ہجرت نبوی کا چوتھا سال

سریہ ابی سلمہؓ بن عبدالاسدمخزومی (قطن کی طرف)یکم محرم چارہجری

غزوہ بدرمیں  طاقتوروبہادرمشرکین مکہ کے خلاف قلیل تعدادو بے سروساماں  مسلمانوں  کی شاندارفتح ونصرت سے مدینہ منورہ اوراردگردکے قبائل پربھرپوراثرپڑاتھااوروہ مسلمانوں  کی بہادری وشجاعت سے بڑے متاثراورخوف زدہ تھے اوران کوایک طاقتوارفریق سمجھنے پرمجبورتھے جن کوشکست نہیں  دی جاسکتی تھی، اس لئے اس غزوہ کے بعد مدینہ میں  عبداللہ بن ابی اپنے ساتھیوں  سمیت زبانی طورپر، دکھاوے کے لئے اسلام قبول کرنے پرمجبورہواتھا،مگرغزوہ احدمیں  مسلمانوں  کوگو شکست نہیں  ہوئی تھی مگر ایک گہری زک ضرورلگی جس سے ان کی جمی ہوئی ساکھ متاثرہوئی،لوگوں  کے دلوں  میں ان کاخوف و ہیبت کی وہ کیفیت باقی نہیں  رہی تھی جو کہ غزوۂ بدر کے بعد قائم ہوئی تھی اور وہ سمجھنے لگے کہ غزوہ بدرمیں  مسلمانوں  کواتفاقاًفتح حاصل ہوگئی تھی ،اورغزوہ احدکے نتیجے میں  ثابت ہوگیاہے کہ مسلمانوں  کوان معنوں  میں  اللہ کی نصرت حاصل نہیں  جومعنی مشرکین سمجھتے تھے،اس لئے اسلام اوراس کے پیروکار ناقابل تسخیر،ناقابل شکست نہیں  ہیں اورایسے کمزوردلوں  کوتوڑ کر اپنے مفادکے لئے استعمال کیاجاسکتاہے جواپنے کمترمفادکی خاطرملت کے بڑے مفادکوقربان کرنے پرتیارہوجاتے ہیں ،جولوگ مخلص ،جانثاراوروفادارہیں  وہ بھی معصوم اوربے خطانہیں  کہلاسکتے ،ان میں  سے کچھ ایسے بھی نکل آتے ہیں  جن سے انسانی کمزوریاں  سرزدہوسکتی ہیں ،ان کمزوریوں  سے خالدبن ولیدفائدہ اٹھاسکتے ہیں ، اوراللہ کا قانون عمل ونتیجہ عمل اتنااٹل ہے کہ اگرکمزوری کسی مسلمان سے سرزدہواورکوئی دوسراخواہ مشرک اوراللہ کادشمن ہی کیوں  نہ ہواس سے فائدہ اٹھانے میں  سبقت کرجائے تواس کے نتائج مشرک کے حق میں  ہی نکلتے ہیں ،یہ قانون مشرک اورموحدمسلمان اورکافرمیں  کوئی فرق نہیں  کرتا ،چنانچہ مدینہ کے اندریہودیوں  اور منافقین نے کھلم کھلااپنی دلی خباثت کامظاہرہ کیا،ان کے دیکھادیکھی اردگردکے عرب قبائل نے بھی اپنی نظروں  کازاویہ بدلااورباقاعدہ جنگ کرنے اورمدینہ منورہ پرحملہ کرنے کی غرض سے اجتماع کرنے شروع کیے ،اس کے علاوہ انفرادی اذیتوں  کاایک طویل سلسلہ شروع ہوااوریہ ثابت کیاگیاکہ وہ سیاسی طورپراسلام کی برتری کے قائل نہیں اس لئے مسلمانوں  کے انتقام سے خائف نہیں اس سوچ کی وجہ سے کافی عرصہ تک مسلمان خطرات میں  گھرے رہے اورکافی جانی نقصان اٹھاناپڑا ۔

سب سے پہلے قبیلہ بنواسدبن خزیمہ نے مسلمانوں  کے خلاف تیاری شروع کی۔

وذلك أَنَّهُ بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنّ طُلَیْحَةَ وَسَلَمَةَ ابْنَیْ خُوَیْلِدٍ قَدْ سَارَا فِی قَوْمِهِمَا فِیمَنْ أَطَاعَهُمَا بِدَعْوَتِهِمَا إِلَى حَرْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَدَعَا رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا سَلَمَةَ وَعَقَدَ لَهُ لِوَاءً، وَبَعَثَ مَعَهُ مِائَةً وَخَمْسِینَ رَجُلا مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِوَقَالَ:سِرْ حَتَّى تَنْزِلَ أَرْضَ بَنِی أَسَدٍ، فَأَغِرْ عَلَیْهِمْ

 قَبْلَ أَنْ تُلاقِیَ عَلَیْكَ جُمُوعَهُمْ

ان کے بارے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرپہنچی کہ قبیلہ بنواسد کے طلحہ بن خویلد اورسلمہ بن خویلد دونوں  بھائی اپنے قبیلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملہ کی دعوت دیتے پھررہے ہیں ،محرم کاچاندطلوع ہوچکاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع ملتے ہی سابق الاسلام اپنے پھوپھی زاداوررضاعی بھائی عبداللہ (ابوسلمہ رضی اللہ عنہ )جوغزوہ احدمیں  زخمی ہوچکے تھے کوبلایاان کے لئے جھنڈامقررکیااورایک سوپچاس انصارومہاجرین پرمشتمل ایک دستہ کا سربراہ بناکر قطن کی طرف روانہ کیااوران سے فرمایااس سے قبل کے ان کی جماعتیں  تمہارامقابلہ کریں  فوراًیہاں  سے روانہ ہوجاؤیہاں  تک کہ علاقہ بنی اسدمیں  پہنچواورتم ان پرحملہ کردو،

قَطَنٍ وَهُوَ جَبَلٌ بِنَاحِیَةِ فَیْدٍ بِهِ مَاءٌ لِبَنِی أَسَدِ بْنِ خُزَیْمَةَ

قطن فیدکے قریب ایک پہاڑکانام ہے اورفیدکوفہ کے راستے پرایک منزل کانام ہے جہاں  بنواسدبن خزیمہ کاچشمہ ہے۔[1]

فَخَرَجَ فَأَغَذَّ السَّیْرَ، وَنَكَبَ عَنْ سُنَنِ الطَّرِیقِ، وَسَبق الأَخْبَار، وَانْتَهَى إِلَى أَدْنَى قَطَنٍ فَأَغَارَ عَلَى سَرْحٍ لَهُمْ فَضَمُّوهُ وَأَخَذُوا رِعَاءً لَهُمْ مَمَالِیكَ ثَلَاثَةً وَأَفْلَتْ سَائِرُهُمْ فَجَاءُوا جَمْعَهُمْ فَحَذَّرُوهُمْ فَتَفَرَّقُوا فِی كُلِّ نَاحِیَةٍ ، فَفَرَّقَ أَبُو سَلَمَةَ أَصْحَابَهُ ثَلاثَ فِرَقٍ فِی طَلَبِ النَّعَمِ وَالشَّاءِ فَآبُواإلَیْه ِ سَالِمِینَ قَدْ أَصَابُوا إبِلًا وَشَاءً وَلَمْ یَلْقَوْا أَحَدًا.فَانْحَدَرَ أَبُو سَلَمَةَ بِذَلِكَ كُلّهِ إلَى الْمَدِینَةِ

وہ روانہ ہوئے اوراپنی رفتار تیز کر دی ،معمول کے راستے کوترک کردیااورالاخبارسے گزرکرقطن کے قریب پہنچ گئے،اورمیدان پرحملہ کر کے اس پرقبضہ کرلیااورتین غلام چرواہوں  کوگرفتارکرلیاجوبچ گئے وہ اپنی جماعت کے پاس پہنچے اورانہیں  واقعہ کی خبرکی ،بنواسدابھی جنگی تیاریوں  کے مراحل میں  ہی تھے اس لئےدوبدوجنگ کرنے کے بجائے گھبرا کر ادھر ادھرمنتشرہوگئے،چنانچہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے اونٹ اوربکریوں  کی تلاش میں  اپنے ساتھیوں  کوتین جماعتوں  میں  تقسیم کردیا اور بنی اسد بن خزیمہ کے اونٹوں  کے گلوں  اوربکریوں  کے ریوڑوں  پرقبضہ کرکےبغیرکوئی نقصان اٹھائے خیروعافیت سے مدینہ منورہ واپس آگئے(کیونکہ وہ زخمی حالت میں سفرکرتے رہے تھے اس لئے واپسی پر ایک زخم پھوٹ گیا اور وہ جلدہی وفات پاگئے)۔[2]

سریہ عبد الله بن انیس رضی اللہ عنہ (عرنہ کی طرف)پانچ محرم چار ہجری

أَنَّهُ بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ سُفْیَانَ بْنَ خَالِدٍ الْهُذَلِیَّ ثُمَّ اللِّحْیَانِیَّ وَكَانَ یَنْزِلُ عُرَنَةَ وَمَا وَالَاهَا فِی نَاسٍ مِنْ قَوْمِهِ وَغَیْرِهِمْ قَدْ جَمَعَ الْجُمُوعَ لِرَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُنَیْسٍ لِیَقْتُلَهُ فَقَالَ: صِفْهُ لِی یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:إِذَا رَأَیْتَهُ هِبْتَهُ وَفَرِقْتَ مِنْهُ وَذَكَرْتَ الشَّیْطَانَ قَالَ: وَكُنْتُ لَا أَهَابُ الرِّجَالَ وَاسْتَأْذَنْتُ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ فَأَذِنَ لِی فَأَخَذْتُ سَیْفِی وَخَرَجْتُ أَعْتَزِی إِلَى خُزَاعَةَ حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِبَطْنِ عُرَنَةَ لَقِیتُهُ یَمْشِی وَوَرَاءَهُ الْأَحَابِیشُ وَمَنْ ضَوِیَ إِلَیْهِ فَعَرَفْتُهُ بِنَعْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهِبْتُهُ فَرَأَیْتُنِی أَقْطُرُ فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ،

محرم چارہجری ،پانچ تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ملی کہ رئیس غرنہ سفیان بن خالدھذلی اپنے کوہستانی علاقہ مسلمانوں  کے خلاف فوج اکٹھی کررہاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ انصاری جوبنوسلمہ کے حلیف تھے (بیعت عقبہ اورغزوہ بدراورغزوہ احدمیں  شریک تھے )کوان کی سرکوبی کے لئے روانہ کیااورفرمایاکہ وہ سفیان کوقتل کردیں ،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس نے عرض کیااے اللہ کے نبی !میں  اسے کیسے پہچانوں  گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم اسے دیکھوگے تومرعوب ہوجاؤگے اورتمہیں  شیطان یادآجائے گا،انہوں  نے عرض کیامیں  مردوں  سے نہیں  ڈرتا، پھرانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  اسے دھوکادینے کے لئے کوئی خلاف واقعہ بات کرسکتا ہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  اس کی اجازت فرمائی، عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے اپنی تلوارلی اوراپنے کوبنو خزاعہ کی طرف منسوب کرتاہوانکلاجب بطن عرنہ پہنچاتوسفیان سے اس حالت میں  ملاکہ وہ جارہاتھا،اس کے پیچھے مختلف قبائل کے لوگ تھے جواس کے پاس جمع ہوگئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوحلفیہ بیان دیاتھااس سے میں  نے اسے پہچانااورڈرگیاایساخوف طاری ہواکہ پسینہ پسینہ ہوگیامجھے یقین ہوگیاکہ اللہ اوراس کے رسول سچے ہیں ،

فَقَالَ: مَنِ الرَّجُلُ، فَقُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ سَمِعْتُ بِجَمْعِكَ لِمُحَمَّدٍ فَجِئْتُكَ لَأَكُونَ مَعَكَ، قَالَ: أَجَلْ إِنِّی لَأَجْمَعُ لَهُ، فَمَشَیْتُ مَعَهُ وَحَدَّثْتُهُ وَاسْتَحْلَى حَدِیثِی حَتَّى انْتَهَى إِلَى خِبَائِهِ وَتَفَرَّقَ عَنْهُ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِذَا هَدَأَ النَّاسُ وَنَامُوا اغْتَرَرْتُهُ فَقَتَلْتُهُ وَأَخَذْتُ رَأْسَهُ ثُمَّ دَخَلْتُ غَارًا فِی الْجَبَلِ وَضَرَبَتِ الْعَنْكَبُوتُ عَلَیَّ، وَجَاءَ الطَّلَبُ فَلَمْ یَجِدُوا شَیْئًا فَانْصَرَفُوا رَاجِعِینَ. ثُمَّ خَرَجْتُ فَكُنْتُ أَسِیرُ اللَّیْلَ وَأَتَوَارَى بِالنَّهَارِ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِینَةَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا رَآنِی قَالَ: أَفْلَحَ الْوَجْهُ، قُلْتُ: أَفْلَحَ وَجْهُكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَضَعْتُ رَأْسَهُ بَیْنَ یَدَیْهِ وَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِی فَدَفَعَ إِلَیَّ عَصًا، وَقَالَ: تَخَصَّرْ بِهَذِهِ فِی الْجَنَّةِ، فَكَانَتْ عِنْدَهُ فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ أَوْصَى أَهْلَهُ أَنْ یُدْرِجُوهَا فِی كَفَنِهِ

سفیان مجھ سے پوچھنے لگاتم کون ہو؟میں  نے کہامیں بنو خزاعہ کاایک فردہوں  میں  نے سناہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑنے کے لئے لوگوں  کواکٹھاکررہے ہومیں  بھی اسی مقصدکے تحت تمہارے پاس آیاہوں ، سفیان نے کہاکہ بے شک میں  ان کے مقابلے کی تیاری کررہاہوں ،میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے باتیں  کرتارہا،وہ میری گفتگوکوپسندکرنے لگایہاں  تک کہ ہم اس کے خیمے تک پہنچ گئے،اس کے ساتھی آرام کی غرض سے چلے گئےجب سب لوگ گہری نیندمیں  ڈوب گئے تومیں  نے سفیان کوقتل کرکے اس کاسرکاٹ لیااورپہاڑکےایک غارمیں  جاکرپناہ لی اورمکڑی نے مجھ پرجالالگادیا،جب سفیان کے ساتھیوں  کواس کے قتل کا علم ہواتووہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تلاش میں  نکلے مگرناکام ونامرادہوکرواپس ہوگئے،میں  غارسے نکلا،رات کوچلتارہتاوردن کوپوشیدہ ہوجاتاتھایہاں  تک کہ مدینہ منورہ آگیا،میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومسجدمیں  پایاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھاتوفرمایاتمہاراچہرہ فلاح پائے،میں  نے عرض کی کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کاچہرہ بھی فلاح پائے،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس مدینہ سے اٹھارہ روزباہررہ کرتئیس محرم کومدینہ میں  داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسفیان کے قتل کی خوشخبری سنائی اور اس کاسرآپ کے پاؤں  میں  ڈال دیااورواقعے سے آپ کو آگاہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض انہیں ایک لاٹھی مرحمت فرمائی اورفرمایایہ میرے اور تمہارے درمیان روز قیامت نشانی رہے گاچنانچہ جب عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ قریب المرگ تھے توانہوں  نے وصیت کی کہ یہ لاٹھی ان کے ساتھ ہی دفن کر دی جائے۔[3]

سریہ منذر رضی اللہ عنہ بن عمرو(بئر معونہ)صفرچار ہجری

وَكَانَ رَئِیسَ المُشْرِكِینَ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ، خَیَّرَ بَیْنَ ثَلاَثِ خِصَالٍ، فَقَالَ: یَكُونُ لَكَ أَهْلُ السَّهْلِ وَلِی أَهْلُ المَدَرِ، أَوْ أَكُونُ خَلِیفَتَكَ، أَوْ أَغْزُوكَ بِأَهْلِ غَطَفَانَ بِأَلْفٍ وَأَلْفٍ؟

قوم بنی عامرکارئیس عامربن طفیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااور (شرارت اورتکبرکی راہ سے)کہنے لگامیں  آپ کوتین باتوں  کااختیاردیتاہوں  (ان میں  سے جوچاہیں  قبول کرلیں ) آپ کے مطیع فرمان جنگل والے ہوں  اورمیرے مطیع فرمان شہروالے، آپ کی وفات کے بعدمیں  آپ کاخلیفہ بنوں ، اگریہ دونوں  شرائط منظورنہیں  تومیں  آپ پردوہزار غطفانیوں  کے لشکرجرارکے ساتھ حملہ کردوں  گا؟۔[4]

(اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددعاکی) یہ کہہ کروہ واپس لوٹ گیااورمسلمانوں  کے خلاف ایک خوفناک سازش تیارکی،

قَدِمَ أَبُو بَرَاءٍ عَامِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جَعْفَرٍ مُلَاعِبُ الْأَسِنَّةِعَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، فَعَرَضَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامَ، وَدَعَاهُ إلَیْهِ، فَلَمْ یُسْلِمْ وَلَمْ یَبْعُدْ مِنْ الْإِسْلَامِ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، لَوْ بَعَثْتَ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِكَ إلَى أَهْلِ نَجْدٍ، فَدَعَوْهُمْ إلَى أَمْرِكَ، رَجَوْتُ أَنْ یَسْتَجِیبُوا لَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إنِّی أَخْشَى عَلَیْهِمْ أَهْلَ نَجْدٍ، قَالَ أَبُو بَرَاءٍ: أَنَا لَهُمْ جَارٍ، فَابْعَثْهُمْ فَلْیَدْعُوا النَّاسَ إلَى أَمْرِكَ.

سازش یہ ہوئی کہ عامربن مالک ابوبراء کلابی جوقبیلہ کلاب کارئیس تھااورنیزوں  سے کھیلنے والاکے لقب سے مشہورتھا مدینہ میں  آپ کی خدمت میں  حاضرہوااورکچھ ہدیہ پیش کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہدیہ کوقبول نہیں  کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعوت اسلام پیش کی اس نے نہ تواس دعوت کوقبول کیااورنہ ہی ردکیابلکہ کہنے لگااے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اگرآپ اپنے چنداصحاب کواہل نجدکی طرف دعوت اسلام کی غرض سے روانہ کریں  تومجھے امیدہے وہ اس دعوت کوقبول کرلیں  گے ،کیونکہ عامربن طفیل جوان اطراف کارئیس تھادھمکی دے گیاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اہل نجدسے خطرہ اوراندیشہ ہے،اس پرعامربن مالک جھٹ سے بولامیں  ضامن ہوں ،اس کی ضمانت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترصحابہ کرام اورایک روایت کے مطابق چالیس انصارکوجوقراء کہلاتے تھے اس کے ساتھ روانہ فرمادیئے،

فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُنْذِرَ بْنَ عَمْرٍو، أَخَا بَنِی سَاعِدَةَ، الْمُعْنِقَ لِیَمُوتَ فِی أَرْبَعِینَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ، مِنْ خِیَارِ الْمُسْلِمِینَ، مِنْهُمْ:الْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّةِ، وَحَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ أَخُو بَنِی عَدِیِّ بْنِ النَّجَّارِ، وَعُرْوَةُ بْنُ أَسْمَاءَ بْنِ الصَّلْتِ السُّلَمِیُّ، وَنَافِعُ بْنُ بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِیُّ، وَعَامِرُ بْنُ فُهَیْرَةَ مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ، فِی رِجَالٍ مُسَمَّیْنَ مِنْ خِیَارِ الْمُسْلِمِینَ.

كُنَّا نُسَمِّیهِمْ القُرَّاءَ فِی زَمَانِهِمْ كَانُوا یَحْتَطِبُونَ بِالنَّهَارِ، وَیُصَلُّونَ بِاللیْلِ

ان قراء میں  عروہ رضی اللہ عنہ بن اسماء بن صلت، منذر بن عمر رضی اللہ عنہ ، عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ ضمری، عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ (سفرہجرت کے رہنما) انس رضی اللہ عنہ کے ماموں  اورام سلیم رضی اللہ عنہا  کے بھائی حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ (کسی جگہ ملحان کے بجائے سلان لکھاہواہے) اور ایک لنگڑے قاری بھی شامل تھے ،اوران کاامیرمنذربن عمرو ساعدی رضی اللہ عنہ کومقرر فرمایا اورعامربن طفیل کے نام ایک خط لکھواکر حرام رضی اللہ عنہ بن ملحان کے حوالے کیاان مقدس اصحاب صفہ کی جماعت کو قاری کہاکرتے تھے،جوسارادن جنگل سے لکڑیاں  چنتے اور شام کوانہیں  فروخت کرکے اپنے دوسرے ساتھیوں  کے لئے کھانا لاتے ،رات کاکچھ حصہ قرآن کی تلاوت میں  ، کچھ حصہ دین کی تعلیم حاصل کرتے اورکچھ حصہ قیام اللیل میں  گزاردیتے۔[5]

فَسَارُوا حَتَّى نَزَلُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ، وَهِیَ بَیْنَ أَرْضِ بَنِی عَامِرٍ وَحَرَّةِ بَنِی سُلَیْمٍ، كِلَا الْبَلَدَیْنِ مِنْهَا قَرِیبٌ، وَهِیَ إلَى حَرَّةِ بَنِی سُلَیْمٍ أَقْرَبُ.(غَدْرُ عَامِرٍ بِهِمْ) :فَلَمَّا نَزَلُوهَا بَعَثُوا حَرَامَ بْنَ مِلْحَانَ بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَامِرِ بْنِ الطُّفَیْلِ، فَلَمَّا أَتَاهُ لَمْ یَنْظُرْ فِی كِتَابِهِ حَتَّى عَدَا عَلَى الرَّجُلِ فَقَتَلَهُ

جب یہ لوگ بئرمعونہ ،یہ ایک موضع ہے جومکہ مکرمہ اورعسقان کے مابین واقع ہے،قبائل ہذیل،بنی سلیم اوربنی عامراس کے قرب وجوار میں  آباد ہیں  بلکہ بنی سلیم کے شہرسے زیادہ قریب تھاپرپہنچےتوصحابہ کرام  یہاں  پہنچ کرٹھہرے اورحرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کوانہوں  نے ایلچی بناکراللہ کے دشمن عامربن طفیل کے پاس بھیجا،جب یہ عامرکے پاس پہنچے تواس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےنامہ مبارک کوپڑھنے کی سعادت ہی حاصل کئے بغیرہی فوراًحرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کوشہید کردیا۔[6]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِلَى عَامِرِ بْنِ الطُّفَیْلِ الْكِلابِیِّ سَبْعِینَ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: فَقَالَ أَمِیرُهُمْ: مَكَانَكُمْ حَتَّى آتیكم بخبر القوم! فلما جاءهم قال: اتؤمنوننى حتى اخبركم برسالة رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ؟قَالُوا: نَعَمْ، فَبَیْنَا هُوَ عِنْدَهُمْ، إِذْ وَخَزَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ بِالسِّنَانِ قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ! فَقُتِلَ،

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترانصاریوں  کوعامربن الطفیل الکلابی کے پاس بھیجا،اس جماعت کے امیر نے اپنے رفیقوں  سے کہاتم یہیں  ٹھہرومیں  ذراجاکرکفارکی خبرلاتاہوں ، وہ ان کے پاس آئے اورکہااگرامان دوتومیں  تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام سناؤں ،انہوں  نے کہاہاں  تم کوامان ہے،وہ پیغام سنارہے تھے کہ ان میں  سے کسی شخص نے ان کے جسم پرنیزہ بھونک دیااس پرانہوں  نے کہاقسم ہے رب کعبہ کی میں  کامیاب ہوگیایہ کہتے ہی ان کاکام تمام ہوگیا۔[7]

حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فِی أَصْحَابِ النَّبِیِّ ص الذین ارسلهم رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ بِئْرِ مَعُونَةَ، قَالَ: لا أَدْرِی، أَرْبَعِینَ أَوْ سَبْعِینَ! وَعَلَى ذَلِكَ الْمَاءِ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ الْجَعْفَرِیُّ، فَخَرَجَ أُولَئِكَ النَّفَرُ مِنْ اصحاب النبی ص الَّذِینَ بُعِثُوا، حَتَّى أَتَوْا غَارًا مُشْرِفًا عَلَى الْمَاءِ قَعَدُوا فِیهِ ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: ایكم یبلغ رساله رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ هَذَا الْمَاءِ؟ فَقَالَ- أَرَاهُ ابْنَ مِلْحَانَ الأنصاری: انا ابلغ رساله رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى حِوَاءَ مِنْهُمْ، فَاحْتَبَى أَمَامَ الْبُیُوتِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَهْلَ بِئْرِ مَعُونَةَ، انى رَسُولُ رَسُولُ اللَّه إلیكم،إنی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ.فَخَرَجَ إِلَیْهِ مَنْ كَسَرَ الْبَیْتَ بِرُمْحٍ فَضَرَبَ بِهِ فِی جَنْبِهِ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الشِّقِّ الآخَرِ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ!

اہل بیئرمعونہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوصحابہ بھیجے تھے ان کے متعلق انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے مجھے یہ تومعلوم نہیں  کہ وہ چالیس تھے یاستر،عامربن الطفیل الجعفری اس چشمہ پرفروکش تھا،یہ صحابہ مدینہ سے چل کراس چشمہ کے اوپرایک غارمیں  آئے اورجب بیٹھ گئے توایک نے دوسرے سے کہاتم میں  سے کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام ان چشمہ والوں  کو پہنچائے گا،ابن ملحان الانصاری نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس کام کومیں  کرتاہوں ،یہ اپنے مقام سے چل کران کے ایک چشم کے ڈیرے کے پاس آئے اورخیموں  کے سامنے گھاٹ باندھ کربیٹھ گئے پھرکہااے بیئرمعونہ والو!مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہےاور ایک آدمی کو حکم دیا کہ اس کے پیچھے سے وار کردے تو جب اس نے وار کیا تو اس کے بعد اس نے خون کا مشاہدہ بھی کیامیں  اعلان کرتاہوں  کہ اللہ ایک ہے اورمحمداس کے رسول اوربندے ہیں تم اللہ اوراس کے رسول پرایمان لاؤ،یہ سنتے ہی عامرخیمے کے اندرسے برچھالیے ہوئے برآمد ہوا اوراس نے اس کے پہلومیں  اسے بھونک کرپارکردیاابن ملحان رضی اللہ عنہ الانصاری نے کہااللہ اکبر ، رب کعبہ کی قسم ہے! میں  نے مرادپائی۔[8]

قَالَ: فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلَانِ مَعَهُ: رَجُلٌ أَعْرَجُ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، قَالَ: كُونَا قَرِیبًا مِنِّی حَتَّى آتِیَهُمْ، فَإِنْ أَمَّنُونِی كُنْتُمْ كَذَا، وَإِنْ قَتَلُونِی أَتَیْتُمْ أَصْحَابَكُمْ، فَأَتَاهُمْ حَرَامٌ فَقَالَ: أَتُؤَمِّنُونِی أُبَلِّغْكُمْ رِسَالَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُهُمْ، وَأَوْمَئُوا إِلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ فَطَعَنَهُ، قَالَ هَمَّامٌ: وَأَحْسَبَهُ قَالَ: فَأَنْفَذَهُ بِالرُّمْحِ فَقَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ،

ایک روایت میں  ہے پس حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ اپنے دو ساتھیوں  کے ساتھ جن میں  ایک لنگڑے صحابی بھی تھے آگے بڑھ گئے ، کچھ دور جا کر انہوں  نے اپنے ساتھیوں  سے کہاجب تک میں  ان کے قریب پہنچوں تم میرے قریب قریب چلتے رہنا اگر ان کافروں  نے مجھے امان دے دی تو میرے قریب ٹھہرے رہنا اور اگر مجھے قتل کرڈالاتوتم اپنے ساتھیوں  کے پاس چلے جانا،دونوں  ساتھیوں  کویہ بات سمجھاکروہ کافروں  کے پاس پہنچے اورکہاکیاتم مجھے امان دیتے ہوکہ میں  تمہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام پہنچاؤں ،انہوں  نے امان دے دی،پھروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام انہیں  پہنچانے لگے تو قبیلہ والوں  نے ایک شخص کواشارہ کیااوراس نے پیچھے سے آکران پرنیزہ سے وارکیا،ہمام نے بیان کیامیراخیال ہے کہ نیزہ آرپار ہو گیاتھا ،حرام رضی اللہ عنہ بن ملحان نے کہاقسم ہے رب کعبہ کی میں  مراد کو پہنچا۔[9]

فُزْتُ وَاللهِ، فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: مَا قَوْلُهُ: فُزْتُ؟ فَأَتَیْتُ الضَّحَّاكَ بْنَ سُفْیَانَ الْكِلَابِیَّ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا كَانَ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِهِ: فُزْتُ وَاللهِ، قَالَ: الْجَنَّةُ، وَعَرَضَ عَلَیَّ الْإِسْلَامَ، فَأَسْلَمْتُ، وَدَعَانِی إِلَى الْإِسْلَامِ مَا رَأَیْتُ مِنْ مَقْتَلِ عَامِرِ بْنِ فُهَیْرَةَ، وَمِنْ رَفْعِهِ إِلَى السَّمَاءِ عُلُوًّا، قَالَ: وَكَتَبَ الضَّحَّاكُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ الْمَلَائِكَةَ وَارَتْ جُثَّتَهُ، وَأُنْزِلَ عِلِّیِّینَ

عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ کے قاتل کابیان ہے کہ جب میں  نے عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو نیزہ ماراتو اس وقت ان کی زبان سے یہ لفظ نکلا اللہ کی قسم میں  مرادکوپہنچا، میں  یہ سن کرحیران ہوااوردل میں  سوچاکہ کس مرادکو پہنچا؟میں  نے ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ سے آکریہ واقعہ بیان کیا انہوں  نے کہااس سے مرادیہ ہے کہ میں  نے جنت کوپالیااوراسے دعوت اسلام پیش کی اوروہ مسلمان ہوگیا ۔ضحاک رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایافرشتوں  نے ان کے جثہ کوچھپالیااورعلیین میں  اتارے گئے۔[10]

ایک روایت میں  ہے کہ ان کی لاش کوفرشتوں  نے چھپالیا اورپھر مشرکین نے نہیں  دیکھاکہ ان کی لاش کہاں  گئی ،

فَقَدْ رُوِّینَا فِی مَغَازِی مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ فِی هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ: لَمْ یُوجَدْ جَسَدُ عَامِرٍ، یَرَوْنَ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ وَارَتْهُ

موسیٰ بن عقبہ راوی ہیں  کہ عروہ بن زبیرکہتے تھے عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ کی لاش کہیں  نہیں  ملی ،لوگوں  کاگمان یہ ہے کہ فرشتوں  نے ان کی لاش کوچھپا لیا تھا۔[11]

فَاسْتَصْرَخَ عَلَیْهِمْ قَبَائِلَ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ (مِنْ عُصَیَّةَ وَرِعْلٍ وَذَكْوَانَ، فَأَجَابُوهُ إلَى ذَلِكَ، فَخَرَجُوا حَتَّى غَشُوا الْقَوْمَ، فَأَحَاطُوا بِهِمْ فِی رِحَالِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُمْ أَخَذُوا سُیُوفَهُمْ، ثُمَّ قَاتَلُوهُمْ حَتَّى قُتِلُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ، یَرْحَمُهُمْ اللَّهُ، إلَّا كَعْبَ بْنَ زَیْدٍ، أَخَا بَنِی دِینَارِ بْنِ النَّجَّارِ، فَإِنَّهُمْ تَرَكُوهُ وَبِهِ رَمَقٌ، فَارْتُثَّ مِنْ بَیْنِ الْقَتْلَى، فَعَاشَ حَتَّى قُتِلَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ شَهِیدًا، رَحِمَهُ اللَّهُ.

پھرعامربن طفیل نے بنی عامرکوبقیہ اصحاب کے قتل پر ابھارا لیکن عامربن مالک ابوبراء کے پناہ دینے کی وجہ سے بنی عامرنے امداد دینے سے انکار کردیاتب عامربن طفیل نے قبائل بنی سلیم،عصیہ ،رعل اورذکوان کوصحابہ کرام کے قتل کاحکم دیااورانہوں  نے قبول کر لیا اور صحابہ کرام (جوسترکی تعدادمیں  تھے)کی طرف روانہ ہوئے اورچاروں  طرف گھیرلیا،صحابہ کرام  بھی تلواریں  کھینچ کر ان پرجاپڑے اورسب شہید ہو گئے،صرف کعب بن زیدانصاری رضی اللہ عنہ بچے جن میں  زندگی کی کچھ رمق باقی تھے کفارانہیں  مردہ سمجھ کر چھوڑگئے ،اس حالت میں  انہیں  مقتولین کے درمیان سے لایاگیا اورپھروہ بالکل تندرست ہوگئے اورغزوہ خندق میں  شہیدہوئے۔[12]

فَقُتِلُوا كُلُّهُمْ غَیْرَ الأَعْرَجِ، كَانَ فِی رَأْسِ جَبَلٍ

باقی دو صحابیوں  میں  سے ایک صاحب جو لنگڑے تھےپہاڑکی چوٹی پرچڑھ گئے اوران کے چنگل سے بچ کرمدینہ پہنچ گئے۔[13]

لما قتل الَّذِی ببئر مَعُونَة وَأسر عَمْرو بن امیة الضمرِی قَالَ لَهُ عَامر بن الطُّفَیْل من هَذَا وَأَشَارَ إِلَى قَتِیل فَقَالَ لَهُ هَذَا عَامر بن فهَیْرَة فَقَالَ لقد رَأَیْته بَعْدَمَا قتل رفع إِلَى السَّمَاء حَتَّى أَنِّی لأنظر الى السَّمَاء بَینه وَبَین الارض ثمَّ وضع

جبکہ ان کے دوسرے ساتھی عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ  ضمری کو کفارنے گرفتار کرلیا اور سازش کے سرغنہ عامربن طفیل کے پاس لائے ،اس نے ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے کہایہ کون ہے ؟ عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیایہ عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ ہیں ،عامر بن طفیل نے کہامیں  نے دیکھاکہ وہ قتل ہونے کے بعدآسمان کی طرف اٹھائے گئے ،ان کی لاش بڑی دیرتک زمین وآسمان کے درمیان معلق رہی اورپھرزمین پررکھ دی گئی۔[14]

فَقَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُهُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ، حَتَّى إِنِّی لَأَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الأَرْضِ، ثُمَّ وُضِعَ

صحیح بخاری کی روایت میں  بھی ہےعامربن طفیل نے کہامیں  نے اس شخص کوقتل ہونے کے بعدخود اور خوب دیکھاکہ اس کی لاش آسمان کی طرف اٹھائی گئی اورزمین وآسمان کے درمیان معلق رہی اورپھرزمین پررکھ دی گئی۔[15]

فَلَمَّا أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ مِنْ مُضَرَ، أَطْلَقَهُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ، وَجَزَّ نَاصِیَتَهُ، وَأَعْتَقَهُ عَنْ رَقَبَةٍ زَعَمَ أَنَّهَا كَانَتْ عَلَى أُمِّهِ

جب عامرکوعلم ہواکہ عمروبن امیہ قبیلہ مضرسے تعلق رکھتے ہیں  توعامرنے ان کے سرکے بال کاٹے اور یہ کہہ کرانہیں  چھوڑدیا کہ میری ماں  نے ایک غلام آزاد کرنے کی نذرمانی تھی لہذامیں  اس نذرکو پورا کرنے کے لئے تمہیں  آزاد کرتا ہوں ۔[16]

فَخَرَجَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّةَ، حَتَّى إذَا كَانَ بِالْقَرْقَرَةِ مِنْ صَدْرِ قَنَاةٍ ، أَقْبَلَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِی عَامِرٍ. حَتَّى نَزَلَا مَعَهُ فِی ظِلٍّ هُوَ فِیهِ. وَكَانَ مَعَ الْعَامِرِیَّیْنِ عَقْدٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجِوَارٌ، لَمْ یَعْلَمْ بِهِ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّةَ، وَقَدْ سَأَلَهُمَا حِینَ نَزَلَا، مِمَّنْ أَنْتُمَا؟ فَقَالَا: مِنْ بَنِی عَامِرٍ، فَأَمْهَلَهُمَا، حَتَّى إذَا نَامَا، عَدَا عَلَیْهِمَا فَقَتَلَهُمَا، وَهُوَ یَرَى أَنَّهُ قَدْ أَصَابَ بِهِمَا ثُؤْرَةً مِنْ بَنِی عَامِرٍ، فِیمَا أَصَابُوا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ قَتَلْتَ قَتِیلَیْنِ، لَأَدِیَنَّهُمَا!

جب عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ یہاں  سے روانہ ہوکرمقام قرقرہ میں  پہنچے تووہاں  بنی عامر کے دو آدمی بھی آکرایک باغ میں  ٹھہرے،اوریہ دونوں  شخص عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک درخت کے سائے میں  سورہے تھے،اور عمروبن امیہ کوعلم نہیں  تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  پناہ دے چکے تھے، جب یہ دونوں  آئے تھے توعمرو رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیاتھاکہ تم کس قبیلہ سے ہو؟انہوں  نے کہاہم بنی عامرسے ہیں ،پھرجب وہ سوگئے تو عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں  کی بلاقصورقتل کابدلہ لینے کے لئے ان کے دو آدمیوں  کوقتل کردیا،پھرجب عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے اورساراواقعہ بیان کیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پرناراضگی ظاہرفرمائی اورفرمایاہماری یہ لڑائی بے دین لوگوں  سے تھی(اوردیت ادافرمائی)۔ [17]

فَأَخْبَرَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلاَمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ قَدْ لَقُوا رَبَّهُمْ، فَرَضِیَ عَنْهُمْ، وَأَرْضَاهُمْ، فَكُنَّا نَقْرَأُ: أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنْ قَدْ لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا، وَأَرْضَانَا ثُمَّ نُسِخَ بَعْدُ،

جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردی کہ آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے جاملے ہیں  پس اللہ خودبھی ان سے خوش ہے اورانہیں  بھی خوش کردیاہےاس کے بعدہم (قرآن کی دوسری آیتوں  کے ساتھ یہ آیت بھی)پڑھتے تھے ہماری طرف سے قوم کواطلاع پہنچادوکہ ہم اپنے رب سے جاملے ہیں  وہ ہم سے راضی ہوگیا اورہم اس سے راضی ہوگئے ہیں ،اس کے بعدیہ آیت منسوخ ہوگئی ۔[18]

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: أُنْزِلَ عَلَیْنَا، ثُمَّ كَانَ مِنَ الْمَنْسُوخِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے وحی کے یہ الفاظ نازل فرمائے تھے جو بعدمیں اللہ کے حکم سے منسوخ کردیئے گئے۔[19]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب اصحاب رجیع اوراصحاب بئرمعونہ کی خبرہوئی توآپ کوبے حدصدمہ پہنچا،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:دَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الَّذِینَ قَتَلُوا یَعْنِی أَصْحَابَهُ بِبِئْرِ مَعُونَةَ ثَلاَثِینَ صَبَاحًا حِینَ یَدْعُو عَلَى رِعْلٍ، وَلَحْیَانَ، وَعُصَیَّةَ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان لوگوں  کے لئے جنہوں  نے آپ کے معززاصحاب (قاریوں )کوبئرمعونہ میں  شہیدکردیاتھاتیس دن تک صبح کی نمازمیں  بددعاکی تھی،آپ قبائل رعل ، بنولحیان اورعصیہ وغیرہ کے لئے ان نمازوں  میں بددعا فرماتے تھے جنہوں  نے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی(اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بددعاقبول فرمائی اوریہ قبائل تباہ ہوگئے)۔[20]

جابر بن عبد الله ،دَعَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الَّذِینَ قَتَلُواأَصْحَابَهُ بِبِئْرِ مَعُونَةَ ثَلاَثِینَ صَبَاحًا حِینَ یَدْعُو عَلَى وذكوان وَعُصَیَّةَ

جابر رضی اللہ عنہ بن عبد الله سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  کے لئے جنہوں  نے آپ کے معززاصحاب کوبئرمعونہ میں  شہیدکردیاتھاتیس دن تک صبح کی نمازمیں  بددعاکی تھی،آپ قبائل رعل ، ذکوان اورعصیہ وغیرہ کے لئے ان نمازوں  میں بددعا فرماتے تھے۔[21]

فقہاء کی اصطلاح میں  اس قسم کی قنوت کوقنوت نازلہ کہاگیاہے اورایسے مواقع پر قنوت نازلہ آج بھی پڑھنامسنون ہے ۔

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَى أَصْحَابِ بِئْرِ مَعُونَةَ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جتنامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواصحاب بئرمعونہ پرغم کرتے دیکھاہے کسی پراتناغم کرتے نہیں  دیکھا۔[22]

حَدَّثَنِی أَنَسٌ،:فَطُعِنَ عَامِرٌ فِی بَیْتِ أُمِّ فُلاَنٍ، فَقَالَ: غُدَّةٌ كَغُدَّةِ البَكْرِ، فِی بَیْتِ امْرَأَةٍ مِنْ آلِ فُلاَنٍ، ائْتُونِی بِفَرَسِی، فَمَاتَ عَلَى ظَهْرِ فَرَسِهِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (جب عامربن طفیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودھمکی دی تھی اس وقت آپ نے اس کے لئے بددعا فرمائی تھی )چنانچہ وہ ام فلاں  کے گھرمیں  طاعون کے مرض میں  مبتلا ہوااورکہنے لگاکہ اس فلاں  کی عورت کے گھرکے جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدودنکل آیاہے،میرا گھوڑا لاؤ،چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پرسوار ہوااوراسی کی پشت پرہی جہنم واصل ہوا۔[23]

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح(شوال چار ہجری )

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیبُهُ مُصِیبَةٌ، فَیَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللهُ: {إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ}، اللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی، وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَجَرَهُ اللهُ فِی مُصِیبَتِهِ، وَأَخْلَفَ لَهُ خَیْرًا مِنْهَا،قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، قُلْتُ: أَیُّ الْمُسْلِمِینَ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَةَ؟ أَوَّلُ بَیْتٍ هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنِّی قُلْتُهَا،

ام المومنین سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھاکہ جب کسی مسلمان کوکوئی مصیبت پہنچے تووہ یہ کلمات پڑھے’’ ہم سب اللہ کے ہیں  اوراسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں  ،اے اللہ مجھے میری مصیبت کااجرعطافرمااوراس سے بہتر چیز عنایت فرما۔‘‘تواللہ تعالیٰ اس کواجربھی عطافرماتاہے اوربدلے میں  اس سے بہترچیزبھی عنایت کرتاہے،جب میرے شوہرابوسلمہ رضی اللہ عنہ کاانتقال ہواتومیں  نے سوچاابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون مسلمان ہوسکتاہے؟ ان کاگھران گھروں  میں  سے تھاجس نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی،پھراللہ نے میرے دل میں  ڈالااورمیں  نے وہ کلمات پڑھنے شروع کردیئے،

أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ قَدْ مَاتَ، قَالَ: قُولِی: اللهُمَّ اغْفِرْ لِی وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِی مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً

پھرمیں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اورآپ کوخبردی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ابوسلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کلمات پڑھواے اللہ مجھے بخش دے اورانہیں  بھی بخش دے اوران کے بعدمجھے بہتری عطافرما۔چنانچہ میں  نے یہ کلمات پڑھ ڈالے۔

قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِی سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ، فَأَغْمَضَهُ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ، فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ، فَقَالَ: لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَیْرٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ یُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ،ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِی سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِی الْمَهْدِیِّینَ، وَاخْلُفْهُ فِی عَقِبِهِ فِی الْغَابِرِینَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ وَافْسَحْ لَهُ فِی قَبْرِهِ وَنَوِّرْ لَهُ فِیهِ

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھرتشریف لائے ،موت کے بعدابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں  کھلی رہ گئیں  تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں  کو بند کر دیا اور فرمایاجب روح نکلتی ہے تونگاہ اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے، ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات پران کے گھروالے رونے لگے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابھلائی کی دعاکروکیونکہ فرشتے تمہاری دعاپرآمین کہتے ہیں  ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں  دعافرمائی اے اللہ! ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کوبخش دے ،ہدایت یافتہ لوگوں  میں  ان کادرجہ بلندفرما،اس نے جوپسماندگان چھوڑے ہیں  توان کاخلیفہ بن جا اے رب العالمین ہمیں  اوران کوبخش دے ،ان کی قبرکوکشادہ فرمادے ، اوراس میں  ان کے لئے روشنی کردے۔

لَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، قُلْتُ: غَرِیبٌ وَفِی أَرْضِ غُرْبَةٍ، لَأَبْكِیَنَّهُ بُكَاءً یُتَحَدَّثُ عَنْهُ ،فَكُنْتُ قَدْ تَهَیَّأْتُ لِلْبُكَاءِ عَلَیْهِ، إِذْ أَقَبَلَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الصَّعِیدِ تُرِیدُ أَنْ تُسْعِدَنِی،فَاسْتَقْبَلَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:أَتُرِیدِینَ أَنْ تُدْخِلِی الشَّیْطَانَ بَیْتًا أَخْرَجَهُ اللهُ مِنْهُ؟ مَرَّتَیْنِ،فَكَفَفْتُ عَنِ الْبُكَاءِ فَلَمْ أَبْكِ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتو میں  نے کہایہ مسافرت میں  فوت ہوگیامیں  اس پر ایسا روؤنگی کہ لوگوں  میں  اس کاخوب چرچا ہو گا،چنانچہ میں  نے رونے کی تیاری کی،مدینہ کے بالائی حصہ سے ایک عورت میراساتھ دینے کے لئے آئی،اسی اثنامیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورفرمایاکیاتوشیطان کواس گھرمیں  بلاناچاہتی ہے جس گھرسے اللہ نے اسے دو مرتبہ (قبول اسلام،ہجرت) نکالا ہے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کلمات سنکرمیں  اپنے ارادہ نوحہ وماتم سے بازآگئی اور اپنا ارادہ ترک کر دیا

قَالَتْ: أَرْسَلَ إِلَیَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَاطِبَ بْنَ أَبِی بَلْتَعَةَ یَخْطُبُنِی لَهُ،فَقُلْتُ: إِنَّ لِی بِنْتًا وَأَنَا غَیُورٌ،فَقَالَ:أَمَّا ابْنَتُهَا فَنَدْعُو اللهَ أَنْ یُغْنِیَهَا عَنْهَا، وَأَدْعُو اللهَ أَنْ یَذْهَبَ بِالْغَیْرَةِ ، فَأَخْلَفَ اللهُ لِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوپیغام نکاح بھیجا،ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عذرمیں کہامیری ایک بیٹی بھی ہے اورمیں  بہت غیوربھی ہوں (سوکنوں  کوایک دوسرے سے بہت غیرت ہوتی ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بھیجوایاکہ ہم تمہاری بیٹی کے لئے دعاکریں  گے کہ اللہ تمہیں  اس سے بے فکرکردے،اورمیں  یہ بھی دعاکروں  گاکہ تمہاری (غیرضروری)غیرت دور ہوجائے،الغرض ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کرلیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک اس وقت ۵۶سال اور ان کی عمرچوبیس سال تھی،وہ فرماتی ہیں  وہ دعاجومیں  نے پڑھی تھی اس کے اثرسے اللہ نے مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہترشوہرکی زوجیت نصیب فرمائی ۔[24]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ، أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا فَأَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ أَخَذَتْ بِثَوْبِهِ،قَالَ لَهَا:لَیْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانٌ،قَالَ:إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَكِ، وَأُسَبِّعَ لِنِسَائِی، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ، سَبَّعْتُ لِنِسَائِی،قَالَتْ: ثَلِّثْ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو نکاح کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک ان کے ہاں  رہے،جب جانے لگے توام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کادامن پکڑلیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اپنے شوہرکے نزدیک کم مرتبہ نہیں  ہو،اگرچاہوتومیں  تمہارے ہاں  سات دن رہوں  لیکن پھرمیں  دوسری بیویوں  کے پاس بھی سات سات دن رہوں  گا،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیاتین دن ہی ٹھیک ہیں ۔[25]

مہاجرین اورانصاری خواتین کاایک دوسرے پراثر

وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الأَنْصَارِفَصِحْتُ عَلَى امْرَأَتِی، فَرَاجَعَتْنِی، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِی،فَقَالَتْ: وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لیُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الیَوْمَ حَتَّى اللیْلِ، فَأَفْزَعَنِی، فَقُلْتُ: خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِیمٍ، ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَیْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الیَوْمَ حَتَّى اللیْلِ؟فَقَالَتْ: نَعَمْ

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم قریش مکہ کے لوگوں  کی( عادات جنگجوانہ تھی) اس لئے وہ عورتیں  کواپنے زیرنگین رکھتے تھے،لیکن جب ہم( مدینہ منورہ میں ہجرت کرکے) انصار (جوکھیتی باڑی کرنے والے تھے)کے یہاں  آئے توانہیں  دیکھاکہ ان کی عورتیں  خودان پرغالب تھیں  ، ہماری عورتوں  نے بھی دیکھادیکھی انصاری عورتوں  کی عادات اپنانی شروع کردیں  تاکہ وہ بھی اپنے مردوں  پرغالب رہیں ،ایک مرتبہ میں  نے کسی بات پراپنی بیوی پرغصہ ہوا اورانہیں  سخت الفاظ کہے،جواباًمیری بیوی نے بھی سخت جواب دیئے،مجھےاپنی بیوی کااس طرح جواب دینا انتہائی ناگوارگزرا،ان کی اہلیہ نے کہاتمہیں میراسخت جواب دیناکیوں  ناگوارگزراجبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں  ان کوجواب دے دیتی ہیں  اوران میں  سے بعض (روٹھ کر ) پورے دن اورپوری رات ان سے کلام نہیں  کرتیں (یہ بہت بڑی بات تھی اس لئے)اس بات سے میں  بہت گھبرایا،اورمیں  نے کہاان میں  سے جس نے بھی ایساکیاہوگاوہ بڑے نقصان اور خسارے میں  پڑگیا ،اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور(تحقیق حال کے لئے)اپنی بیٹی ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ گیا اورکہااے حفصہ رضی اللہ عنہا !کیاتم میں  سے کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے دن رات تک غصہ رہتی ہیں  ؟انہوں  نے جواب دیاہاں ،

فَقُلْتُ: خَابَتْ وَخَسِرَتْ أَفَتَأْمَنُ أَنْ یَغْضَبَ اللهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِینَ، لاَ تَسْتَكْثِرِی عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ تُرَاجِعِیهِ فِی شَیْءٍ، وَلاَ تَهْجُرِیهِ، وَاسْأَلِینِی مَا بَدَا لَكِ، وَلاَ یَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِیَ أَوْضَأَ مِنْكِ، وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – یُرِیدُ عَائِشَةَ

میں  بول اٹھاکہ پھرتو وہ تباہی اورنقصان میں  رہیں  ،کیا تمہیں  اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے (تم پر)ناراض ہوجائے اورتم ہلاک ہوجاؤ،(پھراپنی بیٹی کونصیحت کرتے ہوئے کہا)تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ چیزوں  کامطالبہ ہرگزنہ کیاکرو،اورنہ کسی معاملہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات پرالٹ کرانہیں جواب دینااورنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرخفگی کا اظہار کروالبتہ تمہیں جوکچھ ضرورت ہومجھ سے مانگ لیاکرو،اوردیکھوتم کسی خودفریبی میں  مبتلا نہ رہناکیونکہ تمہاری پڑوسن (یعنی ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا )تم سے زیادہ حسین اورنظیف ہیں  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتم سے زیادہ محبوب ہیں ،

ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِی مِنْهَا، فَكَلَّمْتُهَافَقَالَتْ لِی أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَدْ دَخَلْتَ فِی كُلِّ شَیْءٍ، حَتَّى تَبْتَغِیَ أَنْ تَدْخُلَ بَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ،قَالَ: فَأَخَذَتْنِی أَخْذًا كَسَرَتْنِی عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا

اپنی بیٹی کویہ نصیحت کرکے میں  اپنی رشتہ دار ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلاگیا اور ان سے بھی اس سلسلہ میں  گفتگوکی،ان کی باتیں  سنکرام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہااے سیدنا عمر!تم ہرمعاملہ میں  دخل دیتے ہو، کیاآپ یہ چاہتے ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی ازواج کے معاملہ میں  بھی دخل اندازی کرو،ام سلمہ رضی اللہ عنہا (جن کووہ خلوص نیت کے ساتھ بھلائی کی ہی نصیحت کررہے تھے) کاجواب سنکرمجھےبے حدصدمہ پہنچااورمیں  ان کومزیدکوئی نصیحت نہ کرسکا اورواپس چلا آیا۔[26]

خط کشیدہ الفاظ صرف صحیح مسلم میں  ہیں ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک نکاح:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ذُكِرَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنَ العَرَبِ،فَأُنْزِلَتْ فِی بَیْتٍ فِی نَخْلٍ فِی بَیْتِ أُمَیْمَةَ بِنْتِ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِیلَ، وَمَعَهَا دَایَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا، حَتَّى إِذَا انْتَهَیْنَا إِلَى حَائِطَیْنِ جَلَسْنَا بَیْنَهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اجْلِسُوا،فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمَ قَالَ: هَبِی لِی نَفْسَكِ،قَالَتْ: وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ؟قَالَتْ: إِنِّی أَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ، فَقَالَ لَهَا:لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِیمٍ، الحَقِی بِأَهْلِكِ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومشورہ دیاگیاکہ آپ عرب کی ایک عورت امیمہ بنت نعمان بن شراحیل جسے جونیہ اوردخترجون بھی کہتے تھے سے نکاح فرما لیں ،حسب مشورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے نکاح کرلیااور ابواسید رضی اللہ عنہ کوحکم فرمایاکہ وہ امیمہ کے پاس کسی کوبھیجیں  (تاکہ وہ انہیں  لے آئیں ) اسید رضی اللہ عنہ نے تعمیل فرمان کے لئے کسی کو(انہیں  مدینہ لانے کے لئے)بھیج دیا،امیمہ(اس شخص کے ساتھ)مدینہ منورہ آگئیں ان کے ساتھ ان کی دایہ جس نے ان کی پرورش کی تھی بھی آئیں ،اوروہ بنوساعدہ کی کھجوروں  کے باغ جس کانام شوط تھا میں  بنی ہوئی حویلی میں  قیام پذیرہوگئیں  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابواسید رضی اللہ عنہ وغیرہ کے ہمراہ اس کے پاس جانے کے لئے روانہ ہوئے،راستے میں  صحابہ کرام  دودیواروں  کے درمیان واقع ایک جگہ پربیٹھ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایایہیں  بیٹھے رہنا،یہ فرماکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حویلی میں  تشریف لے گئے ،دخترجون سر جھکائے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں  )بیٹھی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسے) فرمایا تم اپنانفس مجھے دیدو،وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچان نہ سکی اورکہاکیاملکہ کسی بازاری آدمی کواپنانفس دے سکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تسلی وتشفی کے لئے اپناہاتھ اس کی طرف بڑھایااس عورت نے کہامیں  تم سے اللہ کی پناہ طلب کرتی ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے بہت بڑے کی پناہ طلب کی ہے لہذامیں  نے تمہیں اپنے سے پناہ دی تم اپنے گھروالوں  کے پاس واپس چلی جاؤ،

ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَا فَقَالَ:یَا أَبَا أُسَیْدٍ، اكْسُهَا رَازِقِیَّتَیْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا،فَقَالُوا لَهَا: أَتَدْرِینَ مَنْ هَذَا؟قَالَتْ: لاَ،قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ لِیَخْطُبَكِ،قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ،فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِی سَقِیفَةِ بَنِی سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ثُمَّ قَالَ:اسْقِنَا یَا سَهْلُ،فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا القَدَحِ فَأَسْقَیْتُهُمْ فِیهِ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ القَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ

یہ فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے اور ابواسید رضی اللہ عنہ سے فرمایااس عورت کواس کے گھروالوں  کے پاس پہنچادواوراس کودوکتانی کپڑے اورکچھ سامان دیدو،(جب وہ عورت واپس جانے لگی تو)صحابہ  نے اس سے پوچھاکیاتمہیں  معلوم ہے کہ یہ کون تھے(جوتمہارے پاس آئے تھے)اس نے کہامجھے نہیں  معلوم؟صحابہ  نے کہاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جوتم منگنی کے حوالے سے بات کر رہے تھے،یہ سن کر اس نے افسوس بھرے لہجہ میں  کہاپھرتومیں  بڑی بدنصیب ہوں (کہ مجھے ام المومنین ہونے کاشرف حاصل نہ ہو سکا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ہمراہ صحابہ  نے کچھ دیر بنوساعدہ کی اس حویلی میں  قیام فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل رضی اللہ عنہ سے فرمایااے سہل رضی اللہ عنہ ہمیں  پانی پلاؤ، میں  نے ان کے لئے یہ پیالہ نکالااورانہیں  اس میں  پانی پلایا،سہل ہمارے لئے بھی وہی پیالہ نکال کرلائے اورہم نے بھی اس میں  پانی پیا۔ [27]

محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ

چاریاپانچ ہجری کاذکرہے کہ جلیل القدرصحابی طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ (یکے ازاصحاب عشرہ مبشرہ)کے گھرلڑکاپیداہوا،انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی پراس کانام محمد رکھا قَالَتْ: لَمَّا وُلِدَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ أَتَیْنَا بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:مَا سَمَّیْتُمُوهُ؟ فَقُلْنَا: مُحَمَّدًا، فَقَالَ: هَذَا اسْمِی وَكُنْیَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ

اوراسے اٹھاکرحصول برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھااس کانام کیارکھاہے؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی محمد،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اگر اس کانام میرے نام پرہے تواس کی کنیت بھی (میری کنیت پر)ابوالقاسم ہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے سرپردست شفقت پھیرااوراس کے لیے دعائے خیروبرکت فرمائی اس دعاکایہ اثرہواکہ ابوالقاسم محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ بڑے ہوکراخلاق حسنہ کاپیکرجمیل بنے۔[28]

أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ

ان کی والدہ کانام حمنہ رضی اللہ عنہا بنت جحش تھااوران کاشمارصحابیات میں  ہوتاہے[29]

صحابی باپ اورصحابیہ ماں  کی آغوش تربیت میں  پرورش پاکرمحمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ محاسن اخلاق کے اعتبارسے ایک مثالی شخصیت بن گئے،

وَكَانَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللهُ یُقَالُ لَهُ السَّجَّادُ. وَكَانَ مِنْ أَطْوَلِ النَّاسِ صَلاةً

اس کثرت سے عبادت کرتے تھے کہ لوگوں  میں  سجاد(بہت سجدے کرنے والا)کے لقب سے مشہور ہو گئے۔[30]

وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ لُقِّبَ بِالسَّجَّادِ

ارباب سیرکابیان ہےتاریخ اسلام میں  وہ پہلے شخص ہیں  جن کو سجاد کا لقب ملا[31]

نَظَرَ عُمَرُ إِلَى  عَبْدِ الْحَمِیدِ یعنی ابْنَ زید بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ اسْمُهُ مُحَمَّدًا. وَرَجُلٌ یَقُولُ لَهُ فَعَلَ اللهُ یا محمد، وفَعَلَ ، فَقَالَ له عُمَرُ:لا أَرَى مُحَمَّدًا یُسَبُّ بِكَ. وَاللهِ لا تُدْعَى مُحَمَّدًا مَا دُمْتُ حَیًّا  فَسَمَّاهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، وأَرْسَلَ إِلَى بَنِی طَلْحَةَ وَهُمْ سَبْعَةٌ، وَسَیِّدُهُمْ وكبیرهم مُحَمَّدُ لتغییر أسمائهم ،  فَقَالَ له مُحَمَّدُ: أذكرك الله یَا أَمِیرَ المؤمنین، فو الله لمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمَّانِی مُحَمَّدًا، فَقَالَ عُمَرُ: قُومُوا فَلا سَبِیلَ إِلَى تغییر شَیْءٍ سَمَّاهُ رسول الله  صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں  لکھاہےسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی زید رضی اللہ عنہ بن خطاب کے پڑوتے کانام بھی محمدتھا،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  ایک دفعہ کسی شخص نے زید رضی اللہ عنہ کے پڑوتے کوپکارکربرابھلاکہاامیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کومعلوم ہواتوان کوبلاکرفرمایا تمہارے نام کی وجہ سے اسم محمدکوسب وستم کانشانہ نہیں  بنایاجاسکتااللہ کی قسم !جب تک میں  زندہ ہوں  تمہیں  محمدکے نام سے نہیں  پکاراجائے گا، آج سے تمہارانام محمدکے بجائے عبدالرحمٰن ہے،پھرانہوں  نے طلحہ رضی اللہ عنہ کے لڑکوں  کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارااورتمہاری اولادمیں  سے جس جس کانام محمدہے اسے بدل دیاجائے،محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ خلافت میں  حاضرہوکرعرض کی،امیرالمومنین میرے نام محمدکوخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندفرمایاتھا،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایااگریہ سچ ہے توجاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندکیے ہوئے نام کو میں  نہیں  بدل سکتا ۔[32]

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ کم سن تھے اورعہدشیخین میں  ان کالڑکپن تھااس لیے کوئی خاص کارنامہ دکھانے کاموقع نہیں  ملامگرسیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  پورے جوان ہوگئے اورایک عابدشب بیدار(سجاد)کی حیثیت سے شہرت پائی ،امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مستدرک میں  لکھاہے

كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ مِنَ الزُّهَّادِ الْمُجْتَهِدِینَ فِی الْعِبَادَةِ، وَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَبَرَّكُونَ بِهِ وَبِدُعَائِهِ

محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے زہدوتقویٰ کی وجہ سے بڑے بڑے صحابہ  بھی ان سے دعائے خیروبرکت کراتے تھے۔[33]

امیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ذوالنورین کے خلاف شورش برپاہوئی اورباغیوں  نے کاشانہ خلافت کامحاصرہ کرلیاتومحمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ قریش کے ان معدودے چندجوانوں  میں  تھے جوکاشانہ خلافت کے دروازے پرکھڑے ہوکرباغیوں  کی مزاحمت کررہے تھے، اس کشمکش میں  محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ،حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ اورقنبرمولیٰ سیدناعلی رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے لیکن انہوں  نے باغیوں  کودروازے کے اندرگھسنے نہ دیاالبتہ بعض فسادی پڑوس کے مکان سے دیوارپھاندکراندرداخل ہوگئے اورامیرالمومنین رضی اللہ عنہ کوشہیدکرڈالا،سیدناعلی رضی اللہ عنہ کواس سانحہ جانگذار کا علم ہواتوانہیں  سخت صدمہ پہنچافوراًسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے مکان پرپہنچے اپنے فرزندوں  حسن رضی اللہ عنہ اورحسین رضی اللہ عنہ کومارااورمحمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوسخت سرزنش کی کہ تم لوگوں  کے یہاں  ہوتے ہوئے یہ واقعہ کیسے رونماہوا،انہوں  نے عرض کیاہم کیاکرسکتے تھے قاتل مکان کی پشت سے دیواربھاندکراندرداخل ہوئے ،دروازے سے ہم نے کسی کونہیں  آنے دیا۔

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سریرآرائے خلافت ہوئے توقصاص سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ نے زورپکڑا،اسی سلسلہ میں  جمل کی افسوسناک لڑائی پیش آئی ،ایک فریق کی قیادت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کررہی تھیں  اوردوسرے کی سیدناعلی رضی اللہ عنہ ،محمد رضی اللہ عنہ کامیلان سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی طرف تھالیکن والدگرامی طلحہ رضی اللہ عنہ کی خاطرام المومنین رضی اللہ عنہا کے لشکرمیں  شامل ہوگئے،

وَقَاتَلَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ یَوْمَ الْجَمَلِ قِتَالا شَدِیدًا فَلَمَّا لُحِمَ الأَمْرُ وَعُقِرَ الْجَمَلُ وقتل كل من أخذ بطخامة فَتَقَدَّمَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ فَأَخَذَ بِخِطَامِ الْجَمَلِ وَعَائِشَةُ عَلَیْهِ فَقَالَ لَهَا: مَا تَرَیْنَ یَا أُمَّهْ؟ قَالَتْ: أَرَى أَنْ تَكُونَ خَیْرَ بَنِی آدَمَ

محمدبن طلحہ نے جنگ جمل میں  شدیدلڑائی کی مگرجب ان کااونٹ کافی زخمی ہوگیاتو وہ اونٹ کی مہارپکڑکرام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور عرض کی اماں  جان!بیٹے کے لیے کیاارشادہوتاہے؟ام المومنین رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں  کہ وہ لڑائی میں  حصہ نہیں  لیناچاہتے توفرمایاتمہارادل مطمئن نہیں  ہے توتم خیربن آدم کاطریقہ اختیار کرو اور اپنا ہاتھ روک لو ۔[34]

قال: فأغمد سیفه، وكان قد سلّه ثم قام حتى قتل

ام المومنین رضی اللہ عنہا کاارشادسن کرمحمد رضی اللہ عنہ نے تلوارنیام میں  ڈال لی ، زرہ اتارکرزمین پربچھادی اوراس پرکھڑے ہوگئے یہاں  تک کہ قتل ہوگئے۔[35]

لَمَّا كَانَ یَوْمُ الْجَمَلِ خَرَجْتُ أَنْظُرُ فِی الْقَتْلَى، قَالَ: فَقَامَ عَلِیٌّ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَكْرٍ، وَزَیْدُ بْنُ صُوحَانَ یَدُورُونَ فِی الْقَتْلَى، قَالَ: فَأَبْصَرَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ قَتِیلًا مَكْبُوبًا عَلَى وَجْهِه فَقَلَبَهُ عَلَى قَفَاهُ ،ثُمَّ صَرَخَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ، فَرِحَ قُرَیْشٌ وَاللهِ ، فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: مَنْ هُوَ یَا بَنِی؟ قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللهِ

لڑائی کے اختتام پرامیرالمومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،حسن رضی اللہ عنہ اورعمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ ،محمدبن ابی بکراورزیدبن صاحان کوساتھ لے کراپنے مقتولین کوتلاش کرنے کے لیے میدان جنگ میں  گئے اچانک حسن رضی اللہ عنہ کی نظرایک لاش پرپڑی جومنہ کے بل زمین پرپڑی ہوئی تھی،انہوں  نے اسے سیدھاکیاتوبے اختیاران کے منہ سے اناللہ واناالیہ راجعون نکلاپھرفرمایااللہ کی قسم !یہ قریش کافرزندہے،امیرالمومنین سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے پوچھااے بیٹے کیابات ہے؟انہوں  نے کہایہ محمد رضی اللہ عنہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی لاش ہے، امیرالمومنین سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اناللہ واناالیہ راجعون اللہ کی قسم! وہ قریش کا نیک فطرت اورپاکباز جوان تھاپھرآپ سخت رنج وصدمہ کی حالت میں  لاش کے پاس بیٹھ گئے، حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والدگرامی سے مخاطب ہو کر کہا میں  آپ کواس لڑائی سے روکتاتھالیکن آپ نے فلاں  فلاں  کامشورہ قبول کیا،اس کے جواب میں  سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایااب توجوکچھ ہوناتھاہوچکاکاش میں  آج سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ [36]

 غزوہ بنی نضیر( ربیع الاول چار ہجری، اگست۶۲۵ء)

فَكَتَبَتْ كُفَّارُ قُرَیْشٍ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِلَى الْیَهُودِ: إِنَّكُمْ أَهْلُ الْحَلْقَةِ وَالْحُصُونِ، وَإِنَّكُمْ لَتُقَاتِلُنَّ صَاحِبَنَا، أَوْ لَنَفْعَلَنَّ كَذَا وَكَذَا، وَلَا یَحُولُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ خَدَمِ نِسَائِكُمْ شَیْءٌ، وَهِیَ الْخَلَاخِیل، فَلَمَّا بَلَغَ كِتَابُهُمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَجْمَعَتْ بَنُو النَّضِیرِ بِالْغَدْرِ

غزوہ بدرمیں  شکست کھانے کے بعدقریش نے یہودیوں کوپھرایک خط لکھاکہ تم لوگ مدینہ منورہ میں اسلحہ اورقلعوں  کے مالک ہو،تم لوگ یاتولازماًہمارے آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ کروورنہ ہم تمہارے ساتھ ایسااورایساکریں  اورپھرہمارے اورتمہاری عورتوں  کی پازیبوں  کے درمیان کوئی حائل نہ ہوسکے گا(یعنی ہم مردوں  کوقتل کردیں  گے اورعورتوں  کولونڈیاں  بنالیں  گے)جب ان کے لکھے کی خبرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئی تواس اثنامیں  بنونضیرنے بھی معاہدہ امن وبھائی چارہ کوختم کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکروفریب کاارادہ کر لیا ۔[37]

اللہ تعالیٰ نے بنونضیرکوآخری تنبیہ کے طورپرسورۂ النساء کی آیات نازل فرمائیں ۔

سورۂ النساء آیات۴۴تا۵۹

‏ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِّنَ الْكِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَیُرِیدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِیلَ ‎﴿٤٤﴾‏وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَلِیًّا وَكَفَىٰ بِاللَّهِ نَصِیرًا ‎﴿٤٥﴾‏ مِّنَ الَّذِینَ هَادُوا یُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّینِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٤٦﴾(النساء)
’’کیا تم نے نہیں دیکھا؟جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہےوہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونا کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کا مددگار ہونا بس ہے، بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے، اور ہماری رعایت کر! (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں، اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرماں برداری کی آپ سنیے ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لیے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر سے انہیں لعنت کی ہے پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔‘‘

یہودیوں  کی ایک خصلت :اللہ تعالیٰ نے یہودکی مذمت میں  فرمایااے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !تم نے ان لوگوں  کوبھی دیکھاجنہیں  کتاب کے علم کاکچھ حصہ دیاگیاہے؟مگراس کے باوجودوہ ہدایت پرگمراہی کو،ایمان پرکفرکواورسعادت پرشقاوت کوترجیح دیتے ہیں  اوران کی شدیدخواہش ہے کہ مسلمان بھی اللہ کی نازل کردہ جلیل القدر کتاب قرآن مجید کو چھوڑکر راہ راست سے بھٹک جائیں ، اللہ تمہارے دشمنوں  کوخوب جانتاہے اس لئے وہ تمہیں  ان سے چوکناکررہاہےاورتمہاری حمایت ومددگاری کے لیے اللہ ہی کافی ہے، یعنی وہ اپنے مومن بندوں  کوان کے دشمنوں  کے خلاف مددعطافرماتاہے،جولوگ یہودی بن گئے ہیں  یعنی ابتدامیں یہ مسلمان تھے پھریہودی بن گئے،ان میں  کچھ لوگ ہیں جو مسلمانوں  کے متعلق غلط فہمیاں  پھیلانے اورانہیں  بدنام کرنے کے لئے کتاب اللہ کے کلمات کوان کے مقامات سےبدل دیتے ہیں  اوراپنی تاویلات سے خلاف منشائے الٰہی تفسیرکرتے ہیں  اورجب انہیں  اللہ کے احکام سنائے جاتے ہیں  توزوردارآوازمیں  کہتے ہیں  اے پیغمبرہم نے سن لیامگرساتھ ہی اپنے کفروعنادمیں  آہستہ سے کہہ دیتے ہیں ہم اطاعت نہیں  کریں  گے،اوردوران گفتگومیں  جب وہ کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہناچاہتے ہیں  توتمسخرانہ لحجہ میں کہتے ہیں  ’’سنئے‘‘ اورساتھ ہی ذومعنی لفظ کہتے ہیں تم اس قابل نہیں  ہوکہ تمہیں  کوئی بات سنائی جائے اورَکہتے ہیں  ہماری طرف توجہ فرمایئےمگراس سے یہ مرادلیتے کہ تم بڑی رعونت والے ہوحالانکہ اگروہ کہتےہم نے سنااورہم آپ کی اطاعت کریں  گے  تویہ انہی کے لیے بہترتھااورزیادہ راستبازی کا طریقہ تھا،مگران پرتوان کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکارپڑی ہوئی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ،یہودی کی فطرت ہمیشہ ہی شرپسندرہی ہے ،خوداپنے ابنیاء کے ساتھ ان کابرتاؤاچھانہیں  رہاتواورکسی کی کیاحقیقت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں  یہودیوں  نے کوئی کسراٹھانہیں  رکھی تھی یہاں  تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت دعائیہ کلمات السلام علیکم کی جگہ زبان کوتوڑموڑکرالسام علیک کہہ ڈالتے یعنی تم پرموت آئے،

أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ الیَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَیْكُمْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ: وَعَلَیْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَهْلًا یَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الأَمْرِ كُلِّهِ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قُلْتُ: وَعَلَیْكُمْ

ایسے ہی ایک موقعہ پرام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی موجودتھیں  کہ چندیہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورالسام علیک (تم پرموت آئے)عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ میں  ان کامفہوم سمجھ گئی اورمیں  نے جواب دیاتمہیں  موت آئے اورلعنت ہو،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا ٹھیرو!اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں  نرمی اورملائمت کوپسندکرتاہے،میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے سنانہیں  کہ انہوں  نے کیا کہا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں  نے اس کاجواب دے دیا تھا وعلیکم(یعنی میں  نے کوئی برالفظ زبان سے نہیں  نکالاصرف ان کی بات ان ہی پرلوٹادی)۔[38]

چنانچہ حق کوجاننے کے باوجود یہ یہودیوں  کاکفروعنادہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والے یہودیوں  کی تعداددس تک بھی نہیں  پہنچتی۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ‎﴿٤٧﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن یَشَاءُ ۚ وَمَن یُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِیمًا ‎﴿٤٨﴾‏(النساء)
’’ اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے، اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کر پیٹھ کی طرف کردیں، یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی، اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا گیا، یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب یہودونصاریٰ کوتنبیہ کرتے ہوئے فرمایااے وہ لوگوجنہیں  کتاب دی گئی تھی!اس جلیل القدر کتاب قرآن مجید پرایمان لے آؤ جوہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیامت تک کے لئے نازل فرمائی ہے اس سے قبل کہ تمہارے ایمان نہ لانے کے سبب ہم تمہارے چہرے بگاڑکرپیچھے پھیردیں ،کعب رضی اللہ عنہ اسی آیت کوسن کرایمان لے آئے،

قَالَ: كَانَ أَبُو مُسْلِمٍ الْجَلِیلِیُّ مُعَلِّمَ كَعْبٍ، وَكَانَ یَلُومُهُ فِی إِبْطَائِهِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَبَعَثَهُ إِلَیْهِ ینظر أَهْوَ هُوَ؟ قَالَ كَعْبٌ: فَرَكِبْتُ حَتَّى أَتَیْتُ الْمَدِینَةَ فَإِذَا تَالٍ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ یَقُولُ:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نزلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا، فَبَادَرْتُ الْمَاءَ فَاغْتَسَلْتُ وَإِنِّی لَأَمْسَحُ وَجْهِی مَخَافَةَ أَنْ أُطْمَسَ ثُمَّ أَسْلَمْتُ

روایت ہےکعب رضی اللہ عنہ کے استادابومسلم جلیلی ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہونے میں  دیرلگانے کی وجہ سے ہروقت انہیں  ملامت کرتے رہتے تھے ،پھرانہیں  مدینہ منورہ بھیجاکہ جاکردیکھیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی پیغمبرہیں  جن کی خوشخبری اوراوصاف تورات میں  لکھی ہوئی ہے؟کعب رضی اللہ عنہ آئے توفرماتے ہیں  جب میں  مدینہ منورہ پہنچا توایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کررہاتھااے اہل کتاب! ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے پاس موجودکتاب کی تصدیق کرتی ہے بہترہے کہ اس پراس سے پہلےایمان لے آؤکہ ہم تمہارے چہرے بگاڑدیں  اورانہیں  الٹاکردیں ۔میں  چونک اٹھااورجلدی جلدی غسل کرنے بیٹھ گیا اور اپنے چہرے پرہاتھ پھیرتاجاتاتھاکہ کہیں  مجھے ایمان لانے میں  دیرنہ لگ جائے اور میراچہرہ بگڑنہ جائےپھرمیں  بہت جلدمسلمان ہوگیا۔[39]

عَنْ عِیسَى بْنِ الْمُغِیرَةِ قَالَ: تَذَاكَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِیمَ إِسْلَامَ كَعْبٍ، فَقَالَ: أَسْلَمَ كَعْبٌ زَمَانَ عُمَرَ، أَقْبَلَ وَهُوَ یُرِیدُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَمَرَّ عَلَى الْمَدِینَةِ، فَخَرَجَ إِلَیْهِ عُمَرُ فَقَالَ: یَا كَعْبُ، أَسْلِمْ، قَالَ: أَلَسْتُمْ تَقْرَؤُونَ فِی كِتَابِكُمْ {مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ [ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا، وَأَنَا قَدْ حَمَلْتُ التَّوْرَاةَ قَالَ: فَتَرَكَهُ عُمَرُ

اورایک روایت اس طرح ہے عیسیٰ بن مغیرہ سے روایت ہےہم نے ابراہیم کے پاس کعب کے اسلام لانے کاذکرکیاتوانہوں  نے بیان کیاکہ کعب نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  اسلام قبول کیاتھاان کاارادہ بیت المقدس جانے کاتھامگرراستے میں  جب مدینہ سے گزرے،توسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اورانہوں  نے فرمایاکعب!مسلمان ہوجاؤتوانہوں  نے کہاکیاتم نے اپنی کتاب میں  یہ نہیں  پڑھا جن لوگوں  پرتورات(کے علم وفضل ) کابارڈالاگیاتھاپھرانہوں  نے اس کابارنہ اٹھایا،ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جوبڑی بڑی کتابیں  اٹھائے ہوئے ہو۔ اورمجھے بھی تورات کاحامل قراردیاگیاہےتوسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں  چھوڑدیا،

ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى حِمْصَ ، فَسَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِهَا حَزِینًا، وَهُوَ یَقُولُ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نزلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا} الْآیَةَ،قَالَ كَعْبٌ: یَا رَبُّ آمَنْتُ یَا رَبُّ، أَسْلَمْتُ مَخَافَةَ أَنْ تُصِیبَهُ هَذِهِ الْآیَةُ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَتَى أَهْلَهُ فِی الْیَمَنِ ثمَّ جَاءَ بهم مُسلمین

پھرکعب چلے گئے حتی کہ حمص پہنچ گئے،تووہاں  انہوں  نے سناکہ ایک شخص بہت دردانگیزلہجے میں  پڑھ رہاتھا’’اے وہ لوگوجنہیں  کتاب دی گئی تھی!مان لواس کتاب کوجوہم نے اب نازل کی ہے اورجواس کتاب کی تصدیق وتائیدکرتی ہے جوتمہارے پاس پہلے سے موجودتھی،اس پرایمان لے آؤقبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑکرپیچھے پھیردیں  یاان کواسی طرح لعنت زدہ کردیں  جس طرح سبت والوں  کے ساتھ ہم نے کیاتھا۔‘‘کعب نے اس آیت کریمہ کوسناتوپکااٹھے اے میرے رب !میں  ایمان لے آیا، اےمیرے رب!میں  اسلام قبول کرتاہوں تاکہ ایسانہ ہوکہ میں  اس آیت کامصداق بن جاؤں ،وہاں  سے یہ اپنے اہل خانہ کے پاس یمن آگئے،اوران سب کومدینہ لے آئے اوران سب لوگوں  نے اسلام قبول کرلیاتھا۔[40]

یاان کواسی طرح لعنت زدہ کردیں  جس طرح سبت والوں  کے ساتھ ہم نے کیاتھا،جیسے ایک مقام پر فرمایا

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕیْنَ۝۶۵ۚ [41]

ترجمہ:پھر تمہیں  اپنی قوم کے ان لوگوں  کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں  نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں  کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں  رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔

اور اس جلیل القدرکتاب کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ یہ تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب تورات اور انجیل کی تصدیق وتائیدکرتی ہے ، یادرکھوبعض کتابوں  پرایمان کادعویٰ اوربعض پرایمان نہ رکھنامحض باطل دعویٰ ہے جس کی صداقت کاہرگزامکان نہیں  ہے،اوریادرکھوکہ اللہ کاحکم نافذہوکررہتاہے،کوئی شخص اسے روکنے کی جرأت نہیں  کرسکتاجیسے متعدد مقامات پرفرمایا

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷ [42]

ترجمہ:وہ آسمانوں  اور زمین کا موجِد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ [43]

ترجمہ:(رہا اس کا امکان تو) ہمیں  کسی چیز کو وجود میں  لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں  ہوتا کہ اسے حکم دیں  ہو جاؤ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

مَا كَانَ لِلهِ اَنْ یَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ۝۰ۙ سُبْحٰــنَهٗ۝۰ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۳۵ۭ [44]

ترجمہ:اللہ کا یہ کام نہیں  کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ذات ہے وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [45]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

هُوَالَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ۝۰ۚ فَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَـقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۶۸ۧ [46]

ترجمہ:وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی موت دینے والا ہےوہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔

جس نے مخلوق میں  سے کسی کواللہ رب العزت کی ذات،صفات،حقوق اوراختیارات میں  شریک ٹھہرایااس کواللہ معاف نہیں  کرتااس کے ماسوا دوسرے جس قدرگناہ ہیں  جس کے لیے اس کی حکمت مقتضی ہوتی ہے معاف کردیتاہے، اللہ کے ساتھ جس نے کسی اورکو اپنے قول وفعل سےشریک ٹھہرایااس نے توبہت ہی بڑاجھوٹ تصنیف کیا اوربڑے سخت گناہ کی بات کی،جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَیَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳ [47]

ترجمہ:یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا ! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔

اورمشرک پراللہ تعالیٰ نےجنت کوحرام کردیاہے،

 اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲ [48]

ترجمہ:جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں  کا کوئی مدد گار نہیں ۔

شرک جس کولوگوں  نے بہت معمولی چیزسمجھ رکھاہے تمام گناہوں  سے بڑاہے،اس لئے شرک کی مذمت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے شماراحادیث ہیں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَیْسٍ الْجُهَنِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ: الشِّرْكَ بِاللَّهِ

عبداللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب گناہوں  سے بڑاگناہ اللہ کے ساتھ شرک کرناہے۔[49]

أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: یَا عَبْدِی، مَا عَبَدْتَنِی وَرَجَوْتَنِی، فَإِنِّی غَافِرٌ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِیكَ، وَیَا عَبْدِی إِنْ لَقِیتَنِی بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِیئَةً، مَا لَمْ تُشْرِكْ بِی، لَقِیتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے اے میرے بندے!توجب تک میری عبادت کرتارہے گااورمجھ سے اچھاگمان رکھے گامیں  بھی تیری جتنی خطائیں  ہیں  انہیں  معاف کرتاہوں  گا،اےمیرے بندے!اگرتوساری زمین بھرکی خطائیں  بھی لے کرمیرے پاس آئے تومیں  بھی زمین کی وسعتوں  جتنی مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں  گا بشرطیکہ تونے میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیرایا ہو ۔[50]

حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْهِ ثَوْبٌ أَبْیَضُ، فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَیْتُهُ أُحَدِّثُهُ، فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَیْتُهُ وَقَدْ اسْتَیْقَظَ فَجَلَسْتُ إِلَیْهِ، فَقَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ فِی الرَّابِعَةِ:عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِی ذَرٍّ قَالَ: فَخَرَجَ أَبُو ذَرٍّ یَجُرُّ إِزَارَهُ وَهُوَ یَقُولُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِی ذَرٍّ. قَالَ: فَكَانَ أَبُو ذَرٍّ یُحَدِّثُ بِهَذَا بَعْدُ، وَیَقُولُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِی ذَرٍّ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا انہوں  نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے ،وہاں  پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سور رہے تھے،دوبارہ حاضر ہوا تب بھی سو رہے تھے، تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ چکے تھے چنانچہ میں  ان کے پاس بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی لاالٰہ الااللہ کا اقرار کرے اور اسی اقرار پر دنیا سے رخصت ہو تو وہ جنت میں  داخل ہوگا،میں  نے عرض کی اگرچہ اس نے زناکیا اور چوری کی ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خواہ اس نے زنا اور چوری کی ہو،میں  نے عرض کی خواہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خواہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین مرتبہ ارشادفرمایا، پھرچوتھی مرتبہ یہ بھی فرمایاکہ ابوزر رضی اللہ عنہ کی ناک خاک آلود ہونے کے باوجودوہ جنت میں جائے گا، ابوذر رضی اللہ عنہ یہ سن کر چادر گھیسٹتے ہوئے یہی جملہ دہراتے ہوئے نکل گئے  اور جب بھی یہی حدیث بیان کرتے تو یہ جملہ ضرور دہراتے اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے۔[51]

عَنْ جَابِرٍ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْمُوجِبَتَانِ؟ قَالَ:مَنْ مَاتَ لَا یُشْرِكُ بِاللَّهِ شَیْئًا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ مَاتَ یُشْرِكُ بِاللَّهِ شَیْئًا وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ

اورجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا اور عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !واجب کردینے والی دوچیزیں  کیاہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص بغیرشرک کئے مرے گااس کے لئے جنت واجب ہے اورجوشرک کرتے ہوئے فوت ہوااس کے لئے جہنم واجب ہے۔[52]

عَنْ جَابِرٍ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَزَالُ الْمَغْفِرَةُ عَلَى الْعَبْدِ مَا لَمْ یَقَعِ الْحِجَابُ. قِیلَ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، وَمَا الْحِجَابُ؟ قَالَ:الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ. قَالَ:مَا مِنْ نَفْسٍ تَلْقَى اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَیْئًا إِلَّا حَلَّتْ لَهَا الْمَغْفِرَةُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى، إِنْ یَشَأْ أَنْ یُعَذِّبَهَا، وَإِنْ یَشَأْ أَنْ یَغْفِرَ لَهَا غَفَرَ لَهَا. ثُمَّ قَرَأَ نَبِیُّ اللَّهِ: {إِنَّ اللَّهَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ یَشَاءُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندے پرہمیشہ اللہ کی مغفرت رہتی ہے جب تک کہ پردے نہ پڑجائیں ، عرض کیاگیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! پردے پڑجاناکیاہے؟فرمایااللہ کے ساتھ شرک کرنا،جوشخص شرک نہ کرتاہواوروہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لئے بخشش ومغفرت حلال ہوگئی،اگرچاہے توعذاب دے اوراگرچاہے توبخشش فرما دے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ’’ اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں  کرتا اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں  وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔‘‘ کی تلاوت فرمائی ۔[53]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نُمْسِكُ عَنِ الاسْتِغْفَارِ لأَهْلِ الْكَبَائِرِ حَتَّى سَمِعْنَا نَبِیَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:{إِنَّ اللَّهَ لا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ یَشَاءُ}۔،[54] وَقَالَ: أَخَّرْتُ شَفَاعَتِی لأَهْلِ الْكَبَائِرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم کبیرہ گناہوں  کے مرتکب لوگوں  کے لیے استغفارنہیں  کیاکرتے تھےحتی کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ آیت سنی ’’اللہ بس شرک ہی کومعاف نہیں  کرتااس کے ماسوادوسرے جس قدرگناہ ہیں  وہ جس کے لیے چاہتاہے معاف کردیتاہے۔‘‘نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  نے اپنی شفاعت کوموخرکردیاہے کہ وہ قیامت کے دن (میری امت میں  سے)کبیرہ گناہوں  کے مرتکب لوگوں  کے لیے ہوگی۔[55]

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:كَانَ رَجُلَانِ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ مُتَوَاخِیَیْنِ، فَكَانَ أَحَدُهُمَا یُذْنِبُ، وَالْآخَرُ مُجْتَهِدٌ فِی الْعِبَادَةِ، فَكَانَ لَا یَزَالُ الْمُجْتَهِدُ یَرَى الْآخَرَ عَلَى الذَّنْبِ فَیَقُولُ: أَقْصِرْ، فَوَجَدَهُ یَوْمًا عَلَى ذَنْبٍ فَقَالَ لَهُ: أَقْصِرْ، فَقَالَ: خَلِّنِی وَرَبِّی أَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیبًا؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا یَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ، أَوْ لَا یُدْخِلُكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، فَقَبَضَ أَرْوَاحَهُمَا، فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِینَ فَقَالَ لِهَذَا الْمُجْتَهِدِ: أَكُنْتَ بِی عَالِمًا، أَوْ كُنْتَ عَلَى مَا فِی یَدِی قَادِرًا؟ وَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِی، وَقَالَ لِلْآخَرِ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى النَّارِقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَوْبَقَتْ دُنْیَاهُ وَآخِرَتَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھے بنواسرائیل میں  دوآدمی آپس میں  بھائی بنے ہوئے تھےایک گناہوں  میں  ملوث تھا جب کہ دوسراعبادت میں  کوشاں  رہتاتھا، عبادت میں  راغب جب بھی دوسرے کوگناہ میں  دیکھتاتواسے کہتاکہ بازآجا، آخرایک دن اس نے دوسرے کوگناہ میں  پایا تو اسے کہاکہ بازآجا،اس نے کہامجھے رہنے دے میرامعاملہ میرے رب کے ساتھ ہے کیا تو مجھ پرکوئی چوکیدار بناکر بھیجاگیاہے؟تواس نے کہااللہ کی قسم !اللہ تجھے معاف نہیں  کرے گایاتجھے جنت میں  داخل نہیں  کرے گا،چنانچہ وہ دونوں  فوت ہوگئے اوررب العالمین کے ہاں  جمع ہوئے تواللہ نے عبادت میں  کوشش کرنے والے سے فرمایا کیا تو میرے متعلق (زیادہ) جاننے والا تھایاجومیرے ہاتھ میں  ہے تجھے اس پرقدرت حاصل تھی ؟اورپھرگناہ گارسے فرمایا جا میری رحمت سے جنت میں  داخل ہوجا اور دوسرے کے متعلق فرمایااسے جہنم میں  لے جاؤ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے !اس نے ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ کر کے رکھ دی۔[56]

یعنی نیکی ، خیر، امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے مبارک اعمال میں  مشغول افرادکوحدسے تجاوزنہیں  کرنا چاہیے،نیزانہیں  اپنے اعمال خیرپرکسی طرح دھوکانہیں  کھاناچاہیے کہ وہ یقیناً جنت میں  چلے جائیں  گے اورگناہ گارمسلمانوں  کے متعلق یہ وہم نہیں  ہوناچاہیے کہ اللہ انہیں  معاف نہیں  کرے گایاوہ جنت میں  نہیں  جائیں  گے ،اللہ عزوجل کامیزان عدل بڑا دقیق اورعجیب ہے ،اللہ عزوجل نے جوبھی فیصلے فرمائے اور جوفرمائے گاوہ عدل ہی پرمبنی ہیں  اورکوئی نہیں  جواس سے پوچھ سکے اوروہ ہرایک سے پوچھ سکتا ہے ، جیسافرمایا

لَا یُسْــَٔـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْــَٔــلُوْنَ۝۲۳ [57]

ترجمہ:وہ اپنے کاموں  کے لیے (کسی کے آگے) جواب دِہ نہیں  ہے اور سب جواب دہ ہیں ۔

جنت سراسر اللہ عزوجل کافضل اوراس کی عنایت ہے ، نیکیوں  کا بدل یاقیمت نہیں ،نیکیاں  صرف بندگی کااظہارہیں  بندہ اظہار بندگی میں  جس قدرآگے بڑھے گا امیدکرنی چاہیے کہ اسی قدرزیادہ فضل وعنایت کامستحق ٹھہرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ڈرتے بھی رہناچاہیے کہ کہیں  یہ سب کچھ نامقبول نہ ہوجائے۔جیسے فرمایا

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [58]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دو کہ اے میرے بندوجنہوں  نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ یُزَكُّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ اللَّهُ یُزَكِّی مَن یَشَاءُ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا ‎﴿٤٩﴾‏ انظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَكَفَىٰ بِهِ إِثْمًا مُّبِینًا ‎﴿٥٠﴾(النساء)
’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے، کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائے گا ، دیکھو یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں اور یہ (حرکت) گناہ ہونے کے لیے کافی ہے ۔‘‘

یہودونصاریٰ اپنےبارے میں  بڑی خوش گمانیوں  میں  مبتلاتھے اوربڑے بڑے دعویٰ کرتے تھے۔

وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ۔۔۔ ۝۱۸ [59]

ترجمہ:یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں  کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔

وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۔۔۔ ۝۱۱۱ [60]

ترجمہ:ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں  نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں  کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو۔

۔۔۔قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۔۔۔۝۰۝۲۴ [61]

ترجمہ: وہ کہتے ہیں آتشِ دوزخ تو ہمیں  مس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز ۔

مگریہ ان کامجرددعویٰ ہے جس پرکوئی دلیل نہیں  ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

بَلٰی۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلهِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۱۱۲ۧ [62]

ترجمہ:دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے نہ کسی اور کی ،حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں  سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے ، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں  کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں  ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودونصاریٰ کوزجروتوبیخ کرتے ہوئے فرمایاتم نے ان لوگوں  کوبھی دیکھاجوبہت اپنی پاکیزگی نفس کادم بھرتے ہیں  حالانکہ اللہ ہی جسے چاہتاہے ایمان وعمل صالحہ کے ساتھ ،اخلاق رذیلہ ترک کرنے اوراخلاق حسنہ کواختیارکرنے کی بناپرپاکیزگی عطاکرتاہےکیونکہ تمام چیزوں  کی حقیقت اوراصلیت کاعالم وہی ہے،اوراللہ تعالیٰ نےان کی سرکشی اوربغض وعنادکے سبب ان کوان خصوصیات سے محروم کرکے کھجورکی گھٹلی کے ساتھ لگےہوے باریک دھاگے برابربھی ظلم نہیں  کیا،دیکھوتوسہی انہوں  نے اپنے نفوس کی پاکیزگی کادعویٰ کرکے اللہ تعالیٰ پرافتراپردازی کی ہے اور ان کے صریحا گناہ گارہونے کے لیے یہی ایک گناہ کافی ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِّنَ الْكِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلًا ‎﴿٥١﴾‏أُولَٰئِكَ الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَمَن یَلْعَنِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِیرًا ‎﴿٥٢﴾‏ (النساء)
’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا ہے ؟ جو بت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ لعنت کر دے تو اس کا کوئی مددگار نہ پائے گا ۔‘‘

عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ: جَاءَ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ وَكَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالُوا لَهُمْ: أَنْتُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ وَأَهْلُ الْعِلْمِ، فَأَخْبِرُونَا عَنَّا وَعَنْ مُحَمَّدٍ، فَقَالُوا: مَا أَنْتُمْ وَمَا مُحَمَّدٌ. فَقَالُوا: نَحْنُ نَصِلُ الْأَرْحَامَ، وَنَنْحَرُ الْكَوْمَاءَ، وَنَسْقِی الْمَاءَ عَلَى اللَّبَنِ، وَنَفُكُّ الْعُنَاةَ، وَنَسْقِی الْحَجِیجَ -وَمُحَمَّدٌ صُنْبُورٌ، قَطَّعَ أَرْحَامَنَا، وَاتَّبَعَهُ سُرَّاقُ الْحَجِیجِ بَنُو غِفَارٍ، فَنَحْنُ خَیْرٌ أَمْ هُوَ؟ فَقَالُوا: أَنْتُمْ خَیْرٌ وَأَهْدَى سَبِیلًا. فَأَنْزَلَ اللَّهُ {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ [الْكِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ كَفَرُوا هَؤُلاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلا

عکرمہ سے روایت ہے حی بن اخطب اورکعب بن اشرف مکہ والوں  کے پاس آئے تواہل مکہ نے ان سے کہاتم اہل کتاب اورصاحب علم ہوبھلابتلاؤتوہم بہترہیں  یامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )انہوں  نے کہاتم کیاہو؟اوروہ کیاہیں ؟اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں ،تیاراونٹنیاں  ذبح کرکے دوسروں  کوکھلاتے ہیں  ،لسی پلاتے ہیں ،غلاموں  کوآزادکرتے ہیں ،حاجیوں  کوپانی پلاتے ہیں  اورمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو صنبور ہیں ،ہمارے رشتے ناطے تڑوادیئے،ان کاساتھ حاجیوں  کے چوروں  نے دیاجوقبیلہ غفارمیں  سے ہیں  ،اب بتاؤہم اچھے یاوہ؟ توان دونوں  نے کہاتم بہترہواورتم زیادہ سیدھے راستے پرہو،اس پریہ آیت’’کیا تم نے ان لوگوں  کو نہیں  دیکھا جنہیں  کتاب کے علم میں  سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جِبْت اور طاغوت کو مانتے ہیں  اور کافروں  کے متعلق کہتے ہیں  کہ ایمان لانے والوں  سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی۔[63]

اللہ تعالیٰ نے یہودیوں  کے ایک اورفعل پرتعجب کااظہاکیاکہ یہ لوگ اہل کتاب ہونے کے باوجودجبت اور طاغوت پرایمان رکھتے ہیں اورکفارمکہ جوبے شماردیوی ،دیوتاؤں  کی پرستش کرتے ہیں ،جوطیبات کوحرام اورخبائث کوحلال ٹھہراتے ہیں ،جوبہت سی محرمات کاجائزقراردیتے ہیں  ،اللہ اوراس کے رسول اوراس کی منزل کتابوں  کے ساتھ کفرکرتے ہیں  ایمان سے حسدوبغض اورعناد کی وجہ سے مسلمانوں  پرترجیح اورافضلیت دیتے ہیں ،ایسے ہی لوگ ہیں  جن کواللہ نے اپنی رحمت سے دورکردیاہے اورجسے اللہ دھتکاردے تواس کی کون سرپرستی کرسکتاہے ۔

طاغوت کے لغوی معنی شیطان کے ہیں ،امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے طاغوت کے بارے میں  مفسرین کے پانچ اقوال نقل کیے ہیں  ،

قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: وَالطَّاغُوتُ: الشَّیْطَانُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ ،مجاہد رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ نے’’طاغوت‘‘ کے معنیٰ شیطان کے بیان کیے ہیں ۔[64]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ,وَالطَّاغُوتُ: الْكَاهِنُ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ نے’’ طاغوت‘‘ سے مراد کاہن کہا ہے۔[65]

عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ , أَنَّهُ قَالَ: الطَّاغُوتُ: السَّاحِرُ

ابوالعالیہ نےبتایاکہ’’ طاغوت‘‘ کامعنی ساحر ہے ۔[66]

بعض مفسرین اصنام بت بیان کرتے ہیں ۔

فقال عكرمة: هما صنمان كان المشركون یعبدونهما من دون الله

عکرمہ کہتے ہیں  اس سے مرادبت ہیں  جنہیں  مشرکین اللہ تعالیٰ کوچھوڑکرپرستش کرتے تھے۔[67]

اس سے سرکش جن اورانسان،نیزہروہ شخص جوحدسے گزرجائے مرادہے۔

وَأَمَّا الطَّاغُوتُ فَهُوَ مَأْخُوذٌ مِنَ الطُّغْیَانِ، وَهُوَ الْإِسْرَافُ فِی الْمَعْصِیَةِ، فَكُلُّ مَنْ دَعَا إِلَى الْمَعَاصِی الْكِبَارِ لَزِمَهُ هَذَا الِاسْمُ، ثُمَّ تَوَسَّعُوا فِی هَذَا الِاسْمِ حَتَّى أَوْقَعُوهُ عَلَى الْجَمَادِ

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تحقیق اس باب میں  یہ ہے کہ چونکہ ان سب اشیاء سے اتصال کے وقت طغیان کاحصول ہوا،اس لیے یہ سب چیزیں  اسباب طغیان قراردے دی گئیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں  جواقوال بھی بیان کیے گئے ہیں  وہ تعین کے لیے نہیں  بلکہ تمثیل کے طورپرہیں  ،طاغوت اپنے عموم کے اعتبارسے ہرمعصیت میں  حدسے گزرجانے والے نیزہراس معبودکے لیے کہ جس کی حق تعالیٰ کے سواپرستش کی جائے استعمال ہوتاہے اوراسی اعتبارسے ساحر،کاہن،سرکش جن اورخیرکے راستہ سے روکنے والے کوطاغوت سے موسوم کیاجاتاہے ۔

أَنْ یُقَالَ: یُصَدِّقُونَ بِمَعْبُودَیْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ یَعْبُدُونَهُمَا مِنْ دُونِ اللَّهِ , وَیَتَّخِذُونَهُمَا إِلَهَیْنِ. وَذَلِكَ أَنَّ الْجِبْتَ وَالطَّاغُوتَ اسْمَانِ لِكُلِّ مُعَظَّمٍ بِعِبَادَةٍ مِنْ دُونِ اللَّهِ , أَوْ طَاعَةٍ أَوْ خُضُوعٍ لَهُ , كَائِنًا مَا كَانَ ذَلِكَ الْمُعَظَّمَ مِنْ حَجَرٍ أَوْ إِنْسَانٍ أَوْ شَیْطَان

چنانچہ طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک طاغوت کے بارے میں  صحیح بات یہی ہے کہ جوبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں  حدسے متجاوزہواورپھرحق تعالیٰ کو چھوڑکراسے پوجابھی جائے وہ طاغوت ہے ،خواہ اس کوپوجتاہواس پراس کادباؤہوخواہ پوجنے والے کی اپنی مرضی ہواورخواہ وہ معبودانسان ہویاشیطان،پتھرہویاکچھ بھی کیوں  نہ ہو۔[68]

أطلقت على الشیطان أو الشیاطین، لكونها مصدرا وفیها مبالغات، وهی التسمیة بالمصدر

الزمخشری جار الله رحمہ اللہ تفسیرسورۂ الزمرمیں فرماتے ہیں یہ لفظ شیطان یاشیاطین کیلئے استعمال کیاگیاہے کیونکہ یہ مصدرہے اوراس میں  کئی مبالغے ہیں ۔[69]

قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ قد تمیز الإیمان من الكفر

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کاقول ہے ایمان کفرسے اورحق وباطل سے ظاہر و ممتاز ہوگیا۔[70]

فَمَنْ یَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ}یعنی بالشیطان، وَقِیلَ: كُلُّ مَا عُبِدَ مِنْ دُونِ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ طَاغُوتٌ، وقیل: مَا یُطغی الْإِنْسَانَ فَاعُولٌ

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اب جو کوئی طاغوت کا انکارکرے۔‘‘طاغوت سے مرادشیطان ہے اورکہاگیاکہ اللہ کے سواجس چیزکی عبادت کی جائے اسے طاغوت کہتے ہیں ، اورکہاگیاکہ جوانسان کو(اللہ تعالیٰ کی)سرکشی پرابھارے طاغوت ہے۔[71]

وَقَالَ الْإِمَامُ مَالِكٌ: الطَّاغُوتُ: هُوَ كُلُّ مَا یُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس سے مرادہروہ چیزہے جس کی عبادت اللہ عزوجل کے سواکی جائے طاغوت ہے۔[72]

أَمْ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَّا یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیرًا ‎﴿٥٣﴾‏ أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَیْنَا آلَ إِبْرَاهِیمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَیْنَاهُم مُّلْكًا عَظِیمًا ‎﴿٥٤﴾‏ فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ بِهِ وَمِنْهُم مَّن صَدَّ عَنْهُ ۚ وَكَفَىٰ بِجَهَنَّمَ سَعِیرًا ‎﴿٥٥﴾(النساء)
’’کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے ؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں، یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے، پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے،پھر ان میں سے بعض نے تواس کتاب کو مانا اور بعض اس سے رک گئے، اور جہنم کا جلانا کافی ہے۔ ‘‘

یہودیوں  کابخل اورحسد: اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیاان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں  دوسرے لوگ حصہ داربنناچاہتے ہیں ؟ایساہرگزنہیں  ہےاگراقتدارمیں  ان کاکوئی حصہ ہوتایاانہیں  کچھ بھی تصرف واختیارحاصل ہوتاتویہ دوسروں  کوایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے، جیسےفرمایا

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْـیَةَ الْاِنْفَاقِ۔۔۔۝۰۝۱۰۰ۧ [73]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو ! اگر کہیں  میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں  ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روکے رکھتے۔

پھرکیایہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لیے حسدکرتے ہیں  کہ اللہ نے بنی اسرائیل کوچھوڑکربنی اسماعیل میں  سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فضل سے منصب نبوت سے نواز دیا ؟ اگریہ بات ہے توانہیں  معلوم ہونا چاہیےکہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی اولادکوکتاب اورحکمت عطاکی تھی اوردنیاکی امامت ورہنمائی اوراقوام عالم پرقائدانہ اقتدار بھی بخش دیا تھا، مگراس کے باوجودبنی اسرائیل کے سارے لوگ اس پرایمان نہیں  لائے، بلکہ ان میں  سے کوئی اس پرایمان لایااورکوئی اس سے اعراض کرگیا،اورلوگوں  کوبھی اس سے روکنے کی کوشش کی،

عَنْ مُجَاهِدٍ:فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ قَالَ: بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ مِنْ یَهُودَ وَمِنْهُمْ مَنْ صَدَّ عَنْهُ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’مگر ان میں  سے کوئی اس پر ایمان لایا ۔‘‘ سے مرادیہ ہےان میں  سے کوئی تواس پرایمان لایاجومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کیاگیاہے اورکوئی اس سے رکا اور ہٹارہا ۔[74]

اللہ تعالیٰ نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایااورمنکرین نبوت یہودونصاریٰ اوردیگراقسام کے کفار کے لیے توبس جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے۔

‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَیْرَهَا لِیَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِیزًا حَكِیمًا ‎﴿٥٦﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِیهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیلًا ‎﴿٥٧﴾‏ ۞ إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا یَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا ‎﴿٥٨﴾(النساء)
’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے، جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے،اور جو لوگ ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے لیے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے، اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے۔ ‘‘

رسولوں  اوران پرمنزل کتابوں  کے ساتھ کفرکرنے والوں  کی سزا:اہل کتاب یہودونصاریٰ اوردیگرتمام کفارجن لوگوں  نے ہماری آیات کوماننے سے انکارکردیاہے انہیں  بالیقین ہم آگ میں  جھونکیں  گے، اورجہنم کے عذاب کی سختی ،تسلسل اوردوام کابیان فرمایاکہ وہ ایسی آگ ہوگی جوان کے تمام جسموں  اورتمام اجزاکوچاروں  طرف سے گھیرلے گی،پھر جب ان کے بدن کی کھال گل (اورجل)جائیں  گی تواس کی جگہ فوراً دوسری کھال پیداکردیں  گے تاکہ وہ خوب عذاب کامزاچکھیں ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ:كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَیْرَهَا، قَالَ:إِذَا احْتَرَقَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا بِیضًا أَمْثَالَ الْقَرَاطِیسِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کاآیت کریمہ’’اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں  گے۔‘‘ کے بارے میں قول ہے جب ان کی کھالیں  جل جائیں  گی توانہیں  کاغذکی طرح سفیدکھالیں  دے دی جائیں  گی ۔[75]

عَنِ الْحَسَنِ، قَوْلَهُ: كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُوداً غَیْرَهَا قَالَ:تُنْضِجُهُمْ فِی الْیَوْمِ سَبْعِینَ أَلْفَ مَرَّةٍ، قَالَ حُسَیْنٌ: وَزَادَ فِیهِ فُضَیْلُ بْنُ هِشَامٍ عَنِ الْحَسَنِ: كُلَّمَا أَنْضَجَتْهُمْ وَأَكَلَتْ لُحُومَهُمْ، قِیلَ لَهُمْ: عُودُوا، فَعَادُوا.

اورحسن بصری رحمہ اللہ کاآیت کریمہ’’اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں  گے ۔‘‘ کے بارے میں قول ہے  کہ ایک دن میں  ان کی کھالیں  سترہزارمرتبہ گھل اورجل جائیں  گی،اورحسین نے بیان کی ہے کہ فضیل نے ہشام سے اورانہوں  نے حسن بصری رحمہ اللہ سے جوروایت بیان کی ہے اس میں  یہ ذکربھی ہے کہ جب ان کی کھالیں  جل جائیں  گیاورجہنم کی آگ ان کے گوشت کوکھالے گی توان سے کہاجائے گاکہ پھراپنی اسی پہلی حالت پرلوٹ آؤ تووہ لوٹ آئیں  گی۔[76]

اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں  کوعمل میں  لانے کی حکمت خوب جانتاہے،کفارکے مقابلے میں  اہل ایمان کی ابدی نعمتیں  کاذکرفرمایاکہ جن لوگوں  نے ہماری آیات کوخلوص نیت سےمان لیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیارکیے ،ان کوہم ایسے باغوں  میں  داخل کریں  گے جن کے تمام اطراف واکناف میں  نہریں  رواں  دواں  ہوں  گی ،وہ جہاں  چاہیں  گے رہیں  گے اورجوخواہش کریں  گے وہ ان کومہیاکردی جائے گی ، وہ ان میں  ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے، اور ان کوپاکیزہ بیویاں  ملیں  گی جو حیض،نفاس،بول وبراز،گھٹیااخلاق اوربری باتوں  سے پاک ہوں  گی،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلَهُ:لَهُمْ فِیهَا أَزْوَاجٌ مَطْهَرَةٌ، یَقُولُ: مَطْهَرَةٌ مِنَ الْقَذَرِ وَالْأَذَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’ اور ان کو پاکیزہ بیویاں  ملیں  گی۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں  وہ نجاستوں  اوربول وبرازسے پاک ہوں  گی۔[77]

 عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِهِ:أَزْوَاجٌ مَطْهَرَةٌ،قَالَ: مَطْهَرَةٌ مِنَ الْحَیْضِ وَالْبَوْلِ وَالنِّخَامِ وَالْبُزَاقِ وَالْمَنِیِّ وَالْوَلَدِ

اورمجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ پاکیزہ بیویاں ۔ کے بارے میں  فرماتے ہیں  وہ بول ،حیض،بلغم،تھوک،منی اوربچہ پیداکرنے سے پاک ہوں  گی۔[78]

اورانہیں  ہم جنت کے درختوں  کی گھنی چھاؤں  میں  رکھیں  گے یعنی راحت وآرام میں  رکھیں  گے،جیسے فرمایا

وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ [79]

ترجمہ:اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں ۔

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ لَشَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ یَقْطَعُهَا

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں  ایک درخت ہے جس کے سائے میں  ایک سوارسوسال تک چل سکتاہے اورپھربھی اس کوطے نہ کرسکے گا۔[80]

یعنی جنت اوراس کی نعمتیں محض خواب وخیال نہیں  بلکہ ایک مجسم حقیقت ہے۔کیونکہ بنی اسرائیل نے اپنے زمانہ انحطاط میں  امانتیں  یعنی ذمہ داری کے منصب اورمذہبی پیشوائی اورقومی سرداری کے مرتبے ایسے لوگوں  کودینے شروع کردیئے جونااہل ،کم ظرف ،بداخلاق ،بددیانت اور بدکار تھے جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ایسے بدکردارلوگوں  کی قیادت میں  پوری قوم ہی خراب ہوتی چلی گئی ،چنانچہ مسلمانوں  کوہدایت فرمائی کہ تم بنی اسرائیل کی طرح نہ کرنابلکہ امانتیں  ان لوگوں  کے سپردکرناجواس کے اہل ہوں  یعنی جن میں  بار امانت اٹھانے کی صلاحیت ہو،

اِنَّ اللهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۔۔۔[81]

ترجمہ:مسلمانوں  ! اللہ تمہیں  حکم دیتا ہے کہ امانتیں  اہل امانت کے سپرد کرو۔

اس آیت کے نزول کے بارے میں روایت ہے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ بِمَكَّةَ وَاطْمَأَنَّ النَّاسُ، خَرَجَ حَتَّى جَاءَ الْبَیْتَ، فَطَافَ بِهِ سَبْعًا عَلَى رَاحِلَتِهِ، یَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ فِی یَدِهِ، فَلَمَّا قَضَى طَوَافَهُ، دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ، فَأَخْذَ مِنْهُ مِفْتَاحَ الْكَعْبَةِ فَأَتَاهُ بِهِ، فَلَمَّا بَسَطَ یَدَهُ إِلَیْهِ قَامَ الْعَبَّاسُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، اجْمَعْهُ لِی مَعَ السِّقَایَةِ،فَكَفَّ عُثْمَانُ یده،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرِنِی الْمِفْتَاحَ یَا عُثْمَانُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَا عُثْمَانُ، إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَهَاتِنِی الْمِفْتَاحَ  فَقَالَ: هَاكَ بِأَمَانَةِ اللهِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح فرمایااوراطمینان اورسکون کے ساتھ بیت اللہ میں  تشریف لائے تواپنی اونٹنی پرسوارہوکرطواف کیااور حجراسود کو اپنی چھڑی سے چھوتے تھے،اس کے بعدعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کوجوبیت اللہ کے کنجی بردارتھے بلایااوران سے کعبہ کی کنجی طلب کی،انہوں  نے دیناچاہی کہ اتنے میں  عباس  رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں  باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقربان ہوں  اب یہ کنجی مجھے سونپ دیں  تاکہ میراگھرانے میں  زمزم کاپانی پلانااوربیت اللہ کی کنجی رکھنادونوں  ہی اعزاز رہیں ، عباس  رضی اللہ عنہ کی گزارش سن کرعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپناہاتھ روک لیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ کنجی طلب کی ،پھردوبارہ وہی واقعہ ہوا، پھر تیسری بارآپ نے کنجی طلب فرمائی توعثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کرکنجی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی، میں  اللہ کی امانت آپ کے سپرد کرتاہوں ،

فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَفَتَحَ بَابَ الْكَعْبَةِ، فَوَجْدَ فِی الْكَعْبَةِ تِمْثَالَ إِبْرَاهِیمَ مَعَهُ قِدَاحٌ یُسْتَقْسَمُ بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا لِلْمُشْرِكِینَ قَاتَلَهُمُ اللهُ. وَمَا شأن إبراهیم وشأن القداح. ثم دعا بحفنة فِیهَا مَاءٌ فَأَخَذَ مَاءً فَغَمَسَهُ فِیهِ، ثُمَّ غَمَسَ بِهِ تِلْكَ التَّمَاثِیلَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا دروازہ کھول کراندرتشریف لے گئے اوراندرجتنے بت اورتصویریں  تھیں  سب توڑکرباہرپھینک دیئے،ان میں  ابراہیم علیہ السلام کی تصویربھی تھی جس کے ہاتھ میں  فال کے تیرتھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ ان مشرکین کوغارت کرے خلیل اللہ کاان تیروں  سے کوئی سروکار نہیں  ، ان تمام چیزوں  کانام ونشان مٹاکراوران کی جگہ پانی ڈال کرآپ باہرتشریف لائے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، أَلَا كُلُّ مَأْثُرَةٍ أَوْ دَمٍ أَوْ مَالٍ یُدْعَى، فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ إِلَّا سِدَانَةَ الْبَیْتِ وَسِقَایَةَ الْحَاجِّ، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَامَ إِلَیْهِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَمِفْتَاحُ الْكَعْبَةِ فِی یَدِهِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، اجْمَعْ لَنَا الْحِجَابَةَ مَعَ السِّقَایَةِ،، صَلَّى اللهُ عَلَیْكَ

اورکعبہ کے دروازے پرکھڑے ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے سواکوئی معبودنہیں  ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں ،اس نے اپنے وعدے کوسچاکردکھایااوراپنے بندے کی مددکی اورتمام لشکروں  کواسی اکیلے نے شکست سے دوچارکیا، جاہلیت کے تمام جھگڑے خواہ مالی ہوں  یاجانی اب میرے پاؤں  تلے کچل دیئے گئے،بیت اللہ کی چوکیداری اورحاجیوں  کوپانی پلانے کامنصب پہلے کی طرح برقراررہے گا،خطبہ ارشادفرماکرآپ بیٹھے ہی تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نےآگے بڑھ کرعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بیت اللہ کی کنجی مجھے عنایت فرمادیں  تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری اورحاجیوں  کوزمزم پلانے کامنصب دونوں  یکجاہوجائیں  لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  کنجی نہیں  دی،

وَأَخْرَجَ مَقَامَ إِبْرَاهِیمَ، وَكَانَ فِی الْكَعْبَةِ فَأَلْزَقَهُ فِی حَائِطِ الْكَعْبَةِ ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، هَذِهِ الْقِبْلَةُ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ شَوْطًا أَوْ شَوْطَیْنِ ثُمَّ نَزَلَ عَلَیْهِ جِبْرِیلُ، فِیمَا ذُكِرَ لَنَا بِرَدِّ الْمِفْتَاحِ، فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ یَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآیَةِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمقام ابراہیم کوبیت اللہ کے اندرسے نکال کرکعبہ کی دیوارکے ساتھ ملاکررکھ دیااورلوگوں  سے کہہ دیاکہ تمہاراقبلہ یہی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں  مشغول ہوگئے ابھی چندطواف ہی کئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت’’مسلمانوں  ! اللہ تمہیں  حکم دیتا ہے کہ امانتیں  اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘ کی تلاوت شروع کردی،

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْكَعْبَةِ، وَهُوَ یَتْلُو هَذِهِ الْآیَةَ: فِدَاهُ أَبِی وَأُمِّی، مَا سَمِعْتُهُ یَتْلُوهَا قَبْلَ ذَلِكَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیْنَ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ؟ فَدُعِیَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ:هَاكَ مِفْتَاحَكَ یَا عُثْمَانُ، الْیَوْمُ یَوْمُ وَفَاءٍ وَبِرٍّ

اس پرسیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں  باپ آپ پرفداہوں  اس سے پہلے میں  نے آپ کواس آیت کی تلاوت کرتے نہیں  سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایااورانہیں  بیت اللہ کی کنجی سونپ کرفرمایاآج کادن وفا،نیکی اورسلوک کادن ہے۔[82]

فَقَالَ الْقُرَشِیُّ: حَدَّثَنِی أَبِی، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ

مکہ کے ایک شخص سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ جوشخص تمہارے پاس امانت رکھے تواس کی امانت کواداکردواورجوتم سے خیانت کرے توتم اس سے خیانت نہ کرو۔[83]

جوشخص کسی کی امانت دنیامیں  ادانہیں  کرتاتواسے آخرت میں  اداکرناہوگا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، حَتَّى یُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ، مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحق والوں  کے حقوق ضروراداکیے جائیں  گے حتی کہ بے سینگ بکری کاسینگوں  والی بکری سے حق لیاجائے گا۔[84]

دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ انصاف کی روح سے خالی ہوگئے تھے، وہ شخصی اورقومی اغراض کے لئے بے تکلف ایمان نگل جاتے تھے،صریح ہٹ دھرمی برتتے اورانصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں  انہیں  ذراتامل نہ ہوتاتھا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو عدل وانصاف کاحکم فرمایاکہ جب لوگوں  کے درمیان فیصلہ کروتوچاہئے مقدمات دیوانی ہوں  یافوجداری یا چادراورچاردیواری کے ہوں  عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرو،

عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَوْلَهُ: {وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ}قَالَ: نَزَلَتْ فِی الْأُمَرَاءِ خَاصَّةً

شہربن حوشب نے کہاہے کہ یہ آیت کریمہ’’ اور جب لوگوں  کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘امراء یعنی حکام کے بارے میں  نازل ہوئی ہے ۔[85]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ مَعَ الْقَاضِی مَا لَمْ یَجُرْ، فَإِذَا جَارَ وَكَلَهُ إِلَى نَفْسِهِ

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہوتاہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرےجب اس نے ظلم کیاتواللہ اس کوچھوڑدیتاہے اوراس کواس کے نفس کے سپردکردیتاہے۔[86]

اللہ تم کونہایت عمدہ نصیحت مرتاہے اوریقیناًاللہ تمہارے سب اقوال واعمال سنتااوردیکھتاہے،اس سے کوئی چیزچھپی ہوئی نہیں  ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا ‎﴿٥٩﴾‏(النساء)
اے ایمان والو ! فرماں  برداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرماں  برداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں  سے اختیار والوں  کی، پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤاللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں  اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اطاعت کرواللہ کی،کیونکہ اصل اطاعت تواللہ تعالیٰ ہی کی ہےجیسافرمایا

۔۔۔اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔۔۔[87]

ترجمہ:خبردار رہو ! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔

 ۔۔۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلهِ۔۔۔ ۝۴۰ [88]

ترجمہ:فرما نروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں  ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول کوبھی واجب الاطاعت قراردیاہے اس لئے فرمایااوررسول کی اطاعت کرو،جیسے فرمایا

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔۔۔ ۝۸۰ۭ [89]

ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔

مَا من أحد إِلَّا وَهُوَ مَأْخُوذ من كَلَامه ومردود عَلَیْهِ إِلَّا رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے سواکوئی شخص (پیداہی)نہیں  ہواجس کی ہربات صحیح تسلیم کرلی جائے۔[90]

اوران لوگوں  کی اطاعت کروجوتم میں  سے صاحب اختیارہوں ،مگریہ اطاعت مستقل نہیں  ان کی اطاعت اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ وہ قرآن وحدیث کے مطابق احکام دیں  لیکن اگروہ اس کے خلاف حکم دیں  توان کی اطاعت لازم نہیں ،

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَرِیَّةً فَاسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ یُطِیعُوهُ، فَغَضِبَ، فَقَالَ: أَلَیْسَ أَمَرَكُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِیعُونِی؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَاجْمَعُوا لِی حَطَبًا، فَجَمَعُوا، فَقَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا، فَأَوْقَدُوهَا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَهَمُّوا وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ یُمْسِكُ بَعْضًا، وَیَقُولُونَ: فَرَرْنَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ، فَمَا زَالُوا حَتَّى خَمَدَتِ النَّارُ، فَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، الطَّاعَةُ فِی المَعْرُوفِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصرلشکرروانہ کیااوراس کاامیرایک انصاری صحابی (عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ ) کو بنایااورلشکریوں  کوحکم دیاکہ سب اپنے امیرکی اطاعت کریں ،پھرامیرکسی وجہ سے ناراض ہوگئے اوراپنے فوجیوں  سے پوچھاکہ کیاتمہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کرنے کاحکم نہیں  فرمایاہے؟سب نے کہاہاں  فرمایا ہے،انہوں  نے کہاپھرتم سب لکڑیاں  جمع کروانہوں  نے لکڑیاں  جمع کیں  توامیرنے حکم دیاکہ اس میں  آگ لگاؤاورانہوں  نے آگ لگادی،اب انہوں  نے حکم دیاکہ سب اس میں  کودجاؤ،فوجی کودجاناہی چاہتے تھے کہ انہیں  میں  سے بعض نے بعض کوروکااورکہاکہ ہم تواس آگ کے خوف سےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں ان باتوں  میں  وقت گزرگیااورآگ بھی بجھ گئی اس کے بعد امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا،جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگریہ لوگ اس میں  کودجاتے توپھرقیامت تک اس میں  سے نہ نکلتے اطاعت کاحکم صرف نیک کاموں  کے لئے ہے ۔[91]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِیَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان پرواجب ہے کہ (تمام احکام)سنے اورمانے ،خواہ اسے پسندآئیں  یاناپسندہوں جب تک اسے نافرمانی کاحکم نہ دیا جائے،جب معصیت کاحکم دیاجائے تونہ سنناہے اورنہ اطاعت ہے۔[92]

عَنِ النَّوَّاسِ بنِ سَمْعَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیةِ الخَالِقِ

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخالق کی معصیت میں  کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ۔[93]

عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ،قَالَ: بَایَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِی مَنْشَطنا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا، وأثَرَةٍ عَلَیْنَا، وَأَلَّا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ. قَالَ:إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحا، عِنْدَكُمْ فِیهِ مِنَ اللهِ بُرْهَانٌ

اورعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جن باتوں  کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہدلیاتھاان میں  یہ بھی تھاکہ خوشی وناگواری ،تنگی اورکشادگی اوراپنی حق تلفی میں  بھی اطاعت وفرمانبرداری کریں  اوریہ بھی کہ حکمرانوں  کے ساتھ حکومت کے بارے میں  اس وقت تک جھگڑانہ کریں  جب تک ان کواعلانیہ کفرکرتے نہ دیکھ لیں  اگروہ اعلانیہ کفرکریں  توتم کواللہ کے پاس دلیل مل جائے گی۔[94]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ، كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِیبَةٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت بجالاؤخواہ تمہاراامیراس طرح کاکوئی حبشی غلام ہی کیوں  نہ ہو جس کاسرمنقے جیساہو۔[95]

عَبْدًا حَبَشِیًّا مُجَدَّعًا

اورایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں خواہ وہ اعضاء کٹاہواحبشی غلام ہی کیوں  نہ ہو[96]

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ عَصَى أَمِیرِی فَقَدْ عَصَانِی

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجس نے میری اطاعت کی توتحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی اورجس نے میری نافرمانی کی توتحقیق اس نے اللہ کی نافرمانی کی،اورجس نے میرے امیرکی اطاعت کی توگویااس نے میری اطاعت کی اورجس نے میرے امیرکی نافرمانی کی توگویااس نے میری نافرمانی کی۔[97]

کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پردین کی بنیادقائم ہے ان دونوں  کوحجت تسلیم کیے بغیرایمان درست نہیں  ،اس لئےتنازعات ختم کرنے کے لئے ایک بہترین اصول فرمایاپھراگرتمہارے اورصاحب اختیاریاعلماوفقہاکے درمیان کسی معاملہ میں  نزاع ہوجائے تواسے اللہ یعنی اللہ کی طرف سے منزل کتاب قرآن مجیدجوکتاب آئین ہے اوررسول یعنی حدیث رسول کی طرف پھیردو،

۔۔۔فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ۔۔۔[98]

ترجمہ:پھراگرتم کسی چیزمیں  جھگڑپڑو۔

کی تفسیرمیں  حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

وَهَذَا أَمْرٌ مِنَ اللَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ، بِأَنَّ كُلَّ شَیْءٍ تَنَازَعَ النَّاسُ فِیهِ مِنْ أُصُولِ الدِّینِ وَفُرُوعِهِ أَنْ یَرُدَّ التَّنَازُعَ فِی ذَلِكَ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، كَمَا قَالَ تَعَالَى:{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیهِ مِنْ شَیْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ

ہاں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل واضح حکم ہے کہ اگرلوگوں  کاکسی مسئلہ میں  اختلاف ہوجائے خواہ اس کاتعلق دین کے اصول سے ہویافروع سے ،انہیں  چاہیے کہ اس سلسلہ میں  قرآن وسنت کوفیصل بنائیں  جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے’’اورجس بات میں  تمہارے درمیان اختلاف رونماہوجائے اس کافیصلہ اللہ کے سپردکردو۔‘‘[99]

عَنْ مُجَاهِدٍ , فِی قَوْلِهِ:فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ،قَالَ:كِتَابُ اللهِ وَسُنَّةُ نَبِیِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ اس آیت کریمہ’’ تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو ۔‘‘کے معنی یہ ہیں  کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرو۔[100]

اگرتم واقعی اللہ اورروزآخرپرایمان رکھتے ہواورخلوص نیت سے معاملہ حل کرنا چاہتے ہو ، پس ثابت ہواکہ جوشخص اختلافی مسائل کاتصفیہ کتاب وسنت کی طرف نہ لے جائے وہ اللہ اورقیامت پرایمان نہیں  رکھتا،معاملہ کوحل کرنے کے لئےیہی طریق کارسب سے زیادہ عدل وانصاف کاحامل اورلوگوں  کے دین ودنیااورعاقبت کی بھلائی کے لئے سب سے اچھافیصلہ ہے،

یَقُول: إِذا صَحَّ الحَدِیث فَهُوَ مذهبی

اس لئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایاجب صحیح حدیث مل جائے تووہی میرامذہب ہے۔[101]

بنونضیربھی چونکہ بنی عامرکے حلیف تھے اس لئے معاہدے کی روسے( کہ اگرریاست کوخوں  بہااداکرناپڑے تومسلمان اوریہودی مل کریہ رقم اداکریں  گے) دیت کاکچھ حصہ جوبنونضیرکے ذمہ بھی واجب الادا تھا، بنونضیراوربنوقریظہ مدینہ کے بیرونی حصہ میں  اپنے باغوں  اورقلعوں  میں  آبادتھے ،جب یہودمدینہ آئے تھے توپہلے نشیبی حصہ میں  آباد ہوئے تھے مگریہاں  کی آب وہواانہیں  موافق نہ آئی توبلندحصے پرجاکر بنونضیربطحان میں  اور بنو قریظہ مہرورمیں  جاکرآبادہوگئے ،یہ دونوں  زرخیز وادیاں  تھیں  اوراردگرد پتھروں  کوپھاڑکر میٹھے پانی کے چشمے جاری تھے ،چنانچہ بنونضیرنے یہاں  باغات اورقلعے بنالئے اوران میں  رہنے لگے ،ان کی آبادی مدینہ منورہ سے دویاتین میل کے فاصلے پرتھی اوریہ مدینہ کے قریب کھجوروں  کے باغات کے بھی مالک تھے،

فَسَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى بَنِی النّضِیرِ یَسْتَعِینُ فِی دِیَتِهِمَا، وَكَانَتْ بَنُو النّضِیرِ حُلَفَاءَ لِبَنِی عَامِرٍ. فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ السّبْتِ فَصَلّى فِی مَسْجِدِ قُبَاءٍ وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ، ثُمّ جَاءَ بَنِی النّضِیرِ فَیَجِدُهُمْ فِی نَادِیهِمْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَكَلّمَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أن یُعِینُوهُ فِی دِیَةِ الْكِلَابِیّیْنِ اللّذَیْنِ قَتَلَهُمَا عَمْرُو بْنُ أُمَیّةَ

بہرحال ہفتہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو(جن میں  سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب،سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،زبیربن العوام رضی اللہ عنہ ،طلحہ رضی اللہ عنہ ،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ،سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ ،اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ اورسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ شامل تھے ) لیکربنوکلاب کے دو آدمیوں  کی دیت میں (جنہیں  عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے غلطی سے قتل کردیاتھا) اعانت اورامدادلینے کے لئے بنونضیرکے پاس تشریف لے گئے ، مسجدقبامیں  نمازادافرمائی ،نماز کے بعدآپ بنونضیرکے پاس آئے اورایک دیواریا مکان کے سائے میں  بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مدددینے کے لئے کہا

فَقَالُوا: نَفْعَلُ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا أَحْبَبْت وخلا بعضهم ببعض وهموا بالغدر بِهِ،فَقَالَ عَمْرُو بْنُ جَحّاشٍ: أَنَا أَظْهَرُ عَلَى الْبَیْتِ فَأَطْرَحُ عَلَیْهِ صَخْرَةً قَالَ سَلّامُ بْنُ مِشْكَمٍ: یَا قَوْمِ، أَطِیعُونِی هَذِهِ الْمَرّةَ وَخَالِفُونِی الدّهْرَ! وَاَللهِ إنْ فَعَلْتُمْ لَیُخْبَرَنّ بِأَنّا قَدْ غَدَرْنَا بِهِ، وَإِنّ هَذَا نَقْضُ الْعَهْدِ الّذِی بَیْنَنَا وبینه

اس پرانہوں  نے خندہ پیشانی سے جواب دیا اے ابوالقاسم !جس طرح آپ چاہتے ہیں  ہم اسی طرح آپ کی مددکریں  گےمگرشیطان ان پرغالب آگیاچنانچہ وہ علیحدہ ہو کرایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کا) ایسابے نظیرموقع پھرنہیں  آئے گا،کون ہے جواس مکان کے اوپر جا کراس چکی کے بھاری پاٹ کوگراکراسے قتل کر دے ،تاکہ ہمیں  ہمیشہ کے لئے اس سے نجات مل جائے ؟ایک بدبخت عمروبن جحاش بن کعب بن لسبیل نضری نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیااورکہامیں  مکان پرچڑھ جاؤں  گااورآپ پرایک پتھرڈھلکادوں  گا،سلام بن مشکم نے مخالفت کرتے ہوئے کہااے میری قوم کے لوگو!جوکچھ کہاجارہاہے اس کی اطاعت کرواورگردش زمانہ سے خوف کھاؤ ،اللہ کی قسم!اگرتم ایساکروگے تو اس کارب اس کوتمہارے ارادوں  کی خبرکردے گااورتمہارے پاس اس سلسلہ میں  کوئی عذرنہیں  ہوگااوریہ اس عہدکے خلاف بھی ہے جو ہمارے اوران کے درمیان ہوچکاہے۔[102]

مگرشیطان نے ان کی آنکھوں  پرپٹی باندھ رکھی تھی اس لئے انہوں  نے اس مشورہ کوقبل التفات نہ سمجھااوراپنے عزم بدپرقائم رہے،

وَجَاءَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، فَقَامَ كَأَنَّهُ یُرِیدُ حَاجَةً

اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہودیوں  کے ناپاک ارادوں  کی خبرپہنچادی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا ًکسی ضرورت کاظاہرکرکے وہاں  سے اٹھ کرتیزتیزچل کرمدینہ منورہ روانہ ہوگئے ۔[103]

جبکہ صحابہ کرام ؓ وہیں  بیٹھے رہے، یہودیوں  کوجب آپ کے چلے جانے کاعلم ہواتوبہت نادم ہوئے،

 فَقَالَ لَهُمْ كِنَانَةُ بْنُ صُوَیْرَاءَ : هَلْ تَدْرُونَ لِمَ قَامَ مُحَمّدٌ؟ وَاَللهِ قَدْ أُخْبِرَ مُحَمّدٌ مَا هَمَمْتُمْ بِهِ مِنْ الْغَدْر وَاَللهِ إنّهُ لَرَسُولُ اللهِ

ان میں  سے ایک یہودی کنانةبن حویرانے کہاتم کو معلوم نہیں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیوں  اٹھ کرچکے گئے ؟اللہ کی قسم ان کوتمہاری غداری کاعلم ہوگیا ہے،بخداوہ اللہ کے رسول ہیں ۔[104]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی میں  بہت دیرہوگئی تو صحابہ  بھی اٹھ کر مدینہ چلے آئے،

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللهِ،: قُمْت وَلَمْ نَشْعُرْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَمّتْ الْیَهُودُ بِالْغَدْرِ بِی، فَأَخْبَرَنِی اللهُ بِذَلِكَ فَقُمْت

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی جب وہ آپ کے پاس پہنچے توکہنے لگے آپ جلدی سے وہاں  سے اٹھ گئے اورہم کچھ نہ سمجھ سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہودنے غداری کاارادہ کیاہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی خبردی اس لئے میں  اٹھ کھڑاہوا۔[105]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرماکرمدینہ تشریف لائے تھے توآپ نے یہودیوں  کے دوسرے قبائل کی طرح بنونضیرسے بھی ایک معاہدہ کیاتھا،جس کی بنیادی شرط یہ تھی کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی معاندانہ کاروائی نہ کریں  گے اورنہ ایک دوسرے کے دشمنوں  کی امدادکریں  گے ،

وَقِسْمٌ حَارَبُوهُ وَنَصَبُوا لَهُ الْعَدَاوَةَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے ان سے مصالحت کی تھی اس بات پرکہ نہ وہ آپ سے جنگ کریں  گے اورنہ آپ کے خلاف آپ کے دشمنوں  کی اعانت کریں  گے۔[106]

یہ معاہدہ فوری طورپرتوطے پاگیامگراپنی فطرت کے مطابق یہودی زیادہ عرصہ تک اس پرقائم نہ رہے سکےاس کی چندوجوہات تھیں ۔

ہرطرح کی روکاوٹوں  اورسازشوں  کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین رفتہ رفتہ چاروں  طرف پھیل رہی تھی حتی کہ خودیہودیوں  کے چندبڑے عالموں  کے علاوہ بے شمارلوگ اس دعوت کو قبول کرکے دائرہ اسلام میں  داخل ہوچکے تھےاوریہ بات یہودیوں  کے لیے پریشان کن تھی۔

مدینہ طیبہ کے دونوں  طاقتوارقبائل اوس وخزرج کوباہم لڑائے رکھنے میں  یہودیوں  کا مفادتھا،دونوں  قبائل اپنی لڑائی میں  یہودیوں  کوفراموش کرچکے تھے مگراب وہ لوگ اسلام کے جھنڈے تلے متحدہورہے تھے اوریہ بات یہودکے لیے بجائے خودایک خطرہ تھا۔

یہودیوں  کی آمدن کاایک بڑاذریعہ سودتھا،اسلام سے پہلے وہ اوس وخزرج کوآپس میں  لڑاتے تھے اورمالی ضروریات کے لیے دونوں  قبائل ان سے سودپررقم لیتے تھے مگران دونوں  قبائل کے متحد ہونے سے یہودیوں  کاسودی کاروبار ٹھپ ہوکررہ گیاتھا۔

ان وجوہات کی بناپریہودیوں  نے مسلمانوں  کے خلاف سازشیں  شروع کردیں  اورمعاہدے کی کھلم کھلاخلاف ورزی کاآغازکردیا۔

اس معاہدہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان ان کی طرف سے مطمئن ہوگئے تھے اوران سے دوستانہ میل جول شروع کردیاتھا،لیکن شرائط کے بالکل خلاف وہ کفار قریش سے سازبازکرتے رہے اورچپکے چپکے ان کومسلمانوں  کے متعلق خفیہ اطلاعات فراہم کرنے لگے،

مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ فِی الْمَغَازِی قَالَ كَانَتِ النَّضِیرُ قَدْ دَسُّوا إِلَى قُرَیْشٍ وَحَضُّوهُمْ عَلَى قِتَالِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں  لکھاہے بنی نضیرقریش سے سازشیں  کرتے تھے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ پرابھارتے تھے اورانہیں  خفیہ خبریں  دیتے تھے۔ [107]

انہوں  نے اس پربھی بس نہ کیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی بھی متعددمرتبہ کوشش کی۔

فَأَرْسَلُوا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ إِلَیْنَا فِی ثَلَاثَةٍ مِنْ أَصْحَابِكَ وَیَلْقَاكَ ثَلَاثَةٌ مِنْ عُلَمَائِنَا فَإِنْ آمَنُوا بِكَ اتَّبَعْنَاكَ فَفَعَلَ فَاشْتَمَلَ الْیَهُودُ الثَّلَاثَةُ عَلَى الْخَنَاجِرِ فَأَرْسَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ إِلَى أَخٍ لَهَا مِنَ الْأَنْصَارِ مُسْلِمٍ تُخْبِرُهُ بِأَمْرِ بَنِی النَّضِیرِ فَأَخْبَرَ أَخُوهَا النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَیْهِمْ فَرَجَعَ وَصَبَّحَهُمْ

ایک مرتبہ آپ کوکہلابھیجاکہ آپ اپنے ساتھ تین آدمی لیکرآئیں  اورہم بھی اپنے تین عالم بھیجتے ہیں ،ایک درمیانی مقام پران سے بحث ومباحثہ کریں  اگرآپ ان پراپنے دین کی حقانیت ثابت کردیں (حالانکہ یہودآپ کواچھی طرح جانتے تھے کہ آپ اللہ کے آخری رسول ہیں  جن کے وہ منتظرتھے ،اوریہ کتاب اللہ کاکلام ہے ) توہم آپ پرایمان لے آئیں  گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعوت کومنظورفرمالیا،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین صحابہ رضی اللہ عنہم کوساتھ لے کرچلے اوروہ بھی تین کولے کرچلے مگروہ اسلحہ بندتھے اوران کاخفیہ پروگرام یہ تھاکہ یوں  دھوکے سے آپ کوقتل کردیں  گے،مگر خود بنونضیرکی ایک خیرخواہ عورت نے اپنے مسلمان بھائی کوپیغام بھیجا کہ یہودی تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کاارادہ رکھتے ہیں ،تووہ انصاری جلدی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہواقبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مجلس میں  پہنچیں ، توآپ نے اس ملاقات سے انکار کردیا۔[108]

اب پیمانہ صبرلبریزہوچکاتھا،مسلسل بدعہدیوں  اورسازشوں  کے باعث اندیشہ تھاکہ کہیں  یہ آستین کے سانپ کسی بیرونی حملہ کے وقت مدینہ کی سلامتی کوخطرہ میں  نہ ڈال دیں ،یہی نہیں بلکہ یہاں  تک اندیشہ تھاکہ کہیں  یہ لوگ خفیہ طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشہیدنہ کردیں ،مسلمان ان سے ایسے خوف زدہ ہوگئے تھے ،

أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ الْبَرَاءِ مَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُهُ فَقَالَ إِنِّی لَا أَرَى طَلْحَةَ إِلَّا قَدْ حَدَثَ فِیهِ الْمَوْتُ فَآذِنُونِی بِهِ وَعَجِّلُوا فَلَمْ یُبْلُغِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ حَتَّى تُوُفِّیَ، وَكَانَ قَالَ لِأَهْلِهِ لَمَّا دَخَلَ اللیْلُ إِذَا مُتُّ فَادْفِنُونِی وَلَا تَدْعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّی أَخَاف عَلَیْهِ یهودا أَنْ یُصَابَ بِسَبَبِی، فَأُخْبِرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ أَصْبَحَ

طلحہ بن البراء بیمارہوگئےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت اور بیمارپرسی کیلئے تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  طلحہ رضی اللہ عنہ کونہیں  دیکھ رہاجب یہ فوت ہوں  تو مجھے اس سے باخبر کرناہے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بنوسالم بن عوف تک پہنچے ہی تھےکہ طلحہ فوت ہوگئے، توانہوں  نے اپنے عزیزوں  کووصیت کی کہ میرے مرنے کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کورات کے وقت نہ دیناکہیں  ایسانہ ہوکہ آپ جنازہ کی شرکت کے لئے نکلیں  اورکوئی یہودی آپ کوقتل کردے،طلحہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے انہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح اطلاع دی۔[109]

ایسی حالت میں  ان عہدشکن دشمنوں  سے مزیدچشم پوشی نہیں  کی جاسکتی تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھربھی ان کے ساتھ رعایت برتی اوردفعة ان پرحملہ کردینے کے بجائے

وَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ اُخْرُجُوا مِنْ بَلَدِی فَلا تُسَاكِنُونِی بِهَا وَقَدْ هَمَمْتُمْ بِمَا هَمَمْتُمْ بِهِ مِنَ الْغَدْرِ وقد أَجّلْتُكُمْ عَشْرًا. فَمَنْ رُئِیَ بَعْدَ ذَلِكَ ضَرَبْت عُنُقَهُ،فَمَكَثُوا عَلَى ذَلِكَ أَیَّامًا یَتَجَهَّزُونَ، وَأَرْسَلُوا إِلَى ظَهْرٍ لَهُمْ بِذِی الْجَدْرِ، وَتَكَارُوا مِنْ ناس من أشجع إِبِلا،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کوایک پیغام دے کربنونضیرکی طرف بھیجاکہ کیونکہ تم لوگوں  نے میرے ساتھ غداری اور بد عہدی کی ہے اس لئے تم یہاں  میرے ساتھ نہیں  رہ سکتے، چنانچہ تمہیں دس دنوں  کی مہلت دی جاتی ہے کہ اس عرصہ میں  مدینہ منورہ سے نکل جاؤاگران دنوں  کے بعدتم میں  سے کوئی یہاں  نظرآیاتواسے تہہ تیغ کردیا جائے گا چنانچہ مہلت کے چنددنوں  میں  وہ سفرکی تیاریاں  کرتے رہے اورانہوں  نے مقام ذی الجدرمیں  اپنے مددگاروں  کے پاس باربرداری کے اونٹوں  کولینے کے لئے آدمی روانہ کیے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں  سے بھی تیزچلنے والے اونٹ کرائے پر حاصل کیے،

فَأَرْسَلَ إِلَیْهِمُ ابْنُ أُبَیٍّ: لا تَخْرُجُوا مِنْ دِیَارِكُمْ، وَأَقِیمُوا فِی حُصُونِكُمْ، فَإِنَّ مَعِیَ أَلْفَیْنِ مِنْ قَوْمِی وَمِنَ الْعَرَبِ یَدْخُلُونَ حِصْنَكُمْ فَیَمُوتُونَ مِنْ آخِرِهِمْ، وَتَمُدّكُمْ قُرَیْظَةُ حُلَفَاؤُكُمْ مِنْ غَطَفَانَ،فَطَمِعَ حُیَیٌّ فِیمَا قَالَ ابْنُ أُبَیٍّ، فَأَرْسَلَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّا لا نَخْرُجُ مِنْ دِیَارِنَا فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ

اسی اثنامیں  رئیس المنافقین ابن ابی نے ان کے پاس قاصدبھیج کرپیغام پہنچایاکہ تم لوگ اپنے گھروں  سے مت نکلو بلکہ حسب سابق اپنے قلعوں  میں  ٹھیرے رہو،میرے پاس میری قوم والے اوردوسرے عرب دوہزارکی تعداد میں  موجود ہیں  وہ تمہارے ساتھ تمہارے قلعوں  میں  آجائیں  گے اوران کاآخری آدمی تک تمہاری حفاظت کرے گا،اس کے علاوہ بنوقریظہ اوران کے حلیف قبیلہ غطفان والے بھی تمہاری مدد کو آجائیں  گے،اس پرزور پیغام پر بنونضیرکاسردارحیی بن اخطب غرورسے بھرگیااوریہودیوں  کی خوداعتمادی بحال ہوگئی اورانہوں  نے جلاوطن ہونے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کی ٹھانی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیغام بھیجاکہ ہم اپنے قصبات سے نہیں  نکلیں  گے آپ جوکچھ ہمارے خلاف کرسکتے ہیں  کر گزریں ۔[110]

فَأَظْهَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وسلّم التكبیر، وكبیر الْمُسْلِمُونَ لِتَكْبِیرِهِ وَقَالَ:حَارَبْتُ یَهُودَ

چنانچہ حیی بن اخطب کایہ پیغام سنکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام نے بلندآوازسے اللہ اکبرکہا اورکہا یہودیوں  نے اعلان جنگ کردیااورکہاہم یہودیوں  سے جنگ کریں  گے ۔

جب آپ نے اتمام حجت کاحق پورا پورا ادا کردیااورجتنی نرمی کی جاسکتی تھی کی جاچکی تھی تومجبوراً

وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ وَعَلِیٌّ یَحْمِلُ رَایَتَهُ فَسَارَ إِلَیْهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَصْحَابِهِ،فَصَلَّى الْعَصْرَ بِفِنَاءِ بَنِی النَّضِیرِ، فلما رأوا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامُوا عَلَى حُصُونِهِمْ مَعَهُمُ النَّبْلُ وَالْحِجَارَةُ، فَحَاصَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَقَالَ لَهُمْ:إِنَّكُمْ وَاللهِ لَا تَأْمَنُونَ عِنْدِی إِلَّا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُونَنِی عَلَیْهِ فَأَبَوْا أَنْ یُعْطُوهُ عَهْدًا ،فَقَاتَلَهُمْ یَوْمَهُمْ ذَلِكَ،ثُمَّ غَدَا عَلَى بَنِی قُرَیْظَةَ بِالْكَتَائِبِ وَتَرَكَ بَنِی النَّضِیرِ، وَدَعَاهُمْ إِلَى أَنْ یُعَاهِدُوهُ، فَعَاهَدُوهُ، فَانْصَرَفَ عَنْهُمْ وَغَدَا إِلَى بَنِی النَّضِیرِ بِالْكَتَائِبِ، فَقَاتَلَهُمْ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پرعبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کونائب مقرر فرمایاسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کواپناعلم عطافرمایااورصحابہ  کی جماعت کو لیکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیرکے علاقوں  کی طرف روانہ ہوئے،نمازعصرآپ نے بنونضیرکے میدان میں  ادافرمائی،جب یہودنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآتے دیکھاتواپنے مضبوط ومستحکم قلعہ جات میں  جن پر ان کوبڑاگھمنڈتھا جاکردبک گئے اورقلعہ کی فصیل سے مسلمانوں  پرتیروں  اورپتھروں  کی بوچھاڑکرنے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعہ جات کامحاصرہ فرما لیا اوران سے فرمایامیں  تمہارے بارے میں  مطمئن نہیں  ہوسکتاالایہ کہ تم مجھ سے کوئی پختہ معاہدہ کرو،انہوں  نے معاہدہ کرنے سے انکارکردیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے لڑائی شروع کردی اورسارادن لڑائی ہوتی رہی، آگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  چھوڑکربنوقریظہ پرلشکراورشہ سواردستوں  کے ہمراہ چڑھائی کردی اوربنوقریظہ کوپیشکش کی کہ معاہدہ کرلو،وہ مان گئے اورمعاہدہ کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے اوراگلے دن پھربنونضیرپرچڑھائی اورلڑائی کی۔[111]

محاصرے کے چنددن بعد مسلمانوں نے باآسانی فوجی نقل وحمل کے لئے یاممکن ہے درختوں  کے جھنڈسے کمین گاہ کاکام لیاجاتاہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر بنی نضیرکی بستی کے اطراف بویرہ میں  جونخلستان تھے ان میں  سے ایک خاص قسم کی کھجورلینہ جوبنونضیر کی عام خوراک میں  شامل نہ تھے کے بہت سے درختوں  کوجنگی ضروریات کے سبب کٹوا کر انہیں جلادیا،اورجودرخت فوجی نقل وحرکت میں  حائل نہ تھے ان کوکھڑارہنے دیا،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَعَ وَهِیَ البُوَیْرَةُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیرکے کھجوروں  کے درخت جلادیئےتھے اورانہیں  کاٹ ڈالاتھا۔[112]

قَطَعُوا مِنْهامَاكَانَ مَوْضِعًا لِلْقِتَال

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی ہےمسلمانوں  نے بنی نضیرکے درختوں  میں  سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جوجنگ کے مقام پر واقع تھے۔[113]

قَالَ السُّهَیْلِیُّ فِی تَخْصِیصِهَا بِالذِّكْرِ إِیمَاءٌ إِلَى أَنَّ الَّذِی یَجُوزُ قَطْعُهُ مِنْ شَجَرِ الْعَدُوِّ مَا لَا یَكُونُ مُعَدًّا لِلِاقْتِیَاتِ لِأَنَّهُمْ كَانُوا یَقْتَاتُونَ الْعَجْوَةَ وَالْبَرْنِیَّ دُونَ اللِّینَةِ

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں سہیلی رحمہ اللہ خاص طورپرلینہ کاذکرکیے جانے سے یہ اشارہ نکالتاہے کہ دشمن کے درختوں  میں  سے صرف انہی کو کاٹنا جائزہے جو غذا کے کام میں  نہ آتے ہوں ،کیونکہ بنی نضیرعجوہ اوربرنی کوکھایاکرتے تھے لینہ کونہیں  کھاتے تھے۔[114]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَّهُ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ، وَقَطَعَ، وَهِیَ البُوَیْرَةُ، وَلَهَا یَقُولُ حَسَّانُ:

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب مسلمانوں  نے جنگی نقطہ نظرسے کچھ کھجورکے درختوں  کوآگ لگائی تو حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ شعرکہے۔

وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِی لُؤَیٍّ ،حَرِیقٌ بِالْبُوَیْرَةِ مُسْتَطِیرُ

بنی لوی (یعنی قریش)کے سرداروں  کے نزدیک بویرہ کے باغات میں  چاروں  طرف پھیلی ہوئی آگ ایک معمولی واقعہ ثابت ہوئی ۔[115]

قَالَ: فَأَجَابَهُ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ الحَارِثِ

اس شعرکے جواب میں ابوسفیان بن حارث نے مسلمانوں  کو بددعادیتے ہوئے یہ شعرکہے۔

أَدَامَ اللهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِیعٍ ،وَحَرَّقَ فِی نَوَاحِیهَا السَّعِیرُ

اللہ کرے کہ مدینہ میں  ہمیشہ یوں  ہی آگ لگتی رہے      اوراس کے اطراف وجوانب میں  یوں  ہی شعلے اٹھتے رہیں

سَتَعْلَمُ أَیُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ ، وَتَعْلَمُ أَیُّ أَرْضَیْنَا تَضِیرُ

تمہیں  جلدمعلوم ہوجائے گاکہ ہم میں  سے کون اس مقام بویرہ سے دورہے اورہم دونوں  فریق میں  سے کس کی زمین کونقصان پہنچتاہے۔[116]

اس پر مدینہ کے منافقین اوریہودیوں  نےخوب شورمچایا

وَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُرِیدُ الصَّلَاحَ أَفَمِنَ الصَّلَاحِ عَقْرُ الشَّجَرِ وَقَطْعُ النَّخِیلِ؟

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہیں  تویہ زعم ہے کہ تم اللہ کی زمین پراصلاح چاہتے ہوکیایہ اصلاح ہے کہ ہرے بھرے پھل داردرخت اورکھجورکے درخت کاٹے جا رہے ہیں ۔[117]

قَالُوا:أَنْ یَا مُحَمَّدُ، قَدْ كُنْتَ تَنْهَى عَنِ الْفَسَادِ فِی الأرْضِ، فَمَا بَالُ قَطْعِ النَّخْلِ وَتَحْرِیقِهَا؟

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم تواللہ کی زمین پر فسادسے منع کرتے ہوتوپھرکھجورکے درختوں  کوکاٹا اورجلایا کیوں  جا رہا ہے۔[118]

فَقَال بَنُو النَّضِیرِ: مَا هَذَا الْإِفْسَاد یَا مُحَمَّدُ وَأَنْتَ تَنْهَى عَنِ الْفَسَادِ

بنونضیرنے کہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ فسادنہیں  تو اور کیا ہے اورآپ تواللہ کی زمین پرفسادسے منع کرتے ہو۔[119]

یَا مُحَمَّدُ، أَلَسْتَ تَزْعُمُ أَنَّكَ نَبِیٌّ تُرِیدُ الصَّلَاحَ،أَفَمِنَ الصَّلَاحِ قَطْعَ الْخَلِّ وَحَرْقُ الشَّجَرِ؟

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیاتمہیں  یہ زعم نہیں  ہے کہ تم نبی ہواوراللہ کی زمین پراصلاح کرنے آئے ہو ،کیایہ اصلاح ہے کہ کھجورکے درخت کاٹے جارہے ہیں  اوردرخت جلائے جارہے ہیں ۔[120]

فَبَعَثَ بَنُو النَّضِیرِ یَقُولُونَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ تَنْهَى عَنِ الْفَسَادِ فَمَا بَالُكَ تَأْمُرُ بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ؟

بنونضیرنےکچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجے جنہوں  نے کہاآپ تواللہ کی زمین پرفسادسے منع کرتےہیں  توپھریہ فسادنہیں  ہے کہ آپ نے درختوں  کوکاٹنے کاحکم دیاہے۔[121]

أَنْ یَا محمَّد قَدْ كُنْتَ تَنْهَى عَنِ الْفَسَادِ، وتَعِیب مَنْ صَنَعَهُ

اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ تواپنے بقول فتنہ وشرکودباناچاہتے ہیں  لیکن آپ نے یہاں  آکرخودہی اس کی ابتداکی ہے۔[122]

الغرض اس طرح کی باتیں  سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان متفکرہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایاکہ تم لوگوں  نے جودرخت کاٹے اورجن کوکھڑارہنے دیا ان میں  سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں  ہے بلکہ یہ دونوں  ہی فعل اللہ کے قانون کے مطابق درست تھے تاکہ وہ فاسقوں  کورسواکرے ۔

فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: قَطَعْنَا بَعْضًا وَتَرَكْنَا بَعْضًا، فَلْنَسْأَلَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَنَا فِیمَا قَطَعْنَا مَنْ أَجْرٍ؟ وَهَلْ عَلَیْنَا فِیمَا تَرَكْنَا مَنْ وِزْرٍ؟ فَأَنْزَلَ الله: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَةٍ

ایک روایت یہ بھی ہے کہ درخت کاٹنے اورکچھ چھوڑنے کے بعدمسلمانوں  کوخیال آیاکہ معلوم نہیں  کہ اس فعل کی شرعی حیثیت کیاہے،چنانچہ انہوں  نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاتواس پریہ آیت’’تم لوگوں  نے کھجوروں  کے جو درخت کاٹے۔‘‘ نازل ہوئی ۔[123]

عَنْ جَابِرٍقَالَ: رَخَّصَ لَهُمْ فِی قَطْعِ النَّخْلِ، ثُمَّ شَدَّدَ عَلَیْهِمْ فَأَتَوُاالنَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَیْنَا إِثْمٌ فِیمَا قَطَعْنَا؟ أَوْ عَلَیْنَا وِزْرٌ فِیمَا تَرَكْنَا؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ

جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے کہ درخت کاٹنے کے بعدلوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پوچھتے ہوئے آئے کہاے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے جوکچھ کاٹ دیا یا چھوڑ دیااس کاکوئی گناہ توہم پرنہیں  ہے؟اس پریہ آیت’’تم لوگوں  نے کھجوروں  کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں  پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔‘‘ نازل ہوئی۔[124]

مسلمانوں  نے چھ دن یاپندرہ دن تک ان قلعوں  کاسختی کے ساتھ محاصرہ قائم رکھا،یہ بات یہودکے وہم وگمان میں  نہیں  تھی کہ مسلمان ان کااس سختی کے ساتھ محاصرہ کرلیں  گے ، عبداللہ بن ابی بن سلول اورودیعہ اور مالک بن ابی قوقل اورسویداورداعس وغیرہ نے بنونضیرکومددکاجوپیغام بھیجاتھااس بھروسہ پروہ کئی دن تک قلعہ بندرہے مگر

وَاعْتَزَلَتْهُمْ قُرَیْظَةُ فَلَمْ تُعِنْهُمْ، وَخَذَلَهُمُ ابْنُ أُبَیٍّ وَحُلَفَاؤُهُمْ مِنْ غَطَفَانَ فَیَئِسُوا مِنْ نَصْرِهِمْ

اس لڑائی میں  ان کے ہم مذہب بنوقریظہ الگ رہے اورانہوں  نے بنونضیرکی کوئی مددنہ کی،عبداللہ بن ابی اورغطفانی حلیفوں  نے بھی جنہوں  نے انہیں  جنگ پراکسایاتھا اور کہا تھاکہ اگرتمہیں  جلاوطن کیاگیاتوہم بھی تمہاری حمایت میں  تمہارے ہمسفرہوں  گے مگر انہوں  نے عین وقت پردھوکادے دیا،نہ تووہ دو ہزار کالشکر لیکرمددکے لئے آئے اورنہ ہی ان کے ساتھ جلاوطنی کے لئے نکلے۔[125]

چنانچہ جب ان کامحفوظ کیاہواخوراک کاذخیرہ اورپانی وغیرہ ختم ہوا

وَقَذَفَ اللهُ فِی قُلُوبِهِمْ الرُّعْبَ ، فسألوا رَسُولَ اللهِ أَنْ یُجْلِیَهُمْ، وَیَكُفَّ عَنْ دِمَائِهِمْ، عَلَى أَنَّ لَهُمْ مَا حَمَلَتِ الإِبِلُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، إِلا الْحَلْقَةَ فَفَعَلَ فَاحْتَمَلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ مَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ الإِبِلُ

اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں  میں  مسلمانوں  کارعب ودبدبہ ڈال دیاتووہ جنگ کرنے کا حوصلہ ہارگئے،ان پر دہشت وگھبراہٹ طاری ہوگئی اورتمام تراسباب ووسائل کے باوجود ہتھیارڈال کر امن کے خواستگار ہوئےاورخودہی تجویزپیش کی کہ آپ ہمارے خون معاف کردیں ، ہم مدینہ سے نکل کراذرعات (شام)چلے جائیں  گے اورسوائے اسلحہ اورزرہوں  کے جوکچھ مال ہمارے اونٹ اٹھاسکیں  گے وہ تولے جائیں  گے اورباقی سب کچھ یہیں  چھوڑ جائیں  گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کومنظورفرمالیا،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى بَنِی النَّضِیرِ، وَأَمَرَهُ أَنْ یُؤَجِّلَهُمْ فِی الْجَلَاءِ ثَلَاثَ لَیَالٍ .

محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  بنونضیرکے پاس بھیجااورانہیں  اجازت فرمائی کہ تین دن میں  اپناجس قدرسامان اونٹوں  پرلادسکتے ہو لاد لو اور اپنے اہل وعیال سمیت جہاں  جانا چاہو چلے جاؤ۔[126]

فَیَنْطَلِقُ بِهِ فَخَرَجُوا إِلَى خَیْبَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ سَارَ إِلَى الشَّامِ

اس طرح بغیرکسی ادنیٰ ضررکے بنونضیرخیبرگئے اورپھروہاں  سےشام کی طرف چلے گئے۔[127]

ثُمَّ صَالَحُوهُ عَلَى أن یَخْرُجُوامِنْ بَلَدِه، ولَهُمْ مَا حَمَلَتْ الْإِبِلُ إلّا الْحَلْقَةُ

اس مصالحت کے متعلق بلاذری لکھتاہےپھرانہوں  نے اس شرط پرآپ سے صلح کرلی کہ وہ آپ کے شہرسے نکل جائیں  گے اورسوائے اسلحہ اورزرہوں  کے باقی جومال ان کے اونٹ اٹھاسکیں  گے وہ ان کاہے۔[128]

فَسَأَلُوا أَنْ یجلوا عَنْ أَرْضِهِمْ عَلَى أَنَّ لَهُمْ مَا حَمَلَتِ الْإِبِلُ فَصُولِحُوا عَلَى ذَلِكَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہےپھرانہوں  نے درخواست کی کہ ہمیں  اپنے علاقہ سے نکل جانے دیاجائے اورجوکچھ ہمارے اونٹ اٹھاسکیں  وہ مال ہماراہوچنانچہ اسی پران سے صلح ہوگئی۔[129]

حیی بن اخطب نے جلاوطن ہوتے وقت وعدہ کیاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی اقدام نہیں  کرے گالیکن وہ اپناوعدہ پورانہ کرسکا۔یہودیوں  کومسلمانوں  سے حسدکہ مباداوہ ان کے بعدان کے گھروں  میں  قیام کریں  اور مال کی حرص وطمع میں  اپنے مکانوں  کے اندرونی حصوں  کومنہدم کرکے ان کی اچھی لکڑیاں  جیسے دروازے ،چوکھٹیں ، ستون ،چھت کی کڑیاں اورچھجے تک اکھاڑلئے،اس کام میں  مسلمانوں  نے بھی ان کاہاتھ بٹایاایک طرف وہ خودگراتے تھے دوسری طرف مسلمان۔

فَحُمِلُوا عَلَى سِتّمِائَةِ بَعِیرٍ

بہرحال جہاں  تک بن پڑابنونضیراپناسامان چھ سواونٹوں  پرلادکر لے گئے۔[130]

مَعَهُمُ الدُّفُوفُ وَالْمَزَامِیرِ وَالْقِیَانِ یَعْزِفْنَ خَلْفَهُمْ، وَأَنَّ فِیهِمْ یَوْمَئِذٍ لأُمُّ عَمْرٍو، صَاحِبَةُ عُرْوَةَ بْنِ الْوَرْدِ الْعَبْسِیِّ، الَّتِی ابْتَاعُوا مِنْهُ، وَكَانَتْ إِحْدَى نِسَاءِ بَنِی غِفَارٍ بِزُهَاءٍ وَفَخْرٍ

اس قبیلے کے جلاوطن ہونے کی شان یہ تھی کہ آگے آگے قافلہ تھااوران کے پیچھے دف ستاراورڈومنیاں  تھیں  جوان کے پیچھے گا بجارہی تھیں ،اس روز ان میں  ام عمروعروہ بن الوردالعسبی کی داشتہ بھی تھی جسے انہوں  نے اس سے خریدلیاتھایہ بنوغفارکی ایک عورت تھی جواس زمانے میں  حسن وادااورنازونخوت میں  یکتائے روزگار تھی ۔[131]

فَكَانَ أَشْرَافُهُمْ مَنْ سَارَ مِنْهُمْ إلَى خَیْبَرَ: سَلَّامُ بْنُ أَبِی الْحَقِیقِ، وَكِنَانَةُ ابْن الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی الْحَقِیقِ، وَحُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ. فَلَمَّا نَزَلُوهَا دَانَ لَهُمْ أَهْلُهَاوَجَعَلَ لِكُلِّ ثَلَاثَةٍ مِنْهُمْ بَعِیرًا وَسِقَاءً

مدینہ طیبہ سے نکلنے کے بعدان میں  سے اکثرجن میں  سلام بن ابی الحقیق ،کنانہ بن الربیع بن ابی الحقیق ان کاسردارحیی بن اخطب شامل تھےمدینہ طیبہ سے سومیل دور خیبرمیں  اور کچھ شام کے جنوبی علاقہ جرش کی طرف چلے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلاوطنی کے وقت تین تین افرادکے لئے ایک ایک اونٹ اورایک ایک مشک عنایت فرمائی ۔[132]

وَحَزِنَ الْمُنَافِقُونَ عَلَیْهِمْ حُزْنًا شَدِیدًا

منافقین کواپنے بھائی بند بنو نضیر کی جدائی کابے حدرنج ہوا۔[133]

وَلَمْ یُسْلِمْ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ إلَّا رَجُلَانِ: یَامِینُ بْنُ عُمَیْرٍ، أَبُوكَعْبِ بْنُ عَمْرِو ابْن جِحَاشٍ، وَأَبُو سَعْدِ بْنُ وَهْبٍ، أَسْلَمَا عَلَى أَمْوَالِهِمَا فَأَحْرَزَاهَا

بنونضیرمیں  سے صرف دوشخص یامین بن عمیربن کعب بن عمروبن حجاش اورابوسعدبن وہب نے اس شرط پراسلام قبول کیا کہ ان کی املاک انہیں  کے پاس رہے گی ، چنانچہ یہ بددستوراپنے اموال پرقابض رہے۔[134]

اس غزوہ میں  بنی نضیرکے ایک بہادرتیراندازعزوک کوسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے قتل کردیا۔[135]

فَإِنْ بَعَثْت مَعِی نَفَرًا رَجَوْت أَنْ أَظْفَرَ بِهِمْ. فَبَعَثَ مَعَهُ أَبَا دُجَانَةَ، وَسَهْلَ بْنَ حُنَیْفٍ فِی عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَدْرَكُوهُمْ قَبْل أَنْ یَدْخُلُوا حِصْنَهُمْ، فَقَتَلُوهُمْ وَأَتَوْا بِرُءُوسِهِمْ

اگر آپ مجھے کچھ لوگوں  کی معیت میں  بھیجیں  گے تو امید ہے کہ میں  انہیں  پالوں  گاچنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ اورسہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کودس مجاہدین کی جماعت کے ساتھ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بچ کرنکل جانے والوں  کی تلاش میں  روانہ فرمایا،چنانچہ انہوں  نے انہیں  جا پکڑااورانہیں  قتل کرکے ان کے سر لے آئے۔[136]

اہل خیبرنے حئی بن اخطب ،کنانہ بن الربیع،سلام بن ابی الحقیق اوردوسرے نضیری زعماکاپرجوش طریقے سے خیرمقدم کیا ،اورحئی بن اخطب کوخیبرکارئیس تسلیم کرلیا گیا۔[137]

سلام بن ابی الحقیق نے خیبرکے ایک مضبوط اطم قموص پرقبضہ کرلیا۔

ایسی حالت میں  جب کہ یہود کو آسانی کے ساتھ مغلوب کرکے پوراپوراانتقام لیاجاسکتاتھا،ان کی من مانی شرائط مان لینااوران کوامن وسلامتی کے ساتھ صرف اپنی جانیں  ہی نہیں  بلکہ اپنے اموال بھی لے جانے دیناسوائے رحم دلی اورصلح پسندی کے اورکس چیزکانتیجہ ہوسکتاتھا،ایساصرف وہی شخص ہی کرسکتاتھاجس کامقصدخوں  ریزی وغارت گری نہ ہوبلکہ محض دفع شرہو،مگراس احسان کاجوبدلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوملاوہ بہت ہی تلخ تھا،جن دشمنوں  کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قابومیں  آجانے کے بعدمحض رحم کھا کر چھوڑ دیا تھا ، یہودیوں نے مدینہ منورہ سے نکل کرتمام عرب میں  آپ کے خلاف پورے زوراورطاقت کے ساتھ سازششوں  کاجال پھیلادیااوردوہی سال بعدوہ دس بارہ ہزارکالشکر جرار کٹھاکرکے مدینہ منورہ پرحملہ آورہوئے ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت ان زہریلے سانپوں  کا سرکچل دیتے تویہ طوفان ہرگزنہ اٹھتا،لیکن رحمة للعالمین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس سے بالاترتھی کہ کسی مغلوب دشمن کی التجارحم کوردکردیتے۔

[1] ابن سعد۳۸؍۲،معجم البلدان ۲۸۲؍۴

[2]عیون الآثر۵۵؍۲،ابن سعد۳۹؍۲،مغازی واقدی۳۴۳؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۳۲۱؍۳، زادالمعاد۲۱۸؍۳

[3] ابن سعد۳۹؍۲،زادالمعاد۳۱۸؍۳،عیون الآثر۵۶؍۲،ابن ہشام ۶۱۹،۶۲۰؍۲

[4] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ۴۰۹۱

[5]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ۴۰۹۰

[6] ابن ہشام۱۸۴؍۲

[7]تاریخ طبری ۵۵۰؍۲

[8] تاریخ طبری۵۵۰؍۲

[9] دلائل النبوة للبیہقی ۳۴۵؍۳ ،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ۴۰۹۱

[10] الخصائص الکبریٰ ۳۶۹؍۱،عیون الآثر۶۹؍۲

[11] الخصائص الکبریٰ ۳۶۹؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۳۵۳؍۳،ابن سعد۱۷۴؍۳

[12] ابن ہشام ۱۸۵؍۲، عیون الآثر۶۵؍۲، البدایة والنہایة۸۴؍۴،دلائل النبوة للبیہقی ۳۳۸؍۳،شرح زرقانی علی المواھب۵۰۱؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۱۴۲؍۳

[13] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ۴۰۹۱

[14] الخصائص الكبرى۳۶۸؍۱

[15] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ۴۰۹۳

[16] ابن ہشام ۱۸۵؍۲،عیون الآثر۶۵؍۲،البدایة والنہایة۸۴؍۴،تاریخ طبری ۵۴۷؍۲،دلائل النبوة للبیہقی ۳۳۸؍۳،شرح زرقانی علی المواھب ۷۷؍۲

[17] ابن ہشام ۱۸۵؍۲،الروض الانف ۱۵۱؍۶،عیون الآثر۶۵؍۲،تاریخ طبری ۵۴۷؍۲،البدایة والنہایة۳۳۱؍۷، فتح الباری ۳۳۱؍۷

[18] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَنْ یُنْكَبُ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۰۱،الروض الانف۱۵۶؍۶،عیون الآثر۶۹؍۲،تاریخ طبری ۵۵۰؍۲،البدایة والنہایة ۸۲؍۴،ابن سعد ۴۲؍۲

[19] فتح الباری ۳۱؍۶، دلائل النبوة للبیہقی ۳۴۷؍۳

[20] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ۴۰۹۵،دلائل النبوة للبیہقی۳۴۷؍۳،المواهب اللدنیة ۲۶۷؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۶۵؍۶

[21] السیرة النبویة وأخبار الخلفاء لابن حبان۶۰۰؍۲

[22] عیون الآثر۶۹؍۲

[23]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الرَّجِیعِ، وَرِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبِئْرِ مَعُونَةَ، وَحَدِیثِ عَضَلٍ، وَالقَارَةِ، وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ، وَخُبَیْبٍ وَأَصْحَابِهِ ۴۰۹۱

[24] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمَرِیضِ وَالْمَیِّتِ ۲۱۲۹، و بَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۲۱۳۷،وبَابٌ فِی إِغْمَاضِ الْمَیِّتِ وَالدُّعَاءِ لَهُ إِذَا حُضِرَ۲۱۳۰

[25]صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ قَدْرِ مَا تَسْتَحِقُّهُ الْبِكْرُ، وَالثَّیِّبُ مِنْ إِقَامَةِ الزَّوْجِ عِنْدَهَا عُقْبَ الزِّفَافِ عن ام سلمہ ۳۶۲۱،۳۶۲۲،۳۶۲۳

[26] صحیح بخاری كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّیَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَیْرِ المُشْرِفَةِ فِی السُّطُوحِ وَغَیْرِهَا۲۴۶۸، وکتاب التفسیر باب آیت تَبْتَغِی مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ۴۹۱۳، وکتاب النکاح بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا۵۱۹۱ ،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ عن عائشہ وعمر ۳۶۹۲

[27] صحیح بخاری كِتَابُ الأَشْرِبَةِ بَابُ الشُّرْبِ مِنْ قَدَحِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَآنِیَتِهِ عن سہل بن سعد ۵۶۳۷، وکتاب الطلاقبَابُ مَنْ طَلَّقَ، وَهَلْ یُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلاَقِ عن عائشہ وابی اسید وسہل بن سعد ۵۲۵۴ ،مسنداحمد۱۶۰۶۱

[28] مستدرک حاکم۵۶۰۶

[29] مستدرک حاکم ۵۱۵

[30] ابن سعد۴۰؍۵

[31] مستدرک حاکم۵۶۰۵

[32]الإصابة فی تمییز الصحابة ۱۵؍۶، ابن سعد۳۹؍۵

[33] مستدرک حاکم۵۶۰۵

[34] ابن سعد۳۹؍۵

[35] الإصابة فی تمییز الصحابة۱۵؍۶

[36] مستدرک حاکم۴۵۵۷

[37] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابٌ فِی خَبَرِ النَّضِیرِعن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک۳۰۰۴

[38] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الرِّفْقِ فِی الأَمْرِ كُلِّهِ۶۰۲۴، مسند احمد ۲۵۶۳۳،صحیح ابن حبان ۶۴۴۱

[39] تفسیرابن ابی حاتم۹۶۹؍۳

[40] الدر المنثور۵۵۵؍۲

[41] البقرة۶۵

[42] البقرة۱۱۷

[43] النحل۴۰

[44] مریم۳۵

[45] یٰسین۸۲

[46] المومن۶۸

[47] لقمان۱۳

[48] المائدة۷۲

[49] مسند احمد ۱۶۰۴۳، مصنف ابن ابی شیبة۸۵۰، الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم۲۰۳۶،شرح مشکل الآثار۸۹۳،المعجم الکبیر للطبرانی ۳۴۹،شعب الایمان۴۵۰۲، جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ۳۰۲۰

[50] مسنداحمد۲۱۳۶۸

[51] مسنداحمد۲۱۴۶۶

[52] مسندعبدبن حمید۱۰۶۰

[53] شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة۱۹۹۲،تفسیرابن کثیر۲۸۶؍۴

[54]النساء: 48

[55] كشف الأستار عن زوائد البزار۸۴؍۴

[56] مسند احمد ۸۲۹۲،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ البَغْیِ۴۹۰۱

[57] الانبیائ۲۳

[58] الزمر ۵۳

[59] المائدة۱۸

[60] البقرة۱۱۱

[61]آل عمران۲۴

[62] البقرة۱۱۲

[63] تفسیرابن ابی حاتم۵۴۴۱

[64] تفسیرابن کثیر۶۸۳؍۱

[65] تفسیرطبری۱۳۷؍۷

[66] تفسیرطبری۵۵۷؍۴

[67] الكشف والبیان عن تفسیر القرآن۳۲۶؍۳

[68] تفسیرطبری۱۴۰؍۷

[69] الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل۱۱۸؍۴

[70] الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل ۳۰۳؍۱

[71] مختصر تفسیر البغوی ۱۰۰؍۱

[72] تفسیرابن کثیر۳۳۴؍۲

[73] بنی اسرائیل۱۰۰

[74] تفسیرطبری۴۸۲؍۸

[75] تفسیرطبری۴۸۴؍۸،تفسیرابن ابی حاتم۹۸۲؍۳

[76] تفسیرابن ابی حاتم۹۸۳؍۳

[77]تفسیرابن ابی حاتم ۹۸۴؍۳

[78] تفسیرابن ابی حاتم۹۸۴؍۳

[79] الواقعة۳۰

[80] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۵۱،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ شَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا یَقْطَعُهَا۷۱۳۷، مسنداحمد ۱۰۰۶۵،سنن الدارمی ۲۸۸۱

[81] النساء ۵۸

[82] تفسیرالقرآن العزیزلابن ابی زمنین۳۸۱؍۱، تفسیرابن کثیر۳۴۱؍۲، تفسیر المنار ۱۳۷؍۵،الھدایة الی بلوغ الی النھایة ۱۳۶۵؍۲، زادالمسیرفی علم التفسیر۴۲۳؍۱

[83] مسنداحمد۱۵۴۲۴،سنن ابودادأَبْوَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَأْخُذُ حَقَّهُ مَنْ تَحْتَ یَدِهِ۳۵۳۵عن ابوہریرہ

[84] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الْحِسَابِ وَالْقَصَاصِ ۲۴۲۰،مسند احمد۷۲۰۴،صحیح ابن حبان۷۳۶۳

[85] تفسیرابن ابی حاتم۹۸۶؍۳

[86] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ التَّغْلِیظِ فِی الْحَیْفِ وَالرَّشْوَةِ ۲۳۱۳

[87] الاعراف۵۴

[88] یوسف۴۰

[89] النساء ۸۰

[90] حجة الله البالغة۲۵۷؍۱

[91] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ سَرِیَّةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِیِّ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ مُجَزِّزٍ المُدْلِجِیِّ وَیُقَالُ: إِنَّهَا سَرِیَّةُ الأَنْصَارِ۴۳۴۰،سنن ابوداود کتاب الجہاد بَابٌ فِی الطَّاعَةِ ۲۶۲۵، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ۴۷۶۵

[92] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی الطَّاعَةِ۲۶۲۶،جامع ترمذی ابواب الجہاد بَابُ مَا جَاءَ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَةِ الخَالِقِ ۱۷۰۷،سنن ابن ماجہ کتاب الجہادبَابُ لَا طَاعَةَ فِی مَعْصِیَةِ اللهِ۲۸۶۴

[93] شرح السنة للبغوی ۲۴۵۵،مصنف ابن ابی شیبة۳۳۷۱۷، المعجم الاوسط ۳۹۱۷

[94] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ۴۷۷۱،صحیح بخاری كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا۷۰۵۶

[95] صحیح بخاری كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلْإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِیَةً۷۱۴۲،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ طَاعَةِ الْإِمَامِ۲۸۶۰،مسند البزار ۷۳۷۴، مسند احمد ۱۲۱۲۶

[96] ۔صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ۴۷۵۶

[97] صحیح بخاری كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَأَطِیعُوا اللهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْكُمْ۷۱۳۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ۴۷۴۷،سنن نسائی كِتَابُ الْبَیْعَةِ بَابُ التَّرْغِیبُ فِی طَاعَةِ الْإِمَامِ۴۱۹۳،صحیح ابن خزیمة ۱۵۹۷، صحیح ابن حبان ۴۵۵۶،مسنداحمد ۷۶۵۶

[98] النساء ۵۹

[99] تفسیرابن کثیر۳۴۵؍۲

[100] تفسیر طبری ۵۰۵؍۸

[101]حجة اللہ البالغة۲۶۸؍۱

[102] مغازی واقدی ۳۶۴؍۱،ابن سعد ۴۴؍۲

[103] ابن سعد۴۴؍۲،تاریخ طبری۵۵۲؍۲،فتح الباری ۳۳۱؍۷

[104] مغازی واقدی ۳۶۵؍۱

[105] ابن سعد۴۴؍۲،مغازی واقدی۳۶۶؍۱،دلائل النبوة لابی نعیم۴۹۰؍۱

[106] فتح الباری ۳۳۰؍۷

[107]فتح الباری۳۳۲؍۷

[108] سنن ابوداودکتاب الخراج والفی والامارة بَابٌ فِی خَبَرِ النَّضِیرِ ۳۰۰۴،فتح الباری ۳۳۱؍۷

[109] اسدالغابة ۸۱؍۳،فتح الباری ۱۱۸؍۳

[110] ابن سعد۴۴؍۲، عیون الآثر۷۲؍۲،فتح الباری۳۳۲؍۷

[111] دلائل النبوة للبیہقی ۱۷۸؍۳

[112] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشر بَابُ قَوْلِهِ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَةٍ۴۸۸۴ ،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ جَوَازِ قَطْعِ أَشْجَارِ الْكُفَّارِ وَتَحْرِیقِهَا۴۵۵۲، مسند احمد ۶۰۵۴، البدایة والنہایة۸۸؍۴،عیون الآثر۷۴؍۲،ابن سعد۴۵؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۱۴۹؍۳

[113] تفسیر نیسا بوری ۲۸۳؍۶

[114] فتح الباری۳۳۳؍۷

[115] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَطْعِ الشَّجَرِ وَالنَّخْلِ عن ابن عمر ۲۳۲۶

[116] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ حَدِیثِ بَنِی النَّضِیرِ، وَمَخْرَجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِمْ فِی دِیَةِ الرَّجُلَیْنِ، وَمَا أَرَادُوا مِنَ الغَدْرِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۰۳۲،عیون الآثر۷۴؍۲،الروض الانف۲۷۸؍۶،البدایة والنہایة۸۹؍۴،فتوح البلدان ۲۸؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۱۵۰؍۳

[117] تفسیر البغوی ۵۳؍۵

[118] تاریخ طبری ۵۵۲؍۲،ابن ہشام ۱۹۱؍۲،الروض الانف ۱۶۰؍۶، سیرالزمخشری ۵۰۱؍۴، تفسیرطبری ۲۷۱؍۲۳

[119] تفسیرابن عطیہ۲۸۵؍۵،تفسیرالثالبی۴۰۷؍۵

[120] تفسیرالقرطبی۶؍۱۸

[121] تفسیرابن کثیر۹۱؍۸

[122] البدایة والنہایة۸۸؍۴

[123] تفسیرابن کثیر ۶۱؍۸

[124] تفسیرابن کثیر ۶۲؍۸

[125] ابن سعد ۴۴؍۲

[126] تفسیرابن کثیر۶۱؍۸،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۴۷؍۳، البدایة والنہایة۸۷؍۴

[127] تاریخ طبری۵۵۴؍۲

[128] فتوح البلدان ۲۷؍۱

[129] فتح الباری۳۳۱؍۷

[130] مغازی واقدی ۳۷۴؍۱،عیون الآثر۷۳؍۲،ابن سعد۴۴؍۲

[131] تاریخ طبری ۵۵۳؍۲

[132] تفسیرابن کثیر۶۰؍۸

[133] ابن سعد۴۴؍۲،عیون الآثر۷۳؍۲

[134] فتح الباری ۳۳۱؍۷، زادالمعاد ۲۲۳؍۳،ابن ہشام ۱۹۲؍۲،الروض الانف ۱۶۱؍۶،عیون الآثر۷۲؍۲،تاریخ طبری ۵۵۵؍۲، البدایة والنہایة۸۷؍۴،شرح الرزرقانی علی المواھب ۵۱۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۱۴۸؍۳

[135] مغازی واقدی۳۷۱؍۱،شرح زرقانی علی المواھب۵۱۶؍۲

[136] مغازی واقدی۳۷۲؍۱

[137] ابن ہشام۱۹۱؍۲،البدایة والنہایة۸۷؍۴،تاریخ طبری۵۵۴؍۲

Related Articles