ہجرت نبوی کا دسواں سال

وفدکندہ

یہ عظیم قحطانی حضرمی قبیلہ تھاان کی آبادیاں  حضرموت میں  الکسرمیں  واقع تھیں  اورحضرموت کے شمال کی طرف وسیع علاقوں  میں  پھیلی ہوئی تھیں ،اسلام سے پہلے ان میں  بہت سے بادشاہ ہوئے جن کی حکومت نجد،یمن اورحجازتک پھیلی ہوئی تھی،اس حکومت کوایرانی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی اوراسے حیرہ(عراق)کی عرب حکومت کی ہمسری کادعوی تھا،اس کاآخری بادشاہ عرب کے نامورشاعرامرؤالقیس کاباپ تھااس کووہاں  کے قبیلہ قیس نے ایک معاملے میں  برافروختہ ہوکرقتل کرڈالاتھااسی وقت سے بنوکندہ کی حکومت کابھی خاتمہ ہوگیا۔

قَدِمَ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فِی بَضْعَةَ عَشَرَ رَاكِبًا مِنْ كِنْدَةَ

دس ہجری میں  اشعث بن قیس کندہ کے انیس سواروں  کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے،

قَدِمَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فِی ثَمَانِینَ أَوْ سِتِّینَ رَاكِبًا مِنْ كِنْدَةَ

ایک روایت میں  ہےاشعث بن قیس اسی یاساٹھ سواروں  کے لگ بھگ وفدلے کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے،

قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ فِی سِتِّینَ رَاكِبًا مِنْ كِنْدَةَ

ایک روایت میں  ہےاشعث بن قیس بنوکندہ کے سترسواروں  کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوے۔[1]

اشعث بن قیس وہ اپنے علاقہ کے سردارتھے اوران کے ساتھی بھی صاحب حیثیت تھے،یہ سب لوگ اگرچہ اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ابھی انہوں  نے وہ سادگی اختیارنہیں  کی تھی جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے،

فَدَخَلُوا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَسْجِدَهُ قَدْ رَجَّلُوا جُمَمَهُمْ وَاكْتَحَلُوا. وَعَلَیْهِمْ جِبَابُ الْحِبَرَةِ قَدْ كَفُّوهَا بِالْحَرِیرِ. وَعَلَیْهِمُ الدِّیبَاجُ ظَاهِرٌ مُخَوَّصٌ بِالذَّهَبِ

چنانچہ یہ لوگ مسجدنبوی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس اس شان سے واردہوئے کہ عائل بڑھے ہوئے تھے ،سرمہ لگایاہواتھااور سب نے اپنے کندھوں  پر حبرہ کی زریں  چادریں  ڈال رکھی تھیں جن کے سنجاب حریرکے تھے اوراوپرسے ریشمی کپڑے تھے جن پرسونے پترچڑھے ہوئے تھے،

ایک روایت میں  ہے کہ یہ لوگ سونے سے مڑھاہوادیباج پہنے ہوئے تھے اوریمنی چادریں  اوڑھ رکھی تھیں جن کے کناروں  پرریشم لگاہواتھا،

وَقَالَ لَهُمْ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَمْ تُسْلِمُوا؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَا بَالُ هَذَا الْحَرِیرِ فِی أَعْنَاقِكُمْ؟فَشَقُّوهُ وَنَزَعُوهُ وَأَلْقَوْهُ ،ثُمَّ قَالَ الأشعث : یَا رَسُولَ اللهِ! نَحْنُ بَنُو آكِلِ الْمِرَارِ، وَأَنْتَ ابْنُ آكِلِ الْمِرَارِ

جب وہ مسجدمیں  پہنچ کرآپ کی خدمت میں  باریاب ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  دیکھ کرفرمایاکیاتم اسلام نہیں  لا چکے ہو؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اللہ کے فضل سے نعمت اسلام سے بہرہ یاب ہوچکے ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھریہ حریر (اورسونا) تمہاری گردنوں  میں  کیوں  نظرآرہاہے؟اہل وفداپنی غلطی پر متنبہ ہوئے اورسب نے فوراًچادریں  پھاڑکر زمین پرڈال دیں ،اشعث  رضی اللہ عنہ بن قیس نے بطورتفاخرعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آکل المرارکی اولادسے ہیں  اورآپ بھی اس کی اولادسے ہیں ،

بن قیس (یابنوکندہ) کے اجدادمیں  سے ایک شخص حارث(یاحرث)بن عمروکالقب تھا۔

كَانَا تَاجِرَیْنِ، وَكَانَا إِذَا سَارَا فِی أَرْضِ الْعَرَبِ، فَسُئِلَا مَنْ أَنْتُمَا؟ قَالَا: نَحْنُ بَنُو آكِلِ الْمِرَارِ، یَتَعَزَّزُونَ بِذَلِكَ فِی الْعَرَبِ، وَیَدْفَعُونَ بِهِ عَنْ أَنْفُسِهِمْ ؛ لِأَنَّ بَنِی آكِلِ الْمِرَارِ مِنْ كِنْدَةَ كَانُوا مُلُوكًا

زہری اورابن اسحاق کہتے ہیں دونوں  تاجر تھےجب یہ دونوں  سرزمین عرب میں  سفرکرتے اورپوچھاجاتاکہ تم کون ہو؟توجواب دیتے کہ ہم مرار (اونٹوں  کے کھانے کی ایک بوٹی)کھانے والوں  کی اولادسے ہیں  ،اس سے اہل عرب ان کاازحداحترام کرتے اوراپنے آپ کاتحفظ کرنے میں انہیں  بہت سہولت ہوتی کیونکہ بنوآکل المرارکندہ کے رہنے والے تھے جوبادشاہ تھے۔

وَإِنَّمَا سُمِّیَ آكِلَ الْمُرَارِ، لِأَنَّ عَمْرَو بْنَ الْهَبُولَةِ الْغَسَّانِیَّ أَغَارَ عَلَیْهِمْ، وَكَانَ الْحَارِثُ غَائِبًا، فَغَنِمَ وَسَبَى، وَكَانَ فِیمَنْ سَبَى أُمُّ أُنَاسَ بِنْتُ عَوْفِ بْنِ مُحَلَّمٍ الشَّیْبَانِیِّ، امْرَأَةُ الْحَارِثِ ابْن عَمْرٍو،  فَقَالَتْ لِعَمْرِو فِی مَسِیرِهِ: لَكَأَنِّی بِرَجُلِ أَدْلَمْ أَسْوَدَ، كَأَنَّ مَشَافِرَهُ مَشَافِرُ بَعِیرِ آكِلِ مُرَارٍ  قَدْ أَخَذَ بِرِقْبَتِكَ، تَعْنِی الْحَارِثَ، فَسُمِّیَ آكِلَ الْمُرَارِ، وَالْمُرَارُ: شَجَر   ثُمَّ تَبِعَهُ الْحَارِثُ فِی بَنِی بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، فَلَحِقَهُ، فَقَتَلَهُ، وَاسْتَنْقَذَ امْرَأَتَهُ، وَمَا كَانَ أَصَابَ، وَیُقَالُ بَلْ آكِلُ الْمُرَارِ: حُجْرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُعَاوِیَةَ، وَهُوَ صَاحِبُ هَذَا الْحَدِیثِ، وَإِنَّمَا سُمِّیَ آكِلَ الْمُرَارِ، لِأَنَّهُ أَكَلَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ فِی تِلْكَ الْغَزْوَةِ شَجَرًا یُقَالُ لَهُ الْمُرَارُ

ایک روایت میں  ہےاس لقب کی وجہ یہ ہوئی ایک دفعہ عمروبن الہبولہ غسانی نے حارث کی غیر حاضری میں  بنوکندہ پرحملہ کیا،مال واسباب لوٹنے کے علاوہ اس نے بنوکندہ کی عورتوں  کوقیدی بنالیاان میں  حارث کی بیوی ام اناس بنت عوف بن محلم الشیبانی بھی تھی،راستے میں  اس نے عمروبن الہبولہ سے کہامجھے یوں  محسوس ہوتاہے کہ گویامیں  ایک چمکدار سیاہ رنگ کے شخص کے ساتھ ہوں  جس کے ہونٹ آل المرار(اونٹ کے لٹکتے ہوئے ہونٹ ) ہیں  اوروہ آکر تیری گردن دبوج لے گا،یہ تعریف اس عورت نے اپنے خاوندحارث کی بیان کی تھی اس دن سے حارث کالقب آکل مرار ہوگیا،حارث واپس آیا تو اس نے بکربن وائل کوساتھ لے کرعمروبن الہبولہ کاتعاقب کیااوراسے پکڑکرقتل کرڈالااوراپنی بیوی سمیت مال واسباب واپس لے لیا،بعض کہتے ہیں  آکل المرار(مرارکھانے والا ) حجربن عمروبن معاویہ کالقب ہے اوراسی کایہ واقعہ ہے جواوپربیان کیاگیاہے اوراس لقب کاسبب یہ ہواکہ کسی جنگ میں  اس نے اوراس کے لشکرنے  ایک کڑوی بوٹی مرار کھایا تھااورمرارایک درخت کانام ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ بَنُو النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ لَا نَقْفُو أُمَّنَا وَلَا نَنْتَفِی مِنْ أَبِینَافَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ: هَلْ فَرَغْتُمْ یَا مَعْشَرَ كِنْدَةَ؟ وَاَللَّهِ لَا أَسْمَعُ رَجُلًا یَقُولُهَا إلَّا ضَرَبْتُهُ ثَمَانِینَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم نضربن کنانہ کی اولادسے ہیں  نہ ہم اپنی ماں  کو فاجرہ بتاتے ہیں  اور نہ اپنے باپ کاانکارکرتے ہیں ،اشعث بن قیس نے اپنے ساتھیوں  سے مخاطب ہوکرکہااے گروہ کندہ تم فارغ ہوگئے ہواگرآئندہ میں  نے کسی سے ایسی بات سنی تواس کواسی کوڑے ماروں  گا۔

وَفِیهِ: أَنَّ مَنِ انْتَسَبَ إِلَى غَیْرِ أَبِیهِ، فَقَدِ انْتَفَى مِنْ أَبِیهِ

علامہ حافظ امام ابن قیم  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس سے معلوم ہواکہ جوشخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اورطرف اپنی نسبت کرے اس نے گویااپنے باپ سے انکارکیا،

فَلَمَّا أَرَادُوا الرُّجُوعَ إِلَى بلادهم أَجَازَهُمْ بِعَشْرِ أَوَاقٍ عَشْرِ أَوَاقٍ. وَأَعْطَى الأَشْعَثَ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً

جب یہ وفدمدینہ منورہ سے چلنے لگاتو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس وفد  رضی اللہ عنہ بن قیس کوبارہ اوقیہ اور دوسرے اراکین وفدکودس دس اوقیہ چاندی بطورانعام مرحمت فرمائی۔[2]

وارتدَّ بعد  النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأسر وأحضر إلى أبی بكر، فأسلم، فأطلقه وزوَّجه أخته أم فروة

عہد خلیفہ اول سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں اشعث بن قیس بدقسمتی سے فتنہ ارتدادمیں  ملوث ہوگئے،خلیفہ الرسول کے بھیجے ہوئے لشکروں  میں  سے ایک لشکرنے انہیں  شکست دی اورگرفتارکرلیااورلاکر خلیفہ الرسول کے سامنے پیش کردیاتوانہوں  نے اپنے کیے پرندامت کااظہارکیااورصدق دل سے توبہ کی،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ صدیق نے انہیں  معاف کردیااوران کی شادی اپنی ہمشیرہ ام فروہ  رضی اللہ عنہا  سے کردی۔[3]

(ایک روایت میں  ہے کہ ام فروہ  رضی اللہ عنہا کانکاح   سے ان کی بارگاہ رسالت میں  حاضری کے موقع پرہوچکاتھامگررخصتی عہدصدیقی میں  ان کے توبہ کرنے کے بعد ہوئی)

فَاخْتَرَطَ سَیْفَهُ، ودخل إلى سوق الإبل، فجعل لا یرى جملًا، ولا ناقة إلا عرقبه ،فصاح الناس: كفر الأشعث،  فلمَّا فرغ طرح سیفه، وقال: والله ما كفرت، ولكن زوَّجنی هذا الرجل أخته، ولو كنَّا فی بلادنا كانت ولیمة غیر هذه، یا أهل المدینة كلواویا أصحاب الإبل تعالوا خذوا أثمانها، ثم شهد الیرموك بالشام، ثم القادسیة وحروب العراق مع سعد، وسكن الكوفة،  وشهد صفین مع علی

اشعث  رضی اللہ عنہ بن قیس نے دربارصدیقی سے اٹھ کرتلوارننگی کی اوراونٹوں  کے بازارمیں  گئے اورجواونٹ سامنے آیاتلوارسے اس کی کونچیں  کاٹ ڈالیں ،تھوڑی ہی دیر میں  بیسوں  اونٹ زمین پر پڑے تھے،سارے بازارمیں  غل پڑگیاکہ اشعث  رضی اللہ عنہ بن قیس شایدکافرہوگیاہے،جب فارغ ہوئے توتلوارکونیام میں  داخل کیااور لوگوں  سے کہااللہ کی قسم میں  کافرنہیں  ہوالیکن اس نے میرا نکاح اپنی ہمشیرہ سے کیاہے اگرمیں  اپنے وطن میں  ہوتاتواورہی سروسامان ہوتایہ تم لوگوں  کی دعوت ولیمہ ہے،اے اہل مدینہ اسے کھاؤ ، اوراے اونٹوں  کے مالکوں !اپنے اونٹوں  کی قیمت مجھ سے وصول کرلویہ کہہ کرتمام اونٹوں  کی قیمت ان کے مالکوں  کواداکردی،اس کے بعد یرموک اورقادسیہ کی جنگوں  میں  مجاہدانہ شریک ہوئے اورسعد  رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ عراق میں  شامل ہوئے اورکوفہ میں  سکونت اختیارکرلی،جنگ صفین میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کے ساتھ تھے۔[4]

ایک مقدمہ:

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِی عَلَى أَرْضٍ لِی كَانَتْ لِأَبِی، فَقَالَ الْكِنْدِیُّ: هِیَ أَرْضِی فِی یَدِی أَزْرَعُهَا لَیْسَ لَهُ فِیهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِیِّ:أَلَكَ بَیِّنَةٌ؟قَالَ: لَا، قَالَ:فَلَكَ یَمِینُهُ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا یُبَالِی عَلَى مَا حَلَفَ عَلَیْهِ، وَلَیْسَ یَتَوَرَّعُ مِنْ شَیْءٍ، فَقَالَ:لَیْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِكَ، فَانْطَلَقَ لِیَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ:أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِهِ لِیَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَیَلْقَیَنَّ اللهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ

علقمہ بن وائل  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے ربیعہ بن عبدان حضرمی اورامروالقیس بن عابس کندی میں  کچھ جھگڑاہوگیا،دونوں  فریق جھگڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے،ربیعہ بن عبدان حضرمی نے کہااے اللہ کےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !اس شخص نے میرے باپ کی زمین پرزبردستی قبضہ کررکھاہے،امروالقیس کندی نے کہاوہ میری ہی زمین ہےمیرے قبضہ میں  ہےمیں  اس میں  کھیتی باڑی کرتا ہوں  اس کااس زمین میں  کوئی حق نہیں  ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرمی سے فرمایاکیاتمہارے پاس کوئی ثبوت ہے، اس نے عرض کیانہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تو پھر تمہارا فیصلہ اس کی قسم پرہوگا،حضرمی نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ توفاجرآدمی ہےوہ پرواہ ہی نہیں  کرے گاکہ کس چیز پر قسم کھارہاہےوہ کسی(بری)چیزسے پرہیزہی نہیں  کرتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہارے لئے اس کے سوااورکچھ نہیں ،(حضرمی اس کی قسم پرفیصلہ کرانے پر رضا مند ہوگیا )کندی قسم کھانے چلاجب اس نے پیٹھ موڑی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگراس نے اس کے مال کوناجائزطریقہ سے حاصل کرنے کے لئے قسم کھائی تویہ اللہ سے اس حال میں  ملے گاکہ اللہ اس سے (سخت)ناراض ہوگااورجوشخص بھی ناجائز طریقہ سے کسی کی زمین پرقبضہ کرے گاتووہ اللہ سے اس حال میں  ملے گاکہ اللہ اس پرغضبناک ہوگا۔[5]

وفدبنی زبید:

زبیدکانام متعددقبائل کے لئے استعمال ہوتاہے،یہاں  جس زبیدکاذکرہے وہ زیدبن کہلان کے بطن مذحج سے تھا،یہ لوگ یمن میں  آبادتھے۔

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَمْرِو بْنِ مَعْدِ یَكْرِبَ فِی أُنَاسٍ مِنْ بَنِی زُبَیْدٍ، فَأَسْلَمَ

دس ہجری میں  بنوزبیدکاایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوا اور مشرف بہ اسلام ہوگیااس وفدمیں  عرب کے نامورشہسوارعمرو  رضی اللہ عنہ  بن معدی کرب زبیدی بھی شامل تھے۔[6]

قال: قدم عَمْرِو بْنِ مَعْدِ یَكْرِبَ الزُّبَیْدِیُّ فِی عَشَرَةِ نَفَرٍ مِنْ زُبَیْدٍ الْمَدِینَةَ  ،ثُمَّ رَاحَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم  فَأَسْلَمَ هُوَ وَمَنْ مَعَه، وَأَقَامَ أَیَّامًا. ثُمَّ أَجَازَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِجَائِزَةٍ وَانْصَرَفَ إِلَى بِلادِهِ وَأَقَامَ مَعَ قَوْمِهِ عَلَى الإِسْلامِ. فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ارْتَدَّثُمَّ رَجَعَ إِلَى الإِسْلامِ،قال: وقد كان عَمْرِو بْنِ مَعْدِ یَكْرِبَ شهد الْقَادِسِیَّةِ  مع الْمُسْلِمِینَ

عمروبن معدیکرب الزبیدی قبیلہ زبید کے دس آدمیوں  کے ساتھ مدینہ منورہ آئے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے توانہوں  نے اوروفدکے تمام اراکین نے اسلام قبول کرلیا،وفدچنددن مدینہ منورہ میں  مقیم رہاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  انعام دیااوروفداپنے وطن کوواپس لوٹ گیااوراپنی قوم کے ساتھ اسلام پرقائم رہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوگیاتوعمروبن معدیکرب فتنہ ارتدادمیں  ملوٹ ہوگئے، اس کے بعدپھراسلام کی طرف رجوع کیا(اس کے بعدعمرو  رضی اللہ عنہ بن معدی کرب نے اپنی زندگی کابیشترحصہ میدان جہادمیں  گزارا اوربڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے) عمروبن معدیکرب جنگ قادسیہ میں  مسلمان مجاہدین کے ساتھ تھے۔[7]

وَأَبْلَى یَوْمَ الْقَادِسِیَّةِ وَغَیْرِهَا

اورجنگ قادسیہ اوردوسری جنگوں  میں  خوب شجاعت کامظاہرہ کیا۔[8]

انہوں  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے عہد خلافت میں  جنگ نہاوندمیں  شہادت پائی۔

 فروہ  رضی اللہ عنہ بن مسیک مرادی کاقبول اسلام

دس ہجری میں  یمن کے قبیلہ مرادکے ایک شخص فروہ  رضی اللہ عنہ بن مسیک مرادی بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے ،وہ اپنے قبیلے کے معزز اور مقتدرلوگوں  میں  سے تھے اورایک قادرالکلام شاعربھی تھے،ابن اسحاق کابیان ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت میں  کندہ کے مرادی بادشاہوں  کے دربارسے وابستہ تھے،یوم الروم (زمانہ جاہلیت میں  بنومراداوربنوہمدان کے درمیان ایک خونریزجنگ ہوئی تھی جس میں  بنومرادکوشکست ہوئی اوران کے بہت سے آدمی مارے گئے،عرب میں  اس واقعہ نے یوم الروم(تباہی کادن)کے نام سے شہرت پائی)کے کچھ عرصہ بعدجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مبلغین کے ذریعے ان تک اسلام کی دعوت پہنچی تووہ شاہان کندہ کادربار چھوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے اوربارگاہ نبوی میں  حاضرہوکریہ شعرکہے۔

لَمَّا رَأَیْتُ مُلُوكَ كِنْدَةَ أَعْرَضَتْ،كَالرِّجْلِ خَانَ الرِّجْلَ عِرْقُ نَسَائِهَا

جب میں  نے بادشاہان کندہ کودیکھاکہ وہ اعراض کرتے ہیں ،جس طرح عرق النساء میں  ایک پاؤں  دوسرے پاؤں  سے اعراض کرتاہے

یَمَّمْتُ رَاحِلَتِی أَؤُمُّ مُحَمَّدًا،أَرْجُو فَوَاضِلَهَا وَحُسْنَ ثَرَائِهَا

تومیں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس قصدکرکے آیا،تاکہ ان کے اخلاق حسنہ سے بہرہ مندہوں

یَا فَرْوَةُ، هَلْ سَاءَكَ مَا أَصَابَ قَوْمَكَ یَوْمَ الرَّدْمِ؟فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ ذَا یُصِیبُ قَوْمَهُ مَا أَصَابَ قَوْمِی یَوْمَ الرَّدْمِ لَا یَسُوءُهُ ذَلِكَ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَمْ یَزِدْ قَوْمَكَ فِی الْإِسْلَامِ إِلَّا خَیْرًا

جب  فروہ  رضی اللہ عنہ  شرف اسلام سے بہرہ ورہوچکے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھااے فروہ!کیاتم کواس سانحہ سے دکھ ہواجوتمہاری قوم کویوم الردم میں  پیش آیا،انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کون ایساشخص ہوگاجس کی قوم پرایساسانحہ گزرجائے اوراس کوصدمہ نہ ہو؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنو!اس واقعہ سے تمہاری قوم کے لئے اسلام میں  اور خوبی پیداہوگئی۔

فَلَمَّا انْتَهَى إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا بَلَغَنِی: یَا فَرْوَةُ، هَلْ سَاءَكَ مَا أَصَابَ قَوْمَكَ یَوْمَ الرَّدْمِ؟قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ ذَا یُصِیبُ قَوْمَهُ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمِی یَوْمَ الرَّدْمِ لَا یَسُوءُهُ ذَلِكَ!فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُ: أَمَا إنَّ ذَلِكَ لَمْ یَزِدْ قَوْمَكَ فِی الْإِسْلَامِ إلَّا خَیْرًا،وَاسْتَعْمَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُرَادٍ، وَزُبَیْدٍ، وَمَذْحِجٍ كُلِّهَاوَبَعَثَ مَعَهُ خَالِدَ بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى الصَّدَقَةِ فَكَانَ مَعَهُ فِی بِلَادِهِ حَتَّى تَوَفَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک اورروایت میں  ہےجب یہ رسول اللہ کی خدمت اقدس میں  پہنچے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فروہ  رضی اللہ عنہ  سے پوچھااے  فروہ  رضی اللہ عنہ !کیاتم کووہ دن یادہے جب تمہارے قبیلے اور بنوہمدان کے درمیان جنگ ہوئی تھی؟انہوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کون ایساشخص ہوگاجس کی قوم پرایساسانحہ گزرجائے اوراس کوصدمہ نہ ہو،میرے تمام قریبی رشتہ داراس میں  مارے گئے تھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجولوگ زندہ بچ گئے ان کے لئے وہ واقعہ اچھا رہا ، فروہ  رضی اللہ عنہ  مدینہ منورہ سے چلنے لگے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  قبائل مراد،زبیداورمذحج کاعامل بنایااورخالد  رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص کوان کاشریک کار مقررفرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات تک وہ عامل صدقہ رہے [9]

فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلا أُقَاتِلُ مَنْ أَدْبَرَ مِنْ قَوْمِی بِمَنْ أَقْبَلَ مِنْهُمْ؟فَأَذِنَ لِی فِی قِتَالِهِمْ، وَأَمَرَنِی، فَقَالَ: ادْعُ الْقَوْمَ، فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ فَأَقْبَلَ مِنْهُ، وَمَنْ لَمْ یُسْلِمْ فَلا تَعْجَلْ حَتَّى أُحَدِّثَ إِلَیْك

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ  کہتے ہیں اس موقع پر فروہ  رضی اللہ عنہ  نے آپ سے اجازت طلب کی کہ اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میری قوم میں  جوشخص اسلام قبول کرنے سے انکارکرے کیامیں  اپنے ساتھیوں  کے ساتھ ان کامقابلہ کرسکتاہوں ؟آپ نے اجازت مرحمت فرمائی،اس کے بعدوہ وطن کی طرف روانہ ہوگئے لیکن ابھی تھوڑی ہی دورگئے ہوں  گے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس بلوابھیجااورہدایت فرمائی کہ تم اپنے قبیلے کواسلام کی دعوت دینا،جولوگ اس کوقبول کرنے پرآمادہ ہوں  انہیں  مسلمان بنانااورجوانکارکریں  ان کے بارے میں  میری دوسری ہدایت کاانتظارکرنا،اس ہدایت کے ساتھ فروہ وطن واپس پہنچے اوراپنے آپ کوہمہ تن تبلیغ اسلام کے لئے وقف کردیا۔[10]

وفدالرہاویین ازقبیلہ مذحج :

یہ لوگ بنومذحج کاایک بطن تھے اوریمن میں  رہتے تھے۔

قَالَ: قَدِمَ خَمْسَةَ عَشَرَ رَجُلا مِنَ الرَّهَاوِیِّینَ. وَهُمْ حَیٌّ مِنْ مَذْحِجٍ. عَلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  سَنَةَ عَشْرٍ، فَنَزَلُوا دَارَ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ،فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَحَدَّثَ عِنْدَهُمْ طَوِیلاوَأَهْدُوا لِرَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  هَدَایَا. مِنْهَا فَرَسٌ یُقَالُ لَهُ الْمِرْوَاحُ وَأَمَرَ بِهِ فَشُوِّرَ بَیْنَ یَدَیْهِ فَأَعْجَبَهُ،فَأَسْلَمُوا وَتَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَالْفَرَائِضَ وَأَجَازَهُمْ كَمَا یُجِیزُ الْوَفْدَ، أَرْفَعَهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَنَشًّا  وَأَخْفَضَهُمْ خَمْسَ أَوَاقٍ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى بِلادِهِمْ،ثُمَّ قَدِمَ مِنْهُمْ نَفَرٌ فَحَجُّوا مَعَ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فأوصى لهم بحاد مِائَةِ وَسْقٍ بِخَیْبَرَ فِی الْكَتِیبَةِ جَارِیَةٍ عَلَیْهِمْ وَكَتَبَ لَهُمْ كِتَابًا

دس ہجری کورہاویین کاایک پندرہ رکنی وفدبارگاہ رسالت میں  حاضرہوااور یہ سارے کے سارے قبیلہ مذحج سے تھے،اس وفدکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رملہ رضی اللہ عنہا  بنت حارث کے گھرپرٹھہرایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان لوگوں  کے پاس تشریف لائے اوربڑی دیرتک باتیں  کرتے رہے،ان لوگوں  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوچندتحائف بھی پیش کیے جن میں  ایک گھوڑابھی تھاجسےالمرواح کہا جاتا تھاآپ کے حکم سے اسے آپ کے سامنے سدھایاگیاتوآپ نے تعجب کااظہارفرمایا،وفدکے تمام اراکین نے اسلام قبول کرلیااورچنددن مدینہ منورہ میں  قیام پذیررہے،اس دوران انہوں  نے قرآن اورفرائض سیکھے،جب یہ لوگ رخصت ہونے لگے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  معمول کے مطابق عطیات سے نوازا، ان کے بڑے درجے والے کوساڑھے بارہ اوقیہ چاندی اورکم درجے والے کوپانچ اوقیہ چاندی عنایت فرمائی، پھروہ اپنے علاقے میں  واپس چلے گئے،حجةالوداع کے موقع پران کی ایک جماعت مدینہ منورہ آئی اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں  مکہ میں  حج کیاپھروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مدینہ طیبہ واپس آئی اوروہیں  قیام کیایہاں  تک کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی،ان کے لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکی پیداوارکے ایک سووسق کی وصیت کی اورایک دستاویزلکھواکرانہیں  مرحمت فرمائی۔[11]

قَالَ: وَفَدَ مِنَّا رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ عَمْرُو بْنُ سُبَیْعٍ إِلَى النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَأَسْلَمَ فَعَقَدَ لَهُ  رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لواء ،  فَقَاتَلَ بِذَلِكِ اللِّوَاءِ یَوْمَ صِفِّینَ مَعَ مُعَاوِیَة

ایک روایت میں  ہےاس وفدمیں  ایک آدمی عمرو  رضی اللہ عنہ بن سبیع بھی تھے وہ بطوروفدنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوایک جھنڈا عنایت فرمایا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ عرصہ تک حیات رہے،جنگ صفین میں  وہ امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ  کے لشکرمیں  شامل تھے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عطاکردہ علم کے ساتھ ہی لڑے۔[12]

وقال فی إتیانه النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  اپنی حاضری کے متعلق یہ اشعارکہے۔

إِلَیْكَ رَسُولَ اللهِ أَعْمَلْتُ نَصَّهَا ،تَجُوبُ الْفَیَافِیَ سَمْلَقًا بَعْدَ سَمْلَقِ

اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  نے سواری کارخ آپ کی جانب کردیاہے ۔جویکے بعددیگرے جنگل وبیابان کی صحرانووردی کررہی ہے

عَلَى ذَاتِ أَلْوَاحٍ أَكْلَفَهَا السَّرَى ،تَخُبُّ بِرَحْلِی مَرَّةً ثُمَّ تُعْنِقِ

وہ سواری جس پرلکڑی کی زین ہے میں  اس کوشب نوردیکی کی تکلیف دے رہاہوں  ،میراسامان اٹھائے ہوئے کبھی توجھک جاتی ہے اورکبھی گردن اونچی کرلیتی ہے

فَمَا لَكِ عِنْدِی رَاحَةٌ أَوْ تَلَجْلَجِی ،بِبَابِ النَّبِیِّ الْهَاشِمِیِّ الْمُوَفَّقِ

اے سواری میرے ہاں  تجھے اس وقت تک آرام نہیں  ملے گا،جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دروازے تک تونہ پہنچ جائے

عَتَقْتِ إِذًا مِنْ رِحْلَةٍ ثُمَّ رِحْلَةٍ ،وَقَطْعِ دَیَامِیمَ وَهَمٍّ مُؤَرَّقِ

وہاں  پہنچنے کے بعدپھرتوہرایک سفرسے رہاوآزادہوجائے گی،نہ تجھے کہیں  جاناپڑے گانہ ایسی زحمت ہوگی کہ رات بھربیداررہے۔

وفدبنی خثعم:

عام طورپراسے قحطانی قبیلہ کہاجاتاہے مگربقول بعض یہ عدنانی قبیلہ تھا،پہلے ان کی منازل جبال السراة(حجاز)میں  تھیں ،سدمارب ٹوٹنے کے بعدبنوازدنے ان سے جنگ کی اورانہیں  ان کی بستیوں  سے نکال دیا،اس کے بعدیہ یمن چلے گئے اورقحطانی مشہورہوگئے۔

وَفَدَ عَثْعَثُ بْنُ زَحْرٍ وَأَنَسُ بْنُ مُدْرِكٍ فِی رِجَالٍ مِنْ خَثْعَمَ إِلَى رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بعد ما هَدَمَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ ذَا الْخَلَصَةِ. وَقُتِلَ مَنْ قُتِلَ مِنْ خَثْعَمَ. فَقَالُوا: آمَنَّا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللهِ. فَاكْتُبْ لَنَا كِتَابًا نَتَّبِعُ مَا فِیهِ، فَكَتَبَ لَهُمْ كِتَابًا شَهِدَ فِیهِ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ وَمَنْ حَضَرَ

دس ہجری میں  جریربن عبداللہ کے ذوالخلصہ کوتوڑنے اورقبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں  کوقتل کرنے کے بعدوفد انس بن مدرک اورعثعث بن زحرقبیلہ خثعم کے چندآدمیوں  کے ہمراہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیاہم اللہ اوراس کے رسول پرایمان لاتے ہیں ،آپ ہمیں  ایک فرمان لکھ دیں  جس میں  لکھے ہوئے احکام کی ہم پابندی کریں ،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لئے ایسی ہی ایک تحریرلکھوادی جس پرجریر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بجلی اورجولوگ وہاں  موجودتھے انہوں  نے گواہی ثبت کی۔

ایک روایت میں  ہے کہ یہ تحریرجریر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ نے لکھی۔

وفدبنی عبس:

یہ قبیلہ قیس عیلان کی شاخ بنوغطفان کاایک بطن تھااورنجدمیں  آبادتھا،یہ قبیلہ عرب کے بڑے لڑاکاقبائل میں  شمارہوتاتھا،زمانہ جاہلیت میں  دوسرے قبیلوں  سے بنوعبس کی لڑائیاں  مدتوں  چلتی رہیں ان میں  داحس اورغبراوغیرہ کی لڑائیاں  تاریخ میں  مشہورہیں ۔

وفد على رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  تِسْعَةُ رَهْطٍ مِنْ بَنِی عَبْسٍ،فَكَانُوا مِنَ الْمُهَاجِرِینِ الأَوَّلِینَ. مِنْهُمْ: مَیْسَرَةُ بْنُ مَسْرُوقٍ.وَالْحَارِثُ بْنُ الرَّبِیعِ وَهُوَ الْكَامِلُ. وَقَنَانُ بْنُ دَارِمٍ. وَبِشْرُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عُبَادَةَ. وَهَدْمُ بْنُ مَسْعَدَةَ. وَسِبَاعُ بْنُ زَیْدٍ. وَأَبُو الْحِصْنِ بْنُ لُقْمَانَ. وَعَبْدُ اللهِ بْنُ مَالِكٍ وَفَرْوَةُ بْنُ الْحُصَیْنِ بْنِ فَضَالَةَ  فَأَسْلَمُوافَدَعَا لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بِخَیْرٍ وَقَالَ:ابْغُونِی رَجُلا یَعْشِرُكُمْ أَعْقِدْ لَكُمْ لِوَاءً،فَدَخَلَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ. فَعَقَدَ لَهُمْ لِوَاءً وَجَعَلَ شِعَارَهَمْ یَا عَشَرَةُ

دس ہجری میں  بنوعبس کاایک نورکنی وفدمدینہ منورہ آیایہ لوگ مہاجرین اولین میں  سے تھے،وفدمیں  میسرہ رضی اللہ عنہ بن مسروق، حارث بن ربیع ،یہی حارث کامل بھی کہلاتے تھے اورقنان بن دارم ، بشیربن الحارث بن عبادہ،اورہدم بن مسعدہ اورسباع بن زید،اورابوالحصن بن لقمان اورعبداللہ بن المالک اورفروہ بن الحصین بن فضالہ جیسے نامورعرب بھی شامل تھے،وفدکے تمام اراکین نے بارگاہ رسالت میں  حاضرہوکراسلام قبول کرلیا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لئے دعائے خیرکی،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا ایک اورآدمی تلاش کروجوتمہیں  دس کردے اورمیں  تمہارے لئے ایک جھنڈاباندھ دوں ،اتنے میں  طلحہ   رضی اللہ عنہ  بن عبیداللہ آگئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  جھنڈاعنایت فرمایا اور انکا شعار(نشان)اے دس کی جماعت مقررفرمایا۔[13]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَدِمَ ثَلاثَةُ نَفَرٍ مِنْ بَنِی عَبْسٍ عَلَى رسول الله صلى الله علیه وسلم فقالوا: إِنَّهُ قَدِمَ عَلَیْنَا قُرَّاؤُنَا فَأَخْبَرُونَا أَنَّهُ لا إِسْلامَ لِمَنْ لا هِجْرَةَ لَهُ وَلَنَا أَمْوَالٌ وَمَوَاشٍ هِیَ مَعَاشُنَا.فَإِنْ كَانَ لا إِسْلامَ لِمَنْ لا هِجْرَةَ لَهُ بِعْنَاهَا وَهَاجَرْنَا. [فَقَالَ رسول الله  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اتَّقُوا اللَّهَ حَیْثُ كُنْتُمْ فَلَنْ یَلِتَكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَیْئًا وَلَوْ كُنْتُمْ بِصَمَدٍ وَجَازَانَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  (اس واقعہ کے بعد) بنوعبس کے تین آدمی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے قاری ہمارے پاس آئے ہیں  اورانہوں  نے ہمیں  بتایاہے کہ جس نے ہجرت نہیں  کی اس کااسلام بھی کوئی نہیں ،ہمارے پاس اموال اورمویشی ہیں  اوروہی ہماری معاش کاذریعہ ہیں ، پس اگراس شخص کاکوئی اسلام نہیں  جس نے ہجرت نہیں  کی توہم اپنے مال مویشی فروخت کردیتے ہیں  اورہجرت کرآتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جہاں  بھی ہواللہ کا تقویٰ اختیارکرووہ تمہارے اعمال میں  ہرگزکمی نہیں  کرے گاخواہ تم صمد اور جازان(دومقام)میں  ہو۔[14]

سریہ خالد  رضی اللہ عنہ بن ولید(نجران کی طرف) ربیع الاول دس ہجری(جون ۶۳۱ء)

وفد بن الحارث بن کعب :

ایک روایت کے مطابق یہ قبیلہ بنوتمیم کی ایک شاخ تھااور یمن کے ضلع نجران کاایک نہایت معززاورجنگجوقبیلہ تھا،اس قبیلے کے بعض افرادنے عیسائیت قبول کرلی تھی اورانکاایک مستقل پادری بھی تھاانہوں  نے نجران کے کلیساکی تعمیرمیں  بھی خاصاحصہ لیاتھا،ایک روایت کے مطابق اس کے بعض افرادنے یہودیت بھی اختیارکرلی تھی ،جس زمانے میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس قبیلے کی شجاعت اور کامرانیوں  کی سارے عرب میں  دھوم مچی ہوئی تھی، سیدالامم   صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں  دوسرے قبائل کے ساتھ اس قبیلے کے لوگوں  کوبھی دعوت اسلام کا پیغام بھیجالیکن انہوں  نے اس دعوت کوقبول نہ کیا اور آپنے آبائی مذہب پرسختی سے جمے رہے یہاں  تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے گئے،غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ احزاب کے معرکے گزر چکے اورمکہ مکرمہ پر اسلامی پرچم بلندہوچکالیکن بنوحارث بن کعب کفروضلالت کی وادیوں  میں  بھٹکتے رہے۔

ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فِی شَهْرِ رَبِیعٍ الْآخِرِ أَوْ جُمَادَى الْأُولَى سَنَةَ عَشْرٍ إِلَى بَنِی الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ بِنَجْرَانَ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَدْعُوَهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، قَبْلَ أَنْ یُقَاتِلَهُمْ، ثَلَاثًا فَإِنِ اسْتَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَإِنْ لَمْ یَفْعَلُوا فَقَاتِلْهُمْ،فَخَرَجَ خَالِدٌ حتَّى قَدِمَ عَلَیْهِمْ، فَبَعَثَ الرُّكبان یَضْرِبُونَ فِی كُلِّ وَجْهٍ، وَیَدْعُونَ إِلَى الْإِسْلَامِ وَیَقُولُونَ: أَیُّهَا النَّاس: أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَأَسْلَمَ النَّاس وَدَخَلُوا فِیمَا دُعُوا إِلَیْهِ،فَأَقَامَ فِیهِمْ خَالِدٌ یُعَلِّمُهُمُ الْإِسْلَامَ وَكِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ إِنْ هُمْ أَسْلَمُوا وَلَمْ یُقَاتِلُوا ثُمَّ كَتَبَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم

آخرربیع الاول دس ہجری میں  سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد  رضی اللہ عنہ  بن ولیدکومجاہدین اسلام پرمشتمل ایک دستہ دے کر قبیلہ بنوحارث بن کعب کودعوت اسلام دینے کے لئے بھیجااوران کوحکم دیاکہ لڑائی سے پہلے وہ ان کوتین دن اسلام کی دعوت دیں اگروہ اسلام قبول کرلیں  توتم ان کااسلام قبول کرلو اگروہ اسلام قبول نہ کریں  توپھرجنگ کرو،چنانچہ یہ ہدایات حاصل کرکے خالد  رضی اللہ عنہ  نجران پہنچے اور چاروں  طرف مبلغ بھیجے جنہوں  نے ان کواسلام کی دعوت دی اوروہ تلقین کرتے تھےاے بنی حارث کے لوگو! اسلام لے آؤسلامت رہوگے، پس ان کی تلقین وتبلیغ سے سارے کاساراقبیلہ شرف اسلام سے بہرہ ورہوگیا،اور خالد  رضی اللہ عنہ بن ولیدوہیں  قیام پذیرہوکران لوگوں  کوقرآن مجیداورسنت رسول کی تعلیم دینے لگے،پھرخالد  رضی اللہ عنہ بن ولیدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں یہ خط لکھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

لمحمد النَّبیّ رسول الله مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ:

 السَّلام عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْكَ اللهُ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ:

 أَمَّا بَعْدُ یَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْكَ، فَإِنَّكَ بَعَثْتَنِی إِلَى بَنِی الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ، وَأَمَرْتَنِی إِذَا أَتَیْتُهُمْ أَنْ لَا أُقَاتِلَهُمْ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ، وَأَنْ أَدْعُوَهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أسلموا أقمت بهم و  قَبِلْتُ مِنْهُمْ، وَعَلَّمْتُهُمْ مَعَالِمَ الْإِسْلَامِ وَكِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّهِ وَإِنْ لَمْ یُسْلِمُوا قَاتَلْتُهُمْ، وَإِنِّی قَدِمْتُ عَلَیْهِمْ فَدَعَوْتُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ كما أمرنی رسول، وَبَعَثْتُ فِیهِمْ رُكْبَانًا: [قَالُوا] یَا بَنِی الْحَارِثِ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَأَسْلَمُوا وَلَمْ یُقَاتِلُوا، وَأَنَا مُقِیمٌ بَیْنَ أَظْهُرِهِمْ آمُرُهُمْ بِمَا أَمَرَهُمُ اللهُ بِهِ وَأَنْهَاهُمْ عَمَّا نَهَاهُمُ اللهُ عَنْهُ وَأُعَلِّمُهُمْ مَعَالِمَ الْإِسْلَامِ وَسُنَّةَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى یَكْتُبَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم والسَّلام عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدنبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں خالدبن ولیدکی جانب سے۔

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پراللہ تعالیٰ کاسلام ،رحمت اوربرکت ہو۔

میں  آپ کے سامنے اللہ کی حمدبیان کرتاہوں  جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ۔

امابعد!اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  آپ نے مجھے بنی الحارث بن کعب کی طرف بھیجاتھااوریہ حکم دیاتھاکہ جب میں  ان کے پاس پہنچوں  توتین دن تک ان سے نہ لڑوں  اوران کواسلام کی دعوت دوں اگروہ اسلام قبول کرلیں  توان کے اسلام کوقبول کرلوں  اوران کواسلام کی تعلیمات ،کتاب اللہ اورسنت نبوی سے روشناس کراؤں  اوراگروہ اسلام قبول نہ کریں  تو ان سے جنگ کروں ،چنانچہ میں  ان کے پاس پہنچااوران کوتین روزتک اسلام کی دعوت دی اورچاروں  طرف یہ اعلان کرنے کے لئے سواردوڑائے کہ اے بنی حارث اسلام قبول کرلواسی میں  تمہاری سلامتی ہے ،انہوں  نے اسلام قبول کرلیااورجنگ سے گریزکیا،اب میں  ان کے یہاں  مقیم ہوں  اوراللہ تعالیٰ نے انہیں  جوحکم دیاہے اس کاحکم دے رہاہوں  اورجس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیاہے اس سے روک رہاہوں ،نیزمیں  انہیں اسلام کے احکام اورسنت نبوی کی تعلیم دے رہا ہوں  تاآنکہ آپ کی جانب سے مزیدہدایات موصول ہوں ۔

والسلام علیک یارسول اللہ ورحمة اللہ وبرکاتہ۔[15]

خالد  رضی اللہ عنہ بن ولیدکے خط کے جواب میں  سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مکتوب روانہ کیا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبیّ رَسُولِ اللهِ إِلَى خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ

سَلَامٌ عَلَیْكَ

فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْكَ اللهُ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ كِتَابَكَ جَاءَنِی مَعَ رَسُولِكَ یخبر أَنَّ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ قَدْ أَسْلَمُوا قَبْلَ أَنْ تُقَاتِلَهُمْ، وَأَجَابُوا إِلَى مَا دَعَوْتَهُمْ إِلَیْهِ مِنَ الْإِسْلَامِ، وَشَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا عبده وَرَسُولُهُ، وَأَنْ قَدْ هَدَاهُمُ اللهُ بِهُدَاهُ، فَبَشِّرْهُمْ وَأَنْذِرْهُمْ، وَأَقْبِلْ، وَلْیُقْبِلْ مَعَكَ وَفْدُهُمْ،

والسَّلام عَلَیْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

محمدالنبی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے خالد  رضی اللہ عنہ بن الولیدکے نام

السلام علیکم

میں  تمہارے ساتھ مل کر اس اللہ کی حمدوثنابیان کرتاہوں  جس کے سواکوئی معبودبرحق نہیں ۔

تمہارے قاصدکے ذریعے تمہاراخط ملاجس میں  بنی الحارث بن کعب کے بغیرجنگ وجدل کے اسلام لانے کی خبردی گئی ہے اوریہ کہ ان لوگوں  نے دعوت اسلام کوقبول کیا،اللہ کی وحدانیت کی شہادت دی اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی عبدیت اوررسالت کی گواہی دی اوریہ کہ اللہ نے ان کوراہ ہدایت سے سرفرازفرمایا ہے ، پس تم ان کواللہ کی خوشنودی کی بشارت دواوربصورت نافرمانی ڈراؤ،اب تم خودبھی لوٹ آؤاوراپنے ساتھ ان کاایک وفدبھی لیتے آؤ۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔[16]

فَأَقْبَلَ خَالِدٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَقْبَلَ مَعَهُ وَفْدُ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ، مِنْهُمْ قَیْسُ بن الحصین ذو الْغُصَّةِ، وَیَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَدَانِ، وَیَزِیدُ بْنُ الْمُحَجَّلِ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ قُرَادٍ  الزِّیَادِیُّ، وَشَدَّادُ بْنُ عُبَیْدِ  اللهِ الْقَنَانِیُّ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ الضِّبَابِیُّ ،فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَآهُمْ،قَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ الَّذِینَ كَأَنَّهُمْ رِجَالُ الْهِنْدِ؟قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کامکتوب گرامی موصول ہونے پرخالد  رضی اللہ عنہ بن ولیدنے بنوحارث بن کعب کاایک وفدتشکیل دیااوراس کوساتھ لے کرمدینہ منورہ حاضرہوگئے،بنوحارث بن کعب کے وفدمیں  قیس بن الحصین ذوالغصہ،شدادبن عبیداللہ القنانی،یزیدبن عبدالمدان،عبداللہ بن قراد الزیادی،یزیدبن محجل،عمروبن عبداللہ الضبابی اورکچھ دوسرے معززین قبیلہ شامل تھے،جب یہ لوگ بارگاہ نبوت میں  پیش ہوئے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  دیکھ کرفرمایایہ کس قوم کے لوگ ہیں  جوہندکے رہنے والے معلوم ہوتے ہیں ، عرض کیاگیا کہ وہ سب بنوالحارث بن کعب سے ہیں ،

فَلَمَّا وَقَفُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَلَّمُوا عَلَیْهِ وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ وَأَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّی رَسُولُ اللهِ،ثُمَّ قَالَ: أَنْتُمُ الَّذِینَ إِذَا زُجِرُوا اسْتَقْدَمُوا فَسَكَتُوا فَلَمْ یُرَاجِعْهُ مِنْهُمْ أَحَدٌاثُمَّ أَعَادَهَا الثَّانِیَةَ ثُمَّ الثَّالِثَةَ فَلَمْ یُرَاجِعْهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ، ثم أعادها الرابعة

جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مطلع ہوئے توانہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوسلام کیااورکہاکہ ہم گواہی دیتے ہیں  کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے رسول ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  بھی گواہی دیتاہوں  کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں  اورمیں  اللہ کارسول ہوں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونہایت عزت وتعظیم کے ساتھ ٹھہرایا،

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے سوال کیاکیاتم وہ لوگ ہوکہ جب تمہیں  للکارکرجنگ سے روکاجاتاتھاتوتم مقابلہ کے لئے آگے بڑھتے تھے،نہوں  نے خاموشی اختیارکرلی اوران میں  سےکسی نے آپ کوجواب نہ دیا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی بات دوبارہ،پھرسہ بارہ دہرائی مگران میں  سے کسی نے آپ کوجواب نہ دیاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چوتھی باراپنی بات دہرائی،

 قال یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَدَانِ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللهِ! نَحْنُ الَّذِینَ إِذَا زُجِرُوا اسْتَقْدَمُوا قَالَهَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ خَالِدًا لَمْ یَكْتُبْ إلی أنكم أسلمتم ولم تقاتلوا، لالقیت رؤوسكم تَحْتَ أَقْدَامِكُمْ،فَقَالَ یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَدَانِ: أَمَا وَاللهِ مَا حَمِدْنَاكَ وَلَاحَمِدْنَا خَالِدًا  قَالَ فَمَنْ حَمِدْتُمْ؟قَالُوا حَمِدْنَا اللهَ الَّذِی هَدَانَا بِكَ یَا رَسُولَ اللهِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْتُمْ ،ثُمَّ قَالَ: بِمَ كُنْتُمْ تَغْلِبُونَ مَنْ قَاتَلَكُمْ فِی الْجَاهِلِیَّةِ؟

تب یزیدبن عبدالمدان نے عرض کیاہاں  اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ہی وہ لوگ ہیں  کہ جب ہمیں  للکارکرجنگ سے روکاجاتاتھاتوہم اورآگے بڑھتے تھے،اس نے بھی یہ کلمہ چارمرتبہ دہرایا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرخالد  رضی اللہ عنہ بن ولیدتمہارے متعلق مجھے نہ لکھتے کہ تم نے بغیرجنگ کے اسلام قبول کرلیاہے تومیں  تمہارے سروں  کوتمہارے قدموں  میں  ڈال دیتا،یزیدبن عبدالمدان نے کہااللہ کی قسم !نہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعریف کی ہے اورنہ خالد  رضی اللہ عنہ  کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھرتم نے کس کی تعریف کی ہے ؟ انہوں  نے جواب دیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے اس اللہ کی تعریف کی ہے جس نے ہمیں  آپ کے ذریعے ہدایت نصیب فرمائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم نے درست کہا،چونکہ یہ بڑے بہادرتھے اورمقابل پرہمیشہ غالب رہتے تھے، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھازمانہ جاہلیت میں  جوتم سے لڑاوہ ہمیشہ مغلوب رہا ، اس کا کیا سبب تھا؟

قَالُوا: لَمْ نَكُ نَغْلِبُ أَحَدًا،قَالَ بلى، كُنْتُمْ تَغْلِبُونَ مَنْ قَاتَلَكُمْ،قَالُوا: كُنَّا نَغْلِبُ مَنْ قَاتَلَنَا یَا رَسُولَ اللهِ ،وَلَا نَبْدَأُ أَحَدًا بِظُلْمٍ،أَنَّا كُنَّا نَجْتَمِعُ وَلَا نَتَفَرَّقُ،قَالَ: صَدَقْتُمْ،ثُمَّ أمَّر عَلَیْهِمْ قَیْسَ بْنَ الْحُصَیْنِ ،قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْهِمْ بَعْدَ أَنْ وَلَّى وَفْدُهُمْ عَمْرَو بْنَ حَزْمٍ لِیُفَقِّهَهُمْ فِی الدِّین، وَیُعَلِّمَهُمُ السُّنة وَمَعَالِمَ الْإِسْلَامِ، وَیَأْخُذَ منهم صدقاتهم،وكتب له كتاب عَهِدَ إِلَیْهِ فِیهِ عَهْدَهُ وَأَمَرَهُ أَمْرَهُ

انہوں  نے کہاہم کسی پرغالب نہیں  آتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوتم سے جنگ کرتے تھے بے شک تم ان لوگوں  پرغالب آتے تھے، انہوں  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے جوجنگ کرتاتھاہم اس پرغالب آتے تھے ،انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے دو سبب ہیں ہم اپنی طرف سے کسی پرظلم وزیادتی کی ابتدانہیں  کرتے تھے،جب ہم پرکوئی لڑائی تھوپ دیتاتومیدان جنگ میں  ہم سیسہ پلائی ہوئی دیواربن جاتے تھے اورکبھی منتشرنہیں  ہوتے تھے،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم سچ کہتے ہو(جوفوج یاجماعت ان اصولوں  کے مطابق لڑے گی وہ ہمیشہ غالب رہے گی)۔کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں  قیام کرنے کے بعدجب یہ لوگ(ماہ شوال یاذی قعدہ دس ہجری) رخصت ہونے لگے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس  رضی اللہ عنہ  بن الحصین کوان کا امیرمقررفرمایااورعام اراکین وفدکودس دس اوقیہ اورقیس  رضی اللہ عنہ بن الحصین کوساڑھے بارہ اوقیہ چاندی مرحمت فرمائی،اوروفد کے جانے کے بعداپنے جاں  نثارعمرو  رضی اللہ عنہ بن حزم انصاری کوانہیں  دین سمجھانے اوراسلام کی بنیادی تعلیم اورسنت کی تعلیم دینے اوران سے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےانہیں  ایک تحریری فرمان عطافرمایاجس میں  فرائض ،حدود اورشریعت کے احکام درج تھے۔

وَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حَیْثُ بَعَثَهُ إِلَى الْیَمَنِ عَهْدًا یُعَلِّمُهُ فِیهِ شَرَائِعَ الإِسْلامِ وَفَرَائِضَهُ وَحُدُودَهُ. وَكَتَبَ أبی

ابن سعدنے اس فرمان کاذکراس طرح کیاہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو  رضی اللہ عنہ بن حزم کویمن بھیجتے وقت ایک عہدنامہ تحریرکروایاتھاجس میں  اسلام کے فرائض ، شریعت اور حدودکی تعلیم دی گئی تھی،اس کے کاتب ابی رضی اللہ عنہ (بن کعب انصاری)تھے۔[17]

اس فرمان کوجسے کتاب یاعہدنامہ بھی کہاجاتاہے متعددوجوہ کی بناپرانتہائی اہمیت کاحامل ہے اس لئے تاریخ اسلام میں  اسے بڑی اہمیت حاصل ہےکیونکہ اس میں  ایک طرف جہاں  اسلام کے بنیادی ارکان کے بارے میں  تفصیلات موجودہیں  وہاں  نظم مملکت کے سلسلے میں  بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے، اس لئے کہ اس میں  نہ صرف ایک حکمران کے ضروری اوصاف کی نشان دہی ہے بلکہ اس کے فرائض کی تفصیل بھی موجودہے،اس فرمان سے پتہ چلتاہے کہ بعض مواقع پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مناصب اورذمہ داریاں  سونپتے ہوئے عہدبھی لیاکرتے تھے،اس فرمان کامضمون یہ تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هَذَا بیان من الله ورسوله

یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ، عَقْدٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حِینَ بَعَثَهُ إِلَى الْیَمَنِ۔

أَمَرَهُ بِتَقْوَى اللهِ فی امره كلهفَإِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَالَّذِینَ هُمْ مُحْسِنُونَ۔وَأَمَرَهُ أَنْ یَأْخُذَ بِالْحَقِّ كَمَا أَمَرَ بِهِ اللهُ وَأَنْ یُبَشِّرَ النَّاسَ بِالْخَیْرِ، وَیَأْمُرَهُمْ بِهِ، وَیُعَلِّمَ النَّاسَ الْقُرْآنَ، وَیُفَقِّهَهُمْ فِی الدِّینِ، وَیَنْهَى النَّاسَ وَلایَمَسَّ أَحَدٌ الْقُرْآنَ إِلا وَهُوَ طَاهِرٌ۔وَیُخْبِرَ النَّاسَ بِالَّذِی لَهُمْ، وَبِالَّذِی عَلَیْهِمْ، وَیَلِینَ لِلنَّاسِ فِی الْحَقِّ، وَیَشْتَدَّ عَلَیْهِمْ فِی الظُّلْمِ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ كَرِهَ الظُّلْمَ وَنَهَى عَنْهُ وَقَالَ:أَلا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّالِمِینَ۔وَیُبَشِّرَ النَّاسَ بِالْجَنَّةِ وَبِعَمَلِهَا، وَیُنْذِرَ بِالنَّارِوَبِعَمَلِهَا، وَیَسْتَأْلِفَ النَّاسَ حَتَّى یَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ، وَیُعَلِّمَ النَّاسَ مَعَالِمَ الْحَجِّ وَسُنَّتَهُ وَفَرِیضَتَهُ وَمَا أَمَرَ اللهُ بِهِ فِی الْحَجِّ الأَكْبَرِ وَالْحَجِّ الأَصْغَرِ، وَهُوَ الْعُمْرَةُ، وَیَنْهَى النَّاسَ أَنْ یُصَلِّیَ أَحَدٌ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ صَغِیرٍ، إِلا أَنْ یَكُونَ ثَوْبًا وَاحِدًا یُثْنِی طَرفَهُ عَلَى عَاتِقِهِ، وَیَنْهَى أَنْ یَحْتَبِیَ أَحَدٌ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ یُفْضِی بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ، وَیَنْهَى أَلا یَعْقِصُ أَحَدٌ شَعْرَ رَأْسِهِ إِذَا عَفَا فِی قَفَاهُ، وَیَنْهَى إِذَا كَانَ بَیْنَ النَّاسِ هَیْجٌ عَنِ الدُّعَاءِ إِلَى الْقَبَائِلِ وَالْعَشَائِرِ، وَلْیَكُنْ دُعَاؤُهُمْ إِلَى اللهِ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ، فَمَنْ لَمْ یَدْعُ إِلَى اللهِ وَدَعَا إِلَى الْقَبَائِلِ وَالْعَشَائِرِ فَلْیُقْطَعُوا بِالسَّیْفِ حَتَّى یَكُونَ دُعَاؤُهُمْ إِلَى اللهِ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ، وَیَأْمُرَ النَّاسَ بِإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ وُجُوهَهُمْ وَأَیْدِیَهُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَأَرْجُلَهُمْ إِلَى الكعبین، ویمسحون برؤسهم كَمَا أَمَرَهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَرَهُ بِالصَّلاةِ لِوَقْتِهَا، وَإِتْمَامَ الرُّكُوعِ وَالْخُشُوعِ، وَیُغَلِّسَ بِالْفَجْرِ، وَیُهْجِرَ بِالْهَاجِرَةِ حِینَ تَمِیلُ الشَّمْسُ، وَصَلاةُ الْعَصْرِ وَالشَّمْسُ فِی الأَرْضِ مُدْبِرَةٌ، وَالْمَغْرِبُ حِینَ یُقْبِلُ اللیْلُ، لا تُؤَخَّرُ حَتَّى تَبْدُوَ النُّجُومُ فِی السَّمَاءِ، وَالْعِشَاءِ أَوَّلُ اللیْلِ وَیَأْمُرَ بِالسَّعْیِ إِلَى الْجُمُعَةِ إِذَا نُودِیَ لَهَا، وَالْغُسْلُ عِنْدَ الرَّوَاحِ إِلَیْهَا، وَأَمَرَهُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْمَغَانِمِ خُمُسَ اللهِ وَمَا كُتِبَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَةِ مِنَ الْعَقَارِ عُشْرُ مَا سُقِیَ الْبَعْلُ وَمَا سَقَتِ السماء ومما سَقَى الْغَرْبُ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَفِی كُلِّ عَشْرٍ مِنَ الإِبِلِ شَاتَانِ، وَفِی كُلِّ عِشْرِینَ مِنَ الإِبِلِ أَرْبَعُ شِیَاهٍ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنَ الْبَقَرِ بَقَرَةٌ، وَفِی كُلِّ ثَلاثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تبیع جذع أو جذعة، وفی كل أربعین مِنَ الْغَنَمِ سَائِمَةُ شَاةٍ، فَإِنَّهَا فَرِیضَةُ اللهِ الَّتِی افْتَرَضَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَةِ، فَمَنْ زَادَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ، وَأَنَّهُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ یَهُودِیٍّ أَوْ نَصْرَانِیٍّ إِسْلامًا خَالِصًا مِنْ نَفْسِهِ، وَدَانَ دِینَ الإِسْلامِ فَإِنَّهُ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، لَهُ مِثْلُ مَا لهم وعلیه مثل ما علیهم، ومن كان عَلَى نَصْرَانِیَّتِهِ أَوْ یَهُودِیَّتِهِ فَإِنَّهُ لا یُفْتَنُ عَنْهَا، وَعَلى كُلِّ حَالِمٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، دِینَارٌ وَافٍ أَوْ عَرَضُهُ ثِیَابًا، فَمَنْ أَدَّى ذَلِكَ، فَإِنَّ لَهُ ذِمَّةَ اللهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَمَنْ مَنَعَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ جَمِیعًا

صَلَوَاتُ اللهِ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَالسَّلَامُ عَلَیْهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ فرمان اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے ہے ۔

اے ایمان والو!اپنے عہدوں  کوپوراکرو،یہ وہ عہدنامہ ہے جونبی( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف سے عمرو  رضی اللہ عنہ بن حزم انصاری کویمن روانہ کرتے وقت تحریرکیاگیا۔

آپ نے ان کوحکم دیاکہ ہرمعاملہ میں  اللہ کے احکام کالحاظ رکھوکیونکہ اللہ ان لوگوں  کے ساتھ ہے جوتقویٰ اختیارکرتے ہیں  اورسیدھی راہ پرچلتے ہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کوحکم دیاکہ اللہ کے حکم کے مطابق جوحق بنتاہے وہ وصول کرو،لوگوں  کوکارخیرپربشارت دواوران پرعمل کی تلقین کرواورقرآن کی تعلیم دواوراس کی سمجھ ان میں  پیداکرو،لوگوں  کومنع کروکہ کویہ شخص بغیرطہارت (وضو)قرآن مجیدکوچھوئے،لوگوں  کوان کے حقوق وفرائض بتاؤ،حق وصول کرنے میں  نرمی کامعاملہ اوربرتاؤکرو،ظلم کے معاملہ میں  سختی سے داروگیرکروکیونکہ اللہ کوظلم ناپسندہے اوراس سے اس نے منع فرمایاہے چنانچہ ارشادہے،خبرداراللہ کی ظالموں  پرلعنت ہے،لوگوں  کوجنت اوراس کے اعمال پربشارت دواوردوزخ اوراس کے اعمال سے ڈراؤ،اورلوگوں  سے الفت ومحبت کابرتاؤکروکہ ان میں  دین کی سمجھ پیداہوجائے،لوگوں  کوحج کے بنیادی مسائل ،اس کے سنن وفرائض اوراداامرحج اکبر،حج اصغریعنی عمرہ کی تفصیلی احکام بتاؤ،لوگوں  کومنع کروکہ کوئی شخص بھی صرف ایک چھوٹے سے کپڑے میں  نمازنہ پڑھے الایہ کہ وہ ایک کپڑااتنابڑاہوکہ اس کے دونوں  کنارے کندھوں  کوڈھانپ لیں ،لوگوں  کواس سے منع کروکہ وہ ایک کپڑے میں  اس طرح اکڑوں  بیٹھیں  کہ ان کی شرم گاہ اوپرسے نظرآنے لگے،کوئی شخص اپنے سرکے بالوں  کاجوڑابناکراس گدی پرنہ لٹکائے،جب لوگوں  کے درمیان صلح ہونے لگے توکوئی شخص بھی اپنے قبیلہ اورخاندان کی جے نہ لگائےبلکہ سب کی پکارصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کے لئے ہو ، جواللہ کی طرف دعوت کوچھوڑکرقبائل اورخاندان کی طرف بلائے اس کاعلاج تلوارسے کیاجائے یہاں  تک کہ اس کی پکاراللہ وحدہ لاشریک کے لئے ہوجائے،لوگوں  کوحکم دیاجائے کہ وضواچھی طرح کریں  اوراپنے پورے چہرے پرپانی بہائیں  اورہاتھوں  کوکہنیوں  تک اورپیروں  کوٹخنوں  تک دھوئیں  اوراللہ کے حکم کے مطابق اپنے سرکامسح کریں  اوران کوحکم دیاکہ نمازوقت پراداکرو،رکوع پوری طرح کرواورنمازمیں  خشوع خضوع کاخیال رکھو،صبح کی نمازاندھیرے میں  پڑھواورظہرکی نماز آفتاب ڈھلنے سے پہلے اداکرلواورعصرکی نمازایسے وقت میں  پڑھی جائے کہ دھوپ ڈھل جائے اوررات کی آمدکے ساتھ ہی مغرب ادا کرلی جائے اور اسے ستاروں  کے آسمان میں  نمایاں  ہونے تک موخرنہ کیاجائے،عشاء رات کے اول وقت میں  پڑھی جائے،اورحکم دیاکہ جوں  ہی جمعہ کی اذان ہوفوراًجمعہ کے لئے نکل پڑناچاہیے،نمازجمعہ کے لئے روانہ ہونے سے پہلے غسل کیاجائےاورحکم دیاکہ مال غنیمت میں  اللہ کے لئے پانچواں  حصہ لیا جائے،جوزمین پانی کے کنارے ہویابارانی ہواس کی پیداوارمیں  دسواں  حصہ بطورزکوٰة فرض ہےجوزمین ڈول سے سیراب کی جائے اس پرنصف عشر ہے ، مویشیوں  میں  ہر دس اونٹوں  پردوبکریاں  ہیں  اورہربیس اونٹوں  پرچاربکریاں  ہیں ،ہرچالیس گایوں  پرایک گائے اورہرتیس گایوں  پرایک سالہ بچہ نر یا مادہ ، ہرچالیس بکریوں  پر جو جنگل میں  چرنے والی ہوں  ایک بکری ہے،یہ صدقات کے ذیل میں  اللہ کا مقررکردہ ہے جواس نے مومنین پرفرض کیاہے جو مزید خیرات کرے تواس کے لئے اورزیادہ اچھاہے،یہودونصاریٰ میں  سے جوخلوص دل سے ایمان لے آئے اوراسلام کو بطور دین قبول کرلے ،اس کا شمارمومنین میں  ہوگااوراس کے حقوق وفرائض وہی ہوں  گے جودیگرمسلمانوں  کے ہیں ،جویہودیت اورنصرانیت پرقائم رہناچاہئے اسے اس کے مذہب کے سلسلہ میں  کسی امتحان میں  نہ ڈالا جائے ،ان میں  سے ہرعاقل بالغ مردوعورت آزاداورغلام پرایک پورادیناریااس کی قیمت کاکپڑا،جویہ رقم اداکردے وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ (امان)میں  ہیں ،اورجویہ رقم اداکرنے سے انکارکرے اس کاشماراللہ اوراس کے رسول اورجملہ مومنین کے دشمنوں  میں  ہے۔

صلوة اللہ علی محمدوالسلام علیہ ورحمة اللہ وبرکاتہ۔۔[18]

فَرَجَعَ وَفْدُ بَنِی الْحَارِثِ إلَى قَوْمِهِمْ فِی بَقِیَّةٍ مِنْ شَوَّالٍ، أَوْ فِی صَدْرِ ذِی الْقَعَدَةِ فَلَمْ یَمْكُثُوا بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا إلَى قَوْمِهِمْ إلّا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ حَتّى تُوُفّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَحِمَ وَبَارَكَ وَرَضِیَ وَأَنْعَمَ

یہ وفدشوال یاذوالقعدہ کے شروع میں  اپنی قوم کی طرف واپس ہوا،واپسی کے بعدابھی چارماہ بھی نہ گزرے تھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم فانی سے رخصت ہوگئے ۔[19]

بیٹے ابراہیم کی وفات ربیع الاول دس ہجری(جون ۶۳۱ء)

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وُلِدَ لِیَ اللَّیْلَةَ غُلَامٌ فَسَمَّیْتُهُ بِأَبِی إِبْرَاهِیمَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى أُمِّ سَیْفٍ یَعْنِی امْرَأَةَ قَیْنٍ كَانَ یَكُونُ بِالْمَدِینَةِ یُقَالُ لَهُ أَبُو سَیْفٍ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارات کومیرالڑکا (جوام المومنین ماریہ رضی اللہ عنہا  کے بطن سے تولدہوئے تھے)پیداہواجس کانام میں  نے اپنے باپ ابراہیم کے نام پر رکھا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں ( دودھ پلانے کے لیے) ام سیف کے حوالے کردیاجوابوسیف نامی لوہارکی بیوی تھی،

فأعطاه لأم بُرْدَةَ خولة بِنْتِ الْمُنْذِرِ بْنِ زَیْدِ الأنصاری من بنی النجارة زَوْجُهَا الْبَرَاءُ بْنُ أَوْسِ بْنِ خَالِد من بنی النَّجَّارِ

ایک روایت میں  ہےاور انہیں  ام بردہ کے حوالے کردیاجس کا نام خولہ بنت منذربن زیدانصاری جوبنی نجازمیں  سے تھیں  اوربراء بن اوس بن خالدجوبنی نجارمیں  سے تھےکی بیوی تھیں ۔[20]

وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  قَدْ أَعْطَى أُمَّ بُرْدَةَ قِطْعَةَ نَخْلٍ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں   ام بردہ  رضی اللہ عنہا  کوکھجوروں  کا ایک قطعہ عطا فرمایا تھا۔[21]

(آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صاحبزادے کودیکھنے کے لئے ان کے ہاں  تشریف لے جایاکرتے تھے)

قَالَ: دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِی سَیْفٍ القَیْنِ، وَكَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِیمَ، فَقَبَّلَهُ، وَشَمَّهُ،فَانْطَلَقَ یَأْتِیهِ وَاتَّبَعْتُهُ، فَانْتَهَیْنَا إِلَى أَبِی سَیْفٍ وَهُوَ یَنْفُخُ بِكِیرِهِ، قَدِ امْتَلَأَ الْبَیْتُ دُخَانًافَأَسْرَعْتُ الْمَشْیَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا سَیْفٍ أَمْسِكْ ،جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمْسَكَ

معمول کے مطابق ایک مرتبہ ابوسیف کے ہاں  تشریف لے گئےاپنے صاحبزادے کواپنی گودمیں  لیاانہیں  پیارکیااورسونگھا(پھرواپس تشریف لے آئے)کچھ دنوں  بعدپھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ابوسیف کے گھرتشریف لے گئے میں  بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھا ،جب ابوسیف کے گھرپرپہنچے تووہ اپنی بھٹی دھونک رہے تھے جس سے گھردھواں  سے بھرگیاتھا،میں  دوڑکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آگے گیااورمیں  نےابوسیف سے کہابھٹی دھونکنا بندکرو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائےہیں  اورانہوں  نے بھٹی دھونکنی بندکردی،

فَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِیِّ، فَضَمَّهُ إِلَیْهِ، وَقَالَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَقُولَ ،فَقَالَ أَنَسٌ: لَقَدْ رَأَیْتُهُ وَهُوَ یَكِیدُ بِنَفْسِهِ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَجَعَلَتْ عَیْنَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: وَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللهِ؟فَقَالَ:یَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ،، ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى،فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ العَیْنَ تَدْمَعُ، وَالقَلْبَ یَحْزَنُ، وَلاَ نَقُولُ إِلَّا مَا یَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ یَا إِبْرَاهِیمُ لَمَحْزُونُونَ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے کومنگوایا(اس وقت وہ سولہ ماہ کے تھے)پھراس کواپنے گلے سے چمٹالیااوراللہ تعالیٰ کوجو منظورتھاوہ فرمایاانس  رضی اللہ عنہ نے کہامیں  نے اس بچے کودیکھاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنےدم چھوڑرہاتھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں  سے آنسوجاری ہو گئے،عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ بھی روتے ہیں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ تورحمت ہے(نوحہ نہیں )پھرفرمایاآنکھ رورہی ہے ،دل غمگین ہے لیکن ہم سوائے اس بات کے جس سے اللہ راضی ہوکوئی اوربات منہ سے نہیں  نکالیں  گے، اوراے ابراہیم ہم تمہارے فراق اور جدائیدگی میں  غمگین ہیں ۔[22]

وَغَسَّلَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ وَرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ والعباس جالسان  وَحُمِلَ مِنْ بَیْتِ أُمِّ بُرْدَةَ عَلَى سَرِیرٍ صَغِیرٍوَصَلَّى عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بِالْبَقِیعِ  وَكَبَّرَ أَرْبَعًافَقِیلَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللهِ. أَیْنَ نَدْفِنُهُ؟ قَالَ: عِنْدَ فَرَطِنَا عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ،وَرَأَى رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فُرْجَةً فِی اللبِنِ فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُسَدَّ، فَقِیلَ لِرَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فقال: أَنَّهَا لا تَضُرُّ وَلا تَنْفَعُ وَلَكِنْ تُقِرُّ عَیْنَ الْحَیِّ وَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا عَمِلَ عَمَلا أَحَبَّ اللهُ أَنْ یُتْقِنَه،قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بِحَجَرٍ فَوُضِعَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَرُشَّ عَلَى قَبْرِهِ الْمَاءُ

فضل بن عباس  رضی اللہ عنہ نے انہیں غسل دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورعباس  رضی اللہ عنہ  بیٹھے ہوئے تھے، ام بردہ  رضی اللہ عنہا کے گھرسے ایک چھوٹی سی چوکی پرجنازہ اٹھایاگیااوربقیع میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان پرنمازجنازہ پڑھی جس میں  چارتکبیریں  کہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !انہیں  کہاں  دفن کیاجائے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعثمان بن مظعون  رضی اللہ عنہ کے پہلومیں  دفن کرو،جب ان کی قبربرابرکی جانے لگی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اینٹ میں  کھڈے دیکھ کرفرمایاکہ اسے بندکردیاجائے،اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے گزارش کی گئی، توفرمایااس سے نہ نقصان پہنچتاہے اورنہ نفع ہوتاہے لیکن زندہ آدمی کی آنکھ اس سے ٹھنڈی ہوتی ہے، بندہ جب کوئی کام کرتاہے تواللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ اسے درست اورٹھیک طرح سے کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایاکہ قبرکے اوپرایک پتھررکھ دواورقبرپرپانی چھڑکو(یہ پہلی قبرتھی جس پرپانی چھڑکاگیا)۔[23]

عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:وَقَالَ: إِنَّ لَهُ ظِئْرًا تُتِمُّ رَضَاعَهُ فِی الْجَنَّةِ وَهُوَ صِدِّیقٌ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت میں  ان کے لئے ایک دودھ پلانے والی مقررکردی گئی ہے اوروہ صدیق ہے۔[24]

وَخَسَفَتِ الشَّمْسُ ذَلِكَ الْیَوْمَ. فَقَالَ النَّاسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِیمَ،فَقَالَ  رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إنها لا تَخْسِفُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَیَاتِهِ

جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی اسی دن(اتفاقاً)سورج گرہن ہوگیااس پرلوگوں  میں  یہ بات مشہورہوگئی کہ ابراہیم کی موت کے غم میں  سورج گرہن ہواہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکسی موت یاکسی کے پیداہونے پرگرہن نہیں  لگتا۔[25]

اس موقع پرمکمل خطبہ یہ ہے۔

أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سَلَّمَ، حَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، أُنْشِدُكُمْ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّی قَصَّرْتُ فِی شَیْءٍ مِنْ تَبْلِیغِ رِسَالَاتِ رَبِّی لَمَّا أَخْبَرْتُمُونِی بِذَلِكَ؟فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّكَ، وَنَصَحْتَ لِأُمَّتِكَ وَقَضَیْتَ الَّذِی عَلَیْكَ،  ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رِجَالًا یَزْعُمُونَ أَنَّ كُسُوفَ هَذِهِ الشَّمْسِ وَكُسُوفَ هَذَا الْقَمَرِ، وَزَوَالَ هَذِهِ النُّجُومِ عَنْ مَطَالِعِهَا لِمَوْتِ رِجَالٍ عُظَمَاءَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ كَذَّبُواوَلَكِنَّهَا آیَاتٌ مِنْ آیَاتِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى یَعْتَبِرُ بِهَا عِبَادُهُ فَیَنْظُرُ مَنْ یُحْدِثُ مِنْهُمْ تَوْبَةً

لوگو!میں  تمہیں  اللہ کاواسطہ دے کرپوچھتاہوں  کہ اگرمیں  نے پیغال الٰہی کے پہنچانے میں  کسی قسم کی کوتاہی کی ہوتومجھے بتلادو،ایک آدمی نے کھڑے ہوکرکہاہم گواہ ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کاپیغام ہم تک پہنچادیااوراپنی امت کی ہرطرح خیرخواہی کی ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حق اداکردیاہے،پھرفرمایاامابعد!بعض لوگ گمان کرتے ہیں  کہ سورج اورچاندکوجوگرہن لگتاہے یاستارے ٹوٹتے ہیں  یہ کسی بڑے آدمی کی موت سے تعلق رکھتے ہیں  حالانکہ یہ گمان قطعاًغلط ہے یہ تواللہ کی نشانیاں  ہیں  جس سے اس کے سمجھداربندے عبرت حاصل کرتے ہیں  اوران کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ یہ دیکھناچاہتاہے کہ کون گناہوں  سے توبہ کرتاہے،

وَایْمُ اللهِ لَقَدْ رَأَیْتُ مُنْذُ قُمْتُ أُصَلِّی مَا أَنْتُمْ لَاقُوهُ مِنْ أَمْرِ دُنْیَاكُمْ وَآخِرَتِكُمْ، وَإِنَّهُ  وَاللهُ أَعْلَمُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَى یَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كَذَّابًا آخِرُهُمُ الْأَعْوَرُ الدَّجَّالُ مَمْسُوحُ الْعَیْنِ الْیُسْرَى كَأَنَّهَا عَیْنُ أبی یحیى لِشَیْخٍ حِینَئِذٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، بَیْنَهُ وَبَیْنَ حُجْرَةِ عائشة، وَإِنَّهُ مَتَى یَخْرُجُ، فَسَوْفَ یَزْعُمُ أَنَّهُ اللهُ، فَمَنْ آمَنَ بِهِ وَصَدَّقَهُ وَاتَّبَعَهُ لَمْ یَنْفَعْهُ صَالِحٌ مِنْ عَمَلِهِ سَلَفَ، وَمَنْ كَفَرَ بِهِ وَكَذَّبَهُ لَمْ یُعَاقَبْ بِشَیْءٍ مِنْ عَمَلِهِ سَلَفَ، وَإِنَّهُ سَیَظْهَرُ عَلَى الْأَرْضِ كُلِّهَا إِلَّا الْحَرَمَ، وَبَیْتَ الْمَقْدِسِ، وَإِنَّهُ یَحْصُرُ الْمُؤْمِنِینَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیُزَلْزَلُونَ زِلْزَالًا شَدِیدًا

اوراللہ کی قسم !جب  سےمیں  نمازمیں  کھڑاہوں  میں  نے وہ تمام امور دیکھے جوتمہیں  دینااورآخرت میں  پیش آنے والے ہیں ،اللہ بہترجانتاہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں  آئے گی جب تک تیس جھوٹے (مدعیان نبوت)ظاہرنہ ہوں ،ان میں  آخری کذاب یک چشم دجال ہوگاجس کی بائیں  آنکھ چوپٹ ہوگی ابوتحیہ کی آنکھ کی طرح،ابوتحیہ ایک انصاری بوڑھاتھاجواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اورام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کے حجرہ کے درمیان بیٹھاہواتھاوہ ظاہرہوکرخدائی کادعوی کرے گاسوجس نے اس کی تصدیق اور پیروی کی اس کے تمام پچھلے اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں  گےاورجس نے اس دعوی کوجھٹلایااس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں  گے،وہ حرم اوربیت المقدس کے سواتمام زمین پرغالب آئے گا،وہ بیت المقدس میں  تمام مسلمانوں  کومحصورکرلے گاجہاں  انہیں  سخت مصیبتیں  جھیلنی پڑیں  گی،

ثُمَّ یُهْلِكُهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَجُنُودَهُ، حَتَّى إِنَّ جِذْمَ الْحَائِطِ أَوْ قَالَ أَصْلَ الْحَائِطِ، وَأَصْلَ الشَّجَرَةِ لَیُنَادِی: یَا مُسْلِمُ یَا مُؤْمِنُ هَذَا یَهُودِیٌّ، أَوْ قَالَ: هَذَا كَافِرٌ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، قَالَ: وَلَنْ یَكُونَ ذَلِكَ حَتَى تَرَوْا أُمُورًا یَتَفَاقَمُ بَیْنَكُمْ شَأْنُهَا فِی أَنْفُسِكُمْ وَتَسَاءَلُونَ بَیْنَكُمْ هَلْ كَانَ نَبِیُّكُمْ ذَكَرَ لَكُمْ مِنْهَا ذِكْرًا وَحَتَى تَزُولَ جِبَالٌ عَنْ مَرَاتِبِهَا ثُمَّ عَلَى أَثَرِ ذَلِكَ الْقَبْضُ

پھراللہ اسے اوراس کے لشکرکوہلاک کردے گاحتی کہ اس وقت ہردیوارسے آوازآئے گی کہ اے مسلمان،اے مومن !دیکھویہاں  ایک یہودی(یاکافر)ہے جلدی آؤ اور اسے قتل کردو،دجال کے خروج سے پہلے تم میں  بڑے بڑے فتنے برپاہوں  گے جن کے متعلق تم ایک دوسرے سے دریافت کروگے کہ کیانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی بابت کچھ ارشادفرمایاتھایانہیں ؟ان فتنوں  کی وجہ سے پہاڑ(جیسے اولوالعزم لوگ بھی)اپنی جگہوں  سے ٹل جائیں  گے اس کے بعدنوع انسانی کابس خاتمہ ہے ۔[26]

وَفِی هَذَا الْحَدِیثِ إبْطَالُ مَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ یَعْتَقِدُونَهُ مِنْ تَأْثِیرِ الْكَوَاكِبِ، قَالَ الْخَطَّابِیِّ: كَانُوا فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَعْتَقِدُونَ أَنَّ الْكُسُوفَ یُوجِبُ حُدُوثَ تَغَیُّرِ الْأَرْضِ مِنْ مَوْتٍ أَوْ ضَرَرٍ، فَأَعْلَمَ النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ اعْتِقَادٌ بَاطِلٌ، وَأَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ خَلْقَانِ مُسَخَّرَانِ لِلَّهِ تَعَالَى لَیْسَ لَهُمَا سُلْطَانٌ فِی غَیْرِهِمَا وَلَا قُدْرَةَ عَلَى الدَّفْعِ عَنْ أَنْفُسِهِمَا

علامہ شوکانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں عہدجاہلیت والے ستاروں  کی تاثیرکاجوعقیدہ رکھتے تھے اس حدیث سے اس کاابطال ہوتاہے، خطابی نے کہاکہ جاہلیت کے لوگ اعتقادرکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پرموت یانقصان کاحادثہ ہوتاہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بتلایاکہ یہ اعتقادباطل ہے اورسورج اورچانداللہ تعالیٰ کی دومخلوقات ہیں  جواللہ تعالیٰ کے تابع ہیں  ان کواپنے غیرمیں  کوئی اختیارنہیں  اورنہ وہ اپنے ہی نفسوں  سے کسی کودفع کرسکتے ہیں  (آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیساہی عقیدہ رکھتے ہیں ) ۔[27]

وَفِی كُلِّ شَیْءٍ لَهُ آیَةٌتَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَاحِدُ

حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی ہرچیزمیں  اس کی نشانی موجودہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلاہے۔[28]

عن ابن عمر، وَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  یَقُولُ: قَالَ: بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ الدَّجَّالُ، وَبَیْنَ یَدَیِ الدَّجَّالِ كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ أَوْ أَكْثَرُ . قُلْنَا: مَا آیَتُهُمْ؟ قَالَ:أَنْ یَأْتُوكُمْ بِسُنَّةٍ لَمْ تَكُونُوا عَلَیْهَا یُغَیِّرُوا بِهَا سُنَّتَكُمْ وَدِینَكُمْ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوهُمْ فَاجْتَنِبُوهُمْ وَعَادُوهُمْ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سناقیامت سے پیشترکانادجال ظاہرہوگااوراس سے پہلے تیس کے قریب دجال کذاب عرصہ شہودمیں  آئیں  گے،عرض کیاگیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ان کی علامت کیاہے؟ارشادفرمایاوہ تمہارے سامنے ایساطریقہ پیش کریں  گے جس پرتم پہلے نہ ہوگے،اوراس نئے طریقے سے تمہارے دین کوبگاڑدیں  گے سوجب ایسے شخصوں  کوپاؤ تو ان سے الگ رہواورانہیں  براجانو۔[29]

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلشلَّمَ:یَكُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، یَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِیثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِیَّاكُمْ وَإِیَّاهُمْ، لَا یُضِلُّونَكُمْ، وَلَا یَفْتِنُونَكُمْ

اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاآخری زمانے میں  دجال کذاب (جھوٹے نبی)ظاہرہوں  گے،وہ تمہارے سامنے ایسی ایسی باتیں  پیش کریں  گےجونہ صرف تم نے بلکہ تمہارے آباؤاجدادنے بھی نہ سنی ہوں  گے، خبردار!ان سے بچنااوراپنے دامن کوان سے محفوظ رکھنا مباداتمہیں  گمراہ کردیں  اورفتنہ میں  ڈال دیں  ۔[30]

[1] تاریخ طبری۱۳۸؍۳

[2]ابن سعد ۲۴۸؍۱،زادالمعاد۵۳۹؍۳،ابن ہشام۵۸۶؍۲،الروض الانف۴۸۱؍۷، دلائل النبوة للبیہقی۳۷۰؍۵

[3] شرح الزرقانی علی المواھب۱۶۲؍۵

[4] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۶۲؍۵،الاصابة فی تمییزالصحابة۲۳۹؍۱،اسدالغابة۲۴۹؍۱

[5] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وَعِیدِ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ مُسْلِمٍ بِیَمِینٍ فَاجِرَةٍ بِالنَّارِ۳۵۹

[6] ابن ہشام۵۸۳؍۲،تاریخ طبری ۱۳۲؍۳

[7] تاریخ طبری۵۷۶؍۳

[8] ابن سعد۲۴۸؍۱

[9] ابن ہشام ۵۸۳؍۲،الروض الانف ۴۸۰؍۷، دلائل النبوة للبیہقی ۳۶۸؍۵،البدایة والنہایة۸۳؍۵،تاریخ طبری ۱۳۵؍۳، اسدالغابة۳۴۳؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۳۷؍۴

[10] ابن سعد۳۸؍۱،اسدالغابة ۳۴۳؍۴، الاصابة فی تمییزاصحابة۲۸۲؍۵

[11] ابن سعد ۲۵۹؍۱

[12]اسدالغابة۲۱۴؍۴

[13] ابن سعد۲۲۵؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب۲۲۴؍۵

[14] ابن سعد ۲۲۶؍۱، زادالمعاد۵۸۵؍۳،عیون الآثر۳۲۱؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۲۴؍۵

[15] البدایة والنہایة۱۱۴؍۵،مجموعہ الوثائق۱۶۵؍۱

[16] البدایة والنہایة۱۱۴؍۵،مجموعة الوثائق۱۶۶؍۱

[17] ابن سعد۲۰۴؍۱

[18] تاریخ طبری ۱۲۶؍۳ ،ابن ہشام ۵۹۵؍۲،الروض الانف ۴۹۳؍۷،البدایة والنہایة ۸۹؍۵، دلائل النبوة للبیہقی ۴۱۳؍۵، مجموعة الوثائق ۲۰۷؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۱۴۷؍۴

[19] شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۳؍۵،ابن ہشام۵۹۴؍۲،الروض الانف ۴۹۳؍۷، عیون الآثر ۳۰۶؍۲، دلائل النبوة للبیہقی۴۱۲؍۵

[20] شرح الزرقانی علی المواھب۳۴۶؍۴

[21] ابن سعد۱۱۵؍۱

[22] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ۱۳۰۳، صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابُ رَحْمَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصِّبْیَانَ وَالْعِیَالَ وَتَوَاضُعِهِ وَفَضْلِ ذَلِكَ۶۰۲۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ ۳۱۲۶،دلائل النبوة للبیہقی۴۲۹؍۵،مسنداحمد۱۳۰۱۴

[23] ابن سعد ۱۱۵؍۱،عیون الآثر۳۵۹؍۲

[24]مسنداحمد۱۸۴۹۷، زادالمعاد ۵۱۵؍۵، البدایة والنہایة۳۵۹؍۲

[25] ابن سعد۱۱۵؍۱

[26] زادالمعاد۴۳۵؍۱

[27] نیل الاوطار ۳۸۸؍۳

[28] تفسیر الثعلبی ۳۲؍۳،تفسیرالرازی ۲۶؍۱،تفسیرالقرطبی۳۱۳؍۴

[29] المُعْجَمُ الكَبِیر للطبرانی۱۳۹۰۴، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۲۴۸۵،كنز العمال۳۸۳۸۰

[30] صحیح مسلم مقدمة الإمام مسلم رحمه الله بَابٌ فِی الضُّعَفَاءِ وَالْكَذَّابِینَ وَمَنْ یُرْغَبُ عَنْ حَدِیثِهِمْ۷،صحیح ابن حبان ۶۷۶۶،مسنداحمد۸۲۶۷، مشكاة المصابیح۱۵۴،مسند إسحاق بن راهویه۳۳۲،مستدرک حاکم۳۵۱، البدع والنهی عنها لابن وضاع۶۵، شرح السنة للبغوی۱۰۷، شرح مشكل الآثار للطاوی ۲۹۵۴، مسند أبی یعلى۶۳۸۴

Related Articles