بعثت نبوی کا گیارهواں سال

یثرب میں اسلام کی ابتدا( ذی الحجہ گیارہ بعثت نبوی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال حج پرآئے ہوئے قبائل کودعوت اسلام پیش کرنے کے لئے ان کے پاس تشریف لے جاتے اورایک ایک قبیلے کے پاس ،ایک ایک شخص کے پاس ، ایک ایک ڈیرے، خیمے میں جاجاکرپیغام رسالت ادافرماتے،ان مواقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم عمومااس طرح خطاب فرماتے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ بِالْمَوْقِفِ فَیَقُولُ:هَلْ مِنْ رَجُلٍ یَحْمِلُنِی إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ مَنَعُونِی أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّی

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو موقف (وقوف عرفات کی جگہ) میں لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کیا کوئی ایساشخص ہے جو مجھے اپنی قوم کے علاقے میں میں لے جائے کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کریم کاپیغام لوگوں تک پہنچانے سے روک رکھاہے۔[1]

رَبِیعَةَ بْنَ عَبَّادٍ، یُحَدِّثُهُ أَبِی، قَالَ: إنِّی لَغُلَامٌ شَابٌّ مَعَ أَبِی بِمِنًى، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقِفُ عَلَى مَنَازِلِ الْقَبَائِلِ مِنْ الْعَرَبِ، فَیَقُولُ: یَا بَنِی فُلَانٍ، إنِّی رَسُولُ اللَّهِ إلَیْكُمْ، یَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَأَنْ تَخْلَعُوا مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ هَذِهِ الْأَنْدَادِ، وَأَنْ تُؤْمِنُوا بِی، وَتُصَدِّقُوا بِی، وَتَمْنَعُونِی، حَتَّى أُبَیِّنَ عَنْ اللَّهِ مَا بَعَثَنِی بِهِ، أَنَّهُ أَتَى كِنْدَةَ فِی مَنَازِلِهِمْ، وَفِیهِمْ سَیِّدٌ لَهُمْ یُقَالُ لَهُ: مُلَیْحٌ، فَدَعَاهُمْ إلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَرَضَ عَلَیْهِمْ نَفْسَهُ، فَأَبَوْا عَلَیْهِ،

ربیعہ بن عبادکہتے ہیں میں نوجوان شخص تھااوراپنے باپ کے ساتھ حج میں شریک تھامیں نے دیکھاکہ مقام منی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورقبائل عرب کے پاس کھڑے ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے بنی فلاں میں تمہارے طرف اللہ کارسول ہوں ،اورتمہیں اس بات کاحکم کرتاہوں کہ تم اللہ کے سواکسی چیزکی پرستش نہ کرواوربت پرستی چھوڑدواورمجھ پرایمان لاکرمیری تصدیق کرواوراللہ کے احکام جاری کرنے میں میری مددکرو، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ کندہ کے پاس اس کے مقام پرآئے اوروہاں ان کاسرداربھی موجودتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی مگرانہوں نے اس پاکیزہ دعوت ،قبول کرنے سے انکارکردیا،

 أَنَّهُ أَتَى كَلْبًا فِی مَنَازِلِهِمْ، إلَى بَطْنٍ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُمْ: بَنُو عَبْدِ اللَّهِ، فَدَعَاهُمْ إلَى اللَّهِ وَعَرَضَ عَلَیْهِمْ نَفْسَهُ، حَتَّى إنَّهُ لَیَقُولُ لَهُمْ: یَا بَنِی عَبْدِ اللَّهِ، إنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحْسَنَ اسْمَ أَبِیكُمْ، فَلَمْ یَقْبَلُوا مِنْهُ مَا عَرَضَ عَلَیْهِمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَنِی حَنِیفَةَ فِی مَنَازِلِهِمْ، فَدَعَاهُمْ إلَى اللَّهِ وَعَرَضَ عَلَیْهِمْ نَفْسَهُ، فَلَمْ یَكُنْ أَحَدٌ مِنْ الْعَرَبِ أَقْبَحَ عَلَیْهِ رَدًّا مِنْهُمْ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی کلب کے پاس آئے جن ،بنی عبداللہ بھی کہتے تھے اوران سے فرمایااے بنی عبداللہ!تمہارے باپ کانام اللہ تعالیٰ نے کیسااچھارکھاہے تم میری رسالت کااقرارکرومگرانہوں نے بھی اس پاکیزہ دعوت کوقبول کرنے سے انکارکردیا، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حنیفہ کے پاس آئے اورانہیں بھی دعوت اسلام پیش کی مگران بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسابرابرتاؤکیاجوکسی قبیلہ نے بھی نہیں کیاتھا۔[2]

اس دوران آپ کاچچاابولہب جس کااصل نام عبدالعزیٰ تھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے جاتاتھا

فَإِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَقَالَتِهِ، قَالَ الْآخَرُ: مِنْ خَلْفِهِ یَا بَنِی فُلَانٍ، إِنَّ هَذَا یُرِیدُ مِنْكُمْ أَنْ تَسْلُخُوا اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَحُلَفَاءَكُمْ مِنَ الْحَیِّ بَنِی مَالِكِ بْنِ أُقَیْشٍ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ مِنَ الْبِدْعَةِ وَالضَّلَالَةِ، فَلَا تَسْمَعُوا لَهُ، وَلَا تَتَّبِعُوهُ ، فَقُلْتُ لِأَبِی: مَنْ هَذَا؟قَالَ: عَمُّهُ أَبُو لَهَبٍ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات کرکے فارغ ہوتے تووہ کہتایہ شخص تمہیں دعوت دیتاہے کہ تم اپنے آباء واجدادکادین چھوڑدو،لات وعزیٰ اوراپنے حلیفوں ،جوبنی مالک بن اقیش سے ہیں چھوڑکراس کی لائی ہوئی بدعت(نیادین)اورگمراہی قبول کرلو،اس کی بات نہ سنواورنہ اس کی اطاعت اختیارکرو،میں نے اپنے والدسے پوچھایہ کون ہے؟ انہوں نے کہایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچچاابولہب ہے۔[3]

أَنَّهُ أَتَى بَنِی عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، فَدَعَاهُمْ إلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَرَضَ عَلَیْهِمْ نَفْسَهُ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُ: بَیْحَرَةُ ابْن فِرَاسٍ. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: فِرَاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ (الْخَیْرِ) بْنِ قُشَیْرِ ابْن كَعْبِ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ-: وَاَللَّهِ، لَوْ أَنِّی أَخَذْتُ هَذَا الْفَتَى مِنْ قُرَیْشٍ، لَأَكَلْتُ بِهِ الْعَرَبَ،ثُمَّ قَالَ: أَرَأَیْتَ إنْ نَحْنُ بَایَعْنَاكَ عَلَى أَمْرِكَ، ثُمَّ أَظْهَرَكَ اللَّهُ عَلَى مَنْ خَالَفَكَ، أَیَكُونُ لَنَا الْأَمْرُ مِنْ بَعْدِكَ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنوعامربن صعصعہ میں تشریف لائے اورانہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اوراپنے آپ ،پیش کیا، اس قبیلہ میں ایک آدمی تھاجس کانام بَیْحَرَةُ ابْن فِرَاسٍ تھااس نے کہااللہ کی قسم !اگرمیں اس قریشی نوجوان کولے جاؤں تواس کے ذریعے سے سارے عرب کاکھاجاؤں ،اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااچھاآپ بتائیں اگرہم آپ کے پیروکاربن جائیں اوراللہ تعالیٰ آپ کومخالفین پرغالب کردے توکیاآپ کے بعدحکومت ہمیں ملے گی؟

قَالَ: الْأَمْرُ إلَى اللَّهِ یَضَعُهُ حَیْثُ یَشَاءُ،قَالَ: فَقَالَ لَهُ: أَفَتُهْدَفُ نَحُورُنَا لِلْعَرَبِ دُونَكَ، فَإِذَا أَظْهَرَكَ اللَّهُ كَانَ الْأَمْرُ لِغَیْرِنَا! لَا حَاجَةَ لَنَا بِأَمْرِكَ،فَأَبَوْا عَلَیْهِ،فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ رَجَعَتْ بَنُو عَامِرٍ إلَى شَیْخٍ لَهُمْ، قَدْ كَانَتْ أَدْرَكَتْهُ السِّنُّ، حَتَّى لَا یَقْدِرَ أَنْ یُوَافِیَ مَعَهُمْ الْمَوَاسِمَ، فَكَانُوا إذَا رَجَعُوا إلَیْهِ حَدَّثُوهُ بِمَا یَكُونُ فِی ذَلِكَ الْمَوْسِمِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حکومت اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے پسندفرمائے گاعطاکردے گا،وہ کہنے لگااس مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کی حفاظت کی خاطرعربوں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اورجب اللہ تعالیٰ آپ کوغلبہ عطافرمائے توحکومت دوسروں کومل جائے ہمیں ایسے دین کی ضرورت نہیں ،اس طرح انہوں نے بھی دعوت اسلام قبول کرنے سے انکارکردیالیکن جب وہ حج سے واپس گئے اوراپنے ایک بزرگ سردارسے ملے جوبہت بوڑھاہوچکاتھااوران کے ساتھ حج کونہیں جاسکتاتھا،یہ لوگ جب واپس جاتے تھے تواس سردارکووہ تمام باتیں بتاتے تھے جوحج کے دوران میں پیش آتی تھیں ،

فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَیْهِ ذَلِكَ الْعَامَ سَأَلَهُمْ عَمَّا كَانَ فِی مَوْسِمِهِمْ ، فَقَالُوا:جَاءَنَا فَتًى مِنْ قُرَیْشٍ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ، یَدْعُونَا إلَى أَنْ نَمْنَعَهُ وَنَقُومَ مَعَهُ، وَنَخْرُجَ بِهِ إلَى بِلَادِنَا، قَالَ: فَوَضَعَ الشَّیْخُ یَدَیْهِ عَلَى رَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ: یَا بَنِی عَامِرٍ، هَلْ لَهَا مِنْ تَلَافٍ؟ هَلْ لِذُنَابَاهَا مِنْ مَطْلَبٍ؟ وَاَلَّذِی نَفْسُ فُلَانٍ بِیَدِهِ، مَا تَقَوَّلَهَا إسْمَاعِیلِیٌّ قَطُّ، وَإِنَّهَا لَحَقٌّ، فَأَیْنَ رَأْیُكُمْ كَانَ عَنْكُمْ؟

اس مرتبہ جب وہ اس کے پاس پہنچے تواس ، ان سے حج کی کارگزاری پوچھی،وہ کہنے لگے ہمارے پاس ایک قریشی جوان آیاتھااس کاتعلق بنوعبدالمطلب سے تھا،وہ دعوی کرتاتھاکہ میں نبی ہوں ،اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کاساتھ دیں ،اس کی حفاظت کریں اوراسے اپنے علاقے میں لے آئیں لیکن ہم نے انکارکردیا، بزرگ نے افسوس کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ سرپررکھ لیے اورکہنے لگااوبنوعامر!کیااب اس کی تلافی ممکن ہے؟ کیایہ موقع دوبارہ ہاتھ آسکتاہے؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !کسی بھی اسماعیلی نے کبھی ایسی بات جھوٹ نہیں کہی ،یہ دعوی یقیناسچ ہے ،تمہاری عقل کہاں گھاس چرنے چلی گئی تھی؟۔[4]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قبائل محارب بن خصفہ، بنوفزارہ،غسان،بنومرہ،بنوسلیم،بنوعبس، بنونضر، بنوبکاء، بنوعذرہ، حضارمہ، بنوربیعہ، بنوشیبان جن کے سردار مفروق بن عمرو ، ہانی بن قبیصہ اورمثنیٰ بن حارثہ تھاسب لوگوں نے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشے اورکہاہم اپنی قوم سے مشورہ کریں گے،اس وقت تک آپ انتظار کریں ،مثنی بن حارثہ نے کہا

وَإِنَّا إِنَّمَا نَزَلْنَا عَلَى عَهْدٍ أَخَذَهُ عَلَیْنَا أَنْ لَا نُحْدِثَ حَدَثًا وَلَا نُؤْوِی مُحْدِثًا وَإِنِّی أَرَى أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ الَّذِی تَدْعُونَا إِلَیْهِ یَا قُرَشِیُّ مِمَّا یَكْرَهُ الْمُلُوكُ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ نُؤْوِیَكَ وَنَنْصُرَكَ مِمَّا یَلِی مِیَاهَ الْعَرَبِ فَعَلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ: مَا أَسَأْتُمْ فِی الرَّدِّ إِذْ أَفْصَحْتُمْ بِالصِّدْقِ وَإِنَّ دِینَ اللهِ لَنْ یَنْصُرَهُ إِلَّا مَنْ حَاطَهُ مِنْ جَمِیعِ جَوَانِبِهِ أَرَأَیْتُمْ إِنْ لَمْ تَلْبَثُوا إِلَّا قَلِیلًا حَتَّى یُورِثَكُمُ اللهُ أَرْضَهُمْ وَدِیَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَیُفْرِشَكُمْ نِسَاءَهُمْ أَتُسَبِّحُونَ اللهَ وَتُقَدِّسُونَهُ؟

ہم نے کسریٰ سے یہ معاہدہ کررکھاہے کہ نہ ہم خودبغاوت کریں گے نہ کسی باغی کوپناہ دیں گےمیراخیال ہے کہ جس بات کی آپ دعوت دے رہے ہیں بادشاہ عموماًایسی باتوں کوپسندنہیں کیاکرتےپس اگرآپ پسندکریں کہ صرف عرب علاقے کی حد تک ہم آپ کی نصرت وحمایت کریں توہم تیارہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے براجواب نہیں دیاکیونکہ تم نے سچی اورصاف بات کہہ دی ہےتاہم اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگاروہ شخص بن سکتاہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہرطرف سے گھیررکھاہویعنی اسے اللہ تعالیٰ کے سواکسی کاکوئی خوف نہ ہوذرابتاؤاگرتھوڑے ہی عرصے میں اللہ تعالیٰ تمہیں ان کی زمینوں ،علاقوں اورمال ودولت کاوارث بنادے اوران کی عورتیں تمہاری لونڈیاں بنادی جائیں توکیاتم اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس کروگے؟

فَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ شَرِیكٍ: اللهُمَّ فَلَكَ ذَلِكَ، قَالَ فَتَلَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ: إِنَّا أَرْسَلْناكَ شاهِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِیراً وَداعِیاً إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِراجاً مُنِیراً

نعمان بن شریک معاًبولے اللہ کی قسم!ہاں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں یقیناًہم نے آپ ،گواہی دینے والا،خوشخبری سنانے والا، ڈرانے والا اوراللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااورروشن چراغ بناکربھیجاہے۔[5]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لوگوں کے سامنے اسلام کاپیغام پیش کیاتوانہوں نے سب سے زیادہ مثبت ردعمل ظاہرکیا،

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ،لَمَّا قَدِمَ أَبُو الْحَیْسَرِ أَنَسُ بْنُ رَافِعٍ مَكَّةَ، وَمَعَهُ فِتْیَةٌ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ فِیهِمْ إِیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ یَلْتَمِسُونَ الْحِلْفَ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَى قَوْمِهِمْ مِنَ الْخَزْرَجِ، سَمِعَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُمْ فَجَلَسَ إِلَیْهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ:هَلْ لَكُمْ إِلَى خَیْرٍ مِمَّا جِئْتُمْ لَهُ؟قَالُوا: وَمَا ذَاكَ؟

ابن اسحاق کی روایت ہےبنوعبدالاشہل کاایک وفدمکہ مکرمہ آیاان کی قیادت ابوالحیسرانس بن رافع کررہے تھے ،وفدمیں ایاس بن معاذبھی تھے،وفدکامقصداپنی قوم بنوخزرج کے خلاف قریش سے معاہدہ کرناتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ان کی آمدکاپتہ چلاتوان کے پاس تشریف لائےان سے ملاقات کی اورفرمایاکیامیں تمہیں ایسی چیزبتاؤں جواس سے بہترہےجس کی خاطرتم آئے ہو؟وہ پوچھنے لگے وہ کیاہے؟

قَالَ:أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، بَعَثَنِی إِلَى الْعِبَادِ أَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ یَعْبُدُوا اللَّهَ لَا یُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَأُنْزِلَ عَلَیَّ كِتَابٌ ثُمَّ ذَكَرَ الْإِسْلَامَ، وَتَلَا عَلَیْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ إِیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ، وَكَانَ غُلَامًا حَدَثًا: أَیْ قَوْمِ، هَذَا وَاللَّهِ خَیْرٌ مِمَّا جِئْتُمْ لَهُ، فَضَرَبَهُ أَبُو الْحَیْسَرِ وَانْتَهَرَهُ فَسَكَتَ،قَالَ: ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ إیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ أَنْ هَلَكَ. قَالَ مَحْمُودُ بْنُ لَبِیدٍ: فَأَخْبَرَنِی مَنْ حَضَرَهُ مِنْ قَوْمِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ: أَنَّهُمْ لَمْ یَزَالُوا یَسْمَعُونَهُ یُهَلِّلُ اللَّهَ تَعَالَى وَیُكَبِّرُهُ وَیَحْمَدُهُ وَیُسَبِّحُهُ حَتَّى مَاتَ، فَمَا كَانُوا یَشُكُّونَ أَنْ قَدْ مَاتَ مُسْلِمًا، لَقَدْ كَانَ اسْتَشْعَرَ الْإِسْلَامَ فِی ذَلِكَ الْمَجْلِسِ، حِینَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا سَمِعَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اللہ تعالیٰ کارسول ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے پاس اس لیے بھیجاہے کہ میں انہیں دعوت دوں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی ،شریک نہ ٹھیرائیں ،اللہ تعالیٰ نے مجھ پرکتاب بھی نازل فرمائی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کیں اورقرآن مجیدکی تلاوت فرمائی، ایاس بن معاذجواس وقت بالکل نوجوان تھے کہنے لگے میری قوم کے لوگو!اللہ کی قسم!یہ پیغام اس معاہدے سے بہترہے جس کی خاطرتم آئے ہو،ابوالحیسرنے انہیں ڈانٹاتووہ چپ ہوگئے، بعدمیں جب آخری وقت آیااوران پرعالم نزع طاری ہواتولوگوں نے سناکہ وہ لاالہ الااللہ،اللہ اکبر،الحمدللہ ،سبحان اللہ کے بول رہے ہیں ، کسی کوشک نہ رہاکہ وہ اسلام کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ، ایاس کے دل میں اسی مجلس میں اسلام سماگیاتھاجب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمان افروزباتیں سنی تھیں ۔[6]

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَوْسِمِ الَّذِی لَقِیَهُ فِیهِ النَّفَرُ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَعَرَضَ نَفْسَهُ عَلَى قَبَائِلِ الْعَرَبِ، كَمَا كَانَ یَصْنَعُ فِی كُلِّ مَوْسِمٍ. فَبَیْنَمَا هُوَ عِنْدَ الْعَقَبَةِ لَقِیَ رَهْطًا مِنْ الْخَزْرَجِ أَرَادَ اللَّهُ بِهِمْ خَیْرًا، قَالُوا: لَمَّا لَقِیَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُمْ: مَنْ أَنْتُمْ؟قَالُوا: نَفَرٌ مِنْ الْخَزْرَجِ، قَالَ: أَمِنْ مَوَالِی یَهُودَ؟؟ قَالُوا: نَعَمْ

گیارہ بعثت نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب دستورموسم حج میں قبائل عرب پردعوت اسلام پیش کررہے تھے اسی اثنامیں مقام عقبہ (تنگ پہاڑی راستے ،عقبہ کہتے ہیں )کے پاس خزرج کے چندلوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم کون لوگ ہو؟ انہوں نے جواب دیاہم قبیلہ خزرج سے ہیں ، فرمایایہودیوں کے ہمسایہ؟انہوں نے جواب دیا ہاں ،

قَالَ: أَفَلَا تَجْلِسُونَ أُكَلِّمُكُمْ؟قَالُوا: بَلَى. فَجَلَسُوا مَعَهُ، قال:أنا رَسُولُ اللَّهِ، بعثنی إلى العباد أدعوهم إلى أن یعبدوه ولا یشركوا به شیئا وأنزل علیّ الكتاب، ثم ذكر لهم الْإِسْلَامَ وَتَلَا عَلَیْهِمْ الْقُرْآنَ،ا أَنَّ یَهُودَ كَانُوا مَعَهُمْ فِی بِلَادِهِمْ، وَكَانُوا أَهْلَ كِتَابٍ وَعِلْمٍ، وَكَانُوا هُمْ أَهْلَ شِرْكٍ وَأَصْحَابَ أَوْثَانٍ، وَكَانُوا قَدْ غَزَوْهُمْ بِبِلَادِهِمْ،فَكَانُوا إذَا كَانَ بَیْنَهُمْ شَیْءٌ قَالُوا لَهُمْ: إنَّ نَبِیًّا مَبْعُوثٌ الْآنَ، قَدْ أَظَلَّ زَمَانُهُ، نَتَّبِعُهُ فَنَقْتُلُكُمْ مَعَهُ قَتْلَ عَادٍ وَإِرَمَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایاکیاآپ لوگ میرے ساتھ بیٹھیں گے کہ کچھ باتیں کریں ؟انہوں نے کہاجی ہاں ضرور اوروہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، ساتھ بیٹھ گئے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اللہ کارسول ہوں مجھے لوگوں کی طرف مبعوث کیاگیاہے تاکہ میں انہیں اللہ کی طرف دعوت دوں اورانہوں کہوں کہ صرف اللہ ،اپنے مالک ،خالق اوررازق کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں ،مجھ پرکتاب نازل کی گئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی اورقرآن کریم کاکچھ حصہ پڑھ کرسنایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل نشین باتیں اورقرآن مجیدکی آیات سن کروہ لوگ بڑے حیران ہوئے ،کلام اللہ سن کران کے دل پر بڑا گہرااثرہو، یہودان کی سرزمین پران کے ساتھ رہتے تھے، اوریہوداہل کتاب اوراہل علم تھے مگراقلیت میں تھے اوریہ لوگ مشرک اوربتوں کے بجاری تھے، اس قبیلہ خزرج کی ہمیشہ یہودیوں سے جنگ رہتی تھی کیونکہ بنوخزرج کوشہرمیں غلبہ حاصل تھا اس لئے جب کبھی کسی قبیلے سے یہودیوں کاجھگڑا ہوتاتووہ اس قبیلے کودھمکی دیتے ہوئے کہتے تھے کہ اس وقت تم جوچاہو کر لو مگر عنقریب ایک نبی آخرالزماں مبعوث ہونے والاہے ،ہم اہل کتاب اس نبی پرایمان لاکر اس کااتباع کریں گے اورہم اس نبی کے ساتھ ہو کر تم کوقوم عاداورارم کی طرح قتل کریں گے ،

فَلَمَّا كَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُولَئِكَ النَّفَرَ، وَدَعَاهُمْ إلَى اللَّهِ، قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ: یَا قَوْمِ، تَعْلَمُوا وَاَللَّهِ إنَّهُ لَلنَّبِیُّ الَّذِی تَوَعَّدَكُمْ بِهِ یَهُودُ، فَلَا تَسْبِقُنَّكُمْ إلَیْهِ،فَأَجَابُوهُ فِیمَا دَعَاهُمْ إلَیْهِ، بِأَنْ صَدَّقُوهُ وَقَبِلُوا مِنْهُ مَا عَرَضَ عَلَیْهِمْ مِنْ الْإِسْلَامِ، وَقَالُوا: إنَّا قَدْ تَرَكْنَا قَوْمَنَا، وَلَا قَوْمَ بَیْنَهُمْ مِنْ الْعَدَاوَةِ وَالشَّرِّ مَا بَیْنَهُمْ، فَعَسَى أَنْ یَجْمَعَهُمْ اللَّهُ بِكَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے گفتگوکی اورانہیں اللہ کی طرف بلایاتو ایک دوسرے ، کہنے لگے واللہ! یہ تووہی نبی ہیں جن کا تذکرہ یہودکرتے رہتے ہیں ،اس لئے اس فضیلت اورسعادت میں یہودکے سبقت کرنے سے پہلے ہی اسلام قبول کر لو،چنانچہ اس مجلس میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرقبول اسلام کی بیعت کرکے انہوں نے دنیاوآخرت کی بھلائیاں سمیٹ لیں اور انہوں نے عرض کیاہم نے اسلام اختیارکرکے اپنی قوم کے دین کوترک کردیاہے اوراورہمارے درمیان جیسی دشمنی اوربرائیاں کسی اورقوم میں نہیں ہوسکتی ہمیں امیدہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کوبھی آپ کے طفیل ہدایت نصیب کرکے متفق کردے گا۔

فَسَنَقْدَمُ عَلَیْهِمْ، فَنَدْعُوهُمْ إلَى أَمْرِكَ، وَتَعْرِضُ عَلَیْهِمْ الَّذِی أَجَبْنَاكَ إلَیْهِ مِنْ هَذَا الدِّینِ فَإِنْ یَجْمَعْهُمْ اللَّهُ عَلَیْهِ فَلَا رَجُلَ أَعَزُّ مِنْكَ،ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعِینَ إلَى بِلَادِهِمْ، وَقَدْ آمَنُوا وَصَدَّقُوا

پھربولے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !حج کے بعدہم مدینہ منورہ میں اپنے قبائل کی طرف جائیں گے اورانہیں بھی دعوت اسلام پیش کریں گے اورجودین ہم نے قبول کیاہے ان بھی کہیں گے کہ وہ یہ دین قبول کرلیں ،اگرانہوں نے اس دین ،قبول کرلیاتوپھرآپ سے زیادہ ذی عزت شخص کوئی نہ ہوگا، پھریہ لوگ اسلام قبول اوراس کی صداقت کوتسلیم کرکے دوسرے سال حج پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کاوعدہ کرکے اپنے گھروں کولوٹ گئے ۔

یہودی اکثررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبریں دے کرلوگوں کوڈرایاکرتے تھے،

قَالَ سَلَمَةُ: وَأَنَا یَوْمئِذٍ مِنْ أَحْدَثِ مَنْ فِیهِ سِنًّا، عَلَیَّ بُرْدَةٌ لِی، مُضْطَجِعٌ فِیهَا بِفِنَاءِ أَهْلِی فَذَكَرَ الْقِیَامَةَ وَالْبَعْثَ وَالْحِسَابَ وَالْمِیزَانَ وَالْجَنَّةَ وَالنَّارَ،قَالَ: فَقَالَ ذَلِكَ لِقَوْمٍ أَهْلِ شِرْكٍ أَصْحَابِ أَوَثَانٍ، لَا یَرَوْنَ أَنَّ بَعْثًا كَائِنٌ بَعْدَ الْمَوْتِ،فَقَالُوا لَهُ: وَیْحَكَ یَا فُلَانُ أَوَتَرَى هَذَا كَائِنًا، أَنَّ النَّاسَ یُبْعَثُونَ بَعْدَ مَوْتِهِمْ إلَى دَارٍ فِیهَا جَنَّةٌ وَنَارٌ یُجْزَوْنَ فِیهَا بِأَعْمَالِهِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ

جس طرح سلمہ رضی اللہ عنہ بن سلامہ انصاری اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں  ہمارے یعنی بنی عبدالاشہل کے پڑوس میں ایک یہودی رہتاتھااورمیں ان ایام میں اپنی قوم کے اندرسب سے زیادہ نوعمرتھاایک چادراوڑھے ہوئے اپنے لوگوں کے درمیان بیٹھاہواتھا،اس یہودی نے ہمارے سامنے قیامت،حساب ومیزان اورجنت وجہنم کاذکرچھیڑدیااورکہنے لگاکہ مشرک اوربت پرست جہنم میں پھینکے جائیں گے وہ اس حقیقت ،نہیں سمجھتے کہ مرنے کے بعددوبارہ زندہ کیے جائیں گے اوراللہ تعالیٰ کے دربارمیں پیش ہوں گے،میرے قبیلے کے لوگ اس یہودی سے کہنے لگے تجھ کوخرابی ہو کیاواقعی تم اس پریقین رکھتے ہوکہ لوگ مرنے کے بعددوبارہ زندہ کیے جائیں گے اوراپنے اچھے برے اعمال کابدلہ پائیں گے؟یہودی عالم نے کہاہاں میرایہی عقیدہ ہے،

فَقَالُوا لَهُ: وَیْحَكَ یَا فُلَانُ! فَمَا آیَةُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَبِیٌّ مَبْعُوثٌ مِنْ نَحْوِ هَذِهِ الْبِلَادِ، وَأَشَارَ بِیَدِهِ إلَى مَكَّةَ وَالْیَمَنِ، فَقَالُوا: وَمَتَى تَرَاهُ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إلَیَّ وَأَنَا مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، فَقَالَ: إنْ یَسْتَنْفِدْ هَذَا الْغُلَامُ عُمْرَهُ یُدْرِكْهُ.قَالَ سَلمَة:فو الله مَا ذَهَبَ اللَّیْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ حَیٌّ بَیْنَ أَظْهُرِنَا، فَآمَنَّا بِهِ، وَكَفَرَ بِهِ بَغْیًا وَحَسَدًا، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: وَیْحَكَ یَا فُلَانُ أَلَسْتَ الَّذِی قُلْتَ لَنَا فِیهِ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لَیْسَ بِهِ

لوگوں نے پوچھا تجھ کو خرابی ہواس کی کیانشانیاں ہیں ؟اس نے مکہ مکرمہ اوریمن کی طرف اشارہ کرکے کہاان شہروں کی طرف نبی آخرالزمان پیداہوں گے،اس سے پوچھاگیاان کاظہورکب ہوگا؟ یہودی عالم نے میری طرف اشارہ کرکے کہااگریہ لڑکازندہ رہاتویہ اس نبی کودیکھے گا،سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ سن کرمجھ پرعالم محویت طاری ہو گیا اور اس واقعہ کوابھی چندسال ہی گزرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاظہورہواجونہی ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبرسنی فوراایمان لے آئے،وہ یہودی عالم ابھی زندہ تھالیکن حسداوربغض کی وجہ سے شرف اسلام سے محروم رہا،ہم نے اس سے کہاتم ہی توہمیں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبریں سنایاکرتے تھے اوراب تم ہی ان کوماننے سے انکارکرتے ہو، وہ بولایہ وہ نبی نہیں جن کامیں ذکرکیاکرتاتھاآخروہ بدبخت حالت کفرہی میں دنیاسے کوچ کرگیا۔[7]

قبیلہ خزرج میں سے یہ چھ شخص تھے،ان میں دوحضرات قبیلہ بنونجارسے تھے اوررشتہ میں عبدالمطلب کے ماموں تھے۔

ذَكَرَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ فی ما رَوَاهُ عَنِ الزُّهْرِیِّ وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ أَوَّلَ اجْتِمَاعِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ بِهِمْ كَانُوا ثَمَانِیَةً، وَهُمْ: مُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ، وَأَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ، وَرَافِعُ بْنُ مَالِكٍ، وَذَكْوَانُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ قَیْسٍ وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ یَزِیدُ بْنُ ثَعْلَبَةَ، وَأَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ، وَعُوَیْمُ بْنُ سَاعِدَةَ

موسی بن عقبہ نے جوروایت زہری اورعروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ انصارمیں جن لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پردائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے بیعت کی تھی ان کی تعدادآٹھ تھی،اوروہ یہ لوگ تھے معاذبن عفراء اسدبن زرارہ،رافع بن مالک،ذکوان یعنی ابن عبدقیس،عبداللہ بن صامت،ابوعبدالرحمٰن یزیدبن ثعلبہ،ابوہیثم بن تیہان اورعویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ ۔[8]

بعض روایات میں ہے کہ اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ جن کی کنیت ابوامامہ تھی اس سےپہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھےاس کی تقریب یوں ہوئی

خَرَجَا إِلَى مَكَّةَ یَتَنَافَرَانِ إِلَى عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ فَقَالَ لَهُمَا: قَدْ شَغَلَنَا هَذَا الْمُصَلِّی عَنْ كُلِّ شَیْءٍ. یَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ ، قَالَ: وَكَانَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ وَأَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ یَتَكَلَّمَانِ بِالتَّوْحِیدِ بِیَثْرِبَ، فَقَالَ ذَكْوَانُ بْنُ عَبْدِ قَیْسٍ لأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ حِینَ سَمِعَ كَلامَ عُتْبَةَ: دُونَكَ هَذَا دِینُكَ. فَقَامَا إلى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَ عَلَیْهِمَا الإِسْلامَ فَأَسْلَمَا ثُمَّ رَجَعَا إِلَى الْمَدِینَةِ

ا یک دفعہ اسعدبن زرارہ اورذ،ان بن عبدقیس قومی مفاخرت کامقابلہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آئے اوررئیس قریش عتبہ بن ربیعہ کے ہاں قیام کیا،اثنائے گفتگومیں عتبہ نے اپنے مہمانوں کوبتایاکہ بنوہاشم کے ایک نوجوان محمدبن عبداللہ نے رسالت کادعویٰ کیاہے ،وہ ہمارے بتوں کی مذمت کرتاہے ،ہمارے آباؤاجدادکوگمراہ قراردیتاہے اورکہتاہے کہ ہمیں ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے،ذکوان رضی اللہ عنہ کئی باراسعد رضی اللہ عنہ کویہ کہتے سن چکے تھے کہ کاش مرنے سے پہلے انہیں دین حق نصیب ہوجائے،جب انہوں نے عتبہ بن ربیعہ سے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سنے توذکوان بن عبدقیس نے سعدبن زرارہ سے کہا تمہیں جس دین کی تلاش تھی وہ یہی دین ہے،اسعد رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھ کربارگاہ رسالت میں حاضرہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی توانہوں نے اسلام قبول کرلیااورپھرمدینہ منورہ واپس آگئے۔[9]

قال:خرج أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ، وذَكْوَانُ بْنُ عَبْدِ القَیْسٍ إِلَى مَكَّةَ یَتَنَافَرَانِ إِلَى عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ، فسمعا برَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فأتیاه، فَعَرَضَ عَلَیْهِمَا الإِسْلامَ، وتلا علیهما القرآن، فَأَسْلَمَا ولم یقربا عتبة، و رَجَعَا إِلَى الْمَدِینَةِ، فكانا أول من قدم بالإسلام الْمَدِینَةِ

ایک روایت یوں ہےایک دفعہ اسعدبن زرارہ اورذکوان بن عبدقیس قومی مفاخرت کامقابلہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آئے اوررئیس قریش عتبہ بن ربیعہ کے ہاں قیام کیا،اثنائے گفتگوانہوں نے عتبہ سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی دعوت کے بارے میں سنا،اسعد رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھ کربارگاہ رسالت میں حاضرہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی اورقرآن کریم کی تلاوت فرمائی توانہوں نے اسلام قبول کرلیااورپھرلوٹ کرعتبہ کی طرف نہیں گئے بلکہ مدینہ منورہ واپس آگئے، وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام کی حالت میں مدینہ منورہ میں قدم رکھا۔[10]

اس کے علاوہ ایک اورسبب بھی تھاجس نے مدینہ منورہ والوں کے لیے اسلام کاراستہ ہموارکیاوہ سبب جنگ بعاث تھا

وَیُقَالُ إِنَّ أَبَا عُبَیْدَةَ ذَكَرَهُ بِالْمُعْجَمَةِ أَیْضًا وَهُوَ مَكَانٌ وَیُقَالُ حِصْنٌ وَقِیلَ مَزْرَعَةٌ عِنْدَ بَنِی قُرَیْظَةَ عَلَى مِیلَیْنِ مِنَ الْمَدِینَةِ كَانَتْ بِهِ وَقْعَةٌ بَیْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ فَقُتِلَ فِیهَا كَثِیرٌ مِنْهُمْ۔۔۔ وَذَلِكَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِخَمْسِ سِنِینَ وَقِیلَ بِأَرْبَعٍ وَقِیلَ بِأَكْثَرَ وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ ۔۔۔ فَوَقَعَتْ عَلَیْهِمُ الْحَرْبُ لِأَجْلِ ذَلِكَ فَقُتِلَ فِیهَا مِنْ أَكَابِرِهِمْ مَنْ كَانَ لایؤمن أَیْ یَتَكَبَّرُ وَیَأْنَفُ أَنْ یَدْخُلَ فِی الْإِسْلَامِ حَتَّى لَا یَكُونَ تَحْتَ حُكْمِ غَیْرِهِ وَقَدْ كَانَ بَقِیَ مِنْهُمْ مِنْ هَذَا النَّحْوِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیِّ بْنِ سَلُولٍ

بعاث ایک جگہ کانام تھابعض نے قلعے کانام بتاہاہے اوریہ بھی کہاگیاہے کہ مدینہ منورہ سے دومیل کے فاصلے پربنوقریظہ کے قریب ایک زرعی زمین تھی ،یہاں اوس وخزرج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی تھی جس میں فریقین کے کثیرافرادمارے گئے تھے ،یہ ہجرت سے پانچ سال قبل کاواقعہ ہے ،بعض نے کم وبیش بھی بتایاہے،اس جنگ میں تمام متکبر سردارمارے گئے جوکسی کے ماتحت نہیں رہ سکتے تھے اوران سے قبول اسلام کی امیدبھی نہیں کی جاسکتی تھی ،اس قسم کے لوگوں میں سے ایک سردارعبداللہ بن ابی بچ گیا تھا ۔[11]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ یَوْمُ بُعَاثَ، یَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ، وَقُتِلَتْ سَرَوَاتُهُمْ وَجُرِّحُوا، فَقَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی دُخُولِهِمْ فِی الإِسْلاَمِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے جنگ بعاث کاوقوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کاذریعہ بن گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تومدینہ والوں کی جمیعت منتشرتھی ،ان کے بڑے بڑے سرداراس جنگ میں قتل ہوچکے تھے باقی لوگ زخموں سے چورتھے ،اس طرح یہ جنگ اللہ تعالیٰ کی حکمت سے ان کے لیے مشرف بہ اسلام ہونے کاسبب بن گئی۔[12]

فَلَمَّا قَدِمُوا الْمَدِینَةَ إِلَى قَوْمِهِمْ ذَكَرُوا لَهُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَوْهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى فَشَا فِیهِمْ فَلَمْ یَبْقَ دَارٌ مِنْ دُوْرِ الْأَنْصَارِ إِلَّا وَفِیهَا ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فذكروا لقومهم شأن النبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب یہ لوگ ایمان کی دولت سے مالامال واپس مدینہ منورہ میں پہنچے اوران کواس رسول کی خوشخبری سنائی جس کی آمدکی یہوددھمکیاں دے رہے تھے اورانہیں دعوت اسلام پیش کی،اوراپنی قوم کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کیے،ان حضرات کی کوششوں سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے اور مدینہ منورہ میں کوئی گھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرسے بے خبرنہ رہا۔[13]

[1] مسنداحمد۱۵۱۹۲سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقُرْآنِ۴۷۳۴،سنن ابن ماجہ کتاب افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۲۰۱

[2] ابن ہشام۴۲۲؍۱،الروض الانف۳۳؍۴،السیرہ النبوة لابن کثیر۱۵۷؍۲،السیرة الحلبیة ۳؍۲

[3] مسنداحمد۱۶۰۲۵

[4] ابن ہشام ۴۲۳؍۱

[5] السیرة النبویة وأخبار الخلفاء لابن حبان۱۰۱؍۱،ثبیت دلائل النبوة ۵۰۴؍۲، دلائل النبوة للبیہقی۴۲۲؍۲،الروض الانف۳۷؍۴، عیون الآثر۱۷۹؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۴۵۴؍۲

[6] ابن ہشام۴۲۸؍۱،الروض الانف۴۱؍۴، عیون الآثر۱۸۰؍2

[7] ابن ہشام۲۱۲؍۱          

[8] البدایة والنہایة۱۸۲؍۳

[9]ابن سعد۱۶۹؍۱

[10] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۰۸؍۱

[11] فتح الباری۱۱۱؍۷

[12] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ۳۷۷۷

[13] ابن ہشام ۴۲۸؍۱،الروض الانف ۴۴؍۴،عیون الآثر۱۸۱؍۱،السیرة الحلبیة۸؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۶؍۲،تاریخ ابن خلدون۳۴۸؍۲، السیرة النبویة والتاریخ الإسلامی۷۴؍۱

Related Articles