بعثت نبوی کا گیارهواں سال

مضامین سورة ابراہیم

جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوماننے سے انکارکررہے تھے اور دعوت حق کوناکام کرنے کے لیے ہرطرح کی برترسے بدترچالیں چل رہے تھے ان کو فہمائش اورتنبیہ کی گئی ،مگرفہمائش کی بہ نسبت اس سورہ میں تنبیہ اورملامت اورزجروتوبیح کا انداززیادہ تیزہے ،فرعون اور آل فرعون کاخصوصی طورپرتذکرہ کرکے مشرکین مکہ کی اس غلط فہمی کودور کیاگیاکہ کوئی انسان  اللہ کی طرف سے بھیجاہوانبی نہیں ہو سکتا ، بطور عبرت نوح علیہ السلام ،موسٰی ،ابراہیم علیہ السلام ،اسحاق  علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام اوران اقوام پر  اللہ کاعذاب کا ذکر کر کے کفار مکہ کو نصیحت کی گئی،میدان محشرمیں دنیامیں کمزوروں اور بڑوں کامکالمہ بیان کیاگیا، اسی طرح فیصلہ چکانے کے بعدجہنم میں آگ کے تخت پرکھڑے ہوکرشیطان بھی اپنے پیرو کاروں کے سامنے حقیقت کا اعتراف کرلے گااورکہے گاکہ اللہ نے جووعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اورمیں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورانہیں کیا ، میراتم پر کوئی زورنہیں تھا میں نے توتمہیں اپنے راستے کی طرف دعوت دی تھی اورتم نے میری دعوت قبول کرلی تھی اب مجھے ملامت مت کروبلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ، یہاں نہ میں تمہاری فریادرسی کرسکتاہوں اورنہ تم میری ،اس سے پہلے جوتم لوگوں نے مجھے خدائی میں شریک کررکھاتھامیں اسے بری الذمہ ہوں ،مسلمانوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی کہ وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکبادسے ہوگا، سورہ کے آخر میں بطورسبق ابراہیم علیہ السلام کی دعاوں کا ذکر ہے جوانہوں نے مصائب ومشکلات میں رب سے مانگیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ ‎﴿١﴾‏ اللَّهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ وَوَیْلٌ لِّلْكَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِینَ یَسْتَحِبُّونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا عَلَى الْآخِرَةِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَیَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ ‎﴿٣﴾(ابراہیم)
’’ا ل ر۔یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف، جس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے،اور کافروں کے لیے تو سخت عذاب کی خرابی ہے جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں ۔‘‘

قرآن اندھیرے سے روشنی کی طرف لے جاتاہے :

ا ل ر،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے،جوپرہیزگارلوگوں کوہدایت و رہنمائی مہیاکرتی ہے ، جوحق وباطل کافرق کرنے والی ہے ،جس میں جھوٹ نہ آگے سے داخل ہوسکتاہے اورنہ پیچھے سے،اور جس کی قیامت تک کی حفاظت کاذمہ اللہ نے لیا ہوا ہے تاکہ تم اللہ کی توفیق اوراذن سے ان لوگوں کوکفروشرک ،اخلاق بداورمختلف اقسام کے گناہوں کے گھور اندھیروں سے نکال کرعلم وایمان کی روشنی میں لے آؤ ،جیسے فرمایا:

 هُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِهٖٓ اٰیٰتٍؚبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۰۝۹ [1]

ترجمہ:وہ اللہ ہی توہے جواپنے بندے پرصاف صاف آیتیں نازل کررہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کرروشنی میں لے آئے ۔

اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِیٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ یُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۔۔۔۝۰۝۲۵۷ ۧ [2]

ترجمہ: جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کاحامی ومددگاراللہ ہے اور وہ ان کوتاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتاہے اور جو لوگ کفرکی راہ اختیارکرتے ہیں ان ، حامی ومددگار طاغوت ہیں اوروہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔

اوروہ اپنی ذات میں آپ محمودہے ،اورزمین اورآسمانوں کی ساری موجودات کاخالق ومالک اور رازق ہے،جیسے فرمایا:

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔۔۝۱۵۸ [3]

ترجمہ:اے محمد کہو کہ اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔

اورجولوگ دنیاکی زندگی پرراضی اورمطمئن ہوکر آخرت سے غافل ہوگئے ہیں ، جودعوت حق کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے ،جواللہ کے بندوں کواپنے مکروفریب کے جال میں پھانس کراللہ کے مقرر راستے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، جو اپنی اغراض وخواہشات کے مطابق اسلامی تعلیمات میں تبدیلی کرناچاہتے ہیں ،جواللہ کے دین کواپنی من مرضی کابناناچاہتے ہیں ،یہ لوگ بدترین گمراہی میں مبتلاہیں اور ان کے لئے سخت تباہ کن سزاہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ ۖ فَیُضِلُّ اللَّهُ مَن یَشَاءُ وَیَهْدِی مَن یَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٤﴾‏ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآیَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَیَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ‎﴿٥﴾‏(ابراہیم)
’’ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے، اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ دکھا دے، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے (یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انھیں اللہ کے احسانات یاد دلا، اس میں نشانیاں ہیں ہرایک صبر شکر کرنے والے کے لیے ۔‘‘

ہرقوم کی اپنی زبان میں رسول :

ہم نے دعوت حق پہنچانے کے لئے جب کسی امت میں کوئی رسول بھیجاہے،وہ انہی کے قوم کاایک فردہوتاتھااور اپنی قوم ہی کی زبان میں تبلیغ وتلقین کیاکرتاتھا تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کربات سمجھائے تاکہ انہیں عذرکرنے کاکوئی موقع نہ رہے ،پھراللہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق جسے چاہتاہے بھٹکادیتاہے اورجسے چاہتاہے اپنے اس کلام کے ذریعہ سے راہ راست کی توفیق بخش دیتا ہے وہ بالادست اوراپنے تمام افعال میں حکمت والا ہے،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح ہم نے آپ کواپنی قوم کی طرف بھیجا ہے ،ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے کتاب نازل کی ہے،اسی طرح ہم نے موسیٰ کوبھی اپنی رسالت کی صداقت پرنومعجزات ودلائل دے کربنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا تھا تاکہ وہ انہیں تاریخ الٰہی کے سبق آموزواقعات سناکر کفرو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کرعلم وایمان کی روشنی میں لائیں ،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنی قوم یاعلاقہ کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیاکی طرف مبعوث ہوئے ہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔۔۝۰۝۱۵۸ [4]

ترجمہ:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہوکہ اے انسانومیں تم سب کی طرف اس اللہ کاپیغمبرہوں جوزمین اورآسمانوں کی بادشاہی کامالک ہے ۔

أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جوکسی نبی کوعطانہیں ہوئیں ،مہینے بھرکی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مددکی گئی ہے اورمیرے لئے ساری زمین مسجد اورپاکیزہ قراردی گئی ہے(سوائے ان مقامات کے جن کونجاست یابعض دیگروجوہ کی بناپرمتثنیٰ کر دیا گیا ہے،بعض احادیث میں صراحتاًان کاذکرآیاہے) اس لیے میری امت کے جس شخص کوجہاں نمازکاوقت ہوجائے وہیں نمازپڑھ لے اورمجھ پرمال غنیمت حلال کیے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پرحلال نہیں تھےاورمجھے شفاعت سونپی گئی ہے(شفاعت سے مرادشفاعت کبریٰ ہے جوتمام امتوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے جسے مقام محمودسے بیان کیاگیاہے ورنہ شفاعت تودوسرے بھی کریں گے)اورہرنبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتاتھااور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں ۔[5]

تاریخ الٰہی کے ان سبق آموزواقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جوسختی کے وقت صبراورنرمی کے وقت شکرکرنے والا ہو ،

عَنْ صُهَیْبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَیْرًا لَهُ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کامعاملہ بھی عجیب ہے،اللہ تعالیٰ اس کے لئے جس امرکابھی فیصلہ کرے،وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے،اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے اوروہ اس پر صبرکرے تویہ بھی اس کے حق میں بہترہوتاہے اوراگراسے کوئی راحت وآرام ملے اوروہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تواس کاانجام بھی اس کے لئے بہترہوتا ہے۔[6]

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِی ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِیمٌ ‎﴿٦﴾‏ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ‎﴿٧﴾‏ وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ ‎﴿٨﴾(ابراہیم)
’’جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی، اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے ،موسٰی (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔‘‘

یادکروجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہاتھااے قوم!اللہ کے اس انعامات و احسانات کویادکروجواس نے تم پرکیےہیں ،اس نے تم کوفرعون اوراس کے سرداروں سے نجات دی جوتم کوبے وقعت کرکے تم پربدترین اورتوہین آمیز مظالم ڈھاتے تھے ، ان مظالم کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایاکہ وہ تمہاری نرینہ اولاد کو قتل کرڈالتے تھے اورتمہاری لڑکیوں کواپنی خدمت کے لیے زندہ چھوڑدیتے تھے،اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی تاکہ وہ دیکھے کہ آیاتم اس سے عبرت حاصل کرتے ہویانہیں ،جیسے فرمایا:

 ۔۔۔وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۱۶۸ [7]

ترجمہ:اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں ۔

اوریاد رکھو تمہارے رب نے اپنی عزت وجلال اورکبریائی کی قسم کھا کر کہا تھا کہ اگرتم لوگ میری عظیم الشان دعوت حق پرلبیک کہوگے اور میرا احسان مان کر میرے مطیع فرمان بنے رہو گے تومیں تم کومزیدانعامات اورنعمتوں سے نوازوں گااوراگرمیری نعمتوں کی ناشکری سرکشی کرو گے توتمہیں عبرت ناک انجام سے دوچارہونا پڑے گا،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ یَوْمَ الْعِیدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، بِغَیْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ، فَأَمَرَ بِتَقْوَى اللهِ، وَحَثَّ عَلَى طَاعَتِهِ، وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى أَتَى النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ، فَقَالَ:تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّ أَكْثَرَكُنَّ حَطَبُ جَهَنَّمَ، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سِطَةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّیْنِ، فَقَالَتْ: لِمَ؟ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ:لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ الشَّكَاةَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِیرَ، قَالَ: فَجَعَلْنَ یَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِیِّهِنَّ، یُلْقِینَ فِی ثَوْبِ بِلَالٍ مِنْ أَقْرِطَتِهِنَّ وَخَوَاتِمِهِنَّ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدکی نمازمیں حاضرہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے بغیراذان اورتکبیرکے نمازپڑھی،پھربلال رضی اللہ عنہ کاسہارالے کرکھڑے ہوئے اورلوگوں ، سمجھایا اورانہیں نصیحت کی اوراللہ کے تقویٰ اوراس کی فرمانبرداری کاحکم دیا،پھرعورتوں کے پاس تشریف لے گئےاورانہیں بھی سمجھایابجھایااورفرمایاخیرات کروکہ تم میں اکثرجہنم کاایندھن ہیں ،ایک پچکے ہوئے رخساروالی عورت ان میں کھڑی ہوگئی اوراس نے عرض کیاکیوں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس لئے کہ تم اپنے خاوند کی بہت شکایت اور ناشکری کرتی ہو، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھرعورتیں اپنے ہار،کانوں کی بالیاں اورہاتھوں کی انگوٹھیاں اتارکربطورصدقہ بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں (تاکہ وہ بیت المال میں جمع کرادیں ) ۔[8]

اور موسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ اگر تم اللہ کی شکرگزاری کروگے تواسی میں تمہارا فائدہ ہے ،اوراگرناشکری کروگے تواللہ کااس میں کوئی نقصان نہیں ہے ،وہ توبندوں کی شکرگزاری سے بے نیازاور اپنی ذات میں آپ محمود ہے،یعنی نیکیاں اس کی بادشاہی میں اضافہ کرسکتی ہیں نہ گناہ اس کی بادشاہی میں کوئی کمی کرسکتے ہیں ،وہ غنا میں کامل ہے اوروہ اپنی ذات ،اپنے اسماء وصفات اورافعال میں قابل حمدوستائش ہے،اس کی ہرصفت ،صفت حمدوکمال ہے ،اس کاہرنام اچھانام ہے اوراس کاہر فعل ،فعل جمیل ہے ،جیسے فرمایا:

اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللهَ غَنِیٌّ عَنْكُمْ۔۔۔ ۝۷ [9]

ترجمہ:اگرتم کفرکروتواللہ تم سے بے نیازہے۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللهُ۔۔۔۝۰۝۶ [10]

ترجمہ: انہوں نے ماننے سے انکار کر دیااورمنہ پھیرلیاتب اللہ بھی ان سے بے پرواہوگیا۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ،

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو،اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں ہدایت دوں ،تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں کھلاؤں تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں پہناؤں تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں تمہیں لباس پہناؤں گا، اے میرے بندو تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دوں گا،

 یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ،

اے میرے بندو! تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو،اے میرے بندو!اگر تمہارے اگلےاور پچھلے آدمی اورجنات سب ایسے ہوجائیں جیسے تمہارا سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگارشخص تو اس سے میری حکومت اوربادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا،اوراگر اگرتمہارے اگلے اورپچھلے انسان اورجنات سب ایسے ہوجائیں جوتم میں سب سے بڑانافرمان اورفاجرہوتواس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی،اے میرے بندو!اگرتمہارے اگلے اورپچھلے انسان وجنات سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اورمجھ سے سوال کریں اور میں ہرایک انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطاکردوں تواس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندرمیں ڈبو کر نکالنے سے سمندرکے پانی میں ہوتی ہے۔[11]

‏ أَلَمْ یَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِینَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا یَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوا أَیْدِیَهُمْ فِی أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِی شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَیْهِ مُرِیبٍ ‎﴿٩﴾‏ ۞ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِی اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ یَدْعُوكُمْ لِیَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَیُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِیدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِینٍ ‎﴿١٠﴾‏قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یَمُنُّ عَلَىٰ مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِیَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١١﴾‏ وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَیْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ‎﴿١٢﴾‏(ابراہیم)
’’ کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں ؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد وثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے،ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لیے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہوتم توچاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ داداکرتے رہے ،اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو ،ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے، اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں ،اور ایمانداروں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے، آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں، واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے، توکل کرنے والوں کو یہی لائق ہے اللہ ہی پر توکل کریں۔‘‘

کفاروانبیاء میں مکالمات :

مشرکین اپنے آپ ،سچااورمومنین کوجھوٹاثابت کرنے کے لئے ہمیشہ ہی اللہ جل شانہ کی ذات اورانبیائے کرام پرشکوک کااظہارکرتے آئے ہیں ، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی تقریرکے بعدکفارمکہ سے خطاب فرمایاکیاتمہیں ان قوموں کے حالات نہیں پہنچے جوتم سے پہلے گزرچکی ہیں ؟قوم نوح،عاد،ثموداوران کے بعدآنے والی بہت سی قومیں جن کاشماراللہ ہی کومعلوم ہے ؟ان کے رسول جب ان کے پاس واضح اورقطعی نوعیت کےدلائل وبراہین لے کرآئے جوان کی تعلیمات کی صداقت پردلالت کرتے تھے تودعوت حق سن کرانہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبالیے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فِی قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {فَرَدُّوا أَیْدِیَهُمْ فِی أَفْوَاهِهِمْ} [12]قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كَذَا وَرَدَّ یَدَهُ فِی فِیهِ وَعَضَّ یَدَهُ. وَقَالَ: عَضُّوا عَلَى أَصَابِعِهِمْ غَیْظًا

عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کاقول ’’لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبالیے۔ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دعوت حق سن کرانہوں نے غیض وغضب سے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے ۔[13]

جیسے منافقین کے بارے میں فرمایا

۔۔۔وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظ۔۔۔۝۰۝۱۱۹ [14]

ترجمہ: مگرجب جداہوتے ہیں توتمہارے خلاف ان کے غیظ وغضب کایہ حال ہوتاہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

 ۔۔۔یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ۔۔۔۝۱۹ [15]

ترجمہ:یہ بجلی کے کڑاکے سن کراپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں ۔

اورتکبرسے کہاکہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہواس پرہم ایمان نہیں لاتے اورجس توحیدکی تم ہمیں دعوت دیتے ہواس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیزشک میں پڑے ہوئے ہیں ، ان قوموں کے رسولوں نے کہاکیاتمہیں اللہ تعالیٰ کی خالقیت الوہیت، وحدانیت اورربوبیت میں شک ہے جو بغیرستون کے بلندوبالاسات آسمانوں اوروسیع وعریض زمین کاخالق،مالک اوراپنی بحروبرکی تمام مخلوقات کارازق ہے؟پھر اللہ فاطر السماوات والارض تمہاری عبادات کامستحق کیوں نہ ہو، وہ تمہیں ایمان وتوحید کی دعوت دے رہاہے تاکہ تم اس دعوت پرلبیک کہواور وہ اس کے اجرمیں تمہارے گناہوں کومعاف فرمادے اورتمہاری موت تک تمہیں فائدے پہنچائے ،جیسے فرمایا:

 وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَـنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّیُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ۔۔۔۝۳ [16]

ترجمہ:اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدّتِ خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا ۔

مگر ان کی قوموں نے رسولوں کی تکذیب کی اورکہا تم اللہ کے رسول نہیں ہوسکتے ،تم ہرحیثیت سے ہم جیسے انسان ہو،ہماری طرح کھاتے ،پیتے ،شادی بیاہ کرتے اوررزق کے حصول کے لئے بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، اور ایک انسان وحی الٰہی ،نبوت اورر سالت کا مستحق کیسے ہوسکتاہے ،نبوت کے لئے تو کوئی ماورائی ہستی یاکوئی فرشتہ ہوناچاہیے ، اورتمہاری اس دعوت کا مقصدیہ ہے کہ تم ہمیں ان مقدس ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہوجن کی پرستش ہمارے آباؤاجداد سے ہوتی چلی آرہی ہےاورہم تمہاری رائے کی خاطراپنے آباؤاجدادکی سیرت اوران کے نظریات کوکیسے چھوڑسکتے ہیں اگرتم واقعی ہی اللہ کے رسول ہوتواپنی صداقت میں کوئی معجزہ دکھاؤ،ان کے رسولوں نے اپنی قوموں کے اعتراض پرفرمایا بلاشبہ ہم فرشتہ یاکوئی ماوارائی مخلوق نہیں ہیں بلکہ تم ہی جیسے انسان ہیں ، مگرتمہارایہ اعتراض اس حق کوباطل نہیں کرسکتاجسے ہم لے کرآئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتاہے احسان فرماکررسالت ونبوت سے نوازتاہے تاکہ وہ بندوں کوطاغوت کی بندگی سے ہٹائیں اورراہ راست کی طرف دعوت دیں ، اورکسی معجزے کاصدور ہمارے اختیارمیں نہیں ہے،اورہمارے اختیارمیں توکچھ بھی نہیں ہیں ،ہم تواپنے نفع یانقصان پربھی قادرنہیں ہیں ، معجزہ تواللہ ہی کے اذن سے ظاہر ہوسکتا ہے،اگراس کی مشیت ہوئی تو معجزہ ظاہر فرما دے ورنہ نہیں ،وہ جوکچھ بھی کرتاہے اپنی حکمت اوررحمت کے تقاضے کے مطابق کرتاہے ، اوراہل ایمان کواللہ ہی پربھروسہ کرنا چاہئے،اورہم کیوں نہ اللہ پربھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟دعوت حق پہنچانے پرجواذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہوان پر ہم صبر کریں گے اوربھروساکرنے والوں کابھروسااللہ ہی پرہوناچاہیےکہ وہی کفارکی شرارتوں اورسفاہتوں سے بچانے والاہے۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٣﴾‏ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ ‎﴿١٤﴾‏ وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ‎﴿١٥﴾‏ مِّن وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَیُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِیدٍ ‎﴿١٦﴾‏ یَتَجَرَّعُهُ وَلَا یَكَادُ یُسِیغُهُ وَیَأْتِیهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَیِّتٍ ۖ وَمِن وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ ‎﴿١٧﴾‏(ابراہیم)
’’کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کردیں گے ،اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے، یہ ہے ان کے لیے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزدہ رہیں، اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے، اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وہ پیپ کا پانی پلایا جائے گا جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گاپھر بھی وہ اپنے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ موت آتی دکھائی دے گی لیکن وہ مرنے والا نہیں، پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے۔‘‘

جب کوئی حجت باقی نہ رہی تومنکرین حق اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہوکر اپنے رسولوں کودھمکانے لگے کہ یاتوتم ہمارے آباؤاجدادکے مشرکانہ دین میں واپس آجاؤورنہ ہم تمہیں اپنے وطن سے نکال دیں گے،قوم لوط نے بھی لوط علیہ السلام کویہی دھمکی دی تھی ۔

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ۝۰ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ۝۵۶ [17]

ترجمہ:مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا نکال دو لوط علیہ السلام کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں ۔

مشرکین مکہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْہَا وَاِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۷۶ [18]

ترجمہ:اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔

وَاِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَیَمْكُـرُوْنَ وَیَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَیْرُ الْمٰكِـرِیْنَ۝۳۰ [19]

ترجمہ:وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کر دیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے ۔

تب ان کے رب نے ان پروحی بھیجی کہ یہ لوگ تو کیا ہمارے رسولوں کواپنی بستیوں سے نکالیں گے اس سے پہلے ہی ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۷۱ۚۖاِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳ [20]

ترجمہ:اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناًان کی مدد کی جائے گی اورہمارالشکرہی غالب ہوکررہے گا۔

كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔۔۔۝۰۝۲۱ [21]

ترجمہ: اللہ نے لکھ دیاہے کہ میں اورمیرے رسول ہی غالب ہوکررہیں گے۔

اوران کے بعدتمہیں زمین میں آبادکریں گے ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۝۱۰۵ [22]

ترجمہ: اور زبورمیں ہم نصیحت کے بعدیہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا۔۔۔۝۰۝۱۳۷ [23]

ترجمہ:اوران کی جگہ ہم نے ان لوگوں کوجوکمزوربناکررکھے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق ومغرب کاوارث بنادیاجسے ہم نے برکتوں سے مالامال کیا تھا ۔

۔۔۔اِنَّ الْاَرْضَ لِلهِ۝۰ۣۙ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ۔۔۔۝۰۝۱۲۸ [24]

ترجمہ:زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے۔

یہ انعام ہے اس کاجودنیامیں میرے حضور جواب دہی کاخوف رکھتا اورمیرے عذاب سے ڈرتا ہو ، جیسے فرمایا

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۝۴۰ۙفَاِنَّ الْجَنَّةَ ہِیَ الْمَاْوٰى۝۴۱ۭ [25]

ترجمہ: اورجس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کاخوف کیاتھا اور نفس کوبری خواہشات سے بازرکھاتھا ، جنت اس کاٹھکانہ ہوگی۔

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ۝۴۶ۚ [26]

ترجمہ: اور ہراس شخص کے لئے جواپنے رب کے حضورپیش ہونے کاخوف رکھتا ہو ،دو باغ ہیں ۔

اورجس نے سرکشی کی اس کا ٹھکانا جہنم ہے ،جیسے فرمایا

فَاَمَّا مَنْ طَغٰى۝۳۷ۙوَاٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۳۸ۙفَاِنَّ الْجَــحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰى۝۳۹ۭ [27]

ترجمہ: تو جس نے سرکشی کی تھی اوردنیاکی زندگی کوترجیح دی تھی ،دوزخ ہی اس کاٹھکاناہوگی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ یَوْمَ القِیَامَةِ لَهَا عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ وَلِسَانٌ یَنْطِقُ، یَقُولُ: إِنِّی وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ، بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ، وَبِكُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَبِالمُصَوِّرِینَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی ،اس کی دوآنکھیں ہوں گی جودیکھتی ہوں گی اوردوکان ہوں گے جوسنتے ہوں گے اورایک زبان ہوگی جوبولتی ہوگی،وہ تمام مخلوق کونداکرکے کہے گی میں تین شخصوں پرمقررکی گئی ہوں ،ایک جبار،دوسرے وہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کوپکارااورتیسرےمصور۔[28]

مشرکین نے اللہ احکم الحاکمین سے فیصلہ چاہا تھاکہ اگریہ رسول سچے ہیں تواے اللہ ہم کواپنے عذاب کے ذریعے ہلاک کردے،جیسے مشرکین مکہ نے دعامانگی تھی

 وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [29]

ترجمہ:اوروہ بات بھی یادہے جوانہوں نے کہی تھی کہ اے اللہ!اگریہ واقعی حق ہے تیری طرف سے توہم پرآسمان سے پتھر برسادے یاکوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔

چنانچہ مشرکین مکہ نے غزوہ بدرمیں منہ کی کھائی اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنْ تَسْـتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ۝۰ۚ وَاِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَخَیْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ۝۰ۚ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـیْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ۝۰ۙ وَاَنَّ اللهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۹ۧ [30]

ترجمہ:(ان کافروں سے کہہ دو)اگرتم فیصلہ چاہتے تھے تولوفیصلہ تمہارے سامنے آگیااب بازآجاؤ تمہارے ہی لیے بہترہے ،ورنہ پھرپلٹ کر اسی حماقت کااعادہ کروگے تو ہم بھی اسی سزاکااعادہ کریں گے اورتمہاری جمعیت خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہوتمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی ،اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔

تویوں مشرکین کافیصلہ ہوااورہرجباردشمن حق نے منہ کی کھائی،پھراس دنیاوی عذاب کے بعدآگے ان کے لئے جہنم کادردناک اورابدی عذاب ہے،جس میں انہیں کچ لہوکاساپانی پینے کودیا جائے گا،جیساکہ فرمایا:

۔۔۔فَلْیَذُوْقُوْهُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙ [31]

ترجمہ:پس وہ مزاچکھیں کھولتے ہوئے پانی اورپیپ لہواوراسی قسم کی دوسری تلخیوں کا۔

۔۔۔وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝۱۵ [32]

ترجمہ: اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں کاٹ دے گا۔

۔۔۔وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ۝۰ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۝۲۹ [33]

ترجمہ: وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ!۔

جہنمی سخت پیاس کے مارے اس پانی کا گھونٹ بھرے گا مگروہ اسے گلے سے نہیں اتارسکے گااورانواع و اقسام کے عذاب چکھ کروہ موت کی آرزوکریں گے مگروہ مرنے نہ پائیں گے،جیسے فرمایا

۔۔۔لَا یُقْضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍ۝۳۶ۚوَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۔۔۔ ۝۳۷ۧ [34]

ترجمہ: نہ اس کا قصہ پاک کردیاجائے گاکہ مرجائیں اورنہ ان کے لئے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی ،اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہراس شخص کوجوکفرکرنے والا ہو ، وہ وہاں چیخ چیخ کرکہیں گے کہ اے ہمارے رب !ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔

اس طرح ایک سخت عذاب اس کی جان کو لاگورہے گا۔

اورجہنمیوں کو کھانے کے لیے زقوم کادرخت دیاجائے گااوروہ انواع واقسام کےعذاب سے درچارہوں گے۔

اِنَّہَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِیْٓ اَصْلِ الْجَحِیْمِ۝۶۴ۙطَلْعُہَا كَاَنَّہٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ۝۶۵فَاِنَّہُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْہَا فَمَالِـــــُٔوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۝۶۶ۭثُمَّ اِنَّ لَہُمْ عَلَیْہَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ۝۶۷ۚ ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِیْمِ۝۶۸ [35]

ترجمہ:وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے ،اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر،جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اور اس سے پیٹ بھریں گے ،پھر اس پر پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ملے گااور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی ۔

ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُكَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۴۳ۘیَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ [36]

ترجمہ:(اس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرمین جھوٹ قرار دیا کرتے تھے،اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳طَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُہْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙۙ كَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰى سَوَاۗءِ الْجَحِیْمِ۝۴۷ۖۤثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۝۴۸ۭذُقْ ۝۰ۚۙ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ۝۴۹ اِنَّ ھٰذَا مَا كُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ۝۵۰ [37]

ترجمہ:زقوم کا درخت گناہگاروں کا کھانا ہوگا،پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گا جیسے تیل کی تچھلٹ جیسا کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے،پکڑو اسے اور گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ،اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب،چکھ اس کا مزا ، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو ، یہ وہی چیز ہے جس کے آنے میں تم لوگ شک رکھتے تھے ۔

وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ۝۴۱ۭفِیْ سَمُوْمٍ وَّحَمِیْمٍ۝۴۲ۙوَّظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ۝۴۳ۙ لَّا بَارِدٍ وَّلَا كَرِیْمٍ۝۴۴ [38]

ترجمہ:اور بائیں بازو والے ، بائیں بازو والوں کی بدنصیبی کا کیا پوچھنا وہ لوکی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی اور کالے پانی کے سائے میں ہوں گے جو نہ ٹھنڈا ہوگا نہ آرام دہ ۔

ھٰذَا۝۰ۭ وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ۝۵۵ۙجَہَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلَوْنَہَا۝۰ۚ فَبِئْسَ الْمِہَادُ۝۵۶ھٰذَا۝۰ۙ فَلْیَذُوْقُوْہُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙ وَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِہٖٓ اَزْوَاجٌ۝۵۸ۭ [39]

ترجمہ:یہ تو ہے متقیوں کا انجام اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے ،جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے بہت ہی بری قیام گاہ،یہ ہے ان کے لیے ، پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی اور پیپ لہواور اس قسم کی دوسری تلخیوں کا۔

أَعَاذَنَا اللَّهُ مِنْهُ ۔

مَّثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا یَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَیْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ ‎﴿١٨﴾‏أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن یَشَأْ یُذْهِبْكُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ‎﴿١٩﴾‏ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِیزٍ ‎﴿٢٠﴾(ابراہیم)
’’ ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے، جو بھی انہوں نے کیا اس میں کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے، یہی دور کی گمراہی ہے ، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے،اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے، اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں ۔‘‘

بے سوداعمال :

جن لوگوں نے اپنے رب کی نافرمانی وسرکشی کی روش اختیارکی ہے،عالم آخرت میں ان کاپوراکارنامہ حیات اورزندگی بھرکاساراسرمایہ عمل آخرکارایسالاحاصل اوربے معنی ثابت ہوگا،اوران کے اعمال کاایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گاکہ اسے اللہ کے میزان میں رکھ کرکچھ بھی وزن پاسکیں ،اس وقت یہ کافرحسرت و افسوس کے ساتھ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے جیسے فرمایا

مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ھٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْهُ ۔۔۔۝۱۱۷ [40]

ترجمہ: جو کچھ وہ اپنی اس دنیاکی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اس کی مثال اس ہواکی سی ہے جس میں پالاہواوروہ ان لوگوں کی کھیتی پرچلے جنہوں نے اپنے اوپرآپ ظلم کیاہے اوراسے بربادکرکے رکھ دے۔

ایک مقام پر فرمایا

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳ [41]

ترجمہ: اور جوکچھ بھی ان کاکیادھرا ہے اسے لے کرہم غبارکی طرح اڑادیں گے۔

مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْہُ۝۰ۭ وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۱۱۷ [42]

ترجمہ:جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ ان لوگوں کی کھیتی پر چلے جنھوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے،اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا درحقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں ۔

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۝۰ۭ لَا یَـقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا۝۰ۭ وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۝۲۶۴ [43]

ترجمہ:اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہےنہ آخرت پر، اس کے خرچ کی مثال ایسی ہےجیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی ، اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئ اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے ۔

اوریہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے،اللہ تعالیٰ نے روزقیامت جسموں کے دوبارہ پیداکرنے کے بارے میں اپنی قدرت کاملہ کاذکرفرمایاکیاتم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ نے بلندوبالااورارفع واعلیٰ آسمان اوروسیع و عریض زمین کی تخلیق کوحق پر قائم کیا ہے ،باطل پرنہیں ؟پھرکیاوہ ہستی اس پرقادرنہیں کہ تمام مخلوق کونئے سرے سے دوبارہ پیداکردے اوران کی نیکیوں اوربرائیوں کی جزا و سزادے ،اس کی قدرت ومشیت ایساکرنے سے قاصرنہیں ہے،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳ [44]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس اللہ نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو جلا اٹھائے؟ کیوں نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا ہُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ۝۰ۭ وَہُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ۝۷۹ۙالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۝۸۰ اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ۝۰ۭ۬ بَلٰى۝۰۝۰ۤوَہُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـیْمُ۝۸۱اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۸۳ۧ [45]

ترجمہ:کیاانسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑا لو بن کر کھڑا ہو گیا ؟اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہےاور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے کہتا ہے کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟اس سے کہوانہیں وہ زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے،وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ جیسوں کو پیدا کر سکے ؟ کیوں نہیں ، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے،وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے ،پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے ، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو ۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۔۔۔۝۲۸ [46]

ترجمہ:انسانوں کوپیداکرنا اورپھردوبارہ جلا اٹھاناتو (اس کے لئے ) بس ایساہے جیسے ایک متنفس کو(پیداکرنااورجلااٹھانا)۔

ایک مقام پر فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ ۔۔۔ ۝۲۷ۧ [47]

ترجمہ:وہی ہے جوتخلیق کی ابتداکرتاہے ،پھروہی اس کااعادہ کرے گااوریہ اس کے لئے آسان ترہے۔

اگرتم لوگ اپنی نافرمانیوں اورسرکشیوں سے بازنہ آئے تواللہ تعالیٰ اس پرقادرہے کہ وہ تمہیں ہلاک کرکے تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کردےجوتم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والی ہو ،ایسا کرنااس پرکچھ بھی دشوار نہیں ہے جیسے فرمایا:

اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَلٰی ذٰلِكَ قَدِیْرًا۝۱۳۳ۧ [48]

ترجمہ: اگروہ چاہے توتم لوگوں کوہٹاکرتمہاری جگہ دوسروں کولے آئے اوروہ اس کی پوری قدرت رکھتاہے ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ۔۔۔۝۰۝۵۴ [49]

ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگرتم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتاہے (توپھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیداکردے گاجواللہ کومحبوب ہوں گے اوراللہ ان کومحبوب ہو گا۔

اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۱۶ۚوَمَا ذٰلِكَ عَلَی اللهِ بِعَزِیْزٍ۝۱۷ [50]

ترجمہ:وہ چاہے توتمہیں ہٹاکر کوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے ایسا کرنااللہ کے لئے کچھ بھی دشوار نہیں ۔

۔۔۔وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۝۳۸ۧ [51]

ترجمہ:اگرتم منہ موڑوگے تواللہ تمہاری جگہ کسی اورقوم کولے آئے گااوروہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِیعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَیْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَیْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَیْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِیصٍ ‎﴿٢١﴾(ابراہیم)
’’سب کے سب اللہ کے سامنے روبرو کھڑے ہوں گے ،اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کرسکنے والے ہو ؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بےقراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہیں ہمارے لیے کوئی چھٹکارا نہیں۔‘‘

کمزوروں اورسرداروں کے مکالمات :

اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اسرافیل علیہ السلام صورپھونک دیں گےتوتمام مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشرمیں اللہ کی عدالت میں حاضرہوجائے گی،اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گاکہ ہم اس أَحْكَمُ الْحَاكِمِینَ اورمَالِكِ یَوْمِ الدِّینِ کے سامنے بالکل بے نقاب ہیں ،ہمارا،ئی فعل بلکہ کوئی خیال اوردل کے گوشوں میں چھپاہواکوئی ارادہ تک اس سے مخفی نہیں ہے ، تواس وقت ان میں سے جودنیامیں کمزورتھے وہ ان لوگوں سے جوبڑے بنے ہوئے تھے کہیں گے دنیامیں ہم تمہارے تابع فرمان تھےاب کیاتم اللہ کے عذاب سے ہم کوبچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو؟وہ جواب دیں گے اگراللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی توہم ضرور تمہیں بھی دکھادیتے،اب تویکساں ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں یاصبربہرحال ہماری خلاصی کی کوئی صورت نہیں ،پھروہ ایک دوسرے سے جھگڑیں گے اورہرشخص اپنے آپ کی مدافعت کرتے ہوئے دوسرے پر الزامات لگائے گا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚۖ یَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۝۳۱قَالَ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ۝۳۲وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللهِ وَنَجْعَلَ لَهٗٓ اَنْدَادًا۝۰ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ۔۔۔ ۝۳۳ [52]

ترجمہ:کاش! تم دیکھوان کاحال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضورکھڑے ہوں گے،اس وقت یہ ایک دوسرے پرالزام دھریں گے جو لوگ دنیامیں دباکررکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ اگرتم نہ ہوتے توہم مومن ہوتے،وہ بڑے بننے والے ان دبے ہوئے لوگوں کوجواب دیں گے کیاہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکاتھاجوتمہارے پاس آئی تھی؟نہیں بلکہ تم خودمجرم تھے،وہ دبے ہوئے لوگ ان بڑے بننے والوں سے کہیں گے نہیں بلکہ شب وروزکی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفرکریں اوردوسروں کواس کاہمسرٹھہرائیں ،آخرکارجب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تواپنے دلوں میں پچھتائیں گے۔

اورجب فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں سترگزلمبی زنجیروں میں جکڑکر،گلے میں طوق ڈال کراورمنہ کے بل گھسیٹتے ہوئےجہنم میں ڈال دیں گے توایک دوسرے پرلعنت بھیجیں گے۔

قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ۝۰ۭ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ۝۳۹ۧ [53]

ترجمہ:ہرگروہ جب جہنم میں داخل ہوگاتواپنے پیش روگروہ پرلعنت کرتاہواداخل ہوگا حتٰی کہ جب سب وہاں جمع ہوجائیں گے توہربعدوالا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گاکہ اے رب!یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کوگمراہ کیالہذاانہیں آگ کادوہراعذاب دے ،جواب میں ارشادہوگاہر ایک کے لئے دوہراعذاب ہی ہے مگرتم جانتے نہیں ہو ، اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گاکہ (اگرہم قابل الزام تھے)توتم کوہم پرکون سی فضیلت حاصل تھی اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں عذاب کا مزاچکھو۔

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [54]

ترجمہ:جس روزان کے چہرے آگ پرالٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اوررسول کی اطاعت کی ہوتی ،اورکہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اوراپنے بڑوں کی اطاعت کی اورانہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کردیا،اے رب!ان کودوہرا عذاب دے اوران پرسخت لعنت کر۔

وَاِذْ یَتَـحَاۗجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ۝۴۷قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُلٌّ فِیْهَآ۝۰ۙ اِنَّ اللهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ۝۴۸ [55]

ترجمہ:پھرذراخیال کرواس وقت کاجب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہوں گے ،دنیامیں جولوگ کمزورتھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے اب کیایہاں تم نارجہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کوبچالوگے؟وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں اوراللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکاہے ۔

وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی ۖ فَلَا تَلُومُونِی وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِیَّ ۖ إِنِّی كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِینَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٢٢﴾‏ وَأُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِیَّتُهُمْ فِیهَا سَلَامٌ ‎﴿٢٣﴾‏(ابراہیم)
’’ جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا شیطان کہے گا کہ اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے ، جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے وہ ان جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں انھیں ہمیشگی ہوگی اپنے رب کے حکم سے ، جہاں ان کا خیر مقدم سلام سے ہوگا ۔‘‘

طوطاچشم دشمن شیطان :

اوراللہ کی عدالت سے سب امورکا فیصلہ ہوجا، کے بعدجب اہل ایمان جنت کے آرام وعیش میں اوراہل کفرشرک جہنم کے عذاب میں دھکیل دیے جائیں گے۔

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا۝۷۱ [56]

ترجمہ:(اس فیصلہ کے بعد)وہ لوگ جنہوں نے کفرکیاتھاجہنم کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے ۔ توشیطان آگ کے تخت پرکھڑے ہوکراہل جہنم سے کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جووعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کیے تھے کہ سلامتی میرے پیغمبروں پرایمان لانے اوران کی اطاعت میں ہے، وہ سب سچے اوربرحق تھے اوران کے مقابلے میں میں نے بھلائی کے جتنے وعدے کیے،جوجھوٹی آرزوئیں اورامیدیں دلائیں وہ سراسر دھوکہ اورفریب کے سواکچھ نہیں تھے ،جیسے فرمایا:

یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْهِمْ ۭ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا [57]

ترجمہ: وہ ان لوگوں سے وعدے کرتاہے اور انہیں امیدیں دلاتاہے مگرشیطان کے سارے وعدے بجزفریب کے اورکچھ نہیں ہیں ۔

میری باتوں میں کوئی دلیل وحجت نہیں ہوتی تھی اورمیرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی طاقت بھی نہ تھی ،میں نے اس کے سواکچھ نہیں کیاکہ اپنی باطل دعوت کوخوب آراستہ کرکے تمہیں اس کی طرف دعوت دی اورتم نے پیغمبروں کی دلیل وحجت سے بھر پوردعوت کوبغیرکسی دلیل کےنظراندازکردیااور اپنی خواہشات نفس اورشہوات کی پیروی کرتے ہوئے میری دعوت پر لبیک کہا

اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ۝۱۰۰ۧ [58]

ترجمہ:اس کازورتوانہی لوگوں پرچلتاہے جواس کواپناسرپرست بناتے اوراس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں ۔

اب مجھے ملامت نہ کرواپنے نفس کوہی الزام دوکیونکہ سارا قصور تمہارا اپنا ہی ہے ،تم نے عقل وشعورسے کچھ کام نہ لیااورواضح دلائل وبراہین کونظرانداز کر کے مجرددعوے کے پیچھے لگے رہے جس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں تھی، یہاں نہ میں تمہیں اس دردناک عذاب سے نجات دلاسکتاہوں اورنہ تم اللہ کی طرف سے اس قہروغضب سے مجھے بچاسکتے ہوہرایک کے لئے اپنے اپنے حصے کاعذاب ہے ،اورمیں اس سے بھی بری الذمہ ہوں کہ دنیامیں تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھاتھاحالانکہ میں اس کاشریک نہ تھا، جیسے یہودونصاری کے بارے میں فرمایا

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ ۔۔۔۝۳۱ [59]

ترجمہ :انہوں نے اپنے علماء اوردرویشوں کواللہ کے سوااپنارب بنالیا ہے ۔

 اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ۔۔۔۝۰۝۴۳ۙ [60]

ترجمہ:کبھی تم نے اس شخص کے حال پرغورکیاہے جس نے اپنی خواہش نفس کواپناالٰہ بنالیاہو۔

نافرمان بندوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ کوچھوڑکر شیطان مردود کی عبادت کرتے رہے ہیں ۔

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [61]

ترجمہ:آدم کے بچو!کیامیں نے تم کوہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرووہ تمہاراکھلادشمن ہے ۔

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْۢ بِهِ اللهُ۔۔۔۝۰۝۲۱ [62]

ترجمہ:کیایہ لوگ کچھ ایسے شریک خدارکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایساطریقہ مقررکردیاہے جس کااللہ نے اذن نہیں دیا۔

اگرتم مجھے یاکسی اور،اللہ کا شریک گردانتے رہے تویہ تمہاری اپنی غلطی تھی ، جس اللہ وحدہ لاشریک نے یہ عظیم الشان کائنات تخلیق کی تھی اوراس کی تدبیربھی وہی کرتاتھابھلااس کاکوئی شریک کیوں کرہو سکتاہے ، ایسے ظالموں کے لئے جوغیراللہ کواللہ کے شریک ٹھہراتے تھے ،جواللہ کوچھوڑکرمشکلات اورپریشانیوں میں ان خودساختہ شریکوں کوپکارتے اور ان سے امیدیں وابستہ رکھتے تھے،جوان کی پکارکو سن سکتے تھے اورنہ پوراکرنے کی قدرت رکھتے تھے،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [63]

ترجمہ: آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتےبلکہ اس سے بھی بےخبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں ، اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے ۔

كَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [64]

ترجمہ:کوئی پشتیبان نہ ہوگا وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گےاور الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے ۔

ا ن کے لئے توجہنم کا درد ناک عذاب یقینی ہے۔

سعادت مندوں کاذکرفرمایابخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ ،اس کے رسولوں اورکتابوں پر ایمان لائے ہیں اور رسولوں کی اطاعت میں عمل صالحہ اختیار کیے ہیں وہ ایسے گھنے اورسرسبز باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے انواع و اقسام کی نہریں بہتی ہوں گی،اورایسی لذات وشہوات ہوں گی جوکسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی ہیں اورنہ کسی بشرکے وہم وگمان میں ہیں ،اللہ کی رحمت وکرم سے وہ ان جنتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اوروہاں فرشتے ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے کریں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے خیرمقدم کاطریقہ ایک دوسرے کوسلام کرناہوگا جیسے فرمایا

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ ۔۔۔۝۷۳ [65]

ترجمہ:اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم پر ۔

جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰــتِہِمْ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ۝۲۳ۚسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ ۔۔۔۝۲۴ۭ [66]

ترجمہ:یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّةً وَّسَلٰمًا۝۷۵ۙ [67]

ترجمہ:یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبرکا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے، آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔

دَعْوٰىھُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ۝۰ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰ۧ(یونس۱۰)

ترجمہ: وہاں ان کی صدایہ ہوگی کہ پاک ہے تواے اللہ!ان کی دعایہ ہوگی کہ سلامتی ہواوران کی ہربات کاخاتمہ اس پرہوگاکہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے ۔

أَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ ‎﴿٢٤﴾‏تُؤْتِی أُكُلَهَا كُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَیَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ ‎﴿٢٦﴾‏ یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ ۖ وَیُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِینَ ۚ وَیَفْعَلُ اللَّهُ مَا یَشَاءُ ‎﴿٢٧﴾‏(ابراہیم)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں،جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں ، ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے، اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔‘‘

لاالٰہ الااللہ کی شہادت :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {كَلِمَةً طَیِّبَةً} [68]شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، {كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ} [69]وَهُوَ الْمُؤْمِنُ، {أَصْلُهَا ثَابِتٌ} [70]یَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَابِتٌ فِی قَلْبِ الْمُؤْمِنِ، {وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ} [71]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد’’پاکیزہ بات۔‘‘ سے مراداس بات کی گواہی دیناہے کہ اللہ کے سوا،ئی معبودنہیں ،اور’’ایک پاکیزہ درخت۔‘‘سے مراد جیسے ایک اچھی ذات کادرخت ہواس سے مرادمومن ہے،اور’’جس کی جڑمضبوط ہے۔‘‘سے مراد جس کی جڑزمین میں گہری جمی ہوئی ہے،اس سے مرادلاالٰہ الااللہ ہے،مومن جس کادل سے اقرارکرتاہے ،اور ’’جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ۔‘‘سےمرادجس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ،اس سے مرادیہ ہے کہ مومن کے عمل کوآسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے ۔[72]

اللہ تعالیٰ نے ایمان کی مثال ایک خوبصورت اورپاکیزہ درخت سے دی ،فرمایاکیاتم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ نے کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللہ کی کس چیزسے مثال دی ہے ؟اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کاکھجورکادرخت ہو جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے، اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ،ہرآن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہاہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَخْبِرُونِی بِشَجَرَةٍ تُشْبِهُ أَوْ: كَالرَّجُلِ المُسْلِمِ لاَ یَتَحَاتُّ وَرَقُهَا، وَلاَ وَلاَ وَلاَ تُؤْتِی أُكْلَهَا كُلَّ حِینٍ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَقَعَ فِی نَفْسِی أَنَّهَا النَّخْلَةُ، وَرَأَیْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ لاَ یَتَكَلَّمَانِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَلَمَّا لَمْ یَقُولُوا شَیْئًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هِیَ النَّخْلَةُ فَلَمَّا قُمْنَا قُلْتُ لِعُمَرَ: یَا أَبَتَاهُ، وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ وَقَعَ فِی نَفْسِی أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَكَلَّمَ؟ قَالَ: لَمْ أَرَكُمْ تَكَلَّمُونَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ أَوْ أَقُولَ شَیْئًا، قَالَ عُمَرُ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا، أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے منقول ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجورکاگابھالایاگیا(اسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھامجھے بتلاؤوہ ،نسادرخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہےجس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں ،جواپناپھل ہر موسم میں لاتارہتاہے،عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں میرے دل میں آیاکہ کہہ دوں وہ کھجورکادرخت ہے لیکن میں نے دیکھاکہ مجلس میں سیدنا  ابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ہیں اوروہ خاموش ہیں تو مجھے ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا،جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودہی فرمایاوہ کھجورکادرخت ہے،جب ہم اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ  سے عرض کیاباوا!اللہ کی قسم !میرے دل میں آیاتھاکہ میں کہہ دوں وہ کھجورکادرخت ہے،انہوں نے کہاپھرتونے کہہ کیوں نہ دیا؟ میں نے کہاآپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی تومیں نے آگے بڑھ کربات کرنامناسب نہ جانا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے کہااگرتم یہ جواب دے دیتے تومجھے اتنے اتنے(لال لال اونٹ کا)مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔[73]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقِنَاعٍ عَلَیْهِ رُطَبٌ، فَقَالَ: {مَثَلاً كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ تُؤْتِی أُكُلَهَا كُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا}، قَالَ: هِیَ النَّخْلَةُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجورکاایک خوشہ لایاگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت ’’مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑمضبوط ہے اورجس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ،جواپنے پروردگارکے حکم سے ہروقت اپنے پھل لاتاہے۔ کی تلاوت فرمائی،اورفرمایا وہ درخت کھجور ہے۔[74]

یعنی مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہروقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں ،اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے وقت ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں ، اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ،اچھے بہت اورعمدہ ،یہ مثالیں اللہ اس لئے دیتاہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اورکلمہ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت حنظل (اندرائن، شریان) کی سی ہے،جس کی جڑزمین کی تہہ میں نہیں ہوتی اور ذراسے اشارے پرزمین کی سطح سے اکھاڑپھینکا جاتا ہے اس کے لئے کوئی استحکام نہیں ہے، جو کھانے اورذائقے میں بدترین درخت ہے ،اسی طرح سے کفربے جڑاوربے شاخ ہے ،کافرکانہ کوئی نیک عمل چڑھتاہے اور نہ مقبول ہوتاہے ،ایمان لانے والوں کواللہ ایک قول ثابت کی بنیادپر دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے،

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:المُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِی القَبْرِ: یَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: {یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَةِ}[75]

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَةِ کی تفسیریوں فرمائی کہ موت ، بعد قبرمیں جب مسلمان سے سوال کیاجاتاہے تووہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔[76]

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْعَبْدَ، إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ، وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ قَالَ:یَأْتِیهِ مَلَكَانِ فَیُقْعِدَانِهِ فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِی هَذَا الرَّجُلِ؟قَالَ: “ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَیَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ قَالَ:فَیُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَیَرَاهُمَا جَمِیعًا قَالَ قَتَادَةُ: وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ یُفْسَحُ لَهُ فِی قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا، وَیُمْلَأُ عَلَیْهِ خَضِرًا، إِلَى یَوْمِ یُبْعَثُونَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب بندے ،قبرمیں رکھ دیا جاتاہے اوراس کے ساتھی پیٹھ موڑکرلوٹتے ہیں تووہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ،پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اس کوبٹھاتے ہیں اوراس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیارائے ہے(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام تعظیم سے نہیں لیتے تاکہ وہ سمجھ نہ جائے) وہ مومن ہوتاہے توجواب دیتاہے میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ،اللہ تعالیٰ ان پررحمت اورسلام بھیجے، فرشتے اسے جہنم کاٹھکانہ دکھاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اللہ نے اس کے بدلے تیرے لئے جنت میں ٹھکانہ بنادیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے،قتادہ کہتے ہیں اوراس کی قبرسترہاتھ کشادہ کردی جاتی ہے اوراس کی قبر کوقیامت تک نعمتوں سے بھردیاجاتا ہے۔[77]

فتُعَاد رُوحُهُ فِی جَسَدِهِ فَیَأْتِیهِ مَلَكَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَیَقُولُ: رَبِّیَ اللَّهُ، فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا دِینُكَ؟فَیَقُولُ: دِینِیَ الْإِسْلَامُ،فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیكُمْ؟ فَیَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَیَقُولَانِ لَهُ: وَمَا عِلْمُكَ؟فَیَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ، فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ صَدَقَ عَبْدِی، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ،قَالَ: فَیَأْتِیهِ مِنْ رَوْحِها وَطِیبِهَا وَیُفْسَحُ لَهُ فِی قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ

اس کی روح اس ، جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرارب کون ہے؟وہ جواب دیتاہے میرا رب اللہ ہے،پھراس سےسوال کرتے ہیں تیرادین کیاہے ؟ وہ جواب دیتاہےمیرادین اسلام ہے،وہ سوال کرتےہیں وہ شخص کون ہے جوتم میں بھیجا گیا تھا؟یہ جواب دیتاہے وہ اللہ کے رسول تھے،فرشتے دریافت کرتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا؟وہ جواب دیتا ہےمیں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پرایمان لایااوراسے سچاتسلیم کیا،اسی وقت آسمان سے ایک منادی ندادیتاہے کہ میرابندہ سچاہے،

اس کے لئے جنتی فرش بچھادواورجنتی لباس پہنادو اورجنت کی طرف کادروازہ کھول دو،فرمایا پس اسے جنت کی روح پرورخوشبودارہواؤں کی لپٹیں آ، لگتی ہیں اوراس کی قبرحدنظرتک وسیع کردی جاتی ہے،

قَالَ:وَیَأْتِیهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الثِّیَابِ، طَیِّبُ الرِّیحِ، فَیَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُرُّكَ، هَذَا یَوْمُكَ الَّذِی كُنْتَ تُوعَدُفَیَقُولُ لَهُ مَنْ أَنْتَ؟فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ یَجِیءُ بِالْخَیْرِفَیَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ،فَیَقُولُ: رَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِی، وَمَالِی رَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ

فرمایااس کے پاس ایک خوبصورت نورانی چہرے والاایک شخص آتاہے جس نے عمدہ کپڑے پہنے ہوتے ہیں اوراچھی خوشبولگائی ہوتی ہے اوروہ اس سے کہتاہے آپ خوش ہو جائیں اسی دن کاآپ سے وعدہ کیاجاتاتھا،وہ اس سے پوچھتاہے آپ کون ہیں ؟آپ کے چہرے سے خیرہی خیرجھلکتی ہے،وہ جواب دیتاہے میں تمہارانیک عمل ہوں ، اس وقت مومن یہ آرزوکرتاہے کہ اےاللہ! قیامت جلدقائم ہوجائے تومیں اپنے اہل وعیال اورملک ومال کی طرف لوٹ جاؤں ۔۔۔۔۔

فَتُعَادُ رُوحُهُ فِی جَسَدِهِ. وَیَأْتِیهِ مَلَكَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟فَیَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِی،فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا دِینُكَ؟فَیَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِی،فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیكُمْ؟فَیَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِی، فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ فَیَأْتِیهِ مِنْ حَرّها وَسُمُومِهَا، ویُضیق عَلَیْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِیهِ أَضْلَاعُهُ

اوربندہ کافرکی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اوراس کے پاس دوفرشتے پہنچتے ہیں جواسے اٹھابٹھاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں تیرارب ،ن ہے؟وہ جواب دیتاہے ہائے ہائے مجھے معلوم نہیں ،وہ پھرسوال کرتے ہیں تیرا دین کیاہے؟وہ کہتاہے ہائے ہائے! مجھے اس کابھی علم نہیں ہے،وہ پھراس سےسوال کرتے ہیں وہ کون شخص تھاجوتم میں بھیجاگیاتھا؟وہ کہتاہے ہائے ہائے ! مجھے معلوم نہیں ،اسی وقت آسمان سے ایک منادی کی نداآتی ہے کہ میرابندہ جھوٹاہے،اس کے لئے جہنم کی آگ کافرش کردواوردوزخ کی جانب کادروازہ کھول دو،وہیں سے اسے دوزخ کی ہوااوردوزخ کے جھونکے پہنچتے رہتے ہیں ، اس کی قبراس پراس قدرتنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں ،

وَیَأْتِیهِ رَجُلٌ قَبِیحُ الْوَجْهِ، قَبِیحُ الثِّیَابِ، مُنْتِنُ الرِّیحِ، فَیَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُوؤُكَ؛ هَذَا یَوْمُكَ الَّذِی كُنْتَ تُوعَدُفَیَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ یَجِیءُ بِالشَّرِّفَیَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِیثُ،فَیَقُولُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ

ایک بڑی ڈراؤنی صورت والاایک شخص اس کے پاس آتاہے جس نے بڑے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اوراس سے بڑی بدبوآرہی ہوتی ہے، وہ اس سے کہتاہے اب غمناک ہوجاؤ،اسی دن کاتم سے وعدہ کیاجاتاتھا،یہ اس سے پوچھتاہے تم کون ہو؟تیرے چہرے سے برائی جھلکتی ہے، وہ کہتاہے میں تیرابراعمل ہوں ،تویہ دعاکرتاہے اےاللہ! قیامت قائم نہ کرنا۔[78]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الْمَیِّتَ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْهُ مُدْبِرِینَ،فَإِذَا كَانَ مُؤْمِنًا كَانَتِ الصَّلَاةُ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَالزَّكَاةُ عَنْ یَمِینِهِ، وَالصِّیَامُ عَنْ یَسَارِهِ، وَكَانَ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى النَّاسِ عِنْدَ رِجْلَیْهِ، فَیُؤْتَى مِنْ عِنْدِ رَأْسِهِ فَتَقُولُ الصَّلَاةُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ،فَیُؤْتَى مِنْ عَنْ یَمِینِهِ فَتَقُولُ الزَّكَاةُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، فَیُؤْتَى عَنْ یَسَارِهِ فَیَقُولُ الصِّیَامُ: مَا قِبَلی مَدخَلٌ،فَیُؤْتَى مِنْ عِنْدِ رِجْلَیْهِ فَیَقُولُ فِعْلُ الْخَیِّرَاتِ: مَا قِبَلی مَدْخَلٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جب تم میت ،دفناکرواپس لوٹتے ہوتووہ تمہاری جوتیوں کی آہٹ سنتی ہے ، اگروہ ایمان پرفوت ہواتونمازاس کے سرہانے ہوتی ہےاورزکوٰة اس کے دائیں جانب ہوتی ہےاور روزہ بائیں جانب ہوتاہے،نیکیاں مثلاًصدقہ خیرات،صلہ رحمی،بھلائی اورلوگوں سے احسان وغیرہ اس کے پیروں کی جانب ہوتے ہیں ، جب اس کے سرکی طرف سے کوئی آتاہے تونمازکہتی ہے اس طرف سے جگہ نہیں ، جب اس کےدائیں جانب سے کوئی آتاہے تو زکوٰة روکتی ہے اور کہتی ہے اس طرف سے جگہ نہیں ، جب اس کےبائیں جانب سے کوئی آتاہے تو روزہ روکتاہے اورکہتاہے اس طرف سے جگہ نہیں ، اورجب پیروں کی طرف سے کوئی آتاہے تو دوسری نیکیاں روکتی ہیں  اورکہتی ہیں اس طرف سے جگہ نہیں ،

فَیُقَالُ لَهُ اجْلِسْ،فَیَجْلِسُ قَدْ تَمثّلت لَهُ الشَّمْسُ قَدْ دَنَتْ لِلْغُرُوبِ، فَیُقَالُ لَهُ أَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُكَ، فَیَقُولُ: دَعُونِی حَتَّى أُصَلِّیَ، فَیُقَالُ: إِنَّكَ سَتَفْعَلُ، فَأَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُكَ، فَیَقُولُ: وعَمَّ تَسْأَلُونِی؟ فَیُقَالُ: أَرَأَیْتَ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِی كَانَ فِیكُمْ، مَاذَا تَقُولُ فِیهِ، وَمَاذَا تَشْهَدُ بِهِ عَلَیْهِ؟ فَیَقُولُ: أَمُحَمَّدٌ؟ فَیُقَالُ لَهُ: نَعَمْ،فَیَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّهُ جَاءَنَا بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَیُقَالُ لَهُ: عَلَى ذَلِكَ حَییتَ، وَعَلَى ذَلِكَ مِتَّ، وَعَلَى ذَلِكَ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ

پس اس سے کہا جاتاہے بیٹھ جاؤوہ بیٹھ جاتاہےاوراسے ایسے معلوم ہوتاہے کہ سورج گویاڈوبنے والاہے، وہ کہتے ہیں کہ دیکھوجوہم پوچھیں اس کاجواب دو،وہ کہتاہے تم چھوڑوپہلے میں نماز اداکرلوں ،وہ کہتے ہیں وہ توتوکرے گاہی ،ابھی توہمیں ہمارے سوالوں کاجواب دے،وہ کہتاہے اچھاتم کیاپوچھتے ہو؟وہ کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں توکیاکہتاہے اور کیاشہادت دیتاہے،وہ پوچھتاہے کیامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ؟ جواب ملتاہے کہ ہاں ،یہ کہتاہے کہ میری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ اللہ کے پاس سےہمارے پاس دلیلں لے کرآئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،سچامانا،پھراس سے کہاجاتاہے کہ تواسی پرزندہ رکھاگیااوراسی پرمرااوران شاء اللہ اسی پر دوبارہ اٹھایاجائے گا،

ثُمَّ یُفْسَحُ لَهُ فِی قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا ویُنَوَّر لَهُ فِیهِ، وَیُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ فَیُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا أَعَدَّ اللَّهُ لَكَ فِیهَا. فَیَزْدَادُ غِبْطَةً وَسُرُورًا  ثُمَّ یُجْعَلُ نَسَمُهُ فِی النَّسَمِ الطَّیِّبِ، وَهِیَ طَیْرٌ خُضْرٌ تُعَلَّقُ بِشَجَرِ الْجَنَّةِ، وَیُعَادُ الْجَسَدُ إِلَى مَا بُدِئَ مِنْهُ مِنَ التُّرَابِ، وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ: یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَةِ

پھراس کی قبرسترہاتھ پھیلادی جاتی ہے اورروشنی سے بھردی جاتی ہےاورجنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیاجاتاہے اوراس سےکہاجاتاہے دیکھ یہ ہے تیرااصلی ٹھکانہ،اب تواسے خوشی اورراحت ہی راحت ہوتی ہے، پھراس کی روح پاک روحوں میں سبزپرندوں کے قالب میں جنتی درختوں میں رہتی ہے اوراس کاجسم جس سے اس کی ابتداکی گئی تھی اسی کی طرف لوٹا دیاجاتاہے،یعنی مٹی کی طرف،یہی آیت کامطلب ہے’’ایمان لانے والوں ،اللہ ایک قول ثابت کی بنیادپردنیااورآخرت دونوں میں ثبات عطا کرتاہے۔‘‘

[79]عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا} [80] أَمَّا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا، فَیُثَبِّتُهُمْ بِالْخَیْرِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ وَقَوْلُهُ: {فِی الْآخِرَةِ} [81]أَیْ فِی الْقَبْرِ .

قتادہ آیت کریمہ ’’ایمان والوں ،اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط کرتاہےدنیاکی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیاکی زندگی میں خیروبھلائی اورعمل صالح کے ساتھ ثابت قسمی رکھتاہے اورآخرت سے یہاں قبرمرادہے۔[82]

اورظالموں کوجوکلمہ طیبہ کو چھوڑ کر کسی کلمہ خبیثہ کی پیروی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ذہن کو پراگندہ اوران کی مساعی کوپریشان کردیتا ہے اوروہ کسی پہلو سے بھی فکروعمل کی صحیح راہ نہیں پاسکتے ، اللہ کواختیارہے جو چاہے کرے۔یہ آیت کریمہ قبرکے امتحان،قبرکے عذاب اوراس کی نعمت اورآرام پردلالت کرتی ہے ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ‎﴿٢٨﴾‏ جَهَنَّمَ یَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ ‎﴿٢٩﴾‏ وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّیُضِلُّوا عَن سَبِیلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَكُمْ إِلَى النَّارِ ‎﴿٣٠﴾‏ قُل لِّعِبَادِیَ الَّذِینَ آمَنُوا یُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیهِ وَلَا خِلَالٌ ‎﴿٣١﴾(ابراہیم)
’’ کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ، یعنی دوزخ میں جس میں یہ سب جائیں گےجو بدترین ٹھکانا ہے، انہوں نے اللہ کے ہمسر بنا لیے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں، آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کرلو تمہاری باز گشت تو آخر جہنم ہی ہے ، میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی، اور نہ دوستی اور محبت ۔‘‘

کفار قریش :

تم نے سرداران مکہ ، دیکھانہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین بناکر مبعوث کیاجوانہیں دنیاوآخرت کی بھلائیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں مگر انہوں نے اس نعمت الٰہیہ کی قدرنہ کی اوراپنے بغض وعناداورہٹ دھرمی میں اپنے ساتھ اپنی قوم کوبھی جہنم کے گڑھے میں جھونک دیا،جس میں وہ ہمیشہ بدترین عذاب میں مبتلا رہیں گے اورجہنم بدترین جائے قرارہے،اورانہوں نے اپنے معبودحقیقی اللہ رب العالمین کوچھوڑکراس کے خودساختہ ہمسرتجویزکرلئے تاکہ وہ اپنی قوم کو اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکا دیں ،ان کووعیددے دو دنیا کے چندروزہ عیش وآرام کے مزے لوٹ لوبالآخرتمہاراٹھکانہ جہنم ہی ہے،جیسے فرمایا:

 نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [83]

ترجمہ:ہم تھوڑی مدت انہیں دنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں ، پھر ان کو بےبس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے ۔

مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ [84]

ترجمہ:دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کرلیں پھر ہماری طرف ان کو پلٹنا ہے، پھر ہم اس کفر کے بدلے میں جس کا وہ ارتکاب کر تے رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اہل ایمان سے کہہ دوکہ اللہ کی شکر گزاری کے لئے وقت مقررہ پرخشوع و خضوع کے ساتھ نماز قائم کریں اورروزقیامت سے پہلے جوپاکیزہ رزق ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے کھلے اورچھپے مستحق اقارب اور ضرورت مندوں پر خرچ کریں تاکہ اس دن نجات ملے جس میں خریدوفروخت ہوگی اورنہ کوئی دوست کسی جگری دوست کی مدد کرسکے گا ۔

عَنْ قَتَادَةَ، فِی قَوْلِهِ: {مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأْتِیَ یَوْمٌ لَا بَیْعٌ فِیهِ وَلَا خِلَالٌ}[85] قَالَ قَتَادَةُ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ عَلِمَ أَنَّ فِیَ الدُّنْیَا بُیُوعًا وَخِلَالًا یَتَخَالُّونَ بِهَا فِی الدُّنْیَا، فَیَنْظُرُ رَجُلٌ مَنْ یُخَالِلُ وَعَلَامَ یُصَاحِبُ، فَإِنْ كَانَ للَّهِ فَلْیُدَاوِمْ، وَإِنْ كَانَ لِغَیْرِ اللَّهِ فَإِنَّهَا سَتَنْقَطِعُ

قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کریمہ ’’اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگیاورنہ دوستی اورمحبت۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اللہ کے علم میں ہے کہ دنیامیں خریدوفروخت بھی ہے اوردوستی بھی جس کالوگ دم بھرتے ہیں ،اس لیے آدمی ،دیکھناچاہیے کہ اس کادوست کون ہے اوراس کی دوستی کس بات پرہے،اگر دوستی اللہ کے لیے ہوتواسے چاہیے کہ اسے برقراررکھے اوراگرغیراللہ کے لیے ہے تواسے ختم کردے۔[86]

روزمحشرکی ہولناکی اوراپنے سامنے غیض وغضب سے بھڑکتی ہوئی جہنم کودیکھ کرہرمجرم زمین بھر کا سونا فدیہ میں دینے کوتیارہوگامگرقبول نہیں کیاجائے گا،جیسے فرمایا:

فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ۝۰ۭ هِىَ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۱۵ [87]

ترجمہ: آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیاجائے گااورنہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلاکھلا کفرکیا تھا تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے اوریہ بدترین انجام ہے۔

وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـیْــــًٔـا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَةٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ۝۱۲۳ [88]

ترجمہ:اور ڈرو اس دن سےجب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی، اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ۝۰ۭ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۵۴ [89]

ترجمہ:اے لوگو!جوایمان لائے ہوجوکچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشاہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس ، وہ دن آئے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی ،نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش چلے گی،اورظالم اصل میں وہی ہیں جوکفرکی روش اختیارکرتے ہیں ۔

اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ ‎﴿٣٣﴾‏وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ‎﴿٣٤﴾‏(ابراہیم)
’’ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے تمہاری روزی کے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں،اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کردی ہیں ،اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ،اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے، اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے ، یقیناً انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘

 اللہ کے مخلوقات پرانعامات :

اللہ وحدہ لاشریک جس کی نعمتوں کاتم کفران کررہے ہواس کی قدرت کمال تویہ ہے کہ چھ دنوں میں زمین کوبچھونے کی طرح اورآسمانوں کو محفوظ چھت کی طرح تخلیق کردیااورآسمان سے میٹھا پانی برسایااوراسی ایک پانی سے تمہاری رزق رسانی کے لئے انواع و اقسام کے مختلف رنگ ،ذائقہ اورخوشبودار پھل ، مختلف فوائد کے میوہ جات اورکھیتیاں پیداکیے،اللہ وہی توہے جس نے انسانوں کے نفع کے لئے پہاڑوں جیسے بلند جہازوں کوایک قانون کاپابندکردیاجو اس کے حکم سے دریاؤں اورسمندرکی تلاطم خیز موجوں میں نقل مکانی ، سامان تجارت اورجنگی مقاصدکے لئے تیرتے پھرتے ہیں ۔

وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٰٔتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ۝۲۴ۚ [90]

ترجمہ: اوریہ جہازاسی کے ہیں جو سمندرمیں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں ۔

اوردریاؤں کوبھی ایک قانون کا پابندکردیاجس کے تحت وہ بہتے ہیں ، جس کے پانی سے تم بھی سیراب ہوتے ہو اوراپنی کھیتیوں کو بھی سیراب کرتے ہو،جس نے ابتدائے کائنات سے سورج اورچاندکوبھی ایک ضابطے کاپابندکردیا

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝۵۠ [91]

ترجمہ: سورج اورچاندایک حساب کے پابندہیں ۔

جس کے مطابق وہ لگاتاراپنے اپنے مدارمیں ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے ہیں ،اوراللہ نے ان کی جوچال مقررفرمائی تھی اس کی گردش میں یک سرموفرق نہیں آیااورنہ ان کاباہمی تصادم اورٹکراؤ ہوتاہے،جیسے فرمایا

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [92]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑےاور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔

اورچاندوسورج کے قانون سے رات اوردن کانظام قائم کردیا تاکہ دن کی روشنی میں تم اللہ کا فضل تلاش کرواوررات کے اندھیرے میں آرام وسکون حاصل کرو،اوراسی اللہ رب العالمین نے تمہاری بقااورارتقاء کے لئے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب مہیا کردیے ہیں ،اس کے علاوہ جوتم اس سے طلب کرتے ہووہ بھی دیتاہے اورجسے نہیں مانگتے وہ بھی عطاکرتاہے،ان انعامات اوراحسانات کے بعدفرمایااگرتم اللہ کی نعمتوں کا شمارکرناچاہوتو نہیں کر سکتے،جیسے ایک اورمقام پر فرمایا:

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا۔۔۔ ۝۱۸ [93]

ترجمہ:اگرتم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہوتوگن نہیں سکتے ۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑاہی بے انصاف اورناشکراہے۔

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَعَ مَائِدَتَهُ قَالَ:الحَمْدُ لِلَّهِ كَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَكًا فِیهِ، غَیْرَ مَكْفِیٍّ وَلاَ مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنًى عَنْهُ، رَبَّنَا

امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے جب کھانااٹھایاجاتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاپڑھاکرتے تھے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے،بہت زیادہ پاکیزہ برکت والی ہم اس کھانے کاحق پوری طرح ادانہ کرسکے اوریہ ہمیشہ کے لیے رخصت نہیں کیاگیاہے(اوریہ اس لیے کہاتاکہ)اس سے ہم ،بے پرواہی کاخیال نہ ہواے ہمارے رب! ۔[94]

اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں

الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی كَفَانَا وَأَرْوَانَا

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہماری کفایت کی اورہمیں سیراب کیا۔[95]

أَنَّ داود، علیه السلام، قال: یارب، كَیْفَ أَشْكُرُكَ وَشُكْرِی لَكَ نِعْمَةٌ مِنْكَ عَلَیَّ؟ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: الْآنَ شَكَرْتَنِی یَا دَاوُدُ، أَیْ: حِینَ اعْتَرَفْتَ بِالتَّقْصِیرِ عَنْ أَدَاءِ شُكْرِ النِّعَمِ.

داود علیہ السلام نے عرض کی اے اللہ!میراتیراشکرکس طرح اداکرسکتاہوں کہ تیراشکراداکرنے کی توفیق ملنابھی توتیرامجھ پرایک احسان ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایااے داود علیہ السلام !یوں سمجھوکہ تم نے میراشکراداکردیاجب تم نے یہ اعتراف کرلیاکہ تمام نعمتیں میری طرف سے ہیں ۔[96]

اوردوسرے کے گھرکھانے کے بعدان لفظوں میں دعادینی چاہیے

اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِیمَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ، وَارْحَمْهُمْ

اے اللہ!ان کوروزی میں برکت عطافرمااوران کوبخش دے اوران پررحم فرما۔[97]

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ‎﴿٣٥﴾‏ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِیرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِی فَإِنَّهُ مِنِّی ۖ وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٣٦﴾‏ رَّبَّنَا إِنِّی أَسْكَنتُ مِن ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِندَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِی إِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِی وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا یَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِن شَیْءٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ ‎﴿٣٨﴾‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَهَبَ لِی عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّی لَسَمِیعُ الدُّعَاءِ ‎﴿٣٩﴾‏ رَبِّ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّیَّتِی ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ‎﴿٤٠﴾‏ رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ ‎﴿٤١﴾‏(ابراہیم)
’’ (ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا اے میرے پروردگار ! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے، اے میرے پالنے والے معبود ! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے، اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے، اے ہمارے پروردگار ! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں ، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے، اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں،اے ہمارے پروردگار ! تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں،زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں، اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق (علیہا السلام) عطا فرمائے ،کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے، اے میرے پالنے والے ! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب !میری دعا قبول فرما، اے میرے پروردگار ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے۔‘‘

حرمت وعظمت کامالک شہر:

احسانات عامہ کاذکرفرمانے کے بعدقریش پرکیے گئے احسانات کاذکرفرمایاکہ اس وقت کویادکرو جب ابراہیم علیہ السلام نے رب العالمین سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد دیگردعاؤں سے قبل دعاکی تھی کہ اے میرے پروردگار!اس شہر مکہ مکرمہ کو جوتوحیدپربنایاگیاتھاامن کاگہوارہ بنادے،جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا۔۔۔۝۱۲۶ [98]

ترجمہ:اورابراہیم علیہ السلام نے دعاکی اے میرے رب! اس شہرکوامن کاشہربنادے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ۔۔۔۝۶۷ [99]

ترجمہ:کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گرد وپیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں ؟ ۔

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِیْنَ۝۹۶ۚفِیْہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ۝۰ۥۚ وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا۔۔۔ ۝۹۷ [100]

ترجمہ:بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیروبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھااس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ،ابراہیم کا مقام عبادت ہے ، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔

اللہ نے یہ دعاقبول فرمائی اوراس دعاکی برکت سے جب کوئی ظالم حرم میں برائی کاارادہ کرتاہے تواللہ اس کاقلع قمع فرمادیتاہے جیسے اصحاب فیل کے ساتھ کیاتھا، اورمجھے اورمیری اولادکوطاغوت کی بندگی سے بچا ، اے میرے پروردگار! لکڑی ، پتھراوردیگردھاتوں سے مختلف شکلوں کی بنی ہوئی ان غیرعاقل مورتیوں نے بہتوں کوگمراہ کرکے اپنا گرویدہ بنالیاہے ممکن ہے کہ میری اولادکوبھی یہ گمراہ کر دیں ،اے میرے رب !لہذاان میں سے جوتوحیدالٰہی اوراخلاص للہ میں میری اتباع کرے تووہ میراہے اور پھر سراپا رحم وشفقت ہوکرگناہ گاروں کے لئے بخشش اور رحمت کی دعافرمائی اور جو میرے طریقہ کے خلاف چلے تو یقیناً تودرگزر کرنے والا مہربان ہے ،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَلَا قَوْلَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِی إِبْرَاهِیمَ: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِیرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِی فَإِنَّهُ مِنِّی} [101] الْآیَةَ، وَقَالَ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ} [102]، فَرَفَعَ یَدَیْهِ وَقَالَ:اللهُمَّ أُمَّتِی أُمَّتِی، وَبَكَى، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:یَا جِبْرِیلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، وَرَبُّكَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا یُبْكِیكَ؟ فَأَتَاهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اللهُ:یَا جِبْرِیلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِیكَ فِی أُمَّتِكَ، وَلَا نَسُوءُكَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ آیت پڑھی جس میں ابراہیم علیہ السلام کاقول ہے’’پروردگار !ان بتوں نے بہتوں  کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا ان میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا ً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے ۔‘‘ اور یہ آیت جس میں عیسیٰ علیہ السلام کاقول ہے’’ اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ۔‘‘پھراپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اورکہااے میرےپروردگار!میری امت!(کومعاف فرمادے)میری امت!(کومعاف فرمادے) اور رونے لگے، اللہ تعالیٰ نے فرمایااے جبریل علیہ السلام !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤاور تیرارب خوب جانتاہے لیکن تم جاکران سے پوچھووہ کیوں روتے ہیں ؟ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا آپ کیوں روتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب حال بیان کیاجبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جاکرعرض کیاحالانکہ وہ خوب جانتاتھا،اللہ تعالیٰ نے فرمایااے جبریل! سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اورانہیں کہہ دوکہ ہم آپ کوآپ کی امت کے بارے میں خوش کردیں گے اورناراض نہ کریں گے۔ [103]

پروردگار! میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنے پہلوٹےبیٹے اسماعیل علیہ السلام کواوراپنی اہلیہ کوشام سے لاکر مکہ مکرمہ میں تیرے محتر م ،عزت وادب والےگھر کے پاس لابسایا ہے، اے میرے پروردگار!یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ موحدبنیں اور اطمینان وسکون سے تیری یاد کے لئے نماز قائم کریں لہذاتو مسلمانوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور اس بے آب وگیاہ علاقے میں انہیں کھانے کوہرطرح کے پھل دے شاید کہ یہ شکرگزار بنیں ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔۔۔۝۰۝۱۲۶ [104]

ترجمہ:اوراس کے باشندوں میں سے جواللہ اورآخرت کومانیں انہیں ہرقسم کے پھلوں کا رزق دے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اوراس بے آب وگیاہ سرزمین میں دنیابھرکے پھل ،میوہ جات غلے اور دوسرے سامان رزق نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۷ [105]

ترجمہ: کیایہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پر امن حرم کوان کے لئے جائے قیام بنادیاجس کی طرف ہرطرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں ہماری طرف سے رزق کے طورپرمگران میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔

اے میرے پروردگار !تومیراظاہروباطن خوب جانتاہےاورکائنات کی کوئی چیزتجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے قول کی تصدیق میں فرمایا

اِنَّ اللہَ لَا یَخْفٰى عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۵ۭ [106]

ترجمہ:زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔

اے میرے رب!میں تیرا شکرگزاراوراحسان مند ہوں کہ اس بڑھاپے میں مجھے اسماعیل اوراسحاق علیہ السلام جیسے بیٹے دیے ، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب دعاؤں کوسنتاہے اورجواس سے دعاکرتاہے وہ اس کی دعاکوقبول فرماتاہے،اے میرے پروردگا!مجھے اور میری اولادکو نمازقائم کرنے والا بنادے، اے میرےپروردگار!میری اس التجاکوشرف قبولیت عطافرما ، اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کے لئے کہاتھا۔

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ۝۰ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا۝۴۷ [107]

ترجمہ: ابراہیم علیہ السلام نے کہاسلام ہے آپ کو،میں اپنے رب سے دعاکروں گا کہ آپ کومعاف کر دے میرا رب مجھ پربڑاہی مہربان ہے۔

اسی وعدے کے مطابق اللہ سے عرض کیااے میرےپروردگار!مجھے اور میرے والدین کواورسب ایمان لانے والوں کویوم حساب کے دن معاف کردیجیومگر جب ابراہیم علیہ السلام پرواضح ہوگیاکہ ان کاوالداللہ کادشمن ہے توانہوں نے اظہاربرات کر دیا۔

۔۔۔ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ۔۔۔۝۰۝۱۱۴ [108]

ترجمہ:جب اس پریہ بات کھل گئی کہ اس کاباپ اللہ کادشمن ہے تووہ اس سے بیزارہوگیا۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیهِ الْأَبْصَارُ ‎﴿٤٢﴾‏مُهْطِعِینَ مُقْنِعِی رُءُوسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ إِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ ‎﴿٤٣﴾‏ وَأَنذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَأْتِیهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُولُ الَّذِینَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ ‎﴿٤٤﴾‏ وَسَكَنتُمْ فِی مَسَاكِنِ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ ‎﴿٤٦﴾(ابراہیم)
’’ نا انصافوں کے اعمال سے اللہ کو غافل نہ سمجھو وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دیئے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ،وہ اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑ بھاگ کررہے ہوں گے، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں نہ لوٹیں گی اور ان کے دل خالی اور اڑے ہوئے ہوں گے ، لوگوں کو اس دن سے ہوشیار کر دے جب کے ان کے پاس عذاب آجائے گا، اور ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں بہت تھوڑے قریب کے وقت تک کی ہی مہلت دے کہ ہم تیری تبلیغ مان لیں اور تیرے پیغمبروں کی تابعداری میں لگ جائیں، کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لیے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں ، اور کیا تم ان لوگوں کے گھروں میں رہتے سہتے نہ تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور کیا تم پر وہ معاملہ کھلا نہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا کچھ کیا، ہم نے (تو تمہارے سمجھانے کو) بہت سی مثالیں بیان کردی تھیں ، یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں ۔‘‘

ظالموں کووعیداورمظلوں کوتسلی فرمائی کہ یہ ظالم لوگ اپنے معبودحقیقی کوچھوڑکرغیراللہ کواپنامعبودبناتے ہیں ،پھرانہیں الٰہی اختیارات بخش کراپنی مشکلات وپریشانیوں میں پکارتے ہیں ،ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے چڑھاوے چڑھاتے اورنذرونیازپیش کرتے ہیں اللہ ان کے کاموں سے بے خبر نہیں ہے،اللہ توانہیں سوچنے سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے مہلت دے رہاہے اورفراوانی کے ساتھ رزق عطافرمارہاہے تاکہ اگرراہ راست کی طرف نہیں آتے توپھراپنے گناہوں میں اوربڑ ھ جائیں ، اگراللہ اپنی مشیت وحکمت سے دنیامیں ان کامواخذہ نہ کرے مگرروزقیامت وہ مواخذہ الٰہی سے نہیں بچ سکیں گے ،اوروہ دن اتناہولناک اوردہشت ناک ہوگاجس کی ہولناکی کو یہ ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویاکہ ان کی آنکھیں پتھراگئی ہیں ،اورقبروں سے نکل کرسراٹھائے بلانے والے کی آوازکی طرف تیزی سے بھاگے چلے جارہے ہیں ،جیسے فرمایا

مُّهْطِعِیْنَ اِلَى الدَّاعِ۔۔۔ ۝۸ [109]

ترجمہ:پکارنے والے کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے۔

یَوْمَىِٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہٗ ۔۔۔۝۱۰۸ [110]

ترجمہ:اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گےکوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔

یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّہُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۝۴۳ۙ [111]

ترجمہ:جب یہ اپنی قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑے جارہے ہوں گے جیسے اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑے جارہے ہوں ۔

قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر خوف ودہشت سے وہ آنکھیں نہ جھپکاسکیں گے اورکثرت خوف سے ان کے دل حلقوم تک پہنچے ہوں گے ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم انہیں قیامت کے اس ہولناک دن سے ڈراؤجب ان کے کفر،تکذیب اور دیگر معاصی کےسبب عذاب جہنم انہیں گھیرلے گا،اس وقت یہ ظالم اپنے کرتوتوں پرنادم ہوکراپنی گلوخلاصی کے لئے کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے،اب ہم تیری دعوت حق پر لبیک کہیں گے اوررسولوں کی پیروی کریں گے جیسے فرمایا

حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ۝۹۹ۙلَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ ۔۔۔۝۱۰۰ [112]

ترجمہ: جب ان میں سے کسی کوموت آجائے گی توکہناشروع کردے گاکہ اے میرے رب!مجھے اسی دنیامیں واپس بھیج دیجئے جسے میں چھوڑ آیا ہوں امیدہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۰ [113]

ترجمہ:اے لوگو!جوایمان لائے ہوتمہارے مال اورتمہاری اولادیں تم کواللہ کی یادسے غافل نہ کردیں جولوگ ایساکریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں ،جورزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کروقبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کاوقت آجائے اوراس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب!کیوں نہ تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اوردے دی کہ میں صدقہ دیتااورصالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷ [114]

ترجمہ: کاش! تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کاش! کوئی صورت ایسی ہوکہ ہم دنیامیں پھرواپس بھیجے جائیں اوراپنے رب کی نشانیوں کونہ جھٹلائیں اورایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [115]

ترجمہ: کاش! تم دیکھووہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضورکھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیااورسن لیااب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ہمیں اب یقین آگیاہے۔

وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ ۔۔۔۝۳۷ۧ [116]

ترجمہ:وہ وہاں چیخ چیخ کرکہیں گے کہ اے ہمارے رب !ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جوپہلے کرتے رہے تھے۔

مگراللہ تعالیٰ جودلوں کے بھیداورآنکھوں کی خیانت بھی جانتاہےفرماتاہے ان کے یہ وعدے بھی جھوٹے ہوں گے،جیسے فرمایا:

 ۔۔۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸ [117]

ترجمہ:اور اگر یہ واپس بھیج دیے جائیں تب بھی وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ جھوٹے ہیں ۔

چنانچہ اللہ مالک یوم الدین انہیں مہلت دینے سے صاف انکارکر دے گاجیسے فرمایا:

۔۔۔اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِیْرُ۝۰ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ۝۳۷ۧ [118]

ترجمہ:(انہیں جواب دیاجائے گا)کیاہم نے تم کواتنی عمرنہ دی تھی جس میں کوئی سبق لیناچاہتاتوسبق لے سکتاتھا؟اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والابھی آچکاتھا اب مزا چکھو ، ظالموں کایہاں کوئی مددگارنہیں ہے۔

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپناقانون بیان فرمایا:

وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا۔۔۔  [119]

ترجمہ: جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تواللہ کسی شخص کوہرگزمزیدمہلت نہیں دیتا۔

دھتکارنے کے بعدان ظالموں سے کہا جائے گاکیاتم وہی لوگ نہیں جو دنیامیں رسولوں کے ہر طرح کے واضح دلائل اوربراہین کے باوجودکڑی قسمیں کھاکھا کر کہتے تھے کہ کوئی حیات بعدالموت نہیں ۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ۝۰ۙ لَا یَبْعَثُ اللہُ مَنْ یَّمُوْتُ۔۔۔۝۳۸ۙ [120]

ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا ۔

ہمارے اعمال کاکوئی حساب کتاب نہیں اورکوئی جنت ودوزخ نہیں ہے حالانکہ تم ان تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات میں جنہوں نے اپنے جانوں پرخود ظلم کیاتھا رہ بس چکے تھے،ان کی بستیوں کے کھنڈرات پرتمہاراگزربھی ہوتاتھااورتم دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان قوموں پران کے کفرکے سبب کیسے دردناک عذاب نازل کیے تھے اور تمہاری عبرت کے لئے ان پچھلی قوموں کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کردیے تھے مگرتم نے دعوت حق سے روگردانی کی اوراپنے باطل عقائدپرجمے رہے۔

 حِكْمَةٌۢ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ۝۵ۙ [121]

ترجمہ:اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بہ درجہ اتم پورا کرتے ہے مگر تنبیہات ان پر کارگر نہیں ہوتیں ۔

انبیاء ومرسلین کوجھٹلانے والوں نے دعوت حق کا راستہ روکنے کے لئے مقدربھرحیلے اورمکروفریب کیے،جیساکہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے بارے میں کہاتھا۔

وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا۝۲۲ۚ [122]

ترجمہ:ان لوگوں نے بڑابھاری مکرکاجال پھیلا رکھاہے۔

مگر اللہ علام الغیوب کوان کی تمام چالوں کاعلم تھااوراس نے ان کے مکروفریب کوکامیاب نہیں ہونے دیااورانہی پرالٹ دیا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَهْلِهٖ۔۔۔۝۰۝۴۳ [123]

ترجمہ: حالاں کہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کولے بیٹھتی ہیں ۔

اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑان سے ٹل جائیں ۔

جب وہ قومیں اللہ کی ایک چال سے مات کھاگئیں توکیااللہ کے مقابلے میں تمہاری چال بازیاں کامیاب ہوجائیں گی؟

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ ‎﴿٤٧﴾‏ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ‎﴿٤٨﴾‏ وَتَرَى الْمُجْرِمِینَ یَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِینَ فِی الْأَصْفَادِ ‎﴿٤٩﴾‏ سَرَابِیلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ ‎﴿٥٠﴾‏ لِیَجْزِیَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿٥١﴾(ابراہیم)
’’ آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے نبیوں سے وعدہ خلافی کرے گا، اللہ بڑا ہی غالب اور بدلہ لینے والا ہے ،جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے رو برو ہونگے، آپ اس دن گنہگاروں کو دیکھیں گے کہ زنجیروں میں ملے جلے ایک جگہ جکڑے ہوئے ہونگے، ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر چڑھی ہوئی ہوگی، یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دے، بیشک اللہ تعالیٰ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگنے کی۔‘‘

انبیاء کی مدد:

بظاہریہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے مگراصل مقصودمخالفین کوسناناہے فرمایاپس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے دنیاوآخرت میں مددکرنے کا جو وعدہ کیاہے وہ یقیناًسچاہے اوروہ اسے پوراکرے گااوران لوگوں کوتہس نہس کردے گاجواس کی مخالفت کررہے ہیں ،اللہ زبردست ہے اوراپنے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! انہیں روزقیامت سے ڈراؤ جبکہ اللہ تعالیٰ موجودہ طبیعی نظام کودرہم برہم کرکے زمین اورآسمان کونئے قوانین فطرت اورنئے نظام کے ساتھ تخلیق کرے گاجواپنی وسعتوں میں موجودتمام نظام سے انتہائی زیادہ وسیع ہوں گے،جیسے فرمایا

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۳۳ۙ [124]

ترجمہ:دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے (یعنی جنت موجودہ کائنات سے بہت زیادہ وسیع ہے) اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔

اسی مضمون کواس آیت میں ذرامختلف اندازسے اعادہ کیا گیا ہے۔

 سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهٖ۝۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۝۲۱ [125]

ترجمہ:دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے جو مہیاکی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

یعنی آنے والی کائنات جس کے بڑے بڑے علاقے جنت ،جہنم اوراعراف ہیں اوران میں سے اکیلی جنت ہی موجودہ تمام کائنات کے برابریااس سے بڑی ہے ،اس لحاظ سے نئی کائنات کی تمام وسعت کااندازہ لگاناانسانی عقل سے باہرہے،

سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ القِیَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ، كَقُرْصَةِ نَقِیٍّ،لَیْسَ فِیهَا مَعْلَمٌ لِأَحَدٍ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہےروز قیامت لوگ سفید بھوری زمین پر اکٹھے ہوں گے جومیدہ کی روٹی کی طرح ہوگی،اس میں کسی کاکوئی علامتی نشان اوراونچ نہیں ہوگایعنی بالکل ہموارہوگی۔[126]

جیسے فرمایالَّا تَرٰى فِیْہَا لَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ ۭۭ[127]

ترجمہ: اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے ۔

قَالَتْ عَائِشَةُ: أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ: {یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ} قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَیْنَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:عَلَى الصِّرَاطِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےسب سے پہلے میں نے اس آیت’’ ڈراؤ انہیں اس دن سے جبکہ زمین اورآسمان بدل کرکچھ سے کچھ کردیے جائیں گے اورسب کے سب اللہ واحدقہارکے سامنے بے نقاب حاضرہوجائیں گے۔‘‘کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا،میں نےعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب یہ آسمان و زمین بدل دیئے جائیں گے توپھرلوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپل صراط پر۔[128]

أَنَّ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ قَالَ: فَقَالَ الْیَهُودِیُّ: أَیْنَ یَكُونُ النَّاسُ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُمْ فِی الظُّلْمَةِ دُونَ الْجِسْرِ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک یہودی عالم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاجب آسمان وزمین کوبدل دیاجائے گاتولوگ کہاں ہوں گے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگ اس وقت اندھیرے میں پل صراط کے پاس کھڑے ہوں گے۔[129]

اورتمام خلائق اپنی قبروں سے اٹھ کھڑی ہوگی اوران میں کوئی بھی اللہ الواحدالقہارسے چھپ نہ سکے گا ، اس روزتم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ جہنم میں تارکول کے لباس پہنے ہوں گے ،

حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِیَّ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِیَّةِ، لَا یَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ، وَالْاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّیَاحَةُ وَقَالَ:النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا، تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَعَلَیْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ، وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، فرمایامیری امت جاہلیت کی چارچیزیں نہ چھوڑیں گے،ایک حسب ونسب پرفخر، دوسرے دوسروں کےنسب میں طعن کرنا،تیسرے ستاروں سے بارش کی امیدرکھنااورچوتھے میت پربین کرکے رونا،اور فرمایابین کرنے والی اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرےتو روزقیامت اسے گندھک کا کرتہ اورکھجلی کادوپٹہ پہنایاجائے گا۔ [130]

اوران کے ہاتھ پاؤں آگ کی زنجیروں میں جکڑے ہونگے اورآگ کے شعلے ان کے چہروں پرچھائے جا رہے ہوں گے،جیسے فرمایا

تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا كٰلِحُوْنَ۝۱۰۴ [131]

ترجمہ:آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔

یہ اس لئے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے ساتھ ہرمتنفس کواس کے اعمال کابدلہ دے ،جیسے فرمایا

۔۔۔لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [132]

ترجمہ: تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے ۔

اللہ کوحساب لیتے کچھ دیرنہیں لگتی۔

هَٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُوا بِهِ وَلِیَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٥٢﴾‏(ابراہیم)
یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کردیئے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں ۔

یہ آخری کلام الٰہی قرآن مجید تمام جن وانسانوں کے لئے ایک کھلا پیغام ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۔۔۔۝۱۹ۘ [133]

ترجمہ:اوراس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ان کو خبردارکردیاجائے۔

اوروہ اس حقیت کواچھی طرح جان لیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے، اس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے، اور جوعقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آ جائیں اورعذاب جہنم سے بچ جائیں ۔

[1] الحدید۹

[2] البقرة۲۵۷

[3] الاعراف۱۵۸

[4] الاعراف ۱۵۸

[5] صحیح بخاری كِتَابُ التَّیَمُّمِ باب ۱، ح۳۳۵ ، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ باب جُعلت لی الأرض مسجدًا وطهورًا۱۱۶۳ ،سنن نسائی کتاب الغسل بَابُ التَّیَمُّمِ بِالصَّعِیدِ۴۳۲، مسنداحمد۱۴۲۶۴،معجم ابن عساکر۹۱۹،صحیح ابن حبان ۶۳۹۸،معرفة السنن ولآثار۵۰۷۷، مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۴۲، شرح السنة للبغوی۳۶۱۶

[6] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ ۷۵۰۰،صحیح ابن حبان۲۸۹۶

[7] الاعراف۱۶۸

[8] صحیح مسلم کتاب العیدین باب صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۲۰۴۸،سنن نسائی كِتَابُ صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ باب قِیَامُ الْإِمَامِ فِی الْخُطْبَةِ مُتَوَكِّئًا عَلَى إِنْسَانٍ۱۵۷۶

[9] الزمر۷

[10] التغابن۶

[11] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ ۶۵۷۲ ،شرح السنة للبغوی۱۲۹۱،شعب الایمان ۶۶۸۶، معجم ابن عساکر۸۷۰،مسندالبزار۴۰۵۳

[12] إبراهیم: 9

[13] مستدرک حاکم۳۳۳۷

[14] آل عمران۱۱۹

[15] البقرة۱۹

[16] ھود۳

[17] النمل۵۶

[18] بنی اسرائیل۷۶

[19] الانفال۳۰

[20] الصافات ۱۷۱تا۱۷۳

[21] المجادلة۲۱

[22] الانبیائ۱۰۵

[23]الاعراف ۱۳۷

[24] الاعراف۱۲۸

[25] النازعات ۴۰، ۴۱

[26] الرحمٰن۴۶

[27] النازعات ۳۷تا۳۹

[28] جامع ترمذی ابواب صفة الجھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ النَّارِ۲۵۷۴ ،شرح السنة للبغوی۳۲۲۰

[29] الانفال۳۲

[30] الانفال۱۹

[31] ص۵۷

[32] محمد۱۵

[33] الکہف۲۹

[34]فاطر۳۶، ۳۷

[35] الصافات۶۴تا۶۸

[36] الرحمٰن۴۳،۴۴

[37] الدخان۴۳تا۵۰

[38] الواقعة۴۱تا۴۴

[39] ص۵۵تا۵۸

[40] آل عمران۱۱۷

[41] الفرقان۲۳

[42] آل عمران۱۱۷

[43] البقرة۲۶۴

[44] الاحقاف۳۳

[45] یٰسین۷۷تا۸۳

[46] لقمان۲۸

[47] الروم۲۷

[48] النسائ۱۳۳

[49] المائدة۵۴

[50] فاطر ۱۶، ۱۷

[51] محمد۳۸

[52] سبا۳۱تا۳۳

[53]الاعراف ۳۸ ،۳۹

[54] الاحزاب۶۶تا ۶۸

[55]المومن ۴۷، ۴۸

[56] الزمر۷۱

[57] النسائ۱۲۰

[58] النحل۱۰۰

[59] التوبة۳۱

[60]الفرقان ۴۳

[61] یٰسین۶۰

[62] الشوریٰ۲۱

[63] الاحقاف۵،۶

[64] مریم۸۲

[65] الزمر۷۳

[66] الرعد۲۳،۲۴

[67] الفرقان۷۵

[68] إبراهیم: 24

[69] إبراهیم: 24

[70] إبراهیم: 24

[71] إبراهیم: 24

[72] تفسیرطبری۵۶۷؍۱۶

[73] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ الفَهْمِ فِی العِلْمِ ۷۲،وکتاب التفسیر سورة ابراھیم بَابُ قَوْلِهِ كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ تُؤْتِی أُكْلَهَا كُلَّ حِینٍ۴۶۹۸،وکتاب العلم بَابُ قَوْلِ المُحَدِّثِ حَدَّثَنَا، وَأَخْبَرَنَا، وَأَنْبَأَنَا۶۱، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ النَّخْلَةِ۷۰۹۸

[74] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ ۳۱۱۹

[75] إبراهیم: 27

[76] صحیح بخاری تفسیر سورة ابراھیم بَابُ یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ ۴۶۹۹،صحیح مسلم کتاب الجنة و صفة نعیمھا بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۱۹

[77] صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعیمھا بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۱۶

[78] مسنداحمد۱۸۵۳۴،مستدرک حاکم۱۰۷،شعب الایمان ۳۹۰،مصنف ابن ابی شیبة۱۲۰۵۹ ،سنن ابوداود کتاب السنة بَابٌ فِی الْمَسْأَلَةِ فِی الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۴۷۵۳

[79] مستدرک حاکم۱۴۰۳،مصنف عبدالرزاق۶۷۰۳

[80] إبراهیم: 27

[81] إبراهیم: 27

[82] تفسیر طبری ۶۰۲؍۱۶

[83] لقمان۲۴

[84] یونس۷۰

[85] إبراهیم: 31

[86] تفسیرطبری۱۲؍۱۶

[87] الحدید۱۵

[88] البقرة۱۲۳

[89] البقرة۲۵۴

[90] الرحمٰن ۲۴

[91] الرحمٰن۵

[92] یٰسین۴۰

[93] النحل۱۸

[94] صحیح بخاری كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا فَرَغَ مِنْ طَعَامِهِ ۵۴۵۸،سنن ابوداودكِتَاب الْأَطْعِمَةِ بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا طَعِمَ ۳۸۴۹،السنن الکبری للنسائی۶۸۷۰،مسنداحمد۲۲۱۶۸

[95] صحیح بخاری كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا فَرَغَ مِنْ طَعَامِهِ ۵۴۵۹

[96]تفسیرابن کثیر۵۱۲؍۴

[97] مسند احمد ۱۷۶۷۵، صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ اسْتِحْبَابِ وَضْعِ النَّوَى خَارِجَ التَّمْرِ، وَاسْتِحْبَابِ دُعَاءِ الضَّیْفِ لِأَهْلِ الطَّعَامِ، وَطَلَبِ الدُّعَاءِ مِنَ الضَّیْفِ الصَّالِحِ وَإِجَابَتِهِ لِذَلِكَ۵۳۲۸،سنن ابوداودكِتَاب الْأَشْرِبَةِ بَابٌ فِی النَّفْخِ فِی الشَّرَابِ وَالتَّنَفُّسِ فِیهِ۳۷۲۹

[98] البقرة۱۲۶

[99] العنکبوت۶۷

[100] آل عمران۹۶،۹۷

[101] إبراهیم: 36

[102] المائدة: 118

[103] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأُمَّتِهِ، وَبُكَائِهِ شَفَقَةً عَلَیْهِمْ ۴۹۹،المعجم الاوسط ۸۸۹۴، صحیح ابن حبان ۷۲۳۵،شعب الایمان ۲۹۸،السنن الکبری للنسائی ۱۱۲۰۵،شرح السنة للبغوی ۴۳۳۷

[104] البقرة۱۲۶

[105] القصص۵۷

[106] آل عمران۵

[107] مریم ۴۷

[108] التوبة ۱۱۴

[109] القمر۸

[110] طہ۱۰۸

[111] المعارج۴۳

[112] المومنون ۹۹،۱۰۰

[113] المنافقون۹،۱۰

[114] الانعام۲۷

[115] السجدة۱۲

[116] فاطر۳۷

[117] الانعام۲۸

[118] فاطر۳۷

[119]المنافقون۱۱

[120] النحل۳۸

[121] القمر۵

[122] نوح ۲۲

[123] فاطر۴۳

[124] آل عمران۱۳۳

[125] الحدید۲۱

[126] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ یَقْبِضُ اللَّهُ الأَرْضَ یَوْمَ القِیَامَةِ ۶۵۲۱ ،صحیح مسلم صفة القیامة بَابٌ فِی الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ وَصِفَةِ الْأَرْضِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۰۵۵،صحیح ابن حبان ۷۳۲۰،شعب الایمان ۳۵۱،مسندابی یعلی ۷۵۴۹،شرح السنة للبغوی ۴۳۰۵

[127] طہ۱۰۷

[128] مسنداحمد۲۴۰۶۹، صحیح مسلم صفة القیامة بَابٌ فِی الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ وَصِفَةِ الْأَرْضِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۰۵۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ۳۱۲۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الْبَعْثِ ۴۲۷۹

[129] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ بَیَانِ صِفَةِ مَنِیِّ الرَّجُلِ، وَالْمَرْأَةِ وَأَنَّ الْوَلَدَ مَخْلُوقٌ مِنْ مَائِهِمَا۷۱۶،صحیح ابن خزیمة۲۳۲،مستدرک حاکم ۶۰۳۹، صحیح ابن حبان ۷۴۲۲،السنن الکبری للبیہقی ۷۹۸

[130] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ التَّشْدِیدِ فِی النِّیَاحَةِ۲۱۶۰،مسنداحمد۲۲۹۱۲، المعجم الکبیرللطبرانی ۳۴۲۵،صحیح ابن حبان ۳۱۴۳،السنن الکبری للبیہقی ۷۱۱۰،مصنف ابن ابی شیبة۱۲۱۰۳،مسندابی یعلی ۱۵۷۷،شرح السنة للبغوی ۱۵۳۴

[131] المومنون۱۰۴

[132] النجم۳۱

[133] الانعام۱۹

Related Articles