ہجرت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورۂ الحشر

اس تمام واقعات کے بارے میں  اس سورۂ کانزول ہوا،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ،قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: سُورَةُ الحَشْرِ، قَالَ: نَزَلَتْ فِی بَنِی النَّضِیرِ

سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۂ الحشرکے بارے میں  پوچھاتوفرمایاکہ یہ (یہودیوں  کاایک بڑاقبیلہ) بنونضیرکے بارے میں  نازل ہوئی تھی ۔ [1]

عَنْ سَعِیدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سُورَةُ الحَشْرِ، قَالَ:قُلْ: سُورَةُ النَّضِیرِ

اورایک روایت میں  ہے سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں  نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۂ الحشرکے بارے میں  دریافت کیاتوانہوں  نے کہابلکہ اسے سورۂ النضیرکہو۔[2]اوراس میں یہ مضامین بیان کیے گئے۔

xابتداء میں  بتایاگیاہے کہ کائنات کی ہرچیزاللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس اورحمدوثنابیان کرتی ہے اوراس کی وحدانیت اورقدرت وجلال کی گواہی دیتی ہے۔

x یہودی عرصہ درازسے یثرب میں  قیام پذیرتھے ،انہوں  نے اپنی حفاظت کے لیے بڑے مضبوط قلعے تعمیرکررکھے تھے،معاشی وسائل پرپوری طرح ان کے قبضے میں  تھے،اہل یثرب کوانہوں  نے سودی قرضوں  کی سنہری زنجیروں  میں  جکڑرکھاتھااوران کاخیال یہ تھاکہ کوئی بھی ہمیں  یہاں  سے نکال نہیں  سکتا،لیکن ان کی اپنی ہی کرتوتوں  کی وجہ سے ان پراللہ کاعذاب آکررہااورانہیں  دوبارحشرکاسامناکرناپڑا،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  پریہ بات واضح کردی گئی کہ پے درپے فتح حاصل ہوناتمہاری طاقت وقوت کانتیجہ نہیں  بلکہ یہ اللہ کی تائیدکی وجہ سے ہے،اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ جو لوگ اللہ کے رسولوں  کی تکذیب کرتے اوران کے ساتھ ٹکراتے ہیں  اللہ تعالیٰ ان کوذلیل ورسوا کردیاکرتا ہے،بنونضیرافرادی طاقت اور وجنگی اسلحہ کے اعتبارسے مسلمانوں  سے کہیں  زیادہ تھے،ان کے پاس معاشی خوش حالی تھی دفاعی انتظامات اورمضبوط جماعتی نظم تھا مگر آسمانی تعلیمات سے انحراف وروگردانی،عہدشکنی ،تکبروسرکشی اوراللہ کے پیغمبرکی تکذیب اوراس سے مقابلہ کے باعث ذلیل ورسواہوگئے،نیزیہ بھی واضح کیاگیاکہ اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت میں  رکاوٹ ڈالنے والوں  کاخاتمہ فسادفی الارض نہیں  ہے۔

xمفتوحہ علاقے میں  جائیدادکابندوبست کیسے کیاجاسکتاہے؟اس کے لیے ہدایات دی گئیں  اورمنافقین کے رویے پرزجروتوبیغ ہے۔

xمنافقین کی مکاری اورچالبازی سے متنبہ کیاگیاکہ وہ قسمیں  کھاکھاکریہودیوں کواپنی مدداورحمایت کاعہدوپیمان کررہے ہیں  حالانکہ وہ اپنے وعدوں  میں  بالکل جھوٹے ہیں  ، ان پرمسلمانوں  کارعب چھایاہواہے ،وہ باہم متفق دکھائی دیتے ہیں  لیکن ان کے دلوں  میں  پھوٹ ہے ، اہل ایمان کوشیطان اورمنافقین کی مکاریوں  سے ہوشیاررہناچاہے۔

xسورۂ کے آخرمیں  مسلمانوں  کواللہ تعالیٰ سے ڈرنے اورروزقیامت کے لیے توشہ تیارکرنے کاحکم دیاگیا،انہیں  تنبیہ کی گئی کہ تم بھی ان لوگوں  کی طرح نہ ہوجاناجواللہ کوبھول گئے تھے اورپھراللہ نے انہیں  خوداپنی جان سے بے پرواہ بنادیا،دوزخی اورجنتی برابرنہیں  ہوسکتے،پھرقرآن مجیدکی عظمت کابیان فرمایاکہ اگراسے کسی پہاڑپرنازل کیاجاتا تو پہاڑ بھی ہیبت الٰہی سے دب جاتااورپھٹ جاتا،سنت کی اہمیت کی جانب بھی واضح حکم فرمایا کہ نبی کے اقوال اعمال کو اپنااڑھنابچھونابنالواورجن بری باتوں  سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کریں  اس سے رک جایاکرو،اسی ذکرمیں  انصارمدینہ کی عظمت وفضیلت بھی بیان فرمائی اورایثارکی عظمت کاذکرہوا،اہل ایمان کے لیے ایک اجتماعی دعاہے جس میں  ماضی ومستقبل کے تمام مومنوں  کی مغفرت مانگی گئی ہے،آخرمیں  اسماء حسنیٰ بیان کرکے اللہ کی بہت سی صفات کابیان ہے ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١﴾‏(الحشر)
آسمان اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہ غالب با حکمت ہے۔

بنی نضیرکے مدینہ منورہ سے اخراج پرتبصرہ کرنے سے پہلے تمہیدی فقرہ ارشادفرمایاکہ آسمانوں  اورزمین کی ہرایک چیزاپنے رب کی تسبیح،تقدیس،تمجید،تکبیراورتوحیدبیان کررہی ہے ،جیسے متعددمقامات پرفرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ ۝۴۴ [3]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  جو ان میں  ہیں  سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہو۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۝۴۱ [4]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں  وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں  اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں  اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔

یُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِـیْمِ۝۱ [5]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے، بادشاہ ہے ، قدوس ہے ، زبردست اور حکیم ہے۔

یُسَبِّــحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۚ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ۝۰ۡوَہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱ [6]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور وہ اکیلاہی اس عظیم الشان کائنات کی ہرچیزپر غالب ہے ،جیسے فرمایا

وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۱ [7]

ترجمہ: اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہیں  ۔

کائنات کی کوئی چیزنہ اس کی گرفت سے بچ سکتی ہے اورنہ کوئی ہستی اس کی نافرمانی کرسکتی ہے اوروہ اپنی تخلیق وامرمیں  حکمت رکھنے والاہے ،وہ نہ کوئی چیزعبث تخلیق کرتاہے اورنہ کوئی ایساحکم فرماتاہے جس میں  کوئی مصلحت نہ ہواورنہ کوئی ایسا فعل سرانجام دیتاہے جواس کی حکمت کے تقاضے کے مطابق نہ ہو ۔

هُوَ الَّذِی أَخْرَجَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِیَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن یَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِی قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ یُخْرِبُونَ بُیُوتَهُم بِأَیْدِیهِمْ وَأَیْدِی الْمُؤْمِنِینَ فَاعْتَبِرُوا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ ‎﴿٢﴾‏ وَلَوْلَا أَن كَتَبَ اللَّهُ عَلَیْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِی الدُّنْیَا ۖ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ ‎﴿٣﴾‏ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَن یُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٤﴾‏ مَا قَطَعْتُم مِّن لِّینَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٥﴾‏ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٦﴾(الحشر)
’’وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا، تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود (بھی) سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قلعے انہیں اللہ (کےعذاب) سے بچا لیں گے، پس ان پر اللہ( کا عذاب) ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا ،اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے)، پس اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو، اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر جلا وطنی کو مقدر نہ کردیا ہوتا تو یقیناً انہیںدنیا میں ہی عذاب دیتا اور آخرت میں (تو) ان کے لیے آگ کا عذاب ہے ہی، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی سخت عذاب کرنے والا ہے۔‘‘

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں  سے کافروں  کوان کے گھروں  سے پہلے حشریعنی پہلی جلاوطنی کے وقت نکالا،

عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَجْلَى بَنِی النَّضِیرِ، قَالَ:امْضُوا فَهَذَا أَوَّلُ الْحَشْرِ، وَإِنَّا عَلَى الْأَثَرِ

حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیرکوجلاوطن کیاتوفرمایایہ اول حشرہے اورہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں ۔[8]

پھرخلیفہ دوئم سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں  انہیں  جزیرة العرب سے نکال دیاگیااورآخری حشرقیامت کے دن ہوگا،ان کے بہت سے مضبوط قلعوں ،کثیرالتعداد لڑنے والے جوانوں  اوروافراسلحہ کودیکھ کرتمہیں  ہرگزتوقع نہیں  تھی کہ چنددنوں  میں  ان کے سنگین قلعے اس طرح بغیرلڑے بھڑےآسانی سے فتح ہوجائیں  گے اوروہ اس طرح ذلیل وخوارہوکراپنے گھروں  اورباغات سے جلاوطن ہو جائیں  گے، اوریہودیوں  خود بھی اس غلط فہمی میں  مبتلاتھے کہ ان کے سنگین قلعے،لڑنے والے نوجوان ،وافراسلحہ اور منافقین کی مددکاوعدہ انہیں  اللہ کے عذاب سے بچالیں  گےمگر ان پر اللہ کاعذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ جوان کے وہم و گمان میں  ہی نہ تھا،جیسے فرمایا

قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۶ [9]

ترجمہ:ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ ( حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں  کر چکے ہیں ، تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا۔

كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۲۵ [10]

ترجمہ:ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ اسی طرح جھٹلا چکے ہیں  آخر ان پر عذاب ایسے رخ سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جا سکتا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصرف چھ دنوں  کے محاصرے کے بعدجبکہ ابھی کشت وخون کی نوبت ہی نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نےان کے دلوں  میں  رعب ڈال دیاجس کی وجہ سے ان کے دلوں  میں  شدید دہشت اورگھبراہٹ طاری ہوگئی، اورتمام ترجنگی اسباب ووسائل کے باوجودانہوں  نے اس شرط پر ہتھیارڈال دیئےکہ وہ جتنا گھریلوسامان اونٹوں  پرلادکر لے جاسکیں  اس کی انہیں  اجازت ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط منظورفرمالی چنانچہ سامان ساتھ لے جانے کے لئے انہوں  نےاپنے گھروں  کے قیمتی لکڑیوں  کے دروازے، کھڑکیاں ،کھونٹیاں  ،چھت کی کڑیاں  اورشہتیرتک اکھیڑ ڈالے اور باہرسےمسلمانوں  نے ان کی قلعہ بندیوں  کوتوڑدیا،

وقال مقاتل ابن حَیَّانَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَاتِلُهُمْ، فَإِذَا ظَهَرَ عَلَى دَرْب أَوْ دَارٍ، هُدِمَ حِیطَانُهَا لِیَتَّسِعَ الْمَكَانُ لِلْقِتَالِ. وَكَانَ الْیَهُودُ إِذَا عَلَّوْا مَكَانًا أَوْ غَلَبُوا عَلَى دَرْبٍ أَوْ دَارٍ، نَقَبُوا مِنْ أَدْبَارِهَا ثُمَّ حَصَّنُوهَا وَدَرَّبُوهَا

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسلمانوں  نے بھی ان کے گھروں  کوتوڑا،اس طرح کہ جوں  جوں  آگے بڑھتے چلے گئے ان کے جوجومکانات وغیرہ قبضے میں  آتے گئے میدان کو کشادہ کرنے کے لئے انہیں  ڈھاتے چلے گئے اس طرح خودیہودبھی اپنے مکانوں  کوآگے سے تومحفوظ کرتے جاتے تھے اورپیچھے سے نقب لگاکرنکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے ۔[11]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے اہل بصیرت !خواہشات نفس کے پیچھے چلنے والوں  کے اس واقعہ سےعبرت حاصل کرو،جن کی عزت نے انہیں  کوئی فائدہ پہنچایااورنہ طاقت ہی ان کے کچھ کام آئی، اوراگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیرمیں اس طرح کی جلاوطنی کونہ لکھاہواہوتاتودنیاکے اندراس کی سزااورعذاب کامعاملہ مختلف ہوتا،اللہ تعالیٰ دنیامیں ہی ان کانام ونشان مٹادیتا اور بنوقریظہ کی طرح ان کی مرد قتل ہوتے اوران کی عورتیں اوربچے غلام بنالئے جاتےجنہیں  فدیہ دے کرچھڑانے والابھی کوئی نہ ہوتا،مگردنیامیں  وہ سخت عذاب سے بچ گئے تاہم آخرت میں  توان کے لئے حتمی اورلازمی جہنم کا بدترین کاعذاب تیار ہے ہی ،یہودیوں  کے ساتھ یہ واقعہ اس لئے پیش آیاکہ انہوں  نے اچھی طرح جاننے کے باوجود کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں  اوران پرنازل کتاب قرآن مجیدساری دنیاکے لوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے آخری کتاب ہے مگراپنی ضدوہٹ دھرمی ،تعصبات اورسرکشی کے باعث اللہ اوراس کے رسول کی مخالفت پرتل گئےاور جوکوئی بھی اللہ کی مخالفت کرتاہے تو اللہ اس کو سزا دینے میں  بہت سخت ہے۔

‏ مَا قَطَعْتُم مِّن لِّینَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٥﴾(الحشر)
تم نے کھجوروں  کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں  تم نے ان کی جڑوں  پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی کہ فاسقوں  کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے ۔

جب یہودنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوآتے دیکھاتواپنے مضبوط ومستحکم قلعہ جات میں  جن پر ان کوبڑاگھمنڈتھا جاکردبک گئے اورقلعہ کی فصیل سے مسلمانوں  پرتیروں  اورپتھروں  کی بوچھاڑکرنے لگے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعہ جات کامحاصرہ فرما لیا ، محاصرے کے چنددن بعد مسلمانوں نے باآسانی فوجی نقل وحمل کے لئے یاممکن ہے درختوں  کے جھنڈسے کمین گاہ کاکام لیاجاتاہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر بنی نضیرکی بستی کے اطراف بویرہ میں  جونخلستان تھے ان میں  سے ایک خاص قسم کی کھجورلینہ جوبنونضیر کی عام خوراک میں  شامل نہ تھے کے بہت سے درختوں  کوجنگی ضروریات کے سبب کٹوا کر انہیں جلادیااورجودرخت فوجی نقل وحرکت میں  حائل نہ تھے ان کوکھڑارہنے دیا،

جس پریہودیوں  نے مختلف باتیں  بنائیں  جسے سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان متفکرہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایاکہ تم لوگوں  نے جودرخت کاٹے اورجن کوکھڑارہنے دیا ان میں  سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں  ہے بلکہ یہ دونوں  ہی فعل اللہ کے قانون کے مطابق درست تھے تاکہ وہ فاسقوں  کورسواکرے ، اللہ کاارادہ یہ تھاکہ ان درختوں  کوکاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو کہ جوباغ انہوں  نے اپنے ہاتھوں  سے لگائے تھے اور جن باغوں  کے وہ مدتحائے درازسے مالک چلے آرہے تھے ،ان کے درخت ان کی آنکھوں  کے سامنے کاٹے جارہے تھے اوروہ کاٹنے والوں  کوکسی طرح نہ روک سکتے تھے ،اوردرختوں  کونہ کاٹنے میں  ذلت ورسوائی کاپہلویہ تھاکہ جب وہ اپنے اموال وجائیدادکوچھوڑکر مدینہ منورہ سے نکلے توان کی آنکھیں  یہ دیکھ رہی تھیں  کہ کل تک جو ہرے بھرے نخلستان ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں  کے قبضے میں  جارہے ہیں  ،ان کابس چلتاتووہ ان کوپوری طرح اجاڑ کر جاتے اورایک سالم درخت بھی مسلمانوں  کے قبضے میں  نہ جانے دیتے مگربے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں  کاتوں  چھوڑ کر باحسرت ویاس نکل گئے۔

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٦﴾(الحشر)

اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں  اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کردیتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

مال فے :وَقَبَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْأَمْوَالَ وَقَبَضَ الْحَلْقَةَ، فَوَجَدَ مِنْ الْحَلْقَةِ خَمْسِینَ دِرْعًا، وَخَمْسِینَ بَیْضَةً، وَثَلَاثَمِائَةِ سَیْفٍ، وَأَرْبَعِینَ سَیْفًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چھوڑے ہوئے سامان میں  پچاس زرہیں ،پچاس خود اورتین سوچالیس تلواروں  پرقبضہ کرلیا۔[12]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ یہودکے ان اموال کامسلمانوں  کے قبضے میں  آنابراہ راست لڑنے والی فوج کے زوربازوکانتیجہ نہیں  ہے بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جواللہ نے اپنے رسول اوراس کی امت اوراس کے قائم کردہ نظام کوعطافرمائی ہے اس لئے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں  اورلڑنے والی فوج کایہ حق نہیں  ہے کہ غنیمت کی طرح ان کوبھی اس میں  تقسیم کردیاجائے ،اس طرح شریعت میں  غنیمت اورفے کاحکم الگ الگ کردیاگیاہے ،غنیمت وہ اموال منقولہ ہیں  جوجنگی کاروائیوں  کے دوران میں  دشمن کے لشکروں  سے حاصل ہوں  ان کے ماسوادشمن ملک کی زمینیں ، مکانات اوردوسرے اموال منقولہ وغیرمنقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج اورفے میں  شامل ہیں ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَىٰ وَالْیَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ كَیْ لَا یَكُونَ دُولَةً بَیْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٧﴾‏ لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَیَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ‎﴿٨﴾‏(الحشر)
’’بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے، وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے، اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لواور جس سے روکے رک جاؤاوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے،(فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیںاور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیںیہی راست باز لوگ ہیں ۔‘‘

مال فے کامصرف:اللہ سبحان وتعالیٰ نے مال فے کامصرف بیان فرمایاکہ بستیوں  والوں  کاجومال اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیراپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ اوراس کےرسول کاہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حصہ میں  سے اپنااوراپنے اہل وعیال کانفقہ لے لیتے تھے اورباقیہ آمدنی جہادکے لئے اسلحہ اورسواری کے جانورفراہم کرنے پرخرچ کرتے تھے،

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِی النَّضِیرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ یُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَیْهِ بِخَیْلٍ، وَلا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ یُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ وَقَالَ مَرَّةً: قُوتَ سَنَتِهِ وَمَا بَقِیَ جَعَلَهُ فِی الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ عُدَّةً فِی سَبِیلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےبنونضیرکے اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کودلوائے تھے اورمسلمانوں  نے ان پراونٹ اورگھوڑے نہیں  دوڑائے تھے،یہ اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لیے خاص تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی اموال میں  سے اپنے اہل وعیال کوسال بھرکاخرچہ اورایک بارآپ نے سال بھرکی خوراک کہادے دیتے تھے اور جو اموال باقی بچ جاتے انہیں  اللہ عزوجل کے رستے میں  جانوروں  اورہتھیارخریدنے کے لیے صرف کردیتے تھے۔[13]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےقرابت والوں  یعنی بنی ہاشم اوربنی المطلب کاہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اوراپنے اہل وعیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قرابت داروں  کے حقوق اداکرسکیں ،

عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَیَّ عُمَرُ حِینَ تَعَالَى النَّهَارُ، فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِیرٍ مُفْضِیًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ: حِینَ دَخَلْتُ عَلَیْهِ: یَا مَالِ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْیَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَإِنِّی قَدْ أَمَرْتُ فِیهِمْ بِشَیْءٍ فَأَقْسِمْ فِیهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَیْرِی بِذَلِكَ، فَقَالَ: خُذْهُ فَجَاءَهُ یَرْفَأُ، فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، هَلْ لَكَ فِی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَهُ یَرْفَأُ، فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، هَلْ لَكَ فِی الْعَبَّاسِ، وَعَلِیٍّ، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا،

مالک بن اوس سے مروی ہے سیدناعمر نے دن چڑھے مجھے بلانے کے لئے ایک شخص کو بھیجاپس میں  آپ کی خدمت میں  آیا تو میں  نے ان کو بچھوناکے بغیر ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے دیکھا، جب میں  ان کے پاس پہنچا تو انہوں  نے مجھے دیکھ کر کہا اے مالک! تمہاری قوم کے کچھ(ضرورت مند) لوگ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس پہنچے ہیں  پس میں  نے ان کے لیے کچھ چیزوں  کا حکم کیا سو تم ان میں  تقسیم کر دو،میں  نے عرض کیا اگر آپ میرے علاوہ کسی اورکواس کاحکم دیں  توزیادہ بہترہوگا! آپ نے فرمایا نہیں  لے لو (یعنی گھبراؤ نہیں  یہ مال لو اور ان میں  تقسیم کر دو)اتنے میں  یرفاء آیا (یرفاء سیدنا عمر کا آزاد کردہ غلام اور دربان) اور بولااے امیرالمومنین! سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں  کیا آپ ان کو آنے کی اجازت دیتے ہیں  ؟ آپ نے کہا ہاں  ان کو آنے دوجب آپ نے انہیں  اجازت دے دی تووہ اندر آگئے، یرفاء پھر آیا اور اس نے کہاامیرالمومنین !عباس  رضی اللہ عنہ اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ آئے ہیں  ،آپ نے فرمایاہاں  انہیں  آنے دوآپ نے انہیں  اجازت دی تووہ بھی اندرتشریف لے آئے،

فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، اقْضِ بَیْنِی وَبَیْنَ هَذَا – یَعْنِی عَلِیًّا – فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، اقْضِ بَیْنَهُمَا وَأَرِحْهُمَا – قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُیِّلَ إِلَیَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ – فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِی بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِیٍّ وَالْعَبَّاسِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِی بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَقَالَا: نَعَمْ،

عباس  رضی اللہ عنہ نے کہااے امیرالمومنین!میرے اوراس کے یعنی سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ فرمادیں ، حاضرین میں  سے بھی بعض لوگوں  نے کہاہاں  اے امیرالمومنین!ان دونوں  کے درمیان فیصلہ فرمادیں  اورانہیں  راحت عطافرمائیں ،مالک بن اوس نے کہامجھے خیال ہواکہ ان دونوں  نے ان حضرات کواسی لیے بھیجاتھا،سیدناعمر نے فرمایا ذرا صبر کرو ! کچھ دیر کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سب حضرات کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں  تم کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں  جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں  کہ کیا تم یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم (یعنی انبیاء) میراث چھوڑ کر نہیں  جاتے بلکہ جو کچھ چھوڑ تے ہیں  وہ صدقہ ہے،سب نے تائید کرتے ہوئے کہا ہاں  بیشک آپ نے ایسا ہی فرمایا تھا،پھر وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عباس  رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں  کوبھی اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتاہوں  جس کے حکم سے آسمان اورزمین قائم ہیں  کیا تم دونوں  یہ بات جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے ہمارامال وارثوں  میں  تقسیم نہیں  ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں  وہ سب صدقہ ہے،ان دونوں  حضرات نے بھی اس کی تائید کی،

قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، بِخَاصَّةٍ لَمْ یَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ، وَلَا رِكَابٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ یَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ}،[14] وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِی النَّضِیرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَیْكُمْ، وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ، – أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً – وَیَجْعَلُ مَا بَقِیَ أُسْوَةَ الْمَالِ،

سیدناعمر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایسی خصوصیت مر حمت فرمائی جو آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں  بخشی،ارشادباری تعالیٰ ہے’’اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسولؐ کی طرف پلٹا دیے ، وہ ایسے مال نہیں  ہیں  جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اُونٹ دوڑائے ہوں  بلکہ اللہ اپنے رسولوں  کو جس پر چاہتا ہے تسلّط عطا فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘اللہ نے اپنے رسول کو بنی نضیر کا مال دلایالیکن اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اموال کوتمہیں  چھوڑکرمحض اپنی ذات کے لیے خاص نہیں  کیانہ انہیں  تم سے چھپاکرہی رکھابلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال میں  سے اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لیے ایک سال کانفقہ لے لیاکرتے تھے اورباقی ماندہ کودیگرمال کی طرح خرچ کیاکرتے تھے،

ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِی بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِی بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ،

اس کے بعدسیدنا عمران صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا میں  تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں  جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں  کہ کیا تم یہ بات جا نتے ہو؟ (یعنی آپ نے اس مال میں  اسی طرح تصرف کیا جس طرح بیان کیا گیا)سب نے اقرار کیا کہ ہاں  ہم یہ بات جانتے ہیں ،پھر وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عباس  رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا کہ میں  تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں  جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں  کہ کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ (جس طرح یہ سب لوگ جانتے ہیں ؟)تو ان دونوں  حضرات نے بھی کہا ہاں  ہم بھی یہ بات جانتے ہیں ،

فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَى أَبِی بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِیرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِیكَ، وَیَطْلُبُ هَذَا مِیرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِیهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، وَاللَّهُ یَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ، رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِیَهَا أَبُو بَكْرٍ،

پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی توسیدنا ابوبکر نے کہا اب میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ، تم دونوں سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تھے تم(عباس  رضی اللہ عنہ ) اپنے بھتیجے کی میراث کامطالبہ طلب کر رہے تھے اور یہ(سیدنا علی رضی اللہ عنہ )اس بات کامطالبہ کرتے تھے کہ ان کی بیوی کوان کے والد بزرگوار کی میراث دی جائے،توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تم دونوں  سے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں  ہوتا بلکہ ہمارا ترکہ صدقہ ہے،اور اللہ جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سچے نیک ہدایت یا فتہ اور حق کی اتباع کرنے والے تھے،پس سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال کے متولی رہے،

فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: أَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَوَلِیُّ أَبِی بَكْرٍ، فَوَلِیتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِیَهَا، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِیعٌ، وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَسَأَلْتُمَانِیهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَیْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَیْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِیَاهَا بِالَّذِی كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَلِیهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّی عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ جِئْتُمَانِی لِأَقْضِیَ بَیْنَكُمَا بِغَیْرِ ذَلِكَ، وَاللَّهِ لَا أَقْضِی بَیْنَكُمَا بِغَیْرِ ذَلِكَ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَیَّ

جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات ہوگئی تو میں  نے کہا میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں  کا خلیفہ ہوں ،پھر میں  ان اموال کا متولی رہا جب تک اللہ کو میرا متولی رہنا منظور ہوا،پھر تم اوریہ آئے اور تم دونوں  متفق تھے تم دونوں  کاایک ہی مطالبہ تھاجس کی بابت تم نے مجھ سے سوال کیا ،میں  نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں  وہ مال تمہاری تولیت میں  دیئے دیتا ہوں  مگر اس شرط پر کہ تم کو قسم ہے اللہ کی اس مال میں  اسی طرح کام کرنا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں  متولی رہتے تھےچنانچہ تم نے اس شرط پریہ مال مجھ سے لے لیاپھرتم اب میرے پاس آئے ہوکہ میں  تمہارے درمیان اس کے علاوہ فیصلہ کروں ،اللہ کی قسم !قیامت تک اس کے سوامیں  کوئی اورفیصلہ نہیں  کروں  گااگرتم اس مال کے بارے میں  اس طرح کامعاملہ نہیں  کرسکتے توپھرتم دونوں  یہ مال مجھے واپس کردو۔[15]

بنوعبدالمطلب خمس وغیرہ کے پانچویں  حصے میں  بنوہاشم کے ساتھ شریک ہوں  گے بقیہ بنوعبدمناف شریک نہیں  ہوں  گے کیونکہ جب قریش نے بنوہاشم سے مقاطعت اور عداوت کامعاہدہ کیاتوبنوعبدالمطلب بنوہاشم کے ساتھ شریک تھے اوردوسروں  کے برعکس انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مددکی ،اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب کے بارے میں  فرمایابنوہاشم اوربنومطلب ایک ہی ہیں ،

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: مَشَیْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطَیْتَ بَنِی المُطَّلِبِ وَتَرَكْتَنَا، وَنَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا بَنُو المُطَّلِبِ، وَبَنُو هَاشِمٍ شَیْءٌ وَاحِدٌ،قَالَ جُبَیْرٌ: وَلَمْ یَقْسِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِی عَبْدِ شَمْسٍ، وَلاَ لِبَنِی نَوْفَلٍ

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیامیں  اورسیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دونوں  مل کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اورہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !بنومطلب کوتوآپ نے خیبرکے خمس میں  سے عنایت فرمایاہےاورہمیں  (بنی امیہ کو)نظراندازکردیاہےحالانکہ آپ سے قرابت میں  ہم اوروہ برابرتھے(کیونکہ عبدمناف کے چاربیٹے تھے ہاشم ، مطلب ،عبدشمس اورنوفل ،ہاشم کی اولادمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اورنوفل کی اولادمیں  جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ اورعبدشمس کی اولادمیں سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًبنوہاشم اوربنومطلب ایک ہیں ،جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدشمس اوربنونوفل کو(خمس میں  سے)کچھ نہیں  دیاتھا۔[16]

اسلامی معاشرے اورحکومت کی معاشی پالیسی کابنیادی قاعدہ بیان فرمایا اوراس میں یتیموں  ، مسکینوں  اور مسافروں  کاحصہ ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں  کے ہاتھ میں  ہی یہ مال گردش کرتانہ رہ جائےکیونکہ اس میں  اس قدر فساد ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں  جانتا،چنانچہ اسی مقصدکے لئے اللہ تعالیٰ نے سودکوحرام فرمایا، مسلمانوں  پرزکوٰة فرض فرمائی،اموال غنیمت میں  سے خمس نکالنے کاحکم فرمایا،بے شمارجگہوں  پرصدقات نافلہ کی تلقین فرمائی ،میراث کاقانون بنایا۔اوراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امرونہی کی اطاعت کے بارے میں  ایک قاعدہ کلیہ اورایک عام اصول مقررفرمایاجو کچھ اللہ کارسول تمہیں  دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:دَعُونِی مَا تَرَكْتُكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِیَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَیْتُكُمْ عَنْ شَیْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم مجھے چھوڑ دو جب تک کہ میں  تم کو چھوڑ دوں  (یعنی بغیر ضرورت کے مجھ سے سوال نہ کرو) تم سے پہلے کی قومیں  کثرت سوال اور انبیاء سے اختلاف کے سبب ہلاک ہو گئیں  جب میں  تمہیں  کسی بات کاحکم دوں  توجہاں  تک ممکن ہواس پرعمل کرواورجس بات سے روک دوں  اس سے اجتناب کرو ۔[17]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:لَعَنَ اللَّهُ الوَاشِمَاتِ وَالمُوتَشِمَاتِ، وَالمُتَنَمِّصَاتِ وَالمُتَفَلِّجَاتِ، لِلْحُسْنِ المُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِی أَسَدٍ یُقَالُ لَهَاأُمُّ یَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِی عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ كَیْتَ وَكَیْتَ، فَقَالَ: وَمَا لِی أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ هُوَ فِی كِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَیْنَ اللَّوْحَیْنِ، فَمَا وَجَدْتُ فِیهِ مَا تَقُولُ،

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے متعلق روایت ہےایک مرتبہ انہوں نے بیان کیاکہ اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں  اورگودنے والیوں  پرلعنت بھیجی ہے ،چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں  اورحسن کے لئے آگے کے دانتوں  میں  کشادگی کرنے والیوں  پرلعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیداکی ہوئی صورت میں  تبدیلی کرتی ہیں ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کایہ کلام قبیلہ بنی اسدکی ایک عورت کومعلوم ہواجوام یعقوب کے نام سے معروف تھی، وہ آئی اورکہاکہ مجھے معلوم ہواہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں  پرلعنت بھیجی ہے؟عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہاآخرمیں  کیوں  نہ میں  انہیں  لعنت کروں  جنہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اورجوکتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے،اس عورت نے کہاکہ قرآن مجیدتومیں  نے بھی پڑھاہے لیکن آپ جوکچھ کہتے ہیں  میں  نے تواس میں  کہیں  یہ بات نہیں  دیکھی،

قَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِیهِ لَقَدْ وَجَدْتِیهِ، أَمَا قَرَأْتِ: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا}، [الحشر: 7 ]؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهُ، قَالَتْ: فَإِنِّی أَرَى أَهْلَكَ یَفْعَلُونَهُ، قَالَ: فَاذْهَبِی فَانْظُرِی، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ، فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَیْئًا، فَقَالَ: لَوْ كَانَتْ كَذَلِكَ مَا جَامَعْتُهَا

انہوں  نے کہاکہ اگرتم نے بغورپڑھاہوتاتوتمہیں  ضرورمل جاتا،کیاتم نے یہ آیت نہیں  پڑھی کہ’’ رسول تمہیں  جوکچھ دیں  لے لیاکرواورجس سے تمہیں  روک دیں  رک جایاکرو؟۔‘‘اس نے کہاپڑھی ہے،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہاکہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں  سے روکاہے،اس پراس عورت نے کہاکہ میراخیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایساکرتی ہیں ،انہوں  نے کہاکہ اچھاجاؤاوردیکھ لو،وہ عورت گئی اوراس نے دیکھالیکن اس طرح کی ان کے یہاں  کوئی معیوب چیزاسے نہیں  ملی،پھرعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہاکہ اگرمیری بیوی اسی طرح(خلاف شریعت)کاموں  کی مرتکب ہوتی توبھلاوہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ہرگزنہیں ۔ [18]

پھراللہ تعالیٰ نے تقوے کاحکم فرمایا جودائمی سعادت اورفوزعظیم ہے ،اوراس کوضائع کرنے میں  دائمی بدبختی اورہمیشہ کاعذاب ہے،چنانچہ فرمایاجوکوئی تقویٰ کوترک کرکے خواہشات نفس کی پیروی کوترجیح دیتاہے تویقیناًاللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والاہے،(مال فے )ان مہاجرمسکینوں  کے لئے بھی ہے جوشرک سے تائب ہوکراسلام قبول کرنے،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرنے،اپنےاباؤاجداد کی مقررہ عبادات سے منہ موڑکراعمال صالحہ اختیارکرنے کی بناپراپنے گھروں  سے اوراپنے مالوں  سے نکال دیئے گئے ہیں ، وہ اللہ کے فضل اوراس کی رضامندی کے طلب گارہیں  اوراللہ تعالیٰ کی اوراس کے رسول کی مددکرتے ہیں ، کیونکہ انہوں  نے ایمان کے تقاضے کے مطابق عمل کیا اس لئےیہی راست بازلوگ ہیں ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکوجمع فرماکرخطبہ ارشاد فرمایااورحمدوثناکے بعد انصارنے مہاجرین کے ساتھ جوکچھ سلوک واحسان کابرتاؤکیاتھااس کوسراہا،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلأَنْصَارِ لَیْسَتْ لإخوانكم مِنَ الْمُهَاجِرِینَ أَمْوَالٌ، فَإِنْ شِئْتُمْ قُسِّمَتْ هَذِهِ وأموالكم بینكم وبینهم جمیعا، وإن شئتم أمسكتم أَمْوَالَكُمْ وَقُسِّمَتْ هَذِهِ فِیهِمْ خَاصَّةً، فَقَالُوا. بَلْ قَسِّمْ هَذِهِ فِیهِمْ وَاقْسِمْ لَهُمْ مِنْ أَمْوَالِنَا مَا شِئْتَ ،

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایااے گروہ انصار!اگرچاہوتومیں  اموال بنی نضیرکوتم میں  اورمہاجرین میں  برابرتقسیم کردوں  اورحسب سابق مہاجرین تمہارے شریک حال رہیں  اور اگر چاہو تو فقط مہاجرین پرتقسیم کردوں  اوروہ تمہارے گھرخالی کردیں ، سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ اور سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نہایت طیب خاطراس پرراضی ہیں  کہ مال آپ فقط مہاجرین میں  تقسیم فرمادیں  اورحسب سابق مہاجرین ہمارے ہی گھروں  میں  رہیں  اورکھانے پینے میں  ہمارے شریک رہیں ۔[19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتِ الأَنْصَارُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْسِمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِیلَ، قَالَ:لاَ، فَقَالَ:تَكْفُونَا المَئُونَةَ وَنُشْرِكْكُمْ فِی الثَّمَرَةِ، قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا۔، فقالوا: بل أقسم هَذِهِ فِیهِمْ، وَأَقْسِمْ لَهُمْ مِنْ أَمْوَالِنَا مَا شِئْت قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:جَزَاكُمُ اللَّهُ یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ خَیْرًا،

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانصارنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے باغات آپ ہم میں  اورہمارے(مہاجر)بھائیوں  میں  تقسیم فرما دیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا توانصارنے(مہاجرین سے)کہاکہ آپ لوگ درختوں  میں  محنت کروہم تم میوے میں  شریک رہیں  گے،انہوں  نے کہااچھاہم نے سنااورقبول کیا، یہ مال توآپ فقط مہاجرین میں  تقسیم فرما دیں ،ہمارے اموال اوراملاک میں  سے بھی جس قدرچاہیں  مہاجرین میں  تقسیم فرمائیں  ہم نہایت خوشی سے اس پر راضی ہیں  ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورانہیں  نے کہااے انصار رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ تمہیں  اس کابہترین صلہ عطافرمائے۔[20]

اس رویت کوجمع کیاگیاہے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا ٹکڑااپنے لئے رکھ کر بنونضیرکی سب دولت کومہاجرین میں  تقسیم فرما دیااورانصارکوکچھ نہیں  دیاتاکہ اس کے ذریعہ انصارپرسے ان کی کفالت کابوجھ ختم یاکم ازکم کردیں

إلّا أَنّ سَهْلَ بْنَ حُنَیْفٍ وَأَبَا دُجَانَةَ سِمَاكَ بْنَ خَرَشَةَ ذَكَرًا فَقْرًا، فَأَعْطَاهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

صرف سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اورابودجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ دوانصاری ایسے تھے جنہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی فقرومفلسی بیان کی توآپ نے اس میں  انہیں  بھی عطافرما دیا ۔[21]

فَكَانَ مِمَّنْ أَعْطَى مِمَّنْ سَمَّى لنا مِن المُهَاجِرِینَ أَبُو بَكْرالصِّدِّیقِ بِئْرَ حِجْرٍ وعُمَرَ بْنَ الْخَطّابِ بِئْرَ جَرْمٍ وَعَبْد الرَّحْمَن بْن عوف سُؤَالَةَ وصهیب بن سِنَانَ الضّرّاطَةَ والزبیر بْن الْعَوّام وأبوسَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الْأَسَدِ الْبُوَیْلَةَ وسَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ وأَبِی دُجَانَةَ مالایُقَالُ لَهُ مَالُ ابْنِ خَرَشَةَ

اورابن سعداورواقدی کہتے ہیں جن لوگوں  کوعطاہواان میں  سے مہاجرین کے نام جوہمیں  معلوم ہوئے وہ یہ ہیں  سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوبیرحجر،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے لئے بیرجرم،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کوسوالہ،صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کوالضراطہ، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کواورابوسلمہ رضی اللہ عنہ بن الاسدکوالبویلہ،سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ اورابودجانہ رضی اللہ عنہ کووہ مال دیاجوابن خرشد کا مال کہلاتاتھا۔[22]

المُهَاجِرِینَ وَقَسَمَهَا عَلَیْهِمْ وَلَمْ یُعْطِ الْأَنْصَارَ مِنْهَاشَیْئًا إلا أَبَا دُجَانَةَ سِمَاكَ بْنَ خَرَشَةَ وسَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ وَالْحَارِثُ بْنُ الصّمّةِ أَعْطَاهُمْ لفقرهم

بعض روایات میں  ہےسب مال مہاجرین میں  تقسیم کردیاسوائے ابودجانہ سماک بن خرشہ،اورسہل بن حنیف اور حارث بن الصمہ رضی اللہ عنہ کوبھی حصہ دیاگیاکیونکہ یہ بھی بہت غریب تھے۔[23]

وَأَعْطَى سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ سَیْفَ ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ، وَكَانَ سَیْفًا لَهُ ذِكْرٌ عِنْدَهُمْ

اور سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنونضیرکے سردارابن ابی حقیق کی خاص اورمشہور تلوار عطافرمائی۔[24]

وَالَّذِینَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِن قَبْلِهِمْ یُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَیْهِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٩﴾‏(الحشر)
’’اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو، (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب( اور با مراد) ہے۔‘‘

اوریہ مال فےصرف مہاجرین ہی کاحق نہیں  ہے بلکہ انصاربھی اس کے حق دارہیں  جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دار الہجرت یعنی مدینہ منورہ میں  مقیم تھے ، جنہو ں  نے سرخ وسیاہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی،یہاں  تک کہ اسلام پھیل گیااوراس نے طاقت پکڑلی ،خلیفہ دوئم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے(زخمی ہونے کے بعدانتقال سے پہلے) فرمایاتھا

أُوصِی الخَلِیفَةَ بِالْمُهَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ: أَنْ یَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأُوصِی الخَلِیفَةَ بِالأَنْصَارِ الَّذِینَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ، مِنْ قَبْلِ أَنْ یُهَاجِرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ یَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَیَعْفُوَ عَنْ مُسِیئِهِمْ

میں  اپنے بعدہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں  وصیت کرتاہوں  کہ وہ ان کاحق پہچانے،اورمیں  اپنے بعدہونے والے خلیفہ کوانصارکے بارے میں  وصیت کرتاہوں  جودارالسلام اورایمان میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرارپکڑے ہوئے ہیں  یہ کہ ان میں  جونیکوکارہیں  ان کی عزت کرے اوران کے غلط کاروں  سے درگزرکرے۔[25]

یہ انصاراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بناپر مہاجرین سے محبت کرتے ہیں ،اوران لوگوں  سے محبت کرتے ہیں  جواللہ کے دین اسلام کی مددکرتے ہیں ،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ الْمُهَاجِرُونَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَیْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَیْهِمْ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً فِی قَلِیلٍ، وَلَا أَحْسَنَ بَذْلًا فِی كَثِیرٍ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمَئُونَةَ، وَأَشْرَكُونَا فِی الْمَهْنَأِ، حَتَّى لَقَدْ حَسِبْنَا أَنْ یَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ قَالَ:لَا، مَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْهِمْ، وَدَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمہاجرین نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ جن کے پاس ہم آئے ہیں  ہم نے مال کے قلیل ہونے کے باوجودان سے بڑھ کردل جوئی کرنے والے اورکثیرہونے کی صورت میں  ان سے زیادہ بہترخرچ کرنے والے نہیں  دیکھے،انہوں  نے ہمیں  ضروریات سے بے نیازکردیااورکام کاج میں  اپنے ساتھ شریک کرلیا حتی کہ ہمیں  یہ ڈرہے کہ سارااجروثواب یہ لوگ حاصل کرلیں  گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  جب تک تم ان کی ستائش کرتے رہوگے اوران کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہوگے(اجروثواب سے محروم نہیں  رہوگے)۔[26]

عَنْ یَحْیَى بْنِ سَعِیدٍ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، حِینَ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الوَلِیدِ قَالَ: دَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الأَنْصَارَ إِلَى أَنْ یُقْطِعَ لَهُمُ البَحْرَیْنِ، فَقَالُوا: لاَ إِلَّا أَنْ تُقْطِعَ لِإِخْوَانِنَا مِنَ المُهَاجِرِینَ مِثْلَهَا، قَالَ:إِمَّا لاَ، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِی، فَإِنَّهُ سَیُصِیبُكُمْ بَعْدِی أَثَرَةٌ

یحییٰ بن سعیدسے مروی ہےانہوں  نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس وقت سناجب وہ انہیں  ساتھ لے کرولیدکے پاس گئے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکوبلایاتاکہ انہیں  بحرین کی زمین عطافرمادیں ،انہوں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اسے اس وقت تک قبول نہیں  کریں  گے جب تک آپ ہمارے مہاجربھائیوں  کوبھی اسی طرح کی زمین عطانہ فرمادیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوپھرمیری(آخرت میں )ملاقات تک صبرکرناکیونکہ میرے بعدتم پردوسروں  کوترجیح دی جائے گی۔[27]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتِ الأَنْصَارُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْسِمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِیلَ، قَالَ:لاَ فَقَالُوا: تَكْفُونَا المَئُونَةَ، وَنَشْرَكْكُمْ فِی الثَّمَرَةِ، قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانصارنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  عرض کی ہمارے اورہمارے(مہاجر)بھائیوں  کے درمیان کھجورکے درخت تقسیم فرمادیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ، لہذاانصارنے مہاجرین سے کہاتم ہمیں  کام سے بے نیازکردواورہم تمہیں  پھلوں  میں  شریک کرلیں  گے، مہاجرین نے جواب دیاکہ ہم سمع وطاعت بجالائیں  گے۔[28]

اور اللہ تعالیٰ کارسول مہاجرین کو جو کچھ بھی دے دیں  اس پراپنے دلوں  میں  بغض ، کینہ اورحسد محسوس نہیں  کرتے ،

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَطْلُعُ عَلَیْكُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، تَنْطِفُ لِحْیَتُهُ مِنْ وُضُوئِهِ، قَدْ تَعَلَّقَ نَعْلَیْهِ فِی یَدِهِ الشِّمَالِ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ ذَلِكَ، فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِثْلَ الْمَرَّةِ الْأُولَى. فَلَمَّا كَانَ الْیَوْمُ الثَّالِثُ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ مَقَالَتِهِ أَیْضًا، فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ عَلَى مِثْلِ حَالِهِ الْأُولَى، فَلَمَّا قَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَبِعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ: إِنِّی لَاحَیْتُ أَبِی فَأَقْسَمْتُ أَنْ لَا أَدْخُلَ عَلَیْهِ ثَلَاثًا، فَإِنْ رَأَیْتَ أَنْ تُؤْوِیَنِی إِلَیْكَ حَتَّى تَمْضِیَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادیکھوابھی ایک جنتی شخص آنے والاہے،تھوڑی دیربعدایک انصاری رضی اللہ عنہ اپنے بائیں  ہاتھ میں  اپنی جوتیاں  لئے ہوئے تازہ وضوکرکے آرہے تھے اوران کی داڑھی پرسے پانی ٹپک رہاتھا، دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایااوروہی شخص اس طرح تشریف لائے،جب تیسرادن ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایاجوپہلے فرمایاتھااوروہی انصاری پہلے دن والی حالت میں  تشریف لائے،عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ آج دیکھتے بھالتے رہے اورجب مجلس نبوی برخاست ہوئی اوریہ بزرگ وہاں  سے اٹھ کرروانہ ہوئے تویہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے اوراس انصاری رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے جناب مجھ میں  اورمیرے والدمیں  کچھ بول چال ہوگئی ہے جس پرمیں  قسم کھابیٹھاہوں  کہ تین دن تک اپنے گھرنہیں  جاؤں  گااگرآپ مہربانی فرماکرمجھے اجازت فرمائیں  تومیں  یہ تین دن آپ کے ہاں  گزاردوں ،انہوں  نے کہابہت اچھا،

قَالَ أَنَسٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ یُحَدِّثُ أَنَّهُ بَاتَ مَعَهُ تِلْكَ اللَّیَالِی الثَّلَاثَ، فَلَمْ یَرَهُ یَقُومُ مِنَ اللَّیْلِ شَیْئًا، غَیْرَ أَنَّهُ إِذَا تَعَارَّ وَتَقَلَّبَ عَلَى فِرَاشِهِ ذَكَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَبَّرَ، حَتَّى یَقُومَ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: غَیْرَ أَنِّی لَمْ أَسْمَعْهُ یَقُولُ إِلَّا خَیْرًا، فَلَمَّا مَضَتِ الثَّلَاثُ لَیَالٍ وَكِدْتُ أَنْ أَحْقِرَ عَمَلَهُ، قُلْتُ: یَا عَبْدَ اللَّهِ إِنِّی لَمْ یَكُنْ بَیْنِی وَبَیْنَ أَبِی غَضَبٌ وَلَا هَجْرٌ ثَمَّ، وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ:یَطْلُعُ عَلَیْكُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ

انس رضی اللہ عنہ نے کہا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں  نے یہ تین راتیں  ان کے گھران کے ساتھ گزاریں ،انہوں  نے دیکھاکہ وہ رات کوتہجدکی لمبی لمبی نمازبھی نہیں  پڑھتے،صرف اتناکرتے ہیں  کہ جب آنکھ کھلتی توبسترپرلیٹے ہی لیٹے اللہ تعالیٰ کاذکراوراس کی بڑائی کرلیتے ہیں  یہاں  تک کہ نمازفجرکے لئے اٹھتے،ہاں  یہ بات ضرورتھی کہ میں  نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیرکے اورکچھ نہیں  سنا، جب تین راتیں  گزرگئیں  تومجھے ان کاعمل بہت ہلکاسامعلوم ہونے لگا،اب میں  نے ان سے کہاکہ جناب دراصل نہ تومیرے اور میرے والدکے درمیان کوئی ایسی باتیں  ہوئی تھیں  اورنہ میں  نے ناراضگی کے باعث اپناگھرچھوڑاتھابلکہ واقعہ یہ ہواکہ تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ابھی ایک جنتی شخص آرہاہے اورتینوں  مرتبہ آپ ہی تشریف لائے تومیں  نے ارادہ کیاکہ آپ کی خدمت میں  کچھ دن رہ کردیکھوں  کہ آپ ایسی کون سی عبادتیں  کرتے ہیں  جوآپ کی زندگی میں  ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آپ کے جنتی ہونے کی بشارت ہم تک پہنچ گئی،

فَطَلَعْتَ أَنْتَ الثَّلَاثَ مِرَارٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ آوِیَ إِلَیْكَ لِأَنْظُرَ مَا عَمَلُكَ، فَأَقْتَدِیَ بِهِ، فَلَمْ أَرَكَ تَعْمَلُ كَثِیرَ عَمَلٍ، فَمَا الَّذِی بَلَغَ بِكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَیْتَ. قَالَ: فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِی، فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَیْتَ، غَیْرَ أَنِّی لَا أَجِدُ فِی نَفْسِی لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ غِشًّا، وَلَا أَحْسُدُ أَحَدًا عَلَى خَیْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِیَّاهُ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ هَذِهِ الَّتِی بَلَغَتْ بِكَ، وَهِیَ الَّتِی لَا نُطِیقُ

چنانچہ میں  نے آپ کے ساتھ رہنے کے لئے یہ بہانہ کیااورتین مرتبہ رات تک آپ کی خدمت میں  رہاتاکہ آپ کے اعمال کودیکھ کرمیں  بھی ویسے ہی عمل اختیارکروں ،لیکن میں  نے آپ کونہ کوئی نیااوراہم عمل کرتے ہوئے دیکھااورنہ ہی عبادت میں  دوسروں  سے زیادہ بڑھاہواپایا،اب میں  جارہاہوں  لیکن ایک سوال ہے کہ آپ ہی فرمائیں  آخروہ کونساعمل ہے جس کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کوجنتی فرمایا؟آپ نے فرمایابس تم میرے اعمال تودیکھ چکے ہواوراس کے سواکوئی خاص پوشیدہ عمل نہیں  ہے، چنانچہ میں  ان سے رخصت ہوکرروانہ ہواابھی میں  تھوڑی دورہی چلاتھاکہ انہوں  نے مجھے آوازدی اورفرمایاہاں  میراایک عمل سنتے جاؤاوروہ عمل یہ ہے کہ میرے دل میں  کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی،بغض وحسدکاارادہ بھی نہیں  ہوااورمیں  کبھی کسی مسلمان کابدخواہ نہیں  بناعبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرفرمایااب مجھے معلوم ہوگیاکہ اسی عمل نے آپ کواس درجہ تک پہنچایاہے اوریہی وہ چیزہے جوہرایک کے بس میں  نہیں  ہے۔[29]

یہ ضعیف قصہ ہے۔(مشہورواقعات کی حقیقت۱۰۷)

اورانصارکے اوصاف میں  سے ایک وصف ایثاروقربانی ہے کہ خودحاجت منداوربھوکے ہونے کے باوجود اپنی ذات پر مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَصَابَنِی الجَهْدُ فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقَالُوا: مَا عِنْدَنَا إِلَّا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ رَجُلٌ یُضَیِّفُهُ هَذِهِ اللیْلَةَ، یَرْحَمُهُ اللهُ؟ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ ،فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: ضَیْفُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَدَّخِرِیهِ شَیْئًا،قَالَتْ: وَاللهِ مَا عِنْدِی إِلَّا قُوتُ الصِّبْیَةِ، قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْیَةُ العَشَاءَ فَنَوِّمِیهِمْ، وَتَعَالَیْ فَأَطْفِئِی السِّرَاجَ وَنَطْوِی بُطُونَنَا اللیْلَةَ ، فَفَعَلَتْ،ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:لَقَدْ عَجِبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنَةَ ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ :وَیُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک صاحب (خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مرادہیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  فاقہ سے ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ازواج مطہرات کے یہاں  بھیجا(تاکہ ان کوکھاناکھلادیں )ازواج  رضی اللہ عنہن نے کہلا بھیجاکہ ہمارے پاس سوائے پانی کے اورکچھ نہیں  ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کواپنی کسی دوسری بیوی کے پاس بھیجاانہوں  نے بھی وہی بات کہی الغرض تمام ام المومنین نے وہی بات کہی جوپہلی بیوی نے کہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآج رات اس شخص کی مہمانداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ مہمانداری کرنے والے پررحمت نازل فرمائے؟ایک انصاری رضی اللہ عنہ صحابی(ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ) کھڑے ہوئے اور عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس شخص کی ضیافت میں  کروں  گا،یہ کہہ کر وہ انصاری اس شخص کواپنے ساتھ گھرلے گئے،اوراپنی بیوی سے کہاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں  کوئی چیز ان سے بچاکرنہ رکھنا،بیوی نے کہااللہ کی قسم !میرے پاس اس وقت بچوں  کے کھانے کے سوااورکوئی چیزنہیں  ہے ، انصاری صحابی نے کہااگر بچے کھانامانگیں  توان کوکسی چیزسے بہلاکرسلادواوریہ چراغ بھی بجھا دو آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے،بیوی نے ایساہی کیا،پھروہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہ صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی رضی اللہ عنہ )اوران کی بیوی (کے عمل)کوپسندفرمایایا(آپ نے یہ فرمایاکہ)اللہ تعالیٰ مسکرایااوراسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ اور اپنی ذات پر دُوسروں  کو ترجیح دیتے ہیں  خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ۔‘‘[30]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِیٍّ الْخَثْعَمِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَیُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:طُولُ الْقِیَامِ، قِیلَ: فَأَیُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:جَهْدُ الْمُقِلِّ، قِیلَ: فَأَیُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:مَنْ هَجَرَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَیْهِ، قِیلَ: فَأَیُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ جَاهَدَ الْمُشْرِكِینَ بِمَالِهِ وَنَفْسِهِ، قِیلَ: فَأَیُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ؟ قَالَ:مَنْ أُهَرِیقَ دَمُهُ، وَعُقِرَ جَوَادُهُ

عبداللہ بن حبشی الخثعمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکون ساعمل افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالمباقیام،کہاگیاکون ساصدقہ افضل ہے؟ فرمایاجوقلیل مال والامحنت کرکےصدقہ دے،کہاگیاکون سی ہجرت افضل ہے؟فرمایاجوشخص اللہ کے حرام کردہ امورکوچھوڑدے،کہاگیاکون ساجہادافضل ہے؟فرمایاجوشخص مشرکین سے اپنے مال اوراپنی جان کے ساتھ جہادکرے،پوچھاگیاکون ساقتل شرف والاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کاخوب بہادیاگیااوراس کے گھوڑے کوبھی کاٹ دیا گیا۔[31]

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تنگ نظری،کم حوصلگی، کنجوسی اوربخیلی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ

جابربن عبداللہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم ظلم سے بچوکیونکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں  میں  سے تاریکیاں  ہیں ،اورتم بخیلی سے بچو،اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں  کو ہلاک کیا،بخیلی کی وجہ سے(مال کی طمع ہوئی)تو انہوں  نے خون ریزی کی اور محارم کوحلال کرلیا۔[32]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَإِیَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَمَرَهُمْ بِالظُّلْمِ فَظَلَمُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْقَطِیعَةِ فَقَطَعُوا»

اورعبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاشح سے بچوکیونکہ شح ہی نے تم سے پہلے لوگوں  کوہلاک کیا،اسی نے ان کوایک دوسرے کے خون بہانے اوردوسروں  کی حرمتوں  کواپنے لیے حلال کرلینے پراکسایا،اس نے ان کوظلم پرآمادہ کیااورانہوں  نے ظلم کیا،فجورکاحکم دیااورانہوں  نے فجورکیا،قطع رحمی کرنے کے لئے کہااورانہوں  نے قطع رحمی کی۔[33]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ فِی جَوْفِ عَبْدٍ أَبَدًا , وَلَا یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِیمَانُ فِی قَلْبِ عَبْدٍ أَبَدًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنااللہ کی راہ کاغباراورجہنم کادھواں  کبھی کسی بندے کے پیٹ میں  جمع نہیں  ہوسکتے،اسی طرح بخیلی اورایمان کبھی کسی بندے کے دل میں  جمع نہیں  ہوسکتے۔[34]

عَنْ أَبِی الْهَیَّاجِ الْأَسَدِیِّ، قَالَ: كُنْتُ أَطُوفُ بِالْبَیْتِ، فَرَأَیْتُ رَجُلًا یَقُولُ: اللَّهُمَّ قِنِی شُحَّ نَفْسِی. لَا یَزِیدُ عَلَى ذَلِكَ، فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: إِنِّی إِذَا وُقِیتُ شُحَّ نَفْسِی لَمْ أَسْرِقْ، وَلَمْ أَزْنِ، وَلَمْ أَفْعَلْ شَیْئًا، وَإِذَا الرَّجُلُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

ابوالہیاج اسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میں  نے بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے ایک صاحب کودیکھاکہ وہ یہ دعاپڑھ رہے ہیں  الہی!مجھے میرے نفس کی حرص وآڑسے بچالے اوراس کے علاوہ کچھ نہیں  کہہ رہے تھے،(آخرمجھ سے رہانہ گیاتو)میں  نے ان سے کہاآپ صرف یہی دعاکیوں  مانگ رہے ہیں ؟اس نے کہاجب اس سے بچاؤہوگیاتوپھرنہ زنا کاری ہوسکے گی ،نہ چوری اورنہ کوئی دوسرابراکام،اب جومیں  نے دیکھاتووہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ [35]

وَالَّذِینَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٠﴾(الحشر)
’’اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمان داروں کی طرف ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب! بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

مال فے کے مستحقین کی تیسری قسم بیان فرمائی اوریہ مال فے ان لوگوں  کے لئے بھی ہےجوصحابہ کرام ؓکے بعدآئیں  گے اور عقائد،ایمان اوراس کے اصول میں  صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پرچلنے والے ہوں  گے یعنی تابعین اورتبع تابعین اورقیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقویٰ،لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصارومہاجرین کومومن ماننے اوران کے حق میں  دعائے مغفرت کرنے والے ہوں  نہ کہ ان کے ایمان میں  شک کرنے اوران پرسب وشتم کرنے اوران کے خلاف اپنے دلوں  میں  بغض وعنادرکھنے والے،جوتمام مومنین کی دعائے مغفرت کرتے ہوئےکہیں  گے کہ اے ہمارے پروردگار!ہمیں  بخش دے اورہمارے ان بھائیوں  کوبھی جوہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں  اورایمان داروں  کی طرف سے ہمارے دل میں  کینہ(اوردشمنی)نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک توشفقت ومہربانی کرنے والاہے۔

وَمَا أَحْسَنَ مَا اسْتَنْبَطَ الْإِمَامُ مَالِكٌ مِنْ هَذِهِ الْآیَةِ الْكَرِیمَةِ: أَنَّ الرَّافِضِیَّ الَّذِی یَسُبُّ الصَّحَابَةَ لَیْسَ لَهُ فِی مَالِ الْفَیْءِ نَصِیبٌ لِعَدَمِ اتِّصَافِهِ بِمَا مَدَحَ اللهُ بِهِ هَؤُلَاءِ فِی قَوْلِهِمْ:رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإیمَانِ وَلا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِیمٌ

امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنبادکرتے ہوئے یہی بات ارشادفرمائی ہے کہ رافضی کو جوصحابہ کرام پرسب وشتم کرتے ہیں  مال فے سے حصہ نہیں  ملے گاکیونکہ وہ اس صفت سے اتصاف پذیرنہیں  ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنے اس ارشادمیں  تعریف فرمائی ہے’’ اے ہمارے رب ! ہمیں  اور ہمارے ان سب بھائیوں  کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں  اور ہمارے دلوں  میں  اہل ایمان کے لیے کوئی بُغض نہ رکھ ، اے ہمارے رب تو بڑا مہربان اور رحیم ہے ۔‘‘ [36]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أُمِرْتُمْ بِالِاسْتِغْفَارِ لِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَبْتُمُوهُمْ سَمِعْتُ نَبِیَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تَذْهَبُ هَذِهِ الْأُمَّةُ حَتَّى یَلْعَنَ آخِرُهَا أَوَّلَهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں تم لوگوں  کواصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استغفارکاحکم دیاگیامگرتم نے ان پرلعن طعن کی، میں  نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناکہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں  ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں ۔[37]

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ نَافَقُوا یَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِیعُ فِیكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ یَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿١١﴾‏ لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا یَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِن قُوتِلُوا لَا یَنصُرُونَهُمْ وَلَئِن نَّصَرُوهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنصَرُونَ ‎﴿١٢﴾(الحشر)
’’کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا ؟کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گےاور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے، اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاًجھوٹے ہیں، اگر وہ جلا وطن کئے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ جائیں گےاور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد (بھی) نہ کریں گے، اور اگر (با لفرض) مدد پر آبھی گئے تو پیٹھ پھیر کر (بھاگ کھڑے) ہوں گے، پھر مدد نہ کیے جائیں گے۔‘‘

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیرکودس دن کے اندرمدینہ منورہ سے نکل جانے کاحکم فرمایاتوعبداللہ بن ابی سلول،ودیعہ،مالک،ابن بنوقوقل،سویداورداعس وغیرہ منافقین نے بنونضیرکوپیغام بھیجاتھاکہ ہم دوہزارجنگجوؤں  کے ساتھ تمہاری مددکریں  گے، اورتمہارے ہم مذہب بنی قریظہ اوربنی غطفان بھی تمہاری مدداورحمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں  گے،اگرتمہیں  مدینہ منورہ سے جلاوطن کیاگیاتوہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں  گےاس لئے مقابلہ پرڈٹ جاؤاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرکرہتھیارمت ڈالو،اللہ تعالیٰ نے منافقین کے جھوٹ کاپول کھول دیااورمسلمانوں  کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ منافقین اپنے اہل کتاب کافربھائیوں  سے کہتے ہیں  اگرتم جلاوطن کیے گئے تو ضروربالضرورہم بھی تمہارے ساتھ مدینہ سے نکل کھڑے ہوں  گے، اور تمہاری نصرت ومددکے بارے میں  اگرہمیں  کوئی روکے گاتو ہم ہرگزان کی بات نہیں  مانیں  گے ، اوراگرتم سے جنگ کی جائے گی توبخدا ہم تمہاری ہرممکن مددکریں  گے، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ اس وعدے میں  قطعاًجھوٹے ہیں ،اگریہودمدینہ منورہ سےجلاوطن کیے گئے تویہ منافقین ان کے ساتھ ہرگز مدینہ منورہ کوخیرباد نہیں  کہیں  گے،اوراگریہود سے جنگ کی گئی تویہ ان کی کچھ بھی مددنہ کریں  گے، چنانچہ منافقین کاجھوٹ کھل کرسامنے آگیاجب بنونضیرکوجلاوطن کیاگیاتونہ وہ ان کی مددکوپہنچے اورنہ ہی ان کی حمایت میں  مدینہ منورہ کوچھوڑا،اوراگربالفرض المحال بدنامی کے خیال سےیہودکی مددکاارادہ کربھی لیں  توشکست کھاکرپیٹھ پھیرکربھاگ کھڑے ہوں  گے اوراللہ ان کوذلیل ورسواکردے گا۔

لَأَنتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِی صُدُورِهِم مِّنَ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُونَ ‎﴿١٣﴾‏ لَا یُقَاتِلُونَكُمْ جَمِیعًا إِلَّا فِی قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُم بَیْنَهُمْ شَدِیدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِیعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُونَ ‎﴿١٤﴾(الحشر)
’’(مسلمانو ! یقین مانو) کہ تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں بہ نسبت اللہ کی ہیبت کے بہت زیادہ ہے، یہ اس لیے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں، یہ سب مل کر بھی تم سے لڑ نہیں سکتےہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند مقامات میں ہوں یا دیواروں کی آڑ میں ہوں، ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں، اس لیےکہ یہ بےعقل لوگ ہیں ۔‘‘

غزوہ احدکی ناکامی سے مسلمانوں  کی ہوااکھڑچکی تھی ،اس کے بعددومختلف واقعات میں  تقریباً۷۷ بے گناہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت سے بھی اردگردکے قبائل سراٹھارہے تھے ، خود بنونضیربھی کم طاقت وارنہ تھے ،ان کے پاس ہرطرح کاوافرجنگی اسلحہ بھی تھا،لڑنے والے جوان بھی تھے ،اورایک لمبی تھکادینے والی لڑائی کے لئے مضبوط ومستحکم قلعہ جات بھی تھے، جن کافتح کرناآسان نہ تھا،اس کے علاوہ یہ اندیشہ بھی تھاکہ اگرلڑائی شروع ہوگئی تو ان کے ہمسائے اورہم مذہب بنوقریظہ،منافقین مدینہ ،قریش مکہ اوران کے حلیف بنوغطفان ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں  گے جس سے ان کاحوصلہ اور طاقت بڑھ جائے گی اس لئے ان کاہتھیارڈال دیناکچھ آسان کام نہ ہوگا،اگرقلیل التعداد اور بے سروساماں مسلمان ان پرغلبہ حاصل نہ کرسکے تویہ واقعہ مزیدان کی کمزوری بن جائے گااوریہودومنافقین مل کر مسلمانوں  کوجینے نہیں  دیں  گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کی حوصلہ افزائی فرمائی،فرمایا مسلمانو!یقین مانواسلام اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تمہاری محبت ،جانبازی اورسرفروشی کودیکھ کراورتمہاری صفوں  میں  زبردست اتحاددیکھ کر منافقین اوریہود کے دل بیٹھ جاتے ہیں ،اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنے کے بجائے تمہاری ہیبت سے لرزاں  وترساں  ہیں ،جیسےفرمایا

۔۔۔اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـیَةِ اللهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَةً۔۔۔۝۰۝۷۷ [38]

ترجمہ: ان میں  سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں  سے ایسا ڈر رہے ہیں  جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ۔

یہ اس لئے کہ یہ بے سمجھ لوگ ہیں ،اگرانہیں  کچھ بھی عقل وشعورہوتاتوجان جاتے کہ کم تعداد اور برائے نام جنگی اسلحہ ہونے کے باوجود مسلمانوں  کاغلبہ وتسلط اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،اس لئے انسانی طاقتوں  سے ڈرنے کے بجائے اللہ قادرمطلق سے ڈرتے، منافقین کی دوسری کمزوری بیان فرمائی کہ ان کی بزدلی کی تویہ حالت ہے کہ جنگجوؤں  اور وافراسلحہ ہونے کے باوجود یہ سب منافقین اوریہودی مل کربھی کھلے میدان میں  تم سے لڑنے کاحوصلہ نہیں  رکھتے،البتہ قلعہ کی فصیلوں  کے پیچھے یادیواروں  کی آڑمیں  چھپ کرتم پروارکرسکتے ہیں  ،یعنی کھل کرکبھی سامنے نہیں  آئیں  گے بلکہ چھپ کرسازشیں کرتے رہیں  گے،یہ لوگ توآپس میں  ایک دوسرے کے مخالف ہیں  گوآپ انہیں  ایک دوسرے کی مددکرتے ہوئے دیکھ کر مجتمع اور متفق و متحد سمجھ رہے ہیں  لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے کے خلاف بغض وعنادسے بھرے ہوئےہیں ،اوران کے یہ اختلافات ان کی بے عقلی کی وجہ سے ہیں ،اس لئے ہرطرح کے خوف وخطرکوبالائے طاق رکھ کراوراللہ پربھروسہ کرکےان کی طرف نکلو۔

كَمَثَلِ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِیبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٥﴾‏ كَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِّنكَ إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٦﴾‏فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٧﴾‏(الحشر۱۵تا۱۷)
’’ان لوگوں کی طرح جو ان سے کچھ ہی پہلے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کام کا وبال چکھ لیا اور جن کے لیے المناک عذاب (تیار) ہے، شیطان کی طرح کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب وہ کفر کرچکا تو کہنے لگا میںتو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں، پس دونوں کا انجام یہ ہوا کہ آتش (دوزخ) میں ہمیشہ کے لیے گئے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔‘‘

فتح کی پیشین گوئی :اللہ تعالیٰ مزیدحوصلہ افزائی فرماتے ہوجنگ کانتیجہ بھی پہلے سے بتادیاکہ ان کاانجام بھی مشرکین مکہ کی طرح ہوگاجواپنی کثرت تعداد اور اپنے سروسامان کے باوجود انہی کمزوریوں  کے باعث مسلمانوں  کی مٹھی بھربے سروساماں  جماعت سے عبرتناک شکست کھاچکے ہیں ،اور یہودیوں  کے دوسرے قبیلےبنی قینقاع کی طرح ہوگا جو مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوچکے ہیں  ،دنیامیں  تو انہوں  نے اپنے شرک اوربغاوت کے وبال کامزاچکھ لیا مگرمعاملہ یہیں  پرختم نہیں  ہوگیاآخرت کا درد ناک عذاب اس کے علاوہ ہوگا ، ان منافقین کی مثال جنہوں  نے اہل کتاب بھائیوں  کودھوکے میں  مبتلاکررکھاہے شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان کے پیچھے لگ کر کُفر کراتاہے ! اور جب انسان اس کے دل فریب ،محسورکن وعدوں  پربھروسہ کرکے کفر کاارتکاب کر بیٹھتا ہے تواسے ملامت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں  تجھ سے بری الذمہ ہوں  مجھے تواللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے ،جیسے شیطان نے غزوہ بدرکے موقع پرمشرکین مکہ سےکہاتھا،

وَاِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللهَ۝۰ۭ وَاللهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۴۸ۧ [39]

ترجمہ:ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں  کے کرتوت ان کی نگاہوں  میں  خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں  آ سکتا اور یہ کہ میں  تمہارے ساتھ ہوں مگر جب دونوں  گروہوں  کا آمنا سامنا ہوا تو وہ اُلٹے پاؤں  پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں  ہے، میں  وہ کچھ دیکھ رہا ہوں  جو تم لوگ نہیں  دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ نَهِیكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَقُولُ: إِنَّ رَاهِبًا تَعَبَّدَ سِتِّینَ سَنَةً، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ أَرَادَهُ فَأَعْیَاهُ، فَعَمَدَ إِلَى امْرَأَةٍ فَأَجَنَّهَا، وَلَهَا إِخْوَةٌ، فَقَالَ لِإِخْوَتِهَا: عَلَیْكُمْ بِهَذَا الْقِسِّ فَیُدَاوِیهَا، فَجَاءُوا بِهَا، قَالَ: فَدَاوَاهَا، وَكَانَتْ عِنْدَهُ، فَبَیْنَمَا هُوَ یَوْمًا عِنْدَهَا إِذْ أَعْجَبَتْهُ، فَأَتَاهَا فَحَمَلَتْ، فَعَمَدَ إِلَیْهَا فَقَتَلَهَا، فَجَاءَ إِخْوَتُهَا، فَقَالَ الشَّیْطَانُ لِلرَّاهِبِ: أَنَا صَاحِبُكُ، إِنَّكَ أَعْیَیْتَنِی، أَنَا صَنَعْتُ بِكَ هَذَا فَأَطِعْنِی أُنْجِكَ مِمَّا صَنَعْتُ بِكَ، اسْجُدْ لِی سَجْدَةً، فَسَجَدَ لَهُ؛ فَلَمَّا سَجَدَ لَهُ قَالَ: إِنِّی بَرِیءٌ مِنْكَ إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ فَذَلِكَ قَوْلُهُ: {كَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْكَ إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ}، [40]

عبداللہ بن نہیک سے مروی ہے میں  نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے سناکہ بنی اسرائیل میں  ایک عابدتھا جو ساٹھ سال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول تھاشیطان نے اسے ورغلاناچاہالیکن وہ اس کے قابومیں  نہ آیا،شیطان نے ایک عورت پراپنااثرڈالااوریہ ظاہرکیاکہ گویا جنات اسے ستارہے ہیں دوسری طرف اس نے اس عورت کے بھائیوں  کے دل میں  یہ وسوسہ ڈالاکہ ان کی بہن کا علاج صرف وہ عابدہی کر سکتاہے،چنانچہ وہ اپنی بہن کواس عابدکے پاس علاج کے لئے لائے،عابدنے اس عورت کا علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کردیااوروہ عورت وہیں  اس کی عبادت گاہ میں  رہنے لگی،ایک دن وہ عابداس عورت کے پاس ہی تھاتو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرناشروع کر دیئے یہاں  تک کہ وہ زناکربیٹھا اوروہ عورت حاملہ ہوگئی،رسوائی کے خوف سے شیطان نے اسے یہ راہ سجھائی کہ اگرتم اپنابھید چھپانا چاہتے ہوتو اس عورت کوقتل کرڈالو، چنانچہ اس عابدنے اسے قتل کرڈالا،دوسری طرف شیطان نے اس عورت کے بھائیوں  کے دل میں  شک ڈالااوروہ عابدکے پاس دوڑے چلے آئے،اب شیطان اس راہب کے پاس آیااورکہاوہ لوگ تمہاری طرف دوڑے چلے آرہے ہیں  اب تمہاری عزت بھی جائے گی اورجان بھی اگرتومیراکہامان کرمجھے خوش کردے توتمہاری عزت بھی بچ جائے گی اورجان بھی ، راہب نے کہاتوجس طرح کہتاہے میں  اس کے لئے تیارہوں ،اب شیطان نے کہاتومجھے سجدہ کر،راہب نے اسے سجدہ کیا،جب اس نے سجدہ کرلیاتو شیطان کہنے لگامیں  توتم سے بری الذمہ ہوں  میں  تو اللہ رب العالمین سے ڈرتاہوں ۔’’ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کراور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں  تجھ سے بری الزمہ ہوں  مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے ۔ ‘‘[41]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فِی هَذِهِ الْآیَةِ {كَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْكَ إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ}،[42] قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ تَرْعَى الْغَنَمَ، وَكَانَ لَهَا أَرْبَعَةُ إِخْوَةٍ، وَكَانَتْ تَأْوِی بِاللَّیْلِ إِلَى صَوْمَعَةِ رَاهِبٍ، قَالَ: فَنَزَلَ الرَّاهِبُ فَفَجَرَ بِهَا، فَحَمَلَتْ، فَأَتَاهُ الشَّیْطَانُ، فَقَالَ لَهُ: اقْتُلْهَا ثُمَّ ادْفَعْهَا، فَإِنَّكَ رَجُلٌ مُصَدَّقٌ یُسْمَعُ كَلَامُكَ، فَقَتَلَهَا ثُمَّ دَفَنَهَا؛ قَالَ: فَأَتَى الشَّیْطَانُ إِخْوَتَهَا فِی الْمَنَامِ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّ الرَّاهِبَ صَاحِبَ الصَّوْمَعَةِ فَجَرَ بِأُخْتِكُمْ؛ فَلَمَّا أَحْبَلَهَا قَتَلَهَا، ثُمَّ دَفَنَهَا فِی مَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَلَمَّا أَصْبَحُوا قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَیْتُ الْبَارِحَةَ رُؤْیَا وَمَا أَدْرِی أَقُصُّهَا عَلَیْكُمْ أَمْ أَتْرُكُ؟ قَالُوا: لَا، بَلْ قُصَّهَا عَلَیْنَا؛ قَالَ: فَقَصَّهَا، فَقَالَ الْآخَرُ: وَأَنَا وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَیْتُ ذَلِكَ؛ قَالُوا: فَمَا هَذَا إِلَّا لِشَیْءٍ،

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ ’’ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کراور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں  تجھ سے بری الزمہ ہوں ، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘کے بارے میں روایت ہےایک عورت بکریاں  چرایاکرتی تھی اوراس عورت کے چاربھائی تھے،اوریہ ایک راہب کی خانقاہ کے نیچے رات بسر کرتی تھی،ایک دن شیطان نے راہب (برصیصا)کواس عورت کی طرف مائل کیااوروہ اس سے زناکربیٹھااوروہ حاملہ ہوگئی،شیطان نے راہب کے دل میں  یہ بات ڈالی کہ اب اس کی بڑی رسوائی ہو گی اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس عورت کوقتل کرکے کہیں  دفن کردے،تیرے زہدوتقویٰ کودیکھتے ہوئے کسی کوتمہاری طرف خیال تک نہیں  آئے گا،اوراگربالفرض کچھ پوچھ گچھ ہوتوکچھ جھوٹ موٹ بول دینا تیری بات کوبھلاکون غلط گردانے گا؟راہب کے دل میں  یہ بات آگئی اورایک رات موقع پاکراس نے اس عورت کوقتل کرڈالااورکسی ویران جگہ پر زمین میں  اسے دفن کردیا،اب شیطان اس کے چاروں  بھائیوں  کے پاس آیااورہرایک کوکہاکہ اس خانقاہ کے راہب نے تمہاری بہن سے زناکیااورجب وہ حاملہ ہوگئی تواسے قتل کرکے فلاں  مقام پردفن کردیاہے،جب صبح کویہ بیدارہوئے توایک نے کہاآج رات تومیں  نے ایک عجیب خواب دیکھاہے مگر مجھے ہمت نہیں  ہورہی کہ اسے آپ لوگوں  کے سامنےبیان کروں ؟دوسرے بھائیوں  نے اصرارکیاکہ نہیں  بیان کروچنانچہ اس نے اپناپوراخواب بیان کردیا،تینوں  بھائیوں  نے کہاہم نے بھی ایساہی خواب دیکھاہے،اس پرچاروں  بھائیوں  کو یقین ہوگیاکہ ان کاخواب سچاہے،

فَانْطَلَقُوا فَاسْتَعْدَوْا مَلِكَهُمْ عَلَى ذَلِكَ الرَّاهِبِ، فَأَتَوْهُ فَأَنْزَلُوهُ، ثُمَّ انْطَلَقُوا بِهِ، فَلَقِیَهُ الشَّیْطَانُ فَقَالَ: إِنِّی أَنَا الَّذِی أَوْقَعْتُكَ فِی هَذَا وَلَنْ یُنْجِیَكِ مِنْهُ غَیْرِی فَاسْجُدْ لِی سَجْدَةً وَاحِدَةً وَأَنَا أُنْجِیكَ مِمَّا أَوْقَعْتُكَ فِیهِ؛ قَالَ: فَسَجَدَ لَهُ؛ فَلَمَّا أَتَوْا بِهِ مَلِكَهُمْ تَبَرَّأَ مِنْهُ، وَأَخَذَ فَقُتِلَ

چنانچہ انہوں  نے جا کر بادشاہ کو اس کی اطلاع دی ،بادشاہ کے حکم سے راہب کواس کی خانقاہ سے گرفتارکرلیاگیااوراس جگہ پرپہنچ کرلاش بھی برآمدکرلی،اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہوہوااورکہنے لگایہ سب میرے کرتوت ہیں ،اب بھی اگرتومجھے راضی کرلے تومیں  تیری جان بچادوں  گا،راہب نے جان بچانے کے لئے کہاجوتوکہے میں  کرنے کے لئے تیارہوں ،شیطان نے کہا مجھے سجدہ کر، راہب نے شیطان کوسجدہ کرلیا،جب وہ ایمان سے خالی ہوگیا توشیطان کہنے لگامیں  تجھ سے بری الذمہ ہوں چنانچہ بادشاہ کے حکم سے اس راہب کوپکڑ کرقتل کردیاگیا۔[43]

پھرکفرکاحکم دینے والاشیطان اورکفرکرنے والے انسان دونوں  کا انجام یہ ہونا ہے کہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں  جائیں  ،جیسے فرما یا

۔۔۔اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ [44]

ترجمہ: وہ تو اپنے پیرووں  کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں  میں  شامل ہو جائیں ۔

اورجنہوں  نے ظلم اورکفرمیں  اشتراک کیاان کے لئے یہی جزا ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٨﴾‏ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿١٩﴾‏ (الحشر)
’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہواور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے، اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے ،اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا، تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا، اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) ہوتے ہیں۔‘‘

اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اللہ کاتقویٰ اختیارکرو،اس نے جن باتوں  کے کرنے کاحکم فرمایاہے انہیں  بخوشی بجالاؤاورجن سے منع کرے اس سے رک جاؤ،اسی میں  تمہاری اخروی نجات پنہاں  ہے، اللہ تعالیٰ نے بندے کوخوداپنے نفس کے محاسبہ کرنے کے لئے فرمایااورتم میں  ہر شخص یہ دیکھتارہے کہ اس نے اپنی دائمی زندگی کے لیے اعمال صالحہ کا کیاذخیرہ کررکھا ہے ،اچھی طرح جائزہ لیتارہے کہ اس نے کون کون سے اعمال کیے ہیں  جواسے قیامت کے نفع یانقصان پہنچائیں  گے؟تاکہ اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہونے سے پہلے اس کاتدارک کرسکے،

عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِیرٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ : فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِی النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِی السُّیُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: {یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ}،[45] إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، {إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیبًا}،[46]وَالْآیَةَ الَّتِی فِی الْحَشْرِ: {اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ}،[47] تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِینَارِهِ، مِنْ دِرْهَمِهِ، مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ – حَتَّى قَالَ – وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا، بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّى رَأَیْتُ كَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِیَابٍ، حَتَّى رَأَیْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَهَلَّلُ، كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً، كَانَ عَلَیْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَیْءٌ

منذربن جریر رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  دن کے شروع میں  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ،کچھ لوگ ننگے پیر،ننگے بدن،گلے میں  چمڑے کی عبائیں  پہنی ہوئیں  ، اپنی تلواریں  لٹکائی ہوئی تھیں  ان میں  سے اکثربلکہ سب قبیلہ مضرکے لوگ تھے،ان کافقروفاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ مبارک متغیرہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے کے اندرچلے گئے اورپھرباہرتشریف لائے (یعنی بہت پریشان ہوگئے)بلال رضی اللہ عنہ کوحکم فرمایاکہ اذان کہو اور تکبیرکہی اورنمازپڑھی پھر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا’’اےلوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں  سے بہت مرد و عورت دنیا میں  پھیلا دیے، اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘

پھرسورۂ حشرکی آیت پڑھی’’ اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے (اچھی طرح جائزہ لے) کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقیناً تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘(پھر توصدقات کابازارگرم ہوا)اورکسی نے اشرفی دی اورکسی نے درہم،کسی نے کپڑے، کسی نے ایک صاع گیہوں  اورکسی نے ایک صاع کھجوردیناشروع کیے یہاں  تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ٹکڑاکھجورکاہوتو بھی،پھر انصار میں  سے ایک شخص نقدی سے بھری ایک (بھاری) تھیلی اٹھا لایا جس سے اس کاہاتھ تھکاجاتاتھا بلکہ تھک گیاتھا،پھرتولوگوں  نے تارباندھ دیایہاں  تک کہ میں  کھانے اورکپڑے کے دو ڈھیر دیکھےاوریہاں  تک (صدقات جمع ہوئے)کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ مبارک خوشی سے سونے کی مانند چمکنے لگا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے اسلام میں  داخل ہوکر نیک بات (یعنی کتاب وسنت کی بات) جاری کی اس کے لئے اپنے عمل کابھی ثواب ہے اورجولوگ اس کے بعدعمل کریں  گے ان کابھی ثواب ہے بغیراس کے کہ ان لوگوں  کا ثواب کچھ کم ہو،اورجس نے اسلام میں  داخل ہوکربری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب وسنت نے روکاہے)اس کے اوپراس کے عمل کا بھی بارہے اوران لوگوں  کابھی جواس کے بعدعمل کریں  گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں  کابارکچھ کم ہو ۔[48]

بطورتاکیدفرمایااللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ تعالیٰ یقیناً تمہارے ان سب اعمال واحوال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو،قیامت کے روزوہ ہرایک کو فرداً فرداًاس کے اعمال کی جزادے گا،جیسے فرمایا

وَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [49]

ترجمہ:سب قیامت کے روز فردا فردا اس کے سامنے حاضر ہوں  گے۔

نیکوکاروں  کوان کااجربڑھاچڑھاکردے گااوربرائی کابدلہ اس جیساہی دے گا، اور اُن لوگوں  کی طرح نہ ہو جاؤ جواپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ کر اللہ کو بھول گئے،جوشیطان کے ساتھی بن کر اپنا سرمایہ ،اپنی قابلیتوں  اورکوششوں  کودنیاکے لئے ہی صرف کرتے رہے تو اللہ نے بطورجزا انہیں  خود اپنا نفس بُھلا دیا، پھروہ اپنا تشخص ،اپنامنصب ،اپنامقام ،اپنے فرائض وذمہ داریاں ،اپنی منزل اورراہ منزل سب کچھ بھلابیٹھے،ان کی آنکھیں  حق کودیکھنے سے اندھی ہو گئیں  ، ان کے کان حق سننے سے بہرہ ہوگئے اوران کے دل مردہ ہوگئے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ [50]

ترجمہ:اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں  جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں  مگر وہ ان سے سوچتے نہیں  ، ان کے پاس آنکھیں  ہیں  مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں  ، ان کے پاس کان تو ہیں  مگر وہ ان سے سنتے نہیں ، وہ جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں  جو غفلت میں  کھوئے گئے ہیں  ۔

یہی لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل جانے والے اورقیامت کے روزنقصان اٹھانے والے ہیں ،جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ، جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔

لَا یَسْتَوِی أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ ‎﴿٢٠﴾‏(الحشر)
اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں ، جو اہل جنت میں  ہیں  وہی کامیاب ہیں  (اورجو اہل نار ہیں  وہ ناکام ہیں )۔

جنتی اورجہنمی برابرنہیں :جن لوگوں  نے اپنی خواہشات نفس کواپناالٰہ بنالیا،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ ۔۔۔۝۲۳ [51]

ترجمہ:پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا۔

جنہوں  نے اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کفروشرک کیا،جواپنے انجام سے غافل ہوکرفسق وفجورمیں  مبتلارہے،جنہوں  نے اللہ کی زمین پرفتنہ وفسادبرپاکیا،جنہوں  نے اللہ کے بیان کردہ حلال وحرام اوراللہ کی قائم کردہ حدودکاخیال نہ رکھا،جنہوں  نے نہ حقوق اللہ اداکیے اورنہ حقوق العباد،جنہوں  نے قیامت کے روز اللہ کی بارگاہ میں  حاضرہوکراعمال کے جوابدہی کودیوانے کی ایک بڑ سے زیادہ نہ سمجھا،جنہوں  نے اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اس کی راہ میں  یتیموں ،مسکینوں ،بیواؤں ،مسافروں  اوراسیروں  پر خرچ کرنے کے بجائے گن گن کررکھا،وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے درد ناک عذاب میں  گرفتارہونے والے ہیں ،جس میں  وہ نہ جی سکیں  گے اورنہ ہی انہیں  موت آئے گی،جیسے فرمایا

 اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [52]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙوَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙالَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [53]

ترجمہ:جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گا،اور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت جو بڑی آگ میں  جائے گاپھر نہ اس میں  مرے گا اور نہ جیے گا۔

اورجن لوگوں  نے اللہ کاتقویٰ اختیارکیا ،اللہ کے رسول کی اطاعت کی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اعمال کرتے رہے ، جنہوں  نے حقوق اللہ اورحقوق العبادکا خیال رکھا،جنہوں  نے اپنے پاکیزہ اموال اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مستحقین میں  خرچ کیے،جن لوگوں  نے اس حقیقت کوسمجھ لیاکہ انہیں  ایک دن اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوکراپنے تمام چھوٹے بڑےاعمال کاجواب دینا ہےاوروہ اس کی تیاریوں  میں  مشغول رہے،جیسے فرمایا

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ۝۰ۙ فَیَقُوْلُ ہَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَہْ۝۱۹ۚاِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ۝۲۰ۚ [54]

ترجمہ:اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں  دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو، پڑھو میرا نامہ اعمال ،میں  سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔

جواپنے گناہوں  پر نادم ہوکررب سے بخشش ومغفرت کی دعائیں  کرتے رہے،جیسے فرمایا

اِنَّہُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِـنِیْنَ۝۱۶ۭ كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ۝۱۷وَبِالْاَسْحَارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝۱۸ [55]

ترجمہ:وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے،راتوں  کو کم ہی سوتے تھے پھر وہی رات کے پچھلے پہروں  میں  معافی مانگتے تھے۔

جواللہ کے دین اسلام کی سربلندی کے لئے کوششیں  کرتے رہے،وہ جنت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  میں  داخل ہونے والے ہیں ، یاد رکھوجہنم کے المناک عذابوں  میں  گرفتارہونے والے اورجنت کی انگنت لازوال نعمتوں  سے فیض یاب ہونے والےکبھی یکساں  نہیں  ہو سکتے ۔جیسے متعدد مقامات پرفرمایا

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۲۱ۧ [56]

ترجمہ:کیا وہ لوگ جنہوں  نے برائیوں  کا اِرتکاب کیا ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں  کہ ہم انہیں  اور ایمان لانے والوں  اور نیک عمل کرنے والوں  کو ایک جیسا کر دیں  گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں  ہو جائے؟ بہت برے حکم ہیں  جو یہ لوگ لگاتے ہیں ۔

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙوَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۝۲۰ۙوَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚوَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۔۔۔۝۲۲ [57]

ترجمہ:اندھا اور آنکھوں  والا برابر نہیں  ہے،نہ تاریکیاں  اور روشنی یکساں  ہیں ،نہ ٹھنڈی چھاؤں  اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے،اور نہ زندے اور مُردے مُساوی ہیں ۔

قُلْ لَا یَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ۔۔۔[58]

ترجمہ:آپ فرمادیں  کہ ناپاک اورپاک برابرنہیں ۔

اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ۝۲۸ [59]

ترجمہ:کیا ہم ان لوگوں  کو جو ایمان لاتے اور نیک اعمال کرتے ہیں  اور ان کو جو زمین میں  فساد کرنے والے ہیں  یکساں  کر دیں ؟ کیا متقیوں  کو ہم فاجروں  جیسا کر دیں ؟۔

یادرکھواللہ کے عذاب سے بچ کرجنّت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  سے فیض یاب ہونے والے ہی اصل میں  کامیاب ہیں  ۔ اللهُمَّ اجْعَلْنَامِنَ الْفَائِزِینَ

لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَیْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٢١﴾‏(الحشر)
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا، ہم ان مثالوں  کو لوگوں  کے سامنے بیان کرتے ہیں  تاکہ وہ غور و فکر کریں  ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کوسمجھایاکہ ہم نے تمہیں  عقل وفہم کی صلاحیتیں  عطاکی ہیں  لیکن قرآن کوسن کر جس میں  ہم نے بلاغت وفصاحت،قوت واستدلال اوروعظ وتذکیرکے پہلو بیان کیے ہیں تیرادل کوئی اثرقبول نہیں  کرتا،لیکن اگر ہم نے عظمت شان کاحامل یہ قرآن کسی بے جان وبے شعورٹھوس پہاڑ پر اُتار دیا ہوتااوراس میں  فہم وفراست کی حس بھی پیدا کردیتے تو اسے معلوم ہوجاتاکہ کس رب قدیرکے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے توتم دیکھتے کہ وہ پہاڑاللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتا،جیسےفرمایا

۔۔۔ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْـیَةِ اللهِ۔۔۔ ۝۷۴ [60]

ترجمہ: کیونکہ پتھروں  میں  سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں  سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں  ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں  سے پانی نکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔

یہ مثالیں  ہم لوگوں  کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں  کہ وہ ان پرتفکروتدبرکریں  اور اپنی اخروی زندگی کی کامیابی کے لئےاللہ کی اطاعت کریں  اوراس کی نافرمانیوں  سے اجتناب کریں ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ یَقُومُ یَوْمَ الجُمُعَةِ إِلَى شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، أَوْ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نَجْعَلُ لَكَ مِنْبَرًا؟ قَالَ:إِنْ شِئْتُمْ، فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا، فَلَمَّا كَانَ یَوْمَ الجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَى المِنْبَرِ، فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ صِیَاحَ الصَّبِیِّ، ثُمَّ نَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَیْهِ، تَئِنُّ أَنِینَ الصَّبِیِّ الَّذِی یُسَكَّنُ. قَالَ: كَانَتْ تَبْكِی عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ عِنْدَهَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک درخت(کے تنے)کے پاس کھڑے ہوتے یا(بیان کیاکہ)کھجورکے درخت کے پاس،ایک انصاری عورت نے یاکسی صحابی نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں  نہ ہم آپ کے لیے ایک منبرتیارکردیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتمہاراجی چاہے توکردو،چنانچہ انہوں  نے آپ کے لیے منبرتیارکردیاجب جمعہ کادن ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منبرپرتشریف لے گئےاس پرکھجورکے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آوازآنے لگی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبرسے اترے اوراسے اپنے گلے سے لگالیاجس طرح بچوں  کوچپ کرنے کے لیے لوریاں  دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح اسے چپ کرایا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ تنا اس لیے رورہاتھاکہ وہ اللہ کے اس ذکرکوسناکرتاتھاجواس کے قریب ہوتاتھا۔[61]

فَأُمِرَ بِهِ أَنْ یُحْفَرَ لَهُ وَیُدْفَنَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ ایک گڑھاکھوداگیااوروہ لکڑی اس میں  دبادی گئی۔[62]

هُوَ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیمُ ‎﴿٢٢﴾‏ هُوَ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ یُسَبِّحُ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٢٤﴾‏(الحشر)
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،چھپے کھلے کا جاننے والا مہربان اور رحم کرنے والا، وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں،وہی ہے اللہ پیدا کرنے والا، وجود بخشنے والا، صورت بنانے والا، اسی کے لیے (نہایت) اچھے نام ہیں، ہر چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے ، اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔‘‘

فرمایاوہ اللہ جس نے سیدالانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام دنیاکی طرف مبعوث فرمایاہے، اورانسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے یہ جلیل القدرکتاب قرآن مجید نازل کیا ہے، اس کی کچھ بے نظیر صفات یہ ہیں  وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس عظیم الشان کائنات کی جوچیزیں  مخلوقات سے پوشیدہ ہیں  اس کوبھی جانتاہے اور جوکچھ ان پر ظاہرہے اس سے بھی واقف ہے ،حال میں  جوکچھ موجودہے اورجوکچھ مستقبل میں  ہوگااس کوبراہ راست معلوم ہے،وہی اہل ایمان پر بے پایاں رحمت نچھاور کرنے والا اور تمام بندوں  پر رحم فرمانے والا ہے،جیسےفرمایا

 ۔۔۔قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ۝۰ۚ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۔۔۔۝۰۝۱۵۶ۚ [63]

ترجمہ:سزا تو میں  جسے چاہتا ہوں  دیتا ہوں  مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے ۔

۔۔۔كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ۔۔۔۝۰۝۵۴ [64]

ترجمہ: تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔

قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا۝۰ۭ ھُوَخَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۵۸ [65]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی اس پر تو لوگوں  کو خوشی منانی چاہیے ، یہ ان سب چیزوں  سے بہتر ہے جنہیں  لوگ سمیٹ رہے ہیں ۔

وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں  ، اس کے سواکسی کو یہ حیثیت ، مقام اورمرتبہ نہیں  ہے کہ اس کی بندگی وپرستش کی جائے،اس عظیم الشان کائنات کی تمام چیزوں  کاوہی تنہامالک ومختارہےاورہرشے اس کے تصرف اوراقتداراورحکم کے تابع ہے،جیسے قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے مختلف پہلوؤں  کوبیان فرمایا

وَلَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ۝۲۶ [66]

ترجمہ:آسمانوں  اور زمین میں  جو بھی ہیں  اس کے بندے ہیں  سب کے سب اُسی کے تابع فرمان ہیں ۔

یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ۔۔۔ ۝۵ [67]

ترجمہ:وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔

لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۵ [68]

ترجمہ:وہی زمین اور آسمانوں  کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں ۔

الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔۔ ۝۲ [69]

ترجمہ:وہ جو زمین اور آسمانوں  کی بادشاہی کا مالک ہے۔

فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۸۳ۧ [70]

ترجمہ: پاک ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں  ہر چیز کا مکمل اِقتدار ہے۔

فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۝۱۶ۭ [71]

ترجمہ:اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے۔

لَا یُسْــَٔـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْــَٔــلُوْنَ۝۲۳ [72]

ترجمہ:وہ اپنے کاموں  کے لیے (کسی کے آگے) جواب دِہ نہیں  ہے اور سب جواب دہ ہیں ۔

۔۔۔وَاللهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ۔۔۔۝۰۝۴۱ [73]

ترجمہ:اللہ حکومت کر رہا ہے ، کوئی اس کے فیصلوں  پر نظر ثانی کرنے والا نہیں  ہے۔

۔۔۔وَّهُوَیُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۸۸ [74]

ترجمہ: اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں  کوئی پناہ نہیں  دے سکتا؟ ۔

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶ [75]

ترجمہ:کہو خدایا! ملک کے مالک ، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے ، جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے، بھلائی تیرے اختیار میں  ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

وہ ہرعیب ونقص سے پاک ومنزہ ،معظم اور بزرگی والاہے، وہ سراسر سلامتی ہے ،اس کی ذات اس سے بالاترہے کہ کوئی آفت یاکمزوری یاخامی اس کولاحق ہویاکبھی اس کے کمال پرزوال آئے،وہ اپنی تمام مخلوق کوامن دینے والاہے ،وہ تمام مخلوقات پرنگہبان ومحافظ ہے ،جیسےفرمایا

۔۔۔وَاللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۶ۧ [76]

ترجمہ:اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔

۔۔۔ ثُمَّ اللهُ شَهِیْدٌ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ۝۴۶ [77]

ترجمہ:اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں  اس پر اللہ گواہ ہے۔

اَفَمَنْ هُوَقَاۗىِٕمٌ عَلٰی كُلِّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ۝۰ۚ وَجَعَلُوْا لِلهِ شُرَكَاۗءَ ۔۔۔۝۳۳ [78]

ترجمہ: پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اس کے مقابلے میں  یہ جسارتیں  کی جا رہی ہیں ) لوگوں  نے اس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں ؟۔

وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے اورکائنات کی ہرچیزاس کے سامنے فروتن وسرافگندہ ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَاللهُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۱ [79]

ترجمہ: اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہےمگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں  ۔

وہ تمام کائنات میں  اپنا سراسرحکمت پرمبنی حکم بزور نافذ کرنے والاہے اور کائنات کی ہرچیزاس کے مقابلے میں  حقیروذلیل ہے اس لئےوہ کائنات میں بڑا ہی ہو کر رہنے والاہے، اللہ اپنی ذات وصفات،اقتداراوراختیارات میں  وحدہ لاشریک ہے اور ہراس شِرک سے پاک ومنزہ ہے جو لوگ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے کر رہے ہیں ،وہ اللہ ہی ہے جوکائنات اورکائنات کی ہرچیزکی تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اورتقدیرمقررفرمانے والا اور اس کی تنفیذ کرنے والا ہے،اورمخلوقات کی اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے،جیسےفرمایا

فِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ [80]

ترجمہ:اور جس صورت میں  چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟۔

اس کے لیے بہترین نام ہیں  جس سے اس کی مختلف صفات کمالیہ ،اس کی عظمت شان اوراس کی قدرت وطاقت واختیارات کا اظہار ہوتا ہےجیسےفرمایا

وَلِلهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۔۔۔ ۝۱۸۰ [81]

ترجمہ:اللہ اچھے ناموں  کا مستحق ہے ، اس کو اچھے ہی ناموں  سے پکارو۔

قُلْ ادْعُوا اللهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الأسْمَاءُ الْحُسْنَى۔۔.۔[82]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، رِوَایَةً، قَالَ:لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا، لاَ یَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ، وَهُوَ وَتْرٌ یُحِبُّ الوَتْرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ،ایک کم سو،جو شخص بھی انہیں  یادکرلے گاجنت میں  جائے گا،اللہ طاق ہے اورطاق کوپسندکرتاہے[83]

جامع ترمذی میں  اللہ تعالیٰ کے یہ نام بیان کیے گئے ہیں ۔

هُوَ اللهُ الَّذِی لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَنُ، الرَّحِیمُ، الْمَلِكُ، الْقُدُّوسُ، السَّلامُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَیْمِنُ، الْعَزِیزُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَكَبِّرُ، الْخَالِقُ، الْبَارِئُ، الْمُصَوِّرُ، الْغَفَّارُ، الْقَهَّارُ، الْوَهَّابُ، الرَّزَّاقُ، الْفَتَّاحُ، الْعَلِیمُ، الْقَابِضُ، الْبَاسِطُ، الْخَافِضُ، الرَّافِعُ، الْمُعِزُّ، الْمُذِلُّ، السَّمِیعُ، الْبَصِیرُ، الْحَكَمُ، الْعَدْلُ، اللطِیفُ، الْخَبِیرُ، الْحَلِیمُ، الْعَظِیمُ، الْغَفُورُ، الشَّكُورُ، الْعَلِیُّ، الْكَبِیرُ، الْحَفِیظُ، الْمُقِیتُ، الْحَسِیبُ، الْجَلِیلُ، الْكَرِیمُ، الرَّقِیبُ، الْمُجِیبُ، الْوَاسِعُ، الْحَكِیمُ، الْوَدُودُ، الْمَجِیدُ، الْبَاعِثُ، الشَّهِیدُ، الْحَقُّ، الْوَكِیلُ، الْقَوِیُّ، الْمَتِینُ، الْوَلِیُّ، الْحَمِیدُ، الْمُحْصِی، الْمُبْدِئُ، الْمُعِیدُ، الْمُحْیِی، الْمُمِیتُ، الْحَیُّ، الْقَیُّومُ، الْوَاجِدُ، الْمَاجِدُ، الْوَاحِدُ، الصَّمَدُ، الْقَادِرُ، الْمُقْتَدِرُ، الْمُقَدِّمُ، الْمُؤَخِّرُ، الأَوَّلُ، الآخِرُ، الظَّاهِرُ، الْبَاطِنُ، الْوَالِی، الْمُتَعَالِی، الْبَرُّ، التَّوَّابُ، الْمُنْتَقِمُ، الْعَفُوُّ، الرَّءُوفُ، مَالِكُ الْمُلْكِ، ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ، الْمُقْسِطُ، الْجَامِعُ، الْغَنِیُّ، الْمُغْنِی، الْمَانِعُ، الضَّارُّ، النَّافِعُ، النُّورُ، الْهَادِی، الْبَدِیعُ، الْبَاقِی، الْوَارِثُ، الرَّشِیدُ، الصَّبُورُ۔[84]

نیز علما نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں  کی تعدادننانوےپر منحصر نہیں  ہے بلکہ اس سے زیادہ ہیں ۔ جیسے

الْقَاهِرُ، الغَافِرِ، الفَاطِرِ، الفَاطِرِ ،السُبْحَانَ ،الحنان ،المنان ،الرَبِّ ،المُحِیطٌ ، القَدِیرٌ، الْخَلَّاقُ، الدَائِمٌ،القَائِمٌ ،أَحْكَمُ الْحَاكِمِینَ ،أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

وغیرہ، ان صفات کے علاوہ ایک مقام پریہ صفات بھی بیان کی گئی ہیں ۔

اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ۝۰ۥۚ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ۝۰ۭ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۝۰ۭ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۝۰ۚ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰ۚ وَسِعَ كُرْسِـیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ وَلَا یَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا۝۰ۚ وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۝۲۵۵ [85]

ترجمہ:اللہ ، وہ زندۂ جاوید ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ، اس کے سوا کوئی خدا نہیں  ہے، وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے، زمین اور آسمانوں  میں  جو کچھ ہے ، اُسی کا ہے کون ہے جو اس کی جناب میں  اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں  کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں  سے کوئی چیز ان کی گرفتِ ادراک میں  نہیں  آسکتی اِلاّ یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے،اس کی حکومت آسمانوں  اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں  ہے ، بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔

کائنات کی ہر چیز جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے کہ اس کاخالق ہرعیب اورنقص اور کمزوری اورغلطی سے پاک ہے ،جیسے فرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [86]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  جو ان میں  ہیں  سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہوحقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور در گزر کرنے والا ہے۔

اور وہ زبردست اور وہ جوبھی فیصلہ فرماتاوہ حکمت سے خالی نہیں  ہوتا۔

[1] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الحشر باب ۱ح۴۸۸۲، صحیح مسلم کتاب التفسیربَابٌ فِی سُورَةِ بَرَاءَةٌ وَالْأَنْفَالِ وَالْحَشْرِ۷۵۵۸

[2] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشرباب ۴۸۸۳

[3] بنی اسرائیل۴۴

[4] النور۴۱

[5] الجمعة۱

[6] التغابن۱

[7] یوسف۲۱

[8] تفسیرطبری ۲۶۳؍۲۳

[9] النحل۲۶

[10] الزمر۲۵

[11] تفسیرابن کثیر۶۰؍۸

[12] ابن سعد۴۴؍۲ ، مغازی واقدی ۳۷۷؍۱

[13] مسنداحمد۱۷۱

[14] الحشر: 6

[15] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابٌ فِی صَفَایَا  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَمْوَالِ۲۹۶۳

[16] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِلْإِمَامِ وَأَنَّهُ یُعْطِی بَعْضَ قَرَابَتِهِ دُونَ بَعْضٍ مَا قَسَمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِی المُطَّلِبِ، وَبَنِی هَاشِمٍ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ ۳۱۴۰،وکتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم بَابُ مَنَاقِبِ قُرَیْشٍ ۳۵۰۲،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۲۹

[17] مسنداحمد۹۷۸۰،صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۷۲۸۸،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ تَوْقِیرِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لَا ضَرُورَةَ إِلَیْهِ، أَوْ لَا یَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِیفٌ وَمَا لَا یَقَعُ، وَنَحْوِ ذَلِكَ۶۱۱۳

[18] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشر بَابُ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ۴۸۸۶، صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ تَحْرِیمِ فِعْلِ الْوَاصِلَةِ وَالْمُسْتَوْصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ وَالْمُسْتَوْشِمَةِ وَالنَّامِصَةِ وَالْمُتَنَمِّصَةِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ وَالْمُغَیِّرَاتِ خَلْقِ اللهِ ۵۵۷۳،سنن ابوداودکتاب الترجل باب فی صلة الشعر ۴۱۶۹، مسنداحمد۴۱۲۹،مصنف عبدالرزاق۵۱۰۳،سنن الدارمی ۲۶۸۹،السنن الکبری للنسائی ۱۱۵۱۵،مسند البزار ۱۴۶۹، مسندابی یعلی ۵۱۴۱،شرح السنة للبغوی ۳۱۹۱

[19] فتوح البلدان ۲۹؍۱

[20] عیون الآثر۷۴؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۵۲۰؍۲، فتوح البلدان۳۰؍۱،ابن سعد ۱۵۹؍۳،انساب الاشراف للبلاذری۸۴؍۱۰

[21] الروض الانف۱۶۱؍۶،ابن سعد ۳۵۹؍۳

[22] ابن سعد۴۵؍۲،مغازی واقدی ۳۸۰؍۱

[23] روح المعانی۲۳۸؍۱۴

[24] مغازی واقدی۳۸۰؍۱

[25] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحشربَابُ وَالَّذِینَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ۴۸۸۸

[26] مسنداحمد۱۳۰۷۵

[27] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ:اصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِی عَلَى الحَوْضِ ۳۷۹۴

[28] صحیح بخاری كِتَاب المُزَارَعَةِ بَابُ إِذَا قَالَ: اكْفِنِی مَئُونَةَ النَّخْلِ وَغَیْرِهِ، وَتُشْرِكُنِی فِی الثَّمَرِ ۲۳۲۵

[29] مسنداحمد۱۲۶۹۷،السنن الکبری للنسائی ۱۰۶۳۳،شرح السنة للبغوی ۳۵۳۵

[30] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصة۳۷۹۸،و کتاب التفسیرسورة الحشرباب قولہ ویوثرون علی انفسھم۴۸۸۹،صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ إِكْرَامِ الضَّیْفِ وَفَضْلِ إِیثَارِهِ۵۳۵۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الحَشْرِ ۳۳۰۴،السنن الکبری للنسائی۱۱۵۱۸

[31] سنن ابوداودکتاب تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابُ طُولِ الْقِیَامِ ۱۴۴۹،مسنداحمد۱۵۴۰۱

[32] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۶،۱۴۴۶۱،الادب المفرد۴۸۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۵۰۱

[33] مسنداحمد۶۴۸۷،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابٌ فِی الشُّحِّ ۱۶۹۸،السنن الکبری للنسائی۱۱۵۱۹

[34] السنن الکبری للبیہقی ۱۸۵۰۸،السنن الکبری للنسائی ۴۳۰۳،سنن نسائی کتاب الجہادفَضْلُ مَنْ عَمِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ عَلَى قَدَمِهِ۳۱۱۲، مسند احمد۷۴۸۰،صحیح ابن حبان ۳۳۲۵۱،مستدرک حاکم ۲۳۹۵،شعب الایمان ۳۹۵۲،تفسیرالقرطبی ۲۹۳؍۴،تفسیرابن کثیر ۷۲؍۸

[35] تفسیرطبری ۲۸۶؍۲۳، تفسیرالقرطبی۳۰؍۱۸،تفسیرابن کثیر ۷۲؍۸

[36] تفسیرابن کثیر۷۳؍۸

[37] تفسیرالبغوی۶۱؍۵،تفسیرابن ابی حاتم۳۳۴۷؍۱۰،صحیح مسلم كِتَابُ التفسیر باب فی تفسیرآیات متفرقة ۷۵۳۹

[38] النساء ۷۷

[39]الانفال۴۸

[40] الحشر: 16

[41]تفسیرطبری ۲۹۴؍۲۳،تفسیرابن کثیر۷۵؍۸

[42] الحشر: 16

[43] تفسیر طبری۲۹۵؍۲۳، تفسیرابن کثیر۷۶؍۸

[44] فاطر۶

[45] النساء: 1

[46] النساء: 1

[47] الحشر: 18

[48] صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، أَوْ كَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ ۲۳۵۱ ، سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ التَّحْرِیضِ عَلَى الصَّدَقَةِ ۲۵۵۵،السنن الکبری للنسائی ۲۳۴۶،مسنداحمد۱۹۱۷۴،المعجم الکبیرللطبرانی ۲۳۷۵،السنن الکبری للبیہقی ۷۷۴۲،شعب الایمان ۳۰۴۸،شرح السنة للبغوی ۱۶۶۱،مصنف ابن ابی شیبة۹۸۰۳

[49] مریم۹۵

[50] الاعراف۱۷۹

[51] الجاثیة۲۳

[52] طہ۷۴

[53] الاعلی۱۰تا۱۳

[54] الحاقة۱۹،۲۰

[55] الذاریات۱۶تا۱۸

[56] الجاثیة۲۱

[57] فاطر۱۹تا۲۲

[58] المائدة۱۰۰

[59] ص۲۸

[60] البقرة۷۴

[61] صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۵۸۴،۳۵۸۵،سنن الدارمی۳۴

[62] سنن الدارمی۳۷

[63] الاعراف۱۵۶

[64] الانعام۵۴

[65] یونس۵۸

[66] الروم۲۶

[67] السجدة۵

[68] الحدید۵

[69] الفرقان۲

[70] یٰسین۸۳

[71] البروج۱۶

[72] الانبیائ۲۳

[73] الرعد۴۱

[74] المومنون۸۸

[75] آل عمران۲۶

[76] المجادلة۶

[77] یونس۴۶

[78] الرعد۳۳

[79] یوسف۲۱

[80] الانفطار۸

[81] الاعراف ۱۸۰

[82] بنی اسرائیل ۱۱۰

[83] صحیح بخاری كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابٌ لِلَّهِ مِائَةُ اسْمٍ غَیْرَ وَاحِدٍ ۶۴۱۰ ،صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابٌ فِی أَسْمَاءِ اللهِ تَعَالَى وَفَضْلِ مَنْ أَحْصَاهَا ۶۸۰۹، مسند احمد ۸۱۴۶، السنن الکبری للنسائی ۷۶۱۲

[84] جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ باب حدیث فی اسماء اللہ الحسنی ۳۵۰۷

[85] البقرة۲۵۵

[86] بنی اسرائیل۴۴

Related Articles