ہجرت نبوی کا چھٹا سال

مضامین سورةالنور

واقعہ افک کے بعدمعاشرے کوبرائیوں  سے روکنے کے لئے معاشرتی قوانین واخلاق پرمبنی احکامات وہدایات نازل کیے گئے جواجتماعی زندگی کی راہ کو منور اورروشن کردیتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ ان برائیوں  کے تدارک کے لئے بھرپوراقدامات کاذکرکیاگیا،تعزیری قوانین میں  کنوارے مردسے زناہونے پرسوکوڑے سزا مقرر ہوئی،ان مردوں  اورعورتوں  سے توبہ کرنے تک معاشرتی مقاطے کاحکم دیاگیا،اگرکوئی شخص کسی عاقل وبالغ پاک دامن مردوعورت پرزناکی تہمت لگائے اورثبوت میں  چارگواہ پیش نہ کرسکے اس کے لئے حد قذف اسی کوڑے مقررہوئی ، جو لوگ بے حیائی اورفحاشی پھیلانے کے لئے افواہیں  پھیلاتے ہیں  ان کے لئے بھی سزا مقرر ہوئی،اگرکوئی خاوند اپنی بیوی پرزناکی تہمت لگائے تولعان کاقاعدہ مقررکیاگیا ،ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  پرجھوٹے الزام کی تردیدکی گئی اورتہمت لگانے والوں  کے لئے تعزیری قانون بھی بیان ہوا ،بے بنیادافواہوں  کے سدباب کی تلقین کی گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی محبوب شریک حیات کوپاکیزہ ترین قرار دیا گیا،دوسرے گھروں  میں  تاک جھانک اوربے تکلف ،بلا اجازت اندرجانے سے منع کیا،عورتوں  کوپردے کاحکم دیااورفرمایاگیاکہ وہ محرم رشتہ داروں  اورخادموں  کے علاوہ کسی غیرکے سامنے نہ آئیں  ، جوان عورتوں  کے ساتھ بوڑھی اورعمررسیدہ عورتوں  تک کوحکم دیاگیاکہ اگرکسی ضرورت کے وقت باہرنکلناہی پڑے توبن سنورکرنہ نکلیں ، زناکاسدباب کرنے کے لیے حکم دیا گیا کہ جو آزادمروعورتیں  اور لونڈی وغلام حقوق زوجیت اداکرسکتے ہیں  وہ نکاح کریں ،کیونکہ اہل مکہ اور اہل مدینہ میں  لونڈیوں  سے قجہ گیری کرائی جاتی تھی جو ایک عام رواج تھا اس کوجرم قراردیاگیا ، اسلام غلامی کوختم کرنے کے لئے آیاتھااس لئے ترغیب دلائی گئی کہ لونڈی اور غلام آزادکئے جائیں ،ضابطہ مقررکیاگیاکہ بچے ہوں  یا گھریلو ملازم دوپہر اور رات میں  بلا جازت کسی کمرے میں  داخل نہ ہوں ،قریبی رشتہ داروں  دوستوں  کے گھروں  میں  کھانے پینے کی اجازت دی گئی تاکہ آپس میں  محبت واخوت پیداہو،اخلاق عالیہ کاخوگربنانے کے لئے ذاتی رنجش کی بناپراحسان اورنیکی سے رکنے پرتنبیہ کی گئی،اوراہل ایمان کو اللہ کی زمین پرغلبہ اوراقتدارکی خوشخبری دی گئی اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کی گئی کہ اقتدارملنے کے بعدبھی اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کولازم رکھیں  اورمسلم معاشرے کی فلاح وبہبودکے لئے نماز کانظام استوارکریں ۔

إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِی تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١١﴾‏ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُبِینٌ ‎﴿١٢﴾‏ لَوْلَا جَاءُوا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ ‎﴿١٣﴾‏ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِی مَا أَفَضْتُمْ فِیهِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٤﴾‏ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَیْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَیِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِیمٌ ‎﴿١٥﴾‏ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا یَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٦﴾‏ یَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ‎﴿١٧﴾‏ وَیُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآیَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿١٨﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِیمٌ ‎﴿٢٠﴾‏(النور)
’’ جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے تم اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے، ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لیے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے،اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے،وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اور جب گواہ نہیں لائے تویہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں،اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتاجبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک بہت بڑی بات تھی،تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں، یا اللہ ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے ،اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو،اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے،جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے،اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے والا مہربان ہے (توتم پر عذاب اتر جاتا) ۔‘‘

اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم !جولوگ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا پر یہ بڑابہتان گھڑلائے ہیں  وہ تمہارے ہی اندرکاایک گروہ ہیں ،ان میں  کچھ لوگ سچے مومن ہیں  مگرمنافقین کی چرب زبان سے دھوکاکھاگئے،اے آل ابوبکر  رضی اللہ عنہ !اس واقعے کواپنے حق میں  شرنہ سمجھوکیونکہ جو کرب اورصدمہ تمہیں  پہنچاہے اس کااللہ تعالیٰ بہترین اجرعطافرمائے گا بلکہ یہ واقعہ بھی تمہارے لئے خیرہی ہے جس سے تمہارے خاندان کی عظمت شان اورشرف وفضل نمایاں  ترہوگیااورمسلمانوں  کے لئے یہ خیرتھی کہ انہیں  خوب معلوم ہوگیاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  غیب داں  نہیں  ہیں  وہ صرف اتناہی جانتے ہیں  جتنااللہ تعالیٰ انہیں  بتلاتے ہیں ،جس منافق مثلاًزیدبن رفاعہ جوغالباًرفاعہ بن زیدیہودی منافق کابیٹاتھا نے اس اتہام طرازی میں  جتناحصہ لیااس نے اتناہی گناہ سمیٹااوراتنی سزاپائے گا،اورجس شخص( یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول جواس سازش کاسرغنہ تھا) نے اس سازش میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیااس کے لئے توجہنم کاسب سے نچلاطبقہ ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہے گا،بندوں  کی تربیت کے پہلوؤں  کونمایاں  کرنے کے لئے فرمایاجس وقت تم لوگوں  نے اس اتہام طرازی کو سناتھااسی وقت کیوں  نہ مومن مردوں  اورمومن عورتوں  نے اپنے آپ سے نیک گمان کیااوراس افواہ کی تردیداورتکذیب میں فوراًکیوں  نہ کہہ دیاکہ یہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا پر صریح بہتان ہے ؟وہ اس الزام سے اعلیٰ اوربالاہیں ،  اگر بہتان طراز اپنے اس رکیک الزام میں  سچے تھے اورانہوں  نے اپنی آنکھوں  سے معاملہ دیکھاتھا تو اس کے ثبوت میں چارعادل اورمعتبرگواہ کیوں  نہ لائے ؟جب وہ اپنے الزام پر گواہ نہیں  لائے ہیں  تو اللہ کے قانون کے مطابق یہی بہتان بازہی جھوٹے ہیں ،اگرمومنین پر دنیا و آخرت میں  اللہ کافضل اوررحم وکرم نہ ہوتاتومنافقین کے جس پروپیگنڈے کاتم شکارہوگئے تھے اورجس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پوراایک ماہ مضطرب وبے قراررہے تو اس کی پاداش میں  بڑاعذاب تمہیں  آلیتا،ذراغورتوکرواس وقت تم کیسی سخت غلطی کررہے تھے جبکہ اس افواہ کوبغیرتحقیق کےآگے پھیلاناشروع کردیا اوررواداری میں تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جارہے تھے جس کے متعلق تمہیں  کوئی علم نہ تھا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکسی شخص کے جھوٹاہونے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ جوبات کہیں  سے سن لے وہ (بغیرتحقیق کے)آگے بیان کر دے ۔[1]

تم لوگوں  نے حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کی عزت وآبروکوکوئی اہمیت نہیں  دی حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی اہمت کی بات تھی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  یَقُولُ:إِنَّ العَبْدَ لَیَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللهِ، لاَ یُلْقِی لَهَا بَالًا، یَرْفَعُهُ اللهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَیَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللهِ، لاَ یُلْقِی لَهَا بَالًا، یَهْوِی بِهَا فِی جَهَنَّمَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابندہ اللہ کی رضامندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتاہے اوراسے کوئی اہمیت نہیں  دیتامگراسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجے بلندکردیتاہے اورایک دوسرابندہ ایک ایساکلمہ زبان سے نکالتاہے جواللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاباعث ہوتاہے اوروہ اسے کوئی اہمیت نہیں  دیتالیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں  چلاجاتاہے۔[2]

اس رکیک الزام کو سنتے ہی تمہیں  کہہ دیناچاہیے تھاکہ حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں ایسی باتیں زبان سے نکالنا ہمیں  زیب نہیں  دیتاسبحان اللہ! اے اللہ !توبرائی سے پاک اورمنزہ ہےتواپنے محبوب بندوں  کواس قسم کے قبیح امورمیں  مبتلانہیں  کرتایہ توام المومنین پرایک بہتان عظیم ہے،اللہ تم کونصیحت کرتاہے کہ آئندہ کبھی حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورکسی عفت مآب خاندان کے بارے میں ایسی حرکت نہ کرنااگرتم مومن ہو،اللہ تمہیں  صاف صاف ہدایات دیتاہے اوروہ علیم وحکیم ہے،جولوگ آزرومندہیں  کہ مسلم معاشرے میں  فوحش کاچلن ہواور اس طرح کے الزامات گھڑکراورانہیں  اشاعت دے کرمسلم معاشرے میں  فحش امورکو پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں  وہ دنیااورآخرت میں  دردناک سزاکے مستحق ہیں ،

عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُؤذوا عِبادَ اللهِ وَلَا تُعیِّروهم، ولا تطلبوعَوَرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنْ طَلَبَ عَوْرَةَ أَخِیهِ الْمُسْلِمِ، طَلَبَ اللهُ عَوْرَتَهُ، حَتَّى یَفْضَحَهُ فِی بَیْتِهِ

ثوبان  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کے بندوں  کوایذانہ پہنچاؤاورنہ انہیں  عاردلاؤاوران کی خفیہ باتوں  کی ٹوہ میں  نہ لگے رہو، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گاتواللہ تعالیٰ اس کے عیوب کے پیچھے پڑجائے گااوراسے اتنارسواکرے گاکہ اس کے اپنے گھروالے بھی اسے بری نظروں  سے دیکھنے لگیں  گے ۔[3]

اس طرح کی حرکت سے معاشرے پرکیامنفی اثرات پڑتے ہیں  اورمجموعی طورپراجتماعی زندگی میں  کس قدرنقصان اٹھاناپڑتاہے وہ اللہ جانتاہے تم نہیں  جانتے ،اگرتم لوگوں  پراللہ کافضل وکرم اورشفقت ورحمت نہ ہوتی اوریہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑاشفیق ورحیم ہے تویہ چیزجوابھی تمہارے اندرپھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھادیتی۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ۚ وَمَنْ یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّهُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یُزَكِّی مَنْ یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢١﴾‏(النور)
’’ایمان والو ! شیطان کے قدم بقدم نہ چلوجو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ بےحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے کردیتا ہے اور اللہ سب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

جہاں  اللہ تعالیٰ نے خاص طورپراس گناہ کے ارتکاب سے منع فرمایاوہاں  عام طورپرگناہوں  کے ارتکاب سے بھی منع فرمایاچنانچہ ہدایت فرمائی کہ اس طرح کے تمام راستے جیسے چغل خوری،حسدوبغض ،جھوٹی گواہی ،نیک وپاک دامن عورتوں  پربہتان تراشی،زنا وغیرہ شیطان کے راستے ہیں  ان پرمت چلو،اس کے طریقوں  اور وسوسوں  کی پیروی نہ کرو،اس کے داؤپیچوں  سے ہوشیاررہو،

قَوْلِ قَتَادَةَ:كُلُّ مَعْصِیَةٍ فَهِیَ مِنْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ

قتادہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں  ہرقدم شیطان کی پیروی ہے ۔

عَنْ أَبِی مِجْلَزٍالنُّذُورُ فِی الْمَعَاصِی مِنْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ

اور ابومجلز رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں  ہرنذرشیطان کے راستہ پر چلنا ہے۔

شیطان ملعون توچاہتاہی یہی ہے کہ تم برائی ،بدکاری ،بے حیائی اوردوسرے بڑے بڑے گناہوں  کی راہ پرچلواوروہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  کیاہوا اپنادعوی سچاثابت کردکھائے ، اگراللہ تعالیٰ اپنے فضل اوررحم وکرم سے جس نے تمہیں  ہرجانب سے گھیررکھاہے تمہیں  کفروشرک کی تمیزنہ سمجھائے،تمہارے سامنے یہ احکام ،مواعظ اورجلیل القدرحکمتیں  بیان نہ کرے اوراعمال صالحہ اختیار کرنے کی توفیق عطانہ فرمائے توتم میں  سے کوئی شخص اپنے بل بوتے پر شیطان اوراس کے لشکروں  کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے کبھی نہیں  بچ سکتا،

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:لَا أَقُولُ لَكُمْ إِلَّا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: كَانَ یَقُولُ:اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْهَرَمِ، وَعَذَابِ، الْقَبْرِ اللهُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِیُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا یُسْتَجَابُ لَهَا

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  تم سے وہی کہتا ہوں  جو رسول اللہ فرمایا کرتے تھےاے اللہ میں  تجھ سے عاجز ہونے اور سستی اور بزدلی اور بخل اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں ،اے اللہ !میرے نفس کوتقویٰ عطا فرما،اسے پاک کرتوسب سے اچھاپاک کرنے والاہے،تواس کاوالی اورمولاہے، اے اللہ میں  تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں  جو نفع دینے والا نہ ہوں  اور ایسے دل سے جو ڈرنے والا نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر ہونے والا نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول ہونے والی نہ ہو۔[4]

مگریہ اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ وہ اپنی بے پایاں  حکمت ومشیت سے جسے چاہتاہے توبہ کی توفیق عطافرماکر پاکیزگی عطافرما دیتاہے اورجسے چاہتاہے ہلاکت کے گڑھے میں  پھینک دیتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۲۶ [5]

ترجمہ: جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے ۔

۔۔۔تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِیْ مَنْ تَشَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۱۵۵ [6]

ترجمہ: تو جسے چاہتا ہے گمراہی میں  مبتلا کر دیتاہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے۔

اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کی دعائیں   سننے والااوران کے تمام احوال کوجاننے والا ہے۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَ عُذْرِی قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ وَتَلَا الْقُرْآنَ، فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَیْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّهُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب قرآن میں  میری برأت نازل ہوئی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  منبرپرکھڑے ہوئے اوروہ آیتیں  پڑھیں  جب منبرپرسے اترے تو دو مردوں (مسطح رضی اللہ عنہ  بن اثاثہ اورحسان بن ثابت  رضی اللہ عنہ  )اورایک عورت (حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا )کوحدقذف لگانے کاحکم فرمایااورانہیں  حدلگائی گئی۔[7]

ان مومنوں  کوجومنافقین کے پروپیگنڈے کاشکارہوگئے تھے تو سزادے کردنیامیں  ہی پاک کردیاگیامگررئیس المانقین عبداللہ بن ابی پرحدقذف جاری نہیں  کی گئی

وَاخْتَلَفُوا فِی وَجْهِ تَرْكِهِ صَلَّى اللهُ علیه وَسَلَّمَ لِجَلْدِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیٍّ، فَقِیلَ: لِتَوْفِیرِ الْعَذَابِ الْعَظِیمِ لَهُ فِی الْآخِرَةِ  ،أَنَّهُ قَالَ:إِنَّهَا كَفَّارَةٌ لِمَنْ أُقِیمَتْ عَلَیْهِ، وَقِیلَ: تَرَكَ حَدَّهُ تَأَلُّفًا لِقَوْمِهِ وَاحْتِرَامًا لِابْنِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ مِنْ صَالِحِی المؤمنین وإطفاء لثائرة الْفِتْنَةِ

اس بات میں  اختلاف ہے کہ عبداللہ بن ابی پرحدقذف جاری نہیں  کی گئی کہاجاتاہے کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کوہی کافی سمجھ لیاگیا،  یہ بھی کہاجاتاہے یہ کفارہ تھاجن پر حد جاری کی گئی تھی، یہ بھی کہاجاتاہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کی قوم کی تالیف قلب اوراس کے بیٹے عبداللہ کے احترام میں  جوایک صالح مومن تھااوراس فتنہ سے دوررہاتھااس پرحدجاری نہیں  گئی۔[8]

اس کے علاوہ اس کے ساتھ ایک جتھہ تھااس لئے اسے سزادینے میں  کچھ ایسے خطرات تھے جن سے نمٹنااس وقت مسلمانوں  کے لئے مشکل تھااس لیے مصلحتاً اسے سزا دینے سے گریزکیاگیا۔

اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے ورنہ پچاس دنوں  تک مسلمان اس کرب وبلا،مصیبت وتکلیف میں  مبتلانہ رہتے ،نہ آپ کئی صحابیہ  رضی اللہ عنہن  اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے مشورہ لیتے،نہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے بازپرس کرتے اورنہ انہیں اس پریشانی میں  گھلنے دیتے،جیسےاللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا

قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللهُ۔۔۔۝۰۝۶۵ [9]

ترجمہ:زمین وآسمان والوں  میں  سوائے ذات باری تعالیٰ کے کوئی غیب جاننے والانہیں  ہے۔

۔۔۔فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلهِ۔۔۔۝۲۰ۧ [10]

ترجمہ:تو ان سے کہو غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے ۔

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ۔۔۔۝۰۝۵۹ [11]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں  ہیں  جنہیں  اس کے سوا کوئی نہیں  جانتا۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْۗءُ  ۔۔۔۝۱۸۸ۧ [12]

ترجمہ:اے نبی ! ان سے کہو کہ میں  اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں  رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے، اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں  بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔

حنفی مذہب کے علماء نے کھلے لفظوں  میں  اس شخص کو کافر کہا ہے جویہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غیب کاعلم جانتے تھے۔

لِأَنَّهُ اعْتَقَدَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ  عَلَیْهِ السَّلَامُ  یَعْلَمُ الْغَیْبَ وَهَذَا كُفْرٌ

جوشخص یہ عقیدہ رکھتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غیب کاعلم جانتے تھے اس نے کفرکیا۔ [13]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنْزَلْنَا فِیهَا آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ‎﴿١﴾‏ الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِی دِینِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢﴾‏(النور)
’’یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو، زنا کار عورت و مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ، ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔‘‘

زناکارکی سزا:ساراقرآن ہی اللہ تعالیٰ کانازل کردی ہے مگراس سورت میں  بیان کردہ احکام کی اہمیت کواجاگرکرنے کے لئے تمہیدکے طورپر فرمایایہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے یعنی اللہ نے نازل کیا ہےاور اس میں  بیان کردہ احکام کو ہم نے مسلمانوں  پر فرض کیا ہے جن کی پیروی کرنالازم ہےاور اس میں  ہم نے سمجھنے اورعمل کرنے کے لئے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں  شاید کہ تم سبق لو ،

عَنْ قتادة قوله: سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا،فَرَضَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِیهَا فَرَائِضَهُ، وَأَحَلَّ حَلالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، وَحَّدَ حُدُودَهُ ، وَأَمَرَ بِطَاعَتِهِ، وَنَهَى عَنْ مَعْصِیَتِهِ

قتادہ رحمہ اللہ  اس آیت کریمہ’’یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اسے ہم نے فرض کیا ہے۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے اس میں  حلال وحرام ، امرونہی ،حدود کوبیان کردیاہے۔[14]

اسلام میں  پہلےعبوری طورپربدکاری کی سزابیان کی گئی تھی

 وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللهُ لَھُنَّ سَبِیْلًا۝۱۵  [15]

ترجمہ:تمہاری عورتوں  میں  سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں  ان پر اپنے میں  سے چار آدمیوں  کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں  تو ان کو گھروں  میں  بند رکھو یہاں  تک کہ انہیں  موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا۝۳۲ [16]

ترجمہ:زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔

جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی زنا کرنے والی عورت اورزناکرنے والامردسوان میں  سے ہرایک کوسوکوڑے مارو،

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُذُوا عَنِّی، خُذُوا عَنِّی، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِیلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْیُ سَنَةٍ، وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ

عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھ سے(شرع کی باتیں ) سیکھ لو،مجھ سے سیکھ لو،اللہ تعالیٰ نے عورتوں  کے لئے راہ نکال دی ہے (بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقررفرمادی ہے) جب کنوارہ مردکنواری عورت سے زناکرے تودونوں  کوسوسو کوڑے لگاؤاورایک سال کے لئے ملک بد کر دو اوراگرشادی شدہ مرداورشادی شدہ عورت زنا کریں  تودونوں  کو سو سو کوڑے لگاؤاورپھرسنگسارکردو۔[17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُمَا قَالاَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الأَعْرَابِ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنْشُدُكَ اللهَ إِلَّا قَضَیْتَ لِی بِكِتَابِ اللهِ  ،  فَقَالَ الخَصْمُ الآخَرُ: وَهُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، نَعَمْ فَاقْضِ بَیْنَنَا بِكِتَابِ اللهِ، وَأْذَنْ لِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِی كَانَ عَسِیفًا عَلَى هَذَا  فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ ،  وَإِنِّی أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِی الرَّجْمَ، فَافْتَدَیْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ، وَوَلِیدَةٍ، فَسَأَلْتُ أَهْلَ العِلْمِ، فَأَخْبَرُونِی أَنَّمَا عَلَى ابْنِی جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِیبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  اورزیدبن خالدجہنی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کی میں  آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں  کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کردیں ،  اس کے مقابل فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھدار تھا یہ کہا کہ یہ ٹھیک کہہ رہاہے آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرمادیں  لیکن اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے اجازت دیں  تو میں  کچھ عرض کروں ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا بولو،وہ بولا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں  ملازم تھا،اس نے اس شخص کی بیوی کے ساتھ زنا کرلیامیں  نے بیٹے کی طرف سے فدیئے کے طوپر ایک سو بکریاں  اور ایک خادم دیاہے،میں  نے اہل علم حضرات سے اس بارے میں  دریافت کیا تو انہوں  نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگائے جائیں  گے اور ایک سال کے لئے جلاوطن کیا جائے گا  جبکہ اس کی بیوی کو سنگسار کردیا جائے گا

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَكُمَا بِكِتَابِ اللهِ،  الوَلِیدَةُ وَالغَنَمُ رَدٌّ وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ  وَتَغْرِیبُ عَامٍ،  اغْدُ یَا أُنَیْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا قَالَ: فَغَدَا عَلَیْهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَرُجِمَتْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کی دست قدرت میں  میری جان ہے میں  تم دونوں  کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں  گا،ایک سو بکریاں  اور خادم تمہیں  واپس مل جائیں  گے اور تمہارے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگائیں  جائیں  گےاور ایک سال کے لئے جلاوطن کیا جائے گا،اے انیس کل تم اس عورت کے پاس جانا اور اگر وہ اعتراف کرلے تو اسے رجم کردینا،انیس اس عورت کے پاس گئے تواس عورت نے اعتراف کرلیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے اسے رجم کردیا گیا۔[18]

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شادی شدہ زناکاروں  کوعملاًرجم کی سزادی اورسوکوڑے(جوچھوٹی سزاہے )بڑی سزامیں  مدغم ہوگئے اوراب شادی شدہ زناکاروں  کے لئے صرف سنگساری ہے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدخلفائے راشدین اورعہدصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں  بھی یہی سزادی گئی اور بعد میں  تمام امت کے فقہاوعلمابھی اسی کے قائل رہے اورقائل ہیں  ،صرف خوارج نے اس سزا کاانکار کیا ہے ،سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ بڑے دوراندیش تھے انہوں  نے اس مسئلہ کوبھانپ لیاتھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:أَنَّ عُمَرَ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَامَ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَیُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَیْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِیمَا أَنْزَلَ عَلَیْهِ آیَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَوَعَیْناها وَرَجمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَجمْنا بَعْدَهُ فَأَخْشَى أَنْ  یُطَولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ یَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ آیَةَ الرَّجْمِ فِی كِتَابِ اللهِ، فَیَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِیضَةٍ قَدْ أَنْزَلَهَا اللهُ، فَالرَّجْمُ فِی كِتَابِ اللهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أُحْصِنَ، مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَیِّنَةُ، أَوِ الْحَبَلُ، أَوْ الِاعْتِرَافُ

چنانچہ اس سلسلہ میں عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےسیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں  حمدوثناکے بعدفرمایااے لوگو! اللہ تعالیٰ نے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کوحق کے ساتھ بھیجااورآپ پراپنی کتاب نازل فرمائی ،اللہ تعالیٰ کی اس کتاب میں  رجم کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی ،اسے یادکیا اور اس پرعمل بھی کیا،خودرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  بھی رجم کی سزادی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدہم نے بھی رجم کیامجھے ڈرلگتاہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعدکوئی یہ نہ کہنے لگے کہ اللہ کی کتاب میں  ہم رجم کی سزاکونہیں  پاتے ، ایسانہ ہوکہ وہ اللہ کے اس فریضے کوجسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  نازل فرمایا چھوڑکر گمراہ ہوجائیں ، اللہ کی اس کتاب میں  جوزناکرے اس کی سزا رجم کا حکم مطلق حق ہے اور شادی شدہ ہوخواہ مردہویاعورت،اور اس کے زناپرشرعی دلیل ہویاحمل ہویااقرارہو۔ [19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:حَدٌّ یُعْمَلُ بِهِ فِی الْأَرْضِ، خَیْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا أَرْبَعِینَ صَبَاحًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا  حدکازمین میں  قائم ہونازمین والوں  کے لیے چالیس سال کی بارش سے بہترہے۔[20]

اوراگرتم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پرایمان رکھتے ہوتم لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی شریعت کی حدجاری کرتے ہوئے ان دونوں  زانی مردوعورت پرترس کھاکر سزا دینے سے گریز،پہلوتہی یاکمی بیشی نہیں  کرناچاہیے،

یُؤْتَى بِوَالٍ نَقَصَ مِنَ الْحَدِّ سَوْطًافَیُقَالُ لَهُ لِمَ فَعَلْتَ ذَاكَ؟ فَیَقُولُ رَحْمَةً لِعِبَادِكَ،فَیُقَالُ لَهُ أَنْتَ أَرْحَمُ بِهِمْ مِنِّی! فَیُؤْمَرُ بِهِ إِلَى النَّارِ وَیُؤْتَى بِمَنْ زَادَ سَوْطًافَیُقَالُ لَهُ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ؟فَیَقُولُ لِیَنْتَهُوا عَنْ مَعَاصِیكَ،فَیَقُولُ أَنْتَ أَحْكَمُ بِهِ مِنِّی! فَیُؤْمَرُ بِهِ إِلَى النَّارِ

قیامت کے روزایک حاکم کولایاجائے گا جس نے حدمیں  ایک کوڑاکم کردیاتھااس سے پوچھاجائے گاتم نے یہ حرکت کیوں  کی تھی ؟وہ عرض کرے گااے اللہ!آپ کے بندوں  پررحم کھاکر،اللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گااچھاتوان کے حق میں  مجھ سے زیادہ رحیم تھا!پھراللہ تعالیٰ حکم فرمائے گالے جاؤاسے اور دوزخ میں  ڈال دو،پھرایک اورحاکم کواللہ کی بارگاہ میں  پیش کیاجائے گاجس نے حدپرایک کوڑے کااضافہ کردیاتھااللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گاتونے یہ کس لیے کیا تھا؟ وہ عرض کرے گاتاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں  سے بازرہیں ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گااچھاتوان کے معاملے میں  مجھ سے زیادہ حکیم تھا!پھراللہ تعالیٰ حکم فرمائے گالے جاؤاسے اوردوزخ میں  پھینک دو۔[21]

اوردونوں  زانیوں  کو علی الاعلان سزادینی چاہیے اور مسلمانوں  کی ایک جماعت کو وہاں موجود ہونا چاہیے تاکہ حدکانفاذمشتہرہو، عوام الناس اس سے نصیحت اور عبرت حاصل کریں  اورمعاشرے میں  جولوگ برے میلانات رکھتے ہیں  وہ اس طرح کے کسی گھناؤنےجرم کی جرات نہ کرسکیں ،جیسےفرمایا

 وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللهِ۝۰ۭ وَاللهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۳۸  [22]

ترجمہ:اور چور خواہ عورت ہو یا مرد دونوں  کے ہاتھ کاٹ دو ، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ،اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔

الزَّانِی لَا یَنْكِحُ إِلَّا زَانِیَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٣﴾‏ وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٤﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿٥﴾(النور)
’’زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا، جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں، ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

زناشرک کے ہم پلہ ہے:

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ مَرْثَدَ بْنَ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیَّ كَانَ یَحْمِلُ الْأَسَارَى بِمَكَّةَ، وَكَانَ بِمَكَّةَ بَغِیٌّ یُقَالُ لَهَا: عَنَاقُ وَكَانَتْ صَدِیقَتَهُ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْكِحُ عَنَاقَ؟ قَالَ : فَسَكَتَ عَنِّی، فَنَزَلَتْ: {وَالزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ}،[23]فَدَعَانِی فَقَرَأَهَا عَلَیَّ وَقَالَ: لَا تَنْكِحْهَا

عمروبن شعیب اپنے والدسے اوروہ اپنے داداعبداللہ بن عمروسے روایت کرتے ہیں مرثدبن ابی مرثدغنوی  رضی اللہ عنہ  مکہ مکرمہ سے(مسلمان)قیدیوں  کواٹھاکرلایاکرتے تھے ، اورمکہ مکرمہ میں  ایک بدکار عورت تھی جس کانام عناق تھا اوروہ (قبل ازاسلام)اس کی آشناتھی،فرماتے ہیں  کہ میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  عناق سے شادی کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اس کاکوئی جواب نہ دیاتب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی’’بدکارعورت سے کوئی بدکارمردیامشرک ہی نکاح کرتاہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے بلوایااورمجھ پریہ آیت پڑھی اورفرمایااس سے نکاح مت کرو۔[24]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ استأذنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی امْرَأَةٍ یُقَالُ لَهَا:أَمُّ مَهْزُولٍ،كَانَتْ تُسَافِحُ   وَتَشْتَرِطُ لَهُ أَنْ تُنْفِقَ عَلَیْهِ ، قَالَ: فَقَرَأَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ}[25]

اسی طرح ایک اورواقعہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مردنے ایک عورت سے نکاح کے لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اجازت مانگی جس کوام مہزول کہاجاتاتھاجوقحبہ گری کاپیشہ کرتی تھی اور اس نے شادی کے لیے اپنے خاوند کے اخراجات کی حامی بھری تھی، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  یہی آیت پڑھ کرسنائی ’’ زانی نکاح نہ کرے مگرزانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگرزانی یامشرک،اوریہ حرام کردیاگیاہے اہل ایمان پر۔‘[26]

اہل ایمان کومتنبہ کیاگیاکہ زانی نکاح نہ کرے مگرزانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ،اورزانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگرزانی یامشرک،اور اہل ایمان مرد پرزانیہ عورت اورعفیفہ اورپاک دامن عورتوں  کازانی مرد سے نکاح حرام کردیا گیا ہے ، جیسے ایک مقام پرفرمایاکہ جن عورتوں  سے نکاح کروان میں  تین اوصاف ہونے چاہئیں

۔۔۔ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ فَانْكِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِهِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ  مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ۔۔۔ ۝۰۝۲۵ۧ [27]

ترجمہ: تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہولہٰذا ان کے سرپرستوں  کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کر دو تاکہ وہ حصارِ نکاح میں  محفوظ (محصنات) ہو کر رہیں  ، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں  اور نہ چوری چھپے آشنائیاں  کریں ۔

اوریہی تینوں  وصف مردوں  میں  بھی ہونے کابیان کیاگیاہے

۔۔۔وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ۔۔۔۝۰۝۵ۧ [28]

ترجمہ: اور محفوظ عورتیں  بھی تمہارے لیے حلال ہیں  خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں  یا ان قوموں  میں  سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں  ان کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں  کرو ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبیِدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِی امْرَأَةً هِیَ مِنْ أحبِّ النَّاسِ إِلَیَّ  وَهِیَ لَا تَمْنَعُ یَدَ لامِس،قَالَ: طَلِّقْهَاقَالَ: إِنِّی أُحِبُّهَا وَهِیَ جَمِیلَةٌ،قَالَ:اسْتَمْتِعْ بِهَا

عبداللہ بن عبیدبن عمیرسے روایت ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیامجھے اپنی بیوی سے بہت محبت ہے لیکن اس کی یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کوواپس نہیں  لوٹاتی  (چھیڑچھاڑکرنے والے کو نہیں  روکتی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااسے طلاق دے دو،اس نے کہاوہ بہت خوبصورت ہے اور میں  اس سے بہت محبت کرتا ہوں اس کی جدائی میں  برداشت نہیں  کرسکتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھرجااوراس سے فائدہ اٹھا۔[29]

عَنْ عَمَّارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ دَیُّوث

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص دیوث ہو(یعنی جسے معلوم ہوکہ اس کی بیوی بدکارہے اوروہ بے غیرت شخص یہ جان کربھی اس کاشوہربنارہے )وہ جنت میں  داخل نہیں  ہوسکتا ۔[30]

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ قَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَیْهِمُ الْجَنَّةَ: مُدْمِنُ الْخَمْرِ، وَالْعَاقُّ، وَالدَّیُّوثُ ، الَّذِی یُقِرُّ فِی أَهْلِهِ الْخَبَثَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتین لوگوں  پرجنت حرام کردی گئی ہے،ہمیشہ شراب پینے والااورماں  باپ کانافرمان اوردیوث جواپنے گھروالوں  میں  خبائث کو برقرار رکھتاہے۔  [31]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثَلَاثٌ لَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، وَلَا یَنْظُرُ اللَّهُ إِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: الْعَاقُّ بِوَالِدَیْهِ، وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ الْمُتَشَبِّهَةُ بِالرِّجَالِ ، وَالدَّیُّوثُ،

عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتین قسم کے لوگ جنت میں  داخل نہیں  ہوں  گےاوران کی طرف اللہ تعالیٰ نظررحمت سے نہیں  دیکھے گاماں  باپ کا نافرمان ،وہ عورتیں  جومردوں  کی مشابہت کریں اوردیوث۔[32]

اور قذف یعنی بہتان تراشی کی سزابیان فرمائی جو لوگ عفیفہ ، پاک دامن عورتوں  پرزناکی تہمت لگائیں (اسی طرح جوعورت کسی صالح مردپرزناکی تہمت لگائے) پھراپنی سچائی میں  چشم دیدچار عادل اور معتبرگواہ لے کرنہ آئیں  جویہ گواہی دیں  گے کہ انہوں  نے ملزم اورملزمہ کوعین مباشرت کی حالت میں  دیکھاہے

رَأَیْنَاهُ وَطئهَا فِی فَرْجِهَاكَالْمِیلِ فِی الْمُكْحُلَةِ وَالرَّشَا فِی الْبِئْرِ

یعنی ہم نےعورت کے فرج میں  مردکے آلہ تناسل کواس طرح دیکھا جیسے سرمہ دانی میں  سلائی اورکنوئیں  میں  رسی۔[33]

توان کوسزاکے طورپراسی کوڑے مارواوران کی شہادت کبھی قبول نہ کروخواہ اس پرحدقذف جاری کیوں  نہ کردی گئی ہواوروہ خودہی فاسق ہیں ، البتہ سزاپانے کے بعد جولوگ نادم ہوکرخلوص نیت سےتائب ہوجائیں  اوراپنی اصلاح کرلیں  تو وہ فاسق نہیں  رہیں  گے اوراللہ تعالیٰ انہیں  معاف فرمادے گا۔

وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٦﴾‏ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَیْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٧﴾‏ وَیَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٨﴾‏ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَیْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٩﴾‏ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِیمٌ ‎﴿١٠﴾(النور)
’’ جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو، اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہےاور پانچویں دفع کہے کہ اس پر اللہ کا عذاب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نہ ہوتا (تو تم پر مشقت اترتی)اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والاباحکمت ہے۔‘‘

لعان:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ:أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ رَجُلًا رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَیَقْتُلُهُ ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَیْفَ یَفْعَلُ؟

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ساعدی سے مروی ہےایک شخص (عویمر رضی اللہ عنہ )رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ایسے شخص کے متعلق آپ کاکیاارشادہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیرمردکودیکھاہوکیاوہ اسے قتل کردے؟لیکن پھرآپ قصاص میں  قاتل کوقتل کردیں  گے ،پھراسے کیا کرنا چاہیے ؟ ۔[34]

کیونکہ ابھی تک کوئی ایساواقع نہیں  ہواتھااس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ سوال ناگوارگزرا، پھربعض ایسے واقعات پیش آئےجو ان آیات کے نزول کاسبب بنے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ: {وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا}، [35] قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَیِّدُ الْأَنْصَارِ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ یَا رَسُولَ اللهِ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَا تَسْمَعُونَ مَا یَقُولُ سَیِّدُكُمْ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، لَا تَلُمه فَإِنَّهُ رَجُلٌ غَیُورٌ، وَاللهِ مَا تَزَوَّجَ امْرَأَةً قَطّ إِلَّا بِكْرًا، وَمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ قَطُّ فَاجْتَرَأَ رَجُلٌ مِنَّا أَنْ یَتَزَوَّجَهَا، مِنْ شِدَّةِ غَیْرَتِهِ،فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ  إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّهَا حَقٌّ وَأَنَّهَا مِنَ اللهِ، وَلَكِنِّی قَدْ تعجَبت أَنِّی لَوْ وَجَدْتُ لَكاعًا قَدْ تَفَخَّذها رَجُلٌ، لَمْ یَكُنْ لِی أَنْ أَهِیجَهُ وَلَا أُحَرِّكَهُ حَتَّى آتِیَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ،  فَوَاللهِ لَا آتِی بِهِمْ حَتَّى یَقْضِیَ حَاجَتَه

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب یہ آیت’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں  پر تہمت لگائیں  پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ، ان کو اسّی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔‘‘ نازل ہوئی توسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ جوانصارکے سردارتھے کہنے لگے اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیایہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے؟  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے انصارکے گروہ !کیاتم سنتے ہوکہ تمہاراسردارکیاکہہ رہاہے؟انہوں  نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان سے درگزرفرمائیں  یہ صرف ان کی بڑھی چڑھی غیرت کاباعث ہے اورکچھ نہیں  ،ان کی غیرت کاتویہ حال ہے کہ انہیں  کوئی شخص اپنی بیٹی دینے کوتیارنہیں  ہے،سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میرایہ ایمان ہے کہ یہ حق ہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن اگرمیں  اس کمینی عورت کودیکھوں  کہ اس کی رانوں  کے درمیان ایک شخص بیٹھاہواہوتوجب تک چارگواہ نہ لے آؤں  مجھے اسے ڈرانے،دھمکانے اوردورہٹانے کاکوئی حق ہی نہیں  ہےیہاں  تک کہ میں  چارگواہ لاؤں ،اللہ کی قسم !جب تک میں  چارگواہ لے کرآؤں  تب تک تووہ اپنی ضرورت پوری کرکے جا چکا ہوگا،

قَالَ: فَمَا لَبِثُوا إِلَّا یَسِیرًا حَتَّى جَاءَ هِلَالُ بْنُ أُمَیَّةَ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ تِیبَ عَلَیْهِمْ، فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عِشَاءً،فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلًا فَرَأَى بِعَیْنَیْهِ وَسَمِعَ بِأُذُنَیْه  فلم یُهَیّجه حَتَّى أَصْبَحَ، فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی جِئْتُ أَهْلِی عِشَاءً، فوجدتُ عِنْدَهَا رَجُلًا فَرَأَیْتُ بِعَیْنِی، وَسَمِعْتُ بِأُذُنِی فَكَرِهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا جَاءَ بِهِ، وَاشْتَدَّ عَلَیْهِ

ابھی کچھ ہی دیرہوئی تھی کہ بلال بن امیہ رضی اللہ عنہ  تشریف لائے یہ ان تین اشخاص میں  سے ایک ہیں  جن کی توبہ قبول ہوئی تھی،یہ اپنے کھیتوں  سے رات کو دیرسے واپس آئے گھرآکردیکھاکہ ان کی بیوی کے پاس ایک غیرمردموجودہے اورانہوں  نے خوداپنی آنکھوں  سے تمام معاملہ دیکھااوراپنے کانوں  سے ان کی باتیں  سنیں  مگروہ طیش میں  نہ آئے، وہ صبح صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئےاورعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  رات گھردیرسے پہنچاتومیں  نے اپنی بیوی کے پاس ایک غیر مرد کودیکھااورمیں  نے انہیں  زناکرتے اپنی آنکھوں  سے دیکھااوراپنے کانوں  سے سناہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ واقعہ بہت برالگااورآپ کی طبیعت پرنہایت شاق گزرا

وَاجْتَمَعَتِ الْأَنْصَارُ فَقَالُوا : قَدِ ابْتُلِینَا بِمَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، الْآنَ یَضْرِبُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هلالَ بْنَ أُمَیَّةَ، ویبْطل شَهَادَتَهُ فِی الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ هِلَالُ: وَاللهِ إِنِّی لَأَرْجُوَ أَنْ یَجْعَلَ اللهُ لِی مِنْهَا مَخْرَجًاوَقَالَ هِلَالُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی قَدْ أَرَى مَا اشْتَدَّ عَلَیْكَ مِمَّا جِئْتُ بِهِ، وَاللهُ یَعْلَمُ إِنِّی لَصَادِقٌ

یہ واقعہ سن کرسب انصارجمع ہوگئے اورکہنے لگے سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ  کے قول کی وجہ سے ہم اس آفت میں  مبتلاکئے گئے ہیں  مگراس صورت میں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہلال بن امیہ پرحدقذف لگائیں  اورمسلمانوں  میں اس کی شہادت کومردودٹھیرائیں ،ہلال  رضی اللہ عنہ کہنے لگے واللہ!میں  سچ کہہ رہاہوں  اورمجھے اللہ تعالیٰ سے قوی امیدہے کہ وہ اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت ضرورپیدافرمادے گا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مخاطب ہو کرکہنے لگے اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  دیکھتاہوں  کہ میری بات آپ کی طبیعت پرنہایت گراں  گزری ہے،اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم میں  سچ کہہ رہا ہوں  اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے ،

فَوَاللهِ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ أَنْ یَأْمُرَ بِضَرْبِهِ، إِذْ أَنْزَلَ اللهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْیَ -وَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَیْهِ الْوَحْیُ عَرَفُوا ذَلِك ، فِی تَرَبُّد وَجْهِهِ  حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْوَحْیِ فَنَزَلَتْ: {وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ}، [36] الْآیَةَ كُلَّها، فَسُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:أَبْشِرْ یَا هِلَالُ، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا فَقَالَ هِلَالٌ: قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَلِكَ مِنْ رَبِّی، عَزَّ وَجَل، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أرسلوا إلیها فَأَرْسَلُوا إِلَیْهَا، فَجَاءَتْ،فَتَلَاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِمَافَتَلَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِمَا،

لیکن کیونکہ چارگواہ پیش نہیں  کرسکتے تھے اس لئے قریب تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں  حدقذف مارنے کاحکم فرماتے کہ اتنے میں  وحی نازل ہوناشروع ہوئی،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی علامات کودیکھ کر پہچان لیاکہ اس وقت وحی نازل ہورہی ہے جب وحی نازل ہوچکی،’’ اور جو لوگ اپنی بیویوں  پر الزام لگائیں  اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں  تو ان میں  سے ایک شخص کی شہادت( یہ ہے کہ) وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ( اپنے الزام میں ) سچا ہے،اور پانچویں  بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ( اپنے الزام میں ) جھوٹا ہو ۔‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہلال  رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کرفرمایا اے ہلال رضی اللہ عنہ !خوش ہوجاؤاللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشادگی اورنکلنے کاراستہ نازل فرمادیا ہے،ہلال  رضی اللہ عنہ کہنے لگے مجھے اللہ عزوجل کی ذات سے یہی امیدتھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہلال  رضی اللہ عنہ کی بیوی کویہاں لے آؤ، لوگ اس کے پاس گئے اوراسے آپ کی خدمت میں  لے آئے، پھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےان دونوں  کے سامنے آیت’’اور جو لوگ اپنی بیویوں  پر الزام لگائیں  اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں  تو ان میں  سے ایک شخص کی شہادت(یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ(اپنے الزام میں ) سچا ہے ۔‘‘ تک  پڑھ کرسنائی ،یعنی شوہراگراپنی عفیفہ، بالغہ، آزاد اورمسلمان بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور مقدمہ قاضی کی عدالت میں  لے جائے توزناکی حدکے اثبات کے لئے قاضی اس مردسے چارعادل ، معتبراورعینی گواہوں کی شہادت بطورثبوت طلب کرے گا،اگرشوہرگواہ پیش کرنے سے قاصررہے تووہ دونوں لعان کرلیں ،یعنی چارگواہوں  کے قائم مقام چارمرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکرکہےکہ میں  اپنے اس دعویٰ میں  سچاہوں  اورپانچویں  مرتبہ کہے گاکہ اگرمیں  اپنی بیوی پرزناکاالزام لگانے میں  جھوٹاہوں  تواللہ کی مجھ پرلعنت ہو،اب اگرعورت اپنے آپ کوپاک سمجھتی ہے تواس کوبھی چاربارکہے گی کہ واللہ اس الزام تراشی میں  میرا شوہر جھوٹاہے اورپانچویں  بارکہے کہ اگرمیراشوہراس الزام لگانے میں  سچاہے تو مجھ پراللہ کاغضب ہو،اس صورت میں  وہ زنا کی حدسے بچ جائے گی ،اس کو شریعت کی اصطلاح میں  لعان کہتے ہیں  کیونکہ دونوں  مردوعورت اللہ کی قسم کھاکرخودکومستحق لعنت قراردیتے ہیں  ۔

وَذَكَّرَهُمَا وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عذابَ الْآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْیَا ، فَقَالَ هِلَالٌ: وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ صَدَقتُ عَلَیْهَا فَقَالَتْ: كَذَبَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَاعِنُوا بَیْنَهُمَا، فَقِیلَ لِهِلَالٍ: اشْهَدْ. فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لِمَنَ الصَّادِقِینَ،فَلَمَّا كَانَ فِی الْخَامِسَةِ قِیلَ لَهُ: یَا هِلَالُ، اتَّقِ اللهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أهونُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ،وَإِنَّ هَذِهِ الموجبةُ الَّتِی تُوجِبُ عَلَیْكَ الْعَذَابَ، فَقَالَ: وَاللهِ لَا یُعَذِّبُنِی اللهُ عَلَیْهَا، كَمَا لَمْ یَجْلِدْنِی عَلَیْهَافَشَهِدَ فِی الْخَامِسَةِ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَیْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِینَ

اوردونوں  کونصیحت کی اورخبردارکیاکہ آخرت کاعذاب دنیاکے عذاب سے بہت سخت ہے،ہلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس کے بارے میں  سچ کہہ رہاہوں ،اس عورت نے کہایہ جھوٹ بول رہا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تو پھر تم دونوں لعان کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہلال  رضی اللہ عنہ سے فرمایااللہ کی قسم اٹھاکرچارمرتبہ کہوکہ میں  نے جوکہاہے اس میں سچا ہوں ،جب ہلال رضی اللہ عنہ چارمرتبہ کہے چکے اورپانچویں  بارکی نوبت آئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  کہااے ہلال رضی اللہ عنہ !اللہ سے ڈرو دنیاکا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکاہے،پانچویں  بارتیری زبان سے یہ قسم نکلتے ہی تجھ پراللہ کاعذاب واجب ہوجائے گاہلال  رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم !جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے میری صداقت کی وجہ سے دنیاکی سزاسے بچایااسی طرح میری سچائی کی وجہ سے آخرت کے عذاب سے بھی مجھے محفوظ رکھے گااورپھرپانچویں  مرتبہ کے الفاظ بھی کہ اگر میں  جھوٹوں  میں  سے ہوں  تومجھ پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو زبان سے ادا کردیئے،

ثُمَّ قِیلَ لَهَا اشْهَدِی أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لِمَنَ الْكَاذِبِینَ،فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قِیلَ]  لَهَا: اتَّقِی اللهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الموجبةُ الَّتِی تُوجِبُ عَلَیْكَ الْعَذَابَ،فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً  ثُمَّ قَالَتْ: وَاللهِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِی فَشَهِدَتْ فِی الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَیْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ، فَفَرَّقَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُمَا، وَقَضَى أَلَّا یُدْعَى وَلَدُهَا لِأَبٍ وَلَا یُرْمَى وَلَدُهَاوَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَیْهِ الْحَدُّ وَقَضَى أَلَّا بَیْتَ لَهَا عَلَیْهِ وَلَا قُوتَ لَهَا، مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا یَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَیْرِ طَلَاقٍ، وَلَا مُتَوَفى عَنْهَا

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس عورت سے کہاتوچارمرتبہ اللہ کی قسم اٹھاکرکہہ کہ یہ جھوٹوں  میں  سےہےجب وہ چاروں  قسمیں  کھاچکی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے پانچویں  دفعہ کے کلمہ کہنے سے روکااورفرمایااللہ سے ڈرو دنیاکا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے پانچویں  بارتیری زبان سے یہ قسم نکلتے ہی تجھ پراللہ کاعذاب واجب ہوجائے گا ، تووہ عورت کچھ دیرکے لئے جھجکی،پھرکہنے لگی میں  ہمیشہ کے لئے اپنی قوم کورسوانہیں  کروں  گی اورپھرپانچویں  باراپنی زبان سے کہہ دیاکہ اگراس کاخاوندسچوں  میں  سے ہوتومجھ پراللہ تعالیٰ کاغضب نازل ہو،پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں  میں  جدائی کرادی اورحکم فرمایاکہ اس عورت سے جو اولاد پیدا ہو اسے ہلال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب نہ کیاجائےاورنہ اسے حرام کی اولادکہاجائےاورجوشخص اس بچہ کوحرامی کہے گایااس عورت پرتہمت رکھے گااس پرحدلگائی جائے گی، اوریہ بھی فرمایاکہ اس کانان ونفقہ اس کے خاوندپرنہیں  ہے کیونکہ جدائی کردی گئی ہے ،نہ طلاق ہوئی ہے اورنہ خاوندکاانتقال ہواہے،

وَقَالَ:إِنْ جَاءَتْ بِهِ أصَیْهِب أرَیسح حَمْش السَّاقِینَ فَهُوَ لِهِلَالٍ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعدًا جَمَالیًّا خَدلَّج السَّاقَیْنِ سَابِغَ الْأَلْیَتَیْنِ، فَهُوَ الَّذِی رُمِیَتْ بِهِ، فَجَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جَمَالِیًّا خَدَلَّجَ السَّاقَیْنِ سَابِغَ الْأَلْیَتَیْنِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْلَا الْأَیْمَانُ لَكَانَ لِی وَلَهَا شَأْنٌ

اورفرمایااگریہ بچہ سرخ وسفیدرنگ ، موٹی پنڈلیوں  والاپیداہوتواسے ہلال رضی اللہ عنہ کابچہ سمجھنااوراگرپتلی پنڈلیوں  والا،سیاہی مائل رنگ کابچہ پیداہوتواس شخص کاسمجھناجس کے ساتھ اس پرالزام لگایاکیاگیاہے،جب بچہ پیداہواتولوگوں  نے دیکھاوہ پتلی پنڈلیوں  والااورسیاہی مائل رنگت والاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگریہ مسئلہ قسموں  پرطے شدہ نہ ہوتاتومیں  اس عورت پرحدلگاتا۔[37]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَیَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بشَرِیك بْنِ سَحْماء

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہلال بن امیہ  رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی تھی۔[38]

قَالَ: فَأُنْزِلَ آیَةُ اللِّعَانِ،فَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوَّلَ مَنِ ابْتُلِیَ بِهِ

اورجب لعان کی آیات نازل ہوئیں  تو سب سے پہلا لعان ہلال رضی اللہ عنہ اوران کی بیوی کے درمیان ہواتھا ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،فَرَّقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَخَوَیْ بَنِی العَجْلاَنِ ،فَقَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلاَعِنَیْنِ: حِسَابُكُمَا عَلَى اللهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لاَ سَبِیلَ لَكَ عَلَیْهَا قَالَ: مَالِی؟قَالَ:لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَیْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں  بیوی میں (لعان کی وجہ سے) جدائی کرائی تھی، اورلعان کرنے والے جوڑے کومخاطب ہوکرفرمایاتمہاراحساب تواللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے تم میں  سے ایک یقیناً جھوٹاہےاب تمہیں  تمہاری بیوی پرکوئی اختیارنہیں ،ان صحابی  رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیرامال (جومیں  نے حق مہرمیں  دیاتھا)مجھے واپس کرادیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااب وہ تمہارامال نہیں  ہے اگرتم اس معاملہ میں  سچے ہوتوتمہارایہ مال اس کے بدلے میں  ختم ہوچکاکہ تم نے اس کی شرمگاہ کوحلال کیاتھااوراگرتم نے اس پرجھوٹی تہمت لگائی تھی توپھرتووہ تم سے اوربھی زیادہ دورچلاگیا۔[39]تم لوگوں  پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں  پر الزام کا معاملہ تمہیں  بڑی پیچیدگی میں  ڈال دیتا )

وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ یُؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِینَ وَالْمُهَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۖ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿٢٢﴾‏( النور)
’’تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیے بلکہ معاف کردینااوردرگزرکرلیناچاہیے، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے ؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والامہربان ہے۔‘‘

وَكَانَ یُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ،وَاللهِ لَا أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَیْئًا أَبَدًا

مسطح  رضی اللہ عنہ  مسکین محتاج تھےاور واقعہ افک سے پہلے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ صدیق، مسطح  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رشتے داری(خالہ کے بیٹے) کی وجہ سے ان کی مالی معاونت کیاکرتے تھے،لیکن مسطح رضی اللہ عنہ نے نہ تورشتہ داری کاخیال کیااورنہ ہی سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے مالی معاونت کالحاظ کیاتھااورمنافقین کے پروپیگنڈا کا شکارہوکربڑھ بڑھ کر ان کی زبان بولنے لگے تھے ، مسطح  رضی اللہ عنہ بن اثاثہ کی بہتان طرازی پرسیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے غصہ سے فرمایااللہ کی قسم!اب میں  مسطح  رضی اللہ عنہ  پر کبھی بھی کچھ بھی خرچ نہیں  کروں  گایعنی اسے ایک کوڑی بھی نہیں  دوں  گا۔

اس پریہ آیت نازل ہوئی کہ بزرگی اوروسعت والے مسلمانوں  کواس سے قسم نہ کھانی چاہیے کہ وہ قرابت داروں  اورمسکینوں  اوراللہ کی راہ کی راہ میں  ہجرت کرنے والوں  سے سلوک واحسان نہ کریں  گے بلکہ انہیں  معافی اورچشم پوشی سے کام لیناچاہیے،تم لوگوں  سے بھی بشری تقاضے سے غلطیاں  اورکوتاہیاں  سرزدہوجاتی ہیں  توکیاتم اللہ تعالیٰ سے اپنی لغزشوں  کو معاف نہیں  کرانا چاہتے،سنو!اللہ تعالیٰ توخودبندوں  کے گناہوں  کوبخشنے والااوران پررحیم ہے، اس آیت کوسنتے ہی سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ  نے اپنی گردن جھکادی

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللهِ إِنِّی لَأُحِبُّ أَنْ یَغْفِرَ اللهُ لِی  ،ثُمَّ رَجَع إِلَى مِسْطَحٍ مَا كَانَ یَصِلُهُ مِنَ النَّفَقَةِ،وَقَالَ: وَاللهِ لَا أَنْزِعُهَا عَنْهُ أَبَدًا

  اوربے ساختہ جواب دیااللہ کی قسم! میری عین چاہت ہے کہ اللہ مجھے بخش دے، پھرمسطح  رضی اللہ عنہ کوجوروزینہ دیاکرتے تھے جاری کردیااورفرمایااللہ کی قسم! میں  اب کبھی بھی اس کامقررہ روزینہ بندنہ کروں  گا۔[40]

فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ مِثْلَمَا كَانَ یُنْفِقُ عَلَیْهِ

ایک روایت میں  ہےاور جوآپ دیاکرتے تھے اس سے دگنادیناشروع کردیا۔[41]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۝۲۲۵ [42]

ترجمہ:جو بے معنی قسمیں  تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو ، ان پر اللہ گرفت نہیں  کرتا مگر جو قسمیں  تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا ، اللہ بہت در گزر کرنے والا اور برد بار ہے۔

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ۔۔۔ ۝۸۹ [43]

ترجمہ:تم لوگ جو مہمل قسمیں  کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں  کرتا، مگر جو قسمیں  تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ، فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، فَلْیَأْتِهَا، وَلْیُكَفِّرْ عَنْ یَمِینِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے کسی بات کی قسم کھالی ہواورپھراسے معلوم ہوکہ دوسری بات اس سے بہترہے اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جوبہترہے اوراپنی قسم کاکفارہ اداکردے۔[44]

چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے دس مسکینوں  کوکھانا کھلا کر اپنی قسم کاکفارہ اداکیا۔

إِنَّ الَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿٢٣﴾‏ یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَیْدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیهِمُ اللَّهُ دِینَهُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِینُ ‎﴿٢٥﴾‏ الْخَبِیثَاتُ لِلْخَبِیثِینَ وَالْخَبِیثُونَ لِلْخَبِیثَاتِ ۖ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا یَقُولُونَ ۖ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ ‎﴿٢٦﴾‏(النور)
’’جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ،اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے (اور وہی) ظاہر کرنے والا ہے، خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں، اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں، ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت والی روزی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے عفت مآب عورتوں  پربہتان لگانے والوں  کوسخت وعیدسناتے ہوئے فرمایاجولوگ فسق وفجورسے پاکدامن اوربدچلنی سےبے خبرمومن عورتوں  پرتہمتیں  لگاتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیااورآخرت میں  اپنی رحمت سے دورکردیاہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {إِنَّ الَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ } قَالَ  : نَزَلَتْ فِی عَائِشَةَ خَاصَّةً

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  اس آیت کریمہ’’جو لوگ پاک دامن، بےخبر مومن عورتوں  پر تہمتیں  لگاتے ہیں  ان پر دنیا اور آخرت میں  لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ کے بارے میں  کہتے ہیں  یہ خاص طورپرام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کے بارے میں  نازل ہوئی تھی۔[45]

وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ، رَحِمَهُمُ اللهُ، قَاطِبَةً عَلَى أَنَّ مَنْ سَبَّها بَعْدَ هَذَا وَرَمَاهَا بِمَا رَمَاهَا بِهِ [بَعْدَ هذاالَّذِی ذُكِرَ] فِی هَذِهِ الْآیَةِ، فَإِنَّهُ كَافِرٌ لِأَنَّهُ مُعَانِدٌ لِلْقُرْآنِ، وَفِی بَقِیَّةِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِینَ قَوْلَانِ: أَصَحُّهُمَا أَنَّهُنَّ كَهِیَ

کیونکہ ان آیات کے نزول کاسبب ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کاواقعہ افک ہے اس لئےتمام علماء  رحمہ اللہ کااس بات پراجماع ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعداگرکوئی ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کوگالی دے یاآپ پراس طرح کاکوئی بہتان لگائے جس کاان آیات میں  ذکرکیاگیاہے تووہ کافرہے  کیونکہ وہ قرآن کامخالف ہےاور دیگرتمام امہات المومنین کے بارے میں  بھی یہی حکم ہے۔[46]

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ: هَذَا فِی عَائِشَةَ،  وَمَنْ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا أَیْضًا الْیَوْمَ فِی الْمُسْلِمَاتِ، فَلَهُ مَا قَالَ اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ، وَلَكِنْ عَائِشَةُ كَانَتْ إمامَ ذَلِكَ

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم کہتے ہیں  یہ آیت ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  پربہتان لگانے والوں  کے لیے نازل ہوئی تھی، اورآج بھی اگرکوئی مسلمان عورتوں  کے بارے میں  اس طرح شنیع حرکت کرے تواس کے لیے بھی یہی حکم ہے جواللہ عزوجل نے بیان فرمایاہے لیکن عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  پہلی (عورت)ہیں  جن کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی تھی۔[47]

اورقیامت کے روزان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا۝۵۷ [48]

ترجمہ:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اذیت دیتے ہیں  ان پر دنیا اور آخرت میں  اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الیَتِیمِ، وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسات مہلک گناہوں  سے بچو (جوانسان کو دنیا و آخرت میں  ہلاک کر ڈالنے والے ہیں ،انفرادی اوراجتماعی زندگی میں  ان سے ازحدپرہیزکرناواجب ہےجن کامرتکب اگربغیرتوبہ کے مرگیاتویقیناًوہ ہلاک ہوگیایعنی جہنم رسید ہوا)صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے پوچھااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون سے گناہ ہیں  ؟فرمایااللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنااور جادوکرنا(یاکرانا)کسی کوناحق قتل کردیناجسے اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیاہے اورسودکھانااوریتیم کامال ہڑپ کرجانااورجہادکے دن (کافروں  کا سامنا کرنے سے)پشت پھیرکر بھاگ جانااورپاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں  پرتہمت لگانا۔[49]

کبیرہ گناہوں  کی تعدادان سات پرختم نہیں  ہے اوربھی بہت سے گناہ اس ذیل میں  بیان کیے گئے ہیں ۔

عَنْ حُذَیْفَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَذْفُ الْمُحْصَنَةِ یَهْدِمُ عَمَلَ مِائَةِ سَنَةٍ

حذیفہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپاک دامن عورتوں  پرزنا کی تہمت لگانے والے کی سوسال کی نیکیاں  غارت ہوجاتی ہیں ۔[50]

ایسے لوگ میدان محشرمیں  اللہ کے حضوراپنی پیشی کوبھول نہ جائیں  جبکہ ان کی اپنی زبانیں  اوران کے اپنے ہاتھ پاؤں  یعنی ہرعضو ان کے اعمال کی گواہی دیں  گے ،جیسےفرمایا

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ [51]

ترجمہ:آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں  ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں  گے اور ان کے پاؤں  گواہی دیں  گے کہ یہ دنیا میں  کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰ [52]

ترجمہ:پھر جب سب وہاں  پہنچ جائیں  گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں  اور ان کے جسم کی کھالیں  ان پر گواہی دیں  گی کہ وہ دنیا میں  کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّهُمْ یَعْنِی:الْمُشْرِكِینَ إِذَا رَأَوْا أَنَّهُ لَا یَدْخُلُ إِلَّا أَهْلُ الصَّلَاةِ  قَالُوا: تَعَالَوْا فَلْنَجْحَدْ فَیَجْحَدُونَ، فَیُخْتَمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ، وَتَشْهَدُ أَیْدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ، وَلَا یَكْتُمُونَ اللهَ حَدِیثًا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے مشرکین جب یہ دیکھیں  گے کہ جنت میں  نمازی ہی داخل ہورہے ہیں تووہ کہیں  گے کہ آؤہم اپنی بداعمالیوں  کاانکارکردیں ، پس وہ انکارکردیں  گے،  تواللہ تعالیٰ ان کے مونہوں  پرمہرلگادے گاپھران کے ہاتھ اورپاؤں  گواہی دیں  گے اوروہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات بھی چھپانہ سکیں  گے۔[53]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ عُیِّرَ الْكَافِرُ بِعَمَلِهِ فَجَحَدَ وَخَاصَمَ، فَیُقَالُ لَهُ: جِیرَانُكَ یَشْهَدُونَ عَلَیْكَ، فَیَقُولُ: كَذَبُوا، فَیُقَالُ: أَهْلُكُ وَعَشِیرَتُكَ، فَیَقُولُ: كَذَبُوا، فَیُقَالُ: احْلِفُوا، فَیَحْلِفُونَ ثُمَّ یُصْمِتُهُمُ اللَّهُ، وَیَشْهَدُ عَلَیْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ فَیُدْخِلُهُمُ النَّارَ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب کفارکے سامنے ان کی بداعمالیاں  پیش کی جائیں  گی تووہ اس کاسرے سے ہی انکار کردیں  گے اوراپنی بے گناہی اور جھگڑابیان کریں  گے،   توان سے کہاجائے گایہ تمہارے پڑوسی تمہارے خلاف گواہی دے رہے ہیں ،کفارکہیں  گے یہ سب جھوٹے ہیں ، تواللہ تعالیٰ فرمائے گااچھاتوخودتمہارے کنبے قبیلے کے لوگ موجودہیں ،کفاران کے بارے میں  بھی یہی کہیں  گے یہ بھی جھوٹے ہیں ، تواللہ تعالیٰ فرمائے گااچھاتم اپنی بے گناہی کی قسمیں  کھاؤ ،  کفارقسمیں  بھی کھاجائیں  گے، پھراللہ تعالیٰ انہیں  گونگابنادے گاپھران کے ہاتھ پاؤں  ان کی بداعمالیوں  کی گواہی دیں  گے اورپھرانہیں  جہنم میں  پھینک دیا جائے گا۔[54]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَضْحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجذُه،ثُمَّ قَالَ: أَتُدْرُونَ  مِمَّ أَضْحَكُ؟قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،قَالَ:مِنْ مُجَادَلَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُولُ: یَا رَبِّ، أَلَمْ تُجِرْنی مِنَ الظُّلْمِ؟ فَیَقُولُ: بَلَى،فَیَقُولُ: لَا أُجِیزُ علیَّ شَاهِدًا إِلَّا مِنْ نَفْسِی،فَیَقُولُ:كَفَى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ شَهِیدًا، وَبِالْكِرَامِ عَلَیْكَ شُهُودًا  فَیُخْتَمُ عَلَى فِیهِ، وَیُقَالُ لِأَرْكَانِهِ: انْطِقِی فَتَنْطِقُ بِعَمَلِهِ، ثُمَّ یُخَلِّی بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْكَلَامِ، فَیَقُولُ: بُعدًا لَكُنّ وسُحْقًا، فعنكُنَّ كنتُ أُنَاضِلُ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے تھے اتنے میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہنسےیہاں  تک کہ آپ کے مسوڑے نظرآنے لگے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جانتے ہومیں  کیوں  ہنسا؟ہم نے کہااللہ اوراس کا رسول خوب جانتاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  بندے کی اس گفتگوپرہنساہوں  جوروزقیامت وہ اپنے رب سے کرے گا،بندہ کہے گا اے میرے رب!کیاتومجھے ظلم سے پناہ نہیں  دے چکا(یعنی تونے وعدہ کیاہے کہ ظلم نہیں  کروں  گا)اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیوں  نہیں ، فرمایاپھربندہ کہے گااے میرے رب!میں  سوائے اپنی ذات کی گواہی کے کسی اورکی گواہی اپنے اوپرجائزنہیں  سمجھتا، پروردگار فرمائے گااچھاآج کے دن تیری ذات کی گواہی تجھ پرکفایت کرتی ہے اورکراماًکاتبین کی گواہی،فرمایاپھربندہ کے منہ پرمہرلگ جائے گی، اوراس کے ہاتھ پاؤں سے کہاجائے کہ گواہی دووہ اس کے سارے اعمال کی گواہی دیں  گے، پھربندہ کوبات کرنے کی اجازت دی جائے گی بندہ اپنے ہاتھ پاؤں  سے کہے گااللہ کی تم پرمارچلودورہوجاؤمیں  توتمہارے لیے جھگڑاکررہاتھا۔[55]

عَنْ قَتَادَةَ، ابْنَ آدَمَ، وَاللهِ إِنَّ عَلَیْكَ لَشُهودًا غیرَ مُتَّهَمَةٍ مِنْ بَدَنِكَ، فَرَاقِبْهُمْ وَاتَّقِ اللهَ فِی سِرِّكَ  وَعَلَانِیَتِكَ،  فَإِنَّهُ لَا یَخْفَى عَلَیْهِ خَافِیَةٌ  وَالظُّلْمَةُ عِنْدَهُ ضَوْءٌ  وَالسِّرُّ عِنْدَهُ عَلَانِیَةٌ فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَمُوتَ وَهُوَ بِاللهِ حَسَنُ الظَّنِّ، فَلْیَفْعَلْ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

قتادہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں اے ابن آدم!اللہ کی قسم ! توخوداپنی بداعمالیوں  کاگواہ ہے ،تیرے جسم کے سارے اعضاء تیرے خلاف گواہی دیں  گے ان کاخیال رکھ ،اوراللہ تعالیٰ سے ظاہراورپوشیدگی میں  ڈرتارہ،اس کے سامنے کوئی چیزپوشیدہ نہیں ،اندھیرااس کے سامنے روشنی کی مانند ہے ، چھپا ہوا اس کے سامنے کھلاہواہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک گمان کے ساتھ مرو،اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں  ہیں ۔[56]

اس دن اللہ تعالیٰ انہیں  عدل وانصاف کے ساتھ بھرپوربدلہ دے دیگاجس کے وہ مستحق ہیں ،جیسےفرمایا

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ  [57]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں  گے اور کہہ رہے ہوں  گے کہ ہائے ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں  رہی جو اس میں  درج نہ ہو گئی ہو، جو جو کچھ انہوں  نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں  گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

اس وقت انہیں  معلوم ہوجائے گاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت حق ہے ،قبروں  سے دوبارہ زندہ ہوکرمیدان محشرمیں اس کی بارگاہ میں  پیش ہوناحق ہے،اس کے وعدے وعید حق ہیں ، سچ کوسچ کردکھانے والا،اورایک ضابطہ بیان فرمایاکہ خبیث،بدخصلت عورتیں  خبیث،بدخصلت مردوں  کے لئے اورخبیث مردخبیث عورتوں  کے لئے،پاکیزہ،پاک دامن عورتیں  پاکیزہ،پاک دامن مردوں  کے لئے ہیں  اورپاکیزہ مردپاکیزہ عورتوں  کے لئے ہی مناسبت رکھتے ہیں ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْخَبِیثَاتُ مِنَ الْقَوْلِ لِلْخَبِیثِینِ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْخَبِیثُونَ مِنَ الرِّجَالِ لِلْخَبِیثَاتِ مِنَ الْقَوْلِ. وَالطَّیِّبَاتُ مِنَ الْقَوْلِ، لِلطَّیِّبِینَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالطَّیِّبُونَ مِنَ الرِّجَالِ لِلطَّیِّبَاتِ مِنَ الْقَوْلِ قَالَ: وَنَزَلَتْ فِی عَائِشَةَ وَأَهْلِ الْإِفْكِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں  اس آیت کریمہ کامفہوم یہ ہے کہ ناپاک باتیں  ناپاک مردوں  کے لیے ہوتی ہیں  اورناپاک مردہی ناپاک باتوں  کے لیے ہوتے ہیں  اورپاک باتیں  پاک مردوں  کے لیے ہوتی ہیں  اورپاک مردہی پاک باتوں  کے لیے ہوتے ہیں ، نیزانہوں  نے یہ بھی فرمایاکہ یہ آیت کریمہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  اوربہتان باندھنے والوں  کے بارے میں  نازل ہوئی ہے۔[58]

پھراللہ تعالیٰ نے اس طرح تصریح فرمائی کہ کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے فرمایاام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کادامن اس تہمت سے پاک وصاف ہےجواتہام طرازلوگوں  نے ان پر لگائی ہے،اللہ کے ہاں ان کے لئے بخشش و مغفرت ہے اورانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت کاپاکیزہ رزق ہے۔اللہ تعالیٰ نے پاکبازوں  کی بلندی کاتذکرہ کرتے ہوئے مزیدہدایات نازل فرمائی۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ‎﴿٢٧﴾‏(النور)
’’ اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو ،یہی تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘

[1] صحیح مسلم مقدمہ بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ۷

[2] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ حِفْظِ اللِّسَانِ ۶۴۷۸، مسند احمد ۸۴۱۱، مسند البزار ۸۹۷۹،السنن الکبری للبیہقی ۱۶۶۶۵،شرح السنة للبغوی ۴۱۲۳

[3] مسنداحمد۲۲۴۰۲

[4] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عُمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یُعْمَلْ ۶۹۰۶

[5] آل عمران۲۶

[6] الاعراف۱۵۵

[7] مسنداحمد۲۴۰۶۶،سنن ابوداودکتاب الحدود بَابٌ فِی حَدِّ الْقَذْفِ۴۴۷۴ ،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ حَدِّ الْقَذْفِ ۲۵۶۸

[8] فتح القدیر۱۵؍۴

[9] النمل ۶۵

[10] یونس۲۰

[11] الانعام۵۹

[12] الاعراف۱۸۸

[13] مجمع الانھرفی شرح ملتقی الابحر۳۲۰؍۱

[14] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۱۶؍۸

[15] النسائ۱۵

[16] بنی اسرائیل۳۲

[17] صحیح مسلم کتاب الحدودبَابُ حَدِّ الزِّنَى۴۴۱۴ ، مصنف ابن ابی شیبة۲۸۷۸۶، مسنداحمد۱۵۹۱۰،سنن الدارمی ۲۳۷۲،السنن الکبری للنسائی ۷۱۰۵،صحیح ابن حبان۴۴۲۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۶۹۶۸،معرفة السنن الآثار ۱۴۵۷۱،شرح السنة للبغوی۲۵۸۰

[18] صحیح بخاری كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ الَّتِی لاَ تَحِلُّ فِی الحُدُودِ۲۷۲۴،۲۷۲۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى۴۴۳۵،سنن ابوداودكِتَاب الْحُدُودِ بَابُ الْمَرْأَةِ الَّتِی أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرَجْمِهَا مِنْ جُهَیْنَةَ۴۴۴۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجْمِ عَلَى الثَّیِّبِ۱۴۳۳،السنن الکبری للنسائی۱۱۲۹۲

[19] صحیح بخاری کتاب الحدود بَابُ الِاعْتِرَافِ بِالزِّنَا۶۸۲۹، صحیح مسلم کتاب الحدودبَابُ رَجْمِ الثَّیِّبِ فِی الزِّنَى۴۴۱۸،سنن ابوداودکتاب الحدود بَابٌ فِی الرَّجْمِ۴۴۱۸، مسنداحمد۲۷۶، صحیح ابن حبان ۴۱۳،السنن الکبری للنسائی ۷۱۱۹

[20] سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ إِقَامَةِ الْحُدُودِ۲۵۳۸،سنن نسائی کتاب قطع السارق باب التَّرْغِیبُ فِی إِقَامَةِ الْحَدِّ۴۹۰۹

[21] تفسیرالرازی ۳۱۷؍۲۳، تفسیر الزمحشری ۲۱۰؍۳

[22] المائدة۳۸

[23]النور: 3

[24] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى الزَّانِی لَا یَنْكِحُ إِلَّا زَانِیَةً ۲۰۵۱، جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ۳۱۷۷ ،مستدرک حاکم ۲۷۰۱،شرح السنة للبغوی ۲۳۸۳

[25]، النور: 3

[26]‘ مسنداحمد۶۴۸۰،السنن الکبری للنسائی ۱۱۲۹۵،شرح مشکل الآثار۴۵۵۱، المعجم الکبیرللطبرانی ۱۴۱۸۸،السنن الکبری للبیہقی۱۳۸۵۹،معرفة السنن الآثار۱۳۷۵۴

[27] النسائ۲۵

[28] المائدة۵

[29] شرح السنة للبغوی ۲۳۸۳،سنن نسائی کتاب النکاح باب تَزْوِیجُ الزَّانِیَةِ۳۲۳۱

[30] مسند ابوداود الطیالسی ۶۷۷

[31] مسنداحمد۵۳۷۲

[32] مسند احمد ۶۱۸۰

[33] المبسوط للسرخسی ۳۳؍۹،البنایة شرح الھدایة ۲۵۹؍۶،الفروع وتصحیح الفروع۱۲۸؍۱۰،کشاف التفاع عن متن الاقناع۱۰۰؍۳

[34] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النوربَابُ وَالخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَیْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الكَاذِبِینَ۴۷۴۶ ،صحیح مسلم كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ اللِّعَانِ ۳۷۴۳

[35]النور: 4

[36] النور: 6

[37] مسند احمد ۲۱۳۱،صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النوربَابُ وَالخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَیْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الكَاذِبِینَ۴۷۴۷ ،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی اللِّعَانِ ۲۲۵۶

[38]مسنداحمد۱۲۴۵۰

[39] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ لِلْمُتَلاَعِنَیْنِ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ۵۳۱۱،وبَابُ المُتْعَةِ لِلَّتِی لَمْ یُفْرَضْ لَهَا۵۳۵۰،صحیح مسلم كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ اللِّعَانِ ۳۷۴۴ ،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی اللِّعَانِ۲۲۵۷

[40] صحیح بخاری كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ تَعْدِیلِ النِّسَاءِ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا ۲۶۶۱،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بَابٌ فِی حَدِیثِ الْإِفْكِ وَقَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاذِفِ۷۰۲۰، المعجم الکبیرللطبرانی۱۳۹،مصنف عبدالرزاق ۹۷۴۸، مسند احمد ۲۵۶۲۳

[41] المعجم الکبیرللطبرانی۱۴۰

[42] البقرة۲۲۵

[43] المائدة۸۹

[44] صحیح مسلم كِتَابُ الْأَیْمَانِ بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۷۱، السنن الکبری للبیہقی ۱۹۹۴۹،مسنداحمد۶۹۰۷،سنن الدارمی۲۳۹۰،السنن الکبری للنسائی ۴۷۰۹،صحیح ابن حبان۴۳۵۲

[45] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۵۶؍۸

[46] تفسیرابن کثیر۳۱؍۶

[47] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۵۷؍۸

[48] الاحزاب۵۷

[49] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الیَتَامَى ظُلْمًا، إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا۲۷۶۶،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۶۲،سنن ابوداودکتاب الوصایا باب ماجائ فی التشدیدفی اکل مال الیتیم ۲۸۷۴،سنن نسائی کتاب الوصایا باب اجتناب اکل مال الیتیم۳۷۰۴

[50] مسندالبزار۲۹۲۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۰۲۳،مستدرک حاکم ۸۷۱۲،مساوی الاخلاق ومذمومھا للخرائطی۷۰۳

[51] یٰسین۶۵

[52] حم السجدة۲۰

[53] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۵۸؍۸،تفسیرطبری۳۷۳؍۸

[54] مستدرک حاکم۸۷۹۰،مسندابی یعلی۱۳۹۲

[55] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر ۷۴۳۹،مسندالبزار۷۴۷۶،مسندابی یعلی ۳۹۷۵،مستدرک حاکم ۸۷۷۸

[56] تفسیرطبری ۴۵۴؍۲۱، تفسیرابن ابی حاتم ۲۵۵۸؍۸،تفسیرابن کثیر۳۴؍۶

[57] الکہف۴۹

[58] تفسیرابن کثیر۳۴؍۶

Related Articles