بعثت نبوی کا گیارهواں سال

مضامین سورة الحجر

مضامین سورة الحجر

اس سورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی اورحوصلہ افزائی کی گئی کہ ہم ان کفارومشرکین کوکافی ہیں جوعذاب خاص کے مستحق ہیں جو دعوت حقہ کوقبول کرنے کے بجائے اس کاستہزاء کرتے ہیں اوراس دعوت کاروکنے اورناکام بنانے کے لیے طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے ہیں ،اس سورہ میں نصیحت وتفہیم اورسابقہ امتوں قوم لوط،قوم شعیب،قوم ثمود پرتفضیلی عذاب کے واقعات کوبطورشہادت پیش کرکے توحید،اللہ کی قدرت اور وحدانیت پر دلائل دیئے گئے جوچیخ چیخ کراپنے خالق کے وجوداوراس کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں اوربتایاگیاکہ ہم نے ہی اس قرآن کونازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دارہیں ،انسان کامقصد تخلیق ، رب کی بارگاہ میں شیطان کا دعویٰ اوراس کو قیامت تک مہلت ،نیک لوگوں کی صفات وکرداربیان کرکے فرمایاگیاکہ رب کی صراط مستقیم پرچلنے میں جومشکلات ومصائب اورپریشانیاں آتی ہیں ان کا حل یہ ہے کہ رب کی حمدوثنا کثرت سے کی جائے جس سے روحانی وقلبی تسکین ملتی ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الر ۚ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِینٍ ‎﴿١﴾‏ رُّبَمَا یَوَدُّ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِینَ ‎﴿٢﴾‏ ذَرْهُمْ یَأْكُلُوا وَیَتَمَتَّعُوا وَیُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْیَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ ‎﴿٤﴾‏ مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ ‎﴿٥﴾(الحجر)
’’ا ل ر،یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلی اور روشن قرآن کی ، وہ وقت بھی ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے ، آپ انھیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئیے یہ خودا بھی جان لیں گے ، کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے مقررہ نوشتہ تھا ،کوئی گروہ اپنی موت سے نہ آگے بڑھتاہے نہ پیچھے رہتاہے ۔‘‘

بعدازمرگ پشیمانی :

ا ل ر،یہ کتاب الٰہی اورقرآن کی آیات ہیں جواپنامدعاصاف صاف ظاہرکرتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۝۱۵ۙ [1]

ترجمہ:تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اورایک حق نماکتاب ۔

یقیناً ایک وہ وقت آجائے گاجب وہی لوگ جنہوں نے آج دعوت اسلام کوقبول کرنے سے انکارکردیاہے ،موت کے وقت جب فرشتے انہیں جہنم کی آگ دکھائیں گے،یا میدان محشرمیں جہاں حساب کتاب ہورہا ہو گا اورکفارومشرکین اہل ایمان کوجنت میں عزت واکرام سے جنت میں داخل ہوتے دیکھیں گے یاجب یہ لوگ جہنم کے گڑھے میں پھینک دیئے جائیں گے یااس وقت جب گناہ گاروں ایمانداروں کوکچھ عرصہ بطورسزاجہنم میں رکھنے کے بعدجہنم سے نکالاجائے گااس وقت پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش! ہم نے اللہ کی دعوت پر سر تسلیم خم کردیا ہوتا،کاش! ہم نے اس عظیم نعمت کونہ ٹھکرایاہوتا،کاش ! ہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔

 یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶ [2]

ترجمہ:جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی ہوتی۔

کاش! ہم نے فلاں (دوست یاعزیزیاوڈیرے)کی بات نہ مانی ہوتی۔

 یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ ۔۔۔۝۲۹ [3]

ترجمہ:ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتااس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی۔

مگر اس وقت کایہ پچھتاواان کے کچھ کام نہیں آئے گا،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگریہ کفارومشرکین اپنے کفروشرک سے بازنہیں آرہے توانہیں ان کے حال پرچھوڑدو،یہ دنیاکی چندروزہ زندگی میں خوب عیش وآرام سے رہ لیں اورجھوٹی امیدیں انہیں آخرت کے بھلاوے میں ڈالے رکھیں ،بہت جلدانہیں اپنے کفروشرک کاانجام معلوم ہوجائے گا،جیسے فرمایا

وَلِتَصْغٰٓى اِلَیْهِ اَفْـــِٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَلِیَرْضَوْهُ وَلِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ۝۱۱۳ [4]

ترجمہ:(یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لئے کرنے دے رہے ہیں کہ)جولوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس (خوشنمادھوکے)کی طرف مائل ہوں اوروہ اس سے راضی ہوجائیں اوران برائیوں کااکتساب کریں جن کااکتساب وہ کرناچاہتے ہیں ۔

پس وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے دھوکانہ کھائیں ، اس سے پہلے ہم نے جن قوموں کو بھی عذاب نازل کرکے عبرت کانشان بنایاان کو ہم نے کفرکرتے ہی فوراًنہیں پکڑلیاتھابلکہ ان قوموں کو ایک مقررہ وقت تک سوچنے ،سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے ڈھیل دی تھی،اورکوئی قوم نہ اپنے وقت مقررسے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے نہ اس کے بعد چھوٹ ملتی ہے۔

وَقَالُوا یَا أَیُّهَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ‎﴿٦﴾‏ لَّوْ مَا تَأْتِینَا بِالْمَلَائِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٧﴾‏ مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذًا مُّنظَرِینَ ‎﴿٨﴾‏ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‎﴿٩﴾‏(الحجر)
’’انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے، اگر تو سچا ہی ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا، ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے، ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘

سرکش ومتکبرہلاک ہوں گے :

یہ کفارومشرکین تمسخراوراستہزاکے طورپر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جس پریہ مبارک ذکرنازل ہواہے دیوانہ کہتے اوراس عظیم الشان کلام کوان کااپنا تصنیف کردہ گردانتے ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ،

قوم نوح نے بھی اپنے پیغمبرکو یہی کہاتھا۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ۝۹ [5]

ترجمہ:ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلا چکی ہے،انہوں نے ہمارے بندے کوجھوٹاقراردیااورکہاکہ یہ دیوانہ ہےاوربری طرح جھڑکاگیاہے۔

قوم ہودنے بھی اپنے پیغمبرکویہی کہاتھا

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۶۶ [6]

ترجمہ:اس کی قوم کے سرداروں نے جواس کی بات ماننے سے انکارکردیاتھاجواب میں کہاہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلاسمجھتے ہیں اورہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو۔

قوم ثمودنے بھی اپنے پیغمبرکو ایساہی کہاتھا

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۵۳ۚ [7]

ترجمہ:انہوں نے جواب دیاتومحض ایک سحرزدہ آدمی ہے۔

فرعون نے بھی موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام کویہی کہا تھا

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ۝۲۷ [8]

ترجمہ:فرعون نے (حاضرین سے )کہاتمہارے یہ رسول جوتمہاری طرف بھیجے گئے ہیں بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں ۔

اورکہتے ہیں اگر تو واقعی اللہ کارسول ہے توہمارے سامنے فرشتوں کولے آؤ تاکہ وہ تمہاری رسالت اوراس کتاب کی صداقت کی گواہی دیں ؟یاہمیں ہلاک کردیں ،فرعون نے بھی یہی کہاتھا۔

 فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ۝۵۳ [9]

ترجمہ:کیوں نہیں اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟یافرشتوں کاایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا۝۰ۭ لَـقَدِ اسْـتَكْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا۝۲۱یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا۝۲۲ [10]

ترجمہ:جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ” کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں ؟یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ، بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں ،جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہوگا، چیخ اٹھیں گے کہ پناہ بخدا ،اورجوکچھ بھی ان کاکیادھراہے اسے لے کرہم غبارکی طرح اڑادیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم کسی قوم پر فرشتوں کواس وقت اتارتے ہیں جب ہماری حکمت اورمشیت عذاب بھیجنے کی متقاضی ہوتی ہے پھراس قوم کوجوحق کی پیروی نہیں کرتی ہلاک کردیا جاتا ہے،دنیامیں سینکڑوں نبی آئے،اللہ نے تین سو پندرہ رسولوں پرکتابیں نازل فرمائیں مگر نہ ان رسولوں کی تعلیمات محفوظ رہ سکیں نہ ان کے حالات زندگی اورنہ ہی ان پرمنزل مقدس کتابیں دست بردزمانہ اورتحریف و تغیرسے محفوظ نہ رہ سکیں مگر یہ قرآن کامل ،جوحق و باطل میں فرق کرنے والا،قوی ترین دلائل کے ذریعے سے حقائق کو کھول کھول کربیان کرنے والا ، راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والا،جس کی طرف جھوٹ نہ آگے سے داخل ہوسکتاہے اورنہ پیچھے سے اورجونہایت عظمت وشان والاہے کو ہم نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاہے اوراس کو اوران کی سنت کوقیامت تک دست بردزمانہ ،اورہرطرح کی لفظی ومعنوی تحریف وتغیرسے محفوظ رکھناہماراکام ہے۔

قرآن میں مجیدمیں ایک نہیں متعدد مقامات پریہ دعویٰ موجودہے ،ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں پورے جزیرة العرب میں چندگنتی کے انسان تھے جولکھناپڑھنا جانتے تھے،کسی دستاویزکومحفوظ رکھنے کے لئے جن جن ذرائع واسباب کی ضرورت ہوسکتی ہے ان میں سے کوئی چیزبھی موجودنہ تھی مگر اللہ کے دعویٰ کے مطابق قرآن کریم چودہ سو سال گزرنے کے بعدبھی ہرطرح کی تحریف وتغیرسے پاک ہےجس کاغیرمسلم بھی اقرارکرتے ہیں ،کیایہ قرآن کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِی شِیَعِ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٠﴾‏ وَمَا یَأْتِیهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿١١﴾‏ كَذَٰلِكَ نَسْلُكُهُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿١٢﴾‏ لَا یُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٣﴾‏ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیهِ یَعْرُجُونَ ‎﴿١٤﴾‏ لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ ‎﴿١٥﴾‏(الحجر)
ہم نے آپ سے پہلے اگلی امتوں میں بھی رسول (برابر) بھیجے،اور (لیکن) جو بھی رسول آتا وہ اس کا مذاق اڑاتے، گناہ گاروں کے دلوں میں ہم اسی طرح ہی رچا دیا کرتے ہیں ،وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور یقیناً اگلوں کا طریقہ گزرا ہوا ہے، اور اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کردیا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی فرمائی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے پہلے ہم ہر گزری ہوئی قوموں میں رسول مبعوث کر چکے ہیں مگر کبھی ایسانہیں ہواکہ ان کے پاس کوئی رسول آیاہوجوان کوحق کی طرف دعوت دیتاتھامگر انہوں نے اس کی تکذیب اورازراہ عنادوتکبراس کامذاق نہ اڑایاہو،اہل ایمان کے اندرتویہ ذکرقلب کی ٹھنڈک اورروح کی غذابن کراترتاہے مگرمجرمین کے دلوں میں یہ ذکر شتابہ بن کرلگتاہے،اوران کے دلوں میں ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے گویاکہ ایک گرم سلاخ ان کے سینے کے پارہوگئی ہو،قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آ رہاہے کہ وہ دعوت حق پرایمان نہیں لایاکرتے اوراللہ ان کوہلاک کرتاچلاآرہاہے، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !فرشتوں کانزول توایک طرف رہاان کی سرکشی ، ہٹ دھرمی اورباطل پرستی اس حدتک بڑھ چکی ہے اگر ہم ان کے لئے آسمان کاکوئی دروازہ کھول دیں اوروہ دن دہاڑے بہ ہوش وحواس ان دروازوں سے آسمان پرآنے جانے لگ جائیں تب بھی یہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہورہاہے بلکہ ہم پرجادوکردیاگیاہے،اس لئے ہم ایسامحسوس کررہے ہیں کہ ہم آسمان پر آ جارہے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان لاناہی نہیں چاہتے،جیسے فرمایا

وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ۝۱۱۱ [11]

ترجمہ:اگرہم فرشتے بھی ان پرنازل کردیتے اورمردے ان سے باتیں کرتے اوردنیابھرکی چیزوں کوہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے الایہ کہ مشیت الٰہی یہی ہو(کہ یہ ایمان لائیں )مگراکثرلوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں ۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَیَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِینَ ‎﴿١٦﴾‏ وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَیْطَانٍ رَّجِیمٍ ‎﴿١٧﴾‏ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِینٌ ‎﴿١٨﴾‏ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ وَأَنبَتْنَا فِیهَا مِن كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُونٍ ‎﴿١٩﴾‏ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیهَا مَعَایِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِینَ ‎﴿٢٠﴾(الحجر)
’’یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا گیا ہے، اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا ہے، ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دھکتا ہوا (کھلا شعلہ) لگتا ہے ،اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر (اٹل) پہاڑ ڈال دیئے، اور اس میں ہم نے ہر چیز ایک معین مقدار سے اگادی ہے،اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنادی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو۔‘‘

ستارے اورشیاطین :

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ ،بے مثال صنعت اورکامل اقتدارکا ذکرفرمایاکہ یقیناًہم نے آسمان میں بہت سے مضبوط خطے بنائے اورہرخطے کے درمیان نہایت مستحکم غیر مرئی سرحدیں بنائیں جن کوپارکرکے کسی چیزکاایک خطے سے دوسرے خطے میں چلاجاناسخت مشکل ہے ،جیسے فرمایا

تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیْرًا۝۶۱ [12]

ترجمہ:بڑامتبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اوراس میں ایک چراغ اورایک چمکتاچاندروشن کیا۔

بعض مفسرین نے بروج سے مرادشمس وقمراوردیگرسیاروں حمل ،ثور،جوزائ،سرطان،اسد،سنبلہ ،میزان،عقرب ،قوس ،جدی،دلواورحوت لئے ہیں ،اہل عرب ان سیاروں کی منزلوں اوران کے ذریعے سے موسم کاحال معلوم کرتے تھے ،مگرآج کل لوگ ان کے ذریعہ سے قسمتوں کاحال معلوم کرنے کی ،شش کرتے ہیں حالانکہ ان کاکوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحوادث سے نہیں ہوتاجوکچھ بھی ہوتاہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت کے تحت ہی ہوتاہے۔

اورہرخطے میں کوئی نہ کوئی روشن سیارہ یاتارارکھ دیاجس سے ساراعالم جگمگااٹھا اور ان ستاروں کے ذریعہ سے ہر شیطان مردود سے آسمان کومحفوظ کردیاہے، کوئی شیطان اس میں راہ نہیں پاسکتاالایہ کہ کچھ سن گن لے لےاورجب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتاہے تو شہاب ثاقب ان پرٹوٹ پڑتے ہیں جن سے کچھ توجل مرجاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اوربعض سن آتے ہیں ، جیسے فرمایا

وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُهُبًا۝۸ۙوَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ۝۰ۭ فَمَنْ یَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا۝۹ۙ [13]

ترجمہ:اوریہ کہ ہم نے آسمان کوٹٹولاتودیکھاکہ وہ پہریداروں سے پٹاپڑاہے اورشہابوں کی بارش ہورہی ہے اوریہ کہ پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے مگراب چوری چھپے سننے کی کوشش کرتاہے وہ اپنے لئے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگاہواپاتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ المَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ: وَقَالَ غَیْرُهُ: صَفْوَانٍ یَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا لِلَّذِی قَالَ: الحَقَّ، وَهُوَ العَلِیُّ الكَبِیرُ، فَیَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ – وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِهِ، وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِهِ الیُمْنَى، نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتاہے توفرشتے اسے سن کر عجزومسکنت کے اظہارکے طورپراپنے پریابازوپھڑپھڑاتے ہیں ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھرپرزنجیرکے مارنے سےآوازپیداہوتی ہے،پھرجب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کاخوف دورہوتاہے تووہدوسرے دوروالے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیاحکم صادرفرمایا؟نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں اس نے جوکہاحق کہااوروہ بلندو بالاہے،(اس کے بعد اللہ کاوہ فیصلہ اوپرسے نیچے تک یکے بعددیگرے سنایا جاتا ہے )فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والےشیطان پالیتے ہیں ،یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان ایک دوسرے کے اوپرہوتے ہیں ،سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کرایک پرایک کرکے بتلایاکہ اس طرح شیطاب اوپرتلے رہ کروہاں جاتے ہیں ،

فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ المُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَیُحْرِقَهُ، وَرُبَّمَا لَمْ یُدْرِكْهُ حَتَّى یَرْمِیَ بِهَا إِلَى الَّذِی یَلِیهِ، إِلَى الَّذِی هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ، حَتَّى یُلْقُوهَا إِلَى الأَرْضِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ: حَتَّى تَنْتَهِیَ إِلَى الأَرْضِ فَتُلْقَى عَلَى فَمِ السَّاحِرِ فَیَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَیُصَدَّقُ فَیَقُولُونَ: أَلَمْ یُخْبِرْنَا یَوْمَ كَذَا وَكَذَا، یَكُونُ كَذَا وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا؟ لِلْكَلِمَةِ الَّتِی سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ

پھرکبھی ایساہوتاہےفرشتے خبرپاکرآگ کاشعلہ پھینکتے ہیں وہ یہ بات سننے والے کواس سے پہلے جلاڈالتاہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کووہ بات پہنچادےاورکبھی ایساہوتاہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتااوروہ اپنے نیچے والے شیطان کووہ بات پہنچادیتاہےوہ اس سے نیچے والے اس طرح وہ بات زمین تک پہنچادیتے ہیں یہاں تک کہ زمین تک آپہنچتی ہے،پھروہ بات نجومی یاکاہن کے منہ پرڈالی جاتی ہے،وہ ایک بات میں سوجھوٹ ملاکرلوگوں کوبیان کرتاہے، اگراس کی کوئی بات صحیح نکلتی ہے تولوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھواس نجومی نے فلاں دن ہم کویہ خبردی تھی کہ آئندہ ایساایساہوگااورویساہی ہوااس کی بات سچ نکلی،یہ وہ بات ہوتی ہے جوآسمان سے چرائی گئی تھی ۔ [14]

اورہم نے زمین کووسیع اورکشادہ تخلیق کیااورہموار فرش کی طرح پھیلایاتاکہ انسانوں اورحیوانوں کی اس وسیع وعریض زمین کے کناروں تک رسائی ، وافر مقدار میں رزق کا حصول اوراس کے اطراف وجوانب میں سکونت آسان ہو ،اس میں بلند وبا لا رنگ برنگے پہاڑمیخوں کی طرح گاڑدیئے تاکہ زمین ایک طرف ڈھلک نہ جائے، اس میں ہرموسم کے لحاظ سے ہرنوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی اورتمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشماراسباب ووسائل پیداکردیے ، تمہارے لئے بھی اوران بہت سی مخلوقات کے لئے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔

وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ‎﴿٢١﴾‏ وَأَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَیْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِینَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْیِی وَنُمِیتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِیمٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٥﴾(الحجر)
’’اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ہر چیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں،اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں، پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں ہو، ہم ہی جلاتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی (بالآخر) وارث ہیں،اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں، آپ کا رب سب لوگوں کو جمع کرے گا یقیناً وہ بڑی حکمتوں والابڑے علم والا ہے۔‘‘

 اللہ تعالیٰ ہی ہرچیزکامالک ہے :

کائنات کی تمام چیزوں کاخالق ومالک اورمتصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے،اورہرقسم کے خزانے بھی اللہ رب العالمین کے پاس ہیں جنہیں وہ حسب مشیت وارادہ عدم سے وجودمیں لاتارہتاہے ، اورجس چیزکوبھی وہ نازل فرماتاہے ایک مقررمقدار میں نازل فرماتاہے،فرمایابارآورہواؤں کوہم ہی بھیجتے ہیں جوپانی سے بھرے ہوئے بادل اٹھاتی ہیں اورپھرجہاں اورجنتی بارش کی ضرورت ہوتی ہے ہم وہاں آسمان سے میٹھا پانی برساکر تمہیں سیراب کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ [15]

ترجمہ:کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا یہ پانی جوتم پیتے ہو،اسے تم نے بادل سے برسایاہے یااس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں تواسے سخت کھاری بناکررکھ دیں پھر کیوں تم شکرگزارنہیں ہوتے۔

۔۔۔وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۭ فَاَخْرَجْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى۝۵۳ [16]

ترجمہ:اوراوپرسے پانی برسایاپھراس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوارنکالی۔

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا۔۔۔۝۱۷ۭ [17]

ترجمہ:اللہ نے آسمان سے پانی برسایااورہرندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔

وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا۝۱۴ۙلِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا۝۱۵ۙ [18]

ترجمہ:اوربادلوں سے لگاتاربارش برسائی تاکہ اس کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی اور گھنے باغ اگائیں ۔

ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ۝۱۰ [19]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خودبھی سیراب ہوتے ہواورتمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیداہوتاہے ۔

اوراگرہم چاہیں توپانی کی سطح اتنی نیچی کردیں کہ چشموں اورکنوؤں سے پانی کاحصول تمہارے لئے ممکن نہ رہے ،جیسے فرمایا:

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِیْنٍ۝۳۰ۧ [20]

ترجمہ:ان سے کہوکبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگر تمہارے کنوؤں کاپانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جواس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کردے گا۔

اس دولت کے خزانہ دارتم نہیں ہو،اللہ تعالیٰ نے مخلوق کوپہلی بارپیداکرنے اوراسے دوبارہ زندہ کردینے کے بارے میں اپنی قدرت کاملہ کاذکرفرمایایہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جوتمام خلائق کوعدم سے وجودمیں لاتاہے حالانکہ اس سے قبل کچھ بھی نہ تھے اورپھراللہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت جس کوچاہتاہے مختصرعمردے کر اورجس کوچاہتا ہے بڑھاپے کی انتہاتک پہنچاکر موت سے ہمکنار کر دیتاہے، اور بالآخرتم ہماری عطاکی ہوئی ہرچیزکوچھوڑکردنیاسے رخصت ہوجاؤگے اور اللہ ہی سب چیزوں کے وارث ہونے والا ہے،جیسے فرمایا:

اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا وَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ۝۴۰ۧ [21]

ترجمہ:آخرکارہم ہی زمین اوراس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اورسب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔

تم میں سے جو قومیں پہلے گزر چکی ہیں ان کوبھی ہم نے دیکھ رکھاہے اور بعدکی آنے والی قومیں بھی ہماری نگاہ میں ہیں ، یقینا ً ایک وقت مقررہ پر تمہارارب اعمال کی جوابدہی کے لئے سب اگلے پچھلے انسانوں کواکٹھاکرے گااورنیکوکاروں کوجزااورگناہ گاروں کوسزا دے گا،اللہ تعالیٰ حکمت والا اور علیم بھی ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ‎﴿٢٦﴾‏ وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ‎﴿٢٧﴾‏ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ‎﴿٢٨﴾‏ فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَىٰ أَن یَكُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ‎﴿٣١﴾‏قَالَ یَا إِبْلِیسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ‎﴿٣٣﴾‏(الحجر)
’’یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سےپیدا فرمایا ہے،اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا، اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گرپڑنا، چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا مگر ابلیس کےکہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف )انکار کردیا،(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ؟ وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔‘‘

ہم نے انسان کوخمیراٹھی ہوئی سیاہ سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایاجیسے فرمایا:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙ [22]

ترجمہ:انسان کواس نے ٹھیکری جیسے سوکھے گارے سے بنایا۔

اوراس سے پہلے جنوں کوہم آگ کی لپٹ سے پیداکرچکے تھے۔

وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۝۱۵ۚ [23]

ترجمہ:اورجن کو آگ کی لپٹ سے پیداکیا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ} [24]قَالَ: السَّمُومُ: الْحَارَّةُ الَّتِی تَقْتُلُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ ، بارے میں کہتے ہیں سموم ایسی آگ کوکہتے ہیں جوقتل کردے۔[25]

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَمْرِو بْنِ الْأَصَمِّ أَعُودُهُ ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، یَقُولُ:هَذِهِ السَّمُومُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءًا مِنَ السَّمُومِ الَّتِی خَرَجَ مِنْهَا الْجَانُّ، قَالَ: وَتَلَا: {وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ

ابواسحاق سے روایت ہے کہ میں عمروبن اصم کی بیمارپرسی کے لیے ان کے پاس گیاانہوں نے کہاکیامیں آپ سے وہ بات نہ بیان کروں جومیں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنی ہے؟ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سناکہ ہماری یہ آگ اس آگ کے سترحصوں میں سے ایک حصہ ہے جس سے جنوں ، پیدا کیا گیا تھا، پھرانہوں نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’اوراس سے پہلے جنوں کوہم آگ کی لپٹ سے پیداکرچکے تھے۔‘‘[26]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتوں ، نور سےاور جنوں کوآگ کی لپٹ سےاورآدم اس سے جوقرآن میں بیان ہوایعنی مٹی سے پیدا کیاگیاہے۔[27]

پھر یادکرواس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں اپنے ہاتھوں سے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ،جب میں اس کے جسدکی تکمیل کرچکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں توتم سب اس کے آگے تعظیم وتکریم کے لئے سجدے میں گرجانا،چونکہ یہ اللہ کاحکم تھااس لئے اس کے وجوب میں کوئی شک نہیں (تاہم شریعت محمدیہ میں بطورتعظیم بھی کسی کے لئے سجدہ کرناجائزنہیں )چنانچہ تمام فرشتوں نے تعمیل حکم میں آدم کو سجدہ کیامگر ابلیس نے حسد، کفر، عناد، تکبر اور باطل پرفخرکے باعث سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ،رب نے پوچھا اے ابلیس!تجھے کیا ہواکہ تونے فرشتوں کی طرح آدم کو سجدہ نہیں کیا؟ابلیس لعین نے آدم علیہ السلام کواس کی بشریت کی بنا پرحقیروکم تراورخودکوارفع سمجھ کر تکبرسے جواب دیا میرایہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تونے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ۝۰ۤۖ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ۝۰ۭ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ۝۱۱قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ۝۰ۭ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ۝۰ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ۝۱۲ [28]

ترجمہ:ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتداکی ، پھر تمہاری صورت بنائی ،پھرفرشتوں سے کہاآدم کوسجدہ کرواس حکم پرسب نے سجدہ کیامگرابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ، پوچھا تجھے کس چیزنے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کوحکم دیاتھا؟بولامیں اس سے بہترہوں تونے مجھے آگ سے پیداکیااوراسے مٹی سے۔

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ۝۰ۭ قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا۝۶۱ۚقَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ۔۔۔۝۰۝۶۲ [29]

ترجمہ:اوریادکروجبکہ ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کوسجدہ کروتوسب نے سجدہ کیامگرابلیس نے نہ کیااس نے کہاکیامیں اس کوسجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایاہے؟پھروہ بولا دیکھ توسہی ،کیایہ اس قابل تھاکہ تونے اسے مجھ پرفضیلت دی۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِیمٌ ‎﴿٣٤﴾‏ وَإِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ یَوْمِ الدِّینِ ‎﴿٣٥﴾‏ قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِی إِلَىٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ إِلَىٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ‎﴿٣٨﴾‏ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٣٩﴾‏ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ قَالَ هَٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ ‎﴿٤١﴾‏ إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٤٣﴾(الحجر)
’’فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیونکہ تو راندہ درگاہ ہےاورتجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک،کہنے لگااے میرے رب ! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھا کھڑے کیے جائیں،فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے روز مقرر کے وقت تک،(شیطان نے) کہا اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لیے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی، سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کرلئے گئے ہیں، ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے ، میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں،یقیناً سب کے وعدے کی جگہ جہنم ہے۔‘‘

دائمی لعنت :

اللہ تبارک وتعالیٰ نے شیطان کے کفرواستکبارپرسخت گرفت کرتے ہوئے حکم فرمایاتویہاں سے نکل جا کیونکہ تودھتکاراہوااورہربھلائی سے دورکردیاگیاہےاور روز جزاتک تجھ پرلعنت برساکرے گی ،

وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا لَعَنَ اللَّهُ إِبْلِیسَ تَغَیَّرَتْ صُورَتُهُ عَنْ صُورَةِ الْمَلَائِكَةِ،ورن رنةً ، فَكُلُّ رَنَّةٍ فِی الدُّنْیَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ مِنْهَا

سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس پرلعنت فرمائی تواس کی فرشتوں والی صورت تبدیل ہوگئی اوراس نے ایک زوردارچیخ ماری اورقیامت تک دنیامیں ہرچیخ کاتعلق اسی سے ہے۔[30]

اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی بغاوت وسرکشی کاذکرفرمایااس نے عرض کیامیرے رب!یہ بات ہے توپھرمجھے اس روزتک کے لئے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے،اللہ تعالیٰ نے فرمایااچھایوم البعث تک تجھے مہلت ہے جس کاوقت ہمیں معلوم ہے،ابلیس نے اولاد آدم کوکھلاچیلنج دیتے ہوئے کہا میرے رب!جس طرح تونے اس حقیراورکم تر مخلوق کوسجدہ کرنے کاحکم دے کرمجھے مجبورکردیاکہ تیراحکم نہ مانوں اسی طرح زمین کی زندگی اور اس کی لذتوں اوراس کے عارضی فوائدومنافع کوانسان کے لئے خوشنمابنادوں گا کہ وہ خلافت اوراس کی ذمہ داریوں کواورآخرت کی بازپرس کوبھول جائیں گے سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تونے ان میں سے خالص کرلیاہو،جیسے فرمایا

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [31]

ترجمہ:ابلیس بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

۔۔۔وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝۱۱۸ۙوَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ ۔۔۔ ۝۱۱۹ۭ [32]

ترجمہ: جس نے  اللہ سے کہاتھاکہ میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گامیں انہیں بہکاؤں گامیں انہیں آرزؤں میں الجھاؤں گا،میں انہیں حکم دوں گااوروہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گااوروہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے۔

عَنْ سَبْرَةَ بْنِ أَبِی فَاكِهٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ، فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ لَهُ: أَتُسْلِمُ وَتَذَرُ دِینَكَ، وَدِینَ آبَائِكَ، وَآبَاءِ أَبِیكَ؟ قَالَ:فَعَصَاهُ، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: أَتُهَاجِرُ وَتَذَرُ أَرْضَكَ، وَسَمَاءَكَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی الطِّوَلِ قَالَ:فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ قَالَ:ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْجِهَادِ، فَقَالَ: هُوَ جَهْدُ النَّفْسِ، وَالْمَالِ، فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ، فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ، وَیُقَسَّمُ الْمَالُ قَالَ:فَعَصَاهُ فَجَاهَدَ

سبرة بن فاکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،فرماتے ہوئے سناشیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں (گمراہ کرنے کے لیے) بیٹھتا ہےاورکہتاہے تواپنے آپ اوراپنے باپ داداکے دین کوکیوں چھوڑتاہے،آدمی اس کی باتوں میں نہیں آتااوراسلام قبول کرلیتاہے، وہ اس کوہجرت کے راستے سے روکتاہے اور کہتاہے کہ تونے اپنے وطن کوکیوں چھوڑتاہے ؟ اورمہاجرکی مثال ایسی ہے جیسے گھوڑااپنے لم دوڑمیں ،لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتااورہجرت کرگزرتاہے،پھرجہادکی روک کے لئے آتاہے اس سے کہتاہے کہ تواپنی جان اورمال سےکیوں جہادمیں جاتاہے ؟وہاں قتل کر دیاجائے گا پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی اورتیرامال اوروں کے قبضے میں چلاجائے گالیکن مسلمان اس کی نہیں مانتااورجہادمیں قدم رکھ دیتاہے،

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَمَاتَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّةٌُ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے یہ کام کیےپس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے ، وہ انہیں جنت میں داخل کرے اگروہ ماراجائے توایسے لوگوں کااللہ عزوجل پرحق ہے کہ انہیں جنت میں داخل کرےاور اگروہ جانورسے گرکرہی مرجائے توایسے لوگوں کااللہ پرحق ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کرے اور اگرڈوب کرمرجائےتوبھی ایسے لوگوں کا اللہ پرحق ہے کہ انہیں جنت میں داخل کرے۔[33]

اللہ تعالیٰ نے اسے ڈانٹ پلاتے ہوئےفرمایاجو میری اورمیرے رسولوں کی اتباع اوراعمال صالحہ اختیار کرے گاوہ راستہ سیدھا مجھ تک اور عزت والے گھر تک پہنچتا ہے ۔

وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْہَا جَاۗىِٕرٌ۔۔۔۝۹ۧ [34]

ترجمہ:اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں ۔

بے شک جو میرے حقیقی اورمخلص بندے ہیں توانہیں کسی بھی راستے پرالجھا،ان سے کوئی بھی دلفریب وعدہ کران پرتیراکوئی داؤپیچ نہیں چلے گا ،جیسے فرمایا:

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۶۴اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ۝۰ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِیْلًا۝۶۵ [35]

ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا اور ان کو وعدوں کے دلفریب جال میں پھانس، اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ،یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا اور توکل کے لئے تیرارب کافی ہے۔

تیرابس تو صرف ان گمراہ لوگوں ہی پرچلے گاجواللہ رحمٰن کی اطاعت کے بجائے تیری سرپرستی قبول کرنے اورتیری پیروی کرنے پرراضی ہوں گےاورہم تیرے سب پیروکاروں کو جہنم کا ایندھن بنائیں گے، جیسے فرمایا

قَالَ فَالْحَقُّ۝۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۝۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۸۵ [36]

ترجمہ:اللہ تعالی نے فر ما یا تو حق یہ ہے ا و ر میں حق ہی کہا کر تا ہو ں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لو گو ں سے بھر دوں گا جو انسا نوں میں سے تیری پیروی کریں گے ۔

‏ لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ‎﴿٤٤﴾‏ إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿٤٥﴾‏ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ لَا یَمَسُّهُمْ فِیهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ ۞ نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ‎﴿٤٩﴾‏ وَأَنَّ عَذَابِی هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ ‎﴿٥٠﴾‏(الحجر)
’’ جس کے سات دروازے ہیں،ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ بٹاہوا ہے، پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ،(ان سے کہا جائے گا ) سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ، ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش و کینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے، وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے،نہ تو وہاں انہیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے،میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوںاور ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔‘‘

یہ جہنم جس کی وعیدپیروان ابلیس کے لئے کی گئی ہے اس کے سات دروازے ہیں ،ابلیس کے پیروکاروں مشرکوں ، دہریوں ، زندیقوں ، زانیوں ،سودخوروں ،چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے ایک ایک دروازہ مخصوص کردیاگیاہے جس کے راستے وہ اس میں داخل ہوں گے ،

قَالَ عِكْرمة:سَبْعَةُ أَبْوَابٍ سَبْعَةُ أَطْبَاقٍ

عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سات دروازوں سے مراداوپرنیچے سات طبق اور درجے ہیں ،

جیسے فرمایا:

فَكُبْكِبُوْا فِیْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَ۝۹۴ۙوَجُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ۝۹۵ۭ [37]

ترجمہ:پھروہ معبوداوریہ بہکے ہوئے لوگ اورابلیس کے لشکرسب کے سب اس میں اوپرتلے دھکیل دیے جائیں گے۔

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَوْلُهُ: {لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ} [38] قَالَ:أَوَّلُهَا جَهَنَّمُ، ثُمَّ لَظَى، ثُمَّ الْحُطَمَةُ، ثُمَّ السَّعِیرُ، ثُمَّ سَقَرُ، ثُمَّ الْجَحِیمُ، ثُمَّ الْهَاوِیَةُ وَالْجَحِیمُ فِیهَا أَبُو جَهْلٍ

ابن جریح اللہ تعالیٰ کے فرمان’’جس کے سات دروازے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں پہلاطبق یادرجہ جہنم ہے ،پھرالظی ، پھر حطمہ ،پھر سعیر، پھرسقر، پھرجحیم ،پھرہاویہ اوریہ وہ جہنم ہے جس میں فرعون امت ابوجہل ہے۔[39]

فَأَعْلَاهَا لِلْمُوَحِّدِینَ، وَالثَّانِیَةُ لِلْیَهُودِ، وَالثَّالِثَةُ لِلنَّصَارَى، وَالرَّابِعَةُ لِلصَّابِئِینَ، وَالْخَامِسَةُ لِلْمَجُوسِ، وَالسَّادِسَةُ لِلْمُشْرِكِینَ، وَالسَّابِعَةُ لِلْمُنَافِقِینَ، فَجَهَنَّمُ أَعْلَى الطِّبَاقِ، ثُمَّ مَا بَعْدَهَا تَحْتَهَا، ثُمَّ كَذَلِكَ، كَذَا قِیلَ

ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں سب سے اوپر والادرجہ موحدین کے لئے ہوگا،دوسرے میں یہودی ،تیسرے میں عیسائی ،چوتھے میں صابی ، پانچویں میں مجوسی ،چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہوں گے ،سب سے اوپروالے درجے کانام ہے اس کے بعداسی ترتیب سے نام ہیں ۔[40]

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى كَعْبَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى رُكْبَتَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى حُجْزَتِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلَى تَرْقُوَتِهِ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،فرماتے ہوئے سناہےبعض کو ٹخنوں تک آگ پکڑلے گی،اور بعض کوگھٹنوں تک،اوربعض کوازارباندھنے کی جگہ تک اور کچھ لوگ ہنسلی کی ہڈی تک اس کی لپیٹ میں ہوں گے (غرض گناہوں کی مقدارکے حساب سے ہوگی) ۔[41]

بخلاف اس کے متقی وپرہیزگارلوگ جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیت کی زندگی گزاری ہوگی،کلمہ حق بلندکرنے کی پاداش میں تکالیف اٹھائی ہوں گی ،ملامت گروں کی ملامت پرصبرکیاہوگا وہ جنت کے سرسبز،گھنے سایوں اورلازوال انواع و اقسام کے پھلوں والے باغوں اورطرح طرح کے چشموں سے مستفیذ ہوں گے، اوران سے کہاجائے گاکہ موت،نیند،تھکن،وہاں حاصل نعمتوں میں سے کسی نعمت کے منقطع ہونے،یاان میں کمی واقع ہونے سے،بیماری،حزن وغم اور دیگر تمام قسم کی آفات سے بے خوف ہوکر اورسلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ ،دنیامیں ان کے دلوں میں جوتھوڑا بہت حسد،بغض اورعداوت ہو گی اسے ہم نکال دیں گےاوران کے دل آئینے کی طرح صاف شفاف ہوجائیں گے ،

 أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَخْلُصُ المُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَیُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَیْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَیُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَیْنَهُمْ فِی الدُّنْیَا، حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِی دُخُولِ الجَنَّةِ، فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِی الجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِی الدُّنْیَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن جہنم سے چھٹکارا پاجائیں گےلیکن جنت و دوزخ کے درمیان ایک پل پرانہیں روک لیاجائے گا اور پھر جوناچاقیاں اورظلم آپس میں تھے ان کاادلہ بدلہ ہوجائے گااور پاک دل صاف سینہ ہوکرجنت میں جائیں گے،پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے !جنتیوں میں سے ہرکوئی جنت میں اپنے گھرکودنیاکے اپنے گھرکے مقابلہ میں زیادہ بہترطریقے پرپہچان لے گا۔[42]

وہ ان باغوں میں بھائی بھائی بن کرایک دوسرے کے سامنے سجے تختوں پرتکیے لگاکر،موتی اورمختلف قسم کے جواہرات جڑے بچھونوں پر بیٹھیں گے ،تاکہ کسی کی طرف پیٹھ نہ رہے ، جنت میں انہیں کسی قسم کی مشقت سے پالانہیں پڑے گااوروہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں داخل کیے جائیں گے ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، وَأَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: یُقَالُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا , وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِیشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا , وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا , وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااہل جنت سے کہہ دیاجائے گاکہ اب تم ہمیشہ تندرست رہوگے کبھی بیمارنہ پڑوگےاوراب تم ہمیشہ زندہ رہوگے کبھی موت تم ،نہ آئے گی اوراب تم ہمیشہ جوان رہوگے کبھی بڑھاپاتم پرنہ آئے گااوراب تم ہمیشہ مقیم رہوگے کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہوگی۔[43]

جیسے فرمایا:

خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا۝۱۰۸ [44]

ترجمہ:جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو ان کا جی نہ چاہے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:أَتَى جِبْرِیلُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذِهِ خَدِیجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِیهِ إِدَامٌ، أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِیَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَیْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّی وَبَشِّرْهَا بِبَیْتٍ فِی الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِیهِ، وَلاَ نَصَبَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لئے آرہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا)کھانا(یافرمایا)پینے کی چیزہے،جب وہ آپ کے پاس آئیں توان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچانااورمیری طرف سے بھی ! جبریل علیہ السلام اورانہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی خوشخبری دے دیجئے گا ،جہاں نہ شوروہنگامہ ہوگااورنہ تکلیف وتھکن ہوگی۔[45]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بندوں کوخبردیدوکہ جواپنے گناہوں پر نادم ہوکر ہمارے حضورجھک جاتاہے ان کے لئے میں بہت درگزرکرنے والااوررحیم ہوں مگراس کے ساتھ میراعذاب بھی نہایت درد ناک عذاب ہے،جیسے فرمایا:

فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَهٗٓ اَحَدٌ۝۲۵ۙوَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَهٗٓ اَحَدٌ۝۲۶ۭ [46]

ترجمہ: پھر اس دن اللہ جوعذاب دے گا ویساعذاب دینے والاکوئی نہیں اوراللہ جیساباندھے گاویساباندھنے والاکوئی نہیں ۔

وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَیْفِ إِبْرَاهِیمَ ‎﴿٥١﴾‏إِذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِیمٍ ‎﴿٥٣﴾‏ قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِی عَلَىٰ أَن مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ قَالَ وَمَن یَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ‎﴿٥٦﴾‏ قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَیُّهَا الْمُرْسَلُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٥٩﴾‏ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا ۙ إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِینَ ‎﴿٦٠﴾(الحجر)
’’انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنادوکہ جب انہوں نے ان کے پاس آکر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو ڈر لگتا ہے، انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تجھے ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں،کہا، کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو ! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں آپ مایوس لوگوں میں شامل نہ ہوں ،کہا اپنے رب تعالیٰ کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں، پوچھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو) تمہارا ایسا کیا اہم کام ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں مگر خاندان لوط کہ ہم ان سب کو ضرور بچالیں گے ،سوائے اس (لوط) کی بیوی کے کہ ہم نے اسے رکنے اور باقی رہ جانے والوں میں مقرر کردیا ہے۔‘‘

انسانوں کی شکل میں فرشتے :

کفارومشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باربارمطالبہ کرتے تھے کہ اگرتم اپنی رسالت میں سچے ہو تواپنی صداقت میں فرشتوں کوہمارے روبرولے آؤ ، شروع سورۂ میں اس کامختصرجواب یہ دیاگیاتھا:

مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۸ [47]

ترجمہ:فرشتوں کوہم حق (عذاب)کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں ۔

اب یہاں اس کامفصل جواب دیاگیاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !انہیں ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کاقصہ سناؤجب وہ اس کے ہاں آئے اورکہاسلام ہوتم پر،مگراپناتعارف نہیں کرایاابراہیم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیاکیونکہ ابراہیم علیہ السلام غیب داں نہیں تھے کہ جان جاتے کہ یہ مہمان انسانی شکلوں میں مکرم فرشتے ہیں اورفرشتے کھانانہیں کھاتے ،چونکہ ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نوازتھے اس لئے مہمانوں کو عزت وتکریم سے بٹھایا اورجلدی سے ان کے لئے ایک بھناہوا بچھڑالے آئے مگرجب انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایاتوابراہیم علیہ السلام ان سے مشتبہ ہوگئے اوردل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگے ،فرشتوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا ہم سے ڈرو نہیں ہم تو تمہیں ایک بڑے علم وفہم والے لڑکے اسحاق اوراس کے بعدیعقوب علیہ السلام کی بشارت دینے آئے ہیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱ [48]

ترجمہ:پھرہم نے اس کواسحاق علیہ السلام اوراسحاق علیہ السلام کے بعدیعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی۔

 وَبَشَّرْنٰهُ بِـاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۱۲ [49]

ترجمہ:اورہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی ایک نبی صالحین میں سے۔

ابراہیم علیہ السلام نے حیرت سے کہاکیاتم اس شدید بڑھاپے میں مجھے اولادکی بشارت دیتے ہوذرا سوچوتوسہی کہ یہ کیسی عظیم بشارت تم مجھے دے رہے ہو؟ فرشتوں نے جواب دیااے ابراہیم علیہ السلام !تم اللہ کی بے کراں رحمت سے مایوس نہ ہوبیشک اللہ تعالیٰ ہربات پرقادر ہے ،اس کے لئے کوئی چیزناممکن نہیں ہے ،ابراہیم علیہ السلام نے کہامیں توصرف اپنے بڑھاپے اوربوڑھی بیوی کے بانجھ ہونے کی وجہ سے اولادکے ہونے پرتعجب اورحیرت کااظہارکررہاہوں مگرمیں اپنے رب کی بے کراں رحمت سے ناامیدنہیں ہوں اللہ کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہواکرتے ہیں اورمیرارب توا س سے بھی بڑی باتوں پرقدرت کاملہ رکھتا ہے ،جب ابراہیم علیہ السلام کی گھبراہٹ دورہوگئی اوراولادکی بشارت سے دل خوش ہوگیاتوابراہیم علیہ السلام نے اندازہ لگالیاکہ یہ فرشتے صرف اولادکی خوشخبری دینے ہی نہیں آئے ہیں بلکہ ان کی آمدکااصل مقصدکوئی اور ہے ،چنانچہ انہوں نے پوچھا اے فرستادگان!آپ حضرات کوکیا مہم درپیش ہے ؟فرشتوں نے قوم لوط کانام لینے کے بجائے جواب دیا ہمیں ایک مجرم قوم پرعذاب نازل کرنے کے لئے بھیجاگیاہے تاکہ ان پرنشان زدہ پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسادیں ،جیسے فرمایا:

قَالَ فَمَاخَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ۝۳۱قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْـرِمِیْنَ۝۳۲ۙلِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍ۝۳۳ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ۝۳۴ [50]

ترجمہ:ابراہیم نے پوچھا اے فرستاد گانِ الٰہی ،!کیا مہم آپ کو در پیش ہے؟انہوں نے کہا ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پرپکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں جوآپ کے رب کے ہاں حدسے گزر جانے والوں کے لئے نشان زدہ ہیں ۔

البتہ لوط علیہ السلام کے گھروالے اس عذاب سے مستثنٰی ہیں اوراللہ کے حکم سے ہم ان سب کو بچا لیں گے ،مگر اس کی بیوی کے مقدرمیں لکھ دیاگیاہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی،جیسے فرمایا

فَاَنْجَیْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ۝۰ۡقَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِیْنَ۝۵۷ [51]

ترجمہ:آخرکارہم نے بچالیااس کواوراس کے گھر والوں کوبجزاس کی بیوی کے جس کاپیچھے رہ جاناہم نے طے کر دیا تھا ۔

 فَنَجَّیْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اَجْمَعِیْنَ۝۱۷۰ۙاِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ۝۱۷۱ۚ [52]

ترجمہ: آخرکار ہم نے اسے اوراس کے سب اہل وعیال کوبچالیابجزایک بڑھیاکے جوپیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔

فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ ‎﴿٦١﴾‏ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ قَالُوا بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِیهِ یَمْتَرُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ وَأَتَیْنَاكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ‎﴿٦٤﴾‏ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَیْثُ تُؤْمَرُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ وَقَضَیْنَا إِلَیْهِ ذَٰلِكَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَٰؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِینَ ‎﴿٦٦﴾(الحجر)
’’جب بھیجے ہوئے فرشتے آل لوط کے پاس پہنچےتو انہوں (لوط (علیہ السلام)) نے کہا تم لوگ تو کچھ انجان سے معلوم ہو رہے ہو ، انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہم تیرے پاس وہ چیز لائے ہیں جس میں یہ لوگ شک شبہ کر رہے تھے، ہم تیرے پاس (صریح) حق لائے ہیں اور ہیں بھی بالکل سچے، اب تو اپنے خاندان سمیت اس رات کے کسی حصہ میں چل دے اور آپ ان کے پیچھے رہنا اور (خبردار) تم میں سے (پیچھے) مڑ کر بھی نہ دیکھے اور جہاں کا تمہیں حکم کیا جا رہا ہے وہاں چلے جانا،اورہم نے اس کی طرف اس بات کا فیصلہ کردیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑیں کا ٹ دی جائیں گی ۔‘‘

حسین لڑکے :

پھرجب یہ فرستادے(جبرئیل،میکائیل اوراسرافیل علیہ السلام ) حسین نوجوانوں کی شکل میں لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے تولوط علیہ السلام مہمانوں کی آمدسے دل میں گھبرائے اور کہاآپ لوگ یہاں اجنبی معلوم ہوتے ہیں ،آپ کہاں سے آئے ہیں اورکہاں جاناہے ،انہوں نے رازکھولتے ہوئے جواب دیانہیں بلکہ ہم وہی عذاب لے کرآئے ہیں جس کے آنے میں یہ لوگ شک وشبہ کررہے تھے،اورتاکیدکے طورہرکہاہم حق بات اورقطعی حکم لے کرآئے ہیں اورفرشتے حقانیت کے ساتھ ہی نازل ہواکرتے ہیں اورہم ہیں بھی سچے ،پھرلوط علیہ السلام کوہدایت کی کہ اب اس فسق وفجورمیں ڈوبی قوم کی تباہی کاوقت بالکل قریب آپہنچاہے لہذااب تم رات کے پچھلے پہر اپنے گھروالوں کولے کراس بستی سے باہر نکل جاؤاورخودان کے پیچھے پیچھے چلوتاکہ کوئی کمزور اہل ایمان پیچھے نہ رہے اورجب عذاب کاشوروغل سنائی دے توتم میں سے کوئی پلٹ کرنہ دیکھے کہ پیچھے کیاہورہاہے،بس سیدھے اس طرف ہجرت کرجاؤجہاں جانے کاتمہیں حکم دیاجارہاہے،اوراسے ہم نے اپنایہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے اس معذب قوم کی جڑکاٹ دی جائے گی،جیسے فرمایا

۔۔۔نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍ۝۳۴ۙ [53]

ترجمہ: ان کوہم نے اپنے فضل سے رات کے پچھلے پہربچاکرنکال دیا۔

فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۳۵ۚفَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۶ۚ [54]

ترجمہ:پھرہم نے ان سب لوگوں کونکال لیاجواس بستی میں مومن تھے اوروہاں ہم نے ایک گھرکے سوامسلمانوں کاکوئی گھرنہ پایا(اوروہ گھر لوط علیہ السلام کاتھا)

وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِینَةِ یَسْتَبْشِرُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ قَالَ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ ضَیْفِی فَلَا تَفْضَحُونِ ‎﴿٦٨﴾‏ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ ‎﴿٦٩﴾‏ قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِینَ ‎﴿٧٠﴾‏قَالَ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِی إِن كُنتُمْ فَاعِلِینَ ‎﴿٧١﴾‏ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِی سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِینَ ‎﴿٧٣﴾‏ فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّیلٍ ‎﴿٧٤﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِینَ ‎﴿٧٥﴾‏ وَإِنَّهَا لَبِسَبِیلٍ مُّقِیمٍ ‎﴿٧٦﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِّلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٧٧﴾‏(الحجر)
’’اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے، (لوط (علیہ السلام) نے) کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو، وہ بولے کیا ہم نے تجھے دنیا بھر (کی ٹھیکیداری) سے منع نہیں کر رکھا ؟ (لوط (علیہ السلام) نے) کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری بچیاں موجود ہیں، تیری عمر کی قسم ! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے ، پس سورج نکلتے نکلتے انھیں ایک بڑے زور کی آواز نے پکڑ لیا، بالآخر ہم نے اس شہر کو اوپر تلے کردیا اور ان لوگوں پر کنکر والے پتھر برسائے،بلاشبہ بصیرت والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں،یہ بستی راہ پر ہے جو برابر چلتی رہتی (عام گزرگاہ) ہے، اور اس میں ایمان داروں کے لیے بڑی نشانی ہے۔‘‘

قوم لوط کی خرمستیاں :

قوم لوط کاکرداریہ تھاکہ وہ عورتوں کوچھوڑکرمردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ،مسافروں کی راہ مارتے اوراپنی مجلسوں میں کھلم کھلابدکاری کرتے تھے ،جیسے فرمایا

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ۝۰ۡمَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۸اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ۝۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَ ۔۔۔۝۲۹ [55]

ترجمہ: اور ہم نے لوط علیہ السلام کو بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہاتم تو وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ہےکیاتمہاراحال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہواوررہزنی کرتے ہواوراپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو۔

چنانچہ اسی اثنامیں شہرکے لوگوں کو پتہ چل گیاکہ لوط  علیہ السلام کے گھرپرچندحسین نوجوان آئے ہوئے ہیں ،تو ان کی باچھیں کھل گئیں اوراوباشوں کاایک ہجوم خوشی کے مارے بیتاب ہوکر لوط علیہ السلام کے گھرچڑھ آیا اورعلانیہ مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کوبے حیائی کے ارتکاب کے لئے ان کے سپردکردیاجائے، اس وقت تک لو ط علیہ السلام کومعلوم نہیں تھاکہ یہ نوجوان دراصل فرشتے ہیں اس لئے اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لئے لوگوں کو سمجھایا ، بھائیو!میں اپنے گھر آئے ہوئے مہمانوں کو تمہارے سپردکیسے کرسکتاہوں ،اللہ سے ڈرو اورمجھے ذلیل و رسوانہ کرواوریہاں سے چلے جاؤ،مگروہ ڈھٹائی اوربداخلاقی کامظاہرہ کرتے ہوئے بولے اے لوط!پھرتم نے ان نوجوانوں کواپنامہمان کیوں بنایا؟کیاہم بارہاتمہیں جتلا نہیں چکے ہیں کہ دنیا بھرکے ٹھیکے دارنہ بنو؟ اب ہمارے راستے سے ہٹ جاؤاوران نوجوانوں کوہمارے حوالے کردو،لوط علیہ السلام نے عاجزہوکر کہابھائیو!اگرتمہیں اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنی ہے توبے حیائی کاکام کرنے کے بجائے میری قوم کی عورتوں سے نکاح کرکے پاکیزہ زندگی گزارو اوراللہ کے عذاب کودعوت نہ دو،مگروہ لوط علیہ السلام کی ساری فریادوفغاں سے بے پرواہ ہوکرکہنے لگے اے لوط!تم اچھی طرح جانتے ہوکہ ہمیں عورتوں سے کوئی رغبت نہیں ،ہم دوڑتے ہوئے تیرے گھرپرکیوں آئے ہیں تم اس سے لاعلم نہیں اس لئے ان نوجوانوں کوہمارے حوالے کر دو ، اے نبی تیری جان کی قسم !

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: مَا خَلَقَ اللَّهُ وَمَا ذَرَأَ وَمَا بَرَأَ نَفْسًا أَكْرَمَ عَلَیْهِ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا سَمِعْتُ اللَّهَ أَقْسَمَ بِحَیَاةِ أَحَدٍ غَیْرِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے نفس کوپیدانہیں فرمایااوروجودنہیں بخشاجواس کی نگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مکرم ومحترم ہواورآپ کے سواکوئی نہیں جس کی زندگی کی اس نے قسم کھائی ہو۔[56]

اس وقت ان پرضلالت وگمراہی کاایک نشہ ساچڑھاہواتھاجس میں وہ آپے سے باہرہوئے جاتے تھے ، آخرکارپوپھٹتے ہی زلزلے کی ہولناک آواز نے انہیں آدبوچا،یہ عظیم زلزلہ زمین کے ۱۹۰ میٹر کے فاصلے تک پھٹنے سے پیش آیا جس سے خوبیدہ آتش فشاں ایک ہولناک دھماکے سے پھٹ پڑا، اس دھماکہ کے ساتھ ، بجلی،قدرتی گیس ،آتش زدگی، اور پکے ہوئے کنکرپتھر بھی اس تباہی میں شامل تھے جس نے پوری ہی بستی کوالٹ پلٹ کرزیروزبر کردیا،اس دوران خوابیدہ آتش فشاں سے بے شمارمواد بہہ نکلا، خوفناک زلزلے اور آتش فشاں کے پھٹنے کے دھماکے سے یہ زمین بحیرہ روم سے ۴۰۰ میڑ نیچے چلی گئی اورپانی اوپر ابھرآیااورایک جھیل بن گئی جس کی گہرائی ۴۰۰ میٹرہے ، اسے بحرمیت،مردار یا بحر لوط کہتے ہیں ، پھران پر نامزد کئے ہوئے پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کاانتہائی خطرناک مینہ برسایا۔

لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍ۝۳۳ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ۝۳۴ [57]

ترجمہ:تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں ،جو آپ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں ۔

 فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ۔۔۔۝۸۳ۧ [58]

ترجمہ:پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مَٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا ۔

اورپوری قوم کولوط علیہ السلام کی بیوی سمیت ہلاک کر،رہتی دنیاتک نشان عبرت بنادیاتاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ رب کی طرف سے تنبیہ نہ ماننے والوں اور  اللہ کے بنیادی قانون عدل وانصاف کوتوڑنے کا انجام کیاہوتاہے، ان بستیوں ،صَعْبَةُ ،صُسَدُومُ عْوَةُ،عِثَرَةُ اوردُومَا کے تباہ شدہ آثار جوزبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اے  اللہ کے بندو!ابلیس کے دھوکے، دلفریب جھوٹے وعدوں میں رہ کراس فانی دنیاکی رنگینیوں اور دلفرینیوں میں مت گم ہوجاؤ ورنہ تمہاراحشرہم سے مختلف نہیں ہوگا ، اوروہ علاقہ جہاں یہ عبرت ناک واقعہ پیش آیاتھاگزرگاہ عام پرواقع ہے،یعنی حجازسے شام اورعراق سے مصرجاتے ہوئے یہ تباہ شدہ علاقہ راستہ میں پڑتاہے ،اورعموماًقافلوں کے لوگ تباہی کے ان آثارکودیکھتے ہیں جواس پورے علاقے میں آج تک نمایاں ہیں ،جیسے فرمایا

وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُّصْبِحِیْنَ۝۱۳۷ۙوَبِالَّیْلِ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۳۸ۧ [59]

ترجمہ:آج تم شب و روز ان کے اجڑے دیار پر سے گزرتے ہو کیا تم کو عقل نہیں آتی؟۔

اس واقعہ میں گہری نظرسے جائزہ لینے اورغوروفکرکرنے والوں کے لئے سامان عبرت ہے۔

وَإِن كَانَ أَصْحَابُ الْأَیْكَةِ لَظَالِمِینَ ‎﴿٧٨﴾‏ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُّبِینٍ ‎﴿٧٩﴾‏ وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ وَآتَیْنَاهُمْ آیَاتِنَا فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِینَ ‎﴿٨١﴾‏ وَكَانُوا یَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا آمِنِینَ ‎﴿٨٢﴾‏ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٨٤﴾‏الحجر)
’’ایکہ بستی کے رہنے والے بھی بڑے ظالم تھے جن سے (آخر) ہم نے انتقام لے ہی لیا،یہ دونوں شہر کھلے (عام) راستے پر ہیں، اور حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور ہم نے اپنی نشانیاں بھی عطا فرمائیں (لیکن) تاہم وہ ان سے روگردانی ہی کرتے رہے، یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھےبےخوف ہو کر، آخر انہیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑ نے آدبوچا ، پس ان کی کسی تدبیر و عمل نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا۔‘‘

قوم لوط اورقوم صالح :

اور حجازاورشام کے درمیان قوم لوط کی بستیوں کے قریب گھنے درختوں میں رہنے والی قوم شعیب علیہ السلام بھی اللہ کے ساتھ شرک کرتی تھی ،رہزنی ان کاشیوہ تھا اورکم تولنااورکم ناپناان کاوطیرہ تھاتودیکھ لواتمام حجت کے بعدہم نے ان پرتیزآندھی بھیجی جس سے ان کی حرکتیں بندہوگئیں ،ایک بادل بھیج دیااوروہ چھتری کی طرح ان پر چھاکراس وقت تک آگ برساتارہاجب تک ان کوبالکل تباہ نہ کردیااورساتھ ہی ایک زمینی بھونچال کے ساتھ زوردارچنگھاڑنے ان کوآلیاجس کی ہولناکی سے ان کے دل کلیجے پھٹ گئے اوران کی آوازیں بندہوگئیں ،جیسے فرمایا

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۹۱ۚۖۛ [60]

ترجمہ:ایک دہلادینے والی آفت نے ان کوآلیااوروہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔

اورقوم لوط اورقوم شعیب کے اجڑے ہوئے علاقے کھلے راستے پرواقع ہیں ،اورحجرمیں قیام پذیرقوم صالح بھی رسولوں کی تکذیب کر چکی ہے،ہم نے ان کے پاس اپنی آیات بھیجیں اوران کواپنی عظمت کی کھلی کھلی نشانیاں دکھائیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا۝۰ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۝۵۹ [61]

ترجمہ:ثمودکوہم نے علانیہ اونٹنی لاکردی اورانہوں نے اس پرظلم کیا،ہم نشانیاں اسی لئے توبھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں ۔

مگروہ تکبراورسرکشی کی بناپران نشانیوں کو نظر اندازہی کرتے رہے،وہ بے خوف وخطرپہاڑوں کوخوبصورت طرزپرتراش کر مکان بناتے تھے جس کی اللہ نے انہیں خاص صلاحیت وقوت عطافرمائی تھی ا وروہ اپنی جگہ ہرافت سے بالکل بے خوف اورمطمئن تھے ،مگرانہوں نے اللہ کے عطا کردہ رزق اورہدایت کے لئے پیغمبر مبعوث کرنے کا شکرکرنے کے بجائے تکذیب اور نافرمانی کی روش اختیارکی۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَی الْہُدٰى ۔۔۔۝۱۷ۚ [62]

ترجمہ: رہے ثمود، تو ان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگر انہیں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا پسند کیا۔

اوراللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکرصالح  علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اگرتم واقعی ہی اللہ کے رسول ہو تو جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہوتووہ لے آؤ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷۷ [63]

ترجمہ:اورصالح سے کہہ دیاکہ لے آوہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتاہے اگرتوواقعی پیغمبروں میں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سےصالح علیہ السلام نے فرمایاتین دن مزیداپنے گھروں میں رہے لوپھراللہ کاعذاب نازل ہو جائے گا۔

۔۔۔فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ۝۶۵ [64]

ترجمہ: اس پر صالح نے ان کو خبردار کر دیا کہ بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو یہ ایسی معیاد ہے جو جھوٹی نہ ثابت ہوگی۔

چنانچہ ان کے مطالبے کے چوتھے دن صبح ہوتے ہی ایک زبردست دھماکے نے ان کو آلیااورجن سنگی مکانات جن میں وہ بے خوف وخطرمطمئن زندگی گزاررہے تھے میں باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہوکررہ گئے ، جیسے فرمایا:

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱ [65]

ترجمہ: ہم نے ان پربس ایک ہی دھماکا چھوڑا اور وہ باڑے والی کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہوکررہ گئے۔

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۷۸ [66]

ترجمہ:آخرکارایک دہلا دینے والی آفت نے انہیں آلیااوروہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔

 فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ۝۵ [67]

ترجمہ:ثمودایک سخت حادثہ سے ہلاک کیے گئے۔

اوران کی کمائی یاتدبیرعمل ان کے کچھ کام نہ آئی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہو جاتاہے توپھراس کولشکروں کی کثرت ،انصارواعوان کی قوت اورمال ودولت کی بہتات واپس نہیں لوٹاسکتی۔

‏ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیلَ ‎﴿٨٥﴾‏ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ ‎﴿٨٦﴾‏ وَلَقَدْ آتَیْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ ‎﴿٨٧﴾‏ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٨٨﴾‏ وَقُلْ إِنِّی أَنَا النَّذِیرُ الْمُبِینُ ‎﴿٨٩﴾‏ كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِینَ ‎﴿٩٠﴾‏الَّذِینَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِینَ ‎﴿٩١﴾‏ فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٩٢﴾‏ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٩٣﴾‏(الحجر)
’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، اور قیامت ضرور ضرور آنے والی ہے،پس تو حسن و خوبی (اور اچھائی) سے درگزر کرلے، یقیناً تیرا پروردگار ہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے، یقیناً ہم نے سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے، آپ ہرگز اپنی نظریں اس چیز کی طرف نہ دوڑائیں جس سے ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے، نہ ان پر آپ افسوس کریں اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رہیں، اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں جیسے کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا جنہوں نے اس کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ،قسم ہے تیرے پالنے والے کی ! ہم ان سب سے ضرور باز پرس کریں گے ہراس چیز کی جو وہ کرتے تھے۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتسکین وتسلی:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت بظاہرباطل کاغلبہ ہے ،دعوت حق کے مقابلے میں تمہیں جن مشکلات اورمصائب سے سابقہ پیش آرہاہے اس سے گھبراؤ نہیں یہ ایک عارضی کیفیت ہے اس لئے کہ ہم نے زمین اورآسمان اور سب موجودات کے نظام کوعبث اورباطل پیدانہیں کیا۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [68]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہےاور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟ ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۔۔۔۝۲۷ۭ [69]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کر دیا ہے ۔

جیساکہ اللہ کے دشمن سمجھتے ہیں بلکہ ہم نے انہیں حق کے ساتھ تخلیق کیاہے تاکہ برؤں کوان کی برائیوں کااورنیکوں کوان کی نیکی کابدلہ دیں ،جیسے فرمایا:

وَلِلهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [70]

ترجمہ:اورزمین اورآسمانوں کی ہرچیزکامالک اللہ ہی ہے تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کوان کے عمل کابدلہ دے اوران لوگوں کواچھی جزا سےنوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیارکیاہے۔

اوریقیناًایک وقت معین پرفیصلے کی گھڑی آنے والی ہے،پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم ان جاہلوں کی بے ہودگیوں پرشریفانہ درگزرسے کام لویعنی برائی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤاوراس کی تقصیرپرعفوودرگزرسے کام لو،یقیناًتمہاارارب ہی ان کااورکائنات کی ہرچیز کاخالق ہے ،تم دعوت حق پہنچانے کے لئے جوتگ ودوکررہے ہو اور جن ہتھکنڈوں سے یہ دعوت حق کاراستہ روکنے اوراسے دبانے کی کوشش کررہے ہیں اللہ وہ سب کچھ جانتاہے ،دعوت شروع ہوئے دس سال ہوچکے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کاسرمایہ خرچ ہو چکا تھا ، نوجوان اہل ایمان کوان کے بڑوں نے گھروں سے نکال دیاتھا،کفارکی طرف سے معاشی مقاطعہ کی بنا پرصنعت اور تجارت پیشہ لوگوں کاکاروبارٹھپ ہو چکا تھا ، غلاموں اورموالی کی توکوئی معاشی حیثیت ہی نہ تھی اس طرح مسلمان انتہائی مظلومی اورتنگ دستی کی زندگی گزاررہے تھےاوروہ ہرجگہ تذلیل و تحقیر اورتضحیک کانشانہ بنے ہوئے تھے اور شکستہ دل ہوتے تھے ،دوسری طرف کفارقریش دنیاکی نعمتوں سے مالامال تھے اوران سے استفادہ حاصل کررہے تھے ، ان حالات میں تسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہوہم نے توتمہیں سات ایسی آیتیں یعنی سورہ فاتحہ سے نوازاہے جو ہرنمازکی ہررکعت میں دہرائی جانے کے لائق ہیں اورتمہیں قرآن عظیم عطاکیاہے،اوراس عظیم الشان دولت کے مقابلے میں دنیاکی ساری نعمتیں ہیچ ہیں ،

عَنْ أَبِی سَعِیدِ بْنِ المُعَلَّى، قَالَ: مَرَّ بِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّی، فَدَعَانِی فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّیْتُ ثُمَّ أَتَیْتُ، فَقَالَ:مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِیَنِی؟ فَقُلْتُ: كُنْتُ أُصَلِّی، فَقَالَ:أَلَمْ یَقُلِ اللَّهُ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیكُمْ}[71] ثُمَّ قَالَ:أَلاَ أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِی القُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ فَذَهَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ:الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِینَ. هِیَ السَّبْعُ المَثَانِی، وَالقُرْآنُ العَظِیمُ الَّذِی أُوتِیتُهُ

ابوسعیدمعلٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے،میں اس وقت نمازپڑھ رہاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے بلایا(لیکن میں (نمازکی وجہ سے) آپ کے پاس نہ آیا)نمازسے فارغ ہونے کے بعد میں حاضرخدمت ہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ اسی وقت کیوں نہ آئے ؟میں نے عرض کیاکہ میں نمازپڑھ رہا تھا اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیااللہ تعالیٰ نے تم لوگوں ،حکم نہیں دیاہے’’اے لوگو!جوایمان لائے ہواللہ اوراس کے رسول کی پکارپرلبیک کہوجبکہ رسول تمہیں اس چیزکی طرف بلائے جوتمہیں زندگی بخشنے والی ہے ۔‘‘پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہ آج میں تجھے مسجدسے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتلاؤں ؟ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم (بتانے سے پہلے) مسجدسے باہرتشریف لے جانے کے لئے اٹھے تومیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کا وعدہ یا دلایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ سورة فاتحہ ہے،سبع المثانی اورَقرآن عظیم ہے جومجھے دیاگیاہے۔[72]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ُٔمُّ القُرْآنِ هِیَ السَّبْعُ المَثَانِی وَالقُرْآنُ العَظِیمُ

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام القرآن( یعنی سورہ فاتحہ)ہی سبع المثانی اورقرآن عظیم ہے ۔[73]

اس لئے اس عارضی دنیاکے مال ومتاع اورٹھاٹھ باٹھ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھوجوہم نے چند روز کے لئے ان کی آزمائش کے لئے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے اورجودعوت حق اورآپ کی تکذیب کرتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ}قَالَ:نُهِیَ الرَّجُلُ أَنْ یَتَمَنَّى مَالَ صَاحِبِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ، بارے میں روایت ہے اس سے مرادیہ ہے کہ آدمی کواس بات سے منع کردیاگیاہے کہ وہ اس مال کی تمناکرنے لگ جائے جواس کے ساتھی کے پاس ہے۔[74]

ان لوگوں کے حال پرغم نہ کھائیں جواپنی گمراہیوں اوراخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھتے ہیں ،اس لئے ان سے کسی بھلائی کی امیداورکسی فائدہ کی توقع نہ رکھیں بلکہ انہیں ان کے حال پرچھوڑکرایمان لانے والوں کے ساتھ نرمی ،خوش خلقی ، تواضع اورانکساری کارویہ اپنائیں ،جیسے فرمایا

 وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۱۵ۚ [75]

ترجمہ:اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ۔

 لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲۸ [76]

ترجمہ: دیکھو!تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیاہے جوخودتم ہی میں سے ہے ،تمہارانقصان میں پڑنااس پرشاق ہے ، تمہاری فلاح کاوہ حریص ہے،ایمان لانے والوں کے لئے شفیق اوررحیم ہے۔

اوردعوت حق کی تکذیب کرنے والوں سے کہہ دوکہ میں تولوگوں کوعذاب الٰہی سے کھلم کھلا ڈرادینے والا ہوں ،

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِی اللَّهُ بِهِ، كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمًا فَقَالَ: یَا قَوْمِ، إِنِّی رَأَیْتُ الجَیْشَ بِعَیْنَیَّ، وَإِنِّی أَنَا النَّذِیرُ العُرْیَانُ، فَالنَّجَاءَ، فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَدْلَجُوا، فَانْطَلَقُوا عَلَى مَهَلِهِمْ فَنَجَوْا، وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ، فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمُ الجَیْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِی فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِی وَكَذَّبَ بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الحَقِّ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سےمنقول ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری اورجس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجاہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جوکسی قوم کے پاس آئے اورکہے کہ اے قوم! میں نے دشمن کالشکراپنی آنکھوں دیکھاہے ،اورمیں ننگ دھڑنگ (کھلم کھلا) تم کوڈرانے والاہوں ،پس اپنےبچنے کا سامان کر لوتواس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اوررات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اورحفاظت کی جگہ چلے گئےاس لئےنجات پاگئے،لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایااوربے فکری سے وہیں موجودرہے،پھرصبح سویرے ہی دشمن کےلشکرنے انہیں آ لیااور اورگھیرگھارکر قتل کردیا،یہ تو مثال ہے اس کی جومیری اطاعت کریں اورجودعوت میں لایاہوں اس کی پیروی کریں اوراس کی مثال ہے جومیری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کرآیاہوں اسے جھٹلائیں ۔[77]

یہ اسی طرح کی تنبیہ ہے جیسی ہم نے اہل کتاب کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے تورات وانجیل کوٹکڑے ٹکڑے کرڈالاہےاوراپنی خواہشات نفس کے مطابق اس میں تصرف کرتے ہیں ،اس کے بعض حصے کومانتے ہیں اوربعض کونہیں مانتے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۔۔۔۝۰۝۸۵ [78]

ترجمہ:کیاتم کتاب اللہ کی بعض باتوں پرایمان لاتے ہواوربعض سے کفرکرتے ہو ۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تیرے رب کی قسم !جن لوگوں نے ان کتابوں میں جرح وقدع کی،اس میں عیب چینی اوراس میں تحریف کرکے اس کوبدل ڈالا ہےروزقیامت ہم ان سب سے تنہا تنہاان کے اعمالوں کے بارے میں ضرور پوچھیں گے۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ۰۰۹۴اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ۰۰۹۵

پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے،آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿٩٤﴾‏ إِنَّا كَفَیْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِینَ ‎﴿٩٥﴾‏ الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ یَضِیقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُولُونَ ‎﴿٩٧﴾‏ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِینَ ‎﴿٩٨﴾‏ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ یَأْتِیَكَ الْیَقِینُ ‎﴿٩٩﴾‏(الحجر)
’’ پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے،آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں، جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود مقرر کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا،ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے،آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیںاور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے ۔‘‘

پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جس چیزکاتمہیں حکم دیاجارہاہے اسے بے جھجھک ہانکے پکارے کہہ دواورشرک کرنے والوں کی ذراپروانہ کرو، ہم ان کے شرسے تمہیں بچانے اور ان مذاق اڑانے والوں کی خبرلینے کے لئے کافی ہیں ۔

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۔۔۔۝۶۷ [79]

ترجمہ:اے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:خَمْسَةَ نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَكَانُوا ذَوِی أَسْنَانٍ وَشَرَفٍ فِی قَومهمْ، مِنْ بَنِی أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَیِّ بْنِ كِلَابٍ: الْأَسْوَدُ بْنُ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدِ أَبُو زَمَعَةَ،وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا بَلَغَنِی قَدْ دَعَا عَلَیْهِ لِمَا كَانَ یَبْلُغُهُ مِنْ أَذَاهُ وَاسْتِهْزَائِهِ بِهِ فَقَالَ: اللَّهمّ أَعْمِ بَصَرَهُ وأثكله وَلَده ،

محمدبن اسحاق نے کہاہےاستہزاکرنے والوں کے سردارپانچ لوگ تھےاوروہ اپنی اپنی قوم کے سربراہ تھے، بنواسدبن عبدالعزی بن قصی میں سے اسودبن مطلب ابوزمعہ تھا ،جیساکہ مجھے روایت پہنچی ہے اس کے ایذااوراستہزاکی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بددعاکرتے ہوئے فرمایاتھااے اللہ!اس کی آنکھوں ،اندھا کر دے اوراس کے بیٹے کوگم کردے،

وَمِنْ بَنِی زُهْرَةَ بْنِ كِلَابٍ: الْأَسْوَدُ بْنُ عَبْدِ یَغُوثَ بْنِ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ ابْن زهرَة،وَمِنْ بَنِی مَخْزُومِ بْنِ یَقَظَةَ بْنِ مُرَّةَ: الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ابْن مَخْزُوم،وَمِنْ بَنِی سَهْمِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هُصَیْصِ بْنِ كَعْبٍ: الْعَاصُ بْنُ وَائِلِ بْنِ هِشَامٍ،قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: الْعَاصُ بْنُ وَائِل بن هَاشم بْنِ سُعَیْدِ بن سهم،وَمِنْ بَنِی خُزَاعَةَ: الْحَارِثُ بْنُ الطُّلَاطِلَةِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ عَمْرِو بْنِ (لُؤَیِّ بْنِ) مَلَكَانَ

بنوزہرہ میں سے اسود بن عبدیغوث بن وہب بن عبدمناف بن زہرہ تھا،بنومخزوم میں سے ولیدبن مغیرہ بن عبداللہ بن عمربن مخزوم تھا،بنوسہم میں عمروبن ہصیص بن کعب سے عاص بن وائل بن ہشام تھا،ابن ہشام کہتے ہیں عاص بن وائل بن ہاشم بن سعیدبن سہم تھا،اوربنوخزاعہ سے حارث بن طلاطلہ بن عمروبن حارث بن عبدعمروبن (لوئی بن)ملکان تھا،

فَلَمَّا تَمَادَوْا فِی الشَّرِّ، وَأَكْثَرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الِاسْتِهْزَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَیْهِ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِینَ، إِنَّا كَفَیْناكَ الْمُسْتَهْزِئِینَ الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللَّهِ إِلهاً آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ

جب یہ لوگ سرکشی میں حدسے بڑھ گئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے بہت زیادہ استہزاکرناشروع کردیاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمادیں ’’ پس اے نبی!جس چیزکاتمہیں حکم دیاجارہاہے اسے ہانکے پکارے کہہ دواورشرک کرنے والوں کی ذراپروانہ کرو،تمہاری طرف سے ہم ان مذاق اڑانے والوں کی خبرلینے کے لئے کافی ہیں ، جواللہ کے ساتھ کسی اور،بھی الٰہ قراردیتے ہیں ۔‘‘[80]

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:أَنَّ جِبْرِیلَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ یَطُوفُونَ بِالْبَیْتِ ، فَقَامَ وَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى جَنْبِهِ،فَمَرَّ بَهْ الْأَسْوَدُ بْنُ الْمُطَّلِبِ، فَرَمَى فِی وَجْهِهِ بِوَرَقَةِ خَضْرَاءَ فَعَمِیَ، وَمَرَّ بَهْ الْأَسْوَدُ بْنُ عَبْدِ یَغُوثَ  فَأَشَارَ إلَى بَطْنِهِ فَاسْتَسْقَى (بَطْنُهُ) فَمَاتَ مِنْهُ حَبَنًا

ابن اسحاق کہتے ہیں مشرکین کعبہ کاطواف کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل آئے اورکھڑے ہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے پاس کھڑے ہوگئے،جبریل علیہ السلام ، اسودبن عبدالمطلب کے چہرے پرایک سبز پتا ماراجس سے وہ اندھاہوگیا،اسودبن عبدیغوث کاوہاں سے گزر ہواتوجبریل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا تواسے استسقاکی بیماری لگ گئی اوروہ اسی بیماری سے مرگیا

وَمَرَّ بِهِ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ فَأَشَارَ إلَى أَثَرِ جُرْحٍ بِأَسْفَلِ كَعْبِ رِجْلِهِ، كَانَ أَصَابَهُ قَبْلَ ذَلِكَ بِسِنِینَ وَهُوَ یَجُرُّ سَبَلَهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ مَرَّ بِرَجُلِ مِنْ خُزَاعَةَ وَهُوَ یَرِیشُ نَبْلًا لَهُ فَتَعَلَّقَ سَهْمٌ مِنْ نَبْلِهِ بِإِزَارِهِ، فَخَدَشَ فِی رِجْلِهِ ذَلِكَ الْخَدْشَ، وَلَیْسَ بِشَیْءِ،فَانْتَقَضَ بِهِ فَقَتَلَهُ، وَمَرَّ بَهْ الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ فَأَشَارَ إلَى أَخْمَصِ رِجْلِهِ وَخَرَجَ عَلَى حِمَارٍ لَهُ یُرِیدُ الطَّائِفَ فَرَبَضَ بِهِ عَلَى شُبَارِقَةٍ فَدَخَلَتْ فِی أَخْمَصِ رِجْلِهِ شَوْكَةٌ فَقَتَلَتْهُ،وَمَرَّ بِهِ الْحَارِثُ بْنُ الطُّلَاطِلَةِ فَأَشَارَ إلَى رَأْسِهِ فَامْتَخَضَ قَیْحًا فَقَتَلَهُ

ولیدبن مغیرہ گزرا توجبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کے ٹخنے کے نیچے ایک زخم کی طرف اشارہ کیا یہ زخم کئی سال سے اس کے پاؤں میں تھا اورایک معمولی زخم تھا اس زخم کے پہنچنے کاسبب یہ ہواتھاکہ ولیدبنی خزاعہ کے ایک شخص کے پاس سے گزراتھاجواپنے تیروں میں پرلگارہاتھااس کاایک تیراس کے لباس میں الجھ گیااوراس کی ایڑی میں چبھ گیا اشارے سے وہ زخم پھوٹ پڑایہاں تک کہ ولیدکی روح ،اس نے جہنم میں پہنچا دیا، عاص بن وائل گزراتواس کے پاؤں کے تلوے کی طرف اشارہ کیاوہ اپنے گدھے پرسوارہوکرطائف جانے لگا توکانٹوں کے ایک ڈھیرپرگرگیا تواس کے پاؤں کے تلوے میں ایک ایسا کانٹاچبھ گیاجس سے وہ جہنم روانہ ہوا،حارث بن طلاطلہ کا گزر ہوا تواس کے سرکی طرف اشارہ کیا جس سےاس کاتمام بھیجاگل کرپیپ بن گیااور وہ جہنم رسیدہوگیا۔[81]

عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ: أَخَذَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلامُ بِعُنُقِ الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ یَغُوثَ، فَحَنَا ظَهْرَهُ حَتَّى احْقَوْقَفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خَالِی، خَالِی، فَقَالَ جِبْرِیلُ:یَا مُحَمَّدُ دَعْهُ

اورعکرمہ سے مروی ہےجبریل علیہ السلام نے اسودبن عبد یغوث کی کمر،اتنامروڑاکہ اس کے سینے کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوگئیں ، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکار اٹھے میرا ماموں ، میراماموں ، جبریل علیہ السلام نے کہااےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم !اسے چھوڑ دیجئے اپنے سے علیحدہ کرلیجئے آپ کواس کی طرف سے بے فکرکردیاگیاہے۔[82]

جولوگ اللہ کے ساتھ کسی اورکوبھی الٰہ قراردیتے ہیں ،اللہ کوچھوڑکرانہیں پکارتے اوران سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں ،ان کی خوشنودی کے لئے چڑھاوے چڑھاتے اورنذریں پیش کرتے ہیں روزمحشر جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوں گے توانہیں اپنے کرتوتوں کا انجام معلوم ہو جائے گا ،ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ تمہاری تکذیب کرتے اور تمہیں ساحر،مجنون اورکاہن وغیرہ کے القاب دیتے ہیں جس سے تمہارے دل کوسخت کوفت ہوتی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے رب کی کثرت کے ساتھ تسبیح وتحمیدکرو، اس کی بارگاہ میں نمازپڑھو،اورزندگی کی آخری گھڑی تک جس کاآنایقینی ہے(یعنی موت) اپنے رب کی بندگی کرتے رہو تاکہ اس کے ذریعہ آپ کو روحانی وقلبی تسکین وقوت حاصل ہوسکے ،جیسے جہنمی اپنی تقصیر بیان کریں گے۔

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۝۴۳ۙوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ۝۴۴ۙوَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِیْنَ۝۴۵ۙوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۝۴۶ۙحَتّٰٓی اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ۝۴۷ [83]

ترجمہ: وہ کہیں گےہم نمازپڑھنے والوں میں سے نہ تھے اورمسکین کو کھانانہیں کھلاتے تھے ،اورحق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کرہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے اورروزجزاء کوجھوٹ قراردیتے تھے،یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز (موت) سے سابقہ پیش آگیا ۔

اور نمازجواظہاربندگی میں ممتازترین عبادت ہے انسان پراس وقت تک واجب ہے جب تک کہ اس میں عقل باقی ہو،

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَتْ بِی بَوَاسِیرُ، فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاَةِ، فَقَالَ:صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مجھے بواسیرکی تکلیف تھی میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازکے بارے میں پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکھڑے ہوکر نماز پڑھواور اگر طاقت نہ ہوتوبیٹھ کراوراگراس کی بھی طاقت نہ ہوتولیٹ کرپڑھ لو۔[84]

[1] المائدہ۱۵

[2] الاحزاب۶۶

[3] الفرقان۲۸،۲۹

[4] الانعام۱۱۳

[5] القمر۹

[6]الاعراف۶۶

[7] الشعرائ۱۵۳

[8]الشعرائ۲۷

[9] الزخرف۵۳

[10] الفرقان۲۱،۲۲

[11] الانعام۱۱۱

[12] الفرقان۶۱

[13] الجن۸،۹

[14] صحیح بخاری تفسیرسورة الحجربَابُ قَوْلِهِ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِینٌ۴۷۰۱، صحیح مسلم كتاب السَّلَامِ بَابُ تَحْرِیمِ الْكَهَانَةِ وَإِتْیَانِ الْكُهَّانِ

[15] الواقعة۶۸تا۷۰

[16] طہ۵۳

[17] الرعد۱۷

[18] النبا۱۴،۱۵

[19] النحل۱۰

[20] الملک۳۰

[21] مریم۴۰

[22] الرحمٰن۱۴

[23] الرحمٰن۱۵

[24] الحجر: 27

[25] تفسیرطبری۹۹؍۱۷

[26] تفسیرطبری۱۰۰؍۱۷، مستدرک حاکم ۳۷۷۰

[27] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابٌ فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَةٍ ۷۴۹۵، مسنداحمد۲۵۱۹۴، معجم ابن عساکر۳۶۸،صحیح ابن حبان ۶۱۵۵،شعب الایمان ۱۴۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۰۹

[28] الاعراف۱۱،۱۲

[29] بنی اسرائیل ۶۱،۶۲

[30] تفسیرابن ابی حاتم۲۲۶۵؍۷

[31] الاعراف۱۶،۱۷

[32] النسائ۱۱۸،۱۱۹

[33] مسنداحمد۱۵۹۵۸،سنن نسائی کتاب الجہادباب مَا لِمَنْ أَسْلَمَ وَهَاجَرَ وَجَاهَدَ۳۱۳۶،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۵۵۸، السنن الکبری للنسائی۴۳۲۷، مصنف ابن ابی شیبة۱۹۳۲۹

[34] النحل۹

[35] بنی اسرائیل۶۴،۶۵

[36] ص ۸۴،۸۵

[37] الشعرائ۹۴،۹۵

[38] الحجر: 44

[39] تفسیرطبری۱۰۷؍۱۷،فتح القدیر۱۵۹؍۳

[40] فتح القدیر۱۵۹؍۳

[41] مسنداحمد۲۰۱۰۳،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۸۸۹،مستدرک حاکم ۸۷۴۰،شعب الایمان۳۱۲،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۱۷۴،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا باب جھنم اعاذنااللہ منھا ۷۱۶۹

[42] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القِصَاصِ یَوْمَ القِیَامَةِ ۶۵۳۵

[43] المعجم الصغیرللطبرانی۲۱۳،معجم ابن عساکر۵

[44] الکہف۱۰۸

[45] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ تَزْوِیجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا۳۸۲۰،صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابُ فَضَائِلِ خَدِیجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا۶۲۷۳،مسنداحمد۷۱۵۶،المعجم الکبیر للطبرانی۱۰،مستدرک حاکم۴۸۵۱،مصنف ابن ابی شیبة۳۲۲۸۷،شرح السنة للبغوی۳۹۵۳

[46] الفجر۲۵،۲۶

[47] الحجر۸

[48] ھود۷۱

[49] الصافات ۱۱۲

[50] الذاریات ۳۱تا ۳۴

[51] النمل۵۷

[52] الشعرائ۱۷۰،۱۷۱

[53] القمر۳۴

[54] الذاریات ۳۵،۳۶

[55] العنکبوت۲۸،۲۹

[56] تفسیرطبری۱۱۸؍۱۷،تفسیرابن ابی حاتم۲۲۶۹، ۲۲۷۰؍۷

[57] الذاریات۳۳،۳۴

[58] ھود۸۲،۸۳

[59] الصافات۱۳۷،۱۳۸

[60] الاعراف۹۱

[61] بنی اسرائیل۵۹

[62] حم السجدة۱۷

[63] الاعراف۷۷

[64] ھود۶۵

[65] القمر۳۱

[66] الاعراف۷۸

[67] الحاقة۵

[68] المومنون۱۱۵

[69] ص۲۷

[70] النجم۳۱

[71] الأنفال: 24

[72] صحیح بخاری تفسیر سورة الحجربَابُ قَوْلِهِ وَلَقَدْ آتَیْنَاكَ سَبْعًا مِنَ المَثَانِی وَالقُرْآنَ العَظِیمَ ۴۷۰۳

[73] صحیح بخاری تفسیرسورة الحجر بَابُ قَوْلِهِ وَلَقَدْ آتَیْنَاكَ سَبْعًا مِنَ المَثَانِی وَالقُرْآنَ العَظِیمَ۴۷۰۴

[74] تفسیر طبری ۱۴۱؍۱۷

[75] الشعرائ۲۱۵

[76] التوبة۱۲۸

[77] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۷۲۸۳،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَمُبَالَغَتِهِ فِی تَحْذِیرِهِمْ مِمَّا یَضُرُّهُمْ۵۹۵۴،شرح السنة للبغوی ۹۵

[78] البقرة۸۵

[79] المائدة۶۷

[80] ابن ہشام۴۰۹؍۱

[81] ابن ہشام۴۱۰؍۱،تفسیرطبری۱۵۴؍۱۷

[82] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۸۹؍۱۱، أنساب الأشراف للبلاذری۱۳۲؍۱

[83] المدثر۴۳تا۴۷

[84] صحیح بخاری أَبْوَابُ تَقْصِیرِ الصَّلاَةِ بَابُ إِذَا لَمْ یُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ ۱۱۱۷

Related Articles