ہجرت نبوی کا چھٹا سال

محرم بھی اجازت طلب کرے(حصہ دوم)

‏ وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْكُمْ آیَاتٍ مُبَیِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِنَ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ ۞ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِیهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَیْتُونَةٍ لَا شَرْقِیَّةٍ وَلَا غَرْبِیَّةٍ یَكَادُ زَیْتُهَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ یَهْدِی اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشَاءُ ۚ وَیَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٣٥﴾‏(النور)
’’ہم نے تمہاری طرف کھلی اور روشن آیتیں اتار دی ہیں اور ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت،اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا، اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس پر چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو، وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی، خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے، نور پر نور ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے، لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے منافقین کوفہمائش کرتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات جن میں  کوئی اشکال اورشبہ باقی نہیں  رہتا تمہارے پاس بھیج دی ہیں ، اورجوقومیں  تم سے پہلے گزری ہیں ان قوموں  کے اعمال بداوران کی تباہی وبربادی کی عبرتناک مثالیں  بھی ہم تمہارے سامنے پیش کرچکے ہیں  چنانچہ جوکوئی ان جیسے افعال کاارتکاب کرے گااس کووہی جزاملے گی جوان لوگوں  کودی گئی تھی ،جیسے فرمایا

سُـنَّةَ اللہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۶۲  [1]

ترجمہ:یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں  کے معاملے میں  پہلے سے چلی آ رہی ہے ، اور تم اللہ کی سنت میں  کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

۔۔۔فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ۝۰ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِیْلًا۝۴۳ [2]

ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں  کہ پچھلی قوموں  کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتاجائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں  ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔

سُـنَّةَ اللہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۲۳ [3]

ترجمہ:یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہےاور تم اللہ کی سنت میں  کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

اوراللہ تعالیٰ سےڈرنے والوں  کے لیے ہم نےوعدہ ،وعیداورترغیب وترہیب پرمشتمل نصیحتیں  بھی کردی ہیں  ، اللہ آسمانوں  اورزمین کانورہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ} یَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ هَادِی أَهْلِ السَّمَاوَاتِ  وَالْأَرْضِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما اس آیت’’ اللہ آسمان وزمین کانورہے۔‘‘ کامعنی فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ آسمان اورزمین والوں  کاہادی ہے۔[4]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:  اللهُ نُورُ السَّموَاتِ وَالأرْضِ یقول: قَالَ: إِنَّ إِلَهِی یَقُولُ: نُورِی هُدَایَ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں ’’اللہ آسمان وزمین کانورہے۔‘‘ فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے نوراللہ ہدایت ہے۔[5]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قَالَ مُجَاهِدٌ , وَابْنُ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ: {اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ}  یُدَبِّرُ الْأَمْرَ فِیهِمَا: نُجُومَهُمَا وَشَمْسَهُمَا وَقَمَرَهُمَا

اورابن جریح رحمہ اللہ  ،مجاہد رحمہ اللہ اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کاقول ہے’’اللہ آسمان وزمین کانورہے۔‘‘ کا معنی ہے کہ وہی ان دونوں  میں  سورج چانداور ستاروں  کی تدبیرفرماتاہے۔ [6]

 الله نُور السَّمَاوَات وَالْأَرْض، أَیْ مُنَوِّرهمَا بِالشَّمْسِ وَالْقَمَر

تفسیر جلالین میں  ہے’’اللہ آسمان وزمین کانورہے۔‘‘ اوراسی نے سورج اورچاندکوروشن کیاہے۔ [7]

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّ رَبَّكُمْ لَیْسَ عِنْدَهُ لَیْلٌ وَلَا نَهَارٌ، نُورُ الْعَرْشِ مِنْ نُورِ وَجْهِهِ

اورعبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں   تمہارے کے ہاں  رات اوردن نہیں ،اس کے چہرے کے نورکی وجہ سے اس کے عرش کانورہے۔[8]

 أنه لَوْلَاه لَمَاكَانَ فِی الْكَوْنِ نُور ولاهِدَایَةَ فی السَّمَوَاتِ ولا فِی الْأَرْضِ فهو تَعَالَى مُنَوِّرهمَا فكتابه  نُور وَرَسُولِهِ   نُور أی یَهْتَدِی بهما فی ظُلُماتِ الْحَیَاةَ كمایَهْتَدِی  بِالنُّورِ الْحِسِّیِّ وَاللهُ ذَاته  نُوروَحِجَابُهُ  نُور فَكُلُّ نُور حِسْی أومَعْنَوِی  اللهُ خَالِقُهُ ومَوْهِبَةٍ وهَادٍ إلیه

صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں  اگراللہ نہ ہوتاتونہ آسمان میں  نور ہوتا نہ زمین میں  ،نہ آسمان وزمین میں  کسی کوہدایت ہی نصیب ہوتی پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان وزمین کوروشن کرنے والاہے ،اس کی کتاب نورہے اوراس کارسول بھی بہ حیثیت صفات کے نورہے اوران دونوں  کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں  میں  رہنمائی اورروشنی حاصل کی جاتی ہے پس اللہ اس کی ذات نور ہے ،اس کاحجاب نورہے اورہرظاہری اورمعنوی نورکاخالق اس کا عطا کرنے والااوراس کی طرف ہدایت کرنے والاصرف ایک اللہ ہے ۔[9]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تہجدکی ایک دعامیں  بھی یہ الفاظ ہیں  توآسمان اورزمین کانور ہے۔

ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ یَتَهَجَّدُ قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ قَیِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِیهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِیهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِیهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ الحَقُّ وَوَعْدُكَ الحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَیْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَیْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَیْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ، وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ  أَوْ: لاَ إِلَهَ غَیْرُكَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب رات میں  تہجدکے لیے کھڑے ہوتے تویہ دعاپڑھتے تھے اے میرے اللہ!ہرطرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیباہے توآسمان اورزمین اوران میں  رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والاہے اورحمدتمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان وزمین اوران کی تمام مخلوقات پرحکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اورتعریف تیرے ہی لیے ہے توآسمان اورزمین کانورہےاورتعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے توسچاہے تیراوعدہ سچاتیری ملاقات سچی تیرافرمان سچاجنت سچ ہے دوزخ سچ ہے انبیاء سچے ہیں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سچے ہیں  اور قیامت کاہوناسچ ہے، اے اللہ!میں  تیراہی فرماں  بردارہوں  اورتجھی پرایمان رکھتاہوں  تجھی پر بھروسہ ہے تیری ہی طرف رجوع کرتاہوں  تیرے ہی عطاکئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتاہوں  اور تجھی کوحکم بناتاہوں پس جوخطائیں  مجھ سے پہلے ہوئیں  اور جو بعدمیں  ہوں  گی ان سب کی مغفرت فرماخواہ وہ ظاہرہوئی ہوں  یا پوشیدہ آگے کرنے والااورپیچھے رکھنے والاتوہی ہے، معبودصرف توہی ہے یا(یہ کہاکہ) تیرے سواکوئی معبود نہیں ۔[10]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بنی ثقیف کوہدایت کرنے کے لئے طائف تشریف لے گئے اورانہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نارواسلوک کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جودعافرمائی اس میں  بھی یہ الفاظ ہیں  میں  تیرے اس نورذات کے ساتھ جس سے تونے ظلمات کوروشن کیاہے۔فرمایا

 اللهمّ إلَیْكَ أَشْكُو ضَعْفَ قُوَّتِی، وَقِلَّةَ حِیلَتِی، وَهَوَانِی عَلَى النَّاسِ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِینَ، وَأَنْتَ رَبِّی، إلَى مَنْ تَكِلُنِی؟ إلَى بَعِیدٍ یَتَجَهَّمُنِی  ؟ أَمْ إلَى عَدُوٍّ مَلَّكْتَهُ أَمْرِی؟ إنْ لَمْ یَكُنْ بِكَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِی  وَلَكِنَّ عَافِیَتَكَ هِیَ أَوْسَعُ لِی، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِی أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ ، وَصَلُحَ عَلَیْهِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنْزِلَ بِی غَضَبَكَ، أَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سُخْطُكَ، لَكَ الْعُتْبَى حَتَّى تَرْضَى، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِكَ

اے اللہ!میں  تیرے ہی حضوراپنی ضعف قوت اورلاچاری اورلوگوں  کی ایذادہی کی شکایت کرتاہوں ،اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! توہی بے چاروں  کاچارہ اورمیرا کارسازہے،مجھےتوکس کے سپردکرتاہے کیاایسے اجنبی کے جومجھ سے ترش روئی کرے یاایسے دشمن کے جس کوتونے مجھ پرمسلط کیا ہے،اگرمجھ پرتیراغضب نہیں  ہے توپھرمجھے کچھ پرواہ نہیں  ہےمگرتیری عافیت بڑی وسیع ہے،میں  تیرے اس نورذات کے ساتھ جس سے تونے ظلمات کوروشن کیاہےاور دنیا و آخرت کے امورکواس پردرست کیاہے اس بات سے پناہ مانگتاہوں  کہ تو اپناغضب وغصہ مجھ پرنازل فرمائے یہاں  تک کہ توراضی ہوجائے،اورتیرے سواکسی میں  نہ کوئی تکلیف دورکرنے کی قوت وطاقت ہے اورنہ نفع حاصل کرنے کی۔[11]

اس عظیم الشان کائنات میں  اس کے نورکی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں  چراغ رکھا ہواہو،چراغ ایک شیشے کے فانوس میں  رکھا ہواورفانوس اپنی صفائی اورخوبصورتی کی وجہ سے یوں  معلوم ہو جیسے وہ موتی کی طرح چمکتاہوا تاراہو اوروہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتاہوجونہ شرقی ہونہ غربی،یعنی جوکھلے میدان میں  یااونچی جگہ پرہو،اورصبح وشام اس پردھوپ پڑتی ہو،جس کالطیف تیل آپ ہی آپ بھڑکاپڑتاہوچاہے آگ اس کو نہ لگے(اس طرح روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں )اس طرح اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دلائل و براہین کی حیثیت ہے کہ وہ واضح بھی ہیں  اورایک سے ایک بڑھ کربھی،اللہ وحدہ لاشریک جن لوگوں  کے اندرایمان کی رغبت اوراس کی طلب دیکھتاہے انہیں ایمان واسلام کی طرف رہنمائی فرماتاہےجس سے ان پردین ودنیاکی سعادتوں  کے دروازے ان پرکھل جاتے ہیں ،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو  یَقُولُ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِی ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَلْقَى عَلَیْهِمْ مِنْ نُورِهِ یَوْمَئِذٍ فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ نُورِهِ یَوْمَئِذٍ، اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ، ضَلَّ، فَلِذَلِكَ أَقُولُ: جَفَّ الْقَلَمُ عَلَى عِلْمِ اللهِ عَزَّ وَجَل

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ بزرگ وبرتر نے مخلوقات کو اندھیرے میں  پیداکیاپھراس دن ان پراپنانورڈالا،جسے اس دن وہ نورپہنچااس نے ہدایت پائی،اورجومحروم رہاوہ گمراہ ہوگیا اس لئے میں  کہتاہوں  کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہوگیا ۔ [12]

وہ لوگوں  کوبہترین مثالوں  سے حق بات سمجھاتا ہے تاکہ وہ عقل وفہم حاصل کریں ،اس پرتدبراورغورفکرکریں ،اور وہ ہرچیزسے خوب واقف ہے،جیسےفرمایا

۔۔۔وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا۝۱۲۶ۧ  [13]

ترجمہ: ان کے سارے اعمال پر اللہ محیط ہے۔

۔۔۔  وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔۔۔ ۝۸۰  [14]

ترجمہ:میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ۔

اِنَّمَآ اِلٰــهُكُمُ اللهُ الَّذِیْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸  [15]

ترجمہ:لوگو ، تمہارا ا لٰہ تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور ا ٰلٰہ نہیں  ہے ، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔

۔۔۔وَّاَنَّ اللهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [16]

ترجمہ: اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔

فِی بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَیُذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ یُسَبِّحُ لَهُ فِیهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ‎﴿٣٦﴾‏رِجَالٌ لَا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ یَخَافُونَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ‎﴿٣٧﴾‏ لِیَجْزِیَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَیَزِیدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ یَرْزُقُ مَنْ یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿٣٨﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِیعَةٍ یَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ یَجِدْهُ شَیْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿٣٩﴾‏(النور)
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی، اس ارادے سے کہ اللہ انہیں اور ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ جس چاہے بیشمار روزیاں دیتا ہے ،اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے، اللہ بہت جلد حساب کردینے والا ہے۔‘‘

اس کے نورکی طرف ہدایت پانے والےان فضیلت اورعظمت والے گھروں  یعنی مساجدمیں  پائے جاتے ہیں  جنہیں  بلندکرنے کا،جناستوں  سے پاک ،لغویات اور غیر مناسب اقوال وافعال سے پاک رکھنےاورجن میں  فرض ونفل ہرقسم کی نمازپڑھنے،تلاوت قرآن ،تسبیح وتہلیل اوردیگراذکاروعبادات اوراعتکاف کرنے کااللہ نے حکم دیاہے، جیسےفرمایا

وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللهِ اَحَدًا۝۱۸ۙ [17]

ترجمہ:اور یہ کہ مسجدیں  اللہ کے لیے ہیں  لہٰذا ان میں  اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

مسجدبنانابڑی فضیلت کاکام ہے۔

عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سمعتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا یَبْتَغِی بِهِ وَجْهَ اللهِ، بَنَى اللهُ لَهُ مَثْلَهُ فِی الْجَنَّةِ

سیدناعثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سنافرماتے تھے جوشخص خالص اللہ کی رضامندی کے لئے مسجدبنائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں  ایسا ہی ایک گھربنائے گا۔[18]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا یُذْكَرُ فِیهِ اسْمُ اللَّهُ، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ

اورسیدناعمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے ہوئے سناجوشخص اللہ تعالیٰ کے ذکر(یعنی نمازاوردوسری عبادات) کے لئے مسجدبنائے تواللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھربنائے گا۔[19]

مگراس سے فن تعمیرکاشہکار ،نقش ونگارسے مزین پتھروں  اوردیگرآرائشوں  والی بلندوبالامسجد مراد نہیں  ہے بلکہ مسجدکو سادہ اوربے تکلف ہی ہوناچاہیےکیونکہ اس میں  مقصوداللہ کی عبادت ہے نہ کہ دنیاکی ظاہری طمطراق۔

عَنْ أَنَسٍ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یَتَبَاهَى النَّاسُ فِی الْمَسَاجِدِ

انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقیامت اس وقت تک نہیں  آئے گی جب تک کہ لوگ مساجدمیں  باہم فخرنہیں  کرنے لگیں  گے۔[20]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أُمِرْتُ بِتَشْیِیدِ الْمَسَاجِدِ ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَی

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے یہ حکم نہیں  دیاگیاکہ مساجد کو بہت زیادہ پختہ کروں  ابن عباس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  تم انہیں  ضرورمزین کروگے جیسے کہ یہودونصاری نے (اپنے عبادت خانے)مزین کیے۔[21]

مسجدیں  اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہیں  خریدوفروخت کے لئے نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا رَأَیْتُمْ مَنْ یَبِیعُ أَوْ یَبْتَاعُ فِی الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لاَ أَرْبَحَ اللهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَیْتُمْ مَنْ یَنْشُدُ فِیهِ ضَالَّةً، فَقُولُوا: لاَ رَدَّ اللهُ عَلَیْكَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاجب تم کسی کومسجدمیں  خریدو فروخت کرتادیکھوتوکہو اللہ تعالیٰ تیری اس تجارت میں  تجھے نفع نہ دے اورجب تم کسی کومسجدمیں  کوئی چیز ڈھونڈتا اور پکارتاہوا دیکھو توکہواللہ تعالیٰ تیری چیزکوتیری طرف نہ پھیر دے۔[22]

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ رَجُلًا نَشَدَ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا وَجَدْتَ، إِنَّمَا بُنِیَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَتْ لَهُ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے مسجدمیں  اپنے گم شدہ اونٹ کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ کون ہے جوسرخ اونٹ کے بارے میں  بتائے؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا(اللہ کرے)تونہ پائے،مسجدیں  انہی کاموں  کے لیے ہیں  جن کے لیے انہیں  بنایاگیاہے(یعنی ذکرالٰہی ، نماز،علم دین اورذکرخیر)۔[23]

کیونکہ مسجدوں  اللہ کاگھرہیں  اور اللہ کے گھر میں  اونچی آوازسے بولنا اورفضول شوروغل کرنامنع ہے۔

عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا فِی المَسْجِدِ فَحَصَبَنِی رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِی بِهَذَیْنِ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَیْنَ أَنْتُمَا؟  قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ:لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سائب بن یزیدکندی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں میں  مسجد میں  کھڑاتھاکہ کسی نے میری طرف کنکری پھینکی میں  نے جو نظراٹھائی تودیکھاکہ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بن خطاب سامنے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جودوشخص ہیں  انہیں  میرے پاس بلاکرلاؤمیں  بلا لایا، آپ نے پوچھاتمہاراتعلق کس قبیلہ سے ہے یایہ فرمایاکہ تم کہاں  رہتے ہو؟انہوں  نے بتایاہم طائف کے رہنے والے ہیں ، آپ نے فرمایا اگرتم مدینہ منورہ کے ہوتے تومیں  تمہیں  سزا دیئے بغیرنہ چھوڑتا (کیونکہ تم لوگ باہرکے رہنے والے ہواورمسجدکے آداب سے ناواقف ہواس لئے تمہیں  چھوڑدیتاہوں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مسجدمیں  آوازاونچی کرتے ہو۔ [24]

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: سَمِعَ عُمَرُ صَوْتَ رَجُلٍ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ: أَتَدْرِی أَیْنَ أَنْتَ؟

عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے ایک شخص کومسجدمیں  اونچی آوازسے بات کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا جانتا بھی ہے توکہاں  کھڑاہے؟۔[25]

مسجدمیں  باجماعت نمازپڑھنے کابہت ثواب ہے۔

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صَلاَةُ الرَّجُلِ فِی الجَمَاعَةِ تُضَعَّفُ عَلَى صَلاَتِهِ فِی بَیْتِهِ، وَفِی سُوقِهِ، خَمْسًا وَعِشْرِینَ ضِعْفًا، وَذَلِكَ أَنَّهُ: إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى المَسْجِدِ، لاَ یُخْرِجُهُ إِلَّا الصَّلاَةُ، لَمْ یَخْطُ خَطْوَةً، إِلَّا رُفِعَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِیئَةٌ، فَإِذَا صَلَّى، لَمْ تَزَلِ المَلاَئِكَةُ تُصَلِّی عَلَیْهِ، مَا دَامَ فِی مُصَلَّاهُ، اللهُمَّ صَلِّ عَلَیْهِ، اللهُمَّ ارْحَمْهُ ، وَلاَ یَزَالُ أَحَدُكُمْ فِی صَلاَةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلاَةَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآدمی کی جماعت کے ساتھ نمازگھریابازارمیں  پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہترہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اوراس کے تمام آداب کوملحوظ رکھ کراچھی طرح وضوکرتاہے پھرمسجدکی طرف چل پڑتاہے اوروہ سوائے نمازکے اس کاکوئی اورارادہ نہیں  ہوتاتو ہرقدم پراس کادرجہ بڑھتا ہے اورایک گناہ معاف کیاجاتاہےاور جب نمازسے فارغ ہوجاتاہے توفرشتے اس وقت تک اس کے لئے برابردعائیں  کرتے رہتے ہیں  جب تک وہ اپنے مصلے پربیٹھارہے،فرشتے دعاکرتے ہیں ،اے اللہ!اس پراپنی رحمتیں  نازل فرما، اے اللہ!اس پررحم کر، اورجب تک تم نمازکاانتظارکرتے رہوگویاتم نمازہی میں  مشغول ہو۔[26]

اگرعورتیں  مسجدمیں  آکرنمازپڑھناچاہیں  تو منع نہیں  ہے مگران پر باجماعت نمازپڑھنافرض نہیں  ہے۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: خَیْرُ مَسَاجِدِ النِّسَاءِ [قَعْرُ] بُیُوتِهِنَّ

ام المومنین ام سلمہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعورتوں  کی بہترین مسجدگھرکے اندرکاکوناہے۔[27]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ، وَبُیُوتُهُنَّ خَیْرٌ لَهُنَّ

عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااپنی عورتوں  کومساجدسے مت روکومگران کے گھران کے لئے بہترہیں ۔ [28]

عَنْ عَمَّتِهِ أُمِّ حُمَیْدٍ امْرَأَةِ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ -أَنَّهَا جَاءَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَ لَّمَ ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أُحِبُّ الصَّلَاةَ مَعَكَ،قَالَ:قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّینَ الصَّلَاةَ مَعِی،وَصَلَاتُكِ فِی بَیْتِكِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِی حُجْرَتِكِ، وَصَلَاتُكِ فِی حُجْرَتك خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِی دَارِكِ،وَصَلَاتُكِ فِی دَارِكِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِی مَسْجِدِ قَوْمِكِ،  وَصَلَاتُكِ فِی مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِی مَسْجِدِی ،  قَالَ: فأمَرَت فبُنی لَهَا مَسْجِدٌ فِی أَقْصَى بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِهَا وَأَظْلَمِهِ،فَكَانَتْ تُصْلِی فِیهِ حَتَّى لقیت الله عز وجل

عَمَّتِهِ أُمِّ حُمَیْدٍ سے مروی ہےابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوئیں  اورعرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں  (مسجد میں )آپ کے ساتھ نماز اداکرنابہت پسندکرتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نمازپڑھنا پسندکرتی ہومگرتیری اپنے گھر کی نمازصحن کی نمازسے اورحجرے کی نمازگھرکی نماز سے اورگھرکی کوٹھڑی کی نمازحجرے کی نمازسے افضل ہے اوراپنے حجرے میں  نمازپڑھنا اپنی قوم کی مسجدمیں  نمازپڑھنے سےبہترہےاورمحلے کی مسجدسے افضل گھرکی نماز ہے اورمحلے کی مسجدکی نمازمیری مسجدکی نمازسے افضل ہے، یہ سن کران کی بیوی نے اپنے گھرکے بالکل انتہائی حصے میں  ایک جگہ کوبطورمسجدکے مقرر کرلیااورآخری گھڑی تک وہیں  نمازپڑھتی رہیں ۔[29]

اورمسجدکے قریب رہنے والوں  کی نماز گھر پر نہیں  ہوتی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ إِلَّا فِی الْمَسْجِدِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مسجد کے پڑوسی کی نمازمسجدکے سوانہیں  ہوتی۔[30]

اورصبح وعشاء کی نماز کے لئے مسجد کارخ کرنے والوں  کی فضیلت کے بارے میں  فرمایا۔

عَنْ بُرَیْدَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:بَشِّرِ الْمَشَّائِینَ فِی الظُّلَمِ  إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

بریدہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ان لوگوں  کوقیامت کے روزنورکامل کی خوشخبری دے دوجواندھیروں  میں  مسجدوں  کی طرف چل چل کرآتے ہیں ۔[31]

جیسے قرآن مجیدمیں  اس نورکے بارے میں  فرمایا

۔۔۔نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَبِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۸  [32]

ترجمہ: ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں  جانب دوڑ رہا ہو گا اور وہ کہہ رہے ہوں  گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےمسجدمیں  داخل ہونے اورباہرنکلنے کے آداب فرمائے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَالَ: أَعُوذُ بِاللهِ الْعَظِیمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِیمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِیمِ، مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ،قَالَ: أَقَطْ؟ قُلْتُ: نَعَمْ،قَالَ: فَإِذَا قَالَ: ذَلِكَ قَالَ الشَّیْطَانُ: حُفِظَ مِنِّی سَائِرَ الْیَوْمِ

عبداللہ بن عمروبن عاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مسجدمیں  داخل ہوتے توکہتےتھے’’ میں  شیطان مردودکے شرسے اللہ کی پناہ چاہتاہوں  جوانتہائی عظمت والاہے ،میں  اس کے انتہائی محترم چہرے کی پناہ لیتاہوں  اوراس کے سلطان قدیم کی پناہ لیتاہوں ۔‘‘کہابس اتناہی ؟میں  نے کہاہاں ،کہاکہ انسان جب یہ کہہ لیتاہے توابلیس کہتاہے کہ آج سارے دن کے لئے یہ مجھ سے محفوظ ہوگیا۔[33]

عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْیَقُلْ: اللهُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ،  وَإِذَا خَرَجَ، فَلْیَقُلْ اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ

ابواسیدانصاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب تم میں  سے کوئی مسجدمیں  داخل ہوتو کہے’’ اے اللہ!میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اورجب مسجدسے باہرنکلے توکہے’’اے اللہ!میں  تجھ سے تیرافضل یعنی رزق اور دنیاکی نعمتیں  مانگتاہوں ۔‘‘  [34]

أَبَا أُسَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ  فَلْیُسَلِّمْ عَلَى النَّبِیِّ،  ثُمَّ لِیَقُلْ: اللهُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ  وَإِذَا خَرَجَ، فَلْیَقُلْ:  اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ

ابواسیدانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم میں  سے کوئی جب مسجدمیں  آئے تواللہ کے نبی پرسلام بھیجے، پھرکہے’’  اے اللہ!میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘اور جب مسجدسے باہرنکلے توکہے’’  اے اللہ!میں  تجھ سے تیرافضل یعنی رزق اور دنیاکی نعمتیں  مانگتا ہوں ۔‘‘[35]

ان میں  ایسے لوگ ہیں  جوخلوص نیت کے ساتھ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لئے باجماعت نماز پڑھتے،قرآن کریم کی تلاوت کرتے اوراللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،یہ وہ پختہ ایمان والےلوگ ہیں  جنہیں  تجارت اوربازاروں  میں  مال کی خریدوفروخت کی مشغولیت اوردنیاکی لذتیں  اللہ کی یادسے اور اقامت نمازوادائے زکوٰة سے غافل نہیں  کردیتی،جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹ [36]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ! تمہارے مال اور تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ، جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹ [37]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذِکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔

یہ وہ لوگ ہیں  جو قیامت کے دن سے ڈرتے رہتے ہیں  جس کی شدت فزع اورہولناکی سے کلیجے دہل جائیں  گے اور آنکھیں  پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی، جیسےفرمایا

وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۝۰ۥۭ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ۝۱۸ۭ [38]

ترجمہ: اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ڈرا دو اِن لوگوں  کو اس دن سے جو قریب آ لگا ہے جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں  گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہوں  گے، ظالموں  کا نہ کوئی مشفق دوست ہو گا اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۝۰ۥۭ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ۝۴۲ۙ [39]

ترجمہ:اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں  اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو انہیں  ٹال رہا ہے، اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ۔

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا۝۸اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝۹اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۝۱۰فَوَقٰىهُمُ اللهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَلَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا۝۱۱ۚوَجَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْرًا۝۱۲ۙ [40]

ترجمہ:اور اللہ کی محبّت میں  مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں  کہ ) ہم تمہیں  صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں  ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں  نہ شکریہ،ہمیں  تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگاپس اللہ تعالیٰ انہیں  اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں  تازگی اور سرور بخشے گااور ان کے صبر کے بدلے میں  انہیں  جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔

اوروہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں  تاکہ اللہ کے اعمال حسنہ اوراعمال صالحہ کی جزا ان کودے اورمزید اپنے فضل سے نوازے ،جیسےفرمایا

لِیُكَفِّرَ اللهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۳۵ [41]

ترجمہ:تاکہ جو بدترین اعمال انہوں  نے کیے تھے انہیں  اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کے لحاظ سے ان کو اجر عطا فرمائے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روزاہل ایمان کوان کی نیکیوں  کابدلہ  أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً کئی کئی گنابڑھاکردے گااوربہت سوں  کوتووہ اپنی رحمت خاص سے بغیر حساب ہی جنت میں  داخل کردیے گاجیسےفرمایا

اِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [42]

ترجمہ:اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں  کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۔۔۔  ۝۸۴ [43]

ترجمہ:جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے۔

ایک نیکی کااجردس گناتک ہے،

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَـنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا۔۔۔۝۰۝۱۶۰  [44]

ترجمہ:جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے۔

ایک مقام پرفرمایا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً۝۰ۭ وَاللهُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ۝۰۠ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵ [45]

ترجمہ:تم میں  کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں  ہے اور بڑھانا بھی ، اور اسی کی طرف تمہیں  پلٹ کر جانا ہے۔

ایک مقام پر ہے اللہ نیکی کاصلہ سات سوگنا تک بڑھادیتاہے۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ۝۰ۭ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱ [46]

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں  صرف کرتے ہیں  ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں  نکلیں  اور ہر بالی میں  سو دانے ہوں  اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِینَ وَالْآخَرِینَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، جَاءَ مُنَادٍ فَنَادَى بِصَوْتٍ یُسمع الْخَلَائِقَ: سَیَعْلَمُ أهلُ الْجَمْعِ مَنْ أَوْلَى بِالْكَرَمِ ، لِیَقُمِ الَّذِینَ لَا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ، فَیَقُومُونَ وَهُمْ قَلِیلٌ، ثُمَّ یُحَاسَبُ سَائِرُ النَّاسِ

اسماء بنت یزیدسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاقیامت کے روزجب کہ میدان محشرمیں  اول وآخرجمع ہوں  گے اللہ تعالیٰ ایک منادی کوحکم فرمائے گا جو باآواز بلند نداکرے گاجسے تمام اہل محشرسنیں  گے کہ آج معلوم ہوجائے گاکہ اللہ کے ہاں  سب سے زیادہ مکرم کون ہے،پھرفرمائے گاوہ لوگ کھڑے ہوجائیں  جنہیں  تجارت اوربازاروں  میں خریدوفروخت اللہ کے ذکرسے غافل نہیں  کرتاتھاپس وہ لوگ کھڑے ہوجائیں  گے اوروہ بہت کم ہی ہوں  گے چنانچہ سب سے پہلے انہیں  حساب سے فارغ کردیاجائے گا ۔[47]

اللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت سے جسے چاہتاہے بے حدو حساب دیتاہے،جیسےفرمایا

۔۔۔وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۲۷ [48]

ترجمہ: اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

اس کے برعکس مشرکین جواللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرے شریک ٹھیراتے ہیں  اورمنافقین جومحض زبان سے اقراری ہوتے ہیں  اور کے دلوں  میں  ایمان نہیں  ہوتا اوروہ شہرت،دولت اوراقتدارکے لئے دکھاوے کے لئے اعمال کرتے ہیں  چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کواس دنیامیں  یہ سب عطاکردیتاہے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے دوپہرکے وقت دشت بے آب میں  سراب ،جب پیاسااس کوپانی سمجھ کرجان توڑکوشش کے بعدوہاں  پہنچتاہے لیکن مگرحیرت وحسرت سے اپنامنہ لپیٹ لیتاہے کہ وہاں  توپانی کانام ونشان ہی نہیں  ہے، یعنی ظاہری ونمائشی اعمال خیرسے آخرت میں  فائدے کی امیدرکھناسیراب سے زیادہ نہیں ، مشرکین کے بارے تواللہ تعالیٰ نے صاف فرمادیاہےکہ اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں  بخشے گا،جیسےفرمایا

اِنَّ اللهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَنْ یُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِیْمًا۝۴۸ [49]

ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں  کرتا اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں  وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی ۔

اورمنافقین کےاعمال کو اللہ تعالیٰ وزن ہی نہیں  دے گا۔ جیسےفرمایا

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا۝۱۰۵ [50]

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا(ملاقاتِ رب کا انکار کیا ) اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ، قیامت کے روز ہم انہیں  کوئی وزن نہ دیں  گے۔

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳  [51]

ترجمہ:اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں  گے۔

چنانچہ جب وہ اپنی قبروں  سے زندہ ہوکرمیدان محشرمیں  پہنچیں  گے تودیکھیں  گے کہ ان کے نامہ اعمال میں  توایک نیکی بھی نہیں  ہے اوران کاکوئی عمل بھی ثواب کے قابل نہیں  ہے،اورمیدان محشرمیں  اللہ تعالیٰ کفرونفاق اوران بداعمالیوں  کاجونمائشی نیکی کے طورپرکیے گئے تھے حساب لینے اورہرعمل کا پورا پورابدلہ دینے کے لئے موجودہے تواس وقت وہ حسرت ویاس کے ساتھ اپنے ہاتھ ملنے اور پچھتانے کے سوا اورکچھ نہیں  کر سکیں  گےاورپھرانہیں  جہنم میں  جھونک دیا جائے گا ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ: قُلْنَا یَا رَسُولَ اللهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا یَوْمَ القِیَامَةِ؟قَالَ:هَلْ تُضَارُونَ فِی رُؤْیَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ إِذَا كَانَتْ صَحْوًا؟ قُلْنَا: لاَ، قَالَ:فَإِنَّكُمْ لاَ تُضَارُونَ فِی رُؤْیَةِ رَبِّكُمْ یَوْمَئِذٍ، إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِی رُؤْیَتِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: یُنَادِی مُنَادٍ: لِیَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا یَعْبُدُونَ، فَیَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِیبِ مَعَ صَلِیبِهِمْ، وَأَصْحَابُ الأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ ،وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ، حَتَّى یَبْقَى مَنْ كَانَ یَعْبُدُ اللهَ،مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ ، وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم قیامت کے دن اپنے رب کودیکھیں  گے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیاتم کوسورج اورچانددیکھنے میں  کچھ تکلیف ہوتی ہے جبکہ آسمان بھی صاف ہو؟ہم نے کہاکہ نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پرفرمایاجس طرح سورج اورچاندکودیکھنے میں  تمہیں  کوئی دشواری نہیں  ہوتی اسی طرح اپنے رب کے دیدارمیں  کوئی تکلیف پیش نہیں  آئے گی،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایک آوازدینے والاآوازدے گاکہ ہرقوم اس کے ساتھ ہوجائے جس کی وہ پرستش کیاکرتی تھی،چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ،اور بتوں  کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں  کے ساتھ چلے جائیں  گے(اسی طرح قبروں  وغیرہ کے پجاری قبروں  وغیرہ کے پیچھے لگ جائیں  گے) اسی طرح ہرپجاری اپنے معبودکے ساتھ چلا جائےگایہاں  تک کہ باقی صرف وہ لوگ رہ جائیں  گے جوخالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے تھے،ان میں  نیک و بد دونوں  قسم کے مسلمان ہوں  گے اوراہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں  گے،

ثُمَّ یُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ،فَیُقَالُ لِلْیَهُودِ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَیْرَ ابْنَ اللهِ، فَیُقَالُ: كَذَبْتُمْ، لَمْ یَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلاَ وَلَدٌفَمَا تُرِیدُونَ؟قَالُوا: نُرِیدُ أَنْ تَسْقِیَنَافَیُقَالُ: اشْرَبُوافَیَتَسَاقَطُونَ فِی جَهَنَّمَ، ثُمَّ یُقَالُ لِلنَّصَارَى: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟فَیَقُولُونَ: كُنَّا نَعْبُدُ المَسِیحَ ابْنَ اللهِ،فَیُقَالُ: كَذَبْتُمْ، لَمْ یَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ، وَلاَ وَلَدٌ،فَمَا تُرِیدُونَ؟فَیَقُولُونَ: نُرِیدُ أَنْ تَسْقِیَنَا ، فَیُقَالُ: اشْرَبُوا،فَیَتَسَاقَطُونَ فِی جَهَنَّمَ

پھردوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی اوروہ ایسی نظرآئے گی جیسے سیراب ہوتاہے(جودورسے پانی کی مانندنظرآتاہے)پھریہودیوں  سے پوچھاجائے گاکہ تم کس کی پوجاکیاکرتے تھے ؟وہ کہیں  گے ہم عزیرابن اللہ کی پرستش کیاکرتے تھے،انہیں  جواب ملے گاکہ تم جھوٹے ہواللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اورنہ کوئی لڑکا،اب تم کیاچاہتے ہو؟وہ کہیں  گے کہ ہمیں پانی سے سیراب کیاجائے،ان سے کہاجائے گاکہ پیو،(وہ اس چمکتی ہوئی ریت کی طرف پانی سمجھ کرچلیں  گے)اورپھروہ جہنم میں  ڈال دیئے جائیں  گے،پھرنصاریٰ سے کہاجائے گاتم کس کی پرستش کیاکرتے تھے؟وہ جواب دیں  گے ہم مسیح ابن اللہ کی پوجاکیاکرتے تھے،ان سے کہاجائے گاتم جھوٹے ہواللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اورنہ کوئی لڑکا،اب تم کیاچاہتے ہو؟وہ کہیں  گے ہم پانی سے سیراب کئے جائیں ، ان سے کہاجائے گاکہ پیو(ان کوبھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا ) اورانہیں  بھی جہنم میں  ڈال دیاجائے گا۔ [52]اوراللہ تعالیٰ نے اس کے اعمال کا پورا پورا حساب چکا دیااوراللہ کوحساب لیتے دیر نہیں  لگتی۔

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لُجِّیٍّ یَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ یَدَهُ لَمْ یَكَدْ یَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَمْ یَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ ‎﴿٤٠﴾‏ (النور)
’’یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہوپھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں، الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے، اور( بات یہ ہے کہ) جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔‘‘

پھران کفار،مشرکین اورمنافقین کی دوسری تمثیل بیان فرمائی کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے اتھاہ اوربے کراں  سمندرجس میں  روشنی نہیں  گزرسکتی ،پھراس کے اوپرایک موج چھائی ہوئی ہو اور اس پرایک اور بڑی موج چھائی ہو اوران کے اوپر گہرے سیاہ بادل چھائے ہوں جوسورج کی روشنی کوروک لیں  ،اس طرح اندھیرےپر اندھیرا مسلط ہو،اوراس گہری تاریکی میں آدمی اپناہاتھ نکالے تواسے بھی نہ دیکھ سکے، یعنی جس طرح بحربے پایاں  کی تاریکی ،پھراس پرایک دوسری کے اوپرسوارموجوں  کی تاریکی پھربادلوں  کا گھٹاٹوپ اندھیرااورپھرسیاہ رات کااندھیرااوراس کامل تاریکی میں  کچھ سجھائی نہیں  دیتا اسی طرح مشرکین اورمنافقین کے دلوں  کاحال ہے،جن پر جہالت کااندھیرا ، کفروضلالت کااندھیرا ،مشرکانہ عقائدکااندھیرااوراعمال بدکا گہرااندھیرا چھایا ہوا ہے اوریہ اندھیرے اسے راہ ہدایت کی طرف آنے نہیں  دیتے،کسی کوہدایت دینااوراعمال صالحہ کی توفیق بخش دینااللہ کے اختیارمیں  ہے،جیسےفرمایا

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶  [53]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں  دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

اور جسے اللہ اپنی حکمت ومشیت سے ایمان واسلام کی ہدایت نہ بخشے پھر اسے کوئی ہدایت نہیں  دے سکتا ، جیسےفرمایا

مَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ۝۰ۭ وَیَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۸۶ [54]

ترجمہ:جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں  ہے اور اللہ اِنہیں  اِن کی سرکشی ہی میں  بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ یُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِیحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ ‎﴿٤١﴾‏ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِیرُ ‎﴿٤٢﴾(النور۴۱،۴۲)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کی کل مخلوق اور پر پھیلائے اڑنے والے کل پرند اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں، ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے ،لوگ جو کچھ کریں اس سے اللہ بخوبی واقف ہے، زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘

اوپرذکرفرمایاتھاکہ اس عظیم الشان کائنات کانوراللہ ہی ہے ،اسی کے دم سے یہ کائنات قائم ہےیہاں  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدر ت کاملہ کے چندنمونےبیان فرمائے،فرمایاکیاتم دیکھتے نہیں  ہوکہ سب فرشتے جو آسمانوں  میں  ہیں  اوردوسرے بے شمارحیوانات وجمادات جوزمین اورسمندروں  میں  ہیں  اوروہ چھوٹے بڑے رنگ برنگ کے پرندے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے فضامیں  اڑتے ہوئے اللہ رب العالمین کی تسبیح کررہے ہیں ؟جیسےفرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [55]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  جو ان میں  ہیں  سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہوحقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور در گزر کرنے والا ہے۔

اوروہ پرندے جوپرپھیلائے اڑرہے ہیں ،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ۝۰ۭؔۘ مَا یُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ۝۰ۭ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍؚبَصِیْرٌ۝۱۹ [56]

ترجمہ:کیا یہ لوگ اپنے اُوپر اُڑنے والے پرندوں  کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں  دیکھتے؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں  جو انہیں  تھامے ہوئے ہو، وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے شعوراورارادہ سے بے بہرہ ہرمخلوق کوحسب حال یہ علم الہام کیاہواہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اورتسبیح کس طرح کرے ، اور یہ سب نورانی فرشتے،شعوروارادہ سے بہرہ ورمٹی سے تخلیق کئے ہوئےانسان اور آگ کی لپٹ سے تخلیق کیے ہوئےجن اوردوسری مخلوقات جس طرح اللہ کی اطاعت اوراس کی تسبیح کرتے ہیں  اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال کوجانتاہےاس سے کوئی چیزپوشیدہ نہیں  اوروہ عنقریب انہیں  اس کی جزادے گا، عظیم الشان ساتوں  آسمانوں  اورساتوں زمین کاخالق،مالک اوررازق اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے اوروہ جس طرح چاہتاہے ان میں  تصرف فرماتاہے،ایک وقت مقررہ پرہرنفس نے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئےاسی کی بارگاہ میں  پیش ہونا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [57]

ترجمہ: تاکہ اللہ برائی کرنے والوں  کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں  کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں  نے نیک رویہ اختیار کیا ہے ۔

اوروہ ہر ایک کے بارے میں  عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔

اعمال کی جزاکے بارے میں امروالقیس نے کہا

فَوَلَّى مُدْبِرًا یَهْوَى حَثِیثًا، وَأَیْقَنَ أَنَّهُ لَاقَى الْحِسَابَا

‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ یُزْجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهُ ثُمَّ یَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِیهَا مِنْ بَرَدٍ فَیُصِیبُ بِهِ مَنْ یَشَاءُ وَیَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ یَشَاءُ ۖ یَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ یَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ ‎﴿٤٣﴾‏یُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِی الْأَبْصَارِ ‎﴿٤٤﴾‏(النور)
’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے پھر انہیں ملاتا ہے پھر انہیں تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے، وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انہیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انہیں ہٹا دے، بادلوں ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی،اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردو بدل کرتا رہتا ہے، آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔‘‘

پانی زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے ،زمین پرپانی کاسب سے بڑاذخیرہ سمندرہے جو نمکین ہونے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہے،جب اللہ تعالیٰ چاہتاہے اپنی قدرت کاملہ سے ہواؤں  کوبھیجتاہے اوروہ سمندروں  سے پانی کے چھوٹے چھوٹے ذرات کولے کربلندہوتی ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اپنی اس قدرت کومتعددمقامات پر فرمایا

وَاللهُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُـثِیْرُ سَحَابًا۔۔۔۝۹ [58]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل اُٹھاتی ہیں ۔

اَللهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا ۔۔۔۝۴۸ۚ  [59]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ۔

وَهُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا۔۔۔ ۝۵۷  [60]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے ، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  ۔

جس سے چھوٹی چھوٹی بدلیاں  بنتی ہیں  پھروہ اکٹھی ہوکربڑابادل بن جاتی ہیں  اورکثیف ہوکربادل بن کرجہاں  اللہ چاہتاہے اس مردہ زمین پرمیٹھے پانی کی بارش برسانے لگتے ہیں  جس سے جس سے بڑے بڑے تالاب بھرجاتے ہیں دریاٹھاٹھیں  مارنے لگتے ہیں  وادیاں  بہہ نکلتی ہیں ،جیسے فرمایا

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِہَا۔۔۔ ۝۱۷ۭ [61]

ترجمہ:اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا ۔

اورروئے زمین پرجوڑوں  جوڑوں  کی شکل میں انواع واقسام کی نباتات اگ آتی ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ۔۔۔ [62]

ترجمہ:اسی نے ہر طرح کے پھلوں  کے جوڑے پیدا کیے ہیں ۔

اوریہی میٹھاپانی زندگی اورزراعت کے لئے انتہائی ضروری ہے،صرف اتناہی نہیں  اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے بادلوں  سے ژالہ باری ہوتی ہے جو پہاڑوں  پربرف کی شکل میں  جم جاتے ہیں  اورجب ضرورت ہوتی ہے یہی برف پگھل کرپانی بن جاتی ہے اوردریاؤں  میں  پانی بھرجاتاہے اس طرح میٹھے پانی حصول ممکن ہوجاتاہے،اپنی اسی قدرت کاملہ کابیان فرمایا کیااللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت تمہارےروزمرہ کے مشاہدے میں  نہیں  ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدر ت کاملہ سے بادلوں  کوجس زمین کی طرف چاہتا ہےآہستہ آہستہ چلاتاہےپھر وہ ان بدلیوں  کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں  کوباہم جوڑدیتاہےاورپھراسے سمیٹ کرایک کثیف ابربنادیتاہےپھرتم دیکھتے ہو کہ بادلوں  میں  سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں  اورکبھی کبھی یوں  بھی ہوتاہے کہ وہ ان پہاڑجیسے بڑے بڑے بادلوں  سےژالہ باری کرتاہے،

أَنَّ فِی السَّمَاءِ جبالَ بَرَد یُنَزِّلُ اللهُ مِنْهَا الْبَرْدَ

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں آسمان میں  اولوں  کے پہاڑہیں  جن سے وہ اولے برساتاہے۔[63]

وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ بَرَدٌ فِیهَا

ا للہ تعالیٰ آسمان سے بارش ہی نہیں  برساتابلکہ بلندیوں  سے جب چاہتاہے برف کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی نازل فرماتاہے۔[64]

جیسے فرمایا

اَللهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُهٗ فِی السَّمَاۗءِ كَیْفَ یَشَاۗءُ وَیَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ۝۰ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِهٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۸ۚ [65]

ترجمہ: اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں  ، پھر وہ ان بادلوں  کو آسمان میں  پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں  ٹکڑیوں  میں  تقسیم کرتا ہے ، پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں  میں  سے بارش کے قطرے ٹپکے چلے آتے ہیں ،یہ بارش جب وہ اپنے بندوں  میں  سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں ۔

شاعرنے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کے بارے میں  کہا۔

أَثَرْنَ عَجَاجَةً وَخَرَجْنَ مِنْهَا،خُرُوجَ الْوَدْقِ مِنْ خَلَلِ السَّحَابِ

پھروہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق جن پراپنی رحمت نہیں  بھیجناچاہتاہے انہیں  اس بارش یاژالہ باری کے عذاب میں  مبتلاکردیتاہے جس سےان کی فصلیں  اورکھیتیاں  برباد ہوجاتی ہیں  اوروہ نقصان سے دوچارہوجاتے ہیں  اور جن پراپنی رحمت کرناچاہتاہے انہیں  بارش اورژالہ باری کے نقصان سے بچالیتاہے،اوراس بارش سے ان کی فصلیں  خوب پیداوار دیتی ہیں ،اوران گہرے بادلوں  سے کوندنے والی بجلی کی چمک اتنی شد ہوتی ہے کہ وہ نگاہوں  کوخیرہ کیے دیتی ہےاوراتنی شدیدکڑک ہوتی ہے کہ دل دہل جاتے ہیں ،کیاوہ ہستی جس نے ان بادلوں  کواٹھایااوران کواپنے بندوں  تک پہنچایاجواس کے محتاج ہیں  اوران کواس طرح برسایاکہ اس بارش سے فائدہ حاصل ہواورنقصان نہ ہو،کیاوہ کامل قدرت ،اٹل مشیت اوربے پایاں  رحمت کی مالک نہیں ؟اوررات اوردن کاالٹ پھیر بھی اللہ وحدہ لاشریک کی قدرت کاملہ کاایک نمونہ ہے،جس میں انسان رزق حلال حاصل کرنے کے لئے دن میں  محنت ومشقت اوررات کی ٹھنڈک میں  آرام وسکون حاصل کرتاہے،جیسے فرمایا

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۝۶۷ [66]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں  سکون حاصل کرو اور دن کوروشن بنایا اس میں  نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو (کھلے کانوں  سے پیغمبر کی دعوت) کو سنتے ہیں ۔

وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّهَارَ اٰیَـتَیْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰیَةَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَآ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۔۔۔۝۱۲ [67]

ترجمہ:دیکھو ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں  بنایا ہے رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو۔

اوررات اوردن کاالٹ پھیرجس سے کبھی دن بڑے ہوجاتے ہیں  اورراتیں  چھوٹی ہوجاتی ہیں  اورکبھی راتیں  بڑی اور دن چھوٹے ہوجاتے ہیں  اوران سے موسم بدلتے ہیں  جس سے موسموں  کے مطابق طرح طرح کی فصلیں ،پھل ، سبزیاں  اورجانوروں  کے چارے پیداہوتے ہیں ، اس میں  صاحب بصیرت کے لیے ایک سبق ہے،اس مضمون کومتعدد مقامات پرفرمایا

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۝۱۹۰ۚۙ  [68]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں  کی پیدائش میں  اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں  ان ہوش مند لوگوں  کے لیے بہت نشانیاں  ہیں ۔

اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ۝۶ [69]

ترجمہ:یقیناً رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں  اور ہر اس چیز میں  جو اللہ نے زمین اور آسمانوں  میں  پیدا کی ہو ، نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے ) بچنا چاہتے ہیں ۔

وَهُوَالَّذِیْ یُـحْیٖ وَیُمِیْتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۸۰ [70]

ترجمہ:وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، گردشِ لیل و نہار اُسی کے قبضہ قدرت میں  ہے کیا تمہاری سمجھ میں  یہ بات نہیں  آتی ؟۔

وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۵ [71]

ترجمہ:اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں  اور اس رزق میں  جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اُٹھاتا ہے، اور ہواؤں  کی گردش میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جوعقل سے کام لیتے ہیں ۔

اگرہمیشہ رات ہی رات یادن ہی دن رہتاتونہ توکاروبارکاموقعہ ملتااورنہ ہی آرام وسکون حاصل ہوتاچنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَاۗءٍ۝۰ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ۝۷۱قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِ۝۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۷۲ [72]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! اِن سے کہو کبھی تم لوگوں  نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں  روشنی لا دے ؟ کیا تم سنتے نہیں  ہو؟اِن سے پوچھو کبھی تم نے سوچھا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں  رات لا دے تاکہ تم اس میں  سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں ؟۔

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ یَمْشِی عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَمْشِی عَلَىٰ رِجْلَیْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَمْشِی عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ یَخْلُقُ اللَّهُ مَا یَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٤٥﴾‏ لَقَدْ أَنْزَلْنَا آیَاتٍ مُبَیِّنَاتٍ ۚ وَاللَّهُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ‎﴿٤٦﴾‏ (النور)
’’تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا، ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں،  بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے،بلاشک وشبہ ہم نے روشن اور واضح آیتیں اتار دی ہیں، اللہ تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیقی قدرت کااظہارفرمایااوراللہ نے روئے زمین کے تمام جانداروں  کوایک طرح کے بدبودار پانی سے تخلیق کیاہے،جیسے فرمایا

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ۔۔۔  ۝۳۰ [73]

ترجمہ:اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔

مگریہ اس کی قدرت کاملہ ہے کہ اس سے پیداہونے والی مخلوق بہت سے پہلوؤں  سے (ایک دوسرے) سے مختلف ہیں ،جیسے سانپ اوردیگرحشرات الارض وغیرہ تو پیٹ کے بل رینگ رہے ہیں  ، انسان اوربہت سےپرندے دوٹانگوں  پراورچوپائے اوردیگرحیوانات چارٹانگوں  پرچل رہے ہیں  اوربہت سے حشرات الارض ایسے بھی ہیں  جوچارسے زیادہ پاؤں  رکھتے ہیں ،اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سےجو چاہتاہے اورجیسی چاہتاہے اپنی مخلوق پیدا کرتا ہے ،جیسے اللہ تعالیٰ ایک ہی پانی سے طرح طرح کے ذائقہ والے پھل پیدافرماتاہے،جیسے فرمایا

 وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۴ [74]

ترجمہ:اور دیکھو زمین میں  الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں  جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں  انگور کے باغ ہیں  ، کھیتیاں  ہیں  ، کھجور کے درخت ہیں  جن میں  سے کچھ اکہرے ہیں  اور کچھ دوہرے ، سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں  ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں  اور کسی کو کمتر ،ان سب چیزوں  میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔

وہ ہرچیزپرقدرت رکھتا ہے،ہم نے صاف صاف حکمت بھرے احکامات اورروشن مثالیں قرآن کریم میں  نازل کردی،جیسے فرمایا

 ۔۔۔مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ۔۔۔ ۝۳۸ [75]

ترجمہ:ہم نے کتاب میں کسی چیزکے بیان میں  کوتاہی نہیں  کی ۔

تاکہ جوہلاک ہودلیل کے ساتھ ہلاک ہواورجوزندہ رہے تودلیل کے ساتھ زندہ رہے،جیسے فرمایا

۔۔۔لِّـیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ۔۔۔  ۝۴۲ۙ [76]

ترجمہ:تا کہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔

آگے اللہ ہی اپنی حکمت ومشیت سےجسے چاہتاہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتاہے،جواس تک اوراس کے اکرام وتکریم والے گھرتک لے جاتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۴۲ [77]

ترجمہ: اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۔۔۔۝۸۸ [78]

ترجمہ:یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں  میں  سے جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے۔

۔۔۔وَّاَنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ۝۱۶ [79]

ترجمہ:اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

وَیَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلَّىٰ فَرِیقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ إِذَا فَرِیقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَإِنْ یَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ یَأْتُوا إِلَیْهِ مُذْعِنِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ أَفِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ یَخَافُونَ أَنْ یَحِیفَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ (النور)
’’اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے اور فرماں بردار ہوئے، پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھرجاتا ہے،یہ ایمان والے ہیں (ہی) نہیں، جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے، ہاں اگر انہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع و فرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں، کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے ؟ یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی نہ کریں ؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں۔‘‘

یہ منافقین زبان سے تواقرارکرتے ہیں  کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لائےاورہم نے ان کی اطاعت قبول کی مگراس اقرار کے بعدان میں  سے ایک گروہ اطاعت سےمنہ موڑ جاتا ہے،جیسےفرمایا

۔۔۔ وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۲۳ [80]

ترجمہ:تووہ بے رخی کے ساتھ منہ پھیرجاتے۔

کیونکہ انہوں  نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کی اس لئے ایسے لوگ ہرگزمومن نہیں  ہیں ،

كَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الرَّجُلِ مُنَازَعَةٌ، فَدُعِیَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحِقّ أَذْعَنَ، وَعَلِمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَیَقْضِی لَهُ بِالْحَقِّ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَظْلِمَ فدُعی إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَضَ، وَقَالَ: أنطلقُ إِلَى فُلَانٍ،  فَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ

روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں  بہت سے منافقین ایسے تھے کہ جب دواشخاص میں  کوئی مخاصمت ہوتی اورپھر انہیں  اپنامطلب قرآن وسنت میں  نکلتا نظر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی عدالت میں  اپنے جھگڑے پیش کرتے، اورجب انہیں  دوسری طرف مطلب برداری نظرآتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی عدالت میں  آنے سے صاف انکارکرجاتے اورکہتے فلاں  سے فیصلہ کرالو، جس پریہ آیت نازل ہوئی۔[81]

کہ جب ان کو اللہ کے فرمان اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عدالت میں  بلایا جاتاہے تاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کے آپس کے مقدمے کافیصلہ کریں  توان میں  سے ایک فریق جنہیں  یہ خوف ہوتاہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی خواہش نفس اور دنیوی مفاد کے مطابق فیصلہ نہیں  فرمائیں  گے تو اپنا مقدمہ عدالت نبوی میں  لے جانے سے اعراض و گریز کرتا ہے،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۵۹ۧاَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ۝۰ۭ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۝۶۰وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا۝۶۱ۚ [82]

ترجمہ: اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں  کی جو تم میں  سے صاحبِ امر ہوں  ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں  نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دواگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہویہی ایک صحیح طریق ِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے،اے نبیؐ ! تم نے دیکھا نہیں  ان لوگوں  کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں  کہ ہم ایمان لائے ہیں  اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں  پر جو تم سے پہلے نا ز ل کی گئی تھیں  مگر چاہتے یہ ہیں  کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں  حالانکہ انہیں  طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، شیطان انہیں  بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے،اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں  کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔

عَنْ الْحَسَنِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:من كَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ أَخِیهِ شَیْءٌ، فدُعِی إِلَى حَكَم مِنْ حُكَّام الْمُسْلِمِینَ فَأَبَى أَنْ یُجِیبَ، فَهُوَ ظَالِمٌ لَا حَقَّ لَهُ

حسن بصری رحمہ اللہ نے ایک مرسل حدیث میں  روایت کیاہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص مسلمانوں  کے حکام عدالت میں  سے کسی حاکم کی طرف بلایاجائے اوروہ حاضرنہ ہوتووہ ظالم ہے اس کاکوئی حق نہیں  ہے۔[83]

البتہ اگروہ حق پرہوں  تو رسول کے پاس خوشی خوشی بڑے اطاعت گزار بن کرآجاتے ہیں ،یعنی اگران کامفاددین کے اپنانے میں  ہے تودینداراوراگردین چھوڑنے میں  ہے توترقی پسندبن جاتے ہیں ،اگرہم اپنی انفرادی زندگی کاجائزہ لیں  توہم دیکھتے ہیں  کہ ہم زبان سے ایمان کادعویٰ کرنے والے ہیں  اورہماری زندگی کے سارے مشاغل حتی کہ ولادت سے موت تک کی تمام رسومات ومعاملات اپنی خواہشات کے تابع ہیں  جبکہ اہل ایمان کی یہ شان نہیں ،اس اعراض وگریزکی وجہ بیان فرمائی کیا ان کے دلوں  کو کفر و نفاق کاروگ لگا ہوا ہے؟ یایہ دین الٰہی کی حقانیت اور اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بارے میں  اضطراب کاشکار ہوگئے ہیں  اوروہ اللہ تعالیٰ پرتہمت لگاتے ہیں  کہ وہ حق کے مطابق فیصلہ نہیں  کرتا؟یاان کویہ خوف ہے کہ اللہ اوراس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم  ظلم وجورپرمبنی فیصلہ کرے گا؟حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں ،اصل بات یہ ہے کہ ظالم تویہ لوگ خودہیں ۔ رہااللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کافیصلہ تووہ انتہائی عدل وانصاف پرمبنی اورحکمت کے موافق ہے،

 ۔۔۔وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ۧ  [84]

ترجمہ:حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں  ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟۔

وفیه هَذِهِ الْآیَةِ دَلِیلٌ عَلَى وُجُوبٍ الْإِجَابَةِ إِلَى الْقَاضِی الْعَالِمِ بِحُكْمِ اللهِ، الْعَادِلِ فِی حُكْمِهِ، لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ وَالْحُكْمُ مِنْ قُضَاةٍ الْإِسْلَامِ الْعَالِمِینَ بِحُكْمِ اللهِ الْعَارِفِینَ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الْعَادِلِینَ فِی الْقَضَاءِ هُوَ حُكْمٌ بِحُكْمِ اللهِ، وَحُكْمِ رَسُولِهِ، فَالدَّاعِی إِلَى التَّحَاكُمِ إِلَیْهِمْ

امام شوکانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت میں  واضح دلیل ہے کہ جب قضاوفیصلے کے لئے ایسے حاکم وقاضی کی طرف بلایاجائے جوعادل اورقرآن وسنت کاعالم ہو تو اس کے پاس جاناضروری ہے۔[85]

البتہ وہ قاضی جوکتاب وسنت کاعلم اور ان کے دلائل سے بے بہرہ ہوتواس کے پاس فیصلے کے لیے جاناضروری نہیں ۔

‏ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ أَنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٥١﴾‏ وَمَنْ یُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیَخْشَ اللَّهَ وَیَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ‎﴿٥٢﴾(النور)
’’ ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیںاور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں ۔‘‘

کفرونفاق کے مقابلے میں  اہل ایمان کے کرداراورعمل بیان فرمایاکہ حقیقی مومن کی صفت تویہ ہے کہ جب وہ اللہ اوررسول کی طرف بلائے جائیں  تاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے مقدمے کافیصلہ کریں ،خواہ یہ فیصلہ ان کی خواہش نفس کے موافق ہویامخالف، تووہ کہیں  کہ ہم تمام معاملات میں  اللہ اوراس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فیصلے کوخوش دلی سے قبول کرتے اورانہی کی اطاعت کرتے ہیں ،یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی منزل آخری کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے آگے سرجھکادیں ،

عَنْ قَتَادَةَ: قَالَ اللهُ جَلَّ وَعَزَّ:{إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ أَنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}، [86]، وَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ كَانَ عَقَبِیًّا، بَدْرِیًّا أَحَدَ نُقَبَاءِ الْأَنْصَارِ وَأَنَّهُ لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ دَعَى ابْنَ أُخْتِهِ جُنَادَةَ بْنَ أَبِی أُمَیَّةَ فَقَالَ:أَلَا أُنَبِّئُكَ مَاذَا عَلَیْكَ وَمَاذَا لَكَ؟قَالَ: بَلَى ،قَالَ:فَإِنَّ عَلَیْكَ السَّمْعَ وَالطَّاعَةَ فِی عُسْرِكَ، وَیُسْرِكَ، وَمَنْشَطِكَ، وَمَكْرَهِكَ، وَأَثَرَةٍ عَلَیْكَ، وَعَلَیْكَ أَنْ تُقِیمَ لِسَانَكَ بِالْعَدْلِ،وَأَنْ لَا تُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ یَأْمُرُوكَ بِمَعْصِیَةِ اللهِ بَوَاحًا فَمَا أُمِرْتَ بِهِ مِنْ شَیْءٍ یُخَالِفُ كِتَابَ اللهِ فَاتَّبِعْ كِتَابَ اللهِ

قتادہ  رحمہ اللہ نےاللہ عزوجل کے فرمان’’ ایمان لانے والوں  کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں  تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں  کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ ‘‘ کے بارے میں  بیان کیاہےہم سے عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں  بیان کیاگیاہے جوبدری صحابی اورانصارکے سرداروں  میں  سے ایک تھے، جب ان کی وفات کاوقت آیاتوانہوں  نے اپنے بھانجے جنادہ بن ابوامیہ سے کہاکہ میں  تمہیں  تمہارے حقوق وفرائض کی بابت نہ بتاؤں ؟انہوں  نے عرض کی ضرور فرمائیں ، آپ نے فرمایاتمہیں  تنگ دستی وخوش حالی ،پسندوناپسندکی حالت میں  اوراس وقت بھی جب تم پردوسروں  کوترجیح دی جاری ہوسمع وطاعت کامظاہرہ کرناچاہیے اپنی زبان عدل کے ساتھ قائم رکھنی چاہیے، تمہیں  حکمرانوں  کے ساتھ جھگڑنانہیں  چاہیے سوائے اس صورت کے کہ تمہیں  کھلم کھلااللہ تعالیٰ کی نافرمانی کاحکم دیں ،یعنی اگرتم کوکسی ایک بات کاحکم دیاجائے جوکتاب اللہ کے خلاف ہوتوتمہیں  کتاب اللہ ہی کی پیروی کرنی چاہیے۔[87]

اوردنیاوآخرت میں کامیاب وکامران وہی لوگ ہیں  جواللہ وحدہ لاشریک اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی فرماں  برداری کریں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۝۷۱ [88]

ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

وہ جس چیزسے منع کردیں  اس سے رک جائیں  اورجس چیزکاحکم کریں  بغیرچوں  وچرااس پرعمل کریں ، جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔۔۔۝۷ۘ [89]

ترجمہ:جو کچھ رسول تمہیں  دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ ۔

اورظاہرہویاپوشیدہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈریں  اوراس کے احکام اورقائم کردہ حدود کی نافرمانی سے بچیں ،ایسے ہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں ۔

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَیْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّ ۖ قُلْ لَا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿٥٣﴾‏قُلْ أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِنْ تُطِیعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿٥٤﴾(النور)
’’بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہونگے، کہہ دیجئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) اطاعت (کی حقیقت) معلوم ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے، کہہ دیجئے کہ اللہ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کردیا گیا ہے، اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے، ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو ،سنو! رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کاحال بیان فرمایاجوجہادفی سبیل اللہ سے جان چراکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نہیں  نکلے اورپیچھےگھروں  میں  بیٹھے رہے،مگر اب یہ منافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں  کھاکرکہتے ہیں ،

مُجْتَهِدِینَ فِی أَیْمَانِهِم

امام شوکانی  رحمہ اللہ کہتے ہیں  اپنی وسعت بھرقسمیں  کھاکرکہتے ہیں ۔[90]

کہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ حکم دیں  توہم ابھی جہادفی سبیل اللہ کے لئے اپنے گھربار سے نکل کرمیدان جنگ میں  جا کھڑے ہوں ،اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کاردکرتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !ان سے کہواللہ اعلام الغیوب کے نام کی قسمیں  کھاکراللہ کودھوکانہ دواللہ کوتمہاری اطاعت گزاری کاحال خوب معلوم ہے ،جیسے فرمایا

یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ۔۔۔۝۹۶ [91]

ترجمہ:یہ تمہارے سامنے قسمیں  کھائیں  گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ۔

اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّةً۔۔۔ ۝۲  [92]

ترجمہ:انہوں  نے اپنی قسمتوں  کو ڈھال بنا رکھاہے۔

تم لوگ ظاہراًاورتنہائی میں  جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بے خبرنہیں  ہے،وہ توآنکھوں خیانت اور دلوں  کے چھپے ہوئے بھیدجانتاہے اگرچہ تم زبان سے اس کے خلاف اظہارکروجیسےفرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [93]

ترجمہ: اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

اِنَّ اللهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَلِـیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۳۸  [94]

ترجمہ:بے شک اللہ آسمانوں  اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے ، وہ تو سینوں  کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۴ [95]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں  کی ہر چیز کا اُسے علم ہے، جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں  کا حال تک جانتا ہے۔

اوروہ تمہیں  ان اعمال کی پوری پوری جزادے گا،جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۔۔۔۝۴۰ [96]

ترجمہ:اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں  کرتا۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہواگرتم دنیاوآخرت میں  فلاح ونجات چاہتے ہوتواللہ تعالیٰ کاحکم مانو اوررسول کی اطاعت کرولیکن اگرتم اللہ تعالیٰ کے احکامات کوماننے اوراللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت سے انکارکرتے ہوتواس بات کوخوب سمجھ لوکہ رسول پرتبلیغ ودعوت کاجو فرض رکھاگیاہے وہ اس کوپوراکر رہاہے اور اس سے اس کے بارے میں  سوال کیاجائے گاتم سے نہیں ، اورتم پر دعوت حق کوقبول کرکے اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول پرایمان لانااور اطاعت کاجو فرض ڈالاگیاہے اس کے تم جواب دہ ہوگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نہیں ،اللہ کارسول  صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں  صراط مستقیم کی طرف دعوت دے رہاہےاگرتم اس دعوت کوقبول کرکے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کروگے توتم خودہی اپنے قول وفعل میں راہ راست پالوگے اللہ اوراس کے رسول پراحسان نہیں  کروگے،اب اگرکوئی اس کی دعوت کوقبول کرتاہے یانہیں  یہ رسول کی ذمہ داری نہیں  ہے اس کاکام تو اللہ تعالیٰ کےاحکامات کو واضح طور پہنچادیناہے،جیسےفرمایا

۔۔۔فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰ [97]

ترجمہ:بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے(کوئی مانتاہے یانہیں ) اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭلَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۙ [98]

ترجمہ:اچھا تو (اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !) نصیحت کیے جاؤ ! تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہوکچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں  ہو(دراوغہ نہیں  ہیں  )۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِینَهُمُ الَّذِی ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِكُونَ بِی شَیْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا مُعْجِزِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿٥٧﴾(النور)
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان  کے لیے وہ پسندفرماچکاہےاوران کےاس خوف وخطرکو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ،اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں، نماز کی پابندی کرو زکوة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرماں برداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے، یہ خیال آپ کبھی بھی نہ کرنا کہ منکر لوگ زمین میں (ادھر ادھر بھاگ کر) ہمیں ہرا دینے والے ہیں، ان کا اصلی ٹھکانا تو جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘

دشمنوں  نے اہل اسلام کوچاروں  طرف سے گھیراہواتھا،جس سےمسلمان انتہائی خائف تھے ، خطرے کے پیش نظر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم ہروقت ہتھیاروں  سے آراستہ رہتے تھے

إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ  قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أبدَ الدَّهْرِ نَحْنُ خَائِفُونَ هَكَذَا؟  أَمَا یَأْتِی عَلَیْنَا یَوْمٌ نَأْمَنُ فِیهِ وَنَضَعُ عَنَّا [فِیهِ] السِّلَاحَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَنْ تَغْبروا إِلَّا یَسِیرًا حَتَّى یَجْلِسَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ فِی الْمَلَأِ الْعَظِیمِ مُحْتَبِیًا لَیْسَتْ فِیهِمْ حَدِیدَةٌ، وَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ

ایک صحابی  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں  گے ؟کیاہتھیاراتارکربھی ہمیں  کبھی آسودگی کاسانس لینامیسرآئے گا؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پورے سکون سے فرمایاکچھ دن اورصبرکرلوپھرتواس قدرامن واطمینان ہوگاکہ پوری مجلس میں  ،بھرے دربارمیں ،چوکڑی بھرکرآرام سے بیٹھے رہوگے ایک کے پاس کیاکسی کے پاس بھی کوئی ہتھیارنہ ہوگاکیونکہ کامل امن وامان پورااطمینان ہوگااس پریہ آیت نازل ہوئی۔[99]

نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ، وَنَحْنُ فِی خَوْفٍ شَدِیدٍ

اوربراء بن عازب  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت ہم انتہائی خوف اوراضطراب کی حالت میں  تھے۔[100]

فرمایا اللہ تعالیٰ صادق الایمان اوراخلاق اوراعمال کے اعتبارسے صالح لوگوں  سے تین وعدے فرماتاہےکہ وہ ان کواسی طرح زمین کی خلافت عطافرمائے گااورزمین کی تمام تدبیران کے دست تصرف میں  ہوگی جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں  کوخلافت عطاکرچکاہے،جیسےفرمایا

قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا۝۰ۭ قَالَ عَسٰی رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَیَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۝۱۲۹ۧ  [101]

ترجمہ:اس کی قوم کے لوگوں  نے کہا تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں ،اس نے جواب دیا قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں  خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ۔

 وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ۝۵ۙوَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۝۶ [102]

ترجمہ:اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں  ان لوگوں  پر جو زمین میں  ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں  پیشوا بنا دیں  اور انہی کو وارث بنائیں ،اور زمین میں  ان کو اقتدار بخشیں  اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں  کو وہی کچھ دکھلا دیں  جس کا انہیں  ڈر تھا۔

ان کے لیے ان کے دین اسلام کوجوتمام ادیان پرفائق ہے کومضبوط بنیادوں  پرقائم کردے گاجسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں  پسند کیا ہے، اوران کی موجودہ حالت خوف ودہشت کو امن سے بدل دے گا،جیسےفرمایا

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۲۶  [103]

ترجمہ: یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں  تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے تھے کہ کہیں  لوگ تمہیں  مٹا نہ دیں پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں  اچھا رزق پہنچایا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔

اللہ تعالیٰ نے جوعدہ فرمایاتھاوہ خلافت راشدہ اورعہدخیرالقرون میں  پورا ہوااللہ کی مدد سےمسلمانوں  کوزمین پرغلبہ نصیب ہوا،مسلمان خوف کی زندگی سے نکل کرامن میں  داخل ہوگئے،چنانچہ مکہ مکرمہ ،خیبر،بحرین ، جزیرہ عرب اوریمن تو خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں  فتح ہوگیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو پیش گوئیاں  فرمائی تھیں  وہ بھی پوری ہوگئیں  ،

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ زَوَى لِی الْأَرْضَ، فَرَأَیْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا   وَإِنَّ أُمَّتِی سَیَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِیَ لِی مِنْهَا

ثوبان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ نےمیرے لئے زمین کو لپیٹ لیا (یعنی سب زمین کو سمیٹ کرمیرے سامنے کردیا)تومیں  نے اس کاپورب اور پچھم دیکھااورمیری امت کادائرہ اقتدار وہاں  تک پہنچے گا جہاں  تک زمین مجھے دکھلائی گئی ہے۔[104]

چنانچہ مسلمان دین اسلام کی اشاعت کے لئے سربکف ہوکر مدینہ منورہ سے نکلے اورفارس ،شام ، مصر، افریقہ اور دیگر دور درازکے ممالک فتح کرلئے جس سےلاکھوں  میل تک کفروشرک کی جگہ توحیدوسنت کی حکمرانی ہو گئی اور اسلامی تہذیب وتمدن کا جھنڈا چاروں  طرف لہرانے لگا ،

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: بَیْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَیْهِ الفَاقَةَ، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَیْهِ قَطْعَ السَّبِیلِ، فَقَالَ: یَا عَدِیُّ، هَلْ رَأَیْتَ الحِیرَةَ؟قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا، وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا،قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ، لَتَرَیَنَّ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللهَ،قُلْتُ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَ  نَفْسِی فَأَیْنَ دُعَّارُ طَیِّئٍ الَّذِینَ قَدْ سَعَّرُوا البِلاَدَ، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى،قُلْتُ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ؟قَالَ:كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ، لَتَرَیَنَّ الرَّجُلَ یُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ، یَطْلُبُ مَنْ یَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلاَ یَجِدُ أَحَدًا یَقْبَلُهُ مِنْهُ

عدی بن حاتم  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرتھاکہ ایک صاحب آئے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے فقروفاقہ کی شکایت کی، پھردوسرے صاحب آئے اورراستوں  کی بدامنی کی شکایت کی، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعدی!تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے)؟میں  نے عرض کیامیں  نے اسے دیکھاتونہیں  البتہ اس کانام سناہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرتمہاری زندگی کچھ اورلمبی ہوئی تو تم دیکھوگے کہ ہودج میں  ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفرکرے گی اور ( مکہ مکرمہ پہنچ کر)کعبہ کاطواف کرے گی اوراللہ کے سوااسے کسی کاخوف نہ ہوگا،میں  نے (حیرت سے) اپنے دل میں  کہاپھرقبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں  کاکیاہوگاجنہوں  نے شہروں  کوتباہ کر دیااورفسادکی آگ سلگا رکھی ہے،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگرتم کچھ دنوں  تک زندہ رہے توکسریٰ کے خزانے (تم پر)کھولے جائیں  گے، میں (حیرت میں  )بول پڑاکسریٰ بن ہرمز(ایران کابادشاہ)آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں  کسریٰ بن ہرمز! اور اگرتم کچھ دنوں  تک اورزندہ رہے تویہ دیکھوگے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں  سوناچاندی بھرکرنکلے گااوراسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوگی (جواس کی زکوٰة)قبول کرلے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں  ملے گاجواسے قبول کرلے

وَلَیَلْقَیَنَّ اللهَ أَحَدُكُمْ یَوْمَ یَلْقَاهُ، وَلَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ تَرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَهُ، فَلَیَقُولَنَّ لَهُ: أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَیْكَ رَسُولًا فَیُبَلِّغَكَ؟ فَیَقُولُ: بَلَى، فَیَقُولُ: أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَیْكَ؟فَیَقُولُ: بَلَى،فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِینِهِ فَلاَ یَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ،وَیَنْظُرُ عَنْ یَسَارِهِ فَلاَ یَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ،قَالَ عَدِیٌّ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ،

اللہ تعالیٰ سےملاقات کاجودن مقرر ہے اس وقت تم میں  سے ہرکوئی اللہ تعالیٰ سے اس حال میں  ملاقات کرے گاکہ درمیان میں  کوئی ترجمان نہ ہوگا (بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں  کرے گا)اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گاکیامیں  نے تمہارے پاس رسول نہیں  بھیجے تھےجنہوں  نے تم تک میرا پیغام پہنچادیاہو؟وہ عرض کرے گابے شک تونے بھیجے تھے، اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گاکیامیں  نے تمہیں مال اوراولادنہیں  دی تھی؟کیامیں  نے ان کے ذریعہ تمہیں  فضیلت نہیں  دی تھی؟وہ جواب دے گابے شک تونے دیاتھا،پھروہ اپنی داہنی طرف دیکھے گاتوجہنم کے سوااسے اورکچھ نظرنہ آئے گا،پھروہ بائیں  طرف دیکھے گاتوادھربھی جہنم کے سوا اورکچھ نظر نہیں  آئے گا،عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرمارہے تھے کہ جہنم سے بچواگرچہ کھجورکے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو اگر کسی کو کھجورکاایک ٹکڑا بھی میسرنہ آسکے تو (کسی سے)ایک اچھاکلمہ ہی کہے دے،

قَالَ عَدِیٌّ : فَرَأَیْتُ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لاَ تَخَافُ إِلَّا اللهَ،وَكُنْتُ فِیمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ،وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَیَاةٌ، لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِیُّ أَبُو القَاسِمِ: صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عدی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میں  نے ہودج میں  بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کوتوخوددیکھ لیا کہ وہ حیرہ سے سفر کے لئے نکلی اور (مکہ مکرمہ پہنچ کر)اس نے کعبہ کاطواف کیااوراسے اللہ کے سوا اور کسی(ڈاکووغیرہ) کا (راستے میں )خوف نہیں  تھااورمجاہدین کی اس جماعت میں  تو میں  خود شریک تھاجس نے کسریٰ بن ہرمزکے خزانے فتح کیے، اوراگرتم لوگ کچھ دنوں  اورزندہ رہے تویہ بھی دیکھ لوگے جونبی ابو قاسم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا(کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں  (زکوٰة کا سونا چاندی ) بھرکرنکلے گالیکن اسے لینے والاکوئی نہیں  ملے گا) (عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کے زمانے میں  مال ودولت کی فراوانی کی پیش گوئی بھی پوری ہوئی کہ مسلمانوں  کواللہ تعالیٰ نے بہت دولت مندبنادیاتھاکہ کوئی زکوٰة لینے والانہ تھا) ۔[105]

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَشِّرْ هَذِهِ الْأُمَّةَ بالسَّناء وَالرِّفْعَةِ، وَالدِّینِ وَالنَّصْرِ وَالتَّمْكِینِ فِی الْأَرْضِ، فَمِنْ عَمِلَ مِنْهُمْ عَمَلَ الْآخِرَةِ لِلدُّنْیَا، لَمْ یَكُنْ لَهُ فِی الْآخِرَةِ نَصِیبٌ

ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس امت کوترقی ورفعت اوردین کی مدداورزمین پراقتدارکی بشارت دے دوالبتہ جوشخص آخرت کاعمل دنیاحاصل کرنے کے لئے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں  اسے کوئی حصہ نہیں  ملے گا۔[106]

بس وہ ہرطرف سے منہ موڑ کرصرف میری بندگی کریں  اورمیری ذات وصفات،افعال اورحقوق میں کسی کومیرے ساتھ شریک نہ کریں ،

مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَهُ قَالَ: بَیْنَا  أَنَا رَدِیفُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ إِلَّا آخِرَةَ الرَّحْل  قَالَ:یَا مُعَاذُ قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ وسَعْدیك،قَالَ: ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَیْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ،قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَیْكَ

معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھاہواتھا،میرے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے درمیان کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے سوااورکوئی چیزحائل نہیں  تھی،اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے معاذ رضی اللہ عنہ !میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  آپ کی اطاعت اورفرمانبرداری کے لئے حاضرہوں  ، تھوڑی سی دیرچلنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھرفرمایااے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ ! میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  آپ کی اطاعت اورفرمانبرداری کے لئے حاضرہوں ،تھوڑی سی دیرچلنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر فرمایا اے معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ !میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  آپ کی اطاعت اورفرمانبرداری کے لئے حاضر ہوں ،

قَالَ:هَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: [فَإِنَّ]  حَقَّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوهُ وَلَا یُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، قَالَ: ثُمَّ سَارَ سَاعَةً. ثُمَّ قَالَ:یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَیْكَ، قَالَ:فَهَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:فَإِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ أَنْ لَا یُعَذِّبَهُمْ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجانتے ہواللہ کااپنے بندوں  پرکیاحق ہے؟  میں  نے عرض کیااللہ اور اس کےرسول ہی کوزیادہ علم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ کابندوں  پریہ حق ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں  اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں ، تھوڑی سی دیرچلنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھرفرمایااے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ !میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں  آپ کی اطاعت اورفرمانبرداری کے لئے حاضرہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب بندے اللہ کاحق اداکریں  تواللہ کے ذمہ بندوں  کاکیاحق ہے؟  میں  نے عرض کیااللہ اوراس کےرسول ہی کوزیادہ علم ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھربندوں  کااللہ پرحق ہے کہ وہ انہیں  عذاب نہ دے۔[107]

اورجواس کامل اقتدار اورتسلط کے بعدبھی کفران نعمت کاارتکاب کرتاہے توایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے اوربگڑے ہوئے کافر اور فاسق ہیں ،اوران تین نعمتوں (حکومت،دولت اورامن) کی بقاء کے لئے تین احکام فرمائے کہ اپنے خالق ،مالک اور رازق رب کی یاد کے لئے پانچ وقت باجماعت نماز قائم کرو،اللہ کے عطاکردہ پاکیزہ اموال میں  سے یتیموں ،مسکینوں ،بیواؤں  اور ضرورت مندوں کوزکوٰة دواورہرحال میں  اللہ کےرسول کی اطاعت کرو،جس چیزسے وہ منع کریں  اس سے رک جاؤ اور جس کام کاحکم دیں  اسے پوراکرو،جیسےفرمایا

۔۔۔وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ۝۰ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا۔۔۔ ۝۷ۘ  [108]

ترجمہ:جو کچھ رسول تمہیں  دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔۔۔  ۝۸۰ۭ [109]

ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔

اگرتم ان تمام امورکاخیال رکھوگےتو تم پررحم کیا جائے گا،جیسےفرمایا

 ۔۔۔اُولٰۗىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ۔۔۔۝۰۝۷۱  [110]

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں  جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ۔

عَنِ المُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ یَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ، حَتَّى یَأْتِیَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ

مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایامیری امت کاایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا(اس میں  علمی ودینی غلبہ بھی داخل ہے)یہاں  تک کہ قیامت آجائے گی اوروہ غالب ہی رہیں  گے۔[111]

مُعَاوِیَةَ، قَالَ:  سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:لاَ یَزَالُ مِنْ أُمَّتِی أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللهِ، مَا یَضُرُّهُمْ مَنْ كَذَّبَهُمْ وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى یَأْتِیَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ

اورکاتب وحی امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں  ہے میں  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ نے فرمایامیری امت میں  سے ایک گروہ ہمیشہ قرآن وحدیث پرقائم رہے گااسے جھٹلانے والے اورمخالفین کوئی نقصان نہیں  پہنچاسکیں  گے یہاں  تک کہ امراللہ (قیامت)آجائے گی اوروہ اسی حال میں  ہوں  گے۔[112]

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِینَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ، حَتَّى یُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ

اورعمران بن حصین  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیری امت کا(عقیدہ توحیدوسنت اوراتباع رسول کے پابندلوگوں  کا)ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے قتال کرتارہے گااوروہ اپنے مقابل آنے والوں  پرغالب رہیں  گے حتی کہ ان کاآخری گروہ مسیح دجال سے لڑائی کرے گا۔[113]

جولوگ اللہ تعالیٰ کی دعوت اسلام اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کاانکار کررہے ہیں  ان کے متعلق اس غلط فہمی میں  نہ رہو کہ وہ زمین میں  اللہ کوعاجزکردیں  گے بلکہ اللہ تعالیٰ ہرطرح ان پرگرفت کرنے پرقادرہے،دنیامیں  یہ چند روزعیش وآرام کرلیں  بالآخران کاٹھکانادوزخ ہے اوروہ بڑاہی برا ٹھکاناہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِینَ مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِینَ تَضَعُونَ ثِیَابَكُمْ مِنَ الظَّهِیرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ ۚ لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآیَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٥٨﴾‏(النور)
’’ ایمان والو ! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے، نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پردہ کے ہیں، ان وقتوں کے ماسوا نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر ، تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی) ، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام سے بیان فرما رہا ہے،اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت والا ہے۔‘‘

خاص اوقات میں  سب کے لئے استئذان:

وَقَالَ مُقَاتِلُ بْنُ حَیَّان:أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَامْرَأَتَهُ أَسْمَاءَ بِنْتَ مُرْشدة صَنَعَا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا، فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُونَ بِغَیْرِ إِذَنٍ،  فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَقْبَحَ هَذَا! إِنَّهُ لَیَدْخُلُ عَلَى الْمَرْأَةِ وَزَوجِهَا وَهُمَا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ، غُلَامُهُمَا بِغَیْرِ إِذَنٍ! فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِی ذَلِكَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِینَ مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ [ثَلاثَ مَرَّاتٍ] }  الْآیَةَ.

مقاتل بن حیان سےمروی ہےایک انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے کچھ کھاناتیارکیااورلوگ بلااجازت ان کے گھرجانے لگے، اسماء  رضی اللہ عنہا نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !یہ تونہایت بری بات ہے کہ غلام بغیراجازت گھرمیں  آجائے ممکن ہے میاں  بیوی ایک ہی کپڑے میں  ہوں ، جس پریہ آیت’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں  پہنچے ہیں ، تین اوقات میں  اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں ، صبح کی نماز سے پہلےاور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی۔ [114]

جس میں  پردہ کی حفاظت اورہرقسم کی احتیاط کے لئےقریبی رشتہ داروں  کوحکم فرمایااےایمان والو!تمہاری باندیوں اور غلاموں  کواورنابالغ لڑکوں  کوجن کے اندر ابھی صنفی شعوربیدارنہیں  ہوا تمہاری خلوت کی جگہ پرتین مخصوص وقتوں  میں  اجازت حاصل کرکے آئیں ،نمازفجرسے پہلے کیونکہ سونے والے نے معمول کےلباس کے بجائے شب خوابی کالباس پہناہوتاہے، اورظہرکے وقت جب کہ انسان قیلولہ کے لئے عموماًبالائی کپڑے اتارکرسوتاہےاورعشاء کی نمازکے بعدکہ یہ سونے کاوقت ہوتاہے،اوریہ تینوں  اوقات عموماًبے پردگی کے ہیں  اورآدمی کے کھل کررہنے سہنے کے ہیں  ،ان مخصوص تین وقتوں  کے علاوہ گھرکے مملوک اورنابالغ بچے بغیراجازت عورتوں  اورمردوں  کے کمروں  میں  یاان کے تخلیے کی جگہ میں  بلااجازت آئیں  تونہ تم پرگناہ ہے اورنہ ان پرکیونکہ خادموں  اورمالکوں  کوکام کاج کے لئےہروقت ایک دوسرے کوملنے کی ضرورت رہتی ہے،اللہ اس طرح کھول کھول کراپنے احکام تم سے بیان فرمارہاہے ،اللہ تعالیٰ لوگوں  کی ضروریات اورحاجات کوجانتا ہےاوراس کے ہرحکم میں  بندوں  کے مفادات اورحکمتیں  ہیں ۔

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آیَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٥٩﴾(النور)
’’اور تمہارے بچے (بھی) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیے، اللہ تعالیٰ تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی علم و حکمت والا ہے۔‘‘

نابالغ بعدازبلوغ اجازت لیں :اوربچے جب بالغ ہوجائیں  توان تینوں  اوقات میں جس طرح گھرکےبالغ مرداورلونڈی وغلام اجازت مانگ کرتمہاری خلوت کی جگہ پرآتے ہیں  انہیں  بھی اجازت طلب کرکے آنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی آیتیں  بیان فرماتاہے ،اللہ تعالیٰ پورے علم اورکامل حکمت والاہے۔

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِی لَا یَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِینَةٍ ۖ وَأَنْ یَسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٦٠﴾‏ (النور)
’’بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اور خواہش ہی) نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں، تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لیے بہت افضل ہے، اور اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘

سورہ الاحزاب میں  اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاتھا

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ۔۔۔۝۰۝۵۹ [115]

ترجمہ: اے نبی ! اپنی بیویوں  اور بیٹیوں  اور اہل ِ ایمان کی عورتوں  سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں  کے پلوّ لٹکا لیا کریں ۔

ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُیُوْبِهِنَّ۔۔۔ ۝۳۱ [116]

ترجمہ: اوراپنے سینوں  پر اپنی اوڑھنیوں  کے آنچل ڈالے رہیں  ۔

یہاں اللہ تعالیٰ نےبوڑھی عورتوں  کےپردے میں  تخفیف فرمائی فرمایا اور وہ بوڑھی عورتیں  جونکاح کی خواہش مندہوں  اوراس کودیکھ کرمردوں  میں  بھی کوئی صنفی جذبہ بیدار نہ ہوسکتاہوتو وہ اپنی زینت چھپانے والی چادریں اتارسکتی ہیں  بشرطیکہ وہ اپنی زینت اور بناؤسنگھار کا اظہارکرنے والی نہ ہوں ۔ثیاب سے مراداضافی کپڑے ہیں  مثلاًجلباب یانقاب وغیرہ نہ کہ دوپٹہ یاسینے کوڈھانپنے والی چادرجیساکہ مفسیرین نے اس کی وضاحت کی ہے ،

{فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ}[117]یَقُولُ: فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ حَرَجٌ وَلَا إِثْمٌ أَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ، یَعْنِی جَلَابِیبَهُنَّ، وَهِیَ الْقِنَاعُ الَّذِی یَكُونُ فَوْقَ الْخِمَارِ , وَالرِّدَاءُ الَّذِی یَكُونُ فَوْقَ الثِّیَابِ، لَا حَرَجَ عَلَیْهِنَّ أَنْ یَضَعْنَ ذَلِكَ عِنْدَ الْمَحَارِمِ مِنَ الرِّجَالِ وَغَیْرِ الْمَحَارِمِ مِنَ الْغُرَبَاءِ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِینَةٍ.

امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ ’’اور جو عورتیں  جوانی سے گزری بیٹھی ہوں ، نکاح کی امیدوار نہ ہوں  وہ اگر اپنی چادریں  اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘کی تفسیرمیں  لکھتے ہیں ان(بوڑھی عورتوں  )پرکوئی گناہ نہیں  ہے اگروہ اپنے کپڑے یعنی جلباب وغیرہ اتارکررکھ دیں  اورجلباب سے مرادوہ نقاب ہے جوکہ دوپٹے کے اوپرلیاجاتاہے اوروہ چادرہے جوکہ کپڑوں  کے اوپرلی جاتی ہے ،ان عورتوں  پرکوئی گناہ نہیں  ہے اگروہ یہ نقاب یاچادراپنے محرم اورغیرمحرم افرادکے سامنے اتاررکھیں  لیکن زینت ظاہرنہ کریں  ۔ [118]

عَن عَاصِم الْأَحول قَالَ:دخلت على حَفْصَة بنت سِیرِین وَقد أَلْقَت عَلَیْهَا ثِیَابهَا فَقلت أَلَیْسَ یَقُول الله وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاتِی لَا یَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ، قَالَ: اقْرَأ مَا بعده وَأَنْ یَسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَهُنَّ،  وَهُوَ ثِیَاب الْجِلْبَابَ

عاصم الاحول فرماتے ہیں  میں  حفصہ بنت سیرین کی خدمت میں  حاضرہوامیں  نے دیکھاکہ وہ اپنے پورے کپڑے پہنے تشریف فرماتھیں  میں  نے عرض کیااللہ تعالیٰ نے کپڑوں  کے تعلق سے آپ کی عمرکی عورتوں  کورخصت دے رکھی ہے فرمان ہے ’’بڑی بوڑھی عورتیں  جنہیں  نکاح کی امید(اورخواہش ہی)نہ رہی ہووہ اگراپنے کپڑے اتاررکھیں  توان پرکوئی گناہ نہیں ۔‘‘انہوں  نےفرمایاآگے بھی پڑھوتاہم اگران سے بھی احتیاط رکھیں  توان کے لیے بہت افضل ہے، پھرفرمایاجس کپڑے کوبوڑھی عورت کے لیے قرآن نے اتاررکھنے کی رخصت دی ہے وہ صرف اوپرکی اوڑھنی ہے۔[119]

قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِی قَوْلِهِ:فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ قال:الجلباب، أوالرِّدَاءُ: وَكَذَا رُوی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُجَاهِدٍ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، وَأَبِی الشَّعْثَاءِ  وَإِبْرَاهِیمَ النَّخَعِیّ، وَالْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، وَالزُّهْرِیِّ، وَالْأَوْزَاعِیِّ، وَغَیْرِهِمْ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما اللہ کے کے قول’’وہ اگراپنے کپڑے اتاررکھیں  توان پرکوئی گناہ نہیں ۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں وہ اوپرکی اوڑھنی یاچادرہے،یہی تفسیرعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ،عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ ،مجاہد رحمہ اللہ ،سعیدبن جبیر رحمہ اللہ ،ابوالشعشاء رحمہ اللہ ،ابراہیم نخفی رحمہ اللہ ،حسن بصری رحمہ اللہ  ،قتادہ رحمہ اللہ ،زہری رحمہ اللہ  اوراوزاعی رحمہ اللہ  سے مروی ہے۔[120]

وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ: تَضَعُ الْجِلْبَابَ، وَتَقُومُ بَیْنَ یَدَیِ الرَّجُلِ فِی الدِّرْعِ وَالْخِمَارِ

ابوصالح رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  (بوڑھی عورتیں )اجنبی مردوں  کے سامنے صرف اوپرکی اوڑھنی اتارسکتی ہیں  باقی قمیض اوردوپٹہ پہنے رہے گی۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ , قَالَ:هُوَ الرِّدَاءُ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں  بوڑھی عورتوں   کے لیے صرف اوڑھنی کواتارنے کاجوازہے۔[121]

فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُناحٌ أَنْ یَضَعْنَ ثِیابَهُنَّ، عِنْدَ الرِّجَالِ، یَعْنِی یَضَعْنَ بَعْضَ ثِیَابِهِنَّ، وَهِیَ الْجِلْبَابُ وَالرِّدَاءُ الَّذِی فَوْقَ الثِّیَابِ، وَالْقِنَاعِ، الَّذِی فَوْقَ الْخِمَارِ، فَأَمَّا الْخِمَارُ فَلَا یَجُوزُ وَضْعُهُ.

امام بغوی رحمہ اللہ آیت’’ وہ اگر اپنی چادریں  اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘کی تفسیرمیں  لکھتے ہیں  (کپڑے اتارنے سے)مرادیہ ہے کہ وہ اپنے بعض کپڑے اتاررکھیں  اوروہ جلباب اورچادرہے جوکہ کپڑوں  کے اوپرہوتی ہے یاوہ نقاب جوکہ دوپٹے کے اوپر ہوتا ہے ، جہاں  تک دوپٹے کا تعلق ہےاس کااتارنا جائز نہیں  ۔[122]

والمراد بالثیاب: الثیاب الظاهرة كالملحفة والجلباب الذی فوق الخمار

علامہ زمحشری رحمہ اللہ  ’’ثیاب۔‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ثیاب سے مرادوہ کپڑے ہیں  جوظاہری ہوں (یعنی اوپراوڑھے ہوں ) مثلاًاوڑھنی اورجلباب جو دوپٹے کے اوپر ہوتا ہے۔[123]

اوراگریہ بوڑھی عورتیں  بھی پردے میں  تخفیف نہ کریں  بلکہ بددستوربڑی چادر استعمال کرتی رہیں  تویہ ان کے لئے زیادہ بہترہے، اوراللہ تعالیٰ سنتاجانتاہے۔

لَیْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِیضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُیُوتِكُمْ أَوْ بُیُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُیُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُیُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُیُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُیُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُیُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُیُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُیُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ أَوْ صَدِیقِكُمْ ۚ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِیعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَیِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٦١﴾‏(النور)
’’ اندھے پر، لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر (مطلقاً ) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کے کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ،تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ، پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کرو، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ، یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔‘‘

قَوْلُ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، أَنَّهُمْ كَانُوا یَتَحَرَّجُونَ مِنَ الْأَكْلِ مَعَ الْأَعْمَى؛ لِأَنَّهُ لَا یَرَى الطَّعَامَ وَمَا فِیهِ مِنَ الطَّیِّبَاتِ، فَرُبَّمَا سَبَقَهُ غَیْرُهُ إِلَى ذَلِكَ. وَلَا مَعَ الْأَعْرَجِ؛ لِأَنَّهُ لَا یَتَمَكَّنُ مِنَ الْجُلُوسِ، فَیَفْتَاتُ عَلَیْهِ جلیسُه، وَالْمَرِیضُ لَا یَسْتَوْفِی مِنَ الطَّعَامِ كَغَیْرِهِ، فَكَرِهُوا أَنْ یُؤَاكِلُوهُمْ لِئَلَّا یَظْلِمُوهُمْ،  فَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ رُخْصَةً فِی ذَلِكَ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں لوگ اندھوں ،لولہوں ،لنگڑوں  اوربیماروں  کے ساتھ کھاناکھانے میں  حرج محسوس کرتے تھے کہ ایسانہ ہووہ کھانہ سکیں  اورہم زیادہ کھالیں  یا اچھا اچھا کھا لیں ،تواس آیت میں  انہیں  اجازت دی گئی کہ اس میں  تم پرکوئی گناہ نہیں  ہے۔[124]

عَنْ مُجَاهِدٍ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {لَیْسَ عَلَى الأعْمَى حَرَجٌ} الْآیَةَ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ یَذْهَبُ بِالْأَعْمَى أَوِ الْأَعْرَجِ أَوِ الْمَرِیضِ إِلَى بَیْتِ أَبِیهِ أَوْ بَیْتِ أَخِیهِ، أَوْ بَیْتِ أُخْتِهِ، أَوْ بَیْتِ عَمَّتِهِ، أَوْ بَیْتِ خَالَتِهِ. فَكَانَ الزَّمنى یَتَحَرَّجُونَ  مِنْ ذَلِكَ، یَقُولُونَ: إِنَّمَا یَذْهَبُونَ بِنَا إِلَى بُیُوتِ غَیْرِهِمْ . فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ رُخْصَةً لَهُمْ

مجاہد رحمہ اللہ  آیت’’کوئی حرج نہیں  اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض(کسی کے گھر سے کھا لے)۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں  بعض لوگ اندھوں ،لنگڑے لولوں  اورمریضوں  کواپنے باپ بہن وغیرہ قریبی رشتہ داروں  کے ہاں  پہنچاآتے تھے کہ یہ وہاں  کھالیں  ،یہ لوگ اس سے عارکرتے کہ ہمیں  اوروں  کے گھرلے جاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرماکررخصت عنایت فرمائی۔[125]

وَقَالَ السُّدّی: كَانَ الرَّجُلُ یَدْخُلُ بَیْتَ أَبِیهِ أَوْ أُخْتِهِ أَوِ ابْنِهِ فَتُتْحِفُهُ الْمَرْأَةُ بِشَیْءٍ مِنَ الطَّعَامِ فَلا یَأْكُلُ مِنْ أَجْلِ رَبِّ الْبَیْتِ لَیْسَ ثَمَّ، فَقَالَ اللهُ: {لَیْسَ عَلَى الأعْمَى حَرَجٌ وَلا عَلَى الأعْرَجِ حَرَجٌ وَلا عَلَى الْمَرِیضِ حَرَجٌ وَلا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُیُوتِكُمْ أَوْ بُیُوتِ آبَائِكُمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِیعًا أَوْ أَشْتَاتًا} .

سدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  جب کوئی شخص اپنے بہن بھائی وغیرہ کے گھرجاتاوہ گھرمیں  موجودنہ ہوتے اورگھرکی عورتیں  انہیں  کھاناپیش کرتیں  تویہ اسے نہیں  کھاتے تھے کہ گھر میں  مرد توہیں  نہیں  اورنہ ان کی اجازت ہے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیات’’کوئی حرج نہیں  اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض(کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اس میں  کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں  سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں  سے، یا اپنی ماں  نانی کے گھروں  سے، یا اپنے بھائیوں  کے گھروں  سے، یا اپنی بہنوں  کے گھروں  سے، یا اپنے چچاؤں  کے گھروں  سے، یا اپنی پھوپھیوں  کے گھروں  سے، یا اپنے ماموؤں  کے گھروں  سے، یا اپنی خالاؤں  کے گھروں  سے، یا ان گھروں  سے جن کی کنجیاں  تمہاری سپردگی میں  ہوں ، یا اپنے دوستوں  کے گھروں  سے، اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔‘‘ نازل فرمائیں  اورانہیں کھاناکھالینے کی رخصت عطافرمائی۔[126]

بہرحال سبب جوبھی صحیح ہواللہ تعالیٰ نےفرمایااس میں  کوئی حرج کی بات نہیں  ہے کہ اگرکوئی اندھا یالنگڑایا مریض کسی کے گھرسے کھالےاور تمہارے اوپربھی اس میں  کوئی مضائقہ نہیں  ہے کہ اپنے گھروں  سے کھاؤیااپنے باپ داداکے گھروں  سےیااپنی ماں  نانی کے گھروں  سےیااپنے بھائیوں  کے گھروں  سےیااپنی بہنوں  کے گھروں  سےیااپنے چچاؤں  کے گھروں  سےیا اپنی پھوپھیوں  کے گھروں  سے یااپنے ماموؤں  کے گھروں  سےیااپنی خالاؤں  کے گھروں  سےیاان گھروں  سے جن کی کنجیاں  تمہاری سپردگی میں  ہوں ،

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ یَرْغَبُونَ فِی النَّفِیرِ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَدْفَعُونَ مُفَاتِحَهُمْ إِلَى ضُمَنائهم، وَیَقُولُونَ: قَدْ أَحْلَلْنَا لَكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مَا احْتَجْتُمْ إِلَیْهِ. فَكَانُوا یَقُولُونَ: إِنَّهُ لَا یَحِلُّ لَنَا أَنْ نَأْكُلَ؛ إِنَّهُمْ أَذِنُوا لَنَا عَنْ غَیْرِ طِیبِ أَنْفُسِهِمْ، وَإِنَّمَا نَحْنُ أُمَنَاءُ. فَأَنْزَلَ اللهُ: {أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ}

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب غزوہ پرجاتے توہرمسلمان کی یہ چاہت ہوتی تھی کہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ جائیں ،چنانچہ گھرسے رخصت ہوتے ہوئے وہ اپنے گھرکی چابیاں اپنے خاص دوست احباب کودے جاتے اوران سے کہہ دیتے کہ ہم تمہیں  اس بات کی اجازت دیتے ہیں  کہ گھرمیں  سے جس چیز کے کھانے کی تمہیں  ضرورت ہواسے کھالولیکن وہ لوگ اپنے تئیں  امین سمجھ کراوراس خیال سے کہ مباداان لوگوں  نے بادل نخواستہ اس بات کی اجازت دے دی ہو کسی کھانے پینے کی چیزکونہیں  چھوتے تھے اس پرحکم نازل ہوا’’ یا ان گھروں  سے جن کی کنجیاں  تمہاری سپردگی میں  ہوں ۔‘‘۔[127]

وأما تَفْسِیرُهَا بالْمَمْلُوكُ،فَلَیْسَ بِوَجِیهٍ، لوَجْهَیْنِ:أَحَدِهِمَا: أن الْمَمْلُوكُ لا یُقَالَ فِیهِ مَلَكَتْ  مَّفَاتِحَهٗٓ، مَا مَلَكَتْموہ،أومَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ، لأنهم مالِكُونَ له جُمْلَةً،لا لمَفَاتِحَهُ فَقَطَّ، والثانی: أن بُیُوتَ الْمَمَالِیكِ، غَیْرخَارِجَةً عن بَیْتِ الْإِنْسَان نَفْسِه، لأن الْمَمْلُوكُ ومامُلْكَهُ لِسَیِّدِهِ، فلا وجه لِنَفْیِ الْحَرَجَ  عنه

بعض اس سے غلام مرادلیتے ہیں  مگر غلام سے اس کی تفسیرکرنادووجوہ سے صحیح نہیں  ہے،کیونکہ غلام کے لئے مَلَكَتْ  مَّفَاتِحَهٗٓ    نہیں  کہاجاتابلکہ  مَا مَلَكَتْموہ   یامَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ کہا جاتا ہے،کیونکہ وہ اس گھرکی صرف کنجیوں  کے مالک نہیں  ہوتے بلکہ وہ تمام گھرکے مالک ہوتے ہیں ،دوسرایہ کہ غلاموں  کے مکان انسان کے خوداپنے گھرسے باہرنہیں  ہیں  کیونکہ غلام اوراس کی ہرچیزاس کے آقاکی ملکیت ہے پس یہاں  نفی حرج کوبیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔[128]

اور اگر تمہیں  علم ہوکہ تمہارے دوست برانہیں  مانیں  گے توان کے گھروں  سے بھی کھاسکتے ہو ، اسی طرح بیٹوں  کے گھربھی آدمی کے اپنے ہی گھرہیں  ،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِی مَالًا وَوَلَدًا، وَإِنَّ أَبِی یُرِیدُ أَنْ یَجْتَاحَ مَالِی، فَقَالَ: أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِیكَ

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےایک شخص نے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !میرامال ہے اورمیری اولادہے اور میرا باپ چاہتاہے کہ میرامال اڑا دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تو اورتیرامال دونوں  تیرے باپ کے ہیں ۔[129]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِی اجْتَاحَ مَالِی ،فَقَالَ:أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِیكَ،وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْیَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ

اورعبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےایک شخص نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیااورکہنے لگامیرے باپ نے میرامال تباہ کردیا(یعنی کھا گیا )آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتواورتیرامال دونوں  تیرے باپ کے ہیں ، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااولادتوتمہاری بہترین کمائی ہے توان کے مال میں  سے کھاؤ۔ [130]

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ كَسْبِهِ مِنْ أَطْیَبِ كَسْبِهِ، فَكُلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآدمی کی اولاد اس کی اپنی کمائی ہے بلکہ بہترین کمائی ہے چنانچہ تم ان کے مالوں  سے کھاسکتے ہو۔[131]

قدیم زمانے کے اہل عرب میں  بعض قبیلوں  کی تہذیب یہ تھی کہ ہرایک الگ الگ کھانے لے کربیٹھے اورکھائے وہ مل کرایک ہی جگہ کھانابراسمجھتے تھے جیساکہ ہندوؤں  کے ہاں  آج بھی براسمجھاجاتاہے اس کے برعکس بعض قبیلے تنہاکھانے کو برا جانتے تھے حتی کہ اگرکوئی ساتھ کھانے والانہ ہوتوفاقہ کرجاتے،

عَنْ قَتَادَةَ:  وَكَانَ هَذَا الْحَیُّ مِنْ بَنِی كِنَانَةَ، یَرَى أَحَدُهُمْ أَنَّ مَخْزَاةً عَلَیْهِ أَنْ یَأْكُلَ وَحْدَهُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، حَتَّى إِنْ كَانَ الرجلُ لَیَسوقُ الذُّودَ الحُفَّل وَهُوَ جَائِعٌ، حَتَّى یَجِدَ مَنْ یُؤَاكِلُهُ وَیُشَارِبُهُ، فَأَنْزَلَ اللهُ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِیعًا أَوْ أَشْتَاتًا

قتادہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں قبیلہ بنوکنانہ کے لوگ خصوصیت کے ساتھ اس مرض میں  مبتلاتھے کہ وہ بھوکے ہوتے مگرجب تک کوئی ساتھ کھانے پینے والانہ ہوتاکھانانہ کھاتے تھےچنانچہ وہ سواری پرسوارہوکرساتھ کھانے پینےوالے کی تلاش میں  نکلتے پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت’’اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔‘‘ میں  تنہاکھانے کی رخصت نازل فرماکرجاہلیت کی اس سخت رسم کومٹا دیا۔[132]

فرمایا’’اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  کہ تم لوگ مل کرکھاؤیاالگ الگ ۔‘‘لیکن مل کرکھانے میں  برکت ہے ،

وَحْشِیُّ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ، صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا نَأْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ ، قَالَ:فَلَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَیْهِ یُبَارَكْ لَكُمْ فِیهِ

وحشی بن حرب  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےاصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کھاتے ہیں  مگر سیر نہیں  ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاشایدتم لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر کھاتے ہو؟انہوں  نے کہاہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااکٹھے ہوکر کھایا کرواوراس پراللہ کانام لیاکرواس میں  تمہارے لیے برکت پیداکردی جائے گی۔[133]

عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُوا جَمِیعًا، وَلَا تَفَرَّقُوا، فَإِنَّ الْبَرَكَةَ مَعَ الْجَمَاعَةِ

سیدناعمر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا سب مل کرکھاؤاورجداجدامت کھاؤاس لئے کہ برکت جماعت کے ساتھ ہوتی ہے۔[134]

گھروں  میں  داخل ہونے کے ادب بیان فرمائے کہ جب گھروں  میں  داخل ہواکروتواپنے اہل خانہ کوسلام کیاکرو،یہ دعائے خیرہےجواللہ نے تمہارے لئے تحیہ وسلام کے طورپرمشروع کیاہے یعنی جب تم گھروں  میں  داخل ہوتویوں  کہاکروالسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی هَذِهِ الْآیَةِ {فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ}، [135] قَالَ: إِذَا دَخَلْتَ عَلَى بَیْتٍ لَیْسَ فِیهِ أَحَدٌ فَقُلِ: السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِینَ

اورمجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں  پس تم گھروں  میں  جانے لگوتواپنے گھروالوں  کوسلام کیاکرو۔‘‘فرمایااورجب کسی ایسے گھرمیں  جاؤجہاں  کوئی نہ ہوتویوں  کہاکرو’’ہم پراوراللہ کے نیک بندوں  پرسلام ہو۔‘‘[136]

جوہرقسم کے نقص سے سلامتی ،حصول رحمت ،برکت ،نمواوراضافے پرمشتمل ہے اور پاکیزہ تحفہ ہے،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَوْصَانِی النَّبِیُّ  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ خِصَالٍ، قَالَ:یَا أَنَسُ، أَسْبِغِ الْوُضُوءَ یُزَد فِی عُمْرِكَ،  وسَلّم عَلَى مَنْ لَقِیَكَ مِنْ أُمَّتِی تكْثُر حَسَنَاتُكَ،  وَإِذَا دَخَلْتَ یَعْنِی: بَیْتَكَ  فَسَلِّمْ عَلَى أَهْلِ بَیْتِكَ، یَكْثُرْ خَیْرُ بَیْتِكَ،  وَصَلِّ صَلَاةَ الضُّحى فَإِنَّهَا صَلَاةُ الْأَوَّابِینَ قَبْلَكَ، یَا أَنَسُ، ارْحَمِ الصَّغِیرَ ووقِّر الْكَبِیرَ تَكُنْ مِنْ رُفَقَائِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پانچ باتوں  کی وصیت کی ہے، فرمایااے انس  رضی اللہ عنہ !کامل وضوکروتمہاری عمر بڑھے گی،اورمیراجوامتی ملے اسے سلام کرواس سےنیکیاں  بڑھیں  گی،اورجب گھرمیں  سلام کرکے داخل ہواکروتواہل خانہ کوسلام کیاکرواس سےگھرکی خیریت بڑھے گی،اورضحیٰ کی نماپڑھتے رہوتم سے اگلے لوگ جواللہ والے بن گئے ان کایہی طریقہ تھا،اے انس  رضی اللہ عنہ !چھوٹوں  پررحم کرواوربڑوں  کی عزت وقوقیرکر توقیامت کے روزمیراساتھی ہوگا۔[137]

اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنے احکام شرعیہ واضح طورپر بیان کرتاہے ،تاکہ تم ان پرغوروتدبرکرواورعقل وفہم رکھنے والوں  میں  شامل ہوجاؤ ۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ یَذْهَبُوا حَتَّىٰ یَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿٦٢﴾‏(النور)
’’ با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں نہیں جاتے، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

مسلمانوں  کی جماعت کونظم وضبط میں  کس دینے کے لئے آخری ہدایات فرمائیں  فرمایا مومن تواصل میں  وہی ہیں  جواللہ وحدہ لاشریک کی ذات ،صفات اورافعال اوراس کے پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم  پردل کی انتہائی گہرائیوں  سے ایمان لائیں  اورجب کسی اجتماعی مقاصدکے لئے انہیں جمع کیاجائے یاکسی داخلی یاخارجی ،حالت امن یا جنگ کے موقع پراجلاس بلایا جائے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت کے بغیرلوٹ کرنہ جائیں  ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ کسی حقیقی ضرورت کی وجہ سے آپ سے اجازت مانگتے ہیں  وہی اللہ تعالیٰ اوراس کےرسول رحمة للعالمین کے ماننے والے ہیں ،چنانچہ جب وہ اجازت مانگیں تواگراس شخص کی انفرادی ضرورت اجتمائی ضرورت سے اہم ہوتو جسے آپ چاہیں  اجازت دے دیا کریں  اورجیسے چاہیں  اجازت نہ دیں  اور ایسے لوگوں  کے حق میں  اللہ سے دعائے مغفرت کیا کریں  کیونکہ ہوسکتاہے کہ اس کی اجازت طلبی تقصیرپرمبنی ہو ،

  عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ، فَلْیُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ، فَلْیُسَلِّمْ فَلَیْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاجب تم میں  سے کوئی کسی مجلس میں  پہنچے توچاہیے کہ سلام کہے اورجب وہاں  سے اٹھنا چاہئے توبھی سلام کہے پہلی دفعہ سلام کہنادوسری دفعہ کے مقابلے میں  کوئی زیادہ اہم نہیں  ہے(یعنی مجلس میں  پہنچنے اورواپس جانے پردونوں  بارسلام کہناواجب ہے یہ نہیں  کہ پہلی بارتو واجب ہوااورواپسی کے وقت لازم نہ ہو )۔[138]

اللہ یقیناًغفورورحیم ہے۔

لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۚ قَدْ یَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِیبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ یُصِیبَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٦٣﴾‏ أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قَدْ یَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَیْهِ وَیَوْمَ یُرْجَعُونَ إِلَیْهِ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٦٤﴾‏(النور)
’’ تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے، تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں، سنو! جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے،  آگاہ ہوجاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے،جس روش پر تم ہو وہ اسے بخوبی جانتا ہے، اور جس دن یہ سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اس دن ان کو ان کے کئے سے وہ خبردار کر دے گا، اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَكُمْ كَدُعَاءِ  بَعْضِكُمْ بَعْضًا}، [النور: 63] قَالَ: وَكَانُوا یَقُولُونَ: یَا مُحَمَّدُ یَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ إِعْظَامًا لِنَبِیِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَقَالُوا: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، یَا رَسُولَ اللَّهِ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما آیت کریمہ ’’مسلمانو، اپنے درمیان رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بلانے کو آپس میں  ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوعام لوگوں  کی طرح آپ کے نام یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم یا یاکنیت یاابوقاسم کہہ کر پکارلیاکرتے تھے، اللہ عزوجل نے اس گستاخی اور بے ادبی سےمنع فرمایااورفرمایاکہ اس طرح پکارنے کے بجائے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  یااے اللہ کےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کہہ کرپکاراکرو۔ [139]

فرمایااےمسلمانو!اپنے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بلانے کوآپس میں  ایک دوسرے کاسابلانانہ سمجھ بیٹھورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اےمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!یاان کی کنیت اے ابوالقاسم !یااےمحمدبن عبداللہ! کہہ کر نہ پکارو بلکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  یااے اللہ کےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  وغیرہ کہوتاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بزرگی اورعزت وادب کاپاس رہے،جیسے ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے آوازبلندکرنے کومنع فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۝۲ [140]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنی آوازنبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں  ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں  ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو اور تمہیں  خبر بھی نہ ہو ۔

لَا تَعْتَقِدُوا أَنَّ دُعَاءَهُ عَلَى غَیْرِهِ كَدُعَاءِ غَیْرِهِ، فَإِنَّ دُعَاءَهُ مُسْتَجَابٌ، فَاحْذَرُوا أَنْ یَدْعُوَ عَلَیْكُمْ فَتَهْلَكُوا

دوسراقول یہ ہےیہ عقیدہ نہ رکھوکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعادوسرے انسانوں  کی دعاکی طرح ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاتوبارگاہ الٰہی میں  فوراًقبول ہوجاتی ہے، لہذاڈروکہیں  ایسانہ ہوکہ وہ تمہارے بارے میں  بددعا کردیں  اورتم ہلاک ہوجاؤ۔[141]

عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ قَوْلُهُ:  هُمُ الْمُنَافِقُونَ، كَانَ یَثْقُلُ عَلَیْهِمُ الْحَدِیثُ فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ وَیَعْنِی بِالْحَدِیثِ الْخُطْبَةَ فَیَلُوذُونَ بِبَعْضِ الصَّحَابَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى یَخْرُجُوا مِنَ الْمَسْجِدِ،وَكَانَ لَا یَصْلُحُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ إِلَّا بِإِذْنٍ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ، بَعْدَمَا یَأْخُذُ فِی الْخُطْبَةِ ،وَكَانَ إِذَا أَرَادَ أَحَدُهُمُ الْخُرُوجَ أَشَارَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَأْذَنُ لَهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ؛ لِأَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ بَطَلَتْ جُمُعَتُهُ

مقاتل بن حیان  رحمہ اللہ  کہتے ہیں  منافقین کوجمعہ کے خطبے کے لئے مسجد میں  بیٹھےرہنابہت بھاری پڑتاتھا  اورمسجدمیں  آجانے اورخطبہ شروع ہوجانے کے بعدکوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت کے بغیرمسجدسے باہرنہیں  جاسکتاتھا،جب کسی کوکوئی خاص ضرورت ہوتی تووہ اشارے سے آپ سےاجازت طلب کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت دے دیاکرتے تھے اس لئے کہ خطبے کی حالت میں  بولنے سے جمعہ باطل ہوجاتاہے تویہ منافقین ایک دوسرے کی آڑہی آڑمیں  نظریں  بچاکرنکل جاتے تھے۔ [142]

اللہ تعالیٰ نے انہیں  تنبیہ فرمائی کہ اللہ تم میں  سے ان لوگوں  کوخوب جانتاہے جو اجتماعی موقعہ پر ایک دوسرے کی آڑلیتے ہوئے چپکے سے سٹک جاتے ہیں ،رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں  کوڈرناچاہیے کہ وہ کسی فتنے میں  گرفتارنہ ہوجائیں  یاان پرزمین یاآسمان سےاچانک دردناک عذاب نہ آجائے ، خبرداررہوآسمان وزمین اوران کے درمیان میں  جوکچھ ہے سب اللہ کی ملکیت اوراس کے بندے ہیں  اوروہ جس طرح چاہتاہے ان میں  تصرف فرماتاہے، جن لوگوں  نے منافقت کی روش کواپنارکھا ہے اللہ علام الغیوب ان کے عقائدواعمال کوخوب جانتاہے،قیامت کے روزجب لوگ اپنی قبروں  سے نکل کرمیدان محشرمیں  اس کی بارگاہ میں  اعمال کی جوابدہی کے لئے پیش ہوں  گے اس وقت وہ انہیں  ان کی ہرچھوٹی سے چھوٹی نیکی اوربرائی پیش کر دے گا،جیسے فرمایا:

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷  [143]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں  گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگاجس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں  گےاور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں  ۔

یٰبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [144]

ترجمہ:(اور لقمان نے کہا تھا کہ) بیٹا!کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں  یا آسمانوں  یا زمین میں  کہیں  چھپی ہوئی ہواللہ اسے نکال لائے گا وہ باریک بیں  اور باخبر ہے۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہٗ۝۸ۧ [145]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا،اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ۭ [146]

ترجمہ: اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا۔

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [147]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں  گے اور کہہ رہے ہوں  گے کہ ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں  رہی جو اس میں  درج نہ کی گئی ہو، جو جو کچھ انہوں  نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں  گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

اللہ ہرچیزکاعلم رکھتاہے۔

[1] الاحزاب۶۲

[2] فاطر۴۳

[3] الفتح۲۳

[4] تفسیرابن ابی حاتم ۲۵۹۳؍۸، تفسیر القرطبی ۲۵۷؍۱۲

[5] تفسیرطبری۱۷۷؍۱۹

[6]تفسیر طبری ۱۷۷؍۱۹،تفسیرابن کثیر ۵۷؍۶

[7] تفسیر الجلالین۴۶۴؍۱

[8] تفسیرابن کثیر۴۹۰؍۵

[9] ایسر التفاسیر ۵۷۲؍۳

[10] صحیح بخاری کتاب التہجد بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللیْلِ وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ:وَمِنَ اللیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ۱۱۲۰،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ الدُّعَاءِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ وَقِیَامِهِ۱۸۰۸،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنَ اللیْلِ ۱۳۵۵،سنن نسائی کتاب قیام اللیل بَابُ ذِكْرِ مَا یُسْتَفْتَحُ بِهِ الْقِیَامُ ۱۶۲۰

[11] ابن ہشام ۴۲۰؍۱، تاریخ طبری ۳۴۵؍۲،البدایة والنہایة۱۶۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۱۵۰؍۲

[12]مسند احمد ۶۶۴۴،صحیح ابن حبان ۶۱۶۹،مستدرک حاکم۸۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۱۰،مسند ابوداودالطیالسی۲۴۰۵،جامع ترمذی ابواب الایمان باب مَا جَاءَ فِی افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ۲۶۴۲

[13] النسائ۱۲۶

[14] الانعام۸۰

[15] طہ۹۸

[16] الطلاق۱۲

[17] الجن۱۸

[18] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا۴۵۰،صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ فَضْلِ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ ۱۱۸۹، مسنداحمد۴۳۴

[19] سنن ابن ماجہ کتاب المساجدبَابُ تَشْیِیدِ الْمَسَاجِدِ۷۳۹

[20] مسنداحمد۱۲۳۷۹،سنن الدارمی ۱۴۴۸،صحیح ابن خزیمة۱۳۲۳،صحیح ابن حبان ۱۶۱۴، شرح السنة للبغوی ۴۶۴،سنن ابن ماجہ کتاب المساجد بَابُ مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا۷۳۵،سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِی بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ ۴۴۹

[21]سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ ۴۴۸

[22]جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ النَّهْیِ عَنِ البَیْعِ فِی الْمَسْجِدِ۱۳۲۱

[23] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ النَّهْیِ عَنْ نَشْدِ الضَّالَّةِ فِی الْمَسْجِدِ وَمَا یَقُولُهُ مَنْ سَمِعَ النَّاشِدَ۱۲۶۲،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ إِنْشَادِ الضَّوَالِّ فِی الْمَسَاجِدِ۷۶۵

[24] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ فِی المَسَاجِدِ۴۷۰

[25] السنن الکبری للنسائی ۱۱۸۴۸

[26] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ ۶۴۷ ،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِیفَضْلِ الْمَشْیِ إِلَى الصَّلَاةِ ۵۵۹، مسند احمد ۷۴۳۰، صحیح ابن حبان۲۰۴۳

[27] مسند احمد ۲۶۵۴۲،صحیح ابن خزیمة۱۶۸۳

[28] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ ۵۶۷، مسند احمد۵۴۶۸،صحیح ابن خزیمة۱۶۸۴

[29] مسند احمد۲۷۰۹۰،صحیح ابن خزیمة۱۶۸۹، صحیح ابن حبان ۲۲۱۷

[30] سنن الدارقطنی ۱۵۵۳، صحیح ابن خزیمة۱۴۹۹

[31] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَشْیِ إِلَى الصَّلَاةِ فِی الظَّلَامِ ۵۶۱ ،جامع ترمذی ابواب بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ العِشَاءِ وَالفَجْرِ فِی الجَمَاعَةِ ۲۲۳

[32] التحریم۸

[33] سنن ابوداودکتاب بَابٌ فِیمَا یَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ ۴۶۶

[34] صحیح مسلم کتاب صلوٰة المسافرین بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ۱۶۵۲، سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِیمَا یَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ ۴۶۵، مسنداحمد۲۳۶۰۷،سنن الدارمی ۲۷۳۳، صحیح ابن حبان ۲۰۴۹،السنن الکبری للنسائی ۸۱۰

[35] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِیمَا یَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ۴۶۵،سنن الدارمی۱۴۳۴

[36] المنافقون۹

[37] الجمعة۹

[38] المومن۱۸

[39] ابراہیم۴۲

[40] الدھر۸تا۱۲

[41] الزمر۳۵

[42] النسائ۴۰

[43] القصص۸۴

[44] الانعام ۱۶۰

[45] البقرة ۲۴۵

[46] البقرة۲۶۱

[47] تفسیرابن ابی حاتم۱۴۶۶۳،۲۶۱۰؍۸

[48] آل عمران۲۷

[49] النسائ۴۸

[50] الکہف ۱۰۵

[51] الفرقان۲۳

[52] صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۷۴۳۹، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ ۴۵۴

[53] القصص۵۶

[54] الاعراف۱۸۶

[55] بنی اسرائیل۴۴

[56] الملک۱۹

[57] النجم۳۱

[58] فاطر۹

[59] الروم۴۸

[60] الاعراف۵۷

[61] الرعد۱۷

[62] الرعد۳

[63] تفسیرابن کثیر۷۲؍۶

[64] فتح القدیر۴۹؍۴

[65] الروم۴۸

[66] یونس۶۷

[67] بنی اسرائیل۱۲

[68] آل عمران۱۹۰

[69] یونس۶

[70] المومنون۸۰

[71] الجاثیة۵

[72] القصص۷۱،۷۲

[73] الانبیائ۳۰

[74] الرعد۴

[75] الانعام۳۸

[76] الانفال۴۲

[77] البقرة۱۴۲

[78] الانعام۸۸

[79] الحج۱۶

[80] الانفال۲۳

[81] تفسیرابن کثیر۷۵؍۶

[82] النسائ۵۹تا۶۱

[83] احکام القرآن للجصاص۱۹۰؍۵

[84] المائدة۵۰

[85] فتح القدیر۵۲؍۴

[86] النور: 51

[87] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۲۳؍۸

[88] الاحزاب۷۱

[89] الحشر۷

[90] فتح القدیر۵۴؍۴

[91] التوبة۹۶

[92] المافقون۲

[93] المومن۱۹

[94] فاطر۳۸

[95] التغابن۴

[96] النسائ۴۰

[97] الرعد۴۰

[98] الغاشیة۲۱،۲۲

[99] تفسیرابن ابی حاتم ۲۶۲۹؍۸،تفسیر طبری ۲۰۹؍۱۹، تفسیرابن کثیر۷۹؍۶،مستدرک حاکم۳۵۱۲

[100] تفسیرابن کثیر ۷۹؍۶

[101]الاعراف۱۲۹

[102] القصص۵،۶

[103] الانفال ۲۶

[104] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ هَلَاكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ۷۲۵۸

[105] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۵۹۵

[106] مسند احمد ۲۱۲۲۰،مستدرک حاکم۷۸۶۲، شعب الایمان۶۴۱۴،شرح السنة للبغوی ۴۱۴۵

[107] مسنداحمد۲۲۰۹۶،صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ إِرْدَافِ الرَّجُلِ خَلْفَ الرَّجُلِ ۵۹۶۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ مَنْ لَقِی اللهَ بِالْإِیمَانِ وَهُو غَیْرُ شَاكٍّ فِیهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحُرِّمَ عَلَى النَّارِ۱۴۳ ،السنن الکبری للنسائی ۹۹۴۳،صحیح ابن حبان ۳۶۲

[108] الحشر۷

[109] النسائ۸۰

[110] التوبة۷۱

[111] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ عَلَى الحَقِّ یُقَاتِلُونَ وَهُمْ أَهْلُ العِلْمِ ۷۳۱۱،وکتاب التوحیدوالردعلی الجھمیة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ ۷۴۵۹،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ عَلَى الْحَقِّ لَا یَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ۴۹۵۱،۴۹۵۲ ،مسند احمد۱۸۱۳۵

[112] صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ۷۴۶۰،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِینَ عَلَى الْحَقِّ لَا یَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ۴۹۵۵

[113] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی دَوَامِ الْجِهَادِ۲۴۸۴ ، مسند احمد۱۹۹۲۰،مستدرک حاکم ۲۳۹۲

[114] تفسیرابن کثیر۸۳؍۶، تفسیر ابن ابی حاتم ۱۴۷۹۵، ۲۶۳۳؍۸

[115] الاحزاب۵۹

[116] النور۳۱

[117] ۔ النور: 60

[118] تفسیرطبری۲۱۶؍۱۹

[119] الدر المنثورفی تفسیربالماثور۲۲۳؍۶

[120] تفسیرابن کثیر۸۳؍۶

[121] تفسیر عبدالرزاق۴۴۶؍۲

[122] تفسیر البغوی۴۲۹؍۳

[123] تفسیرالزمخشری۲۵۵؍۳

[124] تفسیرابن کثیر۸۵؍۶

[125] تفسیرابن کثیر۸۵؍۶،تفسیرابن ابی حاتم۱۴۸۶۹،۲۶۵۴۸، تفسیرطبری ۲۲۰؍۱۹

[126] تفسیرابن کثیر ۸۵؍۶، تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۸۷۲،۲۶۴۶؍۸

[127] تفسیرابن کثیر۸۶؍۶،تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۸۷۵، ۲۶۴۶؍۸

[128] تفسیرالسعدی۵۷۵؍۱

[129] سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَا لِلرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ ۲۲۹۲، مسند احمد۶۹۰۲

[130] سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَا لِلرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ۲۲۹۳

[131] سنن ابوداودکتاب الاجارة بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ۳۵۲۹، مسنداحمد۲۵۶۶۸، مستدرک حاکم ۲۲۹۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۷۴۴

[132] تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۸۸۸، ۲۶۴۹؍۸،تفسیرابن کثیر ۸۶؍۶

[133] سنن ابوداود کتاب الاطعمة بَابٌ فِی الِاجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ۳۷۶۴،سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمة بَابُ الِاجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ ۳۲۸۶، مسنداحمد۱۶۰۷۸

[134] سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمة بَابُ الِاجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ ۳۲۸۷

[135] النور: 61

[136] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۵۰؍۸، تفسیر عبدالرزاق ۴۴۹؍۲

[137] تفسیرابن کثیر۸۷؍۶

[138] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی السَّلَامِ إِذَا قَامَ مِنَ الْمَجْلِسِ۵۲۰۸،جامع ترمذی ابواب الاستئذان بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْلِیمِ عِنْدَ القِیَامِ وَعِنْدَ القُعُودِ۲۷۰۶ ،الادب المفرد ۱۰۰۸

[139] تفسیرابن ابی حاتم ۲۶۵۴؍۸

[140] الحجرات۲

[141] تفسیرابن کثیر۸۹؍۶

[142] تفسیر الدرالمنثور ۲۳۱؍۶، تفسیرابن کثیر۸۹؍۶،تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۹۳۴،۲۶۵۶؍۸

[143] الانبیائ۴۷

[144] لقمان۱۶

[145] الزلزال۷تا۸

[146] القیامة۱۳

[147] الکہف۴۹

Related Articles