ہجرت نبوی کا چوتھا سال

سورۂ النساء آیات144 تا 176(حصه سوم)

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۚ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَیْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِینًا ‎﴿١٤٤﴾‏ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِیرًا ‎﴿١٤٥﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِینَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ ۖ وَسَوْفَ یُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِینَ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿١٤٦﴾‏ مَّا یَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِیمًا ‎﴿١٤٧﴾‏(النساء)
اے ایمان والو ! مومنوں  کو چھوڑ کر کافروں  کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی صاف حجت قائم کرلو، منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں  جائیں  گے ، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے،ہاں  جو توبہ کرلیں  اور اصلاح کرلیں  اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں  اور خالص اللہ ہی کے لیے دینداری کریں ، تو یہ لوگ مومنوں  کے ساتھ ہیں ، اللہ تعالیٰ مومنوں  کو بہت بڑا اجر دے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں  سزا دے کر کیا کرے گا ؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو، اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے۔

کفارومنافقین کے ساتھ دوستی کی پینگیں  نہ بڑھانے کاحکم:پھرمسلمانوں  کوتنبیہ فرمائی کہ مسلمانوں  کوچھوڑکرکفارومنافقین کے ساتھ دوستی کی پینگیں  نہ بڑھاؤاورنہ کفار کی مشابہت اختیارکرو،اللہ کے ان دشمنوں  سے دوستی کادم بھرکر(معصیت الہٰی اورحکم عدولی کی وجہ سے) اللہ کواپنے خلاف خودہی دلیل مہیانہ کروکہ جس سے وہ تمہیں  سزادے سکے،جیسے فرمایا

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً۝۰ۭ وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهٗ۝۰ۭ وَاِلَى اللهِ الْمَصِیْرُ۝۲۸ [1]

ترجمہ:مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں  کو اپنا رفیق اور یارو مددگار ہرگز نہ بنائیں  جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ، ہاں  یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں  اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں  اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

منافقین جوعداوت میں  کفارکے ساتھ شریک ہیں اوراپنےمکروفریب اورہتھکنڈوں  سے مسلمانوں  کونقصان پہنچاتے ہیں ،اوراللہ علام الغیوب کودھوکادینے کی کوشش کررہے ہیں  ان کاٹھکانہ جہنم کاسب سے نچلاطبقہ هَاوِیَةٌہے جس میں  وہ بدترین عذاب میں  مبتلاہوں  گے۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْها

عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ یَعْنِی: فِی أَسْفَلِ النَّارِ

علی بن ابوطلحہ والبی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں  جائیں  گے۔‘‘  کے معنی یہ ہیں وہ جہنم کی آگ میں  سب سے نیچے ہوں  گے۔[2]

عَنْ عَبْدِ اللهِ: إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ قَالَ:تَوَابِیتُ مِنْ نَارٍ تُطْبَقُ عَلَیْهِمْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں  جائیں  گے۔‘‘اس کے معنی یہ ہیں منافقین کودوزخ میں  تابوتوں  میں  بندکرکے تالے لگادیئے جائیں  گے۔[3]

أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ , سُئِلَ عَنِ الْمُنَافِقِینَ فَقَالَ: یُجْعَلُونَ فِی تَوَابِیتَ مِنْ نَارٍ فَتُطْبَقُ عَلَیْهِمْ فِی أَسْفَلِ النَّارِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منافقین کے بارے میں  پوچھاگیا،توانہوں  نے فرمایاانہیں  تابوتوں  میں  بندکرکے جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں  ڈال دیاجائے گا۔[4]

اورکوئی ہستی ان کواس دردناک عذاب سے بچانہیں  سکے گی البتہ جوان میں  سے اپنے نفاق پرنادم وپشیمان ہوکر خلوص دل سے تائب ہوکراپنے ظاہروباطن کی اصلاح کرلیں  اوراللہ کی خوشنودی کے لئے اعمال صالحہ اختیارکریں  اوراللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں  اوراپنے اسلام،ایمان اوراحسان کواللہ کے لیے خالص کردیں توایسے لوگ دنیا،برزخ اورآخرت میں  مومنوں  کے ساتھ ہوں  گے اوراللہ عنقریب مومنوں  کوضروراجرعظیم عطافرمائے گاجس کی حقیقت وماہیت کواللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں  جانتا،

عَن معَاذ بن جبل اأَنه قَالَ لرَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ بَعَثَهُ إِلَى الْیمن: أَوْصِنِی قَالَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْلِصْ دِینَكَ، یَكْفِكَ الْقَلِیلُ مِنَ الْعَمَلِ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں  یمن روانہ فرمایاتونصیحت فرمائی کہ اپنے دین کوخالص کرلوتوتھوڑاعمل بھی تمہیں  کافی ہوجائے گا۔[5]

اللہ تعالیٰ نے اپنے وسعت حلم ورحمت اوراحسان کرذکرکرتے ہوئے فرمایااگرتم اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں  سے اجتناب کرواورعمل صالحہ اختیارکرواوراللہ کی توحیدوربوبیت پراورخاتم الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان لاؤاوراللہ کی عطاکی ہوئی بے شمار نعمتوں  پراس کے شکرگزار بنوتواللہ کوکیاپڑی ہے کہ تمہیں  خواہ مخواہ سزادے،جوکوئی اپنے رب کاشکرگزاربندہ بنے گاوہ اس کی قدرکرے گااورجوخلوص نیت سے ایمان لائے گا وہ اسے بھی جان لے گااورروزقیامت ہرایک کواس کے اعمال کے مطابق جزادے گا۔

لَّا یُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِیعًا عَلِیمًا ‎﴿١٤٨﴾‏ إِن تُبْدُوا خَیْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیرًا ‎﴿١٤٩﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَیُرِیدُونَ أَن یُفَرِّقُوا بَیْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَیَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیدُونَ أَن یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَٰلِكَ سَبِیلًا ‎﴿١٥٠﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ عَذَابًا مُّهِینًا ‎﴿١٥١﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ یُؤْتِیهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿١٥٢﴾‏(النساء)
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں  فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا اور جانتا ہے، اگر تم کسی نیکی کو اعلانیہ کرو یا پوشیدہ یا کسی برائی سے درگزر کرو ، پس یقیناً اللہ تعالیٰ پوری معافی کرنے والا ہے اور پوری قدرت والا ہے،جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں  کے ساتھ کفر کرتے ہیں  اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں  کہ اللہ اور اس کے رسولوں  کے درمیان فرق رکھیں  اور جو لوگ کہتے ہیں  کہ بعض نبیوں  پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں  اور چاہتے ہیں  کہ اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں ،یقین مانو کہ سب لوگ اصلی کافر ہیں  اور کافروں  کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے، اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام پیغمبروں  پر ایمان لاتے ہیں  اور ان میں  سے کسی میں  فرق نہیں  کرتے یہ ہیں  جنہیں  اللہ ان کو پورا ثواب دے گا اور اللہ بڑی مغفرت والا اور بڑی رحمت والا ہے۔

اللہ اس بات کوپسندنہیں  کرتاکہ آدمی کسی میں  کوئی برائی دیکھے تواس کاچرچاکرنے لگے یاتنہائی میں  اس کوسمجھانے کے بجائے اس کوبرابھلاکہنے لگے البتہ ظالم کے ظلم تم لوگوں  کے سامنے بیان کرسکتے ہو،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: لَا یُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ یَقُولُ: لَا یُحِبُّ اللهُ أَنْ یَدْعُوَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَنْ یَكُونَ مَظْلُومًا , فَإِنَّهُ قَدْ أَرْخَصَ لَهُ أَنْ یَدْعُوَ عَلَى مَنْ ظَلَمَهُ  وَذَلِكَ قَوْلُهُ:إِلَّا مِنْ ظُلِمَ  وَإِنْ صَبَرَ فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ

ابن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’اللہ اس کو پسند نہیں  کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے۔‘‘کے بارے میں  روایت کیاہےاللہ تعالیٰ یہ پسندنہیں  فرماتاکہ کوئی کسی کے لیے بددعاکرے الایہ کہ وہ مظلوم ہوتواس کے لیے اجازت ہے کہ وہ ظالم کے لیے بد دعا کر سکتا ہےاس لیے اس نے فرمایاہے’’اوراگروہ صبرکرلے تویہ اس کے لیے بہترہے۔‘‘[6]

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: لَا یَدْعُ عَلَیْهِ، وَلْیَقُلْ: اللهُمَّ أَعِنِّی عَلَیْهِ، وَاسْتَخْرِجْ حَقِّی مِنْهُ وَفِی رِوَایَةٍ عَنْهُ قَالَ: قَدْ أُرْخِصَ لَهُ أَنْ یَدْعُوَ عَلَى مَنْ ظَلَمَهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَعْتَدِیَ عَلَیْهِ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ اس کے لیے بددعانہ کرے بلکہ یہ دعاکرے کہ اے اللہ!میری اس کے خلاف مددفرمایااورمجھے اس سے میراحق دلا دے، اورآپ ہی سے ایک دوسری روایت میں  یہ ہے کہ اسے اجازت دی گئی ہے کہ وہ ظالم کے لیے بددعاکرسکتاہے لیکن اس پرزیادتی نہ کرے[7]

سَأَلْتُ عَبْدَ الْكَرِیمِ عَنْ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: {لَا یُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ} قَالَ: هُوَ الرَّجُلُ یَشْتُمُكَ فَتَشْتُمُهُ , وَلَكِنْ إِنِ افْتَرَى عَلَیْكَ فَلَا تَفْتَرِی عَلَیْهِ  مِثْلَ قَوْلِهِ:وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ [8]

عبدالکریم بن مالک جزری نے اس آیت کریمہ’’اللہ اس کو پسند نہیں  کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘ کے بارے میں  کہاہے اگرکوئی شخص تمہیں  گالی دے توتم اسے گالی دے سکتے ہولیکن اگروہ تم پرکوئی بہتان باندھے توتم اس پربہتان نہ باندھوجیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے’’اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں  ان کو ملامت نہیں  کی جا سکتی۔‘‘[9]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِی مِنْهُمَا مَا لَمْ یَعْتَدِ الْمَظْلُومُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو آدمی آپس میں  گالی گلوچ کریں  تو گناہ ابتداء کرنے والے پر ہی ہوگا جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے (یعنی زیادتی نہ کرے)۔[10]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَشْكُو جَارَهُ، فَقَالَ:اذْهَبْ فَاصْبِرْ فَأَتَاهُ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ: اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَكَ فِی الطَّرِیقِ فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِی الطَّرِیقِ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَسْأَلُونَهُ فَیُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْعَنُونَهُ: فَعَلَ اللَّهُ بِهِ، وَفَعَلَ، وَفَعَلَ، فَجَاءَ إِلَیْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ: ارْجِعْ لَا تَرَى مِنِّی شَیْئًا تَكْرَهُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااوراس نے اپنے ہمسائے کی شکایت کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اورصبرکرووہ پھرآپ کے پاس دویاتین بارآیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اوراپناسامان راستے پرڈال دو،چنانچہ اس نے اپنامال ومتاع راستے پرڈال دیا،لوگ اس سے پوچھنے لگے (کہ کیا ہوا ؟ ) تو اس نے انہیں  اپنے ہمسائے کاسلوک بتلایا تو لوگ اسے لعنت ملامت کرنے لگے ،اللہ اس کے ساتھ ایسے کرے اورایسے کرےتووہ ہمسایہ اس کے پاس آیااوراس سے بولااپنے گھرمیں  واپس چلے جاؤ(آئندہ میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہیں  دیکھو گے)۔ [11]

اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والاہے(مظلوم ہونے کی صورت میں  اگرچہ تم کوبدگوئی کاحق ہے)لیکن اگرتم ظاہروباطن میں  بھلائی ہی کیے جاؤیاکم ازکم برائی سے در گزر کروتواللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑامعاف کرنے والاہے حالانکہ سزادینے پرپوری قدرت رکھتا ہے، جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللهِ۔۔۔ ۝۴ [12]

ترجمہ:پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔

حَدَّثَنِی هَارُونُ بْنُ رِیابٍ قَالَ: “ حَمَلَةُ الْعَرْشِ یَتَجَاوَبُونَ بِصَوْتٍ حَسَنٍ رَخِیمٍ یَقُولُ الْأَرْبَعَةُ: سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ عَلَى حِلْمِكَ بَعْدَ عِلْمِكَ، وَیَقُولُ الْأَرْبَعَةُ الْآخَرُونَ: سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ عَلَى عَفْوِكَ بَعْدَ قُدْرَتِكَ

ہارون بن ریاب سےایک موقوف روایت میں  ہےحاملین عرش میں  سے بعض فرشتے یہ کہتے ہیں  توپاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ کہ علم کے باوجودحلم سے کام لیتا ہے ، اور بعض یہ کہتے ہیں  تیری ذات پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ کہ قدرت کے باوجودمعاف فرمادیتاہے۔[13]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ، إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصدقہ دینے سے مال گھٹتانہیں ،اور جو بندہ معاف کردیتاہے تواللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتاہےاورجوبندہ اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرتاہے تواللہ تعالیٰ اس کادرجہ بلند فرماتاہے۔[14]

وحدت ادیان کی نفی کرتے ہوئے فرمایاجولوگ حق واضح ہوچکنے کے باوجوداللہ وحدہ لاشریک کی الٰہیت وربوبیت اوراللہ کے رسولوں  کی پیروی تسلیم نہیں کرتے ہیں  اورچاہتے ہیں  کہ اللہ اوراس کے رسولوں  کے درمیان تفریق کریں اورمحض اپنی نفسانی خواہش ،تعصبات،تکبر اورآباواجدادکی تقلیدمیں کہتے ہیں  کہ ہم کسی نبی کوقبول کریں  گے اور کسی کو قبول نہیں کریں  گے اورکفروایمان کے بیچ میں  ایک راہ نکالنے کاارادہ رکھتے ہیں وہ سب بلااشتباہ پکے کافر ہیں ، کیونکہ انہوں  نے انبیاء ورسل میں  سے کسی ایک کے ساتھ بغض وعداوت رکھی تووہ اللہ تعالیٰ اورتمام رسولوں  سے عداوت رکھتاہے تواللہ بھی ان سے عداوت رکھتاہے،جیسے فرمایا

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ۝۹۸ [15]

ترجمہ:جو اللہ اور اس کے فرشتوں  اور اس کے رسولوں  اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں  اللہ ان کافروں  کا دشمن ہے۔

اور ایسے کافروں  کے لیے ہم نے ذلیل وخوارکردینے والی سزامہیاکررکھی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ۝۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۔۔۔۝۰ ۝۶۱ۧ [16]

ترجمہ: آخر کار نوبت یہاں  تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں  گھِر گئے۔

بخلاف اس کے جولوگ اللہ وحدہ لاشریک کواپنامعبودحقیقی تسلیم کریں  اوراس کے مبعوث کئے تمام رسولوں  کی پیروی قبول کریں  اوران کے درمیان تفریق نہ کریں  عنقریب ہم ان کوان کی نیکیوں  کا اجرعظیم عطاکریں  گے،جیسے ایک اورمقام پرمسلمانوں  کی تعریف میں فرمایا

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ۝۰ۣ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۝۰ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ۝۲۸۵ [17]

ترجمہ:رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں  انہوں  نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ،یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں  اور اس کی کتابوں  اور اس کے رسولوں  کو مانتے ہیں  اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں  کو ایک دوسرے سے الگ نہیں  کرتے ، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی،مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں  اور ہمیں  تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

اورجولوگ اللہ کی وحدانیت پر،اس کی ربوبیت پراوراس کی مبعوث رسولوں  پرایمان لانے والے ہیں  اللہ ان کی لغزشوں  اورگناہوں  کومعاف فرمادے گاان کی نیکیوں  کوقبول فرمائے گااوران کے ساتھ نہایت نرمی اور درگزرکامعاملہ فرمائے گا۔

یَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَیِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٰلِكَ ۚ وَآتَیْنَا مُوسَىٰ سُلْطَانًا مُّبِینًا ‎﴿١٥٣﴾‏ وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوا فِی السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّیثَاقًا غَلِیظًا ‎﴿١٥٤﴾‏
آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں  کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تو انہوں  نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں  کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے، پس ان کے اس ظلم کے باعث ان پر کڑاکے کی بجلی آ پڑی پھر باوجودیکہ ان کے پاس بہت دلیلیں  پہنچ چکی تھیں  انہوں  نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، لیکن ہم نے یہ معاف فرما دیا اور ہم نے موسیٰ کو کھلا غلبہ (اور صریح دلیل) عنایت فرمائی، اور ان کا قول لینے کے لیے ہم نے ان کے سروں  پر طور پہاڑ لا کھڑا کردیا اور انہیں  حکم دیا سجدہ کرتے ہوئے دروازے میں  جاؤ اور یہ بھی فرمایا کہ ہفتہ کے دن میں  تجاوز نہ کرنا اور ہم نے ان سے سخت سے سخت قول وقرار لیے

یہودیوں  کودعوت حق اوران کی حجت بازیاں :یہودی بھی منافقین سے پیچھے نہیں  تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  دعوت اسلام پیش کرتے تووہ بھی لوگوں  کے دلوں  میں  شکوک وشہبات اوروسوسے پیداکرنے کے لئے عجیب عجیب مطالبے کرتے،

أن الیهود سألوا النبیّ علیه السلام أن ینزل علیهم كتاباً من السماء مكتوباً كما نزلت التوراة على موسى

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  وعظ ونصیحت فرمارہے تھے کہ اچھی طرح یہ جاننے کے باوجودکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری اورسچے رسول ہیں ،محض بغض وعناد،تعصبات اورتکبر میں  مبتلاہوکراوراللہ کی گرفت سے بے خوف ہوکرعجیب وغریب مطالبہ کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ کواللہ کاسچارسول مان کراس وقت ایمان لے آئیں  گےجب آپ اپنی سچائی میں  آسمان پرجاکروہاں  سے لکھا ہوا قرآن مجیدلے کرآجائیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام کوہ طورپرگئے تھے اوراللہ کی طرف سے تختیوں  پرلکھی ہوئی تورات لے کرآئے تھے ۔[18]

سَأَلَتِ الْیَهُودُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَصْعَدَ إِلَى السَّمَاءِ وَهُمْ یَرَوْنَهُ فَیُنَزِّلُ عَلَیْهِمْ كِتَابًا مَكْتُوبًا فِیمَا یَدَّعِیهِ عَلَى صِدْقِهِ دَفْعَةً وَاحِدَةً، كَمَا أَتَى مُوسَى بِالتَّوْرَاةِ ۔[19]

قَالَ ابْنُ جُرَیج: سَأَلُوهُ أَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ صُحُفًا مِنَ اللهِ مَكْتُوبَةً إِلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ وَفُلَانٍ، بِتَصْدِیقِهِ فِیمَا جَاءَهُمْ بِهِ

ابن جریج کہتے ہیں  کہ یہودیوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیاتھاکہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں  فلاں  اورفلاں  شخص کے لیے صحیفے اتاردیں  جن میں  آپ کی نبوت کی تصدیق ہو۔[20]

مشرکین مکہ نے بھی کچھ ایسی طرح کامطالبہ کیاتھا

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙاَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا۝۹۱ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙاَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ۝۰ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۳ۧ[21]

ترجمہ:اور انہوں  نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں  گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے،یا تیرے لیے کھجوروں  اور انگوروں  کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں  نہریں  رواں  کر دے،یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپرگرادے جیساکہ تیرادعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں  کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئے،یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائےیا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں  گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں  ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار ! کیا میں  ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟ ۔

کیونکہ قرآن تھوڑاتھوڑاکرکے نازل کیاگیااس پر بھی کفار اعتراض کرتے تھے جس پراللہ تعالیٰ واضح جواب فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً۝۰ۚۛ كَذٰلِكَ۝۰ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۝۳۲وَلَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا۝۳۳ۭ [22]

ترجمہ:منکرین کہتے ہیں  اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں  کیوں  نہ اُتار دیا گیا؟ ہاں  ایسا اس لیے کیا گیا کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں  اور (اسی غرض کے لیے ) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے ،اور (اس میں  یہ مصلحت بھی ہے ) کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال) لے کر آئے اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں  دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی۔

اللہ تعالیٰ نےیہودیوں  کی قومی تاریخ کے چندنمایاں  واقعات کی طرف سرسری اشارہ فرماکر تسلی فرمائی اورکہاآ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ان فاسداور مجرمانہ مطالبے پرکوئی دھیان نہ دیں ان کے بڑے تواس سے بھی بڑھ کر مطالبہ کرچکے ہیں  کہ اے موسیٰ  علیہ السلام ہمیں  اللہ کوعلانیہ کلام کرتے ہوئے دکھادیں ،جیسے فرمایا

وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللهَ جَهْرَةً ۔۔۔۝۵ [23]

ترجمہ:یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں  گے جب تک کہ اپنی آنکھوں  سے علانیہ اللہ کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں ۔

ان کے تکبراورسرکشی کی وجہ سے ان لوگوں  پربجلی ٹوٹ پڑی تھی اورپھراسی دوران انہوں  نے اللہ وحدہ لاشریک کی بے شمارنشانیاں (سمندرکے درمیان خشک راستے کابن جانا ،چٹیل ،چلچلاتی صحرامیں  ابرکاسایہ ہونا ،پتھروں  سے بارہ چشموں  کوپھوٹ پڑنا،خوراک کے لئے من وسلویٰ نازل ہوناوغیرہ)کو دیکھنے کے باوجود سونے چاندی سے بنے ہوئے بچھڑے کواپنامعبودبنالیاتھا ،مگر ہم نے پھربھی اپنی رحمت اورفضل وکرم سے ان ناشکروں ،نافرمانوں  کومعاف فرمادیاتھااورموسی ٰ کوتختیوں  پراحکام لکھ کردیئے،جیسے فرمایا

وَكَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ۝۰ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا۝۰ۭ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ۝۱۴۵ [24]

ترجمہ:اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں  پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں  سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں  ، عنقریب میں  تمہیں  فاسقوں  کے گھر دکھاؤں  گا ۔

مگرجب انہوں  نے تورات کے احکامات کوماننے سے انکارکردیااورموسیٰ علیہ السلام کی اطاعت سے بیزاری ظاہرکی توہم نےان لوگوں  پرکوہ طور کے دامن میں  پہاڑکوان پرمعلق کھڑاکردیا اوران سے (اس فرمان کی اطاعت کا)مضبوط عہدوپیمان لیا،جیسے فرمایا

وَاِذْ نَـتَقْنَا الْجَــبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ۝۰ۚ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۱ۧ [25]

ترجمہ:انہیں  وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں  دے رہے ہیں  اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں  لکھا ہے اسے یاد رکھو ، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔

مگرانہوں  نے زبانی تواقرارکیامگران کے دلوں  میں  بچھڑابساہواتھا،پھرہم نے ان کوحکم دیاکہ بیت المقدس کے دروازہ میں  سجدہ ریزہوتے ہوئے داخل ہوں  اورحِطَّة حِطَّة کہتے ہوئے داخل ہوں ،جیسے فرمایا

وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ۝۰ۭ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۵۸فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِىْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۵۹ۧ [26]

ترجمہ:پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے اس میں  داخل ہو جاؤ ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو مزے سے کھاؤ مگر بستی کے دروازے میں  سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جاناحِطَّة حِطَّة ہم تمہاری خطاؤں  سے درگزر کریں  گے اور نیکو کاروں  کو مزید فضل و کرم سے نوازیں  گے،مگر جو بات کہی گئی تھی ، ظالموں  نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں  پر آسمان سے عذاب نازل کیا یہ سزا تھی ان نافرمانیوں  کی جو وہ کر رہے تھے۔

مگریہاں  بھی انہوں  نے سرکشی کااظہارکیااورسجدہ ریزہونے کے بجائے اپنی رانوں  کے بل گھسٹتے ہوئے دروازے میں  داخل ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حِنْطَةٌ فِی شَعْرَةٍ کہنے لگے ، پھر ہم نے ان سے کہاکہ سبت کاقانون نہ توڑو اوراس پران سے پختہ عہدلیامگرانہوں  نے اس قانون کی بھی بےحرمتی کی اورمختلف حیلے بہانے بنالئے ۔ جیسےفرمایا

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕیْنَ۝۶۵ۚ [27]

ترجمہ:پھر تمہیں  اپنی قوم کے ان لوگوں  کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں  نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں  کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں  رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے ۔

 فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـِٕـیْنَ۝۱۶۶ [28]

ترجمہ:پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں  روکا گیا تھا تو ہم نے کہا بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار۔

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّیثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآیَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَیْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿١٥٥﴾‏ وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا ‎﴿١٥٦﴾‏ وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِی شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ یَقِینًا ‎﴿١٥٧﴾‏ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَیْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا ‎﴿١٥٨﴾‏(النساء)
 (یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں  کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، اور اس سبب سے کہ یوں  کہتے ہیں  کہ ہمارے دلوں  پر غلاف ہے،حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں  پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں  اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث ، اور یوں  کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا حالانکہ نہ تو انہوں  نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایابلکہ ان کے لیے (عیسیٰ ) کا شبیہ بنادیا گیا تھا ، یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے بارے میں  اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں  شک میں  ہیں ، انہیں  اس کا کوئی یقین نہیں  بجز تخمینی باتوں  پر عمل کرنے کے، اتنا یقینی ہے کہ انہوں  نے انہیں  قتل نہیں  کیابلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں  والا ہے۔

یہودیوں  کے جرائم:اللہ تعالیٰ نے یہودیوں  کے جرائم کاذکر فرمایاجن کاانہوں  نے ارتکاب کیاتھااورانہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پرلعنت فرمائی تھی فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جوکچھ یہ کہتے ہیں  کہنے دیں ،آپ اپنافرض نبھاتے ہوئے انہیں  وعظ ونصیحت کرتے رہیں  مگرایسی عہدشکن قوم سے جواللہ کی آیات(دلائل وبراہین اورمعجزات) کوجھٹلاتی اورپیغمبروں  کوناحق قتل کرتی رہی ہےاورکھلم کھلااپنے پیغمبروں  کوکہتی رہی ہے کہ ہم اپنے خیالات،تعصبات اوراپنےاباؤاجدادکے رسم ورواج پرپختہ ہیں  اس لئے تم ہمیں  کچھ بھی وعظ ونصیحت کرو،کوئی بھی دلیل لے آؤہمارے دلوں  پراس کاکچھ اثرنہیں  پڑے گااورجوکچھ ہم کرتے چلے آرہے ہیں  کرتے رہیں  گے،حالانکہ درحقیقت ان کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں  پرآنکھوں  پراورکانوں  پرمہر لگادی ہے اوراسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ۝۰ۭ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِھِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ۝۸۸ [29]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں  ہمارے دل محفوظ ہیں ، نہیں  ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْهِ وَفِیْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَیْنِنَا وَبَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ۝۵ [30]

ترجمہ:کہتے ہیں  جس چیز کی طرف تو ہمیں  بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں  پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں  اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے، تو اپنا کام کرہم اپنا کام کیے جائیں  گے۔

پھران کی جرات مجرمانہ اتنی بڑھی کہ حق جاننے کے باوجود بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اورمشہورونامورمذہبی گھرانے کی کنواری پاکیزہ اطورکی لڑکی مریم علیہ السلام پرتیس سال کے بعد بدکاری کی تہمت لگائی،جیسے فرمایا

 فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ۝۰ۭ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـیْـــــًٔـا فَرِیًّا۝۲۷یٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّا۝۲۸ۖۚفَاَشَارَتْ اِلَیْهِ۝۰ۭ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا۝۲۹قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللهِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ۙوَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۝۰۠ ‎وَاَوْصٰىنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا۝۳۱۠ۖوَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ۝۰ۡوَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۝۳۲ [31]

ترجمہ:پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں  آئی لوگ کہنے لگے اے مریم !یہ تو تونے بڑا پاپ کر ڈالا،اے ہارون کی بہن !نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں  ہی کوئی بدکار عورت تھی،مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا لوگوں  نے کہا ہم اس سے کیا بات کریں  جو گہوارے میں  پڑا ہوا ایک بچہ ہے،بچہ بول اُٹھا میں  اللہ کا بندہ ہوں  اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایااور بابرکت کیا جہاں  بھی میں  رہوں  اور نماز اور زکوٰة کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں  زندہ رہوں اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں  بنایا۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًایَعْنِی أَنَّهُمْ رَمَوْهَا بِالزِّنَا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ پھر اپنے کفر میں  اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا۔‘‘کے بارے میں  روایت کیاہے انہوں  نے مریم  علیہ السلام پربدکاری کاالزام لگایاتھا۔[32]

اور یہ جانتے ہوئے کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول ہیں  ان کے قتل کااقدام کیااورپھرسینے پرہاتھ مارکرفخریہ کہاکہ ہم نے اللہ کے رسول کوقتل کردیاہے حالانکہ فی الواقع نہ وہ انہیں  قتل کرسکے اورنہ صلیب پرچڑھاسکےبلکہ مسیحیوں  اور یہودیوں  میں  ان کامعاملہ مشتبہ کردیاگیااورجن لوگوں  نے اس کے بارے میں  اختلاف کیاہے وہ بھی دراصل شک میں  مبتلاہیں ،ان کے پاس اس معاملہ میں  کوئی علم نہیں  ہے بلکہ یہ محض مجردقیاس وگمان ہی کی پیروی ہے ، فرمایاکہ یہودی مسیح  علیہ السلام کوقتل کرنے میں  کامیاب نہیں  ہوسکے بلکہ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ اورقوت قاہرہ سے عیسیٰ علیہ السلام کوجسم اورروح کے ساتھ آسمان پر اٹھالیا،جیسے فرمایا

اِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّیْكَ وَرَافِعُكَ اِلَیَّ۔۔۔۝۵۵ [33]

ترجمہ:(وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اس نے کہا کہ اے عیسیٰ ! اب میں  تجھے واپس لے لوں  گا اور تجھ کو اپنی طرف اُٹھا لوں  گا ۔

اورجب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی وہ قیامت کے قریب فجرکی نمازکے وقت دمشق میں  منارہ شرقیہ کے پاس اتریں  گےاورحج یاعمرہ یادونوں  ادا کریں  گے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیُهِلَّنَّ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ بِالْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ، أَوْ لَیُثَنِّیَنَّهُمَا جَمِیعًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعیسیٰ علیہ السلام میدان حج میں  روحاء میں حج یاعمرے پریادونوں  پرلبیک کہیں  گے۔ [34]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَنْزِلُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ، فَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَمْحُو الصَّلِیبَ، وَتُجْمَعُ لَهُ الصَّلَاةُ، وَیُعْطَى الْمَالُ حَتَّى لَا یُقْبَلَ، وَیَضَعُ الْخَرَاجَ، وَیَنْزِلُ الرَّوْحَاءَ، فَیَحُجُّ مِنْهَا أَوْ یَعْتَمِرُ، أَوْ یَجْمَعُهُمَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں  گے ،خنزیرکوقتل کریں  گے ،صلیب کومٹائیں  گے،نمازباجماعت ہوگی اورلوگ اللہ کی راہ میں  اس قدرمال دیں  گےکہ کوئی قبول کرنے والانہیں  ملے گا،خراج چھوڑدیں  گے ،مقام روحاء میں  جائیں  گے اوروہاں  حج یاعمرہ کریں  گے یادونوں  ایک ساتھ کریں  گے۔[35]

اللہ زبردست طاقت رکھنے والاہے اس کے ارادہ اورمشیت کوکوئی ٹال نہیں  سکتا،جوشخص اس کی پناہ میں  آجائے اسے کوئی طاقت نقصان نہیں  پہنچا سکتی اوروہ جوبھی فیصلہ فرماتاہے وہ حکمت سے لبریزہوتاہے۔

وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَكُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا ‎﴿١٥٩﴾‏ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِیلِ اللَّهِ كَثِیرًا ‎﴿١٦٠﴾‏ وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿١٦١﴾‏ لَّٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِیمِینَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِیهِمْ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿١٦٢﴾‏(النساء)
اہل کتاب میں  ایک بھی ایسا نہ بچے گا جوحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں  گے، جو نفیس چیزیں  ان کے لیے حلال کی گئی تھیں  وہ ہم نے ان پر حرام کردیں  ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اکثر لوگوں  کو روکنے کے باعث ،اور سود جس سے منع کئے گئے تھے اسے لینے کے باعث اور لوگوں  کا مال ناحق مار کھانے کے باعث، اور ان میں  جو کفار ہیں  ہم ان کے لیے المناک عذاب مہیا کر رکھا ہے، لیکن ان میں  سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں  اور ایمان والے ہیں  جو اس پر ایمان لاتے ہیں  جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں  کو قائم رکھنے والے ہیں  اور زکوة کو ادا کرنے والے ہیں  اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں  یہ ہیں  جنہیں  ہم بہت بڑے اجر عطا فرمائیں  گے۔

جب عیسیٰ علیہ السلام دجال کوقتل کردیں  گے اوردین اسلام کوپھیلائیں  گے تواس زمانے کےسب یہودونصاریٰ اس کی طبعی موت سے پہلے اس پرایمان لے آئیں  گے،

قَالَ أَبُو مَالِكٍ فِی قَوْلِهِ: {إِلا لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ} قَالَ: ذَلِكَ عِنْدَ نُزُولِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، لَا یَبْقَى أَحَدٌ من أهل الكتاب إلا آمن به

ابومالک نے آیت کریمہ’’اور اہل کتاب میں  سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا ۔‘‘کے بارے میں  کہاہے کہ اس سے مرادیہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت اہل کتاب ایمان لے آئیں  گے حتی کہ ہراہل کتاب آپ کی موت سے پہلے آپ پرلازمی طورپرایمان لے آئے گا۔ [36]

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَیُوشِكَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیكُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَیَكْسِرَ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلَ الخِنْزِیرَ، وَیَضَعَ الجِزْیَةَ، وَیَفِیضَ المَالُ حَتَّى لاَ یَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَیْرًا مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا، ثُمَّ یَقُولُ أَبُو هُرَیْرَةَ:وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ، وَیَوْمَ القِیَامَةِ یَكُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا}، [37]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں  گے ،وہ صلیب کوتوڑدیں  گے،سورکومارڈالیں  گےاورجزیہ موقوف کردیں  گے،اس وقت مال کی اس قدربہتات ہوجائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والانہیں  ملے گایعنی صدقہ خیرات لینے والاکوئی نہیں  ہوگااس وقت کا ایک سجدہ دنیاومافیہاسے بہترہوگاابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اگرتم چاہوتوقرآن کی یہ آیت’’ اوراہل کتاب میں  سے کوئی ایسانہ ہوگاجواس کی موت سے پہلے اس پرایمان نہ لے آئے گااورقیامت کے روزوہ ان پرگواہی دے گا۔ ‘‘پڑھ لو ۔[38]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیكُمْ، وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاراکیاحال ہوگاجب تم میں  مسیح ابن مریم نازل ہوں  گے اورتمہاراامام تمہیں  میں  سے ہوگا۔[39]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْأَنْبِیَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِینُهُمْ وَاحِدٌ، وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، لِأَنَّهُ لَمْ یَكُنْ بَیْنِی وَبَیْنَهُ نَبِیٌّ، وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ: رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَیَاضِ، عَلَیْهِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ كَأَنَّ رَأْسَهُ یَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ یُصِبْهُ بَلَلٌ، فَیَدُقُّ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَضَعُ الْجِزْیَةَ، وَیَدْعُو النَّاسَ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَیُهْلِكُ اللَّهُ فِی زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَیُهْلِكُ اللَّهُ فِی زَمَانِهِ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ، ثُمَّ تَقَعُ الْأَمَنَةُ عَلَى الْأَرْضِ حَتَّى تَرْتَعَ الْأُسُودُ مَعَ الْإِبِلِ، وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ، وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَیَلْعَبَ الصِّبْیَانُ بِالْحَیَّاتِ، لَا تَضُرُّهُمْ، فَیَمْكُثُ أَرْبَعِینَ سَنَةً، ثُمَّ یُتَوَفَّى، وَیُصَلِّی عَلَیْهِ الْمُسْلِمُونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انبیاء کرام علیہم السلام علاتی بھائیوں  (جن کا باپ ایک ہو مائیں  مختلف ہوں ) کی طرح ہیں ان سب کی مائیں  مختلف اور دین ایک ہے،اور میں  تمام لوگوں  میں  عیسیٰ علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں  کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ،اور عنقریب وہ زمین پر نزول بھی فرمائیں  گے اس لئے تم جب انہیں  دیکھنا تو مندرجہ ذیل علامات سے انہیں  پہچان لینا، وہ درمیانے قد کے آدمی ہوں  گے سرخ و سفید رنگ ہوگا،گیروے رنگے ہوئے دو کپڑے ان کے جسم پر ہوں  گے، ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپکتے ہوئے محسوس ہوں  گے گو کہ انہیں  پانی کی تری بھی نہ پہنچی ہو،پھر وہ صلیب کو توڑ دیں  گےخنزیر کو قتل کردیں  گےاورجزیہ موقوف کردیں  گے،اور لوگوں  کو اسلام کی دعوت دیں  گے،ان کے زمانے میں  اللہ اسلام کے علاوہ تمام ادیان کو مٹا دے گااور ان ہی کے زمانے میں  مسیح دجال کو ہلاک کروائے گاپھر روئے زمین پر امن و امان قائم ہوجائے گا حتی کہ سانپ اونٹ کے ساتھ اور چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں  کے ساتھ ایک گھاٹ سے سیراب ہوں  گے اور بچے سانپوں  سے کھیلتے ہوں  گے اور وہ سانپ انہیں  نقصان نہ پہنچائیں  گے، اس طرح عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین پر رہ کر فوت ہوجائیں  گے  اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں  گے۔[40]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَیَخْرُجُ إِلَیْهِمْ جَیْشٌ مِنَ الْمَدِینَةِ، مِنْ خِیَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ یَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتِ الرُّومُ: خَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الَّذِینَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَیَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا، وَاللهِ لَا نُخَلِّی بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ إِخْوَانِنَا، فَیُقَاتِلُونَهُمْ، فَیَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا یَتُوبُ اللهُ عَلَیْهِمْ أَبَدًا، وَیُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ، أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللهِ، وَیَفْتَتِحُ الثُّلُثُ، لَا یُفْتَنُونَ أَبَدًا فَیَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِینِیَّةَ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں  تک کہ رومی اعماق یا دابق(یہ دونوں  شام کے علاقے ہیں  جوترکی اورشام کی سرحدپرحلب سے تقریباًبیس کلومیٹرکے فاصلے پرہیں ) میں  حملہ آورنہ ہوں ،ان سے لڑنے کے لئے ایک لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہوگا جواس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں  پرمشتمل ہوگا،جب وہ بالمقابل صف آراء ہوں گے تو رومی کہیں  گے کہ تم ہمارے اور ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو جنہوں  نے ہم میں  سے کچھ لوگوں  کو قیدی بنا لیا ہے ہم ان سے لڑیں  گے،مسلمان جواب میں  کہیں  گے نہیں  اللہ کی قسم ہم اپنے بھائیوں  کو تنہا نہ چھوڑیں  گے کہ تم ان سے لڑتے رہومگر وہ ان سے لڑائی کریں  گے تو ایک تہائی مسلمان پسپائی اختیارکرلیں گے جن کی اللہ کبھی بھی توبہ قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی شہیدہوجائیں  گےجو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل الشہداء ہوں  گےاور تہائی فتح حاصل کرلیں  گے انہیں  کبھی آزمائش میں  نہ ڈالا جائے گاپس وہ قسطنطنیہ کو فتح کرلیں  گے(جونصاری کے قبضہ میں  آگیاہوگااب یہ شہرسلطان محمدفاتح کے وقت سےمسلمانوں  کے قبضہ میں  ہے)

 فَبَیْنَمَا هُمْ یَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ، قَدْ عَلَّقُوا سُیُوفَهُمْ بِالزَّیْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِیهِمِ الشَّیْطَانُ: إِنَّ الْمَسِیحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِی أَهْلِیكُمْ، فَیَخْرُجُونَ، وَذَلِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ، فَبَیْنَمَا هُمْ یُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ، یُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِیمَتِ الصَّلَاةُ، فَیَنْزِلُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللهِ، ذَابَ كَمَا یَذُوبُ الْمِلْحُ فِی الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى یَهْلِكَ، وَلَكِنْ یَقْتُلُهُ اللهُ بِیَدِهِ، فَیُرِیهِمْ دَمَهُ فِی حَرْبَتِهِ

جس وقت وہ آپس میں  مال غنیمت میں  سے تقسیم کر رہے ہوں اور ان کی تلواریں  زیتون کے درختوں  کے ساتھ لٹکی ہوئی ہوں  گی تو اچانک شیطان چیخ کر کہے گا تحقیق مسیح دجال تمہارے بال بچوں  تک پہنچ چکا ہے،وہ سب واپس جاکردیکھیں  لیکن یہ خبر جھوٹی ہوگی،جب وہ شام پہنچیں  گے تو اس وقت دجال کاخروج ہوچکاہو گا اسی دوران کہ وہ جہاد کے لئے تیاری کر رہے ہوں  گےاور صفوں  کو سیدھا کررہے ہوں  گے کہ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی اور عیسیٰ بن مریم نازل ہوں  گےاور مسلمانوں  کی نماز کی امامت کریں  گے،پس جب اللہ کا دشمن(مسیح دجال) انہیں  دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں  نمک پگھل جاتا ہے، اگرچہ عیسیٰ اسے چھوڑ دیں  گے تب بھی وہ پگھل جائے گا یہاں  تک کہ ہلاک ہو جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے عیسیٰ کے ہاتھوں  سے قتل کرائے گا پھر وہ لوگوں  کو اس کا خون اپنے نیزے پر دکھائیں  گے ۔[41]

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:تُقَاتِلُكُمُ الیَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَیْهِمْ، ثُمَّ یَقُولُ الحَجَرُ یَا مُسْلِمُ هَذَا یَهُودِیٌّ وَرَائِی، فَاقْتُلْهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ یہودی تم سے جنگ کریں  گے پھر تم ان پر غالب آ جاؤ گے یہاں  تک کہ (یہودی پتھر کے پیچھے چھپتا پھرے گا) پتھر تم سے کہیں  گے کہ اے مسلمان! ادھر آ میرے پیچھے یہ یہودی (چھپا بیٹھا) ہے اس کو موت کے گھاٹ اتار دے۔[42]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْیَهُودَ، فَیَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى یَخْتَبِئَ الْیَهُودِیُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَیَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: یَا مُسْلِمُ یَا عَبْدَ اللهِ هَذَا یَهُودِیٌّ خَلْفِی، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْیَهُودِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےقیامت اس وقت تک قائم نہیں  ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں  سے قتال نہ کرلیں ،چنانچہ مسلمان انہیں  خوب قتل کریں  گے حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی بھاگ کر پتھروں  یا درختوں  کے پیچھے چھپتے پھریں  گے، تو وہ پتھر اور درخت پکارپکارکرکہیں  گے اے اللہ کے بندے! اے مسلمان! یہ یہودی میرے پیچھےچھپاہوا ہے ، آؤ اور آ کر اسے قتل کردو لیکن غرقد درخت نہیں  بولے گا(وہ ایک کانٹے داردرخت ہے جوبیت المقدس کی طرف بہت ہوتاہے) کیونکہ وہ یہودیوں  کا درخت ہے۔[43]

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَّضَ فِیهِ وَرَفَّعَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِی طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَیْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِینَا، فَقَالَ:مَا شَأْنُكُمْ؟» قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً، فَخَفَّضْتَ فِیهِ وَرَفَّعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِی طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَقَالَ:غَیْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِی عَلَیْكُمْ، إِنْ یَخْرُجْ وَأَنَا فِیكُمْ، فَأَنَا حَجِیجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ یَخْرُجْ وَلَسْتُ فِیكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِیجُ نَفْسِهِ وَاللهُ خَلِیفَتِی عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَیْنُهُ طَافِئَةٌ، كَأَنِّی أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ، فَلْیَقْرَأْ عَلَیْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ،

اور نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے کبھی تحقیر کی (یعنی گھٹایا) اور کبھی بڑا کر کے بیان فرمایا یہاں  تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں  کے ایک جھنڈ میں  ہے،پس جب ہم شام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس بارے میں  معلوم کرلیا تو فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے صبح دجال کا ذکر کیا اور اس میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تحقیر کی اور کبھی اس فتنہ کو بڑا کر کے بیان کیا یہاں  تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں  کے ایک جھنڈ میں  ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں  تمہارے بارے میں  دجال کے علاوہ دوسرے فتنوں  کا زیادہ خوف کرتا ہوں ،اگر دجال نے میری موجودگی میں  خروج کیاتوتمہاری طرف سے میں  اس پرحجت قائم کرتے ہوئے غالب آجاؤں  گااور اگر میری غیر موجودگی میں  ظاہر ہواتو ہر شخص خود اس سے مقابلہ کرنے والا ہوگا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہوگا، بےشک دجال نوجوان گھنگریالے بالوں  والا اور پھولی ہوئی آنکھ والا ہوگا گویا کہ میں  اسے عبدالعزی بن قطن کے ساتھ تشبیہ دیتا ہوں ،پس تم میں  سے جو شخص اسے پالے تو چاہئے کہ وہ اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات پڑھ کردم کرے،

إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَیْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ یَمِینًا وَعَاثَ شِمَالًا، یَا عِبَادَ اللهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ وَمَا لَبْثُهُ فِی الْأَرْضِ؟ قَالَ:أَرْبَعُونَ یَوْمًا، یَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَیَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَیَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَیَّامِهِ كَأَیَّامِكُمْ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ فَذَلِكَ الْیَوْمُ الَّذِی كَسَنَةٍ، أَتَكْفِینَا فِیهِ صَلَاةُ یَوْمٍ؟ قَالَ: لَا، اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِی الْأَرْضِ؟ قَالَ:كَالْغَیْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّیحُ،

اس کا خروج شام اور عراق کے درمیان ایک راستے پرہو گاپھر وہ اپنے دائیں  اور بائیں  جانب فساد برپا کرے گالیکن اے اللہ کے بندو!تمہیں  ثابت قدمی کامظاہرہ کرناہوگا، ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ زمین میں  کتنا عرصہ ٹھہرے گاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس دن،اور ایک دن ایک سال کے برابر اور ایک دن ایک مہینہ کے برابراور ایک دن ایک جمعےکے برابر اور باقی تمام ایام تمہارے عام دنوں  کے برابر ہوں  گے،ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ دن جو ایک سال کے برابر ہوگا کیا اس میں  ہمارے لئے ایک دن کی نمازیں  پڑھنا کافی ہوں  گیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں  بلکہ اس وقت نمازوں کی اوقات کا اندازہ کرلینا،ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ زمین میں  کس قدر تیزی کے ساتھ گھومے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بادل کی طرح جسے پیچھے سے ہوا دھکیل رہی ہو ،

فَیَأْتِی عَلَى الْقَوْمِ فَیَدْعُوهُمْ، فَیُؤْمِنُونَ بِهِ وَیَسْتَجِیبُونَ لَهُ، فَیَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَیْهِمْ سَارِحَتُهُمْ، أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا، وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ، ثُمَّ یَأْتِی الْقَوْمَ، فَیَدْعُوهُمْ فَیَرُدُّونَ عَلَیْهِ قَوْلَهُ، فَیَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَیُصْبِحُونَ مُمْحِلِینَ لَیْسَ بِأَیْدِیهِمْ شَیْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَیَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَیَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِی كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَیَعَاسِیبِ النَّحْلِ، ثُمَّ یَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، فَیَضْرِبُهُ بِالسَّیْفِ فَیَقْطَعُهُ جَزْلَتَیْنِ رَمْیَةَ الْغَرَضِ، ثُمَّ یَدْعُوهُ فَیُقْبِلُ وَیَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ، یَضْحَكُ،

پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں  دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں  گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں  گے،پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کوحکم دے گاتووہ سبزہ اگانے لگ جائے گی،اورلوگوں  کے چرنے والے جانور شام کے وقت ان کے پاس آئیں  گے تو ان کے کوہانیں  پہلے کی نسبت زیادہ لمبی ہوں  گی اوران کے تھن دودھ سے بہت زیادہ بھرے ہوں  گے اوران کے پہلوباہرنکلے ہوں  گے،پھر دجال کچھ اورلوگوں  کے پاس جائے گا اور انہیں  دعوت دے گاتووہ اس کی دعوت کوٹھکرا دیں  گےلہذاجب وہ وہاں  سے واپس چلاجائے گا تو وہ خشک سالی کاشکار ہو جائیں  گے حتی کہ ان کے ہاتھ میں کوئی مال ودولت باقی نہ بچے گاوہ بے آبادزمین کے پاس سے گزرے گااور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے، تو زمین کے خزانے شہد کی مکھیوں  کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں  گے،پھر وہ ایک کڑیل اور کامل الشباب آدمی کو بلائے گااور اسے تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کردے گااس کے جسم کے دونوں  ٹکڑوں  کے مابین فاصلہ تیرے نشانہ تک جتناہوگاپھر وہ اس (مردہ) کو آواز دے گا تو وہ زندہ ہوکر چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا،

فَبَیْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللهُ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ، فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَیْضَاءِ شَرْقِیَّ دِمَشْقَ، بَیْنَ مَهْرُودَتَیْنِ، وَاضِعًا كَفَّیْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَیْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلَا یَحِلُّ لِكَافِرٍ یَجِدُ رِیحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ، وَنَفَسُهُ یَنْتَهِی حَیْثُ یَنْتَهِی طَرْفُهُ، فَیَطْلُبُهُ حَتَّى یُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ، فَیَقْتُلُهُ، ثُمَّ یَأْتِی عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمُ اللهُ مِنْهُ، فَیَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَیُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِی الْجَنَّةِ،

دجال کے اسی افعال کے دوران اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہما السلام کومبعوث فرمادے گاوہ دمشق کے مشرق میں  سفید منارے کے پاس زرد رنگ کے حلے پہنے ہوئے دو فرشتوں  کے کندھوں  پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں  گے، جب وہ اپنے سر کو جھکائیں  گے تو اس سے قطرے گریں  گےاور جب اپنے سر کو اٹھائیں  گے تو اس سے سفید موتیوں  کی طرح قطرے ٹپکیں  گےاور جو کافر بھی ان کی سانس کی ہواکوپائے گا وہ مرجائے گااور ان کی سانس کی ہوا وہاں  تک پہنچے گی جہاں  تک ان کی نظر جائے گی،پس مسیح علیہ السلام دجال کو تلاش کریں  گے حتی کہ اسے باب لد پر پائیں  گے تو اسے قتل کردیں  گے،پھر عیسی بن مریم علیہما السلام کے پاس وہ لوگ آئیں  جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے محفوظ رکھا ہوگا عیسی علیہ السلام ان کے چہروں  کو صاف کریں  گے اور انہیں  جنت میں  ملنے والے ان کے درجات بتائیں  گے،

فَبَیْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللهُ إِلَى عِیسَى: إِنِّی قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِی، لَا یَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزْ عِبَادِی إِلَى الطُّورِ وَیَبْعَثُ اللهُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ، فَیَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَیْرَةِ طَبَرِیَّةَ فَیَشْرَبُونَ مَا فِیهَا، وَیَمُرُّ آخِرُهُمْ فَیَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ، وَیُحْصَرُ نَبِیُّ اللهِ عِیسَى وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى یَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَیْرًا مِنْ مِائَةِ دِینَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْیَوْمَ، فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللهِ عِیسَى وَأَصْحَابُهُ، فَیُرْسِلُ اللهُ عَلَیْهِمُ النَّغَفَ فِی رِقَابِهِمْ، فَیُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ،

اسی دوران عیسی علیہ السلام پر اللہ رب العزت وحی نازل فرمائے گا کہ تحقیق میں  نے اپنے ایسے بندوں  کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں لہذا میرے بندوں  کو حفاظت کے لئے طور کی طرف لے جائیں ، اس وقت اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو بھیجے گااور وہ ہر اونچی جگہوں  سے دوڑتے ہوئے آئیں  گے،ان کاپہلادستہ بحیرہ طبریہ (یہ شمالی فلسطین(اسرائیل)میں  دریائے اردن کے مغرب میں  واقع ہے اسے بحیرہ گلیلی بھی کہاجاتاہے ) کے پاس سے گزرے گاتو اور اس میں  موجود سارا پانی پی لے گااورجب ان کا آخری دستہ گزرے گا تووہ کہے گا کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود تھااور اللہ کے نبی اور ان کے رفقاء محصور ہوجائیں  گےیہاں  تک کہ(تنگی معیشت کے سبب) بیل کا سران کے نزدیک تمہارے آج کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگا، پھر اللہ کے نبی( عیسی علیہ السلام) اور ان کے رفقاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا کریں  گےتو اللہ تعالی یاجوج ماجوج کی گردنوں  میں  ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں  گے،

ثُمَّ یَهْبِطُ نَبِیُّ اللهِ عِیسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَلَا یَجِدُونَ فِی الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ، فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللهِ عِیسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللهِ، فَیُرْسِلُ اللهُ طَیْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَیْثُ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ یُرْسِلُ اللهُ مَطَرًا لَا یَكُنُّ مِنْهُ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ، فَیَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى یَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ، ثُمَّ یُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَنْبِتِی ثَمَرَتَكِ، وَرُدِّی بَرَكَتَكِ، فَیَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ، وَیَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَیُبَارَكُ فِی الرِّسْلِ، حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِی الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ لَتَكْفِی الْقَبِیلَةَ مِنَ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ لَتَكْفِی الْفَخِذَ مِنَ النَّاسِ، فَبَیْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللهُ رِیحًا طَیِّبَةً، فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ، وَیَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ، یَتَهَارَجُونَ فِیهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ، فَعَلَیْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی پہاڑسے اترکرمیدانی علاقے میں  آجائیں  گےتووہ زمین میں  ایک بالشت کے برابر جگہ بھی خالی نہیں  پائیں  گےکیونکہ ساری زمین ان کی چربی اور بدبو سے بھری ہوئی ہوگی،پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے رفقاء  اللہ تعالیٰ سےدعا کریں  گے تو اللہ تعالی ایسے پرندے بھیج دے گاجوخراسانی اونٹوں  کی گردنوں  کی طرح ہوں گے جو انہیں  اٹھا کر وہاں پھینک دیں  گے جہاں  اللہ تعالیٰ چاہے گا،پھر اللہ تعالی بارش بھیجے گا جس سے ہر مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں  کا آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہوجائے گا اور زمین مثل باغ یا حوض کے دھل جائے گی،پھر زمین سے کہا جائے گااپنے پھل کو اگا دے اور اپنی برکت کو لوٹا دے،پس اس برکت کی وجہ سےن دنوں  اتنے بڑے انارپیداہوں  گے کہ پوری ایک جماعت کے لیے ایک انارکافی ہوگااوراس کے چھلکے کے سائے میں  آرام کرسکیں  گےاور دودھ میں  اتنی برکت دے دی جائے گی کہ ایک دودھ دینے والی اونٹنی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگی اورایک دودھ دینے والی گائے قبیلہ کے لوگوں  کے لئے کافی ہوجائے گی اور ایک دودھ دینے والی بکری پوری گھرانے کے لئے کفایت کرجائے گی، اسی دوران اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں  کی بغلوں  کے نیچے تک پہنچ جائے گی اور ہر مسلمان اور ہر مومن کی روح قبض کرلی جائے گی اور بدترین لوگ ہی باقی رہ جائیں  گے جو گدھوں  کی طرح کھلم کھلاجنسی عمل کریں  گے پس انہی بدترین قسم کے لوگوں  پر قیامت قائم ہوگی۔[44]

عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، سَمِعْتُ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو إِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا؟قَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمْ شَیْئًا، إِنَّمَا قُلْتُ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِیلٍ أَمْرًا عَظِیمًا، كَانَ تَحْرِیقَ الْبَیْتِ قَالَ شُعْبَةُ: هَذَا أَوْ نَحْوَهُ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِی أُمَّتِی، فَیَلْبَثُ فِیهِمْ أَرْبَعِینَ لَا أَدْرِی أَرْبَعِینَ یَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِینَ سَنَةً، أَوْ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً، أَوْ أَرْبَعِینَ شَهْرًا؟ فَیَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ، فَیَظْهَرُ فَیَطْلُبُهُ فَیُهْلِكُهُ، ثُمَّ یَلْبَثُ النَّاسُ بَعْدَهُ سِنِینَ سَبْعًا، لَیْسَ بَیْنَ اثْنَیْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ یُرْسِلُ اللَّهُ رِیحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ، فَلَا یَبْقَى أَحَدٌ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِیمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ كَانَ فِی كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْ عَلَیْهِ

عروہ بن مسعودثقفی سے مروی ہےمیں  نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کویہ بیان کرتے ہوئے سناجب ان کے پاس ایک شخص آیااوراس نے کہاکہ یہ کیاحدیث ہے جوتم بیان کرتے ہوکہ قیامت فلاں  فلاں  وقت قائم ہوگی ؟انہوں  نے سبحان اللہ یالاالٰہ الااللہ یااس طرح کاکوئی کلمہ کہااورفرمایاکہ میں  نے ارادہ کیاہے کہ آئندہ کسی سے کچھ بھی بیان نہیں  کروں  گامیں  نے تویہ کہاتھاکہ تھوڑے عرصے بعدتم ایک بہت بڑاسانحہ دیکھوگے اوروہ یہ کہ بیت اللہ جل جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں  دجال کا خروج ہوگا جوان میں  چالیس،معلوم نہیں  آپ نے دن یامہینے یاسال فرمایاتک رہے گاپھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمادے گاجو عمروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہہ ہوں  گے،  عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کرکے ہلاک کردیں  گےاس کے بعد سات سال تک لوگ اس طرح پرامن گزاریں  گے کہ کسی دوانسانوں  کے درمیان دشمنی نہ ہو گی،پھر اللہ تعالیٰ شام کی جانب سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا اور وہ ہوا ہر اس شخص کی روح قبض کرلے گی جس کے دل میں  رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگاحتی کہ اگر ان میں  سے کوئی شخص کسی پہاڑکے اندربھی گھساہواہوگا تو وہ ہوا وہاں  بھی پہنچ کراس کی روح کوقبض کرلے گی،

قَالَ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَیَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ، فِی خِفَّةِ الطَّیْرِ، وَأَحْلَامِ السِّبَاعِ، لَا یَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا، وَلَا یُنْكِرُونَ مُنْكَرًا قَالَ: “ فَیَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّیْطَانُ، فَیَقُولُ: أَلَا تَسْتَجِیبُونَ؟ فَیَأْمُرُهُمْ بِالْأَوْثَانِ فَیَعْبُدُونَهَا، وَهُمْ فِی ذَلِكَ دَارَّةٌ أَرْزَاقُهُمْ، حَسَنٌ عَیْشُهُمْ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ، فَلَا یَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لَهُ، وَأَوَّلُ مَنْ یَسْمَعُهُ رَجُلٌ یَلُوطُ حَوْضَهُ فَیَصْعَقُ، ثُمَّ لَا یَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا صَعِقَ، ثُمَّ یُرْسِلُ اللَّهُ، أَوْ یُنْزِلُ اللَّهُ قَطْرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ نُعْمَانُ الشَّاكُّ فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ، قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ، وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ، قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ: أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ، قَالَ: فَیُقَالُ كَمْ؟ فَیُقَالُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِینَ، فَیَوْمَئِذٍ یُبْعَثُ الْوِلْدَانُ شِیبًا، وَیَوْمَئِذٍ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ:حَدَّثَنِی بِهَذَا الْحَدِیثِ شُعْبَةُ مَرَّاتٍ وَعَرَضْتُ عَلَیْهِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبیان فرماتے ہوئے سناکہ شروفسادمیں  پرندوں  کی طرح آگے بڑھنے والے اورظلم وزیادتی میں  دردندوں  جیسے بدترین لوگ باقی رہ جائیں  گےجو نیکی کو نیکی اور گناہ کو گناہ نہیں  سمجھیں  گے،ان کے پاس شیطان انسانی صورت میں  آئے گااور انہیں  کہے گا تم میری دعوت کو کیوں  قبول نہیں  کرتے ؟ وہ پوچھیں  گے کیاحکم ہے؟ توشیطان انہیں  بتوں  کی پوجاکرنے کا حکم دے گا چنانچہ وہ ان کی عبادت کرنے لگیں  گے،اس دوران ان کارزق خوب بڑھ جائے گا اور ان کی زندگی بہترین گذر رہی ہوگی، پھر صور پھونک دیا جائے گا اس کی آواز جس کے کان میں  بھی پہنچے گی وہ گردن کاایک پہلوجھکادے گااوردوسرااٹھالے گا، سب سے پہلے اس کی آوازوہ شخص سنے گا جو اپنے حوض کے کنارے صحیح کر رہا ہوگا اوریہ آوازسن کربے ہوش ہوجائے گاپھر دیگرلوگ بھی بیہوش ہو جائیں  گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گایافرمایانازل فرمائے گا، نعمان راوی کوشک ہے کہ یہاں  آپ نے یعنی شبنم کالفظ استعمال فرمایایا یعنی سائے کا، جس سے لوگوں  کے جسم اگ آئیں  گے،پھر دوبارہ صور پھونک دیا جائے گااور لوگ کھڑے ہوجائیں  گے اور وہ اپنی آنکھوں  سے دیکھ رہے ہوں  گے،اس کے بعد کہا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو اور وہاں  پہنچ کر رک جاؤ تم سے(ضروری)سوال کیے جانے والے ہیں ،پھر حکم ہوگا کہ جہنمی لشکر ان میں  سے نکال لیا جائے،پوچھا جائے گا کتنے لوگ ؟حکم ہوگا کہ ہر ہزار میں  سے نو سو ننانوے ، یہ وہ دن ہوگا جب بچے بوڑھے ہوجائیں  گےاوریہ وہ دن ہوگا جس دن پنڈلی کھولی جائے گی ۔[45]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں ۔

اور یہودونصاریٰ نے ان کےساتھ جومعاملہ کیاتھا قیامت کے روزاس پرگواہی دیں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ۔۔۔ ۝۱۱۷ [46]

ترجمہ: میں  اُسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں  ان کے درمیان تھا ۔

عَنْ قَتَادَةَ: {وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَكُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا} یَقُولُ:یَكُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ , عَلَى أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ رِسَالَةَ رَبِّهِ وَأَقَرَّ بِالْعُبُودِیَّةِ عَلَى نَفْسِهِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ’’ اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا۔‘‘ آپ بنی اسرائیل کے خلاف یہ گواہی دیں  گے کہ آپ نے ان تک اللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچادیاتھااورآپ نے خودبھی اللہ عزوجل کی بندگی کااثبات کیا تھا ۔ [47]

غرض ان یہودی بن جانے والوں  کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر اور اس بناپرکہ یہ خودتواللہ کے راستہ سے منحرف ہیں  ہی اس کے ساتھ اللہ کے بندوں  کوبھی سیدھے راستے سے روکتے ہیں اورمنع کرنے کے باوجودسودلیتے ہیں اوردولت کی حرص میں لوگوں  کے مال ناجائزطریقوں  سے کھاتے ہیں ،توہم نے ان کے گرددائرہ زندگی کوتنگ کرنے کے لئے بہت سی وہ پاک چیزیں  ان پرحرام کردیں  جوپہلے ان کے لیے حلال تھیں  ، جیسے ایک مقام پرفرمایا

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِیْلُ عَلٰی نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ۔۔۔۝۰۝۹۳ [48]

ترجمہ:کھانے کی یہ ساری چیزیں  ( جو شریعت محمدی میں  حلال ہیں ) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں  البتہ بعض چیزیں  ایسی تھیں  جنہیں  توراة کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل (یعقوب علیہ السلام ) نے خود اپنے اُوپر حرام کرلیا تھا(یعنی اونٹ کاگوشت اوردودھ)۔

وَعَلَی الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ۝۰ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَــوَایَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ۝۰ۡۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝۱۴۶ [49]

ترجمہ:اور جن لوگوں  نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں  سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے،یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں  دی تھی اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں  بالکل سچ کہہ رہے ہیں ۔

اوران میں  سےجولوگ ایمان واطاعت سے منحرف اوربغاوت وسرکشی کی روش پرقائم ہیں  ان کے لیے ہم نے جہنم کی آگ کادردناک عذاب تیارکررکھاہے،جس میں  نہ یہ جی سکیں  گے اورنہ ہی انہیں  موت آئے گی،جیسے فرمایا

 اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [50]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

مگران میں  جولوگ شریعت کا پختہ علم رکھنے والے ہیں  اورایماندارہیں  (یعنی عبداللہ بن سلام،ثعلبہ بن سعید،زیدبن سعیداوراسیدبن عبید رضی اللہ عنہ جوہرقسم کے تعصبات ،جاہلانہ ضد،آباؤاجدادکی تقلیداوراپنے نفس کی بندگی سے آزادہوکرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوتسلیم کرکےمسلمان ہوگئے تھے) وہ سب جن کے دلوں  میں  علم مضبوط اورایقان راسخ ہے اس آخری منزل کتاب قرآن مجیدپرایمان لاتے ہیں  جوتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اورجوکتابیں تم سے پہلے انبیاء پر نازل کی گئی تھی اس پربھی ایمان لاتے ہیں ،اس طرح کے بے لاگ حق پرستی کے ساتھ ایمان لانے والوں  اورنمازوزکوٰة کی پابندی کرنے والوں س اوراللہ وحدہ لاشریک اور روز آخر پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں  کوہم روزقیامت ضروراجرعظیم(جنت) عطاکریں  گے۔

إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ كَمَا أَوْحَیْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِیسَىٰ وَأَیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ ۚ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ‎﴿١٦٣﴾‏ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَیْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِیمًا ‎﴿١٦٤﴾‏ رُّسُلًا مُّبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِئَلَّا یَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا ‎﴿١٦٥﴾‏(النساء)
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں  کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف،اور ہم نے داؤد (علیہم السلام)) کو زبور عطا فرمائی،اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں  کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں  اور بہت کے رسولوں  کے نہیں  بھی کیے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا ،ہم نے انہیں  رسول بنایا خوشخبریاں  سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں  کی کوئی حجت اور الزام رسولوں  کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے ، اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ سُكَین وعَدیّ بْنُ زَیْدٍ: یَا مُحَمَّدُ، مَا نَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ بَعْدَ مُوسَى. فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِی ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمَا: {إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ كَمَا أَوْحَیْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ} إِلَى آخَرِ الْآیَاتِ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےسکین بن عدی اورعدی بن زیدنے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ہمیں  تومعلوم نہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بعدکسی اور انسان پروحی نازل فرمائی ہو؟(اس طرح انہوں  نے وحی الٰہی اوررسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا )اس پریہ آیت’’اے نبی !ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے بعدکے پیغمبروں  کی طرف بھیجی تھی۔‘‘ نازل ہوئی۔[51]

جس میں  ان لوگوں  کے قول باطلہ کوردکرتے ہوئے رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کااثبات کیاگیا،فرمایااے محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کوئی نئی اور انوکھی چیزلے کرمبعوث نہیں  ہوئے ہیں ، جس طرح ہم نے انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اسی طرح آپ سے پہلے نوح  علیہ السلام اوراس کے بعدکے پیغمبروں  کی طرف بھیجی تھی،ہم نے ابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق  علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ،اور اولاد یعقوب علیہ السلام ،عیسیٰ علیہ السلام ،ایوب علیہ السلام ،یونس علیہ السلام ،ہارون علیہ السلام ،اورسلیمان علیہ السلام کی طرف بھی وحی بھیجی،ہم نے داود علیہ السلام پران کے فضل وشرف کی بناپرمعروف اورلکھی ہوئی کتاب زبورنازل فرمائی تھی،ہم نے ان رسولوں  پربھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کرچکے ہیں ،قرآن مجیدمیں  صرف چوبیس یاپچیس نبیوں  اوررسولوں  کے واقعات بیان کئے گئے ہیں اوران رسولوں  پربھی جن کاذکرتم سے نہیں  کیا( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کتنے انبیاء آئے ان کی صحیح تعداد صرف اللہ ہی جانتاہے مگر مشہور روایت کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزاربیان کی جاتی ہے)اللہ تعالیٰ نے بعض بلندترین مرتبہ پرفائز انبیاء کاذکریوں  فرمایا

سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ۝۷۹ [52]

ترجمہ:سلام ہے نوح پر تمام دنیا والوں  میں ۔

سَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ۝۱۰۹ [53]

ترجمہ:سلام ہے ابراہیم پر ۔

سَلٰمٌ عَلٰی مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ۝۱۲۰ [54]

ترجمہ:سلام ہے موسیٰ اور ہارون پر ۔

سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ۝۱۳۰ [55]

ترجمہ:سلام ہے الیاس پر ۔

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۱۳۱ [56]

ترجمہ:ہم نیکی کرنے والوں  کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔

پس بھلائی اوراحسان کرنے والے ہرشخص کواس کے احسان کے مطابق مخلوق کے اندرثنائے حسن نصیب ہوتی ہے،اورموسیٰ علیہ السلام کی خاص صفت بیان فرمائی کہ ہم نے موسیٰ  علیہ السلام سے بغیرکسی واسطہ کے بالمشافہ کلام فرمایا،جیسے فرمایا

وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ۔۔۔ ۝۱۴۳ [57]

ترجمہ:جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نےصحیح ابن حبان میں  ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھاہے

مُوسَى وَمُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَلِكَ آدَمَ

اس صفت میں  آدم علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہیں ۔

یہ سارے رسول اہل ایمان کودنیاوی اورانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  کی خوشخبری دینے والے اوردعوت حق ،رسالت اور منزل کتابوں  کاانکارکرنے اوراللہ تعالیٰ کی ذات وصفات ،اختیارات اورحقوق میں  شریک کرنے والوں  کوجہنم کی آگ کے ہولناک عذاب سےڈرانے والے بناکربھیجے گئے تھےتاکہ ان کومبعوث کردینے کے بعد لوگوں  کے پاس اللہ کے مقابلے میں  کوئی حجت اورالزام نہ رہے جیسے فرمایا

وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى۝۱۳۴ [58]

ترجمہ:اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں  نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کرلیتے؟ ۔

وَلَوْلَآ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۴۷  [59]

ترجمہ:(اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ ) کہیں  ایسا نہ ہو کہ ان کے اپنے کیے کرتوتوں  کی بدولت کوئی مصیبت جب ان پر آئے تو وہ کہیں  اے پروردگار ! تو نے کیوں  نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہلِ ایمان میں  سے ہوتے۔

۔۔۔اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ۔۔۔۝۰۝۱۹ۧ [60]

ترجمہ: تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں  آیا ۔

اوراللہ بہرحال غالب رہنے والااورحکیم وداناہے۔

لَّٰكِنِ اللَّهُ یَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ یَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِیدًا ‎﴿١٦٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِیلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِیدًا ‎﴿١٦٧﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ یَكُنِ اللَّهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِیَهْدِیَهُمْ طَرِیقًا ‎﴿١٦٨﴾‏ إِلَّا طَرِیقَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرًا ‎﴿١٦٩﴾(النساء)
جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں  اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے،جن لوگوں  نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اوروں  کو روکا وہ یقیناً گمراہی میں  دور نکل گئے،جن لوگوں  نے کفر کیا اور ظلم کیا، انہیں  اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز نہ بخشے گا اور نہ  انہیں  کوئی راہ دکھائے گا بجز جہنم کی راہ کے جس میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں  گے،  اور یہ اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے۔

ان آیات میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کااثبات اوران مشرکین واہل کتاب کی تردیدہے جنہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کاانکارکیاتھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جماعةٌ مِنَ الْیَهُودِ، فَقَالَ لَهُمْ:إِنِّی لَأَعْلَمُ وَاللَّهِ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونِ أَنِّی رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالُوا: مَا نَعْلَمُ ذَلِكَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَكِنِ اللَّهُ یَشْهَدُ بِمَا أَنزلَ إِلَیْكَ أَنزلَهُ بِعِلْمِهِ [وَالْمَلائِكَةُ یَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِیدًا]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےیہودکی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  کہااللہ کی قسم !مجھے خوب معلوم ہے کہ تم لوگ میری رسالت کاپختہ علم رکھتے ہو،انہوں  نے انکارکرتے ہوئے کہاہم تواس بارے میں  کوئی علم نہیں  رکھتے،تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت ’’(لوگ نہیں  مانتے تونہ مانیں )مگراللہ گواہی دیتاہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے اوراس پرملائکہ بھی گواہ ہیں  اگرچہ اللہ کا گواہ ہونابالکل کفایت کرتاہے۔‘‘ نازل کی ۔[61]

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !لوگ دعوت حق اورآپ کی رسالت پرایمان نہیں  لاتے تونہ لائیں  مگراللہ وحدہ لاشریک گواہی دیتاہے کہ اس نے جوقرآن مجیدوفرقان حمید تم پرنازل کیاہے اپنے علم کے ساتھ نازل کیاہے،جیسے فرمایا

لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [62]

ترجمہ:باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے ، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

جس میں  تمام علوم الہیہ ،احکام شرعیہ اور اخبارغیبیہ موجودہیں اوریہ جلیل القدرکتاب اوامرونواہی پرمشتمل ہے،اوراس کی حقانیت پرملائکہ بھی گواہ ہیں  اگرچہ اللہ کاگواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ توحید پرشہادت دیتاہے،

شَهِدَ اللهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ۝۰ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱۸ۭ [63]

ترجمہ: اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں  ہے ، اور (یہی شہادت ) فرشتوں  اور سب اہلِ علم نے بھی دی ہے وہ انصاف پر قائم ہے، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی الٰہ نہیں  ہے۔

جولوگ بغض وعناد،اپنے آباؤاجدادکی تقلیداورتعصبات کی بناپر دعوت حق ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اورآپ پرنازل کتاب کوتسلیم سے انکارکرتے ہیں  اوراس کے ساتھ شکوک وشہبات پھیلاکر دوسروں  کوبھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں  یعنی یہ لوگ ائمہ کفراورگمراہی کے داعی ہیں ، یقیناً وہ گمراہی میں  حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ،اس طرح جن لوگوں  نے مسلسل کفروسرکشی کی روش اختیارکی اورظلم وستم پراترآئے اللہ ان کوہرگزمعاف نہ کرے گااورانہیں  کوئی راستہ بجزجہنم کے راستے کے نہ دکھائے گاجس میں  وہ ہمیشہ پڑے رہیں  گے،اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں  ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَیْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿١٧٠﴾‏(النساء)
اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آگیا ہے، پس تم ایمان لاؤ تاکہ تمہارے لیے بہتری ہو اور اگر تم کافر ہوگئے تو اللہ ہی کی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے اور اللہ دانا اور حکمت والا ہے۔

اے لوگو!یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دعوت حق لے کرآگیاہےلہذااللہ وحدہ لاشریک کی ذات وصفات پر،اس کی قدرتوں  اوراختیارات پر اوراس کے بندے اوررسول محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پراوران پرمنزل جلیل القدرکتاب قرآن مجیدپرخلوص نیت سے ایمان لے آؤتاکہ کفروشرک کی گمراہیوں  اورضلالتوں  سے نکل کررشدوہدایت کے راستے پرگامزن ہوسکو،اسی میں  تمہارافائدہ ہے ،اللہ تعالیٰ اس دنیامیں  بھی تمہیں  نافرمان قوموں  میں  سربلندی ،غلبہ ،عزت وقار،امن وسکون اور معیشت میں  استحکام عطافرمائے گااورآخرت میں  بھی عزت ومرتبہ عطافرمائے گا،اوراس کے برعکس اگرتم اللہ کوچھوڑکرجوتمہاراحقیقی معبودہے اپنے باطل معبودوں  کی پرستش کروگے تو تمہارے کفروسرکشی سے اللہ جواس عظیم الشان کائنات کاخالق ومالک ہے اوراس میں  تدبیراورتصرف کرتاہے کاکچھ نہیں  بگڑے گابلکہ تمہارا اپناہی نقصان ہوگا ، جیسے موسیٰ  علیہ السلام نے اپنی قوم سےفرمایاتھا

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۸ [64]

ترجمہ:اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں  تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں  آپ محمود ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے سنا،پروردگارنے فرمایااے میرے بندو!اگرتمہارے اول وآخر تمام انسان اورجن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں  جوتم میں  سب سے زیادہ متقی ہے تواس سے میری بادشاہی میں  کچھ اضافہ نہیں  ہوگااوراے میرے بندو!اگرتمہارے اول وآخر اور انس وجن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں  جوتم میں  سب سے بڑانافرمان ہوتواس سے میری بادشاہی میں  کچھ بھی کمی نہیں  ہوگی،اے میرے بندو!اگرتم سب ایک میدان میں  جمع ہوجاؤاورمجھ سے سوال کرواورمیں  ہرانسان کواس کے سوال کے مطابق عطاکروں  تواس سے میرے خزانے میں  اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندرمیں  ڈبوکرنکالنے سے سمندرکے پانی میں  ہوتی ہے۔[65]

اس حدیث سے صاف نکلتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی بندوں  کی سی بادشاہی نہیں  بلکہ اللہ عزوجل محض بے پرواہے اوراس کوکسی سے رتی برابربھی ڈراورخوف نہیں  ہے،کوئی کیساہی مقبول بندہ ہواورکیساہی عزت اور مرتبہ والاہومگراس کی بارگاہ میں  سوائے گڑگڑانے اورعاجزی کرنے کے کچھ نہیں  کرسکتا،سب بندے اس کے غلام ہیں  اوروہ شہنشاہ بے پرواہے،دنیامیں  بھی وہی رزق عنایت فرماتاہے اورآخرت میں  بھی اگروہ چاہے گاتونجات ملے گی ،اس کے سوانہ کوئی مالک ہے اورنہ کوئی مددگار،اس کی سلطنت اوربے پرواہی اس درجہ پرہے کہ اگرتمام جہاں  پیغمبروں  کی طرح متقی ہوجائے تواس کی حکومت کی کچھ رونق نہیں  بڑھے گی اورجوتمام جہاں  فرعون اورہامان کی طرح بدکارہوجائے تواس کی سلطنت میں  کچھ نقصان نہیں  ہوگا،احادیث میں  آیاہے کہ اللہ کے نیک بندے اللہ کی بارگاہ میں  سفارش کریں  گے اس سے وہی سفارش مرادہے جوغلام شہنشاہ کی مرضی پاکراس کی اجازت اورحکم سے کسی گنہگارکی سفارش کرتاہے، نہ وہ سفارش جودنیاکے بادشاہوں  کے پاس زورڈال کرکی جاتی ہے یاجس میں  بادشاہ کولحاظ ہوتاہے کہ اگر میں  یہ سفارش قبول نہیں  کروں  گاتومیرے کاموں  میں  خلل واقع ہوگا،معاذاللہ اللہ تعالیٰ پرکسی کازورنہیں  چلتا،اس کے حکم میں  کسی کی مجال نہیں  کہ جوں  وجراکرے ،اس کوکسی کی مخالفت یاخفگی کی رتی برابربھی پروانہیں  ہے،تمام جہاں  کے پیغمبراورملائکہ اوراولیاء اللہ اگربفرض محال اللہ کے خلاف ہوجائیں  توایک رتی برابراس کی سلطنت میں  کچھ فتورنہیں  کرسکتے ،وہ قدرتوں  والاایک لمحے میں  سب کوفناکرکےخاک میں  ملاسکتاہے۔ تم لوگ رات کی تاریکیوں  میں  اوردن کے اجالےمیں ،تنہائیوں  میں  یامجالس میں  جواعمال کررہے ہواللہ علام الغیوب اس سے بے خبرنہیں  ہے،ایسانہیں  ہے کہ اس کی سلطنت میں  رہتے ہوئے تم شرارتیں  کرواوراسے معلوم بھی نہ ہو،اورنہ ہی وہ نادان ہے کہ اسے اپنے فرامین کی خلاف ورزی کرنے والوں  سے نمٹنے کاطریقہ نہ آتاہو۔

یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَیْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن یَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِیلًا ‎﴿١٧١﴾‏(النساء)
اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں  حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو،  مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ) ہیں  جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف سے ڈال دیا گیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں  اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں  کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں  اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے، اور اللہ تعالیٰ کافی ہے کام بنانے والا۔

حدسے تجاوزنہ کرو:یہودی عیسیٰ  علیہ السلام کے انکاراورمخالفت میں  حدسے تجاوزکرگئے اسی طرح نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام عقیدت اورمحبت میں ان کی والدہ کورسالت وبندگی کے مقام سے اٹھاکرالوہیت کے مقام پرفائزکردیاجواللہ تعالیٰ کے سواکسی کے لائق نہیں اورپھراللہ کی طرح ان کی عبادت کرنے لگے ،اسی طرح عیسیٰ  علیہ السلام کے پیروکاروں  کوبھی غلوکرتے ہوئے معصوم بناڈالااورانہیں  حلال وحرام کے اختیارات سونپ دیئےاس زبردست غلوکی وجہ سے وہ گمراہی میں  مبتلاہوگئے،جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک اورمقام پرفرمایا

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۝۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۳۱ [66]

ترجمہ:انہوں  نے اپنے علماء اور درویشوں  کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں  دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں  سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ , أَنَّهُ جَاءَ وَفِی عُنُقِهِ وَثَنٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا}, فَقَالَ عَدِیُّ: وَاللَّهِ مَا كَانُوا یَعْبُدُونَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَیْسَ إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْهِمْ شَیْئًا حَرَّمُوهُ؟ , فَقَالَ عَدِیُّ: بَلَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ

عدی بن حاتم سے مروی ہے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوا اور میرے گلے میں  سونے کی صلیب لٹکی ہوئی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’انہوں  نے اپنے علماء اور درویشوں  کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔‘‘ یہ سن کرعدی رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم !ہم اپنے علماء اور درویشوں  کوالٰہ نہیں  بناتے تھےاوران کی عبادت نہیں  کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس چیزکووہ حلال قراردے دیتے تھے تم اسے حلال نہیں  سمجھتے تھےجوچیزوہ حرام کردیتے تھے تم اسے حرام نہیں  سمجھتے تھے؟عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیایہ صحیح ہے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہی عبادت کرناہے۔[67]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب نصاریٰ کومخاطب کرکے فرمایا اے اہل کتاب!اپنے دین میں  غلونہ کرویعنی حدسے نہ گزرجاؤ،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِیْلِ۝۷۷ۧ [68]

ترجمہ:کہو اے اہل کتاب! اپنے دین میں  ناحق غلو نہ کرو اور نہ ان لوگوں  کے تخیلات کی پیروی کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں  کو گمراہ کیا اور سواء السبیل سے بھٹک گئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، سَمِعَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ عَلَى المِنْبَرِ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ تُطْرُونِی، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےانہوں  نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کومنبرپریہ کہتے ہوئے سناکہ میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤجیسے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کونصاریٰ نے ان کے مرتبے سے زیادہ بڑھادیا میں  توصرف اللہ کابندہ ہوں  ، اس لئے (میرے متعلق)یہی کہاکروکہ میں  اللہ کابندہ اوراس کارسول ہوں ۔[69]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا مُحَمَّدُ یَا سَیِّدَنَا وَابْنَ سَیِّدِنَا، وَخَیْرَنَا وَابْنَ خَیْرِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ عَلَیْكُمْ بِتَقْوَاكُمْ، لَا یَسْتَهْوِیَنَّكُمُ الشَّیْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، وَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِی فَوْقَ مَنْزِلَتِی الَّتِی أَنْزَلَنِی اللَّهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااے محمد!اے ہمارے سردار اورسردارکے بیٹے،اے ہم سب سے بہتراوربہترکے لڑکے!تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگواپنی بات کاخودخیال کرلیاکروتمہیں  شیطان ادھرادھرنہ کردے،میں  محمدبن عبداللہ ہوں ،میں  اللہ کاغلام اوراس کارسول ہوں ،اللہ کی قسم !میں  نہیں  چاہتاکہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھادو ۔[70]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی حدیہی ہے چنانچہ جب قرآن میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کابندہ فرمایاگیااوریہ آیت نازل ہوئی

 وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللهِ یَدْعُوْهُ كَادُوْا یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِ لِبَدًا۝۱۹ۭۧ [71]

ترجمہ:اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی خوش ہوئے،اورواقعی اللہ کی عبودیت خالصہ بہت بڑامرتبہ ہے،لیکن افسوس !اس نصیحت کے باوجودامت محمدیہ اس غلوسے محفوظ نہ رہے سکی۔

اوراللہ کی طرف حق کے سواکوئی بات منسوب نہ کرو،یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات ،اس کے افعال ، اس کی شریعت اوراس کے رسولوں  کے بارے میں  بلاعلم بات نہ کرو،مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے ایک رسول کے سواکچھ نہ تھایعنی وہ اللہ کے بندوں  میں  سے ایک بندے اوراس کی مخلوقات میں  سے ایک مخلوق ہیں ،جیسے فرمایا

مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۝۰ۭ وَاُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ۝۰ۭ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ۔۔۔۝۰۝۷۵ [72]

ترجمہ:مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں  کہ بس ایک رسول تھا ، اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے، اس کی ماں  ایک راستباز عورت تھی ، اور وہ دونوں  کھانا کھاتے تھے۔

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۝۰ۭ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۵۹ [73]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم علیہ السلام کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہوگیا۔

یعنی اللہ تعالیٰ نےآدم علیہ السلام کوبغیرماں  اورباپ کے پیداکردیااوروہ اللہ کی الوہیت میں  شریک نہیں  ہوگئے توعیسیٰ علیہ السلام جن کی والدہ بھی تھی وہ اللہ کے بیٹے یا شریک کیسے ہوسکتے ہیں

 ، وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۝۱۲ۧ [74]

ترجمہ:اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے رُوح پُھونک دی، اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں  کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں  میں  سے تھی۔

یعنی وہ اللہ کی الوہیت میں  شریک نہیں  تھیں  بلکہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت گزاربندی اورمنزل کتابوں  پرایمان رکھتی تھیں ،

 وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰیَةً لِّـلْعٰلَمِیْنَ۝۹۱ [75]

ترجمہ:اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ، ہم نے اس کے اندر اپنی روح سے پھونکا اور اُسے اور اس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔

اِنْ هُوَاِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۵۹ۭ [76]

ترجمہ:اِبن مریم اِن کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اُسے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا۔

اورایک فرمان یعنی بشارت تھاجواللہ نے مریم کی طرف بھیجااور اللہ کی طرف سےایک روح یعنی پھونک تھی جوجبریل علیہ السلام نے مریم علیہ السلام کے گریبان میں  پھونکی تھی اوراس نے مریم کے رحم میں  بچہ کی شکل اختیارکرلی،

عَنْ عُبَادَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ :مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِیسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ العَمَلِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوااورکوئی معبودنہیں  ،وہ وحدہ لاشریک ہے اوریہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اوررسول ہیں  اوریہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اس کے بندے اوررسول ہیں  اوراس کاکلمہ ہیں  جسے اللہ نے مریم تک پہنچادیاتھااوراس کی طرف سے ایک روح ہیں ، اوریہ کہ جنت حق ہے اوردوزخ حق ہے تواس نے کیسابھی عمل کیاہوگا(آخر)اللہ تعالیٰ اسے جنت میں  داخل کرے گا ۔[77]

عیسائیوں  میں  کئی فرقے ہیں  ان میں  سے بعض عیسیٰ علیہ السلام کو(نعوذباللہ) اللہ مانتے ہیں  ،بعض اللہ کاشریک مانتے ہیں  اوربعض اللہ کابیٹاتسلیم کرتے ہیں  ،پھرجوعیسیٰ علیہ السلام کواللہ مانتے ہیں  وہ تین خداؤں  کےاورعیسیٰ علیہ السلام کے ثالث ثلاثہ (تین میں  سے ایک )ہونے کے قائل ہیں  ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاپس تم اللہ وحدہ لاشریک پراس کی قدرتوں  واختیارات پر اوراس کے تمام رسولوں  پرایمان لاؤاورتین الہٰوں  کے باطل عقیدے سے تائب ہوجاؤ،جیسے فرمایا

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلٰــثَةٍ۝۰ۘ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۷۳ [78]

ترجمہ:یقیناً کفر کیا ان لوگوں  نے جنہوں  نے کہا کہ اللہ تین میں  کا ایک ہے حالانکہ ایک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں  ہے اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں  سے باز نہ آئے تو ان میں  سے جس جس نے کفر کیا ہے اس کو درد ناک سزا دی جائے گی ۔

چنانچہ روزقیامت جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے دریافت فرمائے گاکہ کیا تو نے لوگوں  سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں  کو بھی الٰہ بنالو تووہ اس ظلم عظیم سے صاف انکارفرمادیں  گے،

وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْس        َ لِیْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ۝۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۚ وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ۝۰ۭ وَاَنْتَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۱۷اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ۝۰ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱۱۸ [79]

ترجمہ:غرض جب (یہ اِحسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تو نے لوگوں  سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں  کو بھی الٰہ بنالو؟ تو وہ جواب میں  عرض کرے گا کہ سبحان اللہ ، میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا اگر میں  نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا ، آپ جانتے ہیں  جو کچھ میرے دل میں  ہے اور میں  نہیں  جانتا جو کچھ آپ کے دل میں  ہے آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں  کے عالم ہیں ،میں  نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں  کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، میں  اُسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں  ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلایا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں  پر نگران ہیں ،اب اگر آپ انہیں  سزا دیں  تو وہ آپ کے بندے ہیں  اور اگر معاف کر دیں  تو آپ غالب اور دانا ہیں ۔

لہذااس ظلم عظیم سےبازآجاؤاوراللہ کووحدہ لاشریک تسلیم کرواس کی ذات وصفات ، اس کے حقوق واختیارات میں  کسی کو شریک نہ کرو،اگریہ عقیدہ رکھوگے تویہ تمہارے ہی حق میں  بہترہوگایعنی یہی نجات کی راہ ہے،اللہ توالوہیت میں  منفرد(یکتا) ہے اس کے سواکوئی عبادت کامستحق نہیں ،اللہ وحدہ لاشریک اس سے منزہ اورپاک ہے کہ کوئی اس کی بیوی یااس کابیٹاہو،زمین اور آسمانوں  کی ساری چیزیں  اس کی ملک ہیں  اورتمام مخلوق اس کی مملوک اورمحتاج ہیں ،

 بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ۝۰ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۚ وَهُوَبِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۱۰۱ [80]

ترجمہ:وہ تو آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اس کا شریکِ زندگی ہی نہیں  ہے اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس قول کی تردیدمیں  واضح ترین الفاظ میں  فرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚوَمَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝۹۲ۭاِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭلَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا۝۹۴ۭوَكُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [81]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں  کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے،سخت بیہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو،قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں  ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پر کہ لوگوں  نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا !رحمان کی یہ شان نہیں  ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے،زمین اور آسمانوں  کے اندر جو بھی ہیں  سب اس کے حضور بندوں  کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ،سب پر وہ محیط ہے اور اس نے ان کو شمار کر رکھا ہےسب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں  گے۔

اوراسے اپنی سلطنت کاکاروبارچلانے کے لئے کسی کی مددلینے کی ضرورت نہیں  ہے بلکہ وہ اپنی تمام مخلوق کی کفالت وخبرگیری کے لیے اکیلاہی کافی ہے۔

 لَّن یَسْتَنكِفَ الْمَسِیحُ أَن یَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن یَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَیَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ إِلَیْهِ جَمِیعًا ‎﴿١٧٢﴾‏ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیهِمْ أُجُورَهُمْ وَیَزِیدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِینَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا وَلَا یَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿١٧٣﴾‏(النساء)
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ ہونے میں  کوئی ننگ و عار نہیں  یا تکبر و انکار ہرگز ہو ہی نہیں  سکتا اور مقرب فرشتوں  کو ، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا، پس جو لوگ ایمان لائے ہیں  اور شائستہ اعمال کئے ہیں  ان کو ان کا پورا پورا ثواب عنایت فرمائے گا اور اپنے فضل سےانہیں  اور زیادہ دے گا اور جن لوگوں  نے تنگ و عار اور سرکشی اور انکار کیا انہیں  المناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لئے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی اور امداد کرنے والا نہ پائیں  گے۔

مشرکین نے فرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  بنارکھاتھااوران کے زنانہ اندازمیں  مجسمے بناکراورعورتوں  کے سے کپڑے پہناکران کی عبادت کرتے تھے،یہودی عزیر علیہ السلام کواللہ کابیٹاکہتے تھےاور نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کابیٹابنارکھاتھا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایامسیح نے کبھی اس بات کوعارنہیں  سمجھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ:یَسْتَنْكِفَ قَالَ: لَنْ یَسْتَكْبِرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے’’مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں  سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو۔‘‘کے معنی ہیں  وہ تکبرنہیں  کرتے۔[82]

عَنْ قَتَادَةَ , قَوْلَهُ: {لَنْ یَسْتَنْكِفَ  یَقُولُ: لَنْ یَحْتَشِمَ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں  سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو۔ کے معنی ہیں  وہ اسے موجب عارنہیں  سمجھتے۔[83]

کہ وہ اللہ کاایک بندہ ہواورنہ اللہ کے مقرب ترین فرشتے اس کواپنے لیے عارسمجھتے ہیں توتم لوگ کس بنیادپرانہیں  اللہ یااس کی الوہیت میں  شریک گردانتے ہو؟ اورکیوں  ان کی عبادت کرتے ہو؟اگرکوئی اللہ کی بندگی کواپنے لیے عار سمجھتاہے اوراس کی عبادت واطاعت سےتکبرکرتاہے توروزقیامت جب اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کوعارسمجھنے والوں  ، متکبروں  اوراطاعت گزاربندوں  کوگھیرکراپنی بارگاہ میں  حاضر کرے گااوران کے اعمال کی بابت بازپرس کرے گااورپھران کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا،چنانچہ جن لوگوں  نے اللہ کی وحدانیت اوررزاقیت اوراس کے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے ہوں  گے اوررسول کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کیے ہوں  گے وہ اپنے اجروثواب اپنے ایمان اورعمل کے مطابق پورے پورے پائیں  گے اوراللہ اپنے فضل وکرم سے ان کومزیداجروثواب بھی عطافرمائے گااوراس ثواب کاتصوربھی نہیں  کیاجاسکتا ، اورجن لوگوں  نے تکبرکی بناپراللہ کی بندگی واطاعت کوعارسمجھا ان کواللہ غیض وغضب سے دھکتی جہنم کےدردناک عذاب کی سزا دے گاجیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۝۶۰ۧ [84]

ترجمہ:جو لوگ گھمنڈ میں  آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں  ضرور وہ تمام خلقت کے سامنے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں  داخل ہوں  گے۔

اوراللہ وحدہ لاشریک کے سواجن جن کی سرپرستی ومددگاری پروہ بھروسہ رکھتے ہیں  ان میں  سے کسی کوبھی وہ وہاں  نہ پائیں  گے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْكُمْ نُورًا مُّبِینًا ‎﴿١٧٤﴾‏ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِی رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَیَهْدِیهِمْ إِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیمًا ‎﴿١٧٥﴾‏(النساء)
اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے ، پس جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیاتو عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں  لے لے گااور انہیں  اپنی طرف کی راہ راست دکھا دے گا۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مکمل دلیل اورحجت تمام ہے:اللہ تعالیٰ نے دنیاکے تمام لوگوں  پراحسان جتلایااورفرمایااے دنیاکے سب لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کی تائیدمیں  قطعی دلائل آچکے ہیں  جوحق کوواضح کرتے ہیں  جس سے تمہارے شک وشہبات زائل ہوسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۔۔۔ ۝۵۳ [85]

ترجمہ:عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں  آفاق میں  بھی دکھائیں  گے اور ان کے اپنے نفس میں  بھی یہاں  تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔

اورہم نے تمہاری طرف جلیل القدرکتاب قرآن کریم کونازل کردیاہےجوتمہیں  کفروشرک کی گھٹاگھپ تاریکیوں  میں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے،

وَأَنزلْنَا إِلَیْكُمْ نُورًا مُبِینًا} أَیْ: ضِیَاءً وَاضِحًا عَلَى الْحَقِّ

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں  صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔ ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں  نورمبین کے معنی ایسی روشنی کے ہیں  جوحق کوواضح کرتی ہو۔

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ: بُرْهَانٌ , قَالَ: بَیِّنَةٌ {وَأَنْزَلْنَا إِلَیْكُمْ نُورًا مُبِینًا} قَالَ:الْقُرْآنُ

ابن جریج رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں  بُرْهَانٌ سے مرادکھلے دلائل ہیں ’’ اور اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں  صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔ ‘‘ سے مراد قرآن کریم ہے[86]

اب جولوگ اللہ کے وجوداوراس کی دعوت پرایمان لائیں  گے اوراللہ کے دین کی رسی کومضبوط تھامے رہیں  گے،

وَقَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ:فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ، آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِالْقُرْآنِ

ابن جریج فرماتے ہیں  کہ اس’’اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں  گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں  گے۔‘‘کے معنی یہ ہیں  کہ وہ اللہ پرایمان لائے اورانہوں  نے قرآن مجیدکو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا۔[87]

اوراپنے تمام امورومعاملات میں  اللہ تعالیٰ پرتوکل کریں  گےتو ان کواللہ اپنی وسیع رحمت اوراپنے فضل وکرم کے دامن میں  لے لے گا اور ان کواپنی طرف آنے کےسیدھےراستہ کی طرف علم وعمل کی توفیق فرمائے گا۔

یَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ یُفْتِیكُمْ فِی الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَیْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ یَرِثُهَا إِن لَّمْ یَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ ۗ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١٧٦﴾‏(النساء)
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں  کلالہ کے بارے میں  فتویٰ دیتا ہےکہ اگر کوئی شخص مرجائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو ،پس اگر بہن دو ہوں  تو انہیں  کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا ، اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں  مرد بھی عورتیں  بھی تو مرد کے لیے حصہ ہے مثل دو عورتوں  کے ، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ:مَرِضْتُ فَعَادَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَهُمَا مَاشِیَانِ، فَأَتَانِی وَقَدْ أُغْمِیَ عَلَیَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَیَّ وَضُوءَهُ فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، كَیْفَ أَصْنَعُ فِی مَالِی؟ كَیْفَ أَقْضِی فِی مَالِی؟ فَلَمْ یُجِبْنِی بِشَیْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آیَةُ المَوَارِیثِ

میں  نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سناانہوں  نے بیان کیاکہ میں  بیمارہوگیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لئے تشریف لائے دونوں  حضرات پیدل چل کرآئے تھےجب دونوں  حضرات تشریف لائے تومجھ پرغشی طاری تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضوکاپانی میرے اوپرچھڑکا،مجھے ہوش آیاتومیں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !(میں  کلالہ ہوں )میں اپنے مال کی(تقسیم)کس طرح کروں ؟یااپنے مال کاکس طرح فیصلہ کروں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں  دیایہاں  تک کہ میراث کی آیتیں  نازل ہوئیں ۔[88]

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ قَالَ: آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ:بَرَاءَةٌ، وَآخِرُ آیَةٍ نَزَلَتْ:یَسْتَفْتُونَكَ

ابواسحاق سے مروی ہے انہوں  نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سناانہوں  نے بیان کیاکہ سب سے آخرمیں  جوسورت نازل ہوئی وہ سورۂ برات ہے اور(احکام میراث کے سلسلہ میں )سب سے آخرمیں (نوہجری میں ) جوآیت نازل ہوئی وہ ’’اے نبی ،لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں  فتویٰ پوچھتے ہیں ۔‘‘ ہے ۔[89]

فرمایا لوگ تم سے کلالہ (یعنی وہ میت جس کےصلب سے کوئی اولادہونہ کوئی پوتاپوتی، نہ باپ ہونہ دادا) کے معاملہ میں  فتویٰ پوچھتے ہیں  کہواللہ تمہیں  فتویٰ دیتاہے اگرکوئی شخص بے اولادمرجائے اوراس کی ایک سگی بہن یاعلاتی(باپ شریک) بہن ہوتووصیت پوری کرنے اورقرض کی ادائیگی کے بعدوہ اس کے ترکہ یعنی نقدی،جائداداوردیگراثاثوں  میں  سے نصف پائے گی اوراگربہن بے اولادمرے اورکوئی اوروارث نہ ہو توبھائی اس کے تمام ترکہ کاوارث ہوگا،اگرمیت کے وارث دوبہنیں  ہوں  تووہ کل ترکے میں  سے دوتہائی کی حقدارہوں  گی ، اور اگرکلالہ کے باپ کی طرف سے کئی بھائی بہنیں  وارث ہوں  توایک مرددوعورتوں  کے برابرکے اصول پرورثے کی تقسیم ہوگی ،حقوق العبادکاذکرفرماکریوں  تنبیہ فرمائی کہ اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتاہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرواوراللہ ہرچیزکاعلم رکھتاہے۔

غزوہ بدرالآخرہ(بدرالموعد ، بدرثالثہ) شعبان چار ہجری

وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ أبا سفیان قَالَ عِنْدَ انْصِرَافِهِ مِنْ أُحُدٍ: مَوْعِدُكُمْ وَإِیَّانَا الْعَامُ الْقَابِلُ بِبَدْرٍ

غزوہ احدسے واپسی کے وقت ابوسفیان مسلمانوں  سے یہ وعدہ کرچکاتھاکہ آئندہ سال بدرمیں  لڑائی ہوگی۔[90]

وَخَرَجَ أبو سفیان بِالْمُشْرِكِینَ مِنْ مَكَّةَ، وَهُمْ أَلْفَانِ وَمَعَهُمْ خَمْسُونَ فَرَسًا

اس لئے ابوسفیان مشرکین مکہ پرمشتمل دوہزارکالشکرلے کرجن میں  پچاس گھوڑے بھی شامل تھے مکہ سے روانہ ہوا۔[91]

حَتَّى نَزَلَ مَجِنَّةَ، مِنْ نَاحِیَةِ الظَّهْرَانِ، وَبَعْضُ النَّاسِ یَقُولُ: قَدْ بَلَغَ عُسْفَانَ

یہاں  تک کہ مرالظہران کے نزدیک مجنہ کے مشہورچشمہ پریابعض لوگوں  کے قول کے مطابق عسفان پرخیمہ زن ہوگیا۔[92]

مگراندرسے اس کادل مسلمانوں  کے جوش ایمانی ،بہادری وشجاعت سے مرعوب تھا اور وہ چاہتا تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر پرنہ آئیں  تاکہ ساراالزام انہیں  پرآئے اوراس کی ناک بھی اونچی رہے کہ ہم تووعدے کے مطابق روانہ ہوئے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہی مقابلہ کاحوصلہ نہ ہوا،

وَكَانَ نُعَیْمُ بْنُ مَسْعُودٍ الأَشْجَعِیُّ قَدِ اعْتَمَرَفَالْحَقْ بالمدینة فثبطهم وعلمهم أَنَّا فِی جَمْعٍ كَثِیرٍ، وَلا طَاقَةَ لَهُمْ بِنَا

ابوسفیان کے روانہ ہونے سے پہلے نعیم بن مسعودالاشجعی نامی ایک شخص عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ آیا چنانچہ اس نے مسلمانوں  کوخوف زدہ کرنے کے لئے ایک منصوبہ بنایا او ر اسے کچھ معاوضہ اداکرکے کہاکہ وہ مدینہ منورہ پہنچ کران کوکسی حیلہ سے ہمارے مقابلے پرآنے سے روکواورشدومدکے ساتھ یہ خبر مشہور کر دو کہ قریش نے مسلمانوں  سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک بڑالشکرترتیب دیاہے،اورتم کسی طرح ان کامقابلہ نہیں  کرسکتے اس لئے تمہارے لئے یہی بہترہے کہ مقابلہ کے لئے مدینہ سے باہرنہ نکلو۔[93]

ثُمَّ بَدَا لَهُ فِی الرُّجُوعِ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّهُ لَا یُصْلِحُكُمْ إلَّا عَامٌ خَصِیبٌ تَرْعَوْنَ فِیهِ الشَّجَرَ، وَتَشْرَبُونَ فِیهِ اللبَنَ، وَإِنَّ عَامَكُمْ هَذَا عَامُ جَدْبٍ وَإِنِّی رَاجِعٌ، فَارْجِعُوا فَرَجَعَ النَّاسُ. فَسَمَّاهُمْ أَهْلُ مَكَّةَ جَیْشَ السَّوِیقِ، یَقُولُونَ:إنَّمَا خَرَجْتُمْ تَشْرَبُونَ السَّوِیقَ

یہ پروپیگنڈہ کرکے اس نے اپنے ساتھیوں  سے کہااے گروہ قریش! یہ سال قحط اورگرانی کاہے جنگ وجدل کا نہیں  ،جنگ کے لئے خوشحالی وشادابی کاسال مناسب ہوتاہے ، جب جانورچرسکیں  اورتم بھی ان کادودھ پی سکو،اس لئے میری رائے تویہ ہے کہ ہم واپس لوٹ چلیں ،قریش مسلمانوں  سے دودوہاتھ کرکے مزاچکھ چکے تھے ان کے دل ودماغ پرخوف وہیبت طاری تھا اس لئے لشکرمیں  سے کسی نے بھی واپسی کی مخالفت نہیں  کی،جب یہ لشکر واپس پہنچاتواہل مکہ نے ان کوجیش السویق کانام دیاوہ کہتے تھے تم وہاں  صرف ستوپینے کے لئے گئے تھے۔[94]

حسب پروگرام نعیم بن مسعودنے مدینہ پہنچ کرخفیہ طریقہ پراس پروپیگنڈے کی خوب تشہیرکی کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکرجمع کر رہے ہیں  جس کامقابلہ تمام عرب میں  کوئی نہ کرسکے گا،

وَقَالَ: لَیْسَ هَذَا بِرَأْیٍ،أَلَمْ یُجْرَحْ مُحَمَّدٌ فِی نَفْسِهِ! أَلَمْ یُقْتَلْ أَصْحَابُهُ! قَالَ: فَثَبَّطَ النَّاسَ،حَتَّى بَلَغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاَلّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَأَخْرُجَن وَإِنْ لَمْ یَخْرُجْ مَعِی أَحَدٌ!

اورمسلمانوں  کومشورہ دینے لگا کہ میں  تواس وقت مقابلے کوکسی طرح مناسب نہیں  سمجھتادیکھوکیاغزوہ احدمیں  خودمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )مجروح نہیں  ہوئے اوران کے ساتھی قتل نہیں  کیے گئے، کچھ مسلمان اس پروپیگنڈے سے متاثرہوئے اورجہادمیں  جانے سے رک گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرے مجمع میں  اعلان کردیااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ مجھ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے اگرکوئی بھی نہ جائے گاتومیں  اکیلاہی وہاں  جاؤں  گا۔[95]

تو اس پروپیگنڈے سے ڈرنے کے بجائے صحابہ کرام ؓکاایمان اوربڑھ گیااورانہوں  نے کہاہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے، اوروہ بہت اچھا کارساز ہے۔

اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ۰۰۱۷۳ [96]

ترجمہ:وہ لوگ کہ جب ان لوگوں  نے کہاکہ کافروں  نے تمہارے مقابلے میں  لشکر جمع کرلیے ہیں  تم ان سے خوف کھاؤتواس بات نے انہیں ایمان میں  اور بڑھا دیااورکہنے لگے ہمیں  اللہ کافی ہے اوروہ بہت اچھاکارسازہے ۔

وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان ۴ہجری کومدینہ پر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کواپنانائب مقررفرمایا۔[97]

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَوْعِدِهِ فِی أَلْفٍ وَخَمْسِمِائَةٍ، وَكَانَتِ الْخَیْلُ عَشَرَةَ أَفْرَاسٍ، وَحَمَّلَ لِوَاءَهُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعدے کے مطابق پندرہ سوصحابہ کرام  کوہمراہ لے کربدرکی طرف روانہ ہوئے،اس غزوہ میں  مسلمانوں  کے پاس دس گھوڑے تھےاورلشکرکاعلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے پاس تھا ۔[98]

فَأَقَامَ عَلَیْهِ ثَمَانِی لَیَالٍ یَنْتَظِرُ أَبَا سُفْیَانَ

میدان بدرمیں  پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کاآٹھ روزتک انتظارفرمایا۔[99]

آٹھ روزانتظارکرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقابلہ سے ناامید ہوکربلاجدال وقتال مدینہ واپس تشریف لے آئے،

وَكَانَتْ بَدْرٌ الصّفْرَاءُ مُجْتَمِعًا یَجْتَمِعَ فِیهِ الْعَرَب وسَوْقًا تَقُومُ لِهِلَال ِذِی الْقَعْدَةِوَقَامَتْ السَّوْقِ صَبِیحَةَ الْهِلَال فَأَقَامُوا بِهَا ثَمَانِیَةَ أَیَّام وَبَاعُوا مَا خَرَجُوا بِهِ مِن التِّجَارَاتِ

بدرالصفراء ایک میلہ کامقام تھاجس میں  اہل عرب جمع ہوتے تھے ، اس میں  ایک بازارلگتاتھاجویکم ذی القعدہ سےآٹھ تاریخ تک قائم رہتاتھا ، پھرلوگ اپنے اپنے شہروں  میں  منتشرہوجاتے تھے ،مسلمان ذی القعدہ کی چاندرات کوپہنچے اورصبح کو بازارلگ گیا،وہ لوگ آٹھ دن وہاں  رہے جومال تجارت لے گئے تھے اسے فروخت کیا۔[100]

فَأَصَابُوا الدّرْهَمِ دِرْهَمَیْنِ

تو انہیں  ایک درہم کے عوض دودرہم نفع ہوا۔[101]

فَذَلِكَ قَوْلُ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى

اللہ تعالیٰ کاقول یہی ہے۔

فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ١ۙ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ [102]

ترجمہ:(نتیجہ یہ ہواکہ) اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ یہ لوٹے،انہیں  کوئی برائی نہ پہنچی،انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی ،اللہ بہت بڑےفضل والاہے۔

[1] آل عمران۲۸

[2] تفسیرطبری۳۳۹؍۹،تفسیرابن ابی حاتم۱۰۹۸؍۴

[3] تفسیرطبری۳۳۹؍۹

[4] تفسیرابن ابی حاتم۱۰۹۸؍۴

[5] تفسیرابن ابی حاتم ۶۱۶۲ ، ۱۰۹۹؍۴، الدرالمنثور فی تفسیربالماثور۷۲۲؍۲

[6] تفسیرطبری۳۴۴؍۹

[7]۔تفسیرابن کثیر۴۴۳؍۲

[8] الشوری۴۰

[9] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۰۱؍۴

[10] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابُ الْمُسْتَبَّانِ۴۸۹۴،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ النَّهْیِ عَنِ السِّبَابِ۶۵۹۱

[11] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْجِوَارِ ۵۱۵۳

[12] الشوری۴۰

[13] شعیب الایمان للبیہقی۳۵۸

[14] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ اسْتِحْبَابِ الْعَفْوِ وَالتَّوَاضُعِ۶۵۹۲، مسنداحمد ۹۰۰۸، سنن الدارمی ۱۷۱۸

[15] البقرة۹۸

[16] البقرة۶۱

[17] البقرة۲۸۵

[18] تفسیرزادالمسیرفی علم التفسیر۴۹۲؍۱

[19] تفسیرالقرطبی۶؍۶

[20] تفسیرابن کثیر۴۴۶؍۲

[21] بنی اسرائیل۹۰تا۹۳

[22] الفرقان۳۲،۳۳

[23] البقرة۵۵

[24] الاعراف ۱۴۵

[25] الاعراف۱۷۱

[26] البقرة۵۸،۵۹

[27] البقرة۶۵

[28] الاعراف۱۶۶

[29] البقرة۸۸

[30]حم السجدة۵

[31] مریم۲۷تا۳۲

[32]تفسیرابن ابی حاتم۱۱۰۹؍۴

[33] آل عمران۵۵

[34] مسنداحمد ۱۰۶۶۱

[35] مسنداحمد۷۹۰۳

[36] تفسیرطبری۳۸۰؍۹

[37] النساء: 159

[38] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ نُزُولِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ۳۴۴۸

[39] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ نُزُولِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ۳۴۴۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ نُزُولِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ حَاكِمًا بِشَرِیعَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۹۲،مسنداحمد۸۴۳۱

[40] مسنداحمد۹۲۷۰

[41] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِی فَتْحِ قُسْطَنْطِینِیَّةَ، وَخُرُوجِ الدَّجَّالِ وَنُزُولِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ۷۲۷۸

[42] صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۵۹۳،صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ، فَیَتَمَنَّى أَنْ یَكُونَ مَكَانَ الْمَیِّتِ مِنَ الْبَلَاءِ۷۳۳۵، مسنداحمد۶۳۶۶

[43] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ، فَیَتَمَنَّى أَنْ یَكُونَ مَكَانَ الْمَیِّتِ مِنَ الْبَلَاءِ۷۳۳۹،مسنداحمد۹۳۹۸

[44] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ۷۳۷۳،سنن ابوداودكِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ۴۳۲۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ۲۲۴۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، وَخُرُوجِ یَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ ۴۰۷۵،مسنداحمد۱۷۶۲۹

[45] مسنداحمد۶۵۵۵،صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِی خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَمُكْثِهِ فِی الْأَرْضِ۷۳۸۱

[46] المائدة۱۱۷

[47] تفسیرطبری۳۹۰؍۹

[48] آل عمران۹۳

[49] الانعام۱۴۶

[50] طہ۷۴

[51] تفسیرابن کثیر۴۶۹؍۲

[52]الصافات۷۹

[53] الصافات۱۰۹

[54] الصافات۱۲۰

[55] الصافات۱۳۰

[56] الصافات۱۳۱

[57] الاعراف۱۴۳

[58] طہ۱۳۴

[59] القصص۴۷

[60] المائدة۱۹

[61] تفسیر طبری۱۰۸۵۰،۴۰۹؍۹

[62] حم السجدة۴۲

[63] آل عمران۱۸

[64] ابراہیم۸

[65] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲

[66] التوبة۳۱

[67] ابن سعد۶۴۲؍۱

[68] المائدة۷۷

[69]صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ باب ۳۴۴۵، مسند احمد ۱۵۴، مصنف عبدالرزاق ۹۷۵۸، صحیح ابن حبان۶۲۳۹

[70] مسنداحمد۱۲۵۵۱،السنن الکبری للنسائی ۱۰۰۰۶،صحیح ابن حبان ۶۲۴۰

[71] الجن۱۹

[72] المائدة۷۵

[73] آل عمران۵۹

[74] التحریم۱۲

[75] الانبیائ۹۱

[76] الزخرف۵۹

[77] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِهِ یَا أَهْلَ الكِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِی دِینِكُمْ۳۴۳۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَنْ لَقِی اللهَ بِالْإِیمَانِ وَهُو غَیْرُ شَاكٍّ فِیهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحُرِّمَ عَلَى النَّارِ۱۴۰،مسنداحمد۲۲۶۷۵،صحیح ابن حبان ۲۰۷،السنن الکبری للنسائی ۱۰۹۰۴

[78] المائدة۷۳

[79] المائدة۱۱۶تا۱۱۸

[80] الانعام۱۰۱

[81] مریم۸۸تا۹۵

[82]تفسیرابن ابی حاتم۱۱۲۴؍۴

[83] تفسیرطبری۴۲۴؍۹،تفسیرابن ابی حاتم۱۱۲۴؍۴

[84] المومن۶۰

[85] حم السجدة۵۳

[86] تفسیرطبری ۴۲۸؍۹

[87] تفسیرابن کثیر۴۸۱؍۲

[88] صحیح بخاری كِتَابُ الفَرَائِضِ قول اللہ تعالیٰ یوصیکم اللہ فی اولادکم۶۷۲۳،صحیح مسلم كِتَابُ الفَرَائِضِ بَابُ مِیرَاثِ الْكَلَالَةِ۴۱۴۵

[89] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ یَسْتَفْتُونَكَ قُلْ: اللهُ یُفْتِیكُمْ فِی الكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَیْسَ لَهُ۴۶۰۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ آخِرُ آیَةٍ أُنْزِلَتْ آیَةُ الْكَلَالَةِ۴۱۵۴

[90] زادالمعاد۲۲۸؍۳

[91] زادالمعاد۲۲۸؍۳

[92] ابن ہشام ۲۰۹؍۲،الروض الانف۱۸۹؍۶،تاریخ طبری ۵۵۹؍۲

[93] تاریخ طبری ۵۵۹؍۲

[94] ابن ہشام ۲۰۵،۲۰۶؍۲،ابن سعد۴۵؍۲،البدایة والنہایة۱۰۱؍۴،تاریخ طبری ۵۵۹؍۲،عیون الآثر۷۹؍۲،الروض الانف ۱۸۹؍۶

[95] ابن سعد۴۵؍۲، مغازی واقدی۳۲۷؍۱، تاریخ طبری ۵۶۱؍۲

[96] آل عمران ۱۷۳

[97] مغازی واقدی ۳۸۴؍۱، تاریخ طبری ۵۶۱؍۲،البدایة والنہایة۱۰۲؍۴،السیرة النبوة لابن کثیر۱۷۲؍۳

[98] زادالمعاد ۲۲۸؍۳

[99] ابن ہشام۲۰۵؍۲

[100] ابن سعد۴۶؍۲

[101] تاریخ طبری ۵۶۱؍۲

[102] آل عمران ۱۷۴

Related Articles