ہجرت نبوی کا چوتھا سال

سورۂ النساء آیات36 تا 99 (حصه اول)

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ‎﴿٣٦﴾‏ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ عَذَابًا مُّهِینًا ‎﴿٣٧﴾‏(النساء)
’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز)، یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا،جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپالیتے ہیں ،ہم نے ان کافروں کے لیے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایااورتم سب اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروجس کا کوئی معاون ہے اورنہ مددگاراوراس کے ساتھ کسی فرشتہ،کسی ولی یادیگرمخلوق کواللہ تعالیٰ کا شریک نہ بناؤجوخوداپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع ونقصان،موت وحیات اوردوبارہ اٹھانے پرقدرت نہیں  رکھتے،

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا رَدِیفُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ إِلَّا آخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ:یَا مُعَاذُ قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:یَا مُعَاذُ قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْكَ، قَالَ:هَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ أَنْ یَعْبُدُوهُ وَلاَ یُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْكَ، قَالَ:هَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوهُ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:حَقُّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَهُمْ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پرآپ کے پیچھے بیٹھاہواتھااورکجاوہ کے آخری حصہ کےسوامیرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں  تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے معاذ رضی اللہ عنہ ! میں  نے عرض کیالبیک وسعدیک اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرتھوڑی دیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے پھر فرمایا اےمعاذ رضی اللہ عنہ !میں  نے عرض کیالبیک وسعدیک اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرتھوڑی دیرمزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے پھرفرمایااے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ !میں  نے عرض کیالبیک وسعدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !فرمایاجانتے ہوکہ اللہ کااپنےبندوں  پرکیاحق ہے؟میں  نے عرض کیااللہ اوراس کےرسول کو زیادہ علم ہے،فرمایااللہ کابندوں  پریہ حق ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں  اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیرائیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیرچلتے رہےاورفرمایااے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ !میں  نے عرض کیالبیک وسعدیک اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !فرمایاتمہیں  معلوم ہے کہ جب بندے یہ کرلیں  تو ان کااللہ تعالیٰ پرکیاحق ہے؟میں  نے عرض کیااللہ اوراس کے رسول کوزیادہ علم ہے،فرمایاکہ بندوں  کا اللہ پریہ حق ہے کہ وہ انہیں  عذاب نہ دے۔[1]

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اوراپنے حقوق کاحکم دینے کے بعدحقوق العبادکوقائم کرنے کاحکم فرمایاکہ ماں  باپ کے ساتھ نیک برتاؤکرو،والدین کے اولادپربڑے حقوق ہیں ،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں  متعدد مقامات پران کے حقوق بیان فرمائے ہیں ۔

۔۔۔اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۔۔۔ ۝۱۴ [2]

ترجمہ:میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ۔

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔۔۔۝۰۝۲۳ [3]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُجَاهِدُ؟ قَالَ:لَكَ أَبَوَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:فَفِیهِمَا فَجَاهِدْ

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وسے مروی ہے ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکیامیں  بھی جہادمیں  شریک ہوجاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاتیرے ماں  باپ زندہ ہیں ؟انہوں  نے کہا ہاں  موجود ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوپھران ہی میں  جہادکر(یعنی انہی کی خدمت میں  کوشش کرتے رہوتم کواس سے جہادکاثواب ملے گا)۔ [4]

اورقرابت داروں  ، یتیموں اورمسکینوں  کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِینِ صَدَقَةٌ، وَعَلَى ذِی الْقَرَابَةِ اثْنَتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسکین پرصدقہ صرف صدقہ ہے جبکہ رشتے دارپرصدقہ ،صدقہ بھی ہے اورصلہ رحمی بھی۔[5]

اورپڑوسی رشتہ دارں ،اجنبی ہمسایوں سے بھی خواہ وہ مسلمان ہوں  یایہودونصرانی ہوں  احسان کا معاملہ رکھو،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلَهُ: وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَى یَعْنِی: الَّذِی بَیْنَكَ وَبَیْنَهُ قَرَابَةٌقَوْلَهُ: وَالْجَارِ الْجُنُبِ الَّذِی لَیْسَ بَیْنَكَ وَبَیْنَهُ قَرَابَةٌ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’اور پڑوسی رشتہ دار سے۔‘‘ سے مرادوہ ہمسایہ ہے جوآپ کارشتہ داربھی ہواور’’اجنبی ہمسایہ سے۔‘‘سے مرادوہ ہمسایہ ہے جوآپ کارشتہ دارنہ ہو۔[6]

پڑوسیوں  کے بھی بڑے حقوق ہیں ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا زَالَ جِبْرِیلُ یُوصِینِی بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَیُوَرِّثُهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجبرائیل علیہ السلام مجھے اس طرح باربار پڑوسیوں  کے حق میں  وصیت کرتے رہے کہ مجھے گمان ہواکہ شایدوہ پڑوسیوں  کو وراثت میں  شریک نہ کردیں ۔[7]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خَیْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللهِ خَیْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَیْرُ الجِیرَانِ عِنْدَ اللهِ خَیْرُهُمْ لِجَارِهِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے نزدیک بہترساتھی وہ ہے جواپنے ساتھیوں  کے ساتھ زیادہ خوش سلوک ہو،اوراللہ کے نزدیک پڑوسیوں  میں  سب سے بہتروہ ہے جوہمسایوں  سے زیادہ نیک سلوک کرتاہو۔[8]

المقدادَ بْنَ الْأَسْوَدِ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:مَا تَقُولُونَ فِی الزِّنَا؟ قَالُوا: حَرَامٌ حَرَّمَهُ اللهُ ورسُولُه، فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ، فَقَالَ: رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لأنْ یَزنی الرَّجُلُ بِعَشْرِ نِسْوَة، أَیْسَرُ عَلَیْهِ مِنْ أَن یزنیَ بامرَأَةِ جَارِهِ، قَالَ: مَا تَقُولُونَ فِی السَّرِقَة؟ قَالُوا: حَرَّمَهَا اللهُ وَرَسُولُهُ فَهِیَ حَرَامٌ،قَالَ لَأَنْ یَسْرِقَ الرَّجُلُ مِن عَشْرَةِ أَبْیَاتٍ، أَیْسَرُ عَلَیْهِ مِنْ أَنْ یسرِقَ مِنْ جَارِهِ

مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓسے دریافت کیاتم زناکے بارے میں  کیاکہتے ہو؟لوگوں  نے کہاوہ حرام ہے،اللہ اوراس کے رسول نے اسے حرام کیاہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنودس عورتوں  سے زناکاری کرنے والااس شخص کے گناہ سے کم گنہگارہے جواپنے پڑوسی کی عورت سے زناکرے، پھردریافت فرمایاتم چوری کی نسبت کیاکہتے ہو؟انہوں  نے جواب دیاکہ اسے بھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول نے حرام کیاہے اوروہ بھی قیامت تک حرام ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنودس گھروں  سے چوری کرنے کاگناہ اس شخص کے گناہ سے ہلکاہے جواپنے پڑوسی کے گھرسے کچھ چرائے۔[9]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ:أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ:أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْیَةَ أَنْ یَأْكُلَ مَعَكَ قَالَ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ:أَنْ تُزَانِیَ حَلِیلَةَ جَارِكَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون ساگناہ سب سے بڑاہے؟فرمایایہ کہ تم اللہ تعالیٰ کاکسی کوشریک بناؤحالانکہ اسی نے تمہیں  پیداکیاہے،میں  نے کہاپھراس کے بعدکونسا؟فرمایاکہ تم اپنے لڑکے کواس خوف سے قتل کروکہ اگرزندہ رہاتوتمہاری روزی میں  شریک ہوگا،میں  نے کہااس کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زناکرو۔[10]

مومن کاپڑوسی بھوکانہ رہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُسَاوِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سناہے وہ شخص مومن نہیں  جوخودتوپیٹ بھرکرکھائے اوراس کاپڑوسی جواس کے پہلومیں  رہتاہوبھوکارہے۔[11]

پڑوسیوں  کی خبرگیری کرنا،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً، فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، وَتَعَاهَدْ جِیرَانَكَ

عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایااے ابوذر رضی اللہ عنہ !جب توگوشت پکائے توکچھ پانی زیادہ کردے اوراپنے پڑوسیوں  کی خبرگیری کر۔[12]

پڑوسی کامقام،

قَالَ یَزِیدُ: عَنْ رَجُلٍ، مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ أَهْلِی أُرِیدُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَنَا بِهِ قَائِمٌ، وَرَجُلٌ مَعَهُ مُقْبِلٌ عَلَیْهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُمَا حَاجَةً، قَالَ: فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: وَاللَّهِ لَقَدْ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَعَلْتُ أَرْثِی لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ قَامَ بِكَ الرَّجُلُ حَتَّى جَعَلْتُ أَرْثِی لَكَ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ، قَالَ: وَلَقَدْ رَأَیْتُهُ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:أَتَدْرِی مَنْ هُوَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: ذَاكَ جِبْرِیلُ مَا زَالَ یُوصِینِی بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَیُوَرِّثُهُ ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَلَّمْتَ عَلَیْهِ رَدَّ عَلَیْكَ السَّلَامَ

زیدسے روایت ہےایک انصاری صحابی فرماتے ہیں  میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہونے کے لئے گھر سے چلا،وہاں  پہنچ کردیکھتاہوں  کہ ایک صاحب کھڑے ہیں  اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں ،میں  نے خیال کیاکہ شایدانہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کام ہوگا، انصاری صحابی کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں  اوران سے باتیں  ہورہی ہیں ،بڑی دیرہوگئی یہاں  تک کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھک جانے کے خیال نے بے چین کردیا،بہت دیرکے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اورمیرے پاس آئےمیں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس شخص نے توآپ کوبہت دیرکھڑارکھامیں  توپریشان ہو گیاآپ کے پاؤں  تھک گئے ہوں  گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاتم نے انہیں  دیکھا؟میں  نے کہاہاں  خوب اچھی طرح دیکھا، فرمایاجانتے ہووہ کون تھے؟میں  نے کہانہیں ، فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جومجھے پڑوسیوں  کے حقوق کی تاکیدکررہے تھے یہاں  تک ان کے حقوق بیان کیے کہ مجھے کھٹکاہواکہ غالباًآج توپڑوسی کووارث ٹھیرادیں  گے۔[13]

مستحق ترین پڑوسی ،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا سَأَلَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ لِی جَارَیْنِ، فَإِلَى أَیِّهِمَا أُهْدِی؟ قَالَ:أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ میرے دوپڑوسی ہیں  میں  ایک کوہدیہ بھیجناچاہتی ہوں  توکسے بھجواؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کا دروازہ قریب ہو۔ [14]

پڑوسیوں  کے مابین ہدیوں  کی اہمیت ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَا نِسَاءَ المُسْلِمَاتِ، لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کوہدیہ دینے کوحقیرنہ سمجھے اگرچہ وہ ایک بکری کاکھرہی کیوں  نہ ہو۔[15]

ہمسایہ کواذیت پہنچانا ایمان کے منافی ہے،

عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاللَّهِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ یُؤْمِنُ قِیلَ: وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:الَّذِی لاَ یَأْمَنُ جَارُهُ بَوَایِقَهُ

ابوشریح سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !وہ ایمان نہیں  رکھتا،اللہ کی قسم !وہ ایمان نہیں  رکھتا،اللہ کی قسم !وہ ایمان نہیں  رکھتا،پوچھاگیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کون ایمان نہیں  رکھتا؟فرمایاوہ شخص جس کاپڑوسی اس کی تکلیفوں  سے محفوظ نہ رہے۔[16]

پڑوسی کے ساتھ احسان کارویہ ۔

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ یحب الله وَرَسُوله أویحبه اللهُ وَرَسُولُهُ فَلْیُصَدِّقْ حَدِیثَهُ إِذَا حَدَّثَ، وَلْیُؤَدِّ أَمَانَتَهُ إِذَا أُؤْتُمِنَ ، وَلِیُحْسِنَ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَهُ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص کویہ پسندہوکہ اللہ اوررسول اس سے محبت کریں  تواس کوچاہیے کہ جب وہ گفتگوکرے توسچ بولے،اوراس کے پاس جب امانت رکھی جائے تواپنے پاس رکھی گئی امانت کومالک کے پاس بحفاظت لوٹائے، اوراپنے پڑوسیوں  کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔[17]

پڑوسی کے ساتھ سلوک کانتیجہ جنت یاجہنم،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانَةَ یُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلَاتِهَا، وَصِیَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، غَیْرَ أَنَّهَا تُؤْذِی جِیرَانَهَا بِلِسَانِهَا، قَالَ:هِیَ فِی النَّارِ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّ فُلَانَةَ یُذْكَرُ مِنْ قِلَّةِ صِیَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، وَصَلَاتِهَا، وَإِنَّهَا تَصَدَّقُ بِالْأَثْوَارِ مِنَ الْأَقِطِ، وَلَا تُؤْذِی جِیرَانَهَا بِلِسَانِهَا، قَالَ:هِیَ فِی الْجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک آدمی نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !فلاں  عورت بہت زیادہ نفل نمازیں  پڑھتی،نفل روزے رکھتی اورصدقہ کرتی ہےاوراس لحاظ سے وہ مشہورہےلیکن اپنے پڑوسیوں  کواپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جہنم میں  جائے گی،اس آدمی نے پھرکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !فلاں  عورت کے بارے میں  بیان کیاجاتاہے کہ وہ کم نفل روزے رکھتی ہے اوربہت کم نفل نمازپڑھتی ہے اورپنیرکے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں  کوتکلیف نہیں  پہنچاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جنت میں  جائے گی۔[18]

اورقیامت کاپہلامقدمہ پڑوسیوں  کاجھگڑاہوگا،

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ خَصْمَیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ جَارَانِ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے پیش ہونے والے دو فریق پڑوسی ہوں  گے۔[19]

اورغریب الوطن شخص جودوراجنبی شہرمیں  ہووہ خواہ محتاج ہویانہ ہواس کے ساتھ انس واکرام سے پیش آئیں ، اور نوکروں  چاکروں  اوران لونڈی غلاموں  سے جوتمہارے قبضہ میں  ہوں کے ساتھ احسان کا معاملہ رکھو، غلاموں  اورخادموں  کے ساتھ حسن معاملہ اوران کی ہرممکن دلجوئی اسلامی تہذیب وثقافت کاحصہ ہے ،ان کادل توڑنا ، ان کو حقیر سمجھنا یا ان کی تحقیرکرنابہت بڑاعیب ہے،چنانچہ اس سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث مروی ہیں ،

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ فِی مَرَضِهِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ:الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ فَمَا زَالَ یَقُولُهَا، حَتَّى مَا یَفِیضُ بِهَا لِسَانُهُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں  جس میں  انتقال فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے نمازاورلونڈی غلاموں  کاخیال رکھنایہاں  تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک رکنے لگی ۔[20]

یعنی بیماری کی شدت میں  بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواسلام کاسب سے اعلیٰ رکن نمازکا بڑا خیال تھاکہ نمازکی محافظت کرو،اسے شرائط اورارکان کے ساتھ اپنے وقت پراداکرو ، اس کے ساتھ غلاموں  کابھی بڑاخیال تھاچنانچہ اس شدت میں  فرمایاکہ لوگ لونڈی غلاموں  پرظلم نہ کرو،ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو،ان کوکھانے پینے کی تکلیف نہ دیں ،جوخودکھاؤوہی اپنے لونڈی غلاموں  کوکھلاؤ،اورجوخودپہنووہی ان کو پہناؤوغیرہ۔

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَكَ، فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَكَ، فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ زَوْجَتَكَ، فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ خَادِمَكَ، فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ

مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوتوخودکھائے وہ بھی صدقہ ہے،جواپنے بچوں  کوکھلائے وہ بھی صدقہ ہے، جواپنی بیوی کوکھلائے وہ بھی صدقہ ہے،جواپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے۔[21]

عَنْ خَیْثَمَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، إِذْ جَاءَهُ قَهْرَمَانٌ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ: أَعْطَیْتَ الرَّقِیقَ قُوتَهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْطِهِمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ یَحْبِسَ، عَمَّنْ یَمْلِكُ قُوتَهُ

خیثمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کا داروغہ آیااورانہوں  نے پوچھا کیاتم نےغلاموں  کوان کی خوراک دی ہے؟اس نے جواب دیاابھی تک نہیں  دی ہے،فرمایاجاؤدے کرآؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کویہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کاوہ مالک ہے اس سے روکے رکھے ۔[22]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ، وَلَا یُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا یُطِیقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغلام کوکھانااورکپڑادواوراتناہی اس سے کام لوجس کی اسے طاقت ہو۔[23]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا صَنَعَ لِأَحَدِكُمْ خَادِمُهُ طَعَامَهُ، ثُمَّ جَاءَهُ بِهِ، وَقَدْ وَلِیَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ، فَلْیُقْعِدْهُ مَعَهُ، فَلْیَأْكُلْ، فَإِنْ كَانَ الطَّعَامُ مَشْفُوهًا قَلِیلًا، فَلْیَضَعْ فِی یَدِهِ مِنْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَیْنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں  سے کسی کے لئے اس کاخادم کھاناتیارکرے پھرلے کرآئے اوروہ کھانے پکانے کی گرمی اوردھواں  برداشت کرچکاہےتواسے اپنے ساتھ بٹھاکر کھلائے ،اوراگر کھانا تھوڑا ہو اور اس کے طلب گارزیادہ ہوں تو(بھی )مناسب ہے کہ ایک دو لقمے اس کے ہاتھ پر رکھ دے۔[24]

المَعْرُورَ بْنَ سُویْدٍ، قَالَ: رَأَیْتُ أَبَا ذَرٍّ الغِفَارِیَّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَلَیْهِ حُلَّةٌ، وَعَلَى غُلاَمِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّی سَابَبْتُ رَجُلًا، فَشَكَانِی إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعَیَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَیْدِیكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ یَدِهِ، فَلْیُطْعِمْهُ مِمَّا یَأْكُلُ، وَلْیُلْبِسْهُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا یَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا یَغْلِبُهُمْ فَأَعِینُوهُمْ

معروربن سویدسے مروی ہے میں  نے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کودیکھاکہ ان کے بدن پربھی ایک جوڑاتھااوران کے غلام کے بدن پربھی اسی قسم کاجوڑاتھاہم نے اس کاسبب پوچھا توانہوں  نے بتلایاکہ ایک دفعہ میری ایک صاحب(بلال رضی اللہ عنہ )سے کچھ گالی گلوچ ہوگئی تھی،انہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاکہ کیاتم نے انہیں  ان کی ماں  کی طرف سے عاردلائی ہے ؟پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں  اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  تمہاری ماتحتی میں  دے رکھاہے،اس لئے کسی کابھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں  ہواسے وہی کھلائے جووہ خودکھاتاہےاوروہی پہنائے جووہ خودپہنتاہے اوران پران کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، لیکن اگران کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالوتوپھران کی خودمددبھی کردیاکرو۔[25]

وَعَنْ أَبِی أُمَامَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسلم وَهَبَ لِعَلِیٍّ غُلَامًا فَقَالَ:لَا تَضْرِبْهُ فَإِنِّی نُهِیتُ عَنْ ضَرْبِ أَهْلِ الصَّلَاةِ وَقَدْ رَأَیْتُهُ یُصَلِّی

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کوایک غلام بخشااورفرمایااسے مارنامت کیوں  کہ مجھے نمازی کومارنے سے منع کیاگیاہےاورمیں  نے اسے نمازپڑھتے دیکھاہے۔[26]

کیونکہ متکبر اور مغرورشخص صحیح معنوں  میں  نہ حق عبادت ادا کرسکتاہے اورنہ اپنوں  اوربیگانوں  کے ساتھ حسن سلوک کااہتمام کرسکتاہے اس لئے فرمایا یقین جانوکہ اللہ کسی ایسے شخص کوپسندنہیں  کرتاجواپنے پندارمیں  مغرورہواوراپنی بڑائی پرفخرکرے ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: {إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا}، [27] قَالَ:مُتَكَبِّرًا فَخُورًا قَالَ: یَعُدُّ مَا أُعْطِیَ , وَهُوَ لَا یَشْكُرُ اللَّهَ

امام مجاہد رحمہ اللہ  ’’یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں  کرتا جو اپنے پندار میں  مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔‘‘کے بارے میں  فرماتے ہیں مُخْتَالًا کے معنی متکبرکے ہیں  اور فَخُورًااس کوکہتے ہیں  جواپنے مال کوگن گن کرتو رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کاشکرادانہیں  کرتا۔[28]

یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے جن نعمتوں  سے نوازاہے ان کی وجہ سے وہ لوگوں  پرفخرتوضرورکرتاہے لیکن جس نے اسے یہ نعمتیں  عطافرمائیں  ہیں  اس کاشکرکم ہی بجالاتاہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جنت میں  نہیں  جائے گاجس کے دل میں  رائی کے دانے کے برابر گھمنڈاورغرورہوگا۔[29]

عَنْ حَارِثَةَ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَا الْجَعْظَرِیُّ

حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاترش روبدمزاج جنت میں  داخل نہیں  ہوگااورتکبرانہ چال سے چلنے والا (خودآرائ،بہت باتیں  بنانے والا)۔[30]

اورمغرورانہ لباس بھی تکبرکی علانت ہے،

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْإِسْبَالُ فِی الْإِزَارِ، وَالْقَمِیصِ، وَالْعِمَامَةِ، مَنْ جَرَّ مِنْهَا شَیْئًا خُیَلَاءَ، لَمْ یَنْظُرِ اللَّهُ إِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ٹخنوں  سے) نیچے لٹکانا ازار (تہبند) قمیص اور عمامہ میں  ہے اور جس شخص نے بھی ان میں  سے کسی چیز کو گھسیٹا (زمین پر) تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے(نظررحمت سے) نہیں  دیکھے گا۔[31]

عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ عَنِ الإِزَارِ، فَقَال: عَلَى الْخَبِیرِ سَقَطْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِزْرَةُ الْمُسْلِمِ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، وَلَا حَرَجَ أَوْ لَا جُنَاحَ فِیمَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْكَعْبَیْنِ، مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَیْنِ فَهُوَ فِی النَّارِ، مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ یَنْظُرِ اللَّهُ إِلَیْهِ

اورعلاء بن عبدالرحمٰن اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  انہوں  نے کہاکہ میں  نے ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے تہ بندکے متعلق دریافت کیا،توانہوں  نے کہاکہ صاحب علم و خبرسے تمہاراواسطہ پڑاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے مسلمان کاتہ بندآدھی پنڈلی تک ہوتاہے، آدھی پنڈلی سے ٹخنوں  تک کے مابین میں  کوئی حرج نہیں ، اورجوٹخنوں  سے نیچے ہووہ آگ میں  ہے،جس نے تکبرسے اپناتہ بندگھسیٹا(روزقیامت)اللہ تعالیٰ اس کی طرف(نظررحمت سے) نہیں  دیکھے گا۔[32]

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:كُلْ مَا شِئْتَ، وَالبَسْ مَا شِئْتَ ، مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ، أَوْ مَخِیلَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجوتیراجی چاہئے (بشرطیکہ حلال ہو) کھاؤاورجوتیراجی چاہئے(مباح کپڑوں  میں  سے)پہن مگردوباتوں  سے ضرور بچواسراف اورتکبرسے۔[33]

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّةٍ، تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ، إِذْ خَسَفَ اللَّهُ بِهِ، فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(بنی اسرائیل میں )ایک شخص ایک جوڑا پہن کرکبروغرورمیں  سرمست سرکے بالوں  میں  کنگھی کئے ہوئے اکڑ کر اتراتا ہواجارہاتھاکہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں  دھنسادیا،اب وہ قیامت تک اس میں  تڑپتارہے گایادھنستارہ جائے گا۔[34]

مردوں  کااپناشلوار،تہ بندیاپاجامے وغیرہ کوٹخنوں  سے نیچے رکھناحرام ہے اوراپنی غفلت اورجہالت کی لایعنی تاویلات میں  الجھناتکبرہے۔

اورایسے لوگ بھی اللہ کوپسندنہیں  ہیں  جوبیواؤں ، یتیموں ، مسکینوں ،پڑوسیوں ،رشتہ داروں  اسیروں ورمسافروں  پرفی سبیل اللہ خرچ نہیں  کرتے ہیں  بلکہ اپنے مال کوگن گن کررکھتے ہیں  اور دوسروں  کوبھی اللہ کی راہ میں  خرچ کرنے سے روکتے ہیں اوربخل سب سے بڑاعیب ہے،

عَنْ جَابِرٍ قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :وَأَیُّ دَاءٍ أَدْوَى مِنَ الْبُخْلِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابخل سے بڑھ کربڑی بیماری اورکون سی ہوسکتی ہے۔[35]

جَابِرًا یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ، لَقَدْ أَعْطَیْتُكَ هَكَذَا، وَهَكَذَا وَهَكَذَا ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، دَیْنٌ، أَوْ عِدَةٌ فَلْیَأْتِنَا، قَالَ: فَجِئْتُ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ لَأَعْطَیْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَخُذْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ قَالَ بَعْضُ مَنْ سَمِعَهُ: فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ فَأَخَذْتُ، ثُمَّ أَتَیْتُهُ، فَلَمْ یُعْطِنِی، ثُمَّ أَتَیْتُهُ، فَلَمْ یُعْطِنِی، ثُمَّ أَتَیْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَلَمْ یُعْطِنِی، فَقُلْتُ: إِمَّا أَنْ تُعْطِیَنِی، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّی، قَالَ: أَقُلْتَ تَبْخَلُ عَنِّی؟ وَأَیُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ؟ مَا سَأَلْتَنِی مَرَّةً إِلَّا وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُعْطِیَكَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اگر بحرین سے مال آگیا تو میں  تمہیں  اتنا اوراتنا اور اتنا دوں  گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب بحرین سے مال آیا توسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلان کردیا کہ جس شخص کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ دینے کا وعدہ فرما رکھا ہو وہ ہمارے پاس آئے،چنانچہ میں  ان کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے تھا اگر بحرین سے مال آگیا تو میں  تمہیں  اتنا اتنا اور اتنادوں  گا، سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لے لو، میں  نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے تھا اگر بحرین سے مال آگیا تو میں  تمہیں  اتنا اتنا اور اتنادوں  گاتین مرتبہ فرمایاتھا، سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لے لو،چنانچہ میں  نے ان سے مال لے لیا، بعض سننے والے کہتے ہیں  کہ میں  نے انہیں  گنا تو وہ پانچ سو درہم تھے جو میں  نے لے لیے،پھر میں  دوبارہ ان کے پاس آیا لیکن انہوں  نے مجھے کچھ پیسے نہ دیے، تیسری مرتبہ میں  نے ان سے عرض کیا کہ یا تو آپ مجھے عطاء کریں  ورنہ میں  سمجھوں  گا کہ آپ میرے سامنے بخل کر رہے ہیں ،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تم مجھ سے بخل کرنے کا کہہ رہے ہو بخل سے بڑھ کر کون سی بیماری ،عیب ہوسکتی ہے ؟تم نے جب پہلی مرتبہ مجھ سے درخواست کی تھی میں  نے اسی وقت ارادہ کرلیا تھا کہ میں  تمہیں  ضرور دوں  گا۔[36]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:إِیَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالشُّحِّ، أَمَرَهُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْقَطِیعَةِ فَقَطَعُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشادفرمایااپنے آپ کوحرص وبخل سے بچاؤتم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے،(حرص نے)ان کوحکم دیاتووہ بخل کرنے لگے، قطع رحمی کاحکم دیاتوقرابت توڑلی،اوربدکاری کاحکم دیاتوبدکاری کرنے لگے۔[37]

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جوکچھ انہیں  عطا فرمایاہے اسے چھپاتے ہیں  یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں  جونعمتیں  عطافرمارکھی ہیں  وہ ان کے کھانے،پینے،اوڑھنےاوراللہ کی راہ میں  خرچ کرنے میں  ظاہر نہیں  ہوتیں بلکہ یہ ایسے ظاہرکرتے ہیں  جیسے اللہ نے انہیں  محروم ہی رکھاہےاوروہ خستہ حال ہےجیسے فرمایا

اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ۝۶ۚوَاِنَّهٗ عَلٰی ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌ۝۷ۚ [38]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے،اور بے شک وہ اپنے اس رویے پر خود گواہ ہے ۔

 وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ۝۸ۭ [39]

ترجمہ:وہ مال و دولت کی محبت میں  بری طرح مبتلا ہے اور بے شک (وہ دولت کا رسیا ہے)۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتاہے کہ جوکچھ اس نے عطافرمایاہے اس کااثربندے پرظاہرہو،

عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ:أَلَكَ مَالٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:مِنْ أَیِّ الْمَالِ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِی اللَّهُ مِنَ الإِبِلِ، وَالْغَنَمِ، وَالْخَیْلِ، وَالرَّقِیقِ، قَالَ:فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا فَلْیُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَیْكَ، وَكَرَامَتِهِ

ابوالاحوص (عوف)اپنے والد(مالک بن نضیلہ رضی اللہ عنہ )سے روایت کرتے ہیں انہوں  نے کہاکہ میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورمیں  نے گھٹیاکپڑے پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیا تمہارے پاس مال ہے؟میں  نے کہاہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکس قسم کا؟میں  نے عرض کیاکہ اللہ نے مجھے اونٹ ،بکریاں ،گھوڑے اورغلام ہرطرح کامال عنایت فرمایاہواہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ نے تمہیں  مال دیاہے تواس کی نعمت اوراحسان کااثرتجھ پرنظرآناچاہیے۔[40]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً، إِلَّا وَهُوَ یُحِبُّ أَنْ یَرَى أَثَرَهَا عَلَیْهِ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جب کسی بندے کونعمت عطافرماتاہے تووہ پسندکرتاہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پرظاہرہو۔[41]

ایسے کافرنعمت لوگوں  کے لیے ہم نے رسواکن عذاب مہیاکررکھاہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:وَكَانَ یُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ وَلَمْ یَكُنْ یُعَلِّمُنَاهُنَّ كَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ:اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَیْنَا، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِینَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِینَ بِهَا، قَابِلِیهَا وَأَتِمَّهَا عَلَیْنَا

ایک روایت میں  ہےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں  کئی طرح کے کلمات سکھاتے تھےجس طرح ہمیں  تشھد سیکھا رہے ہوں  (اذکارمیں  یہ بھی ہے)’’اے اللہ!ہمارے دلوں  میں (ایک دوسرے کی ) الفت پیدافرمادے،اورہمارے آپس کے روابط کوعمدہ بنادے،ہمیں  سلامتی کے راستوں  کی رہنمائی فرما اور اندھیروں  سے بچاکرنورمیں  پہنچا دے اورتمام طرح کی ظاہری اورچھپی بدکاریوں  سے محفوظ رکھ،ہمارے کانوں ،آنکھوں ،دلوں  ،گھروالیوں (بیویوں )اوربچوں  میں  برکتیں  عطافرما،(اے اللہ!) اورہم پررجوع فرما(ہماری توبہ قبول کر)بلاشبہ توبہت زیادہ توبہ قبول کرنے والااوررحمت کرنے والاہے،ہمیں  اپنی نعمتوں  کا شکر کرنے والابنادے اوریہ کہ ہم ان کاکماحقہ اعتراف کریں  اورانہیں  برمحل استعمال میں  لائیں  اوران نعمتوں  کوہم پرکامل فرما دے۔‘‘[42]

وَالَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن یَكُنِ الشَّیْطَانُ لَهُ قَرِینًا فَسَاءَ قَرِینًا ‎﴿٣٨﴾‏ وَمَاذَا عَلَیْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِیمًا ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً یُضَاعِفْهَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٤٠﴾(النساء)
’’اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے، اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو وہ بدترین ساتھی ہے، بھلا ان کا کیا نقصان تھا؟ اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے، اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے والا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دو گنی کردیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔ ‘‘

کنجوس اوربخیل لوگوں  کے بعدریاکارلوگوں  کے بارے میں  فرمایااوروہ لوگ بھی اللہ کوناپسندہیں  جواپنے مال محض لوگوں  کودکھانے ،نمودونمائش کے لئےخرچ کرتے ہیں  تاکہ لوگ ان کی مدح وثنااورتعظیم کریں  اوردرحقیقت یہ وہ لوگ ہیں  جو نہ اللہ پرایمان رکھتے ہیں  نہ روزقیامت پر،یعنی ان کامال اخلاص ،اللہ تعالیٰ پرایمان اورثواب کی امید پر خرچ نہیں  ہوتا،ریااورنمودونمائش اتنی بری بلاہے جوسب محنت اور مشقت اکارت کردیتی ہے یعنی نیکی بربادگناہ لازم ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ یُقْضَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَیْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ یُقَالَ: جَرِیءٌ، فَقَدْ قِیلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِیَ فِی النَّارِ،

اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے روزقیامت پہلے ایک شخص کافیصلہ ہوگاجوشہیدہواتھاجب اس کواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش کیاجائے گاتواللہ تعالیٰ اس کواپنی نعمت بتلادے گااوروہ اسے پہچانے گا،اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گاتونے اس کے لئے کیاعمل کیاہے؟وہ بولے گامیں  تیری راہ میں  لڑایہاں  تک کہ شہیدہوگیا،اللہ تعالیٰ فرمائے گاتونے جھوٹ کہاتواس لئے لڑاتھاکہ لوگ تجھے بہادرکہیں  اورتجھے بہادرکہاگیاپھرحکم فرمائے گااوراس کواوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیاجائے گا،

وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِیكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِیُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِیلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِیَ فِی النَّارِ،

ایک اورشخص ہوگاجس نے دین کاعلم سیکھااورسکھلایااورقرآن پڑھاہوگااس کواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش کیاجائے گااللہ تعالیٰ اس کواپنی نعمتیں  دکھلائے گااوروہ شخص پہچان لے گاتب کہاجائے گا تو نے اس کے لئے کیاعمل کیاہے؟وہ کہے گامیں  نے دین کاعلم پڑھااورپڑھایااورقرآن مجیدکو پڑھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گاتوجھوٹ بولتاہے تونے دین کاعلم اس لئے پڑھاتھاکہ لوگ تجھے عالم کہیں  اورقرآن اس لئے پڑھتاتھاکہ لوگ تجھے قاری کہیں  چنانچہ تجھے دنیامیں  عالم اورقاری کہاگیاپھرحکم ہوگااوراس کومنہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیاجائے گا،

وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَیْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِیلٍ تُحِبُّ أَنْ یُنْفَقَ فِیهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِیهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ: هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِیلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِیَ فِی النَّارِ

ایک اورشخص ہوگا جس کواللہ تعالیٰ نے مال دیاہوگااورہرطرح کامال عطافرمایاتھاوہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش کیاجائے گااللہ تعالیٰ اس کواپنی نعمتیں  دکھلائے گااوروہ پہچان لے گااللہ تعالیٰ پوچھے گاتونے اس کے لئے کیاعمل کیے، وہ کہے گامیں  نے تیری راہ میں  مال خرچ کرنے میں  کسر نہیں  چھوڑی جس میں  توخرچ کرناپسندکرتاتھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گاتوجھوٹاہے تونے مال اس لئے خرچ کیاکہ لوگ تجھے سخی کہیں  تودنیامیں  لوگوں  نے تجھے سخی کہہ دیاپھرحکم ہوگااوراس کومنہ کے بل گھسیٹے ہوئے جہنم میں  ڈال دیاجائے گا ۔ [43]

اس بات پراجماع ہے کہ کافروں  کوآخرت میں ان کے نیک اعمال کچھ فائدہ نہ دیں  گے اوران کوکسی قسم کااجرنہیں  ملے گا۔

حَدَّثَنَا العَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَغْنَیْتَ عَنْ عَمِّكَ، فَإِنَّهُ كَانَ یَحُوطُكَ وَیَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ:هُوَ فِی ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلاَ أَنَا لَكَانَ فِی الدَّرَكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھاکیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) کوبھی کچھ فائدہ پہنچایاوہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اورآپ کے واسطے غصہ ہوتے تھے (یعنی جوکوئی آپ کوستاتاتھاتواس پرغصہ ہوتے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  وہ جہنم کے اوپرکے درجہ میں  ہے اوراگرمیں  نہ ہوتاتووہ جہنم کے نچلے درجہ میں  ہوتے۔[44]

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَظْلِمُ الْمُؤْمِنَ، حَسَنَتُهُ یُثَابُ عَلَیْهَا الرِّزْقَ فِی الدُّنْیَا، وَیُجْزَى بِهَا فِی الْآخِرَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَیُعَظَّمُ بِهَا فِی الدُّنْیَا، فَإِذَا كَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ

اورانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ اللہ تعالیٰ مومن کی کسی بھی نیکی کورائیگاں  نہیں  جانے دے گادنیامیں  اس کی وجہ سے رزق عطافرمائے گااورآخرت میں  ثواب سے نوازے گا، اورکافرکی نیکی کی وجہ سے اسے دنیاہی میں  کھلادے گااورقیامت کے روزاس کے لیے کوئی نیکی نہیں  ہوگی۔[45]

عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَصِلُ الرَّحِمَ، وَیُطْعِمُ الْمِسْكِینَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:لَا یَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ا بن جدعان(عبداللہ جس کے والدکانام جدعان بضم جیم تھا) کے بارے میں  سوال کیاکہ وہ جاہلیت کے زمانے میں  ناتے جوڑتاتھااورمسکینوں  کو کھاناکھلاتاتھا توروزقیامت کیااسے ان کاکچھ فائدہ حاصل ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکچھ فائدہ نہیں  دیں  گے ،اس نے توساری زندگی میں  ایک دن بھی یہ نہیں  کہاکہ اے اللہ !میرے گناہوں  کوروزقیامت معاف فرمادینا۔[46]

کیونکہ ابلیس اپنے ساتھی کی ہلاکت چاہتاہےاورہلاک کرنے کی بھرپورکوشش کرتاہے اس لئےفرمایاسچ یہ ہے کہ شیطان مردود جس کارفیق ہوااسے بہت ہی بری رفاقت میسرآئی ،فرمایاآخران لوگوں  پرکیاآفت آجاتی اگریہ ریاکاری اورنمودونمائش چھوڑکر اپنے خالق ،مالک ، رازق اورمشکل کشاء اللہ عزوجل پر اورروزآخرت پرغیرمتزلزل ایمان رکھتے اوراللہ تعالیٰ نے اپنے رحم وکرم سے جوکچھ انہیں  عطافرما یاہے اس میں  سے اللہ کی راہ میں  بیواؤں  ، یتیموں  اورمسکینوں  وغیرہ پر خرچ کرتے تواللہ علام الغیوب سے ان کی نیکی کاحال چھپانہ رہ جاتااوروہ انہیں  اس کااجربڑھاچڑھاکرعطافرماتا،جیسے فرمایا

یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [47]

ترجمہ:(اور لقمان نے کہا تھا ) کہ بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں  یا آسمانوں  یا زمین میں  کہیں  چھپی ہوئی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا وہ باریک بین اور باخبر ہے۔

یَوْمَىِٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝۰ۥۙ لِّیُرَوْا اَعْمَالَهُمْ۝۶ۭفَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [48]

ترجمہ:اس روز لوگ متفرق حالت میں  پلٹیں  گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ،پھر جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا،اور جس نے ذرّہ برابر بھی بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ: قَدِمَ صَعْصَعَةُ، یَعْنِی عَمَّ الْفَرَزْدَقِ أَوْ جَدَّهُ، عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ یَقْرَأُ هَذِهِ الْآیَةَ: {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَهُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ}، [49] ، فَقَالَ: حَسْبِی حَسْبِی، لَا أُبَالِی أَنْ أَسْمَعَ غَیْرَهَا

جریربن حازم سے مروی ہے میں  نے الحسن سے سناصعصعہ یعنی فرزدق کے چچانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیت’’ پھر جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرّہ برابر بھی بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘کی تلاوت کررہے تھے‘‘ اسے سن کربولے واہ واہ اس کوسننے کے بعدمجھے کچھ سننے کی ضرورت نہیں ۔[50]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَمِیرِ: فِیهَا زَكَاةٌ؟ فَقَالَ:مَا جَاءَنِی فِیهَا شَیْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآیَةُ الْفَاذَّةُ: {مَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَهُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں  کی زکوة کے متعلق دریافت کیا گیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں  تو یہی ایک جامع مانع آیت نازل فرما دی ہے’’ جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیک عمل سر انجام دے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرے کے برابر بھی برا عمل سر انجام دے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘[51]

اللہ تعالیٰ کسی کی ذرہ بھربھی نیکی کوضائع نہیں  کرتااورنہ کسی پرذرہ برابر ظلم کرتاہے ،یعنی انسان کے مصائب کا ذمہ داراللہ تعالیٰ نہیں  ،اس کی صفت تورحم وکرم ہے ، وہ تورحمٰن ورحیم اورکریم ہے اورخودفرماتاہے کہ ہم نے بنی آدم کومکرم بنایاہے ایسامہربان خالق بھلااپنے ہی بندوں  پرکیوں  ظلم کرے گا،وہ ظلم سے مبراہے اوراس نے اپنی ذات پرمہربانی لازم کرلی ہے،یہ صحیح ہے کہ باغیوں  کے لیے وہ جباربھی ہے اورقہاربھی ہے لیکن ہرحال کے لیے اس نے اپنی رحمت کواپنے غضب پرفوقیت دی ہے،اوراگرکوئی خلوص نیت سے ایک نیکی کرتاہے تواللہ اسے بڑھاکر دس گنا یااس کے حسب حال کئی گنازیادہ کردیتاہے اورپھراپنی طرف سے بڑااجریعنی جنت عطا فرماتاہے۔

فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِیدًا ‎﴿٤١﴾‏ یَوْمَئِذٍ یَوَدُّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا یَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِیثًا ‎﴿٤٢﴾(النساء)
’’ پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے، جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتااور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے روزقیامت کی ہولناکی بیان فرمائی کہ روزقیامت ہرامت کا رسول اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں  گواہی دے گاکہ اس نے اللہ کاپیغام اپنی قوم کو پہنچا دیاتھا،جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا۔۔۔۝۰۝۱۴۳ [52]

ترجمہ: اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں  کو ایک امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں  پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۶۹ [53]

ترجمہ:زمین اپنے رب کے نُور سے چمک اٹھے گی ، کتاب ِ اعمال لاکر رک دی جائے گی ، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں  گے لوگوں  کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔۔ ۝۸۹ۧ [54]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اِنہیں  اس دن سے خبر دار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں  خود اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں  گے جو اس کے مقابلے میں  شہادت دے گا اور ان لوگوں  کے مقابلے میں  شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں  لائیں  گے۔

پھران تمام رسولوں  پیغمبرآخرزماں  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پرنازل قرآن کریم نازل ہوا،جس میں  گزشتہ انبیاء کی دعوت اوران کی قوموں  کی دعوت کوقبول نہ کرنے کی وجہ سےصفحہ ہستی سے مٹانے کے عبرت آنگیزواقعات بیان کئے گئے ہیں  کی وجہ سے گواہی دیں  گے کہ اے اللہ !یہ رسول سچی گواہی دے رہے ہیں  ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،قَالَ: قَالَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْرَأْ عَلَیَّ قُلْتُ: آقْرَأُ عَلَیْكَ وَعَلَیْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ:فَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَیْرِی فَقَرَأْتُ عَلَیْهِ سُورَةَ النِّسَاءِ، حَتَّى بَلَغْتُ: {فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِیدًا} ،[55] قَالَ:أَمْسِكْ فَإِذَا عَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ

عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے اور سناؤں  میں ! فرمایا ہاں ! مجھ کو دوسرے کی زبان سے سننا اچھا معلوم ہوتا ہے،تو میں  نے سورت نساء کی تلاوت شروع کی اور جس وقت اس آیت پر پہنچا’’ پس کیا حال ہوگا کہ جب کہ ہر فرقہ سے ہم ایک ایک گواہ بلائیں  گے اور آپ کو ان پر گواہ بنائیں  گے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی اوردونوں  آنکھوں  سے آنسو رواں  ہوگئے۔‘‘ اور فرمایا بس کرو۔[56]

مُحَمَّدِ بْنِ فَضَالَةَ الْأَنْصَارِیُّ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: وَكَانَ أَبِی مِمَّنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ فِی بَنِی ظُفُرٍ، فَجَلَسَ عَلَى الصَّخْرَةِ الَّتِی فِی بَنِی ظُفُرٍ الْیَوْمَ، وَمَعَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَارِئاً فَقَرَأَ، فَأَتَى عَلَى هَذِهِ الآیَةِ: فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِیدٍ وجئنا بك عَلَى هَؤُلاءِ شَهِیداً فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ضَرَبَ لِحْیَاهُ وَجَنْبَاهُ فَقَالَ: یَا رَبِّ هَذَا، شَهِدْتُ عَلَى مَنْ بَیْنَ ظَهْرِی، فَكَیْفَ بمن لم أره .

محمدبن فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی ظفرکے پاس آئے اورایک چٹان پربیٹھ گئے جواب تک ان کے محلے میں  ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ،معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اوردیگراصحاب بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاری سے فرمایاقرآن پڑھو!وہ قرآن پڑھتے پڑھتے جب اس آیت تک پہنچا’’پھرسوچوکہ اس وقت یہ کیاکریں  گے جب ہم ہرامت میں  سے ایک گواہ لائیں  گے اوران لوگوں  پرتمہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں  گے۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدرروئے کہ دونوں  رخسار اور داڑھی مبارک آنسوؤں  سے ترہوگئی،اورعرض کرنے لگے اے میرے رب!جوموجودہیں  ان پرتوخیرمیری گواہی ہوگی لیکن جن لوگوں  کومیں  نے دیکھاہی نہیں  ان کی بابت کیسے( گواہی دوں  گا)۔[57]

اس دن وہ سب لوگ جنہوں  نے رسول کی دعوت کوقبول نہ کیا اورمحض اپنی ہٹ دھرمی اورآباواجدادکی اندھی تقلیدمیں اس کی نافرمانی کرتے رہے،رسولوں  کامذاق اڑاتے رہی اورمقابلہ کرتے رہے آرزوکریں  گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اوروہ اس میں  سما جائیں  ،جیسے فرمایا

 یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَیَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَــنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۝۴۰ۧ [58]

ترجمہ: جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کاش ! میں  خاک ہوتا ۔

وہاں  یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپاسکیں  گے بلکہ وہ اپنی بداعمالیوں  کااعتراف کریں  گے،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: أَشْیَاءٌ تَخْتَلِفُ عَلَیَّ فِی الْقُرْآنِ، قَالَ: مَا هُوَ؟ أَشُكُّ فی القرآن؟ قال: لیس هُوَ بِالشَّكِّ. وَلَكِنِ اخْتِلَافٌ، قَالَ: فَهَاتِ مَا اخْتَلَفَ عَلَیْكَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: أَسْمَعُ اللهَ یَقُولُ: {ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلا أَنْ قَالُوا وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِینَ}، [الْأَنْعَامِ: 23 ]وَقَالَ {وَلا یَكْتُمُونَ اللهَ حَدِیثًا} ؛ فَقَدْ كَتَمُوا!

سعیدبن جبیرسےروایت ہے ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں  حاضر ہوکرکہنے لگامجھے قرآن مجیدکی کئی باتوں  میں  اختلاف معلوم ہوتاہے،آپ نے فرمایاوہ کیسے؟کیاقرآن میں  شک ہے؟ اس نے عرض کی جی نہیں  شک نہیں  بلکہ اختلاف ہے، آپ نے فرمایاہاں  ، بتاؤ کیا اختلاف ہے؟اس نے عرض کی کہ قرآن مجیدمیں  ایک جگہ تویہ ہے کہ ’’توان سے کچھ عذرنہ بن پائے گا(اور)بجزاس کے(کچھ چارہ نہ ہوگا)کہ (یہ جھوٹا بیان دیں  کہ) اے ہمارے آقا تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ ‘‘اور دوسری جگہ یہ ہے’’  وہ کوئی بات چھپانہیں  سکیں  گے۔‘‘حالانکہ انہوں  نے چھپاتولیاہے ،

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَمَّا قَوْلُهُ: {ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلا أَنْ قَالُوا وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِینَ}فَإِنَّهُمْ لَمَّا رَأَوْا یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَنَّ اللهَ لَا یَغْفِرُ إِلَّا لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ وَیَغْفِرُ الذُّنُوبَ وَلَا یَغْفِرُ شِرْكًا، وَلَا یَتَعَاظَمُهُ ذَنْبٌ أَنْ یَغْفِرَهُ، جَحَدَ الْمُشْرِكُونَ، فَقَالُوا: {وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِینَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ ان میں  سے پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین روزقیامت جب یہ دیکھیں  گے کہ اللہ تعالیٰ صرف اہل اسلام ہی کے گناہوں  کومعاف فرمارہاہے اورکسی کے گناہ کومعاف کردینابھی اس کے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں  لیکن وہ مشرک کوہرگزمعاف نہیں  فرمارہاتومشرکین اپنے شرک ہی کاانکارکردیں  گے اورکہیں  گے’’اے ہمارے آقا تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے۔‘‘اس امیدپرکہ انہیں  بھی معاف کردیاجائے،

فَخَتَمَ اللهُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ، وَتَكَلَّمَتْ أَیْدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ، فَعِنْدَ ذَلِكَ: {یَوَدُّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الأرْضُ وَلا یَكْتُمُونَ اللهَ حَدِیثًا

تواللہ تعالیٰ ان کے مونہوں  پرمہرلگادے گااوران کے ہاتھ پاؤں  ان کے اعمال کے بارے میں  بتائیں  گے،پھریہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپانے پرقادرنہ ہوں  گے تواس وقت ’’کافراورپیغمبرکے نافرمان آرزوکریں  گے کہ کاش!ان پرزمین برابرکردی جاتی اوراللہ سے کوئی بات چھپانہ سکیں  گے۔‘‘[59]

جیسے فرمایا

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّهُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳ [60]

ترجمہ:پھر جب سب وہاں  پہنچ جائیں  گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں  اور ان کے جسم کی کھالیں  ان پر گواہی دیں  گی کہ وہ دنیا میں  کیا کچھ کرتے رہے ہیں ،وہ اپنے جسم کی کھالوں  سے کہیں  گے تم نے ہمارے خلاف کیوں  گواہی دی؟ وہ جواب دیں  گی ہمیں  اُسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے اُسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اُسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو،تم دنیا میں  جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں  یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں  اور تمہارے جسم کی کھالیں  تم پر گواہی دیں  گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں  ہے،تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا تمہیں  لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں  پڑ گئے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ یُرِیدُونَ أَن یَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن یَكْفُرُوا بِهِ وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِیدًا ‎﴿٦٠﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِینَ یَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا ‎﴿٦١﴾‏ فَكَیْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِیبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ یَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِیقًا ‎﴿٦٢﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ یَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِی أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِیغًا ‎﴿٦٣﴾‏ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا ‎﴿٦٤﴾‏(النساء)
کیا آپ نے انہیں  نہیں  دیکھا ؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پراورجوکچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہےلیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں  حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے، ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں  گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں  پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ کی قسمیں  کھاتے ہیں  کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا ،یہ وہ لوگ ہیں  کہ ان کے دلوں  کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے، آپ ان سے چشم پوشی کیجئے، انہیں  نصیحت کرتے رہیے اور انہیں  وہ بات کہیے جو ان کے دلوں  میں  گھر کرنے والی ہو، ہم نے ہرہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرماں  برداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں  نے اپنی جانوں  پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آجاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔

منافق کی پہچان :

كَانَ بَیْنَ رَجُلٍ مِنَ الْیَهُودِ وَرَجُلٍ مِنَ الْمُنَافِقِینَ خُصُومَةٌ فَكَانَ الْمُنَافِقُ یَدْعُو إِلَى الْیَهُودِ لِأَنَّهُ یَعْلَمُ أَنَّهُمْ یَقْبَلُونَ الرِّشْوَةَ وَكَانَ الْیَهُودِیُّ یَدْعُو إِلَى الْمُسْلِمِینَ لِأَنَّهُ یَعْلَمُ أَنَّهُمْ لَا یَقْبَلُونَ الرِّشْوَةَ فَاصْطَلَحَا أَنْ یَتَحَاكَمَا إِلَى كَاهِنٍ مِنْ جُهَیْنَةَ، فَأَنْزَلَ اللهُ فِیهِ هَذِهِ الْآیَةَ:أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ حَتَّى بَلَغَ:وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمً

شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک منافق اوریہودی کے مابین جھگڑاہوگیا، منافق نے کہاہم یہ معاملہ یہودکے پاس لے چلتے ہیں  وہ جانتاتھاکہ یہودی رشوت لیتے ہیں  یہودی نے کہاہم یہ معاملہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کرتے ہیں  وہ جانتاتھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رشوت نہیں  لیتے ،آخرکاردونوں  اس بات پرراضی ہوگئے کہ بنوجہینہ کے ایک کاہن سے فیصلہ کرالیاجائے تواس موقع پرسورۂ نساء کی آیت’’ کیا آپ نے انہیں  نہیں  دیکھا ؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہےلیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ، حالانکہ انہیں  حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں ، شیطان تو یہ چاہتا ہے بہکا کر دور ڈال دے۔‘‘نازل ہوئی ۔ [61]

عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: نزلت فِی رجل من الْمُنَافِقین یُقَال لَهُ بشر خَاصم یَهُودِیّا فَدَعَاهُ الْیَهُودِیّ إِلَى النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم وَدعَاهُ الْمُنَافِق إِلَى كَعْب بن الْأَشْرَف ثمَّ إنَّهُمَا احْتَكَمَا إِلَى النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فَقضى لِلْیَهُودِیِّ فَلم یرض الْمُنَافِق وَقَالَ: تعال نَتَحَاكَم إِلَى عمر بن الْخطاب فَقَالَ الْیَهُودِیّ لعمر: قضى لنا رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فَلم یرض بِقَضَائِهِ فَقَالَ لِلْمُنَافِقِ: أَكَذَلِك قَالَ: نعم فَقَالَ عمر: مَكَانكُمَا حَتَّى أخرج إلَیْكُمَافَدخل عمر فَاشْتَمَلَ على سَیْفه ثمَّ خرج فَضرب عنق الْمُنَافِق حَتَّى برد ثمَّ قَالَ: هَكَذَا أَقْْضِی لمن لم یرض بِقَضَاء الله وَرَسُولہ: فَنزلت

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت میں  ہے یہ آیت ایک منافق جس کانام بشر تھا کے بارے میں  نازل ہوئی جس کاایک یہودی سے جھگڑا ہوگیاتھایہودی نے کہاکہ ہم یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کرتے ہیں منافق نے کہانہیں  یہ معاملہ کعب بن اشرف یہودی کے پاس لے چلتے ہیں ،آخرکارانہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنامعاملہ رکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں  فیصلہ فرمادیامگرمنافق نے اس فیصلے کوتسلیم نہ کیااس نے کہاہم سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کرالیتے ہیں ،یہودی نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کردیاہے مگریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کوتسلیم نہیں  کررہا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے منافق سے استفسارکیاکیایہ ٹھیک کہہ رہاہے؟اس نے کہاجی ہاں !سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہامیرے گھرسے باہرآنے تک میراانتظارکرو، چنانچہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ گھرمیں  داخل ہوئےاپنی تلواراٹھائی اورگھرسے باہرآکر تلوار سے اس کی گردن اڑادی اورکہاجوشخص اللہ اوراس کے رسول کافیصلہ نہیں  مانتے ان کے بارے میں  میرا یہ فیصلہ ہے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔[62]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كَانَ أَبُو بَرْزَةَ الْأَسْلَمِیُّ كَاهِنًا یَقْضِی بَیْنَ الْیَهُودِ فِیمَا یَتَنَافَرُونَ إِلَیْهِ، فتنافرَ إِلَیْهِ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیدُونَ أَنْ یَتَحاكَمُوا إِلَى الطاغوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ یَكْفُرُوا بِهِ}، [63] ، إِلَى قَوْلِهِ، {إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا}، [64]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےابوبرزہ اسلمی ایک کاہن تھاجویہودیوں  کے باہمی تنازعات میں  فیصلے کیاکرتاتھا، کچھ مسلمان بھی اس سے فیصلہ کرانے کے لیے اس کے پاس چلے گئے،توان کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ ’’کیا آپ نے انہیں  نہیں  دیکھا ؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہےلیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں  حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں ، شیطان تو یہ چاہتا ہے بہکا کر دور ڈال دے، ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں  گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں  ،پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ کی قسمیں  کھاتے ہیں  کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا۔‘‘ کونازل فرمایا ۔[65]

یہ آیت کریمہ عام ہے اوراس میں  ہراس شخص کی مذمت ہے جواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی کتاب وسنت) سے فیصلے کرانے کے بجائے باطل سے اپنے فیصلے کرائے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک نشانی بیان فرمائی کہ ان کادعویٰ تویہ ہے کہ ہم اس چیزپرایمان رکھتے ہیں  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے ہیں  اورجوکچھ آپ سے پہلے نازل ہوچکاہے(یعنی تمام الہامی کتابیں )مگر اپنے نزعی فیصلے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے(جہاں  بغیرکسی جانبداری سے عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ صادر کردیاجاتاہے) ان لوگوں  سے کرانے چاہتے ہیں  جونہ تواللہ کے اقتداراعلیٰ کومانتے ہیں اورنہ ہی اللہ کی کتاب کوآخری سندمانتے ہیں (تاکہ فیصلہ عدل وانصاف سے نہ ہوبلکہ ان کی خواہش کے مطابق صرف ان کے حق میں  ہو)ان کایہ طریقہ کاراورایمان کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں  کیونکہ ایمان تواس چیزکاتقاضاکرتاہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں  اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کی پیروی کی جائے اوراس کےہرفیصلے کوقبول کیاجائے،چنانچہ جوکوئی شخص اپنے مومن ہونے کادعویٰ دارہو اور پھر قانون الٰہی کوچھوڑکرغیراللہ (طاغوت)کے فیصلے کوقبول کرتاہے وہ جھوٹا (منافق) ہے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ۝۲۱ [66]

ترجمہ:اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں  کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں  گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ،کیا یہ انہی کی پیروی کریں  گے خواہ شیطان ان کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں  نہ بلاتا رہا ہو۔

یہ سب اس وجہ سے ہے کہ شیطان نے اسے صراط المستقیم سے بھٹکادیاہےکیونکہ شیطان کا توروزاول سے مشن ہی یہی ہے کہ انسانوں  کوحق سے دورکردے،راہ ہدایت سے بھٹکادے،یاکم سے کم دلوں  میں  وسوسہ ہی ڈال دے، ورنہ مسلمانوں  کاحال تویہ ہوتاہے۔

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵۱ [67]

ترجمہ:ایمان لانے والوں  کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلائے جائیں  تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں  کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ [68]

ترجمہ:(یہ لوگ اگراللہ کے قانون کونہیں  مانتے)توکیاپھریہ جاہلیت کافیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں  ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ ۔

عبد الله بن عمرو بن العاص رضی الله عنهما قال:قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَیُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى یَكُونَ هَواهُ تَبَعَاً لِمَا جِئْتُ بِهِ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  سے کوئی اس وقت تک (کامل)ایمان دارنہیں  ہوسکتاجب تک کہ اس کی تمام تر خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہوجائیں  جسے میں  لایاہوں ۔[69]

مگرجب ان کے گناہوں ،معاصی اورغیراللہ کے فیصلے قبول کرنے کے نتیجے میں  ان پرکوئی مصیبت آپڑتی ہے توپھراس پرمعذرت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں  اوردلیل یہ دیتے ہیں  کہ ہمارامقصدتوصرف جھگڑے کے فریقین کے ساتھ بھلائی کرنااوران کے درمیان صلح اورملاپ کرواناتھا حالانکہ وہ اس بارے میں  جھوٹے ہیں  کیونکہ خیروبھلائی تواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے فیصلے میں  ہے ،اللہ تعالیٰ ان کے نفاق اوربرے مقاصدکواچھی طرح جانتاہے،ایک اورمقام پرمنافقین کے بارے میں  فرمایا

فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِیْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۔۔۔۝۵۲ۭ [70]

ترجمہ:تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں  میں  نفاق کی بیماری ہے وہ انہی (یہودیوں ) میں  دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں  کہتے ہیں  ہمیں  ڈر لگتا ہے کہ کہیں  ہم کسی مصیبت کے چکر میں  نہ پھنس جائیں ۔

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! جوکچھ وہ کرتے رہے ہیں آپ ان کی پرواہ نہ کریں  اورنہ اس پردھیان دیں بلکہ انہیں  اچھے پیرائے میں  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دیں  اورترک اطاعت کے خوفناک اوربھیانک نتائج سے ڈرائیں ،انبیاء ورسل کومبعوث کرنے کی غرض وغایت یہی ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق تمام قوانین کوچھوڑکراسی پیروی کی جائے اوراللہ کی طرف سے وہ جواحکام دیتاہے تمام احکام کوچھوڑکرصرف انہی پرعمل کیاجائے،اگرکسی نے ایسانہ کیاتوپھراس کامحض رسول کورسول مان لیناکوئی معنیٰ نہیں  رکھتا۔ کیونکہ مغفرت کے لئے بارگاہ الہٰی میں  توبہ واستغفارضروری ہے اس لئے فرمایا گیا کہ اگریہ لوگ اپنی لغزشوں  اورغلطیوں  کے بعدنادم ہوکرتیرے پاس آتے اوراللہ سے اپنے گناہوں  کی مغفرت چاہتے اوران کے ساتھ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے حق میں  دعائے مغفرت فرماتے تویقیناًاللہ تعالیٰ ان کے قصورمعاف فرمادیتا ۔

فَلَا وَرَبِّكَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ یُحَكِّمُوكَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا ‎﴿٦٥﴾(النساء)
‏سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں  ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں  آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں  کردیں  ان سے اپنے دل میں  کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں  اور فرماں  برداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔

اگرمومن ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کوتسلیم کرو :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَدَّثَهُ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَیْرَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شِرَاجِ الحَرَّةِ، الَّتِی یَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الأَنْصَارِیُّ: سَرِّحِ المَاءَ یَمُرُّ، فَأَبَى عَلَیْهِ؟ فَاخْتَصَمَا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَیْرِ:أَسْقِ یَا زُبَیْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ المَاءَ إِلَى جَارِكَ»، فَغَضِبَ الأَنْصَارِیُّ، فَقَالَ: أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:اسْقِ یَا زُبَیْرُ، ثُمَّ احْبِسِ المَاءَ حَتَّى یَرْجِعَ إِلَى الجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ: وَاللَّهِ إِنِّی لَأَحْسِبُ هَذِهِ الآیَةَ نَزَلَتْ فِی ذَلِكَ: {فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّى یُحَكِّمُوكَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ}،[71]

زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک انصاری ( حاطب بن ابوبلتہ رضی اللہ عنہ )نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے نالے میں  جس کاپانی مدینہ منورہ کے لوگ کھجورکے درختوں  کو دیا کرتے تھے جھگڑا ہو گیا، انصاری رضی اللہ عنہ زبیر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگاپانی کوآگے جانے دولیکن زبیر رضی اللہ عنہ کواس سے انکارتھا، انہوں  نےاپنے جھگڑے کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کوکہاکہ( پہلے تم اپنےباغ) کوپانی پلالواورپھراپنے پڑوسی بھائی کے لئے جلدی جانے دو(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی کہ جس سے زبیر رضی اللہ عنہ کوتکلیف نہ ہواورانصاری کوبھی کشادگی ہوجائے )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافیصلہ سن کر انصاری کوغصہ آگیااورانہوں  نے کہاہاں  یہ توآپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں  نا؟(یعنی اس نے اس فیصلہ کوغلط جانااورجانبداری پرمعمول کیا)انصاری کا یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےزبیر رضی اللہ عنہ !تم اپنے باغ کوپہلےپانی پلالوپھرپانی کواتنی دیرتک روکے رکھویہاں  تک کہ (پانی)باغ کی منڈیروں  تک پہنچ جائے پھر(پانی کو)اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو (یعنی جب انصاری نے اس فیصلہ کو اپنے حق میں  بہترنہ جاناتوآپ نے زبیر رضی اللہ عنہ کوان کاپوراحق دلوایا )زبیر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم ! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت’’ سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں  ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں  آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں  کردیں  ان سے اپنے دل میں  کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں  اور فرماں  برداری کے ساتھ قبول کرلیں  ۔‘‘اسی باب میں  نازل ہوئی ہے۔[72]

عَن عتبَة بن ضَمرَة عَن أَبِیه أَن رجلَیْنِ اخْتَصمَا إِلَى النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فَقضى للمحق على الْمُبْطل فَقَالَ الْمقْضِی عَلَیْهِ: لَا أرْضى فَقَالَ صَاحبه: فَمَا تُرِیدُ قَالَ: أَن تذْهب إِلَى أبی بكر الصّدیق فذهبا إِلَیْهِ فَقَالَ: أَنْتُمَا على مَا قضى بِهِ النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فَأبى أَن یرضى قَالَ: نأتی عمرفَأتیَاهُ فَدخل عمر منزله وَخرج وَالسیف فِی یَده فَضرب بِهِ رَأس الَّذِی أَبى أَن یرضى فَقتله وَأنزل الله {فَلَا وَرَبك} الْآیَة

عتبہ بن ضمرہ اپنے والدسے سے روایت کرتے ہیں  دوآدمیوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  اپناجھگڑاپیش کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق والے کے حق میں  فیصلہ فرمادیاتوجس کے خلاف فیصلہ ہوااس نے کہاکہ میں  اس فیصلے کوقبول نہیں  کرتا، اس کے ساتھی نے کہاتوکیاچاہتاہے؟اس نے کہاکہ میں  یہ چاہتاہوں  کہ ہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کرائیں ، دونوں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے توجس کے حق میں  فیصلہ ہواتھااس نے کہاکہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی فیصلہ کرایاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں  فیصلہ فرمایاہے،یہ سن کر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہاکہ تم دونوں  اس فیصلے کوقبول کرلوجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہےمگرجس کے خلاف فیصلہ ہواتھااس نے اس بات کوقبول کرنے سے انکارکردیا،اورکہاہم سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے فیصلہ کرائیں  گے، وہ دونوں  سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے، جس کے حق میں  فیصلہ ہواتھااس نے کہاہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کافیصلہ کرایاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں  اس کافیصلہ فرمایاہے لیکن اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کوتسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ،پھرہم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کرانے کے لیے گئے انہوں  نے فرمایاتم دونوں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کوتسلیم کرلومگراس نے فیصلہ ماننے سے انکارکردیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھاکیایہ بات اس طرح ہے؟ تواس نے بھی اس کی تصدیق کی، سیدناعمر رضی اللہ عنہ گھرمیں  چلے گئے اورواپس آئے توان کے ہاتھ میں  تلوار(سونتی ہوئی)تھی اورآتے ہی اس شخص کاسرقلم کردیاجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے انکار کر دیا تھاتواس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں  ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں  آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں  کردیں  ان سے اپنے دل میں  کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں  اور فرماں  برداری کے ساتھ قبول کرلیں  ۔‘‘ نازل فرمائی ۔[73]

یہ واقعہ کئی سندوں  سے مروی ہے مگرتمام ضعیف ہیں ۔

جس میں  تم صرف اس حالت میں  خودکو مسلمان کہہ سکتے ہوجب اللہ کے رسول کواپنے نزعی فیصلوں  میں  حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والانہ مان لواوروہ عدل و انصاف سے جوفیصلہ صادرفرمائیں  ،وہ چاہئے تمہارے حق میں  ہویاتمہارے خلاف ہواسے شرح صدر،اطمینان نفس ،ظاہری اورباطنی اطاعت کے ساتھ تسلیم کرواورجن کے خلاف وہ فیصلہ کریں  ان کے دلوں  میں  ان کے فیصلے کے خلاف کوئی رنج وغم نہیں  ہوناچاہیے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى یَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن عاص سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  سے کوئی شخص مومن نہیں  ہوسکتاجب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہوجائے جسے میں  لے کرآیاہوں ۔[74]

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِیَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِیلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِیتًا ‎﴿٦٦﴾‏ وَإِذًا لَّآتَیْنَاهُم مِّن لَّدُنَّا أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٦٧﴾‏ وَلَهَدَیْنَاهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیمًا ‎﴿٦٨﴾‏ وَمَن یُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِیقًا ‎﴿٦٩﴾‏ ذَٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ عَلِیمًا ‎﴿٧٠﴾‏ (النساء)
اوراگر ہم ان پر یہ فرض کردیتے ہیں  کہ اپنی جانوں  کو قتل کر ڈالو ! یا اپنے گھروں  سے نکل جاؤ ! تو اسے ان میں  سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں  جس کی انہیں  نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لیے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو، اور تب تو انہیں  ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں اور یقیناً انہیں  راہ راست دکھا دیں ، اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فرماں  برداری کرے، وہ ان لوگوں  کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ،یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کافی ہے اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایااگرہم نے اپنے بندوں  پرشاق گزرنے والے احکام فرض کئے ہوتے مثلاً اپنے آپ کوہلاک کردویااپنے گھروں  سے نکل جاؤتوان میں  سے کم ہی آدمی اس پرعمل کرسکتے اورایمان واطاعت کے بجائے کفرونافرمانی کی راہ اپنالیتے،حالانکہ جونصیحت انہیں  کی جاتی ہے اگریہ لوگ شک اورتذبذب اورترددچھوڑکریکسوئی کے ساتھ رسول کی اطاعت وپیروی پرقائم ہوجاتے تویہ ان کے لیے زیادہ بہتری اورزیادہ ثابت قدمی کاموجب ہوتا،اورجب یہ لوگ ایمان ویقین کے ساتھ رسول کی اطاعت وپیروی کافیصلہ کرتے توہم اپنے فضل وکرم سےدنیاوآخرت میں انہیں  اجرعظیم سے نوازدیتے اورانہیں  سعی وعمل کے سیدھےراستہ کی طرف راہنمائی کرتے،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَحْزُونٌ , فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا فُلَانُ مَالِی أَرَاكَ مَحْزُونًا؟ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ شَیْءٌ فَكَّرْتُ فِیهِ. فَقَالَ:مَا هُوَ؟قَالَ: نَحْنُ نَغْدُو عَلَیْكَ وَنَرُوحُ , نَنْظُرُ فِی وَجْهِكَ وَنُجَالِسُكَ , غَدًا تُرْفَعُ مَعَ النَّبِیِّینَ فَلَا نَصِلُ إِلَیْكَ. فَلَمْ یَرُدَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا. فأَتَاهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ بِهَذِهِ الْآیَةِ: {وَمَنْ یُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِیقًا}، [النساء: قَالَ:فَبَعَثَ إِلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرَهُ

سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے ،آپ نے دیکھاکہ وہ سخت مغموم ہیں  توآپ نے اس سے کہااے فلاں  کیابات ہے میں  تمہیں  مغموم دیکھ رہا ہوں  ؟اس نے عرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  ایک پریشانی میں  مبتلاہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیا پریشانی ہے؟ اس نے عرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہاں  توصبح شام ہم لوگ آپ کی مجلس میں  آکربیٹھتے ہیں  آپ کی زیارت بھی ہوجاتی ہے اوردوگھڑی صحبت بھی میسرآجاتی ہے لیکن کل قیامت کے دن توآپ نبیوں  کی اعلی مجالس میں  ہوں  گے ہم توآپ تک پہنچ بھی نہ سکیں  گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیااس پرجبرائیل علیہ السلام یہ آیت لائے’’ جو بھی خواہ مرد ہو یا عورت ،بچہ ہویابوڑھااللہ اوررسول کی مقدربھر اطاعت کرے گاوہ ان لوگوں  کے ساتھ ہوگاجن پراللہ نے انعام فرمایاہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین،کیسے اچھے ہیں  یہ رفیق جوکسی کو میسر آئیں ۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کرانہیں  یہ خوشخبری سنائی۔ [75]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآدمی انہی کے ساتھ ہوگاجس سے اس کومحبت ہوگی۔[76]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا.قَالَ: لاَ شَیْءَ، إِلَّا أَنِّی أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ.قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَیْءٍ، فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ:فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّی إِیَّاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص(ذوالخویصرہ یاابوموسیٰ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتونے قیامت کے لئے کیاتیاری کی ہے؟اس نے عرض کیامیں  نے بہت کچھ توتیاری نہیں  کی البتہ میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول سے محبت رکھتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھرتمہاراحشربھی انہی کے ساتھ ہوگاجس سے تمہیں  محبت ہے،انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ہمیں  اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں  ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کرہوئی کہ تمہاراحشرانہیں  کے ساتھ ہوگاجس سے تمہیں  محبت ہے،انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  میں  تومحبت رکھتاہوں  اللہ سے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ،سیدناابوبکر اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے اوراپنی اس محبت کی وجہ سےمیں  امیدرکھتاہوں  کہ قیامت کے دن میراحشرانہیں  کے ساتھ ہوں  گااگرچہ میں  ان جیسے اعمال نہیں  کرسکا۔[77]

صحابہ کرام ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتے تھے اور بطورخاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت میں  رفاقت کی درخواست کرتے تھے،

حَدَّثَنِی رَبِیعَةُ بْنُ كَعْبٍ الْأَسْلَمِیُّ، قَالَ: كُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَیْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِی: سَلْ فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِی الْجَنَّةِ. قَالَ:أَوْ غَیْرَ ذَلِكَ قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ. قَالَ:فَأَعِنِّی عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ

ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہاکرتاتھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضواورحاجت کاپانی لایا کرتاتھا،ایک بارآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامانگ کیامانگتاہے،میں  نے عرض کیاکہ میں  جنت میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت چاہتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے علاوہ کچھ اور،میں  نے عرض کیابس میں  یہی چاہتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاکثرت سجودسے تومیری مددکر۔[78]

اور ایماندار تاجر بھی انبیاء ،صدیقین اورشہداکے ساتھ ہوگا ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِینُ مَعَ النَّبِیِّینَ، وَالصِّدِّیقِینَ، وَالشُّهَدَاءِ.

ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے راست باز،امانت دارتاجرانبیاء ،صدیقین اورشہداکے ساتھ ہوگا۔[79]

یہ حقیقی فضل ہے جواللہ کی طرف سے ملتاہے اورحقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کاعلم کافی ہے۔

وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّیُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِیبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِیدًا ‎﴿٧٢﴾‏ وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللَّهِ لَیَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُ مَوَدَّةٌ یَا لَیْتَنِی كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا ‎﴿٧٣﴾‏(النساء)
اے مسلمانو ! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو ،پھر گروہ گروہ بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکٹھے ہو کر نکل کھڑے ہو، اور یقیناً تم میں  بعض وہ بھی ہیں  جو پس و پیش کرتے ہیں  ، پھر اگر تمہیں  کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں  ان کے ساتھ موجود نہ تھا، اور اگر تمہیں  اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل مل جائے تو اس طرح کہ گویا تم میں  ان میں  دوستی تھی ہی نہیں  ،کہتے ہیں  کاش ! میں  بھی ان کے ہمراہ ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا ۔

غزوۂ احد میں  مسلمانوں  کو جانی ومالی نقصان کے پیش نظر اطراف ونواح کے قبائل کی ہمتیں  اورجسارتیں  بڑھ گئیں  تھیں  اورمسلمان ہرطرف سے خطرات میں  گھر گئے تھے ، دعوت اسلامی کوان خطرات سے بچانے کے لئے مسلمانوں  کوزبردست سعی وجہداورسخت جاں  فشانی کی ضرورت تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اپنے کفاردشمنوں  سے چوکنے رہواورسامان جنگ اوردیگرذرائع مثلاًقلعہ بندیوں  اورخندقوں  کااستعمال،تیراندازی اورگھوڑسواری سیکھنااوران تمام صنعتوں  کاعلم حاصل کرناجودشمن کے خلاف جنگ میں  مدددیتاہے وغیرہ سے دشمن سےمقابلہ کے لیے ہروقت تیاررہوتاکہ دشمن تم پرغلبہ حاصل نہ کرسکے،جیسے فرمایا

 وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّاللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ۝۰ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ۝۰ۚ اَللهُ یَعْلَمُهُمْ ۝۶۰ [80]

ترجمہ:اور تم لوگ جہاں  تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں  کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں  تم نہیں  جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔

پھرجیساموقع اورمصلحت ہو مردانہ وارالگ الگ دستوں  کی شکل میں  نکلویااکٹھے ہوکرکوچ کرو،منافقین کاذکرفرمایاکہ تم میں  کوئی کوئی آدمی ایسابھی ہے جوخودبھی جہادفی سبیل اللہ سے گریزکرتاہے اورپیچھے رہ جاتاہے اوردوسرے لوگوں  کی بھی ہمتیں  پست کرتاہے تاکہ مسلمان کفارکے مقابلے میں  کمزوررہیں ،پھراگراللہ کی راہ میں تم پرکوئی مصیبت آئے یعنی اللہ کی حکمت سےدشمن ظفریاب ہوتاہے اورتمہیں  ہزیمت اٹھاناپڑے تواپنی ضعف عقل اورضعف ایمان کی وجہ سےخوشیاں  مناتاہے اورکہتاہے اللہ نے مجھ پربڑافضل کیا کہ میں  ان لوگوں  کے ساتھ جنگ پر نہیں  گیاورنہ میں  بھی مصیبت میں  پھنس جاتا ،اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں  کو جنگ میں  فتح ونصرت غلبہ عطافرمادے اوروہ مال غنیمت اور لونڈی غلام لے کرخیروعافیت کے ساتھ لوٹ آئیں  توپچھتاتاہے،اوراس طرح کہتاہے کہ گویاتمہارے اوراس کے درمیان محبت کاتوکوئی تعلق تھاہی نہیں کہ کاش میں  بھی ان کے ساتھ چلاجاتاتومجھے بھی مال غنیمت میں  سے حصہ مل جاتاجس سے میرے بڑے کام نکل جاتے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ جَاهَدَ فِی سَبِیلِهِ، لاَ یُخْرِجُهُ إِلَّا الجِهَادُ فِی سَبِیلِهِ، وَتَصْدِیقُ كَلِمَاتِهِ بِأَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، أَوْ یَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِی خَرَجَ مِنْهُ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس شخص کا ضامن ہے جواللہ کے راہ میں  جہادکرے،اللہ کے کلام (اس کے وعدے)کوسچ جان کرجہادہی کی نیت سے نکلے(یعنی محض حصول دنیاونام ونمودکے لئے جہادنہ کرے) یاتواللہ تعالیٰ اس کوشہیدکرکے جنت میں  لے جائے گایااس کوثواب اورغنیمت کامال دلاکراس کے گھرلوٹالائے گا۔[81]

فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن یُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَیُقْتَلْ أَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٧٤﴾‏وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِیًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِیرًا ‎﴿٧٥﴾‏ الَّذِینَ آمَنُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِینَ كَفَرُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِیَاءَ الشَّیْطَانِ ۖ إِنَّ كَیْدَ الشَّیْطَانِ كَانَ ضَعِیفًا ‎﴿٧٦﴾(النساء)
پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں  انہیں  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرتے ہوئے شہادت پالے یا غالب آجائے، یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت فرمائیں  گے،  بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں  اور ان ناتواں  مردوں ، عورتوں  اور ننھے ننھے بچوں  کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو ؟ جو یوں  دعائیں  مانگ رہے ہیں  کہ اے ہمارے پروردگار !ان ظالموں  کی بستی سے ہمیں  نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا ، جو لوگ ایمان لائے ہیں  وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرتے ہیں  اور جن لوگوں  نے کفر کیاہےوہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں  کی راہ میں  لڑتے ہیں  ، پس تم شیطان کے دوستوں  سے جنگ کرو!یقین مانو کہ شیطانی حیلہ (بالکل بودا اور)سخت کمزور ہے۔

ایسے منافقین اورکافرین کوجوآخرت کے بدلے دنیاکے تھوڑے سے مال کی خاطراپنے دین کوفروخت کردیں  مسلمانوں  کوان لوگوں  سے جہادکرناچاہیے ،پھرجواللہ کی راہ میں  مردانہ وارلڑے گا اور منصب شہادت پرفائزہوجائے گایاغالب رہے گااورغازی کہلائے گااسے ہم ضرور اجرعظیم عطاکریں  گے،جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [82]

ترجمہ:پھر جیسا کچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں  ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ

ابوہریرہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے،اللہ تعالیٰ نے نیکوکاروں  کے لئے جنت میں  وہ ثواب تیارکررکھاہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سناہے اورنہ کسی کے دل میں  اس کاکبھی گزرہواہے۔[83]

 رہے وہ لوگ جوجہادکے لئے نہیں  اٹھتے تویہ لوگ جہادکے لئے نکلیں  یاگھرمیں  بیٹھیں  اللہ تعالیٰ کوان کی پرواہ نہیں  ہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙ [84]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں  سے کہہ دو کہ تم اسے مانویا نہ مانوجن لوگوں  کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں  جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں  گر جاتے ہیں ۔

۔۔۔ فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤُلَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ۝۸۹ [85]

ترجمہ: اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں  تو (پروا نہیں ) ہم نے کچھ اور لوگوں  کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں  ہیں ۔

آخرکیاوجہ ہے کہ تم اللہ کی خوشنودی کے لئے اللہ کی راہ میں  ان بے بس مردوں ، عورتوں  اور بچوں  کی خاطرنہ لڑو جنہیں مکہ مکرمہ میں  کمزور پاکرطرح طرح سےتختہ مشق ستم بنایا جارہاہے، اوروہ گڑگڑاکراللہ سے فریاد کر رہے ہیں  کہ اے ہمارے رب! ہمیں  کفروشرک کے مرتکب ظالموں  کی اس بستی سے نکال اوراپنی طرف سے ہماراکوئی حامی ومددگار پیدا کردے،جیسے فرمایا

وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ ہِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْیَتِكَ الَّتِیْٓ اَخْرَجَتْكَ۔۔۔۝۰ ۝۱۳ [86]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کتنی ہی بستیاں  ایسی گزر چکی ہیں  جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں  جس نے تمہیں  نکال دیا ہے۔

عَنْ عُبَیْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ:كُنْتُ أَنَا وَأُمِّی مِنَ المُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ

عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں  نے کہاکہ میں  اورمیری والدہ (ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ) مستضعفین (کمزوروں )میں  سے تھے ۔[87]

جولوگ اللہ تعالیٰ اورآخرت پرکامل یقین رکھتے ہیں  وہ محض دنیوی مفادیاہوس ملک گیری کے لئے نہیں  بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی سربلندی کے لئے صبرواستقلال سے لڑتے ہیں  اورجنہوں  نے کفر کا راستہ اختیارکیاہے وہ طاغوت کی راہ میں  لڑتے ہیں ، پس ایمانی قوت اورعزم جہادسے شیطان کے ساتھیوں  سے لڑواوریقین جانوکہ شیطان کے ہتکھنڈے اوراس کے مکروفریب خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں  نہ ہوں  حقیقت میں  کچھ حیثیت نہیں  رکھتے، اس لئے وہ ادنیٰ ادنیٰ حق کامقابلہ نہیں  کرسکتے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ قِیلَ لَهُمْ كُفُّوا أَیْدِیَكُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا ‎﴿٧٧﴾‏ أَیْنَمَا تَكُونُوا یُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُّشَیَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ‎﴿٧٨﴾‏(النساء)
کیا تم نے انہیں  نہیں  دیکھا جنہیں  حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں  کو روکے رکھو اور نمازیں  پڑھتے رہو اور زکوة ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں  جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں  سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جہاد کیوں  فرض کردیا؟ کیوں  ہمیں  تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں  کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا، تم جہاں  کہیں  بھی ہو موت تمہیں  آ کر پکڑے گی  گو تم مضبوطقلعوں  میں  ہو، اور اگر انہیں  کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں  کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں  کہ یہ تیری طرف سے ہے، انہیں  کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، انہیں  کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں ۔

مکہ مکرمہ میں  مسلمان تعداداوروسائل کے اعتبارسے لڑنے کے قابل نہیں  تھے اس لئے ان کے خواہش کے باوجودانہیں  قتال سے روکاگیاتھااورانہیں  تاکیدکی گئی تھی کہ کفار کے ظلم وستم کوصبروحوصلے سے برداشت کریں  اورعفودرگزرسے کام لیں ،لیکن جب مدینہ منورہ میں  مسلمانوں  کی طاقت مجتمع ہوگئی اورانہیں  قتال کی اجازت دے دی گئی توبعض لوگوں  نے طبعی خوف، کمزوری اورپست ہمتی کااظہارکیا،چنانچہ اس آیت میں  لوگوں  کوان کی آرزویاددلاکرفرمایاتم نے ان لوگوں  کوبھی دیکھاجن سے کہاگیاتھاکہ کفارکے ظلم وستم کے مقابلے میں  صبروتحمل اورعفوودرگزرسے کام لیں  اورنماز،زکوٰة اوردیگرعبادات وتعلیمات پرعمل کااہتمام کریں  تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں  پراستوار ہو جائے؟مگراب جوانہیں  کفارومشرکین سے لڑائی کاحکم دیاگیاتوان میں  سے ایک فریق کاحال یہ ہے کہ لوگوں  سے ایساڈررہے ہیں  جیسااللہ سے ڈرناچاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر،کہتے ہیں  اے ہمارے رب! ہم پرلڑائی کاحکم کیوں  لکھ دیاگیا؟اس حکم کوکچھ اورمدت کے لئے موخرکیوں  نہ کردیا ؟ایک مقام پرفرمایا

وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ۝۰ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ۝۰ۙ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ۝۰ۭ فَاَوْلٰى لَهُمْ۝۲۰ۚ [88]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے ہیں  وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں  نہیں  نازل کی جاتی (جس میں  جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک پختہ سورت نازل کر دی گئی جس میں  جنگ کا ذِکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں  میں  بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں  جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو ، افسوس ان کے حال پر ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، وَأَصْحَابًا، لَهُ أَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، كُنَّا فِی عِزٍّ وَنَحْنُ مُشْرِكُونَ فَلَمَّا آمَنَّا صِرْنَا أَذِلَّةً ،قَالَ:إِنِّی أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا الْقَوْمَ فَلَمَّا حَوَّلَهُ اللهُ إِلَى الْمَدِینَةِ أَمَرَهُ بِالْقِتَالِ فَكَفُّوا فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى:أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ قِیلَ لَهُمْ كُفُّوا أَیْدِیَكُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے عبدالرحمٰن بن عوف اوران کے کچھ دوست مکہ میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوکرکہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب ہم مشرک تھے توعزت کے ساتھ رہ رہے تھے اورجب ایمان لے آئے ہیں  توہم ذلت کی زندگی بسرکررہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے عفوودرگزرکاحکم دیاگیا ہے ،لہذاتم ان لوگوں  سے جنگ نہ کروپس جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ میں  پہنچاکرجہادکاحکم دیاتب کچھ لوگ جہادسے رک گئے،تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’ کیا تم نے انہیں  نہیں  دیکھا جنہیں  حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں  کو روکے رکھو اور نمازیں  پڑھتے رہو اور زکوة ادا کرتے رہو پھر جب انہیں  جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں  سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ ۔‘‘نازل فرمائی۔[89]

اللہ تعالیٰ نے دنیاسے بے رغبتی اورآخرت کے اجروثواب کوفرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان کمزور مسلمانوں  کوسمجھاؤ کہ یہ دنیااوراس کے فائدے تو ناپائیدار ہیں  اوراس کے مقابلے میں آخرت متقیوں  کے لیے زیادہ بہتراورپائیدارہے،اگرتم اللہ کے دین کی راہ میں  جانفشانی دکھاؤتویہ ممکن نہیں  تمہارااجرضائع ہوجائے گا ، رہی موت توتم جہاد کرو یا نہ کروموت تو بہرحال تمہیں  اپنے وقت پرآکررہے گی خواہ تم کیسے ہی مضبوط اور بلندوبالا فصیلوں  والے قلعوں  میں  پناہ لے لو ،جیسے فرمایا

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۱۸۵ [90]

ترجمہ:آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو، کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں  آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں  داخل کر دیا جائے ، رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖ [91]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے۔

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۔۔۔۝۰۝۳۴ [92]

ترجمہ:اور اے نبی ! ہمیشگی تو ہم نے آپؐ سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں  رکھی ہے۔

یعنی موت توہرذی روح کوآکررہنی ہے ،اب چاہیے موت کے خوف سےجہادکرویانہ کروموت تواپنے مقررہ وقت پرآکررہے گی ،

قال خالد بن الولید حین جاء الْمَوْتُ عَلَى فِرَاشِهِ: لَقَدْ شَهِدْتُ كَذَا وَكَذَا مَوْقِفًا وَمَا مِنْ عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِی إِلَّا وَفِیهِ جُرْحٌ مِنْ طَعْنَةٍ أَوْ رَمْیَةٍ وَهَا أَنَا أَمُوتُ عَلَى فِرَاشِی  فَلَا نَامَتْ أَعْیُنُ الْجُبَنَاءِ

جب خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکواپنے بسترپرموت آئی توانہوں  نے فرمایا میں  فلاں  فلاں  جنگوں  میں  شرکت کی،میرے جسم کے ایک ایک عضوپرنیزے یاتیرکازخم ہےمگرمیں  اب اپنے بسترپرجان ،جان آفرین کے سپردکررہاہوں ،بزدلوں  کی آنکھوں  کوسکون نصیب نہ ہو۔[93]

کفرکی وجہ سے کفارکے دل باہم مشابہ ہیں  اس لئے ان کے اقوال وافعال میں  بھی مشابہت پائی جاتی ہے ،چنانچہ فرمایاسابقہ امتوں  کی طرح اگران منکرین کو خوش حالی ، اجناس کی پیداوار اور مال واولادکی فراوانی وغیرہ حاصل ہوتی ہے توکہتے ہیں  یہ اللہ کی طرف سے ہےاوراگرکوئی تکلیف ،قحط سالی ،مال ودولت میں  کمی،مرض اورفقروفاقہ وغیرہ کاسامنا ہوتا ہےتوکہتے ہیں (نعوذباللہ) یہ تکلیف ہمیں  تمہاری نحوست کی بدولت آئی ہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سےکہو!ہرطرح کی بھلائی اور برائی دونوں  اللہ تعالیٰ کی قضاو قدر سے ہے لیکن لوگ قلت فہم وعلم کی وجہ سے اس بات کوسمجھ نہیں  پاتے،جیسے اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بارے میں فرمایا

فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَـنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَهٗ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۳۱ [94]

ترجمہ:مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں  اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں  کو اپنے لیے فالِ بد ٹھیراتے ، حالانکہ درحقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی مگر ان میں  سے اکثر بے علم تھے ۔

قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۝۰ۭ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۝۴۷ [95]

ترجمہ:انہوں  نے کہاہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں  کو بد شگونی کا نشان پایا ہے،صالح نے جواب دیا تمہارے نیک و بد شگون کا سر رشتہ تو اللہ کے پاس ہےاصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں  کی آزمائش ہو رہی ہے۔

قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ۝۰ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَیَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــیْمٌ۝۱۸ [96]

ترجمہ:بستی والے کہنے لگے ہم تو تمہیں  اپنے لیے فالِ بد (منحوس) سمجھتے ہیں  اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں  گے اور ہم سے تم بڑی درد ناک سزا پاؤ گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللهَ عَلٰی حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْهِهٖ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ۝۰ۭ ذٰلِكَ هُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۝۱۱ [97]

ترجمہ:اور لوگوں  میں  کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے ، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگیا اور جو کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی یہ ہے صریح خسارہ ۔

آخران لوگوں  کوکیاہوگیاہے کہ کوئی بات کسی بھی پیرائے میں  سمجھاؤ ان کی سمجھ میں  نہیں  آتی۔

مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِیدًا ‎﴿٧٩﴾‏مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ‎﴿٨٠﴾‏(النساء)
تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ،  ہم نے تجھے تمام لوگوں  کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے،اس رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرماں  برداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں  بھیجا۔

اے انسان!تجھے جوبھلائی بھی حاصل ہوتی ہے وہ اللہ کی عطاکردہ توفیق سے حاصل ہوتی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، إِنْ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ یُدْخِلُهُ عَمَلُهُ الْجَنَّةَ قَالُوا: وَلَا أَنْتَ؟ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ ، وَوَضَعَ یَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنااللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے تم میں  سے کوئی بھی اپنے اعمال کے سبب جنت میں  داخل نہیں  ہوگا،صحابہ کرام نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کوبھی نہیں ، فرمایااورمجھے بھی نہیں  ؟سوااس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے دامن رحمت اوراپنے فضل وکرم سے نہ ڈھانپ لے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ مبارک اپنے سرپررکھا۔[98]

اورجومصیبت تجھ پرآتی ہے وہ تمہاری غلطیوں ، کوتاہیوں  اورگناہوں  کی بدولت آتی ہے ، جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ۝۳۰ۭ [99]

ترجمہ: تم لوگوں  پر جو مصیبت بھی آئی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں  کی کمائی سے آئی ہے اور بہت سے قصوروں  سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے۔

عَنِ السُّدِّیِّ: {مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ}أَمَّا مِنْ نَفْسِكَ , فَیَقُولُ: مِنْ ذَنْبِكَ،

سدی فرماتے ہیں ’’تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ وہ تیرے گناہ کی وجہ سے ہے،

عَنْ قَتَادَةَ:مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ عُقُوبَةً یَا ابْنَ آدَمَ بِذَنْبِكَ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اے انسان ! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہےاور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔‘‘ کے معنی ہیں  اے ابن آدم!وہ تیرے گناہ کی سزاکے طورپر ہے۔ [100]

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے تم کوجہاں  میں تمام لوگوں  کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اوراس پراللہ کی گواہی کافی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں  اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح ونصرت،بڑے بڑے معجزات اورروشن براہن ودلائل کے ساتھ آپ کی تائیدفرمائی اوریہ علی الاطلاق سب سے بڑی شہادت ہے،جیسے فرمایا

قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً۝۰ۭ قُلِ اللهُ۝۰ۣۙ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ ۔۔۔ ۝۱۹ۘ [101]

ترجمہ:ان سے پوچھو کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ کہو ، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے۔

جس نے ظاہروباطن اورجلوت وخلوت میں  رسول کی اوامرونواہی میں  اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اوراس کے لئے وہی اجروثواب ہے جواللہ تعالیٰ کی اطاعت پرمترتب ہوتاہے،

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ عَصَى أَمِیرِی فَقَدْ عَصَانِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اورجس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی،اورجس نے میرے (مقررکئے ہوئے)امیرکی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اورجس نے میرے امیرکی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی(لیکن امیرکاحکم قرآن وحدیث کے خلاف ہوتواسے چھوڑکرقرآن وحدیث پرعمل کرناہوگا) ۔[102]

اور جو منہ موڑگیاتوبہرحال اپنے عمل کے یہ خودذمہ دار ہیں  ہم نے آپ کوان کے اعمال واحوال کانگہبان بناکرنہیں  بھیجا،جیسے فرمایا

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭلَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۙ [103]

ترجمہ:اچھا تو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نصیحت کیے جاؤ ! تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو،کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں  ہو(دراوغہ نہیں  ہیں  )۔

آپ کاکام صرف اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایت ان تک پہنچادیناہے،

 اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَهُمْ۝۲۵ۙثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ۝۲۶ۧ [104]

ترجمہ:(یقیناً) اِن لوگوں  کوپلٹنا ہماری طرف ہی ہےپھر اِن لوگوں  کا حساب لینا ہمارے ہی ذمّہ ہے۔

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ رَجُلًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ یُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ یَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى

عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم سے مروی ہےایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خطبہ سنایااس نے کہاجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے تواس نے اپنی درستی کاسامان مہیاکرلیا اور جواللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ یقیناًشرمیں  منہمک ہوگیا۔[105]

وَمَنْ یَعْصِهِمَا فَإِنَّهُ لَا یَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ، وَلَا یَضُرُّ اللهَ شَیْئًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےایک روایت میں  ہے اوراورجواللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرے تووہ اپناہی نقصان کرے گا وہ اللہ کاکچھ بھی نقصان نہیں  کرسکتا۔[106]

وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ ۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِیلًا ‎﴿٨١﴾‏ أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَیْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلَافًا كَثِیرًا ‎﴿٨٢﴾‏(النساء)
یہ کہتے ہیں توہیں  کہ اطاعت ہے پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں  تو ان میں  سے ایک جماعت،  جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں  کو مشورہ کرتی ہے، ان کی راتوں  کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے،  تو آپ ان سے منہ پھیر لیں  اور اللہ پر بھروسہ رکھیں  اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے،کیا یہ لوگ قرآن میں  غور نہیں  کرتے ؟  اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں  بہت کچھ اختلاف پاتے۔

یہ منافقین آپ کی مجلس میں  تودعویٰ کرتے ہیں  کہ ہم توآپ کے تابع فرمان ہیں ،آپ کے اطاعت گزارہیں مگرجب آپ کی مجلس سے نکلتے ہیں  توان میں  سے ایک گروہ راتوں  کوایک جگہ جمع ہوکرتمہاری باتوں  کے خلاف سازشوں  کے جال بنتارہتاہے ،جیسے فرمایا

وَیَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۔۔۔ ۝۴۷ [107]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں  کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں  سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل پروعیدسناتے ہوئے فرمایااللہ علام الغیوب کے مقررکردہ فرشتے ان کی یہ ساری کارستانیاں  ان کے نامہ اعمال میں  لکھ رہے ہیں ،اور محشرکے روزہم ان کوان کی کارستانیوں  کی پوری پوری جزادیں  گے، تم ان کی کچھ بھی پرواہ نہ کرو اوراللہ قادرمطلق پربھروسہ رکھووہی بھروسے کے لیے کافی ہے ، کیایہ منکرین قرآن کے مستحکم مضامین،اس کے حکمت سے بھرپوراحکام اوراس کے فصیح وبلیغ الفاظوں  پر غوروفکر ، تامل وتدبرنہیں  کرتے؟جیسے فرمایا

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا۝۲۴ [108]

ترجمہ:کیا اِن لوگوں  نے قرآن پر غورنہیں  کیا یا دلوں  پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں ؟۔

 كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِهٖ وَلِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ [109]

ترجمہ:یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں  اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں ۔

اگریہ جلیل القدر قرآن اللہ کے سواکسی اورکی طرف سے ہوتاجیساکہ مشرکین اورمنافقین کازعم ہے تواس کے مضامین اوراحکامات میں  بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی،چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیاگیاہے جس کے علم نے تمام امورکااحاطہ کررکھاہے اس لئے اس میں  کوئی اختلاف نہیں  ہے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: لَقَدْ جَلَسْتُ أَنَا وَأَخِی مَجْلِسًا مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِهِ حُمْرَ النَّعَمِ أَقْبَلْتُ أَنَا وَأَخِی وَإِذَا مَشْیَخَةٌ مِنْ صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ عِنْدَ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِهِ، فَكَرِهْنَا أَنْ نُفَرِّقَ بَیْنَهُمْ، فَجَلَسْنَا حَجْرَةً، إِذْ ذَكَرُوا آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَتَمَارَوْا فِیهَا، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، قَدِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، یَرْمِیهِمْ بِالتُّرَابِ، وَیَقُولُ:مَهْلًا یَا قَوْمِ، بِهَذَا أُهْلِكَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ، بِاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِیَائِهِمْ، وَضَرْبِهِمُ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ یَنْزِلْ یُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا، بَلْ یُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ، فَاعْمَلُوا بِهِ، وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ، فَرُدُّوهُ إِلَى عَالِمِهِ

عمروبن شعیب،عن ابیہ،عن جدہ سے روایت ہے میں  اورمیرابھائی ایک ایسی مجلس میں  شامل ہوئے کہ اس کے مقابلہ میں  سرخ اونٹوں  کامل جانابھی اس کے پاسنگ کے برابربھی قیمت نہیں  رکھتا،ہم دونوں  نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر چند بزرگ صحابہ کرام  کھڑے ہوئے ہیں ،ہم نے اس بات کوناپسندکیاکہ ان کے درمیان گھس پربیٹھیں  لہذاہم ان سے ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے،انہوں  نے قرآن کریم کی ایک آیت کے بارے میں  گفتگوشروع کی حتی کہ تفسیرمیں  ایک دوسرے سے اختلاف کی وجہ سے ان کی آوازیں  بلندہوگئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر سخت غصے ہوکرباہرتشریف لائے ،چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہورہاتھاان پرمٹی ڈالتے ہوئے فرمانے لگےاے لوگو! بس خاموش رہو تم سے اگلی امتیں  اسی وجہ سے تباہ وبربادہوگئیں  کہ انہوں  نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیااوراللہ کی کتاب کی ایک آیت کودوسری آیت کے خلاف سمجھا،یادرکھوقرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف اسے جھٹلانے والی نہیں  ہے بلکہ قرآن کی ایک ایک آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے،تم جسے جان لواسپرعمل کرواورجسے نہ جان سکواسے اس کے جاننے والے کے لئے چھوڑدو۔[110]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: هَجَّرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا، فَإِنَّا لَجُلُوسٌ إِذِ اخْتَلَفَ رَجُلَانِ فِی آیَةٍ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَقَالَ:إِنَّمَا هَلَكَتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ بِاخْتِلَافِهِمْ فِی الْكِتَابِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن میں  دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ دو آدمیوں  کے درمیان ایک آیت کی تفسیر میں  اختلاف ہو گیا اور بڑھتے بڑھتے ان کی آوازیں  بلند ہونے لگیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی امتیں  اپنی کتاب میں  اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں ۔[111]

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِی الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٨٣﴾‏ فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن یَكُفَّ بَأْسَ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِیلًا ‎﴿٨٤﴾‏ مَّن یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَكُن لَّهُ نَصِیبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیتًا ‎﴿٨٥﴾(النساء)
جہاں  انہیں  کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں  نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اور اپنے میں  سے ایسی باتوں  کی تہہ تک پہنچنے والوں  کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں ، اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے،تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرتا رہ، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے، ہاں  ایمان والوں  کو رغبت دلاتا رہ، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں  کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سخت قوت والا ہے اور سزا دینے میں  بھی سخت ہے،جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا اور جو برائی اور بدی کی سفارش کرے اس کے لیے بھی اس میں  سے ایک حصہ ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

غزوہ احدکے بعدکفارومشرکین اوریہودونصاریٰ نے گٹھ جوڑکرکے مسلمانوں  کے خلاف افواؤں  کابازارگرم کررکھاتھا،کبھی وہ خطرے کی بے بنیادمبالغہ آمیزخبراڑادیتے جس سے مدینہ منورہ کی چھوٹی سی آبادی میں  تشویش پھیل جاتی، اورکبھی حقیقی خطرے کوچھپانے کے لئے اطمینان بخش خبریں  اڑادیتے جنہیں  سن کرلوگ غفلت میں  مبتلا ہو جاتے ، ہنگامہ پسندلوگ ان افواؤں  میں  بڑی دلچسپی لیتے اوران خبروں  کونمک مرچ لگاکرہرطرف پھیلادیتے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں  کواس غیرمناسب فعل پرتادیب فرمائی کہ وہ افوائیں  پھیلانے سے بازرہیں ،فرمایایہ لوگ جہاں  مسلمانوں  کی فتح وکامرانی اوردشمن کی ہلاکت وشکست کی کوئی خبر یامسلمانوں  کی شکست اوران کے قتل وہلاکت کی خبرسن پاتے ہیں  اسے لے کرجگہ جگہ پھونکتے پھرتےہیں حالانکہ اگریہ اطمینان یاافسردگی پھیلانے والی اس خبرکوعام لوگوں  میں  پھیلانے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی جماعت کے اصحاب امر،اہل رائے،اہل علم ،خیرخواہی کرنے والوں ،عقلمندوں ،سنجیدہ اورباوقارلوگوں  تک پہنچائیں  تووہ ایسے لوگوں  کے علم میں  آجائے جواپنے غورفکر ، درست آراء اورصحیح راہنمائی کرنے والے علوم کے ذریعے سے صحیح نتیجہ اخذکرسکیں  کہ یہ خبرصحیح ہے یانہیں ، اوراس کانشرکرنا مسلمانوں  کے لئے فائدہ مندہوگایانقصان دہ ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کوبیان کرتارہے۔[112]

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ حَدَّثَ بِحَدِیثٍ وَهُوَ یَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَذَّابِینَ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص کوئی ایسی بات بیان کرتاہے جسے وہ جھوٹی سمجھتاہے تووہ بھی جھوٹوں  میں  سے ایک جھوٹاہے۔[113]

حِینَ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَلَّق نِسَاءَهُ، فَجَاءَهُ مِنْ مَنْزِلِهِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَوَجَدَ النَّاسَ یَقُولُونَ ذَلِكَ، فَلَمْ یَصْبِرْ حَتَّى اسْتَأْذَنَ عَلِیَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَفْهَمَهُ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ قَالَ: لَا، فَقُلْتُ اللهُ أَكْبَرُ

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کی حدیث میں  ہے جب انہیں  یہ خبرمعلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں  کوطلاق دے دی ہے تووہ اپنے گھرسے چل کرمسجدنبوی میں  آئے،یہاں  بھی انہوں  نے لوگوں  کویہی باتیں  کرتے ہوئے سنا،تواس بات کی تصدیق کرنے کے لئے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیایہ سچ ہے کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق دے دی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  یہ غلط ہے،چنانچہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کی بڑائی بیان کی۔[114]

فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَهُنَّ؟ فَقَالَ:لَا، فَقُمْتُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ فَنَادَیْتُ بِأَعْلَى صَوْتِی: لَمْ یُطَلِّقْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ،وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ۝۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ، فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ

اورصحیح مسلم میں  ہے آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق دے دی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ،پھرآپ رضی اللہ عنہ باہرآئے اورآپ رضی اللہ عنہ نے مسجدکے دروازے پرکھڑے ہوکربلندآوازسےفرمایالوگوسن لو!رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق نہیں  دی اس پریہ آیت’’جہاں  انہیں  کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں  نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور اپنے میں  سے ایسی باتوں  کی تہہ تک پہنچنے والوں  کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی ،پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہ ہیں  جنہوں  نے اس سنجیدہ معاملہ کی تحقیق کی۔[115]

اگرتم لوگوں  پراللہ کی بے پایاں  مہربانی اوررحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں  ایسی تھیں  کہ)معدودے چندکے سواتم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے،پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم اللہ کی راہ میں  جہادکرو، اوراگرکوئی اس سے اعراض کرتاہےتوآپ اپنی ذات کے سواکسی اورکے اعمال کے ذمہ دارنہیں  ہیں البتہ اہل ایمان کوجہادوقتال کی ترغیب بھی دیں  اوران کاحوصلہ بھی بڑھائیں ،جیساکہ غزوہ بدرکے دن مسلمانوں  کی صفیں  درست کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا

قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ

ایسی جنت کے لیے کھڑے ہوجاؤ جس کی چوڑائی آسمانوں  اورزمین کے برابرہے۔[116]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجہادکی ترغیب کے سلسلے میں  بہت سی احادیث ارشادفرمائیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ،(وَآتَى الزَّكَاةَ ) وَصَامَ رَمَضَانَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، هَاجَرَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نُنَبِّئُ النَّاسَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِهِ، كُلُّ دَرَجَتَیْنِ مَا بَیْنَهُمَا كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ، وَأَعْلَى الجَنَّةِ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائےاور نماز پڑھے اورزکوة اداکرےاور رمضان کے روزے رکھےتو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں  داخل کر دے گاخواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کرے یا جس سر زمین میں  پیدا ہوا ہو وہیں  جما رہے،صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم لوگوں  میں  اس بات کی بشارت نہ سنادیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں  سو درجے ہیں وہ اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں  کیلئے مقر کئے ہیں ،دونوں  درجوں  کے درمیان اتنا فصل ہے جیسے آسمان و زمین کے درمیان،پس جب تم اللہ سے دعا مانگو تو اس سے فردوس طلب کروکیونکہ وہ جنت کا افضل اور اعلیٰ حصہ ہےاس کے اوپر صرف رحمن کا عرش ہے اور یہیں  سے جنت کی نہریں  جاری ہوئی ہیں ۔[117]

وَآتَى الزَّكَاةَ کے الفاظ السنن الکبری للنسائی ۴۳۲۵ میں  ہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَا أَبَا سَعِیدٍ، مَنْ رَضِیَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِیدٍ، فَقَالَ: أَعِدْهَا عَلَیَّ یَا رَسُولَ اللهِ، فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ:وَأُخْرَى یُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِی الْجَنَّةِ، مَا بَیْنَ كُلِّ دَرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، قَالَ: وَمَا هِیَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ، الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ

اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوسعید جو اللہ کے رب ہونے پراور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا  اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس بات پر تعجب کیا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دوبارہ ارشاد فرمائیں  ، آپ نے یہی بات دوبارہ فرمائی پھر فرمایا ایک اور بات بھی ہے کہ اس کی وجہ سے بندے کے جنت میں  سو درجات بلند ہوتے ہیں اور ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے،ابوسعید رضی اللہ عنہ نےعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا چیزہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستہ میں  جہاد، اللہ کے راستہ میں  جہاد۔[118]

بعیدنہیں  کہ تمہارے جہاداورجہادکے لئے ایک دوسرے کوترغیب دینے کی وجہ سے اللہ کافروں  کازورتوڑ دے، اللہ تعالیٰ کوہرطرح کی قدرت حاصل ہے وہ چاہئے تواکیلاہی ان سے بدلہ لے لئے مگروہ تمہیں  آزمارہاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَلَوْ یَشَاۗءُ اللهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّیَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ۔۔۔ ۝۴ [119]

ترجمہ:اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا مگر (یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں  کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے۔

اللہ کازورسب سے زیادہ زبردست اوراس کی سزاسب سے زیادہ سخت ہے،جوشخص اللہ کی راہ میں  کوشش کرے گااورحق کی سربلندی کے لئے دوسروں  کوبھی ترغیب دے گاوہ اس کااجروثواب پائے گااوراس کے ثواب میں  کچھ کمی نہیں  ہوگی اورجولوگوں  کوغلط فہمیوں  میں  ڈالنے اوران کی ہمتیں  پست کرنے کی کوشش کرے گاوہ اس کے تعاون اورمددکے مطابق پوری پوری سزاپائے گااوراللہ ہرچیزپرنظررکھنے والاہے اوروہ قیامت کے روز ان اعمال کاحساب لے گااورہرشخص کواس کے استحقاق کے مطابق جزادے گا۔

وَإِذَا حُیِّیتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ‎﴿٨٦﴾‏اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَیَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِیثًا ‎﴿٨٧﴾(النساء)
اور جب تمہیں  سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو ،بےشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا  حساب لینے والا ہے،اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود (برحق)نہیں  وہ تم سب کو یقیناً قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے (آنے) میں  کوئی شک نہیں  ،اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا۔

معاشرتی اداب کی تعلیم :

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں  تَّحِیَّة اصل میں  تَحْیِیَةٌ ہے یاکے یامیں  ادغام کے بعد تَّحِیَّة ہوگیااس کے معنی ہیں  الدُّعَاءُ بِالْحَیَاةِ. وَالتَّحِیَّةُ: السَّلَامُ درازی عمرکی دعا یہاں  یہ سلام کے معنی میں  ہے۔[120]

سلام کرنادراصل ایک دوسرے کودعادیناہے،چنانچہ مسلمانوں  کومعاشرتی اداب کی تعلیم فرمائی کہ جب کوئی مسلمان تمہیں  سلامتی کی دعادے تودرشت مزاجی کے بجائےاس کے جواب میں  شائستگی کے ساتھ اسے زیادہ اچھاجواب دویعنی اگرکوئی السلام علیکم کہے تواس کے جواب میں  وعلیکم السلام ورحمة اللہ کااضافہ کردواوراگرکوئی السلام علیکم ورحمة اللہ کہے توجواب میں  وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ کااضافہ کردو،لیکن اگرکوئی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہے توپھراضافے کے بغیرانہی الفاظ کووعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ کہہ کرلوٹادو۔

عَنْ عِمْرَانَ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكُمْ، فَرَدَّ عَلَیْهِ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ:عَشْرٌ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَرَدَّ عَلَیْهِ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ:عِشْرُونَ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَرَدَّ عَلَیْهِ، ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ:ثَلَاثُونَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوااوراس نے کہاالسلام علیکم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کاجواب دیاپھروہ جاکربیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو دس نیکیاں  ملیں ،اس کے بعد ایک اور شخص آیااوراس نے کہاالسلام علیکم ورحمة اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کاجواب دیااور وہ جا کر بیٹھ گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو بیس نیکیاں  ملیں ،پھرایک اورشخص آیااوراس نے کہاالسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کاجواب دیااورجاکربیٹھ گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو تیس نیکیاں  ملیں ۔[121]

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ:وَعَلَیْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. ثُمَّ أَتَى آخرفَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَیْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَقَالَ لَهُ:وَعَلَیْكَ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، أَتَاكَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَسَلَّمَا عَلَیْكَ فَرَدَدْتَ عَلَیْهِمَا أَكْثَرَ مِمَّا رَدَدْتَ عَلَیَّ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !السلام علیک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب فرمایاوعلیک السلام ورحمة اللہ، پھردوسرے صاحب آئے اورانہوں  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !السلام علیک ورحمة اللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب فرمایاوعلیک السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ، پھرایک اورصاحب تشریف لائے اورانہوں  نے کہاالسلام علیک ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاوعلیک اس شخص نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں  اورفلاں  نے آپ کوسلام کیاتوآپ نے کچھ زیادہ وعائیہ الفاظ کے ساتھ جواب فرمایاجومجھے نہیں  دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے ہمارے لئے باقی ہی نہیں  چھوڑا،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے جب تم پرسلام کیاجائے توتم اسے بہترجواب دویااسی کولوٹادواس لئے ہم نے وہی الفاظ لوٹادیئے۔[122]

لیکن اگریہودونصاریٰ کو سلام کرناہوتوان کوسلام کرنے میں  پہل نہیں  کرنی چاہیے اوراضافہ بھی نہیں  کرناچاہیے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیناچاہیے،

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا سَلَّمَ عَلَیْكُمْ أَهْلُ الكِتَابِ فَقُولُوا: وَعَلَیْكُمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اہل کتاب تمہیں  سلام کریں  توتم اس کے جواب میں  صرف وعلیکم کہو۔[123]

کسی غیرمسلم کوسلام میں  پہل بھی نہیں  کرنی چایئے،

عَنْ سُهَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِی إِلَى الشَّامِ، فَجَعَلُوا یَمُرُّونَ بِصَوَامِعَ فِیهَا نَصَارَى فَیُسَلِّمُونَ عَلَیْهِمْ، فَقَالَ: أَبِی لَا تَبْدَءُوهُمْ بِالسَّلَامِ، فَإِنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا تَبْدَءُوهُمْ بِالسَّلَامِ، وَإِذَا لَقِیتُمُوهُمْ فِی الطَّرِیقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْیَقِ الطَّرِیقِ

سہیل بن ابوصالح نے کہامیں  اپنے والدکے ساتھ شام کی طرف گیاتولوگ عیسائیوں  کے عبادت خانوں  پرسے گزرے توانہیں  سلام کہتے تھے،میرے والدنے کہاانہیں  سلام کہنے میں  پہل نہ کرواس لئے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان بیان کیاہے ان لوگوں  (کافروں ) کوسلام کہنے میں  ابتدانہ کرواورجب تم انہیں  راستے میں  ملوتوانہیں  تنگ راستے کی طرف مجبورکردو۔[124]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا سَلَّمَ عَلَیْكُمُ الیَهُودُ، فَإِنَّمَا یَقُولُ أَحَدُهُمْ: السَّامُ عَلَیْكَ، فَقُلْ: وَعَلَیْكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تمہیں  یہودی سلام کریں  اوراگران میں  سے کوئی السام علیک کہے توتم اس کے جواب میں  صرف وعلیک (اورتمہیں  بھی)کہہ دیاکرو۔[125]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَفَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں  میری جان ہے تم جنت میں  داخل نہیں  ہو سکتے یہاں  تک کہ ایمان لے آؤ،اور تم صاحب ایمان نہیں  بن سکتے یہاں  تک کہ آپس میں  ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، کیا میں  تمہیں  ایسا کام نہ بتلاؤں  کہ جب تم اسے کرو تو اس کے نتیجہ میں  تم اپنے درمیان ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو اپنے درمیان کثرت سے سلام کہا کرو۔[126]

کہاجاتاہے کہ جوشخص قرات قرآن میں  مشغول ہو،خطبہ سن رہاہویانمازپڑھ رہاہوتواسے سلام نہیں  کرناچاہیے لیکن شریعت نے ان حالتوں  میں  سلام کرنے سے کہاں  منع کیا ہے بلکہ یہ مقامات بھی سلام کرنے کے عموم میں  داخل ہیں  اورجامع ترمذی میں نمازکی حالت میں  سلام کرنے کی اوراشارے کے ساتھ جواب دینے کی صراحت موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے بارے میں  فرمایا اللہ وہ قادرمطلق ذات ہے جس کے سواکوئی معبودکوئی الہ نہیں  ہے،وہ اپنی ذات اوراوصاف میں  کامل ہےوہی مالک یوم الدین ہے،ایک وقت مقررہ پراللہ تعالیٰ سب جن وانس کومیدان محشرمیں  جمع کرے گاجس میں  کوئی شک وشبہ نہیں  ہے،اورپھرہرشخص سے فرداًفرداً ذرہ ذرہ کاحساب لے گاہرشخص کے اعمال کوترازوعدل میں تولاجائے گااورہرایک کواس کے سعی وعمل کے مطابق بدلہ دے گا،جیسے فرمایا

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [127]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا ۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پانے والے ہوں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں  مبتلا کرنے والے ہوں  گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ [128]

ترجمہ:اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پائیں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی لوگ ہوں  گے جنہوں  نے اپنے آپ کو گھاٹے میں  ڈال لیا وہ جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ۝۶ۙفَهُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭوَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ۝۸ۙفَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ۝۹ۭ [129]

ترجمہ:پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں  گےوہ دل پسند عیش میں  ہو گا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں  گےاس کی جائے قرار گہری کھائی ہو گی۔

 زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا۝۰ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ۝۰ۭ وَذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ۝۷ [130]

ترجمہ: منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں  گے ، ان سے کہو نہیں  ، میرے رب کی قسم تم ضرور اُٹھائے جاؤ گے پھر ضرور تمہیں  بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں ) کیا کچھ کیا ہے اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔

اوراللہ کی بات سے بڑھ کرسچی بات اورکس کی ہوسکتی ہے ۔

فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِیدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِیلًا ‎﴿٨٨﴾‏ وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِیَاءَ حَتَّىٰ یُهَاجِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَیْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿٨٩﴾(النساء)
تمہیں  کیا ہوگیا ہے ؟ کہ منافقوں  میں  دو گروہ ہو رہے ہو ؟ انہیں  تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کردیا ہے اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کئے ہوؤں  کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالیٰ راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا ،ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں  تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں  ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں  ان میں  سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ ، پھر اگر یہ منہ پھیر لیں  تو انہیں  پکڑو اور قتل کرو جہاں  بھی ہاتھ لگ جائیں ، خبردار! ان میں  سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أُحُدٍ فَرَجَعَ أُنَاسٌ خَرَجُوا مَعَهُ، فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهِمْ فِرْقَتَیْنِ، فِرْقَةٌ تَقُولُ بِقَتْلِهِمْ، وَفِرْقَةٌ تَقُولُ: لَا.، وَقَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: فَكَانَ النَّاسُ فِیهِمْ فِرْقَتَیْنِ، فَرِیقًا یَقُولُونَ بِقَتْلِهِمْ، وَفَرِیقًا یَقُولُونَ: لَا. قَالَ بَهْزٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ}،[131] :، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّهَا طَیْبَةُ، وَإِنَّهَا تَنْفِی الْخَبَثَ، كَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ احدکے لئے تشریف لے گئے تواس وقت آپ کے ساتھ منافقین (عبداللہ بن ابی سلول اوراس کے تین سو ساتھی)بھی ساتھ تھے جوجنگ سے پہلے ہی واپس مدینہ منورہ لوٹ آئے تھے (اس وقت مشرکین کے تین ہزارکے مقابلے میں  صرف سات سو لوگ رہ گئے تھے)ان منافقین کے بارے میں  دوگروہ بن گئے، ایک گروہ کہتاتھاکہ ہمیں  ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہیے اورانہیں  قتل کردیناچاہیے کیونکہ یہ دشمنوں  کی طرف دار ہیں ، جبکہ دوسراگروہ کہتا تھا کہ یہ بھی مسلمان ہیں  اس لئے انہیں  قتل نہیں  کرناچاہیے، چنانچہ اس پریہ آیت’’ تمہیں  کیا ہوگیا ہے ؟ کہ منافقوں  میں  دو گروہ ہو رہے ہو ؟ انہیں  تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کردیا ہے، اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کئے ہوؤں  کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو۔ ‘‘نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ شہرطیبہ ہے جوخودبخودمیل کچیل کواس طرح دورکردے گاجس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کوچھانٹ دیتی ہے۔[132]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: نَزَلَتْ فِی قَوْمٍ كَانُوا بِمَكَّةَ، قَدْ تَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ، كَانُوا یُظَاهِرُونَ الْمُشْرِكِینَ، فَخَرَجُوا مِنْ مَكَّةَ یَطْلُبُونَ حَاجَةً لَهُمْ، فَقَالُوا: إِنْ لَقِینَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ فَلَیْسَ عَلَیْنَا مِنْهُمْ بَأْسٌ، وَأَنَّ الْمُؤْمِنِینَ لَمَّا أُخْبِرُوا أَنَّهُمْ قَدْ خَرَجُوا مِنْ مَكَّةَ، قَالَتْ فِئَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ: ارْكَبُوا إِلَى الْجُبَنَاءِ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّهُمْ یُظَاهِرُونَ عَلَیْكُمْ عَدُوَّكُمْ. وَقَالَتْ فِئَةٌ أُخْرَى مِنَ الْمُؤْمِنِینَ: سُبْحَانَ اللَّهِ! أَوْ كَمَا قَالُوا: أَتَقْتُلُونَ قَوْمًا قَدْ تَكَلَّمُوا بِمِثْلِ مَا تَكَلَّمْتُمْ بِهِ؟ أمِنْ أَجْلِ أَنَّهُمْ لَمْ یُهَاجِرُوا وَلَمْ یَتْرُكُوا دِیَارَهُمْ تُسْتَحَلُّ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ. فَكَانُوا كَذَلِكَ فِئَتَیْنِ، وَالرَّسُولُ عِنْدَهُمْ لَا یَنْهَى وَاحِدًا مِنَ الْفَرِیقَیْنِ عَنْ شَیْءٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے مکہ مکرمہ میں  کچھ لوگ تھے جو بظاہر توکلمہ پڑھتے تھے لیکن اس کے باوجودمسلمانوں  کے خلاف تمام کاروائیوں  میں مشرکین کی عملاً مددکرتے تھے،یہ اپنی کسی ضروری حاجت کے لئے مکہ مکرمہ سے باہرنکلے توانہیں  یقین تھاکہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کوئی روک ٹوک نہیں  کریں  گے کیونکہ بظاہریہ کلمہ کے قائل تھے،ادھرجب مدینہ منورہ میں  مسلمانوں  کوان کاعلم ہواتوان میں  سے بعض کہنے لگے کہ ان منافقین سے پہلے جہادکرناچاہیے کیونکہ یہ ہمارے دشمنوں  کے طرف دار اور عملاًمددگارہیں  جبکہ بعض نے کہاسبحان اللہ! جولوگ تمہارے جیساکلمہ پڑھتے ہیں (نمازاداکرتے ہیں ،روزے رکھتے ہیں اورقرآن مجیدکی تلاوت کرتے ہیں ) تم ان سے لڑوگے اوران کاقتال کرو گے؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں  نے مکہ مکرمہ سے ہجرت نہیں  کی اوراپنے گھربار اوعزیز و اقارب نہیں  چھوڑے،ہم کس طرح ان کے خون اوران کے مال کواپنے اوپرحلال کر سکتے ہیں  ، صحابہ کرام ؓکایہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہواتوآپ خاموش رہے، جس پریہ آیت ’’تمہیں  کیا ہوگیا ہے ؟ کہ منافقوں  میں  دو گروہ ہو رہے ہو ؟۔‘‘ نازل ہوئی۔[133]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھریہ تمہیں  کیاہوگیاہے کہ منافقین کے بارے میں  تمہارے درمیان دو رائیں  پائی جاتی ہیں  حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت ،جہادسے اعراض ، مصلحت پرستی اوردنیاکوآخرت پرترجیح کے سبب اللہ تعالیٰ نے انہیں  اسی طرف پھیردیاہے جس طرف سے یہ نکل کرآئے تھے، لہذاان کامعاملہ بالکل واضح ہے اوراس میں  کوئی اشکال نہیں  کہ وہ منافق ہیں ،کیاتم چاہتے ہوکہ جسے اللہ نے ان کے اعمال کے سبب ہدایت نہیں  بخشی اسے تم ہدایت بخش دو؟حالانکہ مسلسل کفروعنادکی وجہ سے اللہ تعالیٰ جن کے دلوں ،آنکھوں  اور کانوں  پر مہر لگا دے توپھرانہیں  کوئی راہ یاب نہیں  کرسکتا،ان کی تودلی تمناہے کہ جس طرح وہ خودکافرہیں  اسی طرح تم بھی صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ تاکہ تم اوروہ سب یکساں  اندھیروں  میں  بھٹکتے رہو ،یہ تمہارے ازلی دشمن ہیں  لہذا ان میں  سے کسی کواپنادوست نہ بناؤجب تک کہ وہ مخلص مسلمان بن کر اللہ کی راہ میں  ہجرت کرکے مدینہ منورہ نہ آ جائیں  اوراگروہ استطاعت کے باوجودہجرت کرکے مدینہ منورہ نہ آجائیں  توجب تمہیں  ان پرقدرت حاصل ہوجائے توچاہے حل ہویاحرم انہیں  پکڑواورقتل کرواور خبردار! ان میں  سے کسی کو اپنادوست اور مددگارنہ بناؤ۔

إِلَّا الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُم مِّیثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن یُقَاتِلُوكُمْ أَوْ یُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَیْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیلًا ‎﴿٩٠﴾‏ سَتَجِدُونَ آخَرِینَ یُرِیدُونَ أَن یَأْمَنُوكُمْ وَیَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِیهَا ۚ فَإِن لَّمْ یَعْتَزِلُوكُمْ وَیُلْقُوا إِلَیْكُمُ السَّلَمَ وَیَكُفُّوا أَیْدِیَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِینًا ‎﴿٩١﴾‏(النساء)
سوائے ان کے جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہوں  جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہےیا جو تمہارے پاس اس حالت میں  آئیں  کہ تم سے جنگ کرنے سے بھی تنگ دل ہیں  اور اپنی قوم سے بھی جنگ کرنے میں  تنگ دل ہیں  ، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انہیں  تم پر مسلط کردیتا اور تم سے یقیناً جنگ کرتے ، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی اختیار کرلیں  اور تم سے لڑائی نہ کریں  اور تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں  تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان پر کوئی راہ لڑائی کی نہیں  کی، تم کچھ اور لوگوں  کو ایسا بھی پاؤ گے جن کی (بظاہر) چاہت ہے کہ تم سے بھی امن میں  رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں  رہیں   (لیکن) جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں  تو اوندھے منہ اس میں  ڈال دیئے جاتے ہیں ، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں  اور تم سے صلح کا سلسلہ جنبانی نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں  تو انہیں  پکڑو اور مار ڈالو جہاں  کہیں  بھی پالو! یہی وہ ہیں  جن پر ہم نے تمہیں  ظاہر حجت عنایت فرمائی ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین میں  سے تین گروہوں  کوقتال سے متثنیٰ قراردیا،سب سے پہلے ان واجب القتل منافقین کاذکرفرمایاجوکسی ایسی قوم میں  جاکرپناہ حاصل کرلیں  جن کے ساتھ اسلامی حکومت کامعاہدہ ہواس طرح ان منافقین کواس قوم میں  شامل قراردیااوران کےجان ومال کے بارے میں  وہی حکم ہوگاجواس قوم کاہوگا چنانچہ منافق کے خون کانہیں  بلکہ معاہدے کے احترام کے لئے فرمایاالبتہ وہ منافق اس حکم سے مستثنیٰ ہیں  جو کسی ایسی قوم سے رطب وتعلق رکھتے ہوں  جس کے ساتھ تمہارا عہدوپیمان ہو، اسی طرح وہ منافق بھی مستثنیٰ ہیں  جو تمہارے پاس آتے ہیں  اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں  ، وہ نہ تمہاری مخالفت میں  لڑنا چاہتے ہیں  نہ تمہاری حمایت میں  اپنی قوم سے لڑناچاہتے ہیں ،یہ اللہ کااحسان ہے کہ ان لوگوں  کولڑائی سے الگ کردیا ورنہ اگراللہ تعالیٰ ان کے دل میں  بھی اپنی قوم کی حمایت میں  لڑنے کاخیال پیداکردیتاتویقیناً وہ بھی تم سے لڑتے لہٰذا اگر وہ جنگ سے کنارہ کش ہو جائیں  اور لڑنے سے باز رہیں  اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں  توتم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کروتاکہ ان کے اندرمخالفت ومخاصمت کاجذبہ بیدارنہ ہوجائے ، ایک اورقسم کے منافق تمہیں  ایسے ملیں  گے جو تمہارے ساتھ پر امن رہناچاہتے ہیں  اوراپنی قوم سے بھی تاکہ دونوں  طرف سے فائدہ اٹھاسکیں ، جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝۰ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۝۱۴ [134]

ترجمہ: جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں  تو کہتے ہیں  کہ ہم ایمان لائے ہیں  اور جب علیحدگی میں  اپنے شیطانوں  سے ملتے ہیں  تو کہتے ہیں  کہ اصل میں  تو ہم تمہارے ساتھ ہیں  اور اِن لوگوں  سے محض مذاق کر رہے ہیں ۔

یعنی وہ اپنے کفرونفاق پرقائم ہیں اس لئےجب کبھی انہیں  مسلمانوں  کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایاجاتاہے تووہ اس پرآمادہ ہو جاتے ہیں  ، ایسے لوگ اگرتمہارے ساتھ جنگ سے بازنہ رہیں  اورتمہارے ساتھ صلح وسلامتی کاسلسلہ جنبانی نہ کریں  اوراپنے ہاتھ نہ روکیں  توجہاں  وہ ملیں  انہیں  پکڑواوران کی گردنیں  مارو ،

عَنْ مُجَاهِدٍ: أَنَّهَا نَزَلَتْ فِی قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، كَانُوا یَأْتُونَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیُسَلِّمُونَ رِیَاءً، ثُمَّ یَرْجِعُونَ إِلَى قُرَیْشٍ فَیَرْتَكِسُونَ فِی الْأَوْثَانِ، یَبْتَغُونَ بِذَلِكَ أَنْ یَأْمَنُوا هَاهُنَا وَهَاهُنَا، فَأَمَرَ بِقِتَالِهِمْ إِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوا وَیُصْلِحُوا

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ بھی اہل مکہ تھے یہ مدینہ منورہ میں  آکربطورریاکاری دعوت اسلام قبول کرلیتے تھے پھرمکہ مکرمہ میں  جاکرقریش کے معبودوں  کی پرستش کرتے تھے تومسلمانوں  کوفرمایاکہ اگریہ لوگ اپنی دورنگی چال سے باز نہ آئیں  اورجنگ سے بازنہ آئیں اورنہ صلح کی طرف ہاتھ بڑھائیں  توانہیں  امن وسلامتی کے ساتھ مت رہنے دوبلکہ ان سے بھی جہادکرو ۔[135]

ان سے جہادکرنے کی ہم نے تمہیں  کھلی حجت دے دی ہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن یَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُم مِّیثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿٩٢﴾‏ وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیمًا ‎﴿٩٣﴾(النساء)
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں  مگر غلطی سے ہوجائے (تو اور بات ہے) ،جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالےاس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرانا اور مقتول کے عزیزوں  کو خون بہا پہنچانا ہے ، ہاں  یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں  اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرانی لازمی ہے، اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں  اور ان میں  عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں  کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی( ضروری ہے) ، پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں  اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لیے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے،اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

مومن کاقتل ایمان کے منافی ہے ،مومن کاقتل یاتوکافرسے صادرہوتاہے یاایسے فاسق وفاجرسے صادرہوتاہے جس کے ایمان میں  بہت زیادہ کمی ہو،ایسے فاسق وفاجرسے اس سے بھی بڑے اقدام کاڈرہے،اس لئے ایمان صحیح مومن کواپنے مومن بھائی کے قتل سے بازرکھتاہے،اس لئے فرمایاکسی مومن کویہ زیبا نہیں  ہے کہ دوسرے مومن کوقتل کرے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، یَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّی رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّیِّبُ الزَّانِی، وَالمَارِقُ مِنَ الدِّینِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی مسلمان کاخون جوکلمہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاماننے والاہوحلال نہیں  ہے ،البتہ تین صورتوں  میں  جائزہے،جان کے بدلے جان لینے والا، شادی شدہ ہوکرزناکرنے والااوراسلام سے نکل جانے والا(مرتد)جماعت کوچھوڑنے والا۔[136]

الایہ کہ اس سے بلانیت وارادہ قتل ہوجائے،چنانچہ قتل خطاکاکفارابیان فرمایااورجوشخص خواہ مردہویاعورت ،آزادہویاغلام ،چھوٹاہویابڑاکسی مومن کوبلانیت وارادہ سے قتل کردے تواس کاکفارا ایک مسلمان غلام کو غلامی سے آزادکرناہوگااورمقتول کے وارثوں  کی دل جوئی کی خاطر ان کوسواونٹ یااس کے مساوی قیمت بطورخوں  بہا (دیت)بھی ادا کرنی ہوگی ،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَضَى أَنَّ مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِیَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ: ثَلَاثُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَعَشَرَةُ بَنِی لَبُونٍ ذَكَرٍ

عمرو بن شعیب اپنے والدسے وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایاکہ جوشخص غلطی سے قتل کیاگیاہوتواس کی دیت ایک سواونٹ ہے،تیس اونٹنیاں  مونث ایک سالہ،تیس اونٹنیاں  مونث دوسالہ،تیس اونٹنیاں  مونث تین سالہ اوردس اونٹ مذکر دوسالہ۔[137]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِی عَدِیٍّ قُتِلَ، فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دِیَتَهُ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بنوعدی کے ایک آدمی کاقتل ہوگیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار(درہم)طے فرمائی۔[138]

الا یہ کہ مقتول کے ورثاقاتل کومعاف کرکےبطورصدقہ خوں  بہامعاف کردیں ، لیکن اگروہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہوتواس کا کفارا ایک مومن غلام آزاد کرنالازمی ہے، مگرمقتول کے (کافر)ورثاء کودیت اداکرناواجب نہیں  کیونکہ ان کی جان اورمال کااحترام واجب نہیں ، اوراگروہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کافردتھاجس سے تمہارا معاہدہ ہوتواس کے وارثوں  کوعہدومیثاق کی بناپرخوں  بہا دیا جائے گااورایک مومن غلام کوآزاد کرنا ہو گا ، پھر اگر تنگ دستی کی وجہ سےگردن آزادکرنے کی استطاعت نہ ہوتو مسلسل لگاتار دومہینے کے روزے رکھے،یہ قتل کے اس گناہ پراللہ سے توبہ واستغفار کرنے کاطریقہ ہے اور اللہ علیم وداناہے،ایک مومن کوقتل کرناکتنابڑاجرم ہے اس کے بارے میں  تین سخت ترین وعیدیں  بیان فرمائیں  جس سے دل کانپ جاتے ہیں ،کلیجے پھٹ جاتے ہیں  اورکبیرہ گناہوں  میں  سے کسی اورگناہ کے لئے اس سے بڑی بلکہ اس جیسی وعیدواردنہیں  ہوئی،فرمایارہاوہ شخص جوکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے (مگرتوبہ نہ کرے) تو اس کی سزاجہنم کی ہولناک بھڑکتی ہوئی آگ ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہے گا،اس پراللہ کاغضب ہوگا اوروہ اللہ کی رحمت سے دوررہے گا اوراللہ نے اس کے لیے سخت ترین عذاب مہیاکر رکھا ہے ، کیونکہ خون حقوق العبادمیں ہے اور نہایت سنگین مقدمہ ہے،

عَبْدَ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ مَا یُقْضَى بَیْنَ النَّاسِ بِالدِّمَاءِ

اس لئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روزانسانوں  کے درمیان سب سے پہلے خون کافیصلہ ہوگا۔[139]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَزَالُ الْمُؤْمِنُ مُعْنِقًا صَالِحًا، مَا لَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا، فَإِذَا أَصَابَ دَمًا حَرَامًا بَلَّحَ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ہمیشہ آزاد اور بےفکر رہتا ہے جب تک کہ اسے کوئی حرام خون نہ پہنچے پھر جب وہ حرام خون میں  مبتلا ہو جاتا ہے تو نہایت عاجز اور تنگ ہو جاتا ہے۔[140]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان مرد کے قتل ہو جانے سے سہل ہے۔[141]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَعَانَ عَلَى قَتْلِ مُسْلِمٍ بِشَطْرِ كَلِمَةٍ لَقِیَ اللهَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَكْتُوبٌ عَلَى جَبْهَتِهِ آیِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے کسی مسلمان کے قتل پرآدھے کلمے سے بھی اعانت کی تو وہ قیامت کے روزاللہ تعالیٰ کے سامنے اس حالت میں  آئے گاکہ اس کی پیشانی پرلکھاہواہوگاکہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے ناامیدہے۔[142]

عَنْ أَبِی إِدْرِیسَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِیَةَ وَكَانَ قَلِیلَ الْحَدِیثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقُولُ:كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ یَغْفِرَهُ، إِلَّا الرَّجُلُ یَمُوتُ كَافِرًا، أَوِ الرَّجُلُ یَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا

ابوادریس سے مروی ہے میں  نے (کاتب وحی)امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں  کوبخش دے سوائے اس شخص کے جوکفرکی حالت میں  فوت ہوا دوسراوہ جو قصداً کسی مومن کاقاتل بنا ۔[143]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَیْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِیرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ‎﴿٩٤﴾‏(النساء)
اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں  جا رہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں  ، تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں  ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں  ہیں ، پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم ضرور تحقیق اور تفتیش کرلیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

جس طرح فوج میں  ایک لفظ شعارکے طورپرمقررکیاجاتاہے اسی طرح ابتدائے اسلام میں  دعائیہ کلمہ اسلام علیکم مسلمانوں  کے لئے شعاراورعلامت کی حیثیت رکھتاتھامگراس کے باوجودبعض صحابہ کرام سے شبہ میں  کئی مسلمان قتل ہوگئے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غَنَمٌ لَهُ، فَسَلَّمَ عَلَیْهِمْ، فَقَالُوا: مَا سَلَّمَ عَلَیْكُمْ إِلَّا لِیَتَعَوَّذَ مِنْكُمْ، فَعَمَدُوا إِلَیْهِ، فَقَتَلُوهُ، وَأَخَذُوا غَنَمَهُ، فَأَتَوْا بِهَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ “ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَیْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا} إِلَى قَوْلِهِ {كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوا

جیسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےقبیلہ بنی سلیم کاایک شخص جس کے ساتھ بکریاں  تھیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ایک گروہ پرگزرہوا،مسلمانوں  کودیکھ کرچرواہے نےان کوسلام کیابعض صحابہ نے سمجھاکہ شایدوہ جان بچانے کے لئے اپنے آپ کومسلمان ظاہر کر رہاہےچنانچہ انہوں  نے بغیرتحقیق کئے اسے قتل کرڈالااوراس کی بکریاں  بطور مال غنیمت لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوگئے جس پریہ آیت’’اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں  جا رہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں ۔‘‘ نازل ہوئی ۔[144]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَرِیَّةً، فِیهَا الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ، فَلَمَّا أَتَوُا الْقَوْمَ وَجَدُوهُمْ قَدْ تَفَرَّقُوا، وَبَقِیَ رَجُلٌ لَهُ مَالٌ كَثِیرٌ لَمْ یَبْرَحْ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. وَأَهْوَى إِلَیْهِ الْمِقْدَادُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: أَقَتَلْتَ رَجُلًا شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ وَاللَّهِ لأذكرَن ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَجُلًا شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَتَلَهُ الْمِقْدَادُ. فَقَالَ: “ادْعُوَا لِی الْمِقْدَادَ. یَا مِقْدَادُ، أَقَتَلْتَ رَجُلًا یَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَكَیْفَ لَكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ غَدًا؟. قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَتَبَیَّنُوا وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَیْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِیرَةٌ كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوا} فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْمِقْدَادِ:كَانَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ یُخْفِی إِیمَانَهُ مَعَ قَوْمٍ كُفَّارٍ، فَأَظْهَرَ إِیمَانَهُ، فقتلْتَه، وَكَذَلِكَ كُنْتَ تُخْفِی إِیمَانَكَ بِمَكَّةَ قُبَلُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ روانہ فرمایاجس میں  مقداد رضی اللہ عنہ بن اسودبھی تھے،جب وہ لوگوں  کے پاس پہنچے تودیکھاکہ وہ الگ الگ ہوچکے ہیں  مگرایک شخص جس کے پاس بہت سامال ہے وہ ابھی تک وہیں  ہے، اس نے انہیں  دیکھ کرکہہ دیا اشھدان لاالٰہ الااللہ مگرمقداد رضی اللہ عنہ نے اس پرحملہ کرکے اسے قتل کردیا،اس کے ساتھیوں  میں  سے ایک شخص نے کہاکیاتم نے ایسے آدمی کوقتل کردیاجولاالٰہ الااللہ کی گواہی دے رہاتھا؟اللہ کی قسم!میں  اس بات کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرورذکرکروں  گا، جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے توانہوں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک آدمی نے گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  مگر مقداد رضی اللہ عنہ نے اسے بھی قتل کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامقداد رضی اللہ عنہ کومیرے پاس بلاؤ،مقداد رضی اللہ عنہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے مقداد رضی اللہ عنہ !تم نے ایک ایسے آدمی کوقتل کردیاجوالالٰہ الااللہ کہتا تھاتمہاراکیاحال ہوگاجب وہ کل لاالٰہ الااللہ کے ساتھ آئے گا؟تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کونازل فرمایا’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو !جب تم اللہ کی راہ میں  جہادکے لیے نکلوتودوست دشمن میں  تمیزکرواورجوتمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فوراًنہ کہہ دو کہ تومومن نہیں  ہے،اگرتم دنیوی فائدہ چاہتے ہوتواللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں ،آخراسی حالت میں  تم خودبھی تواس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو،پھراللہ نے تم پراحسان کیا لہذا تحقیق سے کام لو ، جو کچھ تم کرتے ہواللہ اس سے باخبرہے۔‘‘اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد رضی اللہ عنہ سے فرمایایہ مومن شخص اپنی کافرقوم میں  رہتے ہوئے اپنے ایمان کومخفی رکھے ہوئے تھا مگر جب اس نے اپنے ایمان کااظہارکیاتوتونے اسے قتل کردیاحالانکہ توبھی اس سے پہلے مکہ میں  اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا۔[145]

اس طرح کے اوربھی کئی واقعات بیان کئے گئے ہیں ،فرمایااے لوگو جو ایمان لائے ہو!جب تم اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے جہاد کے لیے نکلو تودوست دشمن میں  تمیز کرواورجوشخص اپنے آپ کومسلمان کی حیثیت سے پیش کرے اورتمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فوراًنہ کہہ دو کہ تومومن نہیں  ہے ، اگرتم دنیوی فائدہ چاہتے ہوتواللہ کے پاس تمہارے لیے اس سے کہیں  زیادہ اموال غنیمت ہیں ،جس طرح اس چرواہے نے اپناایمان چھپایاہواتھااسی حالت میں  تم خودبھی مشرکین مکہ کے درمیان ان کے ظلم وستم کے خوف سے اپنے ایمان کوچھپانے پرمجبور تھےاورایمان کے زبانی اقرارکے سواتمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں  تھا،پھراللہ نے تم پراحسان کیااور اس نے تمہیں  مدینہ منورہ میں  اجتماعی زندگی عطافرمائی لہذامشتبہ امورمیں عجلت کرنے کے بجائے اچھی طرح تحقیق کر لیاکرو،جوکچھ تم اعمال کرتے ہواورجن نیتوں  سے کرتے ہواللہ اس سے غافل نہیں ہے اس لئے وہ ہرایک کواس کے عمل اورنیت کے مطابق جزادے گا۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَوْلَهُ: فَتَبَیَّنُوا قَالَ: وَعِیدٌ مِنَ اللهِ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ ’’دوست دشمن میں  تمیز کرو ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرزنش اوروعیدہے۔[146]

لَّا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِینَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِینَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِینَ عَلَى الْقَاعِدِینَ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٩٥﴾‏ دَرَجَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٩٦﴾‏(النساء)
اپنی جانوں  اور مالوں  سے اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں  اپنے مالوں  اور اپنی جانوں  سے جہاد کرنے والوں  کو بیٹھے رہنے والوں  پر اللہ تعالیٰ نے درجوں  میں  بہت فضیلت دے رکھی ہے ،اور یوں  تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں  پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے،اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہادکی ترغیب دیتے ہوئے فرمایامسلمانوں  میں  سے وہ لوگ جوکسی حقیقی معذوری کے بغیرجہادکے لئے نہیں  نکلتے اوراللہ تعالیٰ کے دشمنوں  کے ساتھ قتال نہیں  کرتے ،اوروہ جومیدان جنگ میں اللہ کی راہ میں  جان ومال سے جہادکرتے ہیں  دونوں  کی حیثیت یکساں  نہیں  ،جیسے فرمایا

 لَایَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا۝۰ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللهُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۱۰ۧ [147]

ترجمہ: تم میں  سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں  گے وہ کبھی ان لوگوں  کے برابر نہیں  ہو سکتے جنہوں  نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہےاُن کا درجہ بعد میں  خرچ اور جہاد کرنے والوں  سے بڑھ کر رہے اگرچہ اللہ نے دونوں  ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

پھراللہ تعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ مجاہدین کوگھربیٹھ رہنے والوں  پربلندی درجات کی فضیلت سے نوازااورفرمایااللہ نے بیٹھنے والوں  کی بہ نسبت میدان جنگ میں جان ومال سے جہادکرنے والوں  کادرجہ بڑارکھاہے،

عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ یَسْتَوِی القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ} قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا فُلاَنًا فَجَاءَهُ وَمَعَهُ الدَّوَاةُ وَاللَّوْحُ، أَوِ الكَتِفُ، فَقَالَ: اكْتُبْ: {لاَ یَسْتَوِی القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ ،وَالمُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ} وَخَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا ضَرِیرٌ، فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا (لَا یَسْتَوِی القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ غَیْرَ أُولِی الضَّرَرِ وَالمُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ فلاں (کاتب وحی زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ )کوبلاؤوہ اپنے ساتھ دوات اورتختی یاشانہ کی ہڈی لے کرحاضرہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو’’اپنی جانوں  اور مالوں  سے اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں ۔‘‘ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا نے جو سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے موجودتھے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  نابیناہوں  چنانچہ وہیں  اس طرح آیت ’’اپنی جانوں  اور مالوں  سے اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں ، اپنے مالوں  اور اپنی جانوں  سے جہاد کرنے والوں  کو بیٹھے رہنے والوں  پر اللہ تعالیٰ نے درجوں  میں  بہت فضیلت دے رکھی ہے۔‘‘ نازل ہوئی ۔[148]

جس سے معذورین کااستثناء ہوگیا۔

أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ:فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِی، فَثَقُلَتْ عَلَیَّ حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِی، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ:غَیْرَ أُولِی الضَّرَرِ

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجس وقت یہ وحی نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پرتھی(شدت وحی کی وجہ سے) اس کامجھ پراس قدربوجھ پڑاکہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہوگیاآخریہ کیفیت ختم ہوئی اوراللہ تعالیٰ نےغَیْرَ أُولِی الضَّرَرِکے الفاظ اورنازل کئے۔[149]

اگرچہ ہرایک کے لیے اللہ نے جنت اوراجرعظیم کاوعدہ فرمایاہے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَا أَبَا سَعِیدٍ، مَنْ رَضِیَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِیدٍ، فَقَالَ: أَعِدْهَا عَلَیَّ یَا رَسُولَ اللهِ، فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ:وَأُخْرَى یُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِی الْجَنَّةِ، مَا بَیْنَ كُلِّ دَرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، قَالَ: وَمَا هِیَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ، الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوسعید جو اللہ کے رب ہونے پراور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا  اس کے لئے جنت واجب ہوگئی،ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس بات پر تعجب کیا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دوبارہ ارشاد فرمائیں ، آپ نے یہی بات دوبارہ فرمائی،پھر فرمایا ایک اور بات بھی ہے کہ اس کی وجہ سے بندے کے جنت میں  سو درجات بلند ہوتے ہیں ،اور ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے،ابوسعید رضی اللہ عنہ نےعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا چیزہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستہ میں  جہاد، اللہ کے راستہ میں  جہاد۔[150]

فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنُ أُمِّ الْحَكَمِ: یَا رَسُولَ اللهِ , وَمَا الدَّرَجَةُ؟قَالَ: أَمَّا الدَّرَجَةُ أَمَا إِنَّهَا لَیْسَتْ بِعَتَبَةِ أُمِّكَ وَلَكِنْ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ مِائَةُ عَامٍ

ایک شخص عبدالرحمٰن ابن ام الحکم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! درجہ کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تمہارے یہاں  کے گھروں  کے بالاخانوں  جتنانہیں  بلکہ دودرجوں  میں  سوسال کافاصلہ ہے۔[151]

مگراس کے ہاں  مجاہدوں  کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں  سے بہت زیادہ ہے،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰی تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۱۰تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۝۱۱ۙیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَیُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۲ۙ [152]

ترجمہ :اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میں  بتاؤں  تم کو وہ تجارت جو تمہیں  عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں  اپنے مالوں  سے اور اپنی جانوں  سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو،اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں  میں  داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی ، اور ابدی قیام کی جنتوں  میں  بہترین گھر تمہیں  عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی۔

مجاہدین کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں  اورمغفرت اوررحمت ہے،اوراللہ بڑا معاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے۔

إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِی أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِیمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِیهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِیرًا ‎﴿٩٧﴾‏ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیعُونَ حِیلَةً وَلَا یَهْتَدُونَ سَبِیلًا ‎﴿٩٨﴾‏ فَأُولَٰئِكَ عَسَى اللَّهُ أَن یَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا ‎﴿٩٩﴾‏(النساء)
جو لوگ اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے ہیں ، جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں  تو پوچھتے ہیں ، تم کس حال میں  تھے ؟ یہ جواب دیتے ہیں  کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے ،فرشتے کہتے ہیں  کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے ؟ یہی لوگ ہیں  جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے، مگرجو مرد عورتیں  اور بچے بےبس ہیں  جنہیں  نہ تو کسی کا چارہ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔

مکہ مکرمہ اورعرب کے دوسرے حصوں میں  لوگ مسلمان توہوچکے تھے لیکن انہوں  نے بلاکسی مجبوری ومعذوری آبائی علاقے اور خاندان کوچھوڑکرہجرت کرنے سے گریزکیا اورکافر قوم ہی کے درمیان مقیم رہےجبکہ دارالاسلام مہیاہوچکاتھا،اور مسلمانوں  کی قوت کومدینہ طیبہ میں  مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا تاکیدی حکم دیاجاچکاتھاتاکہ مسلمان اپنے دین و اعتقاد کے تقاضوں  کے مطابق پوری اسلامی زندگی بسرکرسکیں ،مگرانہوں  نے دنیوی مفادکودین پرترجیح دی اور نیم کفرانہ اورنیم اسلامی طورپر رہنا پسندکیااس لئے جن لوگوں  نے ہجرت کے حکم پرعمل نہیں  کیاان کوظالم قرار دیاگیا، فرمایا جولوگ اپنے نفس پرظلم کررہے تھے جب فرشتوں  نے نزاع کے عالم میں  ان کی روحیں  قبض کیں  توان کوسخت زجروتوبیخ کرتے ہوئے پوچھا تم یہاں  دارالکفرمیں  کیوں  قیام پذیررہے؟انہوں  نے جواب دیاکہ ہم ارض کفار (مکہ مکرمہ اوراس کے قرب وجوار)میں  کمزور و مجبور ،مظلوم اورمغلوب تھے اور ہمیں  اسلام پرعمل کرنا مشکل تھا،فرشتوں  نے کہااگرایک جگہ کفارکاغلبہ تھااورتمہارے لئے اللہ کے قانون پرعمل کرناممکن نہیں  تھاتوکیاوہاں  رہنا ضروری تھااللہ کی زمین وسیع وفراخ تھی تم اس جگہ کوچھوڑکرایسی جگہ پر ہجرت کرجاتے جہاں  تمہیں  اللہ کے دین پرعمل کرنا آسان ہوتا،جیسے فرمایا

یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ۝۵۶ [153]

ترجمہ:اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین وسیع ہے پس تم میری ہی بندگی بجا لاؤ۔

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص کسی مشرک کے ساتھ مل کررہے اوراسی کے ساتھ سکونت اختیارکرے تووہ بھی اس جیساہے۔[154]

کیونکہ ان کے پاس کوئی عذرنہیں  اس لئے یہ وہ لوگ ہیں  جن کاٹھکاناجہنم ہے اوروہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے، ہاں  جومرد،عورتیں  اوربچے واقعی ہی وسائل سے محروم ہیں  اورنکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں  پاتے بعیدنہیں  کہ اللہ انہیں  معاف کردے،یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اوراحسان فرماتے ہوئے انہیں  معاف فرمادے گا،جیسے جہادسے معذور رہنے والوں  کے بارے میں  فرمایا

لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ ۔۔۔ ۝۱۷ۧ [155]

ہاں  اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں ۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمزور مسلمانوں  کے لئے جومکہ مکرمہ میں  پھنسے رہ گئے تھے دعافرماتے تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی العِشَاءَ إِذْ قَالَ:سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَالَ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ: اللَّهُمَّ نَجِّ عَیَّاشَ بْنَ أَبِی رَبِیعَةَ، اللَّهُمَّ نَجِّ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ نَجِّ الوَلِیدَ بْنَ الوَلِیدِ، اللَّهُمَّ نَجِّ المُسْتَضْعَفِینَ مِنَ المُؤْمِنِینَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِینَ كَسِنِی یُوسُفَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں (رکوع سے اٹھتے ہوئے)سمع اللہ لمن حمدہ کہااورپھرسجدہ میں  جانے سے پہلے یہ دعاکی اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کونجات دے،اے اللہ!سلمہ بن ہشام کو نجات دے،اے اللہ !ولیدبن ولیدکونجات دے،اے اللہ!کمزورمومنوں  کونجات دے،اے اللہ!کفار مضرکو سخت سزادے، اے اللہ! انہیں  ایسی قحط سالی میں  مبتلاکرجیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں  قحط سالی آئی تھی۔[156]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَهُ بَعْدَ مَا سَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْقِبْلَةَ، فَقَالَ:اللَّهُمَّ خَلِّصِ الْوَلِیدَ بْنَ الْوَلِیدِ، وَعَیَّاشَ بْنَ أَبِی رَبِیعَةَ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَضَعَفَةَ الْمُسْلِمِینَ الَّذِینَ لَا یَسْتَطِیعُونَ حِیلَةً وَلَا یَهْتَدُونَ سَبِیلًا مِنْ أَیْدِی الْكُفَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےرویت میں  ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعدقبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی اے اللہ ولیدبن ولیدکوعیاش بن ابوربیعہ کو،سلمہ بن ہشام کواورتمام ناتواں  بے طاقت مسلمانوں  کوجونہ حیلے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ راہ پانے کی کافروں  کے ہاتھوں  سے نجات دے ۔[157]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو فِی دُبُرِ صَلَاةِ الظُّهْرِ:اللَّهُمَّ خَلِّصِ الْوَلِیدَ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَعَیَّاشَ بْنَ أَبِی رَبِیعَةَ وَضَعَفَةَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أَیْدِی الْمُشْرِكِینَ الَّذِینَ لَا یَسْتَطِیعُونَ حِیلَةً وَلَا یَهْتَدُونَ سَبِیلًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہرکی نمازکے بعدیہ دعامانگاکرتے تھے اے اللہ! ولیدبن ولیدکوعیاش بن ابوربیعہ کو،سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں  بے طاقت مسلمانوں  کوجونہ حیلے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ راہ پانے کی کافروں  کے ہاتھوں  سے نجات دے۔[158]

اللہ بڑامعاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والاہے۔

[1] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِی طَاعَةِ اللهِ ۶۵۰۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَنْ لَقِی اللهَ بِالْإِیمَانِ وَهُو غَیْرُ شَاكٍّ فِیهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحُرِّمَ عَلَى النَّارِ۱۴۳

[2] لقمان۱۴

[3] بنی اسرائیل۲۳

[4] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ لاَ یُجَاهِدُ إِلَّا بِإِذْنِ الأَبَوَیْنِ۵۹۷۲،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ۶۵۰۴

[5] جامع ترمذی ابواب الزكاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ عَلَى ذِی القَرَابَةِ۶۵۸،سنن النساء ی كِتَابُ الزَّكَاةِ باب الصَّدَقَةُ عَلَى الْأَقَارِبِ ۲۵۸۳،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ الصَّدَقَةِ۱۸۴۴

[6] تفسیرابن ابی حاتم۹۴۸؍۳

[7] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الوَصَاةِ بِالْجَارِ۶۰۱۵،صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالْجَارِ وَالْإِحْسَانِ إِلَیْهِ ۶۶۸۷،سنن ابوداود کتاب الادب بَابٌ فِی حَقِّ الْجِوَارِ۵۱۵۲، مسنداحمد۶۴۹۶،مسندالبزار۲۳۸۸،المعجم الاوسط۲۴۰۳،شعب الایمان ۹۰۸۲، شرح السنة للبغوی ۳۴۸۷

[8]جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حَقِّ الجِوَارِ۱۹۴۴

[9] مسنداحمد۲۳۸۵۴،المعجم الاوسط۶۳۳۳،المعجم الکبیرللطبرانی۶۰۵

[10] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَتْلِ الوَلَدِ خَشْیَةَ أَنْ یَأْكُلَ مَعَهُ۶۰۰۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الشِّرْكِ أَقْبَحَ الذُّنُوبِ، وَبَیَانِ أَعْظَمِهَا بَعْدَهُ ۲۵۷،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی تَعْظِیمِ الزِّنَا ۲۳۱۰

[11] شعب الإیمان۳۱۱۷

[12] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالْجَارِ وَالْإِحْسَانِ إِلَیْهِ۶۶۸۸

[13] مسند احمد۲۰۳۵۰

[14] مسنداحمد ۲۶۰۲۶،صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ حَقِّ الجِوَارِ فِی قُرْبِ الأَبْوَابِ۶۰۲۰،مصنف عبدالرزاق۱۴۴۰۱،مستدرک حاکم۷۳۰۹،شعب الایمان۹۰۹۷

[15] صحیح بخاری كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِیضِ عَلَیْهَا ۲۵۶۶،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ، وَلَوْ بِالْقَلِیلِ وَلَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْقَلِیلِ لِاحْتِقَارِهِ۲۳۸۹

[16] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ إِثْمِ مَنْ لاَ یَأْمَنُ جَارُهُ بَوَایِقَهُ۶۰۱۶،مسند احمد۱۶۳۷۲،مشكاة المصابیح كتاب الْآدَاب

[17] مشكاة المصابیح كتاب الْآدَاب بَابُ الشَّفَقَةِ وَالرَّحْمَةِ

[18] مسنداحمد۹۶۷۵،مشكاة المصابیح كتاب الْآدَاب

[19] مسنداحمد۱۷۳۷۲

[20] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۶۲۵ ، مسند احمد ۲۶۷۲۷، السنن الکبری للنسائی۷۰۶۱،شرح السنة للبغوی۲۴۱۵

[21] مسنداحمد۱۷۱۷۹،الادب المفرد۸۲،السنن الکبری للنسائی۹۱۴۱

[22] صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الْعِیَالِ وَالْمَمْلُوكِ، وَإِثْمِ مَنْ ضَیَّعَهُمْ أَوْ حَبَسَ نَفَقَتَهُمْ عَنْهُمْ ۲۳۱۲

[23] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِطْعَامِ الْمَمْلُوكِ مِمَّا یَأْكُلُ، وَإِلْبَاسُهُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا یُكَلِّفْهُ مَا یَغْلِبُهُ۴۳۱۶،صحیح بخاری كِتَابُ الأَطْعِمَةِبَابُ الأَكْلِ مَعَ الخَادِمِ۵۴۶۰

[24] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِطْعَامِ الْمَمْلُوكِ مِمَّا یَأْكُلُ، وَإِلْبَاسُهُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا یُكَلِّفْهُ مَا یَغْلِبُهُ ۴۳۱۷، سنن ابوداودکتاب الاطعمة بَابٌ فِی الْخَادِمِ یَأْكُلُ مَعَ الْمَوْلَى ۳۸۴۶

[25] صحیح بخاری كِتَاب العِتْقِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العَبِیدُ إِخْوَانُكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ۲۵۴۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِطْعَامِ الْمَمْلُوكِ مِمَّا یَأْكُلُ، وَإِلْبَاسُهُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا یُكَلِّفْهُ مَا یَغْلِبُهُ۴۳۱۵

[26] مشكاة المصابیح بَاب النَّفَقَات وَحقّ الْمَمْلُوك

[27] النساء: 36

[28] تفسیرطبری۳۵۰؍۸

[29] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ وَبَیَانِهِ۲۶۶،سنن ابن ماجہ کتاب السنةبَابٌ فِی الْإِیمَانِ۵۹،سنن ابوداودكِتَاب اللِّبَاسِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ ۴۰۹۱،مصنف ابن ابی شیبة۲۶۵۸۰،مسنداحمد۳۷۶۸،شعب الایمان ۵۷۸۲

[30] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی حُسْنِ الْخُلُقِ۴۸۰۱

[31]سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی قَدْرِ مَوْضِعِ الْإِزَارِ ۴۰۹۴

[32] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی قَدْرِ مَوْضِعِ الْإِزَارِ۴۰۹۳

[33] صحیح بخاری كِتَابُ اللِّبَاسِ باب بَابُ

[34] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مِنَ الخُیَلاَءِ ۵۷۸۹

[35] مجمع الزوائد۴۷۰۲،مستدرک حاکم۴۹۶۵

[36] مسنداحمد۱۴۳۰۱،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قِصَّةِ عُمَانَ وَالبَحْرَیْنِ ۴۳۸۳

[37] سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابٌ فِی الشُّحِّ ۱۶۹۸،مصنف ابن ابی شیبة۲۶۶۰۷، مسنداحمد۶۷۹۲،مستدرک حاکم ۱۵۱۶،السنن الکبری للبیہقی ۷۸۱۸،شرح السنة للبغوی ۴۱۶۱

[38] العادیات۶،۷

[39] العادیات۸

[40] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی غَسْلِ الثَّوْبِ وَفِی الْخُلْقَانِ۴۰۶۳ ، مسند احمد ۱۷۲۲۹

[41] مسند احمد ۹۲۳۴

[42] سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ التَّشَهُّدِ۹۶۹

[43]صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ مَنْ قَاتَلَ لِلرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ اسْتَحَقَّ النَّارَ۴۹۲۳

[44] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِبَابُ قِصَّةِ أَبِی طَالِبٍ۳۸۸۳،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ شَفَاعَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِی طَالِبٍ وَالتَّخْفِیفِ عَنْهُ بِسَبَبِهِ۵۱۰

[45] مسندابوداودالطیالسی۲۱۲۳،صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ بَابُ جَزَاءِ الْمُؤْمِنِ بِحَسَنَاتِهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَتَعْجِیلِ حَسَنَاتِ الْكَافِرِ فِی الدُّنْیَا۷۰۸۹،مسنداحمد۱۲۲۶۴

[46] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ مِنْ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ لَا یَنْفَعُهُ عَمَلٌ۵۱۸

[47] لقمان۱۶

[48] الزلزال۶تا۸

[49] الزلزلة: 8

[50] الزهد والرقائق لابن المبارك ۲۷؍۱، الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم۱۱۹۸،السنن الکبری للنسائی۱۱۶۳۰

[51] مسنداحمد۹۴۷۶،۲۰۵۹۳،صحیح بخاری كِتَاب المُسَاقَاةِ بَابُ شُرْبِ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ مِنَ الأَنْهَارِ۲۳۷۱

[52] البقرة۱۴۳

[53] الزمر۶۹

[54] النحل۸۹

[55]النساء: 41

[56] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ فَكَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِیدًا۴۵۸۳

[57] تفسیرابن ابی حاتم۹۵۶؍۳

[58] النبائ۴۰

[59] تفسیرعبدالرزاق۴۵۷؍۱

[60] حم السجدة۲۰تا۲۳

[61] تفسیر طبری ۹۸۹۱،۵۰۷؍۸

[62] الدر المنثور التفسیر بالماثور ۵۸۱؍۲

[63] النساء: 60

[64]النساء: 62

[65] المعجم الکبیرللطبرانی۱۲۰۴۵

[66] لقمان۲۱

[67] النور۵۱

[68] المائدة۵۰

[69] شرح الأربعین النوویة فی الأحادیث الصحیحة النبویة۴۱،۱۳۵؍۱

[70] المائدة۵۲

[71] النساء: 65

[72] صحیح بخاری کتاب المساقا ة بَابُ سَكْرِ الأَنْهَارِ ۲۳۵۹،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ وُجُوبِ اتِّبَاعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۱۱۲، سنن ابوداود كِتَاب الْأَقْضِیَةِ بَابٌ مِنَ الْقَضَاءِ ۳۶۳۷، مسنداحمد۱۶۱۱۶،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ تَعْظِیمِ حَدِیثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّغْلِیظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ ۱۵

[73] الدر المنثور۵۸۴؍۲

[74] شرح السنة للبغوی۱۰۴، السنة لابن ابی عاصم۱۵

[75] تفسیرطبری۵۳۴؍۸

[76] صحیح بخاری کتاب الاداب باب علامة حب اللہ عزوجل ۔۔ ۔ ۶۱۶۸، صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۶۷۱۸

[77] صحیح بخاری کتاب فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ القُرَشِیِّ العَدَوِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۶۸۸،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ۶۷۱۳

[78] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة باب بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْهِ۱۰۹۴

[79] جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی التُّجَّارِ وَتَسْمِیَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِیَّاهُمْ ۱۲۰۹

[80] الانفال ۶۰

[81] صحیح بخاری کتاب فرض الخمسبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الغَنَائِمُ۳۱۲۳،صحیح مسلم کتاب الامارةبَابُ فَضْلِ الْجِهَادِ وَالْخُرُوجِ فِی سَبِیلِ اللهِ۴۸۵۹

[82] السجدة۱۷

[83] صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالی فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرة أعین ۷۴۹۸

[84] بنی اسرائیل ۱۰۷

[85] الانعام۸۹

[86] محمد۱۳

[87] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ۴۵۸۷

[88] محمد۲۰

[89] تفسیرابن ابی حاتم۱۰۰۵؍۳،مستدرک حاکم ۲۳۷۷،السنن الکبری للنسائی۴۲۷۹

[90] آل عمران۱۸۵

[91] الرحمٰن۲۶

[92] الانبیائ۳۴

[93] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۷۳؍۱۶

[94] الاعراف۱۳۱

[95] النمل۴۷

[96] یٰسین۱۸

[97] الحج۱۱

[98] مسنداحمد۹۰۰۲، صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ۶۴۶۳،صحیح مسلم كتاب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِبَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۱۱،السنن الدارمی ۲۷۷۵

[99] الشوریٰ۳۰

[100] تفسیر طبری ۵۵۸؍۸

[101] الانعام۱۹

[102] صحیح بخاری كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَ  أَطِیعُوا اللهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْكُم ْ۷۱۳۷،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ ۴۷۴۷، مسنداحمد۷۶۵۶

[103] الغاشیة ۲۱، ۲۲

[104] الغاشیة۲۵،۲۶

[105] صحیح مسلم كِتَابُ الْجُمُعَةِ بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ۲۰۰۹

[106] سنن ابوداود تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ بَابُ الرَّجُلِ یَخْطُبُ عَلَى قَوْسٍ۱۰۹۷

[107] النور۴۷

[108] محمد۲۴

[109] ص۲۹

[110] مسنداحمد۶۷۰۲،الصحیح المسبورمن التفسیربالماثور۸۱؍۲،تفسیرابن کثیر۳۶۵؍۲

[111] مسند احمد ۶۸۰۱، صحیح مسلم كتاب الْعِلْمِ بَابُ النَّهْیِ عَنِ اتِّبَاعِ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ، وَالتَّحْذِیرِ مِنْ مُتَّبِعِیهِ، وَالنَّهْیِ عَنِ الِاخْتِلَافِ فِی الْقُرْآنِ۶۷۷۶،السنن الکبری للنسائی ۸۰۴۱

[112] صحیح مسلم کتاب المقدمہ بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۷،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی التَّشْدِیدِ فِی الْكَذِبِ ۴۹۹۲

[113] مسند احمد ۱۸۲۱۱

[114]صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ التَّنَاوُبِ فِی العِلْمِ ۸۹

[115] صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ۳۶۹۱

[116] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِ۴۹۱۵

[117] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۲۳،وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ، یُقَالُ: هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی ۲۷۹۰،السنن الکبری للنسائی ۴۳۲۵عن ابودردائ

[118] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ بَیَانِ مَا أَعَدَّهُ اللهُ تَعَالَى لِلْمُجَاهِدِ فِی الْجَنَّةِ مِنَ الدَّرَجَاتِ۴۸۷۹،سنن النساء ی كِتَابُ الْجِهَادِ دَرَجَةُ الْمُجَاهِدِ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ۳۱۳۳

[119] محمد۴

[120] فتح القدیر۵۶۹؍۱

[121] سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ كَیْفَ السَّلَامُ؟۵۱۹۵، مسند احمد ۱۹۹۴۸،سنن الدارمی۲۶۸۲

[122] تفسیرطبری۵۸۹؍۸،تفسیرابن ابی حاتم۵۷۲۶، ۱۰۲۰؍۳، تفسیرابن کثیر۳۶۸؍۲

[123] صحیح بخاری كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابٌ كَیْفَ یُرَدُّ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ السَّلاَمُ۶۲۵۸،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ ۵۶۵۲،مسنداحمد۵۲۲۱

[124]سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی السَّلَامِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ۵۲۰۵،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ ۵۶۶۱

[125]صحیح بخاری کتاب الاستیذان بَابٌ كَیْفَ یُرَدُّ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ السَّلاَمُ۶۲۵۷،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ ۵۶۵۴

[126] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی إِفْشَاءِ السَّلَامِ۵۱۹۳

[127] الاعراف۸،۹

[128] المومنون۱۰۲،۱۰۳

[129] القارعة۶تا۹

[130] التغابن۷

[131] النساء

[132] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ۴۰۵۰، صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ باب صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ۷۰۳۱،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ۳۰۲۸

[133] تفسیر طبری ۱۰؍۸،تفسیرابن ابی حاتم۵۷۴۱،۱۰۲۳؍۳،تفسیرابن کثیر۳۷۱؍۲

[134] البقرة۱۴

[135] تفسیرطبری۲۷؍۸،تفسیرابن ابی حاتم۵۷۶۹،۱۰۲۹؍۳،تفسیرابن کثیر۳۷۳؍۲

[136] صحیح بخاری كِتَابُ الدِّیَاتِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالعَیْنَ بِالعَیْنِ۶۸۷۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِینَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّیَاتِ بَابُ مَا یُبَاحُ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ۴۳۷۵،سنن ابوداودكِتَاب الْحُدُودِ بَابُ الْحُكْمِ فِیمَنِ ارْتَدَّ۴۳۵۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدِّیَاتِ بَابُ مَا جَاءَ لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ ۱۴۰۲،سنن نسائی كِتَابُ الْقَسَامَةِ بَابُ الْقَوَدِ ۴۷۲۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، إِلَّا فِی ثَلَاثٍ۲۵۳۴

[137] سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ الدِّیَةِ كَمْ هِیَ؟ ۴۵۴۱،مسند احمد۶۶۶۳،تفسیرالقرطبی ۳۱۷؍۵

[138] سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ الدِّیَةِ كَمْ هِیَ؟ ۴۵۴۶

[139] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القِصَاصِ یَوْمَ القِیَامَةِ ۶۵۳۳،صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ الْمُجَازَاةِ بِالدِّمَاءِ فِی الْآخِرَةِ، وَأَنَّهَا أَوَّلُ مَا یُقْضَى فِیهِ بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۴۳۸۱،مصنف ابن ابی شیبة ۲۷۹۴۸، مسند احمد ۳۶۷۴، مسند البزار ۱۶۷۸،صحیح ابن حبان ۷۳۴۴،السنن الکبری للبیہقی۱۵۸۶۰،شعب الایمان۴۹۵۴،شرح السنة للبغوی۲۵۲۰

[140] سنن ابوداودكِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابٌ فِی تَعْظِیمِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ۴۲۷۰

[141] جامع ترمذی أَبْوَابُ الدِّیَاتِ بَابُ مَا جَاءَ فِی تَشْدِیدِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ۱۳۹۵،سنن نسائی كِتَابُ تَحْرِیمِ الدَّمِ باب تَعْظِیمُ الدَّمِ۳۹۸۷

[142] السنن الکبری للبیہقی۱۵۸۶۵

[143] مسند احمد ۱۶۹۰۷، المعجم الکبیرللطبرانی۸۵۷

[144] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَیْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۴۵۹۱، جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ۳۰۳۰،مصنف ابن ابی شیبة۲۸۹۴۱،مسنداحمد۲۰۲۳،صحیح ابن حبان ۴۷۵۲،مستدرک حاکم ۲۹۲۰، السنن الکبری للبیہقی ۱۸۲۶۷

[145] كشف الأستار عن زوائد البزار۲۲۰۲،تغلیق التعلیق على صحیح البخاری۶۸۶۶

[146] تفسیر ابن ابی حاتم۱۰۴۲؍۳

[147] الحدید۱۰

[148] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة النساء بَابُ لاَ یَسْتَوِی القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ۴۵۹۴،صحیح مسلم کتاب الامارةبَابُ سُقُوطِ فَرْضِ الْجِهَادِ عَنِ الْمَعْذُورِینَ۴۹۱۱

[149] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ لاَ یَسْتَوِی القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ ۴۵۹۲

[150] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ بَیَانِ مَا أَعَدَّهُ اللهُ تَعَالَى لِلْمُجَاهِدِ فِی الْجَنَّةِ مِنَ الدَّرَجَاتِ۴۸۷۹،سنن النساء ی كِتَابُ الْجِهَادِ دَرَجَةُ الْمُجَاهِدِ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ۳۱۳۳

[151] مصنف ابن ابی شیبة۱۹۳۸۶، مسند احمد ۱۸۰۶۳

[152] الصف۱۰تا۱۲

[153] العنکبوت۵۶

[154] سنن ابوداود كِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی الْإِقَامَةِ بِأَرْضِ الشِّرْكِ۲۷۸۷

[155] الفتح۱۷

[156] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ قَوْلِهِ فَأُولَئِكَ عَسَى اللهُ أَنْ یَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللهُ عَفُوًّا غَفُورًا۴۵۹۸، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِی جَمِیعِ الصَّلَاةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِینَ نَازِلَةٌ۱۵۴۰

[157] تفسیرابن ابی حاتم۵۸۷۲، ۱۰۴۸؍۳

[158] تفسیر طبری ۱۰۲۷۵

Related Articles