ہجرت نبوی کا چھٹا سال

 برہ (ام المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا )بنت حارث سے نکاح

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: وَقَعَتْ جُوَیْرِیَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ فِی سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوِ ابْنِ عَمٍّ لَهُ، فَكَاتَبَتْ عَلَى نَفْسِهَاوَكَانَتِ امْرَأَةً مَلَّاحَةً تَأْخُذُهَا الْعَیْنُ، قَالَتْ: عَائِشَةُ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا فَجَاءَتْ تَسْأَلُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی كِتَابَتِهَا،فَلَمَّا قَامَتْ عَلَى الْبَابِ فَرَأَیْتُهَا كَرِهْتُ مَكَانَهَا وَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَیَرَى مِنْهَا مِثْلَ الَّذِی رَأَیْتُ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق کے قیدیوں  کوتقسیم فرمایاتو برہ بنت حارث ، ثابت بن قیس بن شماس انصاری  رضی اللہ عنہ  یاان کے چچازاد بھائی کے حصہ میں  آئیں ،چنانچہ جویریہ نے ان سے اپنی آزادی کے لئے مکاتبت کامعاوضہ طے کرلیا،یہ بہت حسین وجمیل اورصبیح وملیح خاتون تھیں  جوانہیں  دیکھتادل تھام کررہ جاتا،عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں یہ اپنی کتابت کی رقم کی ادائیگی میں  مددلینے کی غرض سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئیں ،عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  جب یہ دروازے پرکھڑی ہوئی اورمیں  نے اس کودیکھاتومجھے اس کا کھڑا ہوناپسندنہ آیاآور میں  نے دل میں  کہاکہ ان کاحسن وجمال میں  نے دیکھاہے اب وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیکھیں  گے ،

فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللهِ: أَنَا جُوَیْرِیَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ وَإِنَّمَا كَانَ مِنْ أَمْرِی مَا لَا یَخْفَى عَلَیْكَ وَإِنِّی وَقَعْتُ فِی سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَإِنِّی كَاتَبْتُ عَلَى نَفْسِی فَجِئْتُكَ أَسْأَلُكَ فِی كِتَابَتِی،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَهَلْ لَكِ إِلَى مَا هُوَ خَیْرٌ مِنْهُ؟قَالَتْ: وَمَا هُوَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:أُؤَدِّی عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ، قَالَتْ: قَدْ فَعَلْتُ

جب یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئیں  تو عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں  اپنی قوم کے سردارحارث کی بیٹی برہ ہوں ،مجھ پرجومصیبت آپڑی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں (کہ جنگی قیدی ہوں  اورلونڈی بنائی گئی ہوں ) میں  ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں  آئی ہوں  میں  نے اپنے آقا سے اپنی آزادی کے لئے کتابت کا معاملہ طے کرلیا ہے پس میری عرض ہے کہ آپ کتابت کی رقم اداکرنے میں  میری مالی مددفرمائیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم اس سے بہترمعاملہ پسندنہیں  کرتی ہو؟ اس نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ یہ کہ میں  تمہاری طرف سے کتابت کی پوری رقم اداکردیتاہوں  اورتم سے شادی کرلیتاہوں ، اس نےکہامیں  رضامندہوں  چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرعمل کیااوریہ ام المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا  ہوگئیں ۔

وَكَانَ اسْمُهَا: بُرَّةَ، فَحَوَّلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَمَّاهَا: جُوَیْرِیَةَ ،وَكَانَتْ قَبْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مُسَافِعِ بْنِ صوفان الْمُصْطَلِقِیِّ

ان کانام برہ تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدل کرجویریہ رکھ دیااوراس پہلے یہ مسافع بن صوفان المصطلقی کی بیوی تھیں ۔[1]

عقدکے وقت ام المومنین جویریہ  رضی اللہ عنہا  کی عمر بیس سال کی تھیں ۔

قَالَتْ: فَتَسَامَعَ تَعْنِی النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَةَ، فَأَرْسَلُوا مَا فِی أَیْدِیهِمْ مِنَ السَّبْیِ، فَأَعْتَقُوهُمْ، وَقَالُوا: أَصْهَارُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَمَا رَأَیْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا، أُعْتِقَ فِی سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ

عائشہ  رضی اللہ عنہا  صدیقہ فرماتی ہیں  لوگوں  میں  یہ خبرپھیل گئی کہ آپ نے جویریہ  رضی اللہ عنہا  سے عقدفرمالیاہے چنانچہ ان سب نے جوقیدی ان کے قبضے میں  تھے سب چھوڑدیے اوران کوآزادکردیااورکہنے لگے اب بنومصطلق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال ہوگئے انہیں  غلام بناناہمیں  زیب نہیں  دیتا،ہم نے نہیں  دیکھاکہ اس سے بڑھ کر کوئی اور عورت اپنے خاندان کے لیے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو،اس کی وجہ سے قبیلہ بنومصطلق کے ایک سو خاندان آزادکیے گئے تھے۔[2]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد کے بعدانہیں  پردہ کرادیا اور ان کی باری مقررفرمادی۔

لَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَمَعَهُ جُوَیْرِیَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ، فَكَانَ بِذَاتِ الْجَیْشِ، دَفَعَ جُوَیْرِیَةَ إلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَدِیعَةً، وَأَمَرَهُ بِالِاحْتِفَاظِ بِهَا، وَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، فَأَقْبَلَ أَبُوهَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِی ضِرَارٍ بِفِدَاءِ ابْنَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ بِالْعَقِیقِ نَظَرَ إلَى الْإِبِلِ الَّتِی جَاءَ بِهَا لِلْفِدَاءِ، فَرَغِبَ فِی بَعِیرَیْنِ مِنْهَا، فَغَیَّبَهُمَا فِی شِعْبٍ مِنْ شِعَابِ الْعَقِیقِ،ثُمَّ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَصَبْتُمْ ابْنَتِی، وَهَذَا فِدَاؤُهَا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غزوہ بنی مصطلق سے واپس تشریف لارہے تھے اورساتھ میں  جویریہ بنت حارث بھی تھیں  آپ لشکرکے انتظام میں  مصروف تھے توآپ نے جویریہ  رضی اللہ عنہا  کو بطورودیعت ایک انصاری کے ہاں  رہنے دیااورانہیں  حفاظت سے رکھنے کاحکم دیا،پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لے آئے توحارث بن ابوضراراپنی بیٹی کافدیہ لے کرآیاجب وہ عقیق کے مقام پرپہنچاتواس نے اپنے ان اونٹوں  پرایک نظرڈالی جوفدیے کے لئے لایاتھاان میں  سے دواونٹوں  کا اسے لالچ آیا اور اس نے انہیں  عقیق کی ایک گھاٹی میں  چھپادیا،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )تم میری بیٹی کولے آئے ہویہ اس کافدیہ ہے

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَأَیْنَ الْبَعِیرَانِ اللذَانِ غَیَّبْتُ بِالْعَقِیقِ فِی شِعْبِ كَذَا وَكَذَا؟ فَقَالَ الْحَارِثُ: أَشْهَدُ أَنَّ لَا إلَهَ إلَّا اللهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، صَلَّى الله عَلَیْك،فو اللهُ مَا اطَّلَعَ عَلَى ذَلِكَ إلَّا اللهُ تَعَالَى،فَأَسْلَمَ الْحَارِثُ، وَأَسْلَمَ مَعَهُ ابْنَانِ لَهُ وَنَاسٌ مِنْ قَوْمِهِ،وَأَرْسَلَ إلَى الْبَعِیرَیْنِ، فَجَاءَ بِهِمَا، فَدَفَعَ الْإِبِلَ إلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاوہ دواونٹ کہاں  ہیں  جنہیں  تم نے عقیق کی فلاں  گھاٹی میں  چھپادیئے ہیں ؟حارث یہ سن کربولامیں  گواہی دیتاہوں  کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اوریہ کہ آ پ محمداللہ کے رسول ہیں ، اللہ کی قسم! اس معاملے سے اللہ کے سواکوئی مطلع نہیں  ہوسکتاتھا،چنانچہ حارث اس کے دوبیٹوں  اوراس کی قوم کے چندافرادنے اسلام قبول کرلیااوروہ دونوں  اونٹ آدمی بھیج کرمنگوائے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  پیش کردیئے۔[3]

ایک انصاری  رضی اللہ عنہ  کاقتل:

وَقَدِمَ مِقْیَسُ بْنُ صُبَابَةَ مِنْ مَكَّةَ مُسْلِمًا، فِیمَا یَظْهَرُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُكَ مُسْلِمًا، وَجِئْتُكَ أَطُلُبُ دِیَةَ أَخِی، قُتِلَ خَطَأًفَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِدِیَةِ أَخِیهِ هِشَامِ بْنِ صُبَابَةَ،فَأَقَامَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَیْرَ كَثِیرٍ، ثُمَّ عَدَا عَلَى قَاتِلِ أَخِیهِ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إلَى مَكَّةَ مُرْتَدًّافَقَالَ فِی شِعْرٍ

مقیس بن صبابہ مکہ مکرمہ سے آیااورخودکومسلمان ظاہرکیا،اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی خدمت میں  مسلمان ہوکرحاضرہواہوں  اورآپ سے اپنے مقتول بھائی ہشام بن صبابہ رضی اللہ عنہ  جوغلطی سے مارے گئے تھے ان کاخون بہالینے آیاہوں ،اس پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بھائی ہشام بن صبابہ کا خون بہااداکرنے کاحکم فرمایا،یہ تھوڑی دیررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  ٹھیرارہاپھرجاکراپنے بھائی کے قاتل انصاری پرحملہ کرکے انہیں  شہیدکردیااورپھرمرتدہوکرمکہ واپس چلاگیااورکچھ شعربھی کہے۔[4]

سریہ عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  (دومتہ الجندل کی طرف) شعبان چھ ہجری

فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:كُنْتُ عَاشِرَ عَشَرَةِ رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَسْجِدِهِ:أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِیٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَابْنُ مَسْعُودٍ، وَمُعَاذُ ابْن جَبَلٍ، وَحُذَیْفَةُ بْنُ الْیَمَانِ، وَأَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،إذْ أَقْبَلَ فَتًى مِنْ الْأَنْصَارِ، فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، صَلَّى اللهُ عَلَیْكَ، أَیُّ الْمُؤْمِنِینَ أَفْضَلُ؟فَقَالَ:أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا،قَالَ: فَأَیُّ الْمُؤْمِنِینَ أَكْیَسُ؟ قَالَ: أَكْثَرُهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ، وَأَحْسَنُهُمْ اسْتِعْدَادًا لَهُ قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ بِهِ، أُولَئِكَ الْأَكْیَاسُ،ثُمَّ سَكَتَ الْفَتَى

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ ،سیدناعلی  رضی اللہ عنہ ،عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ بن عوف،عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما ،معاذبن جبل رضی اللہ عنہ ، حذیفہ بن الیمان  رضی اللہ عنہ اورابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ  مسجدنبوی میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہ میں  حاضرتھے، ایک انصاری نوجوان بھی حاضرخدمت ہوااورسلام کرکے بیٹھ گیااورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !سب سے بہترین مسلمان کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہوں ،اس انصاری نوجوان نے پھرسوال کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ ہوشیاراورسمجھدارمسلمان کون ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جوسب سے  زیادہ موت کویادکرنے والااورموت سے پہلے اس کی تیاری کرنے والاہی ہوشیاراورسمجھدارہے،یہ جواب سن کروہ نوجوان خاموش ہوگیا۔

وَأَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ، خَمْسُ خِصَالٍ إذَا نَزَلْنَ بِكُمْ وَأَعُوذُ بالله أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ

پھرآپ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااے گروہ مہاجرین پانچ نہایت خطرناک خصلتیں  ہیں  اللہ تعالیٰ تمہیں  ان سے پناہ دے ۔

إنّهُ لَمْ تَظْهَرْ الْفَاحِشَةُ فِی قَوْمٍ قَطّ حَتّى یُعْلِنُوا بِهَا إلّا ظَهَرَ فِیهِمْ الطّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الّتِی لَمْ تَكُنْ فِی أَسْلَافِهِمْ الّذِینَ مَضَوْا

x  جس قوم میں  کھلم کھلابے حیائی پھیل جائے ،اس قوم میں  طاعون اوروہ مہلک بیماریاں  پھیلتی ہیں  جواس سے پہلے ظاہرنہ ہوئی تھیں ۔

 وَلَمْ یَنْقُضُوا الْمِكْیَالَ وَالْمِیزَانَ إلّا أُخِذُوا بِالسّنِینَ وَشِدّةِ الْمُؤْنَةِ وَجَوْرِ السّلْطَانِ

x  جوقوم ناپ تول میں  کمی بیشی کرتی ہے ،وہ قوم قحط سالی اوردوسری تکالیف میں  مبتلاہوجاتی ہے،اوران پرظالم وجابرحکمران مسلط کردیاجاتاہے۔

وَلَمْ یَمْنَعُوا الزّكَاةَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ إلّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنْ السّمَاءِ فَلَوْلَا الْبَهَائِمُ مَا مُطِرُوا

x  جوقوم اپنے مالوں  سے زکوٰة نہیں  نکالتی ،اللہ ان پربارش کوروک دیتاہے ،مگرجانوروں  کی وجہ سے کچھ بارش ہوجاتی ہے۔

وَمَا نَقَضُوا عَهْدَ اللهِ وَعَهْدَ رَسُولِهِ إلّا سُلّطَ عَلَیْهِمْ عَدُوّ مِنْ غَیْرِهِمْ فَأَخَذَ بَعْضَ مَا كَانَ فِی أَیْدِیهمْ

x جوقوم اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کاعہدتوڑتی ہے ،اللہ تعالیٰ غیرقوموں کوان پرمسلط فرمادیتاہے،اوروہ  ان کاسب کچھ ہتھیالیتے ہیں ۔

 وَمَا لَمْ یَحْكُمْ أَئِمّتُهُمْ بِكِتَابِ اللهِ وَتَجَبّرُوا فِیمَا أَنَزَلَ اللهُ إلّا جَعَلَ اللهُ بَأْسَهُمْ بَیْنَهُمْ

x  جب علماء اورقاضی متکبراورسرکش ہوکر اللہ کی کتاب کے خلاف فیصلہ کرنے لگیں  تواللہ ان کے درمیان پھوٹ ڈال دیتاہے۔[5]

ثُمَّ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أَنْ یَتَجَهَّزَ لِسَرِیَّةٍ بَعَثَهُ عَلَیْهَافَأَصْبَحَ وَقَدْ اعْتَمّ بِعِمَامَةِ مِنْ كَرَابِیسَ سَوْدَاءَ فَأَدْنَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ ثُمّ نَقَضَهَا، ثُمّ عَمّمَهُ بِهَا،وَأَرْسَلَ مَنْ خَلْفَهُ أَرْبَعَ أَصَابِعَ أَوْ نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ ثُمّ قَالَ هَكَذَا یَا ابْنَ عَوْفٍ فَاعْتَمّ، فَإِنّهُ أَحْسَنُ وَأَعْرَفُ،ثُمّ أَمَرَ بِلَالًا أَنْ یَدْفَعَ إلَیْهِ اللّوَاءَ،فَدَفَعَهُ إلَیْهِ

پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاکہ میں  آج یاکل تمہیں  ایک مہم پرروانہ کرنے والاہوں ،دوسرے روزصبح کوعبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  ایک سیاہ عمامہ باندھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  آئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے عمامہ کوکھول کرپھرعمامہ باندھااوراس کاشملہ چارانگشت یااسی کے قریب قریب پشت پرچھوڑااورفرمایااے عبدالرحمٰن اس طرح عمامہ باندھاکروبہت اچھاہے،پھر بلال  رضی اللہ عنہ  کوحکم فرمایاکہ جھنڈا لا کرانہیں  دیں ،

فَحَمِدَ اللهَ تَعَالَى، وَصَلّى عَلَى نَفْسِهِ ثُمّ قَالَ خُذْهُ یَا ابْنَ عَوْفٍ اُغْزُوَا جَمِیعًا فِی سَبِیلِ اللهِ فَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاَللهِ لَا تَغْلُوا وَلَا تَغْدِرُواوَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تُمَثّلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِیدًا، فَهَذَا عَهْدُ اللهِ وَسِیرَةُ نَبِیّهِ فِیكُمْ،وبعثه إلَى كَلْبٍ بدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ و قال: إنْ اسْتَجَابُوا لَك فَتَزَوّجْ ابْنَةَ مَلِكِهِمْ،وَكَانُوا سَبْعَمِائَةِ رَجُلٍ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ عزوجل کی حمدوثناکی اپنے اوپردرودپڑھااورعبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  سے مخاطب ہوکرفرمایااے ابن عوف ! دومتہ الجندل میں  بنوکلب کی طرف جہادفی سبیل اللہ کے لئے نکل جاؤاورکفار سے قتال کرو،دیکھوغلونہ کرنااورحدسے تجاوزنہ کرنااور عہدشکنی اورخیانت نہ کرنااورکسی کامثلہ نہ کرنااورکسی معصوم بچے کوقتل نہ کرنا،یہ اللہ کاعہد اوراس کے نبی کی سنت ہے،    آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  دومتہ الجندل(وادی سرجان کے جنوبی سرے پرایک نخلستان ہے،جومدینے اوردمشق کے درمیان سیدھے راست پرواقع ہے) میں  قبیلہ کلب کے پاس بھیجا،اوروہ سات سومجاہدین تھے ،فرمایااگروہ تمہاری دعوت اسلام کوقبول کرلیں  تووہاں  کے سردارکی بیٹی سے نکاح کرلینا

فَسَارَ عَبْد الرَّحْمَن حَتّى قَدِمَ دَوْمَةَ الْجَنْدَلِ فَمَكَثَ ثَلَاثَةَ أَیّامٍ یَدْعُوهُمْ إلَى الْإِسْلَام،وَقَدْ كَانُوا أَبَوْا أَوّلَ مَا قَدِمَ یُعْطُونَهُ إلّا السّیْفَ، فَلَمّا كَانَ الْیَوْمُ الثّالِثُ أَسْلَمَ الْأَصْبَغُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِیّ، وَكَانَ نَصْرَانِیّا وَكَانَ رَأْسَهُمْ، وَأَسْلَمَ معه نَاسٍ كَثِیر مِن قَوْمُهُ وأقام مِن أقام عَلَى إعْطَاءِ الْجِزْیَةِ،وتزوج عَبْد الرَّحْمَن تُمَاضِرَبِنْتَ الْأَصْبَغِ وقدم بِهَا إِلَى الْمَدِینَةِ ، وَهِیَ أُمُّ أَبِی سَلَمَةَ بْن عَبْد الرَّحْمَنِ

چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  مجاہدین کے لشکر کے ساتھ دومتہ الجندل پہنچ گئے اورتین روزتک لوگوں  کودعوت اسلام دیتے رہے، پہلے پہلے توان لوگوں  نے اس دعوت کوقبول کرنے سے انکارکردیااورلڑنے پرتیار ہوگئے لیکن تیسرے دن وہاں  کے عیسائی سرداراصبغ بن عمروکلبی نے اسلام قبول کرلیا،اپنے سردارکے دیکھادیکھی دوسرے کئی لوگوں  نے بھی اسلام قبول کرلیاعبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  نے غیر مسلموں  پرخراج لگادیا،اور اصبع بن عمر کی صاحبزادی تماضرسے نکاح کرلیا اورانہیں  مدینہ لے آئے،انہی کے بطن سے جلیل القدرحافظ اورتابعی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ  پیداہوئے۔[6]

فَلَمّا كَانَ الْیَوْمُ الثّالِثُ أَسْلَمَ الْأَصْبَغُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِیّ، وَكَانَ نَصْرَانِیّا وَكَانَ رَأْسَهُمْ.فَكَتَبَ عَبْدُ الرّحْمَنِ إلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخْبِرُهُ بِذَلِكَ، وَبَعَثَ رَجُلًا مِنْ جُهَیْنَةَ یُقَال [لَه ُ] رَافِعُ بْنُ مَكِیثٍ، وَكَتَبَ یُخْبِرُ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنّهُ قَدْ أَرَادَ أَنْ یَتَزَوّجَ فِیهِمْ،فَكَتَبَ إلَیْهِ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَتَزَوّجَ بِنْتَ الْأَصْبَغِ تُمَاضِرَ. فَتَزَوّجَهَا عَبْدُ الرّحْمَنِ وَبَنَى بِهَا، ثُمّ أَقْبَلَ بِهَا، وَهِیَ أُمّ أَبِی سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ

ایک روایت میں  ہےتیسرے روزانہوں  نے پھران کوحق کی طرف بلایااس مرتبہ ان کے نصرانی سرداراصبغ بن عمروکلبی پرعبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ کی دعوت کاخاص اثرہوااوروہ نصرانیت کاقلاوہ گردن سے اتارکرمشرف بہ اسلام ہوگئے،ان کے ساتھ بنوکلب ے اوربہت سے لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ،عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ نے سرورعالم  صلی اللہ علیہ وسلم  کورافع بن مکیث کے ہاتھ ایک خط بھیجاجس میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواصبغ کے اسلام لانے کی اطلاع دی اوربنوکلب سے تعلقات قائم رکھنے کے بارے میں  بھی دریافت کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (جواباً) تحریرفرمایاکہ تم اصبغ کی بیٹی سے شادی کرلو،عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادکی تعمیل میں  اصبغ کی بیٹی تماضر رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی اوران کورخصت کراکرمدینہ منورہ ساتھ لائے،انہی کے بطن سے  ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ  بن عوف پیداہوئے۔[7]

اوریہی روایت قرین قیاس ہے،بعض اہل سیرنے یہ خیال ظاہرکیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ کواصبغ کی بیٹی سے شادی کامشورہ اس لیے دیاتھاکہ اس طرح بنوکلب سے مسلمانوں  کے تعلقات استوارہوجائیں  گے۔

سریہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن طالب(فدک کی طرف)شعبان چھ ہجری

وَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنّ لَهُمْ جَمْعًا یُرِیدُونَ أَنْ یَمُدّوا یَهُودَ خَیْبَرَفَبَعَثَ إِلَیْهِمْ عَلِیًّا فِی مِائَةِ رَجُلٍ،فَسَارَ اللیْلَ، وَكَمُنَ النَّهَارَ،، حَتَّى انْتَهَى إِلَى الغمجِ،وَهُوَ مَاءٌ بَیْنَ خَیْبَرَ، وَفَدَكٍ وَبَیْنَ فَدَكٍ وَالْمَدِینَةِ سِتُّ لَیَالٍ،فَوَجَدُوا بِهِ رَجُلا، فَسَأَلُوهُ عَنِ الْقَوْمِ؟ فَقَالَ: أُخْبِرُكُمْ عَلَى أَنَّكُمْ تُؤَمِّنُونِی،فَأَمَّنُوهُ، فَأَقَرَّ لَهُمْ أَنَّهُ بَعَثَ إِلَى خَیْبَرَ یَعْرِضُ عَلَیْهِمْ نَصْرَهُمْ عَلَى أَنْ یَجْعَلُوا لَهُمْ ثَمَرَ خَیْبَرَ فَدَلَّهُمْ، فَأَغَارُوا علیهم، وَهَرَبَتْ بَنُو سَعْدٍ بِالظَّعنِ، وأخذوا خمسمائة بَعِیرٍ، وَأَلْفَیْ شَاةٍ،وَقَدِمَ الْمَدِینَةِ وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًا

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرملی کہ(ہوزان کی ایک شاخ) بنوسعد بن بکرکے سرداروبرین بن علیم کی سربراہی میں  لوگ یہودخیبرکی مددکے لئے جمع ہورہے ہیں ،چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو سو مجاہدین کاایک دستہ دے کرفدک میں  بنوسعدبن بکرکی طرف بھیجا، اچانک چھاپہ مارنے کی غرض سے یہ دستہ دن میں  چھپارہتا اور رات میں  سفر کرتا رہا اسی طرح مسافت طے کرتے ہوئے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  مجاہدین کے ساتھ خیبراورفدک کے درمیان ایک چشمے الغمجِ  پرپہنچ گئے،جوخیبراورفدک کے درمیان ایک پانی کاچشمہ ہے اورمدینہ اورفدک کے درمیان چھ راتوں  کاراستہ ہے،وہاں  انہیں  ایک آدمی ملاجب اس سے اس سے قوم کے متعلق پوچھاکہ انہوں  نے کہاں  جتھ بندی کی ہےتواس نے کہااگرتم مجھے امان دے دوتومیں  ان کی جتھ بندی کی جگہ بتاتاہوں ، چنانچہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے اسے امان دے دی،جب اس سے تفتیش کی گئی تواس نے اقرار کیا کہ بنوسعدنے خیبرکی کھجوروں  کے بدلے یہود کو مددفراہم کرنے کاوعدہ کیاہے، تواس نے قوم کی طرف راہنمائی کی چنانچہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ان پرشب خون مارا توبنوسعد مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی عورتوں  اوربچوں  سمیت فرارہوگئے، سیدنا  علی  رضی اللہ عنہ  نے ان کے پانچ سواونٹ اوردوہزاربکریوں  پرقبضہ کرلیااوربغیرکسی لڑائی کےمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔[8]

سریہ سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ( نجد کی طرف)  رمضان چھ ہجری

بنوفزارہ کی ایک شاخ بنوبدرکی سردارربیعہ بن بدرفزاری کی شیطان صفت بیٹی فاطمہ بنت ربیعہ تھی،یہ بہت بڑھی تھی اوراپنی قوم میں  معززمانی جاتی تھی ،وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں  کیاکرتی تھی اوراس مقصدکے لئے اس نے اپنے بیٹوں  اورپوتوں  میں  سے تیس شہسواربھی تیارکیے تھے اورکہاتھاکہ مدینہ پرچڑھائی کرکے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کوقتل کرآؤ

سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ إِلَى فَزَارَةَ،فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَاءِ أَمَرَنَاأَبُو بَكْرٍ فَعَرَّسْنَا فَلَمَّا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ، أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَشَنَنَّا الْغَارَةَ عَلَیْهِمِ، قَالَ: فَوَرَدْنَا الْمَاءَ فَقَتَلْنَا بِهِ مَنْ قَتَلْنَا، قَالَ سَلَمَةُ: فَأَبْصَرْتُ عُنُقًا مِنَ النَّاسِ، وَفِیهِمُ النِّسَاءُ وَالذَّرَارِیُّ فَخَشِیتُ أَنْ یَسْبِقُونِی إِلَى الْجَبَلِ فَأَدْرَكْتُهُمْ فَرَمَیْتُ بِسَهْمٍ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ الْجَبَلِ فَلَمَّا رَأَوُا السَّهْمَ قَامُوا

سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ان کی سرکوبی کے لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  کی زیرقیادت ایک دستہ فزارہ ( نجد)کی طرف روانہ کیاگیا اس دستہ میں  سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  بھی مجاہدین کے ساتھ تھے،وہ فرماتے ہیں پانی کے چشمے کے قریب پہنچ کر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ہمیں  رات بسرکرنے کاحکم دیاہم نے رات بسرکی،صبح کی نمازکے بعد سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے ہمیں  حملہ کاحکم دیاہم نے ان پرغارت گری کی،ہم پانی پرآئے اورہم نےبہت سے آدمیوں  قتل کردیا،اوردوسرے مجاہدین کے ہاتھوں اس کے تیار کردہ تیسوں  شہسواربھی خاک میں  مل گئے، سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  نے عورتوں  اوربچوں  کاایک گروہ دیکھاجوپہاڑپرچڑھنے کی کوشش کر رہا تھا،مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں  یہ گروہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی پہاڑپرنہ چڑھ جائے ،میں  نے انہیں  روکنے کے لئے ان کے اورپہاڑکے درمیان تیرچلایاجس پروہ اپنی جگہ ٹھٹک گئے،

إِذَا امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ فِیهِمْ عَلَیْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ. مَعَهَا ابْنَتُهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَجِئْتُ أَسُوقُهُمْ إِلَى أَبِی بَكْرٍ فَنَفَّلَنِی أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِینَةَ،ثُمَّ بَاتَتْ عِنْدِی فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى لَقِیَنِی رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ِفِی السُّوقِ فَقَالَ: یَا سَلَمَةُ هَبْ لِیَ الْمَرْأَةَ!فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ! وَاللهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِی وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا! فَسَكَتَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِیَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فِی السُّوقِ وَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا فَقَالَ: یَا سَلَمَةُ هَبْ لِیَ الْمَرْأَةَ،قَالَ: فَقُلْتُ: هِیَ لَكَ یَا رَسُولَ اللهِ!قَالَ: فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم  إلى أَهْلِ مَكَّةَ فَفَدَى بِهَا أَسْرَى مِنَ الْمُسْلِمِینَ كانوا فی أیدی المشركین

ان میں  ام قرفہ نامی عورت بھی تھی جس نے ایک پرانی پوستین پہن رکھی تھی ،اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جوعرب کی خوبصورت ترین عورتوں  میں  سے تھی،میں  اس گروہ کو لے کرامیردستہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے پاس لے آیاانہوں  نے اس خوبصورت لڑکی کومجھے عطاکردیالیکن میں  نے اس کاکپڑانہ کھولا،میں  نے اس کالباس نہیں  کھولاتھاحتی کہ ہم مدینہ منورہ آگئے،رات وہ میرے پاس رہی مگرمیں  نے اس کالباس نہ کھولا،صبح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بازارمیں  ملے اورفرمایاسلمہ !وہ عورت مجھے ہبہ کردو!میں  نے کہااے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے اورمیں  نے ابھی تک اس کا لباس نہیں  اتارا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خاموش ہوگئے،اس سے دوسرے دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پھرمجھے بازارمیں  ملے جبکہ میں  نے اس عورت کالباس نہیں  کھولاتھافرمانے لگے اے سلمہ!وہ عورت مجھے ہبہ کردے،میں  نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !وہ آپ کی ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کومکہ مکرمہ بھیج دیا اوراس کے عوض وہاں  کے متعددمسلمان قیدیوں  کورہاکرالیا۔[9]

کفارنے مدینہ منورہ کی مختصرسی اسلامی ریاست کوہرطرف سے نرغے میں  لےرکھاتھااورمسلمانوں  کی مٹھی بھرجماعت سخت بے سروسامانی میں  پورے عرب کامقابلہ کررہی تھی، ان حالات میں  جانی قربانی کے ساتھ مالی قربانی بھی درکارتھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اورمالی قربانی پرزوردیا۔

مضامین سورةالحدید

اس سورة میں  بنیادی طورپرتین مضامین مذکورہیں ۔

پہلایہ کہ رنگ وبوسے بھری اس عظیم الشان کائنات میں  جوکچھ بھی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کاہے،وہی ہرچیزکاخالق اورمالک ہے،کائنات کی ہرچیزاس کی حمدوتسبیح بیان کرتی ہے ،انسان،جن ،فرشتے ،حیوان،شجروحجر،جمادات ونباتات سب کے سب زبان حال سے اورزبان قال سے اس کی عظمت وکبریائی کااقرارکرتے ہیں ،جب کچھ نہیں  تھااس وقت بھی وہی تھااورجب کچھ نہیں  رہے گاوہ تب بھی ہوگا،وہ ہرچیزپرغالب ہے،اس پرکوئی غالب نہیں  آسکتا،وہ اتناظاہرہے کہ ہرچیزمیں  اس کی شان ہویداہے اورباطن اور ایسامخفی ہے کہ کوئی عقل اس کی حقیقت تک نہیں  پہنچ سکتی اورحواس اس کاادراک نہیں  کرسکتے۔

دوسرامضمون اللہ کی راہ میں جان ومال کی قربانی کاہے ،تاریخ اسلام کے اس نازک ترین دورمیں  مسلمانوں  کے لیے بے شمارخطرات تھے،کفرکی پوری طاقت اپنے آخری حربوں  کے ساتھ مسلمانوں  کوزیرکرنے بلکہ مٹانے کے لیے ہاتھ پاؤں  ماررہی تھی،غزوہ بدراوراس کے بعدکے غزوات نے کفارکویہ باورکرادیاتھاکہ اب مسلمانوں  کامقابلہ بھرپوراوریکبارگی کرناہوگاورنہ مسلمان پھیلتے ہی چلے جائیں  گے،ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں  مسلمانوں  کوبھی اپنی ساری توانائیاں  مجتمع کرکے پورے زورکے ساتھ کفرکا مقابلہ کرناتھااوراس مقصدکے لیے مالی وجانی اور ہرطرح کی قربانیاں  ضروری تھیں ،اس لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس اورصفات بیان کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں  خرچ کرنے کے فضائل اوراس کی ضرورت پرزور دیا گیا ہے ، مگرکوئی بھی جانی ومالی قربانی موقع کی نزاکت کے اعتبارسے کسی بھی وقت زیادہ اہم ہوجاتی تھی اس لیے واضح کیاگیا کہ فتح وکامرانی کے بعدکے دورکی قربانی اور ضعف وکمزوری کے دورکی قربانی میں  فرق بڑافرق ہے،جولوگ مصائب ومشکلات کی ان گھڑیوں  میں  جانی ومالی قربانی دیں  گے ان کااجروثواب کہیں  زیادہ ہوگااوربعدکے دورمیں  قربانیاں  دینے والے کبھی ان کے درجات تک نہیں  پہنچ سکیں  گے۔

x مزیدفرمایاکہ مال ودولت دراصل اللہ ہی کاہے،انسان کودورنیابت میں  صرف تصرف کااختیاردیاگیاہے،یہ مال تم سے پہلے کسی اورکے پاس تھااورتمہارے بعد دوسرے لوگوں  کے تصرف میں  چلاجائے گااس لیے انسان کے لیے وہ مال سودمندہوگاجواپنے دورنیابت میں  اللہ کی راہ میں  خرچ کرے گا۔

x اجروثواب کے ذیل میں  فرمایاکہ جومال اللہ کی راہ میں  خرچ کیاجائے گاوہ اللہ کے ذمہ قرض ہے اورروزمحشراس بندے کواس کاپورابلکہ کئی گنازیادہ اجروثواب ملے گا،ایسے مردوعورتوں  کوآخرت میں ا متیازی نشان کے طورپرایک مخصوص قسم کانور ا دیاجائے گاجوان کی رہنمائی کرے گالیکن کافراورمنافقین مردوعورتیں  اس نورسے محروم ہوں  گے،وہ پرانے تعلقات کاواسطہ دے کرمومنوں  سے روشنی کی درخواست کریں  گے لیکن بے کار،کیونکہ یہ لوگ دنیاکی آرزؤوں  میں  کھوکرحق سے دورہوگئے تھے اس لیے کافرومنافق مردوں وعورتوں  کاحشربھی ساتھ ہوگا ۔

x اہل ایمان کوجھنجھوڑنے والے اندازمیں  متنبہ کیاگیاہے کہ منافقوں  اوریہودونصاریٰ کی طرح دنیاکی زندگی اوراس کی ظاہری کشش سے دھوکانہ کھائیں ، جن کی ساری عمر دنیا کے مال ودولت اوراقتدارکے حصول اوراس کی پرستش میں  گزرگئی اوروہ کبھی اللہ کی بارگاہ میں  نہ جھک سکے ،یہ دنیاچندروزکے نفع اٹھانے کی چیزہے یہاں  کامال ودولت ، اولاد ، جتھے داریاں ،جاہ وحشم اورطاقت واقتدارموت کے ساتھ ہی منقطع ہو جائیں  گے۔

x فرمایاکہ شہیدوصدیق کاعقیدہ تویہ ہے کہ راحت ومصیبت اللہ ہی کی جانب سے ہے اس لیے وہ اپنامال کسی جذبہ ریاکے بغیر اخلاص وصداقت کے ساتھ اللہ کی راہ میں  سب کچھ لٹادیتے ہیں  ،اگرمومن کوکوئی نعمت ملتی ہے تووہ اس پراتراتانہیں  بلکہ ان پراللہ کاشکراداکرتاہے جبکہ کفرومنافق اس نعمت کواپناحق سمجھتاہے اوران کے ملنے پرپھول جاتے ہیں ،فخرجتاتے ہیں ،اوراسے اللہ کی راہ میں  خرچ کرنے کے بجائے تنگ دلی کامظاہرہ کرتے ہیں  اورجب مصیبت آتی ہے تودل گرفتہ ہوجاتے ہیں ۔

x اس دنیاکی رنگینیاں  یہاں  مختلف اقسام کی لذات،یہاں  کی آرائش وزیبائش،یہاں  کامال ودولت جس کی خاطرلوگ جائزوناجائزطورپر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں  سب فانی اور ناپائیدارہیں ،پائیدارزندگی تودراصل آخرت کی زندگی ہے اس لیے عقل مندی کاتقاضایہ ہے کہ پائیدارزندگی کی نعمتوں  اورعیش وآرام کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

x اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت ورہنمائی اور کائنات میں  عدل قائم رکھنے کے لیے کتابیں  اورمیزان اتاراہے ،اوراگرکوئی طبقہ بغاوت وسرکشی پراترآئے تواس کاسرنیچاکرنے اور باطل کومٹانے کے لیے لوہابنایاگیاہے،اب اہل ایمان کافرض ہے کہ قیام عدل کی خاطربغاوت وسرکشی کوکچلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں  اللہ تعالیٰ ان کی تائیدونصرت فرمائے گا اوراگرآج اہل ایمان میدان میں  نہ اترے تواللہ تعالیٰ اپنے دین کے قیام کے لیے کوئی اورمخلوق بھیج دے گا۔

x اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اورربوبیت کی طرف دعوت دینے کے لیے انبیاء ورسل کومبعوث کیاگیاتھا اورہرنبی نے اس دعوت کواپنی اپنی قوموں  میں بااحسن وخوبی پہنچایاتھا،عیسیٰ   علیہ السلام یاکسی اورنبی نے ترک دنیا (رہبانیت)کی تعلیم نہیں  دی،رہبانیت کاسبق ان لوگوں  کاخودساختہ ہے تاکہ سادہ لوح لوگوں  کے سامنے اپنے آپ کودین کاعلمبرداربلکہ ٹھیکے دارثابت کرسکیں  حالانکہ دین اللہ تعالیٰ کافضل ہے اوراس فضل سے اللہ تعالیٰ جس کوچاہتاہے نوازدیتاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١﴾‏ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٢﴾‏ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٣﴾‏هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَیْنَ مَا كُنْتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٤﴾‏ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‎﴿٥﴾‏ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُولِجُ النَّهَارَ فِی اللَّیْلِ ۚ وَهُوَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٦﴾‏(الحدید)
’’آسمانوں اور زمین میں جو ہے (سب) اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں، وہ زبردست با حکمت ہے، آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی،اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے ،وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا، وہ( خوب) جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے، اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے، آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، اور تمام کام اس کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اور سینوں کے بھید کا پورا عالم ہے۔‘‘

اس سورۂ کاآغازاللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس اورصفات سے ہواہے تاکہ اس کے مخاطب لوگ اپنے خالق کی طاقت وعظمت اوراس کی رحمت ولامحدودقدرت کے یقین کے ساتھ اس کے کلام کوسنیں  اورعمل کرنے کے لئے کمربستہ ہوجائیں ،فرمایاآسمان وزمین کی تمام موجودات،حیوانات وجمادات ، اس عظیم الشان کائنات کازرہ زرہ اپنے رب کی تسبیح بیان کررہاہے اورہمیشہ کرتارہے گا کہ اس کاخالق وپروردگارہرعیب اورنقص اورکمزوری اورخطااوربرائی سے پاک ہے،مگرتم اس کی تسبیح سمجھ نہیں  سکتے ،جیسےفرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [10]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  جو ان میں  ہیں  سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہو،حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور در گزر کرنے والا ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۝۴۱ [11]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں  وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں  اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں  اللہ اس سے با خبر رہتا ہے ۔

 ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۲۴ۧ [12]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے ، اس کے لیے بہترین نام ہیں ، ہر چیز جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔

یُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِـیْمِ۝۱ [13]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے،بادشاہ ہے ، قدوس ہے ، زبردست اور حکیم ہے ۔

یُسَبِّــحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۚ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ۝۰ۡوَہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱ [14]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ایک مقام پر داود علیہ السلام  کے بارے میں  فرمایاکہ پہاڑاورپرندے ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے،

۔۔۔وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ۝۰ۭ وَكُنَّا فٰعِلِیْنَ۝۷۹  [15]

ترجمہ: داؤد کے ساتھ ہم نے پہاڑوں  اور پرندوں  کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے ، اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔

وہ ایسا زبردست اورقادرہے جس کے فیصلے کونافذہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں  سکتی اوروہ جوکچھ بھی کرتا ہے ،جوبھی فیصلہ فرماتاہےحکمت ودانائی کے ساتھ کرتاہے، اللہ تعالیٰ نے لامحدود اقتدار کے بارے میں  آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکائنات کی سلطنت کامالک وہی ہے،اس لئے وہ ان میں  جس طرح چاہتاہے تصرف فرماتاہے ،اس کے سواان میں  کسی کاحکم اور تصرف نہیں  چلتا،وہی زندگی بخشتا ہے اوروہی موت دیتاہے اوروہ ہرچیز پر قدرت رکھتاہے، کائنات اورتمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے جب کچھ نہ تھاتب بھی وہی تھااورجب وہ ایک وقت مقررہ پر کائنات کی تمام مخلوق کو کوفناکر دے گاتب بھی وہی رہے گا، جیسے فرمایا

۔۔۔كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ۔۔۔۝۰۝۸۸ۧ  [16]

ترجمہ:ہرچیزفانی ہے اللہ کی ذات کے سوا۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [17]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

وہ سب پرغالب ہے اس پرکوئی غالب نہیں  اور وہ مخفی ہے،

الْمَعْنَى الْمُحْتَجِبُ عَنِ الْأَبْصَارِ وَالْعُقُولِ

امام شوکانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں اس کا معنی ہے کہ وہ لوگوں  کی نظروں  اورعقلوں  سے مخفی ہے۔[18]

کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار ، عقل وفکروخیال تک اس کی کنہ وحقیقت کونہیں  پاسکتےاوروہ ہرچیز کاعلم رکھتاہے۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں ۔

أَنْتَ الْأَوَّلُ الَّذِی لَیْسَ قَبْلَكَ شَیْءٌ ، وَالْآخِرُ الَّذِی لَیْسَ بَعْدَكَ شَیْءٌ

توہی پہلاہے کوئی تجھ سے پہلے نہیں  ،  توہی آخرہے کوئی تیرے بعدنہیں

وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَیْسَ فَوْقَكَ شَیْءٌ،وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَكَ شَیْءٌ

توہی ظاہرہے کوئی تجھ سے اوپرنہیں  ،   توہی باطن ہے کوئی تجھ سے مخفی ترنہیں ۔[19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: أَتَتْ فَاطِمَةُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا،فَقَالَ لَهَا:مَا عِنْدِی مَا أُعْطِیكِ،فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: الَّذِی سَأَلْتِ أَحَبُّ إِلَیْكِ، أَوْ مَا هُوَ خَیْرٌ مِنْهُ؟فَقَالَ لَهَا عَلِیٌّ: قُولِی لَا، بَلْ مَا هُوَ خَیْرٌ مِنْهُ،فَقَالَتْ،فَقَالَ:قُولِی:اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْأَرَضِینَ، وَرَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَیْءٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ ذِی شَرٍّ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهِ، أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَكَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَكَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَیْسَ فَوْقَكَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَكَ شَیْءٌ، اقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَأَغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفاطمہ الزہرہ  رضی اللہ عنہا  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک خدمت گارمانگنے کے لئے آئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیرے پاس توخادم نہیں  ہے جومیں  تمہیں  دوں ،یہ سن کروہ لوٹ آئیں  پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے پاس آئے اورفرمایاجوتم نے مانگاتھا(یعنی خادم)وہ تم کوزیادہ پسندہے یاجواس سے بہترہے؟ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے ان سے کہایوں  کہونہیں مجھے وہ زیادہ پسندہے جوخادم سے بہترہو، انہوں  نے ایساہی کہا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یہ دعاپڑھاکرو اے اللہ، اے آسمانوں  اور زمینوں  کے پروردگار!اے ہمارے رب، اے ہر چیز کے رب!اے دانوں  اورگٹھلیوں  کو اگانے والے !اور اے تورات ، انجیل اور قرآن نازل کرنے والے،میں  ہر چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جس کی پیشانی تیرے قبضے میں  ہے، تو سب سے پہلے ہے تجھ سے پہلے کوئی چیزنہ تھی اور تو ہی آخر ہے تیرے بعد کوئی چیز نہیں ،اورتو سب پرظاہر ہے تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں ، اور توسب سے پوشیدہ ہے تجھ سے زیادہ مخفی کوئی چیز نہیں ، (اے اللہ) توہمارے قرض ادا فرما دے   اورہمیں  فقیری سے بچاکر غنی کر دے (یہ دعا ادائیگی قرض کے لئے مسنون ہے)۔[20]

اسی رب نے چھ دنوں  میں اس عظیم کائنات کی تخلیق فرمائی،پہلادن اتوارتھااورآخری دن جمعہ تھا اورپھر فرمانروائی کے لئے اپنے عرش پرمستوی ہواجواس کے جلال کے لائق ہے ، جیسے فرمایا

اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۰۝۵۴  [21]

ترجمہ: درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اورزمین کوچھ دنوں  میں  پیداکیاہے پھراپنے تخت سلطنت پرجلوہ فرماہوا۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۔۔۔۝۰۝۳ [22]

ترجمہ: درحقیقت تمہارارب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اورزمین کوچھ دنوں  میں  پیداکیاہے ،پھراپنے تخت سلطنت پرجلوہ فرماہوکر کائنات کا انتظام چلارہاہے ۔

اَللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۰۝۴ [23]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو اور ان ساری چیزوں  کو جو ان کے درمیان ہیں ، چھ دنوں  میں  پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا ۔

جوغلہ جات ومیوہ جات کے بیج یاگٹھلیاں زمین کی تہوں  میں  جاتی ہیں انکی کمیت وکیفیت کووہ جانتا ہے اوران بیجوں  اورگٹھلیوں  سے جو نباتات درخت وغیرہ نکلتے ہیں  سب اللہ کے علم میں  ہیں اوروہ انتہائی حکیمانہ طریقہ سے ہرچیزکی علیحدہ علیحدہ تدبیرفرماتاہے،جیسے فرمایا

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹ [24]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں  ہیں  جنھیں  اس کے سواکوئی نہیں  جانتا،بحروبرمیں  جوکچھ ہے سب سے وہ واقف ہے ،درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسانہیں  جس کا اسے علم نہ ہو،زمین کے تاریک پردوں  میں  کوئی دانہ ایسانہیں  جس سے وہ باخبرنہ ہو،خشک وترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھاہواہے ۔

اور آسمان سے اولے ،برف، تقدیر اور وہ احکام جوفرشتے لے کراترتے ہیں ،

أَنَّهُ مَا یَنْزِلُ مِنْ قَطْرَةٍ مِنَ السَّمَاءِ إِلَّا وَمَعَهَا مَلَكٌ یُقرّرها فِی الْمَكَانِ الَّذِی یَأْمُرُ اللهُ بِهِ حَیْثُ یَشَاءُ تَعَالَى

اوراللہ تعالیٰ کے مقررکردہ فرشتےبارش کے ایک ایک قطرے کواللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہ پرپہنچادیتے ہیں ۔  [25]

اور فرشتے ارواح ،دعائیں  اورانسانوں  کے جواعمال لے کرآسمان کی طرف چڑھتے ہیں  سب اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں  ہے،یعنی وہ محض کلیات ہی کاعالم نہیں  ہے بلکہ جزئیات کاعلم بھی رکھتا ہے،

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ، وَلَا یَنْبَغِی لَهُ أَنْ یَنَامَ،یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُهُ،یُرْفَعُ إِلَیْهِ عَمَلُ اللیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللیْلِ،حِجَابُهُ النُّورُوَفِی رِوَایَةِ أَبِی بَكْرٍ: النَّارُ  لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھڑے ہوکرہمیں  پانچ باتیں  فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ عزو جل سوتانہیں  اورسونااس کے لائق نہیں  (کیونکہ سوناغفلت ہے اورمثل موت کے ہے)وہ ترازوکوجھکاتاہے اوربلندکرتاہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اوردن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف چڑھتے ہیں ، اس کاپردہ نورہے،سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کی روایت میں  ہے کہ پردہ وہ اس کاآگ ہے اگروہ اس پردے کوکھول دے تواس کے منہ کی شعاعیں  جہاں  تک اس کی  نگاہ پہنچتی ہومخلوق کوجلادیں ۔ [26]

تم خشکی میں  ہویاتری میں ،رات کاگھپ اندھیراہویادن کااجالا،گھروں  میں  ہویا صحراؤں  میں  ہرجگہ ہروقت وہ اپنے علم وبصرکے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے اورجو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے بھی دیکھ رہاہے ، جیسےفرمایا

اَلَآ اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ۝۰ۭ اَلَاحِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ۝۰ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۵وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶ [27]

ترجمہ: دیکھویہ لوگ اپنے سینوں  کوموڑتے ہیں  تاکہ اس سے چھپ جائیں ،خبردارجب یہ کپڑوں  سے اپنے آپ کوڈھانپتے ہیں  اللہ ان کے چھپے کوبھی جانتاہے اورکھلے کوبھی ،وہ تو ان بھیدوں  سے بھی واقف ہے جوسینوں  میں  ہیں ،زمین پرچلنے والاکوئی جاندارایسانہیں  ہے جس کارزق اللہ کے ذمے نہ ہواورجس کے متعلق وہ نہ جانتاہوکہ کہاں  وہ رہتاہے اورکہاں  وہ سونپاجاتاہے سب کچھ ایک صاف دفترمیں  درج ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۝۱۰ [28]

ترجمہ: تم میں  سے کوئی شخص خواہ زورسے بات کرے یاآہستہ اورکوئی رات کی تاریکی میں  چھپا ہوا ہو یادن کی روشنی میں  چل رہاہواس کے لئے سب یکساں  ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ مَا یَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَرَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَسَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَمَعَهُمْ اَیْنَ مَا كَانُوْا ۔۔۔ ۝۷ [29]

ترجمہ:کیاتم کوخبرنہیں  ہے کہ زمین اورآسمانوں  کی ہرچیزکااللہ کوعلم ہے ؟ کبھی ایسانہیں  ہوتا کہ تین آدمیوں  میں  کوئی سرگوشی ہواوران کے درمیان چوتھااللہ نہ ہو،یاپانچ آدمیوں  میں  سرگوشی ہواوران کے درمیان چھٹااللہ نہ ہو،خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں  یازیادہ جہاں  کہیں  بھی وہ ہوں  اللہ ان کے ساتھ ہوتاہے ۔

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مُعَاوِیَةَ الْغَاضِرِیَّ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِیمَانِ: مَنْ عَبَدَ اللهَ وَحْدَهُ فَإِنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ , وَأَعْطَى زَكَاةَ مَالِهِ طَیِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ رَافِدَةً عَلَیْهِ فِی كُلِّ عَامٍ , وَلَمْ یُعْطِ الْهَرِمَةَ وَلَا الدَّرِنَةَ وَلَا الشَّرَطَ اللَّائِمَةَ وَلَا الْمَرِیضَةَ وَلَكِنْ مِنَ أَوْسَطِ أَمْوَالِكُمْ , فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَسْأَلْكُمْ خَیْرَهُ , وَلَمْ یَأْمُرْكُمْ بِشَرِّهِ , وَزَكَّى عَبْدٌ نَفْسَهُ “ فَقَالَ رَجُلٌ: مَا تَزْكِیَةُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: یَعْلَمُ أَنَّ اللهَ مَعَهُ حَیْثُ مَا كَانَ

عبداللہ بن معاویہ غامری سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے تین کام کرلئے اس نے ایمان کی حلاوت کامزہ چکھ لیا، جواللہ وحدہ کی عبادت کرے اوریقین رکھے کہ اس کے سواکوئی معبودنہیں ،اوراپنے مال کی زکوٰة خوش دلی سے اداکی اگراس نے جانورزکوٰة میں  دیئے ہیں  توبیکار،بوڑھے،کمزورنہ دیئے ہوں  بلکہ درمیانہ درجہ کے اللہ کی راہ میں  دیئے ہوں  ،اللہ عزوجل تم سے بہت اچھی چیزطلب نہیں  کرتااورنہ کمترچیزکاحکم دیتاہے، اوراپنے نفس کو پاک کیا، اس پرایک شخص نے سوال کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نفس کوپاک کرنے کاکیامطلب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتواس بات کودل میں  محسوس کرے اوریقین وعقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ ہروقت تمہارے ساتھ ہے۔[30]

اللہ کے علاوہ کسی اورذات کاہروقت اورہرجگہ موجودہوناممکن نہیں  گودورحاضرکے بعض غالی لوگوں  نے ایسے عقائدگھڑنے کی کوشش شروع کررکھی ہے تاکہ امت مسلمہ کواس قسم کے عقائدونظریات کے ساتھ بہکا سکیں  ۔

وہی قدرتوں  اورمکمل اختیارات رکھنے والارب اس عظیم الشان کائنات کا فرمانروا ہے،آسمان وزمین کی ساری مخلوق اس کی غلام اوراس کے سامنے پست ہےجیسےفرمایا

وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَةَ وَالْاُوْلٰى۝۱۳ [31]

ترجمہ:اور در حقیقت آخرت اور دنیا دونوں  کے ہم ہی مالک ہیں  ۔

 وَهُوَاللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَةِ۝۰ۡوَلَهُ الْحُكْمُ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۷۰ [32]

ترجمہ:وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ، اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں  بھی اور آخرت میں  بھی ، فرماں  روائی اسی کی ہے اوراسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَةِ۝۰ۭ وَهُوَالْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ۝۱ [33]

ترجمہ:حمد اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں  اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں  بھی اسی کے لیے حمد ہے ، وہ دانا اور باخبر ہے ۔

اورتمام معاملات فیصلے کے لئے اس کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں  ، یہ بھی اس کی قدرت ہے کہ وہ رات کی تاریکیوں  سے روشن دن کونکال لاتاہے اور وہی تمہارے سارے دن کی تکان کو آرام وسکون مہیاکرنے کے لئے رات کولے آتا ہے ، وہ ایساباریک بین ہے کہ دلوں  میں  چھپے خفیہ بھیداورآنکھوں  کی خیانت بھی جانتاہے،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [34]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِینَ فِیهِ ۖ فَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِیرٌ ‎﴿٧﴾‏ وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ یَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِیثَاقَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ‎﴿٨﴾‏ هُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ ‎﴿٩﴾‏ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا یَسْتَوِی مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِینَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿١٠﴾(الحدید)
’’اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے، پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا، تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مومن ہو تو وہ تم سے مضبوط عہد و پیمان بھی لے چکا ہے، وہ (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے، یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے،تمہیں کیا ہوگیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے، تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قیادت میں  اس وقت کفرواسلام کی کشمکش جاری تھی،مسلمان تعداداورجنگی قوت کے لحاظ سے کم ترتھے ،اسلامی حکومت کوجہادفی سبیل اللہ کے مصارف اورعرب کے ہرعلاقہ سے ہجرت کرکے آئے ہوئے مظلوم مہاجرین کی مالی امدادکی سخت ضرورت تھی جوکفارکے ظلم وستم سے تنگ آکرعرب کے ہرحصے سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے اورآرہے تھے،مخلص مسلمان ان مصارف کواپنی طاقت اوروسعت سے بڑھ کربرداشت کررہے تھے مگرمسلمانوں  میں  بکثرت صاحب حیثیت لوگ موجودتھے جوکفرواسلام کی اس کشمکش کومحض تماشائی بن کردیکھ رہے تھے انہی لوگوں  کومخاطب کرکے فرمایا اے وہ لوگوجوایمان کادعویٰ کرکے مسلمانوں  کے گروہ میں  شامل ہوگئے ہواللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ  اوراس کے رسول کوسچے دل سے مانواوراللہ نے جوپاکیزہ مال تمہیں  بخشاہواہے اسے اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کروتاکہ آخرت میں  اس کامستقل اوردائمی اجرتمہیں  حاصل ہو،

عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَقِیَ مِنْهَا؟قَالَتْ: مَا بَقِیَ مِنْهَا إِلاَّ كَتِفُهَا،قَالَ: بَقِیَ كُلُّهَا غَیْرَ كَتِفِهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں  ایک بکری ذبح کرکے اس کاگوشت تقسیم کیاگیا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم گھرتشریف لائے توپوچھابکری میں  سے کیاباقی رہا؟ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کیاایک شانے کے سواکچھ نہیں  بچا، فرمایاایک شانہ کے سواساری بکری بچ گئی،یعنی جوکچھ اللہ کی راہ میں  صرف ہواوہی دراصل باقی رہ گیاہے۔[35]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَیُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَمَا وَأَبِیكَ لَتُنَبَّأَنَّهُ: أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیحٌ شَحِیحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ، وَتَأْمُلُ الْبَقَاءَ، وَلَا تَمَهَّلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ: لِفُلَانٍ كَذَا، وَلِفُلَانٍ كَذَاوَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیااوراس نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کس صدقے کااجرسب سے زیادہ ہے؟فرمایااس صدقہ میں  جسے توصحیح وتندرست کے ساتھ بخل کے باوجودکرو ، دوسری طرف اسے کسی کام میں  لگاکرزیادہ کمالینے کی امیدرکھتاہو،اس وقت کاانتظارنہ کرکہ جب جان نکلنے لگے توتو کہے کہ یہ فلاں  کودیاجائے اوریہ فلاں  کو،اس وقت تویہ مال فلاں  کوجاناہی ہے۔[36]

عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: انْتَهَیْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ علیه وسلم وَهُوَ یَقُولُ:أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ  یَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِی مَالِی! وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ، إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَیْتَ،أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ،أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ

مطرف بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیاآپ سورہ التکاثرپڑھ رہے تھے،  ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآدمی کہتا ہے میرامال،میرامال، اوراے آدمی!تیرامال کیا؟تیرامال اس کے سوااورکیاہے جو تونے کھاکرختم کردیایاپہن کربوسیدہ کردیایاصدقہ کرکے آگے بھیج دیا؟۔[37]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ، وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کے سواجوکچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والاہے اورتواسے دوسروں  کے لئے چھوڑکرجانے والاہے۔[38]

تم میں  سے جولوگ ایمان لائیں  گے اور اللہ کی راہ میں  اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کریں  گے ان کے لئے اجرعظیم ہے ،اے لوگو!تم یہ غیرایمانی روش کیوں  اختیارکررہے ہو اللہ کارسول جوسب سے افضل رسول اورسب سے اچھے داعی ہیں  خودتمہارے درمیان موجودہیں  اور تمہیں  دعوت حق دے رہے ہیں ،حق کی دلیلں  دے رہے ہیں  اوریہ چیزاس بات کی موجب ہے کہ حق کی آوازپرلبیک کہنے کے لئے جلدی سے آگے بڑھاجائے مگرتم اللہ پرایمان نہیں  لاتے ،

قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمًا لِأَصْحَابِهِ: أیُّ الْمُؤْمِنِینَ أَعْجَبُ إِلَیْكُمْ إِیمَانًا؟ قَالُوا: الْمَلَائِكَةُ، قَالَ:وَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟ قَالُوا: فَالْأَنْبِیَاءُ،  قَالَ:وَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْهِمْ؟قَالُوا: فَنَحْنُ؟قَالَ:وَمَا لَكَمَ لَا تُؤْمِنُونَ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ؟وَلَكِنْ أَعْجَبُ الْمُؤْمِنِینَ إِیمَانًا قَوْمٌ یجیؤون بَعْدَكُمْ یَجِدُونَ صُحُفًا یُؤْمِنُونَ بِمَا فِیهَا

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم پوچھاسب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں ؟کہافرشتے،فرمایاوہ ایمان کیوں  نہ لاتےوہ تواللہ کے پاس ہی ہیں  ؟کہاپھرانبیائ،فرمایاوہ کیسے ایمان نہ لاتےان پرتووحی اوراللہ کاکلام نازل ہوتاہے ؟کہاپھرہم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم ایمان لانے سے کیسے رک سکتے تھے میں  تم میں  زندہ موجودہوں ،سنو،بہترین اورعجیب ترایمانداروہ لوگ ہیں  جوتمہارے بعدآئیں  گے ،صحیفوں  میں  لکھاہوادیکھیں  گے اورایمان قبول کریں  گے۔[39]

جیسے فرمایا

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ۔۔۔ ۝۳ۙ [40]

ترجمہ:ان پرہیزگارلوگوں  کے لئے جوغیب پرایمان لاتے ہیں ۔

حالانکہ دعوت اسلام قبول کرکے بیعت کے وقت تم نے شعوری اطاعت کاعہدکرچکے ہواگرتم واقعی ماننے والے ہو،جیسے فرمایا

 وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ وَمِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖٓ۝۰ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۡوَاتَّقُوا اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۷ [41]

ترجمہ:یادرکھواس نعمت کو جواللہ نے تم کوعطاکی ہے اوراس عہدوپیمان (عہدالست) کو جواللہ نے تم سے لیاہے جبکہ تم نے کہاہم نے سنااوراطاعت کی ،اوراللہ سے ڈرواللہ دلوں  کاحال جانتاہے ۔

فَقَالَ: عُبَادَةُ لِأَبِی هُرَیْرَةَ: بَایَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا بَایَعْنَاهُ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَعَلَى النَّفَقَةِ فِی الْیُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَعَلَى الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ فِی اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَلَا نَخَافَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فِیهِ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بات پربیعت لی تھی کہ ہم چستی اورسستی ،ہرحال میں سمع وطاعت پرقائم رہیں  گے ،خوشحالی اورتنگ حالی دونوں  حالتوں  میں  اللہ کی راہ میں  خرچ کریں  گے ،نیکی کاحکم دیں  گے اوربدی سے منع کریں  گے ،اللہ کی خاطر حق بات کہیں  گے اوراس معاملہ میں  کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں  گے۔[42]

وہ اللہ ہی توہے جواپنے رحم وکرم سے بندوں  کوجہالت کی گمراہیوں  اورکفرکی تاریکیوں  سے نکال کر صراط المستقیم پر لانے کے لئے اپنے بندے پرروشن اور واضح آیتیں  نازل فرمارہاہے ، جیسے فرمایا

اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۲۵۷ۧ [43]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لاتے ہیں  ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں  سے روشنی میں  نکال لاتا ہے۔

یَّہْدِیْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶ [44]

ترجمہ:جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں  سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں  سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

ہُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُہٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۝۴۳ [45]

ترجمہ:وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لے دعائے رحمت کرتے ہیں  تاکہ وہ تمہیں  تاریکیوں  سے روشنی میں  نکال لائے ، وہ مومنوں  پر بہت مہربان ہے۔

رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللہِ مُبَـیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۱۱ [46]

ترجمہ:ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سنا تا ہے تاکہ ایمان لانے والوں  اور نیک عمل کرنے والوں  کو تاریکیوں  سے نکال کر روشنی میں  لے آئے۔

اورحقیقت یہی ہے کہ وہ اپنے بندوں  پرنہایت شفیق اورمہربان ہے،پھرصدقات کی رغبت دلائی کہ آخراللہ کی راہ میں  تم اپنامال ودولت خرچ کیوں  نہیں  کرتے؟وہ کون سی چیزہے جس نے تمہیں  انفاق فی سبیل اللہ سے روکاہے؟ حالانکہ کوئی چیزتمہاری ملکیت میں  نہیں ، یہ مال ودولت دراصل اللہ ہی کاہے ،اورانسان کودورنیابت میں  صرف تصرف کااختیاردیاگیاہے ،اور ایک دن تمہیں لازماًاسے چھوڑکرکرہی جانا ہے ،پھریہ ملکیت اس کے حقیقی مالک اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف لوٹ جائے گی ، اس لئے فقروتنگ دستی کاخیال کیے بغیراللہ کی راہ میں  خرچ کردواورفائدہ اٹھاؤ،اللہ وحدہ لاشریک ہی زمین وآسمان کے سارے خزانوں  کا تنہامالک ہے ،تم جوکچھ اس کی راہ میں  خرچ کروگےوہ تمہیں  اس سے زیادہ بڑھاچڑھاکر عطا فرما دے گا ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَیَقْدِرُ لَهٗ۝۰ۭ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَیُخْلِفُهٗ۝۰ۚ وَهُوَخَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۳۹ [47]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہوکہ میرارب اپنے بندوں  میں  سے جس کے لئے چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کے لئے چاہتاہے تنگ کردیتاہے اورجوکچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزیدرزق تمہیں  دیتاہے اوروہ بہترین رزاق ہے۔

ایک مقام پر فرمایا

مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ۝۰ۭ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۶ [48]

ترجمہ:جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والاہے اورجوکچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والاہے ،اورہم ضرورصبرسے کام لینے والوں  کوان کے اجران کے بہترین اعمال کے مطابق دیں  گے ۔

کفرکی طاقت اپنے آخری حربوں  کے ساتھ مسلمانوں  کوزیرکرنے بلکہ مٹانے کے لئے ہاتھ پاؤں  ماررہی تھی ،غزوہ بدراوراس کے بعدکے غزوات نے مشرکین کویہ باور کرا دیاتھاکہ اب مسلمانوں  کامقابلہ بھرپوراوریکبارگی کرناہوگاوگرنہ مسلمان پھیلتے چلے جائیں  گے ،ظاہرہے کہ ایسے حالات میں  مسلمانوں  کوبھی اپنی ساری توانائیاں  مجتمع کرکے پورے زورکے ساتھ مقابلہ کرناتھااوراس مقصدکے لئے مالی وجانی اور ہرطرح کی قربانیاں  ضروری تھیں ،مگرکوئی بھی قربانی موقع کی نزاکت کے اعتبارسے کسی بھی وقت زیادہ اہم ہوجاتی ہے ،اس لئے واضح کیاگیاکہ فتح وکامرانی کے بعدکے دورکی قربانی اورضعف وکمزوری کے دورکی قربانی میں  بڑافرق ہے ،جولوگ اس مشکلات کے دورمیں  قربانیاں  دیں  گے ان کااجروثواب کہیں  زیادہ ہوگااوربعدکے دورمیں  قربانیاں  دینے والے کبھی ان کے درجات تک نہیں  پہنچ سکیں  گے اگرچہ اللہ نے دونوں  سے اچھے وعدے فرمائے ہیں ،جیسے فرمایا

لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ فَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً۝۰ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی۝۰ۭ وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۹۵ۙ [49]

ترجمہ: مسلمانوں  میں  سے وہ لوگ جو کسی معذوری جیسے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں  اور وہ جو اللہ کی راہ میں  جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں  کی حیثیت یکساں  نہیں  ہے ،اللہ نے بیٹھنے والوں  کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں  کا درجہ بڑا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں  مجاہدوں  کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں  سے بہت زیادہ ہے۔

مگرتفاوت درجات کایہ مطلب نہیں  کہ بعدمیں  مسلمان ہونے والے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ایمان واخلاق کے اعتبارسے بالکل ہی گئے گزرے تھے ،جیساکہ بعض حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سالے اورکاتب وحی امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ اوران کے والد ابوسفیان  رضی اللہ عنہ  اوردیگربعض ایسے جلیل القدرصحابہ کے بارے میں  ہرزہ سرائی یاانہیں  طلقاء کہہ کرانکی تنقیض واہانت کرتے ہیں ،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ كَلَامٌ، فَقَالَ خَالِدٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: تَسْتَطِیلُونَ عَلَیْنَا بِأَیَّامٍ سَبَقْتُمُونَا بِهَا؟  فَبَلَغَنَا أَنَّ ذَلِكَ ذُكر لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دَعُوا لِی أَصْحَابِی فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَوْ أَنْفَقْتُمْ مِثْلَ أُحُدٍ-أَوْ مِثْلَ الْجِبَالِ-ذَهَبًا، مَا بَلَغْتُمْ أَعْمَالَهُمْ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےخالد  رضی اللہ عنہ بن ولیداور عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  میں (بنوجذیمہ کے بارے) اختلاف ہو گیا خالد  رضی اللہ عنہ نے فرمایاتم اسی بات پراکڑ رہے ہوکہ ہم سےکچھ دن پہلے ایمان لائے،جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کواس بات کاعلم ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیرے صحابہ کومیرے لئے چھوڑدواللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے! اگرتم احدکے یاکسی اورپہاڑکے برابرسوناخرچ کرڈالوتب بھی ان کے اعمال کونہیں  پہنچ سکتے۔[50]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِی،فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصیفه

ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے بارے میں  فرمایاہے کہ میرے صحابہ پرسب وشتم نہ کرو،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے کہ اگرتم میں  سے کوئی شخص احدپہاڑجتناسونابھی اللہ کی راہ میں  خرچ کردے تووہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مدبلکہ نصف مدکے برابربھی نہیں ۔ [51]

 عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عُمَیْرَةَ،وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِیَةَ: اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِیًا مَهْدِیًّا وَاهْدِ بِهِ

عبدالرحمن بن ابی عمیر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاویہ  رضی اللہ عنہ  کیلئے دعا کی کہ اے اللہ اسے ہدایت والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے لوگوں  کو ہدایت دے ۔[52]

أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ فِی الرِّوَایَةِ،لِأَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ عُدُولٌ ثِقَاتٌ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام عادل تھے۔[53]

جن حالات ،جس جذبے اور نیت سے تم عمل کرتے ہواللہ اس سے خوب باخبرہے اوراسی کے مطابق تمہیں  جزادی جائے گی۔

مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِیمٌ ‎﴿١١﴾‏یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعَىٰ نُورُهُمْ بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَبِأَیْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿١٢﴾(الحدید)
’’کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیدہ اجر ثابت ہوجائے (قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا، آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے، یہ ہے بڑی کامیابی۔‘‘

لوگو!یہ مال ودولت اللہ ہی نے تمہیں  اپنے فضل واحسان سے عطاکیا ہواہے لیکن اگراسے گن گن کررکھنے کے بجائے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے جہادفی سبیل اللہ اور صدقہ خیرات وغیرہ میں  خرچ کروگے تومیں  اسے اپنے ذمہ قرض حسنہ قراردوں  گااوراس کے عیوض تمہارے گناہ بخش دوں  گااورروزحشرجس روزاس کی رحمت کے علاوہ کوئی چیزکارگرنہ ہوسکے گی اسے کئی گنا بڑھاکرواپس کروں  گا اور اس کے علاوہ اپنی طرف سے مزید اجربھی عطافرماؤں  گایعنی جنتوں  میں  داخل فرماؤں  گااوردرجات بلند کر دوں  گا،جیسےفرمایا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً۝۰ۭ وَاللهُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ۝۰۠ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵ [54]

ترجمہ:تم میں  کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں  ہے اور بڑھانا بھی ، اور اسی کی طرف تمہیں  پلٹ کر جانا ہے۔

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے تواپنی زندگیاں  ہی اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی اورجنت کے حصول کے لئے وقف کررکھی تھیں  جب یہ عظیم خوشخبری سنی کہ دنیاکاتھوڑاسافانی مال خرچ کرکے اللہ تعالیٰ گناہوں  کی بخشش اورجنتوں  کاوعدہ فرمارہاہے تووہ بڑھ چڑھ کراس کام میں  حصہ لینے لگے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضَاعِفَهُ لَهُ قَالَ أَبُو الدَّحْدَاحِ الْأَنْصَارِیُّ:یَا رَسُولَ اللهِ، وَإِنَّ اللهَ لَیُرِیدُ مِنَّا الْقَرْضَ؟ قَالَ:نَعَمْ، یَا أَبَا الدَّحْدَاحِ ، قَالَ أَرِنِی یَدَكَ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَنَاوَلَهُ یَدَهُ، قَالَ:فَإِنِّی قَدْ أَقْرَضْتُ رَبِّی حَائِطِی-وَلَهُ حَائِطٌ فِیهِ سِتُّمِائَةِ نَخْلَةٍ، وَأُمُّ الدَّحْدَاحِ فِیهِ وَعِیَالُهَاقال: فجاء أبو الدَّحْدَاح فنادها:یَا أَمَّ الدَّحْدَاحِ.قَالَتْ: لَبَّیْكَ. فَقَالَ: اخْرُجِی، فَقَدْ أَقْرَضْتُهُ رَبِّی، عَزَّ وَجَلَّ، أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ: رَبح بَیْعُكَ یَا أَبَا الدَّحْدَاحِ،وَنَقَلَتْ مِنْهُ مَتَاعَهَا وَصِبْیَانَهَاوَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كَمْ مِنْ عَذْق رَدَاح فِی الْجَنَّةِ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ. وَفِی لَفْظٍ:رُبَّ نَخْلَةٍ مُدَلَّاةٍ عُرُوقُهَا دُرٌّ ویاقوت لأبی الدحداح فی الجنة

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب یہ آیت’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟۔‘‘ نازل ہوئی اورلوگوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس کوسناتوابوالدحداح انصاری  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارارب ہم سے قرض چاہتاہے، فرمایا ہاں  اے ابوالدحداح  رضی اللہ عنہ !انہوں  نے کہااے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ذرااپناہاتھ مجھے دکھائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنادست مبارک ان کی طرف بڑھادیا،ابوالدحداح  رضی اللہ عنہ  نےآپ کا دست مبارک اپنے ہاتھ میں  تھام کرکہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے اپنے رب کواپناباغ جس میں  کھجور کےچھ سودرخت ہیں  وہ میں  نے اپنے رب کوقرض میں  دے دیا،اسی باغ میں  ان کاگھرتھا اوروہیں  ان کے اہل وعیال رہتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بات کرکے وہ سیدھے گھرپہنچے اوردروازہ پرکھڑے ہوکراپنی بیوی کوپکارکرکہادحداح کی ماں !باہرنکل آؤمیں  نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کوقرض دے دیاہے،(ان کی اہلیہ نے واویلانہیں  مچایابلکہ)وہ خوش ہوکر بولیں  تم نے نفع کاسوداکیادحداح کے باپ !اوراسی وقت اپناسامان اوراپنے بچے لیکرباغ سے نکل گئیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمانے لگے جنتی درخت وہاں  کے باغات جومیووں  سے لدے ہوئے اورجن کی شاخیں  یاقوت اور موتی کی ہیں  اللہ تعالیٰ نے ابووحداح کودے دیں ۔[55]

میدان محشرمیں  حساب کتاب کے بعدجنت میں  جانے کے لئے جہنم کے اوپرنصب پل صراط پر سے گزرناہو گا جو بال سے زیادہ باریک اوردھارسے زیادہ تیزہوگااوروہاں  گھور اندھیرا ہو گا ، ہاتھ کوہاتھ سجائی نے دے گااس لئے اللہ تعالیٰ مومن مردوں  اورعورتوں  کوپل صراط پرجانے سے پہلے امتیازی نشان کے طورپر ان کے صالح عقیدے اور عمل صالح کے صلہ میں ان کے مراتب کے لحاظ سے نور عطا فرمائے گا،جس شخص کاعمل جتناتابندہ ہوگااس کے وجودکی روشنی اتنی ہی زیادہ تیزہوگی جوان کے آگے اوردائیں  جانب دوڑرہاہوگاجس کی روشنی میں  جنتی وہ خطرناک پل باآسانی عبورکرلیں  گے ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ فِی قَوْلِهِ: یَسْعَى نُورُهُم بَیْنَ أَیْدِیهِمْ، قَالَ: یُؤْتَوْنَ نُورَهُمْ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ. یَمُرُّونَ عَلَى الصِّرَاطِ،مِنْهُمْ مَن نُورُهُ مِثْلُ الْجَبَلِ، وَمِنْهُمْ مَن نُورُهُ مِثْلُ النَّخْلَةِ، وَمِنْهُمْ مَن نُورُهُ مِثْلُ الرَّجُلِ الْقَائِمِ، وَأَدْنَاهُمْ نُورًا مَن نُورُهُ فِی إِبْهَامِهِ یتَّقد مَرَّةً وَیُطْفَأُ مَرَّةً

عبداللہ بن مسعودآیت کریمہ’’ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں  جانب دوڑ رہا ہوگا ۔‘‘ کی تفسیرمیں  فرمایاہے وہ اپنے اعمال کے مطابق پل صراط سے گزریں  گے ، لوگوں  میں  بعض کانورپہاڑوں  کے برابر ہوگااوربعض کاکھجوروں  کے درختوں  کے برابر،اوربعض کاکھڑے انسان کے قدکے برابر، سب سے کم نورجس گنہگارمومن کا ہو گا اس کے پیرکے انگوٹھے پرنورہوگاجوکبھی روشن ہوتاہوگااورکبھی بجھ جاتا ہوگا ۔[56]

وَقَالَ قَتَادَةُ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ مَنْ یضئ نُورُهُ كَمَا بَیْنَ الْمَدِینَةِ وَعَدَنٍ، أَوْ مَا بَیْنَ الْمَدِینَةِ وَصَنْعَاءَ ،وَدُونَ ذَلِكَ حَتَّى یَكُونَ منهم من لا یضئ نُورُهُ إِلَّا مَوْضِعَ قَدَمَیْهِ

قتادہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں ہم سے ذکرکیاگیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکسی مومنین کےنورکی روشنی اتنی تیزہوگی کہ اس کی روشنی مدینہ منورہ سےعدن تک کے مسافت کے برابرفاصلے تک پہنچ رہی ہوگی،اورکسی کانورمدینہ منورہ سے صنعاتک پہنچ رہاہوگااور بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں  تک کہ بعض وہ بھی ہوں  گے جن کے نورسے صرف ان کے دونوں  قدموں  کے پاس ہی روشنی ہوگی۔[57]

جب وہ دوسرے کنارے پرپہنچیں  گے توان استقبال اور پیشوائی کے لئے آنے والے فرشتے کہیں  گے آج تمہارے لئے خوشخبریاں  ہیں ، تمہیں جنتوں  میں  داخل کیاجائے جن کی انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  کوکسی نے دیکھا،نہ کسی نے چھوا اورنہ ہی ان کاتصور کیا جا سکتا ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ ، مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ قَالَ  أَبُو هُرَیْرَةَ:اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ، فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تبارک وتعالیٰ کاارشادہے’’ میں  نے اپنے نیک بندوں  کے لیے ایسی ایسی نعمتیں  تیارکررکھی ہیں  جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھاہے نہ کسی کان نے سناہے اورنہ ہی کسی انسان کے دل میں  کبھی ان کاتصورہی آیاہے۔‘‘ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے کہااگرتم چاہوتواس آیت کوپڑھو’’پس کوئی شخص نہیں  جانتاکہ اس کی آنکھوں  کی ٹھنڈک کے لیے کیاکیاچیزیں  چھپاکررکھی گئی ہیں ۔‘‘[58]

أَیْ مِنْ تَحْتِهِمْ أَنْهَارُ اللبَنِ وَالْمَاءِ وَالْخَمْرِ وَالْعَسَلِ مِنْ تَحْتِ مَسَاكِنِهَا

ان کے گھروں  کے نیچے دودھ ،صاف نتھرے ہوئے پانی، انواع اقسام کی شرابوں  اورشہدکی نہریں  بہہ رہی ہوں  گی اورتم اس میں  ہمیشہ ہمیشہ رہوگے،اوریہی بڑی کامیابی ہے ۔

یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِینَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِیلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِیهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ ‎﴿١٣﴾‏ یُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِیُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ‎﴿١٤﴾‏ فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ ۖ هِیَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿١٥﴾(الحدید)
’’اس دن منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں، جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو، پھر ان کے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگا، اس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب ہوگا،یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے، وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا تھا اور وہ انتظار میں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہے اورتمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے دینے والے نے دھوکے میں رکھا، الغرض آج تم سے فدیہ (اور نہ بدلہ) قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے، تم (سب) کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری رفیق ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘

مومنین توبرق رفتاری سے یاہواکی طرح آگے آگے تیزی سے پل عبورکرآگے نکل جائیں  گے مگرمنافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں  فاصلہ طے کرلیں  گے مگرپھراللہ تعالیٰ منافقین پراندھیرامسلط فرمادے گااوروہ اس گھپ اندھیرے میں  ٹھوکریں  کھانے لگیں گے ،اس وقت وہ مومنین کوپکارکرکہیں  گے ذراہماری طرف بھی پلٹ کردیکھوتاکہ ہم بھی تمہاری روشنی سے کچھ روشنی لے کراس کے اندرچل سکیں  اوراللہ کے عذاب سے بچ جائیں مگرمومنین استہزاکے طورپرکہیں  گے ،پیچھے ہٹ جاؤ،پیچھے جہاں  سے ہم یہ نورلائے تھے وہیں  جاکرتم بھی تلاش کروکہ شایدتمہیں  بھی مل جائے(حالانکہ یہ بالکل محال ہوگا) پھرمومنین اورمنافقین کے درمیان ناقابل عبورایک دیوارحائل کر دی جائے گی ،جیسےفرمایا

وَبَیْنَهُمَا حِجَابٌ۔۔۔  ۝۴۶ [59]

ترجمہ:ان دونوں  گروہوں  کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی۔

جس میں  ایک دروازہ ہوگاجس میں  سے گزرکر مومنین جنت کی لازوال نعمتوں میں  داخل ہوجائیں  گے اوردروازہ بندکردیاجائے گاجبکہ منافقین دیوار کے باہر دوزخ کے عذاب میں  مبتلاہوجائیں  گے ،وہ چلا چلا کر رحم کی درخواست کرتے ہوئے نہایت عاجزی سے مومنین سے کہیں  گے کیادنیامیں لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہنے میں  ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟کیاہم تمہارے ساتھ نمازپڑھتے ،روزہ رکھتے،زکواٰة اداکرتے صدقہ خیرات کرتے ،حج اداکرتے اور جہادوغیرہ میں  حصہ نہیں  لیتے تھے ؟ کیاتمہارے ساتھ ہمارے شادی بیاہ اوررشتہ داری کی تعلقات نہ تھے ؟ مومنین جواب دیں  گے کیوں  نہیں دنیامیں  تم ہمارے ساتھی تھے اورظاہرمیں ہمارے جیسے اعمال بھی بجالاتے تھے مگر تم نے خلوص نیت سے قبول کرنے کے بجائے دکھاوے کے طورپراسلام قبول کیااوردکھاوے کے لئے یہ اعمال کیے تھے ،تم ایمان وکفرکے درمیان لٹکتے رہے تاکہ جس طرف فائدہ دیکھواسی طرف جھک جاؤ ،اس لئے تم اللہ کی ذات وصفات،رسول کی رسالت،اللہ کے کلام ،حیات بعدالموت ،اعمال کی جوابدہی اور جزاوسزا کے بارے میں  شکوک وشبہات میں  مبتلارہے،تم اپنے خالق ومالک ورازق اللہ علام الغیوب کوجوسینوں  کے پوشیدہ بھیداورآنکھوں  کی خیانت بھی جانتاہے دھوکادینے کی کوشش کرتے رہے ،تمہاراخیال تھاکہ حق مغلوب ہوجائے اور باطل سربلندرہے گا مگر کفرکے مقابلہ حق کوسربلنددیکھنے اوراللہ کی تنبیہات کے باوجودتم نے اپنی آنکھیں  بندرکھیں  یہاں  تک کہ اسی مذموم حالت میں  تمہاری سانس کی گھڑیاں  ختم ہوگئیں ،شیطان مردود جوتمہاراکھلادشمن تھا آخروقت تک تمہیں  تمہارے اعمالوں  کومزین کرکے دکھلاتارہااورتم خوش ہوکر اس کے جھوٹے وعدوں  پراعتبارکرتے رہے لہذاآج تم بے یارو مددگارہو،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلَهُ: {وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِیُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللهِ}كَانُوا عَلَى خُدْعَةٍ مِنَ الشَّیْطَانِ، وَاللهِ مَا زَالُوا عَلَیْهَا حَتَّى قَذَفَهُمُ اللهُ فِی النَّارِ

قتادہ  رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ اور جھوٹی توقعات تمہیں  فریب دیتی رہیں یہاں  تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا۔‘‘کے بارے میں  کہتے ہیں وہ شیطان کی طرف سے دھوکے میں  مبتلاتھےاوروہ اسی حال میں  رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  جہنم رسیدکردیا [60]

آج جبکہ اللہ اوررسولوں  کی بات سچ ثابت ہوگئی ہے، تمال حقائق تمہاری نظروں  کے سامنے واضح ہوگئے ہیں  تواب تم جیسے آستین کے سانپوں  اورکفار جہنم کے ہولناک عذاب سے نجات کے لئے زمین بھرسونا،نیزاتناہی مزیداپنے فدیے میں  اداکروتوتم سے قبول نہیں  کیاجائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْہَا۔۔۔۝۷۰ۧ [61]

ترجمہ:اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں  دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِہٖ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۹۱ۧ  [62]

ترجمہ:یقین رکھو جن لوگوں  نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں  جان دی ان میں  سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں  دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا ایسے لوگوں  کے لیے درد ناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں  گے۔

تمہاراابدی ٹھکاناجہنم ہی ہے،جیسے فرمایا

وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ۝۸ۙفَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ۝۹ۭوَمَآ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ۧ  [63]

ترجمہ:اورجس کے پلڑے ہلکے ہوں  گے ان کی جائے قرارگہری کھائی ہوگی اورتمہیں  کیاخبرکہ وہ کیاچیزہے ؟بھڑکتی ہوئی آگ۔

اب وہی ہمیشہ تمہاری ساتھی اور رفیق ہوگی،اور اعمال کے صلہ میں  یہ تمہارابدترین انجام ہے۔

أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَكُونُوا كَالَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِیرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿١٦﴾‏ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یُحْیِی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿١٧﴾‏  (الحدید)
’’کیا اب تک ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں، اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں، یقین مانو کہ اللہ ہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے، ہم نے تو تمہارے لیے اپنی آیتیں بیان کردیں تاکہ تم سمجھو۔‘‘

مسلمانوں  کے اس گروہ کوجنہیں پہلے پکاراگیاتھادوبارہ ان لوگوں  کی شرم دلائی کہ تم کیسے مسلمان ہوحالات نزاکت کی حدتک پہنچ گئے ہیں  ،کیااب بھی وہ وقت نہیں  آیاکہ اللہ کا ذکرسن کرتمہارے دل پگھلیں  اوراللہ کے دین کے لئے تمہارے دلوں  میں  ایثاروقربانی اورسرفروشی کاجذبہ پیداہو،مومنوں  کوخبردارکیاکہ تم یہودونصاریٰ کی ماند نہ ہو جاؤ جنہیں  تم سے پہلے ہدایت ورہنمائی کے لئے کتاب دی گئی تھی مگرایک لمبی مدت گزرنے پرانہوں  نے اللہ کی کتاب میں  تحریف اورتبدیلی کردی ،اس کے عوض دنیا کا مختصر فائدہ حاصل کرنے کوانہوں  نے شعاربنالیا،ان کی عمریں  دنیاکے حصول اوراس کی پرستش میں  گزرگئی ،کتاب اللہ کے احکام کوانہوں  نے پس پشت ڈال دیا،اللہ کے خالص دین کوچھوڑکر لوگوں  کی تقلیداختیارکرلی اوران کواپنارب بنالیا،چنانچہ اس کے نتیجہ میں  ان کے دل فاسداوراعمال باطل ہیں ،جیسے فرمایا

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـیَةً۝۰ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ۝۰ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ۝۰ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَاۗىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ۔۔۔ ۝۱۳  [64]

ترجمہ: پھریہ ان کااپنے عہدکوتوڑڈالناتھاجس کی وجہ سے ہم نے ان کواپنی رحمت سے دورپھینک دیااوران کے دل سخت کردیے ،اب ان کاحال یہ ہے کہ الفاظ کاالٹ پھیرکرکے بات کوکہیں  سے کہیں  لے جاتے ہیں ،جوتعلیم انہیں  دی گئی تھی اس کابڑاحصہ بھول چکے ہیں  اورآئے دن تمہیں  ان کی کسی نہ کسی خیانت کاپتہ چلتا رہتاہے ،ان میں  سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں ۔

أَنَّ شَدَّادَ بْنَ أَوْسٍ كَانَ یَرْوِی عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال: إِنَّ أَوَّلَ مَا یُرْفَعُ  مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ،  أَنْ یَتَشَبَّهُوا بِالَّذِینِ حَمَلُوا الْكِتَابَ قَبْلَهُمْ مِنَ الْیَهُودِ وَالنَّصَارَى، لَمَّا تَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْأَمَدُ بَدَّلُوا كِتَابَ اللهِ الَّذِی بِأَیْدِیهمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا، وَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَأَقْبَلُوا عَلَى الْآرَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالْأَقْوَالِ الْمُؤْتَفِكَةِ،  وَقَلَّدُوا الرِّجَالَ فِی دِینِ اللهِ،  وَاتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ  فَعِنْدَ ذَلِكَ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ، فَلَا یَقْبَلُونَ مَوْعِظَةً،وَلَا تَلِینُ قُلُوبُهُمْ بِوَعْدٍ وَلَا وَعِیدٍوَكَثِیرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ،  أَیْ: فِی الْأَعْمَالِ، فَقُلُوبُهُمْ فَاسِدَةٌ، وَأَعْمَالُهُمْ بَاطِلَةٌ

شدادبن اوس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسب سے پہلی خیرجومیری امت سے اٹھ جائے گی وہ خشوع ہوگا،فرمایاتم یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہوجاناجنہوں  نے مدت گزرنے کے بعد اللہ کی کتاب کوبدل دیاتھوڑے تھوڑے دام پراسے فروخت کیااوراللہ کی کتاب کوپس پشت ڈال کررائے اورقیاس کے پیچھے پڑگئے اوراپنے ایجادکردہ اقوال کوماننے لگ گئےاوراوراللہ کے دین میں  دوسروں  کی تقلیدکرنے لگےاوراپنے علماء اور درویشوں  کی بے سندباتوں  کو دین میں  داخل کرلیاچنانچہ ان بداعمالیوں  کی سزامیں  اللہ نے ان کے دل سخت کردیئے،کوئی وعظ ونصیحت ان پراثرنہیں  کرتا،کوئی وعدہ وعیدان کے دل اللہ کی طرف نہیں  موڑسکتابلکہ ان میں  اکثروبیشترفاسق اورکھلے بدکار بن گئے ،دل کے کھوٹے اوراعمال کے بھی کچے۔[65]

مگرتمہیں  تو ایمان لائے زیادہ عرصہ نہیں  گزراابھی تو رسول تم میں  موجودہے ،اللہ کاکلام تمہارے سامنے نازل ہورہاہے مگرتمہاری حالت توابھی سے یہودونصاریٰ جیسی ہورہی ہے ، خوب جان لوکہ مردہ زمین کو اللہ اپنے باران رحمت سے کس طرح زندگی بخشتا ہے ،اسی طرح کتاب اللہ مردہ دلوں  کوزندہ کردیتی ہے ،اس کی نشانیاں  تم کوصاف صاف دکھا دی گئی ہیں  اب تم خوداپنی حالت پرغوروفکرکروکہ کیاتم اس نعمت سے کچھ فائدہ اٹھارہے ہو۔

إِنَّ الْمُصَّدِّقِینَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا یُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِیمٌ ‎﴿١٨﴾‏وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّیقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ‎﴿١٩﴾‏(الحدید)
’’بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر وثواب ہے،اللہ اور اس کے رسول پر جوایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے، اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں۔‘‘

مردوں  اورعورتوں  میں  سے جن کاعقیدہ یہ ہے کہ راحت ومصیبت اللہ ہی کی جانب سے ہے ،اور وہ صداقت اوراخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے فقیروں ، مسکینوں ،محتاجوں  اورحاجت مندوں  پرکثرت سےاپنے حلال مالوں  سے خرچ کرتے ہیں ،اورجنہوں  نے اللہ کوقرض حسنہ دیاہے ،اللہ تعالیٰ ان کے اس عطیے کوروزمحشرکم ازکم دس گنااوراس سے زیادہ سات سوگنابلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھاکردے گااوران لوگوں  کے لئے اللہ کی بے شمارلازوال نعمتیں  بھری جنتیں  ہیں ،اورجولوگ صادق الایمان ہیں ،جواعمال صالح اختیارکرتے ہیں اورمشکل کی اس گھڑی میں  خودتنگ دست رہ کرایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کرمالی وجانی قربانیاں  دے رہے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق( نہایت سچے)ہیں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِی إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ یَهْدِی إِلَى الجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّى یَكُونَ صِدِّیقًا وَإِنَّ الكَذِبَ یَهْدِی إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ یَهْدِی إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَكْذِبُ حَتَّى یُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابلاشبہ سچ آدمی کونیکی کی طرف بلاتاہے اورنیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اورایک شخص ہمیشہ سچ بولتارہتاہے حتی کہ اللہ کے ہاں  اسے صدیق لکھ دیاجاتاہے اوربلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتاہے اوربرائی جہنم کی طرف لے جاتی ہےاورایک شخص جھوٹ بولتارہتاہے یہاں  تک کہ وہ اللہ کے ہاں  بہت جھوٹالکھ دیاجاتاہے۔ [66]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ العَبْدَ لَیَعْمَلُ، فِیمَا یَرَى النَّاسُ، عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَیَعْمَلُ فِیمَا یَرَى النَّاسُ، عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِخَوَاتِیمِهَا

سہل بن سعدساعدی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابندہ لوگوں  کی نظرمیں  اہل جنت کے کام کرتارہتاہے حالانکہ وہ اہل جہنم میں  سے ہوتاہے ایک دوسرابندہ لوگوں  کی نظرمیں  اہل جہنم کے کام کرتارہتاہے حالانکہ وہ جنتی ہوتاہے اورعملوں  کااعتبارخاتمہ پرموقوف ہے۔[67]

ایک روایت میں  صدیقین کامقام بیان کیاگیاہے جوجنت میں  انہیں  حاصل ہوگا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ أَهْلَ الجَنَّةِ یَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ، كَمَا یَتَرَاءَوْنَ الكَوْكَبَ الدُّرِّیَّ الغَابِرَ فِی الأُفُقِ، مِنَ المَشْرِقِ أَوِ المَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَهُمْ،قَالُوا یَا رَسُولَ اللهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الأَنْبِیَاءِ لاَ یَبْلُغُهَا غَیْرُهُمْ، قَالَ:بَلَى وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، رِجَالٌ آمَنُوا بِاللهِ وَصَدَّقُوا المُرْسَلِینَ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنتی اپنے سے اوپرکے بالاخانے والوں  کواس طرح دیکھیں  گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یامغربی ستارے کوتم آسمان کے کنارے پردیکھتے ہویعنی ان کے درمیان درجات کااتنافرق ہوگا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ تو انبیاء کے محل ہوں  گے جن کودوسرے حاصل نہیں  کرسکیں  گے،  آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں ، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے یہ ان لوگوں  کے لئے ہوں  گے جواللہ پرایمان لائے اورپیغمبروں  کی تصدیق کی (اللهُمّ أَجَعَلْنَا مِنْهُمْ  )۔[68]

وَتَصْدِیقُهُ قَوْلا وَعَمَلًا

یعنی ایمان اورتصدیق کاحق اداکیا۔[69]

اورشہید(حق کی گواہی دینے والے ) ہیں  ، جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا۔۔۔۝۰۝۱۴۳ [70]

ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تم کوایک متوسط امت بنایاہے تاکہ تم لوگوں  پرگواہ ہواوررسول تم پرگواہ ہو۔

۔۔۔سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِیْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ۔۔۔۝۰۝۷۸ۧ [71]

ترجمہ:اللہ نے پہلے بھی تمہارانام مسلم رکھاتھااوراس قرآن میں  بھی (تمہارانام یہی ہے)تاکہ رسول تم پرگواہ ہواورتم لوگوں  پرگواہ۔

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ یَقُولُ: مُؤْمِنُو أُمَّتِی شُهَدَاءُ قَالَ: ثُمَّ تَلَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآیَةَ {وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّیقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ}،  [72]

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھے میری امت کے مومن شہیدہیں پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی آیت تلاوت فرمائی’’ اورجولوگ اللہ اوراس کے رسولوں  پرایمان لائے ہیں  وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اورشہیدہیں ۔‘‘[73]

ان کے لئے ان کے مراتب کے لحاظ سے لازوال نعمتیں  بھری جنتیں  اورپل صراط پران کا نور ہے ، اور جو لوگ اللہ اوراس کے رسول پرایمان نہیں  لائے،ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ کے نازل کلام کوتسلیم کرنے سے انکارکیاوہ جہنمی ہیں ۔

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِینَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ‎﴿٢٠﴾‏(الحدید)
’’خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر (و غرور)، اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہوجاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ باکل چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب، اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ۔‘‘

دنیاکی زندگی صرف کھیل تماشہ ہے :لوگوخوب جان لوکہ دنیاکی زندگی صرف لہوولعب ،زینت اورآپس میں  فخروغروراورمال واولادمیں  ایک کادوسرے سے آپنے آپ کوزیادہ بتلاناہے،جیسے فرمایا

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَاللهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴ [74]

ترجمہ:لوگوں  کے لئے مرغوبات نفس ،عورتیں ،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،چیدہ گھوڑے ،مویشی اورزرعی زمینیں  بڑی خوش آیندبنادی گئی ہیں  ،مگریہ سب دنیاکی چندروزہ زندگی کے سامان ہیں ،حقیقت میں  جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔

دنیافانی کی مثال ایسی ہے جیسے بارش ہوگئی تواس سے پیداہونے والی نباتات کولہلہاتادیکھ کرکاشت کاربڑے خوش ہوتے ہیں  ،جیسے فرمایا

 وَهُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ۝۰ۭ وَهُوَالْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ۝۲۸ [75]

ترجمہ:وہی ہے جو لوگوں  کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی قابلِ تعریف ولی ہے ۔

اسی طرح اہل دنیایعنی کافرومنافق اسباب دنیاوی پرپھولتے ہیں  اوراس نعمت کواپناحق سمجھتے ہیں مگرمومن نعمت پراتراتانہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم پراس کا شکراداکرتاہے ،لیکن بہت ہی جلدوہی ہری بھری کھیتی پک جاتی ہے اورخشک اورزردرو ہوکر چورا چورا ہو جاتی ہے گویاکہ وہاں  کبھی ہریالی اگی ہی نہ تھی ، یہی حال اس فانی دنیاکاہے ،یہ اپنے چاہنے والے کو زیب وزینت،مال واولاداور دیگر رنگینیوں  سے لبھاتی ہیں  لیکن ایک وقت مقررہ پر سب کچھ خاک میں  مل جانے والا ہے ، جیسےفرمایا

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا۝۴۵ [76]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! انہیں  حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی ، جسے ہوائیں  اڑائے لیے پھرتی ہیں ،اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اس کے برعکس آخرت وہ عظیم اورابدی زندگی ہے جہاں  اہل کفرکوجو دنیاکے کھیل کودمیں  ہی مصروف رہے اوراسی کوانہوں  نے حاصل زندگی سمجھاسخت ترین عذاب ،جہنم کی بیڑیاں  ،زنجیریں  اوراس کی ہولناکیاں  ہیں ،اوراہل ایمان وطاعت کے لئے جنہوں  نے دنیاہی کوسب کچھ نہیں  سمجھابلکہ اسے عارضی ،فانی اوردارالامتحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں  زندگی گزاری ، گناہوں ،خطاؤں  اورلغزشوں  سے مغفرت اورداررضوان میں اللہ کی رضاوخوشنودی ہے، اوردنیاکی زندگی بجزدھوکے کے سامان کے اورکچھ نہیں ،یعنی یہ صرف ایسی متاع ہے جس سے فائدہ اٹھایاجاتاہے ،اس کی وجہ سے فریب میں  صرف وہ لوگ مبتلاہوتے ہیں  اوراس پرمطمئن رہتے ہیں  جوضعیف العقل اورجن کواللہ تعالیٰ کے بارے میں  شیطان نے دھوکے میں  ڈال رکھاہے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَوْضع سَوْطٍ فِی الْجَنَّةِ خیرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فیها. اقرؤوا:وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت میں  ایک کوڑے کی جگہ دنیاسے اورجوکچھ دنیامیں  ہے سب سے بہترہے،پڑھوقرآن فرماتاہےدنیاکی زندگی ایک دھوکے کے سواکچھ نہیں ۔[77]

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ‎﴿٢١﴾‏(الحدید )
’’(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے برابر ہے ، یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں ایمان رکھتے ہیں،یہ اللہ کا فضل ہے جس چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

اےلوگو،دنیاکی دولت اورلذتیں  اورفائدے سمیٹنے میں  ایک دوسرے سے بڑ ھ جانے کی جوکوششیں  کررہے ہووہ لاحاصل ہے ،اس لئے لاحاصل چیزکوچھوڑکراللہ تعالیٰ سے خلوص نیت سے اپنے گناہوں  پراستغفارکرواوراللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی اطاعت میں  اعمال صالحہ اختیارکرو ،اگریہ راستہ اختیارکروگے تواس میں  رب کی مغفرت اور لازوال نعمتوں  بھری آسمان وزمین جیسی وسعت والی جنتیں  ہیں ،ایک مقام پر جنت کی وسعت یوں  بیان فرمائی

 وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۳۳ۙ [78]

ترجمہ:دوڑواپنے رب کی مغفرت اوراس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے جومہیاکی گئی ہے متقی لوگوں  کے لئے۔

ان وسیع وعریض جنتوں  میں  ان لوگوں  کوداخل کیاجائے گا جواللہ اوراس کے رسولوں  پرایمان لائے ہوں  گے ،اوران کی اطاعت میں  عمل صالحہ اختیارکیے ہوں  گے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَلْجنة أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاك نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے جتناتمہاری جوتی کاتسمہ اوراسی طرح دوزخ بھی۔[79]

جو کفرومعصیت سے توبہ کرکے ایمان وعمل صالحہ کی زندگی اختیار کر لیتاہے تواللہ ایسے لوگوں  کوایمان اور اعمال صالحہ کی توفیق فرمادیتاہے اوراللہ بڑے فضل والاہےجس کی ثناکوئی شمارنہیں  کرسکتا،

لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ

وہ جس کوکچھ دے دے اسے کوئی روک نہیں  سکتا اورجس سے روک لے اسے کوئی دے نہیں  سکتاتمام خیراسی کے ہاتھ میں  ہے۔[80]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ الفُقَرَاءُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ مِنَ الأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ العُلاَ، وَالنَّعِیمِ المُقِیمِ یُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّی، وَیَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ فَضْلٌ مِنْ أَمْوَالٍ یَحُجُّونَ بِهَا، وَیَعْتَمِرُونَ، وَیُجَاهِدُونَ، وَیَتَصَدَّقُونَ( ویُعتقون وَلَا نُعْتِق)قَالَ: أَلاَ أُحَدِّثُكُمْ إِنْ أَخَذْتُمْ أَدْرَكْتُمْ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَمْ یُدْرِكْكُمْ أَحَدٌ بَعْدَكُمْ، وَكُنْتُمْ خَیْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَیْنَ ظَهْرَانَیْهِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ،تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُكَبِّرُونَ خَلْفَ كُلِّ صَلاَةٍ ثَلاَثًا وَثَلاَثِینَ(فَرَجَعَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِینَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: سَمِعَ إِخْوَانُنَا أَهْلُ الْأَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا، فَفَعَلُوا مِثْلَهُ، فَقَالَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ)

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  مہاجرین کے فقراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اور کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !مال دارلوگ توجنت کے بلنددرجوں  کو اور لازوال نعمتوں  کوحاصل کر گئےحالانکہ جس طرح ہم نمازپڑھتے ہیں  وہ بھی پڑھتے ہیں ،اورجیسے ہم روزے رکھتے ہیں  وہ بھی رکھتے ہیں  لیکن مال ودولت کی وجہ سے انہیں  ہم پرفوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کرتے ہیں ،عمرہ کرتے ہیں  جہادکرتے ہیں  اور صدقے دیتے ہیں ، وہ غلام آزادکرتے ہیں  جو(مفلسی کی وجہ سے )ہم نہیں  کرسکتے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآؤمیں  تمہیں  ایک ایساعمل بتلاتاہوں  کہ اگرتم اس کی پابندی کروگے توجولوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں  انہیں  تم پالوگے اورتمہارے مرتبہ تک پھرکوئی نہیں  پہنچ سکتااورتم سب سے اچھے ہوجاؤگے سوا ان کے جوتمہاری طرح اس عمل کو کرنے لگیں ، تم ہرفرض نمازکے بعدتینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح (سبحان اللہ)تحمید ( الحمدللہ) تکبیر(اللہ اکبر)پڑھاکروکچھ دنوں  بعد فقراء مہاجرین پھرحاضرمیں خدمت ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے مالداربھائیوں  کوبھی اس دعا کی خبرمل گئی اورانہوں  نے بھی اسے پڑھناشروع کردیا،آپ نے فرمایایہ اللہ کافضل ہے جسے چاہے دے[81]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِی كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرٌ ‎﴿٢٢﴾‏ لِكَیْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ‎﴿٢٣﴾‏ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَنْ یَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ ‎﴿٢٤﴾‏(الحدید)
’’نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ( کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل )آسان ہے،تاکہ تم اپنے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اتراجاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا، جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو( بھی) بخل کی تعلیم دیں، سنو ! جو بھی منہ پھیرے اللہ بےنیاز اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔‘‘

تقدیریں  لوح محفوظ میں  لکھ دی گئی ہیں  :اللہ تبارک وتعالیٰ نے قضاوقدرکے بارے میں  فرمایادنیامیں  کوئی بھی مصیبت مثلاًقحط،سیلاب اوردیگرآفات ارضی وسماوی وغیرہ نازل ہوتی رہتی ہیں ، اورتمہاری جانوں  میں  بھی دکھ درد ، بیماریاں اورتنگ دستی وغیرہ لاحق رہتی ہیں  ،اللہ ان سے بےخبرنہیں ،بلکہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی سب باتیں  نوشہ تقدیرمیں  لکھ دیں  ہیں  ، مخلوقات کی پیدائش سے پہلے تقدیریں  لکھ دینااس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں  ہے ،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: كَتَبَ اللهُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سناآپ فرماتے تھےاللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزارسال قبل ہی مخلوقات کی تقدیریں  لکھ دی تھیں ،اس وقت پروردگارکاعرش پانی پرتھا۔[82]

قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ:یَا بُنَیَّ، إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیقَةِ الْإِیمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ یَكُنْ لِیُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ یَكُنْ لِیُصِیبَكَ،سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمَ،  فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِیرَ كُلِّ شَیْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ،  یَا بُنَیَّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ مَاتَ عَلَى غَیْرِ هَذَا فَلَیْسَ مِنِّی

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا میرے بیٹے!تواس وقت تک ایمان کی حقیقت نہیں  پاسکتاجب تک یہ یقین نہ کرلے کہ جوکچھ تمہیں  حاصل ہوچکاہے یہ تم سے رہ نہیں  سکتاتھا اور جوحاصل نہیں  ہواہے وہ مل نہیں  سکتاتھا، میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمارہے تھے سب سے پہلی چیزجواللہ نے پیدافرمائی وہ قلم تھی،پھراس سے فرمایاکہ لکھو،اس نے کہااے میرے رب! کیا لکھوں ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایاقیامت قائم ہونے تک ہرہرچیزکی تقدیرلکھ،اے میرے بیٹے!بے شک میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناہے آپ فرماتے تھے جوشخص اس کے سوا (کسی اورعقیدے)پرمرگیاوہ مجھ سے نہیں ۔[83]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَوَّلَ شَیْءٍ خَلْقَهُ اللهُ الْقَلَمَ وَأَمَرَهُ فَكَتَبَ كُلَّ شَیْءٍ

اور عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بیشک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کوپیداکیااوراسے حکم فرمایاکہ ہرچیزکی تقدیرلکھ دو۔[84]

چنانچہ اگراللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت سے تمہیں  کسی ارضی وسماوی آفات سے نقصان یاجسمانی تکلیف یاغم پہنچے تواس پرمایوس اورغمگین ہوکرجزع وفزع کرنے کے بجائے صبروشکرکیاکروکیونکہ تمہاری جزع وفزع کرنے سے نوشہ تقدیر میں  کوئی تبدیلی نہیں  آسکتی، اوراگراللہ اپنے فضل وکرم سے کچھ مال ودولت ،غلبہ عنایت فرمادے تواللہ کی عنایت پرآپے سے باہرنہ ہو جایاکروکیونکہ مومن راحت پر اتراتانہیں  بلکہ اللہ کاشکراداکرتاہے کہ یہ صرف اس کی اپنی سعی کانتیجہ نہیں  ہے بلکہ اللہ کافضل وکرم اوراس کاحسان ہے ،اللہ تعالیٰ درشت خو،خودپسنداورمتکبر کوپسندنہیں  فرماتا ، جو فخر کرتااوراللہ کی نعمتوں  کوخوداپنی طرف منسوب کرتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا۝۰ۙ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ۔۔۔۝۰۝۴۹  [85]

ترجمہ: اورجب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کراپھاردیتے ہیں  توکہتاہے کہ یہ تومجھے علم کی بناپردیاگیاہے ۔

قارون نے بھی یہی کہاتھا

قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ۔۔۔  ۝۷۸ [86]

ترجمہ:تو اس نے کہا یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے۔

جوخودبھی بخل کرتے ہیں  اوردوسروں  کوبھی بخل پراکساتے ہیں ،اس نصیحت کے باوجودکوئی شخص اللہ اوراس کے دین کے لئے خلوص ، فرمانبرداری اورایثاروقربانی کا طریقہ اختیار نہیں  کرتاتواللہ کواس کی کچھ پرواہ نہیں  ہے وہ تو بے نیازاورسزاوار حمدوثنا ہے۔جیسے فرمایا

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۸  [87]

ترجمہ: اور موسیٰ نے کہاکہ اگرتم کفرکرواورزمین کے سارے رہنے والے بھی کافرہوجائیں  تواللہ بے نیازاوراپنی ذات میں  آپ محمودہے۔

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیهِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ یَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَیْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ ‎﴿٢٥﴾(الحدید)
’’یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں، اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت اور قوت ہے، اور لوگوں کے لیے اور بھی (بہت سے) فائدے ہیں، اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے، بیشک اللہ قوت والا زبردست ہے۔‘‘

اللہ نے اصلاح آخرت کے لئے دنیامیں  جتنے بھی رسول مبعوث فرمائے انہیں رسالت کے کھلے کھلے شواہداورعلامات،حق وباطل کوواضح کردینے والے روشن ترین دلائل اور عقائد ، اخلاق ، عبادات اورمعاملات میں  واضح ہدایت دے کر مبعوث کیا،پھرلوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے کتابیں  اورصحیفے نازل کیےتاکہ اس کتاب وسنت کے سہارے لوگ انفرادی اوراجتماعی طورپر افکار،اخلاق اورمعاملات میں  انصاف کریں ،اورلوگ حقوق اللہ اورحقوق العبادمیں  اعتدال پرقائم رہیں  ،اگرکوئی طبقہ بغاوت وسرکشی پر اترآئے تواس کاسرنیچاکرنے اورباطل کومٹانے کے لئے اللہ نے لوہے کوزمین میں پیداکیاجس میں  بڑی طاقت ہے اوراس سے دشمن پرواراوراپنے دفاع کے لئے آلات حرب اورلوگوں  کے لئے گھریلواستعمال کی چیزیں  بنتی ہیں  ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بُعِثْتُ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ بِالسَّیْفِ حَتَّى یُعْبَدَ اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ ، وَجُعِلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی، وَجُعِلَ الذِّلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِی، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے قیامت سے پہلے تلوارکے ساتھ مبعوث کیاگیاہےحتی کہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے،میرارزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھاگیاہےاورذلت ورسوائی اس کے مقدرمیں  لکھ دی گئی ہے جومیرے حکم کی مخالفت کرے اورجوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیارکرے وہ انہی میں  سے ہے۔[88]

اللہ تعالیٰ نے کتاب اورلوہااس لئے نازل فرمایاکہ وہ اس کے ذریعے سے آزمائش کابازارگرم کرے تاکہ واضح ہو جائے کہ کون ان دیکھے الٰہ کی خاطردنیامیں  اس حق کوغالب کرنے کے لئے جان ومال کی بازی لگادیتے ہیں  ،اس امتحان سے جولوگ کامیاب ہوکرنکلیں  گے وہی کامیاب ہوں  گے ،یقیناًاللہ ہی کائنات کافرمانرواہے اوراسی کوتمام قدرتیں  اوراختیارات حاصل ہیں  وہ جوچاہے اپنے ایک اشارے سے سب کچھ کرسکتاہے مگراس نے یہ طریقہ انسانوں  کی آزمائش کے لئے اختیار کیا ہے،جیسے پرفرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ وَهُوَالْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۝۲ۙ [89]

ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو اِیجاد کیا تاکہ تم لوگوں  کو آزما کر دیکھے تم میں  سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی ۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِیمَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ۖ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ ۖ وَكَثِیرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلَىٰ آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَآتَیْنَاهُ الْإِنْجِیلَ وَجَعَلْنَا فِی قُلُوبِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَیْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا ۖ فَآتَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِیرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿٢٧﴾‏(الحدید)
’’بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجااور ہم نے دونوں کو اولادمیں پیغمبری اور کتاب جاری رکھی تو ان میں کچھ تو راہ یافتہ ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان رہے، ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی ،اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کردیا، ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کرلی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے،سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے انہیں اس کا اجر دیا  اور ان میں زیادہ ترلوگ نافرمان ہیں۔‘‘

ہم نے نوح   علیہ السلام اورابراہیم   علیہ السلام کومبعوث کیااوران دونوں  کی اولادمیں  نبوت اورکتاب رکھ دی ،یعنی تمام انبیائے متقدمین ومتاخرین    نوح   علیہ السلام اورابراہیم   علیہ السلام کی اولادمیں  سے ہیں جیسے ایک مقام پرابراہیم  علیہ السلام کے بارے میں  فرمایا

۔۔۔وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ۔۔۔ ۝۲۷ [90]

ترجمہ:اورہم نےاس کی نسل میں  نبوت اورکتاب رکھ دی۔

پھران کی اولادمیں  سے کسی نے ہدایت اختیارکی اوربہت سے اللہ کے دائرہ اطاعت سے نکل گئے ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳  [91]

ترجمہ:تم خواہ کتناہی چاہوان میں  سے اکثرمان کردینے والے نہیں  ہیں ۔

اس کے بعدہم نے ہربستی میں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف دعوت دینے کے لئے پے درپے انبیاء اور رسول بھیجے اوران سب کے بعدعیسیٰ ابن مریم کومبعوث کیااورلوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اس پرفضیلت والی کتابوں  میں  سے ایک کتاب انجیل نازل فرمائی ،عیسیٰ   علیہ السلام نہایت رقیق القلب ،لوگوں  کے لئے رحیم وشفیق اورعدم تشددکادرس دیتے تھے اس لئے ان کی سیرت کاان کے حواریوں  پریہ اثرپڑاکہ وہ بھی اللہ کے بندوں  پرترس کھاتے اورہمدردی کرتے تھے ،جیسے فرمایا

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا۝۰ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۸۲ [92]

ترجمہ:تم اہل ایمان کی عداوت میں  سب سے زیادہ سخت یہوداورمشرکین کوپاؤگے اورایمان لانے والوں  کے لئے دوستی میں  قریب تران لوگوں  کوپاؤگے جنہوں  نے کہاتھاکہ ہم نصاریٰ ہیں ،یہ اس وجہ سے کہ ان میں  عبادت گزارعالم اورتاریک الدنیافقیرپائے جاتے ہیں  اوران میں  غرورنفس نہیں  ہے ۔

مگرعیسیٰ   علیہ السلام یاکسی اورنبی نے انہیں  ترک دنیااورعلائق دنیا سے منقطع ہوکرکسی جنگل ،صحرا، گرجا، خانقاہوں یامعبدوں میں  جاکراللہ کی عبادت کرنے کی تعلیم نہیں  دی تھی ،اورنہ ہی اللہ نے انہیں  ایساکرنے کاحکم دیاتھا مگرروحانی ترقی اور اللہ کی خوشنودی کی طلب میں  انہوں  نے اسے اپنے اوپرفرض کرکے خودکوگرجاؤں  اورمعبدوں  میں  محبوس کرلیاتھا،کیونکہ رہبانیت کبھی دین حق میں  شامل نہیں  رہی ہے،

أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا رَهْبَانِیَّةَ فِی الإِسْلامِ

عثمان بن مظعون  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسلام میں  کوئی رہبانیت نہیں ۔[93]

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ساری رات عبادت اوردن کوروزے میں  دیکھتے توان میں بھی عبادت کاجذبہ پیدا ہوتا تھااوروہ ترک دنیاکرکے عبادت میں  مشغول ہوجاناچاہتے تھے،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُیُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَافَقَالُوا: وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّی أُصَلِّی اللیْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُوَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا(وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا آكُلُ اللحْمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا أَنَامُ عَلَى فِرَاشٍ)فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِمْ، فَقَالَ:أَنْتُمُ الَّذِینَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللهِ إِنِّی لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّی أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّی وَأَرْقُدُوَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی

چنانچہ انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  تین اصحاب (سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،عبداللہ  رضی اللہ عنہ بن عمروبن عاص،اورعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ )نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواج مطہرات کے گھروں  کی طرف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے جب انہیں  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کاعمل بتایاگیاتوانہوں  نے اسے کم سمجھا، اورکہاکہ ہمارارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کیا مقابلہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی توتمام اگلی پچھلی لغزشیں  معاف کردی گئی ہیں ،ان میں  سےایک صحابی  رضی اللہ عنہ  نے کہاآج سےمیں  ہمیشہ رات بھر نماز پڑھاکروں  گااور دوسرے نے کہامیں  ہمیشہ روزے رکھوں  گا اور کبھی ناغہ نہیں  کروں  گااورتیسرے نے کہامیں  عورتوں  سے جدائی اختیارکرلوں  گااورکبھی بھی نکاح نہ کروں  گا(بعض روایات میں  ہے بعض نے کہا ہم گوشت نہیں  کھائیں  گے اوربعض نے کہاہم فرش پرنہیں  سوئیں  گے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اوران سے پوچھاکیاتم نے ہی یہ باتیں  کہیں  ہیں ؟فرمایاسن لواللہ کی قسم! میں  تم سے زیادہ اللہ رب العالمین سے ڈرنے والاہوں اورتم سب سے زیادہ پرہیزگارہوں ،مگرمیراطریقہ یہ ہے کہ اگر میں  روزہ رکھتا ہوں  توافطاربھی کرتا ہوں  اورراتوں  کونمازبھی پڑھتاہوں  اور آرام بھی کرتاہوں اورعورتوں  سے نکاح بھی کرتاہوں ، جس کومیراطریقہ پسندنہ ہواس کامجھ سے کوئی واسطہ نہیں ۔[94]

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَیُشَدَّدَ عَلَیْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللهُ عَلَیْهِمْ،فَتِلْكَ بَقَایَاهُمْ فِی الصَّوَامِعِ وَالدِّیَارِ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمایاکرتے تھےاپنے اوپرسختی نہ کروکہ اللہ تم پرسختی کرے، ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تواللہ نے بھی پھراسے سخت پکڑا  دیکھ لووہ اوران کے بقایاراہب خانوں  اورکنیسوں  میں  موجودہیں ۔[95]

مگروہ دو اعتبارسے قصورکے مرتکب ہوئے ایک توانہوں  نے خوداپنے آپ پرپابندیاں  لگائیں  اوردوسرا یہ کہ جوپابندیاں  انہوں  نے خودپرلگائیں  تھیں  اس پرقائم نہ رہے سکے اورنہ اس کاحق ہی اداس کرسکےبلکہ وہ حرکتیں  سرانجام دیں  جس سے اللہ کے غضب کے مستحق بن گئے ،ان میں  جوچندلوگ خلوص نیت دین عیسیٰ  علیہ السلام  پرقائم رہے ان کوہم نے بہترین اجر عطا کیامگران میں  اکثرفاسق ہی تھے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَیَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿٢٨﴾‏ لِئَلَّا یَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا یَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَیْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ‎﴿٢٩﴾‏(الحدید)
’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا، اللہ بخشنے والا مہربان ہے،یہ اس لیے کہ اہل کتاب جان لیں کہ اللہ کے فضل کے حصے پر بھی انہیں اختیار نہیں اور یہ کہ (سارا) فضل اللہ ہی کے ہاتھ ہے وہ جسے چاہے دے، اور اللہ ہے ہی بڑے فضل والا۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!محض زبان سے نبوت کااقرارکرکے نہ رہ جاؤ،بلکہ صدق دل سے اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لاؤاورپھراس پرثابت قدم رہو،اللہ تمہیں  اپنی رحمت کا دوہرااجرعطا فرمائے گاجس کی مقداراوروصف اللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں  جانتا،جیسےفرمایا

۔۔۔ مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷ [96]

ترجمہ: جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں  جن کے لیے ان کے عمل کی دُہری جزا ہے ، اور وہ بلند و بالا عمارتوں  میں  اطمینان سے رہیں  گے۔

اوردنیامیں  تمہیں  علم وبصیرت کاوہ نورعطافرمائے گاجس کی روشنی میں  تم جہالت کی تاریکیوں  سے بچ کرصراط مستقیم پربے خوف وخطر گامزن رہوگے اورروزمحشرمیں  بھی نور عطا فرمائے گاجس کی روشنی میں  تم اندھیروں  میں  ڈوباہوا پل صراط عبورکروگے اور بشری کمزوریوں کی بناپر تم سے نادانستگی میں  جو گناہ اورلغزشیں  سرزد ہوں  گی وہ معاف فرمادے گا،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّیُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـیِّاٰتِكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۝۲۹ [97]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو! اگراللہ کاتقویٰ اختیارکروگے تواللہ تمہارے لئے کسوٹی بہم پہنچادے گا اور تمہاری برائیوں  کوتم سے دورکرے گااورتمہارے قصورمعاف کرے گا،اللہ بڑافضل فرمانے والا ہے ۔

بیشک اللہ بندوں  کے گناہ معاف کرنے والا اور مہربان ہے ، لوگویہودونصاریٰ خودکواللہ کامحبوب قراردیتے ہیں  اورکہتے ہیں  کہ ہمارے سواکوئی جنت میں  داخل نہ ہوگا،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۔۔۔  ۝۱۱۱ [98]

ترجمہ: ان کاکہناہے کہ کوئی شخص جنت میں  نہ جائے گاجب تک کہ وہ یہودی نہ ہویا(عیسائیوں  کے خیال کے مطابق)عیسائی نہ ہو۔

اس لئے تمہیں  یہی روش اختیارکرنی چاہے تاکہ یہودونصاریٰ کومعلوم ہوجائے کہ فضل وکرم کامالک صرف وہی پروردگارہے جس کے فضل وکرم کاکوئی اندازہ اورحساب نہیں  لگایاجاسکتااوریہ کہ اللہ اپنافضل وکرم جسے چاہتاہے عطافرمادیتاہے اوروہ فضل عظیم کامالک ہے۔

[1] عیون الآثر۳۷۲؍۲

[2] سنن ابوداودکتاب العتق بَابٌ فِی بَیْعِ الْمُكَاتَبِ إِذَا فُسِخَتِ الْكِتَابَةُ۳۹۳۱،مسنداحمد۲۶۳۶۵،ابن ہشام ۳۹۴؍۲،الروض الانف ۲۵؍۷

[3] ابن ہشام۶۴۵؍۲،الروض الانف۵۶۴؍۷،عیون الآثر۳۷۲؍۲

[4] ابن ہشام۲۹۳؍۲،الروض الانف۲۴؍۷،عیون الآثر۱۳۲؍۲،تاریخ طبری ۶۰۹؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۲۹۸؍۳

[5] ابن هشام ۶۳۱؍۲،الروض الانف۵۴۴؍۷، البدایة والنہایة۲۳۹؍۵

[6] ابن سعد۶۸؍۲،ابن ہشام۶۳۱؍۲، الروض الانف۵۴۴؍۷،البدایة والنہایة۲۳۹؍۵،مغازی واقدی ۵۶۱؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۴۳۶؍۴

[7] مغازی واقدی۵۶۱؍۲

[8] ابن سعد۶۹؍۲ ،عیون الآثر۱۵۰؍۲

[9] صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ التَّنْفِیلِ، وَفِدَاءِ الْمُسْلِمِینَ بِالْأَسَارَى۴۵۷۳،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابُ الرُّخْصَةِ فِی الْمُدْرِكِینَ یُفَرَّقُ بَیْنَهُمْ ۲۶۹۷،سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ فِدَاءِ الْأُسَارَى ۲۸۴۷،مسنداحمد ۱۶۵۰۲،ابن سعد۹۰؍۲، السنن الکبری للبیہقی ۱۸۳۳۰،عیون الآثر۱۸۹؍۲،تاریخ طبری ۶۴۴؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۴۱۷؍۳

[10] بنی اسرائیل ۴۴

[11] النور۴۱

[12] الحشر۲۴

[13] الجمعة ۱

[14] التغابن۱

[15] الانبیائ۷۹

[16] القصص۸۸

[17] الرحمٰن ۲۶،۲۷

[18] فتح القدیر ۱۹۹؍۵

[19] مسندابی یعلی۴۷۷۴

[20] صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ النَّوْمِ وَأَخْذِ الْمَضْجَعِ۶۸۹۱، جامع ترمذی ابواب الدعوات بَابُ جَامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۴۸۱،سنن ابن ماجہ کتاب الدعائ بَابُ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۸۳۱،السنن الکبری للنسائی ۷۶۲۱، مسنداحمد۱۰۹۲۴ ،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۳۱۳

[21] الاعراف۵۴

[22] یونس۳

[23] السجدة۴

[24] الانعام ۵۹

[25] تفسیرابن کثیر۹؍۸

[26] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ: إِنَّ اللهُ لَا یَنَامُ، وَفِی قَوْلِهِ: حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ۴۴۵،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۹۵،۱۹۶، مسنداحمد۱۹۶۳۲،صحیح ابن حبان ۲۶۶،شرح السنة للبغوی ۹۱

[27] ھود۵،۶

[28] الرعد۱۰

[29] المجادلة۷

[30] السنن الکبری للبیہقی۷۲۷۵

[31] اللیل۱۳

[32] القصص۷۰

[33] سبا۱

[34] المومن۱۹

[35] جامع ترمذی ابواب القیامة بَابٌ۲۴۷۰

[36] مسنداحمد۷۱۵۹،صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ فَضْلِ صَدَقَةِ الشَّحِیحِ الصَّحِیحِ۱۴۱۹،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ بَیَانِ أَنَّ أَفْضَلَ الصَّدَقَةِ صَدَقَةُ الصَّحِیحِ الشَّحِیحِ۲۳۸۲

[37] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۲۰،مسنداحمد۱۶۳۰۶،السنن الکبری للنسائی ۶۴۰۷،صحیح ابن حبان ۷۰۱،مستدرک حاکم۳۹۶۹،السنن الکبری للبیہقی ۷۱۰۱،شعب الایمان۳۰۶۱،شرح السنة للبغوی۴۰۵۵

[38] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۲۲، مسنداحمد۸۸۱۳، صحیح ابن حبان۳۲۴۴، السنن الکبری للبیہقی ۶۵۱۰

[39] تفسیرابن کثیر۸۶؍۲،مسند البزار ۷۲۹۴

[40] البقرة۳

[41] المائدة ۷

[42] مسنداحمد۲۲۷۶۹،مصنف ابن ابی شیبة ۳۷۲۵۷، مسندالبزار۲۷۳۱

[43] البقرة۲۵۷

[44] المائدة۱۶

[45] الاحزاب۴۳

[46] الطلاق۱۱

[47] سبا۳۹

[48] النحل۹۶

[49] النسائ۹۵

[50] مسنداحمد۱۳۸۱۲

[51]صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ النبیﷺبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا ۳۶۷۳، صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ بَابُ تَحْرِیمِ سَبِّ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ۶۴۸۸،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۶۵۸،مصنف ابن ابی شیبة۳۲۴۰۴، مسنداحمد۱۱۰۷۹،مسندابی یعلی۱۰۸۷،صحیح ابن حبان۷۲۵۳، شرح السنة للبغوی ۳۸۵۹،معجم ابن عساکر۳۶۷

[52] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۸۴۲

[53] صحیح ابن حبان۲۷۳۳

[54] البقرة۲۴۵

[55] تفسیر ابن ابی حاتم۳۳۳۸؍۱۰ ، تفسیر طبری۴۳۰؍۴، تفسیرالقرطبی۲۳۷؍۳، تفسیرابن کثیر ۱۴؍۸

[56] تفسیرابن ابی حاتم ۱۸۸۱۷،۳۳۳۶؍۱۰، تفسیرطبری ۱۷۸؍۲۳

[57] تفسیر القرطبی۲۴۴؍۱۷،تفسیرطبری۱۷۸؍۲۳

[58] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۴،وكِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ۴۷۷۹،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا باب صفة الجنة۷۱۳۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ۳۱۹۷،مسنداحمد۹۶۴۹

[59] الاعراف۴۶

[60] تفسیرطبری۱۸۵؍۲۳

[61] الانعام۷۰

[62] آل عمران۹۱

[63] القارعة۸تا۱۱

[64] المائدة۱۳

[65] تفسیرابن کثیر۲۰؍۸

[66] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ۶۰۹۴،صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ قُبْحِ الْكَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِهِ۶۶۳۷،مشکوٰة المصابیح کتاب الآداب باب حفظ اللسان۴۸۲۵

[67] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ: الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِیمِ، وَمَا یُخَافُ مِنْهَا ۶۴۹۳

[68] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۵۶،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ تَرَائِی أَهْلِ الْجَنَّةِ أَهْلَ الْغُرَفِ، كَمَا یُرَى الْكَوْكَبُ فِی السَّمَاءِ۷۱۴۴، شرح السنة للبغوی ۴۳۷۸

[69] فتح الباری۵۴؍۱

[70] البقرة ۱۴۳

[71] الحج۷۸

[72] الحدید: 19

[73] تفسیرطبری۱۹۲؍۲۳

[74] آل عمران۱۴

[75] الشوریٰ۲۸

[76] الکہف۴۵

[77] صحیح بخاری کتاب بدائ الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۵۰، مسنداحمد۱۵۵۶۴،تفسیرابن کثیر۲۵؍۸، تفسیرطبری ۴۵۴؍۷،عن ابی ہریرہ

[78] آل عمران۱۳۳

[79] مسند احمد ۳۶۶۷،صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ الجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ ۶۴۸۸

[80] صحیح بخاری كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ۸۴۴

[81] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ۸۴۳،وکتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ۶۳۲۹، صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ ۱۳۴۷

[82] صحیح مسلم کتاب القدر بَابُ حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ۶۷۴۸،جامع ترمذی ابواب القدربَابٌ ۲۱۵۶

[83] سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۷۰۰،السنن الکبری للبیہقی ۲۰۸۷۵

[84] مسندابی یعلی۲۳۲۹

[85] الزمر۴۹

[86] القصص۷۸

[87] ابراہیم۸

[88] مسنداحمد۵۱۱۵ ،مصنف ابن ابی شیبہ۱۹۴۰۱

[89] الملک۲

[90] العنکبوت۲۷

[91] یوسف۱۰۳

[92] المائدة۸۲

[93] شرح السنة للبغوی ۴۸۴

[94] صحیح بخاری کتاب النکاح باب قَوْلِهِ تَعَالَى:فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ۵۰۶۳،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَیْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ۳۴۰۴

[95] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الْحَسَدِ۴۹۰۴

[96] سبا۳۷

[97] الانفال۲۹

[98] البقرة۱۱۱

Related Articles