ہجرت نبوی کا چھٹا سال

مضامین سورة الفتح

اس سورة میں  واقعہ حدیبیہ کوفتح عظیم قراردیاگیا،اس ضمن میں  منافقین کے کردارپرزجروتوبیخ اوراہل ایمان کواجرعظیم کی خوشخبری سنائی گئی۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کاتذکرہ اوراس کی تعبیرکے جلدوقوع پذیرہونے کایقین دلایاگیا۔

بیت رضوان کی عظمت اوراس کے شرکاء کے لیے بخشش ومغفرت کااعلان کیاگیا۔

سورة کے آخرمیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب  رضی اللہ عنہم  کے عظیم کرداراوران کی اخلاقی عظمت کے آثاربیان فرمائے گئے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِینًا ‎﴿١﴾‏ لِیَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْكَ وَیَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ‎﴿٢﴾‏ وَیَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِیزًا ‎﴿٣﴾‏ هُوَ الَّذِی أَنْزَلَ السَّكِینَةَ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ لِیَزْدَادُوا إِیمَانًا مَعَ إِیمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿٤﴾(الفتح )
’’بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے اور پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دےاور تجھے سیدھی راہ چلائے اور آپ کو ایک زبردست مدد دے، وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون (اور اطمینان) ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں، اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں، اور اللہ تعالیٰ دانا با حکمت ہے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !صلح حدیبیہ کے ذریعہ ہم نے تم کوکھلی فتح عطاکردی تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہرکوتاہی سے درگزرفرمائے،وَاللهُ أَعْلَمُ۔

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَزَلَتْ عَلَیَّ الْبَارِحَةَ سُورَةٌ، هِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا  {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِینًا لِیَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ}،[1]

جسے سن کرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیااوردنیاکی تمام چیزوں  سے زیادہ محبوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے۔[2]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى قَامَ حَتَّى تَتَفَطَّرَ رِجْلَاهُ ، قَالَتْ عَائِشَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَتَصْنَعُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ فَقَالَ:یَا عَائِشَةُ، أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  رات کی نمازمیں  اتناطویل قیام فرماتے کہ آپ کے قدموں  پرورم آجاتاتھا،ایک مرتبہ عائشہ  رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اپنی زیادہ مشقت کیوں  اٹھاتے ہیں ؟اللہ نے توآپ کے سب اگلے پچھلے قصورمعاف فرمادیئے ہیں ؟ توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےجواب دیا اے عائشہ  رضی اللہ عنہا ! کیامیں  اللہ کاشکرگزاربندہ نہ بنوں ۔[3]

اورآپ کودشمنوں  کے خلاف فتح وغلبہ عطاکرکے اورآپ کے کلمہ کووسعت بخش کرآپ پر اتمام نعمت کر دے اور اللہ تعالیٰ نے صلح کایہ معاہدہ کراکرآپ کے لئے فتح وکامرانی کاراستہ کھول دیاہے،

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَعُدُّونَ أَنْتُمُ الْفَتْحَ فَتْحَ مَكَّةَ، وَقَدْ كَانَ فَتْحُ مَكَّةَ فَتْحًا، وَنَحْنُ نَعُدُّ الْفَتْحَ بَیْعَةَ الرِّضْوَانِ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَةِ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ (سورة فتح میں )فتح سے مرادمکہ مکرمہ کی فتح کہتے ہو،فتح مکہ توبہرحال فتح تھی ہی لیکن ہم غزوہ حدیبیہ کی بیعت رضوان کوحقیقی فتح سمجھتے ہیں ۔[4]

اللہ نے مسلمانوں  پراپنے احسان کا ذکر فرمایا کہ مکہ مکرمہ جاتے وقت راستے میں  جب تمہیں  یہ خبرمعلوم ہوئی کہ قریش ایک جم غفیرکےساتھ لڑنے مرنے پرآمادہ ہیں ،اورجب حدیبیہ میں  دشمنوں  نے کئی بار شبخون مارکرتمہیں  اشتعال دلانے کی کوشش کی اورجب تمہیں  سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی اورجب ابوجندل  رضی اللہ عنہ  مظلومیت کی تصویربن کر تمہارے سامنے آکرکھڑے ہوئے تھے اورپھر شرائط کی گفت وشندکی مضطرب کردینے والی اس گھڑی میں ان تمام مواقعہ پر اسی نے ہی تمہارے دلوں  میں  سکون واطمینان ڈال کرثابت قدم رکھاتھاتاکہ تمہارے ایمان میں  مزیداضافہ ہوجائے ،اے مومنو!اللہ تعالیٰ تمہارامحتاج نہیں ،زمین وآسمان کے تمام لشکراس کی ملکیت اوراس کے دست تدبیراورقہرکے تحت ہیں وہ ان سے جس طرح چاہتا ہے کام لیتا ہے مگراس نے اپنی حکمت اورمشیت سے یہ ذمہ داری تم پرڈال دی ہے کہ تم اللہ کے دین کوسربلندکرنے کے لئے کفارکے مقابلہ میں  جدوجہد اور کوشش کرواسی طریقہ سے تمہارے درجات میں  ترقی ہوگی اورآخرت کی کامیابیوں  کے دروازے کھلیں  گے۔

لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَیُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِنْدَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِیمًا ‎﴿٥﴾‏ وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِینَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّینَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَیْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِیرًا ‎﴿٦﴾‏(الفتح )
’’تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ان جنتوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گےاور ان سے ان کے گناہ دور کردے، اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں، (دراصل )انہیں پر برائی کا پھیرا ہے، اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لیے دوزخ تیار کی اور وہ (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:فَقَالُوا: هَنِیئًا مَرِیئًا یَا نَبِیَّ اللهِ، لَقَدْ بَیَّنَ اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ، مَاذَا یَفْعَلُ بِكَ، فَمَاذَا یَفْعَلُ بِنَا؟فَنَزَلَتْ عَلَیْهِ:لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَیُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ۰ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللهِ فَوْزًا عَظِیْمًا

انس بن مالک  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہااے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کومبارک ہو اورعرض کیااے اللہ کےرسول   صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ سے تو بیان فرما دیا گیاکہ آپ کے ساتھ یہ ہونے والاہے ہمارے لئے کیاانعام ہے؟تو آیت’’ (اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں  اور عورتوں  کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں  میں  داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں  بہہ رہی ہوں  گی اور ان کی برائیاں  ان سے دور کر دے اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[5]

اللہ نے یہ کام اس لئے کیاہے تاکہ مومن مردوں  اور عورتوں  سے بشری کمزوریوں  سے جوبھول چوک ہوجائے انہیں  معاف فرما کر اور ان کے دامن کے ہردھبے کو مٹاکرایسی نعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل فرمائے جس کونہ کسی  آنکھ نے دیکھا اورنہ ہی کوئی اس کاتصورکرسکتاہے،اللہ کے رحم وکرم سے جنتوں  میں  داخلہ ہی سب سے بڑی کامیابی وکامرانی ہے،جیسے فرمایا

 ۔۔۔فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۔۔۔۝۰۝۱۸۵ [6]

ترجمہ: کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں  آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں  داخل کر دیا جائے ۔

اورمنافقین مردوں  وعورتوں  کوجویہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کفارکے ہاتھوں  مغلوب ہوجائیں  گے یاان کے ہاتھوں  مارے جائیں  گےاور اللہ حق وباطل کی اس کشمکش میں  اپنے نبی اور اپنے دین کی کوئی مددنہیں  کرے گا ،اللہ اپنے کلمہ کو بلند نہیں کرے گابلکہ اہل باطل کواہل حق پرغلبہ عطا کرے گا ،اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ عداوت رکھنے کے سبب اللہ تعالیٰ کاان پرغضب ہوااوراس نے ان پراپنی رحمت کے دروازے بندکردیئے،وہ انہیں جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں  داخل کرکے دردناک سزادے گا جوبدترین ٹھکانہ ہے ۔

وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا ‎﴿٧﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا ‎﴿٨﴾‏ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِیلًا ‎﴿٩﴾‏(الفتح)
’’اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے، یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجاہے، تاکہ (اے مسلمانو) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام۔‘‘

اللہ تعالیٰ نےدوبارہ اپنی قوت وقدرت کااظہار فرمایازمین اورآسمانوں  کے بے شمار لشکراللہ ہی کے قبضہ قدرت میں  ہیں ، وہ جس کوسزادیناچاہئے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بے شمارلشکروں  میں  سے جس کوچاہئے استعمال کرسکتاہے،اورکسی مخلوق میں  یہ طاقت نہیں  کہ وہ اپنی تدبیروں  سے اللہ کے عذاب کوٹال سکےمگروہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت انہیں  ڈھیل پرڈھیل دیتاہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے تم کومخلوق پرشہادت دینے والا،اہل ایمان کودنیاوی ،دینی اورآخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضااور انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  کی بشارت دینے والااورکفارومشرکین اورمنافقین کودنیاوی اورآخرت میں اللہ کے غضب اوردہکتی ہوئی جہنم سے خبردارکردینے والابناکرمبعوث کیا ہے ، جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۝۴۵ۙ [7]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! ہم نے تمہیں  بھیجا ہے گواہ بنا کر ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔

تاکہ اے لوگو!اس وقت سے پہلے جب مال و اولاد ،منصب اورجتھے کچھ کام نہیں  آئیں  گےتم اللہ وحدہ لاشریک پراوراس کے رسول رحمة للعالمین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاؤ،ان کی اطاعت کرو،ان کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے،جیسے فرمایا

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔۔۔۝۰۝۸۰ۭ [8]

ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔

اورحق وباطل کی اس کشمکش میں  حزب اللہ میں  شامل ہوکرجان ومال کے ساتھ اللہ کاساتھ دو،اللہ کی تعظیم وتوقیرکرواور صبح وشام یعنی ہمہ وقت اپنے خالق،مالک اوررازق کی تسبیح بیان کرتے رہو۔

إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَكَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّهَ یَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَیْدِیهِمْ ۚ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا یَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَیْهُ اللَّهَ فَسَیُؤْتِیهِ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿١٠﴾‏(الفتح )
’’جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرسن کرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چودہ سو اصحاب  رضی اللہ عنہم  درخت کے نیچے آپ کے دست مبارک پربیعت علیٰ الموت کررہے تھے،وہ آپ کے توسط سے اللہ کے ہاتھ پربیعت کررہے تھے،یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے کیونکہ اسی نے جہادکاحکم فرمایاہے ،اوروہی اس کااجرعطافرمائے گاجیسےفرمایا

اِنَّ اللهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ۝۰ۭ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ۝۰ۣ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۱۱ [9]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں  سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ،وہ اللہ کی راہ میں  لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ،ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ، اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو ؟ پس خوشیاں  مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکا لیا ہے ، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

عَن أَبُو هُرَیْرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَلَّ سَیْفَهُ فِی سَبِیلِ اللهِ، فَقَدْ بَایَعَ اللهَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاجس شخص نے اللہ کی راہ میں  تلواراٹھالی اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کرلی۔[10]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلم فی الْحَجَرِ:وَاللَّهِ لَیَبْعَثُهُ اللَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَهُ عَیْنَانِ یَنْظُرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ یَنْطِقُ، بِهِ وَیَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِالْحَقِّ، فَمَنِ اسْتَلَمَهُ فَقَدْ بَایَعَ اللَّهَ، ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَكَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّهَ یَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَیْدِیهِمْ}

اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجراسودکے بارے میں  ارشادفرمایاقیامت کے روزاللہ تعالیٰ اسے کھڑاکرے گااس کی دوآنکھیں  ہوں  گی جن سے وہ دیکھے گااورزبان ہوگی جس سے وہ بولے گااورجس نے حق کے ساتھ بوسہ دیاہوگااس کی گواہی دے گا، اسے بوسہ دینے والادراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے والا ہے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی آیت’’اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔‘‘  تلاوت فرمائی۔[11]

اورصحابہ  رضی اللہ عنہم  کوزیادہ تاکید،تقویت اوران کوبیعت کے پوراکرنے پرآمادہ کرنے کے لئے فرمایا اب کوئی بیعت رضوان سے روگردانی کرکے لڑائی میں  حصہ نہ لے گاتواس عہدشکنی وبال اسی پرپڑے گااوراسے اس کی سزاملے گی اورجو اللہ سے عہدکے مطابق اللہ کے رسول کی جان ومال کے ساتھ مددکرے گا،ان کے ساتھ مل کرجہادفی سبیل اللہ میں  شریک ہوگایہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کوفتح وغلبہ عطافرمادے تواللہ بہت جلداسے اجرعظیم عطافرمائے گا۔

سَیَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ یَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَا لَیْسَ فِی قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَنْ یَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ‎﴿١١﴾‏ بَلْ ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ یَنْقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِیهِمْ أَبَدًا وَزُیِّنَ ذَٰلِكَ فِی قُلُوبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنْتُمْ قَوْمًا بُورًا ‎﴿١٢﴾‏ وَمَنْ لَمْ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ سَعِیرًا ‎﴿١٣﴾‏ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِیمًا ‎﴿١٤﴾(الفتح)
’’ دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لیے مغفرت طلب کیجئے، یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے، آپ جواب دیجئے کہ تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہےتو، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے،( نہیں) بلکہ تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعاً ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا، دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے، اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو ہم نے بھی ایسے کافروں کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے، اور زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے ،اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اوراللہ تعالیٰ نے مدینے کے اطراف میں  آبادقبیلے غفار،مزینہ،جہینہ،اسلم،اشجع اوروئل کے ضعیف الایمان بدوؤں  کی مذمت فرمائی کہ اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !جو لوگ ایمان کادعویٰ کرنے کے باوجودجہادفی سبیل اللہ میں موت کے خوف سے اپنے گھروں  سے نہیں  نکلے تھے مگرجب آپ کوزندہ سلامت دیکھیں  گے تو آپ سے ظاہری طورپرمختلف دنیاوی جھوٹے بہانوں  سے مغفرت اوراستغفار کی التجائیں کریں  گے، حالانکہ نہ وہ اپنے گناہ پر نادم ہیں  اور نہ ہی انہیں  اپنے گناہ کی سنگینی کااحساس ہے ،اورنہ ہی دل میں  مغفرت کی کوئی طلب ہے،آپ انہیں  صاف طورپر کہہ دیں  کہ بندوں  کی بخشش ومغفرت کا اختیارمجھےنہیں  اللہ علام الغیوب کوحاصل ہے ،جوتمہارے تمام چھوٹے بڑے ، ظاہراًاورپوشیدہ اعمال سے باخبر ہے ،اس لئے اگروہ تمہارے اعمال کے صلے میں  تمہیں  کوئی جانی یامالی نقصان پہنچانے یاتمہیں  غنیمت سے نوازنے کافیصلہ کرلے توکسی میں  قدرت نہیں  کہ اس کے فیصلے کوروک سکے ،اور اگر میں  تمہارے ظاہری قول کوسچ مان کرتمہارے حق میں  دعائے مغفرت کربھی دوں  تومیری یہ دعاتمہیں  اللہ کی پکڑسے بچانہ سکے گی ،مگراصل بات وہ نہیں  ہے جوتم اپنی زبان سےکہہ رہے ہوبلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے اپنے نفاق سے بظاہر بڑادانشمندانہ فیصلہ کیاتھاکہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ مکہ مکرمہ نہ جاکر خودکوموت کے منہ سے بچالیاہے اوراللہ قدرمطلق کے بارے میں  تمہیں  یہ بدگمانی تھی کہ اللہ اپنے دین اوراپنے رسول کی مددنہیں  کرے گااورکفارہمیں  نیست ونابودکردیں  گے اورہم لوگ زندہ سلامت اپنے اہل وعیال میں  واپس نہیں  آسکیں  گے،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ہلاک ہونے والے لوگ ہیں ،جولوگ اللہ وحدہ لاشریک  اوراس کے رسول پر ایمان نہ رکھتے ہوں  ایسے کفار،مشرکین اورمنافقین کے لئے ہم نے جہنم کی آگ تیارکررکھی ہےجس میں  نہ یہ جی سکیں گے اورنہ مرہی سکیں  گے ، جیسے فرمایا

 اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [12]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [13]

ترجمہ:پھر نہ اس میں  مرے گا نہ جیئے گا۔

چنانچہ ابھی وقت ہے اپنی اس روش سے بازآجاؤ،اس کی طرف جھک جاؤاورنفاق سے توبہ کرکے خالق ومالک اورمتصرف کائنات سے بخشش ومغفرت چاہوتو تم اسے رحم کرنے اوربخش دینے والا پاؤگے،اس کی بے پایاں  رحمت وکرم رات دن نازل ہوتارہتاہے ۔

‏ سَیَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ یُرِیدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِنْ قَبْلُ ۖ فَسَیَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا یَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿١٥﴾‏قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِی بَأْسٍ شَدِیدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ یُسْلِمُونَ ۖ فَإِنْ تُطِیعُوا یُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِنْ قَبْلُ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿١٦﴾(الفتح)
’’ جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے ،وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (اصل بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں،آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے، پس اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں بہت بہتر بدلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیرلیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منہ پھیر چکے ہو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا ۔‘‘

اورجب آپ انہیں  چودہ سو مجاہدین کے ساتھ (جنہوں  نے آپ کے دست مبارک پربیعت رضوان کی تھی) خیبرکی مہم پرروانہ ہوں  گے تواللہ کے بارے میں  بدگمان یہ منافقین آسان فتوحات کوحاصل ہوتے اوربہت سے اموال غنیمت کے لالچ میں ساتھ چلنے پراصرارکریں  گےمگرآپ انہیں  حصہ لینے کاہرگزموقع نہ دینااوران سے کہناکہ یہ تواللہ  تعالیٰ نے غزوہ حدیبیہ کے مجاہدین کے لئے مخصوص فرمادیئے ہیں  جوخطرات کے مقابلے میں  سرفروشی کے لئے آگے بڑھے تھے ،اس وقت یہ مسلمانوں  کوطعنہ دیں گے کہ تم لوگ ہم سے حسدکرتے ہوکہ کہیں  ہم بھی مال غنیمت میں  تمہارے شریک نہ ہوجائیں ،حالانکہ یہ بات نہیں جووہ سمجھ رہے ہیں  بلکہ ان کوجہادسے منہ موڑنے کی پاداش میں  دنیاوی سزادی جارہی ہے، مگران فاسدلوگوں  کوفہم وفراست ہی نہیں  کہ ان کی محرومی کاسبب ان کی نافرمانی ہے ،اس وقت ان سے کہناکہ بہت جلدتمہیں  بڑے جری ،جنگجو اور زور آور دشمنوں  (مثلاً ہوزان ،ثقیف جن سے حنین کے مقام پرجنگ ہوئی یامسلمہ کذاب کی قوم بنوحنیفہ یارومی واہل فارس وغیرہ) سے جہادفی سبیل اللہ کی دعوت دی جائے گی ، اللہ تعالیٰ ان پرتمہاری مددفرمائے گا یا پھروہ لوگ بغیرلڑائی اسلام قبول کرلیں  گے یامغلوب ہوکرجزیہ دیناقبول کرلیں  گے،اس وقت اگرتم نے جہادکی پکار پر خوش دلی سے لبیک کہاتواللہ تمہیں  اس کابہترین صلہ عطافرمائے گا،اوراگرغزوہ حدیبیہ کی طرح منہ موڑوگے تو المناک عذاب تمہارے لئے تیارہے ۔

لَیْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِیضِ حَرَجٌ ۗ وَمَنْ یُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ یُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَنْ یَتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿١٧﴾‏ (الفتح)
’’ اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے، جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے (درختوں) تلے نہریں جاری ہیں اور جو منہ پھیر لے اسے دردناک عذاب (کی سزا) دے گا۔‘‘

اگرچلنے پھرنے سے معذوری کی بناپراندھااورلنگڑااورمریض جہادفی سبیل اللہ کے لیے نہ آئے توکوئی گناہ نہیں  ہے،جوکوئی شخص اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول پرایمان لائے گااور ان کے اوامرکی تعمیل کرنے اوران کے نواہی سے اجتناب کرنے میں ان کی اطاعت کرے گااورجس کایہ عقیدہ ہوگا

۔۔۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُكِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۲ۙ [14]

ترجمہ:میری نماز میرے تمام مراسم عبوریت، میرنا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔

اللہ تعالیٰ اسے ان انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل کرے گاجن کے نیچے دودھ،نتھرے پانی،شہداورمختلف ذائقوں  کی شراب کی نہریں  بہ رہی ہوں  گی،جیسے فرمایا

 مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ  ۝۱۵ [15]

ترجمہ:پرہیز گار لوگوں  کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں  نہریں  بہہ رہی ہوں  گی نتھرے ہوئے پانی کی، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ایسے دُودھ کی جس کے مزے میں  ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ایسی شراب کی جو پینے والوں  کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں  ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں  گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔

اوران جنتوں  میں  ہروہ چیزہوگی جس کی نفس خواہش کریں  گے اورجن سے آنکھوں  کولذت حاصل ہوگی،جیسےفرمایا

 وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ [16]

ترجمہ: وہاں  جو کچھ تم چاہو گے تمہیں  ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔

اورجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت سےمنہ پھیرے گا وہ اسے دنیامیں  ذلت ورسوائی میں  مبتلاکرے گااورآخرت میں  جہنم کا دردناک عذاب دے گا۔

لَقَدْ رَضِیَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِینَةَ عَلَیْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا ‎﴿١٨﴾‏ وَمَغَانِمَ كَثِیرَةً یَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا ‎﴿١٩﴾‏ وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِیرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ آیَةً لِلْمُؤْمِنِینَ وَیَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ‎﴿٢٠﴾‏ وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَیْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرًا ‎﴿٢١﴾(الفتح )
’’ یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی، اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ غالب حکمت والا ہے،اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے تاکہ مومنوں کے لیے یہ ایک نشانی ہوجائےاور تاکہ وہ تمہیں سیدھی راہ چلائے، اور تمہیں اور (غنیمتیں) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے قابومیں کر رکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان میں  شامل صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوجن کے دلی صداقت،نیت وفااور اللہ اوررسول کی اطاعت کے جذبات سے اللہ خوب واقف ہے سندخوشنودی عطا فرمائی ، اور ان کی قدردانی کے لئے انہیں  صبروتحمل کی توفیق بخشی ،اورانہیں  انعام اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت اوررضاکی تعمیل کی قدروقیمت کے طورپر قریبی فتح یعنی حدیبیہ کی صلح اور تین ماہ بعدہی صفرسات ہجری کوانعام کے طورپریہودیوں  کازرخیزوشاداب علاقہ خیبرکی فتح نصیب ہونے کی خوشخبری سنائی، جس سے مجاہدین کو کثیر مال غنیمت ملااورمہاجرین نے واپس آکراپنے انصاربھائیوں  کے اموال ان کوواپس لوٹادیئے، اورتم لوگ صرف خیبر کی غنیمت ہی کوآخری نہ سمجھوبلکہ اس کے بعدبھی اللہ تمہیں بکثرت اموال غنیمت سے نوازے گا چنانچہ خیبر کے بعددوسری یہودی بستیاں  فدک،وادی القرٰی،تیما اورتبوک  وغیرہ مسخرہوتی چلی گئیں  جس سے صحابہ  رضی اللہ عنہم  کو کثیر مال غنیمت اوروہ عزت ورفعت حاصل ہوئی کہ دنیاانگشت بدنداں  رہ گئی،اورفرمایا کہ اللہ کی حمدوثنابیان کروکہ حدیبیہ کے مقام پرجہاں  قریش جنگی نقطہ نظرسے بہترپوزیشن میں  تھے، وہ تمہیں بے سروسان اوراپنے مستقر سے دور دیکھ کراپنے حلیفوں  کے ساتھ چاروں  طرف سے گھیرکر یکبارگی حملہ کرسکتے تھے،اس کے علاوہ مدینہ منورہ کوخالی دیکھ کریہودومشرکین حملہ کرسکتے تھے مگراللہ نے احسان فرمایااوراس نے کفار کواتنی ہمت ہی عطانہ فرمائی اور انہوں  نے مرعوب ہوکر ان شرائط پرصلح کی جوبظاہر تو ان کے حق میں  تھیں  مگردرحقیقت سراسرمسلمانوں  کی فتح ونصرت کی نویدتھیں ،اللہ نے یہ سب اس لئے کیاتاکہ لوگوں  کومعلوم ہوجائے کہ اللہ کس طرح اپنے اطاعت گزاروں  کی تائیدونصرت فرماتاہے ،اوراس سے تمہارے دل مزید تقویت حاصل کریں  کہ آئندہ بھی اللہ تمہاری مدداورہدایت پر استقامت عطافرمائے گا،اورابھی مکہ مکرمہ تمہاری فتوحات کےدائرہ میں  نہیں  آیاہے لیکن اللہ نے اسےگھیرے میں  لے لیاہے اورصلح حدیبیہ کے نتیجے میں  بہت جلدتمہارے قبضہ میں  آجائے گا،بلاشبہ اللہ ہرچیزپرقادرہے ۔

‏ وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُونَ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿٢٢﴾‏ سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِیلًا ‎﴿٢٣﴾‏وَهُوَ الَّذِی كَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَأَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرًا ‎﴿٢٤﴾‏ هُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْیَ مَعْكُوفًا أَنْ یَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُؤْمِنَاتٌ لَمْ تَعْلَمُوهُمْ أَنْ تَطَئُوهُمْ فَتُصِیبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۖ لِیُدْخِلَ اللَّهُ فِی رَحْمَتِهِ مَنْ یَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَیَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿٢٥﴾‏ إِذْ جَعَلَ الَّذِینَ كَفَرُوا فِی قُلُوبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِینَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا ‎﴿٢٦﴾‏ (الفتح)
’’اوراگر تم سے کافر جنگ کرتے تو یقیناً پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھر نہ تو کوئی کارساز پاتے نہ مددگار، اللہ کے اس قاعدے کے مطابق جو پہلے چلا آیا ہے، تو کبھی بھی اللہ کے قاعدے کو بدلتا ہوا نہ پائے گا ،وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے لیے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے( روکا)، اور اگر ایسے بہت سے مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا (تو تمہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیاگیا) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے،جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

اگرکفارصلح کے بجائے اپنی ظاہراًبرتری اورتمہیں  بے سروساماں  دیکھ کرجنگ کاراستہ اختیار کرتے تواللہ اہل ایمان کوفتح ونصرت سے نوازتااورکفار کاکوئی حلیف انہیں  کسی طرح کی کوئی مددنہ پہنچاسکتا،اللہ تعالیٰ کی یہ سنت اورعادت پہلے سے چلی آرہی ہے کہ جب کفروایمان کے درمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی کامرحلہ آتاہے تواللہ اہل ایمان کی مدد فرماتااوراپنےکلمہ کوسربلندی عطافرماتاہے اورتم اللہ کی سنت میں  کوئی تبدیلی نہ پاؤگے،جیسے فرمایا

سُـنَّةَ اللہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۶۲  [17]

ترجمہ:یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں  کے معاملے میں  پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں  کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

 ۔۔۔فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ۝۰ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِیْلًا۝۴۳ [18]

ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں  کہ پچھلی قوموں  کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں  ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کفارکے مسلمانوں  کے خلاف جتن اوراہل ایمان کی اطاعت وسرفروشی کوبھی جانتاتھا،اگراللہ چاہتا تواس وقت حدیبیہ میں  جنگ برپاہوجاتی مگراللہ نے اپنی حکمت ومشیت سے دونوں  فریقوں  کو لڑنے سے روکاحالانکہ وہ ان پرتمہیں  غلبہ عطا کر چکا تھا اور جوکچھ تم کررہے تھے اللہ اسے دیکھ رہاتھا،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ الْحُدَیْبِیَةِ هَبَطَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ ثَمَانُونَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فِی السِّلَاحِ، مِنْ قِبَلِ جَبَلِ التَّنْعِیمِ، یُرِیدُونَ غِرَّةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا عَلَیْهِمْ فَأُخِذُواقَالَ عَفَّانُ: فَعَفَا عَنْهُمْ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {وَهُوَ الَّذِی كَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَأَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ  أَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ}،  [19]

انس بن مالک  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےحدیبیہ کے دن مکہ کے اسی (۸۰)مسلح آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام کے سامنے جبل تنعیم کی طرف سے آدھمکے،ان کامقصدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پراچانک حمل کرناتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لیے بددعافرمائی تووہ پکڑلیے گئے،اورعفان کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  معاف فرمادیا اورپھراسی بارے میں  یہ آیت کریمہ’’وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں  ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے حالانکہ وہ ان پر تمہیں  غلبہ عطا کرچکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔ ‘‘ نازل ہوئی۔[20]

یہ وہی لوگ توہیں  جنہوں  نے اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول کی تکذیب کی اوربیت اللہ کے حقیقی وارثوں  کو مسجدحرام کی زیارت اورطواف کرنے سے روکااور ظلم وتعدی کی بناپرھدی کے اونٹوں  کوان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا،اگرمکہ مکرمہ میں ایسے کمزور مومن مردوعورت موجودنہ ہوتے جواپنے ایمان کوچھپائے ہوئے ہیں  اوراپنی بے بسی کی وجہ سےہجرت پرقادرنہیں  ہیں  اگریہ خطرہ نہ ہوتاکہ نادانستگی میں  تم انہیں  پامال کردوگے اوراس سے تم پرحرف آئے گاتوجنگ نہ روکی جاتی،جنگ اس لئے روکی گئی تاکہ اللہ جسے چاہئے اسلام قبول کرنے کی توفیق عطافرمادے،

جُنَیْدَ بْنَ سَبْعٍ، یَقُولُ:قَاتَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ النَّهَارِ كَافِرًا، وَقَاتَلْتُ مَعَهُ آخِرَ النَّهَارِ مُسْلِمًا وَنَزَلَتْ فِینَا: {وَلَوْلَا رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُؤْمِنَاتٌ}،[21] ، قَالَ: كُنَّا تِسْعَةَ نَفَرٍ سَبْعَةَ رِجَالٍ وَامْرَأَتَیْنِ

جنیدبن سبیع  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  حدیبیہ کے موقع پرصبح کے وقت میں  کفارکے ساتھ مل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف لڑرہاتھالیکن اسی شام کواللہ تعالیٰ نے میرادل پھیردیااورمیں  نے اسلام قبول کرلیااورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہوکرکفارسے لڑرہاتھا، ہمارے ہی بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی’’ اگر(مکہ میں )ایسے مومن مردوعورت موجودنہ ہوتے جنہیں  تم نہیں  جانتے۔‘‘ کہتے ہیں ہم کل نوشخص تھے جن میں  سات مرداوردوعورتیں  تھیں ۔[22]

وَقَالَ: كُنَّا ثَلَاثَةَ  رِجَالٍ وَتِسْعَ نِسْوَةٍ

جنیدبن سبیع  رضی اللہ عنہ سےایک اور روایت میں  ہے ہم تین مرد تھے اورنوعورتیں  تھیں ۔[23]

ہاں  اگراہل ایمان کفارسے ملے جلے نہ ہوتے اور الگ رہائش پذیر ہوتے تواللہ تمہیں  مکہ مکرمہ میں  داخل ہوکر کفار سے لڑنے کی اجازت دے دیتا ، پھرایک خونریزجنگ کے بعد بہت سے کفار تمہارے ہاتھوں  قتل ہوجاتے اوربہت سے اسیر بنا لئے جاتےیہی وجہ ہے کہ جب ان کافروں  نے اپنے دلوں  میں  جاہلانہ حمیت بٹھالی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے اصحاب  رضی اللہ عنہم کوکسی قیمت پربیت اللہ میں  داخل نہیں  ہونے دیں  گے تو اللہ نے کفارقریش کی جاہلانہ حمیت،تعصب کامقابلہ کرنے کے لئے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کو صبرووقارعطافرمایااوروہ کلمہ تقویٰ لاالٰہ الااللہ پرقائم رہے،

 كَلِمَةَ التَّقْوى . قال مجاهد   لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں  کلمہ تقویٰ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ہے۔[24]

هِیَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ، لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كل شیء قدیر

عطابن ابی رباح کلمہ تقویٰ کے بارے میں  کہتے ہیں  وہ لاالٰہ الااللہ وحدہ لاشریک،لہ لہ الملک ولہ الحمد،وھوعلی کل شی قدیرہے۔[25]

عَلِیًّا، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ فِی قَوْلِهِ: {وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى}،[26] قَالَ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

سیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے’’ اور مومنوں  کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا ۔‘‘ کے بارے میں  پوچھاگیا توآپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایالاالٰہ الااللہ۔ [27]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فِی قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى}،[28]  قَالَ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ سے ایک اورروایت میں  ہے جب ان سےاللہ عزوجل کے قول’’اور مومنوں  کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا ۔‘‘  کے بارے میں  پوچھاگیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاالاالٰہ الااللہ واللہ اکبر۔[29]

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى قَالَ: شَهَادَةُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَهِیَ رَأْسُ كُلِّ تَقْوَى

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے’’اور مومنوں  کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا ۔‘‘ کے بارے میں  پوچھا گیاتوانہوں  نے فرمایااس بات کی شہادت دیناکہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اوریہی تقویٰ کی بنیاد ہے ۔[30]

ومروان بن الْحَكَمِ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى قَالَ: لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ

اورمروان بن الحکم رحمہ اللہ  سے’’ اور مومنوں  کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا ۔‘‘ کے بارے میں  پوچھاگیا توانہوں  نے کہااللہ کے سواکوئی معبودنہیں  ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں ۔[31]

 وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوى وَكانُوا أَحَقَّ بِها وَأَهْلَها [32] وَهِیَ (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ)

امام قرطبی’’ اور مومنوں  کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں  وہ کلمہ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ ہے۔ [33]

عَنْ الطُّفَیْلِ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: {وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى}[34] قَالَ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

طفیل اپنے والدسے روایت کرتے ہیں اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکلمہ تقویٰ لاالٰہ الااللہ ہے۔[35]

اور وہی اس کے زیادہ حق داراوراس کے اہل تھے،اللہ ہرچیزکاعلم رکھتاہے۔

لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِینَ مُحَلِّقِینَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِینَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِیبًا ‎﴿٢٧﴾‏ هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِیدًا ‎﴿٢٨﴾‏(الفتح )
’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ انشاء اللہ تم یقیناً پورے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے، سر منڈواتے ہوئے اورسرکے بال کترواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر ، وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے، پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی، وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے، اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہی دینے والا۔‘‘

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  اوردوسرے صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے دلوں  میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاخواب کھٹک رہاتھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے سوال کے جواب میں فرمادیاتھا

أَفَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِیهِ  الْعَامَ؟قُلْتُ: لَا،قَالَ:فَإِنَّكَ آتِیهِ ومُطوِّف بِهِ

کیامیں  نے تمہیں  یہ بھی بتایاتھاکہ تم اسی سال بیت اللہ جاؤگے؟ سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کی نہیں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم ضروربیت اللہ جاؤگے اوراس کاطواف بھی کروگے۔

یعنی اسی سال عمرہ اداکرنے کی تصریح تونہ تھی مگراس کے باوجوددلوں  میں  کچھ نہ کچھ خلش موجودتھی ، چنانچہ فرمایا گیاکہ اللہ نے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کوسچاخواب دکھلایاتھااوروہ یقیناً عنقریب پوراہوکررہے گااورتم لوگ اللہ کی حکمت و مشیت کے مطابق اس کے محترم گھرکی بے خوف وخطر زیارت اوردوسری رسوم اداکروگے،چنانچہ عمرہ قضا ذی قعدہ سات ہجری میں  ہوا،اللہ جوعلام الغیوب ہے اس بات کوجانتاتھامگرتم لاعلم تھے ،اوراللہ نے حکمت اورمنفعت بیان فرمائی کہ وہ صلح کے ان فوائدکوجانتاتھااس لئے اس نے تمہیں اس خواب کے پوراہونے سے پہلے یہ فتح مبین عطا فرما دی جس کے نتیجے میں  بہ کثرت لوگ مسلمان ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایایہ لوگ ہمارے رسول کی تکذیب کرتے ہیں  حالانکہ ہمارے رسول کارسول ہوناتوایک حقیقت ہے کسی کے ماننے یانہ ماننے سے کوئی فرق نہیں  پڑتا،وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دے کربھیجاجوگمراہی میں  راہ راست دکھاتاہے اورخیروشرکے تمام راستے واضح کردیتاہے اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کوحجت وبرہان کے ذریعےپوری جنسِ دین پر غالب کر دےیعنی دین کی نوعیت رکھنے والے تمام نظامات زندگی پرغالب کردے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے بعدصحابہ کرام کی کوششوں  سے ہرطرف دین اسلام کاغلبہ ہوگیااورقرون اولیٰ اوراس کے مابعدعرصہ درازتک جب تک مسلمان اپنے دین پرعامل رہے انہیں  دنیوی اورعسکری لحاظ سے غلبہ حاصل رہااورآج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں جیسےفرمایا

۔۔۔وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۱۳۹ [36]

ترجمہ: تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

اوراگرکچھ لوگ ہمارے رسول کونہیں  مانتے تونہ مانیں  اس سے حقیقت بدل نہیں  جائے گی،ہمارے رسول کے رسول ہونے پر اللہ کی شہادت کافی ہے۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِیمَاهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِی الْإِنْجِیلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٢٩﴾‏(الفتح)
’’ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ، ان ایمان والوں اورنیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

تصدیق رسالت:اللہ تعالیٰ نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت وثنابیان فرمائی کہ آپ اللہ کے برحق نبی ہیں ،پھرصحابہ  رضی اللہ عنہم جو کامل ترین صفات اورجلیل ترین احوال کے حامل تھے کی صفت وثنابیان کی کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی ،اصول کی مضبوطی ،سیرت کی طاقت ،ایمانی فراست اورفتح ونصرت میں  جدوجہدکرنے میں بے خوفی کی وجہ سے مخالفین کے مقابلے میں  چٹان کی طرح سخت ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً۔۔۔۝۰۝۱۲۳ [37]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو !جنگ کرو ان منکرین حق سے جو تمہارے پاس ہیں  اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں ۔

مگر اہل ایمان پر رحیم وشفیق اورہمدرداغمگسارہیں  ،

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَرَى المُؤْمِنِینَ فِی تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآپس کی محبت اورنرم دلی میں  مومنوں  کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگرکسی ایک عضومیں  دردہوتوساراجسم بے قرار ہو جاتاہے،کبھی بخارچڑھ آتاہے ،کبھی نینداچاٹ ہوجاتی ہے۔[38]

أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ أَبِی مُوسَى،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْیَانِ، یَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَیْنَ أَصَابِعِهِ

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامومن مومن کے لئے مثل دیوارکے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کوتقویت پہنچاتااورمضبوط کرتاہے ،پھرآپ نے اپنے دونوں  ہاتھوں  کی انگلیاں  ایک دوسری میں  ملاکربتلایا۔[39]

یہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسندکرتے ہیں  جو اپنے لئے پسندکرتے ہیں ،اوران کامطلوب ومقصودیہ ہے کہ عام طورپرفرض نماز جوتمام نیکیوں  سے افضل واعلیٰ ہے اوردن و راتوں  کے نفلی لمبے قیام میں  نہایت خضوع وخشوع سے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرسکیں  ،کثرت اورحسن عبادت سے ان کے چہروں  پرکریم النفسی ،شرافت اورحسن اخلاق کے اثرات واضح ہوتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الْهَدْیَ الصَّالِحَ، وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ، وَالِاقْتِصَادَ جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابلاشبہ صالح طرززندگی ،نیک سیرت اورمیانہ روی نبوت کاپچسیواں (۲۵)حصہ ہے۔[40]

یہ صرف اسی پراکتفانہیں  کرتے بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صدقہ ،خیرات ،نفلی روزے اوراس طرح کے دوسرے کاموں  میں  بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ،مومنین کی یہ صفات گزشتہ الٰہی کلام تورات وانجیل میں  بھی مذکورہیں ،

وَلِهَذَا لَمَّا رَآهُمْ نَصَارَى الشَّامِ وَشَاهَدُوا هَدْیَهُمْ وَسِیرَتَهُمْ وَعَدْلَهُمْ وَعِلْمَهُمْ وَرَحْمَتَهُمْ وَزُهْدَهُمْ فِی الدُّنْیَا وَرَغْبَتَهُمْ فِی الْآخِرَةِ، قَالُوا: مَاالَّذِینَ صَحِبُوا الْمَسِیحَ بِأَفْضَلَ مِنْ هَؤُلَاءِ،وَكَانَ هَؤُلَاءِ النَّصَارَى أَعْرَفَ بِالصَّحَابَةِ وَفَضْلِهِمْ مِنَ الرَّافِضَةِ أَعْدَائِهِمْ، وَالرَّافِضَةُ تَصِفُهُمْ بِضِدِّ مَا وَصَفَهُمُ اللهُ بِهِ فِی هَذِهِ الْآیَةِ وَغَیْرِهَاوَمَنْ یَهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِی وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِیًّا مُرْشِدًا

علامہ ابن قیم  رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب شام کے نصریٰ نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کودیکھاان کاطریقہ زندگی کامطالعہ ومشاہدہ کیاان کے عدل وعلم وعمل اوردنیاسے پرہیزاورآخرت کی طرف رغبت کاحال دیکھا توکہنے لگے یہ لوگ ان سے افضل ہیں  جنہوں  نے مسیح علیہ السلام کی حمایت کاشرف حاصل کیاتھا،نصاری روافض کی نسبت صحابہ کو بخوبی جانتے ہیں اور ان کے فضل ومرتبہ کا بھی اقرار واعتراف کرتے ہیں لیکن روافضہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے متعلق ایسی باتیں  بناتے ہیں  جواللہ تعالیٰ نے قرآن میں  روانہیں  رکھیں اورجسے اللہ ہدایت دیتاہے وہی ہدایت یافتہ ہے اورجسے اللہ گمراہ کردے اس کاکوئی کارساز اور رہنمانہیں ۔[41]

ان کی مثال یوں  دی گئی ہے کہ گویاایک کھیتی ہے جس نے زمین سےپہلے کونپل نکالی،پھراس کاتقویت دی،پھروہ گدرائی،پھراپنے تنے پرکھڑی ہوگئی،کاشت کرنے والوں  کووہ خوش کرتی ہے تاکہ کفاران کے پھلنے پھولنے پرجلیں ،اس گروہ کے لوگ جوایمان لائے ہیں  اورجنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  اللہ نے ان سے مغفرت اوربڑے اجرکاوعدہ فرمایاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِی، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أحدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِیفَهُ

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے صحابہ  رضی اللہ عنہم  کوبرانہ کہو،ان کی بے ادبی اورگستاخی نہ کرواس کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے کہ اگرتم میں  سے کوئی احدپہاڑکے برابرسوناخرچ کرے توان کے تین پاؤاناج بلکہ ڈیڑھ پاؤاناج کے اجرکوبھی نہیں  پاسکتا۔[42]

دوسری طرف سہیل اپنے بیٹے ابوجندل کولے کرمکہ مکرمہ گیااورانہیں  ایک جگہ قیدکرکے کچھ لوگ پہرے پرمامورکردیئے ،قیدخانے میں ابوجندل خاموشی سے بیٹھے نہ رہے بلکہ خلوص نیت سے قیدمیں  ہی پہرے داروں  کو اسلام کی دعوت دینے شروع کردی،وہ ان کے سامنے اللہ کی عظمت وجلال ،توحیدکی خوبیاں  اورشرک کی برائیاں  اوراس کا دردناک انجام بیان کرتے،کلام الٰہی کی حقانیت،مضامین کی وسعت وگہرائی اورپرزوردلائل ان کے دلوں  کوجھنجھوڑدیتے جس سے کئی پہرے داراللہ وحدہ لاشریک   پرایمان لاکرابوجندل کے ساتھ قیدہوتے گئے،چنانچہ ابوجندل اوردوسرے اسیروں  کی کوششوں  سے ایک سال میں  تین سومشرک کفرسے تائب ہوکردائرہ اسلام میں  داخل ہوگئے،آخرتنگ آ کرقریش نے ابوجندل اوران کے ساتھیوں  کومکہ مکرمہ سے نکال باہرکیااوروہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ  کے پاس چلے گئے ۔

عتبہ بن اسید  رضی اللہ عنہ (ابوبصیر)کی مدینہ آمد

انہی دنوں اسی طرح کاایک واقعہ اورپیش آیا

فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ أَتَاهُ أَبُو بَصِیرٍ عُتْبَةُ  بْنُ أُسَیْدِ بْنِ جَارِیَةَ، وَكَانَ مِمَّنْ حُبِسَ بِمَكَّةَ،فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ فِیهِ أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ عَوْفِ بْنِ عَبْدِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ زُهْرَةَ، وَالْأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقِ بْنِ عَمْرِو بْنِ وَهْبٍ الثَّقَفِیُّ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعَثَا رَجُلًا مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، وَمَعَهُ مَوْلًى لَهُمْ، فَقَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابِ الْأَزْهَرِ وَالْأَخْنَسِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا أَبَا بِصَیْرِ إنَّا قَدْ أَعْطَیْنَا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ مَا قَدْ عَلِمْتَ، وَلَا یَصْلُحُ لَنَا فِی دِینِنَا الْغَدْرُ، وَإِنَّ اللهَ جَاعِلٌ لَكَ وَلِمَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُسْتَضْعَفِینَ فَرْجًا وَمَخْرَجًا  فَانْطَلِقْ إلَى قَوْمِكَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَتَرُدُّنِی إلَى الْمُشْرِكِینَ یَفْتِنُونَنِی فِی دِینِی؟قَالَ: یَا أَبَا بِصَیْرِ، انْطَلِقْ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى سَیَجْعَلُ لَكَ وَلِمَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُسْتَضْعَفِینَ فَرْجًا وَمَخْرَجًا

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ پہنچ گئے توعتبہ رضی اللہ عنہ  بن اسید(ابوبصیر)جوقریش کے حلیف قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے ، دین اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی قیدوبندمیں  تھے اوروہ انہیں  اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے سخت تکالیف پہنچاتے تھے کسی طرح آزاد ہوکرمدینہ منورہ پہنچ گئے، صلح کی شرط کے مطابق ازہربن عبدمناف اوراخنس بن شریق نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوان کی بابت خط لکھااوربنی عامربن لوئی سے ایک شخص کویہ خط دے کرابوبصیر رضی اللہ عنہ کوواپس لانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  روانہ کیا اور اپنا ایک غلام بھی ساتھ کردیا، یہ دونوں  شخص ازہراوراخنس کاخط لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے فرمایااے ابوبصیر رضی اللہ عنہ !ہم نے ان لوگوں  سے عہدکیاہواہے جوتمہیں  معلوم ہے ہم اپنے عہدکی خلاف ورزی نہیں  کرسکتے،اللہ تعالیٰ تمہارے اورتمہارے اورغریب ساتھیوں  کے لئے ضرورکشادگی پیداکرنے والاہے تم اپنی قوم میں  واپس چلے جاؤ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ازروئے معاہدہ آپ نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ  کوبلاحیل وحجت ان دونوں  آدمیوں  کے حوالے فرما دیا ابوبصیر رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے ان لوگوں کی طرف لوٹارہے ہیں  جو مجھے دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے طرح طرح سے ایذائیں  دیتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابوبصیر رضی اللہ عنہ !صبرسے کام لو اوراللہ پربھروسہ رکھو،عنقریب اللہ تمہاری نجات کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔[43]

فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى بَلَغَا ذَا الْحُلَیْفَةِ، فَنَزَلُوا یَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ،فَقَالَ أبو بصیر لِأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ: وَاللهِ إِنِّی لَأَرَى سَیْفَكَ هَذَا جَیِّدًا. فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ، فَقَالَ: أَجَلْ وَاللهِ إِنَّهُ لَجَیِّدٌ، لَقَدْ جَرَّبْتُ بِهِ ثُمَّ جَرَّبْتُ، فَقَالَ أبو بصیر: أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْهِ،فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ، فَضَرَبَهُ بِهِ حَتَّى بَرَدَوَفَرَّ الْآخَرُ یَعْدُو حَتَّى بَلَغَ الْمَدِینَةَ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَفَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ رَآهُ: لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُتِلَ وَاللهِ صَاحِبِی، وَإِنِّی لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أبو بصیر فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ، قَدْ وَاللهِ أَوْفَى اللهُ ذِمَّتَكَ، قَدْ رَدَدْتَنِی إِلَیْهِمْ فَأَنْجَانِی اللهُ مِنْهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ یَا رَسُولَ اللهِ عَرَفْتُ أَنِّی إِنْ قَدِمْتُ عَلَیْهِمْ فَتَنُونِی عَنْ دِینِی فَفَعَلْتُ مَا فَعَلْتُ وَلَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَهُمْ عَهْدٌ وَلَا عَقْدٌ

چنانچہ یہ دونوں  آدمی ابوبصیر رضی اللہ عنہ  کو لے کرروانہ ہوئےحتی کہ یہ لوگ دم لینے اورکھجوریں  کھانےکے لئے مقام ذوالحلیفہ پر ٹھیرگئے، اس وقت ابو بصیر رضی اللہ عنہ  نے ان میں  سے ایک آدمی جوان کے ہی قبیلہ کاتھا کی تلوارکی تعریف کرتے ہوئے کہا اے فلاں  تمہاری تلوارتوبہت عمدہ معلوم ہوتی ہے ،اس شخص نے خوش ہوکراپنی تلوار نیام سے نکالی اورکہااللہ کی قسم! یہ نہایت ہی عمدہ تلوارہے،میں  اس کو بارہا آزماچکا ہوں  یہ واقعی بے مثال اور بہت شاندارہے، ابوبصیر رضی اللہ عنہ  نے کہا ذرا مجھے بھی دکھلاؤمیں  دیکھوں  کہ اس میں  کیاخوبی ہے ،اس شخص نے وہ تلوارانہیں  تھما دی،تلوارہاتھ میں  آتے ہی ابوبصیر رضی اللہ عنہ  نے اس شخص پرایک بھر پور وارکیا جس سے وہ موقعہ پرہی ٹھنڈاہوگیا،اپنے ساتھی کایہ انجام اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ میں  تلوار دیکھ کردوسراساتھی مدینہ منورہ کی طرف بھاگ کھڑاہوااورسیدھا مسجدنبوی میں  داخل ہو کر دبک گیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کرفرمایااس کے ساتھ کوئی خوفناک واقعہ پیش آیاہے،اس شخص نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !واللہ میراساتھی توابوبصیر رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں  ماراگیااوراب میں  بھی قتل کیاجانے والا ہوں ،اس شخص کے بعدابوبصیر رضی اللہ عنہ  بھی آپ کی خدمت میں  حاضرہوگئے اورعرض کیااے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے اپناعہدپوراکرتے ہوئے مجھے ان کے حوالہ کر چکے تھے اب اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات عطافرمادی ہے،ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم اگرمیں  مکہ مکرمہ واپس چلاجاؤں  تووہ لوگ مجھے اسلام سے برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں  گے ، میں  نے یہ سب کچھ اس لئے کیاہے کہ میراان کے ساتھ کوئی عہدنہیں  ہے۔[44]

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَیْلُ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ، لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَیَرُدُّهُ إِلَیْهِمْ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کی ماں  کے لئے ہلاکت ہویہ جنگ کی آگ بھڑکانے والاہے اگراس کی امدادکی جائے، جب ابوبصیر رضی اللہ عنہ  نے یہ سناتوسمجھ گئے کہ اگرمیں  آپ کے سامنے رہاتومجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کردیں  گے۔[45]

ثُمَّ خَرَجَ أَبُو بَصِیرٍ حَتَّى نَزَلَ الْعِیصَ، مِنْ نَاحِیَةِ ذِی الْمَرْوَةِ، عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، بِطَرِیقِ قُرَیْشٍ الَّتِی كَانُوا یَأْخُذُونَ عَلَیْهَا إلَى الشَّامِ،فَلَمَّا بَلَغَ سُهَیْلَ بْنَ عَمْرٍو قَتْلُ أَبِی بَصِیرٍ صَاحِبَهُمْ الْعَامِرِیَّ، أَسْنَدَ ظَهْرَهُ إلَى الْكَعْبَةِ، ثُمَّ قَالَ: وَاَللَّهِ لَا أُؤَخِّرُ ظَهْرِی عَنْ الْكَعْبَةِ حَتَّى یُودِیَ هَذَا الرَّجُلُ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ: وَاَللَّهِ إنَّ هَذَا لَهُوَ السَّفِهُ، وَاَللَّهِ لَا یُودَى (ثَلَاثًا)

اس لئے انہیں  نے مدینہ منورہ کی حدود سے نکل کرمقام الْعِیصَ میں  جوسمندرکے کنارے ذومرہ کے پاس ہے ایک کٹیا بناکر بسیرا کرلیااوریہ وہ راستہ تھاجہاں  سے قریش کے قافلے شام کوجاتے تھے،جب سہیل بن عمروکواس شخص کے قتل کی خبرہوئی جس کو ابوبصیر رضی اللہ عنہ  نے اسی کی تلوارسے قتل کیا تھا،وہ شخص سہیل کے قبیلہ کا ہی تھااس نے کعبہ سے اپنی پشت لگا کر کہا اللہ کی قسم!جب تک اس کاخون بہانہیں  دیاجائے گامیں  اپنی پشت کعبہ سے نہیں  ہٹاؤں  گا،ابوسفیان نے کہااللہ کی قسم!یہ تیری حماقت ہے اس کاخون بہانہیں  دیاجائے گا،ابوسفیان نے تین مرتبہ یہی کہا۔[46]

أَنَّ سُهَیْلَ بْنَ عَمْرٍو لَمَّا بَلَغَهُ قَتْلُ الْعَامِرِیِّ طَالَبَ بِدِیَتِهِ لِأَنَّهُ مِنْ رَهْطِهِ فَقَالَ لَهُ أَبُو سُفْیَانَ لَیْسَ عَلَى مُحَمَّدٍ مُطَالَبَةٌ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ وَفَّى بِمَا عَلَیْهِ وَأَسْلَمَهُ لِرَسُولِكُمْ وَلَمْ یَقْتُلْهُ بِأَمْرِهِ وَلَا عَلَى آلِ أَبِی بَصِیرٍ أَیْضًا شَیْءٌ لِأَنَّهُ لَیْسَ عَلَى دِینِهِمْ

ایک روایت میں  ہے سہیل بن عمروکوجب اس شخص کے قتل کی خبرہوئی جس کوابوبصیر رضی اللہ عنہ نے اسی کی تلوارسے قتل کیاتھاوہ شخص سہیل کے قبیلہ کاہی تھااس نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس شخص کی دیت کامطالبہ کرنے کاسوچامگرابوسفیان نے کہامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کوتمہارے آدمیوں  کے حوالے کردیاتھااوراس شخص کوان کے حکم سے قتل نہیں  کیاگیااس لئے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس کی دیت کامطالبہ نہیں  کیاجاسکتااوراس دیت کامطالبہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ یاخاندان سے بھی نہیں  کیاجاسکتاکیوں  ابوبصیر رضی اللہ عنہ ان کے دین پرنہیں  ہے۔[47]

فَخَرَجُوا إلَى أَبِی بِصَیْرِ بِالْعِیصِ، فَاجْتَمَعَ إلَیْهِ مِنْهُمْ قَرِیبٌ مِنْ سَبْعِینَ رَجُلًا،

جب ابوبصیر  رضی اللہ عنہ  کے ٹھکانے کاعلم مکہ مکرمہ میں  ان مسلمانوں  کوہواجوقریش کے ہاتھوں  میں  مجبوراورگرفتارتھےتووہ چھپ چھپ کر ابو بصیر رضی اللہ عنہ  کے پاس پہنچنے لگے،ابوجندل  رضی اللہ عنہ بھی وہاں  پہنچ گئے اس طرح رفتہ رفتہ ستر آدمیوں کاایک جتھاوہاں  جمع ہوگیا۔[48]

ثَلَاثِمِائَةِ رَجُلٍ

یازہری اورموسیٰ بن عقبہ کے مطابق تین سو آدمیوں کاایک جتھاوہاں  جمع ہوگیا ۔[49]

وَكَانُوا قَدْ ضَیَّقُوا عَلَى قُرَیْشٍ، لَا یَظْفَرُونَ بِأَحَدِ مِنْهُمْ إلَّا قَتَلُوهُ، وَلَا تَمُرُّ بِهِمْ عِیرٌ إلَّا اقْتَطَعُوهَا حَتَّى كَتَبَتْ قُرَیْشٌ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُ بِأَرْحَامِهَا إلَّا آوَاهُمْ، فَلَا حَاجَةَ لَهُمْ بِهِمْ،وَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى أبی بِصَیْرٍ أَنْ یَقْدَمَ بِأَصْحَابِهِ مَعَهُ، فَجَاءَهُ الْكِتَابُ وَهُوَ یَمُوتُ، فَجَعَلَ یَقْرَأُ وَهُوَ یَمُوتُ، فَمَاتَ وَهُوَ فِی یَدَیْهِ

اورانہوں  نےقریش کوزچ کردیاقریش کاجوآدمی ان کے ہاتھ لگ جاتااسے فوراًقتل کرڈالتے اورجوجوقافلہ وہاں  سے گزرتااس سے تعرض کرتے اورجومال غنیمت حاصل ہوتااس پرگزر اوقات کرتے ، قریش کاخیال یہ تھاکہ مسلمانوں  میں  سے جو ہمارے پاس آئے گاہم اسے واپس نہیں  کریں  گےاوراس شخص کوواپس اپنی ملت پر لانے کی کوشش کریں  گے اس طرح اگرایک یاکچھ لوگ بھی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے دین سے پلٹ گئے توپروپیگنڈاکرکے دوسرے لوگوں  کے دلوں  میں  شک وشبہ پیداکیاجاسکتاہے جس سے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے دین کونقصان پہنچے گا حالانکہ کسی مسلمان کوکیاپڑی تھی کہ اپنا سچادین اورنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت کو چھوڑ کر مشرکین کے پاس آتا،اگرواپس ہی آناہوتاتومشرکین کے ظلم وستم کیوں  سہتے اورمجبورہوکر بیت اللہ کی رفاقت، اپنا گھربار، بیوی بچے،عزیزاقارب چھوڑ کر ہجرت ہی کیوں  کرتے،اس کے برعکس ہماراکوئی آدمی مدینہ منورہ گیاتوہم اسے واپس لے آئیں  گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس شق میں  بھی مسلمانوں  کو نصرت بخشی،ابوبصیر رضی اللہ عنہ  اورابوجندل  رضی اللہ عنہ  کی کاروائیوں  سے قریش پچھتائے کہ کیوں  انہوں  نے اس شرط پراصرارکیاتھا،چنانچہ انہوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خط بھیجاجس میں  قرابت داری کا واسطہ دے کرلکھاکہ ہم معاہدہ کی اس شق سے دست بردار ہوتے ہیں  ،آپ ابوبصیر رضی اللہ عنہ  اوران کے ساتھیوں  کو مدینہ بلا لیں  ، اورجوشخص مسلمان ہوکرآپ کی طرف جائے گاہم اس سے کوئی تعرض نہ کریں  گے،قریش کی یہ درخواست آپ نے منظورفرمالی اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ  کوایک نامہ لکھا،جب قاصدنامہ لے کرابوبصیر رضی اللہ عنہ  کے پاس پہنچااس وقت وہ اس عارضی دنیاسے رخصت ہورہے تھے،جب آپ کامبارک نامہ انہیں  دیا گیا توخوشی اسے پڑھتے ہوئے خوش ہوتے جاتے تھے یہاں  تک کہ انتقال فرماگئے اور نامہ مبارک ان کے ہاتھ میں  تھا۔

 وَالْكِتَابُ عَلَى صَدْرِهِ

ایک روایت ہے  وہ خط سینے پرپڑا ہواتھا[50]

فَدَفَنَهُ أَبُو جَنْدَلٍ مَكَانَهُ، وَجَعَلَ عِنْدَ قَبْرِهِ مَسْجِدًا  وَقَدِمَ أَبُو جَنْدَلٍ عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ

ابوجندل بن سہیل  رضی اللہ عنہ  نے انہیں  اسی جگہ دفن کردیا اور اس کے قریب ایک مسجد بنا دی،اورحکم کے مطابق ابوجندل رضی اللہ عنہ  تمام ساتھیوں  کولے کرآپ کی خدمت اقدس میں  حاضر ہو گئے ۔ [51]

مومن عورتوں  کی ہجرت :

ہجرت کے بعدایک معاشرتی مسئلہ بڑی پیچیدگی پیداکررہاتھاوہ یہ کہ مکہ مکرمہ میں  بہت سی مسلمان عورتیں  ایسی تھیں  جن کے شوہرکافرتھے ،اسی طرح مدینہ منورہ میں  بہت سے مسلمان مردایسے تھے جن کی بیویاں  کافرتھیں  اوروہ مکہ مکرمہ ہی میں  رہ گئی تھیں ،ان کے بارے میں  یہ سوال پیداہوتاتھاکہ ان کے درمیان رشتہ ازواج باقی ہے یانہیں ،صلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق جومسلمان مردمکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ منورہ آجاتاتوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس لوٹادیتے،

 هَاجَرَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ فَخَرَجَ أَخَوَاهَا الْوَلِیدُ وَعُمَارَةُ ابْنَا عُقْبَةَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ حَتَّى قَدِمَا الْمَدِینَةَ فَكَلَّمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَرُدَّهَا إِلَیْهِمْ، كَانَ الشَّرْطُ فِی الرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ

مگرمعاہدہ حدیبیہ کے بعدسب سے پہلے ام کلثوم  رضی اللہ عنہا بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئیں ،قریش سمجھتے تھے کہ معاہدہ میں  واپسی کی شرط مردوزن دونوں  پر لاگو ہو گی اس لئے ازروئے معاہدہ ان کے دوبھائی ولیدبن عقبہ اورعمارہ بن عقبہ انہیں  واپس لینے کے لئے مدینہ منورہ پہنچ گئے اوراپنی بہن کی واپسی کامطالبہ کیالیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کایہ مطالبہ اس بناپرمسترکردیاکہ  اس معاہدہ میں  واپسی کی شرط مردوں  کے ساتھ مخصوص ہے عورتوں  کے ساتھ نہیں ۔[52]

اورانہیں  معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تووہ دم بخودرہ گئے اورانہیں  ناچاراس فیصلے کو مانناپڑا ،مگراللہ تبارک وتعالیٰ نے اس اہم معاشرتی مسئلے کاہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ فرمادیاکہ مسلمان عورت کے لئے کافرشوہرحلال نہیں  اورمسلمان مردکے لئے بھی یہ جائزنہیں  کہ وہ مشرک بیوی کواپنے نکاح میں  رکھے ،اورمسلمان عورتوں  کی واپسی سے منع فرمایااور یہ آیت نازل فرمائی۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ۝۰ۭ اَللهُ اَعْلَمُ بِـاِیْمَانِهِنَّ۝۰ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ۝۰ۭ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّ۝۰ۭ وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا۝۰ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ۝۰ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللهِ۝۰ۭ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۝۱۰ وَاِنْ فَاتَكُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۱۱  [53]

ترجمہ:اے ایمان والو!جب مومن عورتیں  ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں  تو(ان کے مومن ہونے کی)جانچ پڑتال کرلو،اوران کی ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہترجانتاہے پھرجب تمہیں  معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں  توانہیں  کفارکی طرف واپس نہ کرو،نہ وہ کفارکے لئے حلال ہیں  اورنہ کفاران کے لئے حلال،ان کے کافرشوہروں  نے جومہران کودیئے تھے وہ انہیں  پھیردواوران سے نکاح کرلینے میں  تم پرکوئی گناہ نہیں  جبکہ تم ان کے مہران کواداکردواورتم خودبھی کافر عورتوں  کواپنے نکاح میں  نہ روکے رہوجومہرتم نے اپنی کافربیویوں  کودیئے تھے وہ تم واپس مانگ لواورجومہرکافروں  نے اپنی مسلمان بیویوں  کودیئے تھے انہیں  وہ واپس مانگ لیں ،یہ اللہ کاحکم ہے وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اورعلیم وحکیم ہےاوراگرتمہاری کافربیویوں  کے مہروں  میں  سے کچھ تمہیں  کفارسے واپس نہ ملے اورپھرتمہاری نوبت آئے توجن لوگوں  کی بیویاں  ادھررہ گئی ہیں  ان کواتنی رقم اداکردوجوان کے دیے ہوئے مہروں  کے برابرہو،اوراس اللہ سے ڈرتے رہوجس پرتم ایمان لائے ہو۔

کیونکہ اسلام کوصرف مومن عورتوں  کی حفاظت سے دلچسپی تھی ،ہرطرح کی بھاگنے والی عورتوں  کے لئے مدینہ طیبہ کوپناہ گاہ بنانامقصودنہ تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاکہ جو عورتیں  ہجرت کرکے آجائیں  اورخودکومومنہ ظاہرکریں  توان کے ایمان کے بارے میں  تسلی کرلواورجب اطمینان ہوجائے کہ وہ اللہ کی توحیداوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں  توانہیں  کفارکوواپس نہ کرو،چنانچہ اس کے بعد جوعورتیں  ہجرت کرکے آتیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے حلفیہ بیان لیتے کہ وہ شوہرکی نافرمانی کرکے نہیں  آئی ہے بلکہ اللہ اوراس کے رسول کی طرف  ہجرت کی ہے، جو عورت ان سوالات کاتسلی بخش جواب دے دیتیں  توانہیں  کفارکی طرف واپس نہ فرماتے۔کیونکہ ابھی تک کافرہ بیوی کوالگ کر دینے کاحکم نازل نہیں  ہواتھااس لئے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی زوجیت میں  ایسی عورتیں  موجود تھیں  جوشرک پرقائم تھیں  مگرجب یہ حکم نازل ہواکہ کافرہ عورت کواپنے نکاح میں  نہ رکھوتو مسلمانوں  نے جواللہ کے حکم کے سامنے کسی تعلق اورمحبت کوزرہ برابراہمیت نہ دیتے تھے اپنی کافرہ بیویوں  کوطلاق دے دی،

كَانَ مِمَّنْ طَلَّقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، طَلَّقَ امْرَأَتَهُ قُرَیْبَةَ بِنْتَ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ مُعَاوِیَةُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ، وَهُمَا عَلَى شِرْكِهِمَا بِمَكَّةَ، وَأُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ جَرْوَلَ أُمُّ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ الْخُزَاعِیَّةُ، فَتَزَوَّجَهَا أَبُو جَهْمِ بْنِ حُذَیْفَةَ بْنِ غَانِمٍ، رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، وَهُمَا عَلَى شِرْكِهِمَا

اس وقت سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کی زوجیت میں  قریبہ بنت ابوامیہ بن مغیرہ اورام کلثوم بنت جرول دو بیویاں  تھیں  جومکہ میں اپنے شرک پرقائم تھیں  ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے انہیں  طلاق دے دی ،ان میں  سے قریبہ نے کاتب وحی امیرمعاویہ (جواس وقت تک ایمان نہیں  لائے تھے) اورام کلثوم نے صفوان بن امیہ(ابوجہم) سے نکاح کرلیایہ دونوں  بھی مشرک تھے۔[54]

قبیلہ جہینہ سے عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ الجہنی کاقبول اسلام

عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ بنی غیان کی ایک شاخ بنو جہینہ سے تعلق رکھتے تھے ،بنی غیان کے مسکن وادی غولی میں  تھے،عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ بڑی عزت وحشمت کی زندگی گزاررہے تھے،قریش مکہ سے صلح حدیبیہ کے نتیجے میں  جب دس سال کے لئے امن نصیب ہواتو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قبائل کودعوت اسلام پیش فرمائی، عمروبن مرہ نے جو اپنے قبیلہ کے معبدکے متولی تھے بلاتامل اس دعوت پرلبیک کہا،انہوں  نے اپنے معبد کو آگ لگادی ،اس میں  نصب بت کوتوڑپھوڑ کربرابر کر دیا، اس کے بعد مدینہ منورہ پہنچے اوراسلام قبول کرلیا،اس کے بعدوہ کچھ عرصہ تک مدینہ منورہ میں  ہی مقیم رہے اورمعاذبن جبل  رضی اللہ عنہ  سے قرآن مجیدکی تعلیم حاصل کرتے رہے،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پراپنے قبیلہ کودعوت اسلام دینے کے لئے واپس چلے آئے،انہوں  نے اتنی تندہی سے تبلیغ کہ کہ بہت ہی تھوڑے عرصہ میں  ایک شخص کے سواتمام قبیلہ مسلمان ہوگیا، علامہ شبلی نعمانی  رحمہ اللہ  نے لکھاہے کہ بنوجہینہ ایک ہزار کی جمیعت لے کرمدینہ آئے اورمسلمان ہوگئے (سیرة النبی)فتح مکہ سے پہلے اس قبیلہ کاایک دورکنی وفدسرورعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااوراپنے اسلام کااظہارکیا

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  لعَبْدِ الْعُزَّى: أَنْتَ عَبْدُ اللهِ. قَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: بَنُو غَیَّانَ ، قَالَ:أَنْتُمْ بَنُو رَشْدَانَ.وَكَانَ اسْمُ وَادِیهِمْ غَوًى فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  رُشْدًا،وَأَعْطَى اللِّوَاءَ یَوْمَ الْفَتْحِ عَبْدَ اللهِ بْنَ بَدْرِ. وَخَطَّ لَهُمْ مَسْجِدَهُمْ. وَهُوَ أَوَّلُ مَسْجِدٍ خُطَّ بِالْمَدِینَةِ

وفد کے ایک رکن کانام عبدالعزیٰ بن بدرتھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے جاہلانہ ناموں  کوسخت ناپسندکرتے تھے اورانہیں  بدل دیتے تھے ،اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالعزیٰ سے مخاطب ہوکرکہاتم آج سے عبداللہ  رضی اللہ عنہ بن بدرہو ، فرمایا : تم کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟تو انہوں  نے کہا کہ ہم بنو غیان سے تعلق رکھتے ہیں ، غیان کے معنی سرکشی کے ہوتے ہیں  اس لئے اس کانام بھی بدل کربنو رشدان (ہدایت یافتہ لوگ)رکھ دیا، اسی طرح ان کی وادی غوی(گمراہی)کانام بدل کروادی رشدرکھ دیا، فتح مکہ کے وقت عبد اللہ بن بدر کو جھنڈا عطا فرمایا ،فتح مکہ کے بعدیہ لوگ مدینہ منورہ ہی میں  آبادہوگئے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  کومسجدبنانے کی غرض سے بطورخاص زمین مرحمت فرمائی مسجدنبوی کے بعدمدینہ میں یہ پہلی مسجدتھی۔[55]

قبیلہ بلہجیم کے ابوجری جابر  رضی اللہ عنہ بن سلیم کاقبول اسلام

ان کے قبول اسلام کاصحیح وقت کاعلم نہیں  مگرجب قریش مکہ سے صلح حدیبیہ ہوگئی تواردگردکے قبائل سے کثرت سے لوگ دائرہ اسلام میں  داخل ہونے لگے غالباًانہی دنوں  یہ مسلمان ہوئے۔

عَنْ أَبِی جُرَیٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَیْمٍ، قَالَ: رَأَیْتُ رَجُلًا یَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْیِهِ، لَا یَقُولُ شَیْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ،قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَلَیْكَ السَّلَامُ یَا رَسُولَ اللهِ،مَرَّتَیْنِ، قَالَ: لَا تَقُلْ: عَلَیْكَ السَّلَامُ، فَإِنَّ عَلَیْكَ السَّلَامُ تَحِیَّةُ الْمَیِّتِ، قُلْ: السَّلَامُ عَلَیْكَ،قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ؟قَالَ:أَنَا رَسُولُ اللهِ الَّذِی إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ، أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ  أَوْ فَلَاةٍ – فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ، رَدَّهَا عَلَیْكَ،

ابوجری جابر  رضی اللہ عنہ  بن سلیم اپنے ایمان لانے کاواقعہ بیان کرتے ہیں  کہ میں  مدینہ پہنچا میں  نے ایک شخص کودیکھاکہ لوگ اس کی بات خوب سنتے اورمانتے تھے وہ جوبھی کہتااسے قبول کرتے تھے،قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟میں  نے لوگوں  سے پوچھاکہ یہ شخص کون ہیں ؟انہوں  نے بتلایاکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں ،میں  آپ کے پاس گیااورکہاآپ پر سلامتی ہواے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے دومرتبہ یہ الفاظ دہرائے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیک اسلام مت کہویہ مردوں  کاسلام ہے السلام علیکم کہو،میں  نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  میں  اللہ کارسول ہوں  کہ جب تمہیں  کوئی کسی تکلیف اوردکھ پہنچے اورتم اس کوپکاروتووہ تمہارے دکھ اورتکلیف کو دورکردے اوراگرتم قحط سالی میں  مبتلاہوجاؤاورتم اس سے دعاکروتووہ تمہارے لئے زمین سے سبزہ پیداکردے اورآبادی سے دورکسی جنگل بیابان میں  تمہاری سواری کاجانورگم ہوجائے اورتم اس سے دعاکروتووہ تمہاراگمشدہ جانورتمہارے پاس پہنچادے،

قَالَ: قُلْتُ: اعْهَدْ إِلَیَّ،قَالَ:لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا،قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا بَعِیرًا، وَلَا شَاةً،قَالَ:وَلَا تَحْقِرَنَّ شَیْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ،وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَیْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَى الْكَعْبَیْنِ، وَإِیَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ، فَإِنَّهَا مِنَ المَخِیلَةِ، وَإِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمَخِیلَةَ ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَیَّرَكَ بِمَا یَعْلَمُ فِیكَ، فَلَا تُعَیِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِیهِ، فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَیْهِ

یہ سن کرمیں  نے عرض کیامجھے نصیحت فرمائیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم کبھی کسی کوگالی نہ دینا،کہتے ہیں  کہ اس کے بعدمیں  نے کسی کوگالی نہیں  دی کسی آزادکونہ غلام کو،اونٹ کونہ بکری کو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکسی نیکی کوحقیرنہ سمجھواوراپنے بھائی سے بات کروتوکھلے چہرے سے بات کیاکروبلاشبہ یہ نیکی ہے،اوراپناتہبندآدھی پنڈلیوں  تک اونچا رکھا کرواوراگرنہ کرسکوتوٹخنوں  تک کرسکتے ہو(ٹخنوں  سے نیچے)چادرلٹکانے سے بچنابے شک یہ تکبرہے اوراللہ تعالیٰ تکبرکوپسندنہیں  کرتا،اوراگرکوئی شخص تمہیں گالی دے اورتم کو تمہارے اس عیب پرشرم دلائے جواس کومعلوم ہے توتم اس کے اس عیب پرجوتم کومعلوم ہے اس کوشرم نہ دلاؤ،اس طرح اس کی زبان درازی کاپوراوبال اسی گردن پر ہوگا۔[56]

عن سُلَیْمٍ، قَالَ:وَفَدْتُ إِلَى النَّبِیِّ مَعَ رَهْطٍ مِنْ قَوْمِی، وَعَلَیَّ إِزَارٌ قِطْرِیٌّ، حَوَاشِیهِ عَلَى قَدَمَیَّ، وَبُرْدَةٌ مُرْتَدٌّ بِهَا،قَالَ: أَتَیْتُ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: عَلِّمْنِی خَیْرًا یَنْفَعُنِی اللهُ بِهِ،فَقَالَ: لا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، وَلَوْ أَنْ تَصُبَّ مِنْ دَلْوِكَ فِی إِنَاءِ الْمُسْتَقِی،وَأَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِبِشْرٍ حَسَنٍ، فَإِذَا أَدْبَرَ فَلا تَغْتَابَنَّهُ

ایک روایت میں  ابوجری جابر  رضی اللہ عنہ بن سلیم نے مدینہ طیبہ میں  اپنی آمدکاحال اس طرح بیان کیاہے میں  اپنے قبیلے کی ایک جماعت کے ساتھ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورمیں  ایک قطری تہبندباندھے ہوئے تھاجس کے کنارے میرے قدموں  تک تھے اورمیں  چادراوڑھے ہوئے تھا،میں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہواورعرض کیا آپ مجھے کچھ سکھائیے جس سے اللہ مجھے نفع دے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم ذراسی بھلائی کوحقیرنہ جانواگرچہ تم اپنے برتن سے پیاسے کے برتن میں  پانی ڈال دواوریہ کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملواورجب وہ چلاجائے تواس کی غیبت نہ کرو۔[57]

ملوک وسلاطین کودعوت اسلام( ذی الحجہ ۶ہجری)

جب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  قریش مکہ سے دس سالہ معاہدہ امن کرکے واپس مدینہ منورہ تشریف لائے اورکچھ اطمینان نصیب ہواتوآپ نے اس دوراطمینان کوجزیرة العرب سے باہران دونوں  سلطنتوں  کے فرماں  رواؤں  اوران کے ماتحت یاذی اثرعرب علاقوں  میں  رہنے والے روساء قبائل کو خطوط لکھنے میں  استعمال فرمایا،ان خطوط میں  ان سب کواسلام کی دعوت دی گئی تھی،دوسرے لفظوں  میں  یہ دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنے قدیمی نظریہ حیات اورطریق عمل کوترک کردیں  جس کی اساس اوربنیادپران کی دینوی عظمت کے عظیم الشان محل قائم ہیں ،مطلق العنان فرماں  رواؤں  سے کہاگیاتھاکہ اپنے اس حق کوترک کردیں  کہ ان کے منہ سے نکلاہواہرلفظ قانون ہے اوروہ خودہرقانون سے ماوریٰ ہیں اس کے بجائے ایک ایسے قانون وآئین کے تحت آجائیں  جس میں  کوئی لچک نہیں  اورجوپیغمبرہویاشہنشاہ ،کسی کے ساتھ کوئی رعایت روانہیں  رکھتا،انہیں  کہاگیاتھاکہ تم آج تک دنیامیں  یہ غلط نظریہ پھیلاتے رہے ہوکہ تمہاری رعایاتمہاری محکوم اورغلام ہےاصل یہ ہے کہ تم اس کے خادم اورمحافظ ہو،تم نے آج تک غلط سمجھاکہ جس زمین کوتم بزور شمشیرفتح کرلوگے وہ تمہاری ملکیت بن جائے گی اورتم اسے سیاسی رشوت کے طورپراپنے مصاحبین اورمقربین میں  اس طرح تقسیم کرسکوگے کہ یہ مصاحبین اورمقربین ایک طرف مقامی آبادی کوطاقت اورزورکے بل پردبائے رکھیں  کہ تمہارے جبرواستبداداورلاقانونیت کے خلاف کوئی آوازنہ آٹھ سکے اوردوسری طرف ہمسایوں  کی ملکیت پر پھیل جانے اوراپنی سلطنت کووسعت دینے کے امکانات روشن رکھیں ،سچائی یہ ہے کہ زمین اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے اورتلواراس وقت اٹھ سکتی ہے جب حقوق اللہ کااورحقوق العبادکاتحفظ اوراس کی بقاکے لئے تلوارکے علاوہ کوئی دوسراطریقہ باقی نہ رہے، چنانچہ محسوس فرمایاکہ اب اس کاوقت آگیاہے،چنانچہ آپ نے اردگردکے بادشاہوں  کودعوت اسلام دینے کافیصلہ فرمایااورصحابہ  رضی اللہ عنہم  کوجمع کرکے خطبہ ارشاد فرمایا۔

فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَنِی رَحْمَةً وَكَافَّةً، فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَیَّ كَمَا اخْتَلَفَ الْحَوَارِیُّونَ عَلَى عِیسَى بْنِ مَرْیَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَكَیْفَ اخْتَلَفَ الْحَوَارِیُّونَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: دَعَاهُمْ إلَى الَّذِی دَعَوْتُكُمْ إلَیْهِ، فَأَمَّا مِنْ بَعَثَهُ مَبْعَثًا قَرِیبًا فَرَضِیَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام عالم کے لئے رحمت بناکربھیجاگیاہوں ،تمام دنیامیں اسلام کاپیغام پہنچانے کاحق اداکردو،اللہ تعالیٰ تم پررحم فرمائے گاعیسٰی  علیہ السلام  کےحواریوں  کی طرح اختلاف نہ کرنا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !حواریوں  نے عیسیٰ علیہ السلام پرکیااختلاف کیاتھا؟فرمایاعیسی ٰ  علیہ السلام  نے ان کواسی بات کی طرف بلایاتھاجس کی طرف میں  تم کوبلاتاہویعنی بادشاہوں  کی طرف ایلچی بناکربھیجنے کے لئے پس جن لوگوں  کوعیسی علیہ السلام نے قریب کے ملکوں  میں  بھیجاتھا توخوشی خوشی چلے گئےاورجن کودوردرازکے ملکوں  میں  جانے کاحکم دیاتھاتوزمین پربوجھل ہوکربیٹھ گئے اوروہاں  جاناان کوناگوارگزرا۔[58]

وَكَانَ مَنْ بَعَثَ عِیسَى بن مَرْیَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ مِنْ الْحَوَارِیِّینَ وَالْأَتْبَاعِ، الَّذِینَ كَانُوا بَعْدَهُمْ فِی الْأَرْضِ: بُطْرُسُ الْحَوَارِیُّ، وَمَعَهُ بُولُسُ، وَكَانَ بُولُسُ مِنْ الْأَتْبَاعِ، وَلَمْ یَكُنْ مِنْ الْحَوَارِیِّینَ إلَى رُومِیَّةَ  وَأَنْدَرَائِسُ، وَمَنْتَا إلَى الْأَرْضِ الَّتِی یَأْكُلُ أَهْلُهَا النَّاسَ،وَتُومَاسُ إلَى أَرْضِ بَابِلَ ، مِنْ أَرْضِ الْمَشْرِقِ، وَفِیلِبسُ إلَى أَرْضِ قَرْطَاجَنَّةَ  وَهِیَ إفْرِیقِیَّةُ، وَیُحَنَّسُ، إلَى أَفْسُوسَ، قَرْیَةُ الْفِتْیَةِ، أَصْحَابِ الْكَهْفِ،وَیَعْقُوبُسُ إلَى أَوْرْاشَلِمَ، وَهِیَ إیلِیَاءُ، قَرْیَةُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَابْنُ ثَلْمَاءَ إلَى الْأَعْرَابِیَّةِ، وَهِیَ أَرْضُ الْحِجَازِ وَسِیمُنْ إِلَى أَرْضِ الْبَرْبَرِ وَیَهُوذَا، وَلَمْ یَكُنْ مِنْ الْحَوَارِیِّینَ، جُعِلَ مَكَانَ یُودِسَ

روایت ہے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں  کومختلف ممالک میں  تبلیغ کے لئے بھیجاتھااوران حواریوں  کے ساتھ ان کے متبعین بھی تھے چنانچہ بطرس حواری کوجس کے ساتھ بولس بھی تھابولس متبعین میں  سے تھا حواری نہیں  تھاملک رومیہ اوراندرائس کی طرف روانہ کیا،اورمنتاحواری کواس ملک میں  بھیجاجہاں  کے لوگ آدمیوں  کوکھاجاتے تھے ، اورتوماس کوملک بابل کی طرف بھیجااورفیلبس کوافریقہ کے شہرقرطاجنہ بھیجا اوریحنس کوافسوس کی طرف روانہ کیاجواصحاب کہف کاشہرہے، اوریعقوبس کواورشلم کی طرف روانہ کیاجوملک ایلیاء کاایک شہربیت المقدس کے پاس ہے،اورابن ثلماء کو ملک حجازمیں  بھیجااورسمین کوسرزمین بربرکی طرف بھیجا اور یہودا کو جو حواریوں  میں  سے نہ تھایودس کی جگہ مقرر کردیاگیاتھا۔[59]

مگرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  موسیٰ   علیہ السلام  کے پیروکاروں  کی طرح بھی نہ تھے جنہوں  نے کہا تھا

قَالُوا یَا مُوسَى إِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ [60]

ترجمہ:اے موسیٰ! وہاں  تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں ہم وہاں  ہرگز نہ جائیں  گے جب تک وہ وہاں  سے نکل نہ جائیں  ہاں  اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں ۔

بلکہ ان کی آوازیں  آپ کی آوازمبارک سے پست تھیں ،ان کی نگاہیں  احترام میں  جھکی رہتیں  تھیں ، ان کی وفاشعاری اوراطاعت شک وشبہ سے پاک تھی، انہوں  نے آپ کے اس ارشادپرلبیک کہا اوردل وجان سے تعمیل ارشادکے لئے تیارہوگئے ،چنانچہ آپ نے بادشاہوں  تک خطوط پہنچانے کے لئے ان لوگوں  کومنتخب فرمایا جو تجارت کی غرض سے ان ملکوں  میں  جاچکے تھے اوران کے رسم ورواج اورعادات سے بخوبی واقف تھے۔

انگشتری مبارک :

عَنْ أَنَسٍ:فَقِیلَ: یَا رَسُولَ الله إن الملوك لَا یَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلا مَخْتُومًافَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ وَنَقَشَ عَلَیْهِ ثَلَاثَةَ أَسْطُرٍ: مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُولُ سَطْرٌ، وَاللهِ سَطْرٌ

انس  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےجب آپ نے خطوط بھیجنے کا فیصلہ کرلیاتو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے ایک مناسب مشورہ خدمت میں  عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! ملوک وسلاطین کسی خط کوقابل وثوق اورقابل اعتمادنہیں  سمجھتے،اورنہ اس خط کوپڑھتے ہیں  جب تک اس پربھیجنے والے کی مہرنہ لگی ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک چاندی کی مہربنوائی جس پرتین سطریں  تھیں  ایک سطرمیں محمددوسری سطرمیں رسول اورتیسری سطر میں  اللہ کندہ کیا ہوا تھا۔[61]

قَالَ فِیهَا مُحَمَّدٌ سَطْرٌ وَالسَّطْرُ الثَّانِی رَسُولٌ والسطر الثَّالِث الله

سب سے نچلی سطرمیں  محمددرمیان والی سطرمیں  رسول اورسب سے اوپروالی سطرمیں  اللہ نقش تھا۔[62]

تمام حروف الٹے کندہ تھے تاکہ جب مہرلگائی جائے توحروف سیدھے آئیں ،

ایک روایت ہے کہ یہ انگشتری سعیدبن العاص  رضی اللہ عنہ  حبشہ سے کندہ کراکرلائے تھے۔

ثُمَّ لَبِسَ الْخَاتَمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ لَبِسَهُ بَعْدَ أَبِی بَكْرٍ عُمَرُ، ثُمَّ لَبِسَهُ بَعْدَهُ عُثْمَانُ، حَتَّى وَقَعَ فِی بِئْرِ أَرِیسٍ

یہ انگوٹھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعدیہ انگوٹھی خلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ، خلیفہ دوم سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  بن خطاب اورپرخلیفہ سوم سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ میں  رہی،جس سال انہیں  بلوائیوں  نے شہیدکیااسی سال یہ انگوٹھی اریس نامی کنوئیں  میں  گرگئی۔[63]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ خَاتَمًا فَكَانَ فِی یَدِهِ، ثُمَّ كَانَ فِی یَدِ أَبِی بَكْرٍ مِنْ بَعْدِهِ، ثُمَّ كَانَ فِی یَدِ عُمَرَ، ثُمَّ كَانَ فِی یَدِ عُثْمَانَ، حَتَّى وَقَعَ فِی بِئْرِ أَرِیسَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنْ خِلَافَتِهِ سِتُّ سِنِینَ

یہ انگوٹھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ میں  رہی پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں  رہی پھرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں  رہی پھرسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں  رہی حتی کہ انہی کے دورخلافت میں  اریس نامی کنواں  میں  گرگئی۔[64]

فَكَانَ فِی یَدِهِ حَتَّى قُبض، وَفِی یَدِ أَبِی بَكْرٍ حَتَّى قُبض، وَفِی یَدِ عُمَرَ حَتَّى قُبض، وَفِی یَدِ عُثْمَانَ، فَبَیْنَمَا هُوَ عِنْدَ بِئْرٍ إِذْ سَقَطَ فِی الْبِئْرِ فَأَمَرَ بِهَا فَنُزِحَتْ، فَلَمْ یَقْدِرْعَلَیْهِ

جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وفات پائی تویہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں  تھی، اورجب سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تویہ انگوٹھی ان کے ہاتھ میں  تھی اور پھرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تووہ ان کے ہاتھ میں  تھی پھروہ سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں  تھی ،اسی دوران میں  آپ ایک کنوئیں  پربیٹھے ہوئے تھے کہ وہ کنوئیں  میں  گرگئی،آپ کےحکم سے کنوئیں  کاپانی نکالاگیامگر نتیجہ لاحاصل رہا۔[65]

آخرانہوں  نے اس کنوئیں  ہی کوپٹوادیا،سچ ہے

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖ [66]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے۔

 اندازتحریر:

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اکثرتحریروں  کوان کلمات سے شروع فرمایاکرتے تھے

مِنْ مُحَمَّد رَسُولَ اللهِ الی فلاں

رسول اللہ کی طرف سے فلاں  شخص کے نام۔

بعض مرتبہ أَمّا بَعْدُ سے مضمون کی ابتدافرماتے۔

اکثرخطوط کی ابتدامیں  مکتوب الیہ کانام تحریرکراتے تھے اورکبھی کبھی اس کی شہرت پراکتفافرماتے تھے ،اگرمکتوب الیہ بادشاہ ہوتا تواس کے نام لکھوانے کے بعدعَظِیمِ القَوْمَ الفلانیین فلاں  قوم کی عظیم شخصیت تحریرکراتے۔کبھی صَاحِبُ مملکت كَذَافلاں  حکومت کے والی کے جملے تحریر کراتے تھے ،اورتحریرکے آغازمیں  سلام لکھواتے،چنانچہ جب کسی مسلمان کومخاطب کرتے تولکھواتے سَّلاَمُ عَلَیْكَ تم پرسلامتی ہواورکبھی تحریرفرماتے السَّلاَمُ عَلَى مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ اس پرسلام ہوجواللہ اوراس کے رسول پرایمان لے آیا،کسی کافرکومخاطب فرماتے تولکھواتے سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى اس پرسلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے ، اورکبھی آغازتحریرسے سلام حذف فرمادیتے ۔ابتداتحریرمیں  سلام کے بعداللہ تعالیٰ کی حمدوثنا لکھواتےسَلَامٌ عَلَیْكُمْ،فَإِنّی أَحْمَدُ اللهَ إلَیْكُمْ، الله لَا إلَهَ إلّا هُوَ  سلام علیکم !میں  تم سے اس اللہ کی تعریف بیان کرتاہوں  جس کے سواکائنات میں  کوئی دوسرامعبودنہیں  ہے،کبھی اسے حذف فرمادیتے،کبھی حمدوثناکے بعدکلمہ شہادت تحریرفرماتے اور کبھی نہیں ۔ حمدوثناکے بعد اصل مضمون بیان کرتے وقت أَمّا بَعْدُ تحریرفرماتے اورکبھی اس کے بغیرہی مضمون شروع فرما دیتے۔ تحریرکوکبھی سلام پرختم فرماتے،چنانچہ مسلم کے نام خط میں  یوں  تحریرفرماتے والسَّلاَمُ عَلَیْكَ وَرَحْمَةَ اللهِ وَبَرَكَاتِهِ تم پراللہ کاسلام اوراس کی رحمتیں  اوربرکتیں  نازل ہوں  اورکبھی صرف سلام پر (بغیر زائد دعا کے ) اکتفا فرماتے ، اور کافرسے خطاب میں سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى اس پرسلام ہوجوہدایت کی پیروی کرے لکھواتے اورکبھی آخرمیں  سلام نہ لکھواتے تھے۔

شاہ حبش نجاشی کودعوت اسلام

وَبَعَثَ بِالْكِتَابِ مَعَ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّةَ الضَّمْرِیِّ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ ہجری کے آخیرمیں عمروبن امیہ ضمری  رضی اللہ عنہ  کوخط لکھ کرشاہ حبش اصحمہ بن ابجزکی طرف روانہ کیاجس میں  یہ تحریرفرمایا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى النَّجَاشِیِّ مَلِكِ الْحَبَشَةِ

أَسْلِمْ أَنْتَ فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْكَ اللهَ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَالْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ رُوحُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مریم الْبَتُولِ الطَّیِّبَةِ الْحَصِینَةِ، فَحَمَلَتْ بِعِیسَى فَخَلَقَهُ اللهُ مِنْ رُوحِهِ وَنَفَخَهُ، كَمَا خَلَقَ آدَمَ بِیَدِهِ، وَإِنِّی أَدْعُوكَ إِلَى اللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَالْمُوَالَاةِ عَلَى طَاعَتِهِ، وَأَنْ تَتْبَعَنِی وَتُؤْمِنَ بِالَّذِی جَاءَنِی، فَإِنِّی رَسُولُ اللهِ وَإِنِّی أَدْعُوكَ وَجُنُودَكَ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ بَلَّغْتُ وَنَصَحْتُ فَاقْبَلُوا نَصِیحَتِی، وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ کے رسول محمدکی جانب سے شاہ حبشہ نجاشی کی طرف

تم پرسلام ہو

امابعد!میں  اللہ کی حمدوثناکرتاہوں  جس کے سواکوئی معبود نہیں  جوحقیقی بادشاہ ہے اورتمام عیوب سے پاک ہے ،جوامن دینے والااورسب کامحافظ اورنگہبان ہے، اورمیں  گواہی دیتاہوں  کہ عیسیٰ   علیہ السلام  ابن مریم اللہ کی خاص روح اوراس کاکلمہ ہیں ،جس کواللہ نے پاکیزہ اورپاک دامن مریم بتول پرالقاکیاتووہ اللہ کی روح اوراس کے نفخ سے عیسیٰ   علیہ السلام سے حاملہ ہوئیں ،جیسے اللہ نے آدم کواپنے ہاتھ سے پیداکیا،اورمیں  تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتاہوں  جواکیلاہے اوراس کاکوئی شریک نہیں اوراس کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف اوراس بات کی طرف (دعوت دیتاہوں )کہ تم میری پیروی کرواورجوکچھ اللہ کی طرف سے میرے پاس آیاہے(یعنی قرآن کریم) اس پرایمان لاؤ،بیشک میں  اللہ کارسول ہوں  ،میں  تمہیں  اورتمہارے لشکروں کواللہ کی طرف دعوت دیتاہوں ،میں   نے تمہیں  پیغام پہنچادیااورتمہاری خیرخواہی کردی ،پس میری خیرخواہی کو قبول کرواوراس شخص پرسلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔[67]

آخری فقرہ میں  معمولی سافرق ہے۔

عمروبن امیہ ضمری  رضی اللہ عنہ تقریباًایک ہزارکلومیڑکافاصلہ طے کرکے حبشہ کا مقدس شہراوردارالحکومت اکسوم پہنچے اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کاخط شاہ حبش نجاشی اصحمہ بن ابجر کوپیش کیا

إِنَّ عمرا قَالَ لَهُ یَا أصحمة إِنَّ عَلَیَّ الْقَوْلَ وَعَلَیْكَ الِاسْتِمَاعَ، إِنَّكَ كَأَنَّكَ فِی الرِّقَّةِ عَلَیْنَا وَكَأَنَّا فِی الثِّقَةِ بِكَ مِنْكَ؛ لِأَنَّا لَمْ نَظُنَّ بِكَ خَیْرًا قَطُّ إِلَّا نِلْنَاهُ، وَلَمْ نَخَفْكَ عَلَى شَیْءٍ قَطُّ إِلَّا أَمِنَّاه، وَقَدْ أَخَذْنَا الْحُجَّةَ عَلَیْكَ مِنْ فِیكَ، الْإِنْجِیلُ بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ شَاهِدٌ لَا یُرَدُّ، وَقَاضٍ لَا یَجُورُ،وَفِی ذَلِكَ مَوْقِعُ الْحَزِّ وَإِصَابَةُ الْمَفْصِلِ، وَإِلَّا فَأَنْتَ فِی هَذَا النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ كَالْیَهُودِ فِی عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، وَقَدْ فَرَّقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رُسُلَهُ إِلَى النَّاسِ، فَرَجَاكَ لِمَا لَمْ یَرْجُهُمْ لَهُ، وَأَمَّنَكَ عَلَى مَا خَافَهُمْ عَلَیْهِ بِخَیْرِ سَالِفٍ وَأَجْرٍ یُنْتَظَرُ

اورکہااے اصحمہ !مجھے آپ سے کچھ کہناہے میں  امیدکرتاہوں  کہ آپ اس پرتوجہ فرمائیں  گے ،ہم مسلمانوں  کوآپ پرمکمل اعتماداورحسن ظن ہے کیونکہ جب کبھی ہم نے آپ سے کسی خیروبھلائی کی امیدکی وہ ہمیں  آپ سے حاصل ہوگئی ،آپ کے زیرسایہ مسلمانوں  کو کبھی خوف وہراس محسوس نہیں  ہوا،انجیل جس کی حجت ہوناآپ کی زبانی معلوم ہوا ہے وہ ہمارے اورآپ کے درمیان شاہدہے ،اس مقدس کتاب کی شہادت کوردنہیں  کیاجاسکتا،اورایساحاکم ہے جواپنے فیصلوں  میں  انصاف سے تجاوزنہیں  کرتا،اوراگرآپ نے اس دعوت حقہ کوقبول نہ کیاتوآپ اس نبی امی کے حق میں  ایسے ثابت ہوں  گے جیساکہ یہودعیسیٰ   علیہ السلام کے حق میں  ثابت ہوئے تھے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاصددوسرے بادشاہوں  کی طرف بھی روانہ فرمائے ہیں  لیکن دوسروں  کی نسبت ہمیں  آپ سے زیادہ امیدہے،اورتمہیں  اس سے امن دیاجس سے دوسروں  کوخوف تھایعنی ماضی کی بھلائی اورآئندہ کااجرعظیم ۔

نجاشی نے آپ کاخط مبارک لے کرپڑھااوراپنی آنکھوں  سے لگالیا،پھراپنے تخت سے نیچے اترکرزمین پربیٹھ گیااورحعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ہاتھ پراسلام قبول کرلیا

ثُمَّ كَتَبَ النَّجَاشِیُّ جَوَابَ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کواپنے اسلام قبول کرنے کی خبردینے کے لئے واپسی  جوابی خط لکھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

 إِلَى مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ مِنَ النَّجَاشِیِّ أصحمة

سَلَامٌ عَلَیْكَ یَا نَبِیَّ اللهِ مِنَ اللهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، اللهُ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ،

 أَمَّا بَعْدُ: فَقَدْ بَلَغَنِی كِتَابُكَ یَا رَسُولَ اللهِ فِیمَا ذَكَرْتَ مِنْ أَمْرِ عِیسَى، فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ عِیسَى لَا یَزِیدُ عَلَى مَا ذَكَرْتَ ثُفْرُوقًا إِنَّهُ كَمَا ذَكَرْتَ، وَقَدْ عَرَفْنَا مَا بُعِثْتَ بِهِ إِلَیْنَا، وَقَدْ قَرَّبْنَا ابْنَ عَمِّكَ وَأَصْحَابَهُ فَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ صَادِقًا مُصَدَّقًا، وَقَدْ بَایَعْتُكَ وَبَایَعْتُ ابْنَ عَمِّكَ، وَأَسْلَمْتُ عَلَى یَدَیْهِ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ،وَقَدْ بعثت إلیك بابنی وَإِنْ شِئْتَ أَنْ آتِیَكَ فَعَلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنِّی أَشْهَدُ أَنَّ مَا تَقُولُ حَقٌّ، وَالسَّلامُ عَلَیْكَ ورَحْمَةَ اللهِ وَبَرَكَاتِهِ

   بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدرسول اللہ کی خدمت میں  نجاشی اصحمہ کی جانب سے

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پرسلام اوراللہ کی رحمتیں  اور برکات ہوں  اس اللہ کی جس کے سواکوئی معبودنہیں اورجس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے

امابعد!اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے آپ کانامہ موصول ہوا آپ نے عیسیٰ  علیہ السلام  کی بابت جو کچھ فرمایاہے آسمان وزمین کے پروردگار کی قسم !عیسیٰ  علیہ السلام  اس سے زرہ برابر بڑھ کرنہ تھےبلاشبہ انکی شان وہی ہے جیسے آپ نے ذکرفرمائی ہے ،آپ نے جودعوت بھیجی ہے اسے ہم نے اسے پہچان لیااورآپ کے چچازادبھائی اوران کے رفقاء آئے ہم نے ان  کی مہمان نوازی کی اورمیں  گواہی دیتاہوں  کہ آپ اللہ کے رسول ہیں  ،میں  نے آپ کی بیعت کی اورآپ کے چچازادبھائی کے ہاتھ پراللہ رب العالمین کے لئے اسلام قبول کیامیں  آپ کی خدمت میں  اپنے بیٹے کوبھیج رہاہوں  اورآپ حکم دیں  تومیں  خودبھی حاضرہوسکتاہوں ،میں  گواہی دیتاہوں  کہ آپ جوکچھ فرماتے ہیں  وہ سچ ہے،والسلام [68]

رملہ رضی اللہ عنہا  بنت ابوسفیان بن امیہ ان خواتین میں  ہیں  جنہوں  نے شروع شروع میں  ہی اسلام قبول کرلیاتھا،جب قریش کوان کے اسلام قبول کرنے کاعلم ہواتودوسرے مسلمانوں  کی طرح انہیں  بھی ظلم وستم کانشانہ بنناپڑاجس کے باعث یہ اپنے خاوندعبیداللہ بن جحش کے ساتھ ا پناوطن،عزیزواقارب چھوڑکر حبشہ ہجرت کرگئیں  تھیں مگروہاں  ان کاشوہردین اسلام سے مرتدہوکرعیسائی بن گیامگر رملہ رضی اللہ عنہا  بنت ابوسفیان اپنی بیٹی حبیبہ رضی اللہ عنہا  کے ساتھ اسلام کے دامن سے چمٹی رہیں ،

قال: ارسل رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّجَاشِیِّ لِیُزَوِّجَهُ أُمَّ حَبِیبَةَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ ، وَیَبْعَثَ بِهَا إِلَیْهِ مَعَ مَنْ عِنْدَهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَأَرْسَلَ النَّجَاشِیُّ إِلَى أُمِّ حَبِیبَةَ یخبرها بخطبه رسول الله إِیَّاهَا جَارِیَةً لَهُ یُقَالُ لَهَا أَبْرَهَةُ،فَأَعْطَتْهَا أَوْضَاحًا لَهَا وَفَتَخًا، سُرُورًا بِذَلِكَ، وَأَمَرَهَا أَنْ تُوَكِّلَ مَنْ یُزَوِّجَهَافَوَكَّلَتْ خَالِدَ بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، فَزَوَّجَهَا

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کوتحریرفرمایاتھاکہ وہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  بنت ابوسفیان کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نکاح کاپیغام پہنچائے اوران کوان مسلمانوں  کے ساتھ جوتمہارے مقیم ہیں  میرے پاس بھیج دو،نجاشی نے اپنی ایک کنیزابرہ کو ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  کے پاس بھیجا،اس پیغام سے پہلے ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  نے ایک خواب دیکھاکہ کوئی شخص اسے ام المومنین کہہ کرپکاررہاہے ،جب اس کنیزنے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شادی کاپیغام پہنچایاتوانہوں  نے اللہ تعالیٰ کاشکراداکیااوراتنی بڑی خوشی کے اظہارپر اپنی ایک پازیب اورپیرکی انگلیوں  کے چاندی کے چھلے اتار کراس کنیزکوبخشش کے طورپرعطاکردیا،اوراس سے کہانجاشی کوکہوان سے عقدکے لئے کسی کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وکیل مقررکردے، چنانچہ نجاشی نے خالد  رضی اللہ عنہ بن سعیدبن عاص کووکیل مقررکردیا ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  کی رضامندی کے بعد نجاشی نے نکاح کابندوبست کیااورجعفر رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب اوردوسرے مسلمانوں  کواس میں  شریک ہونے کی دعوت دی،

فَخَطَبَ النَّجَاشِیُّ عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:الْحَمْدُ للَّه، الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ، السَّلامُ الْمُؤْمِنُ، الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیزُ، الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُأَشْهَدُ أَنَّ لا إِلَهَ إِلا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَأَنَّهُ الّذی بشر به عیسى بن مَرْیَمَ. أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَتَبَ إِلَیَّ أَنْ أُزَوِّجَهُ أُمَّ حَبِیبَةَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ، فَأَجَبْتُ إِلَى مَا دَعَا إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. وَقَدْ أَصْدَقْتُهَا أَرْبَعَمِائَةِ دِینَارٍ ثُمَّ سَكَبَ الدَّنَانِیرَ بَیْنَ یَدَیِ الْقَوْمِ

نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے خطبہ نکاح پڑھا،  ہرطرح کی حمدوثنااللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جوبادشاہ ہے نہایت مقدس،سراسرسلامتی ،امن دینے والانگہبان،سب پرغالب،اپناحکم بزورنافذکرنے والااوربڑاہی ہوکررہنے والا،میں  گواہی دیتاہوں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے رسول ہیں  جن کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دے دی تھی ،امابعد!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میری طرف نامہ مبارک بھیجاہے کہ میں  ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  بنت ابوسفیان کانکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کردوں ،میں  یہ پسندکرتاہوں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا سےنکاح کا جوحکم فرمایاہے اسے پوراکردوں ،میں  نے ان کاحق مہرچالیس دینارطے کیاہے ،پھروہ خاموش ہوگئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سےچارسودینار(بعض روایات میں  دینارکے بجائےدرہم لکھاہے)حق مہرکی رقم خالد  رضی اللہ عنہ بن سعیدکے حوالے کردی تاکہ وہ انہیں  ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کودے دیں ،

فَتَكَلَّمَ خَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ فَقَالَ: الْحَمْدُ للَّه أَحْمَدُهُ وَأَسْتَعِینُهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولُهُ، أَرْسَلَهُ بِالْهُدَى وَدِینِ الْحَقَّ، لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ كُلِّهِ، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ. أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَجَبْتُ إِلَى مَا دَعَا إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَزَوَّجْتُهُ أُمَّ حَبِیبَةَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ.فبارك الله لرسول الله عَلَیْهِ السَّلامُ

پھرخالد  رضی اللہ عنہ بن سعیدنے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  کی طرف سے خطبہ پڑھا،ہرطرح کی تعریف اورحمدوثنااللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ہم اسی کی حمدوثنابیان کرتے ہیں  اوراسی سے ہرطرح کی مددچاہتے ہیں  ،میں  گواہی دیتاہوں  کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں ،اورمیں  گواہی دیتاہوں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اوررسول ہیں  ، جنہیں  اللہ تعالیٰ نے دین حق اورہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایاہےتاکہ وہ اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کونافذکردیں  چاہے مشرکین کویہ کتناہی ناگوارہوامابعد!میں  ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  کی طرف سےیہ نکاح قبول کرتاہوں  جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پسند فرمایاہے اورام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ابوسفیان کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں  دیتاہوں ،اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر برکتیں  نازل فرمائے۔ [69]

فَلَمَّا جَاءَتْ أُمَّ حَبِیبَةَ تِلْكَ الدَّنَانِیرُ، قَالَ: جَاءَتْ بِهَا أَبْرَهَةُ فَأَعْطَتْهَا خَمْسِینَ مِثْقَالا،وَقَالَتْ: كُنْتُ أَعْطَیْتُكِ ذَلِكَ، وَلَیْسَ بِیَدِی شَیْءٌ، وَقَدْ جَاءَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَذَا،فقالت أبرهة: قد أمرنی الملك الا آخُذَ مِنْكِ شَیْئًا وَأَنْ أَرُدَّ إِلَیْكِ الَّذِی أخذت منك،فرددته وَأَنَا صَاحِبَةُ دُهْنِ الْمَلِكِ وَثِیَابِهِ،وَقَدْ صَدَّقْتُ مُحَمَّدًا رَسُولَ اللهِ وَآمَنْتُ بِهِ، وَحَاجَتِی إِلَیْكِ أَنْ تُقْرِئِیهِ مِنِّی السَّلامَ، قَالَتْ: نَعَمْ،وَقَدْ أَمَرَ الْمَلِكُ نِسَاءَهُ أَنْ یَبْعَثْنَ إِلَیْكِ بِمَا عِنْدَهُنَّ مِنْ عُودٍ وَعَنْبَرٍ

ابرہہ باندی یہ رقم ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  کی خدمت میں  لے گئی توانہوں  نے اسے پچاس مثقال بطورانعام دیئے، اور فرمایا میرے پاس کچھ بھی نہ تھالیکن اللہ نے یہ رقم بھیج دی ہے اس لئے میں  نے تجھے یہ انعام دیا،ابرہ نے کہابادشاہ نے مجھے ممانعت کردی ہے کہ میں  اس میں  سے کچھ نہ لوں ،اورجوکچھ میں  نے پہلے آپ سے لیاہے وہ بھی واپس کردوں  ، چنانچہ اس نے زیورواپس کردیااورکہاکہ میں  توشاہی توشہ خانہ کی مہتمہ اوراس کے ملبوسات کی محافظ ہوں ، میں  رسول اللہ کی تصدیق کرکے ان پرایمان لائی ،میں  صرف آپ سے یہ چاہتی ہوں  کہ آپ میراسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہہ دیں ،ام المومنین ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا نے اس کاوعدہ کرلیا،پھرام حبیبہ  رضی اللہ عنہا کے وکیل خالدبن سعیدبن العاص  رضی اللہ عنہ  یاسیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا،اس کے بعدنجاشی کی طرف سے شریک مجلس کو کھانا کھلایاگیا،نجاشی نے اپنی بیویوں  کوحکم دیاکہ ان کے پاس جس قدرعود اور عنبر (خوشبوعات) ہوں  وہ ام المومنین ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  کوبھیج دیں ،

فَخَرَجْنَا فِی سَفِینَتَیْنِ، وَبَعَثَ مَعَنَا النَّوَاتِیَّ حَتَّى قَدِمْنَا الْجَارَ، ثُمَّ رَكِبْنَا الظُّهُرَ إِلَى المدینة، فوجدنا رَسُولَ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ، فَخَرَجَ مَنْ خَرَجَ إِلَیْهِ،وَأَقَمْتُ بِالْمَدِینَةِ حَتَّى قَدِمَ رَسُولُ اللهِ، فَدَخَلْتُ إِلَیْهِ،  فَكَانَ یُسَائِلُنِی عَنِ النَّجَاشِیِّ،وَقَرَأْتُ عَلَیْهِ مِنْ أَبْرَهَةَ السلام، فرد رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهَا

چنانچہ اس نے ام المومنین ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا دخترابوسفیان،جعفر رضی اللہ عنہ  بن ابی طالب اوردوسرے مسلمانوں  کوظہرکے وقت دوکشتیوں  میں  مدینہ طیبہ روانہ کیا،ہم لوگ (موسم بہار میں  جمادی الاولیٰ سات ہجری اگست ۶۲۸ء کو)مدینہ منورہ کی بندرگاہ پراترے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خیبرجاچکے تھے اوراکثرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  آپ کے ساتھ تھے،میں  مدینہ منورہ میں  ٹھیرگئی ،جب آپ تشریف لائے تومیں  آپ کی خدمت میں  حاضرہوئی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مجھ سے نجاشی کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے اور میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ابرہ کاسلام کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کاجواب دیا۔[70]

قَالَتْ:فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ أَخْبَرْتُهُ كَیْفَ كَانَتِ الْخِطْبَةُ وَمَا فَعَلَتْ بِی أَبْرَهَةُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ وَأَقْرَأَتْهُ مِنْهَا السَّلَامَ، فَقَالَ:وَعَلَیْهَا السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

ایک روایت میں  ام المومنین ا م حبیبہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں جب میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو نجاشی کےخطبہ اورابرہہ نے جوکچھ کیاتھااس کی خبردی اوران کاسلام پہنچایاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تبسم فرمایااورجواب میں  فرمایااس پربھی سلامتی ،اللہ کی رحمت اوربرکات ہوں ۔[71]

لَمَّا بَلَغَ أَبَا سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ نِكَاحُ النَّبِیِّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ابْنَتَهُ قَالَ: ذَلِكَ الْفَحْلُ لا یُقْرَعُ أَنْفُهُ

کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دخترابوسفیان سے اس لئے نکاح فرمایاتھاتاکہ ابوسفیان کواسلام کی طرف مائل کیاجاسکے،جب ابوسفیان بن حرب نے یہ سناکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی بیٹی سے نکاح کرلیاہے تووہ کہنے لگا اس نر اونٹ کی ناک میں  نکیل نہیں  ڈالی جاسکتی۔[72]

وَأَحَبُّ إِلَیَّ من شركنی فِی خَیْرٍ أُخْتِی

ایک روایت میں  ہے ابوسفیان  رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلےمیں  اپنی بیٹی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوبہترسمجھتاہوں ۔[73]

شاہ مصرجریج بن متی کے نام خط

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تبلیغی خط مصرواسکندریہ کے بادشاہ جریج بن متی کولکھاجس کالقب مقوقس تھا،خط کامضمون یہ تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى المقوقس عَظِیمِ الْقِبْطِ

سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى

 أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّی أَدْعُوكَ بِدِعَایَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْكَ إِثْمَ الْقِبْطِ یَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَیْئًا وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ کے بندے اوراس کے رسول کی طرف سے قبط کے عظیم بادشاہ مقوقس کے نام

جس نے ہدایت کااتباع کیااس پرسلامتی ہو

امابعد!میں  تمہیں  اسلام کی دعوت دیتاہوں  ،اسلام قبول کرلومحفوظ رہوگے،مسلمان ہوجاؤاللہ تعالیٰ تمہیں  دوگناثواب عطافرمائے گااوراگرروگردانی کروگے توپوری قبطی قوم کاگناہ تم پرہوگا،اے اہل کتاب اس کلمہ کی طرف آؤجوہمارے اورتمہارے درمیان مشترک ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سواکسی اورکی بندگی نہ کریں  اورنہ اس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرائیں  اوراللہ کے سواآپس میں  ایک دوسرے کواپنارب اورمعبودنہ بنائیں ،اگردوسرے لوگ اس بات سے انحراف کریں  توتم صاف صاف کہہ دوکہ ہم تواللہ پرایمان لانے والے ہیں ۔[74]

یہ خط مصرکے ایک گرجاگھرسے دستیاب ہواتھااوراب ترکی کے محکمہ آثارقدیمہ میں  محفوظ ہے۔

اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خط پراپنی مہرثبت کیااور فرمایا

أیها الناس، أیكم ینطلق بكتابی هذا إلى صاحب مصر وأجره على الله ،فوثب إلیه حاطب رضی الله عنه، وقال، أنا یا رسول الله،قال: بارك الله فیك یا حاطب،فتوجه إلیه إلى مصر، فوجده بالإسكندریة، فذهب إلیها، فوجده فی مجلس مشرف على البحر،فركب سَفِینَةً إلیه وحاذى مجلسه وأشار بالكتاب إلیه،فلمَّا رآه أمر بإحضاره بین یدیه، فلمَّا جیء به إلیه، ووقف بین یدیه، ونظر إلى الكتاب فضَّه وقرأه

اے لوگو!تم میں  سے کون ہے جومیرایہ خط شاہ مصرکے پاس پہنچائےجس کااجروثواب اللہ تعالیٰ عطافرمائے گا، یہ سن کرحاطب بن ابی بلتعہ  رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوگئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس خدمت کے لئے حاضرہوں ،فرمایااے حاطب!اللہ تمہیں برکت عطافرمائے،حاطب  رضی اللہ عنہ  اس نامہ مبارک کو لے کرشاہ مصرمقوقس کے پاس اسکندریہ پہنچے اس وقت مُقَوْقس ایک جزیرے فاروس میں  اعلی سطحی مجلس میں  شریک تھاجہاں  روشنی کامینارلائٹ ہاؤس بنا ہوا تھا، چنانچہ حاطب  رضی اللہ عنہ  کشتی میں  سوارہوکراس کی مجلس میں  پہنچے اوراسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک پیش کیا،اس نے اسے عزت واحترام کے ساتھ آپ کے نامہ مبارک کولیااور پڑھ کرسینے سے لگایا ، حاطب بن بلتعہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  پھرشاہ اسکندریہ نے مجھے بطورمہمان ایک مکان میں  ٹھیرادیا

ثُمَّ بَعَثَ إِلَیَّ وَقَدْ جَمَعَ بَطَارِقَتَهُ، وقال:إِنِّی سَأُكَلِّمُكَ بِكَلَامٍ وَأُحِبُّ أَنْ تَفْهَمَهُ مِنِّی، قَالَ: قُلْتُ: هَلُمَّ،قَالَ: أَخْبِرْنِی عَنْ صَاحِبِكَ، أَلَیْسَ هُوَ نَبِیٌّ؟  قُلْتُ: بَلَى، هُوَ رَسُولُ اللهِ،قَالَ: فَمَا لَهُ حَیْثُ كَانَ هَكَذَا لَمْ یَدْعُ عَلَى قَوْمِهِ حَیْثُ أَخْرَجُوهُ مِنْ بَلَدِهِ إِلَى غَیْرِهَا؟قَالَ: فَقُلْتُ: عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ أَلَیْسَ تَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ؟ فَمَا لَهُ حَیْثُ أَخَذَهُ قَوْمُهُ فَأَرَادُوا أَنْ یَغْلِبُوهُ أَلَّا یَكُونَ دَعَا عَلَیْهِمْ بِأَنْ یُهْلِكَهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى رَفَعَهُ اللهُ إِلَیْهِ فِی السَّمَاءِ الدُّنْیَا،فقال له: أحسنت, أَنْتَ حَكِیمٌ جئت مِنْ عِنْدِ حَكِیمٍ

اورایک روزتمام زعماء اورسرداروں  کوجمع کرکے مجھے بلایااورکہامیں  تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں  سوچ سمجھ کرجواب دینا،میں  نے کہابہترہے،مقوقس نے کہاکیایہ جن کے بارے میں  آپ بیان کرتے ہیں  نبی نہیں ؟حاطب  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکیوں  نہیں  ؟آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں ،مقوقس کہنے لگا،توپھرکیاوجہ ہے کہ جب انہیں  ان کی قوم نے ان کے شہرسے نکالاتوانہوں  نے بددعاکیوں  نہ کی؟حاطب  رضی اللہ عنہ  نے کہا، عیسیٰ   علیہ السلام ابن مریم کے بارے میں  آپ کیاکہتے ہیں ؟کیاوہ نبی نہیں  تھے؟توپھرجب ان کی قوم نے ان کوسولی پرلٹکانے کاارادہ کیاتوانہوں  نے بددعاکیوں  نہ کی حتی کہ اللہ تعالیٰ کوانہیں  آسمان کی طرف اٹھاناپڑا؟مقوقس کہنے لگا،بہت خوب !تم ایک داناشخص ہوجوکسی داناشخص کے پاس سے آئے ہو۔[75]

قَالَ لَهُ: إِنَّهُ كَانَ قَبْلَكَ رَجُلٌ یَزْعُمُ أَنَّهُ الرَّبُّ الْأَعْلَى فَأَخَذَهُ اللهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى ، فَانْتَقَمَ بِهِ ثُمَّ انْتَقَمَ مِنْهُ، فَاعْتَبِرْ بِغَیْرِكَ وَلَا یَعْتَبِرْ غَیْرُكَ بِكَ،فَقَالَ: إِنَّ لَنَا دِینًا لَنْ نَدَعَهُ إِلَّا لِمَا هُوَ خَیْرٌ مِنْهُ، فَقَالَ حاطب: نَدْعُوكَ إِلَى دِینِ اللهِ، وَهُوَ الْإِسْلَامُ الْكَافِی بِهِ اللهُ فَقْدَ مَا سِوَاه،إِنَّ هَذَا النَّبِیَّ دَعَا النَّاسَ، فَكَانَ أَشَدَّهُمْ عَلَیْهِ قُرَیْشٌ، وَأَعْدَاهُمْ لَهُ الْیَهُودُ، وَأَقْرَبَهُمْ مِنْهُ النَّصَارَى،وَلَعَمْرِی مَا بِشَارَةُ مُوسَى بِعِیسَى إِلَّا كَبِشَارَةِ عِیسَى بِمُحَمَّدٍ، وَمَا دُعَاؤُنَا إِیَّاكَ إِلَى الْقُرْآنِ إِلَّا كَدُعَائِكَ أَهْلَ التَّوْرَاةِ إِلَى الْإِنْجِیلِ وَكُلُّ نَبِیٍّ أَدْرَكَ قَوْمًا فَهُمْ مِنْ أُمَّتِهِ، فَالْحَقُّ عَلَیْهِمْ أَنْ یُطِیعُوهُ وَأَنْتَ مِمَّنْ أَدْرَكَهُ هَذَا النَّبِیُّ،وَلَسْنَا نَنْهَاكَ عَنْ دِینِ الْمَسِیحِ، وَلَكِنَّا نَأْمُرُكَ بِهِ

حاطب  رضی اللہ عنہ کے مدلل جواب سن کربادشاہ خاموش ہوگیاپھروہ بولے اے بادشاہ !آپ کوعلم ہے اسی ملک میں  ایک بادشاہ تھاجورب اعلیٰ ہونے کادعویٰ دارتھا،اللہ نے اس پر گرفت کی اوروہ ہلاک وبربادہوگیاآپ کواس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے ایسانہ ہوکہ دوسرے لوگ تم سے عبرت حاصل کریں ،مقوقس نے کہاہماراایک دین ہے جسے ہم چھوڑنہیں  سکتے جب تک کہ اس سے بہتردین نہ مل جائے،حاطب  رضی اللہ عنہ  نے کہامیں  تجھے اللہ کے دین کی دعوت دیتاہوں  جو اسلام ہے،جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایاہے کہ وہ اسے تمام ادیان پرغالب فرمائے گا،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہوکرلوگوں  کودعوت اسلام دی مگرسب سے زیادہ مخالفت ان کے اپنے قبیلے قریش نے کی اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں البتہ عیسائی مسلمانوں  کے بہت زیادہ قریب ہیں ،اللہ کی قسم ! موسیٰ  علیہ السلام  کا عیسیٰ   علیہ السلام کے آنے کی خوشخبری دینااور عیسیٰ   علیہ السلام کامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشخبری دیناایک جیسی بات ہے ،ہماراآپ کوقرآن مجیدکی دعوت دیناایساہے جیسے آپ یہودکوانجیل کی طرف بلاتے ہیں ،جس امت میں  بھی کوئی نبی آجائے وہ اس نبی کی امت بن جاتی ہے،ان پرفرض ہوجاتاہے کہ اس نبی کی اطاعت کریں ،اے بادشاہ !اس لحاظ سے آپ بھی ان نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں  سے ہیں  کیونکہ آپ نے ان کا دور پا لیا ہے نیزہم آپ کو مسیح   علیہ السلام  کے دین سے نہیں  روکتے بلکہ ہم توآپ کواس کی پابندی کاحکم دیتے ہیں ۔[76]

حاطب  رضی اللہ عنہ  کے پہنچنے سے کچھ پہلے مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ  (جوابھی تک مسلمان نہیں  ہوئے تھے) بنی مالک کے چندلوگوں  کے ساتھ مقوقس کے پاس گیاتھا،اس وقت مقوقس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں  دریافت کیاتھااورمغیرہ نے جوکچھ دیکھاتھاسچ سچ بتادیاتھا،جس کی وجہ سے مقوقس کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  آگاہی حاصل تھی اوراسی گفتگوسے متاثرہوکر مغیرہ واپس آکردائرہ اسلام میں  داخل ہوگے تھے،

فَقَالَ الْمُقَوْقَسِ: إِنِّی قَدْ نَظَرْتُ فِی أَمْرِ هَذَا النَّبِیِّ فَوَجَدْتُهُ لَا یَأْمُرُ بِمَزْهُودٍ فِیهِ، وَلَا یَنْهَى عَنْ مَرْغُوبٍ فِیهِ، وَلَمْ أَجِدْهُ بِالسَّاحِرِ الضَّالِّ، وَلَا الْكَاهِنِ الْكَاذِبِ،وَوُجِدَتْ مَعَهُ آیَةُ النُّبُوَّةِ بِإِخْرَاجِ الْخَبْءِ، وَالْإِخْبَارِ بِالنَّجْوَى، وَسَأَنْظُرُوَأَخَذَ كِتَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَهُ فِی حُقٍّ مِنْ عَاجٍ وَخَتَمَ عَلَیْهِ وَدَفَعَهُ إِلَى جَارِیَةٍ لَهُ

بہرحال شاہ مصرمقوقس نے کہامیں  نے اس نبی کے بارے میں  غوروفکرکیاتومیں  نے محسوس کیاکہ وہ ناپسندیدہ چیزوں  سے روکتے اورپسندیدہ چیزوں  کاحکم کرتے ہیں ،وہ جادوگراورگمراہ نہیں کاہن اورجھوٹے بھی نہیں  اورمیں  ان میں  نبوت کی نشانیاں  پاتاہوں ،مثلاًان کاغیب کی خبریں  دینامگرمیں  ابھی دیکھوں  گا،چنانچہ اس نے اسلام کی دعوت کوقبول نہیں  کیااورنصرانیت پرقائم رہا،پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے نامہ مبارک کواٹھایااوراسے ساگوان کی ڈبیہ میں  رکھ کراپنی ایک باندی کودے دیا کہ وہ اسے حفاظت سے رکھے۔ [77]

شاہ مصرکاجواب:

ثم دَعَا كَاتِبًا لَهُ یَكتب بِالْعَرَبِیَّةِ

اورپھر اپنے عربی لکھنے والے کاتب کو بلا کرجواب لکھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

لِمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ مِنَ المقوقس عَظِیمِ الْقِبْطِ

سَلَامٌ عَلَیْكَ،

 أَمَّا بَعْدُ: فَقَدْ قَرَأْتُ كِتَابَكَ وَفَهِمْتُ مَا ذَكَرْتَ فِیهِ وَمَا تَدْعُو إِلَیْهِ، وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ نَبِیًّا بَقِیَ، وَكُنْتُ أَظُنُّ أَنَّهُ یَخْرُجُ بِالشَّامِ، وَقَدْ أَكْرَمْتُ رَسُولَكَ وَبَعَثْتُ إِلَیْكَ بِجَارِیَتَیْنِ لَهُمَا مَكَانٌ فِی الْقِبْطِ عَظِیمٌ، وَبِكِسْوَةٍ، وَأَهْدَیْتُ إِلَیْكَ بَغْلَةً لِتَرْكَبَهَا، وَالسَّلَامُ عَلَیْكَ.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قبط کے عظیم فرمانروامقوقس کی جانب سے محمدبن عبداللہ کی خدمت میں  سلام

امابعد!میں  نے آپ کانامہ پڑھااورجوکچھ آپ نے اس میں  فرمایاہے اورجس دین کی دعوت دی ہے اسے خوب سمجھا،مجھے یہ پہلے سے معلوم ہے کہ ایک نبی کاآناباقی ہے مگرمیں  خیال کرتاتھاکہ اس کاظہورملک شام سے ہوگا،میں  نے آپ کے قاصدکی پوری تعظیم کی ہے اوربطورخدمت دولڑکیاں آپ کوبھیج رہاہوں  جنہیں  قبطیوں  میں  عظیم مرتبہ حاصل ہے ،اس کے ساتھ میں اورآپ کی خدمت میں  کچھ کپڑے(کتان ریشم کے بنے ہوئے بیس جوڑے،عطر،عوداورمشک وغیرہ) اورآپ کی سواری کے لئے ایک (سفیدرنگ کا)بہترین خچر(دلدل)بھیج رہاہوں ،والسلام ۔[78]

وَالْجَارِیَتَانِ ماریة وسیرین وَالْبَغْلَةُ دُلْدُلُ بَقِیَتْ إِلَى زَمَنِ معاویة

باندیوں  کانام ماریہ بنت شمعون،اورسیرین تھا جوانصانامی گاؤں  کے قبیلہ حفن سے تھیں  اورخچرکانام دلدل تھاجوامیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت تک زندہ رہا۔[79]

شاہ مصرمقوقس حاطب  رضی اللہ عنہ  بن بلتعہ سے عزت واحترام سے پیش آیااورانہیں  سودیناراورپانچ جوڑے کپڑے دیئے،جب وہ   شاہ مصرکے پاس پانچ دن رہنے کے بعد واپس ہونے لگے تواس نے ان کے ساتھ ایک حفاظتی دستہ بھیجااورکہاعنقریب آپ کے نبی کی حکومت اس علاقہ پرہوگی

قَالَ حَاطِبٌ: فَذَكَرْتُ قَوْلَهُ لرسول الله صلى الله علیه وسلم فقال:ضَنَّ الْخَبِیثُ بِمُلْكِهِ، وَلا بَقَاءَ لِمُلْكِهِ

جب حاطب  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے اورشاہ مصرکی آخری بات گوش گزارکی توآپ نے فرمایااس نے صرف اپنی حکومت بچانے کے لئے اسلام قبول نہیں  کیاحالانکہ اس کی حکومت باقی نہیں  رہے گی۔[80]

چنانچہ مصرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کے عہدخلافت میں  فتح ہوگیا، مدینہ منورہ کے راستہ ہی میں  حاطب بن ابی بلتعہ  رضی اللہ عنہ  کی تبلیغ کی بناپردونوں  لڑکیوں  ماریہ جوسفیدرنگ اورسفیدبالوں  والی نہایت خوبصورت خاتون تھیں  اورسیرین نے اسلام قبول کر لیا تھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ مصرکے تحائف قبول فرمائےاورماریہ قبطیہ اوران کی بہن سیرین کوام سلیم بنت ملحان  رضی اللہ عنہا  کے مکان میں  ٹھیرایا ، ماریہ قبطیہ بہت دین دار خاتون تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے شادی فرمائی اورانہیں  بنونضیرسے حاصل ہونے والی زمینوں  پرمنتقل فرمادیا،وہ موسم گرمااورکھجوروں  کے موسم بہارمیں  وہیں  مقیم رہتی تھیں  اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے پاس وہیں  تشریف لے جاتے تھے،ذی الحجہ آٹھ ہجری میں  ان کے بطن سے آپ کے بیٹے ابراہیم پیداہوئے ،جب ابراہیم تولدہوئے توآپ نے ولادت کے ساتویں  دن ایک بکری ذبح فرماکران کاعقیقہ کیاان کاسرمنڈوایااوربالوں  کے ہم وزن چاندی فقراء میں  تقسیم فرمائی اوران کے بالوں  کوزمین میں  دفن کردیا،ام المومنین ماریہ قبطیہ   رضی اللہ عنہا  کی دایہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیزسلمیٰ تھیں ،انہوں  نے جاکراپنے شوہراورآپ کے غلام ابورافع کوام المومنین ماریہ   رضی اللہ عنہا  کے لڑکاتولدہونے کی اطلاع دی ،وہ آپ کی خدمت اقدس میں  پہنچااورآپ کویہ خوشخبری سنائی،آپ نے اس خوشی میں  انہیں  ایک غلام بخش میں  عطا فرما دیا ، اس خبرپررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کوبہت غیرت آئی اورایک باندی سے آپ کی اولادپیداہوناانہیں  بہت شاق گزرا،انصاری خواتین باہم رشک کرنے لگیں  کہ کسے ان کودودھ پلانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابراہیم کوبراء بن اوس بن خالد  رضی اللہ عنہ  کی اہلیہ ام بردہ بنت منذربن زیدکے سپردفرمادیااورانہوں  نے دودھ پلایا اورسیرین کوحسان بن ثابت  رضی اللہ عنہ کو ہبہ فرمادیا،انہوں  نے ان سے نکاح کیاجن کے بطن سے عبدالرحمان بن حسان پیداہوئے۔

ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ابن دحداح انصاری رضی اللہ عنہ  کی وفات کی خبرپہنچی یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سخت ملول ومحزون ہوگئے اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے ہمراہ جنازہ کے لیے تشریف لے گئے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنِ الدَّحْدَاحِ قَالَ حَجَّاجٌ: عَلَى أَبِی الدَّحْدَاحِ، ثُمَّ أُتِیَ بِفَرَسٍ مَعْرُورٍ ،فَعَقَلَهُ رَجُلٌ فَرَكِبَهُ، فَجَعَلَ یَتَوَقَّصُ بِهِ، وَنَحْنُ نَتَّبِعُهُ نَسْعَى خَلْفَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كَمْ عِذْقٍ مُعَلَّقٍ، أَوْ مُدَلًّى، فِی الْجَنَّةِ لِابْنِ الدَّحْدَاحِ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابن دحداح رضی اللہ عنہ  کی نمازجنازہ پڑھائی،جب تدفین ہوچکی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک ننگی پیٹھ کاگھوڑا لایا گیا اس کوایک شخص نے پکڑاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس پرسوارہوئےاوروہ کودتاتھا، ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے دوڑتے ہوئے جارہے تھے،  ان کی قوم کے ایک شخص نے کہانبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت میں  چھوہارے کی کتنی شاخیں  ہیں  جوابن دحداح کے لیے لٹکائی گئی ہیں ۔[81]

[1] الفتح: 2

[2] صحیح مسلم کتاب الجہاد صُلْحِ الْحُدَیْبِیَةِ فِی الْحُدَیْبِیَةِ۴۶۳۷ ، مسنداحمد ۲۰۹، صحیح ابن حبان ۳۷۰

[3] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الفتح بَابُ قولہ لِیَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، وَیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْكَ وَیَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا۴۸۳۶،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ إِكْثَارِ الْأَعْمَالِ وَالِاجْتِهَادِ فِی الْعِبَادَةِ۷۱۲۶ ، مسند احمد ۲۴۸۴۴، مصنف عبدالرزاق۴۷۴۶،المعجم الاوسط للطبرانی ۳۸۱۰

[4] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ۴۱۵۰

[5] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ۴۱۷۲،مسنداحمد۱۳۰۳۵

[6] آل عمران۱۸۵

[7] الاحزاب۴۵

[8] النسائ۸۰

[9] التوبة۱۱۱

[10] الدر المنثور۲۹۴؍۴،تفسیر المنار۴۱؍۱۱

[11] تفسیرابن کثیر۳۳۰؍۷

[12] طہ۷۴

[13] الاعلی۱۳

[14] الانعام۱۶۲

[15] محمد۱۵

[16] حم السجدة۳۱

[17] الاحزاب۶۲

[18] فاطر۴۳

[19] الفتح: 24

[20] مسنداحمد۱۲۲۲۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَهُوَ الَّذِی كَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ،سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی الْمَنِّ عَلَى الْأَسِیرِ بِغَیْرِ فِدَاءٍ۲۶۸۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الفَتْحِ ۳۲۶۴،السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۴۶

[21] الفتح: 25

[22] المعجم الکبیرللطبرانی۲۲۰۴

[23] المعجم الکبیرللطبرانی۳۵۴۳

[24] تفسیرالقرطبی۶۷؍۱

[25] تفسیرابن کثیر ۳۴۴؍۷

[26] الفتح: 26

[27] تفسیرطبری۲۵۴؍۲۲

[28] الفتح: 26

[29] مستدرک حاکم۳۷۱۷

[30] تفسیرابن ابی حاتم ۱۸۶۰۰، ۳۳۰۱؍۱۰

[31] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۶۰۱،۳۳۰۱؍۱۰

[32] الفتح: 26

[33] تفسیر القرطبی ۷۶؍۱۵

[34] الفتح: 26

[35] مسنداحمد۲۱۲۵۵، المعجم الکبیرللطبرانی ۵۳۶

[36] آل عمران۱۳۹

[37] التوبة۱۲۳

[38] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ ۶۰۱۱،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ ۶۵۸۶، مسند احمد ۱۸۳۷۳

[39] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ تَعَاوُنِ المُؤْمِنِینَ بَعْضِهِمْ بَعْضًا۶۰۲۶،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ۶۵۸۵،جامع ترمذی ابواب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی شَفَقَةِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ ۱۹۲۸،السنن الکبری للنسائی ۲۳۵۲، مسند احمد ۱۹۶۲۵،صحیح ابن حبان ۲۳۱

[40] مسنداحمد۲۶۹۸،سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی الْوَقَارِ ۴۷۷۶

[41] زادالمعاد۲۸۰؍۳

[42] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابُ تَحْرِیمِ سَبِّ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ ۶۴۸۷،صحیح ابن حبان ۷۲۵۵،مسنداحمد۱۱۵۱۶

[43] ابن ہشام ۳۲۲؍۲

[44] فتح الباری۳۵۰؍۵

[45] زادالمعاد۲۶۴؍۳

[46] ابن ہشام۳۲۴؍۲،الروض الانف۷۸؍۷

[47] فتح الباری ۳۵۰؍۵

[48] ابن ہشام۳۲۴؍۲

[49]شرح الزرقانی علی المواھب ۲۱۶؍۳

[50] الروض الانف ۷۸؍۷

[51] عیون الآثر۱۷۰؍۲،فتح الباری ۳۵۱؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۲۱۷؍۳

[52] فتح الباری۴۱۹؍۹

[53] الممتحنة ۱۰،۱۱

[54] ابن ہشام ۳۲۷؍۲،الروض الانف ۸۵؍۷، عیون الآثر۱۶۳؍۲،فتح الباری۲۸۸؍۱

[55] ابن سعد۲۵۱؍۱

[56] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی إِسْبَالِ الْإِزَارِ۴۰۸۴

[57] اسدالغابة۵۴۲؍۲

[58] ابن ہشام ۶۰۶؍۲،الروض الانف۵۱۰؍۷،تاریخ طبری ۶۴۵؍۲

[59]ابن ہشام۶۰۸؍۲،الروض الانف۵۱۹؍۷،تاریخ طبری ۶۰۳؍۱

[60] المائدة۲۲

[61] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَصَاهُ، وَسَیْفِهِ وَقَدَحِهِ، وَخَاتَمِهِ۳۱۰۶،دلائل النبوة للبیہقی۲۷۶؍۷،ابن سعد۱۹۶؍۱،البدایة والنہایة۵؍۶،شرح الزرقانی علی المواھب۵؍۳

[62] فتح الباری ۳۲۹؍۱۰

[63] سنن ابوداودكِتَاب الْخَاتَمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی اتِّخَاذِ الْخَاتَمِ۴۲۱۸

[64] دلائل النبوة للبیہقی۵۶؍۶

[65] البدایة والنهایة۳؍۶

[66] الرحمٰن۲۶

[67] زادالمعاد۶۰۱،۶۰۲؍۳،عیون الآثر۳۳۰؍۲،تاریخ طبری ۶۵۲؍۲،البدایة والنہایة۱۰۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۳۰۹؍۲، اسدالغابة ۱۸۹؍۱،رسول اکرم کی سیاسی زندگی ۱۰۸،۱۰۹،۱۲۲تا۱۲۵،سیرة النبویة لابن کثیر۴۲؍۲

[68] ۔ زادالمعاد۶۰۲؍۳،تاریخ طبری ۶۵۳؍۲،تاریخ الخمیس۳۰؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۳؍۵،اسدالغابة۱۸۹؍۱

[69] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۹۲۹؍۴،ابن سعد۷۶؍۸،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۴۳؍۶۹

[70] تاریخ طبری۶۵۳؍۲

[71] ابن سعد۷۸؍۸

[72] الإصابة فی تمییز الصحابة۱۴۲؍۸،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۸۴۵؍۴، اسدالغابة۱۱۶؍۷،ابن سعد۷۹؍۸،تاریخ ابن خلدون۴۵۱؍۲،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۴۶؍۶۹،تاریخ طبری ۶۵۳؍۲،امتاع الاسماع۶۶؍۶،تاریخ ابن الوردی۱۲۰؍۱

[73] سیر أعلام النبلاء۱۶۲؍۱،تاریخ الإسلام وَوَفیات المشاهیر وَالأعلام۴۹۶؍۱،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۳۲؍۶۹

[74] زادالمعاد۶۰۳؍۳،مجموعة الوثائق ۱۳۵؍۱،المواھب اللدنیہ۵۴۵؍۱،اعلام السائین۸۱؍۱،صبح الاعشی فی صناعة الاشائ۳۶۴؍۶

[75] شرح الززرقانی علی المواھب ۲۷؍۵،دلائل النبوة للبیہقی ۳۹۵؍۴،البدایة والنہایة۳۱۰؍۴، اسدالغابة ۶۵۹؍۱، السیرة الحلبیة۳۵۰؍۳

[76] زادالمعاد۶۰۰؍۳،الروض الانف۵۱۳؍۷،عیون الاثر۳۳۲؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۷؍۵

[77] شرح الزرقانی علی المواھب۲۷؍۵، زادالمعاد۶۰۴؍۳

[78] زاد المعاد ۶۰۴؍۳،ابن سعد۲۰۰؍۱،عیون الآثر۳۳۳؍۲

[79] زادالمعاد۶۰۴؍۳

[80] عیون الآثر۳۳۲؍۲

[81] صحیح مسلم كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ رُكُوبِ الْمُصَلِّی عَلَى الْجَنَازَةِ إِذَا انْصَرَفَ۲۲۳۹، مسنداحمد۲۰۸۳۴

Related Articles