بعثت نبوی کا گیارهواں سال

مضامین سورة الرعد

اس سورہ میں اسلام کے بنیادی عقائدتوحید،رسالت،بعث بعدالموت،قرآن مجیدکی حقانیت کاتذکرہ باربارمختلف طریقوں سے بڑے ہی بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے ،ان پرایمان لانے کے اخلاقی وروحانی فوائدسمجھائے گئے ،اوران کے نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں ، اوریہ ذہن نشین کیا گیاہے کہ کفرسراسرایک حماقت اورجہالت کے سواکچھ نہیں ہے ،جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کاذکرکیے بغیران کے جوابات دیے گئے اوران شبہات کورفع کیاگیاکومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یامخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے ،مسلمانوں کوجوایک عرصہ سے جدوجہدکررہے تھے اورجن پرمظالم کی انتہاہوچکی تھی مگروہ صبر و شکر کے کوہ گراں بن کراپنے موقف پرجمے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی ایسا معجزہ ہوجائے کہ سارے کفارو مشرکین دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں ،چنانچہ بتایا گیا کہ یہ طریقہ ہماری سنت کے خلاف ہے ،ان مشرکین کوسمجھانے کے لئے قبروں سے مردے بھی نکل آئیں اورانہیں دعوت دین دیں توبھی یہ اپنے بغض اورہٹ دھرمی کے باعث دعوت اسلام قبول نہیں کریں گے اوراس واقعہ کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرڈالیں گے اورپھرمسلمانوں کوغیبی امداد کی تسلی بھی دی گئی،اہل تقوی ٰ اورحقیقی عقل مندوں کی آٹھ صفات بتائی گئی ہیں یہ کہ وہ عہدشکنی کے بجائے اللہ کے عہدکوپوراکرتے ہیں ،جن رشتوں کواللہ نے جوڑنے کاحکم فرمایاہے انہیں توڑتے نہیں ہیں ،اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں ، برے حساب سے خوف رکھتے ہیں ،اللہ کی رضاکے لیے صبروشکرکرتے ہیں ،نمازقائم کرتے ہیں ،اللہ کے عطاکیے ہوئے مال میں سے خفیہ اورعلانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں اور برائی کاجواب بھلائی اوراچھائی سے دیتے ہیں اورکفارومشرکین کی تین نمایاں علامات بتائی گئیں کہ وہ اللہ کے عہدکوتوڑتے ہیں ،اللہ نے جن رشتوں کوباقی رکھنے کاحکم دیاہے انہیں ختم کرتے ہیں اوراللہ کی زمین میں فسادپھیلاتے ہیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

 الٓـمٓـرٰ ۚ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١﴾‏ اللَّهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ یَجْرِی لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ یُدَبِّرُ الْأَمْرَ یُفَصِّلُ الْآیَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَهُوَ الَّذِی مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ۖ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٣﴾(الرعد)
’’ال م ر، یہ قرآن کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہےسب حق ہےلیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے،اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے، ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے ، وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وہ اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو،اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں، اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیئے ہیں، وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے،یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘

ال م ر،یہ کتاب الٰہی کی پاکیزہ آیات ہیں اورجوکلام تمہارے رب کی طرف سے تم پرنازل کیاگیاہے وہ عین حق ہے،جس میں یہی دعوت ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کائنات کاخالق، مالک اوررزاق ہے،اس لئے اس کے سوا کوئی عبادت کامستحق نہیں ہے ،اورمرنے کے بعدلوگوں کواعمال کی جوابدہی کے لئے دوبارہ زندہ کیاجائے گااوران کے اعمال کے مطابق جزاوسزادی جائے گی ،اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوکلام پیش کررہے ہیں وہ ان کااپناتصنیف کردہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے منزل کردہ ہے مگر واضح دلائل وبراہین کے باوجودتمہاری قوم کے اکثرلوگ محض ہٹ دھرمی سے اس پرایمان نہیں لا رہے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳ [1]

ترجمہ:مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں ۔

اللہ نے اپنی وحدانیت کی دلیل میں اپنے کمال قدرت کی پہلی نشانی بیان فرمائی کہ اس نے بلندوبالاسات آسمانوں کوبغیر ستونوں کے قائم کر رکھاہے ،جیسے فرمایا

اَللهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۔۔۔۝۱۲ۧ [2]

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اورزمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔وَیُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔ ۝۶۵ [3]

ترجمہ:اوروہی آسمان کواس طرح تھامے ہوئے ہےکہ اس کے اذن کے بغیروہ زمین پر نہیں گرسکتا۔

آسمانوں اورزمین کی تخلیق کے بعدپھروہ عرش عظیم پر اپنے جلال کے لائق تخت سلطنت پرجلوہ فرما ہوا،تخت کیاہے اوروہ کیسے اس پرجلوہ فرماہوااس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی ،اورنہ اسے کسی چیزکے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے ،دوسری نشانی میں ساتوں سیاروں میں سے دوعظیم الشان اورروشن سیاروں کا ذکرفرمایاکہ اللہ نے آفتاب وماہتاب کوایک قانون کاپابندبنایاہواہے،اورکائنات کی ہر چیز کا نظم ایک وقت مقررتک کے لئے ہے ، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِهٖ۔۔۔۝۰۝۵۴ [4]

ترجمہ:جس نے سورج اور چاند اور تارے پیداکیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا:

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭوَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹ [5]

ترجمہ: اورسورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہاہے ،یہ زبردست علیم ہستی کا باندھاہواحساب ہے،اورچانداس کے لئے ہم نے منزلیں مقررکردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہواوہ پھرکھجورکی سوکھی شاخ کے مانندرہ جاتاہے۔

اوراللہ ہی اپنے تخت سلطنت پرجلوہ افروزہوکر عالم علوی اورعالم سفلی کی تدبیرفرمارہاہے،وہ اپنی نشانیاں کھول کھول کربیان کرتاہے شایدکہ تم حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاوسزا پرایمان لے آؤ،تیسری نشانی بیان فرمائی کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کو طول وعرض میں پھیلایا۔

قُلْ ہُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [6]

ترجمہ:ان سے کہو! اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

وَاِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ۝۲۰۪ [7]

ترجمہ:اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی ؟۔

اوراس کے اندربندوں کے لئے فوائدومصالح ودیعت کررکھے ہیں اورزمین کوایک طرف ڈھلک جانے سے روکنے کے لئے اس میں بلندوبالارنگ برنگے پہاڑوں کومیخوں کی طرح گاڑ رکھا ہے ،چوتھی نشانی بیان فرمائی کہ اللہ ہی نے اپنی حکمت سے نہروں ،بڑے بڑے دریاؤں اور چشموں کانظام قائم کررکھا ہیں ،جس سے تم خود اوراپنی کھیتیوں کوسیراب کرتے ہو،پانچویں نشانی بیان فرمائی کہ اللہ ہی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں جن کی شکلیں ، ذائقے اور خوشبو مختلف ہیں ،چھٹی نشانی بیان فرمائی کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کے فائدے کی خاطردن پررات او ررات پردن طاری کرتاہے ،اور یہ ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں ، جیسے فرمایا

وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۷۳ [8]

ترجمہ: یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اوردن بنائے تاکہ تم (رات میں )سکون حاصل کرواور(دن کو)اپنے رب کافضل تلاش کرو، شاید کہ تم شکرگزاربنو۔

فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ان چند نیرنگیوں ، حکمتوں اور دلائل کودیکھ کر وہی سلیم الفطرت لوگ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جوغوروفکرسے کام لیتے ہیں ۔

‏ وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِی الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿٤﴾‏ ۞ وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِی أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٥﴾‏(الرعد)
’’ اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں، شاخ دار اور بعض ایسے ہیں جو بےشاخ ہیں سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں، پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں، اس میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، اگر تجھے تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ کہنا عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے ؟ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا، یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی ہیں جو جہنم کے رہنے والے ہیں ،جو اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘

اوریہ بھی اللہ کی قدرت کی نشانی ہے کہ زمین یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں الگ الگ بے شمار خطے پائے جاتے ہیں جوایک دوسرے سے متصل واقع ہیں مگرایک حصہ سرسبز و شاداب ہے اورخوب پیداواردیتاہے ،اورایک حصہ شورزدہ یاریتلایاپتھریلاہے جس میں کسی قسم کی کوئی پیداوارنہیں ہوتی ،اور انگورکے باغ ہیں ،انواع واقسام کی کھیتیاں ہیں ،کھجورکے بلندوبالا درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے نکلتے ہیں اوربعض کی ایک جڑسے دویازیادہ تنے نکلتے ہیں ،ان سب چیزوں کوبارش کاایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگرہم شکل وصورت ،ذائقہ ،خوشبو اورفوائدمیں کسی کوبہتربنادیتے ہیں اورکسی کوکمتر،قدرت کی ان نیرنگیوں میں ایک عقل سے بہرہ ورآدمی کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ، اب اگرتمہیں تعجب کرناہے توکفارکے اس قول پرتعجب کرو جنہوں نے اللہ اوراس کی قدرتوں وحکمتوں سے انکارکیاہے ،جواپنے زعم باطل میں آخرت کاانکارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم مرکرمٹی ہوجائیں گے توکیاہم نئے سرے سے پیداکیے جائیں گے؟یعنی وہ اللہ کواس کام سے عاجزتصورکرتے ہیں ،حالانکہ جس ہستی نے انہیں پہلی بار پیداکردیاہے اس کے لئے دوبارہ پیداکردیناکیامشکل کام ہے ،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳

ترجمہ:اورکیاان لوگوں کویہ سجھائی نہیں دیتاکہ جس خدانے یہ زمین اورآسمان پیداکیے اوران کوبناتے ہوئے وہ نہ تھکاوہ ضروراس پرقادر ہے کہ مردوں کوجلااٹھائے ،کیوں نہیں یقیناًوہ ہرچیزکی قدرت رکھتاہے ۔

یہی لوگ جنہوں نے اللہ کی وحدانیت ، قیامت، حیات بعدالموت اور جزا و سزاکوجھٹلایاہے دراصل،اپنی جہالت ،ہٹ دھرمی،تعصبات ،آباؤاجدادکی اندھی تقلید اوراپنی خواہشات نفس کے غلام بنے ہوئے ہیں ،انہی عقائدکے حامل لوگ جہنمی ہیں اورہمیشہ عذاب جہنم میں مبتلا رہیں گے۔

وَیَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٦﴾‏ وَیَقُولُ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ‎﴿٧﴾(الرعد)
’’اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر، اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے،اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں اتاری گئی، بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ہادی ہے ۔‘‘

قوم نو ح ،قوم عاداورقوم ثمودنے اللہ مالک الملک کی گرفت سے بے خوف ہوکرمطالبہ عذاب کیااوربالآخرعذاب کی لپیٹ میں آکرعبرت کانشان بن گئے ،اسی طرح مشرکین مکہ بھی پچھلی تباہ شدہ اقوام کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے تھے کہ اگرتم سچے ہوتولے آؤوہ عذاب جس سے تم ہمیں دھمکاتے اورڈراتے رہتے ہو ،جیسے فرمایا:

وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [9]

ترجمہ: اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔

کبھی چیلنج کے انداز میں کہتے ۔

 وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ۝۱۶ [10]

ترجمہ: اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں جلدی سے دے دے۔

وَیَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۝۰ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَہُمُ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَلَیَاْتِیَنَّہُمْ بَغْتَةً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ۝۵۳یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۝۰ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ۝۵۴ۙ [11]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اگر ایک وقت مقرر نہ کر دیا گیا ہوتا تو ان پر عذاب آچکا ہوتا اور یقینا ً(اپنے وقت پر ) وہ آکر رہے گا اچانک اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہوگی،یہ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ جہنم ان کافروں کو گھیرے میں لے چکی ہے۔

سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ۝۱ۙ [12]

ترجمہ:مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے۔

ان کے جواب میں فرمایا یہ مکذبین بھلائی سے پہلے اللہ کے عذاب کے لئے جلدی مچارہے ہیں ،حالانکہ ان سے پہلے جوقومیں اس روش پرچلی ہیں اورجنہوں نے مطالبہ عذاب کیاتھا ان قوموں اوربستیوں پراللہ کے عذاب کی عبرت ناک مثالیں بیان کی جاچکی ہیں مگریہ ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے حقیقت یہ ہے کہ تیرارب لوگوں کے ظلم ومعصیت کے باوجودان پرعذاب۳ نازل کرنے میں جلدی کرنے کے بجائے عفوودرگزرسے کام لیتاہے ،جیسے فرمایا:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [13]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)کہہ دوکہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پرزیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ،یقیناًاللہ سارے گناہ معاف کردیتاہے وہ تو غفورورحیم ہے۔

اور بندوں کو سوچنے ،سمجھنے اور سنبھلنے کے لئے مہلت دیتاہے،اگروہ فوراًہی مواخذہ شروع کردیتاتوروئے زمین پرایک متنفس بھی باقی نہ رہتا ،جیسے فرمایا

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۴۵ [14]

ترجمہ:اگرکہیں وہ لوگوں کوان کے کیے کرتوتوں پرپکڑتاتوزمین پرکسی متنفس کوجیتانہ چھوڑتامگروہ انہیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے مہلت دے رہاہے ۔

اوریہ بھی حقیقت ہے کہ تیرارب سخت سزادینے والاہے،جیسے فرمایا:

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ۝۰ۚ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۝۱۴۷ [15]

ترجمہ:اب اگروہ تمہیں جھٹلائیں توان سے کہہ دوکہ تمہارے رب کادامن رحمت وسیع ہے اورمجرموں سے اس کے عذاب کوپھیرانہیں جاسکتا۔

۔۔۔اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ۝۰ۚۖ وَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۶۷ [16]

ترجمہ:یقیناًتمہارارب سزادینے میں تیزدست ہے اوریقیناًوہ درگزراوررحم سے بھی کام لینے والاہے۔

نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۴۹ۙوَاَنَّ عَذَابِیْ هُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ۝۵۰ [17]

ترجمہ:اے نبی!میرے بندوں کوخبردے دوکہ میں بہت درگزرکرنے والااوررحیم ہوں مگراس کے ساتھ میراعذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔

یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق قبول کرنے سے انکارکردیاہے ازروئے اعتراض کہتے ہیں کہ جس طرح اگلے پیغمبروں کواپنی رسالت کی صداقت میں معجزات ملے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت کی صداقت کے لئے ہماری خواہشات کے مطابق کوئی معجزہ کیوں نہیں ملا ؟اللہ تعالیٰ نے ان کے لایعنی سوال کامختصرجواب فرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم تو محض غفلت میں ڈوبے لوگوں کومتنبہ کردینے والے ہو،تمہارے ذمہ صرف دعوت حق پہنچادیناہی ہے ،اب اس دعوت کوکوئی تسلیم کرے یاانکارکردے تمہارااس سے کوئی واسطہ نہیں ہے ،جیسے فرمایا:

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۲۷۲ [18]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمّے داری تم پر نہیں ہے ،ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔

اِنَّكَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۵۶ [19]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ہردورمیں ہرقوم کی ہدایت ورہنمائی کے لئے دلائل وبراہین کے ساتھ ایک ہادی ضروربھیجاہے مگر ہرقوم نے اپنے پیغمبرکی تکذیب ہی کی ہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ [20]

ترجمہ:اورکوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والانہ آیاہو۔

اللَّهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَیْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ‎﴿٨﴾‏ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِیرُ الْمُتَعَالِ ‎﴿٩﴾‏ سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ‎﴿١٠﴾‏ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ یَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ ‎﴿١١﴾‏(الرعد)
’’ مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی، ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے، ظاہر و پوشیدہ کا وہ عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وبالا، تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر و یکساں ہے،اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں، کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ بدلہ نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں۔‘‘

علم الٰہی :

اللہ تعالیٰ کے علم نے کائنات کی ہرچیزکااحاطہ کررکھاہے۔

 اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۝۰ۭ یَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۰ۥۙ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [21]

ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھیا انہی کے مانند،ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔

چنانچہ وہ ایک ایک حاملہ چاہئے وہ حیوان ہوں یاانسان ،پرندے ہوں یاکوئی اورمخلوق سب کے پیٹ سے کہ اس میں نرہے یامادہ ،خوب صورت ہے یا بدصورت ،نیک ہے یابد،طویل العمرہے یاقصیرالعمر واقف ہے، جیسے فرمایا:

 ۔۔۔وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَام۔۔۔۝۳۴ۧ [22]

ترجمہ:وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے۔

۔۔۔هُوَاَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ۔۔۔۝۳۲ۧ [23]

ترجمہ:وہ تمہیں اس وقت سے خوب جانتاہے جب اس نے زمین سے تمہیں پیداکیااورجب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے۔

 ۔۔۔یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۔۔۔۝۰۝۶ [24]

ترجمہ:وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندرتمہیں ایک کے بعدایک شکل دیتا چلاجاتاہے۔

ایک مقام پر فرمایا:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۝۱۲ۚثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۝۱۳۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۝۱۴ۭ [25]

ترجمہ:ہم نے انسان کومٹی کے ست سے بنایا،پھراسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوندمیں تبدیل کیاپھراس بوندکولوتھڑے کی شکل دی پھرلوتھڑے کوبوٹی بنادیاپھربوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھرہڈیوں پرگوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ،حَدَّثَنَارَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ،إِنَّ أَحَدَكُمْ یُجْمَعُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِینَ یَوْمًاثُمَّ یَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ  ثُمَّ یَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّهُ إِلَیْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ  فَیُكْتَبُ عَمَلُهُ، وَأَجَلُهُ، وَرِزْقُهُ، وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ الرُّوحُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے پھروہ اتنے ہی دنوں تک علقہ یعنی غلیظ اورجامدخون کی صورت میں رہتاہےپھراتنے ہی دنوں کے لئے مضغہ یعنی گوشت کالوتھڑاکی شکل اختیارکرلیتاہےپھر(چوتھے چلہ میں )اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کوچارباتوں کاحکم دے کربھیجتاہے پس وہ فرشتہ اس کے عمل ،اس کی مدت زندگی ،روزی اوریہ کہ وہ نیک ہے یابدکولکھ لیتاہے اس کے بعداس میں روح پھونکی جاتی ہے۔[26]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَكَّلَ اللَّهُ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ نُطْفَةٌ، أَیْ رَبِّ عَلَقَةٌ، أَیْ رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقَهَا، قَالَ: أَیْ رَبِّ، أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، أَشَقِیٌّ أَمْ سَعِیدٌ، فَمَا الرِّزْقُ، فَمَا الأَجَلُ، فَیُكْتَبُ كَذَلِكَ فِی بَطْنِ أُمِّهِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، فرمایااللہ تعالیٰ نے رحم مادرپرایک فرشتہ مقررکردیاہےاوروہ کہتارہتاہے اے رب!یہ نطفہ قرارپایاہے،اے رب!اب علقہ یعنی جماہواخون بن گیاہے، اے رب!ان مضغہ یعنی گوشت کالوتھڑابن گیاہے،پھرجب اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے توفرشتہ پوچھتاہے اے میرے رب!یہ مذکرہے یامونث ؟ یہ بدبخت ہے یاخوش بخت ؟اس کارزق کتناہے ،اس کی عمرکتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ان سوالوں کے جواب عطا فرما دیتاہے اورفرشتہ انہیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ لیتاہے۔[27]

اوررحم مادرمیں بچے کے اعضائ،اس کی قوتوں ،قابلیتوں اورصلاحیتوں وغیرہ میں جوکمی بیشی ہوتی ہے اور حمل کی مدت کے گھٹنے بڑھنے کی سب باتوں سے وہ باخبر رہتا ہے، ہرچیزکے لئے اس کے ہاں ایک مقدارمقررہےکہ اس کی عمرکیاہوگی ،اس ،رزق کتناملے گااس سے کوئی چیز آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے مگرجس کاتقاضااس کی حکمت اورعلم کرے ،

أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَرْسَلَتِ ابْنَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِ إِنَّ ابْنًا لِی قُبِضَ، فَأْتِنَا، فَأَرْسَلَ یُقْرِئُ السَّلاَمَ، وَیَقُولُ:إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَیْهِ تُقْسِمُ عَلَیْهِ لَیَأْتِیَنَّهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِیُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ – قَالَ: حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنٌّ – فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا؟ فَقَالَ:هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِی قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا )نے آپ ،اطلاع کرائی کہ میرابچہ آخری حالت میں ہےاس لئےآپ تشریف لائیں  آ ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایااور فرمایاجاؤان سے کہہ دوکہ اللہ تعالیٰ ہی کاسارامال ہے جولے لیاوہ اسی کاتھااورجواس نے دیاوہ بھی اسی کاتھااور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پرہی واقع ہوتی ہے ،اس لئے صبرکرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امیدرکھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے پھر آپ کے پاس آدمی قسم دیتے ہوئے بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں ، تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کچھ لوگ تھے وہ لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اس کی سانس اکھڑ رہی تھی راوی کا گمان ہے کہ گویا وہ ایک مشک تھی پس آپ کی دونوں آنکھیں بہنے لگیں ،سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے بندوں پر ہی رحم کرتے ہیں ۔[28]

وہ پوشیدہ اورظاہرہرچیزکاعالم ہے۔

وَاِنْ تَجْــہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی۝۷ [29]

ترجمہ:تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی بات بھی جانتا ہے۔

۔۔۔وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۲۵ [30]

ترجمہ:اور سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو ۔

وہ بزرگ ہے اورہرحال میں بالاتررہنے والاہے،تم میں سے کوئی شخص خواہ زورسے بات کرے یاآہستہ اورکوئی رات کی تاریکی میں چھپاہواہویادن کی روشنی میں چل رہاہواس کے لئے سب یکساں ہیں ،اس کاعلم تمام مخلوق کوگھیرے ہوئے ہے ،جیسے فرمایا

 اَلَاحِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ۝۰ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۵ [31]

ترجمہ:خبردار ! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں ۔

۔۔۔وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶۱ [32]

ترجمہ:کوئی ذرہ برابرچیزآسمان اورزمین میں ایسی نہیں ہے ،نہ چھوٹی نہ بڑی جوتیرے رب کی نظرسے پوشیدہ ہواورایک صاف دفترمیں درج نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ ہرشخص کوہرحال میں براہ راست خوددیکھ رہاہے اوراس کی تمام حرکات وسکنات سے واقف ہے ،بلکہ مزیدبرآں ہرشخص کے ساتھ اللہ کے مقررکیے ہوئے فرشتے بھی لگے ہوئے ہیں جوشب وروز باری باری پے درپے آکراللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال اوراس کانامہ اعمال مرتب کررہے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتَعَاقَبُونَ فِیكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّیْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فِیكُمْ، فَیَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَیْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِی؟ فَیَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ، وَأَتَیْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں فرشتے پے درپے آتے جاتے رہتے ہیں ،رات کے اوردن کے،ان کامیل صبح اورعصرکی نمازمیں ہوتاہےرات گزارنے والے آسمان پرچڑھ جاتے ہیں باوجودعلم کے اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتاہے کہ تم نے میرے بندوں کوکس حالت میں چھوڑا؟وہ جواب دیتے ہیں جب ہم گئے توانہیں نمازمیں پایااورآئے تو نمازمیں چھوڑکرآئے۔[33]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِینُهُ مِنَ الْجِنِّ، وَقَرِینُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ قَالُوا: وَإِیَّاكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:وَإِیَّایَ، إِلَّا أَنَّ اللهَ أَعَانَنِی عَلَیْهِ فَأَسْلَمَ، فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فرمایاتم میں سے ہرایک کے ساتھ اس کاایک جنوں میں سے ساتھی مقررکیاگیاہےاورایک فرشتوں میں سے،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے ساتھ بھی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاہاں میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی خلاف میری مددفرمائی ہے اوروہ مطیع ہوگیاہے جس کی وجہ سے وہ مجھے خیروبھلائی کاحکم دیتا ہے ۔[34]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کونہیں بدلتا جب تک وہ خوداپنے اوصاف کونہیں بدل دیتی، ہرفرد،معاشرہ اورقوم بہترحالات کی امیدوارہے اورتمام امیر اور غریب اپنے اپنے حالات بدلنے کے لیے حریص ہیں لیکن پھربھی اکثراپنی خواہشات دل ہی دل میں لے کرختم ہوجاتے ہیں ،قرآن حکیم واضح کرتاہے کہ اگرآپ حالات کی اصلاح چاہتے ہیں توپہلے لوگوں کوقلوب کی حالت کوتبدیل کرناہوگااس لیے کہ قلوب ذہن کوکنٹرول کرتے ہیں ،ذہن اجسام کواوراجسام مادی ذرائع کو ، اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کافیصلہ کرلے توپھروہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی،نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کاکوئی بزرگ،جن یافرشتہ حامی ومددگارہوسکتاہے۔

هُوَ الَّذِی یُرِیكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ‎﴿١٢﴾‏ وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِیفَتِهِ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیبُ بِهَا مَن یَشَاءُ وَهُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّهِ وَهُوَ شَدِیدُ الْمِحَالِ ‎﴿١٣﴾‏(الرعد)
’’وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک ڈرانے اور امید دلانے کے لیے دکھاتا ہے اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے ،گرج اس کی تسبیح و تعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے، وہی آسمان سے بجلیاں گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے، کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں اور اللہ سخت قوت والا ہے ۔‘‘

بجلی کی گرج چمک :

وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جوتمہارے سامنے بجلیاں کڑکاتااور چمکاتاہے، جن کی خوفناک کڑک اورآنکھیں خیرہ کردینے والی چمک دیکھ کر مسافر اپنی ایذااورمشقت کے خوف سے گھبراتاہے،جن کی ہیبت ناک کڑک کی وجہ سے عمارتوں کے منہدم ہونے اورباغات کے پھلوں پرمختلف اقسام کے ضرررساں اثرات کا اندیشہ ہوتا ہے ،اس کے ساتھ کسان اورکاشت کاراس کی برکت ومنفعت کی امیدبھی رکھتے ہیں ،اوروہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جواپنی قدرت کاملہ سے پانی سے بوجھل بادل اٹھاتا ہے اورجہاں چاہتاہے بارش برساتاہے ،بادلوں کی گرج اس کی تسبیح وتعریف بیان کرتی ہے اورفرشتے جن کوتم اللہ کی بیٹیاں سمجھتے ہواورمعبودجان کران کی پرستش کرتے ہو وہ ہر لمحہ اللہ کی عظمت وجلال اورسطوت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ،جیسے فرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۔۔۔۝۰۝۴۴ [35]

ترجمہ:اس کی پاکی توساتوں آسمان اورزمین اوروہ ساری چیزیں بیان کررہی ہیں جوآسمان و زمین میں ہیں ،کوئی چیزایسی نہیں جواس کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہومگرتم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔

وَلِلهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۴۹یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۵۰ۧ۞ [36]

ترجمہ:زمین اورآسمانوں میں جس قدرجان دارمخلوقات ہیں اورجتنے ملائکہ ،سب اللہ کے آگے سربسجودہیں وہ ہرگزسرکشی نہیں کرتے ،اپنے رب سے جوان کے اوپرہے ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیاجاتاہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔

إِبْرَاهِیمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِی أَبِی، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا إِلَى جَنْبِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِی الْمَسْجِدِ، فَمَرَّ شَیْخٌ جَمِیلٌ مِنْ بَنِی غِفَارٍ وَفِی أُذُنَیْهِ صَمَمٌ، أَوْ قَالَ: وَقْرٌ، أَرْسَلَ إِلَیْهِ حُمَیْدٌ، فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ: یَا ابْنَ أَخِی، أَوْسِعْ لَهُ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَكَ، فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَهُ، فَقَالَ لَهُ حُمَیْدٌ: حَدِّثْنِی بالْحَدِیثِ الَّذِی حَدَّثْتَنِی عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الشَّیْخُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ یُنْشِئُ السَّحَابَ، فَیَنْطِقُ أَحْسَنَ الْمَنْطِقِ، وَیَضْحَكُ أَحْسَنَ الضَّحِكِ

ابراہیم بن سعد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ میں مسجد میں حمید بن عبدالرحمن کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ بنو غفار کے ایک خوبصورت بزرگ گذرے ان کے کان کچھ اونچا سنتے تھے حمید نے ایک آدمی ، ان کے پاس بھیج کر انہیں بلایا جب وہ آئے تو حمید نے مجھ سے کہا کہ بھتیجے! ذرا تھوڑی سی جگہ دے دو کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں چنانچہ وہ آکر میرے اور حمید کے درمیان بیٹھ گئے، حمید نے ان سے عرض کیا کہ وہ حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھ سے بیان کی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ بادل پیداکرتاہے جوشائستہ اندازمیں گفتگوکرتاہے اوربہت احسن اندازمیں ہنستا ہے۔[37]

عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِیمَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یُنْشِئُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّحَابَ، فَتَنْطِقُ أَحْسَنَ النُّطْقِ، وَتَضْحَكُ أَحْسَنَ الضَّحِكِ

سعدبن ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،فرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ عزوجل بارش کوبھیجتاہے اس سے زیادہ شائستہ گفتگوکرنے والی کوئی اورچیزہوتی ہے اورنہ اس سے زیادہ اچھے اندازمیں ہنسنے والی اورکوئی چیزنہیں ہوتی،اس کاہنسنابجلی اوراس کی گفتگوکڑک ہے۔[38]

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ، وَالصَّوَاعِقَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ، وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ، وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رعداورکڑک کی آوازسنتے تویہ دعاپڑھتے تھے اے اللہ!ہمیں اپ، غضب کے ساتھ قتل نہ کرنا اوراپنے عذاب کے ساتھ ہلاک نہ کرنااورہمیں اس سے پہلے عافیت عطافرمادینا۔[39]

قال الشیخ الألبانی : ضعیف۔

اوریہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور بسا اوقات انہیں جس پرچاہتاہے عین اس حالت میں گراکرہلاک کردیتاہے جبکہ لوگ اللہ کی عظمت وتوحید کے بارے میں جھگڑرہے ہوتے ہیں ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَكْثُرُ الصَّوَاعِقُ عِنْدَ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ، حَتَّى یَأْتِیَ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فَیَقُولُ: مَنْ صُعِقَ تِلْكُمُ الْغَدَاةَ؟ فَیَقُولُونَ صعِق فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فرمایاقیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آکرپوچھے گاکہ صبح کس پربجلی گری؟ وہ کہیں گے فلاں فلاں پر۔[40]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ تَرَكَ الْحَدِیثَ وَقَالَ: سُبْحَانَ الَّذِی {یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِیفَتِهِ} [41] ، ثُمَّ یَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَوَعِیدٌ شَدِیدٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ

اورعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کڑک کی آوازسنتے توگفتگوترک کر دیتےاوریہ پڑھناشروع کر دیتے ’’پاک ہے وہ ذات کہ رعدکے فرشتے سب جس کے خوف سے ،کی تسبیح وتحمیدکرتے رہتے ہیں ۔‘‘ آپ فرماتے کہ یہ گرج اورکڑک درحقیقت اہل زمین کے لیے ایک شدیدوعیدہے۔[42]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ: لَوْ أَنَّ عِبَادِی أَطَاعُونِی، لَأَسْقَیْتُهُمُ الْمَطَرَ بِاللَّیْلِ، وَأَطْلَعْتُ عَلَیْهِمُ الشَّمْسَ بِالنَّهَارِ، وَلَمَا أَسْمَعْتُهُمْ صَوْتَ الرَّعْدِ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے پروردگارعزوجل نے فرمایاہے اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تورات ،میں انہیں بارش کاپانی پلاؤں اوردن کوشورج طلوع کردوں اورانہیں کڑک کی آوازبھی نہ سناؤں ۔[43]

فی الواقع وہ بڑی قوت والا،نہایت مواخذہ کرنے والااورنظم عالم کی تدبیرکرنے والاہے،جب اللہ وحدہ لاشریک ہی بندوں کی منفعت کے لئے پانی سے بوجھل بادل اٹھاتا اوربارش برساتا ہے، جوکائنات کے تمام امورکی تدبیرکرتاہے ،جس کی عظمت وجلال اورسطوت سے کائنات کی بڑی سے بڑی مخلوق نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے سرافگندہ ہےتو عبادت کامستحق بھی وہی ہے جس کا،ئی شریک نہیں  ۔

لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا یَسْتَجِیبُونَ لَهُم بِشَیْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ إِلَى الْمَاءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِینَ إِلَّا فِی ضَلَالٍ ‎﴿١٤﴾‏ وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩ ‎﴿١٥﴾(الرعد)
’’اسی کو پکارنا حق ہے، جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑجائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے، اللہ ہی کے لیے زمین اور آسمانوں کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجدہ کرتی ہے، اور ان کے سائے بھی صبح شام۔‘‘

اپنی حاجتوں اورمشکلات ومصائب میں خوف اورطمع کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کوپکارنااورامیدرکھناہی برحق ہے کیونکہ حاجت روائی اورمشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں اور وہی اپنے بندوں کی پکارکوچاہے وہ اونچی آوازسے پکارے یاسرگوشی میں سنتااورقبول فرماتاہے ،رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں یہ لوگ اپنے خالق،مالک ، رازق اورمشکل کشا کوچھوڑکرپرستش کرتے اوراپنی مشکلات ومصائب میں پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کو سن سکتی ہیں اورنہ کوئی جواب دے سکتیں ہیں ، انہیں پکارنا ایسا احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلاکراس سے درخواست کرے کہ تومیرے منہ تک پہنچ جامگر قیامت تک پانی اس کے منہ میں نہیں پہنچ سکتا،

عَنْ عَلِیٍّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فِی قَوْلِهِ: {إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ إِلَى الْمَاءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ} قَالَ:كَالرَّجُلِ الْعَطْشَانِ ، یَمُدُّ یَدَهُ إِلَى الْبِئْرِ لِیَرْتَفِعَ الْمَاءُ إِلَیْهِ،وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ آیت کریمہ ’’مگرجیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہوکہ اس کے منہ میں پڑجائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والانہیں ہے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جواپنے ہاتھ سے کنوئیں کے کنارے سے پانی لیناچاہے حالانکہ وہ اپنے ہاتھ سے کبھی پانی حاصل نہیں کرسکتاجب پانی حاصل نہیں کرسکتاتووہ اس کے منہ تک کیسے پہنچ سکتا ہے ۔[44]

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلُهُ: {كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ إِلَى الْمَاءِ}یَدْعُو الْمَاءَ بِلِسَانِهِ، وَیُشِیرُ إِلَیْهِ بِیَدِهِ، وَلَا یَأْتِیهِ أَبَدًا

اورمجاہداس آیت کریمہ ’’اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی زبان سے پانی کوپکارے اوراس کی طرف اشارہ کرے تووہ اس کے پاس کبھی نہیں آسکتا۔[45]

اسی طرح کفارومشرکین جواللہ کے ساتھ خودساختہ معبودوں کوپکارتے ہیں ،یہ معبودان کوکوئی جواب دے سکتے ہیں نہ ان کی حاجت کے شدیدترین اوقات میں ان کوکچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ وہ خوداسی طرح محتاج ہیں جس طرح ان کوپکارنے والے محتاج ہیں ،وہ زمین وآسمان میں ذرہ بھرکسی چیزکے مالک نہیں ،نہ وہ ان میں شریک ہیں اورنہ ان میں کوئی اللہ کامددگارہے ،جیسے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّةَ حَتّٰی یَـلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ۔۔۔۝۴۰ [46]

ترجمہ:یقین جانوجن لوگوں نے ہماری آیات کوجھٹلایاہے اوران کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہرگزنہ کھولے جائیں گے ،ان کاجنت میں جانااتناہی ناممکن ہے جتناسوئی کے ناکے سے اونٹ کاگزرنا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت وسلطنت کاذکرفرمایااور یہ اللہ کی عظمت وسطوت ہی ہے کہ زمین وآسمان کی ہرمخلوق طوعا ًوکرہااس کے حضور سجدہ ریز ہے ، اورسب اشیاء کے سائے صبح وشام مغرب اورمشرق کی طرف اس کے آگے جھکتے ہیں ،جیسے فرمایا:

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ۝۴۸ [47]

ترجمہ:اورکیایہ لوگ اللہ کی پیداکی ہوئی کسی چیزکوبھی نہیں دیکھتے کہ اس کاسایہ کس طرح اللہ کے حضورسجدہ کرتے ہوئے دائیں اوربائیں گرتاہے ؟سب کے سب اس طرح اظہارعجزکررہے ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَكَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَمَنْ یُّهِنِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یَشَاۗءُ۝۱۸ۭ۞ [48]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے ، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [49]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں جو ان میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو،حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور در گزر کرنے والا ہے۔

یعنی کائنات کی ہرمخلوق خواہ وہ پتھرہوں یامٹی کے ذرات ،زمین وآسمان جیسے بڑے بڑے اجسام ہوں ،حیوان ہوں یانباتات،مادی ہویاغیرمادی اپنے خالق کوپہچانتی ہے،اپنے مالک کی حقیقت کا شعوررکھتی ہے اوراس پہچان اورادراک کے اظہارکے طورپراپنے خالق کی تسبیح اورتحمیدوتقدیس میں مشغول رہتی ہےاور اس کی عظمت کے گن گاتی ہے،اپنے مالک کی اطاعت اوراس کے قوانین کی اتباع پرخوشی یاناخوشی سبھی مجبورہیں ،ہرچھوٹی بڑی چیزاس کے امرکی پابندہے جواللہ نے اس کے لیے متعین کردیا ہے البتہ انسانوں کا معاملہ مختلف ہے اسے اختیارکی دولت بھی عطافرمائی گئی ہے۔جس طرح ہرچیزاللہ تعالیٰ حمدوستائش میں رطب اللسان ہے اس طرح وہ اپنے مالک سے خوف بھی کھاتی ہے جیسے فرمایا

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً۝۰ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْـیَةِ اللهِ۝۰ۭ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۷۴ [50]

ترجمہ:مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے ، پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے ، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی اللہ کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔

وَیُسَبِّــحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ۝۰ۚ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَاۗءُ وَهُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللهِ۝۰ۚ وَهُوَشَدِیْدُ الْمِحَالِ۝۱۳ۭ [51]

ترجمہ:بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں ، فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے۔

قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِیَاءَ لَا یَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِیرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ‎﴿١٦﴾‏(الرعد)
’’ آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجئے ! اللہ، کہہ دیجئے ! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اورں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود بھی اپنی جان کے بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے، کہہ دیجئے کہ اندھا اور بینا برابر ہوسکتا ہے ؟ یا کیا اندھیریاں اور روشنی برابر ہوسکتی ہے؟ کیا جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو، کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے۔‘‘

کفارومشرکین کاعقیدہ تھا کہ اس عظیم الشان کائنات کاخالق ،مالک اورمدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے،مشرکین یہ تسلیم کرتے تھے کہ انہیں اللہ نے پیداکیاہے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ۔۔[52]

ترجمہ:اوراگرتم ان سے پوچھوکہ انہیں کس نے پیداکیاہے تویہ خودکہیں گے اللہ نے۔

مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کاخالق ومالک ہے۔

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۴سَیَقُوْلُوْنَ لِلهِ۔۔۔۝۰۝۸۵ [53]

ترجمہ:ان سے کہوبتاؤاگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ۔۔۔۝۰۝۳۸ [54]

ترجمہ:ان لوگوں سے اگرتم پوچھوکہ زمین اورآسمانوں کوکس نے پیداکیاہے تویہ خودکہیں گے کہ اللہ نے۔

مشرکین ساتوں آسمانوں اورعرش عظیم کامالک بھی اللہ ہی کومانتے تھے۔

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۝۸۶سَیَقُوْلُوْنَ لِلهِ۔۔۔۝۰۝۸۷ [55]

ترجمہ: ان سے پوچھوساتوں آسمانوں اورعرش عظیم کا مالک کون ہے ،یہ ضرورکہیں گے اللہ ۔

مشرکین یہ بھی مانتے تھے کہ اقتدارکامالک صرف اللہ ہی ہےجوجو زندہ کومردہ سے اور مردہ کوزندہ سے نکالتاہے ، جوپناہ دیتا ہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ،اسی نے انسان کی خدمت کے لئے جانور پیدا کیے ،پھرآسمان سے پانی برسا کر زمین کوہرا بھرا بھی  اللہ  ہی کرتاہے جس سے انسان اور جانور دونوں کھاتے ہیں ۔

قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّهُوَیُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸سَیَقُوْلُوْنَ لِلهِ ۔۔۔۝۸۹ [56]

ترجمہ:بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیزپراقتدارکس کا ہے ؟ اورکون ہے وہ جو پناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں  گے کہ یہ بات تواللہ ہی کیلئے ہے۔

مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ اس بڑی کائنات کامنتظم اللہ ہی ہے جوہرجاندارکواپنی رحمت سے رزق دینے والاہے اور اسی نے انسان کودیکھنے اورسننے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے ۔

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللهُ۔۔۔۝۰۝۳۱ [57]

ترجمہ :ان سے پوچھو کون تم کوآسمانوں اور زمین سے رزق دیتاہے ؟یہ سماعت اوربینائی کی قوتیں کس کے اختیارمیں ہیں ؟ کون بے جان میں سے جاندارکو اور جاندار میں سے بے جان کونکالتا ہے ؟ کون اس نظم عالم کی تدبیر کررہاہے ؟وہ ضرورکہیں گے کہ اللہ۔

مشرکین یہ بھی مانتے تھے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کاخالق اللہ ہی ہے اوران کے درمیان چاندوسورج دونوں (جس سے رات اور دن کانظام بنتاہے) بھی رب کے ہی حکم کے پابند ہیں ۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ ۔۔۔۝۶۱  [58]

ترجمہ:اگرتم ان سے پوچھوکہ زمین اور آسمانوں کوکس نے پیدا کیاہے اورچانداورسورج کو کس نے مسخرکررکھاہے توضرورکہیں گے کہ اللہ نے ۔

مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں سے بارش برسانے والی ذات ان کے معبودنہیں بلکہ صرف اللہ ہی ہے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللهُ ۔۔۔۝۶۳ۧ [59]

ترجمہ:اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کوجلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔

اس لئے انہیں توحید کی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان مشرکین سے پوچھوآسمان وزمین کارب اورمدبر کون ہے؟اگروہ اپنے موقف کی کمزوری محسوس کرکے چپ سادھ لیں تو کہواللہ ہی کائنات کاخالق اورمدبرہے،جواسماء وصفات میں کامل ،زندوں اورمردوں کامالک ہے ،پھران سے کہوکہ جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ اس عظیم الشان کائنات کارب اورمدبر اللہ ہے،جوتمام اختیارات کابلاشرکت غیرمالک ہے توتم ایسی قدرتوں وعظمتوں والے رب کو چھوڑکرغیراللہ کواپنا کارساز اور حاجت رواکیوں ٹھیراتے ہوجو خوداتنے بے بس اورلاچارہیں کہ اپنے لئے بھی کسی نفع ونقصان کااختیارنہیں رکھتے؟تووہ تمہیں کیانفع یانقصان پہنچاسکتے ہیں ،کہوکیاوہ شخص جو دل اورآنکھوں کااندھاہو،جسے کائنات میں ہرطرف بکھرے اللہ کی وحدانیت کے آثاروشواہدنظرنہیں آتے اوروہ شخص جو نور و ظلمت کافرق جان چکاہو، جس کادل توحیدکی بصیرت سے معمورہو ،جس کوکائنات کے ذرے ذرے میں اپنے رب کی کھلی نشانیاں نظرآتی ہوں اوراس کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی رکھتاہواور سیدھاراستہ دیکھ رہاہووہ کبھی برابرہواکرتے ہیں ؟ کیاتوحیدکی روشنی اور کفروشرک کی تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟یقیناًیہ برابرنہیں ہوسکتے ،تومشرکین نے کیا جان کر غیر اللہ کواپنے معبودحقیقی کی ذات ، صفات ،اختیارات اورحقوق میں شریک ٹھہرا لیاہے ، کیاان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح زمین وآسمان میں کچھ پیداکیاہے کہ اس کی وجہ سے ان پرتخلیق کامعاملہ مشتبہ ہو گیا ؟ یقیناًنہیں ،جب ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اللہ نے انہیں پیداکیاہے،اللہ ہی ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کاخالق ومالک ہے،وہی کائنات کا منتظم ومدبراورمتصرف ہے ، اللہ ہی بحروبرکی اپنی تمام مخلوقات کورزق بہم پہنچاتاہے،جوآسمان سے بارش برساتاہے،جوزندہ سے مردے کواورمردے سے زندہ کو نکالتا ہے ، یعنی ہرقدرت واختیاراللہ کے پاس ہے توان کے معبودوں نے جب کچھ پیدانہیں کیا،وہ تخلیق میں اللہ کے شریک بھی نہیں تھے،وہ کائنات کے مدبراورمتصرف بھی نہیں ہیں ،وہ رزق پہنچانے پر بھی قادر نہیں ہیں ،وہ بارش برساکرمردہ زمین کوبھی زندہ نہیں کرسکتے، تووہ معبودکیسے ہوسکتے ہیں ؟اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہو کائنات کی ہرچیزکاخالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتاہے ،سب پرغالب!

أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا ۚ وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ یَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ یَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ ‎﴿١٧﴾‏ لِلَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ‎﴿١٨﴾‏(الرعد)
’’ اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہ نکلے ،پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا،اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازو سامان کے لیے اسی طرح کی جھاگ ہیں ،اسی طرح اللہ تعالیٰ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے، اب جھاگ تو نکارہ ہو کر چلاجاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے، جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لیے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کی حکم برداری نہ کی اگر ان کے لیے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں، یہی ہیں جن کے لیے برا حساب ہے اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔‘‘

باطل بے ثبات ہے :

اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کے فرق ،حق کی پائیداری اورباطل کی بے ثباتی کی دومثالیں بیان فرمائیں ،پہلی مثال میں فرمایاکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے ہرطرف جل تھل ہوجاتی ہے اورہرندی ودریا اپنی وسعت کے مطابق پانی لے کربہنے لگتاہے،اس پانی کے ایک جگہ جمع ہونے سے سیلاب بن جاتاہے اورپانی کی مدوجزرسے سطح پرجھاگ اورخس وخاشاک آجاتاہے ،دوسری مثال میں ارشادفرمایاکہ ایسے ہی میل کچیل ان دھاتوں پربھی اٹھتے ہیں جنہیں زیوراوربرتن وغیرہ بنانے کے لئے لوگ پگھلایاکرتے ہیں ،اسی مثال سے اللہ حق اورباطل کے معاملے کوواضح کرتاہے ،جوجھاگ پانی پرہویادھاتوں پرہو وہ دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو جاتاہے، اورانسانوں کے لئے جوچیز نافع ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے،اسی طرح باطل کی مثال جھاگ ہی کی طرح ہے ،اور جب حق وباطل کاآپس میں اجتماع اورٹکراؤہوتاہے توباطل کواسی طرح ثبات اوردوام نہیں ہوتا،جیسے فرمایا:

۔۔۔اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۝۸۱ [60]

ترجمہ:باطل تومٹنے ہی والاہے۔

اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی دومثالیں بیان فرمائیں ۔

مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا۝۰ۚ فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَهٗ ذَھَبَ اللهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ۝۱۷صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ۝۱۸ۙ [61]

ترجمہ:ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اورجب اس نے سارے ماحول کوروشن کردیاتواللہ نے ان کانوربصارت سلب کرلیااورانہیں اس حال میں چھوڑدیاکہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظرنہیں آتایہ بہرے ہیں ،گونگے ہیں ،اندھے ہیں یہ اب نہ پلٹیں گے۔

دوسری مثال بیان فرمائی

 اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ۝۰ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاللهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ۝۱۹ [62]

ترجمہ:ان کی مثال یوں سمجھوکہ آسمان سے زورکی بارش ہورہی ہے اوراس کے ساتھ اندھیری گھٹااورکڑک اورچمک بھی ہے ،یہ بجلی کے کڑاکے سن کراپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اوراللہ ان منکرین حق کوہرطرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔

ایک مقام پر کافروں کی دومثالیں بیان فرمائیں ایک مثال سیراب کی بیان فرمائی

 وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍؚبِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَـیْــــًٔـا وَّوَجَدَ اللهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ۝۰ۭ وَاللهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۳۹ۙ [63]

ترجمہ:جنہوں نے کفرکیاان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسااس کوپانی سمجھے ہوئے تھامگرجب وہاں پہنچاتوکچھ نہ پایابلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا جس نے اس کاپوراپوراحساب چکادیااوراللہ کوحساب لیتے دیرنہیں لگتی۔

اوردوسری مثال سمندرکی تہہ کے اندھیروں کی بیان فرمائی

 اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ۝۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ۧ [64]

ترجمہ:یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل، تاریکی مسلّط ہے آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:ثُمَّ قَالَ:یُنَادِی مُنَادٍ: لِیَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا یَعْبُدُونَ، فَیَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِیبِ مَعَ صَلِیبِهِمْ، وَأَصْحَابُ الأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ، وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ، حَتَّى یَبْقَى مَنْ كَانَ یَعْبُدُ اللَّهَ، مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، ثُمَّ یُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ، فَیُقَالُ لِلْیَهُودِ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَیْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَیُقَالُ: كَذَبْتُمْ، لَمْ یَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلاَ وَلَدٌ، فَمَا تُرِیدُونَ؟ قَالُوا: نُرِیدُ أَنْ تَسْقِیَنَا، فَیُقَالُ: اشْرَبُوا، فَیَتَسَاقَطُونَ فِی جَهَنَّمَ،

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزقیامت ایک آوازدینے والاآوازدے گاکہ ہرقوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجاکیاکرتی تھی چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ اوربتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اورتمام جھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے اورصرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جوخالص اللہ کی عبادت کرنے والے تھےان میں نیک وبددونوں قسم کے مسلمان ہوں گے اوراہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے، پھردوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی وہ ایسی چمکدارہوگی جیسے میدان کاریت ہوتاہے(جودورسے پانی معلوم ہوتاہے)پھریہود سے پوچھاجائے گاکہ تم کس کی پوجاکرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم عزیرابن اللہ کی پوجاکیاکرتے تھے،انہیں جواب ملے گاکہ تم جھوٹے ہواللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اورنہ کوئی لڑکا،تم کیامانگتے ہو؟وہ کہیں گے ہم پانی پیناچاہتے ہیں ،ہمیں اس سے سیراب کیاجائے،ان سے کہاجائے گاکہ پیو ؟چنانچہ وہ اس چمکتی ریت کی طرف پانی جان کرچلیں گے اورپھروہ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے،پھرنصاریٰ سے کہاجائے گاکہ تم کس کی پوجاکرتے تھے؟وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی پوجاکرتے تھے،ان سے کہاجائے گاکہ تم جھوٹے ہواللہ کی نہ بیوی تھی اورنہ کوئی بچہ،اب تم کیاچاہتے ہو؟وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی سے سیراب کئےجائیں ،ان سے کہاجائے گاکہ پیو(ان کوبھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا)اورانہیں بھی جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ [65]

دوسری مثال بیان فرمائی۔

 اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ۝۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ۧ [66]

ترجمہ:ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندرمیں اندھیراکہ اوپرایک موج چھائی ہوئی ہے،اس پرایک اورموج اوراس کے اوپربادل تاریکی پرتاریکی مسلط ہےآدمی اپناہاتھ نکالے تواسے بھی نہ دیکھنے پائے ،جسے اللہ نورنہ بخشے اس کے لئے پھرکوئی نورنہیں ۔

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَثَلُ مَا بَعَثَنِی اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَیْثِ الكَثِیرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِیَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِیرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِیَ قِیعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِی دِینِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِی اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ یَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ

ابو موسیٗ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے جس ہدایت وعلم کے ساتھ مجھے مبعوث فرمایاہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جوزمین پر(خوب)برسے ، بعض زمین جوصاف ہوتی ہے وہ پانی ،پی لیتی ہےاوربہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے،اوربعض زمین جوسخت ہوتی ہے وہ پانی کوروک لیتی ہے،اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کوفائدہ پہنچاتاہے،وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اورسیراب کرتے ہیں ،اورکچھ زمین کے بعض خطوں پرپانی پڑتاہے جوبالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں ،نہ پانی روکتے ہیں اورنہ ہی سبزہ اگاتے ہیں تویہ اس شخص کی مثال ہے جودین میں سمجھ پیداکرے اورنفع دے ،اس کووہ چیزجس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیاہوں ۔[67]

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ،:وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلِی كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِی یَقَعْنَ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیهَا وَجَعَلَ یَحْجِزُهُنَّ وَیَغْلِبْنَهُ، فَیتَقَحَّمْنَ فِیهَاقَالَ: فَذَلِكُمْ مَثَلِی وَمَثَلُكُمْ، أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ: هَلُمَّ عَنِ النَّارِهَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُونِی تَقَحَّمُونَ فِیهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فرمایامیری اورتمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنی آس پاس کی چیزیں روشن کردیں توپتنگے اورپروانے وغیرہ اس میں گرگرکرجان دینے لگے وہ انہیں ہرچندروکتاہے لیکن بس پھربھی وہ برابرگررہے ہیں ،بالکل یہی مثال میری اورتمہاری ہے میں تمہاری کمرپکڑپکڑکرتمہیں روکتاہوں اورکہہ رہاہوں کہ آگ سے پرے ہٹو آگ سے پرے ہٹولیکن تم میری نہیں سنتے،نہیں مانتے اور مجھ سے چھوٹ چھوٹ کرآگ میں گرے چلے جاتے ہو۔[68]

جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی،اوراللہ کے احکام کوتسلیم کیا ان کے لئے بہترین جزا ہے۔

لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ ۔۔۔۝۲۶ [69]

ترجمہ:جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل ۔

جیسے ذوالقرنین نے ایک قوم سے کہاتھا۔

قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّكْرًا۝۸۷ وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَاۗءَۨ الْحُسْنٰى۝۰ۚ وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا۝۸۸ۭ [70]

ترجمہ:اس نے کہا جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا،اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔

اورجنہوں نے اپنے رب کی آوازپرلبیک نہ کہاروزمحشر اگروہ زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اورفراہم کرلیں تواللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس ساری دولت کوفدیہ میں دے ڈالنے پرتیارہوجائیں گے،مگریہ مال انہیں حاصل بھی کہاں سے ہوگااوراگرفرض محال ہوبھی سہی تواس روزنہ فدیہ ہوگا،نہ بدلہ ،نہ عوض ،نہ معاوضہ ،اوریہ وہ لوگ ہیں جن سے ہرچھوٹے بڑے عمل کا بری طرح حساب لیا جائے گااورکسی خطااورلغزش کومعاف نہیں کیاجائے گااوروہ عذاب جہنم سے دوچارہوکرہی رہے گااوروہ بدترین ٹھکانہ ہے،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی لَأَعْلَمُ أَشَدَّ آیَةٍ فِی الْقُرْآنِ؟ قَالَ:أَیَّةُ آیَةٍ یَا عَائِشَةُ؟، قَالَتْ: قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ} [71]، قَالَ:أَمَا عَلِمْتِ یَا عَائِشَةُ، أَنَّ الْمُؤْمِنَ تُصِیبُهُ النَّكْبَةُ، أَوِ الشَّوْكَةُ فَیُكَافَأُ بِأَسْوَإِ عَمَلِهِ وَمَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ قَالَتْ: أَلَیْسَ اللَّهُ یَقُولُ: {فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا}[72]، قَالَ:ذَاكُمُ الْعَرْضُ، یَا عَائِشَةُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قرآن پاک کی ایک آیت ، میں بہت سخت سمجھتی ہوں (یعنی میں اور تمام مسلمان اس آیت کے مضمون سے خوفزدہ رہتے ہیں )آپ نے پوچھا اے عائشہ! وہ کونسی آیت ہے؟میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ’’ جو شخص برا کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا یہ بات تمہیں معلوم نہیں کہ جب کسی مسلمان کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے (صغیرہ) گناہوں کا بدل ہو جاتی ہے اور عذاب تو اسے دیا جائے گاجس سے حساب لیا جائے گا، یہ سن کر میں نے عرض کیا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ ’’ قریب ہے ان سے آسان حساب لیا جائے گا۔‘‘آپ نے فرمایا اے عائشہ! اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے اور جس سے حساب سختی سے لیا جائے گا اس کو عذاب دیا جائے گا۔[73]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ أَحَدٌ یُحَاسَبُ إِلَّا هَلَكَ قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلَنِی اللَّهُ فِدَاءَكَ، أَلَیْسَ یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ كِتَابَهُ بِیَمِینِهِ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا}[74] قَالَ: ذَاكَ العَرْضُ یُعْرَضُونَ وَمَنْ نُوقِشَ الحِسَابَ هَلَك

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کسی سے بھی قیامت ، دن حساب لے لیاگیاوہ ہلاک ہوجائے گا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہامیں نےعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ !مجھے آپ پرقربان کرے کیااللہ عزوجل نے یہ ارشادنہیں فرمایا’’جس کانامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیاجائے گااس سے ہلکاحساب لیاجائے گا۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیااے عائشہ رضی اللہ عنہا !س آیت میں جس حساب کاذکرہے وہ تو پیشی ہوگی وہ صرف پیش کئے جائیں گے (اور بغیر حساب چھوٹ جائیں گے) لیکن جس سے بھی پوری طرح حساب لے لیاگیا بس سمجھ لوکہ ماراگیا۔[75]

أَفَمَن یَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا یَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿١٩﴾‏ الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا یَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ‎﴿٢١﴾‏ وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ‎﴿٢٢﴾‏ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ‎﴿٢٣﴾‏ سَلَامٌ عَلَیْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ‎﴿٢٤﴾‏(الرعد)
’’ کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں، جو اللہ کے عہد( و پیمان) کو پورا کرتے ہیں اور قول وقرار کو توڑتے نہیں،اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں، اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لیے صبر کرتے ہیں ،اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیںاور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لیے عاقبت کا گھر ہے ، ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیوی اور اولادوں میں سے بھی جو نیکوکار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہوصبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔‘‘

ایک موازنہ :

بھلایہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جوقرآن کی حقانیت وصداقت پریقین رکھتاہواورسب حکموں پرعمل پیراہوا ، اوروہ شخص جوقرآن کی صداقت میں شک وشبہ کاشکارہو اورنہ حق پرعمل کرتاہودونوں یکساں ہوجائیں ؟جس طرح جنتی اوردوزخی میں زمین وآسمان کافرق ہے ،جس طرح پانی اورجھاگ ،سونا،تانباوغیرہ اوراس کی میل کچیل برابرنہیں ہوسکتے اسی طرح آخرت میں ان دونوں اشخاص کاانجام بھی برابرنہیں ہوسکتا، جیسے فرمایا:

لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰ [76]

ترجمہ:دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہو سکتے، جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں ۔

نصیحت تووہ لوگ قبول کرتے ہیں جو ہوش گوش رکھنے والے بیدارمغزلوگ ہوتے ہیں ،اورجن کے پاس قلب سلیم اورعقل صحیح نہ ہواورجنہوں نے اپنے دلوں کوگناہوں کے زنگ سے آلودہ اوراپنی عقلوں کوخراب کرلیاہووہ اس قرآن سے نصیحت حاصل ہی نہیں کرسکتے ،اوران اہل دانش لوگوں کاطرزعمل یہ ہوتاہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہدالست کوپوراکرتے ہیں اوراسے مضبوط باندھنے کے بعدتوڑنہیں ڈالتے،اس میں ہرقسم کامعاہدہ،عہد،قسم اورنذروغیرہ داخل ہیں جنہیں بندے اپنے آپ پرلازم کرتے ہیں ،ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن معاشرتی اورتمدنی روابط کو برقراررکھنے کاحکم دیاہے انہیں توڑنے کے بجائے صلہ رحمی کرتے ہیں اورجوکوئی ان سے قطع تعلق کرتاہے یہ اس سے جڑتے ہیں ،اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں اوراس بات کاشدیدخوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیاجائے،ان کاحال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضاوخوشنودی کے لئے نافرمانیوں اورگناہوں سے بچتے ہیں ،اپنی خواہشات کوقابومیں رکھتے ہیں ،اپنے جذبات اورمیلانات کوحدودکاپابندبناتے ہیں ، اورتبلیغ حق کی پاداش میں تکلیفوں اورآزمائشوں پرصبرکرتے ہیں ،اورنمازکوخشوع وخضوع اوراعتدال ارکان کے ساتھ قائم کرتے ہیں ،اورجہاں جہاں خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سےرات دن کی ہرگھڑی اپنوں اوربیگانوں میں علانیہ اورپوشیدہ خرچ کرتے ہیں ،اورکسی کے قول وفعل سے برائی کا جواب برائی سے نہیں بلکہ حسن سلوک سے دیتے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَـنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴ [77]

ترجمہ:اوراے نبی!نیکی اوربدی یکساں نہیں ہیں ،تم بدی کواس نیکی سے دفع کروجوبہترین ہوتم دیکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے۔

عَنْ حُذَیْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَكُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلاَ تَظْلِمُوا.

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اپنے طرزعمل ،لوگوں کے طرزعمل کاتابع بناکرنہ رکھو یہ کہناغلط ہے کہ اگرلوگ بھلائی کریں گے توہم بھلائی کریں گے اورلوگ ظلم کریں گے توہم بھی ظلم کریں گے، تم اپنے نفس کوایک قاعدے کاپابندبناؤاگرلوگ نیکی کریں توتم نیکی کرواوراگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں توتم ظلم نہ کرو۔[78]

أَبُو هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال: أمرنی رَبِّی بِتِسْع: خَشْیَةِ الله فی السِّرِّ والعلانیة، وكلمة العدل فی الغضب والرضى، والقصد فی الفقر والغنى، وأن أصَلَ مَنْ قَطَعَنی، وأعطی مَنْ حَرَمَنی، وأعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنی، وأن یكون صَمْتی فِكْراً، ونُطْقی ذِكْراً، ونظری عبرة، وآمرُ بالعُرْف، وقیل: بالمعروف

ابو ہریرہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے رب نے مجھے نوباتوں کاحکم دیاہے پوشیدگی اور علانیہ میں للہیت ، میں خواہ کسی سے خوش ہوں یاناراض ہرحالت میں انصاف کی بات کہوں ، تنگ دستی اور فارغ البالی میں میانہ روی، جومیراحق مارے میں اس کاحق اداکروں ،جومجھے محروم کرے میں اس ،عطاکروں ،اورجومجھ پرظلم کرے میں اس کومعاف کردوں ، میری خاموشی فکراور میرا بولنا ذکراور میری نظرعبرت اور حکم دوں تو اچھائی کا دوں ۔[79]

ومما ینبغی التنبیه له أن رزینا زاد عدة أحادیث الى كتابه غیر موجودة فی الصحاح الستة ،موضوعة ،

تنبیہ: زرین ، اپنی کتاب میں کئی ایک احادیث نقل کی ہیں جن کا وجود صحاح ستہ میں نہیں ملتا بلکہ یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے ۔

اسی معنی میں یہ حدیث ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوتجھے امین بنائے تواس کی امانت اسے اداکردے اورجوتیری خیانت کرے تواس کی خیانت نہ کر۔[80]

جولوگ ان صفات جلیلہ اور مناقب جمیلہ کے حامل ہوں گے آخرت کاگھر انہی لوگوں کے لئے ہے،یعنی ایسے باغ جوان کی ابدی قیامگاہ ہوں گے،وہ خودبھی ان میں داخل ہوں گے اوران کے آباؤاجداداوران کی بیویوں اوران کی اولاد میں سے جوجوصالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گےتاکہ ایک دوسرے کودیکھ کران کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں جیسے فرمایا:

 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّــتُهُمْ بِـاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ۔۔۝۰۝۲۱ [81]

ترجمہ:جولوگ ایمان لائے ہیں اوران کی اولادبھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پرچلی ہے ان کی اس اولادکوبھی ہم (جنت میں )ان کے ساتھ ملادیں گے اوران کے عمل میں کوئی گھاٹاان کونہ دیں گے۔

اوراگرکسی کے پاس ایمان اورعمل صالحہ کی پونجی نہیں ہوگی تووہ جنت میں نہیں جائے گاچاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دارجنت میں چلے گئے ہوں کیونکہ جنت میں داخلہ حسب و نسب کی بنیادپرنہیں ،ایمان وعمل کی بنیاد پر ہوگا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، یَسَّرَ اللهُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِیقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللهِ، یَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَیَتَدَارَسُونَهُ بَیْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْهِمِ السَّكِینَةُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِیمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ یُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی نے کسی مومن سے دنیا میں مصیبتوں ، دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں کو دور کرے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گااورجس نے کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیااورآخرت میں اس کے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوتا ہے، اور جو ایسے راستے پر چلا جس میں علم کی تلاش کرتا ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ذریعہ جنت کا راستہ آسان فرما دیتاہے،اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتےاور اس کی تعلیم میں مصروف ہوتے ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتاہے،اورجسے اس کاعمل پیچھے چھوڑگیا اس کانسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔[82]

ملائکہ ان کے استقبال کے لئے آئیں گے اوران سے کہیں گے کہ اب تم سلامتی کی جگہ پرآگئے ہو یہاں تم ہر آفت ،ہر تکلیف ،ہر مشقت اورہرخطرے واندیشے سے محفوظ ہو،جس طرح تم نے دنیامیں اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے صبرسے کام لیااس کی بدولت آج تم اس جنت اوراس کی لازوال نعمتوں کے مستحق ہوئے ہو،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِی، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ، الَّذِینَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَیُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَیَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِی صَدْرِهِ، لَا یَسْتَطِیعُ لَهَا قَضَاءً فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ یَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَیُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِیرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِیَ هَؤُلَاءِ فَنُسَلِّمَ عَلَیْهِمْ؟ قَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا یَعْبُدُونِی، لَا یُشْرِكُونَ بِی شَیْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَیُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ ، وَیَمُوتُ أَحَدُهُمْ، وَحَاجَتُهُ فِی صَدْرِهِ، لَا یَسْتَطِیعُ لَهَا قَضَاءً قَالَ: فَتَأْتِیهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَیَدْخُلُونَ عَلَیْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ : {سَلَامٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ} [83]

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن عاص سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم جانتے ہوکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے جنت میں ،ن داخل ہوگا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اللہ اوراس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے جنت میں وہ فقراء اورمہاجرین داخل ہوں گے جن کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کی جاتی اورناپسندیدہ امورسے بچاجاتاہے،اوران میں سے جب کوئی فوت ہوتاہے تواس کی حاجت وضرورت اس کے سینے ہی میں رہ جاتی ہے کہ اسے اس کے پوراکرنے کی استطاعت ہی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتاہے کہ ان کے پاس جاؤاورانہیں سلام کہو،فرشتے کہتے ہیں ہم تیرے آسمان کے رہنے والے ہیں اورتیری مخلوق میں سے چنے ہوئے ہیں لیکن تیراحکم یہ ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اورانہیں سلام کہیں ؟اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہاں ،اس لیے کہ یہ ایسے بندے تھے جومیری عبادت کرتے تھے اورمیرے ساتھ کسی چیزکوشریک نہیں بناتے تھے،اور ان کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کی جاتی اورناپسندیدہ امورسے بچاجاتاتھااور ان میں سے جب کوئی فوت ہوتاتواس کی حاجت وضرورت اس کے سینے ہی میں ہوتی تھی اوروہ اسے پوراکرنے کی استطاعت نہیں رکھتاتھا، اس فرمان باری تعالیٰ کے سننے کے بعد فرشتے ان کے پاس ہردروازے سے آتے ہیں اورکہتے ہیں ’’ تم پرسلام ہو(یہ )تمہاری ثابت قدمی کابدلہ ہے اورعاقبت کاگھرخوب (گھر)ہے۔‘‘[84]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، وَأَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: یُقَالُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا , وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِیشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا , وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا , وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااہل جنت سے کہہ دیاجائے گاکہ اب تم ہمیشہ تندرست رہوگے کبھی بیمارنہ پڑوگے اوراب تم ہمیشہ زندہ رہوگے کبھی موت تم ،نہ آئے گی،اوراب تم ہمیشہ جوان رہوگے کبھی بڑھاپاتم پرنہ آئے گا اوراب تم ہمیشہ مقیم رہوگے کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہوگی۔[85]

پس کیاہی خوب ہے یہ آخرت کاگھر!

وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ ۙ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ‎﴿٢٥﴾‏ اللَّهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاءُ وَیَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ ‎﴿٢٦﴾‏(الرعد)
’’اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیںاور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لیے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے، اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے ،یہ دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے ۔‘‘

مسئلہ رزق :

اہل جنت کے بعداہل جہنم کابیان فرمایاکہ وہ لوگ جواللہ کے عہدکومضبوط باندھ لینے کے بعدتوڑڈالتے ہیں ،اورجن معاشرتی اور تمدنی رابطوں کو اللہ نے جوڑنے کاحکم دیاہے ان سے قطع تعلق کرتے ہیں ،اورجوکفرومعاصی کاارتکاب کرکے ،لوگوں کواللہ کے راستے سے روک کراوراللہ کے سیدھے راستے کوٹیڑھاکرنے کی کوشش کرکے اللہ کی زمین میں فسادپھیلاتے ہیں ان صفات کے حامل لوگ اللہ کی رحمت سے دور ہیں ان صفات کے حامل لوگوں کے لئے آخرت میں بہت براٹھکاناہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آیَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامنافق کی تین نشانیاں ہیں ،جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کی خلاف ورزی کرے اورجب اس ،امین بنایاجائے تو خیانت کرے۔[86]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى یَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار باتیں جس کسی میں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار کی ایک بات ہو اس میں ایک بات نفاق کی ہے تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے،جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے،اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے اورجب جھگڑاکرے تو گالیاں بکے۔[87]

عام جہلاکی طرح کفارمکہ بھی عقیدہ وعمل کے حسن وقبح کودیکھنے کے بجائے امیری اورغریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدروقیمت کاحساب لگاتے تھے ،ان کاگمان تھاکہ جسے دنیامیں خوب مال ودولت مل رہی ہے وہ اللہ کاپسندیدہ ہے خواہ وہ کیساہی گمراہ اوربدکارہواورجوتنگ دست اورتنگ حال ہے وہ اللہ کامغضوب ہے خواہ وہ کیساہی نیک ہو،اللہ تعالیٰ نے اس پرمتنبہ فرمایاکہ یہ تواللہ کی حکمت ومشیت ہے کہ وہ جس کوچاہتاہے دنیاوی اسباب اور رزق کی فراخی بخشتاہے اورجسے چاہتاہے نپاتلا رزق دیتاہے،کسی بندے پررزق کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے خوش ہے اوررزق کی کمی سے یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بندے پرناراض ہے ،اللہ تعالیٰ تورزق کی فراوانی کرکے بھی آزماتاہے اورکمی کرکے بھی آزمائش کرتاہے ،جیسے فرمایا:

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ۝۵۵ۙنُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶ [88]

ترجمہ:کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں ؟ نہیں ، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے۔

یہ لوگ دنیاوی زندگی کی چندروزہ رنگینیوں میں مگن اورآخرت سے غافل ہیں حالانکہ دنیاکی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سواکچھ بھی نہیں ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۝۷۷ [89]

ترجمہ:ان سے کہو دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ظلم ایک ذرہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ۔

 بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖوَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ [90]

ترجمہ:مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے ۔

عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ الْفِهْرِیِّ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللهِ مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ وَأَشَارَ یَحْیَى بِالسَّبَّابَةِ فِی الْیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ؟

مستوربن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرکے فرمایااللہ کی قسم دنیاآخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کوئی تم میں سے یہ انگلی سمندرمیں ڈال کر نکالے ، اوریحییٰ نے کلمہ کی انگلی سے اشارہ کیاپھردیکھے تو سمندر میں سے کتناپانی لاتا ہے۔[91]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ، دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِیَةِ، وَالنَّاسُ كَنَفَتَهُ، فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَكَّ مَیِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ:أَیُّكُمْ یُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ؟ فَقَالُوا: مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَیْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ؟ قَالُوا: وَاللهِ لَوْ كَانَ حَیًّا، كَانَ عَیْبًا فِیهِ، لِأَنَّهُ أَسَكُّ، فَكَیْفَ وَهُوَ مَیِّتٌ؟ فَقَالَ: فَوَاللهِ لَلدُّنْیَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ، مِنْ هَذَا عَلَیْكُمْ

اور جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ کسی بازار سے گذر رہے تھے وہاں ایک بہت چھوٹے کانوں والی مردار بکری پڑی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کانوں سے پکڑ کر اٹھایا اورپھر لوگوں سے فرمایا تم اسے کتنے میں خریدنا چاہتے ہو ؟لوگوں نے کہا ہم تو اسے کسی چیز کے عوض نہیں خریدنا چاہتےہم نے اس کا کیا کرنا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنی بات دہرائی،لوگوں نے کہا واللہ! اگر یہ زندہ ہوتی تو تب بھی اس میں چھوٹے کانوں والی ہونا ایک عیب ہے اب جبکہ مرادار بھی تو ہم اسے کیسے خرید سکتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !دنیااللہ جل جلالہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیرہے جتناتم اس ،حقیرجان رہے ہو۔[92]

وَیَقُولُ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ یُضِلُّ مَن یَشَاءُ وَیَهْدِی إِلَیْهِ مَنْ أَنَابَ ‎﴿٢٧﴾‏ الَّذِینَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ‎﴿٢٨﴾‏الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ ‎﴿٢٩﴾(الرعد)
’’کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ جواب دیجئے کہ اللہ جسے گمراہ کرنا چاہے کردیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے، جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے ،جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام بھی کیے ان کے لیے خوشحالی ہے اور بہترین ٹھکانا۔‘‘

مشرکین کے اعتراض :

یہ کفارومشرکین جو سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان نہیں لائے ہیں محض بہانے کے طورپرکہتے ہیں کہ اگلے انبیاء کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اس کی رسالت کی صداقت میں کوئی معجزہ کیوں نہیں دیاگیااگران کے پاس کوئی معجزہ ہوتاتوہم ایمان لے آتے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَـمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ۝۵ [93]

ترجمہ:ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔

ان کے اس مطالبہ کے جواب میں فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہواللہ جسے چاہتاہے گمراہ کردیتاہے اوروہ اپنی طرف آنے کاراستہ اسی کودکھاتاہے جواس کی طرف رجوع کرے،یعنی اللہ کی نشانیاں تو ہرطرف بکھری پڑی ہیں جنہیں دیکھ کرکوئی بھی بینا شخص راہ راست اختیارکرسکتاہے مگریہ لوگ خودہی راہ ہدایت پرچلنانہیں چاہتے اور اللہ تعالیٰ کاقانون ہے کہ وہ کسی بندے کی خواہش کے برعکس زبردستی راہ راست پرنہیں لاتا،بلکہ ایسے شخص کوانہی راستوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑدیتاہے جن میں وہ بھٹکناچاہتاہے ، فرمایاان پرکلمہ عذاب صادق ہوچکاہے ،یہ لوگ کسی طرح بھی ایمان نہیں لائیں گے جیسے فرمایا

 وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ۝۱۱۱ [94]

ترجمہ:اگرہم فرشتے بھی ان پرنازل کردیتے اورمردے ان سے باتیں کرتے اوردنیابھرکی چیزوں کوہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے الایہ کہ مشیت الٰہی یہی ہو(کہ یہ ایمان لائیں )مگراکثرلوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَتْ قُرَیْشٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ادْعُ لَنَا رَبَّكَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَهَبًا، وَنُؤْمِنُ بِكَ، قَالَ: وَتَفْعَلُونَ؟قَالُوا: نَعَمْ،قَالَ: فَدَعَا،أَنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَى رَسُولِهِ لَمَّا سَأَلُوهُ أَنْ یُحَوِّلَ لَهُمُ الصَّفَا ذَهَبًا، وَأَنْ یُجْرِیَ لَهُمْ یَنْبُوعًا، وَأَنْ یُزِیحَ الْجِبَالَ مِنْ حَوْلِ مَكَّةَ فَیَصِیرُ مَكَانَهَا مُرُوجٌ وَبَسَاتِینُ، إِنْ شِئْتَ یَا مُحَمَّدُ أَعْطَیْتُهُمْ ذَلِكَ، فَإِنْ كَفَرُوا فَإِنِّی أُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ وَإِنْ شِئْتَ فَتَحْتُ عَلَیْهِمْ بَابَ التَّوْبَةِ وَالرَّحْمَةِ فَقَالَ:بَلْ تَفْتَحُ لَهُمْ بَابَ التَّوْبَةِ وَالرَّحْمَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہےقریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااپنے رب سے دعاکریں کہ وہ ،ہ صفاکوسونے کابنادے توہم آپ پرایمان لے آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ سے دعافرمائی اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ ان کی چاہت کے مطابق میں صفاپہاڑکوسونے کاکردیتاہوں ،زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کردیتاہوں ، اوران پہاڑیوں کوجنہوں نے مکہ کوگھیررکھاہے ہٹاکر زمین کوزراعتی زمین میں بدل دیتاہوں ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ چاہتے ہیں توہم یہ سب عطاکردیتے ہیں لیکن پھربھی اگریہ ایمان نہ لائے توانہیں وہ سزادوں گاجودنیامیں کسی کونہ ہوئی ہواوراگرچاہیں توان کے لئے توبہ اوررحمت کادروازہ کھلارہنے دوں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ اوررحمت کادروازہ کھلارہنا پسندفرمایا۔ [95]

اہل ایمان کی علامت کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جو لوگ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق پر ایمان لے آئے ہیں اور ان کے دلوں کو توحیدکی حلاوت،اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت،تلاوت کلام الٰہی،نوافل اورکثرت سے دعاومناجات سے اطمینان نصیب ہوتا ہے ، خبردار رہو! اللہ کی یادہی وہ چیزہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہواکرتاہے،پھرجو لوگ خلوص نیت سے اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،یوم آخرت پراوراچھی بری تقدیر پر ایمان لے آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اعمال صالحہ اختیار کیے وہ خوش نصیب ہیں اوران کے لئے جنت میں اچھامقام اوراس کی لازوال نعمتیں اور لذتیں ہیں ، اس میں گھنے سایہ داردرخت ہیں ، جیسے فرمایا

وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ [96]

ترجمہ:اوردورتک پھیلی ہوئی چھاؤں ۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ لَشَجَرَةً، یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ یَقْطَعُهَا

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں ایک درخت ہے جس کاسایہ اتنالمباہے کہ سوارایک سوسال تک اس کے سائے میں چلتارہے تب بھی اس کاسایہ ختم نہ ہوگا۔[97]

جبکہ سواری بھی عمدہ اور تیزرفتار ہو،

حَدَّثَنِی أَبُو سَعِیدٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ لَشَجَرَةً، یَسِیرُ الرَّاكِبُ الجَوَادَ المُضَمَّرَ السَّرِیعَ مِائَةَ عَامٍ مَا یَقْطَعُهَا

ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں ایک درخت ہوگاجس کے سایہ میں عمدہ اور تیز رفتار گھوڑے پرسوارشخص سوسال تک رہے گااورپھربھی اسے طے نہ کرسکے گا ۔[98]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، قَالَ:یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّ الفَنَنِ مِنْهَا مِائَةَ سَنَةٍ، أَوْ یَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا مِائَةُ رَاكِبٍ،فِیهَا فِرَاشُ الذَّهَبِ كَأَنَّ ثَمَرَهَا الْقِلَالُ

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے سدرة المنتیٰ کے ذکر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ اس کی ایک شاخ کے سائے تلے ایک سوسال تک سوارچلتارہے گا اور سوسوسواراس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھہرسکتے ہیں ،اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں ، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ۔

كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِی أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَیْهِمُ الَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ وَهُمْ یَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَیْهِ مَتَابِ ‎﴿٣٠﴾
’’اسی طرح ہم نے آپ کو اس امت میں بھیجا جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں کہ آپ انہیں ہماری طرف سے جو وحی آپ پر اتری ہے پڑھ کر سنائیے یہ اللہ رحمان کے منکر ہیں ،آپ کہہ دیجئے کہ میرا پالنے والا تو وہی ہے اس کے سوا درحقیقت کوئی بھی لائق عبادت نہیں، اسی کے اوپر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب میرا رجوع ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی :

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اس امت سے پہلے دنیامیں بہت سی امتیں گزرچکی ہیں ، ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ہم نے رسول بھیجے تھے ،ان کی رہنمائی کے لئےرسولوں پرکتابیں نازل کی تھیں مگرہرامت نے تکذیب کی اوردعوت حق کامذاق اڑایاجس کی پاداش میں انہیں دردناک عذاب سے دوچارہوناپڑا،جیسے فرمایا:

تَاللہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَہُوَوَلِیُّہُمُ الْیَوْمَ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۶۳ [99]

ترجمہ:اللہ کی قسم، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے ان کے برے کرتوت انہیں خوشنما بنا کر دکھائے(اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی) وہی شیطان آج ان لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں ۔

 وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰٓی اَتٰىہُمْ نَصْرُنَا۝۰ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ۝۰ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِیْنَ۝۳۴ [100]

ترجمہ:تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی، اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ۔

یعنی کس طرح ہم نے اپنے پیغمبروں کی مددکی ،اوردنیاوآخرت میں کس طرح انہیں اوران کے پیروکاروں کواچھے انجام سے سرفرازکیاتھا،اب ہم نے اپنی رحمت سے تم کو اس قوم میں بغیرکسی نشانی کے تبلیغ رسالت کے لئے بھیجاہے تاکہ تم ان لوگوں کووہ دعوت حق پیش کروجوہم نے تم پرنازل کی ہے،اس حال میں کہ یہ لوگ اللہ رحمٰن کی بندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں اوراس کی صفات واختیارات اورحقوق میں دوسروں کواس کاشریک بنارہے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أنه رأى رجلا انتفض لما سمع حدیثا عن النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الصِّفَاتِ استنكارا لذلك ، فقال: ما فرق هؤلاء؟ یجدون رقة عند محكمه  وَیَهْلِكُونَ عِنْدَ مُتَشَابِهِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کودیکھاجسے صفات باری تعالیٰ کے بارے میں ایک حدیث سن کرکپکپی آگئی گویااسے یہ حدیث اچھی نہیں لگی اوروہ اسے اجنبی سامحسوس کر رہا ہے، یہ منظردیکھ کرعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہاان لوگوں کاڈرعجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محکم آیات سن کران پررقت طاری ہوجاتی ہےاورمتشابہ آیات سن کر(اورنہ مان کر)ہلاکت میں پڑتے جاتے ہیں ۔

مخرمہ رضی اللہ عنہ اورمروان سے مروی ہے کہ جب مشرکین مکہ صلح حدیبیہ پرتیارہوگئے تو

فَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الكَاتِبَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کوبلوایا،فرمایابسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھو، قریش کانمائندہ سہل کہنے لگااللہ قسم !میں رحمٰن کونہیں جانتا کہ وہ کیاچیزہے البتہ تم یوں لکھ سکتے ہوباسمک اللھم لکھوجیساکہ پہلے لکھاکرتے تھے۔[101]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قُلِ ادْعُوا اللهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ۝۰ۭ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى  ۔۔۔۝۱۱۰ [102]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہواللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کرجس نام سے بھی پکارواس کے لئے سب اچھے ہی نام ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَحَبَّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے نزدیک عبداللہ اورعبدالرحمٰن نہایت پیارے نام ہیں ۔[103]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !توحیدالوہیت میں ان سے کہوکہ وہی رحمٰن جس کے تم منکرہو میرارب ہے اورتوحیدربوبیت میں کہوکہ اس کے سواکوئی معبودنہیں ہے،کوئی رزاق نہیں ،کوئی مشکل کشاوحاجت روانہیں ہےمیں تمام امورومعاملات میں اسی پر بھروسہ کرتاہوں اوروہی میرا ملجاوماویٰ ہے،یعنی اپنی تمام عبادات اورحاجات میں میں اسی کی طرف رجوع کرتاہوں ۔

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِیعًا ۗ أَفَلَمْ یَیْأَسِ الَّذِینَ آمَنُوا أَن لَّوْ یَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیعًا ۗ وَلَا یَزَالُ الَّذِینَ كَفَرُوا تُصِیبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِیبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ یَأْتِیَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ ‎﴿٣١﴾‏ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَیْتُ لِلَّذِینَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ ‎﴿٣٢﴾(‏الرعد)
’’ اگر (بالفرض) کے کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کردی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے) ، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے تو کیا ایمان والوں کو اس بات پر دل جمعی نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے، کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی تاوقتیکہ وعدہ الٰہی آپہنچے یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا، یقیناً آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی کافروں کو ڈھیل دی تھی پھر انہیں پکڑ لیا تھا، پس میرا عذاب کیسا رہا؟ ۔‘‘

قرآن کااطلاق اگلی الہامی کتابوں پربھی ہوتاہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ القُرْآنُ، فَكَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ، فَیَقْرَأُ القُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ، وَلاَ یَأْكُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ یَدِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، فرمایا داود علیہ السلام کے لئے قرآن(یعنی زبور)کی قرات بہت آسان کردی گئی تھی، چنانچہ وہ اپنی سواری پرزین کسنے کا حکم دیتے اورزین کسی جانے سے پہلے ہی پوری زبورپڑھ لیتے تھےاورآپ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے۔[104]

اہل ایمان جب کفارکی طرف سے باربارنشانی کا مطالبہ سنتے تھے توان کے دلوں میں بے چینی پیداہوتی کہ کاش ان لوگوں کواللہ کوئی نشانی دکھادے اوریہ لوگ توحیدکے قائل ہوجائیں ،مگرجب محسوس کرتے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفارکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک وشہبات پھیلانے کاموقع مل رہاہے توان کی بے چینی اوربھی بڑھ جاتی ،اس پرمسلمانوں کوفرمایاکہ اگرسابقہ آسمانی کتاب ایسی نازل ہوئی ہوتی کہ جسے سن کرپہاڑرواں دواں ہوجاتے یازمین پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یامردے زندہ ہو کر بول اٹھتے توقرآن کریم کے اندریہ خصوصیت بدرجہ اولیٰ موجودہوتی کیونکہ یہ اعجازوبلاغت میں پچھلی تمام کتابوں سے فائق ہے ،اگراس قرآن کے ذریعے سے یہ معجزات ظاہر ہوتے تب بھی یہ کفار و مشرکین ایمان نہ لاتے ،کیونکہ ایمان لانایانہ لانایہ اللہ کی مشیت وحکمت پرموقوف ہے ،معجزوں پرنہیں ،پھرکیااہل ایمان کواس بات پراطمینان نہیں کہ اگراللہ کی حکمت و مشیت ہوتی توسارے انسانوں کوہدایت دے دیتا،مگراللہ کوبغیرسمجھ بوجھ محض ایک غیرشعوری ایمان مطلوب نہیں ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنَ الأَنْبِیَاءِ نَبِیٌّ إِلَّا أُعْطِیَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَیْهِ البَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَیَّ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنبی ،ایسے ایسے معجزات عطاکئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر) لوگ اس پرایمان لائے،(بعدکے زمانے میں ان کاکوئی اثر نہیں رہا) اورمجھے جومعجزہ دیاگیاہے وہ وحی(قرآن) ہے،جواللہ تعالیٰ نے مجھ پرنازل کی ہے (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لئے مجھے امیدہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔[105] جن لوگوں نے اللہ کی دعوت پر تکذیب کارویہ اختیار کر رکھاہے ان پران کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی عذاب نازل ہوتارہتا ہے یاان کے قریب کے علاقوں میں کہیں مصائب نازل ہوتے ہیں تاکہ وہ عبرت حاصل کریں ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۲۷فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً۝۰ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ۝۰ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۲۸ [106]

ترجمہ: تمہارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کوہم ہلاک کرچکے ہیں ،ہم نے اپنی آیات بھیج کرباربارطرح طرح سے ان کوسمجھایاشایدکہ وہ باز آجائیں ، پھرکیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مددکی جنہیں اللہ کوچھوڑکرانہوں نے تقرب الی اللہ کاذریعہ سمجھتے ہوئے معبودبنالیاتھا؟بلکہ وہ توان سے کھوئے گئے اوریہ تھاان کے جھوٹ اور ان بناوٹی عقیدوں کاانجام جوانہوں نے گھڑرکھے تھے۔

اورآفتوں کایہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گایہاں تک کہ اہل اسلام کوقطعی فتح وغلبہ حاصل ہوجائے یاقیامت واقع ہوجائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوثبات کی تلقین اورتسلی دیتے ہوئے فرمایایقیناًاللہ نے اپنے رسولوں کی نصرت وامدادکاجووعدہ فرمایاہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا،جیسے فرمایا

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ۝۴۷ۭ [107]

ترجمہ:پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم ہرگزیہ گمان نہ کروکہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا،اللہ زبردست ہے اورانتقام لینے والا ہے۔

تم سے پہلے بھی ہرامت نے اپنے اپنے رسولوں کامذاق اڑایاہے،دعوت حق کی تکذیب کی ہے اور دعوت حق پہنچانے کی پاداش میں انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں ، مگراللہ نے اپنی سنت کے مطابق ہمیشہ ظالموں کوایک مدت تک ڈھیل دی حتی کہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا ہو گئے کہ ان کوعذاب نہیں دیاجائے گا ،آخر ایک وقت مقررہ پرعذاب الٰہی ان پرنازل ہوااوروہ صفحہ ہستی سے نابودہوگئےپھردیکھ لوکہ میری سزاکیسی سخت ہےجیسے فرمایا:

وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُہَا۝۰ۚ وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۴۸ۧ [108]

ترجمہ:کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ، میں نے ان کو پہلے مہلت دی پھر پکڑ لیا اور سب کو واپس تو میرے ہی پاس آنا ہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ، قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ:وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ظالم کوچندروزدنیامیں مہلت دیتارہتاہےلیکن جب اسے پکڑتاہے تو پھر چھوڑتا نہیں ، اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی’’ اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کوپکڑتاہے توپھراس کی پکڑ ایسی ہی ہواکرتی ہے ،فی الواقع اس کی پکڑبڑی سخت اوردردناک ہوتی ہے۔‘‘[109]

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ‎﴿٣٣﴾‏ لَّهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ ‎﴿٣٤﴾‏ مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِینَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِینَ النَّارُ ‎﴿٣٥﴾(الرعد)
’’ آیا وہ اللہ جو نگہبانی کرنے والا ہے ہر شخص کی اس کے کئے ہوئے اعمال پر، ان لوگوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے ہیں کہہ دیجئے ذرا ان کے نام تو لو، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یا صرف اوپری اوپری باتیں بتا رہے ہو بات اصل یہ ہے کہ کفر کرنے والوں کے لیے ان کے مکر سجا دیئے گئے ہیں اوروہ صحیح راہ سے روک دیئے گئے ہیں اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کو راہ دکھانے والا کوئی نہیں ، ان کے لیے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے، انہیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں،اس جنت کی صفت، جس کا وعدہ پرہیزگاروں کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کا میوہ ہمیشگی والا ہے اور اس کا سایہ بھی، یہ ہے انجام پرہیزگاروں کا اور کافروں کا انجام دوزخ ہے۔‘‘

عالم خیروشر:

اللہ تعالیٰ جواخروی جزااورعدل وانصاف کے ساتھ ہر ایک متنفس کے چھوٹے بڑے،اچھے برے اعمال پرنظررکھتاہے،جس سے کائنات کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے ،اس کامل صفات کے حامل اللہ کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جارہی ہیں کہ لوگوں نے اس وحدہ لاشریک کے کچھ خودساختہ ہمسراورمدمقابل تجویز کررکھے ہیں ،اس کی ذات ،صفات اورحقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیاجارہاہے ،حالانکہ وہ کسی چیزکے مالک نہیں ، کسی کونفع یانقصان پہنچانے پرقادرنہیں ہیں ،جونہ دیکھتے ہیں اورنہ عقل وشعورسے بہرہ ورہیں ،جیسے فرمایا

وَجَعَلُوْا لِلهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍؚبِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۱۰۰ۧ [110]

ترجمہ: اس پربھی لوگوں نے جنوں کواللہ کاشریک ٹھہرا دیا حالانکہ وہ ان کاخالق ہے اوربے جانے بوجھے اس کے لئے بیٹے اوربیٹیاں تصنیف کردیں حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جویہ لوگ کہتے ہیں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہواگرواقعی وہ اللہ کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو ذراان کے نام ہمیں بھی بتاؤتاکہ انہیں پہچان سکیں ، یعنی کیاتمہارے پاس کوئی مستنداطلاع آئی ہوئی ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کواپنی صفات ،اختیارات یاحقوق میں شریک قراردیاہے،اگرایساہے تووہ مستند ذریعہ پیش کرویااللہ کی زمین پرکچھ ہستیاں خوداس کی شریک بن گئی ہیں اورتم لوگ اللہ کوایک نئی بات کی خبردے رہے ہوجسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ ان کاتوکوئی وجودہی نہیں ہے ، اگروجودہوتاتواللہ کے علم میں ضرورہوتاکیونکہ اس پرکوئی چیزمخفی نہیں ہے ،یاتم لوگ بغیرکسی سنداوربغیرکسی دلیل کے جس کوچاہتے ہواللہ کاشریک ٹھہرالیتے ہو،جس کوچاہتے ہو،داتا،مشکل کشااورحاجت رواقراردے دیتے ہو جیسے فرمایا

اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ۝۰ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى۝۲۳ۭ [111]

ترجمہ:دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگربس چندنام جوتم نے اورتمہارے باپ دادانے رکھ لیے ہیں اللہ نے اس کے لئے کوئی سندنازل نہیں کی ،حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کی پیروی کررہے ہیں اورخواہشات نفس کے مریدبنے ہوئے ہیں حالاں کہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوت حق کوماننے سے انکارکیاہےتوقانون فطرت کے مطابق ان کے غلط عقائدواعمال خوشنما بنادیے گئے ہیں ،جیسے فرمایا

وَقَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاۗءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ۔۔۔۝۲۵ۧ [112]

ترجمہ:ہم نے ان پرایسے ساتھی مسلط کردیے تھے جوانہیں آگے اورپیچھے ہرچیزخوشنمابناکردکھاتے تھے۔

اوروہ راہ راست سے روک دیے گئے ہیں ،پھرجس کواللہ گمراہی میں پھینک دے اسے کوئی راہ دکھانے والانہیں ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّرِدِ اللهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللهِ شَـیْـــــًٔـا۔۔۔۝۰۝۴۱ [113]

ترجمہ:جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کاارادہ کرلیا ہو اس کواللہ کی گرفت سے بچانے کے لئے تم کچھ نہیں کر سکتے ۔

اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُضِلُّ وَّمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۳۷ [114]

ترجمہ:اے نبی!تم چاہے ان کی ہدایت کے لئے کتنے ہی حریص ہومگراللہ جس کوبھٹکادیتاہے پھر اسے ہدایت نہیں دیاکرتااوراس طرح کے لوگوں کی مددکوئی نہیں کرسکتا۔

ایسے لوگ دنیاکی زندگی میں اہل ایمان کے ہاتھوں قتل وغارت واسیرہوں گے، اورآخرت کاعذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے،جیساکہ لعان کرنے والے جوڑے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا۔

أَنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ

دنیاکاعذاب ،عذاب آخرت سے بہت ہلکاہے۔[115]

اس کے علاوہ دنیا کا عذاب عارضی اور فانی ہے جبکہ عذاب آخرت دائمی ہے اسے زوال اورفنانہیں ،اورجہنم کی آگ دنیاکی آگ کی نسبت انہترگنازیادہ تیزحرارت والی ہے ، جیسے فرمایا:

 فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَهٗٓ اَحَدٌ۝۲۵ۙوَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَهٗٓ اَحَدٌ۝۲۶ۭ [116]

ترجمہ:پھراس دن اللہ جوعذاب دے گاویساعذاب دینے والاکوئی نہیں اوراللہ جیسا باندھے گاویساباندھنے والاکوئی نہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ۝۰ۣ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًا۝۱۱ۚاِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۝۱۲وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭلَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴ [117]

ترجمہ:اورجواس گھڑی کوجھٹلائے اس کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیاکررکھی ہے ، وہ جب دورسے ان کودیکھے گی تویہ اس کے غضب اورجوش کی آوازیں سن لیں گے ، اورجب یہ دست وپابستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تواپنی موت کوپکارنے لگیں گے (اس وقت ان سے کہاجائے گا)آج ایک موت کونہیں بہت سی موتوں کو پکارو۔

کوئی ہستی ایسی نہیں جوانہیں اللہ سے بچانے والی ہو،پرہیزگار انسانوں کے لئے جس جنت اوراس کی لازوال نعمتوں کاوعدہ کیاگیاہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے صاف پانی کی نہریں جس میں کبھی بونہ ہوگی،دودھ کی نہریں جس کاذائقہ کبھی نہیں بگڑے گا،شراب کی نہریں جس میں لذت ہی لذت ہے ،جس کے پینے سے نہ نشہ ہوگانہ بدمزگی اورصاف شہدکی نہریں بہہ رہی ہیں ،اس کے انوکھے ذائقہ وخوشبودارپھل ومیوہ جات دائمی ہیں ، اوراس کے درختوں کاسایہ لازوال ہے،اللہ تعالیٰ نے ترغیب دینے کے لیےمتعددمقامات پرجنت کے حالات بیان فرمائے ہیں جیسے فرمایا:

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰۝۱۵ [118]

ترجمہ:پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش ۔

جیسے فرمایا

 وَّفَاكِہَةٍ كَثِیْرَةٍ۝۳۲ۙلَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّلَا مَمْنُوْعَةٍ۝۳۳ۙ [119]

ترجمہ:اور کبھی ختم نہ ہونے والےاور بےروک ٹوک ملنے بکثرت پھل ۔

 وَدَانِیَةً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَا وَذُلِّـلَتْ قُطُوْفُہَا تَذْلِیْلًا۝۱۴ [120]

ترجمہ:جنت کی چھاؤں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی، اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: إِذَا قَامَ ارْتَفَعَتْ بِقَدْرِهِ، وَإِنْ قَعَدَ تَدَلَّتْ حَتَّى یَنَالَهَا، وَإِنِ اضْطَجَعَ تَدَلَّتْ حَتَّى یَنَالَهَا، فَذَلِكَ تَذْلِیلُهَا

مجاہدؒ سے مروی ہے کہ جب جنتی کھڑا ہوگا تو وہ اسی حساب سے دور ہو جائیں گے، اور جب بیٹھے گا یا لیٹے گا تو وہ اسی انداز سے اس کے قریب ہو جائیں گے، پس نہ کسی دوری کا کوئی سوال ہوگا اور نہ کسی کانٹے وغیرہ کا کوئی خطرہ ،اسی طرح ان درختوں کے گھنے سائے ہوں گے۔[121]

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا۝۰ۭ لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ۝۰ۡ وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا۝۵۷ [122]

ترجمہ:اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکسوف پڑھی اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ سے حرکت کی

قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَیْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَیْئًا فِی مَقَامِكَ ثُمَّ رَأَیْنَاكَ كَعْكَعْتَ؟قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی رَأَیْتُ الجَنَّةَ، فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا، وَلَوْ أَصَبْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ کودیکھا کہ(نمازمیں ) آپ اپنی جگہ سے کچھ آگے بڑھے اورپھراس کے بعدپیچھے ہٹ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت کودیکھا تھاجوتروتازگی سے مہک رہی تھی میں نےاس کاایک خوشہ توڑنا چاہا تھالیکن میرے اوراس کے درمیان آڑکردی گئی ، اگرمیں اسےتوڑسکتاتوتم اسےرہتی دنیاتک کھاتے رہتے اورپھرکچھ بھی کم نہ ہوتا۔[123]

عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِیِّ، یَقُولُ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَوْضِ، وَذَكَرَ الْجَنَّةَ، ثُمَّ قَالَ الْأَعْرَابِیُّ: فِیهَا فَاكِهَةٌ؟ قَالَ:نَعَمْ، وَفِیهَا شَجَرَةٌ تُدْعَى طُوبَى ، فَذَكَرَ شَیْئًا لَا أَدْرِی مَا هُوَ؟ قَالَ: أَیُّ شَجَرِ أَرْضِنَا تُشْبِهُ؟ قَالَ:لَیْسَتْ تُشْبِهُ شَیْئًا مِنْ شَجَرِ أَرْضِكَ . فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَیْتَ الشَّامَ؟ فَقَالَ: لَا، قَالَ:تُشْبِهُ شَجَرَةً بِالشَّامِ تُدْعَى الْجَوْزَةُ، تَنْبُتُ عَلَى سَاقٍ وَاحِدٍ، وَیَنْفَرِشُ أَعْلَاهَا ، قَالَ: مَا عِظَمُ أَصْلِهَا؟ قَالَ:لَوْ ارْتَحَلَتْ جَذَعَةٌ مِنْ إِبِلِ أَهْلِكَ، مَا أَحَاطَتْ بِأَصْلِهَا حَتَّى تَنْكَسِرَ تَرْقُوَتُهَا هَرَمًا قَالَ: فِیهَا عِنَبٌ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَمَا عِظَمُ الْعُنْقُودِ؟ قَالَ:مَسِیرَةُ شَهْرٍ لِلْغُرَابِ الْأَبْقَعِ، وَلَا یَفْتُرُ

عتبہ بن عبدسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دیہاتی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حوض ،ثر و جنت کے متعلق سوالات پوچھنے لگاپھراس دیہاتی نے پوچھاکیا جنت میں میوے ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! اور وہاں طوبی نامی ایک درخت بھی ہوگااس نے پوچھا کہ زمین کے کس درخت کے ساتھ آپ اسے تشبیہ دے سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری زمین پر ایک درخت بھی ایسا نہیں ہے جسے اس کے ساتھ تشبیہ دی جاسکے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم شام گئے ہو؟اس نے کہا نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے مشابہہ درخت شام میں ہے جسے اخروٹ کا درخت کہتے ہیں وہ ایک بیل پر قائم ہوتا ہے اور اوپر سے پھیلتا جاتا ہے، اس نے پوچھا کہ اس کی جڑ کی موٹائی کتنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارے گھریلو اونٹ کا کوئی جذعہ روانہ ہو تو وہ اس کی جڑ کا اس وقت تک احاطہ نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کی ہڈیاں بڑھاپے کی وجہ سے چرچرانے نہ لگیں ( مراد جنت کا درخت ہے)اس بدوی نے پوچھاکیااس میں انگورہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،اس نے پوچھااس کے خوشے کتنے بڑے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااتنے بڑے ہوں گے کہ کوئی کالاکوامہینہ بھراڑتارہے توبھی اس کے خوشے سے باہر نہیں نکل سکے گا۔[124]

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا نَزَعَ ثَمَرَةً مِنَ الْجَنَّةِ عَادَتْ مَكَانَهَا أُخْرَى

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنتی جب کوئی پھل توڑیں گے اسی وقت اس کی جگہ دوسرالگ جائے گا۔[125]

 عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ یَأْكُلُونَ فِیهَا وَیَشْرَبُونَ، وَلَا یَتْفُلُونَ وَلَا یَبُولُونَ وَلَا یَتَغَوَّطُونَ وَلَا یَمْتَخِطُونَ، قَالُوا: فَمَا بَالُ الطَّعَامِ؟قَالَ:جُشَاءٌ وَرَشْحٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ،وَیُلْهَمُونَ التَّسْبِیحَ وَالتَّقْدِیسَ كَمَا یُلْهَمُونَ النَّفَسَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجنتی خوب کھائیں گے اورپئیں گے لیکن نہ تھوکیں گے نہ پیشاب کریں گےنہ پاخانہ کریں گے نہ ناک سنکیں گے، لوگوں نے عرض کیاپھرکھاناکدھرجائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک ڈکارہوگی اورپسینہ آئے گااس میں مشک کی خوشبو ہوگی (پس ڈکاراورپسینہ سے کھاناہضم ہوجائے گا ) اورتسبیح اور تحمید(یعنی سبحان اللہ اورالحمدللہ) کاان کو الہام ہوگاجیسے سانس کا الہام ہوتاہے۔[126]

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْیَهُودِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: أَتَزْعُمُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ یَأْكُلُونَ وَیَشْرَبُونَ؟ جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْیَهُودِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: أَتَزْعُمُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ یَأْكُلُونَ وَیَشْرَبُونَ؟ , قَالَ: إِی وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ لَیُعْطَى قُوَّةَ مِائَةِ رَجُلٍ فِی الْأَكْلِ وَالشَّرْبِ وَالْجِمَاعِ وَالشَّهْوَةِ،فَقَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّ الَّذِی یَأْكُلُ وَیَشْرَبُ تَكُونُ لَهُ الْحَاجَةُ،وَلَیْسَ فِی الْجَنَّةِ أَذًى؟ ( فَقَالَ لَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَكُونُ حَاجَةُ أَحَدِهِمْ رَشْحًا یُفِیضُ مِنْ جُلُودِهِمْ كَرِیحِ الْمِسْكِ فَیَضْمُرُ بَطْنُهُ )

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہودمیں سے ایک شخص آیااوراس نے عرض کی اے ابوقاسم!آپ کاکیاخیال ہے کہ اہل جنت کھائیں گے پئیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جنت کے ایک آدمی ،کھانے،پینے،جماع اورشہوت کے اعتبارسے ایک سوآدمیوں کی طاقت دی جائے گی ، اس شخص نے کہاجوکھاتاپیتاہے اسے حاجت بھی پیش آتی ہے حالانکہ جنت میں کوئی تکلیف دہ بات نہ ہوگی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کی حاجت ایک پسینے سے پوری ہو جائے گی جوان کی جلدوں سے بہے گااوراس کی خوشبوکستوری جیسی ہوگی چنانچہ اس سے پیٹ ہلکاہوجائے گا۔[127]

اس روایت کادوسراحصہ مختلف احادیث سے لیاگیاہے۔

یہ انجام ہے متقی پرہیز گار لوگوں گااورمنکرین حق کاانجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے،پس دیکھ لودونوں فریقوں کے درمیان کتناواضح فرق ہے۔

وَالَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ یَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن یُنكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَیْهِ أَدْعُو وَإِلَیْهِ مَآبِ ‎﴿٣٦﴾‏ وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِیًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِیٍّ وَلَا وَاقٍ ‎﴿٣٧﴾‏(الرعد)
’’جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو جو کچھ آپ پر اتارا جاتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں اور دوسرے فرقے اس کی بعض باتوں کے منکر ہیں، آپ اعلان کر دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں، میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں اور اسی کی جانب میرا لوٹنا ہے، اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان اتارا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشوں کی پیروی کرلی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو اللہ (کے عذابوں) سے آپ کو کوئی حمایتی ملے گا اور نہ بچانے والا ۔‘‘

شاداں وفرحاں لوگ :

دعوت حق کے مخالفین کہتے تھے کہ اگرواقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعویٰ کے مطابق وہی تعلیم لے کرآئے ہیں توپھراہل کتاب اس پرایمان کیوں نہیں لاتے ، انہیں توسب سے پہلے ایمان لاناچاہیے تھا،ان کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جن لوگوں کوہم نے پہلے تورات وانجیل دی تھی،اوروہ اس کے عامل ہیں اورپھروہ اس آخری کلام الٰہی پربھی ایمان لاتے اورتصدیق کرتے ہیں ،اورکتب الہیہ کی ایک دوسری کے ساتھ موافقت وتصدیق اور قرآن کے صدق کے دلائل وشواہدکودیکھ کرمزیدشاداں وفرحاں ہوتے ہیں اور اظہار تشکر کے لئے اپنے معبودحقیقی کے سامنے سجدہ ریزہوجاتے ہیں ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۔۔۔ ۝۱۲۱ۧ [128]

ترجمہ:۔جن لوگوں کوہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کاحق ہے،وہ اس (قرآن)پرسچے دل سے ایمان لے آتے ہیں ۔

قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْہِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷وَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸ۙوَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹۞ [129]

ترجمہ: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانوجن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ،اور پکار اٹھتے ہیں پاک ہے ہمارا رب!اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا،اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کو ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔

وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلہِ۝۰ۙ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ ثَـمَنًا قَلِیْلًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۱۹۹ [130]

ترجمہ:اہل کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں ، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی، اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا۔

اور یہودونصاریٰ میں ایسے بھی ہیں جومحض اپنے بغض وعنادکی وجہ سے اس کے کچھ حصے کاانکارکرتے ہیں جیسے فرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ۝۰ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ۝۴۱ۧ [131]

ترجمہ:(اے نبی!)ہم نے سب انسانوں کے لئے یہ کتاب برحق تم پرنازل کردی ہے ،اب جو سیدھا راستہ اختیارکرے گااپنے لئے کرے گااورجوبھٹکے گااس کے بھٹکنے کا وبال اسی پرہوگا،تم ان کے ذمہ دارنہیں ہو۔

چنانچہ خواہ کوئی خوش ہویاناراض تم صاف صاف اعلان کر دوکہ جس طرح پہلے انبیاء کو اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کاحکم دیاگیاتھااسی طرح مجھے بھی صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کاحکم دیاگیاہے اوراس سے منع کیاگیاہے کہ کسی کواس کی ذات ،صفات اورحقوق میں شریک ٹھہراؤں اوربہرحال میں اسی کی پیروی کروں گا لہذامیں تمہیں اس سیدھے راستے کی طرف دعوت دیتاہوں جوسیدھا اللہ وحدہ لاشریک کی طرف جاتا ہے،جس میں اس کی رضاوخوشنودی ہے ،اورجس میں دنیا وآخرت کی فلاح وکامرانی ہےاوراسی کی طرف میرالوٹنا ہے،جس طرح پہلے رسولوں پرمقامی زبانوں میں کتابیں نازل کی گئیں تھی اسی طرح ہم نے یہ محکم کتاب قرآن کریم فصیح ترین عربی زبان میں تم پرنازل کیا ہےجس کے نہ آگے سے باطل آسکتاہے اورنہ پیچھے سے آکر اس میں مل سکتاہے تاکہ مخاطبین اول اہل عرب کوئی عذرنہ کرسکیں ،جیسے فرمایا

لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [132]

ترجمہ:باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

یہودونصاری ٰ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے اپناقبلہ بنائے رکھیں اوران کے معتقدات کی مخالفت نہ کریں تو فرمایااب اگرتم نے اس واضح علم کے باوجودجوبذریعہ وحی تمہارے پاس آچکاہے اورجس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پرواضح کردی گئی ہےان بے علم لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تواللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہاراحامی ومددگارہے اورنہ کوئی اس کے پکڑسے تم کوبچاسکتاہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّیَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن یَأْتِیَ بِآیَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ‎﴿٣٨﴾‏ یَمْحُو اللَّهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ‎﴿٣٩﴾(الرعد)
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا، کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے، ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے، اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے لوح محفوظ اسی کے پاس ہے ۔

ہرکام کاوقت مقررہے :

پہلی امتوں کی طرح مشرکین مکہ بھی عیب چینی کرتے تھے کہ یہ کیسانبی ہے جوبازاروں میں چلتاپھرتاہے،جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں وہ بھی کھاتاپیتاہے ، جس طرح ہم بیوی بچے رکھتے ہیں وہ بھی بیوی بچے رکھتاہےبھلاپیغمبروں کوخواہشات نفسانی سے کیاتعلق ہوسکتاہے،ان کے لایعنی اعتراض کے جواب میں فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے بھی ہم ہربستی اورہرامت میں رسول بھیج چکے ہیں جوفرشتے یاکوئی نورانی مخلوق نہیں بلکہ بشرہی تھے ،ان کااپناخاندان ،قبیلہ اور بیوی بچے تھےاوروہ دوسرے انسانوں کی طرح کھاناکھاتے ،پانی پیتے اورمعاشی ضروریات کے لئے بازاروں میں چلتے پھرتے تھے،جیساکہ اشرف الرسل کوفرمایا;

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ ۔۔۔۝۱۱۰ۧ [133]

ترجمہ:اے نبی!کہوکہ میں توایک انسان ہوں تم ہی جیسامیری طرف وحی کی جاتی ہے۔

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُیُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّی أُصَلِّی اللَّیْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا،

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں ، آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہوگئے ہیں ،ایک نے کہا میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا،دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گااورکبھی ناغہ نہیں کروں گا،تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا،

فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِمْ، فَقَالَ:أَنْتُمُ الَّذِینَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا؟ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّی لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّی أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّی وَأَرْقُدُوَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ،فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں ، یوں یوں کہا ہے؟اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں ، پھر روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں ۔[134]

ایک اعتراض یہ بھی تھاکہ موسیٰ علیہ السلام عصا اور یدبیضا کامعجزہ لائے تھے ، عیسیٰ علیہ السلام مادر ذاداندھوں کوبینااورکوڑھیوں کوتندرست کردیاکرتے تھے،صالح علیہ السلام نے اونٹنی کامعجزہ دکھایاتھایہ رسول توکوئی معجزہ بھی نہیں لایا،اس کے جواب میں فرمایامعجزہ دکھانا کسی رسول کے اختیاروطاقت میں نہیں تھا ،معجزہ دکھلاناتواللہ تعالیٰ کے اختیارمیں ہے اوروہ اپنی حکمت ومشیت اورقضاوقدر کے مطابق فیصلہ فرماتاہے کہ معجزہ ظاہرکرناچاہئے یانہیں یاکب اورکس طرح ظاہرکرناچاہیے ،پھرتم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں معجزات کامطالبہ کرتے ہو،مشرکین یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ جب سابقہ منزل کتابیں موجودتھیں تو پھراس نئی کتاب کی کیاضرورت تھی اوراگریہ کتاب بھی منزل من اللہ ہے تواس کے بعض احکام مثلاًحلال وحرام تورات کے خلاف کیوں ہیں ؟ فرمایا ہروہ امرجسے اللہ نے لکھ رکھاہے اس کاایک وقت مقررہے ،کوئی بھی معاملہ کفارومشرکین کے ارادے اورمنشاپرنہیں بلکہ صرف اورصرف اللہ کی مشیت پرموقوف ہے ،اللہ نے جوتقدیرلکھ رکھی ہے اس میں وہ محوواثبات کرتارہتاہے ،ام الکتاب اسی کے پاس ہے،اس کی تائیدبعض احادیث وآثار سے ہوتی ہے ،

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،رَفَعَهُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا یَزِیدُ فِی الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصِیبُهُ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادعاسے تقدیربدل جاتی ہے،اورصلہ رحمی سے عمرمیں اضافہ ہوتا ہے،آدمی گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔[135]

عَنْ أَبِی وَائِلٍ شَقِیق بْنِ سَلَمَةَ: إِنَّهُ كَانَ یَكْثُرُ أَنْ یَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ، إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا أَشْقِیَاءَ فَامْحُهُ، وَاكْتُبْنَا سُعَدَاءَ، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَأَثْبِتْنَا، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ

شفیق بن سلمہ اکثریہ دعاکیاکرتے تھےاے اللہ! اگرتونے ہمیں بد بختوں میں لکھاہے تو اسے مٹادے اورہماری گنتی نیکیوں میں لکھ لے اور اگرتونے ہمیں نیک لوگوں میں لکھاہے تواسے باقی رکھ ، توجوچاہے مٹادے اورجوچاہے باقی رکھے،اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے ۔ [136]

عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّهْدی؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ وَهُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَهُوَ یَبْكِی: اللَّهُمَّ، إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَ عَلَیَّ شِقْوَةً أَوْ ذَنْبًا فَامْحُهُ، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ، وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ، فَاجْعَلْهُ سَعَادَةً وَمَغْفِرَةً

اور عثمان النہدی سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  بن خطاب بیت اللہ کے طواف کے دوران روتے ہوئے یہ دعاپڑھتےاے اللہ !اگرتونے مجھ پربدبختی اورگناہ لکھاہے تواسے مٹا دے اس لئے کہ توجوچاہے مٹائے اورجوچاہے باقی رکھےتیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے،پس توبدبختی ،سعادت اور مغفرت سے بدل دے۔[137]

 عَنْ شَقِیقٍ، أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ:اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا أَشْقِیَاءَ، فَامْحُنَا وَاكْتُبْنَا سُعَدَاءَ، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَأَثْبِتْنَا، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ، وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ

اورشفیق بن سلمہ اکثروبیشتریہ دعا کرتے تھےاے میرے رب!اگرتونے ہمیں بدبختوں میں لکھاہے تواسے مٹادے اور ہمارا شمارخوش بختوں میں کرلےاوراگرتوہمیں سعادت مندلوگوں میں لکھا ہے تواسے باقی رکھ، توجوچاہئےمٹادے اورجوچاہئے باقی رکھے ،اصل کتاب تیرے ہی پاس محفوظ ہے۔[138]

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِی فِی السُّعَدَاءِ فَأَثْبِتْنِی فِیهِمْ، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِی فِی الْأَشْقِیَاءِ فَامْحُنِی مِنَ الْأَشْقِیَاءِ وَاكْتُبْنِی فِی السُّعَدَاءِ، فَإِنَّكَ: تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ، وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ

اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما یہ دعافرماتے تھےاے اللہ!اگرتو، مجھے خوش بختوں میں لکھاہے تواسے قائم رکھنااوراگرتونےمجھے بدبختوں میں لکھاہے تواسے مٹادے اورمجھے خوش بختوں میں لکھ دے توجوچاہئےمٹادے اورجوچاہئے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس محفوظ ہے۔[139]

وَكَانَ أَبُو وَائِلٍ یُكْثِرُ أَنْ یَدْعُوَ:اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا أَشْقِیَاءَ فَامْحُ وَاكْتُبْنَا سُعَدَاءَ، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَأَثْبِتْنَا ، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ

اورابووائل بھی اپنی دعاؤں میں یہ فرماتے تھےاے اللہ!اگرتونےمجھے بدبختوں میں لکھاہے تواسے مٹادے اورمجھے خوش بختوں میں لکھ دےاوراگرتونے مجھے خوش بختوں میں لکھاہے تواسے قائم رکھناتوجوچاہئےمٹادے اورجوچاہئے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس محفوظ ہے۔[140]

وَإِن مَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ ‎﴿٤٠﴾‏ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَأْتِی الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿٤١﴾‏ وَقَدْ مَكَرَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِیعًا ۖ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۗ وَسَیَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ ‎﴿٤٢﴾‏وَیَقُولُ الَّذِینَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ ‎﴿٤٣﴾‏(الرعد)
’’ان سے کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی اگر ہم آپ کو دکھا دیں یا آپ کو ہم فوت کرلیں تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے،حساب تو ہمارے ہی ذمہ ہی ہے،کیا وہ نہیں دیکھتے؟ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ،اللہ حکم کرتا ہے کوئی اس کے احکام پیچھے ڈالنے والا نہیں، وہ جلد حساب لینے والا ہے،ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی مکاری میں کمی نہ کی تھی، لیکن تمام تدبیریں اللہ ہی کی ہیں، جو شخص جو کچھ کر رہا ہے اللہ کے علم میں ہے ،کافروں کو ابھی معلوم ہوجائے گا کہ(اس) جہان کی جزا کس کے لیے ہے ؟ یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں،آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔‘‘

مشرکین چیلنج کے اندازمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ جس دردناک عذاب کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہووہ آخرکیوں نازل نہیں ہوجاتا،ان کے اس اعتراض کاجواب فرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کفارکوجس عذاب کی وعیدسنائی گئی ہے آپ اس کے بارے میں جلدی نہ کریں ،اگروہ اپنی سرکشی اورکفرپرجمے رہے تووہ عذاب ان کوضرورآئے گاجس کی ان کووعیدسنائی گئی ہے ،اگر اس عذاب کاکوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھادیں جس سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں یااس کے ظہورمیں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں تمہارااس سے کوئی تعلق نہیں کہ ان کاانجام کیاہوگا، تمہاراکام صرف دعوت حق کوواضح طورپر پہنچادیناہے اورتم اسے پوری یکسوئی کے ساتھ سرانجام دیتے رہو، اب جواس دعوت سے منہ پھیرے اورسرکشی وبغاوت کرے تو ان کے اعمال اورذمہ داریوں کاحساب لیناہماراکام ہے ،جیسے فرمایا

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۙاِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَكَفَرَ۝۲۳فَیُعَذِّبُہُ اللہُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ۝۲۴ۭاِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ۝۲۵ۭۙۙثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ۝۲۶ۧ [141]

ترجمہ: اچھاتو(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نصیحت کیے جاؤ ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہوکچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو،البتہ جو شخص منہ موڑے گا اور انکار کرے گاتو اللہ اس کودردناک عذاب دے گاان لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے،پھر ان کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے۔

کیایہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ عرب کی سرزمین مشرکین پربتدریج تنگ ہورہی ہے،اہل ایمان کافروں کودباتے چلے آرہے ہیں اوراسلام کوعرب کے گوشے گوشے میں غلبہ وعروج حاصل ہورہاہے ؟

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {أَنَّا نَأْتِی الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا} قَالَ:أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَفْتَحُ لِمُحَمَّدٍ الْأَرْضَ بَعْدَ الْأَرْضِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  ’’ہم زمین کواس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ۔‘‘اس کے معنی یہ ہیں کیاانہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوایک زمین کے بعددوسری زمین پرفتح عطاکررہے ہیں ۔[142]

اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان کائنات پرحکومت کررہاہے اورکائنات کی کوئی ہستی اس کے حکموں کوپیچھے ڈالنے والی یا ان فیصلوں میں خامی اورنقص تلاش کرنے کی طاقت واختیار نہیں رکھتی،وہ گناہ گاروں کوایک وقت تک ڈھیل ضرور دیتا ہے مگرجب عذاب نازل کرنے کافیصلہ کرتاہے توپھر اسے حساب لیتے کچھ دیرنہیں لگتی،ان سے پہلے جولوگ گزر چکے ہیں وہ بھی دعوت حق کاراستہ روکنے،انبیاء کواپنی بستیوں سے نکالنے یاقتل کے لئے مکروفریب اورظلم وتشددکے ہتھیاراستعمال کر چکے ہیں مگراللہ نے ہمیشہ انبیاء اوراہل ایمان کی مددونصرت فرمائی اور اللہ کی تدبیرکے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیراورحیلہ کارگرنہیں ہوا،جیسے فرمایا:

وَاِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَیَمْكُـرُوْنَ وَیَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَیْرُ الْمٰكِـرِیْنَ۝۳۰ [143]

ترجمہ:وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کر دیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے ۔

وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۵۰ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِہِمْ۝۰ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۵۱ [144]

ترجمہ:یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی،اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہواہم نے تباہ کر کے رکھ دیا ان کو اور ان کی پوری قوم کو ۔

آخر اللہ نے ان کے اعمال کی پاداش میں ان امتوں پردردناک عذاب نازل کیااورانہیں عبرت کانشان بنادیا، اسی طرح اللہ آئندہ بھی اپنے رسول اوراہل ایمان کی نصرت فرمائے گااورکفارومشرکین کاکوئی مکروفریب اللہ کی مشیت کے سامنے نہیں ٹھہرسکے گا ،اللہ اپنے بندوں کے ہر چھوٹے بڑے ،ظاہری وپوشیدہ اعمال پرنظررکھتاہے ،اس کے مقررفرشتے بھی ان کے تمام اعمال قلمبندکررہے ہیں اورروزمحشراس کے مطابق وہ جزاوسزادے گا،اور یہ مکذبین دیکھ لیں گے کہ اچھا انجام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کا ہوتاہے یا کفارومشرکین کا،یہ کفارومشرکین حق جاننے کے باوجود کہتے ہیں کہ تم اللہ کے رسول نہیں ہو ، کہومیرے اورتمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اوروہ جانتاہے کہ میں اس کاسچارسول اوراس کے پیغام کاداعی ہوں اورتم جھوٹے ہو،اس کے ساتھ اہل کتاب کے حق گوعالموں کی گواہی کافی ہے،جواپنی کتابوں میں میری صفات اورمیری بعثت کی بشارت موجودپاتے ہیں ، جیسے فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ ۔۔۔۝۱۵۷ۧ [145]

ترجمہ:(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر ، نبی امی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔

[1] یوسف۱۰۳

[2] الطلاق۱۲ 

[3] الحج۶۵

[4] الاعراف۵۴

[5] یٰسین ۳۸،۳۹

[6] الملک۲۴

[7] الغاشیة۲۰

[8] القصص۷۳

[9]الانفال۳۲

[10]ص۱۶

[11] العنکبوت۵۳،۵۴

[12] المعارج۱

[13] الزمر۵۳

[14] فاطر۴۵

[15] الانعام۱۴۷

[16] الاعراف۱۶۷

[17] الحجر۴۹،۵۰

[18] البقرة۲۷۲

[19] القصص۵۶

[20] فاطر۲۴

[21] الطلاق۱۲

[22] لقمان۳۴

[23] النجم ۳۲

[24] الزمر۶

[25] المومنون۱۲تا۱۴

[26] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ ۳۳۳۲، صحیح مسلم کتاب القدربَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ۶۷۲۳

[27] صحیح بخاری كِتَابُ القَدَرِ بَابٌ فِی القَدَرِ۶۵۹۵،صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ۶۷۳۰، مسند احمد ۱۲۱۵۷

[28]صحیح بخاری كِتَابُ الجَنَائِزِبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ ۱۲۸۴،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۲۱۳۵

[29] طہ۷

[30] النمل۲۵

[31] ھود۵

[32] یونس۶۱

[33] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ ۵۵۵،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا۱۴۳۲، مسنداحمد ۸۵۳۸

[34] مسنداحمد۳۶۴۸،صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ بَابُ تَحْرِیشِ الشَّیْطَانِ وَبَعْثِهِ سَرَایَاهُ لِفِتْنَةِ النَّاسِ وَأَنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ قَرِینًا۷۱۰۸

[35] بنی اسرائیل۴۴

[36] النحل۵۰

[37] مسند احمد ۲۳۶۸۶

[38] العظمة لابی الشیخ الاصبھانی ذِكْرُ السَّحَابِ وَصِفَتِهِ ۱۲۴۳؍۴         

[39] مسنداحمد۵۷۶۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ بَاب مَا یَقُولُ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ ۳۴۵۰،مستدرک حاکم۷۷۷۲

[40] مسند احمد ۱۱۶۲۰، مستدرک حاکم ۸۳۷۳

[41] الرعد: 13

[42] الأدب المفرد۷۲۳،موطاامام مالک کتاب الْكَلاَمُ باب الْقَوْلُ إِذَا سَمِعْتَ الرَّعْدَ

[43] مسنداحمد۸۷۰۸

[44] تفسیرطبری۴۰۰؍۱۶

[45] تفسیر طبری ۴۰۰؍۱۶

[46] الاعراف۴۰

[47] النحل۴۸

[48] الحج۱۸

[49] بنی اسرائیل۴۴

[50] البقرة۷۴

[51] الرعد۱۳

[52]۔الزخرف۸۷

[53] المومنون ۸۴ ، ۸۵

[54] الزمر۳۸

[55] المومنون ۸۶،۸۷

[56] المومنون۸۸،۸۹

[57] یونس ۳۱

[58] العنکبوت ۶۱

[59] العنکبوت ۶۳

[60] بنی اسرائیل۸۱

[61] البقرة۱۷،۱۸

[62] البقرة۱۹

[63] النور۳۹

[64] النور۴۰

[65]صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۷۴۳۹،صحیح ابن حبان ۷۳۷۷

[66] النور۴۰

[67] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ ۷۹،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ بَیَانِ مَثَلِ مَا بُعِثَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ۵۹۵۳ ، صحیح ابن حبان ۴،السنن الکبری للنسائی ۵۸۱۲،مسندابی یعلی ۷۳۱۱،شرح السنة للبغوی ۱۳۵، مسند احمد۱۹۵۷۳

[68] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ الِانْتِهَاءِ عَنِ المَعَاصِی ۶۴۸۳،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَمُبَالَغَتِهِ فِی تَحْذِیرِهِمْ مِمَّا یَضُرُّهُمْ۵۹۵۷،مسنداحمد۸۱۱۷

[69] یونس۲۶

[70] الکہف۸۷،۸۸

[71] النساء: 123

[72] الانشقاق: 8

[73] سنن ابوداودكِتَاب الْجَنَائِزِ بَابُ عِیَادَةِ النِّسَاءِ۳۰۹۳

[74] الانشقاق: 8

[75] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورة اذاالسماء انشقت بَابُ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا۴۹۳۹،وکتاب العلم بَابُ مَنْ سَمِعَ شَیْئًا فَلَمْ یَفْهَمْهُ فَرَاجَعَ فِیهِ حَتَّى یَعْرِفَهُ۱۰۳،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ إِثْبَاتِ الْحِسَابِ۷۲۲۵،مسند احمد ۲۵۷۰۷

[76] الحشر۲۰

[77] حم السجدة۳۴

[78]جامع ترمذی ابواب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی الإِحْسَانِ وَالعَفْوِ ۲۰۰۷، مسندالبزار۲۸۰۲، شرح السنة للبغوی۳۴۴۴

[79] جامع الاصول فی أحادیث الرسول ۹۳۱۷،جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد۹۶۸۴

[80] سنن ابوداودکتاب الاجارة بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَأْخُذُ حَقَّهُ مَنْ تَحْتَ یَدِهِ۳۵۳۵،جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ لِلْمُسْلِمِ أَنْ یَدْفَعَ إِلَى الذِّمِّیِّ الخَمْرَ یَبِیعُهَا لَهُ ۱۲۶۴،شعب الایمان۴۸۷۳،مستدرک حاکم۲۲۹۶،المعجم الاوسط۳۵۹۵، مسندالبزار۹۰۰۲،سنن دارقطنی۲۹۳۶،سنن الدارمی۲۶۳۹،السنن الکبری للبیہقی۲۱۳۰۳،معرفة السنن ولآثار۲۰۳۷۶،السنن الصغیرللبئیہقی۲۳۳۹، شرح السنة للبغوی۲۱۴۹

[81] الطور۲۱

[82] صحیح مسلم کتاب الذکرو الدعاءبَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ ۶۸۵۳،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ ۲۲۵

[83] الرعد: 24

[84] مسند احمد۶۵۷۰

[85] المعجم الصغیرللطبرانی۲۱۳،معجم ابن عساکر۵

[86] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ ۳۳،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ۲۱۱

[87] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ ۳۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ۲۱۰

[88] المومنون۵۵،۵۶

[89] النسائ۷۷

[90] الاعلی۱۶،۱۷

[91] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۷۱۹۷، مسنداحمد۱۸۰۰۹،صحیح ابن حبان ۴۳۳۰،السنن الکبری للنسائی ۱۱۷۹۷

[92] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن المومن وجنة للکافر۷۴۱۸

[93] الانبیائ۵

[94] الانعام۱۱۱

[95]مسنداحمد۲۱۶۶،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۲۷۳۶،مستدرک حاکم ۱۷۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۳۲،تفسیرابن کثیر۴۳۴؍۴

[96] الواقعة ۳۰

[97] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۶۵۵۲،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ شَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا یَقْطَعُهَا۷۱۳۸

[98] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ۶۵۵۳،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ شَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا یَقْطَعُهَا ۷۱۳۸

[99] النحل۶۳

[100] الانعام۳۴

[101] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ ۲۷۳۱، ۲۷۳۲

[102] بنی اسرائیل ۱۱۰

[103] صحیح مسلم کتاب الآداب بَابُ النَّهْیِ عَنِ التَّكَنِّی بِأَبِی الْقَاسِمِ وَبَیَانِ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْأَسْمَاءِ۵۵۸۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الأَسْمَاءِ۲۸۳۴،معجم ابن عساکر۲۵۱

[104] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَآتَیْنَا دَاوُدَ زَبُورًا ۳۴۱۷ ،شرح السنة للبغوی ۲۰۲۷،صحیح ابن حبان ۶۲۲۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۶۹۲

[105] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابٌ كَیْفَ نَزَلَ الوَحْیُ، وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ ۴۹۸۱، وكِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الكَلِمِ۷۲۷۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۵

[106] الاحقاف۲۷،۲۸

[107] ابراہیم۴۷

[108] الحج۴۸

[109] صحیح بخاری تفسیرسورة ھودبَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ۴۶۸۶ ،صحیح مسلم کتاب البر والصلة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۱

[110] الانعام۱۰۰

[111] النجم۲۳

[112] حم السجدة۲۵

[113] المائدة۴۱

[114] النحل۳۷

[115] صحیح مسلم كِتَابُ اللِّعَانِ۳۷۴۶، سنن نسائی كِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ عِظَةِ الْإِمَامِ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَةَ عِنْدَ اللِّعَانِ ۳۵۰۳،جامع ترمذی ابواب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی اللِّعَانِ ۱۲۰۲، مسنداحمد۴۶۹۳، صحیح ابن حبان ۴۲۸۶،السنن الکبری للنسائی ۵۶۳۷،سنن دارمی ۲۲۷۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۳۴۲،مسندابی یعلی ۵۶۵۶، شرح السنة للبغوی ۲۳۷۰

[116] الفجر ۲۵،۲۶

[117] الفرقان۱۱تا۱۴

[118] محمد۱۵

[119] الواقعة۳۲،۳۳

[120] الدھر۱۴

[121] تفسیرطبری۱۰۳؍۲۴

[122] النسائ۵۷

[123] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ جَمَاعَةً وَصَلَّى ۱۰۵۲،صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۲۱۰۹

[124] مسند احمد ۱۷۶۴۲،المعجم الکبیرللطبرانی۳۱۲

[125] معجم الکبیر للطبرانی ۱۴۴۹

[126] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابٌ فِی صِفَاتِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِهَا وَتَسْبِیحِهِمْ فِیهَا بُكْرَةً وَعَشِیًّا۷۱۵۲، مسند احمد ۱۴۷۶۹، صحیح ابن حبان ۷۴۳۵،سنن الدارمی ۲۸۶۹،شرح السنة للبغوی ۴۳۷۵

[127] السنن الکبری للنسائی۱۱۴۱۴

[128] البقرة۱۲۱

[129] بنی اسرائیل۱۰۷تا۱۰۹

[130] آل عمران۱۹۹

[131] الزمر۴۱

[132] حم السجدة۴۲

[133] الکہف۱۱۰

[134] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ التَّرْغِیبِ فِی النِّكَاحِ ۵۰۶۳،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَیْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ۳۴۰۳، مسنداحمد۶۴۷۷،۱۳۵۳۴،صحیح ابن حبان۳۱۷

[135] مسند احمد ۲۲۴۱۳، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۴۴۲،مستدرک حاکم۱۸۱۴،شرح السنة للبغوی۳۴۱۸، سنن ابن ماجہ کتاب المقدمة باب فی القدر۹۰

[136] (تفسیرابن کثیر۴۷۲؍۴)

[137] تفسیرابن کثیر۴۷۲؍۴

[138] تفسیرطبری۴۸۱؍۱۶

[139] تفسیرالقرطبی ۳۳۰؍۹

[140] تفسیرالقرطبی۳۳۰؍۹

[141] الغاشیة۲۱تا۲۶

[142] تفسیر طبری ۴۹۳؍۱۶

[143] الانفال۳۰

[144] النمل۵۰،۵۱

[145] الاعراف۱۵۷

Related Articles