ہجرت نبوی کا چھٹا سال

سریہ کرزبن جابرفہری  رضی اللہ عنہ (عرینہ کی طرف)(شوال چھ ہجری)

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ:أَصَابَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةِ مُحَارَبٍ وَبَنِیَّ ثَعْلَبَةَ عَبْدًا یُقَالُ لَهُ یَسَارٌ، فَجَعَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی لِقَاحٍ لَهُ كَانَتْ تَرْعَى  فِی نَاحِیَةِ الْجَمَّاءِ،قَالَ: قَدِمَ نَفَرٌ مِنْ عُرَیْنَةَ ثَمَانِیَةٌ عَلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمُوافَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا أُنَاسٌ أَهْلُ ضَرْعٍ، وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِیفٍ فَاسْتَوْخَمْنَا الْمَدِینَةَ، فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ یَخْرُجُوا فِیهِ فَیَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَافَخَرَجُوا إلَیْهَا،فَلَمَّا صَحُّوا وَانْطَوَتْ بُطُونُهُمْ

عثمان بن عبدالرحمٰن سے مروی ہےغزوہ بنی ثعلبہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ ایک غلام یسارنامی آیاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کواپنے اونٹوں  کے چرانے کے لئے چراگاہ میں  بھیج دیااوروہیں  اونٹوں  کے گلے میں  یہ غلام رہاکرتاتھا،(قضاعہ کی ایک شاخ) عکل اور(بجلیہ کی ایک شاخ)عرینہ کے آٹھ لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورکلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا ، آپ نے انہیں  اصحاب صفہ میں  رہنے کے لئے بھیج دیا،کچھ دنوں  بعدانہوں  نے کہااے اللہ کےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم لوگ جنگل میں  جانورپالنے اور دودھ پینے کے عادی ہیں اور غلہ کے عادی نہیں اس لئے ہمیں  مدینہ منورہ کی آب وہواراس نہیں  آئی جس کی وجہ سے ہم بیمارپڑگئے ہیں ،اگرآپ اجازت عطا فرمائیں  توہم شہرسے باہرصدقات کے اونٹوں  میں  رہنے اوردودھ پینے کے لئے چلے جائیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظورفرمائی اور انہیں  چنداونٹ دینے کاحکم فرمایااورایک چرواہے کو ان کے ساتھ کردیااور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونٹوں  کادودھ اور پیشاب پیو (تمہیں  صحت حاصل ہوجائے گی)چنانچہ یہ لوگ اونٹوں  کولے کر گلے میں  چلے گئے اوردودھ وغیرہ پی کر تندرست ہوگئے،

عَدَوْا عَلَى رَاعِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسَارٍ، فَذَبَحُوهُ وَغَرَزُوا الشَّوْكَ فِی عَیْنَیْهِ،فَخَرَجُوا نَحْوَ یَسَارٍ حَتّى جَاءُوا بِهِ إلَى قُبَاءَ مَیّتًا وَاسْتَاقُوا اللِّقَاحَ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ،وَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَثَرِهِمْ عِشْرِینَ فَارِسًا، وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْهِمْ كُرْزَ بْنَ جَابِرٍ الْفِهْرِیّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ فِی آثَارِهِمْ قَالَ: اللهُمَّ عَمِّ عَلَیْهِمُ الطَّرِیقَ، وَاجْعَلْهَا عَلَیْهِمْ أَضْیَقَ مِنْ مَسْكِ جَمَلٍ،  فَعَمَّى الله عَلَیْهِم السَّبِیل، فأدركوا فَأتى بهم، ا فَأَمَرَ بِهِمْ فَسَمَرُوا أَعْیُنَهُمْ، وَقَطَعُوا أَیْدِیَهُمْ، وَتُرِكُوا فِی نَاحِیَةِ الحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا عَلَى حَالِهِمْ

تب ایک روزآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بے قصور چرواہے یسار کی آنکھوں  میں  گرم سلائیاں  پھیریں  اورہاتھ پیرکاٹ کر اسے شہید کردیا،پھریسارکو لے جاکرقبا میں دفن کردیا اور سب اونٹ ہانک کرلے گئےاوراسلام سے مرتدہوگئے  ،اس طرح ان سنگدل بدوں  نے اللہ کے رسول کے احسان کابدلہ دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ خبرپہنچی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کرزبن جابرفہری  رضی اللہ عنہ  کی سرکردگی میں  بیس مجاہدین کا گھڑسواردستہ ان کے تعاقب میں  روانہ فرمایا ،ابوزبیر،جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے تعاقب میں  کرزبن جابر  رضی اللہ عنہ کوروانہ کیافرمایاالٰہی !ان پرراستہ مخفی کردے اورکنگن سے بھی زیادہ تنگ بنادے، لہذا اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاکوشرف قبولیت بخشااور ان مرتدوں ،قاتلوں  پرراستہ مخفی فرمادیا،چنانچہ تعاقب کرنے والادستہ راستے میں  ہی ان پر جاپڑا اور گرفتارکرکے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  لے آیا ، چنانچہ اس فتنہ کوجڑسے ہی اکھاڑپھینکنے کے لئے تاکہ یہ دوسروں  کے لئے عبرت ہواورآئندہ اس قسم کے قاتل،خائن اورچوروں  کواسلام اور مسلمانوں  سے کھیلنے کی جرات ہی نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے قصاص اوربدلہ لینے کاحکم فرمایاچنانچہ ان لوگوں  نے جس طرح چرواہے کوقتل کیاتھااسی طرح ان کی آنکھوں  میں  گرم سلائیاں  پھیردی گئیں اوران کے ہاتھ کاٹ کرمیدان حرہ میں  ایک طرف پھینک دیاجہاں  انہوں  نے جانیں  دے دیں ۔[1]

صدی  رضی اللہ عنہ بن عجلان( ابوامامہ رضی اللہ عنہ  )کاقبول اسلام(چھ ہجری)

صلح حدیبیہ سے پہلے قبیلہ بنی باہلہ کے ایک سلیم الفطرت شخص صدی بن عجلان جن کی کنیت ابوامامہ تھی اپنی قوم کے قاصدبن کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا،

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللهِ إِلَى قَوْمِی أَدْعُوَهُمْ إِلَى اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَأَعْرِضُ عَلَیْهِمْ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ ،  فَأَتَیْتُهُمْ وَقَدْ سَقُوا إِبِلَهُمْ، وَأَحْلَبُوهَا، وَشَرِبُوا  فَلَمَّا رَأَوْنِی، قَالُوا: مَرْحَبًا بِالصُّدَیِّ بْنِ عَجْلَانَ ،ثُمَّ قَالُوا: بَلَغَنَا أَنَّكَ صَبَوْتَ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ،قُلْتُ:لَا وَلَكِنْ آمَنْتُ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ،وَبَعَثَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْكُمْ أَعْرِضُ عَلَیْكُمُ الْإِسْلَامَ وَشَرَائِعَهُ،فَبَیْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاؤُوا بقَصْعَة مِنْ دَمٍ، فَاجْتَمَعُوا  عَلَیْهَا یَأْكُلُونَهَا  قَالُوا: هَلُمَّ یَا صُدیّ، فَكُلْ. قَالَ: قُلْتُ: وَیَحْكَمُ! إِنَّمَا أَتَیْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ مُحرِّم  هَذَا عَلَیْكُمْ، وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَیْهِ

سدی بن عجلان  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی قوم کی طرف بھیجاکہ میں  انہیں  اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف دعوت دوں  اوراسلام کے احکام ان کے سامنے پیش کروں ،جب میں  اپنے قبیلہ میں  پہنچااس وقت وہ لوگ اپنی اونٹنیوں  کوپانی پلانے کے بعدان کادودھ دوہ کرپی رہے تھے،جب انہوں  نے مجھے دیکھاتومیراپرتپاک خیرمقدم کیااورمجھ سے پوچھااے صدی!ہمیں  معلوم ہواہے کہ تم اپنے آباؤاجدادکامذہب چھوڑکربے دین ہوگئے ہواورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی پیروی اختیارکرلی ہے، میں  نے جواب دیا میں  بے دین نہیں  ہوابلکہ اللہ اوراللہ کے رسول پرایمان لے آیاہوں ، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمہارے پاس بھیجاہے تاکہ میں  تمہیں  دعوت اسلام پیش کروں  اورشرئع اسلام بیان کروں ،ابھی یہ باتیں  ہورہی تھیں  کہ وہ ایک خون کاپیالہ بھرکرلائے اور میرے سامنے حلقہ باندھ کراسےکھانے کے ارادے سے بیٹھے،اورمجھ سے کہنے لگے آؤاےصدی تم بھی کھالو،میں  نے کہاتم پرافسوس ہے!میں  اس ہستی کی طرف سے آیاہوں  جس نے اللہ کے حکم سے اس چیزکوحرام قراردیاہے،

 قَالُوا: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: فَتَلَوْتُ عَلَیْهِمْ هَذِهِ الْآیَةَ:حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ،  الْآیَةَ،  قَالَ: فَجَعَلْتُ أَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ ،وَیَأْبَوْنَ عَلَیَّ، فَقُلْتُ لَهُمْ: وَیَحْكُمُ، اسْقُونِی شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ، فَإِنِّی شَدِیدُ الْعَطَشِ قَالَ: وَعَلَیَّ عَبَاءَتِی-فَقَالُوا: لَا وَلَكِنْ نَدَعُكَ حَتَّى تَمُوتَ عَطَشًاقَالَ: فَاغْتَمَمْتُ وَضَرَبْتُ  بِرَأْسِی فِی الْعَبَاءِ، وَنِمْتُ عَلَى الرَّمْضَاءِ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ

تب وہ سب میری طرف متوجہ ہوگئے اورکہاپوری بات کہو؟ تومیں  نے یہی آیت’’تم پر حرام کیا گیا مردار ، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا وہ جو کسی آستانے  پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانْسوں  کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں ۔‘‘پڑھ کرسنادی،اس کے بعدمیں  وہاں  بہت دنوں  تک رہااورانہیں  اسلام کی دعوت پہنچاتارہالیکن وہ اس دعوت پرایمان نہ لائے، ایک دن جبکہ میں  سخت پیاساہوااورپانی بالکل نہ ملاتومیں  نے ان سے پانی مانگا اورکہاپیاس کے مارے میرابراحال ہے مجھے تھوڑاساپانی دولیکن کسی نے مجھے پانی نہ دیابلکہ کہاہم توتجھے یونہی پیاساہی تڑپاتڑپاکرمارڈالیں  گے،میں  غمناک ہوکردھوپ میں  تپتے ہوئے انگاروں  جیسے سنگریزوں  پراپناکھردراکمبل منہ پرڈال کر اسی سخت گرمی میں  میدان میں  پڑارہا

قَالَ: فَأَتَانِی آتٍ فِی مَنَامِی بقَدَح مِنْ زُجَاجٍ لَمْ یَرَ النَّاسُ أَحْسَنَ مِنْهُ، وَفِیهِ شَرَابٌ لَمْ یَرَ النَّاسُ [شَرَابًا]  أَلَذَّ مِنْهُ ، فَأَمْكَنَنِی مِنْهَا فَشَرِبْتُهَا، فَحَیْثُ فَرَغْتُ مِنْ شَرَابِی اسْتَیْقَظْتُ،فَلَا وَاللهِ مَا عَطِشْتُ وَلَا عَرِیتُ بعد تلك الشربة، فَسَمِعْتُهُمْ یَقُولُونَ: أَتَاكُمْ رَجُلٌ مِنْ سَرَاةِ قَوْمِكُمْ، فَلَمْ تَمْجعَوه بِمَذْقَةٍ، فَأْتُونِی بِمَذْقَةٍ،فَقُلْتُ:لَا حَاجَةَ لِی فِیهَا إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَطْعَمَنِی وَسَقَانِی، وَأَرَیْتُهُمْ بَطْنِی فَأَسْلَمُوا عَنْ آخِرِهِمْ

اتفاقاًمیری آنکھ لگ گئی تومیں  نے خواب میں  دیکھاکہ ایک شخص بہترین جام لئے ہوئے اوراس میں  بہترین خوش ذائقہ مزیدارپینے کی چیزلئے ہوئے میرے پاس آیااوروہ جام میرے ہاتھ میں  دے دیامیں  نے خوب پیٹ بھرکراس میں  سے پیاوہیں  میری آنکھ کھل گئی، تواللہ کی قسم !مجھے مطلق پیاس نہ تھی بلکہ اس کے بعدسے آج تک مجھے کبھی پیاس کی تکلیف ہی نہیں  ہوئی بلکہ یوں  کہناچاہیے کہ پیاس ہی نہیں  لگی،یہ لوگ میرے جاگنے کے بعدآپس میں  کہنے لگے کہ آخرتویہ تمہاری قوم کاسردارہے تمہارامہمان بن کرآیاہے اتنی بے رخی بھی ٹھیک نہیں  کہ ایک گھونٹ پانی بھی ہم اسے نہ دیں ، چنانچہ اب یہ لوگ میرے پاس کچھ لے آئے، میں  نے کہااب تومجھے کوئی حاجت نہیں  ہے مالک الارض وسماوات نے مجھے کھلاپلادیاہے،یہ کہہ کرمیں  نے انہیں  اپنابھراہواپیٹ دکھادیااس کودیکھ کروہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ [2]

فَأَسْلَمُوا عَنْ آخِرِهِمْ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں  آخران کی مخلصانہ تبلیغی کوششوں  سے ان کاقبیلہ مشرف بااسلام ہوگیا۔[3]

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ِمُطَرِّفِ بْنِ الْكَاهِنِ الْبَاهِلِیِّ بعد الْفَتْحِ وافدًالِقَوْمِهِ فَأَسْلَمَ وأخذ لِقَوْمِهِ أمانًا وَكَتَبَ له رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابا فیه فَرَائِضَ الصَّدَقَات

ابوامامہ رضی اللہ عنہ  کے بعد فتح مکہ کے بعد اسی قبیلے کےمطرب  رضی اللہ عنہ  بن الکاین باہلی اپنے قبیلے کی طرف سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورنعمت اسلام سے بہرہ ورہوکراپنے قبیلے کے لئے امان حاصل کی،رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ایک دستاویزعنایت فرمائی جس میں  صدقات کے فرائض تھے۔

بِاسْمِكَ اللهُمَّ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ لِمُطَرِّفِ بْنِ الْكَاهِنِ وَلِمَنْ سَكَنَ بَیْشَةَ مِنْ بَاهِلَةَ أَنَّ مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَوَاتًا بَیْضَاءَ فِیهَا مُنَاخُ الأَنْعَامِ وَمُرَاحٌ فَهِیَ لَهُ. وَعَلَیْهِمْ فِی كُلِّ ثَلاثِینَ مِنَ الْبَقَرِ فَارِضٌ وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنَ الْغَنَمِ عَتُودٌ وَفِی كُلِّ خَمْسِینَ مِنَ الإِبِلِ ثَاغِیَةٌ مُسِنَّةٌ وَلَیْسَ لِلْمُصَدِّقِ أَنْ یُصَدِّقَهَا إِلا فِی مَرَاعِیهَا وَهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللهِ

یہ فرمان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے مطرف بن الکاہن اورباہلہ کے لئے کہ جہاں  ان کے بیشہ اونٹوں  کے گلے بٹھائے جاتے ہیں  تووہ اسی کی ہوجائے گی ،ان لوگوں  کے ذمے ہرتیس گائے پرایک پوری عمرکی گائے ،ہرچالیس بھیڑپرایک سال بھرکی بھیڑ،ہرپچاس اونٹوں  پرایک چھ سالہ اونٹ واجب ہے ،زکوٰة وصول کرنے والے کویہ حق نہیں  کہ وہ ان کی چراگاہ کے علاوہ کہیں  اورزکوٰة وصول کرے،یہ سب امان الٰہی میں  محفوظ ہیں ۔

پھراسی قبیلے کی طرف سے نہشل  رضی اللہ عنہ بن مالک وائلی بارگاہ نبوت میں  حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیاآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  بھی ایک تحریرعنایت فرمائی جونہشل  رضی اللہ عنہ بن مالک اوران کی قوم میں  سے مسلمان ہونے والوں  کے لئے تھی۔

بِاسْمِكَ اللهُمَّ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ لِنَهْشَلِ بْنِ مَالِكٍ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ بَنِی وَائِلٍ لِمَنْ أَسْلَمَ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَأَطَاعَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَأَعْطَى مِنَ الْمَغْنَمِ خُمْسَ اللهِ وَسَهْمَ النَّبِیِّ وَأَشْهَدَ عَلَى إِسْلامِهِ وَفَارَقَ الْمُشْرِكِینَ فَإِنَّهُ آمِنٌ بأمان الله وبرئ إِلَیْهِ مُحَمَّدٌ مِنَ الظُّلْمِ كُلِّهِ وَأَنَّ لَهُمْ أَنْ لا یُحْشَرُوا وَلا یُعْشَرُوا وَعَامِلُهُمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ.

 وَكَتَبَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ

یہ فرمان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے نہشل بن مالک اوربنی وائل کے ان ہمراہیوں  کے لئے ہے جواسلام لائے ،نمازقائم کرے ،زکوٰة اداکرے،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے،مال غنیمت میں  سے اللہ کاخمس اورنبی کاحصہ اداکرے اپنے اسلام پرگواہی دے،مشرکین کوچھوڑدے تووہ اللہ کی امان میں  ہے ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اسے ہرقسم کے ظلم سے بچائیں  گے ،ان لوگوں  کایہ حق ہے کہ نہ ان کوجلاوطن کیاجائے اورنہ اس سے عشر(پیداوارکادسواں  حصہ)لیاجائے ، اورعامل انہیں  میں  سے ہوگا۔

یہ دستاویز سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان نے لکھی۔[4]

بنوخشین سے ابوثعلبہ خشنی  رضی اللہ عنہ  کاقبول اسلام

بایع رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بیعة الرضوان، وضرب لَهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بسهم یوم خیبر

انہی دنوں  بنوخشین میں  سے ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ  بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے اوردولت اسلام سے بہرہ مندہوئےاوریہ ان لوگوں  میں  شامل تھے جنہوں  نےبیعت رضوان کی سعادت حاصل کی اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ غزوہ خیبرمیں حصہ لیااور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو مال غنیمت میں  سے حصہ دیا۔[5]

وأرسله رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى قومه فأسلموا ثُمَّ قَدِمَ بَعْدَ ذَلِكَ سَبْعَةُ نَفَرٍ مِنْ خُشَیْنٍ فَنَزَلُوا عَلَى أَبِی ثَعْلَبَةَ فَأَسْلَمُوا وَبَایَعُوا وَرَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  اپنی قوم کی طرف بھیجااوروہ ایمان لے آئے،ان کے بعدباختلاف روایت بنوخشین کاسات یانوآدمیوں  پرمشتمل ایک وفدمدینہ منورہ آیا اور ابوثعلبہ  رضی اللہ عنہ  کے ہاں  قیام کیاپھرانہوں  نے بارگاہ نبوت میں  حاضر ہو کرشرف اسلام وبیعت حاصل کیااوراپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے۔[6]

غزوہ حدیبیہ اوربیعت رضوان،ذوالقعد چھ ہجری(فروری۶۲۸ء)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی شام کی سرحدی پٹی اورخیبرکی طرف مختلف قبائل کے خلاف ان تادیبی کاروائیوں  سے جزیرہ نمائے عرب میں  مسلمانوں  کارعب ودبدبہ قائم ہوگیا،اب مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں  مسلمانوں  کوہروقت یہ دھڑکانہیں  لگارہتاتھاکہ کوئی دشمن اچانک ان پرحملہ آورہوجائے گا ،اس کے علاوہ مختلف غزوات اورسرایہ سے ان کے پاس کافی مال غنیمت حاصل ہوگیاتھاجس سے وہ معاشی طورپرفارغ البال ہوگئے تھے ،مدینے پراتحادی قبائل کے حملے تک مدینہ کی اسلامی ریاست کووہ سیاسی قوت اورتفوق حاصل نہیں  ہوسکاتھاجومسائل کے پرامن حل کی شرط اول پواکرتاہے ،اس لئے مدینے کے مسلمانوں  کوحج اورعمرے کافرض اداکرنے کی اجازت نہیں  دی گئی ، مسلمانوں  پرچھ سال سے بیت اللہ کاحج وعمرہ بندتھا،عام مسلمانوں  کومکہ مکرمہ میں  جانے اورکعبہ کاطواف کرنے کی بڑی آرزوتھی لیکن فریق مخالف کاسیاسی دباؤہردم آڑے آیااوریہ آرزوپوری نہ ہوسکی ، چنانچہ اس امن وسکون کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ معظمہ کاارادہ فرمانے کے لئے حالات کوسازگارسمجھااوراللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب دکھلایاکہ آپ اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  مسجدحرام میں  بحالت امن داخل ہورہے ہیں ، آپ نے خانہ کعبہ کی چابیاں  لے لی ہیں اورسب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے بیت اللہ کا طواف کیاہے،عمرہ سے فارغ ہوکرپھربعض صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے سرکے بال منڈائے اوربعض نے کترایا ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاخواب محض خواب وخیال نہیں بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضروری تھامگرآپ کواندیشہ لاحق تھاکہ جب چھ سال سے قریش نے کسی مسلمان کو حج وعمرہ کے لئے حدودحرم کے قریب تک نہ پھٹکنے دیااب بھی ان سے یہ توقع نہیں  کی جاسکتی تھی کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی ایک بڑی جمعیت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں  داخل ہونے دیں  گے،غزوہ خندق کے بعد کشدیدگی شدیدنوعیت اختیارکرچکی تھی ،چنانچہ اب اگرعمرہ اکااحرام باندھ کر حفاظتی نقطہ نگاہ سے مسلح ہو کرچلتے ہیں  توگویاخودلڑائی کودعوت دیناتھااورہتھیارساتھ نہ لے جانے کا مطلب اپنی اوراپنے ساتھیوں  کی جان خطرے میں  ڈالنے کی تھی مگرآپ نے اشارہ الٰہی پربے کھٹکے عمل کرنا تھا ، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاتامل اس پرعمل کاقطعی ارادہ فرما لیا ،صبح آپ نے اس خواب کی اطلاع صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کودی،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے دل میں  بھی یہی خیال انگڑائیاں  لے رہاتھاچنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کاخواب سن کرصحابہ  رضی اللہ عنہم  یہی سمجھے کہ اسی سال وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ اداکریں  گےجس سے ان کے دلوں  میں  شوق کی دبی چنگاری بھڑک اٹھی ،بیت اللہ کی زیارت اوراس کے طواف کرنے کو بے تاب کردیا ،اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ اوراردگردکے قبائل کوساتھ چلنے کی دعوت کے لئے اعلان فرمادیاکہ آپ اسی سال عمرہ ادافرمائیں  گے جولوگ جانے کاارادہ رکھتے ہوں  وہ ساتھ چلے ، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بھی محسوس کرتے تھے کہ قریش انہیں  زیارت بیت اللہ سے روکنے کے لئے جنگ شروع کرسکتے ہیں  مگرانہوں نے انجام کی پرواہ کیے بغیر اس خطرناک سفرکے لئے زورشورسے تیاریاں  شروع کردیں

وَهُوَ یَخْشَى مِنْ قُرَیْشٍ الَّذِی صَنَعُوا بِهِ أَنْ یَعْرِضُوا لَهُ بِحَرْبٍ، أَوْ یَصُدُّوهُ عَنِ الْبَیْتِ، فَأَبْطَأَ عَلَیْهِ كَثِیرٌ مِنَ الأَعْرَابِ

مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سابقہ تجربوں  کی بناپرقریش کی جانب سے اس بات کااندیشہ تھاکہ وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنگ کریں  گے یاآپ کوبیت اللہ تک جانے نہ دیں  گے اس لئے اکثرقبائل عرب (جن میں  قبیلہ اسلم ،مزینہ ،جہینہ ،غفار،اشجع اوروئل وغیرہ شامل تھے )نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کوقبول نہیں  کیااوروہ آپ کے پاس نہ آئے۔

مکہ مکرمہ کی طرف روانگی :

خَرَجَ عَلَیْهِ الصّلَاةُ وَالسّلَامُ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ لِهِلَالِ ذِی الْقَعْدَةِ سَنَةَ سِتّ مِنْ الْهِجْرَةِ لِلْعُمْرَةِوأخرج معه زَوْجَتُهُ أُمّ سَلَمَةَ

یکم ذی القعدہ بروزدوشنبہ چھ ہجری کو کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لئے روانہ ہوئےاور اس سفرمیں  ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  آپ کے ہمراہ تھیں ۔[7]

وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ عَبْدَ الله ابْنَ أُمّ مَكْتُومٍ،وَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ الْقَصْوَاءَ،عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِی أَوْفَى، یَقُولُ: كُنَّا یَوْمَ الشَّجَرَةِ أَلْفًا وثلاثمائة

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پرابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہا  کونمازوں  کے اہتمام کے لئے اورابورہم  رضی اللہ عنہ  کومدینہ منورہ کے انتظامی امورکااپنانائب مقررفرمایا،اور اپنی قصواء نامی اونٹنی پرسوار ہو کرروانہ ہوئے، عبداللہ بن ابی اوفی  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  جس روزدرخت کے نیچے بیعت لی گئی ہماری تعدادایک ہزارتین سوتھی ۔

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِیِّ، قَالَ: كُنَّا أَصْحَابُ الْحُدَیْبِیَةِ أَرْبَعَةَ عَشَرَ وَمِائَةَ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ  اورجابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے ہم حدیبیہ میں  شریک ہونے والے سواراورپیدل چودہ سوتھے۔

اور سعیدبن مسیب  رضی اللہ عنہ کے مطابق پندرہ سوتھے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْبَیْعَةِ تَحْتَ الشّجَرَةِ ألفا وخمسمائة وَخَمْسَةً وَعِشْرِینَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں  جن لوگوں  نے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ پربیعت کی تھی وہ ایک ہزارپانچ سوپچیس تھے۔[8]

وخَرَجَ معه مِنْ الْمُسْلِمِینَ أَلْفٍ وَسِتِّمِائَةِ

موسی بن عقبہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ سولہ سومسلمان تھے۔[9]

وهی سَبْعُونَ  بَدَنَةً فِیهَا جَمَلُ أَبِی جَهْلٍ الَّذِی غَنِمَهُ یَوْمَ بَدْرٍ    لَا یُرِیدُ حَرْبًا

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ قربانی کے لئے ستراونٹ تھےجس میں  ابو جہل کا وہ اونٹ بھی تھا جو کہ بدر کی جنگ میں  بطور مال غنیمت ہاتھ لگا،مہاجرین وانصارصحابہ کرام کی معیت میں  لبیک لبیک کی صدائیں  بلندکرتے ہوئے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے،چونکہ عمرہ  کے لئے روانہ ہورہے تھے اورجنگ کاکوئی ارادہ نہیں  تھا۔[10]

فَخَرَجُوا بِغَیْرِ سِلَاحٍ إلّا السّیُوفَ فِی الْقُرُبِ

اس لئے کسی مسلمان کے پاس میان میں  بند تلواروں  کے سواکسی قسم کاسامان حرب نہیں  تھا۔[11]

جس کی زائرین کوعرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی۔

فَصَلّى الظّهْرَ بِذِی الْحُلَیْفَةِ  ثُمّ دَعَا بِالْبُدْنِ الّتی ساق فَجُلّلَتْ ثُمَّ أَشْعَرَهَا فِی الشّقّ الْأَیْمَن وقَلّدَهَا وأَشْعَرَ أصحابه أیضا وَهُنّ مُوَجّهَاتٌ إلى الْقِبْلَةَ، وَهِیَ سَبْعُونَ بَدَنَةً فِیهَا جَمَلٌ أَبِی جَهْلٍ الَّذِی غَنِمَهُ یوم بَدْرٍ

آپ مقام ذوالحلیفہ پرپہنچے تونمازظہرادافرمائی پھرلوگوں  کوطمینان دلانے کے لئے کہ آپ کسی غزوے پرنہیں  بلکہ عمرہ کاارادہ رکھتے ہیں قربانی کےاونٹوں  کومنگوایاجوہمراہ لئے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اورآپ کے اصحاب نےعلامت کے طورپرانہیں قلاوے پہنائے اوراونٹوں  کے کوہان چیرکرنشان بنائے،وہ سب روقبلہ تھے اوراونٹوں  کی کل تعداد سترتھی جن میں  ابوجہل کااونٹ بھی تھاجوغزوہ بدرمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوغنیمت میں  ملاتھا۔[12]

 فَكَانَتْ كُلُّ بَدَنَةٍ عَنْ عَشَرَةِ نَفَرٍ

ہراونٹ دس آدمیوں  کی طرف سے تھا۔[13]

وأحرم ولبى

یہیں  پردورکعتیں  ادافرمانے کے بعدعمرہ کے لئے احرام باندھا ۔

اس احتیاط کا مقصد فریق مخالف پریہ ثابت کرناتھاکہ یہ چودہ سوافرادجنگ کاارادہ نہیں  رکھتے بلکہ پرامن طورسے اپناوہ حق استعمال کرناچاہتے ہیں  جس سے انکارکرنے کاکوئی جوازفریق مخالف کے پاس نہیں  ہے ،اورقریش کادرعمل اوران کی نقل وحرکت جاننے کے لئے قبیلہ بنی کعب کے کاایک جاسوس بشربن سفیان کعبی کوبیس مسلمان سواروں  کے ہمراہ بطورآگے روانہ کیاجن میں  مہاجرین وانصاردونوں  شامل تھے ،جب سرداران قریش کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ کی طرف روانگی کی خبرہوئی تووہ سخت پریشانی ہوئےکیونکہ ذی القعدہ کامہینہ ان چار حرام مہینوں  میں  سے ایک تھا جو صدیوں  سے عرب میں  حج وزیارت کے لئے محترم سمجھے جاتے تھے ،اس ماہ میں  جوقافلہ احرام باندھ کر حج یاعمرہ کے لئے جارہاہواسے کوئی نہیں روک سکتاتھایہاں تک کہ کسی قبیلے سے اس کی دشمنی بھی ہوتوعرب کے مسلمہ قوانین کی روسے وہ اپنے علاقہ سے اس کے گزرنے میں  مانع نہ ہوسکتاتھا،اس لئے قریش الجھن میں  مبتلاہوگئے کہ اگرہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قافلہ پرحملہ کرکے مکہ مکرمہ میں  داخل ہونے سے روکتے ہیں  توپورے عرب میں  قریش کے خلاف شورمچ جائے گا،عرب کاہرشخص ،ہرقبیلہ پکاراٹھے گاکہ اس ماہ میں  زائرین کوروکنا سراسر زیادتی ہے ،اوراہل عرب یہ سمجھیں  گے کہ قریش بیت اللہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اورکسی قبیلہ کوزیارت بیت اللہ کی اجازت دینایانہ دیناقریش کی مرضی پرموقوف ہے،جس سے ساراعرب قریش سے منحرف ہوجائے گا لیکن اگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواتنے بڑے قافلہ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں  داخل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں  تواہل عرب کہیں  گے کہ قریش محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے مرعوب ہوگئے جس سے قریش کی ہوا اکھڑجائے گی ، آخربڑی شش وپنج کے بعدان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پرغالب ہوگئی،

رَأْیِهِمْ عَلَى صده عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،وَعَسْكَرُوا بِبَلْدَحٍ وَقَدّمُوا مِائَتَیْ فَارِسٍ إلَى كُرَاعِ الْغَمِیمِ. وعَلَیْهِمْ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ.وَیُقَالُ: عِكْرَمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ، فخرج رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِعُسْفَانَ لَقِیَهُ بِشْرُ بْنُ سُفْیَانَ الْكَعْبِیُّ، فَقَالَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، هذه  قُرَیْشٌ قَدْ سَمِعُوا بِمَسِیرِكَ، فَخَرَجُوا مَعَهُمُ الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ، قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، وَقَدْ نَزَلُوا بِذِی طُوًى، یَحْلِفُونَ بِاللهِ لا تَدْخُلُهَا عَلَیْهِمْ أَبَدًا، وَهَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی خَیْلِهِمْ، قَدْ قَدَّمُوهَا إِلَى كِرَاعِ الْغَمِیمِ

اورانہوں  نے اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطریہ فیصلہ کیاکہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ مکرمہ میں  داخل نہیں  ہونے دیں  گے ،اوراس پرقسمیں  بھی کھائیں اورقبائل عرب کی آنکھوں  میں  دھول جھونکنے کے لئے  جلدی لشکرجمع کیااورخالدبن ولیدیاعکرمہ بن ابی جہل کودوسوشہسواروں  کاامیربناکر مقام كُرَاعِ الْغَمِیمِ کی طرف بھیجاتاکہ وہ اسلامی قافلہ کاراستہ روکے تاکہ مسلمان اشتعال میں  آجائیں  اوراگرلڑائی ہوجائے تویہ مشہور کردیاجائے کہ دراصل یہ لوگ احرام باندھ کر زیارت بیت اللہ کے ارادہ سے نہیں  بلکہ لڑنے کے لئے آئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب مدینہ منورہ سے چل کرعسفان(مکہ مکرمہ سے اسی کلومیٹرکے فاصلے پرایک بستی) پرپہنچے توبسربن سفیان الخزاعی رضی اللہ عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے آکرملااوراس نے بیان کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !قریش کوآپ کی روانگی کی اطلاع ہوچکی ہے وہ مقابلہ پرنکلے ہوئے ہیں  اوران کے ہمراہ ارادل کاجم غفیر ہے جنہوں  نے چیتے کی پوستین پہن رکھی ہے اوراب وہ ذوطویٰ میں  مقیم ہیں  اوراللہ کی قسمیں  کھاکرکہہ رہے ہیں  کہ ان کی موجودگی میں  آپ کعبہ میں  داخل نہیں  ہوسکتے اورہراول دستہ کے طورپرخالدبن ولیدکوآگے بھیج دیاہے اوروہكِرَاعِ الْغَمِیمِ تک پہنچ گیاہے ،اس خبر پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے مشاورت طلب فرمائی

فَقَالَ:أَشِیرُوا أَیُّهَا الناس علیّ، أترون أن نمیل عل عِیَالِهِمْ، وَذَرَارِی هَؤُلَاءِ الَّذِینَ یُرِیدُونَ أَنْ صَدُّونَا عَنِ الْبَیْتِ؟  وَفِی لَفْظٍ:أَتَرَوْنَ أَنْ نَمِیلَ عَلَى ذَرَارِی هَؤُلَاءِ الَّذِینَ أَعَانُوهُمْ. فَإِنْ یَأْتُونَا كَانَ اللهُ قَدْ قَطَعَ عُنُقا مِنَ الْمُشْرِكِینَ وَإِلَّا تَرَكْنَاهُمْ مَحْزُونِینَ، وَفِی لَفْظٍ: فَإِنْ قَعَدُوا قَعَدُوا مَوْتُورِینَ مَجْهُودِینَ محرُوبین وَإِنْ نَجَوْا یَكُنْ عُنُقًا قَطَعَهَا اللهُ، أَمْ تَرَوْنَ أَنْ نَؤُمَّ الْبَیْتَ فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ؟

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگرآپ لوگ مناسب خیال کریں  تومیں  چکرکاٹ کران لوگوں  کے بال بچوں  پرحملہ کردیں اگروہ ہمارے پاس آئیں  گے تواللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہوگی ورنہ ہم انہیں  رنج وملال میں  چھوڑجائیں  گے اوراگروہ بیٹھ رہیں  گے تواسی رنج وغم میں  مبتلارہیں  گے اوراگرانہوں  نے نجات پالی تویہ گردنیں  ہوں  گی جواللہ عزوجل نے کاٹ دی ہوں گی،بھلادیکھوتوکتناظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے آئے ہیں  اورنہ ہماراکچھ اورارادہ ہے ،ہم صرف اللہ کے گھرکی زیارت کے لئے جارہے ہیں  اوروہ ہمیں  اس سے روک رہے ہیں بتلاؤان سے ہم کیوں  نہ لڑیں ؟

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ : یَا رَسُولَ اللهِ خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَیْتِ، لَا نُرِیدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلَا حَرْبًا، فَتَوَجَّهْ لَهُ، فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاه ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَامْضُوا عَلَى اسْمِ اللهِ،ثُمَّ قَالَ: مَنْ رَجُلٌ یَخْرَجُ بِنَا عَلَى طَرِیقٍ غَیْرِ طَرِیقِهِمْ الَّتِی هُمْ بِهَا؟ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ قَالَ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: فَسَلَكَ بِهِمْ طَرِیقًا وَعْرًا أَجْرَلَ  بَیْنَ شِعَابٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْهُ، وَقَدْ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ وَأَفْضَوْا إلَى أَرْضٍ سَهْلَةٍ عِنْدَ مُنْقَطِعِ الْوَادِی، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ: قُولُوا نَسْتَغْفِرُ اللهَ وَنَتُوبُ إلَیْهِ، قَالُوا ذَلِكَ، فَقَالَ: وَاَللَّهِ إنَّهَا لَلْحِطَّةُ  الَّتِی عُرِضَتْ عَلَى بَنِی إسْرَائِیلَ،فَلَمْ یَقُولُوهَا

سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مدینہ سے بیت اللہ کے ارادہ سے نکلے ہیں  کسی سے لڑنے اورقتل کرنے کے لئے نہیں اس لئے جس کام کے لئے نکلے ہیں  وہی کریں اگرکسی نے ہمیں  روکاتوہم اس سے لڑیں  گے، نبی کریم نے فرمایاتوپھر اللہ کانام لے کرچلو، پھرفرمایا کوئی ہے جو ہمیں  اس راستے کے علاوہ جس پرکفارہیں  دوسری راہ سے لے چلے،قبیلہ اسلم کے ایک شخص حمزہ بن عمرو اسلمی نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  لے چلتاہوں ،چنانچہ وہ شخص سارے قافلہ کوپہاڑیوں  کی گھاٹیوں  میں  سے گزارتاہوا وادی کے اختتام پرایک ہموارراستے پرلے آیاآپ نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے فرمایاپڑھو’’ ہم اللہ سے مغفرت کے طالب ہیں  اوراس سے توبہ کرتے ہیں ۔‘‘چنانچہ سب نے یہ کلمہ پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ وہی کلمات حطہ ہیں  جوبنی اسرائیل پرپیش کئے گئے تھے مگر انہوں  نے یہ کلمات ادانہیں  کیے تھے

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ بِالْغَمِیمِ فِی خَیْلٍ لِقُرَیْشٍ طَلِیعَةٌ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَقَالَ: اُسْلُكُوا ذَاتَ الْیَمِینِ بَیْنَ ظَهْرَیْ الْحَمْشِ، فِی طَرِیقٍ (تُخْرِجُهُ ) عَلَى ثَنِیَّةِ الْمُرَارِ مَهْبِطِ الْحُدَیْبِیَةِ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ،  فَسَلَكَ الْجَیْشُ ذَلِكَ الطَّرِیقَ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ فاصلہ طے کیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا خالدبن ولیدقریش کے سواروں  کے ساتھ ہماری نقل وحرکت کااندازہ لگانے کے لئے مقام  كِرَاعِ الْغَمِیمِ میں  ٹھیراہواہے،اس سے بچنے کے لئے حکم فرمایا تم لوگ سیدھاراستہ ترک کرکے مکہ مکرمہ کے نچلے حصہ میں  حدیبیہ کے ڈھلوان پروادی ثَنِیَّةِ الْمُرَارِکوجانے والے راستہ پرمقام حمص کے سامنے کی طرف دائیں  طرف چلوچنانچہ لشکراسلامی اسی راستہ پرچل پڑا

فَوَاللهِ مَا شَعَرَ بِهِمْ خَالِدٌ حَتَّى إِذَا هُمْ بِقَتَرَةِ الجَیْشِ، فَانْطَلَقَ یَرْكُضُ نَذِیرًا لِقُرَیْشٍ،وَسَارَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِیَّةِ الَّتِی یُهْبَطُ عَلَیْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ،فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ فَأَلَحَّتْ، فَقَالُوا: خَلَأَتْ القَصْوَاءُ، خَلَأَتْ القَصْوَاءُ،  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا خَلَأَتْ القَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الفِیلِ،ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لاَ یَسْأَلُونِی خُطَّةً یُعَظِّمُونَ فِیهَا حُرُمَاتِ اللهِ إِلَّا أَعْطَیْتُهُمْ إِیَّاهَا ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ

اور اللہ کی قسم !خالدبن ولید کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کاپتہ نہ چلا اورجب انہوں  نے اس لشکرکاگردوغبار اٹھتاہوا دیکھا تو فوراً قریش کواطلاع دینے لگے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بددستورچلتے رہے حتی کہ مقام  ثَنِیَّةِ الْمُرَارِ پر پہنچے جس سے اترکرمکہ مکرمہ میں  داخل ہوتے ہیں  توناگہانی طورپرآپ کی اونٹنی بیٹھ گئی،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے اسے حل حل کہہ کراٹھانے کی کوشش کی مگروہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی،صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے کہاقصواء اڑگئی،قصواء اڑگئی،ان کی بات سن کرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقصواء اڑی نہیں  اورنہ ہی یہ اس کی عادت ہے بلکہ اس کواس نے روک دیاہے جس نے اصحاب فیل کو(مکہ میں  )داخل ہونے سےروکاتھا،پھرآپ نے فرمایامیں  اس کی قسم کھاکرعہدکرتاہوں  جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے اگرقریش اس قطعہ زمین پرمجھ سے جومانگیں  گے دوں  گا بشرطیکہ اس میں  اللہ کی حرمتوں  کی پامالی نہ ہو،اس کے بعدآپ نے اونٹنی کوڈانٹاتووہ کودکرکھڑی ہو گئی ۔[14]

ایک معجزہ :

فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الحُدَیْبِیَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِیلِ المَاءِ، یَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا، فَلَمْ یُلَبِّثْهُ النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوهُ،وَشُكِیَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العَطَشُ، فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ یَجْعَلُوهُ فِیهِ،فَوَاللهِ مَا زَالَ یَجِیشُ لَهُمْ بِالرِّیِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ

پھرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ سے آگے نکل گئے اورحدیبیہ (جومکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلہ پرہے)کے آخری کنارےثَمَدٍ(ایک چشمہ یاگڑھا)پرجہاں  پانی کم تھاڈیرہ ڈال دیا،گرمی کا موسم تھا پیاس کی شدت اورپانی کی قلت تھی ،لوگ تھوڑاتھوڑاپانی استعمال کرنے لگے انہوں  نے پانی کوٹھیرنے ہی نہیں  دیااور جلدی ہی پانی نکال کراس کوخشک کردیا اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیاس کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ترکش سے ایک تیرنکال کران کوحکم فرمایا کہ اس کوکنوئیں  میں  گاڑدیں ،

وَهُوَ سَائِقُ بُدْنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک صحابی ناجیہ بن جندب  رضی اللہ عنہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اونٹ ہنکایاکرتے تھے۔

یابراء بن عازب  رضی اللہ عنہ  یاعبادہ بن خالد  رضی اللہ عنہ  نے کنوئیں  کے وسط میں  اس کوگاڑدیا۔

فَوَاللَّهِ مَا زَالَ یَجِیشُ لَهُمْ بِالرِّیِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ

اللہ کی قسم! جس کے ساتھ ہی وہاں  سے پانی کا چشمہ ابل پڑا،پھروہ کنواں  واپس جانے تک ان کے لئے وافرپانی مہیا کرتارہا اور کسی وقت پانی کی کمی کی شکایت پیدانہ ہوئی۔ [15]

أَنَّ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ كَانَ یَقُولُ:أَنَا الَّذِی نَزَلْتُ بِسَهْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا تیرلے کر اترا تھا۔[16]

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:  فَنَزَحْنَاهَا فَلَمْ نَتْرُكْ فِیهَا قَطْرَةً،فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهَا، فَجَلَسَ عَلَى شَفِیرِهَا ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَدَعَا ثُمَّ صَبَّهُ فِیهَا، فَتَرَكْنَاهَا غَیْرَ بَعِیدٍ، ثُمَّ إِنَّهَا أَصْدَرَتْنَا مَا شِئْنَا نَحْنُ وَرِكَابَنَ

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں  ہےہم نے اس میں  سے اتناپانی کھینچاکہ اس کے اندرایک قطرہ پانی کے نام پرنہ رہا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوجب یہ خبرہوئی (کہ پانی ختم ہو گیاہے)توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کنوئیں  پرتشریف لائے اوراس کے کنارے بیٹھ کرکسی ایک برتن میں  پانی طلب فرمایا،اس سے آپ نے وضوفرمایااورمضمضہ(کلی)کی اور دعا فرمائی پھرساراپانی اس کنوئیں  میں  ڈال دیا تھوڑی دیرکے لئے ہم نے کنوئیں  کویوں  ہی رہنے دیااوراس کے بعدجتناہم نے چاہااس میں  سے پانی پیااوراپنی سواریوں  کو پلایا ۔[17]

اورمغازی واقدی میں  ہےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دونوں  کام کیے کنوئیں  میں  کلی بھی کی اورتیربھی گاڑا۔

فَأَخْرَجَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ وَدَفَعَهُ إلَیّ وَدَعَانِی بِدَلْوٍ مِنْ مَاءِ الْبِئْرِ، فَجِئْته بِهِ فَتَوَضّأَ، فَقَالَ: مَضْمَضَ فَاهُ، ثُمّ مَجّ فِی الدّلْوِ، وَالنّاسُ فِی حَرّ شَدِیدٍ وَإِنّمَا هِیَ بِئْرٌ وَاحِدَةٌ،  وَقَدْ سَبَقَ الْمُشْرِكُونَ إلَى بَلْدَحٍ فَغَلَبُوا عَلَى مِیَاهِهِ، فَقَالَ: انْزِلْ بِالْمَاءِ فَصُبّهُ فِی الْبِئْرِ وَأَثِرْ  مَاءَهَا بِالسّهْمِ. ففعلت، فو الذی بَعَثَهُ بِالْحَقّ مَا كُنْت أَخْرُجُ حَتّى كَادَ یَغْمُرُنِی، وَفَارَتْ كَمَا تَفُورُ الْقِدْرُ حَتّى طَمّتْ، واستوت بثفیرها یَغْتَرِفُونَ مَاءَ جَانِبِهَا حَتّى نَهِلُوا مِنْ آخِرِهِمْ

لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اور پانی کی قلت کے بارے میں  بتایاگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ڈول میں  کلی کی اورپھروہ ڈول کنوئیں  میں  انڈیل دیااوراپنے تریش سے ایک تیرنکالااوراسے کنوئیں  میں  گاڑدیاپھردعافرمائی توکنوئیں  سے پانی اچھلنے لگا۔[18]

عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الحُدَیْبِیَةِ، فَأَصَابَنَا مَطَرٌ ذَاتَ لَیْلَةٍ، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا فَقَالَ:أَتَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،فَقَالَ: قَالَ اللهُ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِی مُؤْمِنٌ بِی وَكَافِرٌ بِی، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِرَحْمَةِ اللهِ وَبِرِزْقِ اللهِ وَبِفَضْلِ اللهِ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ بِی، كَافِرٌ بِالكَوْكَبِ،وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَجْمِ كَذَا، فَهُوَ مُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ كَافِرٌ بِی

زیدبن خالد  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حدیبیہ کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نکلے،حدیبیہ میں  قیام کے دوران ایک رات بارش ہوئی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نمازپڑھانے کے بعدہم سے خطاب کیااوردریافت کیا جانتے ہوآج رات تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ہم نے عرض کہااللہ تعالیٰ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ نے فرمایاہے صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پرایمان لائے ہیں اورکچھ بندوں  نے میرے ساتھ کفرکیاہے،جنہوں  نے کہاکہ اللہ کے فضل وکرم اوراس کی رحمت سے ہم پربارش ہوئی وہ مجھ پرایمان لائے ہیں  اور ستاروں  کاانکارکرنے والے ہیں ،اورجس شخص نے کہایہ بارش فلاں  ستارے نے برسائی ہے تووہ ستاروں  پاایمان لانے والااورمیرے ساتھ کفرکرنے والاہے۔[19]

 بدیل بن ورقاء خزاعی کی آمد:

قریش نے باہم مشاورت سے طے کیاکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ منورہ واپسی کے لئے آمادہ کیاجائے

فَبَیْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الخُزَاعِیُّ فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ خُزَاعَةَ، وَكَانُوا عَیْبَةَ نُصْحِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ تِهَامَةَ، فَقَالَ: إِنِّی تَرَكْتُ كَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ، وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِیَاهِ الحُدَیْبِیَةِ، وَمَعَهُمُ العُوذُ المَطَافِیلُ، وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنِ البَیْتِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ،وَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ نَهِكَتْهُمُ الحَرْبُ، وَأَضَرَّتْ بِهِمْ، فَإِنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً، وَیُخَلُّوا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْهَرْ: فَإِنْ شَاءُوا أَنْ یَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَ فِیهِ النَّاسُ فَعَلُوا، وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوا، وَإِنْ هُمْ أَبَوْافَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى أَمْرِی هَذَا حَتَّى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی، وَلَیُنْفِذَنَّ اللهُ أَمْرَهُ،فَرَجَعُوا إلَى قُرَیْشٍ فَقَالُوا: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّكُمْ تَعْجَلُونَ عَلَى مُحَمَّدٍ، إنَّ مُحَمَّدًا لَمْ یَأْتِ لِقِتَالِ، وَإِنَّمَا جَاءَ زَائِرًا هَذَا الْبَیْتَ،  فَقَالَ سُفَهَاؤُهُمْ: لاَ حَاجَةَ لَنَا أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْهُ بِشَیْءٍ

لوگ اسی حال میں  تھے کہ اسی مقصدکے لئے بدیل بن ورقاء خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چندلوگوں  کے ہمراہ حاضرہوایہ لوگ تہامہ کے رہنے والے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے محرم رازاوربڑے خیرخواہ تھے، انہوں  نے قریش کی جنگی تیاریوں  کی اطلاع دیتے ہوئے کہامیں  بنوکعب بن لوئی اورعامربن لوئی کوپیچھے اس حال میں چھوڑکرآرہاہوں  کہ انہوں  نے حدیبیہ کے چشموں  پر اپنا پڑاؤ ڈال دیاہےاوران کے ہمراہ ایک کثیرجماعت آوارہ بدمعاشوں  کی ہے ،وہ آپ کوبیت اللہ میں  جانے سے روکنے کے لئے لڑیں  گے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہم کسی سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں ،اورواقعہ تویہ ہے کہ (مسلسل)لڑائیوں  نے قریش کوبھی کمزورکردیاہے اورانہیں  بڑا نقصان اٹھاناپڑا ہے اب اگروہ چاہیں  تومیں  ایک معین مدت کے لئے ان کے ساتھ صلح کامعاہدہ کرلوں  گا اس عرصہ میں  وہ میرے اوردوسرے لوگوں  کے درمیان سے ہٹ جائیں  ،پھراگرمیں  کامیاب ہوجاؤں  توپھراگروہ چاہیں  تواس دین میں  داخل ہوجائیں ( جس میں لوگ داخل ہوچکے ہوں  گے) لیکن اگرمجھے کامیابی نہیں  ہوئی توانہیں  بھی آرام مل جائے گااوراگرانہیں  جنگ کے سواکچھ منظور نہیں ،توقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے میں  اپنے اس دین پران سے ضرورلڑوں  گایہاں  تک کہ میری گردن تن سے جداہوجائے یااللہ تعالیٰ اپنے دین کونافذکردے ، بدیل رضی اللہ عنہ  نے کہامیں  آپ کی یہ بات قریش تک پہنچادوں  گا،بدیل رضی اللہ عنہ  یہ پیغام لے کرقریش کے پاس پہنچااور ان سے کہااے گروہ قریش !تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے متعلق جلدبازی سے کام لیتے ہووہ جنگ کے لئے نہیں  بلکہ بیعت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں ،بدیل کی بات سن کرقریش کے صاحب اثراورصاحب الرائے لوگوں  میں  دوگروہ پیداہوگئے ، ایک حمق ونادان گروہ اوردوسرادوراندیش ،صاحب الرائے اورصلح پسندگروہ،ایک احمق ونادان گروہ جس میں  عکرمہ بن ابی جہل اورحکم بن ابی عاص شامل تھے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام سننے اوراس کی شرائط پرغورکرنے کو تیار نہ تھےاس لئے انہوں  نے کہاہمیں  اس کی ضرورت نہیں  کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں  سناؤ۔[20]

دوسرا گروہ وہ تھاجواس جلدبازی کے خلاف تھا،پہلی جنگوں  میں  اورخاص طورپرغزوہ بدرکے موقعہ پربھی یہی صورت تھی لیکن اس اختلاف میں  اورموجودہ اختلاف میں  ایک بہت بڑافرق تھاجسے بطورخاص نوٹ کرلیناچاہیے ،اس وقت قریش اپنی طاقت کے زعم میں  سرشارتھے اور ابوجہل کی تیززبان صلح پسندوں  کوبلیک میل کرلینے میں  کامیاب ہوگئی تھی ،اب قریش کی متعددشکستوں  اورمسلمانوں  کی سیاسی اورحربی برتری کے متعددواقعات بطورپس منظر موجودتھے ،چنانچہ جنگ پسندوں  کی رائے پرصلح پسندوں  کی رائے کوترجیح دی گئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیش کردہ شرائط کوتوجہ کے ساتھ سناگیا

فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ، أَلَسْتُمْ بِالوَالِدِ؟ قَالُوا: بَلَى،قَالَ: أَوَلَسْتُ بِالوَلَدِ؟قَالَ: فَهَلْ تَتَّهِمُونِی؟قَالُوا: لاَ،قَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی اسْتَنْفَرْتُ أَهْلَ عُكَاظَ، فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَیَّ جِئْتُكُمْ بِأَهْلِی وَوَلَدِی وَمَنْ أَطَاعَنِی؟قَالُوا: بَلَى،قَالَ: فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ لَكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، اقْبَلُوهَا وَدَعُونِی آتِیهِ،قَالُوا: ائْتِهِ

عروہ بن مسعودثقفی(جوعمراورتجربے کے اعتبارسے بزرگ سمجھے جاتے تھےاوراس وقت تک کفارکے ساتھ تھے)کھڑے ہوئے اور کہااے قوم کے لوگو!کیاتم مجھ پرباپ کی طرح شفقت نہیں  رکھتے،سب نے کہاکیوں  نہیں  ضروررکھتے ہیں ، عروہ نے پھرکہاکیامیں  بیٹے کی طرح تمہاراخیرخواہ نہیں  ہوں قَالُوا: بَلَى انہوں  نے کہاکیوں  نہیں (قریش عروہ کے ننھال ہیں ) عروہ نے پھرکہاتم لوگ مجھ پرکسی قسم کی تہمت لگاسکتے ہو؟انہوں  نے کہانہیں ، انہوں نے پوچھاکیاتمہیں  معلوم نہیں  ہے کہ میں  نے عکاظ والوں  کوتمہاری مددکے لئے کہاتھااورجب انہوں  نے انکارکیاتومیں  نے اپنے گھرانے ،اولاداوران تمام لوگوں  کوتمہارے پاس لاکھڑاکردیاتھاجنہوں  نے میراکہاماناتھا؟قریش نے کہاکیوں  نہیں (آپ کی باتیں  درست ہیں )اس کے بعدانہوں  نے کہادیکھواب اس شخص(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم )نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویزرکھی ہے تم اسے قبول کرلواورمجھے اس کے پاس (گفتگو)کے لئے جانے دو،چنانچہ عمروہ بن مسعودہی کوقریش کی سفارت سپردکی گئی کہ وہ جائیں  اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مذاکرات کریں  اورصحیح بات معلوم کرکے آئیں ۔

عروہ بن مسعودثقفی کی آمد:

قَالُوا: ائْتِهِ، فَأَتَاهُ، فَجَعَلَ یُكَلِّمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ قَوْلِهِ لِبُدَیْلٍ،فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ: أَیْ مُحَمَّدُ أَرَأَیْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ، هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ العَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ، وَإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى، فَإِنِّی وَاللهِ لَأَرَى وُجُوهًا، وَإِنِّی لَأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِیقًا أَنْ یَفِرُّوا وَیَدَعُوكَ،  إنَّهَا قُرَیْشٌ قَدْ خَرَجَتْ مَعَهَا الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ. قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، یُعَاهِدُونَ اللهَ لَا تَدْخُلُهَا عَلَیْهِمْ عَنْوَةً أَبَدًا

چنانچہ عروہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئےاورآپ سے گفتگوشروع کی، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے بھی وہی باتیں  کہیں  جوآپ بدیل سے کہہ چکے تھے، عروہ نے اس وقت کہااے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )!کیاآپ مختلف قبائل کے لوگوں  کوجمع کرکے اپنے قبیلہ والوں  کی جڑکاٹیں  گے؟ کیاآپ نے کسی عرب کے بارے میں  سناہے کہ اس نے تم سے پہلے اپنی قوم کونیست ونابودکیاہو؟اگرکوئی دوسری بات واقع ہوئی(یعنی ہم آپ پرغالب ہوئے) تومیں اللہ کی قسم !تمہارے ساتھیوں  کامنہ دیکھتاہوں  یہ مختلف جنسوں  کے لوگ(یعنی رومی،حبشی،فارسی)یہی کریں  گے ،اس وقت یہ سب آپ کوچھوڑکربھاگ جائیں  گے اورآپ کوتنہاچھوڑدیں  گے،اور قریش اس شان سے نکلے ہیں  کہ انہوں  نے بڑی بڑی تیاریاں  کی ہیں اورانہوں  نے درندوں  کی کھالیں اوڑھ رکھی ہیں اورعہدکیا  ہے کہ آپ کومکہ میں  داخل نہیں  ہونے دیں  گے۔[21]

فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ: امْصُصْ بِبَظْرِ اللاتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ؟ فَقَالَ: مَنْ ذَا؟قَالُوا: أَبُو بَكْرٍقَالَ: أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَوْلاَ یَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِی لَمْ أَجْزِكَ بِهَا لَأَجَبْتُكَ،قَالَ: وَجَعَلَ یُكَلِّمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْیَتِهِ، وَالمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ السَّیْفُ وَعَلَیْهِ المِغْفَرُ فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِیَدِهِ إِلَى لِحْیَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ یَدَهُ بِنَعْلِ السَّیْفِ، وَقَالَ لَهُ: أَخِّرْ یَدَكَ عَنْ لِحْیَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے انہوں  نے اس جملہ پرمشتعل ہو کر اسے برا بھلا کہہ کرکہااپنی دیوی لات کی شرمگاہ چوس ،کیاہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں  گے اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوتنہاچھوڑدیں  گے،عروہ نے یہ اہانت آمیز جملہ سن کرکہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!یہ کون ہیں ؟فرمایایہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ (بن ابی قحافہ) ہیں ،اس پروہ بولااللہ کی قسم !اگرتمہارامجھ پرایک احسان نہ ہوتاجس کااب تک میں  بدلہ نہیں  دے سکاہوں توتمہیں  ضروراس کاجواب دیتا(سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ نے ایک خوں  بہاکے سلسلہ میں  اس کی مالی مددکی تھی)،بیان کیاکہ وہ پھرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکرنے لگا،عرب کی عادت تھی کہ وہ اثناء گفتگو ہمرتبہ لوگوں  میں خیرسگالی اورتقرب کے اظہارکے لئے اپنے مخاطب کی داڑھی پرہاتھ پھرتے جاتے تھے ،اسی عادت کے مطابق عروہ باتیں  کرتے ہوئے آپ کی ریش مبارک کو چھوتا(لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دلجوئی کی خاطراسے اس فعل سے نہیں  روکا) مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ نبی کریم کے پاس تلوارلٹکائے اورسرپرخودپہنے کھڑے تھے،عروہ جیسے ہی وہ اپناہاتھ ریش مبارک کی طرف بڑھاتاتووہ تلوارکی نوک اس کے ہاتھ پرمارکرکہتے اس سے قبل کہ میری تلوار تجھ پرٹوٹ پڑے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک سے اپناہاتھ دوررکھ،ایک مشرک کے لئے کسی طرح زیبانہیں  کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کومس کرسکے

فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟قَالُوا: المُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَیْ غُدَرُ، أَلَسْتُ أَسْعَى فِی غَدْرَتِكَ؟ وَكَانَ المُغِیرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِی الجَاهِلِیَّةِ فَقَتَلَهُمْ، وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا الإِسْلاَمَ فَأَقْبَلُ، وَأَمَّا المَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِی شَیْءٍ،ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ یَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَیْنَیْهِ، فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ، وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى المُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَیْصَرَ، وَكِسْرَى، وَالنَّجَاشِیِّ، وَاللهِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِكًا قَطُّ یُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا  وَاللهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِی كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْهِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَیْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوهَا

عروہ نے اپناسراٹھایااورپوچھایہ کون صاحب ہیں ؟لوگوں  نے بتایایہ مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ ہیں ،عروہ نے انہیں  مخاطب کرکے کہااے دغاباز! کیا میں  نے تیری دغابازی کی سزاسے تجھ کونہیں  بچایا؟دراصل واقعہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے قبل مغیرہ بن شعبہ قبیلہ ثقیف کی شاخ بنومالک کے ساتھ تجارت کرنے مقوقس شاہ مصرکے پاس گے،بادشاہ نے مغیرہ کوکم اوراس کے دوسرے رفقاکوزیادہ انعامات دیے جس سے مغیرہ کوبہت رنج ہوا ،جب وہ راستہ میں  ایک مقام پرٹھیرے اورشراب پی کرخواب غفلت کی نیندسوگئے تو ان کے تیرہ آدمی قتل کرکے اوران کامال واسباب لوٹ کرمدینہ پہنچے اوراسلام قبول کر لیا(تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  ان کامال بھی رکھ دیاکہ جوچاہیں  اس کے متعلق حکم فرمائیں )نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  تیرااسلام توقبول کرتاہوں  لیکن اس مال سے مجھے کوئی سروکارنہیں (کیونکہ وہ دغابازی سے ہاتھ آیاہے جسے میں  نہیں  لے سکتا)بہرحال اس واقعہ پرثقیف کے دونوں  قبیلے مشتعل ہوکر آمادہ پیکار ہو گئے تھے ،بنومالک مقتولین کے قبیلہ سے تھے اورحلیف مغیرہ بن شعبہ کے قبیلے کے تھے ،اس موقعہ پرعروہ نے بیچ بچاؤکرکے ان مقتولین کی دیت دے کرمعاملہ رفع دفع کردیا ، عروہ کی گفتگوکے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی وہی جواب دیاجوپہلے لوگوں  کادیاجاچکاتھاکہ آپ جنگ کے ارادہ سے نہیں  فقط بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں ،اس دوران وہ صحابہ کرام کے طرزعمل کاجائزہ لیتارہااور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوآپ کے حسن عقیدت ،صدق واخلاص،اورمحبت وعظمت کاایساعجیب وغریب منظردیکھاجواس سے پیشترکبھی نہیں  دیکھاتھا،چنانچہ یہاں  سے اٹھ کر عروہ اپنے ساتھیوں  کے پاس پہنچا اور کہا اے قوم !واللہ میں  بادشاہوں  کے دربارمیں  وفدلے کرگیاہوں ،میں  قیصر،کسریٰ اور نجاشی کے درباروں  میں  پیش ہوا ہوں ، اللہ کی قسم! میں  نے آج تک کسی بادشاہ کو ایسا نہیں  دیکھاکہ اس کے مقربین،مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں  جتنی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے اصحاب ان کی کرتے ہیں ،  اللہ کی قسم! آپ تھوکتے ہیں  توآپ کاتھوک اٹھانے میں  ایک دوسرے پرمسابقت کرتے ہیں  اورجسے یہ ہاتھ لگ جائے وہ اسے اپنے جسم پرمل لیتاہے،جب آپ کوئی ارشادفرماتے ہیں  تو تعمیل حکم میں  صحابہ ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کو دوڑتے ہیں ،جب آپ وضوفرماتے ہیں  توصحابہ  رضی اللہ عنہم  وضوکے پانی کولینے  کے لئے ایسے جھپٹتے ہیں  گویاباہم جھگڑپڑیں  گے ، جب آپ گفتگوفرماتے ہیں آپ کے رعب و عظمت کی وجہ سے سب خاموش ہوجاتے ہیں  اور انتہائی تعظیم کی بناپر آپ کی طرف نظراٹھاکرنہیں  دیکھتے، محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے تمہارے سامنے ایک بہتربات رکھی ہے بہتریہی ہے کہ تم اسے منظورکرلو،میں  نے ایک ایسی قوم کودیکھاہے کہ وہ کبھی بھی کسی چیزکے بدلے اپنے نبی کوتمہارے سپردنہ کرے گی بہتریہی ہے کہ تم اپنے ارادہ سے بازآجاؤمجھے اندیشہ ہے کہ تم ان پرغلبہ نہ پاسکوگے، مگرقریش نے ان کی بات بھی نہ مانی اوراس کی صلح جوئی کوٹھکرادیاجس سے دل برداشتہ ہوکرعمروہ بن مسعوداپنے ساتھیوں  سمیت طائف واپس چلاگیابعدازاں  جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ثقیف سے واپس ہورہے تھے توعروہ نے اسلام قبول کرلیااوراپنی قوم کودعوت اسلام دیتے ہوئے ان کے ہاتھوں  شہیدہوگئے ۔

حلیس بن علقمہ کی آمد:

عروہ بن مسعودکا مصالحتی مشن چندوجوہ کی بناپرکامیاب نہ ہوسکالیکن اس سفارت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوصلح کے مذاکرات کوبڑھانے اورجاری رکھنے کاموقعہ مل گیا

فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی كِنَانَةَ: دَعُونِی آتِیهِ ، فَقَالُوا: ائْتِهِ،فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا فُلاَنٌ، وَهُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ البُدْنَ، فَابْعَثُوهَا لَهُ فَبُعِثَتْ لَهُ، وَاسْتَقْبَلَهُ النَّاسُ یُلَبُّونَ،فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ، مَا یَنْبَغِی لِهَؤُلاَءِ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ البَیْتِ

اس پربنوکنانہ کے ایک شخص( حلیس بن علقمہ)بولاکہ اچھامجھے بھی ان کے یہاں  جانے دو،لوگوں  نے کہاتم بھی جاسکتے ہو،جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کے اصحاب  رضی اللہ عنہم کے قریب پہنچے تواسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ شخص اس قوم میں  سے ہے جوقربانی کے جانوروں  کی بہت تعظیم کرتی ہے اس لئے قربانی کے جانوروں  کواٹھادوتاکہ وہ بچشم خوددیکھ لے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانوراس کے سامنے کردیئے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کااستقبال کیا،جب اس نے وادی میں  قربانی کے جانوروں  کودیکھا جن کی گردنوں  میں  قلاوے اوراونٹوں  کے کوہان چیرے ہوئے تھےتووہ بولاسبحان اللہ!ان لوگوں  کوتوبیت اللہ سے روکنا مناسب نہیں  ہے۔ [22]

فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، انى قد رایت ما لا یحل صده: الْهَدْیِ فِی قَلائِدِهِ، قَدْ أُكِلَ أَوْبَارُهُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّهِ ، قَالُوا لَهُ: اجْلِسْ، فَإِنَّمَا أَنْتَ رَجُلٌ أَعْرَابِیٌّ لا عِلْمَ لَكَ، أَنَّ الْحُلَیْسَ غَضِبَ عِنْدَ ذَلِكَ، وَقَالَ:یَا مَعْشَرَ  قُرَیْشٍ، وَاللهِ مَا عَلَى هَذَا حَالَفْنَاكُمْ، وَلا عَلَى هَذَا عَاقَدْنَاكُمْ، أَنْ تَصُدُّوا عَنْ بَیْتِ اللهِ مَنْ جَاءَهُ مُعَظِّمًا لَهُ، وَالَّذِی نَفْسُ الْحُلَیْسِ بِیَدِهِ لَتُخَلُّنَّ بَیْنَ مُحَمَّدٍ وَبَیْنَ مَا جَاءَ لَهُ، أَوْ لأَنْفِرَنَّ بِالأَحَابِیشِ نَفْرَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ!فَقَالُوا لَهُ: مَهْ! كُفَّ عَنَّا یَا حُلَیْسُ حَتَّى نَأْخُذَ لأَنْفُسِنَا مَا نَرْضَى بِهِ

پھر قریش کی طرف پلٹ گیااورکہنے لگااے قریش !میں  نے خود اپنی آنکھوں  سے قربانی کے جانوروں  کودیکھاہے جن کی گردنوں  میں  قلاوے ڈالے ہوئے ہیں  اورمعلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت دیرسے پڑے ہوئے ہیں  کیونکہ قلاوے کی جگہ کے بال جھڑگئے ہیں  ،میری رائے میں ان کوبیت اللہ سے روک دینامناسب نہیں ،قریش نے اس کی بات سن کرکہا بیٹھ جاؤتم ایک دہقانی آدمی ہوتمہیں  کچھ معلوم نہیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں  دھوکادیاہے مگرتم سمجھ نہیں  سکے،اس پر حلیس بن علقمہ کوغصہ آ گیا اور کہنے لگااے گروہ قریش !اللہ کی قسم!ہم نے تم سے اس بات پرمعاہدہ کیاتھانہ حلف اٹھایاتھا،کیاجوشخص بیت اللہ کی عظمت واحترام کی وجہ سے اس کی زیارت کوآیا ہوا سے اس سے روکاجاسکتاہے،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں  حلیس کی جان ہے تمہیں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوراس کے ارادہ کے درمیان آزادی دینی ہوگی ورنہ میں  حبوش کے سب لشکرکوایک قبیلہ کے آدمیوں  کی طرح تم سے علیحدہ کرلوں  گا،قریش نےمصلحت وقت کاخیال کرکے کہااے حلیس!ذراہمیں  مہلت دوتاکہ ہم اپنی مرضی کی شرائط ان سے منوالیں ۔[23]

مکرزبن حفص کی آمد:

فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُ مُكْرِزُ بْنُ حَفْصٍ، فَقَالَ لَهُمْ: دَعُونِی آتِهِ، قَالُوا: ائْتِهِ،فَلَمَّا اشرف علیهم قال النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا مُكْرِزُ بْنُ حَفْصٍ، وَهُوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ

پھر بنوعامرکا بھائی مکرزبن حفص کھڑاہوااوراس نے کہامجھے اجازت دوکہ میں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس جاؤں ، قریش نے مکرزبن حفص سے کہاتم بھی ہوآؤ(یہ ان چھاپہ ماردستہ میں  شامل تھاجنہوں  نے لشکراسلامی پرشب خوں  ماراتھامگراس کے علاوہ سب گرفتار ہو گے تھے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کومعاف فرماکرآزادکردیاتھا)اسے اپنی طرف آتادیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایہ مکرزبن حفص آرہا ہے جوایک فاسق وفاجرشخص ہے۔[24]

فَلَمَّا انْتَهَى إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَهُ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِبُدَیْلٍ وَأَصْحَابِهِ، فَرَجَعَ إلَى قُرَیْشٍ فَأَخْبَرَهُمْ بِمَا قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچااور گفتگوکی توآپ نے اس سے بھی وہی بات کہی جوبدیل بن ورقااوراس کے رفقاسے سے کہی تھی،اس شخص نے بھی واپس جاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہی بات دہرادی۔[25]

جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش :

جب فریقین میں  گفت وشنیدکاسلسہ جاری تھا۔

عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ قُرَیْشًا بَعَثُوا أَرْبَعِینَ رَجُلا مِنْهُمْ- أَوْ خَمْسِینَ رَجُلا وَأَمَرُوهُمْ أَنْ یُطِیفُوا بِعَسْكَرِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیُصِیبُوا لَهُمْ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأُخِذُوا أَخْذًا، فَأُتِیَ بهم رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَعَفَا عَنْهُمْ، وَخَلَّى سَبِیلَهُمْ وَقَدْ كَانُوا رَمَوْا فی عسكر رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالحجارة والنبل

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کے مولیٰ عکرمہ کہتے ہیں قریش نے مسلمانوں  کواشتعال دلانے کے لئے چالیس پچاس پرجوش نوجوانوں  کوآپ کے لشکرپرچھاپہ مارنے کے بھیجا تاکہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  مشتعل ہوکر کوئی ایساقدم اٹھالیں  جس سے لڑائی کابہانہ ہاتھ میں  آجائے ، انہوں  نے رات میں  مسلمانوں  کے کیمپ پرچھاپہ مارااوراسلامی لشکرکے پڑاؤپر پتھر اور تیر برسانے لگے لیکن لشکرکے پہرے پرامیرمحمدبن مسلمہ  رضی اللہ عنہ  چوکناتھے ، انہوں  نے ان سب کو گرفتار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  پیش کردیا،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قریش کے اس اقدام پر صبروضبط سے کام لیااورحکمت وفراست سے ان حملہ آوروں  کو معاف فرما کرچھوڑدیا۔[26]

عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ:ذُكِرَ لَنَا أَنَّ رَجُلا من اصحاب النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَهُ زُنَیْمٌ، اطَّلَعَ الثَّنِیَّةَ مِنَ الْحُدَیْبِیَةِ، فَرَمَاهُ الْمُشْرِكُونَ فَقَتَلُوهُ،فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْلا، فَأَتَوْهُ بِاثْنَیْ عَشَرَ رَجُلا فَارِسًا مِنَ الْكُفّارِ فَقَالَ لَهُمْ نَبِیّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكُمْ عَلِیَّ عَهْدٌ؟ هَلْ لَكُمْ عَلِیَّ ذِمَّةٌ؟قَالُوا: لا،قَالَ: فَأَرْسَلَهُمْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

قتادہ رحمہ اللہ  سے مروی ہےاسی اثنامیں  اطلاع ملی کہ ایک صحابی زنیم  رضی اللہ عنہ کوجووادی حدیبیہ سے بلندٹیلے پرچڑھ کرکفارکے سامنے نمودارہوئے تھے کفارنے تیرکانشانہ بناکرہلاک کر ڈالاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رسالہ بھیجااوروہ بارہ مشرکین شہسواروں  کوگرفتارکرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیامیں  نے تم سے کوئی عہدکیاہے جس کاایفاءلازم ہو؟انہوں  نے کہانہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کوچھوڑدیا۔[27]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ ثَمَانِینَ هَبَطُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِیمِ عِنْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَهُمْ یُرِیدُونَ أَنْ یَقْتُلُوهُ، فَأُخِذُوا أَخْذًا،فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےقریش نے اسی ہتھیاربندلوگوں  کاایک دستہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے روانہ کیا،اس مسلح جتھہ نے جَبَلِ التَّنْعِیمِ کی طرف سے عین نماز فجر کے وقت اچانک چھاپہ مارا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے ہمت کرکے تمام آدمیوں  کوگرفتارکرکے انہیں  بارگاہ رسالت میں  پیش کردیا،یہ انتہائی جارحانہ اوراشتعال انگیزکاروائیاں  تھیں  اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  جنگ پرآمادہ ہوجاتے توغلط نہ ہوتا، لیکن اس میں  خطرہ تھاکہ جنگ ناگزیر ہوجاتی جبکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نہیں  چاہتے تھے کہ قریش کے جنگ پسندعناصرامن عامہ کوتباہ کرنے میں  کامیاب ہوجائیں اوروہ عناصرجوصلح وامن کی طرف مائل ہیں  ناکام رہیں  اوراسی میں  مسلمانوں  کامفادبھی تھاچنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  بھی معاف فرما کر آزادکردیا۔[28]

خراش بن امیہ خزاعی کوبھیجنا:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَعَا خِرَاشَ بْنَ أُمَیَّةَ الْخُزَاعِیَّ، فَبَعَثَهُ إِلَى قُرَیْشٍ بِمَكَّةَ، وَحَمَلَهُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ یُقَالُ لَهُ الثَّعْلَبُ، لِیُبَلِّغَ أَشْرَافَهُمْ عَنْهُ مَا جَاءَ لَهُ، فَعَقَرُوا بِهِ جَمَلَ رَسُولِ اللهِ وَأَرَادُوا قَتْلَهُ، فَمَنَعَتْهُ الأَحَابِیشُ، فَخَلوا سَبِیلَهُ، حَتَّى أَتَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

بہرحال اس مسئلہ کاپرامن حل نکالنے کے لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خراش بن امیہ خزاعی  رضی اللہ عنہ  کواپنے خاص اونٹ ثعلب پرسوارکراکر قریش مکہ کو خبر کرنے کے لئے بھیجاکہ ہم جنگ کرنے کے لئے نہیں  بلکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں  مگرقریش بپھرے ہوئے تھےانہوں  سفیرکی بات کیاسننی تھی ان کے اونٹ کو پکڑ کراس کی کونچیں  کاٹ ڈالیں  اوران کی جان کے بھی درپے ہوگئے ، مگر حبوش نے دوراندیشی کامظارہ کرتے ہوئے کہ ایک مسلمان سفیرکے قتل کاانجام کیاہوگا انہیں  اس عمل سے روکا ، خراش  رضی اللہ عنہ  اپنی جان بچاکرناکام واپس آگئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوساراماجراگوش گزارکردیا۔[29]

ثُمَّ دَعَاالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لِیَبْعَثَهُ إِلَى مَكَّةَ، فَیُبَلِّغَ عَنْهُ أَشْرَافَ قُرَیْشٍ مَا جَاءَ لَهُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أَخَافُ قُرَیْشًا عَلَى نَفْسِی، وَلَیْسَ بِمَكَّةَ مِنْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبٍ أَحَدٌ یَمْنَعُنِی، وَقَدْ عَرَفَتْ قُرَیْشٌ عَدَاوَتِی إِیَّاهَا، وَغِلْظَتِی عَلَیْهَا، وَلَكِنِّی أَدُلُّكَ عَلَى رَجُلٍ هُوَ أَعَزُّ بِهَا مِنِّی، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ!

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسری سفارت روانہ کرنے کے لئے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کو سفیر بنانے کاارادہ فرمایا تاکہ وہ معززین قریش کواپنے آنے کی غرض وغایت بیان کردیں لیکن انہوں  نے معذرت کرتے ہوئے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! قریش کومیری ان سے عداوت اورتشددکاحال معلوم ہی ہے اور مکہ مکرمہ میں  میرے قبیلے بنوعدی بن کعب کاکوئی بھی شخص موجود نہیں  جومیرادفاع کر سکے ، سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  قریش کے ہاں  مجھ سے زیادہ معززہیں  اوران کی وہاں  قرابتیں  بھی ہیں  اگرآپ انہیں قریش کی طرف بھیجیں توزیادہ بہترہوگا،آپ نے اس رائے کو پسند فرمایا ۔

عثمان  رضی اللہ عنہ  بن عفان کی سفارت:

فَدَعَارَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ، فَبَعَثَهُ إِلَى أَبِی سُفْیَانَ وَأَشْرَافِ قُرَیْشٍ یُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ لَمْ یَأْتِ لِحَرْبٍ، وَإِنَّمَا جَاءَ زَائِرًا لِهَذَا الْبَیْتِ، مُعَظِّمًا لِحُرْمَتِهِ،وَأَمَرَهُ أَنْ یَأْتِیَ رِجَالًا بِمَكَّةَ مُؤْمِنِینَ وَنِسَاءً مُؤْمِنَاتٍ فَیَدْخُلَ عَلَیْهِمْ، وَیُبَشِّرَهُمْ بِالْفَتْحِ، وَیُخْبِرَهُمْ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ مُظْهِرٌ دِینَهُ بِمَكَّةَ، حَتَّى لَا یُسْتَخْفَى فِیهَا بِالْإِیمَانِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عثمان  رضی اللہ عنہ ذوالنورین کوبلاکرحکم فرمایاکہ وہ جاکرسردارقریش ابوسفیان اوردوسرے روساء کودعوت اسلام دیں  اورانہیں یہ پیغام پہنچا دیں  کہ رسول اللہ ان سے جنگ کرنے نہیں  بلکہ بیت اللہ کی تعظیم اور زیارت کی نیت سے آئے ہیں ،اورفرمایاکہ مکہ مکرمہ میں  جو مومن مرداور عورتیں  ہیں  ان کی فتح کے خوشخبری دے دواورانہیں  بتائیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ مکرمہ میں  اپنے دین کو غالب کرے گاحتی کہ یہاں  ایمان کوچھپایانہیں  جائے گا۔[30]

فَانْطَلَقَ عثمان فَمَرَّ عَلَى قُرَیْشٍ بِبَلْدَحَ فَقَالُوا: أَیْنَ تُرِیدُ؟ فَقَالَ:بَعَثَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَدْعُوكُمْ إِلَى اللهِ وَإِلَى الْإِسْلَامِ، وَأُخْبِرُكُمْ أَنَّا لِمَ نَأْتِ لِقِتَالٍ، وَإِنَّمَا جِئْنَا عُمَّارًا، فَقَالُوا: قَدْ سَمِعْنَا مَا تَقُولُ، فَانْفُذْ لِحَاجَتِكَ،وَقَامَ إِلَیْهِ أَبَانُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ فَرَحَّبَ بِهِ وَأَسْرَجَ فَرَسَهُ، فَحَمَلَ عثمان عَلَى الْفَرَسِ، وَأَجَارَهُ، وَأَرْدَفَهُ أَبَانٌ حَتَّى جَاءَ مَكَّةَ،فَانْطَلَقَ عُثْمَانُ حَتَّى أَتَى أَبَا سُفْیَانَ وَعُظَمَاءِ قریش، فبلغهم عن رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا أَرْسَلَهُ بِهِ، فَقَالُوا لِعُثْمَانَ حِینَ فَرَغَ من رساله رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِمْ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فَطُفْ بِهِ،قَالَ: مَا كُنْتُ لأَفْعَلَ حَتَّى یَطُوفَ به رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَاحْتَبَسَتْهُ قُرَیْشٌ عِنْدَهَا

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے جب مقامبَلْدَحَ پران کاگزرقریش کے پاس سے ہواتوقریش نے پوچھاعثمان  رضی اللہ عنہ !کہاں  کاارادہ ہے؟سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ نے فرمایامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھیجاہے کہ تمہیں  اللہ اوراسلام کی دعوت دوں  اورہم تمہیں  آگاہ کرتے ہیں  کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں  آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں ، انہوں  نے کہاتم نے جوکچھ کہاہم نے سن لیااب جاؤاوراپناکام کرو، عثمان  رضی اللہ عنہ کاچچازادبھائی ابان بن سعیداٹھااس نے اپنے بھائی کومرحباکہااپنے گھوڑے پرزین رکھی اورعثمان  رضی اللہ عنہ کوپناہ دے کرگھوڑے پر سوار کر کے مکہ مکرمہ میں  لے آیا، سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  ابوسفیان اورقریش کے عمائدکے پاس آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاپیغام ان کوپہنچایاجب وہ پیغام سناچکے توروساء مکہ نے سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کوبالاتفاق جواب دیاکہ ہم نے قسمیں  اٹھالی ہیں  کہ اپنے جیتے جی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواس سال مکہ میں  داخل نہیں  ہوسکیں  گے ہاں  اگرآپ اکیلے طواف کرناچاہیں  توآپ کواجازت ہے،مگرسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  نے فرمایامیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیرکبھی طواف نہیں  کروں  گا،ان کایہ کورا جواب سن کرقریش خاموش ہوگئے ، اوردوسری اشتعال انگیزکاروائی کی اور عثمان  رضی اللہ عنہ  کوحرم میں نظربند کرلیاگیا،

وَقَالَ الْمُسْلِمُونَ قَبْلَ أَنْ یَرْجِعَ عثمان: خَلَصَ عثمان قَبْلَنَا إِلَى الْبَیْتِ وَطَافَ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَظُنُّهُ طَافَ بِالْبَیْتِ وَنَحْنُ مَحْصُورُونَ، فَقَالُوا: وَمَا یَمْنَعُهُ یَا رَسُولَ اللهِ وَقَدْ خَلَصَ؟ قَالَ  ذَاكَ ظَنِّی بِهِ أَلَّا یَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ حَتَى نَطُوفَ مَعَهُ،فبلغ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ أَنَّ عُثْمَانَ قَدْ قُتِلَ،قَالَ: لا نَبْرَحُ حَتَّى نُنَاجِزَ الْقَوْمَ

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  کے واپس لوٹنے سے پہلے مسلمانوں  نے کہا سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  ہم سے پہلے بیت اللہ پہنچ کرطواف کریں  گے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میراخیال ہے وہ اس حالت میں  کہ ہم یہاں  محصورہیں  بیت اللہ کاطواف نہیں  کریں  گے،  صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !وہ بیت اللہ پہنچ گئے ہیں  انہیں  کون سی چیزبیت اللہ کے طواف سے روک سکتی ہے ؟آپ نے فرمایاسیدناعثمان کے بارے میں  میرایہ گمان ہے کہ وہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہیں  کریں  گے جب تک کہ ان کے ساتھ ہم نہ کریں ، جب سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ کی نظربندی کوتین دن ہوگئے توکسی طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواورمسلمانوں  کویہ خبرپہنچی کہ عثمان کوقتل کردیاگیاہے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواس افواہ سے بہت صدمہ پہنچا ، سفیر کے قتل کے بعداب مزیدتحمل کاموقعہ نہ تھااوراس کے سوااورکوئی چارہ کارنہ تھاکہ مسلمان جنگ کے لئے تیار ہوجائیں ،اس لئے آپ نے فرمایاکہ جب تک میں  ان سے بدلہ نہ لے لوں  گایہاں  سے حرکت نہ کروں  گا۔[31]

عَن نَاجِیَةَ بْنِ جُنْدُبٍ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ صُدَّ الْهَدْیُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ابْعَثْ مَعِی الْهَدْیَ فَلْأَنْحَرْهُ فِی الْحَرَمِ، قَالَ:وَكَیْفَ تَصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: قُلْتُ أُجْرِیهِ فِی أَوْدِیَةٍ لَا یَقْدِرُونَ عَلَیْهَا؟ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ بِهِ حَتَّى نَحَرْتُهُ فِی الْحَرَمِ

قیام حدیبیہ ہی کے دوران ذکوان رضی اللہ عنہ بن جندب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ اجازت مرحمت فرمائیں  تومیں  قربانی کے جانوروں  کرحرم میں  جاکرذبح کردوں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین قریش تومسلمانوں  کومکہ مکرمہ میں  داخل ہونے سے روکنے کے لیے لڑنے مرنے پرتلے بیٹھے ہیں  اس صورت میں  تم کس طرح جانورحرم میں  لے جاکرذبح کرسکتے ہو؟انہوں نے عرض کیامیرے ماں  باپ آپ پرقربان،میں  جانوروں  کوایسے راستے سے حرم تک لے جاؤں  گاکہ قریش کو اس کاپتہ تک نہ چلے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااچھاتوجانورلے جاؤ، ذکوان  رضی اللہ عنہ کمال ہوشیاری اوررازداری سے جانوروں  کوحرم میں  لے گئے اوروہاں  انہیں  ذبح کرکے واپس آئے۔[32]

بیعت الرضوان :

چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کوجمع ہونے کوکہاتو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  جمع ہوگئے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم ببول کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:فَبَایَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بِیَدِهِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، وَهِیَ سَمُرَةٌ،

جابر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیعت کی اورسیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ نے درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کادست مبارک تھاما ہواتھااوروہ ببول کادرخت تھا۔[33]

عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُنِی یَوْمَ الشَّجَرَةِ، وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُبَایِعُ النَّاسَ، وَأَنَا رَافِعٌ غُصْنًا مِنْ أَغْصَانِهَا عَنْ رَأْسِهِ

اورمعقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  نے اپنے آپ کودیکھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں  سے بیعت لے رہے تھے اورمیں  ببول کی جھکی ہوئی شاخوں  کو اٹھاکر کھڑا ہوا تھا۔ [34]

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کے قصاص کے لئے اپنادست مبارک آگے بڑھایا ،

أَنَّ أَوَّلَ مَنْ بَایَعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْعَةَ الرِّضْوَانِ أَبُو سِنَانٍ  الْأَسَدِیُّ

شعبی رحمہ اللہ  کہتے ہیں سب سے پہلے ابوسنان اسدی  رضی اللہ عنہ  (جن کانام وہب بن محصن تھااوریہ عکاشہ  رضی اللہ عنہ بن محصن کے بھائی تھے)نے اس سعادت کوحاصل کیا۔[35]

فَقَالَ: هَذَا وَهْلٌ.أَبُو سِنَانٍ الأَسَدِیُّ قُتِلَ فِی حِصَارِ بَنِی قُرَیْظَةَ قَبْلَ الْحُدَیْبِیَةِ. وَالَّذِی بَایَعَهُ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَةِ سِنَانُ بْنُ سِنَانٍ الأَسَدِیُّ

ابن سعدکہتے ہیں میں  نے اس حدیث کومحمدبن عمرسے بیان کیاتوانہوں  نے کہاکہ یہ نساین ہے، ابوسنان الاسدی حدیبیہ سے قبل غزوہ بنی قریظہ کے حصارکے موقع پر شہید ہو گئے تھے جنہوں  نے حدیبیہ کے دن بیعت کی وہ سنان  رضی اللہ عنہ بن سنان الاسدی تھے۔[36]

أَنّ أَوّلَ مَنْ بَایَعَ بَیْعَةَ الرّضْوَانِ سِنَانُ بْنُ أَبِی سِنَانٍ الْأَسَدِیّ

واقدی کہتے ہیں  بیعت رضوان میں  سب سے پہلے سنان بن سنان الاسدی نے  بیعت کی۔[37]

 عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أبی قَالَ: أَوَّلُ مَنْ بَایَعَ لِعُثْمَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ثُمَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

اورعبدالرحمٰن اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کے لئے سب سے پہلے عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ نے اورپھرسیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے بیعت کی۔[38]

عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ أَبُو سِنَانِ بْنِ وَهْبٍ الْأَسَدِیّ

عامر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ببول کے درخت کے نیچے سب سے پہلے ابوسنان بن وھب اسدی رضی اللہ عنہ  نے بعیت کی۔[39]

 قَالَ لِلنّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اُبْسُطْ یَدَك أُبَایِعْك،قَالَ عَلَامَ تُبَایِعُنِی؟قَالَ: أُبَایِعُ عَلَى ما فی نفسك، قَالَ: وما فِی نفسی؟قافتح أو شهادة،قَالَ نَعَمْ فَبَایَعَهُ،

اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیااے اللہ کےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائیں ،آپ نے فرمایاکس چیزپربیعت کرتے ہو؟ابوسنان  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااس چیزپرجومیرے دل میں  ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتیرے دل میں  کیاہے ؟ابوسنان  رضی اللہ عنہ  بن وہب نے کہااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں  یہ ہے کہ میں  اس وقت تک تلوارچلاتارہوں  جب تک اللہ عزوجل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوغلبہ نصیب فرمائے یااس راہ میں  ماراجاؤ ں ،آپ نے اسی پران سے بیعت لی۔[40]

فَبَایَعَهُ النَّاسُ بَعْدُ

اورپھراسی پرسب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے بیعت کی۔[41]

بیعت کرنے والوں  میں ابوثعلبہ بن جرہم  رضی اللہ عنہ  ، ابوزمعہ  رضی اللہ عنہ  ، ابوالضبین الجہنی  رضی اللہ عنہ  ، ثابت بن ضحاک  رضی اللہ عنہ ،سلمہ بن عمروبن           الاکوع   رضی اللہ عنہ ،عائذبن ثعلبہ  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن ابی حدراسلمی  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن مغفل المزنی  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن یزید  رضی اللہ عنہ ، علقمہ بن خالدابوعبداللہ،عمروبن الاخطب انصاری رضی اللہ عنہ ،فضالہ بن عبیدانصاری  رضی اللہ عنہ ،مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ  ،زیدبن خالد الجہنی  رضی اللہ عنہ ،عائذبن عمروالمزنی   رضی اللہ عنہ  جن کی کنیت ابوہبیرہ تھی،عبداللہ بن یزید الادسی ، سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن صیفی   رضی اللہ عنہ ،تمیم بن ربیعہ   رضی اللہ عنہ رافع بن مکیث  رضی اللہ عنہ ،بشیرالاسلمی ،ہانی بن اوس  رضی اللہ عنہ  ،زاہربن الاسود رضی اللہ عنہ  اورعبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ  وغیرہ شامل تھے ،سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  بیعت کر چکے تھے ،جب نصف کے قریب لوگوں  نے بیعت کرلی

فَقَالَ لِی:یَا سَلَمَةُ أَلاَ تُبَایِعُ؟  قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ بَایَعْتُ فِی الأَوَّلِ، قَالَ:وَفِی الثَّانِی

توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایااےسلمہ  رضی اللہ عنہ تم بیعت نہیں  کرتے ؟میں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  تو پہلے بیعت کرچکاہوں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرسہی چنانچہ انہوں  نے دوبارہ بیعت کی۔[42]

ورآنى النبی  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْزَلَ، فَأَعْطَانِی حَجَفَةً أَوْ دَرَقَةً، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللهِ بَایَعَ النَّاسَ،حَتَّى إِذَا كَانَ فِی آخِرِهِمْ، قَالَ: أَلا تُبَایِعُ یَا سَلَمَةُ! قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ بَایَعْتُكَ فِی أَوَّلِ النَّاسِ وَأَوْسَطِهِمْ! قَالَ: وَأَیْضًا قَالَ:فَبَایَعْتُهُ الثالثة، فقال  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَأَیْنَ الدَّرَقَةُ، وَالْحَجَفَةُ الَّتِی أَعْطَیْتُكَ؟قُلْتُ: لَقِیَنِی عَمِّی عَامِرٌ أَعْزَلَ فَأَعْطَیْتُهُ إِیَّاهَافَضَحِكَ  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: إِنَّكَ كَالَّذِی قَالَ الأَوَّلُ: اللهُمَّ ابْغِنِی حَبِیبًا هُوَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ میرے پاس نہ توہتھیارہے اورنہ ڈھال ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے چمڑے کی ایک ڈھال عطافرمائی،اورپھرآپ لوگوں  سے بیعت لینے میں  مصروف ہوگئے، پھرآخری ریلے میں  آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ سے فرمایاسلمہ تم بیعت نہیں  کرتے ؟ سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  تودومرتبہ بیعت کرچکاہوں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیسری مرتبہ سہی چنانچہ میں  نے آگے بڑھ کرتیسری مرتبہ بیعت کرلی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسبحان اللہ ! وہ ڈھال جومیں  نے تمہیں  دی تھی کیا ہوگئی ؟ میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نے اپنے چچاعامر  رضی اللہ عنہ  کودیکھا کہ ان کے پاس نہ ہتھیارہے اورنہ ڈھال تومیں  نے انہیں  دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسکرائے اورفرمایاتمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس کے لیے کسی سلف نے یہ تمناکی تھی الٰہی !مجھے ایک ایسادوست عطافرماجومیری جان سے زیادہ مجھے عزیزہو۔[43]

یہ تھاصحابہ کرام کاجذبہ ایثاروقربانی اپنے پاس کوئی ہتھیارنہیں دوسری جانب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عطافرمائی ہوئی ڈھال ہے جوبہت ہی متبرک ہے مگرانہوں  نے اسے اپنی ذات کے لئے مقررکرنے کے بجائے اپنے دوسرے مسلمان بھائی کوفوقیت دی ۔

قَالَ: ابْنُ عُمَرَ:فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ الیُمْنَى:هَذِهِ یَدُ عُثْمَانَ . فَضَرَبَ بِهَا عَلَى یَدِهِ، فَقَالَ:هَذِهِ لِعُثْمَانَ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب بیعت سے فارغ ہوئے تو اپنے بائیں  ہاتھ کو اٹھاکرفرمایایہ سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ کاہاتھ ہے اورپھراسے اپنے دوسرے ہاتھ پررکھ کرفرمایایہ بیعت سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ کی جانب سے ہے۔[44]

فَقَالَ: هَذِهِ لِعُثْمَانَ أی عنه وَلَا رَیْبَ إِنَّ یَدَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ خیر مِنْ یَدِهِ  لِنَفْسِهِ

سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ  اس واقعہ کا ذکر کرکے فرمایا کرتے تھے اس میں  کوئی شک نہیں  کہ میری جانب سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کابایاں  ہاتھ میرے دائیں  ہاتھ سے کہیں  بہتر تھا۔[45]

فَبَایَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، وَلَمْ یَتَخَلَّفْ عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ حَضَرَهَا، إلَّا الْجَدَّ بْنَ قَیْسٍ، أَخُو بَنِی سَلِمَةَ، فَكَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ یَقُولُ: وَاَللَّهِ لَكَأَنِّی أَنْظُرُ إلَیْهِ لَاصِقًا بِإِبْطِ نَاقَتِهِ

اس موقعہ پرسب مسلمانوں  نے بیعت کی سوائےجدبن قیس کے ،جابر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے اس کودیکھاکہ وہ اپنے اونٹ کے پیٹ سے لگ کرچھپ گیاتھا۔[46]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْتُمْ خَیْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ الْیَوْمَ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےپھررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج کے دن روئے زمین پرجتنے لوگ ہیں  ان سب سے بہتر تم ہو۔

عَنْ جَابِرٍ،  عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:لَا یَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ

اورجابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآج اس درخت تلے بیعت کرنے والوں  میں  سے ایک بھی جہنم میں  نہیں  جائے گا۔[47]

أُمُّ مُبَشِّرٍ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ عِنْدَ حَفْصَةَ: لَا یَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللهُ، مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ، الَّذِینَ بَایَعُوا تَحْتَهَاقَالَتْ: بَلَى، یَا رَسُولَ اللهِ فَانْتَهَرَهَا، فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا  فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جِثِیًّا

ام مبشر رضی اللہ عنہا سے مروی ہےانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا کے پاس فرمارہے تھےاگراللہ چاہے تواصحاب شجرہ (یعنی جن لوگوں  نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی)میں  سے کوئی جہنم میں  نہ جائے گا،انہوں  نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں  نہ جائیں  گےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوجھڑکا،ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا  نے کہااللہ تعالیٰ نے فرمایاتم میں  سے کوئی نہیں  ہے جوجہنم پرنہ جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کے بعدیہ ہے پھرہم پرہیزگاروں  کو نجات دیں  گےاور ظالموں  کوان کے گھٹنوں  کے بل چھوڑدیں  گے۔[48]

امْرَأَةِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ حَفْصَةَ، فَقَالَ: لَا یَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَةَ . قَالَتْ حَفْصَةُ: أَلَیْسَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا}،[49] قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَمَهْ، {ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوْا}، [50]

زید  رضی اللہ عنہ بن حارثہ کی اہلیہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا کے گھرپرتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاغزوہ بدراورغزوہ حدیبیہ میں  شریک کوئی بھی شخص جہنم میں  داخل نہیں  ہوگا،ام المومنین حفصہ  رضی اللہ عنہا نے کہاکیااللہ عزوجل نے یہ نہیں  فرمایا’’ تم میں  سے کوئی ایسانہیں  ہے جوجہنم پرواردنہ ہو،یہ توایک طے شدہ بات ہے جسے پوراکرناتیرے رب کاذمہ ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس میں  یہ بھی ہے’’ پھرہم ان لوگوں  کوبچالیں  گے جو(دنیامیں )متقی تھے اورظالموں  کواسی میں  گراہواچھوڑدیں  گے۔‘‘ [51]

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ عَبْدًا لِحَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَةَ جَاءَ یَشْكُو حَاطِبًا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَیَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَذَبْتَ، لَا یَدْخُلُهَا؛ فَإِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَةَ

جابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحاطب بن ابوبلتعہ  رضی اللہ عنہ  کے غلام حاطب کی شکایت لے کرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوااورکہنے لگااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم حاطب ضرورجہنم میں  جائیں  گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتوجھوٹاہے وہ جہنمی نہیں  ،وہ غزوہ بدرمیں  اورحدیبیہ میں  موجود رہا تھا۔[52]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ:  عَلَى أَیِّ شَیْءٍ بَایَعْتُمْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الحُدَیْبِیَةِ؟قَالَ: عَلَى المَوْتِ

یزیدبن ابی عبیدنے بیان کیامیں  نے سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاصلح حدیبیہ کے موقع پرآپ لوگوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کس چیزپربیعت کی تھی ؟انہوں  نے بتلایاموت پر۔[53]

حَدَّثَنَا جُوَیْرِیَةُ،فَسَأَلْتُ نَافِعًا: عَلَى أَیِّ شَیْءٍ بَایَعَهُمْ، عَلَى المَوْتِ؟قَالَ:لاَ، بَلْ بَایَعَهُمْ عَلَى الصَّبْرِ

جویریہ کہتی ہیں میں  نے نافع   رضی اللہ عنہ سے پوچھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے کس بات پربیعت کی تھی ،کیاموت پرلی تھی؟فرمایانہیں  بلکہ صبرواستقامت پربیعت لی تھی۔[54]

مگریہ کوئی معمولی بیعت نہ تھی ایک طرف چودہ سومسلمان اپنے مرکزسے ڈھائی سومیل دور جو بغیراسلحہ اورجنگی لباس کے مکہ کی عین سرحدپرٹھیرے ہوئے تھے جن پران کادشمن اردگردکے حلیف قبائل کوجمع کرکے مسلمانوں  کوگھیرکر جب چاہے خوفناک حملہ کر سکتاتھا،اس کے باوجودچودہ سوصحابہ نے اخلاص ایمانی اوراللہ کی راہ میں  فدائیت کاثبوت پیش کرتے ہوئے آپ کے ساتھ آپ کے دست مبارک پر مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹنے کی بیعت کی، اسے بیعت رضوان کہتے ہیں ،

فَأَرْعَبَ ذَلِكَ الْمُشْرِكِینَ  ، وَأَرْسَلُوا مَنْ كَانَ عِنْدَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَدَعَوْا إِلَى الْمُوَادَعَةِ وَالصُّلْحِ

جب قریش کومسلمانوں  کے جوش خروش اورجاں  نثاری کی اس بیعت کاعلم ہواکہ اصحاب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی بیعت کی ہے تووہ ہمت ہار گئے اور خوف زدہ ہوکرسیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کو چھوڑ دیااورافہام وتفہیم کے لئے نامہ وپیام کاسلسلہ شروع کیا۔[55]

وَلَمَّا تَمَّتِ الْبَیْعَةُ رَجَعَ عثمان فَقَالَ لَهُ الْمُسْلِمُونَ: اشْتَفَیْتَ یَا أبا عبد الله مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ؟فَقَالَ:بِئْسَ مَا ظَنَنْتُمْ بِی،وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ مَكَثْتُ بِهَا سَنَةً، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُقِیمٌ بِالْحُدَیْبِیَةِ مَا طُفْتُ بِهَا حَتَّى یَطُوفَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَقَدْ دَعَتْنِی قُرَیْشٌ إِلَى الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ فَأَبَیْتُ،فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَمَنَا بِاللهِ وَأَحْسَنَنَا ظَنًّا

جب بیعت ختم ہوگئی اورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ بھی واپس آگئے تومسلمانوں  نے کہااے ابوعبداللہ!تم نےبیت اللہ کے طواف سے (روح)کوتازہ کرلیا؟انہوں  نے جواب دیاجوتم نے میرے متعلق بہت غلط ظن کیا،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے اگرمیں  ایک سال بھی وہاں  رہتااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حدیبیہ میں  مقیم ہوتے توبھی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طواف کرنے سے پہلے ہرگزطواف نہ کرتا،قریش نے مجھے طواف کرنے کی دعوت بھی دی تھی مگرمیں  نے انکارکردیاتھا،مسلمانوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم سے زیادہ اللہ کی معرفت رکھتے ہیں  اورہم سے زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں ۔[56]

عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ النَّاسُ یَأْتُونَ الشَّجَرَةَ الَّتِی یُقَالُ لَهَا شَجَرَةُ الرِّضْوَانِ فَیُصَلُّونَ عِنْدَهَا. قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَأَوْعَدَهُمْ فِیهَا وَأَمَرَ بِهَا فَقُطِعَتْ

نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کے دورخلافت میں  جب انہیں معلوم ہوا کہ لوگ اس درخت کے پاس تبرک حاصل کرنے کے لئے جانے لگے ہیں  جس کے نیچے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے ختم المرسلین کے ہاتھ پربیعت کی تھی تو ( سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کوخوف محسوس ہوا کہ مبادہ کہیں  آثارپرستی شروع نہ ہو جائے اس لئے)آپ نے فوراًحکم دیاکہ اس درخت کو کاٹ ڈالا جائے ،چنانچہ اس درخت کوکاٹ ڈالا گیا۔[57]

عَنْ نَافِعٍ قَالَ: خَرَجَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم  بَعْدَ ذَلِكَ بَأَعْوَامٍ فَمَا عَرَفَ أَحَدٌ مِنْهُمُ الشَّجَرَةَ وَاخْتَلَفُوا فِیهَا

نافع   رضی اللہ عنہ  سے منقول ہےبیعت رضوان کے کئی سال بعدصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے اس درخت کو تلاش کیا مگراسے پہچان نہ سکے اوراس میں  اختلاف ہوگیاکہ وہ درخت کونساتھا۔[58]

فَقَالَ سَعِیدٌ، حَدَّثَنِی أَبِی أَنَّهُ كَانَ فِیمَنْ بَایَعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ نَسِینَاهَا فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَیْهَا فَقَالَ سَعِیدٌ:إِنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَعْلَمُوهَا وَعَلِمْتُمُوهَا أَنْتُمْ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ  اپنے والدسے روایت کرتے ہیں میرے والدبیعت رضوان میں  شریک تھے انہوں  نے مجھ سے کہاکہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرة القضاء کے لئے گئے توہم اس درخت کوبھول چکے تھےتلاش کرنے پربھی اسے نہ پاسکے،سعید رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب تواس درخت کوپہچان نہ سکے تم لوگوں  نے کیسے پہچان لیا(اس کے تلے مسجدبنائی )تم ان سے زیادہ علم والے ٹھیرے۔[59]

وَزَعَمُوا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ مَرَّ بِذَلِكَ الْمَكَانِ بَعْدَ أَنْ ذَهَبَتِ الشَّجَرَةُ، فَقَالَ: أَیْنَ كَانَتْ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ یَقُولُ هُنَا، وَبَعْضُهُمْ یَقُولُ: هَهُنَا، فَلَمَّا كَثُرَ اخْتِلَافُهُمْ،قَالَ: سِیرُوا هَذَا التَّكَلُّفُ فَذَهَبَتِ الشَّجَرَةُ

ایک روایت ہے   سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  اپنے عہدخلافت میں  جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں  نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں  ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی؟ کسی نے کہافلاں  درخت ہے اورکسی نے کہافلاں ،اس پرسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا چھوڑواس تکلف کی کیا ضرورت ہے۔[60]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَتْ رَحْمَةً مِنَ اللهِ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں وہ درخت چھپا دیا گیا اور دراصل اس کاچھپادیاجاناہی اللہ کی رحمت تھی( ورنہ قبہ پرست ،درخت پرستی میں  کیا تامل کرتے ، ہندؤوں  کے یہاں  پیپل کادرخت پجتا ہے مسلمانوں  کے یہاں  ببول کا درخت پجنے لگتا)۔[61]

 سہیل بن عمروکی آمد:

جنگ کے تمام آثارنمودارہوچکے تھے کہ قریش نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے بنوعامربن لوی کے بھائی سہیل بن عمروکوایک وفدکے ساتھ اس ہدایت کے ساتھ آپ کے پاس گفتگوکرنے کے لئے بھیجاکہ صلح اس بات پرہوکہ آپ اس سال یونہی عمرہ کے بغیرواپس چلے جائیں کیونکہ ہم نہیں  چاہتے کہ کہ اہل عرب مسلمانوں  کامکہ مکرمہ میں  زبردستی داخلہ کی چہ میگوئیاں  کرتے پھریں ،

عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ لَمَّا جَاءَ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ سَهُلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ

عکرمہ کہتے ہیں  جب سہیل بن عمروآئے توان کوآتادیکھ کرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو فرمایا البتہ تمہارا معاملہ کچھ آسان ہوگیا۔[62]

اب قریش صلح کی طرف مائل ہوئے ہیں  اوراس شخص کوصلح کے لئے بھیجا ہے ، سہیل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا ،بہت دیرتک صلح اورشرائط صلح پر گفتگوہوتی رہی، طویل گفت وشنیدکے بعدآخررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش کے وفدکے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیاجسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں ۔

هَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولَ اللهِ سُهَیْلَ بْنَ عَمْرٍو

یہ وہ صلح نامہ ہے جومحمدبن عبداللہ اورسہل بن عمروکے مابین طے ہوا۔

نَحْنُ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَهْدِهِمْ، وَأَنَّكَ تَرْجِعُ عَنَّا عَامَكَ هَذَا، فَلَا تَدْخُلُ عَلَیْنَا مَكَّةَ، وَأَنَّهُ إذَا كَانَ عَامُ قَابِلٍ، خَرَجْنَا عَنْكَ فَدَخَلْتهَا بِأَصْحَابِكَ، فَأَقَمْتَ بِهَا ثَلَاثًا، مَعَكَ سِلَاحُ الرَّاكِبِ، السُّیُوفُ فِی الْقُرُبِ، لَا تَدْخُلُهَا بِغَیْرِهَا

x اوراس بات پرعہدہواکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس سال مکہ میں  داخل ہوئے بغیرمسلمانوں  کے ساتھ واپس چلے جائیں ،آگلے سال مکہ مکرمہ آئیں  اورصرف تین روزقیام کریں  گے(کسی ممکنہ تصادم سے بچنے کے لئےاس دوران ہم مکہ کوان کے لئے خالی کرکے باہرنکل جائیں  گے) اس وقت آپ کے ساتھ صرف مسافرانہ ہتھیارہوں  گے اورتلواریں  بھی میان کے اندرہوں  گی ۔

عَلَى أَنَّهُ مَنْ أَتَى مُحَمَّدًا مِنْ قُرَیْشٍ بِغَیْرِ إذْنِ وَلِیِّهِ رَدَّهُ عَلَیْهِمْ، وَمَنْ جَاءَ قُرَیْشًا مِمَّنْ مَعَ مُحَمَّدٍ لَمْ یَرُدُّوهُ عَلَیْهِ، وَإِنَّ بَیْنَنَا عَیْبَةً مَكْفُوفَةً  ، وَأَنَّهُ لَا إسْلَالَ وَلَا إغْلَالَ

x قریش کاجوشخص بغیراپنے ولی اورآقاکی اجازت مسلمانوں  کی پناہ میں  جائے گامسلمان اسے لازماً قریش کے حوالے کردیں  گےاگرچہ وہ مسلمان ہوکرجائے لیکن مسلمانوں  کاجوآدمی قریش کی پناہ میں  آئے گاقریش اسے واپس نہیں  کریں  گے،اورکسی کوروکنااورقیدکرنانہ ہوگا۔

 اصْطَلَحَا عَلَى وَضْعِ الْحَرْبِ عَنْ النَّاسِ عَشْرَ سِنِینَ یَأْمَنُ فِیهِنَّ النَّاسُ وَیَكُفُّ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ

x فریقین میں  دس سال کے لئے لڑائی موقوف رہے گی،اس عرصہ میں  کوئی فریق خفیہ یاعلانیہ ایک دوسرے پرتلوارنہیں  اٹھائے گااورنہ سرقہ کرے گا۔

وَأَنَّهُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ مُحَمَّدٍ وَعَهْدِهِ دَخَلَ فِیهِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَهْدِهِمْ دَخَلَ فِیهِ

x متحدہ قبائل کویہ اختیارہے کہ وہ جوچاہیں  تومحمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں  داخل ہوجائیں  اورچاہیں  توقریش کے عہدمیں  داخل ہوجائیں ،جوقبیلہ جس قریق میں  داخل ہوگااس فریق کاایک حصہ تصورہو گااس لئے اگرکسی قبیلہ پرکوئی ظلم وزیادتی ہوئی توخوداصل فریق پرہی ظلم وزیادتی تصورہوگی ۔[63]

جن صلح کی شرائط پرآپ نے آمادگی کااظہارفرمادیاتھاان پرسیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے علاوہ مسلمانوں  کاپورالشکرمضطرب تھا کوئی شخص بھی ان مصلحتوں  کونہیں  سمجھ رہاتھاجنہیں  نگاہ میں  رکھ کرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یہ شرائط تسلیم فرمارہے تھے ،کسی کی نظراتنی دوررس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں  جوخیرعظیم رونماہونے والی تھی اسے دیکھ سکے ،کفارقریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پربے تاب تھے کہ ہم آخردب کریہ ذلیل شرائط کیوں  قبول کریں ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  جیسا بالغ النظرمدبرتک کایہ حال تھاکہ وہ کہتے ہیں

وَاللهِ مَا شَكَكْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلَّا یَوْمَئِذٍ ، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَسْتَ نَبِیَّ اللهِ حَقًّا؟قَالَ: بَلَى، قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ؟قَالَ: بَلَى،( قَالَ: أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّةَ فِی دِینِنَا، وَنَرْجِعُ، وَلَمَّا یَحْكُمِ اللهُ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ،فَقَالَ:یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّی رَسُولُ اللهِ وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللهُ أَبَدًا)

اللہ کی قسم! مسلمان ہونے کے بعدکبھی میرے دل میں  شک نے راہ نہ پائی تھی مگراس موقعہ پرمیں  بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا،اوربے چین ہوکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئے اور عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم کیاآپ اللہ کے سچے نبی نہیں ؟آپ نے فرمایاکیوں  نہیں ،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہاکیاہم حق پراوروہ باطل پرنہیں  ہیں  ؟ا ٓپ نے فرمایابیشک،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہاکیاہمارے مقتولین جنت میں  اوران کے مقتولین جہنم میں  نہیں  ؟آپ نے فرمایاکیوں  نہیں (مطلب سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کایہ تھاکہ پھردب کرصلح کیوں  کریں  جنگ کیوں  نہ کریں ) سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیاپھر ہم یہ ذلت آمیزشرط کیوں  گواراکریں ،اورایسی حالت میں  کیوں  پلٹیں  کہ ابھی اللہ نے ہمارے اوران کے درمیان فیصلہ نہیں  کیاہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے!میں  اللہ کاسچارسول ہوں ،میں  اللہ کے حکم کے خلاف کچھ نہیں  کرسکتاوہ ضرورمیری مددفرمائے گااورمجھے ضائع نہیں  کرے گا ،

قُلْتُ: أَوَلَیْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی البَیْتَ فَنَطُوفُ بِهِ؟قَالَ:بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِیهِ العَامَ،قَالَ: قُلْتُ: لاَ، قَالَ:فَإِنَّكَ آتِیهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ،قَالَ: فَأَتَیْتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ: یَا أَبَا بَكْرٍ أَلَیْسَ هَذَا نَبِیَّ اللهِ حَقًّا؟قَالَ: بَلَى،قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَى الحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى البَاطِلِ؟قَالَ: بَلَى،قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّةَ فِی دِینِنَا إِذًا؟قَالَ: أَیُّهَا الرَّجُلُ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَیْسَ یَعْصِی رَبَّهُ، وَهُوَ نَاصِرُهُ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللهِ إِنَّهُ عَلَى الحَق،قُلْتُ: أَلَیْسَ كَانَ یُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی البَیْتَ وَنَطُوفُ بِهِ؟قَالَ: بَلَى، أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِیهِ العَامَ؟ قُلْتُ: لاَ،قَالَ: فَإِنَّكَ آتِیهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے یہ نہیں  فرمایاتھاکہ ہم بیت اللہ کی زیارت اور طواف کریں  گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  نے یہ تونہیں  کہاتھاکہ اسی سال طواف کریں  گے،میں  نے کہانہیں (آپ نے اس قیدکے ساتھ نہیں  فرمایا تھا)،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پھراس میں  کوئی شبہ نہیں  کہ تم بیت اللہ تک ضرورپہنچوگے اورایک دن اس کی زیارت طواف کروگے،مگرسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  مطمئن نہ ہوئے اورغصہ سے بپھرے ہوئے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے پاس جاکریہی گفتگودہرائی اے ابوبکر  رضی اللہ عنہ !کیایہ حقیقت نہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے سچےنبی ہیں ؟انہوں  نے بھی کہاکہ کیوں  نہیں ،میں  نے پوچھاکیاہم حق پر نہیں ؟اورکیاہمارے دشمن باطل پرنہیں ؟انہوں  نے کہاکیوں  نہیں ،میں  نے کہاپھرہم اپنے دین کوکیوں  ذلیل کریں ؟ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے کہابلاشک وشبہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں  وہ اپنے رب کی حکم عدولی نہیں  کرسکتے اوررب ہی ان کامددگارہے پس اے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ ! موت تک ان کی رکاب کومضبوطی سے تھامے رہو اللہ گواہ ہے کہ وہ حق پرہیں ، میں  نے کہاکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم سے یہ نہیں  کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہنچیں  گے اورطواف کریں  گے؟ انہوں  نے فرمایاکہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ سے یہ فرمایاتھاکہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں  گے،میں  نے کہانہیں ، پھر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہاپھراس میں  بھی کوئی شک وشبہ نہیں  کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں  گے اوراس کاطواف کریں  گے۔[64]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

اس معاہدے میں سب سے زیادہ شرط ایک اوردو صحابہ کوبری طرح کھل رہی تھیں ،مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے ماننے کے معنی یہ ہیں  کہ تمام عرب کے سامنے گویاہم ناکام واپس جارہے ہیں ،

عَنْ أَنَسٍ،  فَاشْتَرَطُوا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَنْ جَاءَ مِنْكُمْ لَمْ نَرُدَّهُ عَلَیْكُمْ، وَمَنْ جَاءَكُمْ مِنَّا رَدَدْتُمُوهُ عَلَیْنَا، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَكْتُبُ هَذَا؟ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَكْتُبُ هَذَا؟ قَالَ:نَعَمْ، إِنَّهُ مَنْ ذَهَبَ مِنَّا إِلَیْهِمْ فَأَبْعَدَهُ اللهُ، وَمَنْ جَاءَنَا مِنْهُمْ سَیَجْعَلُ اللهُ لَهُ فَرَجًا وَمَخْرَجًا

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےپھرانہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سےیہ شرط لگائی کہ اگرتم میں  سے کوئی ہمارے پاس آئے گاتوہم اسے واپس نہیں  بھیجیں  گے اورہم میں  سے کوئی تمہارے پاس آئے گاتواسے ہمارے پاس واپس بھیجناہوگا، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم یہ شرط لکھیں ؟(یعنی اس شرط پرکیسے صلح کی جا سکتی ہے کہ ہم میں  سے جوان کی طرف چلاجائے تواس کوواپس نہیں  کیاجائے گا) آپ نے فرمایاہاں لکھوجوشخص ہم سے نکل کر ان سے جا ملے گا ہمیں  اس کی ضرورت نہیں  اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رحم وکرم سے دورپھینک دیا،اوران میں  سے جوشخص مسلمان ہو کرہماری طرف آئے گامعاہدہ کی روسے ہم اسے واپس کر دیں  گے لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں  اللہ تعالیٰ بہت جلداس کی نجات کی کوئی صورت ضرور پیدافرمادے گا۔[65]

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم ابھی انہی شقوں  پربحث کر رہے تھے کہ ایک واقعہ نے جلتی پرتیل کاکام کیا قریش کے نمائندے سہیل کے بیٹے ابوجندل  رضی اللہ عنہ  جس کواس نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں  گھرمیں  زنجیروں  سے باندھ رکھا تھااوراسلام سے منحرف کرنے کے لئے طرح طرح کی ایذائیں  پہنچاتاتھا

فَبَیْنَا رَسُولُ اللهِ  یَكْتُبُ الْكِتَابَ هُوَ وَسُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، إِذْ جَاءَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَیْلِ بْنِ عَمْرِو یَرْسُفُ فِی الْحَدِیدِ، قَدِ انْفَلَتَ إِلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى سُهَیْلٌ أَبَا جَنْدَلٍ، قَامَ إِلَیْهِ فَضَرَبَ وَجْهَهُ، وَأَخَذَ بِلَبَبِهِ،فَقَالَ سهیل: هَذَا یَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِیكَ عَلَیْهِ أَنْ تَرُدَّهُ إِلَیَّ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْكِتَابَ بَعْدُ، فَقَالَ: فَوَاللهِ إِذًا لَا أُصَالِحُكَ عَلَى شَیْءٍ أَبَدًا،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَأَجِزْهُ لِی،  قَالَ: مَا أَنَا بِمُجِیزِهِ لَك،قَالَ:بَلَى فَافْعَلْ،قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ مِكْرَزٌ: بَلْ قَدْ أَجَزْنَاهُ لَكَ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اورسہیل بن عمرواس عہدنامے کے لکھوانے میں  مصروف تھے کہ اتنے میں  ابوجندل  رضی اللہ عنہ  بن سہیل بن عمروپیروں  میں بیڑیاں  پہنے آپ کی خدمت میں  حاضرہوگیا ،انہوں  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے فریادکی کہ مجھے اس حبس بے جا سے نجات دلائی جائے ،ان کی حالت اورفریادسے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کوضبط کرنامشکل ہو گیا،سہیل نے جب ابوجندل رضی اللہ عنہ کودیکھاتوبڑھ کر اس کے چہرے پرغصہ سے ایک چانٹامارااوراس کے کرتے کاگلاپکڑکراپنی طرف گھسیٹا،پھرسہیل بن عمرورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مخاطب ہو کر بولااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!یہ پہلاشخص ہے جس کے متعلق میں  آپ سے معاملہ کرتاہوں کہ معاہدہ کے مطابق آپ اسے واپس کردیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاابھی توصلح نامہ پورا لکھا بھی نہیں  گیااورنہ ابھی اس پردستخط وغیرہ نہیں  ہوئے ہیں  اس کے بعدہی معاہدہ پرعمل درآمد ہونا چاہیے،لیکن سہیل نے کہاشرائط توہمارے اورآپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں  اس لئے اگر آپ اسے واپس نہیں  کریں  گے تومیں  صلح کامعاملہ ہی ختم کردوں  گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سہیل سے کہااچھااس ایک کودے کرمجھ پراحسان کردو،مگرسہیل بولامیں  اس سلسلہ میں  احسان بھی نہیں  کرسکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھرفرمایانہیں  تمہیں  احسان کردیناچاہیے،لیکن اس نے یہی جواب دیاکہ میں ایساکبھی نہیں  کر سکتا، البتہ مکرزنے کہاکہ چلئے ہم اس کاآپ پراحسان کرتے ہیں  (مگراس کی بات نہیں  چلی)بالآخرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوجندل  رضی اللہ عنہ  کوظالموں  کے حوالے کر دیا

قَالَ: فَجَعَلَ یَنْتُرُهُ بِلَبَبِهِ، وَیَجُرُّهُ لِیَرُدَّهُ إِلَى قُرَیْشٍ،وَجَعَل أَبُو جَنْدَلٍ یَصْرُخُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، أُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِینَ یَفْتِنُونَنِی فِی دِینِی! فَزَادَ النَّاسَ ذَلِكَ شَرًّا إِلَى مَا بِهِم، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا أَبَا جَنْدَلٍ، احْتَسِبْ، فَإِنَّ اللهَ جَاعِلٌ لك وَلِمَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا  إِنَّا قَدْ عَقَدْنَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ عَقْدًا وَصُلْحًا، وَأَعْطَیْنَاهُمْ وَأَعْطَوْنَا عَلَى ذَلِكَ عَهْدًا، وَأَعْطَوْنَا عَهْدًا، وَإِنَّا لا نَغْدِرُ بِهِمْ

پھرسہیل بن عمرو نے ابوجندل کی گردن پکڑی اوردھکادیتاہوااورکھنچتاہواقریش کی طرف پلٹانے لگا،ابوجندل رضی اللہ عنہ  نے نہایت حسرت بھرے الفاظ میں  صحابہ  رضی اللہ عنہم  کومخاطب ہو کر کہا اے ایمان والو! کیا میں  کافروں  کے حوالہ کردیاجاؤں  گاتاکہ وہ مجھے دین کے متعلق فتنہ میں  مبتلاکردیں  ؟اس جملے نے مسلمانوں  کے زخمی دلوں  پر اور نمک پاشی کی، ابوجندل  رضی اللہ عنہ  کی یہ دردبھری پکار سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں  تسلی وتشفی فرمائی اور فرمایا اے ابو جندل رضی اللہ عنہ ! صبرکرواوراللہ تعالیٰ سے اجرعظیم کی امیدرکھو،یقین رکھواللہ بہت جلد تمہاری اوردوسرے کمزورومجبورمسلمانوں  کی پناہ کی کوئی جگہ بنا دے گا،اب ہم قریش سے صلح کرچکے ہیں ،ہم دونوں  فریقوں  نے ایک دوسرے کواللہ کاعہددے دیاہے اس لئے ہم بدعہدی نہیں  کریں  گے،مگرصحابہ  رضی اللہ عنہم  کوان کی واپسی شاق گزری،

 قَالَ: ثُمَّ دَعَانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اكْتُبْ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ،فَقَالَ سُهَیْلٌ: لا أَعْرِفُ هَذَا، وَلَكِنِ اكْتُبْ: بِاسْمِكَ اللهم،فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللهُمَّ فَكَتَبْتُهَاثُمَّ قَالَ: اكْتُبْ: هَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ سُهَیْلَ بْنَ عَمْرٍو، فَقَالَ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو: لو شَهِدْتُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ لَمْ أُقَاتِلْكَ،وَلَكِنِ اكْتُبِ اسْمَكَ وَاسْمَ أَبِیكَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاللهِ إِنِّی لَرَسُولُ اللهِ، وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِی قال لعلى : امْحُ رَسُولَ اللهِ

جب تمام معاملات طے ہوگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کوطلب فرمایااورمعاہدہ لکھنے کاحکم فرمایا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھو،اس پرسہل بن عمرونے کہامیں  الرحمٰن الرحیم کونہیں  جانتا قدیم دستور کے مطابق  بِاسْمِكَ اللهُمَّ لکھو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااچھا بِاسْمِكَ اللهُمَّ ہی لکھوتو میں  نے لکھ ڈالا،اورفرمایاکہ یہ لکھو یہ وہ عہدنامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول نے سہیل بن عمروسے صلح کی ہے،سہیل بن عمرو نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہااگرہم آپ کو اللہ کارسول سمجھتے توپھرنہ آپ کوبیت اللہ سے روکتے اورنہ آتے سے جنگ وجدل کرتےاس لئے محمد رسول اللہ کے بجائے محمدبن عبداللہ لکھیں ،نبی کریم نے فرمایااگرچہ تم میری تکذیب کرومگراللہ کی قسم میں  اللہ کا رسول ہوں ،اورسیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے فرمایا محمد رسول اللہ کومٹاکرمحمدبن عبداللہ لکھ دو،

قَالَ الزُّهْرِیُّ: وَذَلِكَ لِقَوْلِهِ: لاَ یَسْأَلُونِی خُطَّةً یُعَظِّمُونَ فِیهَا حُرُمَاتِ اللهِ إِلَّا أَعْطَیْتُهُمْ إِیَّاهَافَقَالَ عَلِیٌّ: وَاللهِ لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا قَالَ: فَأَرِنِیهِ، قَالَ: فَأَرَاهُ إِیَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ،فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْكِتَابِ أَشْهَدَ عَلَى الصُّلْحِ رِجَالًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ وَرِجَالًا مِنْ الْمُشْرِكِینَ: أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ سُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَمِكْرَزُ بْنُ حَفْصٍ، وَهُوَ یَوْمَئِذٍ مُشْرِكٌ، وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَكَتَبَ، وَكَانَ هُوَ كَاتِبَ الصَّحِیفَة

زہری نے بیان کیاکہ یہ سب کچھ (نرمی اوررعایت) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادکانتیجہ تھا(جوپہلے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بدیل  رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے تھے)کہ قریش مجھ سے جوبھی ایسامطالبہ کریں  گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں  کی تعظیم مقصودہوگی تومیں  ان کے مطالبے کوضرورمان لوں  گا، دوسرے چندصحابہ  رضی اللہ عنہم  کے ساتھ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ ،اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ اورسعدبن عبادہ  رضی اللہ عنہ  کلمہ رسول کے مٹانے پرتکرارکرنے لگے، سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  توہرگزآپ کانام نہ مٹاؤں  گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اچھامجھے وہ جگہ بتلاؤجہاں  تم نے محمدرسول اللہ لکھاہے، سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  نے انگلی رکھ کروہ جگہ بتلائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خوداپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹا د یا اور پھر انہیں  محمدبن عبداللہ لکھنے کاحکم فرمایا،جب صلح نامہ کے لکھنے سے فارغ ہوئے اس پرچندمسلمانوں  اور مشرکوں  کی گواہیاں  ہوئیں  ،مسلمانوں  میں  سے یہ لوگ گواہ تھے،سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ ، سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب، عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن سہیل بن عمرو،سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، محمودبن مسلمہ مکرزبن حفص جواس وقت مشرک تھے اورسیدناعلی  رضی اللہ عنہ  جوکاتب بھی تھے۔[66]

اس معاہدہ کی ایک نقل محمد بن مسلمہ  رضی اللہ عنہ  نے لکھ کر سہیل کے حوالے کی،

قَالَ: فَوَثَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَعَ أَبِی جَنْدلٍ یَمْشِی إِلَى جَنْبِهِ، وَیَقُولُ:اصْبِرْ یَا أَبَا جَنْدَلٍ، فَإِنَّمَا هُمُ الْمُشْرِكُونَ، وَإِنَّمَا دَمُ أَحَدِهِمْ دَمُ كَلْبٍ! قَالَ: وَیُدْنِی قَائِمَ السَّیْفِ مِنْهُ،قَالَ: یَقُولُ عُمَرُ: رَجَوْتُ أَنْ یَأْخُذَ السَّیْفَ فَیَضْرِبَ بِهِ أَبَاهُ، قَالَ: فَضَنَّ الرَّجُلُ بِأَبِیهِ، فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَةُ، فَقَالُوا: نَحْنُ نَدْخُلُ فِی عَقْدِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَهْدِهِ، وَتَوَاثَبَتْ بَنَوْ بَكْرٍ، فَقَالُوا: نَحْنُ نَدْخُلُ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَهْدِهِمْ

جب سہیل ابوجندل  رضی اللہ عنہ کولے کرروانہ ہونے لگاتوسیدناعمر  رضی اللہ عنہ  ابوجندل کے پہلومیں  چلنے ہوئے انہیں صبرکی تلقین کی اورکہایہ مشرک ہیں  اوران کاخون کتے کی خون کی طرح ہے اورغیرمحسوس طور پر اپنی تلوارکادستہ بھی ان کی طرف بڑھاتے رہے،بعدمیں  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  فرمایاکرتے تھے اس سے میری غرض یہ تھی کہ وہ تلوارلے کر اپنے باپ کی گردن اڑادے مگراس نے اپنے والدکے قتل کرنے میں  بخل سے کام لیا، معاہدہ کی تکمیل کے بعدبنوخزاعہ جوعبدالمطلب کے وقت سے ہی بنوہاشم کے حلیف تھے اٹھے اورکہاہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے معاہدہ اورعہدمیں  داخل ہوتے ہیں  اوربنوبکرنے کھڑے ہوکرکہاہم قریش کے معاہدہ اورعہدمیں  داخل ہوتے ہیں ۔[67]

احرام کھولنے اورقربانیاں  ذبح کرنے کاحکم :

فَلَمَّا فَرَغَ رسول الله مِنْ قَضِیَّتِهِ قَالَ لأَصْحَابِهِ: قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احلقوا قال: فو الله مَا قَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَامَ فَدَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ لَهَا مَا لَقِیَ مِنَ النَّاسِ،فَقَالَتْ لَهُ أُمُّ سَلَمَةَ: یَا نَبِیَ اللهِ، أَتُحِبُّ ذَلِكَ! اخْرُجْ ثُمَّ لا تُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةً حَتَّى تَنْحَرَ بَدَنَتَكَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ فَیَحْلِقَكَ، فَقَامَ فَخَرَجَ فَلَمْ یُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةً حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ، نَحَرَ بَدَنَتَهُ وَدَعَا حَالِقَهُ فَحَلَقَهُ،فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ قَامُوا فَنَحَرُوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ یَحْلِقُ بَعْضًا، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ یَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّاوَكَانَ الَّذِی حَلَقَهُ- فِیمَا بَلَغَنِی ذَلِكَ الْیَوْمَ خِرَاشُ بْنُ أُمَیَّةَ بْنِ الْفَضْلِ الْخُزَاعِیُّ

جب قریش کانمائندہ سہیل اورگواہ حویطب اورمکرز معاہدہ طے کرکے چلے گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ  رضی اللہ عنہم  کوفرمایاکہ اٹھو اور اپنے اپنے جانورقربان کردو،لیکن سب ہی صلح کی شرائط سے مغموم اورشکستہ خاطرتھے،سب ہی کے دلوں  پر رنج وغم اوردل شکستگی کاغلبہ تھا اس لئے کوئی بھی قربانی کرنے کیلئے آگے نہ بڑھا،آپ نے تین مرتبہ یہی بات دہرائی مگراس کے باوجودکوئی قربانی کرنے کوتیارنہ ہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پورے دوررسالت میں  اس ایک موقعہ کے سواکبھی یہ صورت پیش نہیں  آئی کہ آپ صحابہ  رضی اللہ عنہم  کوحکم دیں  اوروہ اس کی تعمیل کے لئے دوڑنہ پڑیں ،یہ دیکھ کرآپ کو سخت صدمہ ہوااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کے خیمہ میں  تشریف لے گئے اوران سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے اس طرزعمل کی شکایت کی، ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے کہااے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !مسلمانوں  پریہ صلح بہت شاق گزری ہے جس کی وجہ سے وہ افسردہ اوردل شکستہ ہیں اس لئے تعمیل ارشادنہیں  کرسکے اگر آپ قربانی کرناچاہتے ہیں  توانہیں  کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے تشریف لے جائیں  اوراپناجانور ذبح کریں  اوراپنے حجام کوبلاکر اپنا سرمنڈالیں ،وہ خودبخودآپ کی اتباع کریں  گے اورسمجھ لیں  گے کہ جوفیصلہ ہوچکاہے وہ اب بدلنے والانہیں  ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسی مشورے پرعمل کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  خیمے سے باہرتشریف لائے اورکسی کوکچھ کہے بغیرخاموشی سے اونٹ ذبح کردیا اور اپناسرمنڈالیا،جب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے آپ کویہ کام کرتے دیکھاتوبغیرکسی پس وپیش کے سب اٹھے انہوں  نے اپنی قربانیاں  ذبح کیں  اورخودہی ایک دوسرے کاسرمونڈنے لگے اوران کواپنی اس نافرمانی کااس قدررنج ہواکہ ان کے ہوش وحواس جاتے رہے ،سرمونڈنے میں  قریب تھاکہ ایک دوسرے کوقتل کردیں ،اس روز  خراش بن امیہ بن فضل خزاعی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حجامت کی تھی۔

قَالَ: حَلَقَ رِجَالٌ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَةِ، وَقَصَّرَ آخَرُونَ ،فقال رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَرْحَمُ اللهُ الْمُحَلِّقِینَ،قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ: یَرْحَمُ اللهُ الْمُحَلِّقِینَ،قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِینَ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ: یَرْحَمُ اللهُ الْمُحَلِّقِینَ،  قَالَ: وَالْمُقَصِّرِینَ،قَالَ: وَالْمُقَصِّرِینَ،قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، فَلِمَ ظَاهَرْتَ التَّرَحُّمَ لِلْمُحَلِّقِینَ دُونَ الْمُقَصِّرِینَ؟قَالَ: لأَنَّهُمْ لَمْ یَشُكُّوا

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس روزبعضوں  نے سرمنڈایااوربعض نے بال کٹوائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ سرمنڈوانے والوں  پررحم فرمائے، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اوربال کترانے والوں  پر،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ سرمنڈوانے والوں  پررحم فرمائے، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اوربال کترانے والوں  پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ سرمنڈوانے والوں  پررحم فرمائے، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اوربال کترانے والوں  پر، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااوربال کترانے والوں  پر، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے رحم کے لئے سرمنڈوانے والوں  کانام تولیامگربال کترانے والوں  کاذکرنہیں  فرمایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس لیے کہ انہوں  نے میری بات میں  شک نہیں کیا۔[68]

اس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلهِ۝۰ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ۝۰ۚ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ۝۰ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ۝۰ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ۝۰۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ۝۰ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَھْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ۧ [69]

ترجمہ:اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کرو تو اسے پورا کرو ، اور اگر کہیں  گھِر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے اللہ کی جناب میں  پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈ و جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں  کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے تو اسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے، پھر اگر تمہیں  امن نصیب ہو جائے ( اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں  سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسبِ مقدور قربانی دے اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں  اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے، یہ رعایت ان لوگوں  کے لیے ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ، اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

فرمایالوگو!اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جب حج اور عمرے کا(چاہے وہ نفلی ہی کیوں  نہ ہوں )احرام باندھ لو تو اسے پورا کرو اور اگرراستے میں دشمن تمہیں  گھیرلیں  اورآگے جاناغیرممکن ہوجائےیاتم شدیدبیمارہوجاؤیاکسی اوروجہ سے حج وعمرہ کی تکمیل کے لئے بیت اللہ نہ پہنچ سکوتوایک جانور (ہدی) ایک بکری،اورگائے یااونٹ کاساتواں  حصہ جوبھی تمہیں  میسرہووہیں  ذبح کرکے اپنا سر منڈالواورحلال ہوجاؤ، مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں  زخم یاجوؤں  کی وجہ سے تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے تو اسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر تین دن کےروزے رکھے یا چھ مسکینوں  کو کھانا کھلادے یاایک بکری ذبح کرے۔

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ بِالْحُدَیْبِیَةِ، قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ مَكَّةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، یُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ، وَالْقَمْلُ یَتَهَافَتُ عَلَى وَجْهِهِ،  فَقَالَ: أَتُؤْذِیكَ هَوَامُّكَ هَذِهِ ؟فَقَالَ: نَعَمْ،فَقَالَ:  احْلِقْ وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَیْنَ سِتَّةِ مَسَاكِینَ

اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں  کعب بن عجرہ بلوی رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے قریب سے گزرے جب کہ میں  حدیبیہ میں  تھااورمکہ مکرمہ میں  داخل نہ ہوا تھا اس وقت میں  احرام کی حالت میں  تھااورہانڈی کے نیچے آگ جلا رہاتھا،جوئیں  جھڑجھڑکرمیرے چہرے پرگررہی تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے پوچھاکیاجوئیں  تجھ کو تکلیف دیتی ہیں ؟  میں  نے کہاہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااپناسرمنڈواڈال اورایک فرق کھاناچھ مسکینوں  کوکھلادے

وَالْفَرَقُ: ثَلاثَةُ آصُعٍ

ایک فرق تین صاع کاہوتاہے۔

أَوْ صُمْ ثَلاثَةَ أَیَّامٍ، أَوِ انْسُكْ نَسِیكَةً

یاتین دن کے روزے رکھ لویاایک جانورذبح کرنے کے قابل ذبح کردو۔[70]

کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادکی تعمیل میں  اپناسرمنڈوادیا

قَالَ: وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ

اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں  کوئی تکلیف ہو اس بناء پر اپنا سر منڈوالے، تو اسے چاہیے کہ فدیہ کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔‘‘

اس کے فدیے میں  انہوں  نے کیاصورت اختیارکی صحیحین میں  اس کی وضاحت نہیں  کی گئی۔[71]

دور جاہلیت میں  حج وعمرہ ایک ساتھ کرناگناہ عظیم تصور کیا جاتاتھا،اللہ تعالیٰ نے اس قیدکوختم کردیااور مسجدحرام سے باہر رہنے والوں  کے لئے یہ رعایت فرمائی کہ وہ حج وعمرہ ایک ساتھ کرسکتے ہیں ،فرمایاپھر اگر تمہیں  امن نصیب ہو جائے یعنی دشمن کی رکاوٹ کے بغیر بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہو اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ تو جو شخص تم میں  سے حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرکے احرام کھول د ے اوران پابندیوں  سے آزادہوجائے جواحرام کی حالت میں  لگائی گئی ہیں ،اورجب حج کے دن آئیں  توپھرحج کااحرام باندھےاور حسبِ مقدورایک جانور کی قربانی دے ، اور اگر قربانی میسر نہ ہو توحج کے زمانے میں  یوم عرفات سےپہلے(ایام تشریق میں ) تین روزے اور سات روزے اعمال حج سے فارغ ہوکر،واپسی سفرکے دوران یااپنے گھر پہنچ کررکھے ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے، یہ رعایت ان لوگوں  کے لیے ہے ، جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ، پس اپنے تمام امورمیں  اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ نافرمانی کرنے والوں  کو اللہ سخت سزا دیتا ہے۔

چنانچہ صلح کے بعدتین دن تک آپ حدیبیہ میں  قیام پذیررہے اورپھرتقریباًبیس دن قیام کرنے کے بعد آپ واپس لوٹے۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ یَكْلَؤُنَافَقَالَ بِلَالٌ: أَنَا،فَنَامُوا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَاسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ:افْعَلُوا كَمَا كُنْتُمْ تَفْعَلُونَ،قَالَ: فَفَعَلْنَا،قَالَ:فَكَذَلِكَ فَافْعَلُوا لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِیَ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے حدیبیہ کے دنوں  میں  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ آئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہماراپہرہ کون دے گا؟بلال رضی اللہ عنہ نے کہامیں  پہرہ دوں  گا ، چنانچہ باقی سب لوگ سوگئے حتی کہ سورج نکل آیاپس نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جاگے، اورفرمایاہمیشہ ہرروزبروقت جوکرتے ہووہی کرو(اسی طرح اذان کہو، اسی طرح سنتیں  پڑھو)چنانچہ ہم نے اسی طرح کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا یہی حکم ہراس شخص کے لئے ہے جوسوتارہ جائے یابھول جائے۔[72]

سورۂ فتح کے نزول کے بارے میں  کئی روایات ہیں ۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: وَضَلَّتْ نَاقَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَطَلَبْتُهَا، فَوَجَدْتُ حَبْلَهَا قَدْ تَعَلَّقَ بِشَجَرَةٍ، فَجِئْتُ بِهَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَكِبَ فَسِرْنَا ،وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَزَلَ عَلَیْهِ الْوَحْیُ اشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَیْهِ، وَعَرَفْنَا ذَاِكَ فِیهِ،فَأَخْبَرَنَا أَنَّهُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَیْهِ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِینًا

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اسی سفرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اونٹنی کہیں  گم ہوگئی ہم ڈھونڈنے نکلے دیکھاتوایک درخت میں  اس کی نکیل اٹکی ہوئی ہے ،ہم اسے کھول کرآپ کے پاس لائے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اس پرسوارہوئے اورہم نے کوچ کیا،ناگہاں  راستے میں  ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پروحی نازل ہونے لگی وحی کے وقت آپ پربہت دشواری ہوتی تھی، جب وحی ہٹ گئی توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  بتایاکہ آپ پرسورةفتح نازل ہوئی ہے۔[73]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،قَالَ:كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی سَفَرٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ شَیْءٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فلم یَرُدَّ عَلَیَّ، قَالَ: فَقُلْتُ لِنَفْسِی:ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ یا ابن الْخَطَّابِ، نَزَرْتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْكَ؟قَالَ: فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِی فَتَقَدَّمْتُ مَخَافَةَ أَنْ یَكُونَ نَزَلَ فِیَّ شَیْءٌ،قَالَ:فَإِذَا أَنَا بِمُنَادٍ یُنَادِی:یَا عُمَرُ، أَیْنَ عُمَرُ؟قَالَ: فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ نَزَلَ فِیَّ شَیْءٍ،قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَزَلَتْ عَلَیَّ اللیْلَةَ  سُورَةٌ هِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا:{إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِینًا لِیَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ}[74]

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےمیں  ایک سفرمیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ تھامیں  نے تین مرتبہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ پوچھالیکن آپ نے کوئی جواب نہیں  دیا،اس پر میں  نے اپنے دل میں  کہاعمرکی ماں  اسے روئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے تم نے تین مرتبہ سوال میں  اصرارکیالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمہیں  کسی مرتبہ جواب نہیں  دیا؟ پھر مجھے ڈر لگنے لگاکہ میری بے ادبی پرمیرے بارے میں  کوئی وحی آسمان سے نازل نہ ہوجائےچنانچہ میں  نے اپنی سواری کوتیزکیااورآگے نکل گیا،تھوڑی دیرگزری تھی کہ میں  نے سنا کوئی منادی میرے نام کی نداکررہاہے، میں  جلدی جلدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضر ہوا کہ ضرورکوئی وحی نازل ہوئی ہے اورمیں  ہلاک ہواتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاگزشتہ شب مجھ پرایک سورت نازل ہوئی ہے جومجھے دنیا اور دنیاکی تمام چیزوں  سے زیادہ محبوب ہے پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورة الفتح تلاوت فرمائی۔[75]

قَالَ: فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ،  فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُمَرَ، فَأَقْرَأَهُ إِیَّاهَا  فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَوَفَتْحُ هُوَ؟ قال: نَعَمْ

جب سورة الفتح نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدناعمر  رضی اللہ عنہ کوبلوایااوریہ سورت پڑھ کرسنائی،سیدناعمر  رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیایہ فتح ہے ؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں ۔[76]

مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَةَ الْأَنْصَارِیِّ وَكَانَ أَحَدَ الْقُرَّاءِ الَّذِینَ قَرَءُوا الْقُرْآنَ قَالَ: شَهِدْنَا الْحُدَیْبِیَةَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْهَا إِذَا النَّاسُ یُنَفِّرُونَ الْأَبَاعِرَ، فَقَالَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مَا لِلنَّاسِ؟ قَالُوا: أُوحِیَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْنَا مَعَ النَّاسِ نُوجِفُ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ عِنْدَ كَرَاعِ الْغَمِیمِ،فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَیْهِ، فَقَرَأَ عَلَیْهِمْ:اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیْ رَسُولَ اللهِ، وَفَتْحٌ هُوَ؟قَالَ: أَیْ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، إِنَّهُ لَفَتْحٌ

مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ  جوقاری قرآن تھے سے مروی ہے ہم ( صلح کی شرائط کواپنی شکست اورذلت سمجھتےہوئے )حدیبیہ سے واپس آرہے تھے کہ میں  نے دیکھاکہ لوگ اونٹوں  کوتیز بھگا رہے ہیں  لوگوں  نے ایک دوسرے سے پوچھاکیابات ہے؟انہوں  نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر وحی نازل ہوئی ہے توہم بھی لوگوں  کے ساتھ اونٹ دوڑاتے ہوئے نکلے ہم نےمقام كَرَاعِ الْغَمِیمِ پردیکھا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی سواری پر رکے ہوئے ہیں ، جب سب لوگ جمع ہوگئے توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ سورۂ الفتح تلاوت کر کے سنائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب میں  کسی نے ازراہ تعجب عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیااس صلح کانام فتح ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں  محمدکی جان ہے یہ فتح عظیم ہے۔[77]

فتح ہونے کاکوئی پہلوکسی کی سمجھ میں  نہیں  آرہاتھا مگر کچھ زیادہ عرصہ نہیں  گزرا تھاکہ اس بظاہرشکست نظرآنی والی صلح کافتح ہونا ظاہرہوگیا۔

فَكَانَ عُمَرُ یَقُولُ: مَا زِلْتُ أَصُومُ وَأَتَصَدَّقُ وَأُصَلِّی وَأَعْتِقُ مِنَ الَّذِی صَنَعْتُ یَوْمَئِذٍ، مَخَافَةَ كَلامِی الَّذِی تَكَلَّمْتُ بِهِ، حَتَّى رَجَوْتُ أَنْ یَكُونَ خیرا

اور سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  کہتے تھے کہ اس کے بعدسے میں  اس دن کی اپنی جسارت کی تلافی کے طورپررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیباکانہ گفتگوکے خوف سے ہمیشہ روزے رکھتا رہا ، نمازیں  پڑھتا رہا،صدقات اداکرتا اور غلام آزاد کرتا رہا حتی کہ مجھے انجام بخیرکی توقع ہوگئی۔[78]

صلح حدیبیہ کانتیجہ:

x    اس صلح سے پہلے قریش اوراہل عرب کی نگاہ میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کی حیثیت قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی سی تھی،اس لئے ہجرت کے فوراًبعدمشرکین مکہ اس موقف پرقائم ہوگئے تھے کہ مسلمانوں  کوکعبہ اوراس کی وساطت سے مکہ مکرمہ پرکوئی حق حاصل نہیں  ہے،جیساکہ ابوجہل نے جلیل القدرصحابی سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ  کے سامنے اس کااعلان کیاتھا،اس کے مقابلے میں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تحویل قبلہ کے اعلان کے مطابق مسلمانوں  کی ملی مرکزیت کاسمبل قرارپایااوراس کاحصول دینی فریضہ بن گیا،یہ دوانتہائی طورپرمتضادموقف تھے ،مشرکین مکہ جوہر قیمت پرمسلمانوں  کو نیست ونابودکرنے کا مصمم ارادہ رکھتے تھے نے اپنے موقف کوکامیاب بنانے یعنی اسلام کااستیصال کرنے کے لئے مدینہ منورہ پرحملوں  کاسلسلہ شروع کردیا جوغزوہ احزاب کے موقع پراتحادی قبائل کے سیل بے پناہ کے حملے کی شکل میں  اپنے نقطہ عروج پر پہنا،اس آخری اورسب سے بڑی کوشش کی ناکامی کے بعدمشرکین مکہ کے حوصلے کمزورہونے لگے اوران کے اس سخت اوربے لچک موقف میں  دراڑپڑنے لگی،چنانچہ آئندہ سال مسلمانوں  کوکعبہ میں  داخل ہونے کاحق دے کرکعبہ پراپنی اجارہ داری کے خاتمے کااعلان بھی کیاگیاتھااوراس بات کااعتراف بھی کرلیاتھاکہ اب وہ مسلمانوں  کو بزور شمشیر اس حق سے محروم کرنے کے اہل نہیں  رہے ،یہ بالواسطہ طورپراعتراف شکست ہے جسے فتح خیبرنے مستحکم کردیا،گویا غزوہ خندق کے تین فریقوں  قریش،غطفان اوریہودمیں  سے ایک فریق قریش نے مسلمانوں  کے ساتھ باضابطہ طورپرسیاسی صلح کرکے مسلمانوں  کی قوت وطاقت کااعتراف کرلیااور اسلامی ریاست کاوجودتسلیم کرکے آپ کا اقتدار تسلیم کرلیا۔

x  اس صلح سے پہلے قریش کااسلام کے خلاف یہ بڑے شدومدکے ساتھ پروپیگنڈاتھا کہ اسلام کوئی دین نہیں  مگراب انہوں  نے یہ تسلیم کرلیاکہ دوسرے ادیان کی طرح اسلام بھی ایک مکمل دین ہے اوراس پرایمان رکھنے والے بھی بیت اللہ کے مناسک اداکرسکتے ہیں ،جس کافائدہ یہ ہواکہ مسلمانوں  کے خلاف قریش کے پروپیگنڈاسے جو بغض ونفرت پیداہوئی تھی وہ کم ہوگئی اور لوگ اسلام کوجاننے کی کوشش کرنے لگے۔

x   دس سال کے لئے جنگ بندی کے معاہدہ سے مسلمانوں  کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہواکہ انہیں امن نصیب ہوااور صلح کے بعد تین ہی ماہ میں  آپ نے یہودیوں  کے سب سے بڑے گڑھ خیبرکوفتح کر لیااور پھر فدک،وادی القریٰ، تیما اورتبوک کی یہودی بستیاں  بھی اسلام ریاست کے زیرنگیں  ہوگئیں اورمسلمانوں  کی طاقت سے خائف ہوکردوسرے قبائل بھی اسلامی قلمرومیں  داخل ہوگئےجس سے قریش کاایک مضبوط بازوٹوٹ گیااوراس خطرے کازوراوراس کی شدت اورکم ہوگئی ،اوروہ علاقہ جویہوداورقریش کامشترک منطقہ اثرتھااس میں مسلمانوں  کو اسلام کی آزادنہ دعوت و تبلیغ کاموقعہ میسر آیا،اس سے بیشتروہ قریش کے زبردست پروپیگنڈے کے زیراثر اسلام اورصحابہ  رضی اللہ عنہم  کے کردارسے ناآشناتھےلیکن صلح کے بعدجب خاندانی اورتجارتی تعلقات کی وجہ سے کفار کی مدینہ منورہ میں آمدورفت شروع ہوئی،انہوں  نے کلام الٰہی کوسناتواس کے مختصرآیات میں مضامین کی وسعت،گہرائی،لفظوں  کی دلفریبی اورشرک کے خلاف پرزور دلائل پرجھوم اٹھے ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ قول وکردارکے پکے اصحاب کے کردارکو دیکھاتودنگ رہ گئے جس سے بغض وعنادکے پردے ہٹ گئے اورہزاروں لوگ دائرہ اسلام میں  داخل ہوگئےجس سے طاقت کاتوازن بدل گیا اوردوسال کے اندر اندرفتح مکہ تک اسلامی لشکر تین ہزار سے بڑھ کردس ہزار تک جاپہنچا،خالدبن ولیدفاتح شام اورعمروبن العاص فاتح مصرکااسلام اسی زمانے کی یادگارہے ،اس صلح کے نتیجے میں مشرکین کی طاقت دب گئی اوراسلام کاغلبہ یقینی ہوگیا ۔

xاسی صلح کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسلام کی عالمی حیثیت کے قیام واستحکام کے عظیم الشان کاآغازفرمایاجس نے آگے چل کراس وقت کے عالمی سیاسی حالات پردوررس اثرات مرتب کیے اوردنیاکوایک ایسی تہذیب ،ثقافت اورایسے نظام فکرسے متعارف کرایاجسے نظریاتی تہذیب،نظریاتی ثقافت اوراخلاقی نظام فکرکہاجاتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ اقدام دنیامیں  نظریاتی تہذیب کی صبح اول کاطلوع تھا،اسی مبارک دن سے دنیانے جاگیرداری اورزمینداری کے نظام فکرسے نکل کرانسانی اخوت اورحریت کے نظریات کی طرف اپنے طویل سفرکاآغازکیاجوتاحال جاری ہے،اس درازکارجہاں  کاآغازوقت کی طاقتوارترین اورمہذیب ترین سلطنتوں  کے فرمانرواؤں  کے نام نبی امی  صلی اللہ علیہ وسلم کے مراسلات سے ہوا،جس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وقت کے اہم ترین سلاطین اوراہم معاشروں  کے سربراہوں  کودعوت اسلام دی تھی۔

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَیْنَةَ ۴۱۹۲، زادالمعاد ۲۵۵،۲۵۴؍۳، الروض الانف ۵۵۴؍۷، ابن ہشام۶۴۰؍۲،ابن سعد۷۱؍۲،البدایة والنہایة۲۰۴؍۴،مغازی واقدی۵۶۹؍۲

[2]مستدرک حاکم ۶۷۰۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۸۰۷۴

[3] الاصابة فی تمییز الصحابة۳۴۰؍۳

[4] ابن سعد۲۱۷؍۱

[5] الاصابة فی تمیزالصحابة۵۱؍۷، اسدالغابة ۵۷۵۱، ۴۳؍۶

[6] ابن سعد۲۴۹؍۱

[7] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۷۲؍۳

[8] تاریخ طبری۶۲۲؍۲

[9] شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۲؍۳

[10] ابن ہشام۳۰۸؍۲، الروض الانف۵۱؍۷،عیون الآثر۱۵۴؍۲،تاریخ طبری۶۲۰؍۲،البدایة والنہایة۱۸۸؍۴

[11] ابن سعد ۷۲؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۲؍۳،مغازی واقدی ۵۷۲؍۲

[12] ابن سعد ۷۳؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۲۲۶؍۳،فتح الباری۳۴۷؍۵

[13] ابن ہشام ۳۰۸؍۲

[14] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ،ابن ہشام۳۱۰؍۲ ، زادالمعاد۲۵۸؍۳،مغازی واقدی ۵۸۷؍۲، الروض الانف ۵۶؍۷،عیون الآثر۱۵۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۹؍۳، تاریخ طبری ۶۲۴؍۲،البدایة والنہایة۱۸۹؍۴

[15]صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ۲۷۳۱، ۲۷۳۲

[16] ابن ہشام۳۱۱؍۲

[17] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ ۴۱۵۰

[18] مغازی واقدی ۵۸۸؍۲

[19] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ ۴۱۴۷

[20] البدایة والنہایة۱۹۹؍۴

[21] ابن ہشام۳۱۳؍۲

[22] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ۲۷۳۱، ۲۷۳۲

[23] تاریخ طبری۶۲۸؍۲

[24] تاریخ طبری۶۲۸؍۲

[25] ابن ہشام۳۱۲؍۲

[26] تاریخ طبری۶۳۱؍۲

[27] تاریخ طبری۶۳۰؍۲

[28]صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَهُوَ الَّذِی كَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ۴۶۷۹،جامع ترمذی ابواب بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الفَتْحِ ۳۲۶۴

[29] ابن ہشام ۳۱۴؍۲،الروض الانف ۶۲؍۷،عیون الآثر۱۵۹؍۲،تاریخ طبری۶۳۱؍۲،البدایة والنہایة۱۹۱؍۴

[30] زادالمعاد۲۵۸؍۳

[31] ابن ہشام۳۱۵؍۲،الروض الانف۶۳؍۷،عیون الآثر۱۵۹؍۲،تاریخ طبری ۶۳۱؍۲، البدایة والنہایة۱۹۱؍۴، زادالمعاد ۲۵۸؍۳

[32] الإصابة فی تمییز الصحابة۳۱۶؍۶،معرفة الصحابة لابی نعیم۵۸۴؍۲

[33]صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ اسْتِحْبَابِ مُبَایَعَةِ الْإِمَامِ الْجَیْشَ عِنْدَ إِرَادَةِ الْقِتَالِ، وَبَیَانِ بَیْعَةِ الرِّضْوَانِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۴۸۰۷

[34]صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ اسْتِحْبَابِ مُبَایَعَةِ الْإِمَامِ الْجَیْشَ عِنْدَ إِرَادَةِ الْقِتَالِ، وَبَیَانِ بَیْعَةِ الرِّضْوَانِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۴۸۱۷

[35] ابن ہشام۳۱۶؍۲، الروض الانف۶۴؍۷، عیون الآثر۱۶۰؍۲،البدایة والنہایة۱۹۱؍۴

[36] ابن سعد۷۶؍۲

[37] الروض الانف۸۲؍۷

[38] ابن سعد ۴۵؍۳

[39] مصنف ابن ابی شیبة۳۵۸۰۸

[40] اسدالغابة ۴۲۸؍۵،سیر أعلام النبلاء۳۴؍۲، الإصابة فی تمییز الصحابة۱۶۲؍۷،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۶۹۵؍۴

[41] مصنف ابن ابی شیبة۳۵۸۰۸

[42] صحیح بخاری کتاب الاحکام بَابُ مَنْ بَایَعَ مَرَّتَیْنِ ۷۲۰۸،تاریخ طبری ۶۳۲؍۲

[43] تاریخ طبری۶۳۳؍۲

[44] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِی عَمْرٍو القُرَشِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۶۹۸ ، جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَلَهُ كُنْیَتَانِ، یُقَالُ: أَبُو عَمْرٍو، وَأَبُو عَبْدِ اللهِ ۳۷۰۶

[45] شرح الزرقانی علی المواھب ۲۲۵؍۳،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۲۰؍۲

[46] ابن ہشام ۳۱۵؍۲، الروض الانف۶۴؍۷،عیون الآثر۱۶۰؍۲،تاریخ طبری ۶۳۳؍۲،البدایة والنہایة۱۹۱؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۳۱۹؍۳

[47] مسنداحمد۱۴۷۷۸،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْخُلَفَاءِ ۴۶۵۳،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ مَنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۳۸۶۰

[48] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابةبَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَهْلِ بَیْعَةِ الرُّضْوَانِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ۶۴۰۴

[49] مریم: 71

[50] مریم: 72

[51] مسند احمد ۲۷۰۴۲

[52] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَهْلِ بَدْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَقِصَّةِ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَةَ۶۴۰۳،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِیمَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۸۶۴

[53] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ ۴۱۶۹

[54] صحیح بخاری کتاب الجہاد بَابُ البَیْعَةِ فِی الحَرْبِ أَنْ لاَ یَفِرُّوا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَى المَوْتِ ۲۹۵۸

[55] تفسیرابن کثیر۳۳۲؍۷

[56] زادالمعاد۲۵۹؍۳

[57] ابن سعد ۷۶؍۲، عیون الآثر۱۶۵؍۲

[58] ابن سعد۸۱؍۲

[59] صحیح بخاری کتاب بَابُ غَزْوَةِ الحُدَیْبِیَةِ ۴۱۶۳،البدایة والنہایة۱۹۶؍۴،ابن سعد ۷۶؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۳۲۷؍۳

[60] تفسیرطبری۲۲۶؍۲۲

[61] عیون الآثر۱۶۵؍۲،ابن سعد۷۶؍۲

[62]صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ ۲۷۳۱،۲۷۳۲

[63] ابن ہشام۳۱۷؍۲،الروض الانف ۶۷؍۷،عیون الآثر ۱۶۱؍۲، تاریخ طبری ۶۳۴؍۲،البدایة والنہایة۱۹۲؍۴،مغازی واقدی ۶۱۱؍۲،فتح الباری ۳۴۴؍۵

[64] صحیح بخاری کتاب اشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ۲۷۳۱،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَةِ فِی الْحُدَیْبِیَةِ۴۶۳۳، زادالمعاد ۲۶۲؍۳،البدایة والنہایة ۲۰۰؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۱۷؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر ۳۳۴؍۳

[65] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَةِ فِی الْحُدَیْبِیَةِ۴۶۳۲

[66] ابن ہشام۳۱۹؍۲

[67] صحیح بخاری کتاب اشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ ۲۷۳۱،۲۷۳۲، صحیح بخاری کتاب الجزیة والموادعة بَابُ المُصَالَحَةِ عَلَى ثَلاَثَةِ أَیَّامٍ، أَوْ وَقْتٍ مَعْلُومٍ۳۱۸۴، زادالمعاد ۲۶۲؍۳،دلائل النبوةللبیہقی ۵؍۵،الروض الانف ۶۹؍۷،عیون الآثر۱۶۱؍۲،تاریخ طبری۶۳۵؍۲،البدایة والنہایة۱۹۲؍۴، مصنف عبدالرزاق ۳۳۰؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۲۰۹؍۳

[68] تاریخ طبری۶۳۶؍۲

[69] البقرة۱۹۶

[70] اسدالغابة۴۵۴؍۴

[71] مسنداحمد۱۸۱۰۱،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۳۹؍۵۰

[72] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ نَسِیَهَا ۴۴۷،مسنداحمد۳۶۵۷،السنن الکبری للنسائی ۸۸۰۲،دلائل النبوة للبیہقی ۲۷۴؍۴

[73] مسند البزار ۲۰۲۹، مصنف ابن ابی شیبة۳۶۸۶۲، مسنداحمد۴۴۲۱

[74]، الفتح: 2

[75] مسند احمد ۲۰۹، السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۳۵،صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الفتح بَابُ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِینًا ۴۸۳۳

[76] تفسیرطبری ۱۹۷؍۲۲

[77] مسنداحمد۱۵۴۷۰،سنن ابوداو د کتاب بَابٌ فِیمَنْ أَسْهَمَ لَهُ سَهْمًا۲۷۳۶، مستدرک حاکم ۲۵۹۳

[78] مسنداحمد۱۸۹۱۰،عیون الآثر۱۷۶۱؍۲،البدایة والنہایة۱۹۲؍۴،تاریخ طبری۶۳۴؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۳۲۰؍۳

Related Articles