]

قَالَ: إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَیْئَتِهِ یَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ،قَالَ:أَتَدْرُونَ أَیُّ یَوْمٍ هَذَا؟قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِهِ قَالَ: أَلَیْسَ یَوْمَ النَّحْرِ؟قُلْنَا: بَلَى،قَالَ:أَیُّ شَهْرٍ هَذَا؟قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِهِ فَقَالَ أَلَیْسَ ذُو الحَجَّةِ؟قُلْنَا: بَلَى،قَالَ أَیُّ بَلَدٍ هَذَا؟قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِهِ قَالَ أَلَیْسَتْ بِالْبَلْدَةِ الحَرَامِ؟قُلْنَا: بَلَى

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایازمانہ اپنی اصلی حالت پرآگیاہے کہ جس دن اللہ نے آسمانوں  اورزمین کوپیداکیاتھا،سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں ،ان میں  چار مہینے حرمت والے ہیں ،تین مہینے تولگاتارآتے ہیں  ، ذوالقعدہ،ذوالحجہ اورمحرم اورایک مہینہ جمادی اورشعبان کے درمیان میں  ہے یعنی رجب مضر،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لوگو!آج کونسا دن ہے؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  خاموش رہےبس اتناکہہ دیاکہ اللہ اوررسول زیادہ جانتے ہیں  ، پھرآپ کچھ دیرخاموش رہے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے خیال کیاکہ غالباًآپ اس دن کاکوئی اورنام رکھیں  گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیایہ یوم النحر نہیں  ہے، صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیاجی ہاں  یہ یوم النحرہے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ کونسامہینہ ہے؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااللہ اوررسول زیادہ جانتے ہیں  یہ کہہ کرخاموش ہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی کچھ دیرخاموش رہے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے سمجھاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس مہینہ کاکوئی اورنام رکھیں  گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیایہ ذوالحجہ کامہینہ نہیں  ہے ؟ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیاجی ہاں  یہ ذوالحجہ کامہینہ ہے،پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کونساشہرہے؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااللہ اوررسول زیادہ جانتے ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کچھ دیر خاموش رہے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے سمجھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس شہر کاکوئی اورنام رکھیں  گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کچھ دیرخاموش رہنے کے بعدفرمایاکیایہ حرمت والاشہرنہیں  ہے؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیابیشک یہ حرمت والاشہرہے،

قَالَ:فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَیْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ یَوْمِكُمْ هَذَا، فِی شَهْرِكُمْ هَذَا، فِی بَلَدِكُمْ هَذَا إِلَى یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَأَعَادَهَا مِرَارًا،فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِی  كُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ إِنْ أُمِّرَ عَلَیْكُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌ – حَسِبْتُهَا قَالَتْ – أَسْوَدُ، یَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللهِ تَعَالَى، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُواأَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟قَالُوا: نَعَمْ قَالَ:اللهُمَّ اشْهَدْ،ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: اللهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابیشک تمہارے خون،تمہارے مال،تمہاری آبروئیں  اورتمہاری کھالیں  تم میں  آپس میں  قیامت تک اسی طرح حرام ہیں  جس طرح تمہارے اس مہینہ میں  تمہارے اس شہرمیں  آج کے دن کی حرمت،اس بات کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ دہرایا پھر فرمایا عنقریب تم اپنے رب سے ملوگے وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق بازپرس کرے گا،خبردار میرے بعدگمراہ نہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو،اگرتم پرکوئی کٹاحبشی بھی امیربنادیاجائے جوکتاب اللہ کے مطابق تمہیں  چلائے توتم اس کی بات سننااوراس کی اطاعت کرنا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیامیں  نے پہنچادیا؟صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہاجی ہاں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ گواہ رہ،پھرآسمان کی طرف سرمبارک اٹھاکرکہااے اللہ کیامیں  نے نہیں  پہنچایا؟اے اللہ کیامیں  نے نہیں  پہنچایا؟پھرآپ نے فرمایاحاضرکوچاہیے کہ غائب کویہ بات پہنچادے اس لئے کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ پہنچانے والاکسی ایسے شخص کوپہنچادیتاہے جواس سے زیادہ اس کومحفوظ کرنے والاہوتاہے۔[36]

خط کشیدہ عبارت صحیح مسلم میں  ہے۔

کھالوں  کے حرام کہنے کاذکرصحیح بخاری میں  ہے۔

عَنْ جَرِیرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ:اسْتَنْصِتِ النَّاسَ فَقَالَ:لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی كُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ

جریر  رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں  ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بیان فرمانے سے قبل ان سے حجة الودع میں  فرمایاکہ لوگوں  کوبالکل خاموش کردو(تاکہ وہ خوب سن لیں ) پھرفرمایا لوگو!میرے بعدپھرکافرمت بن جاناکہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔[37]

کافربن جانے سے مرادکافروں  جیسے فعل کرنامرادہے کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمانوں  کاشیوہ نہیں ،مگرصدافسوس کہ کچھ ہی مدت کے بعدامت میں  فتنے فسادشروع ہوگئے جوآج تک جاری ہیں  ،امت میں  سب سے بڑافتنہ ائمہ کی تقلیدمحض کے نام پرافتراق وانتشارکاپیداہوناہے،جس کاآغازسقوط بغدادسے شروع ہو ااورآج تک جاری ہے اس تقلید کاسبب یہ ہے کہ جن ائمہ فقہ کے فتاویٰ واقوال پراعتمادکیاگیاانہیں  ایسے ہونہارومحنتی شاگردمل گے کہ جنہوں  نے اپنے اپنے اساتذہ کی فقہ کومدون کیا،اسے مختلف کتب اورابواب کی شکل میں  ترتیب دیاجس کے ذریعے احکام شریعت کے حصول میں  آسانی پیداہوگئی اس لئے اصل مآخذکوچھوڑکران فقہی کتب کی طرف ہی رجوع کارواج عام ہوگیا،علماومفتیان نے بھی اجتہادکے بجائے چندمخصوص کتب کوہی سامنے رکھا،یہ جانناکسی نے بھی ضروری خیال نہ کیاکہ ان کتب میں  موجودمسائل کہاں  سے لیے گئے ہیں  ، ان کے کیادلائل ہیں ،ان میں  اختلاف کے کیااسباب ہیں  اوردوسرے ائمہ کے دلائل کیاہیں ؟حالانکہ ان کے اماموں  نے بھی انہیں  اس لائحہ عمل کواپنانے سے یوں  روکاتھاکہ تقلیدنہ کروبلکہ وہیں  سے احکام حاصل کروجہاں  سے ائمہ نے حاصل کیے ہیں ،امام احمد رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ  ،امام مالک  رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام ابویوسف رحمہ اللہ ،اورامام محمد رحمہ اللہ وغیرہ سب سے اس طرح کے اقوال منقول ہیں ،مگر حکام بھی انہی پراعتمادکرنے لگے اورکوشش کرتے کہ قاضی بھی اپنے پسندیدہ مذہب کے عالم کوہی مقرر کیاجائے ،اس طرح رفتہ رفتہ اجتہاد کا دروازہ بندہوتاچلاگیااورآسانی پسندفطرت انسانی تقلیدکی خوگرہوتی چلی گئی،چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے ہے کہ ایک جماعت کوقیامت تک حق پرغالب رہناہے لہذاوقتاً  فوقتاًاللہ تعالیٰ ایسے علماومجتہدین اورائمہ وفقہاکوپیدافرماتارہاجنہوں  نے اپنے اپنے دورمیں  قاطع دلائل وبراہین کے ذریعہ تقلیدمحض کاطلسم توڑا،بدعات وخرافات کا قلع قمع کیااورازسرنوتجدیدواحیائے دین کے لیے اپنی زندگیاں  وقف کردیں  جس کے نتیجہ میں  لوگوں  کے ذہن پھرتبدیل ہوناشروع ہوئےاورنصوص اصلیہ کی طرف رجوع ہونے لگا،ان ائمہ ومجتہدین میں  شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ،امام ابن قیم رحمہ اللہ ،امام شوکانی رحمہ اللہ ،امام صنعانی رحمہ اللہ ،سیدجمال الدین افغانی  رحمہ اللہ ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ  اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ جیسے قابل قدرلوگ شامل ہیں ،لیکن اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ اندھی تقلیدکاسلسلہ بھی مختلف علاقوں  میں  جاری رہاجوآج تک جاری ہے، علامہ اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا

اگر تقلیدبودے شیوئہ خوب،پیغمبرہم رہ اجدادنہ رفتے

تقلیدکاشیوہ اگراچھاہوتاتوپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے باپ داداکی راہ پرچلتے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس روش کی مذمت فرمائی

أَلا لَا یجنی جانٍ عَلَى نَفْسِهِ وَلَا یَجْنِی جَانٍ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ أَلَا

ایک روایت میں  ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایایادرکھوکوئی بھی جرم کرنے والااپنے سواکسی اورپرجرم نہیں  کرتا(یعنی اس کی پاداش میں  کوئی اورنہیں  بلکہ خودمجرم ہی پکڑاجائے گا)یادرکھوکوئی جرم کرنے والااپنے بیٹے پریاکوئی بیٹااپنے باپ پرجرم نہیں  کرتا(یعنی کسی بھی جرم میں  صرف مجرم ہی پکڑاجائے گااس کاکوئی عزیزنہیں  )۔[38]

أَمَّا بَعْدُ أَیُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ یَئِسَ مِنْ أَنْ یُعْبَدَ بِأَرْضِكُمْ هَذِهِ أَبَدًا، وَلَكِنَّهُ إنْ یُطَعْ فِیمَا سِوَى ذَلِكَ فَقَدْ رَضِیَ بِهِ مِمَّا تَحْقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَاحْذَرُوهُ عَلَى دِینِكُمْ

ایک روایت میں  ہےامابعد!اے لوگو!اس ملک میں  شیطان اپنی پرستش کئے جانے سے ناامیدہوگیاہے یعنی ملک عرب میں  کبھی اس کی پرستش نہ ہوگی مگرہاں  اورچھوٹی چھوٹی باتوں  پروہ راضی ہوگیاہے جن کوتم بڑے گناہوں  میں  شمارکروگے پس تم پرلازم ہے کہ اپنے دین کی شیطان سے حفاظت کرو۔[39]

أَیُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا قَوْلِی وَاعْقِلُوهُ، تَعَلَّمُنَّ أَنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ أَخٌ لِلْمُسْلِمِ، وَأَنَّ الْمُسْلِمِینَ إخْوَةٌ، فَلَا یَحِلُّ لِامْرِئِ مِنْ أَخِیهِ إلَّا مَا أَعْطَاهُ عَنْ طِیبِ نَفْسٍ مِنْهُ، فَلَا تَظْلِمُنَّ أَنَفْسَكُم،اللهمّ هَلْ بَلَّغْتُ؟فَذُكِرَ لِی أَنَّ النَّاسَ قَالُوا: اللهمّ نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهمّ اشْهَد

ایک روایت میں  ہےاے لوگو!میری ان باتوں  کوسنواورخوب سمجھ لواورجان لوکہ مسلمان مسلمان کابھائی ہے اورسب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں  ،پس مسلمان کے مال میں  سے دوسرے مسلمان کوکوئی چیزلینی حلال نہیں  ہے سوااس چیزکے جووہ اپنی خوشی سے بخش دے ،پس تم ایک دوسرے پرظلم نہ کرنا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے اللہ!کیامیں  نے تیرے احکامات بندوں  کو پہنچا دیئے، سب حاضریں  نے عرض کیابے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے احکامات الٰہی ہم کو پہنچادیئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے اللہ!توگواہ ہوجا۔[40]

ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ، فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّینَ بِیَدِهِ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِیًّا، فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، وَأَشْرَكَهُ فِی هَدْیِه

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قربانی کے مقام پرتشریف لائے اورسواونٹ(اللہ کے نام پر)قربان کئے،آپ نے اونٹوں  کوکھڑاکیااور۶۳اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے ، باقی اونٹ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے نحرکئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کوبھی اپنی قربانی میں  شریک کرلیاتھا۔[41]

ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ فَذَبَحَهُمَا، وَإِلَى جُزَیْعَةٍ مِنَ الْغَنَمِ فَقَسَمَهَا بَیْنَنَا

پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوچتکبڑے مینڈھے ذبح کئے اورکچھ بکریاں  صحابہ  رضی اللہ عنہم  میں  تقسیم کیں ۔[42]

نوہجری میں  جب سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  صحابہ کرام کوحج کرنے کے لئے لے گئے تھے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قربانی کاگوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی ممانعت کردی تھی،

قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِی؟قَالَ:كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِینُوا فِیهَا

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے پوچھاکیااس سال بھی ہم وہی کریں  جوگزشتہ سال کیاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکھاؤ،کھلاؤ اورذخیرہ کرو،گزشتہ سال توقحط کی وجہ سے میں  نے چاہاتھاکہ تم محتاج لوگوں  کی مددکرو(اس لئے ذخیرہ کرنے سے منع کیاتھا)۔[43]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:نَحَرْتُ هَاهُنَا، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقام نحرپرکھڑے ہو کرفرمایامیں  نے اس جگہ نحرکیاہے لیکن منیٰ سارانحرکرنے کی جگہ ہے۔[44]

وكان قدیم الإسلام بمكة وهاجر إلى أرض الحبشة الهجرة الثانیة فِی روایتهم جمیعًا ثُمَّ قدم مكّة فأقام بها. وتأخرت هجرته إِلَى المدینة ثُمَّ هاجر بعد ذلك

پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام کو بلایایہ معمر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ تھےجوسابقون الاولون میں  سے تھےاوروہ دوسری ہجرت حبشہ میں  جانے والے گروپ میں  شامل تھے ،پھرمکہ معظمہ واپس آگئے اورپھرمدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی سعادت حاصل کی اس طرح انہیں  ذوالہجرتین کاشرف حاصل ہے۔[45]

اوراب وہ استرالئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے،

قَالَ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَجْهِی وَقَالَ لِی: یَا مَعْمَرُ، أَمْكَنَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شَحْمَةِ أُذُنِهِ، وَفِی یَدِكَ الْمُوسَى؟قَالَ: فَقُلْتُ: أَمَا وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ نِعْمَةِ اللهِ عَلَیَّ وَمَنِّهِ،قَالَ: فَقَالَ: أَجَلْ إِذًا أُقِرُّ لَكَ قَالَ: ثُمَّ حَلَقْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے ان سے فرمایااےمعمر!اللہ کے رسول نے اپنے کان کی لوپراس حالت میں  قابودیاہے کہ تمہارے ہاتھ میں  استرہ ہے(یعنی تمہیں  اجازت دیتے ہیں  کہ کانوں  کے نیچے کے بال لے لو) معمر  رضی اللہ عنہ بے ساختہ بولےکیوں  نہیں  اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !اللہ کی قسم !یہ تومجھ پراللہ کی طرف سے احسان عظیم اورکرم ہے کہ مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے موئے اقدس تراشنے کاشرف حاصل ہورہاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  بال لے لوتو میں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بال لے لیے۔[46]

وَقَالَ: بِیَدِهِ عَنْ رَأْسِهِ، فَحَلَقَ شِقَّهُ الْأَیْمَنَ فَقَسَمَهُ فِیمَنْ یَلِیه  ثُمَّ قَالَ:احْلِقِ الشِّقَّ الْآخَرَ فَقَالَ:أَیْنَ أَبُو طَلْحَةَ؟فَأَعْطَاهُ إِیَّاهُ

صحیح مسلم میں  یوں  مذکورہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معمر  رضی اللہ عنہ  سے بال منڈنے کے لئے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے سیدھی طرف کے بال منڈوائے،جب معمر  رضی اللہ عنہ  فارغ ہوئے تویہ بال انہوں  نے اپنے پاس موجودلوگوں  میں  تقسیم کردیئے،پھرآپ نے الٹی طرف کے بال منڈوائے،انہوں  نے یہ بال کاٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہاں  ابوطلحہ  رضی اللہ عنہ  ہے؟  پھریہ بال ابوطلحہ  رضی اللہ عنہ  کے حوالہ کرکے لوگوں  میں  تقسیم کرنے کاحکم دیا(تاکہ وہ بطورتبرک ان کواپنے پاس رکھیں ،کہاجاتاہے کہ خالد  رضی اللہ عنہ  بن ولیدکوآپ کی پیشانی کے بال ملے تھے جو انہوں  نے اپنی ٹوپی میں  رکھ لئے اوران کی برکت سے انہیں  ہرلڑائی میں  فتح حاصل ہوتی)۔[47]

پھرآپ نے احرام اتار دیا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  میں  سے بعض نے سرمنڈایا اور بعض نے بال چھوٹے کرائے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اللهُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ،قَالُوا: وَالمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:اللهُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ، قَالُوا:وَالمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ:اللهُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِینَ،قَالُوا: وَالمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللهِ  قَالَ:وَالمُقَصِّرِینَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ سرمنڈانے والوں  پررحم فرما،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اورکتروانے والوں پر؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے اللہ سر منڈانے والوں  پررحم فرما،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! اورکتروانے والوں  پر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسرمنڈانے والوں  پررحم فرما،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کتروانے والوں  پر بھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااورکتروانے والوں  پربھی رحم فرما۔[48]

احرام اتارنے کے بعدعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبولگائی،

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ:طَیَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدَیَّ هَاتَیْنِ، حِینَ أَحْرَمَ، وَلِحِلِّهِ حِینَ أَحَلَّ، قَبْلَ أَنْ یَطُوفَ، وَبَسَطَتْ یَدَیْهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں میں  نے خوداپنے ہاتھوں  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب احرام باندھناچاہاخوشبولگائی تھی اسی طرح احرام کھولتے وقت بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے طواف الزیارہ سے پہلے جب احرام کھولنا چاہا تھا آپ نے ہاتھ پھیلاکرخوشبولگانے کی کیفیت بتائی۔[49]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے بھی قربانی کی اورکچھ گوشت انہیں  بھی بھیجا،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:فَلَمَّا كُنَّا بِمِنًى، أُتِیتُ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ بِالْبَقَرِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب ہم منیٰ میں  تھے تومیرے پاس گائے کاگوشت لایاگیامیں  نے پوچھایہ کیاہے؟انہوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ہے۔[50]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:أَنَّ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ یَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، فِی الْمَسَاكِینِ وَلَا یُعْطِیَ فِی جِزَارَتِهَا مِنْهَا شَیْئًا

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اللہ کےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! نے مجھےحکم دیاکہ میں (نحرشدہ)قربانی کے جانوروں  کی نگرانی کروں ،گوشت ،جھولوں  اورکھالوں  کوتقسیم کردوں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کواجرت میں  کھال، گوشت وغیرہ نہ دیاجائے،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے حکم کی تعمیل کی اورگوشت،جھولوں  اورکھالوں  کومسکینوں  میں تقسیم کردیا۔[51]

ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِی قِدْرٍ، فَطُبِخَتْ، فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ تمام اونٹوں  کے گوشت کا ایک ایک ٹکڑالیں  چنانچہ تمام گوشت کوملاکرپکایاگیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  دونوں  نے اس گوشت میں  سے کھایا اوراس کاشوربابھی پیا۔[52]

ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَیْتِ، فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اونٹنی پرسوارہوگئے تاکہ لوگ آپ کودیکھتے رہیں  (کہ آپ کیاکرتے ہیں  اورکس طرح کرتے ہیں )اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل بھی پوچھتے رہیں  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیت اللہ کی طرف تشریف لائے اورطواف افاضہ کیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہرکی نمازمکہ مکرمہ میں پڑھائی۔[53]

فَطَهَرْتُ، ثُمَّ خَرَجْتُ مِنْ مِنًى، فَأَفَضْتُ بِالْبَیْتِ

ٰ منی پہنچ کرعائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  اذیت ماہانہ سے پاک ہوگئی تھیں انہوں  نے بھی مکہ معظمہ آکرکعبہ کاطواف الزیارہ کیا۔[54]

قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ فَاسْتَسْقَى ،فَقَالَ العَبَّاسُ: یَا فَضْلُ، اذْهَبْ إِلَى أُمِّكَ فَأْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ مِنْ عِنْدِهَافَقَالَ:اسْقِنِی،قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُمْ یَجْعَلُونَ أَیْدِیَهُمْ فِیهِ قَالَ:اسْقِنِی،فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ، فَأَتَیْنَاهُ بِإِنَاءٍ مِنْ نَبِیذٍ فَشَرِبَ، وَسَقَى فَضْلَهُ أُسَامَةَ،أَتَى زَمْزَمَ وَهُمْ یَسْقُونَ وَیَعْمَلُونَ فِیهَا

طواف سے فارغ ہوکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سبیل پرتشریف لائے اسامہ  رضی اللہ عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھےاور پانی مانگا،عباس  رضی اللہ عنہ  نے کہااے فضل  رضی اللہ عنہ !اپنی والدہ کے پاس جاؤ اوران کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے کھجورکاشربت لے آؤ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے یہی پانی پلادو،عباس  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! ہرشخص اپنا ہاتھ اس میں  ڈال دیتاہے،اس کے باوجودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہی فرماتے رہےاسی میں  سے پلادو ان لوگوں  نے پانی کاایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کودیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس میں  سے پیا،پھرعباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے کھجورکاشربت لائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیااوراس میں  سے جوباقی بچاوہ اسامہ  رضی اللہ عنہ  کوپلادیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  چاہ زمزم پرتشریف لائے ،عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں  کوپلارہے تھے،

فَقَالَ: اعْمَلُوا فَإِنَّكُمْ عَلَى عَمَلٍ صَالِحٍ ثُمَّ قَالَ:لَوْلاَ أَنْ تُغْلَبُوا لَنَزَلْتُ، حَتَّى أَضَعَ الحَبْلَ عَلَى هَذِهِ یَعْنِی: عَاتِقَهُ، وَأَشَارَ إِلَى عَاتِقِهِ،اسْتَأْذَنَ العَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَبِیتَ بِمَكَّةَ  لَیَالِیَ مِنًى، مِنْ أَجْلِ سِقَایَتِهِ  فَأَذِنَ لَهُ

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کام کئے جاؤ تم اچھاکام کررہے ہو،پھرفرمایا(اگریہ خیال نہ ہوتاکہ آئندہ لوگ)تمہیں  پریشان کردیں  گے تومیں  بھی اترتااوررسی کواس پر رکھتا مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شانہ سے تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہاتھا(یعنی رسی کوکندھے پررکھ کرمیں  بھی پانی کھینچتا)پھر عباس  رضی اللہ عنہ  نے منیٰ کی راتوں  (گیارہویں ، بارہویں  اورتیرہویں  ذوالحجہ کی راتوں )میں  حاجیوں  کوپانی پلانے کے لئے مکہ معظمہ میں  رہنے کی اجازت طلب کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  مکہ معظمہ میں  یہ راتیں  گزارنے کی اجازت دے دی۔[55]

خط کشیدہ عبارتیں  صحیح مسلم میں  ہیں  البتہ سبیل پرجاکرپانی پینے کاذکرصحیح مسلم میں  نہیں ہے۔

ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  واپس منیٰ تشریف لے آئے اور(یہاں  والوں  کوبھی) نمازظہرپڑھائی۔[56]

مناسک حج میں  تقدیم وتاخیر:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ یَسْأَلُونَهُ،فَجَاءهُ رَجُلٌ فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟فَقَالَ:اذْبَحْ وَلاَ حَرَجَ،فَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ؟قَالَ:ارْمِ وَلاَ حَرَجَ ، زُرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ قَالَ لاَ حَرَجَ،رَمَیْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَیْتُ فَقَالَ:لاَ حَرَجَ،فَمَا سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْءٍ قُدِّمَ وَلاَ أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:افْعَلْ وَلاَ حَرَجَ

شام ہونے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جمرہ کے پاس جاکرکھڑے ہوگئےلوگ آتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسائل پوچھتے تھے،ایک شخص آیااس نے عرض کیامجھے معلوم نہ تھا(کہ پہلے ذبح کرتے ہیں  پھرسرمنڈاتے ہیں )میں  نے ذبح سے پہلے سرمنڈادیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکوئی حرج نہیں اب ذبح کرلو،دوسراآدمی آیااس نے کہامجھے معلوم نہ تھا(کہ کنکریاں  مارنے کے بعدقربانی کرتے ہیں  ) میں  نے کنکریاں  مارنے سے پہلے قربانی کے جانورکونحرکردیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکوئی حرج نہیں اب کنکریاں  مارلو، تیسرے آدمی نے کہامیں  نے کنکریاں  مارنے سے پہلے کعبہ کاطواف کرلیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کوئی حرج نہیں ،چوتھے شخص نے کہامیں  نے شام ہونے کے بعدکنکریاں  ماریں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکوئی حرج نہیں ،غرض یہ کہ اس دن جس چیزکے متعلق آپ سے پوچھا گیاخواہ وہ مقدم ہوگئی یاموخرآپ یہی فرماتے رہےاب کرلوکوئی حرج نہیں ۔[57]

گیارہ،بارہ ذوالحجہ:

كَانَ یَرْمِی الجَمْرَةَ الدُّنْیَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، ثُمَّ یُكَبِّرُ عَلَى إِثْرِ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ یَتَقَدَّمُ فَیُسْهِلُ، فَیَقُومُ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ قِیَامًا طَوِیلًا، فَیَدْعُو وَیَرْفَعُ یَدَیْهِ،ثُمَّ یَرْمِی الجَمْرَةَ الوُسْطَى كَذَلِكَ، فَیَأْخُذُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَیُسْهِلُ وَیَقُومُ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ قِیَامًا طَوِیلًا، فَیَدْعُو وَیَرْفَعُ یَدَیْهِ

گیارہ ،بارہ ذوالحجہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تینوں  جمروں  پرکنکریاں  ماریں ،زوال کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  پہلے قریب والے جمرہ کے پاس آئے اوراس پرسات کنکریاں  ماریں ، ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبرکہا،اس کے بعدآپ آگے بڑھے یہاں  تک کہ نرم ہموارزمین پرپہنچ کرقبلہ روکھڑے ہوگئے اوروہاں  بڑی دیرتک ہاتھ اٹھاکردعامانگتے رہے پھر پہلے جمرہ کی طرح آپ نے درمیانی جمرہ پربھی کنکریاں  ماریں  اس کے بعدآپ بائیں  جانب گئے اورنرم ہموارزمین پرپہنچ کرقبلہ روکھڑے ہوگئے اوربڑی دیرتک ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے رہےاس کے بعدآپ جمرہ عقبہ کی طرف روانہ ہوگئے۔[58]

ثُمَّ یَرْمِی جَمْرَةَ ذَاتِ العَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الوَادِی

جمرہ عقبہ پہنچ کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پربھی کنکریاں  ماریں ۔[59]

وَلاَ یَقِفُ عِنْدَهَا، ثُمَّ یَنْصَرِفُ

اس جمرہ پرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف نہیں  فرمایااورواپس چلے آئے۔[60]

منیٰ میں  بغیرسترہ کے نماز:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلاَمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِمِنًى إِلَى غَیْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَیْنَ یَدَیْ بَعْضِ الصَّفِّ، وَأَرْسَلْتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ، فَدَخَلْتُ فِی الصَّفِّ، فَلَمْ یُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَیَّ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں ان ہی دنوں  میں  گدھی پرسوارہوکرچلا اس وقت میں  قریب البلوغ تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  منیٰ نمازپڑھارہے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے دیواروغیرہ کچھ نہیں  تھی،میں  ایک صف کے کچھ حصہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے صف میں  داخل ہوگیا اوراپنی گدھی کووہیں  چرنے کے لئے چھوڑدیامیرے اس فعل پرکسی نے ملامت نہیں  کی۔[61]

سعد  رضی اللہ عنہ بن خولہ کی وفات اورسعد  رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کی بیماری:

ان ہی دنوں  میں  سعدبن خولہ  رضی اللہ عنہ  کی وفات ہوگئی اورسعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  سخت بیمارہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے،

فَقُلْتُ: إِنِّی قَدْ بَلَغَ بِی مِنَ الوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ یَرِثُنِی إِلَّا ابْنَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَیْ مَالِی؟ قَالَ: لاَ،فَقُلْتُ: بِالشَّطْرِ؟فَقَالَ:لاَ،ثُمَّ قَالَ:الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَبِیرٌ  أَوْ كَثِیرٌ  إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِیَاءَ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً یَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِی بِهَا وَجْهَ اللهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِی فِی امْرَأَتِكَ

سعد  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میرامرض شدت اختیارکرچکاہے اورمیرے پاس مال واسباب بہت ہےاورمیری ایک لڑکی کے سواکوئی وارث نہیں توکیامیں  اپنے دوتہائی مال کو (اللہ کی خوشنودی کے لئے)خیرات کردوں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں ،میں نے عرض کیاکیامیں  نصف مال خیرات کردوں ؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تہائی مال خیرات کردولیکن تہائی بھی بہت ہے،تم اپنے وارثوں  کومال دارچھوڑجاؤیہ اس سے بہترہے کہ انہیں  محتاج چھوڑجاؤاوروہ لوگوں  کے سامنے دست سوال درازکریں ،تم جوکچھ اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کروگے اس پرتمہیں  ثواب ملے گا،یہاں  تک کہ جولقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں  دوگے (اس پربھی اجروثواب ملے گا)

فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِی؟قَالَ:إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، ثُمَّ لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى یَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَیُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِی هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ

میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ساتھی تومجھے چھوڑکر(حجة الوداع کرکے)مکہ مکرمہ سے واپس جارہے ہیں  اورمیں  ان کے پیچھے رہ رہا ہوں  ( اور مجھے یہاں  موت آجائے گی حالانکہ میں  یہاں  سے ہجرت کرچکاہوں )آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہاں  رہ کربھی اگرتم کوئی نیک عمل کروگے تواس سے تمہارے درجے بلند ہوں  گے ویسے شایدابھی تمہاری عمردرازہوگی یہاں  تک کہ بہت سے لوگ(مسلمانوں  کو) تم سے فائدہ پہنچے گااوربہت سے لوگ(کفارومرتدین کو) تم سے نقصان پہنچے گا (پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کی)اے اللہ میرے اصحاب کو ہجرت پراستقلال عطافرما اوران کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹالیکن مصیبت زدہ سعدبن خولہ تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے مکہ مکرمہ میں  وفات(اس دعاسے پہلے ہی) پاجانے کی وجہ سے اظہارتاسف کیا۔[62]

ام المومنین صفیہ  رضی اللہ عنہا  اورطواف افاضہ :

أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُمَا أَنَّ صَفِیَّةَ بِنْتَ حُیَیٍّ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَاضَتْ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَحَابِسَتُنَا هِیَ، فَقُلْتُ: إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ یَا رَسُولَ اللهِ وَطَافَتْ بِالْبَیْتِ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَلْتَنْفِرْ

ان ہی دنوں  میں  ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کوخبردی کہ ام المومنین صفیہ  رضی اللہ عنہا  کواذیت ماہانہ شروع ہوگئی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   فرمایاابھی ہمیں  ان کی وجہ سے رکناپڑے گا ؟(یعنی جب تک وہ پاک نہ ہوں  طواف نہیں  کرسکتیں ،ان کے طواف کی وجہ سے ہمیں  رکناپڑے گا )میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ تومکہ لوٹ کرطواف زیارت کرچکی ہیں (یعنی قربانی کے بعدطواف کعبہ کرچکی ہیں )نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتوپھر(یہاں  سے)کوچ کرو (طواف وداع کی ضرورت نہیں ) ۔[63]

مکہ معظمہ سے روانگی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ واپس جانے کے لئے ثنیة الوداع کی طرف سے مکہ مکرمہ سے نکلے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ مِنَ الثَّنِیَّةِ العُلْیَا، وَیَخْرُجُ مِنَ الثَّنِیَّةِ السُّفْلَى

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ثنیہ علیایعنی مقام کداء کی طرف سے داخل ہوتے جوبطحاء میں  ہے اورثنیہ سفلی کی طرف سے نکلتے تھے یعنی نچلی گھاٹی کی طرف سے۔[64]

ثُمَّ رَقَدَ رَقْدَةً بِالْمُحَصَّبِ

واپسی میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام محصب میں  ٹھہرے ،

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی ٹھیرگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  تھوڑی دیرسوگئے،

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ، وَالعَصْرَ، وَالمَغْرِبَ، وَالعِشَاءَ

اسی مقام پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہر،عصر،مغرب اورعشاء کی نمازیں  ادا کیں ۔[65]

فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِی بَكْرٍ

اور عبد الرحمن بن ابی بکر کو بلایا۔[66]

قَالَ:فَاخْرُجِی مَعَ أَخِیكِ إِلَى التَّنْعِیمِ، فَأَهِلِّی بِعُمْرَةٍ، وَمَوْعِدُكِ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااپنے بھائی کے ساتھ تنعیم چلی جاؤ اوروہاں  پرعمرہ کااحرام باندھو۔[67]

ثُمَّ افْرُغَا، ثُمَّ ائْتِیَا هَا هُنَا، فَإِنِّی أَنْظُرُكُمَا حَتَّى تَأْتِیَانِی،قَالَتْ: فَخَرَجْنَا، حَتَّى إِذَا فَرَغْتُ، وَفَرَغْتُ مِنَ الطَّوَافِ، ثُمَّ جِئْتُهُ بِسَحَرَ

پھرتم دونوں عمرہ سےفارغ ہوکریہیں  آجانامیں  انتظارکروں  گا،چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  اورعبدالرحمٰن تنعیم گئے ،ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا  صدیقہ نے وہاں  پہنچ کراحرام باندھا پھرعمرہ کیا،عمرہ کرنے کے بعد وہ صبح کے وقت واپس ہوئیں ۔[68]

ثُمَّ رَكِبَ إِلَى البَیْتِ، فَطَافَ بِهِ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی سواری پربیت اللہ کے طواف کے لئے روانہ ہوئے۔[69]

قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَقِیَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَیْهَا فَقَالَ:هَلْ فَرَغْتُمْ؟فَقُلْتُ: نَعَمْ

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں  مجھےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بلندی پرچڑھتے ہوئے ملے اورمیں  واپسی کے لیے اتررہی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم لوگ فارغ ہوگئے؟عائشہ  رضی اللہ عنہا  صدیقہ نے عرض کیاجی ہاں ۔[70]

فَخَرَجَ فَمَرَّ بِالْبَیْتِ فَطَافَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى یَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَیْتِ إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ عَنِ الْمَرْأَةِ الْحَائِضِ،فَآذَنَ فِی أَصْحَابِهِ بِالرَّحِیلِ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  طواف(وداع) کے لئے چلے گئے اورطواف کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکوئی شخص کوچ نہ کرے جب تک چلتے وقت بیت اللہ کاطواف نہ کرلے(یعنی مکہ مکرمہ میں  آخری کام طواف بیت اللہ ہو،طواف وداع کرکے مکہ معظمہ سے روانہ ہوں ) البتہ حائضہ عورتوں  کے لئے آپ نے اس طواف کومعاف کردیاتھا ، طواف کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوکوچ کاحکم دیا لہذاصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔[71]

مقام ابطح میں  پہنچ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عصرکی نماز ادا کی،

عَنْ عَبْدِ العَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ:قُلْتُ: فَأَیْنَ صَلَّى العَصْرَ یَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ:بِالأَبْطَحِ

عبدالعزیزبن رفیع نے بیان کیامیں  نےانس  رضی اللہ عنہ  سے پوچھاروانگی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عصرکی نمازکہاں  پڑھی تھی ؟نہوں  نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےمقام ابطح میں  عصرکی نمازادافرمائی تھی۔[72]

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  مقام ذی طویٰ میں  اترے،رات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں  گزاری اورصبح کووہاں  سے روانہ ہوئے،

عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَقْبَلَ بَاتَ بِذِی طُوًى حَتَّى إِذَا أَصْبَحَ دَخَلَ، وَإِذَا نَفَرَ مَرَّ بِذِی طُوًى، وَبَاتَ بِهَا حَتَّى یُصْبِحَ وَكَانَ یَذْكُرُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَفْعَلُ ذَلِكَ

نافع  رضی اللہ عنہ نے بیان کیاعبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آتے توذی طویٰ میں  رات گزارتے اورجب صبح ہوتی تومکہ مکرمہ میں  داخل ہوتے ،اسی طرح مکہ مکرمہ سے واپسی میں  بھی ذی طویٰ سے گزرتے اور وہیں  رات گزارتے(آج کل یہ مقام شہر میں  آگیاہے) اورفرماتے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اسی طرح کرتے تھے۔[73]

خطبہ غدیرخم :

حج سے واپسی پرراستہ میں  بریدہ اسلمی  رضی اللہ عنہ  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کی کچھ شکایت کی۔

قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا فِینَا خَطِیبًا، بِمَاءٍ یُدْعَى خُمًّا بَیْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِینَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَیُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوشِكُ أَنْ یَأْتِیَ رَسُولُ رَبِّی فَأُجِیبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِیكُمْ ثَقَلَیْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِیهِ الْهُدَى وَالنُّورُ هُوَ حَبْلُ اللهِ، مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ،فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِیهِ، ثُمَّ قَالَ:وَأَهْلُ بَیْتِی أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان خم کے کنوئیں  پرپہنچے توآپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا پہلے آپ نے اللہ کی حمدوثنابیان کی پھروعظ ونصیحت کی، پھر فرمایا امابعداے لوگو!میں  بھی ایک آدمی ہوں قریب ہے کہ میرے پروردگار کابھیجاہواقاصد(موت کافرشہ)آئے اورمیں  قبول کرلوں (اور دنیاسے رخصت ہو جاؤں )میں  تم لوگوں  میں  دوبھاری چیزیں  چھوڑرہاہوں  پہلی ان میں  اللہ عزوجل کی کتاب ہےاس میں  ہدایت اورنورہے،وہ اللہ کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر رہے گااورجس نے اسے چھوڑدیاگمراہی میں  مبتلا ہو جائے گااللہ کی کتاب کومضبوطی سے تھام لو اوراس پرسختی سے عمل کرو، غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتاب اللہ کی طرف لوگوں  کورغبت دلائی پھرفرمایادوسری میرے اہل بیت(یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن )ہیں  میں  اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں  اللہ کی یاددلاتاہوں  ،میں  اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ کی یاددلاتاہوں ،میں  اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں  اللہ کی یاددلاتاہوں (یعنی اللہ مالک یوم الدین سے ڈرنا، ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہ کرنا)۔[74]

مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معرس نامی مقام کاراستہ اختیارفرمایا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ذوالحلیفہ پہنچے وہاں  میدان میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیام فرمایاپھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازپڑھی اوررات وہیں  گزاری،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَخْرُجُ مِنْ طَرِیقِ الشَّجَرَةِ، وَیَدْخُلُ مِنْ طَرِیقِ المُعَرَّسِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ یُصَلِّی فِی مسْجِدِ الشَّجَرَةِ، وَإِذَا رَجَعَ صَلَّى بِذِی الحُلَیْفَةِ بِبَطْنِ الوَادِی، وَبَاتَ حَتَّى یُصْبِحَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  شجرہ کے راستے سے گزرتے ہوئے معرس کے راستے سے مدینہ منورہ آتے،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب مکہ مکرمہ جاتے توشجرہ کی مسجدمیں  نمازپڑھتے لیکن واپسی میں  ذوالحلیفہ کے نشیب میں  نمازپڑھتے اوررات وہیں  گزارت تاآنکہ صبح ہوجاتی۔[75]

حَدَّثَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ  رُئِیَ وَهُوَ فِی مُعَرَّسٍ بِذِی الحُلَیْفَةِ بِبَطْنِ الوَادِی، قِیلَ لَهُ: إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ

سالم نے اپنے باپ سے روایت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  معرس کے قریب ذوالحلیفہ کی بطن وادی(وادی عقیق)میں  اترے ہوئے تھے کہ رات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خواب دکھایاگیا(جس میں ) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیاکہ آپ اس وقت مبارک میدان میں  ہیں ۔[76]

واپسی میں  پورے راستہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی بلندی پرچڑھتے توتین مرتبہ اللہ اکبرکہتے پھرپڑھتے۔

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ

ترجمہ:اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں ،بادشاہت اسی کی ہے،ہرقسم کی تعریف کاوہی مستحق ہے اوروہ ہرچیزپرقادرہے،ہم لوٹنے والے ہیں  ، توبہ کرنے والے ہیں ،عبادت کرنے والے ہیں ،سجدہ کرنے والے ہیں ،اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں ،اللہ نے اپناوعدہ پوراکردیا،اس نے اپنے بندہ کی مددکی اوراکیلے اس نے تمام لشکروں  کوشکست دی۔[77]

لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ مِنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَمْ یَسُؤْنِی قَطُّ، فَاعْرَفُوا ذَلِكَ لَهُ. یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنِّی رَاضٍ عَنْ أَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، وَعَلِیٍّ، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَیْرِ، وَسَعْدٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالْمُهَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ رَاضٍ، فَاعْرَفُوا ذَلِكَ لَهُمْ أَیُّهَا النَّاسُ، احْفَظُونِی فِی أَصْحَابِی وَأَصْهَارِی وَأَخْتَانِی، لَا یَطْلُبَنَّكُمُ اللهُ بِمَظْلِمَةِ أَحَدٍ مِنْهُمْ. یَا أَیُّهَا النَّاسُ، ارْفَعُوا الْمُسْتَنْكِرَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ، وَإِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْهُمْ فَقُولُوا فِیهِ خَیْرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حجة الوداع کے بعدمدینہ منورہ واپس تشریف لائے تومنبرپرتشریف فرماہوئے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان فرمائی اورپھریہ خطبہ ارشادفرمایالوگو!میں  سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ سے راضی ہوں  تم ان کایہ حق ہمیشہ مانتے رہنا اے لوگو!میں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ ،سیدنا     علی  رضی اللہ عنہ ،طلحہ   رضی اللہ عنہ ،زبیر رضی اللہ عنہ ،سعد  رضی اللہ عنہ ،سعید  رضی اللہ عنہ ،عبدالرحمٰن   رضی اللہ عنہ بن عوف اور ابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ  سے خوش ہوں  تم ان کابھی لحاظ رکھنا اے لوگو!غزوہ بدراور حدیبیہ میں  شمولیت کرنے والے میرے تمام اصحاب کواللہ تعالیٰ نے بخش دیاہے ،لوگو!میرے اصحاب کے معاملہ میں ،میری سسرال کے معاملہ میں  اورمیرے دامادوں  کے معاملہ میں  میری حفاظت کرنایعنی ان میں  سے کسی کوبرانہ کہناان کے حقوق تسلیم کرناان کی عزت کرنا،دیکھوان میں  سے کسی کوتم ایذانہ دینایہ وہ جرم ہے جس کامطالبہ وہ بروزقیامت کریں  گے اوراللہ کی طرف سے معافی نہ ہوگی۔[78]

جبرائیل  علیہ السلام  کاانسانی شکل میں  ظاہرہونا

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع سے اخیرذی الحجہ دس ہجری میں  مدینہ پہنچے۔

حَدَّثَنِی أَبِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ، شَدِیدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا یُرَى عَلَیْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا یَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَیْهِ إِلَى رُكْبَتَیْهِ، وَوَضَعَ كَفَّیْهِ عَلَى فَخِذَیْهِ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِی عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِیمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِیَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْهِ سَبِیلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ یَسْأَلُهُ، وَیُصَدِّقُهُ،

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے حجة الوداع سے واپسی کے چندروزبعدصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں  ایک شخص نمودارہوا،اس کے کپڑے بہت زیادہ سفیدتھے ،بال بہت زیادہ کالے تھے سفرکااس پرکوئی نشان نہ تھا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  میں  سے کوئی اسے پہچانتانہ تھاوہ آیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زانوؤں  سے دوزانوملاکربیٹھ گیااپنے دونوں  ہاتھ اپنے رانوں  پررکھ لئے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  !مجھے بتائیں  اسلام کیاہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دوکہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اورمحمداللہ کے رسول ہیں  ،(اپنے مالک حقیقی کی یادکے لئے ،اس کا شکراداکرنے کے لئے)نمازقائم کرو(سال میں  ایک مرتبہ اپنے مالوں  سے مقررہ نصاب کے مطابق )زکوٰة اداکرو(ایمان واحتساب کے ساتھ)رمضان کے روزے رکھو اوراستطاعت ہوتو(زندگی میں  کم سے کم ایک بار)بیت اللہ کاحج کرو،اس نے کہاآپ سچ فرماتے ہیں ، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوتعجب ہواکہ خودہی سوال کرتا ہے اورخودہی تصدیق کرتاہے،

قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِیمَانُ؟قَالَ:أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ ،قَالَ: صَدَقْتَ،قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِحْسَانُ؟قَالَ:أَنْ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ یَرَاكَ قَالَ: صَدَقْتَ،قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ؟قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ

اس کے بعداس نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے بتائیں  کہ ایمان کیاہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایمان یہ ہے کہ تم اللہ کا،اس کے فرشتوں  کا،اس کی (نازل کردہ)کتابوں  (اورصحیفوں )کا،اس کے (تمام)رسولوں  کااورقیامت کایقین رکھو،تقدیرکی برائی ،بھلائی پریقین رکھو،اس نے کہاآپ سچ فرماتے ہیں ،پھراس نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !احسان کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااحسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کروگویاتم اسے دیکھ رہے ہواوراگریہ کیفیت پیدانہ ہوسکے تویہ سمجھوکہ اللہ تمہیں دیکھ رہاہے ،اس نے کہاآپ نے سچ فرمایا،پھراس نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کب آئے گی ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامسؤل اس کے متعلق سائل سے زیادہ کچھ نہیں  جانتا(یعنی دونوں  برابرہیں )

قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنْ أَمَارَتِهَا؟إِذَا رَأَیْتَ الْمَرْأَةَ تَلِدُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَیْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَیْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ یَتَطَاوَلُونَ فِی الْبُنْیَانِ،فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِی خَمْسٍ مِنَ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ ثُمَّ قَرَأَ:

اس نے کہااچھاقیامت کی علامات ہی بتا دیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعلامات قیامت یہ ہیں  کہ لونڈی اپنے مالک کوجنے(یعنی اولاداپنی والدہ کولونڈی بنالے،یااپنے باپ کی لونڈی کوجواگرچہ ان کی ماں  ہواپنی لونڈی سمجھے یایہ کہ لونڈی زادے ملک پرقابض ہوجائیں )اورجب برہنہ پا،ننگے بدن والے ،بہرے،گونگے(یعنی نااہل لوگ جونہ بات سمجھ سکیں  اورنہ بات سمجھا سکیں )بادشاہ (سربراہ مملکت)بن جائیں  اورجب مویشی چرانے والے کنگال اونچی عمارتوں  پرفخرکریں بس یہ اسکی (کچھ)علامتیں  ہیں ، قیامت کے آنے کا علم توان پانچ باتوں  میں  سے ہے جن کاعلم سوائے اللہ کے کسی کونہیں  ہےپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت فرمائی

إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ [79]

ترجمہ:اس گھڑی کاعلم اللہ ہی کے پاس ہے،وہی بارش برساتاہے،وہی جانتاہے کہ ماؤں  کے پیٹوں  میں  کیاپرورش پارہاہے،کوئی متنفس نہیں  جانتاکہ کل وہ کیاکمائی کرنے والاہے اورنہ کسی شخص کویہ خبرہے کہ کس سرزمین میں  اس کوموت آنی ہے،اللہ ہی سب کچھ جاننے والااورباخبرہے۔

قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:رُدُّوهُ عَلَیَّ،فَالْتُمِسَ فَلَمْ یَجِدُوهُ،ثُمَّ قَالَ لِی:یَا عُمَرُ أَتَدْرِی مَنِ السَّائِلُ؟قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَقَالَ:هَذَا جِبْرِیلُ جَاءَ لِیُعَلِّمَ النَّاسَ دِینَهُمْ

اس کے بعد وہ آدمی پیٹھ پھیرکرچلااور میں  تھوڑی دیر بیٹھا رہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کوواپس بلالاؤ،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اس کوبلانے کے لئے نکلے لیکن انہیں  کچھ دکھائی نہ دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے عمر  رضی اللہ عنہ !تم جانتے ہویہ کون شخص تھا؟ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااللہ اوراس کارسول زیادہ جانتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ جبریل  علیہ السلام  تھے جوتمہیں  تمہارادین سکھانے آئے تھے۔[80]

هَذَا حَدِیثٌ عَظِیمٌ مُشْتَمِلٌ عَلَى جُمَلٍ  الأعمال الظاهرة والباطنة. وعلومُ الشریعة راجعة إلیه، فهو كالأمَّ للسُّنَّة. كما سُمَّیت الفاتحة: أم القرآن [81]

قَالَ الْقَاضِی عِیَاضٌ رَحِمَهُ اللَّهُ وَهَذَا الْحَدِیثُ قَدِ اشْتَمَلَ عَلَى شَرْحِ جَمِیعِ وَظَائِفِ الْعِبَادَاتِ الظَّاهِرَةِ وَالْبَاطِنَةِ مِنْ عُقُودِ الْإِیمَانِ وَأَعْمَالِ الْجَوَارِحِ وَإِخْلَاصِ السَّرَائِرِ وَالتَّحَفُّظِ مِنْ آفَاتِ الْأَعْمَالِ حَتَّى إِنَّ عُلُومَ الشَّرِیعَةِ كُلَّهَا راجعة إلیه ومتشعبة مِنْهُ

قاضی عیاض  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں یہ حدیث ظاہری وباطنی عبادت کی تمام شروط کی شرح پرمشتمل ہے ،شروط ایمان،جسمانی عمل،دل میں  خلوص اورآفات عمل سے بچاؤحتی کہ شریعت کے سارے علوم اسی سے شاخ درشاخ نکلتے ہیں  اوراسی طرف لوٹتے ہیں ۔[82]

قَالَ الْقُرْطُبِیُّ هَذَا الْحَدِیثُ یَصْلُحُ أَنْ یُقَالَ لَهُ أُمُّ السُّنَّةِ لِمَا تَضَمَّنَهُ مِنْ جُمَلِ عِلْمِ السُّنَّةِ

امام قرطبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں یہ حدیث اس لائق ہے کہ اسےسنت کی ماں  کہا جائے کیونکہ اس نے علم سنت کے تمام اصول اکٹھے کر لیے ہیں ۔[83]

وقال ابن دقیق العید فی شرح الأربعین: فهو كالأمِّ للسنَّة، كما سُمِّیت الْفَاتِحَةُ أُمَّ الْقُرْآنِ

حافظ ابن دقیق العید نے بھی اسے سنت کی بنیاد بتایا ہے بالکل اسی طرح جیسے سورۂ فاتحہ قرآن کا نچوڑ(خلاصہ) ہے۔[84]

وقال ابن رجب فی جامع العلوم والحكم :وَهُوَ حَدِیثٌ عَظِیمٌ جِدًّا، یَشْتَمِلُ عَلَى شَرْحِ الدِّینِ كُلِّهِ، وَلِهَذَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِهِ: هَذَا جِبْرِیلُ أَتَاكُمْ یُعَلِّمُكُمْ دِینَكُمْ  بَعْدَ أَنْ شَرَحَ دَرَجَةَ الْإِسْلَامِ، وَدَرَجَةَ الْإِیمَانِ، وَدَرَجَةَ الْإِحْسَانِ، فَجَعَلَ ذَلِكَ كُلَّهُ دِینًا

حافظ ابن رجب البغدادی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  یہ حدیث پورے دین کی شرح پرمشتمل ہے اس لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے آخرمیں  فرمایایہ جبریل علیہ السلام  تھے جوتمہارے پاس تمہارا دین سکھانے آئے تھے،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسلام ،ایمان اوراحسان کے درجات بیان کیے اوران سب کودین قراردیا۔[85]

وَاعْلَمْ أَنَّ هَذَا الْحَدِیثَ یَجْمَعُ أَنْوَاعًا مِنَ الْعُلُومِ وَالْمَعَارِفِ وَالْآدَابِ وَاللَّطَائِفِ بَلْ هُوَ أَصْلُ الْإِسْلَامِ كَمَا حُكِینَاهُ عَنِ الْقَاضِی عِیَاضٍ

امام نوری رحمہ اللہ  نے فرمایاجان لوکہ اس حدیث میں  علوم،آداب اورلطائف کی اقسام جمع ہیں  بلکہ یہ حدیث جیساکہ ہم نے قاضی عیاض رحمہ اللہ  سے نقل کیاہےاسلام کا خلاصہ اور بنیاد ہے ۔ [86]

قیامت کے متعلق ایک سوال:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَجْلِسٍ یُحَدِّثُ القَوْمَ، جَاءَهُ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ القَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ فَكَرِهَ مَا قَالَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ یَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِیثَهُ قَالَ:أَیْنَ  أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ قَالَ: هَا أَنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:فَإِذَا ضُیِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَیْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ:إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَیْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَلسَّاعَةِ قَالَ: هَا أَنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:فَإِذَا ضُیِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَیْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ:إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَیْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک مجلس میں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوکچھ وعظ ونصیحت فرمارہے تھے کہ اتنے میں  ایک بدوآیااوراس نے سوال کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! قیامت کب آئے گی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وعظ جاری رکھا،بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سن تولیاہے لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کویہ سوال ناگوار گزرا،بعض نے کہانہیں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سناہی نہیں ،جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ ختم کیاتوفرمایاقیامت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں  ہے؟اس نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  یہاں  موجودہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب امانت ضائع کردی جائے توقیامت کاانتظارکرنا،اس بدونے پوچھاامانت کاضائع کرناکیسے ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب حکومت نااہل لوگوں  کے سپردکردی جائے توقیامت کاانتظارکرنا۔[87]

قیامت کے متعلق ایک اورسوال:

أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ البَادِیَةِ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى السَّاعَةُ قَائِمَةٌ؟قَالَ:وَیْلَكَ، وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا،قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا إِلَّا أَنِّی أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ،قَالَ:إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ فَقُلْنَا: وَنَحْنُ كَذَلِكَ؟قَالَ:نَعَمْ،فَفَرِحْنَا یَوْمَئِذٍ فَرَحًا شَدِیدًافَمَرَّ غُلاَمٌ لِلْمُغِیرَةِ وَكَانَ مِنْ أَقْرَانِی، فَقَالَ:إِنْ أُخِّرَ هَذَا، فَلَنْ یُدْرِكَهُ الهَرَمُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسجدمیں  تشریف فرماتھے کہ ایک بدوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کب قائم ہو گی؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم پرافسوس!تم نے اس کے لئے کیاتیاری کی ہے؟اس بدونے کہامیں  نے کچھ تیاری نہیں  کی سوائے اس کے کہ میں  اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم اس کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہاہم بھی اسی طرح ساتھ ہوں  گے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں ،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  یہ فرمان سن کربہت خوش ہوئے،اتنے میں  مغیرہ  رضی اللہ عنہ کاایک لڑکاسامنے سے گزرا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگریہ زندہ رہاتواس کوبڑھاپانہیں  آئے گایہاں  تک کہ (تم لوگوں  کی)قیامت آ جائے گی۔[88]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى السَّاعَةُ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:مَا أَعْدَدْتَ لَهَا قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِیرِ صَلاَةٍ وَلاَ صَوْمٍ وَلاَ صَدَقَةٍ، وَلَكِنِّی أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ:أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں  ہےایک شخص نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  قیامت کب قائم ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھاتم نے اس کے لیے کیاتیاری کی ہے؟انہوں  نے عرض کیاکہ میں  نے اس کے لیے بہت ساری نمازیں ،روزے اورصدقے نہیں  تیارکررکھے البتہ میں  اللہ اوراس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت رکھتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم اس کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو ۔[89]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رِجَالٌ مِنَ الأَعْرَابِ جُفَاةً، یَأْتُونَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَسْأَلُونَهُ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَكَانَ یَنْظُرُ إِلَى أَصْغَرِهِمْ فَیَقُولُ:إِنْ یَعِشْ هَذَا لاَ یُدْرِكْهُ الهَرَمُ حَتَّى تَقُومَ عَلَیْكُمْ سَاعَتُكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےچندبدوی جوننگے پاؤں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کرتے تھے کہ  قیامت کب آئے گی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان میں  سب سے کم عمروالےکی طرف نظرکرکے فرماتے اگریہ بچہ زندہ رہاتویہ بوڑھا نہیں  ہوگاکہ تم پرتمہاری قیامت (یعنی موت)آجائے گی(کیونکہ موت اصلی قیامت کاپیش خیمہ ہے)۔[90]

 

[1] مسنداحمد۱۸۷۳

[2] النصر: 1

[3] السنن الکبری للنسائی ۱۱۶۴۸، تفسیر ابن کثیر ۴۸۳؍۸

[4] تفسیرابن کثیر۵۰۹؍۸

[5] النصر: 1

[6] السنن الکبری للنسائی۱۱۶۴۹

[7] مسندالبزار۶۱۳۵،السنن الکبری للبیہقی۹۶۸۲

[8] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابٌ ۵۴، ح۴۳۰۲

[9] ابراہیم۷

[10]النصر: 1

[11] السنن الکبری للنسائی ۱۱۶۴۸، تفسیر ابن کثیر ۴۸۳؍۸

[12] النصر: 1

[13]النصر: 1

[14]النصر: 3

[15] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ اذاجاء نصراللہ بَابُ قَوْلِهِ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ۴۹۷۰،وکتاب المغازی بَابُ مَنْزِلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الفَتْحِ۴۲۹۴

[16] مسنداحمد۳۱۲۷،مسندالبزار۱۹۲

[17] تفسیرابن ابی حاتم۳۴۷۲؍۱۰، الدر المنثور ۶۵۰؍۸،فتح القدیر۶۲۳؍۵

[18] صحیح بخاری کتاب الاذان باب الدعاء فی الرکوع  ۷۹۴،وکتاب سُورَةُ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ۴۹۶۸، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۱۰۸۵

[19] مصنف ابن ابی شیبة۲۹۳۳۲، صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۱۰۸۸

[20] تفسیرطبری  ۶۷۰؍۲۴

[21] مسنداحمد۳۶۸۳

[22] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَتَى یُدْفَعُ مِنْ جَمْعٍ عن عمر ۱۶۸۴

[23] صحیح بخاری کتاب المناسک بابُ التَّلْبِیَةِ وَالتَّكْبِیرِ غَدَاةَ النَّحْرِ، حِینَ یَرْمِی الجَمْرَةَ، وَالِارْتِدَافِ فِی السَّیْرِ۱۶۸۷ ،۱۶۸۶ ، وبَابُ الرُّكُوبِ وَالِارْتِدَافِ فِی الحَجِّ عن ابن عباس۱۵۴۴،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰

[24] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ بِلَیْلٍ، فَیَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَیَدْعُونَ، وَیُقَدِّمُ إِذَا غَابَ القَمَرُ ۱۶۸۱،صحیح مسلم کتاب الحج  بابُ اسْتِحْبَابِ تَقْدِیمِ دَفْعِ الضَّعَفَةِ مِنَ النِّسَاءِ وَغَیْرِهِنَّ مِنْ مُزْدَلِفَةَ إِلَى مِنًى فِی أَوَاخِرِ اللیْلِ قَبْلَ زَحْمَةِ النَّاسِ، وَاسْتِحْبَابِ الْمُكْثِ لِغَیْرِهِمْ حَتَّى یُصَلُّوا الصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةَ۳۱۲۰

[25]صحیح مسلم کتاب الحج   بَابُ اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِیَةَ حَتَّى یَشْرَعَ فِی رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ۳۰۸۹ 

[26] صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِیَةَ حَتَّى یَشْرَعَ فِی رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ  ۳۰۸۸

[27] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰

[28] صحیح بخاری کتاب المناسکبَابُ وُجُوبِ الحَجِّ وَفَضْلِهِ عن ابن عباس ۱۵۱۳، وبَابُ حَجِّ المَرْأَةِ عَنِ الرَّجُلِ۱۸۵۵، وکتاب المغازی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ۴۳۹۹

[29]صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِیَةَ حَتَّى یَشْرَعَ فِی رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ ۳۰۸۹

[30] سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ قَدْرِ، حَصَى الرَّمْیِ ۳۰۳۰، سنن نسائی کتاب  الحج بَابُ الْتِقَاطِ الْحَصَى۳۰۶۲، مسنداحمد۱۸۵۱  ،۳۲۴۸

[31] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ یُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ ۱۷۵۰،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰،وبَابُ رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِی وَتَكُونُ مَكَّةُ عَنْ یَسَارِهِ وَیُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ۳۱۳۲

[32] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ رَاكِبًا، وَبَیَانِ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ۳۱۳۷

[33] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ رَاكِبًا، وَبَیَانِ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ ۳۱۳۸

[34] مسند احمد ۱۶۵۸۸ ، السیرة النبویة لابن کثیر ۳۷۵؍۴ ، سبل الہدی والرشاد فی سیرة خیر العباد ۴۷۵؍۸

[35] ابن ہشام۶۰۴؍۲،الروض الانف ۵۰۶؍۷

[36] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ عن ابی بکر۶۷، وکتاب المناسک بَابُ الخُطْبَةِ أَیَّامَ مِنًى عن ابن عباس وابی بکرہ وابن عمر۱۷۳۹، ۱۷۴۱، ۱۷۴۲،وکتاب التفسیر سورہ التوبة عن ابی بکرہ۴۶۶۲ ،وکتاب الفتن بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی كُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ۷۰۷۸،صحیح مسلم  کتاب باب استحباب رمی الجمرة عن ام الحصن۳۱۳۸، وکتاب القسامة بَابُ تَغْلِیظِ تَحْرِیمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ۴۳۸۳

[37] صحیح بخاری كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ۱۲۱

[38] مشکاة المصابیح ۲۶۷۰

[39] سنن ابن ماجہ کتاب الحج بَابُ الْخُطْبَةِ، یَوْمَ النَّحْرِ ۳۰۵۵

[40] ابن ہشام۶۰۴؍۲،الروض الانف۵۰۶؍۷،تاریخ طبری۱۵۰؍۳

[41] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰ ،مسند احمد ۱۴۴۴۰

[42] صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ تَغْلِیظِ تَحْرِیمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ ۴۳۸۴

[43] صحیح بخاری کتاب الاضاحی بَابُ مَا یُؤْكَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْهَا عن سلمہ بن اکوع۵۵۶۹

[44] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ عن جابر ۲۹۵۹

[45] ابن سعد۱۰۳؍۴،اسدالغابة۲۲۷؍۵،الإصابة فی تمییز الصحابة ۱۴۸؍۶،تهذیب التهذیب۲۴۶؍۱۰

[46] مسند احمد۲۷۲۴۹

[47] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ أَنَّ السُّنَّةَ یَوْمَ النَّحْرِ أَنْ یَرْمِیَ، ثُمَّ یَنْحَرَ، ثُمَّ یَحْلِقَ وَالِابْتِدَاءِ فِی الْحَلْقِ بِالْجَانِبِ الْأَیْمَنِ مِنْ رَأْسِ الْمَحْلُوقِ عنانس ۳۱۵۴

[48] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الحَلْقِ وَالتَّقْصِیرِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ عن ابن عمر ۱۷۲۷،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ تَفْضِیلِ الْحَلْقِ عَلَى التَّقْصِیرِ وَجَوَازِ التَّقْصِیرِ ۳۱۴۶

[49]صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ الطِّیبِ بَعْدَ رَمْیِ الجِمَارِ وَالحَلْقِ قَبْلَ الإِفَاضَةِ۱۷۵۴

[50] صحیح بخاری کتاب الحیض باب کیف کان بدئ الحیض۲۹۴، وکتاب الاضحیة بَابُ مَنْ ذَبَحَ ضَحِیَّةَ غَیْرِهِ ۵۵۵۹، وکتاب الاضحیة بَابُ الأُضْحِیَّةِ لِلْمُسَافِرِ وَالنِّسَاءِ ۵۵۴۸،وکتاب الحج بَابُ ذَبْحِ الرَّجُلِ البَقَرَ عَنْ نِسَائِهِ مِنْ غَیْرِ أَمْرِهِنَّ۱۷۰۹،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ یَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى یَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ ۲۹۱۸،۲۹۲۵،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الْحَائِضِ، تَقْضِی الْمَنَاسِكَ، إِلَّا الطَّوَافَ۲۹۶۳

[51] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابٌ یُتَصَدَّقُ بِجُلُودِ الهَدْیِ عن علی ۱۷۰۷،وبَابٌ لاَ یُعْطَى الجَزَّارُ مِنَ الهَدْیِ شَیْئًا ۱۷۱۶،صحیح مسلم کتاب الحج بَابٌ فِی الصَّدَقَةِ بِلُحُومِ الْهَدْیِ وَجُلُودِهَا وَجِلَالِهَا۳۱۸۳

[52] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰، مسنداحمد۱۴۴۴۰

[53] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰

[54] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ  عن عائشہ صدیقہ ۱۵۶۰

[55] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ سِقَایَةِ الحَاجِّ عن ابن عباس ۱۶۳۴،۱۶۳۵،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر ۲۹۵۰، و بَابُ وُجُوبِ الْمَبِیتِ بِمِنًى لَیَالِی أَیَّامِ التَّشْرِیقِ، وَالتَّرْخِیصِ فِی تَرْكِهِ لِأَهْلِ السِّقَایَةِ عن ابن عباس ۳۱۷۷

[56] صحیح مسلم کتاب بَابُ اسْتِحْبَابِ طَوَافِ الْإِفَاضَةِ یَوْمَ النَّحْرِ عن ابن عمر ۳۱۶۵

[57] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ الفُتْیَا وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى الدَّابَّةِ وَغَیْرِهَاعن ابن عمر وابن عباس ۸۳، وکتاب المناسک بَابُ الذَّبْحِ قَبْلَ الحَلْقِ ۱۷۲۲،۱۷۲۳، وبَابُ إِذَا رَمَى بَعْدَ مَا أَمْسَى، أَوْ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ، نَاسِیًا أَوْ جَاهِلًا۱۷۳۴،۱۷۳۵،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ مَنْ حَلَقَ قَبْلَ النَّحْرِ، أَوْ نَحَرَ قَبْلَ الرَّمْیِ۳۱۵۶

[58] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ رَفْعِ الیَدَیْنِ عِنْدَ جَمْرَةِ الدُّنْیَا وَالوُسْطَى عن ابن عمر  ۱۷۵۲

[59] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ إِذَا رَمَى الجَمْرَتَیْنِ، یَقُومُ وَیُسْهِلُ، مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ عن ابن عمر ۱۷۵۱

[60] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ إِذَا رَمَى الجَمْرَتَیْنِ، یَقُومُ وَیُسْهِلُ، مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ عن ابن عمر ۱۷۵۱

[61] صحیح بخاری کتاب العلم بَابٌ مَتَى یَصِحُّ سَمَاعُ الصَّغِیرِ؟ عن ابن عباس ۷۶، وکتاب الغازی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ۴۴۱۲،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة  بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّی۱۱۲۴

[62] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ رِثَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ ابْنَ خَوْلَةَ عن سعد ۱۲۹۵،وکتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِی هِجْرَتَهُمْ ۳۹۳۶، وکتاب المغازی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ۴۴۰۹،وکتاب المرضی بَابُ قَوْلِ المَرِیضِ إِنِّی وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِی الوَجَعُ ۵۶۶۸،وکتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ بِرَفْعِ الوَبَاءِ وَالوَجَعِ ۶۳۷۳،وکتاب الفرائض بَابُ مِیرَاثِ البَنَاتِ ۶۷۳۳،صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۴۲۰۹

[63] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ إِذَا حَاضَتِ المَرْأَةُ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ ۱۷۵۷ ، وکتاب المغازی بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ۴۴۰۱،صحیح مسلم کتاب الحج  بابُ وُجُوبِ طَوَافِ الْوَدَاعِ وَسُقُوطِهِ عَنِ الْحَائِضِ عن عائشہ صدیقہ ۳۲۲۲،سنن ابوداودكِتَاب الْمَنَاسِكِ بَابُ دُخُولِ مَكَّةَ ۱۸۶۶

[64] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابٌ مِنْ أَیْنَ یَدْخُلُ مَكَّةَ؟۱۵۷۶، وبَابٌ مِنْ أَیْنَ یَخْرُجُ مِنْ مَكَّةَ؟ عن عائشہ صدیقہ  ۱۵۷۷

[65] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ طَوَافِ الوَدَاعِ۱۷۵۶

[66] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ۱۵۶۰

[67] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ إِذَا حَاضَتِ المَرْأَةُ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ ۱۷۶۲، صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ۲۹۱۰

[68] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ۱۵۶۰

[69] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ طَوَافِ الوَدَاعِ۱۷۵۶ ،و کتاب المغازی باب حجتہ الوداع۴۳۹۵

[70] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ۱۵۶۰ 

[71]صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ ۲۹۱۰، وبابُ وُجُوبِ طَوَافِ الْوَدَاعِ وَسُقُوطِهِ عَنِ الْحَائِضِ۳۲۱۹ 

[72]صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ صَلَّى العَصْرَ یَوْمَ النَّفْرِ بِالأَبْطَحِ ۱۷۶۳،صحیح مسلم  کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ طَوَافِ الْإِفَاضَةِ یَوْمَ النَّحْرِ۳۱۶۶

[73] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ مَنْ نَزَلَ بِذِی طُوًى إِذَا رَجَعَ مِنْ مَكَّةَ۱۷۶۹

[74] صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل علی ۶۲۲۵،۶۲۲۸

[75] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ خُرُوجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى طَرِیقِ الشَّجَرَةِ۱۵۳۳

[76] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العَقِیقُ وَادٍ مُبَارَكٌ۱۵۳۵، صحیح مسلم کتاب  بَابُ التَّعْرِیسِ بِذِی الْحُلَیْفَةِ، وَالصَّلَاةِ بِهَا إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ۳۲۸۵

[77] صحیح بخاری ابواب العمرة بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا رَجَعَ مِنَ الحَجِّ أَوِ العُمْرَةِ أَوِ الغَزْوِ۱۷۹۷ ،صحیح مسلم کتاب  بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا قَفَلَ مِنْ سَفَرِ الْحَجِّ وَغَیْرِهِ عن ابن عمر ۳۲۷۵

[78] المعجم الکبیرللطبرانی۵۶۴۰

[79] لقمان ۳۴

[80] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة لقمان بَابُ قَوْلِهِ إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ عن ابی ہریرہ ۴۷۷۷،وکتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ ۵۰ ،صحیح مسلم کتاب الایمان  بَابُ معرفة الْإِیمَانِ، وَالْإِسْلَامِ، والقَدَرِ وَعَلَامَةِ السَّاعَةِ۹۳،وبَابُ الْإِسْلَامِ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ عن عمر وابی ہریرہ۹۹

[81] تطریز ریاض الصالحین۶۰؍۱

[82] شرح النووی علی مسلم ۱۵۸؍۱

[83] فتح الباری شرح صحیح البخاری ۱۲۵؍۱

[84] شرح حدیث جبریل فی تعلیم الدین۶؍۱

[85] جامع العلوم والحكم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الكلم۹۷؍۱

[86] المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج۱۶۰؍۱

[87] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِی حَدِیثِهِ، فَأَتَمَّ الحَدِیثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ۵۹

[88] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ الرَّجُلِ وَیْلَكَ عنانس ۶۱۶۷،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۶۷۱۱

[89] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۶۱۷۱،مسند احمد۱۳۱۶۷

[90] صحیح بخاری کتاب الرقاق باب سکرات الموت ۶۵۱۱

Related Articles