ہجرت نبوی کا دسواں سال

نمازکسوف

نمازکسوف پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں  مگرزیادہ صحیح روایت یہ ہے کہ اس کی دورکعتیں  ہیں  اورہررکعت میں  دورکوع ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ قِیَامًا طَوِیلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ البَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِیلًا، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِیَامًا طَوِیلًا وَهُوَ دُونَ القِیَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِیلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قِیَامًا طَوِیلًا وَهُوَ دُونَ القِیَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِیلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِیَامًا طَوِیلًا وَهُوَ دُونَ القِیَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِیلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ، لاَ یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِهِ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِكَ، فَاذْكُرُوا اللَّهَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  سورج گرہن لگاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازپڑھی تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اتنالمباقیام کیاکہ اتنی دیرمیں  سورۂ بقرہ پڑھی جاسکتی تھی ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رکوع لمباکیااوراس کے بعدکھڑے ہوئے تواب کی مرتبہ بھی قیام بہت لمباتھالیکن پہلے سے کچھ کم پھرایک دوسرالمبارکوع کیاجوپہلے رکوع سے کچھ کم تھاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سجدہ میں  گئے،سجدہ سے اٹھ کرپھرلمباقیام کیالیکن پہلے قیام کے مقابلے میں  کم لمباتھاپھرایک لمبارکوع کیایہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلے میں  کم تھارکوع سے سراٹھانے کے بعدپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  بہت دیرتک کھڑے رہے اورقیام بھی پہلے سے مختصرتھاپھر(چوتھا)رکوع کیایہ بھی بہت لمباتھالیکن پہلے سے کچھ کم ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سجدہ کیا،اورنمازسے فارغ ہوئے توسورج صاف ہوچکاتھااس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ ارشادفرمایاکہ سورج اورچانددونوں  اللہ تعالیٰ کی نشانیاں  ہیں  اورکسی کی موت وزندگی کی وجہ سے ان میں  گرہن نہیں  لگتااس لیے جب تم کومعلوم ہوکہ گرہن لگ گیاہے تواللہ تعالیٰ کاذکرکرو۔[1]

ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُ عُرِضَ عَلَیَّ كُلُّ شَیْءٍ تُولَجُونَهُ، فَعُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّةُ، حَتَّى لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا أَخَذْتُهُ أَوْ قَالَ: تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا  فَقَصُرَتْ یَدِی عَنْهُ،لَقَدْ جِیءَ بِالنَّارِ، وَذَلِكُمْ حِینَ رَأَیْتُمُونِی تَأَخَّرْتُ، مَخَافَةَ أَنْ یُصِیبَنِی مِنْ لَفْحِهَ  وَحَتَّى رَأَیْتُ فِیهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ یَجُرُّ قُصْبَهُ فِی النَّارِ، كَانَ یَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ، فَإِنْ فُطِنَ لَهُ قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِی، وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ وَحَتَّى رَأَیْتُ فِیهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِی رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا

پھرفرمایاایسی کوئی چیز(دوزخ،جنت،قبروحشر)جس کاتم سے وعدہ کیاگیاہے نہیں  جومیں  نے اپنی اس نماز میں  نہ دیکھی ہو،میرے سامنے جنت بھی لائی گئی تم نے دیکھاہوگاکہ میں  نے اس کا خوشہ توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایاتھاپھرمیں  نے توڑنے کاارادہ ترک کردیاچنانچہ دوزخ میرے سامنے لائی گئی اورتم نے مجھے پیچھے ہٹتے دیکھاہوگااس ڈرسے کہ شاید آگ کی لپٹ مجھے لگ جائے، اوریہاں  تک قریب آئی کہ میں  نے اس میں  ٹیڑھے منہ کی لکڑی والے کودیکھاکہ وہ اپنی انتڑیوں  کوآگ میں  گھسیٹ رہاتھاوہ دنیامیں  حاجیوں  کاسامان اس طرح چوری کرتاتھاکہ وہ اپنی لکڑی سے کسی چیزکو اٹکاتا (یعنی چادرکپڑاوغیرہ)اگرمالک اس سے آگاہ ہوجاتاتوکہہ دیتاکہ یہ چیزمیری کھونڈی میں  اٹک گئی ہے اوراگرمالک غافل ہوگیاتولے کرچل دیتاتھااوریہاں  تک کہ میں  نے اس عورت کوبھی دوزخ میں  دیکھاجس نے بلی کوباندھ رکھاتھانہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ اپناپیٹ بھرے نہ خوداسے کھانے کودیتی تھی وہ خودزمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی تھی یہاں  تک کہ وہ بھوک سے مرگئی۔[2]

رضی اللہ عنہما نمازکسوف میں  تین،چاراورپانچ رکوع بھی منقول ہیں ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمٍ شَدِیدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِیَامَ، حَتَّى جَعَلُوا یَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاكَ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ

جابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  سورج گہن ہوااوران دنوں  بڑی سخت گرمی تھی ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے اصحاب کے ساتھ نمازپڑھی اوربہت لمباقیام کیایہاں  تک کہ لوگ گرنے لگے پھررکوع کیااورلمبارکوع کیاپھرسراٹھایااورلمبارکوع کیاپھررکوع کیااورلمباقیام کیاپھردوسجدے کیے،پھرکھڑے ہوئے اوراسی طرح کیا الغرض (دورکعت میں )چاررکوع ہوئے اورچارسجدے۔[3]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، ثَمَانَ رَكَعَاتٍ فِی أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب سورج گہن ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے( دورکعتوں  میں ) آٹھ رکوع کیے چارسجدے کیے۔ [4]

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ:انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ، فَقَرَأَ بِسُورَةٍ مِنَ الطُّوَلِ، وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ، وَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِیَةَ، فَقَرَأَ سُورَةً مِنَ الطُّوَلِ، وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ، وَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ جَلَسَ كَمَا هُوَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ یَدْعُو حَتَّى انْجَلَى كُسُوفُهَا

ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  سورج گہن ہوااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  نمازپڑھائی اورلمبی سورتوں  میں  سے ایک سورت کی قرات کی اورپانچ رکوع اوردوسجدے کیے، پھردوسری رکعت میں  کھڑے ہوئے اورلمبی سورتوں  میں  سے ایک سورت پڑھی اورپانچ رکوع اوردوسجدے کیے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  قبلہ ر ہوکر بیٹھے اوردعاکرتے رہے حتی کہ سورج صاف ہوگیا۔[5]

حكم الألبانی : ضعیف

شیخ البانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ ضعیف روایت ہے،

شیخ محمدصبحی نے اسے ضعیف کہاہے۔[6]

فقد رواه عبد الله بن أبی جعفر الرازی عن أبیه أیضا

اس کی سندمیں  عبد اللہ بن ابی جعفرالرازی(عیسی بن عبداللہ بن ماھان )روای مقال ہے۔[7]

رضی اللہ عنہما نمازی ہردورکوعوں  کے درمیان قرات کرے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى فِی كُسُوفٍ، قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسوف کی نماز پڑھائی قرأت فرمائی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی رکوع کیا پھر قرأت کرکے رکوع کیا پھر قرأت فرماکرکے رکوع کیا پھر سجدہ کیا ۔[8]

رضی اللہ عنہما ایک روایت میں  صرف ایک رکوع کاذکرہے۔

قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ: بَیْنَا أَنَا یَوْمًا وَغُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ نَرْمِی غَرَضًا لَنَا، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قَیْدَ رُمْحَیْنِ، أَوْ ثَلَاثَةٍ فِی غَیْرِ النَّاظِرِینَ مِنَ الْأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا  لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَیُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أُمَّتِهِ حَدَثًا، فَدَفَعْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ قَالَ: فَاسْتَقْدَمَ فَصَلَّى بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِی صَلَاةٍ قَطُّ، لَا یُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ، ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِی صَلَاةٍ قَطُّ، وَلَا یُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِی صَلَاةٍ قَطُّ، لَا یُسْمَعُ لَهُ صَوْتٌ قَالَ: ثُمَّ فَعَلَ فِی الرَّكْعَةِ الثَّانِیَةِ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّی الشَّمْسِ جُلُوسَهُ فِی الرَّكْعَةِ الثَّانِیَةِ قَالَ: فَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، وَشَهِدَ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

سمرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دفعہ میں  اورایک انصاری نوجوان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمبارک میں  نشانہ بازی کررہے تھے حتی کہ دیکھنے والے کی آنکھ میں  جب سورج افق سے دویاتین نیزے پرتھاتووہ سیاہ ہوگیاجیسے کہ تنومہ(گھاس)ہو،ہم میں  سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہاچلوآؤمسجدکی طرف چلیں  اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سورج کی اس کیفیت میں  امت کوضرورکوئی نئی بات تعلیم فرمائیں  گے،سوہم فوراًوہاں  پہنچ گئے (جیسے گویاہمیں  دھکیل دیاگیاہو)تووہاں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  گھرسے تشریف لائے ہوئے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آگے بڑھے اورنمازپڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نہایت طویل قیام کرایاایساکہ کبھی بھی نمازمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نہیں  کرایاتھا،ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آوازنہیں  سن رہے تھے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نہایت طویل رکوع کرایاجوکسی بھی نمازمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نہیں  کرایاتھاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آوازنہیں  سن رہے تھے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نہایت طویل سجدہ کرایا جو کسی بھی نمازمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  نہیں  کرایاتھاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آوازنہیں  سن رہے تھے ، پھردوسری رکعت میں  بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایساہی کیااوردوسری رکعت میں  بیٹھنے کے دوران میں  سورج صاف ہوگیاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام پھیراپھرکھڑے ہوئے ، اللہ کی حمدوثنابیان کی ، توحیداوراپنی عبدیت ورسالت کی شہادت دی۔[9]

تحقیق الألبانی:ضعیف

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَكَدْ یَرْكَعُ، ثُمَّ رَكَعَ، فَلَمْ یَكَدْ یَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ یَكَدْ یَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ یَكَدْ یَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ یَكَدْ یَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ یَكَدْ یَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ وَفَعَلَ فِی الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ نَفَخَ فِی آخِرِ سُجُودِهِ، فَقَالَ:أُفْ أُفْ، ثُمَّ قَالَ:رَبِّ، أَلَمْ تَعِدْنِی أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِیهِمْ؟ أَلَمْ تَعِدْنِی أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُونَ؟» فَفَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ، وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  سورج گہن لگاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیام کیا(اتنالمباقیام کیاکہ )لگتاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع نہیں  کریں  گے،پھررکوع کیا(اتنالمبارکوع کیاکہ)لگتاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع سے سرنہیں  اٹھائیں  گے،پھرسرمبارک اٹھایا(اتنالمباقیام کیاکہ)لگتاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سجدہ نہیں  کریں  گے (اتنالمباسجدہ کیاکہ)لگتاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سجدے سے سرنہیں  اٹھائیں  گے،پھرسراٹھایا(اوراتنی دیربیٹھے رہے کہ) لگتاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سجدے سے سرنہیں  اٹھائیں  گے،پھرسجدہ کیا(اتنالمباسجدہ کیاکہ) لگتاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سرنہیں  اٹھائیں  گے اوردوسری رکعت میں  بھی ایسے ہی کیااورآخری سجدے میں  زورزورسے سانس لینے لگے اوراف اف کی آوازنکالی،اورکہااے میرے رب!کیاتونے مجھ سے وعدہ نہیں  کیاتھاکہ جب تک میں  ان میں  موجودہوں  ان کوعذاب نہیں  دے گا ، کیاتونے مجھ سے وعدہ نہیں  کیاتھاکہ جب تک یہ استغفارکرتے رہیں  گے توان کوعذاب نہ دے گا؟  الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نمازسے فارغ ہوئے توسورج صاف ہوچکاتھا۔[10]

حكم الألبانی: صحیح لكن بذكر الركوع مرتین كما فی الصحیحین

شیخ البانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ دورکوعوں  کے ذکرکے ساتھ صحیح ہے جیساکہ صحیحین میں  ہے۔

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں  یہ لفظ ہیں

قَرَأَ سُورَتَیْنِ وَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسورتوں  کی قرات کی اوردورکعت نمازادافرمائی۔[11]

مذکورہ حدیث کے الفاظ کے ساتھ بھی ایک رکوع کے جوازپراستدلال کیاجاتاہے لیکن یہ الفاظ ایک رکوع کے اثبات کے لیے صریح نہیں  ہیں ۔

الْجَوَابُ مِنْ ثَلَاثَةِ أَوْجُهٍ؛ أَحَدُهَا: أَنَّ أَحَادِیثَ تَكْرَارِ الرُّكُوعِ أَصَحُّ إسْنَادًا وَأَسْلَمُ مِنْ الْعِلَّةِ وَالِاضْطِرَابِ  ، الثَّانِی: أَنَّ رُوَاتَهَا مِنْ الصَّحَابَةِ أَكْبَرُ وَأَكْثَرُ وَأَحْفَظُ وَأَجَلُّ مِنْ سَمُرَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ؛ فَلَا تُرَدُّ رِوَایَتُهُمْ بِهَا، الثَّالِثُ: أَنَّهَا مُتَضَمِّنَةٌ لِزِیَادَةٍ فَیَجِبُ الْأَخْذُ بِهَا

علامہ ابن قیم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا جواب تین طریقوں  سے دیا جاسکتاہے پہلا یہ کہ تکراررکوع والی حدیث سندازیادہ صحیح ،علت واضطراب سے سالم، دوسرا یہ کہ کبارصحابہ سے مروی اورزیادہ (علم)پر مشتمل ہےبجز حدیث سمرہ اور نعمان بن بشیر کے رواة سے چنانچہ ان کی روایت کو اس کے مقابلے میں  رد نہیں  کیاجاسکتا،تیسرا یہ کہ انہی وجوہات پر انہیں  اختیارکرنازیادہ درست ہے [12]

xکسوف کے موقع پردعا،تکبیر،صدقہ اوراستغفارکرنامستحب ہے۔

فَإِذَا رَأَیْتُمُوهُمَا، فَادْعُوا اللَّهَ وَصَلُّوا حَتَّى یَنْجَلِیَ

مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں  ہے کہ نمازکسوف اداکرنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب ان کو گہن کی صورت میں  دیکھو تو اللہ کو پکارو اور نماز پڑھو یہاں  تک کہ صاف ہوجائے۔[13]

فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِكَ، فَادْعُوا اللَّهَ، وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں  ہےجب تم سورج گرہن دیکھوتواللہ تعالیٰ کا ذکر کرو،تکبیریں  کہو،نمازپڑھواورصدقہ کرو۔[14]

فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں  ہے جب تم اس(یعنی آفتاب وماہتاب گہن)سے کچھ بھی دیکھوتوفوراًاللہ تعالیٰ کاذکراس سے دعااوراستغفارشروع کردو۔[15]

xنمازکسوف باجماعت اداکرنا۔

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازکسوف کوباجماعت اداکیاہے جیساکہ مختلف روایات سے یہ بات ثابت ہے حتی کہ امام بخاری  رحمہ اللہ نے اس پرباب قائم کیاہے

  بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ جَمَاعَةً

نمازکسوف باجماعت اداکرنا۔

اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منادی بھیج کراعلان کروایا ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ مُنَادِیًا: بالصَّلاَةُ جَامِعَةٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمیں  سورج گہن ہوااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں  ایک پکارنے والے کوبھیجاکہ یوں  پکاردے کہ سب لوگ مل کرنمازاداکرو۔[16]

(نمازکسوف کے لیے اعلان عام تومستحب ہے مگرمعروف اذان واقامت نہیں  ہے) لہذایہ نمازباجماعت اداکرناہی افضل ہے تاہم جس روایت میں  وجوب پراستدلال کیا جاتا ہے وہ ضعیف ہے، جیساکہ ایک روایت میں  یہ لفظ ہیں

إِذَا رَأَیْتُمُوهَا فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلَاةٍ صَلَّیْتُمُوهَا مِنَ الْمَكْتُوبَةِ

جب تم یہ دیکھوتونمازپڑھوجیسے کہ تم نے ابھی قریبی فرض نمازپڑھی ہے ۔[17]

لم یسمعہ ابوقلابة عن قبیصة،انمارواہ عن رجل عن قبیصة۔حكم الألبانی: ضعیف

ابو قلابہ نے قبیصہ سے نہیں  سنا بلکہ روایت کچھ اس طرح سے ہے کہ کوئی آدمی قبیصہ سے روایت کرتاہے اور امام الالبانی رحمہ اللہ نے اس روایت ضعیف کہا ہے۔

xنمازکسوف میں  جہری قرات ہوگی یاسری۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، جَهَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلاَةِ الخُسُوفِ بِقِرَاءَتِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازکسوف میں  قرات بلندآوازسے کی ۔[18]

لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا

سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں  ہےہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آوازنہیں  سنتے تھے۔[19]

وہ ضعیف روایت ہے۔

إلَّا أَنَّ الْجَهْرَ أَوْلَى مِنْ الْإِسْرَارِ

امام شوکانی  رحمہ اللہ کہتے ہیں جہری قرات سری قرات سے زیادہ بہتر ۔[20]

وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الرَّاجِحُ الْمُعَوَّلُ عَلَیْهِ

عبدالرحمٰن مبارکپوری  رحمہ اللہ کہتے ہیں جہری قرات کاقول راجح ہے۔[21]

ما صح عنه  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من الجهر وما لم یصح عنه من الإسرار

شیخ البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  صحیح احادیث سے جہری قرات ہی ثابت ہے۔[22]

وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَابْنُ الْمُنْذِرِعَنْ الشَّافِعِیِّ وَمَالِكٍ وَأَبِی حَنِیفَةَ وَاللیْثِ بْنِ سَعْدٍ وَجُمْهُورِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُ یُسِرُّ فِی كُسُوفِ الشَّمْسِ، وَیَجْهَرُ فِی خُسُوفِ الْقَمَرِ

امام احمد رحمہ اللہ ،اسحاق رحمہ اللہ  ،ابن خزیمة  رحمہ اللہ اورابن منذر رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ،امام شافعی رحمہ اللہ  ،امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ اور لیث بن سعد اور جمہور فقہاء کایہی موقف ہے کہ سورج گہن کے موقع پرسری قرات اورچاندگہن کے موقع پرجہری قرات کی جائے گی ۔[23]

xنمازکسوف کے بعدخطبے کی شرعی حیثیت

نمازکسوف کے بعدخطبہ بھی مسنون ہے جیساکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی صحیح روایت میں  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازسے فراغت کے بعدوعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایا

فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللهِ، لاَ یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِهِ

سورج اورچانددونوں  اللہ تعالیٰ کی نشانیاں  ہیں  اورکسی موت وزندگی کی وجہ سے ان میں  گرہن نہیں  لگتا۔[24]

امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیاہے

بَابُ خُطْبَةِ الإِمَامِ فِی الكُسُوفِ

دوران کسوف امام کاخطبہ ارشادفرمانا(مسنون ہے)

اوراسی کے تحت نقل کیاہے

وَقَالَتْ عَائِشَةُ، وَأَسْمَاءُ: خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  اوراسماء  رضی اللہ عنہا  نے فرمایانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ ارشادفرمایا۔[25]

xنمازکسوف کے لیے آذان واقامت کہنا۔

نمازکسوف کے لیے آذان واقامت کہناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں  ہے۔

x کسوف سے اللہ کے بندوں  کوڈرانامقصود ہے۔

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ، لاَ یَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِهِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ تَعَالَى یُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ

ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسورج اورچانداللہ تعالیٰ کی نشانیاں  ہیں  انہیں  کسی کی موت یاحیات سے گہن نہیں  ہوتالیکن اللہ تعالیٰ ان دونوں  (آفتاب وماہتاب کے گہن)کے ذریعے اپنے بندوں  کوڈراتاہے۔[26]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ صَلَّى فِی الزَّلْزَلَةِ بِالْبَصْرَةِ فَأَطَالَ الْقُنُوتَ ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقُنُوتَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ صَلَّى الثَّانِیَةَ كَذَلِكَ، فَصَارَتْ صَلَاتُهُ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَقَالَ: هَكَذَا صَلَاةُ الْآیَاتِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زلزلے کے موقع پر چار سجدوں  اورچھ رکوعوں  کے ساتھ نمازپڑھی اورفرمایاآیات الٰہی کی نمازاسی طرح پڑھی جاتی ہے۔[27]

وفدبنی غسان:

یہ عظیم یمانی قبیلہ تھاعام طورپراسے کہلانی قحطانی کہاجاتاہے،سدمارب کے ٹوٹنے کے بعدیہ قبیلہ یمن سے نکل کرجزیرة العرب کے شمال مغربی سرحدی مقام پرآباد ہوگیا تھا اوروہاں  اپنی حکومت قائم کی تھی جورومیوں  کے زیراثرتھی اسی وجہ سے بنوغسان نے عیسائیت قبول کرلی تھی،ان کاآخری بادشاہ جبلہ بن انہیم تھا،علامہ سیدسلیمان ندوی نے اپنی کتاب ارض القرآن میں  ثابت کیاہے کہ بنوغسان قحطانی نہیں  بلکہ اسمٰعیلی تھے اور اسمٰعیل  علیہ السلام کے بیٹے نابت کی اولادسے تھے۔

قَالُوا: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم  فِی شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ عَشْرٍ. الْمَدِینَةَ. وَنَحْنُ ثَلاثَةُ نَفَرٍ. فَنَزَلْنَا دَارَ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَإِذَا وُفُودُ الْعَرَبِ كُلُّهُمْ مُصَدِّقُونَ بِمُحَمَّدٍ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَقُلْنَا فِیمَا بَیْنَنَا: أَیَرَانَا شَرَّ مَنْ یَرَى مِنَ الْعَرَبِ!  ثُمَّ أَتَیْنَا رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْنَا وَصَدَّقْنَا وَشَهِدْنَا أَنَّ مَا جَاءَ بِهِ حَقٌّ،وَلا نَدْرِی أَیَتْبَعُنَا قَوْمُنَا أَمْ لا ،فَأَجَازَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  بِجَوَائِزَ وَانْصَرَفُوا رَاجِعِینَ

کہتے ہیں ہم لوگ رمضان دس ہجری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس مدینہ منورہ آئے،ہم کل تین آدمی تھے اوررملہ بنت الحارث کے مکان پراترے،ہم نے دیکھاکہ عرب کے قبائل سب کے سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کی تصدیق کررہے تھے اس پرہم نے آپس میں  مشورہ کیاکہ عرب کے عقل مندلوگ کیاہمیں  اس نظرسے دیکھیں  گے کہ پورے عرب میں  ہم ہی برے ہیں  !  چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے  اسلام لائے ،تصدیق کی اورگواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جوکچھ لائے ہیں  سب حق ہے،ہم نہیں  جانتے تھے کہ ہماری قوم ہماری پیروی کرے گی یانہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  عطیات وتحائف سے نوازا،

فَقَدِمُوا عَلَى قَوْمِهِمْ فَلَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُمْ،فَكَتَمُوا إِسْلامَهُمْ حَتَّى مَاتَ مِنْهُمْ رَجُلانِ مُسْلِمَیْنِ،وَأَدْرَكَ وَاحِدٌ مِنْهُمْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَامَ الْیَرْمُوكِ فَلَقِیَ أَبَا عُبَیْدَةَ فَخَبَّرَهُ بِإِسْلامِهِ فَكَانَ یُكْرِمُهُ

اوریہ لوگ اسلام کی دولت سے مالامال ہو کر واپس آئے توقوم نے ان کی دعوت کوتسلیم نہ کیا،ان اصحاب نے شام جاکراپنی قوم سے اپنے اسلام کوپوشیدہ رکھاکیونکہ وہ نشہ حکومت میں  مست تھی ،یہ تینوں  نیک بخت آخردم تک اسلام پرقائم رہےان میں  سے دوآدمی تواسی حال میں  فوت ہوگئے، اورتیسرے شخص نے جنگ یرموک میں  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  بن خطاب کوپایاوہ ابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ سے جاملے اوران کواپنے اسلام کی اطلاع دی،ابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ ان کابہت اکرام واحترام کرتے تھے ۔[28]

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  کوگورنر مقررفرمانا:

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعِی رَجُلاَنِ مِنَ الأَشْعَرِیِّینَ، أَحَدُهُمَا عَنْ یَمِینِی وَالآخَرُ عَنْ یَسَارِی، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَاكُ، فَكِلاَهُمَا سَأَلَ، فَقَالَ:یَا أَبَا مُوسَى، أَوْ: یَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَیْسٍ قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالحَقِّ مَا أَطْلَعَانِی عَلَى مَا فِی أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا یَطْلُبَانِ العَمَلَ، فَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، فَقَالَ: لَنْ، أَوْ: لاَ نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنِ اذْهَبْ أَنْتَ یَا أَبَا مُوسَى، أَوْ یَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَیْسٍ، إِلَى الیَمَنِ

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا،میرے ساتھ اشعری قبیلے کے دوشخص تھے ایک میرے دائیں  طرف تھااوردوسرابائیں  طرف،اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسواک کررہے تھےدونوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے خدمت(یعنی حکومت اورعہدے کی) درخواست کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاابوموسیٰ یاعبداللہ بن قیس!(یہ کیا) میں نے اسی وقت عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے انہوں  نے مجھے نہیں  بتایاتھاکہ ان کے دل میں  کیاہے اورنہ مجھے یہ معلوم تھاکہ یہ عامل بنناچاہتے ہیں ،ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  جیسے میں  اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مسواک کودیکھ رہاہوں  وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہونٹ کے نیچے اٹھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہم اس کوعامل نہیں  بناتے جوعامل بننا چاہتا ہے (کیونکہ ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  ذی علم وذہین تھے اورانتظامی مہارت رکھتے تھے اس لئے فرمایا)ہاں  ابوموسیٰ یاعبداللہ بن قیس  رضی اللہ عنہ ! تم یمن کی حکومت پر جاؤ۔[29]

ملک یمن دوحصوں  میں  منقسم تھااورہرحصہ کومخلاف (صوبہ)کہا جاتاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  کویمن کے علاقہ زبیداور عدن کا حاکم مقررفرمایااور یمن کے دوسرے جندکاوالی معاذبن جبل کو مقررفرمایا ،یہ نہایت خوبصورت،بااخلاق اوربہت فراغ دست تھے اس لئے ان پرقرضوں  کابہت بارہوگیاتھا،یہ بھی قرآن کے بڑے عالم تھے  یَقُولُ: خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ فَبَدَأَ بِهِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم قرآن چارآدمیوں  سے سیکھوابن ام عبدکے بیٹے(عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما )، معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ ، ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ اورسالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ ۔[30]

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمبارک میں  یہ حضرات قرآن مجیدکے ماہرین خصوصی شمارکیے جاتے تھے ،اس لیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کااساتذہ قرآن مجیدکی حیثیت سے نامزد فرمایا۔

معاذبن جبل حلال وحرام کے بہت جاننے والے تھے،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْحَمُ أُمَّتِی بِأُمَّتِی أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِی دِینِ اللَّهِ عُمَرُ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: فِی أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ  وَأَصْدَقُهُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ، وَأَفْرَضُهُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِینًا، وَإِنَّ أَمِینَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری امت پرسب سے زیادہ رحم کرنے والے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  ہیں  اوراللہ کے احکام میں  زیادہ مضبوط اور سخت سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  ہیں  اورسب سے زیادہ حیامیں  سچے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  ہیں  اور سب سے زیادہ فرائض کاعلم رکھنے والے زیدبن ثابت  رضی اللہ عنہ ہیں  اوراللہ کی کتاب کی قرات میں  ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ ہیں اور حلال وحرام کے سب سے زیادہ عالم معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ ہیں ،ہرامت کاایک امین ہے اوراس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح  رضی اللہ عنہ  ہیں ۔ [31]

معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ  ان حضرات میں  سے تھے جوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں  ہی فتویٰ دیا کرتے تھے،

فأرسله رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الیمن، وقال: لعل الله یجبرك، ویؤدی عنك دینك

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  یمن روانہ فرمایا اور فرمایا اس طرح توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے نقصان کی تلافی فرمادے گااورتمہارے قرضہ جات ادافرمادے گا۔[32]

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا مُوسَى، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الیَمَنِ، قَالَ: وَبَعَثَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى مِخْلاَفٍ قَالَ: وَالیَمَنُ مِخْلاَفَانِ ،ثُمَّ قَالَ:یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ اورمعاذبن جبل  رضی اللہ عنہ کویمن کاحاکم بناکربھیجا،دونوں  صحابیوں  کواس کے ایک ایک صوبے میں  بھیجا،روانگی سے قبل آپ نے ان دونوں  کو تاکید فرمائی کہ آسانی سے کام لینااپنی رعیت پرتنگی نہ کرنا،خوشخبری سنانانفرت نہ دلانا (یعنی ایسی مشکلات نہ پیداکرناکہ لوگ اسلام سے نفرت کرنے لگیں )ایک دوسرے کی بات ماننا اورباہم اختلاف نہ کرنا۔[33]

معاذ  رضی اللہ عنہ بن جبل کومزیدنصیحتیں :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِینَ بَعَثَهُ إِلَى الیَمَنِ:إِنَّكَ سَتَأْتِی قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ یَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی كُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْهِمْ صَدَقَةً، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِیَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ اللَّهِ حِجَابٌ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ  رضی اللہ عنہ بن جبل کویمن کا(حاکم بناکربھیجتے وقت انہیں )مزید نصیحتیں  فرمائیں ،تم ایک اہل کتاب قوم کے پاس جارہے ہو (جب تم ان کے پاس پہنچو)توسب سے پہلے ان کویہ دعوت دیناکہ وہ اللہ کی وحدانیت اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دیں ،اگروہ یہ بات مان لیں  توان کوبتاناکہ اللہ نے ان پردن رات میں  پانچ نمازیں  فرض کی ہیں ،اگروہ یہ بات بھی تسلیم کرلیں  توانہیں  خبردیناکہ اللہ نے ان پرزکوٰة فرض کی ہے جوان کے مالداروں  سے لی جائے گی اوران ہی کے مساکین میں  تقسیم کی جائے گی،اگروہ یہ مان لیں  توان کے بہترین مال سے بچنااورمظلوم کی بددعاسے ڈرتے رہناکیونکہ اس کے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں  کوئی رکاوٹ نہیں  ہے۔[34]

قَوْلُهُ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ اسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ الْإِمَامَ هُوَ الَّذِی یَتَوَلَّى قَبْضَ الزَّكَاةِ وَصَرْفَهَا إِمَّا بِنَفْسِهِ وَإِمَّا بِنَائِبِهِ فَمَنِ امْتَنَعَ مِنْهَا أُخِذَتْ مِنْهُ قَهْرًا

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے کہا اس حدیث کے جملہ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰة امام وقت وصول کرے گااوروہی اسے اس کے مصارف میں  خرچ کرے گاوہ خودکرے یااپنے نائب سے کرائے اگرکوئی زکوٰة اسے نہ دے تووہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔[35]

وَإِنَّكَ سَتَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أهل الْكتاب، یسئلونك مَا مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ،فَقُلْ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ

ایک روایت میں  ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامعاذ  رضی اللہ عنہ !تم ایک اہل کتاب قوم کے پاس جارہے ہووہ تم سے جنت کی چابی کے متعلق سوال کریں  گے،ان کوبتاناکہ جنت کی چابی لاالٰہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ہے۔[36]

یہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جائے گی اورراستہ میں  اس کوکوئی چیزنہیں  روکے گی ،جوشخص قیامت کے دن یہ چابی صدق دل سے لایااس کے سب گناہ دھل جائیں  گے۔

فقال معاذ أرأیت ما سئلت عنه واختصم الىّ فیه مما لیس فى كتاب ولم أسمع منك عنه ،فقال تواضع لله یرفعك الله ولا تقضین الا بعلم فان أشكل علیك أمر فسل ولا تستحى واستشر ثم اجتهد فان الله عز وجل ان یعلم منك الصدق یوفقك فان التبس علیك فقف حتى تثبته أو تكتب الىّ فیه واحذر الهوى فانه قائد الاشقیاء الى النار وعلیك بالرفق

معاذ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ فرمائیں  اگرمجھ سے وہ بات پوچھی گئی جواللہ کی کتاب میں  نہیں  اورمیں  نے آپ سے بھی اس کے بارہ میں  اللہ کاکوئی حکم نہیں  سناتومیں  کیا کروں ؟   آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافروتنی اختیارکرنااللہ تمہاراسراونچاکرے گا،علم کے بغیرکوئی فیصلہ نہ کرنا،کوئی اشکال پیش آئے توپوچھ لیناشرم نہ کرنااوراہل علم سے مشورہ لینا پھر اپنی صوابدید سے کام لینااگرتمہاری نیت نیک ہوئی تواللہ تعالیٰ تمہیں  حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کی توفیق عطافرمائے گا،اگرمعاملہ واضع نہ ہوتوفیصلہ کرنے میں  جلدی نہ کرنا حتی کہ حق واضح ہوجائے یامجھ سے پوچھ لینا،اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرنے سے بچناکیونکہ یہ بدبخت انسانوں  کوآگ میں  لے جائے گی اورہرحالت میں  نرمی کو شعار بنانا۔[37]

قَالَ: لَمَّا بَعَثَنِی رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  إِلَى الْیَمَنِ قَالَ لِی: بِمَ تَقْضِی إِنْ عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟ قَالَ قُلْتُ: أَقْضِی بِمَا فِی كِتَابِ اللهِ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَكُنْ فِی كِتَابِ اللهِ؟قُلْتُ: أَقْضِی بِمَا قَضَى بِهِ الرَّسُولُ،قَالَ: فَإِنْ لَمْ یَكُنْ فِیمَا قَضَى بِهِ الرَّسُولُ؟قَالَ قُلْتُ: أَجْتَهِدُ رَأْیِی وَلا آلُو،قَالَ فَضَرَبَ صَدْرِی وَقَالَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لَمَّا یُرْضِی رَسُولُ اللهِ

ایک روایت میں  ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ  رضی اللہ عنہ  کویمن کی طرف بھیجاتوان سے پوچھاکوئی جھگڑاآئے توکس طرح فیصلہ کروگے؟معاذ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیامیں  اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں  گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرتمہیں اللہ کی کتاب میں  نہ ملے تو؟ عرض کیامیں  اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں  گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرسنت رسول میں  بھی نہ ملے ؟عرض کیاپھراپنے علم کے مطابق حق معلوم کرنے کی کوشش کروں  گااوراس میں  کسی طرح کی کمی نہیں  کروں  گایہ سن کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پرہاتھ مارااورفرمایااللہ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول کے قاصدکوصحیح فیصلہ کرنے کاطریقہ بتایاہے۔[38]

یہ روایت فقہاء کے نزدیک بہت زیادہ مشہورہے مگرحقیقت یہ ہے کہ سندکے لحاظ سے بالکل ضعیف ہے،ائمہ جرح وتعدیل میں  کوئی بھی اس کی تصیح نہیں  کرتا۔

اس کے ضعیف کے تین سبب گنوائے گئے ہیں

۱۔مرسل ہے،

۲۔اصحاب معاذمجہول ہیں ،

۳۔حارث بن عمرومجہول ہے ۔

قال البخاری: لا یصح، ولا یعرف إلا مرسلا

امام بخاری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں یہ صحیح نہیں  اورجتنے طرق معروف ہیں  سبھی مرسل ہیں ،

وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ: ھذاحدیث لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَیْسَ إِسْنَادُهُ عِنْدِی بِمُتَّصِلٍ

امام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  یہ حدیث بس اسی سندسے مروی ہے جومیرے نزدیک متصل نہیں  ہے،

والمرسل اصح

امام دارقطنی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس کامرسل ہوناہی صحیح ترہے،

لایصح لان الحارث مجھول وشیوخہ لایعرفون

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں  کیونکہ راوی حارث مجہول ہے اوراس کے شیوخ کی بھی خبرنہیں  کہ کون ہیں ،

لایصح

ابن طاہرکہتے ہیں   یہ صحیح نہیں  ہے ،

لایصح

ابن جوزی رحمہ اللہ  نے کہا یہ صحیح نہیں  ہے،

وانی لہ الصحة؟ومدارہ علی الحارث بن عمرووھومجہول عن رجال من اھل حمص لایدری من ھم

امام ذہبی  رحمہ اللہ  کہتے ہیں یہ حدیث کیوں  کرصحیح ہوسکتی ہے ؟ اس کا مدار حارث بن عمروپرہے اوروہ خودمجہول ہے ،اہل حمص سے روایت کرتاہے جن کی خبرنہیں  کہ وہ کون ہیں ۔

علاوہ ازیں  عقیلی ،سبکی اورابن حجر رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ،

علامہ البانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  معنوی اعتبارسے بھی اس میں  زبردست خلل ہے اس میں  معاذ  رضی اللہ عنہ کایہ قول بیان کیاگیاہے کہ پہلے کتاب اللہ سے فیصلہ کروں  گااگراس میں  نہ ملا تو پھر سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اگراس میں  بھی نہ ملاتوپھررائے استعمال کروں  گاحالانکہ یہ ترتیب اورقرآن وسنت کی تفریق کس طرح صحیح نہیں  بلکہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث وسنت کی طرف رجوع کرناواجب ہے کیونکہ سنت قرآن کریم کے مجمل کابیان کرتی ہے ،مطلق کی تقیید اورعموم کی تخصیص کرتی ہے الغرض یہ ترتیب صحیح نہیں  بلکہ ہرمسئلہ بیک وقت قرآن وسنت میں  تلاش کیاجائے پھرخیرالقرون صحابہ کرام،تابعین اورتبع تابعین کے فتاوی ومعمولات کودیکھاجائے اگرنہ ملے توصاحب علم کواستنباط واستدلال اوراجتہادکاحق حاصل ہے۔ [39]

عَنْ مُعَاذٍ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: لما بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْیَمَنِ، فَقَالَ:فَقَدْ بَعَثْتُكَ إِلَى قَوْمٍ رَقِیقَةٍ قُلُوبُهُمْ یُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ مَرَّتَیْنِ، فَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَكَ مِنْهُمْ مَنْ عَصَاكَ

معاذ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا میں  نے تمہیں  ایسی قوم کی طرف بھیجاہے جونرم دل ہیں پس تم اپنی اطاعت کرنے والوں  کوساتھ لے کراپنی حکم عدولی ونافرمانی کرنے والوں  سے جنگ کرنا۔[40]

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  کاشراب کے متعلق سوال :

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: بَعَثَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْیَمَنِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ شَرَابًا یُصْنَعُ بِأَرْضِنَا یُقَالُ لَهُ الْمِزْرُ مِنَ الشَّعِیرِ، وَشَرَابٌ یُقَالُ لَهُ الْبِتْعُ مِنَ الْعَسَلِ، فَقَالَ:كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اورمعاذبن جبل  رضی اللہ عنہ کویمن بھیجامیں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے علاقہ میں  جوسے شراب بنتی ہے جسے مزرکہتے ہیں  اورشہدکی شراب کوبتع کہتے ہیں اس کے متعلق کیاحکم ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہر نشہ والی شراب حرام ہے۔[41]جوچیزیں  کھانے کی ہوں  یاپینے کی نشہ ااورہوں  اس کااستعمال حرام ہے۔

عن ابن عباس قال:أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ لَمَّا بَعَثَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْیَمَنِ فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُوصِیهِ وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْشِی تَحْتَ رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ:یَا مُعَاذُ، إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِی بَعْدَ عَامِی هَذَا، وَلَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِی وَقَبْرِی ، فَبَكَى مُعَاذٌ خَشَعًا لِفِرَاقِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَبْكِ یَا مُعَاذُ، الْبُكَاءُ  أَوْ إِنَّ الْبُكَاءَ  مِنَ الشَّیْطَانِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ  رضی اللہ عنہ  کویمن روانہ کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کووداع کرنے کے لئے شہر سے باہرتشریف لے گئے،کیفیت یہ تھی کہ معاذ  رضی اللہ عنہ  سواری پرسوارتھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی سواری کے سایہ میں  پیدل چل رہے تھے اورآپ کونصائح وہدایات فرماتے جاتے تھے،جب ان نصائح سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے معاذ  رضی اللہ عنہ !غالباًتم اس سال کے بعدمجھ سے نہ مل سکوشایدتم میری قبراورمسجدپرآؤگے،یہ سن کرمعاذ  رضی اللہ عنہ  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی پر رودیئے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے معاذ  رضی اللہ عنہ مت رو،رونادھوناشیطان کاکام ہے۔[42]

قال الحافظ قال:واتفقوا على أن معاذا لم یزل على الیمن إلى أن قدم فی عهد أبی بكر، ثم توجه إلى الشام، فمات بها

پھرمعاذ  رضی اللہ عنہ برابریمن کے حاکم رہے یہاں  تک کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے دورخلافت میں  واپس آئےپھرشام کاسفر کیا اوروہیں  طاعون میں  مبتلاہوکر وفات پائی۔[43]

معاذ  رضی اللہ عنہ بن جبل اورابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ کایمن پہنچنا:

فَانْطَلَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى عَمَلِهِ وَكَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِذَا سَارَ فِی أَرْضِهِ كَانَ قَرِیبًا مِنْ صَاحِبِهِ أَحْدَثَ بِهِ عَهْدًا، فَسَلَّمَ عَلَیْهِ فَسَارَ مُعَاذٌ فِی أَرْضِهِ قَرِیبًا مِنْ صَاحِبِهِ أَبِی مُوسَى، فَجَاءَ یَسِیرُ عَلَى بَغْلَتِهِ حَتَّى انْتَهَى إِلَیْهِ، وَإِذَا هُوَ جَالِسٌ، وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَیْهِ النَّاسُ وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ قَدْ جُمِعَتْ یَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ  وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً ،فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ : یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ قَیْسٍ أَیُّمَ هَذَا؟قَالَ: هَذَا كَانَ یَهُودِیًّا فَأَسْلَمَ، ثُمَّ رَاجَعَ دِینَهُ دِینَ السَّوْءِ فَتَهَوَّدَ،قَالَ: لاَ أَنْزِلُ حَتَّى یُقْتَلَ

اس کے بعدوہ دونوں  اپنے اپنے کام پرروانہ ہوگئے،دونوں  میں  سے جب کوئی اپنے علاقے کادورہ کرتے کرتے اپنے ساتھی کے قریب پہنچ جاتاتوان سے تازی (ملاقات) کے لیے آتااورسلام کرتا،ایک مرتبہ معاذ  رضی اللہ عنہ بن جبل دورہ کرتے ہوئے ابوموسیٰ اشعری کے علاقہ کے قریب سے گزرے توابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  ان سے ملنے کے لئے ان کے علاقہ میں  آئے ،معاذ  رضی اللہ عنہ بن جبل اپنے خچرپرسوارتھے ، دیکھاکہ ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  بیٹھے ہوئے ہیں  اوران کے ادرگرد بہت سے لوگ جمع ہیں ،اوران میں  ایک آدمی کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں  ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ نے معاذ  رضی اللہ عنہ بن جبل کے لئے ایک گدابچھایا معاذ  رضی اللہ عنہ  نے اپنی سواری سے اترنے سے پہلے پوچھااے عبداللہ بن قیس  رضی اللہ عنہ  یہ کیامعاملہ ہے؟(اس شخص کے ہاتھ کیوں  باندھے گئے ہیں  ) ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ نے کہایہ شخص یہودی تھاپھر(اس نے اسلام قبول کیااور)مسلمان ہوگیا اور اب مرتد ہوگیا ہےمعاذ  رضی اللہ عنہ بولےمیں  اس وقت تک نہیں  اتروں  گاجب تک اسے قتل نہ کردیاجائے(معاذ  رضی اللہ عنہ کایہ کمال جوش ایمان تھاکہ مرتدکودیکھ کر فوراً ان کووہ حدیث یادآگئی جس میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے کہ جوکوئی اسلام سے پھرجائے اس کوقتل کردو،معاذ  رضی اللہ عنہ نے جب تک شریعت کی حدجاری نہ ہوئی اس وقت تک ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ کے پاس اترنااورٹھیرنابھی مناسب نہ سمجھا)

قَالَ: إِنَّمَا جِیءَ بِهِ لِذَلِكَ فَانْزِلْ،قَالَ: مَا أَنْزِلُ حَتَّى یُقْتَلَ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ ثُمَّ نَزَلَ فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللهِ، كَیْفَ تَقْرَأُ القُرْآنَ؟قَالَ: أَتَفَوَّقُهُ تَفَوُّقًا ،قَالَ: فَكَیْفَ تَقْرَأُ أَنْتَ یَا مُعَاذُ؟ قَالَ: أَنَامُ أَوَّلَ اللیْلِ، فَأَقُومُ وَقَدْ قَضَیْتُ جُزْئِی مِنَ النَّوْمِ، فَأَقْرَأُ مَا كَتَبَ اللهُ لِی، فَأَحْتَسِبُ نَوْمَتِی كَمَا أَحْتَسِبُ قَوْمَتِی

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  نے کہاآپ اتریں  توسہی وہ توقتل کرنے کے لیے ہی گرفتارکرکے لایا گیا ہے،معاذ  رضی اللہ عنہ  نے کہانہیں میں  اس وقت تک نہیں  اتروں  گاجب تک یہ قتل نہ ہوجائےپہلے اللہ اوراس کے رسول کاحکم نافذکرو(پھرمیں  اتروں  گا )الغرض ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ  نے اسے قتل کرادیا تب معاذ  رضی اللہ عنہ  خچرسے اترے دوران گفتگومعاذ  رضی اللہ عنہ  نے پوچھا اے عبداللہ رضی اللہ عنہ  !آپ قرآن کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں ؟ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ نے کہاوقفے وقفے سے تلاوت کرتا رہتا ہوں ، پھرابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ نے پوچھااے معاذ  رضی اللہ عنہ  تم کس طرح پڑھتے ہو؟معاذ  رضی اللہ عنہ  بولے میں  اول رات سوتا ہوں  پھر نیند کا حصہ پوراکرنے کے بعدقیام کرتاہوں  اور جتنا اللہ نے (تقدیر میں ) لکھ دیاہے پڑھ لیتاہوں ،میں  اپنی نیندکوبھی اسی طرح باعث ثواب سمجھتاہوں  جس طرح اپنے قیام کو ( یعنی سوتااس لئے ہوں  کہ قیام آسان ہواورنماز میں  اطمینان ونشاط حاصل ہو لہذا میراسونابھی نیکی ہے)۔[44]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

شعبان دس ہجری

وفدبنی خولان :

قبیلہ خولان یمن کے قحطانی قبائل میں  سے تھا،ان کاوطن صنعاء (یمن )کامشرقی علاقہ تھا۔

وَقَدِمَ عَلَیْهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شَهْرِ شَعْبَانَ سَنَةَ عَشْرٍ وَفْدُ خَوْلَانَ، وَهُمْ عَشَرَةٌ،وَأُنْزِلُوا دَارَ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ وَأَمَرَ بِضِیَافَةٍ ،فَقَالُوا:یَا رَسُولَ اللهِ، نَحْنُ عَلَى مَنْ وَرَاءَنَا مِنْ قَوْمِنَا، وَنَحْنُ مُؤْمِنُونَ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمُصَدِّقُونَ بِرَسُولِهِ،وَقَدْ ضَرَبْنَا إِلَیْكَ آبَاطَ الْإِبِلِ، وَرَكِبْنَا حُزُونَ الْأَرْضِ وَسُهُولَهَاوَالْمِنَّةُ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ عَلَیْنَا وَقَدِمْنَا زَائِرِینَ لَكَ

شعبان دس ہجری میں  بنوخولان کاایک دس رکنی مسلمان وفدبارگاہ نبوی میں  حاضرہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  رملہ بنت حارث کے مکان پرٹھہرایااوران کی خاطرمدارت کاحکم فرمایااورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ان لوگوں  کے سردارہیں  جنہیں  ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں ، ہم اللہ عزوجل پرایمان لاتے ہیں  اور اللہ کے رسول کی تصدیق کرتے ہیں ،ہم اونٹوں  پر طویل سفر طے کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت بابرکت میں  پہنچے ہیں ہم زمین کی سخت اورنرم جگہ پرچلے ہیں  ،اورہم پرتمام احسان اللہ اوراس کے رسول کاہے اورہم محض آپ کی زیارت کے لئے حاضرہوئے ہیں ،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُمْ مِنْ مَسِیرِكُمْ إِلَیَّ فَإِنَّ لَكُمْ بِكُلِّ خَطْوَةٍ خَطَاهَا بَعِیرُ أَحَدِكُمْ حَسَنَةً، وَأَمَّا قَوْلُكُمْ زَائِرِینَ لَكَ، فَإِنَّهُ مَنْ زَارَنِی بِالْمَدِینَةِ كَانَ فِی جِوَارِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ،قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا السَّفَرُ الَّذِی لَا تَوَى عَلَیْهِ،ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا فَعَلَ عَمُّ أَنَسٍ ،وَهُوَ صَنَمُ خَوْلَانَ الَّذِی كَانُوا یَعْبُدُونَهُ ،قَالُوا: أَبْشِرْ، بَدَّلَنَا اللهُ بِهِ مَا جِئْتَ بِهِ، وَقَدْ بَقِیَتْ مِنَّا بَقَایَا مِنْ شَیْخٍ كَبِیرٍ وَعَجُوزٍ كَبِیرَةٍ مُتَمَسِّكُونَ بِهِ، وَلَوْ قَدِمْنَا عَلَیْهِ لَهَدَمْنَاهُ إِنْ شَاءَ اللهُ، فَقَدْ كُنَّا مِنْهُ فِی غُرُورٍ وَفِتْنَةٍ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے میری زیارت کی خاطرسفرکی جوتکالیف اٹھائی ہیں  توجان لوکہ تمہارے لیے اونٹ کے ہرقدم پرایک نیکی ہے، اور تمہارایہ قول کہ تم محض میری زیارت کرنے کے لیے آئے ہوتوجان لوجس نے مدینہ طیبہ آکرمیری زیارت کی وہ قیامت کے دن میراہمسایہ ہوگا، انہوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرتواس زحمت میں  کوئی خسارہ نہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتم نے عم انس کاکیاکیا؟یہ قبیلہ خولان کا بت تھاجس کی وہ پرستش کیاکرتے تھے،انہوں  نے عرض کیاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خوش ہوجائیں  ،اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کادین عطافرمایاہے اورہم میں  سے ایک بوڑھااورایک بڑھیاباقی رہ گئے ہیں  جوابھی تک اسی کے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں ،اورجب ہم واپس جائیں  گے توان شاءاللہ اس کوتوڑپھوڑکراس کانام ونشان بھی باقی نہیں  چھوڑیں  گے، سچ تویہ ہے کہ ہم اس کی وجہ سے(ایک بڑے) فتنہ اور(خوبصورت)فریب میں  مبتلاتھے،

فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا أَعْظَمُ مَا رَأَیْتُمْ مِنْ فِتْنَتِهِ؟ قَالُوا: لَقَدْ رَأَیْتُنَا أَسْنَتْنَا حَتَّى أَكَلْنَا الرِّمَّةَ،  فَجَمَعْنَا مَا قَدَرْنَا عَلَیْهِ، وَابْتَعْنَا بِهِ مِائَةَ ثَوْرٍ وَنَحَرْنَاهَا  لِعَمِّ أَنَسٍ  قُرْبَانًا فِی غَدَاةٍ وَاحِدَةٍ وَتَرَكْنَاهَا تَرِدُهَا السِّبَاعُ ، وَنَحْنُ أَحْوَجُ إِلَیْهَا مِنَ السِّبَاعِ ، فَجَاءَنَا الْغَیْثُ مِنْ سَاعَتِنَا، وَلَقَدْ رَأَیْنَا الْعُشْبَ یُوَارِی الرِّجَالَ، وَیَقُولُ قَائِلُنَا: أَنْعَمَ عَلَیْنَاعَمُّ أَنَسٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم نے اس کاسب سے بڑافتنہ کیادیکھا؟کہنے لگے ہمیں  قحط سالی نے آن لیاحتی کہ ہم ہرناقص چیزتک کھاگئے،پھرہم نے حسب استطاعت مال جمع کیااوراس کے ایک سوبیل خریدے اورانہیں  عم انس کے نام پرایک ہی صبح کوذبح کردیااوردرندوں  کے لیے انہیں  وہیں  چھوڑدیا حالانکہ درندوں  کی نسبت ہم خودان کے زیادہ محتاج تھے، اتفاق سے اسی وقت بارش ہوگئی ہم نے دیکھاکہ لوگ اس بات کاچرچاکررہے ہیں  کہ یہ عم انس کاہم پرفضل اورانعام واحسان ہے،

وَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانُوا یَقْسِمُونَ لِصَنَمِهِمْ هَذَا مِنْ أَنْعَامِهِمْ وَحُرُوثِهِمْ، وَأَنَّهُمْ كَانُوا یَجْعَلُونَ مِنْ ذَلِكَ جُزْءًا لَهُ وَجُزْءًا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ قَالُوا: كُنَّا نَزْرَعُ الزَّرْعَ فَنَجْعَلُ لَهُ وَسَطَهُ، فَنُسَمِّیهِ لَهُ، وَنُسَمِّی زَرْعًا آخَرَ حُجْرَةً لِلَّهِ، فَإِذَا مَالَتِ الرِّیحُ فَالَّذِی سَمَّیْنَاهُ لِلَّهِ جَعَلْنَاهُ لِعَمِّ أَنَسٍ وَإِذَا مَالَتِ الرِّیحُ فَالَّذِی جَعَلْنَاهُ لِعَمِّ أَنَسٍ، لَمْ نَجْعَلْهُ لِلَّهِ،فَذَكَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ عَلَیَّ فِی ذَلِكَ

ان لوگوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ بھی بتلایاکہ ہم فصل بوتے تواس کاایک حصہ مقررکردیاکرتے تھے اوراس کانام رکھ دیتے تھےاور ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کر لیتے، پھرہم دوسراکھیت بوتے تواسے اللہ کے نام پرروک دیتے تھے،جب کبھی آندھی آتی اوراس کھیت کولپیٹ میں  لے لیتی جسے ہم نے عم انس کے نام سے منسوب کررکھاتھا تو ہم اللہ کے نام والی کھیتی کوعم انس کے نام کردیتے،اورجب کبھی دوسری کھیتی پرتباہی آتی توہم عم انس والی کھیتی کواللہ کے نام کی طرف منتقل نہ کرتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ نازل فرمایاہے۔

وَجَعَلُوْا لِلهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا۝۰ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللهِ۝۰ۚ وَمَا كَانَ لِلهِ فَهُوَیَصِلُ اِلٰی شُرَكَاۗىِٕهِمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۱۳۶ [45]

ترجمہ:ان لوگوں  نے اللہ کے لئے خوداسی پیداکی ہوئی کھیتیوں  اورمویشیوں  میں  سے ایک حصہ مقررکیاہے اورکہتے ہیں  یہ اللہ کے لئے ہے،بزعم خود،اوریہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں  کے لئے،پھرجوحصہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں  کے لئے ہے وہ تواللہ کونہیں  پہنچتامگرجواللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں  کوپہنچ جاتاتھا،کیسے برے فیصلے کرتے ہیں  یہ لوگ۔

قَالُوا: وَكُنَّا نَتَحَاكَمُ إِلَیْهِ فَیَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  تِلْكَ الشَّیَاطِینُ تُكَلِّمُكُمْ

اہل وفدنے کہاکہ ہم اس کے پاس اپنے جھگڑے لے جاتے تھے تویہ بولتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ شیاطین تھے جوتم سے باتیں  کیاکرتے تھے۔

وَسَأَلُوهُ عَنْ فَرَائِضِ الدِّینِ فَأَخْبَرَهُمْ وَأَمَرَهُمْ بِالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، وَحُسْنِ الْجِوَارِ لِمَنْ جَاوَرُوا، وَأَنْ لَا یَظْلِمُوا أَحَدًا قَالَ:فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ،ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ أَیَّامٍ یُوَدِّعُونَهُ فَأَمَرَ لَهُمْ بِجَوَائِزَ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَنَشٍّ،وَرَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ فَلَمْ یَحِلُّوا عُقْدَةً حَتَّى هَدَمُوا عَمَّ أَنَسٍ

اہل وفدنے فرائض دین کے متعلق دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  فرائض دین سکھائےاوربطورخاص یہ نصیحتیں  فرمائیں  عہد پورا کرو،امانت میں  خیانت نہ کرو،پڑوسیوں  سے اچھاسلوک کرو،کسی شخص پرظلم نہ کروکیونکہ قیامت کادن ظالم کے لئے اندھیری رات ثابت ہوگا،چندروزکے بعدجب وفد رخصت ہونے کے لیے حاضرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی انعام دینے کاحکم فرمایا، جب یہ لوگ اپنی قوم میں  واپس پہنچے تواپنے اسباب کی گرہ کھولنے سے پہلےعم انس کومنہدم کردیا۔[46]

سریہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب(یمن کی طرف) رمضان دس ہجری

قَالُوا: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلِیّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السّلَامُ فِی رَمَضَانَ سَنَةَ عَشْرٍ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أن یُعَسْكِرَ بِقُبَاءَ، فَعَسْكَرَ بِهَا حَتّى تَتَامّ أَصْحَابُهُ، فَعَقَدَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ لِوَاءً

رمضان دس ہجری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کوتین سومجاہدین پرامیرمقررفرماکر قحطانی عربی قبیلہ مذحج جوکہلان میں  سے ہے کی جانب روانہ کیااوران کے لیے جھنڈا تیارکیا ۔

حارث،بجیلہ اورخولان اس کی شاخیں  ہیں ۔[47]

أَخَذَ عِمَامَةً فَلَفّهَا مَثْنِیّةً مُرَبّعَةً فَجَعَلَهَا فِی رَأْسِ الرّمْحِ، ثُمّ دَفَعَهَا إلَیْهِ وَقَالَ: هَكَذَا اللّوَاءُ! وَعَمّمَهُ عِمَامَةً، ثَلَاثَةَ أَكْوَارٍ، وَجَعَلَ ذِرَاعًا بَیْنَ یَدَیْهِ وَشِبْرًا مِنْ وَرَائِهِ،قَالَ: امْضِ وَلَا تَلْتَفِتْ!فَقَالَ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَیْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ: إذَا نَزَلْت بِسَاحَتِهِمْ فَلَا تُقَاتِلْهُمْ حَتّى یُقَاتِلُوك ،فَإِنْ قَاتَلُوك فَلَا تُقَاتِلْهُمْ حَتّى یَقْتُلُوا مِنْكُمْ قَتِیلًا،فَإِنْ قَتَلُوا مِنْكُمْ قَتِیلًا فَلَا تُقَاتِلْهُمْ، تَلَوّمْهُمْ تُرِهِمْ أَنَاةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خوداپنے دست مبارک سے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے سر پر عمامہ باندھاجس کے تین پیچ تھے،عمامہ کاایک کنارہ بقدر ایک ہاتھ کے سامنے لٹکایا اوربقدرایک بالشت پیچھے چھوڑا،اورفرمایاکسی طرف توجہ منذول کرنے کے بجائے سیدھے یمن چلے جاؤ، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہاں  پہنچ کرمیں  کیاکروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب وہاں  پہنچوتوقتال نہ کرناتاوقتیکہ وہ تم سے قتال نہ کریں ،اگروہ تم سے قتال کریں  تواس وقت تک قتال شروع نہ کرناجب تک وہ تم سے شدیدنہ قتال کریں ،اگروہ تم سے شدید قتال کریں  تو ان سے قتال کی بجائے خودداری کا مظاہرہ دیکھاناہے،

ثُمّ تَقُولُ لَهُمْ: هَلْ لَكُمْ إلَى أَنْ تَقُولُوا لَا إلَهَ إلّا الله؟ فَإِنْ قَالُوا نَعَمْ فَقُلْ:هَلْ لَكُمْ أَنْ تُصَلّوا؟فَإِنْ قَالُوا نَعَمْ فَقُلْ: هَلْ لَكُمْ أَنْ تُخْرِجُوا مِنْ أَمْوَالِكُمْ صَدَقَةً تردُّونها عَلَى فُقَرَائِكُمْ؟فَإِنْ قَالُوا نَعَمْ، فَلَا تَبْغِ مِنْهُمْ غَیْرَ ذَلِكَ،وَاَللهِ، لَأَنْ یَهْدِی اللهُ عَلَى یَدِك رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَك مِمّا طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشّمْسُ أَوْ غَرَبَتْ!

توپھرانہیں  کہناکیاتم دعوت اسلام قبول کرتے ہو؟اگروہ یہ دعوت قبول کرلیں  توانہیں  کہناکیاتم نمازپڑھنے کے لیے تیارہو،اگروہ مان لیں  توکہناکیاتم اپنے اموال سے زکوٰة دینے کوتیارہوجوتمہارے محتاجوں  میں  تقسیم کردی جائے گی؟ اگروہ اس بات کوبھی قبول کرلیں  توپھران سے کوئی تعرض نہ کرنا،اللہ کی قسم!تیرے ہاتھ پر ایک شخص بھی ہدایت پاجائے تویہ دنیاومافیہاسے بہتر ہے،

قَالَ: فَخَرَجَ فِی ثَلَاثِمِائَةِ فَارِسٍ كَانَتْ خَیْلُهُمْ أَوّلَ خَیْلٍ دَخَلَتْ تِلْكَ الْبِلَادَ، فَلَمّا انْتَهَى إلَى أَدْنَى النّاحِیَةِ التی یرید وهی أرض مذحج فرّق أَصْحَابَهُ فَأَتَوْا بِنَهْبٍ وَغَنَائِمَ وَسَبْیٍ ونساءٍ وَأَطْفَالٍ وَنَعَمٍ وَشَاءٍ وَغَیْرِ ذَلِكَ، فَجَعَلَ عَلِیّ عَلَى الْغَنَائِمِ بُرَیْدَةَ بْنَ الْحُصَیْبِ، فَجَمَعَ إلَیْهِ مَا أَصَابُوا قَبْلَ أَنْ یَلْقَاهُمْ جَمْعٌ

ہدایت لیکرسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  تین سوسواروں  کے ساتھ روانہ ہوئے، یہ پہلالشکرتھاجوان بستیوں  میں  داخل ہوااوروہ بستی مذحج تھی اوراسی جگہ سے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے مجاہدین کی مختلف ٹولیاں  مختلف اطراف میں  روانہ کیں ، مجاہدین اسلام بہت سے اونٹ،بکریاں  ،عورتیں ا وربچے پکڑلائے،لوگوں  کوجوکچھ ملاان تمام غنائم کوایک جگہ جمع کردیا گیا اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نےبریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ  کومال غنیمت پرنگران مقررکیا،

ثُمّ لَقِیَ جَمْعًا فَدَعَاهُمْ إلَى الْإِسْلَامِ وَحَرّضَ بِهِمْ، فَأَبَوْا وَرَمَوْا فِی أَصْحَابِهِ ،وَدَفَعَ لِوَاءَهُ إلَى مَسْعُودِ بْنِ سِنَانٍ السّلَمِیّ فَتَقَدّمَ بِهِ، فَبَرَزَ رَجُلٌ مِنْ مَذْحِجَ یَدْعُو إلَى الْبِرَازِ، فَبَرَزَ إلَیْهِ الْأَسْوَدُ بْنُ الْخُزَاعِیّ السّلَمِیّ، فَتَجَاوَلَا سَاعَةً وَهُمَا فَارِسَانِ، فَقَتَلَهُ الْأَسْوَدُ وَأَخَذَ سَلَبَهُ ثُمّ حَمَلَ عَلَیْهِمْ عَلِیّ بِأَصْحَابِهِ فَقَتَلَ مِنْهُمْ عِشْرِینَ رَجُلًافَتَفَرّقُوا وَانْهَزَمُوا وَتَرَكُوا لِوَاءَهُمْ قَائِمًا

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کاایک جماعت سے سامناہواسیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے انہیں  دعوت اسلام پیش کی مگرجواب میں  وہ مجاہدین پر تیر اور پتھربرسانے لگے، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے اپناجھنڈامسعودبن سنان رضی اللہ عنہ  کودیااوراپنے ساتھیوں  کی صف بندی کی،ان کی جماعت میں  سے قبیلہ مذحج کے ایک شخص نے باہرنکل کرمسلمانوں  کودعوت مقابلہ دی اس کے مقابلہ میں  اسودبن خزاعی رضی اللہ عنہ  باہرنکلے اورایک ہی لمحے میں اسے قتل کردیااوراس کے ہتھیاروں  پر قبضہ کرلیا،اورپھرسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نےصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی صف بندی کرکےاہل مذحج پرحملہ کردیاجس میں  مشرکین کے بیس آدمی مارے گئے اوروہ لوگ شکست کھاکرمنتشر ہو گئے اور اپنے جھنڈے کو کھڑا چھوڑ گئے،

فَكَفّ عَنْ طَلَبِهِمْ وَدَعَاهُمْ إلَى الْإِسْلَامِ،فَسَارَعُوا وَأَجَابُوا، وَتَقَدّمَ نَفَرٌ مِنْ رُؤَسَائِهِمْ فَبَایَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَقَالُوا: نَحْنُ عَلَى مَنْ وَرَاءَنَا مِنْ قَوْمِنَا، وَهَذِهِ صَدَقَاتُنَا فَخُذْ مِنْهَا حَقّ اللهِ!قَالَ: وَجَمَعَ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ مَا أَصَابَ مِنْ تِلْكَ الْغَنَائِمِ فَجَزّأَهَا خَمْسَةَ أَجْزَاءٍ، فَأَقْرَعَ عَلَیْهَا، فَكَتَبَ فِی سَهْمٍ مِنْهَا لِلّهِ، فَخَرَجَ أَوَّلَ السِّهَامِ سَهْمُ الْخُمُسِ،وَقَسَّمَ عَلِیٌّ عَلَى أَصْحَابِهِ بَقِیَّةَ الْمَغْنَمِ،ثُمَّ قَفَلَ فَوَافَى النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , بِمَكَّةَ قَدْ قَدِمَهَا لِلْحَجِّ سَنَةَ عَشْرٍ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  ان کے تعاقب سے بازرہےاور ان کے پاس پہنچ کردوبارہ دعوت اسلام پیش کی تووہ دوڑے اوردعوت اسلام کوقبول کرلیاان کے رؤساءکی ایک جماعت نے اسلام پربیعت کرلی اورکہاکہ ہم لوگ اپنی قوم کے جوہمارے پیچھے ہے سردارہیں  یہ ہمارے صدقات ہیں  لہذاان میں  سے اللہ کاحق لے لیں ، بعد ازاں  سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے مال غنیمت کو جمع کیااورانہیں  پانچ حصوں  میں  تقسیم کیااوران میں  سے ایک حصہ پرلکھ دیااللہ کے لیے، سب سے پہلاخمس کاقرعہ نکلا سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے بقیہ مال غنیمت اپنے ساتھیوں  میں  تقسیم کر دیااورخمس کومدینہ بھیج دیا،اورکسی کو لشکر کا امیر مقرر کرکے عجلت کے ساتھ اپنے رفقاکے ساتھ حجةالوداع میں   شرکت کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئےاورحج میں  شریک ہو گئے ۔ [48]

وفدبنی غامد:

قبیلہ غامد،بنوازدکی ایک شاخ تھا،ان کی آبادیاں  عمان سے لے کرحجازتک پھیلی ہوئی تھیں  اورمختلف پہاڑی سلسلوں  اوروادیوں  کے درمیان منتشرتھیں ۔

قَالُوا: قَدِمَ وَفْدُ غَامِدٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ وَهُمْ عَشَرَةٌ فَنَزَلُوا بِبَقِیعِ الْغَرْقَدِ ثُمَّ لَبِسُوا مِنْ صَالِحِ ثِیَابِهِمْ، ثُمَّ انْطَلَقُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمُوا عَلَیْهِ وَأَقَرُّوا بِالْإِسْلَامِ ، وَقَالَ لَهُمْ:مَنْ خَلَّفْتُمْ فِی رِحَالِكُمْ؟فَقَالُوا: أَحْدَثَنَا یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَامَ عَنْ مَتَاعِكُمْ حَتَّى أَتَى آتٍ فَأَخَذَ عَیْبَةَ أَحَدِكُمْ

رمضان دس ہجری میں  بنوغامدکاایک دس رکنی وفدمدینہ منورہ پہنچا،اراکین وفدبقیع الغرقدمیں  ٹھہرے،اورسامان پرایک لڑکے کوچھوڑکراوراچھے کپڑے زیب تن کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضر ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوسلام کیااورقبول اسلام کی سعادت حاصل کی،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ سامان پرکس کوچھوڑا ہے ؟  انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک کم عمرلڑکے کوسامان کی حفاظت کے لئے چھوڑآئے ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تمہارے سامان سے غافل ہوکر سو گیا تھا یہاں  تک کہ ایک آنے والاآیااورتم میں  سے ایک کا تھیلہ چوری کرلیا،

فَقَالَ أَحَدُ الْقَوْمِ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا لِأَحَدٍ مِنَ الْقَوْمِ عَیْبَةٌ غَیْرِی،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَقَدْ أُخِذَتْ وَرُدَّتْ إِلَى مَوْضِعِهَا، فَخَرَجَ الْقَوْمُ سِرَاعًا، حَتَّى أَتَوْا رَحْلَهُمْ، فَوَجَدُوا صَاحِبَهُمْ، فَسَأَلُوهُ عَمَّا أَخْبَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم،قَالَ: فَزِعْتُ مِنْ نَوْمِی، فَفَقَدْتُ الْعَیْبَةَ، فَقُمْتُ فِی طَلَبِهَا، فَإِذَا رَجُلٌ قَدْ كَانَ قَاعِدًا، فَلَمَّا رَآنِی، فَثَارَ یَعْدُو مِنِّی فَانْتَهَیْتُ إِلَى حَیْثُ انْتَهَى فَإِذَا أَثَرُ حَفْرٍ، وَإِذَا هُوَ قَدْ غَیَّبَ الْعَیْبَةَ، فَاسْتَخْرَجْتُهَا

اراکین وفدمیں  سے ایک شخص بولااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے سوااس وفدمیں  کسی کاتھیلہ نہیں  ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاگھبراؤنہیں  وہ مل گیاہے اوراسے اپنی جگہ پرلوٹادیاگیاہے،اراکین وفدجلدی سےاپنے سامان کے پاس پہنچے تواس (نگران)سے معلوم ہواکہ اسی طرح واقعہ پیش آیاتھاجیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبردی تھی  اس نے بتلایامیں  گھبراکرنیندسے بیدارہواتومیں  نے تھیلہ گم پایامیں  اس کی تلاش میں  نکلااچانک مجھے دورایک آدمی بیٹھاہوانظرآیاجب میں  اس کی طرف بڑھاتووہ شخص مجھےدیکھ کربھاگ اٹھامیں نےاس مقام پرپہنچ کردیکھاکہ زمین میں  کھدائی کے نشانات تھے جس میں اس نے تھیلہ چھپادیاتھامیں  نے اس میں  سے تھیلہ برآمدکرلیا،

فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ، فَإِنَّهُ قَدْ أَخْبَرَنَا بِأَخْذِهَا، وَأَنَّهَا قَدْ رُدَّتْ،وَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُبَیَّ بْنَ كَعْبٍ فَعَلَّمَهُمْ قُرْآنًاوَكَتَبَ لَهُمْ رَسُولُ الله ِصَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا فِیهِ شَرَائِعُ الْإِسْلَامِ، وَأَجَازَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا یُجِیزُ الْوَفْدَ وَانْصَرَفُوا

ہم نے کہابیشک آپ اللہ کے رسول برحق ہیں  آپ نے اس کے مل جانے کی خبردی تھی اورواقعی یہ واپس مل بھی گیاہے،وفدنے چنددن مدینہ منورہ میں  قیام کیارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابی  رضی اللہ عنہ  بن کعب انصاری کوحکم فرمایاکہ وہ انہیں  قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہیں ،جب وفد مدینہ سے رخصت ہونے لگاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوایک تحریر عطا فرمائی جس میں  احکام شریعت درج تھے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معمول کے مطابق تمام اراکین کوعطیات سے نوازااوریہ واپس لوٹ گئے ۔[49]

وفدبنی بجیلہ:

عام طورپراسے قحطانی قبیلہ کہاجاتاہے لیکن جدیدتحقیق کے مطابق یہ عدنانی قبیلہ تھااسے بعض وجوہ کی بناپرمکہ سے نقل مکانی کرکے یمن جاناپڑالیکن بے خبری اورامتدادزمانہ کے باعث قحطانیوں  میں  ضم ہوگیا(سیرانصارجلداول)ظہوراسلام کے وقت ان کی آبادیاں  جبال السراة کے سلسلے میں  یمن اورحجازمیں  تھیں ،سدمارب ٹوٹنے کے بعد بنوازدنے ان سے جنگ کی اورانہیں  ان کی بستیوں  سے نکال دیااس کے بعدیہ یمن چلے گئے اورقحطانی مشہورہوگئے۔

قَالَ: قَدِمَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِیُّ سَنَةَ عَشْرٍ الْمَدِینَةَ وَمَعَهُ مِنْ قَوْمِهِ مِائَةٌ وَخَمْسُونَ رَجُلا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَطْلُعُ عَلَیْكُمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ مِنْ خَیْرِ ذِی یَمَنٍ عَلَى وَجْهِهِ مَسْحَةُ مَلَكٍ،فَقَالَ:یا جریر لای شئ جِئْتَ؟قلت:فَأَسْلَمُوا وَبَایَعُواقَالَ: فَأَلْقَى عَلَیَّ كِسَاءً ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: إِذَا أَتَاكُمْ كَرِیمُ قَوْمٍ فَأَكْرِمُوهُ،قَالَ جَرِیرٌ:فَبَسَطَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَبَایَعَنِی

رمضان دس ہجری میں  بنوبجیلہ کاایک سوپچاس رکنی وفدمدینہ منورہ آیااس وفدکے قائدان کے قبیلہ کے سردارجریر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ البجلی تھے(ان کے اجدادکسی زمانے میں  یمن کے فرمانرواتھے اس لئے ان کی رگوں  میں  شاہی خون تھااوروہ اپنے وطن میں  بڑی عزت واحترام کی نظرسے دیکھے جاتے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (ان لوگوں  کی آمدسے پہلے بطورپیشنگوئی حاضرین سے)فرمادیاتھاکہ اس وسیع راہ سے تمہیں  ایک بہترین بابرکت شخص نظرآئے گاجس کی پیشانی پرسلطنت کا نشان ہوگا،جب یہ وفدبارگاہ رسالت میں  پیش ہواتونبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکیسے آناہوا؟انہوں  نے عرض کیاہم اسلام قبول کرنے اوربیعت کے لئے حاضرہوئے ہیں ، یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے روئے انورپربشاشت پھیل گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے بیٹھنے کے لئے اپنی روائے مبارک بچھادی پھرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے مخاطب ہو کر فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کامعززآدمی آئے تواس کی عزت کرو، جریر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیعت لینے کے لئے اپنادست مبارک پھیلایا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات پربیعت لی ۔

وَقَالَ: عَلَى أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَأَنِّی رَسُولُ اللهِ وَتُقِیمَ الصَّلاةَ وَتُؤْتِیَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَنْصَحَ الْمُسْلِمَ وَتُطِیعَ الْوَالِیَ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّافَقَالَ: نَعَمْ، فَبَایَعَهُ

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتم ان امورکی گواہی دوگے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اوریہ کہ میں  اللہ کارسول ہوں ،نمازیں  جوتم پرفرض کی گئی ہیں  ان کی پابندی کروگےزکوٰة دوگے،رمضان کے روزے رکھوگے،مسلمانوں  کی خیرخواہی کروگےاوراپنے والی(امیر)کی اطاعت کروگے خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں  نہ ہو۔

جریر  رضی اللہ عنہ  نے بلاتامل عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  ان سب باتوں  کااقرارکرتاہوں ،اس پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیعت لے لی اوراس کے ساتھ ہی وفدکے دوسرے اراکین بھی کلمہ توحیدپڑھ کرحلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔[50]

ایک اعرابی کاقبول اسلام

قال: خرجنا مع رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فلما برزوا من المدینة إذا راكب یوضع نحونافقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كأن هذا الراكب إیاكم یرید قال: فانتهى الرجل إلینا فسلم فرددنا علیه،فقال له النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: من أین أقبلت؟قال: مِنْ أَهْلِی وولدی وَعَشِیرَتِی،قال:ما ترید؟قال: أرید رَسُولُ الله ،قال: قد أصبته

جریر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہےہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے،جب مدینہ طیبہ سے باہرنکل گئے توکیادیکھتے ہیں  کہ ایک سوارہماری طرف اپنی سواری بھگاتا چلا آرہا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایسامعلوم ہوتاہے کہ یہ ہمارے ہی پاس آرہاہے،اتنے میں  وہ آہی پہنچااورسلام کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے سلام کاجواب دیا،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے دریافت کیاکدھرسے آرہے ہو؟اس نے عرض کیابیوی ،بچوں  اوراپنے خاندان کے پاس سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھاکدھرکا قصد ہے؟اس نے عرض کیا میں  اللہ کے پیغمبرکی طرف جارہاہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم ٹھیک جگہ پرپہنچ گئے ہو،

قال:یا رَسُولُ الله، ما الإیمان؟قَالَ:تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،وأن محمدا رَسُولُ اللهِ ،وَتُقِیمُ الصَّلَاةَ، وتؤتی الزكاة، وَتَصُومُ رَمَضَانَ،وَتَحُجُّ الْبَیْتَ، قَالَ:قد أَقْرَرْتُ،قال: ثم إن بعیره دخلت رجله فی شبكة جرذان، فهوى بعیره وهوى الرجل فوقع على هامته فمات! فقال  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: علی بالرجل،فوثب إلیه عمار بن یاسر وحذیفة بن الیمان فأقعداه

اس نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ایمان کاچیزہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس بات کی گواہی دوکہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں  اور محمدبلاشبہ اللہ کے رسول ہیں    نمازکی پابندی کرو،اپنے پاکیزہ اموال میں  سے زکواٰة اداکرو،رمضان المبارک کے روزے رکھواوراللہ کے گھرکاحج کرو،اس نے عرض کیامیں  ان تمام باتوں  کااقرارکرتاہوں ، جریر  رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کہتے ہیں اس کے بعداس کے اونٹ کاپیرکسی جنگلی چوہے کے سوراخ میں  جاپڑاوہ اونٹ گرااورکھوپڑی کے بل وہ خودبھی جا گرا اور مر گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایااس شخص کوزرابلا کرلانا،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ اورحذیفہ رضی اللہ عنہ  اس کوبلانے کے لئے لپکےاس کوبیٹھایاتووہ مرچکاتھاتودیکھاکہ اس کی گردن ٹوٹ گئی ہے اوروہ مرچکاہے،

فقالا: یا رَسُولُ الله قبض الرجل!فأعرض عنهما وقال لهما رَسُولُ الله: أما رأیتما إعراضی عن الرجل؟ فإنی رأیت مَلَكَانِ یَدُسَّانِ فِی فَمِهِ ثِمَارَ الْجَنَّةِ ،فعلمت أنه مات جائعاثم قال  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هذا والله من اللذین، قال الله تعالى فیهم

انہوں  نے آکرعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اس کاتوانتقال ہوگیاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس شخص کے بجائے کسی اورسمت دیکھنے لگے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم نے دیکھاکہ میں  اس شخص کے بجائے دوسری طرف متوجہ ہو گیا تھا ؟میں  نے دیکھاتھاکہ دوفرشتے اس کے منہ میں  جنت کے میوے ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر میں  سمجھاکہ ضروریہ شخص بھوکامراہوگا، اس کے بعدفرمایااللہ کی قسم !یہ ان لوگوں  میں  سے ہے جن کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ [51]

ترجمہ:حقیقت میں  تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں  جو ایمان لائے اور جنھوں  نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں  کیا ۔

ثم قال: دونكم أخاكم ،فاحتملناه إلى الماء وغَسَّلْنَاهُ وَحَنَّطْنَاهُ وَكَفَّنَّاهُ وحملناه إلى القبر،فجاء  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فجلس على شفیر القبر، و قَالَ:احْفُرُوا لَهُ وَالْحِدُوا لَحْدًا فَإِنَّ اللحْدَ لَنَا وَالشَّقَّ لِغَیْرِنَاثُمَّ قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِحَدِیثِ هَذَا الرَّجُلِ؟ هَذَا مِمَّنْ عَمِلَ قَلِیلًا وَأُجِرَ كَثِیرًا

پھرفرمایااپنے بھائی کی تجہیزوتکفین کاانتظام کرو،ہم اسے اٹھاکرپانی کے پاس لائےغسل دیا،خوشبولگائی،کفن پہنایا اور قبر میں  دفن کے لئے اٹھاکرچلے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  قبر کے کنارے پرآکر بیٹھ گئے اور فرمایا بغلی بنانا صندوق نہ بنانا کیونکہ ہمارے لئے بغلی ہی مناسب ہےصندوق دوسروں  کے لئے ہے،پھرفرمایاکیامیں  تمہیں  اس شخص کے بارے میں  بتلاؤں ؟یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت قلیل کیاہے مگراجرکثیرکاحقداربن گیاہے۔[52]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کااعتکاف:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:كَانَ یَعْرِضُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ القُرْآنَ كُلَّ عَامٍ مَرَّةً، فَعَرَضَ عَلَیْهِ مَرَّتَیْنِ فِی العَامِ الَّذِی قُبِضَ فِیهِ، وَكَانَ یَعْتَكِفُ كُلَّ عَامٍ عَشْرًا، فَاعْتَكَفَ عِشْرِینَ فِی العَامِ الَّذِی قُبِضَ فِیهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجبرئیل  علیہ السلام  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہرسال ماہ رمضان میں  قرآن مجیدکاایک دفعہ دورہ کیاکرتے تھےلیکن جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی اس میں  انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ دومرتبہ دورہ کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہرسال دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔[53]

شوال دس ہجری

وفدسلاماں :

سلامان کانام سات قبائل پربولاجاتاتھا،جوسلامان بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے ان کاتعلق بنوقضاعہ سے تھایعنی وہ قضاعہ کابطن تھے ،یہ لوگ حجازکے شمال میں  آبادتھے ۔

قَدِمْنَا وَفْدَ سَلَامَانَ عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ سَبْعَةٌ فَصَادَفْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَارِجًا مِنَ الْمَسْجِدِ إِلَى جَنَازَةٍ دُعِیَ إِلَیْهَا فَقُلْنَا: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ،فَقَالَ: وَعَلَیْكُمْ. مَنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا: نَحْنُ مِنْ سَلَامَانَ قَدِمْنَا لِنُبَایِعَكَ عَلَى الْإِسْلَامِ وَنَحْنُ عَلَى مَنْ وَرَاءَنَا مِنْ قَوْمِنَا، فَالْتَفَتَ إِلَى ثَوْبَانَ غُلَامِهِ، فَقَالَ:أَنْزِلْ هَؤُلَاءِ الْوَفْدَ حَیْثُ یَنْزِلُ الْوَفْدُ

شوال دس ہجری میں  سلاماں  کے سات اراکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئےہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسجد نبوی کے باہر ملے وہ اس وقت کسی کے نماز جنازہ پر جارہے تھے، ہم نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !السلام علیک !آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا علیکم!تم کون لوگ ہو؟ہم نے عرض کیاہم بنوسلاماں  سے ہیں  اور بیعت اسلام کے لئے حاضر ہوئے ہیں ہم اپنی قوم کے پسماندہ لوگوں  کے بھی قائم مقام ہیں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلام ثوبان  رضی اللہ عنہ  کی طرف مڑے اورفرمایاکہ اس وفدکوبھی وہیں  اتاروجہاں  وفد اترتے ہیں ،

قَالَ حبیب: فَقُلْتُ: أَیْ رَسُولَ اللهِ، مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ؟قَالَ: الصَّلَاةُ فِی وَقْتِهَاوَصَلَّوْا مَعَهُ یَوْمَئِذٍ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، قَالَ: فَكَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ أَخَفَّ مِنَ الْقِیَامِ فِی الظُّهْرِ،  ثُمَّ شَكَوْا إِلَیْهِ جَدْبَ بِلَادِهِمْ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ: اللهُمَّ اسْقِهِمُ الْغَیْثَ فِی دَارِهِمْ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ارْفَعْ یَدَیْكَ فَإِنَّهُ أَكْثَرُ وَأَطْیَبُ

حبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے دریافت کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !افضل ترین عمل کونسا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوقت کی پابندی کے ساتھ نمازکواداکرنا،اہل وفدنے نمازظہراورعصرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ اداکی ،راوی کہتے ہیں  کہ عصرکی نمازظہرکی نمازسے خفیف تھی،پھراہل وفد نے قحط سالی کی شکایت کی،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ !ان کے گھروں  میں  بارش برسا،وفدکے ایک رکن حبیب  رضی اللہ عنہ  بن عمرونے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے مبارک ہاتھ زیادہ اٹھائیے تاکہ زیادہ اورخوب بارش ہو،

فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعَ یَدَیْهِ حَتَّى رَأَیْتُ بَیَاضَ إِبْطَیْهِ، ثُمَّ قَامَ وَقُمْنَا عَنْهُ، فَأَقَمْنَا ثَلَاثًا، وَضِیَافَتُهُ تَجْرِی عَلَیْنَا، ثُمَّ وَدَّعْنَاهُ  وَأَمَرَ لَنَا بِجَوَائِزَ، فَأَعْطَیْنَا خَمْسَ أَوَاقٍ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنَّا  وَاعْتَذَرَ إِلَیْنَا بلال، وَقَالَ: لَیْسَ عِنْدَنَا الْیَوْمَ مَالٌ،فَقُلْنَا: مَا أَكْثَرَ هَذَا وَأَطْیَبَهُ ،  ثُمَّ رَحَلْنَا إِلَى بِلَادِنَا فَوَجَدْنَاهَا قَدْ مُطِرَتْ فِی الْیَوْمِ الَّذِی دَعَا فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی تِلْكَ السَّاعَة

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایااوراس قدرہاتھ اٹھائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بغلوں  کی سفیدی بھی نظرآنے لگی پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوئے ہم بھی کھڑے ہوگئے اور تین دن تک وہی ٹھہرے رہے وہ ہماری برابر ضیافت کرتے رہے،پھر جب ہم نے مدینہ منورہ سے رخصت ہوناچاہاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں  انعامات سے نوازا اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وفدکے ہررکن کوپانچ اوقیہ چاندی مرحمت فرمائی،بلال  رضی اللہ عنہ نے معذرت بھی کی اورکہاآج ہمارے پاس مال نہیں  ہے، ہم نے کہایہ توبہت ہی زیادہ اورخوب ہے،پھرہم اپنے وطن میں  واپس آگئے یہاں  آکرمعلوم ہواکہ جس دن اورجس گھڑی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعافرمائی تھی اسی روزاوراسی گھڑی بارش ہوئی تھی ۔

فَسَأَلْنَاهُ عَنْ أَمْرِ الصَّلَاةِ وَشَرَائِعِ الْإِسْلَامِ وَعَنِ الرُّقَى ،وَأَسْلَمْنَاورجعوا إلى بلادهم، فوجدوها قد أمطرت

ایک روایت ہےوفدسلاماں  بارگاہ رسالت میں  حاضر ہوا تو اہل وفدنے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازکے علاوہ بعض دوسرے مسائل یااحکام اسلام بھی پوچھےان میں  ایک سوال تعویزوں  یادم کرنے کے بارے میں  بھی تھا،اس کے بعدوہ مسلمان ہوگئے،یہ وفداپنے علاقہ میں  واپس گیاتومعلوم ہواکہ جس دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی تھی اسی دن بارش ہوگئی تھی۔[54]

وفدبنی قشیربن کعب:

یہ قبیلہ ہوزان کابطن تھا،یہ لوگ اضلاع نجدمیں  آبادتھے۔

وَفَدَ عَلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم  نَفَرٌ مِنْ قُشَیْرٍ فِیهِمْ ثَوْرُ بْنُ عُرْوَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ قُشَیْرٍ فَأَسْلَمَ،فَأَقْطَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَطِیعَةً وَكَتَبَ لَهُ بِهَا كِتَابًا،وَمِنْهُمْ حَیْدَةُ بْنُ مُعَاوِیَةَ بْنِ قُشَیْرٍیَا رَسُولَ اللهِ، كَانَ لَنَا أَرْبَابٌ وَرَبَّاتٌ مِنْ دُونِ اللهِ تَعَالَى، نَدْعُوهُمْ فَلَمْ یُجِیبُونَا، وَنَسْأَلُهُمْ فَلَمْ یُعْطُونَا، فَلَمَّا بَعَثَكَ اللهُ بِالْحَقِّ أَتَیْنَاكَ وَتَرَكْنَاهُمْ وَأَحْبَبْنَاكَ ، وَذَلِكَ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَبَعْدَ حُنَیْنٍ  وَمِنْهُمْ قُرَّةُ بْنُ هُبَیْرَةَ بْنِ سَلَمَةَ الْخَیْرِ بْنِ قُشَیْرٍ  فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَسَاهُ بُرْدًا وَأَمَرَهُ أَنْ یَلِیَ صَدَقَاتِ قَوْمِهِ

دس ہجری حجة الوادع سے پہلے کسی وقت بنوقشیرکا ایک وفدجن میں  ثوربن عروہ بن عبداللہ بن سلمہ بن قشیرشامل تھے اوروفدمیں  تمام اراکین وفدنے اسلام قبول کرلیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کوایک قطعہ زمین عطافرمایااوراس سلسلہ میں  ایک فرمان بھی لکھ دیا، اس وفدمیں  حیدہ بن معاویہ بن قشیربھی تھے انہوں  نے عرض کیا، اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! زمانہ جاہلیت میں  ہم نے اپنے حقیقی معبوداللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ  کوچھوڑکرکچھ اورخودساختہ بت اورموتیاں  بنارکھی تھیں  ہم اپنی پریشانیوں  اورمشکلات میں  انہیں  پکارتے تھے مگروہ جواب نہیں  دیتے تھے ،ہم اپنی ضروریات کے لئے ان سے سوال کرتے تھےمگروہ ہماری ضروریات پورانہیں  کرتے تھے،پھراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاتوہم ان خودساختہ معبودوں  سے تائب ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیا،یہ وفدحجة الودع سے پہلے اورغزوہ حنین کے بعدحاضرہوااس وفدمیں قرة  رضی اللہ عنہ بن ہبیرہ بن سلمہ بھی تھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ایک چادرعنایت فرمائی اوراپنی قوم سے صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا۔[55]

فَقَالَ قُرَّةُ حِینَ رَجَعَ:

قرہ  رضی اللہ عنہ جب واپس جانے لگے تویہ اشعارکہے۔

حَبَاهَا رَسُولُ اللهِ إِذْ نَزَلَتْ بِهِ ،وَأَمْكَنَهَا مِنْ نَائِلٍ غَیْرِ مُنْفَدِ

وفدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ عنایت کی کہ وفدکوایسافیض بخشاجوکبھی ختم ہونے والانہیں

فَأَضْحَتْ بِرُوضِ الْخَضِرِ وَهِیَ حَثِیثَةٌ ،وَقَدْ أَنْجَحَتْ حَاجَاتِهَا مِنْ مُحَمَّدِ

وفدکی جماعت جوبہت گرم روتھی سرسبزمرغزارمیں  ٹھہرگئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لطف وکرم سے اس کی حاجتیں  پوری ہوگئیں

عَلَیْهَا فَتًى لا یُرْدِفُ الذَّمَّ رَحْلَهُ ،تَرُوكٌ لأَمْرِ الْعَاجِزِ الْمُتَرَدِّدِ

اس جماعت کاسرگروہ وہ جوان ہے کہ اس کے کجاوے کے ساتھ عیب کاگزرنہیں ،جولوگ عاجزومذبذب ہیں  ان کے معاملات کووہی درست کرتاہے۔

أَنَّ قُرَّةَ بْنَ هُبَیْرَةَ الْعَامِرِیَّ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ نَظَرَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ قَصِیرَةٍ فَقَالَ: یَا قُرَّةُ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَیْفَ قُلْتَ حِینَ أَتَیْتَنِی ؟قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَانَ لَنَا أَرْبَابٌ وَرَبَّاتٌ مِنْ دُونِ اللهِ تَعَالَى، نَدْعُوهُمْ فَلَمْ یُجِیبُونَا، وَنَسْأَلُهُمْ فَلَمْ یُعْطُونَا، فَلَمَّا بَعَثَكَ اللهُ بِالْحَقِّ أَتَیْنَاكَ وَتَرَكْنَاهُمْ وَأَحْبَبْنَاكَ،فَلَمَّا أَدْبَرَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ مَنْ رُزِقَ لُبًّا

حجة الودع کے موقع پرقرة  رضی اللہ عنہ بن ہبیرہ حجة الوداع کے موقع پرایک پست قداونٹنی پر سوار رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو پکارااے قرہ  رضی اللہ عنہ ! جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کےقریب آئے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاجب تم میرے پاس آئے تھے توتم نے کیاکہاتھا؟انہوں  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  زمانہ جاہلیت میں  ہم نے اپنے حقیقی معبوداللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکرکچھ اورخودساختہ بت اورمورتیاں  بنارکھی تھیں  ہم اپنی پریشانیوں  اور مشکلات میں  انہیں  پکارتے تھے مگروہ جواب نہیں  دیتے تھے ہم اپنی ضروریات کے لئے ان سے سوال کرتے تھے،مگروہ ہماری ضروریات پورانہیں  کرتے تھے،پھراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاتوہم ان خودساختہ معبودوں  سے تائب ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیا،جب وہ چلنے لگے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس کوعقل دی گئی وہ کامیاب ہوگیا۔[56]

فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ إِلَى الْبَحْرَیْنِ، وَهُوَ مَعَهُ حَمِیلٌ، وَكَسَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَیْنِ كَانَ یَلْبَسُهُمَا قَالُوا: وفد ثور بْن عزرة بْن عَبْد اللهِ بْن سلمة القشیری عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأقطعه حمام والسد، وهما من العقیق، وكتب له كتابًا

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ  کابیان ہےجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو  رضی اللہ عنہ بن العاص کوبحرین بھیجاتوقرة  رضی اللہ عنہ  بھی ان کے ساتھ تھے،نیزیہ کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کواپنے استعمال کے دوکپڑے بھی عنایت فرمائے تھے، وفدکے ایک رکن ثور رضی اللہ عنہ بن عزرہ  بن عبداللہ بن سلمہ قشیری بھی تھے(جن کی کنیت ابوالعکیرتھی)جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے تھےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  وادی عقیق میں  دومقام حمام اورسدعطافرمائے اورایک دستاویزبھی ان کے لئے لکھ کردی۔[57]

تحصیل زکوٰة کاایک واقعہ:

(قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ عَلَى الصَّدَقَةِ)،فَقِیلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِیلٍ، وَخَالِدُ بْنُ الوَلِیدِ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا یَنْقِمُ ابْنُ جَمِیلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِیرًا، فَأَغْنَاهُ اللهُ وَرَسُولُهُ ، وَأَمَّا خَالِدٌ: فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا، قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِی سَبِیلِ اللهِ ،وَأَمَّا العَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَعَمُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَهِیَ عَلَیَّ،فَهِیَ عَلَیْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا ثُمَّ قَالَ:یَا عُمَرُ، أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیهِ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کوزکوٰة کی وصولی کے لئے عامل بنایا،انہوں  نے واپس آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کواطلاع دی کہ تین آدمیوں  نے زکوٰة نہیں  دی،ایک ابن جمیل،دوسرے خالد  رضی اللہ عنہ بن ولیداورتیسرے عباس  رضی اللہ عنہ  بن عبدالمطلب،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاابن جمیل(یہ پہلے منافق تھاپھرتوبہ کرکے صحیح مسلمان بن گیا)اس لئے انکار کرتا ہے کہ وہ محض قلاش اورمفلس تھا اللہ نے اپنے رسول کی دعابرکت سےاسے مالدار کردیا(اب وہ زکوٰة دینے میں  کراہتااورخفاہوتاہے)اورخالد  رضی اللہ عنہ  پرتوتم لوگ ظلم کرتے ہو انہوں  نے اپنی زرہیں  اورہتھیاراللہ کے راستہ میں  دے دیئے ہیں (پھرزکوٰة  واجبہ کیوں  نہ دے گا یا یہ کہ خالد  رضی اللہ عنہ توایساسخی ہے کہ اس نے ہتھیارگھوڑے وغیرہ سب اللہ کی راہ میں  دے ڈالے ہیں  وہ بھلافرض زکوٰة کیسے نہ دے گاتم غلط کہتے ہوکہ وہ زکوٰة نہیں  دیتایایہ کہ جب انہوں  نے اپناسارامال واسباب ہتھیاروغیرہ فی سبیل اللہ وقف کردیاہے تواب وقفی مال کی زکوٰة کیوں  دینے لگااللہ کی راہ میں  مجاہدین کودینایہ خودزکوٰة ہے)اورعباس  رضی اللہ عنہ  تووہ اللہ کے رسول کے چچاہیں ان کاصدقہ میرے اوپرہے ،اوراس کے مثل اس کے ساتھ اوربھی ہے،پھرفرمایااے عمر  رضی اللہ عنہ !تمہیں  معلوم نہیں  کہ چچاباپ کے مثل ہوتاہے۔[58]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ  بن خطاب کاعامل بنایاجانا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب کوکئی مرتبہ عامل بناکرروانہ کیا،

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ یَقُولُ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِینِی العَطَاءَ، فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَیْهِ مِنِّی، حَتَّى أَعْطَانِی مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَیْهِ مِنِّی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا المَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَالاَ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ہرمرتبہ مجھے کچھ عطا کرتے تھے تومیں  کہتاکہ آپ اسے دے دیں  جواس کامجھ سے زیادہ ضرورت مندہوپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے ایک مرتبہ مال دیااورمیں  نے کہاکہ آپ ایسے شخص کودے دیں  جواس کامجھ سے زیادہ ضرورت مندہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسے لے لواوراس کامالک بننے کے بعداس کاصدقہ کردویہ مال جب تمہیں  اس طرح ملے کہ تم اس کی خواہش مندنہ ہواورنہ اسے تم نے مانگاہوتواسے لے لیاکرواورجواس طرح نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑا کرو ۔[59]

فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا یَسْأَلُ أَحَدًا شَیْئًا وَلَا یَرُدُّ شَیْئًا أُعْطِیَهُ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کولے لواوراس مال میں  سے جوتمہارے پاس بغیرلالچ کے اوربغیرمانگے آئے تواس کولے لیاکرواورجواس طرح نہ آئے اس کاخیال بھی نہ کرو سالم کا بیان ہے کہ اس کے بعد عبداللہ بن عمر کسی سے مانگتے نہیں  تھے اور کوئی چیز بغیر سوال کے دی جاتی تو اس کو لے لیتے۔[60]

 عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ بن ربیعہ اورفضل بن عباس کی درخواست:

أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِیعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، حَدَّثَهُ قَالَ: اجْتَمَعَ رَبِیعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَا: وَاللهِ، لَوْ بَعَثْنَا هَذَیْنِ الْغُلَامَیْنِ  قَالَا لِی وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ  إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَاهُ، فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَأَدَّیَا مَا یُؤَدِّی النَّاسُ، وَأَصَابَا مِمَّا یُصِیبُ النَّاسُ، قَالَ فَبَیْنَمَا هُمَا فِی ذَلِكَ جَاءَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَوَقَفَ عَلَیْهِمَا، فَذَكَرَا لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: لَا تَفْعَلَا، فَوَاللهِ، مَا هُوَ بِفَاعِلٍ، فَانْتَحَاهُ رَبِیعَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَالَ: وَاللهِ، مَا تَصْنَعُ هَذَا إِلَّا نَفَاسَةً مِنْكَ عَلَیْنَا، فَوَاللهِ، لَقَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَا نَفِسْنَاهُ عَلَیْكَ، قَالَ عَلِیٌّ: أَرْسِلُوهُمَا،

عبدالمطلب بن ربیعہ سے مروی ہےایک دن ربیعہ بن حارث  رضی اللہ عنہ  اورعباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ  (کسی مقام پر)جمع ہوئےدونوں  نے آپس میں  کہااللہ کی قسم!ہم (کیوں  نہ ) ان دونوں  لڑکوں یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ  اورفضل بن عباس  رضی اللہ عنہ  کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  بھیجیں یہ دونوں  جاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کریں  کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان دونوں  کوزکوٰة وصولی کرنے پرعامل بنادیں ،پھریہ دونوں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوزلوٰة لاکردیں  جس طرح دوسرے زکوٰة لاکرآپ کودیتے ہیں پھراوروں  کی طرح انہیں  بھی کچھ مال مل جائے، غرض یہ گفتگوہوہی رہی تھی کہ اتنے میں  سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب وہاں  آگئے اوران کے آگے کھڑے ہوگئے ان دونوں  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  سے اس بات کا تذکرہ کیاانہوں  نے کہاانہیں  نہ بھیجواللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں  عامل نہیں  بنائیں  گے(اس لیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کومعلوم تھاکہ زکوٰة سیدوں  کوحرام ہے)پس ربیعہ رضی اللہ عنہ بن حارث سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کوبراکہنے لگے اور کہااللہ کی قسم!تم یہ بات حسدکی بناپرکہہ رہے ہو؟اللہ کی قسم!تمہیں  جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دامادی کاشرف ہے ہم نے توکبھی اس پرتم سے حسدنہیں  کیا،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے کہااچھاتوان دونوں  کوبھیج کردیکھ لو،

فَانْطَلَقَا، وَاضْطَجَعَ عَلِیٌّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ، فَقُمْنَا عِنْدَهَا، حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِآذَانِنَا، ثُمَّ قَالَ: أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ ثُمَّ دَخَلَ وَدَخَلْنَا عَلَیْهِ، وَهُوَ یَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ،

یہ کہہ کرسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے اپنی چادربچھائی اورلیٹ گئے(اوران دونوں  نے اپنے لڑکوں  کوروانہ کردیا)سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے کہامیں  ابوالحسن ہوں  اورسیدہوں اللہ کی قسم!میں  یہاں  سے نہ جاؤں  گاجب تک تمہارے بیٹے اس بات کاجواب لے کرنہ لوٹیں جوتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہلوائی ہے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ظہرکی نمازسے فارغ ہوکراپنے حجرہ کی طرف چلے تووہ دونوں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حجرہ کے پاس جاکرکھڑے ہوگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاانتظارکرنے لگے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں  کے کان پکڑے اورفرمایاجوکچھ تمہارے دل میں  ہے اسے ظاہرکرویہ کہہ کرآپ حجرہ میں  تشریف لے گئےاورہم دونوں  بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حجرہ میں  چلے گئے،اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ام المومنین زینب  رضی اللہ عنہ  بنت جحش کے ہاں  مقیم تھے،

قَالَ: فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ، ثُمَّ تَكَلَّمَ أَحَدُنَا فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُ النَّاسِ، وَقَدْ بَلَغْنَا النِّكَاحَ، فَجِئْنَا لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى بَعْضِ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَنُؤَدِّیَ إِلَیْكَ كَمَا یُؤَدِّی النَّاسُ، وَنُصِیبَ كَمَا یُصِیبُونَ، قَالَ: فَسَكَتَ طَوِیلًا حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ، قَالَ: وَجَعَلَتْ زَیْنَبُ تُلْمِعُ عَلَیْنَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ أَنْ لَا تُكَلِّمَاهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِی لِآلِ مُحَمَّدٍ إِنَّمَا هِیَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، ادْعُوَا لِی مَحْمِیَةَ  وَكَانَ عَلَى الْخُمُسِ  وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: فَجَاءَاهُ، فَقَالَ لِمَحْمِیَةَ: أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ  لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ فَأَنْكَحَهُ، وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ: أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ  لِی  فَأَنْكَحَنِی وَقَالَ لِمَحْمِیَةَ: أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا، وَكَذَا

اندرجانے کے بعدان دونوں  نے ایک دوسرے سے بات کرنے کوکہاکچھ دیر بعد ان میں  سے ایک نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سب سے زیادہ احسان کرنے والے اورسب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں ،ہم نکاح کے قابل ہوگئے ہیں (لیکن اس کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے)ہم اس لئے حاضرہوئے ہیں  کہ آپ ہمیں  صدقات وصول کرنے پرعامل بنائیں  تاکہ ہم بھی مال وصول کرکے آپ کولاکردیں  جیساکہ اور لوگ لاکردیتے ہیں  اورجیسے اورلوگوں  کواس مال میں  سے کچھ مل جاتاہے ہمیں  بھی مل جایاکرے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی باتیں  سنیں  لیکن بڑی دیرتک خاموش رہےیہاں  تک کہ ہم نےدوبارہ عرض کرنے کاارادہ کیاام المومنین زینب  رضی اللہ عنہ  پردہ کے پیچھے سے انہیں  اشارہ کرتی رہیں  کہ اب کچھ نہ کہنا،کچھ دیربعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا زکوٰةکامال محمداورآل محمدکے لئے جائزنہیں  ہےیہ تولوگوں  کامیل ہے،تم میرے پاس محمیہ بن جزئ رضی اللہ عنہ  اورنوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ ،محمیہ رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے خمس پرعامل تھے،جب محمیہ رضی اللہ عنہ  اورنوفل رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے توآپ نے محمیہ رضی اللہ عنہ  سے فرمایاتم اپنی لڑکی کانکاح اس لڑکے فضل بن عباس سے کر دو اورنوفل رضی اللہ عنہ  سے فرمایاتم اپنی لڑکی کی شادی اس لڑکے(عبدالمطلب)سے کردو،محمیہ رضی اللہ عنہ  اورنوفل رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اوراپنی لڑکیوں  کی شادی کردی،پھرآپ نے محمیہ رضی اللہ عنہ  سے فرمایاان کی طرف سے مہرمال خمس میں  سے اتنااتنا اداکردو۔[61]

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب کایمن سے کچھ سونابھیجنا:

أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ، أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ، یَقُولُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  مِنَ الیَمَنِ بِذُهَیْبَةٍ فِی أَدِیمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَیْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ، بَیْنَ عُیَیْنَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ، وَزَیْدِ الخَیْلِ، وَالرَّابِعُ: إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ،فَتَغَیَّظَتْ قُرَیْشٌ وَالأَنْصَارُ فَقَالُوا: یُعْطِیهِ صَنَادِیدَ أَهْلِ نَجْدٍ، وَیَدَعُنَاقَالَ:إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ،قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَلاَ تَأْمَنُونِی وَأَنَا أَمِینُ مَنْ فِی السَّمَاءِ، یَأْتِینِی خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرمضان میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کویمن روانہ کیاتھاانہوں  نے وہاں  پہنچ کر رنگے ہوئے چمڑے(کے ایک ٹکڑے)میں  کچھ سونا جس میں  سے مٹی علیحدہ نہیں  کی گئی تھی روانہ کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سونے کوچارآدمیوں عیینہ بن بدر رضی اللہ عنہ  ،اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ  اورزیدالخیل رضی اللہ عنہ  اورعلقمہ  رضی اللہ عنہ یا عامر بن طفیل میں  تقسیم کردیا،اس پر(بعض)قریش اورانصارکوغصہ آگیااورانہوں نے (آپس میں  کہا)نجدکے رئیسوں  کوتودیتے ہیں  اورہمیں  چھوڑدیتے ہیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  ان کی تالیف کررہاہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں  یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں )ایک شخص نے کہا(اس سونے کے)ہم زیادہ حقدارتھے،اس شخص کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوپہنچی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم مجھے امانت دارنہیں  سمجھتے حالانکہ میں  اس کاامین ہوں  جوآسمان میں  ہے ،صبح وشام کی خبریں  میرے پاس آتی ہیں (بھلامیں  نبی ہوکرحق تلفی کرسکتاہوں )

أَتَاهُ ذُو الْخُوَیْصِرَةِ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، اتَّقِ اللهَ، اعْدِلْ ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَیْلَكَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ؟ قَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ ،قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ائْذَنْ لِی فِیهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:دَعْهُ،قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِیدِ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟قَالَ:لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ یَكُونَ یُصَلِّی،فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَیْسَ فِی قَلْبِهِ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ،قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ

پھرقبیلہ بنوتمیم کاایک شخص جس کانام عبداللہ بن ذی الخویصرہ تھاکھڑاہوا،اس کی آنکھیں  دھسی ہوئی تھیں ،کلوں  کی ہڈیاں  ابھری ہوئی تھیں ،پیشانی باہرکونکلی ہوئی تھی،داڑھی گھنی تھی،سرمنڈاہواتھا،تہہ بنداونچاتھااس نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ سے ڈرواورانصاف کرو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتجھ پرافسوس!اگرمیں  انصاف نہیں  کروں  گاتوپھرکون کرے گااگرمیں  نے عدل نہ کیاتوپھرمیں  بالکل بدنصیب اورمحروم ہوگیا،پھروہ شخص پیٹھ موڑکرچلاگیاسیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب نےعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت دیں  کہ اس کی گردن اڑادوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں رہنے دو،پھرخالد  رضی اللہ عنہ بن ولیدنے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  اس کی گردن نہ اڑادوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں ہوسکتاہے کہ یہ نمازپڑھتاہو،خالد  رضی اللہ عنہ  نے کہاکتنے ہی نمازی ہیں  جوزبان سے ایسی بات کہتے ہیں  جوان کے دل میں  نہیں  ہوتی(یعنی بہت سے نمازی منافق بھی ہوتے ہیں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے یہ حکم نہیں  دیاگیاکہ میں  لوگوں  کے دلوں  میں  نقب لگاؤں  اورنہ یہ کہ ان کے پیٹوں  کو چیروں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کی طرف دیکھااس حال میں  کہ وہ پیٹھ پھیرے چلاجارہاتھا،

النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یَخْرُجُ فِی هَذِهِ الأُمَّةِ وَلَمْ یَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ وَصِیَامَهُ مَعَ صِیَامِهِمْ، یَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ رَطْبًا، لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِیَّةِ، فَیَنْظُرُ  الرَّامِی إِلَى سَهْمِهِ، إِلَى نَصْلِهِ، إِلَى رِصَافِهِ، فَیَتَمَارَى فِی الفُوقَةِ، هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَیْءٌ،یَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ، وَیَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ،آیَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ، إِحْدَى عَضُدَیْهِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَةِ، أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَتَدَرْدَرُ،سِیمَاهُمْ التَّحَالُقُ، وَأَظُنُّهُ قَالَ: لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایااس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں  گے کہ ان کی نمازکے مقابلہ میں  تم اپنی نمازکوحقیرسمجھوگے،اپنے روزوں  کوان کے روزوں  کے مقابلہ میں  حقیرجانوگے،وہ مزے لے لے کرقرآن مجیدکی تلاوت کریں  گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں  اترے گا(یعنی دل میں  اثرنہ کرے گا)وہ لوگ دین اسلام سے اس طرح نکل جائیں  گے جس طرح تیرشکارمیں  سے نکل جائے اورتیرپھینکنے والااس کے بعداپنے تیرکی جڑکودیکھتاہے(جوکمان سے لگی رہتی ہے)اسے شک ہوتاہے شایداس میں  خون لگاہومگروہ بھی صاف ہوگا(یعنی تمام اعمال صالحہ خیروصدقات صلوٰة وزکوٰة حج وصیام سب کچھ بجالاتے ہیں  مگرشرک وبدعت کی شومی سے جوان کے عقائدواعمال میں  گھسی ہوئی ہے کوئی نیکی قبول نہیں  جیسے تیرنکل گیاتواس میں  خون بھی نہیں  بھرتا)وہ لوگ مسلمانوں  کو(کافرکہہ کر)قتل کریں  گے اوربت پرستوں  کوچھوڑدیں  گےان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں  ایک سیاہ فام شخص ہوگاجس کاایک بازومثل عورت کے پستان کے ہوگایافرمایاجیسے گوشت کالوتھڑاتھلتھلاتاہو،ان کی علامت یہ بھی ہوگی کہ وہ سرمنڈاتے ہوں  گے،اگرمیں  نے ان کوپایاتوان کواس طرح ہلاک کر ڈالوں  گاجس طرح عادوثمودہلاک کردیئے گئے تھے۔[62]

کلالہ کی میراث:

انہی دنوں  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کلالہ کی میراث کے متعلق سوال کیاگیاجواب میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

یَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ یُفْتِیكُمْ فِی الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَیْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ یَرِثُهَا إِن لَّمْ یَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ ۗ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١٧٦﴾‏(النساء)
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں ،آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں  کلالہ کے بارے میں  فتویٰ دیتاہے اگرکوئی شخص مرجائے جس کی اولادنہ ہو اور ایک بہن ہوتواس کے چھوڑے ہوئےمال کاآدھا صلی اللہ علیہ وسلم حصہ ہے اوروہ بھائی اس بہن کاوارث ہوگااگراس کے اولادنہ ہو،پس اگربہنیں  دوہوں  توانہیں  کل چھوڑے ہوئے کادوتہائی ملے گا اوراگرکئی شخص اس ناطے کے ہیں  مردبھی اورعورتیں  بھی تومردکے لئے حصہ ہے مثل دوعورتوں  کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرمارہاہے کہ ایسانہ ہوکہ تم بہک جاؤاوراللہ ہرچیزسے واقف ہے۔

البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَةَ، وَآخِرُ آیَةٍ نَزَلَتْ: {یَسْتَفْتُونَكَ قُلْ: اللَّهُ یُفْتِیكُمْ فِی الكَلاَلَةِ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سب سے آخرمیں  جوسورت نازل ہوئی وہ سورۂ برات ہے اور(احکام میراث کے سلسلہ میں )سب سے آخرمیں  جوآیت نازل ہوئی وہ یہ آیت’’ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں ،آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں  کلالہ کے بارے میں  فتویٰ دیتاہے۔‘‘ہے۔[63]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: اشْتَكَیْتُ وَعِنْدِی سَبْعُ أَخَوَاتٍ ، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَفَخَ فِی وَجْهِی، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أُوصِی لِأَخَوَاتِی بِالثُّلُثِ؟ قَالَ:أَحْسِنْ، قُلْتُ: الشَّطْرُ؟ قَالَ:أَحْسِنْ ثُمَّ خَرَجَ وَتَرَكَنِی، فَقَالَ:یَا جَابِرُ، لَا أُرَاكَ مَیِّتًا مِنْ وَجَعِكَ هَذَا، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَنْزَلَ فَبَیَّنَ الَّذِی لِأَخَوَاتِكَ فَجَعَلَ لَهُنَّ الثُّلُثَیْنِ، قَالَ: فَكَانَ جَابِرٌ یَقُولُ:أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ فِیَّ: یَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ یُفْتِیكُمْ فِی الْكَلَالَةِ

جابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  بیمارہوگیااورمیری سات بہنیں  تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے چہرے پرپھونک ماری (دم کیا)تومجھے افاقہ ہو گیا اور میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  اپنی بہنوں  کے لیے تہائی مال کی وصیت نہ کرجاؤں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااحسان کر،میں  نے کہاآدھامال ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااحسان کر، پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مجھے چھوڑکرتشریف لے گئے، اورفرمایااے جابر  رضی اللہ عنہ !میں  نہیں  سمجھتاکہ تم اس بیماری سے وفات پاؤگے،اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی ہے اورتیری بہنوں  کاحق بیان فرمادیاہے،ان کے لیے دوتہائی خاص کیا ہے، جابر  رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے آیت کریمہ’’آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں ،آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں  کلالہ کے بارے میں  فتویٰ دیتاہے۔‘‘  میرے ہی بارے میں  نازل ہوئی تھی۔[64]

اس کے بعدشوال یاذیقعدہ دس ہجری میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو  رضی اللہ عنہ بن حزم انصاری کے ہاتھ ایک اورتفصیلی مکتوب بھی شرجیل بن عبدکلال،حارث بن عبدکلال اورنعیم بن عبدکلال کے نام بھیجااس مکتوب میں  فرائض،سنن اوردیات وصدقات کے بارے میں  تفصیلی احکام تھے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هَذَا بَیَانٌ مِنْ الله وَرَسُوله، یَا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ،

عَهْدٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُولِ اللهِ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حِینَ بَعَثَهُ إلَى الْیَمَنِ،

أَمَرَهُ بِتَقْوَى اللهِ فِی أَمْرِهِ كُلِّهِ، فَإِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَاَلَّذِینَ هُمْ مُحْسِنُونَ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَأْخُذَ بِالْحَقِّ كَمَا أَمَرَهُ اللهُ، وَأَنْ یُبَشِّرَ النَّاسَ بِالْخَیْرِ، وَیَأْمُرَهُمْ بِهِ، وَیُعَلِّمَ النَّاسَ الْقُرْآنَ، وَیُفَقِّهَهُمْ فِیهِ، وَیَنْهَى النَّاسَ، فَلَا یَمَسُّ الْقُرْآنَ إنْسَانٌ إلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ، وَیُخْبِرَ النَّاسَ بِاَلَّذِی لَهُمْ، وَاَلَّذِی عَلَیْهِمْ، وَیَلِینَ لِلنَّاسِ فِی الْحَقِّ، وَیَشْتَدَّ عَلَیْهِمْ فِی الظُّلْمِ، فَإِنَّ اللهَ كَرِهَ الظُّلْمَ، وَنَهَى عَنْهُ، فَقَالَ:أَلا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّالِمِینَ ، وَیُبَشِّرَ النَّاسَ بِالْجَنَّةِ وَبِعَمَلِهَا، وَیُنْذِرَ النَّاسَ النَّارَ وَعَمَلَهَا، وَیَسْتَأْلِفَ النَّاسَ حَتَّى یُفَقَّهُوا فِی الدِّینِ، وَیُعَلِّمَ النَّاسَ مَعَالِمَ الْحَجِّ وَسُنَّتَهُ وَفَرِیضَتَهُ، وَمَا أَمَرَ اللهُ بِهِ، وَالْحَجَّ الْأَكْبَرَ: الْحَجَّ الْأَكْبَرَ، وَالْحَجَّ الْأَصْغَرَ: هُوَ الْعُمْرَةُ، وَیَنْهَى النَّاسَ أَنْ یُصَلِّیَ أَحَدٌ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ صَغِیرٍ، إلَّا أَنْ یَكُونَ ثَوْبًا یُثْنِی طَرَفَیْهِ عَلَى عَاتِقِیهِ، وَیَنْهَى النَّاسَ أَنْ یَحْتَبِیَ أَحَدٌ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ یُفْضِی بِفَرْجِهِ إلَى السَّمَاءِ، وَیَنْهَى أَنْ یُعَقِّصَ أَحَدٌ شَعَرَ رَأْسِهِ فِی قَفَاهُ،

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ بیان ہے اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے،اے ایمان والو!اپنے عہدوں  کوپوراکرو۔

یہ عہدنامہ ہے محمدنبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے عمروبن حزم کے لئے جبکہ اس کویمن کی طرف روانہ کیا۔

ہرکام میں  اس کواللہ کاتقویٰ اورخوف لازم ہے ،پس بے شک اللہ ان لوگوں  کے ساتھ ہے جوتقویٰ کرتے ہیں  اورجواحسان کرنے والے ہیں  ۔اورمیں  اس کویہ حکم دیتاہوں  کہ لوگوں  سے اسی قدرمال وصول کرے جس کااللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے اورلوگوں  کوبھلائی کی بشارت دے اوربھلائی کاحکم کرے اورقرآن اوراحکام دین کی تعلیم کرے اوراس بات سے لوگوں  کومنع کرے کہ قرآن کوناپاک حالت میں  کوئی ہاتھ نہ لگائے اور ان کے حقوق اور ذمہ داریوں  سے آگاہ کرےاورلوگوں  کے نفع اورنقصان کی سب باتیں  ان کوسمجھائے اورحق بات میں  ان کے ساتھ نرمی کرے اورظلم کے وقت سختی کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظلم مکروہ ہے اوراللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایاہے ،چنانچہ فرماتاہے ظالموں  پراللہ کی لعنت ہے اورلوگوں  کوجنت کی بشارت دے اوراس کے اعمال سکھائے اور جہنمی اعمال سے انہیں  ڈرائے اورلوگوں  کودین کاعالم بنادے اورحج کے احکامات اورفرائض اورسنن سے ان کومطلع کرے ،حج اکبرحج ہے اورحج اصغر عمرہ ہے ،اورلوگوں  کومنع کرے کہ کوئی ایک کپڑے میں  جوچھوٹاساہونمازنہ پڑھے اوراگربڑاہوجواچھی طرح سے لپٹ سکے اس میں  پڑھ لے اورسترکھول کربیٹھنے سے بھی لوگوں  کومنع کرے اورگدی پرمردوں  کوبالوں  کاجوڑاباندھنے سے بھی منع کرے۔

وَیَنْهَى إذَا كَانَ بَیْنَ النَّاسِ هَیْجٌ عَنْ الدُّعَاءِ إلَى الْقَبَائِلِ وَالْعَشَائِرِ، وَلْیَكُنْ دَعَوَاهُمْ إلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، فَمَنْ لَمْ یَدْعُ إلَى اللهِ، وَدَعَا إلَى الْقَبَائِلِ وَالْعَشَائِرِ فَلْیُقْطَفُوا بِالسَّیْفِ، حَتَّى تَكُونَ دَعْوَاهُمْ إلَى اللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَیَأْمُرُ النَّاسَ بِإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ وُجُوهَهُمْ وَأَیْدِیَهُمْ إلَى الْمَرَافِقِ وَأَرْجُلَهُمْ إلَى الْكَعْبَیْنِ وَیَمْسَحُونَ بِرُءُوسِهِمْ كَمَا أَمَرَهُمْ اللهُ، وَأَمَرَ بِالصَّلَاةِ لِوَقْتِهَا، وَإِتْمَامِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ  وَالْخُشُوعِ، وَیُغَلِّسُ بِالصُّبْحِ، وَیُهَجِّرُ بِالْهَاجِرَةِ حِینَ تَمِیلُ الشَّمْسُ، وَصَلَاةُ الْعَصْرِ وَالشَّمْسُ فِی الْأَرْضِ مُدْبِرَةٌ، وَالْمَغْرِبُ حِینَ یَقْبَلُ اللیْلُ، لَا یُؤَخَّرُ حَتَّى تَبْدُوَ النُّجُومُ فِی السَّمَاءِ، وَالْعِشَاءُ أَوَّلُ اللیْلِ، وَأَمَرَ بِالسَّعْیِ إلَى الْجُمُعَةِ إذَا نُودِیَ لَهَا، وَالْغُسْلِ عِنْدَ الرَّوَاحِ إلَیْهَا، وَأَمَرَهُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ الْمَغَانِمِ خُمُسَ اللهِ، وَمَا كُتِبَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَةِ مِنْ الْعَقَارِ عُشْرَ مَا سَقَتْ الْعَیْنُ وَسَقَتْ السَّمَاءُ، وَعَلَى مَا سَقَى الْغَرْبُ نِصْفَ الْعُشْرِ، وَفِی كُلِّ عَشْرٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاتَانِ، وَفِی كُلِّ عِشْرِینَ أَرْبَعُ شِیَاهٍ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنْ الْبَقَرِ بَقَرَةٌ، وَفِی كُلِّ ثَلَاثِینَ مِنْ الْبَقَرِ تَبِیعٌ،جَذَعٌ أَوْ جَذَعَةٌ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنْ الْغَنَمِ سَائِمَةٌ وَحْدَهَا، شَاةٌ، فَإِنَّهَا فَرِیضَةُ اللهِ الَّتِی افْتَرَضَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَةِ، فَمَنْ زَادَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ، وَأَنَّهُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ یَهُودِیٍّ أَوْ نَصْرَانِیٍّ إسْلَامًا خَالِصًا مِنْ نَفْسِهِ، وَدَانَ بِدِینِ الْإِسْلَامِ، فَإِنَّهُ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ، لَهُ مِثْلُ مَا لَهُمْ، وَعَلَیْهِ مِثْلُ مَا عَلَیْهِمْ، وَمَنْ كَانَ عَلَى نَصْرَانِیَّتِهِ أَوْ یَهُودِیَّتِهِ فَإِنَّهُ لَا یُرَدُّ عَنْهَا، وَعَلَى كُلِّ حَالِمٍ: ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، دِینَارٌ وَافٍ أَوْ عِوَضُهُ ثِیَابًا.فَمَنْ أَدَّى ذَلِكَ، فَإِنَّ لَهُ ذِمَّةَ اللهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَمَنْ مَنَعَ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ عَدُوٌّ للَّه وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ جَمِیعًا،

صَلَوَاتُ اللهِ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَالسَّلَامُ عَلَیْهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.

اورجب آپس میں  جہالت کی جنگ ہوتوقبائل کومددپربلانے سے لوگوں  کومنع کرے اورچاہیے کہ اللہ کی طرف یعنی جہادکے لئے قبائل کوبلایاجائے نہ کہ آپس کی جنگ کے لئے اورجواس بات کونہ مانے اس سے لڑویہاں  تک کہ حکم الٰہی کومان لے اورسب اللہ کی توحیدکے تابع ہوجائیں  اورچاہیے کہ لوگوں  کواچھی طرح سے وضوکرنے کاحکم کرے ،منہ کودھوئیں  اورہاتھوں  کوکہنیوں  تک اورپیروں  کوٹخنوں  تک اورسروں  پرمسح کریں  جیساکہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے اور نماز کو وقت پرپورے رکوع وسجوداورخشوع کے ساتھ اداکریں  ،صبح کی نمازاول وقت اورظہرکی نمازسورج ڈھلنے کے بعداورعصرکی نمازجبکہ سورج مغرب کی طرف متوجہ ہواورمغرب کی نمازغروب کے بعدستاروں  کے نکلنے سے پہلے اورعشاء کی نمازرات کے پہلے حصہ میں  اداکریں  اورجب جمعہ کی اذان ہوتونمازکے لئے تیارہوکرآجائیں  اورنمازمیں  جانے سے پہلے غسل کریں  اورلوگوں  کوحکم کروکہ مال غنیمت میں  سے اللہ کاخمس جواس نے مسلمانوں  پرمقررکیاہے نکالیں  اور بارانی اورنہری زمین میں  سے عشراورچاہی میں  سے نصف العشرمحصول وصول کریں  اوردس اونٹوں  کی زکوٰة دوبکریاں  اوربیس کی چاربکریاں  وصول کریں  اور چالیس گائیوں  میں  سے ایک گائے اورتیس میں  سے ایک جذعہ نریامادہ وصول کریں  اورجنگل کی چرنے والی چالیس بکریوں  میں  سے ایک بکری وصول کریں  یہ اللہ کافریضہ ہے جوزکوٰة میں  اس نے مومنوں  پرمقررفرمایاہے اورجواس سے زیادہ دے گااس کے لئے بہترہے اورجویہودی یانصرانی دین اسلام قبول کرے وہ ہرحکم میں  مسلمانوں  کے مثل ہے اورجویہودی یانصرانی اپنے دین پرقائم رہے پس ان میں  سے ہربالغ مرداورعورت اورآزاداورغلام پرایک پورادینارجزیہ لازم ہے یااس کی قیمت کے موافق کپڑایااورکوئی چیزدے،پس اگروہ اس جزیہ کواداکرے گاتووہ اللہ اوررسول کی ذمہ داری ہے اورجوجزیہ ادانہ کرے تووہ اللہ اوررسول اورسب مسلمانوں  کادشمن ہے۔

صلوة اللہ علی محمدوالسلام علیہ ورحمة اللہ وبرکاتہ۔[65]

[1] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ جَمَاعَةً ۱۰۵۲،صحیح مسلم کتاب الکسوفبَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۲۱۰۹

[2] صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ۲۱۰۲

[3] صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ۲۱۰۰ ،سنن ابوداودکتاب صلاة استسقائ بَابُ مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ ۱۱۷۹،مسنداحمد۱۵۰۹۸،السنن الکبری للبیہقی۶۳۱۴

[4]صحیح مسلم کتاب الکسوف  بَابُ ذِكْرِ مَنْ قَالَ إِنَّهُ رَكَعَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ فِی أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ  ۲۱۱۱،سنن ابوداود کتاب صلاة استسقائ  بَابُ مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ ۱۱۸۳،سنن نسائی کتاب الکسوف باب بَابُ كَیْفَ صَلَاةُ الْكُسُوفِ      ۱۴۷۰

[5] سنن ابوداودکتاب بَابُ مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ۱۱۸۲،مستدرک حاکم ۱۲۳۷، مسنداحمد۲۱۲۲۵

[6] سبل السلام۵۴۴؍۱

[7] میزان الاعتدال ۳۰۵؍۳

[8] صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ ذِكْرِ مَنْ قَالَ إِنَّهُ رَكَعَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ فِی أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ۲۱۱۲،سنن ابوداودکتاب صلاة الاستسقائ  بَابُ مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ ۱۱۸۳،سنن نسائی کتاب  الکسوف بَابُ كَیْفَ صَلَاةُ الْكُسُوفِ۱۴۷۱،صحیح ابن خزیمة۱۳۸۵

[9] صحیح ابن خزیمة۱۳۹۷

[10] سنن ابوداودکتاب صلاة الاستسقائ بَابُ مَنْ قَالَ یَرْكَعُ رَكْعَتَیْنِ ۱۱۹۴

[11] صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ ذِكْرِ النِّدَاءِ بِصَلَاةِ الْكُسُوفِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ۲۱۱۹

[12] إعلام الموقعین۲۶۶؍۲

[13] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الدُّعَاءِ فِی الخُسُوفِ۱۰۶۰

[14] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ الصَّدَقَةِ فِی الكُسُوفِ ۱۰۴۴

[15] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ  الذکر۱۰۵۹

[16] صحیح بخاری أَبْوَابُ الكُسُوفِ بَابُ الجَهْرِ بِالقِرَاءَةِ فِی الكُسُوفِ۱۰۶۶،صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ ۲۰۹۲،سنن ابوداودکتاب صلاة الاستسقائ بَابُ یُنَادَى فِیهَا بِالصَّلَاةِ ۱۱۹۰،سنن نسائی کتاب الکسوف بَابُ الْأَمْرِ بِالنِّدَاءِ لِصَلَاةِ الْكُسُوفِ۱۴۶۸

[17] سنن ابوداودکتاب صلاة الاستسقائ بَابُ مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ ۱۱۸۵،السنن  الکبری للنسائی ۱۸۸۳،مستدرک حاکم ،۱۲۳۸،السنن الکبری للبیہقی  ۶۳۳۵

[18] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ الجَهْرِ بِالقِرَاءَةِ فِی الكُسُوفِ ۱۰۶۵،صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ ۲۰۹۳،سنن ابوداودکتاب صلاة الاستسقائ بَابُ یُنَادَى فِیهَا بِالصَّلَاةِ ۱۱۹۰

[19] سنن ابوداودکتاب صلاة الاستسقائ بَابُ مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ ۱۱۸۴

[20] نیل الاوطار۳۹۴؍۳

[21] تحفة الاحوذی۱۲۰؍۳

[22] تمام المنة۲۶۳؍۱

[23] تحفة الاحوذی۱۱۹؍۳،نیل الاوطار۳۹۴؍۳،المغنی لابن قدامة۳۱۳؍۲،المجموع شرح المهذب ۴۶؍۵،المبسوط۷۶؍۲

[24] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ جَمَاعَةً۱۰۵۲

[25] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ خُطْبَةِ الإِمَامِ فِی الكُسُوفِ ۱۰۴۶

[26] صحیح بخاری کتاب  الکسوف  بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَوِّفُ اللهُ عِبَادَهُ بِالكُسُوفِ۱۰۴۸

[27] السنن الکبری للبیہقی۶۳۸۲،مصنف عبدالرزاق۴۹۲۹

[28]شرح الزرقانی علی المواھب ۲۲۳؍۵، زادالمعاد۵۸۹؍۳،عیون الآثر۳۲۱؍۲،ابن سعد۲۵۵؍۱

[29] صحیح بخاری كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّینَ وَالمُعَانِدِینَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ حُكْمِ المُرْتَدِّ وَالمُرْتَدَّةِ وَاسْتِتَابَتِهِمْ۶۹۲۳

[30] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ مَنَاقِبِ سَالِمٍ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۷۵۸، بَابُ مَنَاقِبِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۸۰۶،وبَابُ مَنَاقِبِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۰۸، وکتاب بَابُ القُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۹۹۹، صحیح مسلم کتاب الفضائل  بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأُمِّهِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا۶۳۳۴ 

[31]مسنداحمد۱۳۹۹۰،سنن ابن ماجہ کتاب  السنةفَضَائِلُ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ۱۵۴

[32] اسدالغابة۱۸۷؍۵

[33] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ أَبِی مُوسَى، وَمُعَاذٍ إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ ۴۳۴۱، وکتاب الادب بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا۶۱۲۵،وکتاب الاحکام بَابُ أَمْرِ الوَالِی إِذَا وَجَّهَ أَمِیرَیْنِ إِلَى مَوْضِعٍ: أَنْ یَتَطَاوَعَا وَلاَ یَتَعَاصَیَا ۷۱۷۲، وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ۳۰۳۸،صحیح مسلم كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ فِی الْأَمْرِ بِالتَّیْسِیرِ، وَتَرْكِ التَّنْفِیرِعن ابی موسیٰ ۴۵۲۶

[34] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ أَبِی مُوسَى، وَمُعَاذٍ إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ ۴۳۴۷،وکتاب الزکوٰة بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِیَاءِ وَتُرَدَّ فِی الفُقَرَاءِ حَیْثُ كَانُوا۱۴۹۶ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ باب الدعاء إلى الشهادتین وشرائع الإسلام۱۲۱،مسنداحمد۲۰۷۱،صحیح ابن خزیمة۲۲۷۵،صحیح ابن حبان۵۰۸۱،السنن الکبری للبیہقی۱۳۱۲۸

[35] فتح الباری ۳۶۰؍۳

[36] ابن ہشام ۵۹۰؍۲  ،الروض الانف۴۸۷؍۷

[37] تاریخ الخمیس۱۴۳؍۲

[38] جامع ترمذی ابواب الاحکام بَابُ مَا جَاءَ فِی القَاضِی كَیْفَ یَقْضِی۱۳۲۷،سنن ابوداودکتاب  القضائ بَابُ اجْتِهَادِ الرَّأْیِ فِی الْقَضَاءِ۳۵۹۲،سنن الدارمی۱۷۰،مسنداحمد۲۲۰۰۷

[39] سلسلہ الاحادیث الضعیفہ ح۸۸۱،صفحہ نمبر۲۷۳؍۲

[40]البدایة والنہایة۱۱۶؍۵ ،شرح الزرقانی علی المواھب۱۳۳؍۴ 

[41] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا ۶۱۲۴،صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ بَیَانِ أَنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَأَنَّ كُلَّ خَمْرٍ حَرَامٌ۵۲۱۴

[42] دلائل النبوة للبیہقی۴۰۴؍۵ ،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۳۳؍۴

[43] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۳۷؍۴

[44] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ أَبِی مُوسَى، وَمُعَاذٍ إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ ۴۳۴۱، ۴۳۴۲ ،وکتاب استتابة المعاندین والمرتدین وقتالھم بَابُ حُكْمِ المُرْتَدِّ وَالمُرْتَدَّةِ وَاسْتِتَابَتِهِمْ ۶۹۲۳،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ النَّهْیِ عَنْ طَلَبِ الْإِمَارَةِ وَالْحِرْصِ عَلَیْهَا۴۷۱۸،البدایة والنہایة ۱۱۵؍۵

[45] الانعام ۱۳۶

[46] زادالمعاد  ۵۷۸؍۳،ابن سعد۳۲۴؍۱،عیون الاثر۳۱۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۱۹؍۵

[47] المنجدفی الاعلام

[48] مغازی واقدی ۱۰۷۹؍۳،ابن سعد۱۶۹؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب ۱۴۰؍۴

[49] زادالمعاد ۵۸۶؍۳، ابن سعد ۳۴۵؍۱،عیون الآثر۳۲۲؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۲۵؍۵

[50] ابن سعد۲۶۱؍۱

[51] الانعام۸۲

[52] اسد الغابة ۴۰۱؍۶، المعجم الکبیرللطبرانی۲۳۲۹

[53] صحیح بخاری کتاب فضائل القران بَابُ كَانَ جِبْرِیلُ یَعْرِضُ القُرْآنَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۹۹۸

[54] ابن سعد۳۳۲؍۱، زادالمعاد۵۸۵؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۲۲۳؍۵

[55] ابن سعد ۲۳۱؍۱

[56] اسدالغابة۳۸۳؍۴

[57] اسدالغابة۴۸۳؍۱

[58] صحیح بخاری کتاب الزکوٰةبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:وَفِی الرِّقَابِ وَالغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللهِ۱۴۶۸،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابٌ فِی تَقْدِیمِ الزَّكَاةِ وَمَنْعِهَا۲۲۷۷

[59] صحیح بخاری کتاب الاحکام بَابُ رِزْقِ الحُكَّامِ وَالعَامِلِینَ عَلَیْهَا۷۱۶۴،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِبَاحَةِ الْأَخْذِ لِمَنْ أُعْطِیَ مِنْ غَیْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ۲۴۰۶

[60] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِبَاحَةِ الْأَخْذِ لِمَنْ أُعْطِیَ مِنْ غَیْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ۲۴۰۵

[61] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ تَرْكِ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِیِّ عَلَى الصَّدَقَةِ۲۴۸۱،۲۴۸۲

[62] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِیدِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ ۴۳۵۱ ،وکتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام۳۶۱۰، وکتاب التوحیدوالردعلی الجھیمةبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:تَعْرُجُ المَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْهِ ۷۴۳۲، وکتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ:وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِیحٍ صَرْصَرٍ۳۳۳۴،وکتاب اسقتابة المعاندین والمرتدین وقتالھم بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِینَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَیْهِمْ۶۹۳۱، صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ۲۴۵۶

[63] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النسائ بَابُ یَسْتَفْتُونَكَ قُلْ: اللهُ یُفْتِیكُمْ فِی الكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَیْسَ لَهُ ۴۶۰۵،صحیح مسلم کتاب الفرائض بَابُ آخِرُ آیَةٍ أُنْزِلَتْ آیَةُ الْكَلَالَةِ ۴۱۵۳ ،سنن ابوداودکتاب الفرائض بَابُ مَنْ كَانَ لَیْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أَخَوَاتٌ ۲۸۸۸

[64] سنن ابوداودکتاب الفرائض بَابُ مَنْ كَانَ لَیْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أَخَوَاتٌ ۲۸۸۷

[65] ابن ہشام۵۹۴؍۲،الروض الانف ۴۹۳؍۷،تاریخ طبری۱۲۸؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۴۱۳؍۵

Related Articles