ہجرت نبوی کا چوتھا سال

سورۂ النساء آیات 100تا 143(حصه دوم)

وَمَن یُهَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ یَجِدْ فِی الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِیرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن یَخْرُجْ مِن بَیْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿١٠٠﴾‏(النساء)
جو کوئی اللہ کی راہ میں  وطن چھوڑے گا وہ زمین میں  بہت سی قیام کی جگہیں  بھی پائے گا اور کشادگی بھی ، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آپکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا ، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے شوق کوابھارااورمشرکوں  سے علیحدگی اختیارکرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاپھرجوکوئی اپناوطن ،گھرباراورعزواقارب کوچھوڑکر اللہ کی راہ میں  ہجرت کرے گاوہ زمین میں  پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسراوقات کے لیے بڑی کشادگی وفراخی پائے گااورجوشخص اللہ کی خوشنودی اور رسول کی محبت اوراللہ کے دین کی نصرت کی خاطر ہجرت کے لیے اپنے گھرسے نکلےپھرراستہ ہی میں  اسے قتل یاکسی اورسبب سے اسےموت آجائے تواسے مہاجرکادرجہ مل گیااور اس کااجراللہ کے ذمے واجب ہوگیا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:كَانَ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِینَ إِنْسَانًا، ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَهُ: هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: لاَ، فَقَتَلَهُ، فَجَعَلَ یَسْأَلُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: ائْتِ قَرْیَةَ كَذَا وَكَذَا، فَأَدْرَكَهُ المَوْتُ، فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا، فَاخْتَصَمَتْ فِیهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلاَئِكَةُ العَذَابِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِی، وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِی، وَقَالَ: قِیسُوا مَا بَیْنَهُمَا، فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ، فَغُفِرَ لَهُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابنی اسرائیل میں  ایک شخص تھاجس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے،پھروہ (نادم ہوکر)مسئلہ پوچھنے نکلاوہ ایک درویش کے پاس آیااوراس سے پوچھاکیااس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟درویش نے جواب دیاکہ نہیں ،یہ سن کراس نے اس درویش کوبھی قتل کردیا (اورسوخون پورے کردیئے)پھر وہ (دوسروں  سے)پوچھنے لگاآخراس کوایک درویش نے بتایاکہ فلاں  بستی میں  چلاجا (وہ آدھے راستے بھی نہیں  پہنچاتھاکہ)اس کی موت واقع ہوگئی، مرتے مرتے اس نے اپناسینہ اس بستی کی طرف جھکادیاآخررحمت کے فرشتوں  اورعذاب کے فرشتوں  میں  باہم جھگڑاہوا(کہ کون اسےلے جائے)لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو(جہاں  وہ توبہ کے لئے جارہاتھا)حکم دیاکہ اس کی نعش سے قریب ہوجائے اوردوسری بستی کو (جہاں  سے وہ نکلاتھا)حکم دیاکہ اس کی نعش سے دور ہوجا،پھراللہ تعالیٰ نے فرشتوں  سے فرمایا کہ اب دونوں  کافاصلہ دیکھواور(جب ناپاتو)اس بستی کو(جہاں  وہ توبہ کے لئے جارہاتھا)ایک بالشت نعش سے نزدیک پایااس لئے وہ بخش دیاگیا۔[1]

اس حدیث سے ان لوگوں  نے دلیل لی ہے جوقاتل مومن کی توبہ کی قبولیت کے قائل ہیں ،جمہورکایہی قول ہے،

قَالَ عِیَاضٌ وَفِیهِ أَنَّ التَّوْبَةَ تَنْفَعُ مِنَ الْقَتْلِ كَمَا تَنْفَعُ مِنْ سَائِرِ الذُّنُوبِ

عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں  قتل ناحق سے توبہ کرناایساہی نفع بخش ہے جیساکہ اورگناہوں  سے۔[2]

اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [3]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دو کہ اے میرے بندوجنہوں  نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤیقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ، كَتَبَ فِی كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ: إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ مخلوقات کوپیداکردیااپنی کتاب میں  لکھاجواس کے پاس عرش میں  ہے میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے ۔[4]

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَاذُنُوبَاهُ وَاذُنُوبَاهُ، فَقَالَ هَذَا الْقَوْلَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قُلِ اللَّهُمَّ مَغْفِرَتِكَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِی وَرَحْمَتَكَ أَرْجَى عِنْدِی مِنْ عَمَلِی. فَقَالَهَا ثُمَّ قَالَ:عُدْ فَعَادَ ثُمَّ، قَالَ:عُدْ فَعَادَ، فَقَالَ:قُمْ فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورکہنے لگاہائے میرے گناہ ہائے میرے گناہ اس نے یہ الفاظ دو یاتین مرتبہ کہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاتوکہہ اے اللہ! تیری مغفرت میرے گناہوں  سےبہت زیادہ وسیع ہے اورتیری رحمت میرے عملوں  سے وسیع ہےاس نے یہ دعامانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایااللہ سے دعا مانگ،اس نے اللہ سے دعا کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایااللہ سے دعا مانگ،اس نے پھردعاکی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھڑاہوجااللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں  کوبخش دیا۔[5]

عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الأَعْمَالُ بِالنِّیَّةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لدُنْیَا یُصِیبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَیْهِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعمل نیت سے ہی صحیح ہوتے ہیں  (یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلا ملتاہے) اورہر آدمی کووہی ملے گاجونیت کرے گا پس جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لئے ہجرت کرے اس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول کی طرف ہوگی،اورجو کوئی دنیاکمانے کے لئے یاکسی عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کرے گاتواس کی ہجرت ان ہی کاموں  کے لئے ہو گی۔[6]

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لئے بہت بخشش فرمانے والااورتمام مخلوق پررحیم فرمانے والا ہے۔

غزوہ نجد(غزوہ محارب،غزوہ بنی ثعلبہ)جمادی الاول چارہجری

اللہ تبارک وتعالیٰ نے بغیرکسی جانی ومالی نقصان کے مسلمانوں  کوبنونضیرپرغلبہ عطافرمایاجس سے مدینہ منورہ کی چھوٹی سی ریاست کااقتدارمضبوط ہوگیا،منافقین اور یہود پر مسلمانوں  کارعب چھاگیااوروہ سہم کرخاموش ہوگئے،اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان بدؤوں  کی سرکوبی کے لئے کچھ فرصت میسرہوئی جنہوں  نے مسلمانوں  کی غزوہ احدمیں  ناکامی کی وجہ سے سراٹھارکھاتھااورکئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوقتل کرچکے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ مدینہ کے اندرہی مصروف کارتھے اس لئے ان کی طرف کوئی مہم روانہ نہ کی گئی تھی اس سے ان کوحوصلہ مل گیاتھاکہ شایدمسلمان کمزورہوگئے ہیں  اورمقابلہ کی سکت نہیں  رکھتے ،اس لئے وہ مدینہ منورہ پرہی حملہ آورہونے کی سوچ رہے تھے

ثُمَّ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ بَعْدَ غَزْوَةِ بَنِی النَّضِیرِ شَهْرَ رَبِیعٍ الْآخَرِ وَبَعْضَ جُمَادَى،قَالُوا: قَدِمَ قَادِمٌ الْمَدِینَةَ بِجلبٍ لَهُ، فَأَخْبَرَ أَصْحَابَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَنْمَارَ وَثَعْلَبَةَ قَدْ جَمَعُوا لَهُمُ الْجُمُوعَ،ذَاتَ الرِّقَاعِ فی الْمُحَرَّمِ عَلَى رَأْسِ سَبْعَةٌ وأَرْبَعِین  شَهْرًا

غزوہ بنونضیرسے فارغ ہوکر آپ نے ربیع الاول ، ربیع الثانی اورجمادی الاولیٰ کے کچھ دن تک مقیم رہے،پھر کوئی مدینہ منورہ میں  اپنامال تجارت لایااوراس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردی کہ انمارثعلبہ ( غطفان کے قبائل بنومحارب اوربنوثعلبہ )مدینہ منورہ پرچڑھائی کے لئے نفری جمع کررہے ہیں ،خبرملتے ہی آپ نے ان بدووں  پرمسلمانوں  کا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے لئے نجدپرحملہ کرنے کافیصلہ فرمایاتاکہ وہ دوبارہ کوئی کاروائی نہ کرسکیں ،  ابن سعدکے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے سینتالیس مہینے ماہ محرم میں  غزوہ ذات الرقاع کے لئے روانہ ہوئے۔[7]

وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِیَّ ، وَیُقَالُ: عُثْمَانَ ابْن عَفَّانَ، وَخَرَجَ فِی أَرْبَعِمِائَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَقِیلَ سَبْعِمِائَةٍ

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پرابوذر رضی اللہ عنہ الغفاری یاایک قول کے مطابق عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کواپنانائب مقرر فرمایااور چارسومہاجرین صحابہ کرام ؓ کے لشکرکے ساتھ اس طرف روانہ ہوگئے،ایک روایت سات سوکی بھی ملتی ہے۔[8]

فَمَضَى حتى أتى مَحَالَّهُمْ بذَاتَ الرِّقَاعِ،وَهُوَ جَبَلٌ فِیهِ بُقَعٌ حُمْرَةٌ وسَوَادٌ وَبَیَاضٌ قَرِیبٌ سمِنَ النَّخِیلِ بَیْنَ السَّعْدِ والشّقَرَةِ،فَلَمْ یَجِدْ فِی مَحَالَّهُمْ أَحَدًا إِلَّا نِسْوَةً فَأَخَذَهُنَّ وَفِیهِنَّ جَارِیَةً وَضِیئَةٌ. وَهَرَبَتْ الْأَعْرَابُ إلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ،وَحَضَرْت الصَّلَاةُ فَخَافَ الْمُسْلِمُونَ أَنْ یُغِیرُوا عَلَیْهِمْ فَصَلَّى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ الْخَوْفِ فكان ذَلِكَ أَوَّل مَا صَلَّاهَا

اورچلتے چلتے ان مقامات پرجوذات الرقاع میں  تھاجااترے،یہ ایک پہاڑہے جس میں  سرخی وسیاہی وسفیدی کی زمینیں  ہیں  اورالنخیل قریب الاسعد اورالشقرہ کے درمیان ہے ،ان لوگوں  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کاعلم نہ ہوسکاتھا،جب بدووں  نے اچانک مسلمانوں  کے لشکر کواپنے سروں  پردیکھاتولڑنے کے بجائے خوف زدہ ہوکرپہاڑوں  کی چوٹیوں  میں  روپوش ہوگئےاوروہاں  عورتوں  کے سواکوئی نہ تھاان میں  ایک خوبصورت لڑکی بھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوقبضہ میں  لے لیا، جب نمازکاوقت آیاتومسلمانوں  کو خوف ہواکہ کہیں  حملہ نہ ہوجائے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازخوف پڑھائی ،یہ سب سے پہلاموقع تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازخوف پڑھائی ۔[9]

جب مسلمانوں  کویہ کیفیت ہوئی تواس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔

سورہ النساء ۱۰۱تا۱۷۶

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن یَفْتِنَكُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِینَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِینًا ‎﴿١٠١﴾‏(النساء)
جب تم سفر پر جا رہے ہو تو تم پر نمازوں  کے قصر کرنے میں  کوئی گناہ نہیں ، اگر تمہیں  ڈر ہو کہ کافر تمہیں  ستائیں  گے یقیناً کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔

نمازقصرکاحکم:کیونکہ اس وقت ساراعرب ہی دارالحرب بناہواتھاکسی طرف کابھی سفرخطرات سے خالی نہیں  تھااس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایااورجب تم لوگ سفرکے لئے نکلوتو کوئی مضائقہ نہیں  اگرنمازمیں  اختصارکردوجیسے فرمایا

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللهِ۝۰ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا۝۰ۭ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ شَاكِـرٌ عَلِــیْمٌ۝۱۵۸ [10]

ترجمہ:یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں  میں  سے ہیں  لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں  کہ وہ ان دونوں  پہاڑیوں  کے درمیان سعی کر لے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے ۔

(خصوصا ً)جبکہ تمہیں  اندیشہ ہوکہ کافرتمہیں  ستائیں  گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پرتلے ہوئے ہیں ،اگرحالات ایسے ہوں  کہ جماعت کھڑی کی جاسکتی ہو تو جماعت کے ساتھ پڑھواگرجماعت کھڑی نہیں  کی جاسکتی تو فرداًفرداًپڑھو،اگرحالات ایسے ہوں  کہ قبلہ رخ بھی نہیں  ہوسکتے توجدھربھی تمہارارخ ہوسواری کی حالت میں  اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہواوراگررکوع اورسجودبھی ممکن نہ ہوتواشارہ ہی سے نمازپڑھو، جب امن قائم ہوگیاتوبعض صحابہ کرام کے ذہنوں  میں  اشکال پیداہواکہ اب توامن ہے ہمیں  سفرمیں  نمازقصرنہیں  کرنی چاہیے،

عَنْ یَعْلَى بْنِ أُمَیَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قُلْتُ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَكُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا} وَقَدْ آمَنَ اللَّهُ النَّاسَ؟ فَقَالَ لِی عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَیْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ

یعلی بن امیہ کہتے ہیں  میں  نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے دریافت کیااللہ توفرماتاہے کہ کوئی مضائقہ نہیں  اگرنمازمیں  اختصار کردو (خصوصاً )جبکہ تمہیں  اندیشہ ہوکہ کافرتمہیں  ستائیں  گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پرتلے ہوئے ہیں ،مگر اب تولوگ امن میں  ہیں ؟(اب قصرکرنے کی کیا ضرورت ہے)سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیامجھے بھی یہی خیال پیدا ہوا تھا اور میں  نے بھی یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاتھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جواس نے تمہیں  دیاہے تم اس صدقہ کوقبول کرو۔[11]

عَنْ أَبِی حَنْظَلَةَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ صَلَاةِ السَّفَرِ؟ فَقَالَ:رَكْعَتَیْنِ . قَالَ: قُلْتُ: فَأَیْنَ قَوْلُ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {فَإِنْ خِفْتُمْ}، [12] ، وَنَحْنُ آمِنُونَ؟ قَالَ: سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

ابوحنظلہ حذاء سے مروی ہے  میں  نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سفرکی نمازکا پوچھا توانہوں  نے فرمایادورکعتیں  ہیں ،میں  نے انہیں  کہاقرآن مجیدمیں  توخوف کے وقت دورکعتیں  ہیں  اوراس وقت تو پوری طرح امن وامان ہے؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے۔[13]

عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ:صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ أَوِ الْعَصْرَ بِمِنًى، أَكْثَرَ مَا كَانَ النَّاسُ، وَآمَنَهُ رَكْعَتَیْنِ

حارثہ بن وہب الخزاعی سے مروی ہے میں  نے(حجة الوداع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی میں  ظہراورعصرکی دو رکعتیں  نمازپڑھی ہیں  حالانکہ اس وقت ہم تعدادمیں  زیادہ تھے اورامن وامان میں  تھے۔[14]

دین اسلام کاایک ستون نمازہے اوریہ اسلام کاایک ایساحکم ہے جس کاکوئی مسلمان انکاری نہیں  ہے،قرآن کریم اوراحادیث میں  اسے اداکرنے کی بڑی تاکیدکی گئی ہے ، نماز کسی بھی صورت میں  معاف نہیں  ہے خواہ جنگ ہورہی ہویاآدمی سفرکی مشکلات سے دوچارہویابیمارہونمازہرحال میں  فرض ہے تاہم موقع کی مناسبت سے نمازپڑھنے کاحکم دیاگیاہے،سفرمیں  قصرکرنایعنی چارفرض کی بجائے دوفرض اداکرناجیسے ظہر،عصراورعشاء کی نمازیں  ہیں  یہ اللہ تعالیٰ کااپنے بندوں  پرخاص انعام ہے لہذااس سے فائدہ اٹھانا مستحب ہے،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:الصَّلاَةُ أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَیْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلاَةُ السَّفَرِ، وَأُتِمَّتْ صَلاَةُ الحَضَرِ

اس سلسلے میں  عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ابتداء میں  (سفرو حضر میں )دورکعت نمازفرض کی گئی تھی پھرسفرکی نمازکوباقی رکھاگیااورحضرکی نمازمکمل کردی گئی۔[15]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:فَرَضَ اللهُ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِیِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَفِی السَّفَرِ رَكْعَتَیْنِ، وَفِی الْخَوْفِ رَكْعَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےبیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے ذریعے مسافر پر دو رکعتیں ،مقیم پرچاررکعتیں  اور حالت خوف میں  ایک رکعت نماز فرض کی ہے ۔[16]

عَنْ أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ، وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِی الْقُرْآنِ، وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فِی الْقُرْآنِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ:یَا ابْنَ أَخِی، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَیْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ شَیْئًا، وَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَیْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ

امیہ بن عبداللہ سے مروی ہےیقیناً ہم حضر اور خوف کی نماز میں  پاتے ہیں  جبکہ سفر کی نماز قرآن میں  مذکور نہیں ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اے میرے بھتیجے!محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس حالت میں  آئے جب ہم گمراہ تھے (دین کی کوئی بات نہیں  جاتے تھے) توہم ویسا ہی کریں  گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قصرفرماتے دیکھاہے ۔[17]

نمازقصرصرف حالت جنگ کے لئے نہیں  ہے ،امن کی حالت میں  بھی نمازقصرجائز ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْمَدِینَةِ إِلَى مَكَّةَ لاَ یَخَافُ إِلاَّ رَبَّ العَالَمِینَ، فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ(حجة الوداع کے موقع پر) تشریف لے گئے اوراس وقت رب العالمین کے سواکسی کاخوف نہ تھا مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہی رکعتیں  پڑھیں ۔[18]

عَنْ یَعْلَى بْنِ أُمَیَّةَ، قَالَ: فَقَالَ:صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَیْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ

یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصرنمازکے متعلق فرمایایہ ایساصدقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پرصدقہ کیاہے لہذاتم اس کے صدقے کوقبول کرو۔[19]

عَنْ عُمَرَ، قَالَ:صَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سفرکی نمازدورکعت ہے[20]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخَصُهُ، كَمَا یَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِیَتُهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیشک اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی رخصتوں  پرعمل کواس طرح پسندکرتاہے جیسے اپنی نافرمانی کے ارتکاب کوناپسندکرتاہے۔[21]

ابْنَ عُمَرَ، یَقُولُ:صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ لاَ یَزِیدُ فِی السَّفَرِ عَلَى رَكْعَتَیْنِ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں  رہاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفردورکعتوں  سے زیادہ نہیں  پڑھتے تھے(سوائے فجرکی سنتوں  کےان دو رکعتوں  کے علاوہ کوئی سنت نمازنہیں  پڑھتے تھے) حتی کہ اللہ نے ان کوقبض کرلیااورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کاعمل بھی اسی طرح تھا۔[22]

وَلَمْ یَثْبُتْ عَنْهُ أَنَّهُ أَتَمَّ الرُّبَاعِیَّةَ فِی سَفَرِهِ الْبَتَّةَ

امام ابن قیم رحمہ اللہ کاکہناہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرمیں  چاررکعتیں  مکمل پڑھی ہوں  ۔ [23]

 مَا سَافَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَفَرًا إلَّا صَلَّى رَكْعَتَیْنِ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاکہناہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت سفرمیں  کبھی چاررکعت نمازادانہیں  کی[24]

 نمازقصرکے مسائل

کتنے فاصلے پرنمازقصرکی جاسکتی ہے:

وقال أبو حنیفة: مسیرة ثلاثة أیام

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ تین دن کی مسافت پرقصرکی جائے۔

امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمدکاموقف ہے کہ چار برید (اڑتالیس میل ہاشمی)پرقصر کرے ،یہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَا أَهْلَ مَكَّةَ لَا تَقْصُرُوا الصَّلَاةَ فِی أَدْنَى مِنْ أَرْبَعَةِ بُرُدٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى عَسْفَانَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اہل مکہ !چاربریدیعنی اڑتالیس میل سے کم مسافت پرقصرنہ کرو اور چار برید مکہ سے عسفان تک کادرمیانی فاصلہ ہے[25]

رَوَاهُ اَلدَّارَقُطْنِیُّ بِإِسْنَادٍ ضَعِیف ٍ وَالصَّحِیحُ أَنَّهُ مَوْقُوفٌ، كَذَا أَخْرَجَهُ اِبْنُ خُزَیْمَةَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے وضاحت فرمائی ہے اس روایت کودارقطنی نے ضعیف اسنادسےروایت کیاہے، صحیح یہ ہے کہ حدیث اسی طرح موقوف ہےاسی کوابن خزیمہ نے نکالا۔[26]

فی إسناده عبد الوهاب بن مجاهد بن جبر وهو متروك

نیزاس کی سندمیں  عبدالوھاب بن مجاہدبن جبرراوی متروک ہے لہذایہ قابل حجت نہیں ۔[27]

أَنْ یَتَطَوَّعَ لَیْلًا وَنَهَارًا قَصَرَ

امام اوزاعی رحمہ اللہ کا موقف ہےکم ازکم قصرکی مسافت ایک دن اور ایک رات ہے۔ [28]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَافَرَ فَرْسَخًا قَصَرَ الصَّلَاةَ

ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک فرسخ (تین میل)سفرکرتے توقصرنمازپڑھتے ۔[29]

عمارة ابن جوین بجیم مصغر أبو هارون العبدی مشهور بكنیته متروك

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت کی سند میں  راوی عمارة بن جوین جوابوھارون العبدی کی کنیت سے مشہورہے متروک ہے۔[30]

أَلَّا یَكُونَ لَهَا حَدٌّ بَلْ كُلُّ مَا یُسَمَّى سَفَرًا یُشْرَعُ

راجح قول یہ ہےجتنی مسافت کوعرف عام میں  سفر تصور کیا جاتا ہے وہاں  قصرپڑھ لی جائے۔

ابن تیمیہ رضی اللہ عنہ [31]حافظ ابن قیم رحمہ اللہ [32]امام شوکانی رحمہ اللہ [33] صدیق حسن خان رحمہ اللہ  [34] اسی کے قائل ہیں ۔

نمازقصرکہاں  سے شروع کرنی چاہیے:

وَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا یَجُوزُ الْقَصْرُ إِلَّا بَعْدَ مُفَارَقَةِ بُنْیَانِ الْبَلَدِ عِنْدَ أَبِی حَنِیفَةَ وَالشَّافِعِیِّ وَأَحْمَدَ، بَعْضُ التَّابِعِینَ إِنَّهُ یَجُوزُ أَنْ یَقْصُرَ مِنْ مَنْزِلِهِ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں  کہ شہری آبادی کے ختم ہوجانے کے بعدنمازقصرکی جائے،بعض تابعین نے تواپنے گھرسے ہی قصرنمازکوجائزقراردیاہے۔ [35]

أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ لِمُرِیدِ السَّفَر أَنْ یَقْصُر إذَا خَرَجَ عَنْ جَمِیع بُیُوتِ الْقَرْیَة الَّتِی یَخْرُجُ مِنْهَا.

ابن منذر رحمہ اللہ کاکہناہےعلماء کااجماع ہے کہ سفرکاارادہ رکھنے والاشخص جس بستی سے نکل رہاہے اس کے تمام گھروں  سے نکل کرقصرکرسکتاہے۔[36]

خَرَجَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلاَمُ: فَقَصَرَ وَهُوَ یَرَى البُیُوتَ، فَلَمَّا رَجَعَ قِیلَ لَهُ هَذِهِ الكُوفَةُ قَالَ:لاَ حَتَّى نَدْخُلَهَا

سیدناعلی رضی اللہ عنہ (کوفہ سے سفرکے ارادے سے)نکلے تواسی وقت نمازقصرپڑھنی شروع کردی جبکہ ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اورپھرواپسی پرجب آپ رضی اللہ عنہ کو بتایاگیاکہ یہ کوفہ سامنے ہےتوانہوں  نے کہا جب تک ہم شہرمیں  داخل نہ ہوجائیں  نمازمکمل نہیں  پڑھیں  گے۔[37]

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ، یَقْصُرَانِ، وَیُفْطِرَانِ فِی أَرْبَعَةِ بُرُدٍ وَهِیَ سِتَّةَ عَشَرَ فَرْسَخًا

عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما چاربرد(تقریباًاڑتالیس میل کی مسافت)پرقصرکرتے اورروزہ بھی افطارکرتے تھے ،چاربردمیں  سولہ فرسخ ہوتے ہیں  (اورایک فرسخ میں  تین میل)۔[38]

مسافرکتنے دن تک نمازقصرپڑھ سکتاہے:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِتَبُوكَ عِشْرِینَ یَوْمًا یَقْصُرُ الصَّلَاةَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں  بیس دن قیام فرمایاوہاں  آپ قصرنمازپڑھتے رہے۔[39]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:أَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةَ عَشَرَ یَقْصُرُ، فَنَحْنُ إِذَا سَافَرْنَا تِسْعَةَ عَشَرَ قَصَرْنَا، وَإِنْ زِدْنَا أَتْمَمْنَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ مکرمہ میں  فتح مکہ کے موقع پر) انیس روزقیام فرمایااس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم دورکعت نمازپڑھتے رہے،لہذااگرہم بھی دوران سفرانیس روزکہیں  اقامت اختیارکرتے توقصرنمازپڑھتے اوراگراس سے زیادہ ٹھیرتے تومکمل نمازاداکرلیتے۔[40]

ایک ضعیف روایت پندرہ دن کی بھی ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَ سَبْعَ عَشْرَةَ بِمَكَّةَ یَقْصُرُ الصَّلَاةَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:وَمَنْ أَقَامَ سَبْعَ عَشْرَةَ قَصَرَ، وَمَنْ أَقَامَ أَكْثَرَ أَتَمَّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں  سترہ دن ٹھیرے اورنمازقصرکرتے رہے،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاجوشخص سترہ دن اقامت کرے وہ قصرکرلے اورجواس سے زیادہ ٹھیرے وہ پوری نمازپڑھے۔ [41]

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: قَالَ عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقَامَ تِسْعَ عَشْرَةَ

امام ابوداودکہتے ہیں  کہ عبادبن منصورنے عکرمہ سے انہوں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس دن قیام کیا۔[42]

وَلَمْ یَصِحّ أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَصَرَ فِی الْإِقَامَة أَكْثَر مِنْ ذَلِكَ فَیُقْتَصَر عَلَى هَذَا الْمِقْدَار

امام شوکانی رحمہ اللہ کاموقف ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس روزسے زیادہ قصرثابت نہیں  اس لئے اسی مقدارپراکتفاکیاجائے گا۔[43]

إنَّهُ یَقْصُرُ أَبَدًا إذْ الْأَصْلُ السَّفَرُ

احناف کا موقف ہے حالت ترددمیں  ہمیشہ (یعنی واپسی تک ) قصر کی جائے گی ،امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں  یہی مروی ہے۔[44]

السُّنَّةُ أَنْ یَقْصُرَ الْمُسَافِرُ الصَّلَاةَ فَیُصَلِّیَ الرُّبَاعِیَّةَ رَكْعَتَیْنِ هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جَمِیعِ أَسْفَارِهِ. هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَلَمْ یُصَلِّ فِی السَّفَرِ أَرْبَعًا قَطُّ.

سنت یہی ہے کہ ترددکی حالت میں  (یعنی مسافرکہے کہ میں  آج سفرکرتاہوں  ،کل سفرکرتاہوں  )ہمیشہ قصرنمازپڑھنادرست ہے جب تک کہ واپسی نہ ہوجائے ،ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں [45]

وَرُوِی عَنْ عَلِیٍّ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَامَ عَشَرَةَ أَیَّامٍ أَتَمَّ الصَّلاَةَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جودس دن قیام کرے تووہ پوری نمازپڑھے،

وَرُوِی عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْمًا أَتَمَّ الصَّلاَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جوپندرہ دن قیام کرے وہ نمازپوری کرے،

وَرُوِیَ عَنْهُ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ

ان سے بارہ دن بھی مروی ہیں ،

أَنَّهُ قَالَ: إِذَا أَقَامَ أَرْبَعًا صَلَّى أَرْبَعًا، وَرَوَى عَنْهُ ذَلِكَ قَتَادَةُ، وَعَطَاءٌ الخُرَاسَانِیُّ وَرَوَى عَنْهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِی هِنْدٍ خِلاَفَ هَذَاوَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ بَعْدٌ فِی ذَلِكَ:فَأَمَّا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، وَأَهْلُ الكُوفَةِ فَذَهَبُوا إِلَى تَوْقِیتِ خَمْسَ عَشْرَةَ، وَقَالُوا: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلاَةَ ،وقَالَ الأَوْزَاعِیُّ:إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلاَةَ

سعیدبن مسیب سے مروی ہےانہوں  نے کہاجب چاردن ٹھیرے توچارپڑھے،اس بات کواس سے قتادہ اورعطاء خراسانی نے روایت کیااوران سے داؤدبن ابی ہندنے ان کے خلاف روایت کیا،اوراس کے بعدعلماء نے اس میں  اختلاف کیاتوسفیان ثوری اوراہل کوفہ نے پندرہ دن کاوقت مقررکیااورکہاجب پندرہ دن قیام کی نیت کرچکے توپوری نماز پڑھے،اوزاعی نے کہا بارہ دن قیام کی نیت کرچکے توپوری نمازپڑھے،

وقَالَ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِیُّ، وَأَحْمَدُ: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ أَرْبَعَةٍ أَتَمَّ الصَّلاَةَ، وَأَمَّا إِسْحَاقُ فَرَأَى أَقْوَى الْمَذَاهِبِ فِیهِ حَدِیثَ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لأَنَّهُ رَوَى عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَأَوَّلَهُ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ تِسْعَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلاَةَ

اورشافعی رحمہ اللہ اورمالک رحمہ اللہ اوراحمد رحمہ اللہ نے کہاجب چاردن قیام کی نیت کرے توپوری نماز پڑھے،اوراسحاق نے کہااس باب میں  سب سے قوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے کہ ایک توانہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اوردوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداس پرعمل کیاکہ جب انیس دن قیام کرے تونمازپوری پڑھے،

أَجْمَعَ أَهْلُ العِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمُسَافِرَ یَقْصُرُ مَا لَمْ یُجْمِعْ إِقَامَةً، وَإِنْ أَتَى عَلَیْهِ سِنُونَ

امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں  اہل علم نے اجماع کیاہے کہ مسافرجب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصرکرسکتاہے خواہ ایسا کرتے ہوئے کئی برس گزرجائیں ۔[46]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: أُرِیحَ عَلَیْنَا الثَّلْجُ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِیجَانَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فِی غَزَاةٍ . قَالَ ابْنُ عُمَرَ:وَكُنَّا نُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں  آزربائیجان کے علاقے میں  برف کی وجہ سے راستے بند ہو جانے کی بناپرچھ ماہ دورکعت نمازاداکرتارہا۔ [47]

 عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقَامُوا بِرَامَهُرْمُزَ تِسْعَةَ أَشْهُرٍ یَقْصُرُونَ الصَّلَاةَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رامہرمزکے علاقے میں  نوماہ رہے اور قصر نماز ادا کرتے رہے۔[48]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہاہے۔[49]

أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَقَامَ بِنَیْسَابُورَ سَنَةً أَوْ سَنَتَیْنِ یُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک(کسی غزوے کی وجہ سے)فارس کے علاقے نیساپور میں  ایک یادوسال مقیم رہے اور قصر نماز اداکرتے رہے۔[50]

مسافردونمازوں  کوتقدیم وتاخیرکے ساتھ جمع کرسکتاہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِیغَ الشَّمْسُ، أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ العَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ یَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زوال آفتاب سے پہلے سفرکاآغازفرماتے تو نماز ظہر کو نماز عصرتک موخر کر لیتے ،پھرسواری سے نیچے تشریف لاتے اور ظہر و عصر دونوں  نمازوں  کواکٹھاادافرمالیتے، اوراگرآفتاب آغازسفرسے پہلے زوال پذیر ہوجاتاتو پھر نماز ظہر ادا فرما کر سوارہوتے اور سفرپرروانہ ہوجاتے۔[51]

 عَنْ مُعَاذٍ:فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اگرکوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہروعصرکوجمع کرلیتے۔ [52]

 أَنَّ ابْنَ عُمَرَ،فَقَالَ:إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِی سَفَرٍ، جَمَعَ بَیْنَ هَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجب سفرمیں  جانے کی جلدی ہوتی تو(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمغرب موخرکردیتے حتی کہ) مغرب وعشاکواکٹھاپڑھ لیتے۔[53]

ایک روایت میں  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کواتناموخرکرتے کہ شفق(سرخی)غالب ہو جاتی،

عَنْ نَافِعٍ،فَقَالَ:إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِی سَفَرٍ، جَمَعَ بَیْنَ هَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، فَنَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَهُمَا

نافع سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرمیں  جلدی میں  ہوتے توان دونوں  نمازوں (مغرب اورعشائ)کوجمع کرلیاکرتے تھے چنانچہ آپ چلتے رہے حتی کہ شفق غائب ہوگئی تب اترے اوردونوں  نمازوں  کوجمع کرکے پڑھا ۔[54]

حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاةِ فِی سَفْرَةٍ سَافَرَهَا فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَمَعَ بَیْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سفرمیں  ظہروعصراورمغرب وعشاء کوجمع کیا۔[55]

فَیَجْمَعُونَ بَیْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَاتٍ فِی وَقْتِ الظُّهْرِ وَبَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بمزدلفة فی وقت العشاء بالاجماع

ان دلائل سے معلوم ہواکہ ظہرو عصر کو عرفات میں  ظہر کے ساتھ اور مغرب و عشاء کومزدلفہ میں  عشاء کے وقت میں  دوران سفرجمع کرلیناجائزودرست ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ،

لَا یَجُوزُ الْجَمْعُ بِسَبَبِ السَّفَرِ بِحَالٍ وَإِنَّمَا یَجُوزُ فِی عَرَفَاتٍ فِی وَقْتِ الظُّهْرِ وَفِی الْمُزْدَلِفَةِ فِی وَقْتِ الْعِشَاءِ بِسَبَبِ النُّسُكِ لِلْحَاضِرِ وَالْمُسَافِرِ وَلَا یَجُوزُ غَیْرُ ذَلِكَ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہےمزدلفہ اور عرفہ کے علاوہ کسی اورجگہ میں  جمع تقدیم وتاخیرجائزنہیں  البتہ جمع صوری جائزہے ،وہ یہ ہے کہ ایک نمازکوآخری وقت میں  اوردوسری کوابتدائی وقت میں  پڑھنااس طرح نمازیں  جمع بھی ہوجائیں  گی اورہرایک اپنے اپنے وقت میں  ہی اداہوگی ۔[56]

إذا جاز له القصر جاز له الجمع

ابن باز رحمہ اللہ کافتوی ہے کہ جب مسافر کیلئے قصر جائر ہوجائے تو نمازیں  جمع کر سکتا ہے۔[57]

وَإِذَا كُنتَ فِیهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْیَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْیَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ یُصَلُّوا فَلْیُصَلُّوا مَعَكَ وَلْیَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیلُونَ عَلَیْكُم مَّیْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِینَ عَذَابًا مُّهِینًا ‎﴿١٠٢﴾‏(النساء)
جب تم ان میں  ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے  کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں  تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں  اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں  پڑھی وہ آجائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لیے رہے، کافر چاہتے ہیں  کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں  اور اپنے سامان سے بےخبر ہوجاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں ،  ہاں  اپنے ہتھیار اتار رکھنے می ں  اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں  جب کہ تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہوجانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں  ساتھ لیے رہو ،یقیناً اللہ تعالیٰ نے منکروں  کے لیے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔

صلوٰة الخوف :جب مسلمانوں  اورکفارکی فوجیں  ایک دوسرے کے آمنے سامنے جنگ کے لئے تیارکھڑی ہوں  اورایک لمحے کی غفلت بھی مسلمانوں  کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہو اسے حالات میں  اگرنمازکاوقت آجائے تواس وقت صلوٰة الخوف پڑھنے کاحکم فرمایاجومتعددطریقوں  سے مروی ہے فرمایااے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !جب تم مسلمانوں  کے درمیان ہواور(حالت جنگ میں )انہیں  نمازپڑھانے کھڑے ہوتوچاہیے کہ اس وقت مجاہدین کے دوگروہ بن جائیں ایک گروہ تودشمن کے مقابل کھڑارہے تاکہ دشمن کوحملہ کرنے کی جرات نہ ہوسکے اوردوسراگروہ امام کے ساتھ کھڑاہوکرایک رکعت نمازپڑھےمگراسلحہ اپنے ساتھ لیے رہے،پھرجب وہ گروہ ایک رکعت نمازپڑھ لے توسلام پھیرکرپیچھے چلاجائے اوردشمن کے سامنے ڈٹ جائےپھردوسراگروہ جودشمن کے مقابل کھڑاتھااورجس نے ابھی تک نمازنہیں  پڑھی ہے پیچھے آکرامام کے ساتھ پڑھے اوروہ بھی دشمن سے چوکنا رہے اوراپنا اسلحہ اپنے ساتھ لیے رہے(اس طرح امام کی دورکعتیں  ہوں  گی اورمجاہدین کی ایک ایک رکعت ہوگی) کیوں  کہ کفاراس تاک میں  ہیں  کہ تم اپنے ہتھیاروں  اوراپنے سامان کی طرف سے ذراغافل ہوتووہ تم پریکبارگی دھاوابول دیں  ، البتہ اگرتم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرویابیمارہوتواسلحہ رکھ دینے میں  مضائقہ نہیں مگرپھربھی دشمن سےچوکنے رہو،یقین رکھوکہ اللہ نے کافروں  کے لیے جواللہ کے نورکواپنی پھونکوں  سے بجھاناچاہتے ہیں  رسواکن عذاب مہیاکررکھاہے۔

نمازخوف کی صورت یہ ہوئی تھی کہ

أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ، وَطَائِفَةٌ وِجَاهَ العَدُوِّ فَصَلَّى بِالَّتِی مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًاوَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَصَفُّوا وِجَاهَ العَدُوِّوَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الأُخْرَى فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِی بَقِیَتْ مِنْ صَلاَتِهِ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ

پہلے ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں  نمازپڑھی،اس وقت (مسلمانوں  کی)دوسری جماعت دشمن کے مقابلے پرکھڑی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماعت کو جو آپ کے پیچھے صف میں  کھڑی تھی ایک رکعت نمازخوف پڑھائی اوراس کے بعدآپ کھڑے رہے ،اس جماعت نے اس عرصہ میں  اپنی نمازپوری کرلی اورواپس آکر دشمن کے مقابلے میں  کھڑے ہوگئے،اس کے بعددوسری جماعت آئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  نمازکی دوسری رکعت پڑھائی جوباقی رہ گئی تھی اور(رکوع وسجدہ کے بعد)آپ قعدہ میں  بیٹھے رہے،پھران لوگوں  نے جب اپنی نماز(جوباقی رہ گئی تھی)پوری کرلی توآپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔[58]

فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ‎﴿١٠٣﴾‏ وَلَا تَهِنُوا فِی ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ یَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا یَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿١٠٤﴾‏(النساء)
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو اور جب اطمینان پاؤ تو نماز قائم کرو! یقیناً نماز مومنوں  پر مقررہ وقتوں  پر فرض ہے، ان لوگوں  کا پیچھا کرنے سے ہارے دل ہو کر بیٹھ نہ رہو! اگر تمہیں  بےآرامی ہوتی ہے تو انہیں  بھی تمہاری طرح بےآرامی ہوتی ہے، اور تم اللہ تعالیٰ سےوہ امید رکھتے ہوجو امید انہیں  نہیں ، اور اللہ تعالیٰ دانا اور حکیم ہے۔

پھرجب نماز خوف سےفارغ ہوجاؤتوکھڑے ،بیٹھے اورلیٹےہرحال میں  اللہ کویادکرتے رہو،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۴۵ۚ [59]

ترجمہ:اےلوگو جو ایمان لائےہو! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کروتوقع ہے کہ تمہیں  کامیابی نصیب ہو گی۔

اورجب خوف سے مامون ہوجاؤ اور اطمینان نصیب ہوجائے تونمازکواس کے تمام ارکان وشرائط کے ساتھ خشوع وخضوع کے ساتھ کامل طریقے سے اداکرو ، نماز درحقیقت ایسافرض ہے جوپابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پرلازم کیاگیاہے،

قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ:إِنَّ لِلصَّلَاةِ وَقْتًا كَوَقْتِ الْحَجِّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  نمازکاوقت بھی حج کے وقت کی طرح مقررہے۔[60]

کفارومشرکین جودعوت اسلام کی راہ میں  مانع ومزاحم بن کرکھڑے ہیں کے تعاقب میں  کمزوری نہ دکھاؤبلکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے ایمانی ولولہ سے ان کے خلاف بھرپورجدوجہدکرو،اگرتم غزوہ احدکی وجہ سےتکلیف اٹھارہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی غزوہ بدرکی تکلیف اٹھارہے ہیں اس طرح تم دونوں  ہی زخمی ہوجیسے فرمایا

اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ۝۰ۭ وَتِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۔۔۔ ۝۱۴۰ۙ [61]

ترجمہ:اس وقت اگر تمہیں  چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں  جنہیں  ہم لوگوں  کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔

مگران تکالیف پرتم مالک الارض وسماوات سے دائمی عظیم اجروثواب اورعذاب سے نجات کے امیدوار ہوجس کے وہ امیدوارنہیں  ہیں ،اللہ تعالیٰ علم کامل اور حکمت کامل کامالک ہے۔

ان قبائل پرمسلمانوں  کا رعب ودبدبہ قائم ہوگیاتوآپ خیروخوبی کے ساتھ مدینہ کی طرف چلے آئےاورقریش سے جنگ کی تیاریوں  میں  مصروف ہوگئے۔

إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِینَ خَصِیمًا ‎﴿١٠٥﴾‏ وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿١٠٦﴾‏ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِینَ یَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِیمًا ‎﴿١٠٧﴾‏(النساء)
یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں  میں  اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں  کے حمایتی نہ بنو،اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو ! بیشک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والامہربانی کرنے والا ہے،اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں ، یقیناً دغا باز گناہ گار اللہ تعالیٰ کو اچھا نہیں  لگتا۔

نزول قرآن کامقصدقیام عدل :

اس آیت کے نزول کے بارے میں  مروی ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ نَفَرًا مِنَ الْأَنْصَارِ غَزَوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ غَزَوَاتِهِ، فَسُرِقَتْ دِرْعٌ لِأَحَدِهِمْ، فَأُظِنَّ بِهَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَأَتَى صَاحِبُ الدِّرْعِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنْ طُعْمةَ بْنَ أُبَیْرق سَرَقَ دِرْعِی، فَلَمَّا رَأَى السَّارِقُ ذَلِكَ عَمَدَ إِلَیْهَا فَأَلْقَاهَا فِی بَیْتِ رَجُلٍ بَرِیءٍ، وَقَالَ لِنَفَرٍ مِنْ عَشِیرَتِهِ: إِنِّی غَیَّبْتُ الدِّرْعَ وَأَلْقَیْتُهَا فِی بَیْتِ فُلَانٍ، وَسَتُوجَدُ عِنْدَهُ. فَانْطَلِقُوا إِلَى نَبِیِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلًا فَقَالُوا: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، إِنَّ صَاحِبَنَا بَرِیءٌ. وَإِنَّ صَاحِبَ الدِّرْعِ فُلَانٌ، وَقَدْ أحطنا بذلك علما، فاعذُرْ صاحبنا على رءوس النَّاسِ وَجَادِلْ عَنْهُ. فَإِنَّهُ إِلَّا یَعْصِمْهُ اللَّهُ بِكَ یَهْلِكْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فبرأه وعذرَه على رءوس النَّاسِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {إِنَّا أَنزلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِینَ خَصِیمًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک غزوہ میں  انصارکاایک گروہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھاوہاں  کسی نے ایک شخص کی چادر چوری کرلی اورچوری کاگمان انصارکے ایک آدمی کی طرف تھا،جس شخص کی چادرچوری ہوئی تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااورکہا (قبیلہ بنی ظفرکے)طعمہ بن ابیرق نے میری چادر چرالی ہے،چورنے اس چادرکوایک شخص کے گھرمیں  اس کی بے خبری میں  ڈال دیااوراپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہاکہ میں  نے اس چادرکوفلاں  شخص کے گھرمیں  ڈال دی ہےچوری کی چادر اس کے گھرمیں  موجودہے،تم رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اورکہواے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماراساتھی توچورنہیں  ہےہم نے معلوم کرلیاہے کہ چورفلاں  شخص ہے،پس آپ تمام لوگوں  کے سامنے ہمارے ساتھی کی برأت کا اعلان کردیں اوراس کی حمایت فرمائیں  ورنہ ہمیں  خوف ہے کہ کہیں  وہ ہلاک نہ ہوجائے،( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم الغیب تونہیں  تھے کہ حقیقت کاعلم ہوتااس لئے)ان کی یہ(چکنی چپڑی) باتیں  سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آدمی کوبری قراردینے کے لئےلوگوں  کے سامنے کھڑے ہوئےجس پراللہ تعالیٰ نے حقیقت حال کوبیان کرنے کے لئےیہ آیات’’یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں  میں  اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے، اور خیانت کرنے والوں  کے حمایتی نہ بنو۔‘‘ نازل فرمائیں ۔[62]

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت فرمائی اورفرمایا اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے اس جلیل القدرکتاب کوشیاطین کے باطل وسوسوں  سے محفوظ ومامون رکھ کر تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ اللہ نے جوراہ راست تمہیں  دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں  کے مابین خون،اموال ،عزت وآبرو،حقوق عقائداورتمام مسائل واحکام میں  عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں ،جیسے فرمایا

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۝۳ۭاِنْ هُوَاِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى۝۴ۙ [63]

ترجمہ: وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں  بولتا،یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔

تم دعویٰ ناحق کرنے والے لوگوں  کی حمایت میں  کھڑے نہ ہوں اوربغیرتحقیق خیانت کرنے والوں کی حمایت ووکالت کرنے پراللہ سے مغفرت کی درخواست کریں ،وہ بڑا درگزرفرمانے والااوررحیم ہے،

أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَیْهِمْ، فَقَالَ:إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّهُ یَأْتِینِی الخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ یَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِی لَهُ بِذَلِكَ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِیَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ فَلْیَأْخُذْهَا أَوْ لِیَتْرُكْهَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ کے دروازہ پرجھگڑے کی آوازسنی توباہران کی طرف نکلے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  بھی ایک انسان ہوں  اورمیرے پاس لوگ مقدے لے کرآتے ہیں  ممکن ہے ان میں  سے ایک فریق دوسرے فریق سے بولنے میں  زیادہ عمدہ ہواورمیں  یقین کرلوں  کہ وہی سچاہے اوراس طرح اس کے موافق فیصلہ کردوں ،پس جس شخص کے لیے بھی میں  کسی مسلمان کاحق دلادوں  تووہ جہنم کاایک ٹکڑاہے وہ چاہے اسے لے یاچھوڑدے۔[64]

عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْتَصِمَانِ فِی مَوَارِیثَ بَیْنَهُمَا قَدْ دَرَسَتْ لَیْسَ لَهُمَا بَیِّنَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَیَّ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ یَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَإِنَّمَا أَقْضِی بَیْنَكُمْ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْكُمْ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِیهِ بِشَیْءٍ فَلَا یَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ، یَأْتِی بِهَا إِسْطَامًا فِی عُنُقِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، قَالَتْ: فَبَكَى الرَّجُلَانِ، وَقَالَ كُلٌّ مِنْهُمَا: حَقِّی لِأَخِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا إِذْ فَعَلْتُمَا فَاذْهَبَا وَاقْتَسِمَا، وَتَوَخَّیَا الْحَقَّ، ثُمَّ لِیَحْلِلْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا صَاحِبَهُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےفرماتی ہیں دوانصاری ایک ورثہ کے بارے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپناقضیہ لائے،اس واقعہ کوایک زمانہ بیت چکاتھااوراس کاکوئی شاہدیاگواہ نہیں  تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے لے کرآتے ہومیں تمہاری طرح ایک انسان ہوں جوسنتاہوں  اسی کے مطابق فیصلہ کردیتا ہوں  ممکن ہے ان میں  سے ایک فریق دوسرے فریق سے بولنے میں  زیادہ عمدہ ہواورمیں  جوسنوں  اس کے مطابق فیصلہ کردوں  تووہ میرے فیصلے کے بناپراپنے بھائی کاحق نہ لے لے،اگروہ ایساکرے گاتوقیامت کے دن اپنی گردن میں  جہنم کی آگ کاٹکڑالٹکاکرآئے گا،فرماتی ہیں  یہ سن کردونوں  بزرگ رونے لگے اورہرایک کہنے لگامیں  اپنا حق بھی اپنے بھائی کودے رہاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب تم جاؤجہاں  تک تم سے ہوسکے اپنے طورپرٹھیک ٹھیک حصے تقسیم کروپھرقرعہ ڈال کراپناحصہ لے لواور دونوں ایک دوسرے کواپنی رہی سہی غلطی کاحق معاف کردو۔[65]

جولوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں  تم ان کی حمایت اورمدافعت نہ کرو،اللہ تعالیٰ خیانت کاراورگنہگار شخص کودوست نہیں  رکھتا۔

یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ مَا لَا یَرْضَىٰ مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطًا ‎﴿١٠٨﴾‏ هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فَمَن یُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَم مَّن یَكُونُ عَلَیْهِمْ وَكِیلًا ‎﴿١٠٩﴾‏ وَمَن یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿١١٠﴾‏ وَمَن یَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا یَكْسِبُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿١١١﴾‏ وَمَن یَكْسِبْ خَطِیئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهِ بَرِیئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِینًا ‎﴿١١٢﴾‏(النساء)
وہ لوگوں  سے تو چھپ جاتے ہیں  (لیکن) اللہ تعالیٰ سے نہیں  چھپ سکتے، وہ راتوں  کے وقت جب کہ اللہ کی ناپسندیدہ باتوں  کے خفیہ مشورے کرتے ہیں  اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے تمام اعمال کو وہ گھیرے ہوئے ہے،  ہاں  تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں  تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ان کی  حمایت کون کرے گا ؟اور وہ کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا؟جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربانی کرنے والا پائے گا،اور جو گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اور اللہ بخوبی جاننے والا ہے اورپوری حکمت والاہے ،اور جو شخص کوئی گناہ یا خطا کرے  کسی بےگناہ کے ذمہ تھوپ دے، اس نے بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناہ کیا ۔

پھرخائن لوگوں  کے بارے میں  فرمایایہ خائن لوگ اپنی سازشوں  اور چرب زبانی سے انسانوں  سے اپنی حرکات چھپاسکتے ہیں  مگراللہ علام الغیوب سے ہرگز نہیں  چھپا سکتے،وہ تواس وقت بھی ان کودیکھ رہا ہوتاہے اوران کے نامہ اعمال میں  لکھاجارہاہوتاہے جب یہ راتوں  کوچھپ کرمجرم کی برات اوربے گناہ پرجرم تھوپنےکی سازشیں  کرتے ہیں  اورپھر چالاکی سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمل درآمدکرانے کی کوشش کرتے ہیں ،انہیں  معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے ان کی سازشوں  اوردل میں  چھپے بھیدوں  کوخوب جانتاہے،ہاں !تم لوگوں  نے دنیاکی زندگی میں توان مجرموں  کی طرف سےجھگڑاکرلیااورتمہاری حمایت سے وہ عاروفضیحت سے بچ بھی گئے مگر قیامت کے روزجب اس گناہ کی وجہ سے ان سے بازپرس کی جائے گی تواس وقت کون ان کواللہ کی گرفت سے بچاسکے گا؟آخروہاں  ان کی وکالت کون کرے گا؟یعنی کوئی حمایت اور وکالت کرنے والانہیں  ہوگابلکہ اس دن تومجرموں  کی زبانیں ،ان کے ہاتھ اوران کے پاؤں  ان کے کالے کرتوتوں  پرگواہی دیں  گےجیسے فرمایا

 یَوْمَىِٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللهَ هُوَالْحَقُّ الْمُبِیْنُ۝۲۵ [66]

ترجمہ:اس دن اللہ انہیں  بھر پوربدلہ دے دے گا جس کے وہ مستحق ہیں  اور انہیں  معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔

اگرکسی شخص سے کوئی چھوٹایابڑا گناہ سرزدہوجائے یاوہ اپنے نفس پرظلم کربیٹھے اوراس کے بعداپنے گناہوں  پرپشیمان ہوکرخلوص نیت سےاللہ سے درگزرکی درخواست کرے تو اللہ کودرگزرکرنے والااوررحیم پائے گا،

عَنْ عَلِیٍّ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: وَمَنْ یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَحِیمًا، قَالَ: أَخْبَرَ اللهُ عِبَادَهُ بِحِلْمِهِ وَعَفْوِهِ وَكَرَمِهِ , وَسَعَةِ رَحْمَتِهِ وَمَغْفِرَتِهِ , فَمَنْ أَذْنَبَ صَغِیرًا كَانَ أَوْ كَبِیرًا ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ , یَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَحِیمًا وَلَوْ كَانَتْ ذُنُوبُهُ أَعْظَمَ مِنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ

علی بن ابوطلحہ نے نے روایت کیاہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ’’اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا۔ ‘‘کے بارے میں  بھی فرمایا اس میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کواپنے عفو،حلم وکرم ،وسعت رحمت اورمغفرت کے بارے میں  بتایاہے کہ جوشخص کوئی بھی چھوٹایابڑاگناہ کر بیٹھے پھراللہ تعالیٰ سے بخشش مانگے تواللہ کوبخشنے والااورمہربان پائے گاخواہ اس کے گناہ آسمانوں ،زمین اورپہاڑوں  سے بھی بڑے کیوں  نہ ہوں ۔[67]

قَالَ عَلِیٌّ: رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: كُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا نَفَعَنِی اللَّهُ بِمَا شَاءَ أَنْ یَنْفَعَنِی مِنْهُ، وَحَدَّثَنِی أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ یَتَوَضَّأُ فَیُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِذَلِكَ الذَّنْبِ، إِلَّا غَفَرَ لَهُ وَقَرَأَ هَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ: {وَمَنْ یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِیمًا}، [68]، {وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ}،[69]

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا،مجھ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں  سچے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا ًمعاف فرما دے گااس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو آیتیں  پڑھیں ’’جو شخص کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے ، پھر اللہ سے معافی مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا مہربان پائے گا۔‘‘اور’’وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں  یا اپنے اوپر ظلم کریں  ۔‘‘[70]

مگرجوبرائی کمالے تواس کی یہ کمائی اسی کے لیے وبال ہوگی کسی دوسرے کواس کے گناہ پرنہیں  پکڑا جائے گااورنہ اس کے جرم سے بڑھ کرسزادی جائے گی،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۔۔۔ ۝۱۵ [71]

ترجمہ: کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ۔

وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَا۝۰ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۝۰۝۱۶۴ [72]

ترجمہ: ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں  اُٹھاتا۔

اللہ کوسب باتوں  کی خبرہے اور وہ حکیم وداناہے،پھرجس نے کوئی خطایاگناہ کرکے اس کاالزام کسی بے گناہ پرتھوپ دیااس نے توبڑے بہتان اورصریح گناہ کابارسمیٹ لیا۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن یُضِلُّوكَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا یَضُرُّونَكَ مِن شَیْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَیْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْكَ عَظِیمًا ‎﴿١١٣﴾‏(النساء)
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں ، یہ تیرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں  جانتا تھا،اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔

یہودو منافقین کی ریشہ دانیاں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  یہودونصاریٰ اورمنافقین کے روزمرہ زندگی کے مختلف نوعیت کے مقدمات پیش کیے جاتے تھے،ان لوگوں کی بھرپورکوشش ہوتی تھی کہ اپنی چرب زبانی ،غلط روئیداداورجھوٹی شہادتیں  پیش کرکے مقدمات میں  الجھاؤپیداکردیں  اورفیصلہ اپنے حق میں  کرالیں ،جس طرح بنوابیرق نے خودچوری کی اوراس کاالزام کسی اورپررکھ دیا،اللہ تعالیٰ نے ان کی اس روش پرفرمایاکہ اگروہ آپ کے سامنے غلط روئیداد،جھوٹی شہادتیں  پیش کرکے انصاف کے خلاف اپنے حق میں  فیصلہ حاصل کربھی لیں  تونقصان تب بھی انہی کاہےآپ کاکچھ بھی نہیں  بگڑتاکیونکہ اللہ کے نزدیک مجرم وہ ہوتے نہ کہ آپ،جوشخص حاکم کودھوکادے کراپنے حق میں  غلط فیصلہ حاصل کرتاہے وہ دراصل خوداپنے آپ کواس غلط فہمی میں  مبتلاکرتاہے کہ ان تدبیروں  سے حق اس کے ساتھ ہوگیاحالانکہ فی الواقع اللہ کے نزدیک حق جس کاہے اسی کارہتاہے اورعدالت کے کسی غلط فہمی کی بناپرفیصلہ کردینے سے حقیقت پرکوئی اثرنہیں  پڑتا،اللہ نے تم پریہ جلیل القدر کتاب قرآن مجید اور حکمت(سنت) نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں  معلوم نہ تھا جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ۝۵۲ۙ [73]

ترجمہ:اور اسی طرح (اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں  کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ۔

وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى۝۷۠ [74]

ترجمہ:اور تم کو ناواقف ِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ۔۔۔ ۝۸۶ۡ [75]

ترجمہ:تم اس بات کے ہر گز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی ۔

اور اللہ عزوجل کاتم پربہت فضل وکرم ہے۔

لَّا خَیْرَ فِی كَثِیرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿١١٤﴾‏ وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِیرًا ‎﴿١١٥﴾‏(النساء)
ان کے اکثر خفیہ مشوروں  میں  کوئی خیر نہیں ، ہاں ! بھلائی اس کے مشورے میں  ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں  میں  صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں  گے، جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں  کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں  گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں  ڈال دیں  گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔

لوگوں  کی خفیہ سرگوشیوں  میں  اکثروبیشترکوئی بھلائی نہیں  ہوتی ہاں  اگرکوئی پوشیدہ طورپرصدقہ وخیرات کی تلقین کرے،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، یُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّی، وَیَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَیَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ:أَوَلَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ؟ إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِیحَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَكْبِیرَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَحْمِیدَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَهْلِیلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْیٌ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِی بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَیَأتِی أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَیَكُونُ لَهُ فِیهَا أَجْرٌ؟ قَالَ: أَرَأَیْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِی حَرَامٍ أَكَانَ عَلَیْهِ فِیهَا وِزْرٌ؟ فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِی الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں  سے کچھ لوگوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مالدار سب ثواب لے گئے،وہ نماز پڑھتے ہیں  جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں ،وہ ہماری طرح روزہ رکھتے ہیں  اور وہ اپنے زائد اموال سے صدقہ کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لئے وہ چیز نہیں  بنائی جس سے تم کو بھی صدقہ کا ثواب ہو؟ ہرتسبیح صدقہ ہے،ہرتکبیرصدقہ ہے، ہر تعریفی کلمہ صدقہ ہے،ہرتہلیل(الاالٰہ الااللہ ) صدقہ ہے،نیکی کاحکم دیناصدقہ ہےاوربرائی سے روکناصدقہ ہے،اورتمہارے ہر ایک کی شرمگاہ میں  صدقہ ہے،صحابہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم میں  کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اس میں  بھی اس کے لئے ثواب ہے؟ فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں  اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا تو وہ اس کے لئے گناہ کا باعث ہوتااسی طرح اگر وہ اسے حلال جگہ صرف کرے گا تو اس پر اس کو ثواب حاصل ہوگا۔[76]

یاہروہ کام جس کاشریعت نے حکم دیاہو یالوگوں  کے معاملات میں  اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تویہ البتہ بھلی بات ہے، جیسے فرمایا

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا۝۰ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَی الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللهِ ۔۔۔ ۝۹ [77]

ترجمہ:اور اگر اہلِ ایمان میں  سے دو گروہ آپس میں  لڑ پڑیں  تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں  سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں  سے لڑو یہاں  تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔

۔۔۔ وَالصُّلْحُ خَیْرٌ۔۔۔۝۰۝۱۲۸ [78]

ترجمہ: صلح بہرحال بہتر ہے۔

أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَیْسَ الكَذَّابُ الَّذِی یُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ، فَیَنْمِی خَیْرًا، أَوْ یَقُولُ خَیْرًا

ام کلثوم بنت عقبہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ وہ جھوٹانہیں  جولوگوں  میں  باہم صلح کرنے کی کوشش کرے اوراس کے لئے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یااسی سلسلہ کی اورکوئی اچھی بات کہے دے۔[79]

مثلاًدوآدمیوں  میں  رنجش ہواوریہ صلح کرانے کی نیت سے کہے کہ آپ کوغلط فہمی ہوئی ہےوہ توآپ کے خیرخواہ ہیں  اورآپ کی تعریف کرتے ہیں یاکوئی ظالم کسی شخص کوقتل کرناچاہئے اوروہ ایک شخص کے پاس چھپا ہواہواورجب اس سے اس شخص کے بارے میں  پوچھاجائے تووہ کہے کہ میں  نہیں  جانتاکہ وہ شخص کہاں  ہے،

قسطلانی نے کہاایسے جھوٹ کی رخصت ہے جس سے بہت فائدے کی امیدہو۔

وَلَمْ أَسْمَعْ یُرَخَّصُ فِی شَیْءٍ مِمَّا یَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِی ثَلَاثٍ: الْحَرْبُ، وَالْإِصْلَاحُ بَیْنَ النَّاسِ، وَحَدِیثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِیثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا

اورایک روایت میں  اتنازیادہ ہے،تین جگہوں  پرجھوٹ بولنے کی اجازت ہے ایک تولڑائی میں ،دوسرے مسلمانوں  میں  آپس میں  صلح کرانے میں  اورتیسرے خاوندکو بیوی سے اوربیوی کوخاوندسے ملانے میں  ۔[80]

عَن أَنَس؛ أَنَّ النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لأَبِی أَیُّوبَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى تِجَارَةٍ قَالَ: بَلَى , قَالَ: تَسْعَى فِی صُلْحٍ بَیْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا وَتُقَارِبُ بَیْنَهُمْ إِذَا تَبَاعَدُوا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایاکیامیں  تمہیں  ایک تجارت بتلاؤں ؟انہوں  نے عرض کیاضروراے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !فرمایاجب لوگ باہم لڑرہے ہوں  توان میں  مصالحت کرادے اورجب باہم رنجیدہ ہوں  توانہیں  ملا دے۔[81]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصَّلَاةِ، وَالصِّیَامِ، وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا: بَلَى قَالَ:إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ قَالَ: وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَیْنِ هِیَ الْحَالِقَةُ

اورابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں  تمہیں  نماز، روزہ اور زکوٰة سے افضل درجے کا عمل نہ بتاؤں ؟ صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرورارشادفرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن لوگوں  میں  جدائیگی ہو گئی ہو ان میں  صلح کروانا اورفرمایالوگوں  کے باہمی تعلقات کوخراب کردیناتوایک ایساعمل ہے جوتباہ وبربادکردینے والاہے۔[82]

اورجوکوئی خلوص نیت سے اللہ کی رضاجوئی اورخوشنودی کے لیے ایساکرے گااسے ہم اجرعظیم عطا کریں  گے ، اوپربشیر بن ابیرق کاجوواقع بیان کیاگیا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی کی بناپر اس خائن مسلمان کے خلاف اوراس یہودی کے حق میں  فیصلہ فرمادیاتووہ خائن مرتدہوگیااورمدینہ منورہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں  کے پاس چلاگیا اور کھلم کھلامخالفت کرتارہا،اس کے بارے میں  فرمایامگر جوشخص محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پرکمربستہ ہواورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روش یعنی عقائدواعمال کے سواکسی اور روش پرچلے درآں  حالیکہ اس پرراہ راست واضح ہوچکی ہوتواس کوہم اسی طرف چلائیں  گے جدھروہ خودپھرگیااوراسے جہنم میں  جھونکیں  گے جوبدترین جائے قرارہے،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸۲ۚۖ [83]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جنہوں  نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہےتو انہیں  ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں  گے کہ انہیں  خبر تک نہ ہوگی۔

۔۔۔ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۵ [84]

ترجمہ:پھر جب انہوں  نے ٹیڑھ اِختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے اللہ فاسقوں  کو ہدایت نہیں  دیتا۔

 وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱۰ۧ [85]

ترجمہ:ہم اُسی طرح ان کے دلوں  اور نگاہوں  کو پھیر رہے ہیں  جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان لائے تھے، ہم انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے۔

۔۔۔اِنَّ اللهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۸۱ [86]

ترجمہ:مفسدوں  کے کام کو اللہ سدھرنے نہیں  دیتا۔

إِنَّ اللَّهَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن یَشَاءُ ۚ وَمَن یُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا ‎﴿١١٦﴾‏ إِن یَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن یَدْعُونَ إِلَّا شَیْطَانًا مَّرِیدًا ‎﴿١١٧﴾‏ لَّعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا ‎﴿١١٨﴾‏ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّیَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِینًا ‎﴿١١٩﴾(النساء)
اسے اللہ تعالیٰ قطعاًنہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے، ہاں  شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے، اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں  جا پڑا،یہ تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف عورتوں  کو پکارتے ہیں  اور دراصل یہ صرف سرکش شیطان کو پوجتے ہیں  جسے اللہ نے لعنت کی ہےاور اس نے بیڑا اٹھایا ہے کہ تیرے بندوں  میں  سے میں  مقرر شدہ حصہ لے کر رہوں  گا ،اور انہیں  راہ سے بہکاتا رہوں  گا اور باطل امیدیں  دلاتا رہوں  گا، اور انہیں  سکھاؤں  گا کہ جانوروں  کے کان چیر دیں ، اور ان سے کہوں  گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو ! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں  ڈوبے گا۔

شیطان کی عبادت:اللہ کے ہاں  شرک کی بخشش نہیں  ہے اس کے سوااورسب کچھ معاف ہوسکتاہے جسے وہ معاف کرناچاہئے ،جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایاوہ توگمراہی میں  بہت دورنکل گیا،اس نے اپنے آپ کودنیاوآخرت میں  ناکام ونامرادبنالیا،وہ دنیاوآخرت کی سعادتوں  اورکامرانیوں  سے محروم ہوگیا،اللہ تبارک وتعالیٰ نے جتنی بھی مخلوق تخلیق فرمائی اپنے قدرت کے لفظ کن سے تخلیق فرمائی مگرآدم علیہ السلام کواپنے ہاتھوں  سے تخلیق فرمایا

۔۔۔لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۔۔۔[87]

ترجمہ:جسے میں  نے اپنے دونوں  ہاتھوں  سے بنایا ہے۔

آدم علیہ السلام ساٹھ ہاتھ لمبے تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوپیداکیاتوان کوساٹھ ہاتھ لمبابنایا ۔[88]

اوراسے کچھ عرصہ کے لئے ایسے ہی چھوڑدیا،

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَمَّا صَوَّرَ اللهُ آدَمَ فِی الْجَنَّةِ تَرَكَهُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَتْرُكَهُ، فَجَعَلَ إِبْلِیسُ یُطِیفُ بِهِ، یَنْظُرُ مَا هُوَ، فَلَمَّا رَآهُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّهُ خُلِقَ خَلْقًا لَا یَتَمَالَكُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب اللہ تعالیٰ نے بہشت میں  آدم علیہ السلام کاپتلابنایاتوجتنی مدت تک چاہااس کوپڑارہنے دیاتوشیطان نے اس کی طرف دیکھنااوراس کے گردگھومناشروع کردیا پھرجب اس کوخالی پیٹ دیکھاتوجان گیاکہ یہ اس طرح پیداکیاگیاہے جوتھم نہ سکے گا۔[89]

ابلیس جوجنوں  میں  سے تھااوراللہ تعالیٰ کے عبادت گزاروں  میں  شامل تھااوراپنے دل میں  خودکوبہت اعلیٰ وارفع سمجھنے لگاتھاجب اس نے بیابان زمین اور انسان کی تخلیق کایہ منظردیکھاتواسے اندیشوں  اوروسوسوں  نے آگھیراکہ یہ زمین وآسمان کاعظیم الشان نظام ،دل آویزبہشت وہولناک جہنم کوبے مقصدیاکسی کھیل تماشا کے طورپرنہیں  بنایا گیا ہے اورنہ ہی رب کوئی بے مقصدکام کرتاہے، یقیناًادم علیہ السلام کواس زمین پرخلیفہ بنایاجارہاہے پھراس کاکوئی انجام بھی ہوگااورجزاوسزابھی ہوگی ، چنانچہ اس وقت جب آدم ایک پتلے کی شکل میں  تھے اوران میں  روح نہیں  پھونکی گئی تھی اس نے کہاتھاکہ اگراللہ نے مجھے اس پرمسلط کیاتومیں  اسے گمراہ کردوں  گایعنی اس وقت سے وہ انسان کی عزت وتکریم کی وجہ سے نفرت کرنے لگاتھا،جب اللہ تعالیٰ نے دوسرے فرشتوں  کے ساتھ اسے بھی آدم کوسجدہ کرنے کوکہاتواس کے شکوک یقین میں  بدل گئے اوراپنے بغض وحسدکی بناپراس نے سجدہ کرنے سے انکارکردیااورساتھ ہی پوری ڈھٹائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مقابل کھڑاہوکرقیامت تک کے لئےمہلت طلب کرنے لگاجواللہ نے دے دی،

 قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۳۶قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ۝۳۷ۙ [90]

ترجمہ: اس نے عرض کیا میرے رب یہ بات ہے تو پھر مجھے اس روز تک کے لیے مہلت دے جب کہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں  گے،فرمایا اچھا تجھے مہلت ہے۔

اس وقت اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی کہ میں  تیرے اس خلیفہ کودائیں ،بائیں  آگے پیچھے الغرض ہرطرح سے بہکاؤں  گااوران میں  سے اکثرکوتوشکرگزارنہ پائے گا،جیسے فرمایا

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [91]

ترجمہ:بولااچھا تو جس طرح تونے مجھے گمراہی میں  مبتلا کیا ہے میں  بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں  کی گھاٹ میں  لگا رہوں  گا،آگے اور پیچھے، دائیں  اور بائیں  ہر طرف سے ان کو گھیروں  گا اور تو ان میں  سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ۝۰ۡلَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا۝۶۲ [92]

ترجمہ:پھروہ بولا دیکھ توسہی،کیا یہ اس قابل تھا کہ تونے اسے مجھ پرفضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں  اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں  گے۔

ابلیس کے دعویٰ کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۶۴اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ۝۰ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِیْلًا۝۶۵ [93]

ترجمہ:تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا مال اور اولاد میں  ان کے ساتھ سا جھا لگا ، اور ان کو وعدوں  کے جال میں  پھنسا، اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ،یقیناً میرے بندوں  پر تجھے کوئی اقتدارحاصل نہ ہو گا اور توکل کے لیے تیرا رب کافی ہے۔

اورآدم علیہ السلام کوزمین پرایسے ہی نہیں  اتاردیاکہ وہ اس پراپنی مرضی کے قانون بناتااورشریعت تصنیف کرتاپھرے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیااورفرمایا

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى۝۰ۥۙ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی۝۱۲۳وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى۝۱۲۴قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا۝۱۲۵ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ [94]

ترجمہ: اور فرمایا تم دونوں  (فریق، یعنی انسان اور شیطان) یہاں  سے اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گےاب اگر میری طرف سے تمہیں  کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبختی میں  مبتلا ہوگااور جو میرے ذکر (درس نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں  تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں  گے،وہ کہے گا پروردگار !دنیا میں  تو میں  آنکھوں  والا تھا یہاں  مجھے اندھا کیوں  اٹھایااللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں  ، اسی طرح تو ہماری آیات کو جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں  تو نے بھلا دیا تھااسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے ۔

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ [95]

ترجمہ:ہم نے کہا کہ تم سب یہاں  سے اُتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں  گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ،اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں  گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں  گے وہ آگ میں  جانے والے ہیں  جہاں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کے باوجودابلیس نے اپنے اس دعویٰ کوسچاثابت کردکھایااس زمین پر بسنے والی قوموں  میں  اکثرلوگوں  نے اپنے خالق اوراس کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں اورنبویوں  کاانکارکیااوراپنے باطل معبودوں  کی پرستش میں  لگے رہے جس کی پاداش میں  آخرکارعبرت نگاہ بن گئے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۰ [96]

ترجمہ:ان کے معاملہ میں  اِبلیس نے اپنا گمان صحیح پایا اور انہوں  نے اُسی کی پیروی کی بجز ایک تھوڑے سے گروہ کے جو مومن تھا ۔

ا ہل عرب جوخودکودین ابراہیمی کا پیرو کار کہتے تھے نام کی حدتک اللہ کومانتے تھے ،اس کی قدرتوں  کے بھی قائل تھے مگراللہ وحدہ لاشریک جس کے قبضہ قدرت میں  ہرطرح کی طاقتیں  اورقدرتیں  ہیں  کو چھوڑ کر انہوں  نے بے شماردیویوں  جیسے لات،مناة،عزیٰ ،نائلہ وغیرہ اور دیوتاؤں  کواپنامعبودبنارکھاتھا ،اس کے ساتھ وہ فرشتوں  کو(نعوذباللہ) اللہ کی بیٹیاں  سمجھ کران کی عبادت کرتے تھے،جیسے فرمایا

 وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۝۰ۭ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ۝۰ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَیُسْــَٔــلُوْنَ۝۱۹ [97]

ترجمہ:اِنہوں  نے فرشتوں  کو جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں  عورتیں  قرار دے لیا کیا ان کے جسم کی ساخت اِنہوں  نے دیکھی ہے؟ اِن کی گواہی لِکھ لی جائے گی اور اِنہیں  اس کی جوابدہی کرنی ہو گی ۔

اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ۝۱۵۰ [98]

ترجمہ:کیا واقعی ہم نے ملائکہ کو عورتیں  ہی بنایا ہے اور یہ آنکھوں  دیکھی بات کہہ رہے ہیں ؟۔

وَجَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَبَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا۔۔۔ ۝۱۵۸ۙ [99]

ترجمہ:انہوں  نے اللہ اور ملائکہ کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ۔

اورجنوں  کی عبادت کرتے تھے ۔

عبادت دراصل کسی زندہ یامردہ انسان کومشکل کشاسمجھ کر مشکلات میں  پکارنا،اس سے آس وامید رکھنا ، اسے غیب داں  جاننا،اسے روزی رساں  سمجھنا،اس کاخوف دل میں  رکھنا وغیرہ ہے ،چاہے اسی عبادت مٹی وپتھرکے بتوں  کی جائے،فرشتوں  کی تشبیہ بناکر کی جائے یاکسی دوسری فانی انسانوں  کے آستانوں  اورچوکھٹوں  پر سر جھکاکرکی جائے دراصل شیطان کی عبادت کرنے کے معترادف ہے کیونکہ شیطان ہی نے انہیں  اس کاحکم دیااورمزین اورخوبصورت کرکے پیش کیا،جیسے فرمایا

 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ۝۳ۙ [100]

ترجمہ:بعض لوگ ایسے ہیں  جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں  بحثیں  کرتے ہیں  اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں ۔

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [101]

ترجمہ:آدم کے بچو کیا میں  نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اور شیطان نے رب کے حضوردعویٰ کیاتھاکہ میں انسانوں  کے اوقات میں ،ان کی محنتوں  اورکوششوں  میں  ،ان کی قوتوں  اورقابلیتوں  میں ،ان کے مال اوراولادمیں  اپناحصہ لگاؤں  گا،

عَنْ مُقَاتِلٍ ,مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعُمِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَى النَّارِ وَوَاحِدٌ إِلَى الْجَنَّةِ

مقاتل بن حیان فرماتے ہیں  ہرایک ہزارمیں  سے نوسوننانوے لوگ جہنم رسیدہوں  گے اورصرف ایک شخص جنت میں  جائے گا۔[102]

اوران کوفریب دے کر ایساپرچاؤں  گاکہ وہ ان ساری چیزوں  کاایک معتدبہ حصہ میری راہ میں  صرف کریں  گے،میں  انہیں  گمراہ کرنے کے لئے ان کے دلوں  میں  وسوسوں  اوردخل اندازی سے باطل امیدیں  جگاؤں  گا،یہ دعویٰ بھی اس نے سچ کردکھایا،دوسری قوموں  کی طرح اہل عرب بھی اللہ اوراپنے معبودوں  کے حضورنذرونیازپیش کرتے تھے،قربانیاں  کرتےتھے لیکن مگراگرکسی وجہ سے معبودکی نذرونیازکم پڑجاتی تواللہ کے حصہ سے نکال کرمعبودکی نذرونیازپوری کردی جاتی تھی۔شیطان نے یہ بھی دعویٰ کیاتھاکہ میں  انسانوں  کو حکم دوں  گااوروہ میرے حکم سے جانوروں  کے کان پھاڑیں  گیا،یہ دعویٰ بھی سچاثابت ہوگیا ، عربوں  میں  توہمات کی بھرمارتھی وہ جانوروں  کے کان معبودوں  کے نام پرچیر کر آزاد چھوڑ دیتے ،اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب اونٹنی پانچ یادس بچے جن لیتی تواس کے کان پھاڑکراسے اپنے معبودکے نام پرچھوڑدیتے تھے پھراس سے کام لینااس کادودھ پینااوراس کی اون کاٹنا حرام سمجھتے تھے اسے بحیرہ کہاجاتاتھا ،اسی طرح جس اونٹ کے نطفہ سے دس بچے ہو جاتے یا کسی اونٹ کے بچے کابچہ سواری کے قابل ہوجاتا اس کابھی کان چیرکر دیوتاکے نام پرچھوڑ دیاجاتاتھااس کوحام کہاجاتاتھا،اس طرح وہ اونٹ یااونٹنی جسے کسی نے اپنی کسی بیما ری سے شفامندی،کسی ضرورت کے پوراہونے یاکسی بڑے خطرے سے نجات پانے کے بعداپنی نذرکوپوراکرنے کے لئے اونٹ یااونٹنی کو شکرانے کے طورپر آزاد چھوڑدیاہوتایاجواونٹنی لگاتار دس مادہ ہی جنتی اسے بھی کان چیرکر آزاد چھوڑ دیتے تھے اسے سائبہ کہتے تھے۔ اور اگربکری کاپہلابچہ نرپیداہوتاتووہ اپنے دیوتاوں  کی خوشنودی کے لئے ذبح کردیاجاتالیکن اگربکری پہلابچہ مادہ جنتی تواسے ذبح نہ کیاجاتا ، اگر بکری دوبچے ایک ساتھ دیتی جن میں  ایک نرہوتااورایک مادہ تونربچے کودیوتاوں  کے نام پرذبح کرنے کے بجائے اسی بھی کان چیرکر آذادچھوڑدیاجاتاتھااسے وصیلہ کہتے تھے ۔ بہرحال جانورکے کان چیرنااس بات کی علامت تھاکہ یہ معبودکے نام پر چھوڑا ہوامقدس جانورہےاب اس سے فائدہ نہیں  اٹھایاجاسکتا۔اس نے یہ دعویٰ بھی کیاتھاکہ میں  انسان کواس طرح بہکاؤں  گاکہ وہ تیری کسی چیزسے وہ کام لے گاجس کے لئے تونے اسے پیدانہیں  کیاہوگایعنی انسان اپنی اوراشیاء کی فطرت کے خلاف کرے گا، مثلاًعمل قوم لوط ،ضبط ولادت،رہبانیت،مردوں  اورعورتوں  کوبانجھ بنانا،مردوں  کوخواجہ سرابنانا،عورتوں  کوان خدمات سے منحرف کرنا جوفطرت نے ان کے سپردکی ہیں  اور انہیں  تمدن کے ان شعبوں  میں  گھسیٹ لاناجن کے لئے مردپیداکیاگیاہے۔اللہ تعالیٰ جوغفورالرحیم ہے،جوگرفت کرنے کے بجائے معاف کردینے کوزیادہ پسندکرتا ہے،

وَاللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَفُوٌّ یُحِبُّ الْعَفْوَ

اللہ عزوجل بخشنے والاہے اوربخش دینے کوپسندفرماتاہے۔[103]

قَالَتْ عَائِشَةُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ وَافَقْتُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ، مَا أَقُولُ؟ قَالَ:تَقُولِینَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیں  لیلة القدرکی رات کوپاؤں  تو رب سے کیامانگوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم یہ کہنااے اللہ! توبخشنے والامہربان ہے بخش دینے کوپسندفرماتاہے پس میرے گناہوں  کوبخش دے ۔[104]

جس نے روزاول ہی اپنے عرش پرلکھ دیاہے کہ میری رحمت میرے غضب پرحاوی ہے،اس نے ایک بنیادی قانون دیاکہ انسان خطاکرے گا،اس سے گناہ سرزدہوں  گے مگرجب وہ مجھ سے معافی کاخواستگارہوگاتومیں  اپنی رحمت سے اسے معاف کردوں  گااورسیدھے راستے کی طرف رہنمائی کروں  گا،لیکن اس شخص کومیں  کبھی بھی معاف نہیں  کروں  گاجوشیطان کواپناسرپرست بناکرمجھ پرظلم عظیم کرے گایعنی میری قدرت ،میرے اختیارات،میرے حقوق اور میری صفات میں  کسی کوچاہئے وہ نبی ہوں ،فرشتے ہوں ،جن ہوں  یاانسان کو شریک کرے گا اس کی سزاجہنم کی ہولناک گہرائیوں  میں  طرح طرح کے عذاب ہیں ،جس کی آگ میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ غوطے کھاتارہے گا اور گلو خلاصی کی کوئی راہ نہ پائے گا۔

یَعِدُهُمْ وَیُمَنِّیهِمْ ۖ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ‎﴿١٢٠﴾‏ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا یَجِدُونَ عَنْهَا مَحِیصًا ‎﴿١٢١﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِیلًا ‎﴿١٢٢﴾‏(النساء)
وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہے گااور سبز باغ دکھاتا رہے گا (مگر یاد رکھو ! ) شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں  وہ سراسر فریب کاریاں  ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں  جن کی جگہ جہنم ہے جہاں  سے انہیں  چھٹکارا نہ ملے گا،اور جو ایمان لائیں  اور بھلے کام کریں  ہم انہیں  ان جنتوں  میں  لے جائیں  گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں  یہ ابدالآباد رہیں  گے،  یہ ہے اللہ کا وعدہ جو سراسر سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں  اللہ سے زیادہ سچا ہو ۔

شیطان کاساراشیطانی کاروبارمحض وعدوں  اورامیدوں  کے بل بوتے پرچلتاہے اس لئے فرمایاشیطان ان لوگوں  سے بڑے خوبصورت وعدے کرتاہے اورانہیں  دنیا و آخرت کی کامیابیوں  وکامرانیوں کی بڑی بڑی امیدیں  دلاتاہے،مگرشیطان کے سارے وعدے بجز دھوکہ اورفریب کے اورکچھ نہیں  ہیں  جیسے فرمایا

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ۔۔۔ ۝۲۶۸ۖۙ [105]

ترجمہ:شیطان تمہیں  مفلسی سے ڈراتا ہے اورشرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَاۗءَهٗ۔۔۔۝۰۝۱۷۵ [106]

ترجمہ:اب تمہیں  معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں  سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا۔

اورجہنم میں  آگ کے تخت پرکھڑاہوکر صاف صاف اپنے پیروکاروں  پربات رکھے گا،

وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ اِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۲ [107]

ترجمہ: اور جب فیصلہ چکادیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں  نے جتنے وعدے کیے ان میں  سے کوئی بھی پورا نہ کیا، میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں  ، میں  نے اس کے سوا کچھ نہیں  کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا،اب مجھے ملامت نہ کرواپنے آپ ہی کو ملامت کرو،یہاں  نہ میں  تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں  اور نہ تم میری، اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں  شریک بنا رکھا تھا میں  اس سے بری الذمہ ہوں  ، ایسے ظالموں  کے لیے جنہوں  نے اپنے رب سے روگردانی کی اورشیطان کے پیروکاروں  میں  شامل ہوکراس کی اطاعت کی تو درد ناک سزا یقینی ہے۔

ایسے بدبخت لوگوں  کاٹھکاناجہنم ہے جس میں  وہ ابدالآبادتک رہیں  گے اوراس سے خلاصی کی کوئی صورت نہ پائیں  گے،رہے وہ خوش بخت لوگ جو اللہ وحدہ لاشریک پر،اس کے ان گنت فرشتوں ،اس کی منزل کتابوں ،اس کے رسولوں  ،روزآخرت اوراچھی یابری تقدیرپرایمان لے آئیں  اوراعمال صالحہ اختیار کریں  توانہیں  ہم ایسے گھنے سایوں  والےباغوں  میں  داخل کریں  گے جن کے نیچے انواع واقسام کی نہریں  بہتی ہوں  گی اورایسی نعمتیں  ہوں  گی جن کاتصوربھی نہیں  کیاجاسکتا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [108]

ترجمہ:پھر جیسا کچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں  ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کاارشادہے میں  نے اپنے نیک بندوں  کے لئے وہ چیزیں  تیار کر رکھی ہیں  جنہیں اس سے پہلے نہ کسی آنکھ نے دیکھاہے نہ کانوں  نے سناہے اورنہ کسی انسان کے دل میں  ان کاکوئی تصورہی گزراہے اگر تم چاہتے ہوتو اس آیت’’پھر جیسا کچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں  ہے۔‘‘کی تلاوت کرو ۔[109]

وہاں  وہ شاہانہ شان سے ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے،یہ اللہ کاسچاوعدہ ہے اوراللہ سے بڑھ کرکون اپنی بات میں  سچا ہوگا ،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ، فِی خُطْبَتِهِ یَحْمَدُ اللهَ، وَیُثْنِی عَلَیْهِ بِمَا هُوَ لَهُ أَهْلٌ، ثُمَّ یَقُولُ: مَنْ یهْدِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا هَادِیَ لَهُ إِنَّ أَصَدَقَ الْحَدِیثِ كِتَابُ اللهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْیِ هَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے خاتم الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں  فرماتے تھےجسے اللہ راہ ہدایت نصیب فرمادے اسے کوئی گمراہ نہیں  کرسکتااورجسے وہ اپنی حکمت کے تحت گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں  دے سکتا،سب سے سچی بات اللہ کاکلام ہےاورسب سے بہترہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے،اورتمام کاموں  میں  سب سے براکام دین میں  نکلی ہوئی نئی بات ہےاورہرنئی بات بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہےاورہرگمراہی جہنم میں  ہے۔[110]

لَّیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ وَلَا یَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿١٢٣﴾‏ وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُونَ نَقِیرًا ‎﴿١٢٤﴾‏ وَمَنْ أَحْسَنُ دِینًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ‎﴿١٢٥﴾‏ وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیطًا ‎﴿١٢٦﴾(النساء)
حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں  پر موقوف ہے، جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا اور کسی کو نہ پائے گا جو اس کی حمایت و مدد اللہ کے پاس کرسکے،جو ایمان والا ہو مرد ہو یا عورت اور وہ نیک اعمال کرے یقیناً ایسے لوگ جنت میں  جائیں  گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ، باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے جو اپنے کو اللہ کے تابع کردے وہ بھی نیکو کار، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم کے دین کی پیروی کر رہا ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنالیا ہے، آسمانوں  اور زمین میں  جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔

اہل کتاب بڑی خوش گمانیوں  میں  مبتلاتھے اوربڑے بڑے دعوے کرتے تھے،

 وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ۔۔۔۝۰۝۱۸ [111]

ترجمہ:اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں  کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔

اورشدومدسے دعویٰ کرتے تھے کہ ہمیں  جہنم کی آگ چھوبھی نہ سکے گی،

۔۔۔قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۔۔۔۝۰۝۲۴ [112]

ترجمہ: وہ کہتے ہیں  آتشِ دوزخ تو ہمیں  مس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز ۔

وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ تِلْكَ اَمَانِیُّھُمْ ۔۔۔ ۝۱۱۱ [113]

ترجمہ:ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں  نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں  کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو، یہ ان کی تمنائیں  ہیں ۔

عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْمُسْلِمِینَ , وَأَهْلُ الْكِتَابِ افْتَخَرُوا فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ: نَبِیُّنَا قَبْلَ نَبِیِّكُمْ،وَكِتَابُنَا قَبْلَ كِتَابِكُمْ وَنَحْنُ أَوْلَى بِاللهِ مِنْكُمْ ، وَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: نَحْنُ أَوْلَى بِاللهِ مِنْكُمْ , نَبِیُّنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَكِتَابُنَا یَقْضِی عَلَى الْكُتُبِ الَّتِی كَانَتْ قَبْلَهُ فَأَنْزَلَ اللهُ: {لَیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ , مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَمَنْ أَحْسَنُ دِینًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا} فَأَفْلَجَ اللهُ حُجَّةَ الْمُسْلِمِینَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ مِنْ أَهْلِ الْأَدْیَانِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ہم سے یہ بیان کیاگیاکہ مسلمانوں  اوراہل کتاب نے ایک دوسرے پرفخرکااظہارکیا،اہل کتاب نے کہاکہ ہمارانبی تمہارے نبی سے پہلے گزراہے ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے نازل ہوئی ہے،لہذاتمہاری نسبت ہم اللہ کے زیادہ قریب ہیں ، اس کے جواب میں  مسلمانوں  نے کہاکہ تمہاری نسبت ہم اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم توخاتم النبیین ہیں ،اورہماری کتاب سابقہ تمام آسمانی کتابوں  کی ناسخ ہے،اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’انجام کارنہ تمہاری آرزوؤں  پرموقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں  پر،جوبھی برائی کرے گااس کاپھل پائے گااوراللہ کے مقابلہ میں  اپنے لیے کوئی حامی ومددگارنہ پاسکے گااورجونیک عمل کرے گاخواہ مردہویاعورت بشرطیکہ ہووہ مومن توایسے ہی لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے اوران کی ذرہ برابرحق تلفی نہ ہونے پائے گی،اس شخص سے بہتراورکس کاطریق زندگی ہوسکتاہے جس نے اللہ کے آگے سرتسلیم خم کردیااوراپنارویہ نیک رکھااوریکسوہوکرابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی پیروی کی۔‘‘چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ مسلمانوں  کی حجت کوان اہل کتاب کے خلاف ظاہراورغالب کرتے ہوئے فرمایاہے جنہوں  نے مسلمانوں  سے مقابلہ کیاتھا۔[114]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: {لَیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ}،[115] إِلَى: {وَلَا نَصِیرًا}، [116] تَحَاكَمَ أَهْلُ الْأَدْیَانِ , فَقَالَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ: كِتَابُنَا خَیْرٌ مِنَ الْكُتُبِ , أُنْزِلَ قَبْلَ كِتَابِكُمْ , وَنَبِیُّنَا خَیْرُ الْأَنْبِیَاءِ. وَقَالَ أَهْلُ الْإِنْجِیلِ مِثْلَ ذَلِكَ. وَقَالَ أَهْلُ الْإِسْلَامِ: لَا دِینَ إِلَّا الْإِسْلَامُ , كِتَابُنَا نَسَخَ كُلَّ كِتَابٍ , وَنَبِیُّنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ , وَأُمِرْتُمْ وَأُمِرْنَا أَنْ نُؤْمِنَ بِكِتَابِكُمْ , وَنَعْمَلَ بِكِتَابِنَا. فقَضَى اللَّهُ بَیْنَهُمْ فَقَالَ: {لَیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ}، [117] بِهِ وَخَیَّرَ بَیْنَ أَهْلِ الْأَدْیَانِ فَقَالَ: {وَمَنْ أَحْسَنُ دِینًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا}، [118]

عوفی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے کہ انہوں  نے بھی اس آیت’’انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں  پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں  پر۔‘‘کے بارے میں  فرمایا مختلف ادیان سے وابستہ لوگوں  نے آپس میں  جھگڑاکیا اہل تورات نے کہاکہ ہماری کتاب تمام کتابوں  سے بہترہے اورتمہاری کتاب سے پہلے نازل ہوئی ہے ہمارے نبی تمام نبیوں  سے بہترہیں  ، اہل انجیل نے بھی اسی طرح کہااوراہل اسلام نے کہاکہ اسلام کے سوااورکوئی دین ،دین ہی نہیں  ہے، ہماری کتاب نے سابقہ تمام کتابوں  کومنسوخ کردیاہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم توخاتم النبیین ہیں  اورہمیں  اورتمہیں  یہ حکم دیاگیاہے کہ ہم تمہاری کتاب پرایمان ضرورلائیں  لیکن عمل اپنی ہی کتاب کے مطابق کریں  تواللہ تعالیٰ نے ان مختلف اہل ادیان میں  فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا’’انجام کارنہ تمہاری آرزوؤں  پرموقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں  پر،جوبھی برائی کرے گااس کاپھل پائے گااوراللہ کے مقابلہ میں  اپنے لیے کوئی حامی ومددگارنہ پاسکے گااورجونیک عمل کرے گاخواہ مردہویاعورت بشرطیکہ ہووہ مومن توایسے ہی لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے اوران کی ذرہ برابرحق تلفی نہ ہونے پائے گی ،اس شخص سے بہتراورکس کاطریق زندگی ہوسکتاہے جس نے اللہ کے آگے سرتسلیم خم کردیااوراپنارویہ نیک رکھااوریکسوہوکرابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی پیروی کی،اس ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنادوست بنالیاتھا۔‘‘[119]

اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اوراہل ایمان کی خوش فہمیوں  کاپردہ چاک کرکے فرمایاآخرت کی کامیابیاں  عمل سے عاری محض تمہاری تمناؤں  اور آرزوؤں  پرمبنی نہیں ہے جنت کی نعمتیں  حاصل کرنے کے لئےاللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول کی اطاعت اوررسول کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیارکرناضروری ہے ،جوشخص بھی صغیرہ یاکبیرہ گناہ کرے گاروزقیامت وہ اس کودیکھ لے گااورہرصورت اس کی سزاپاکررہے گا،جیسے فرمایا

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [120]

ترجمہ:پس جس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گااورجس نے ذرہ برابربرائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔

لوگوں  کو یہ زعم ہے کہ اس کاکوئی حمایتی یامددگاریاکوئی سفارشی اس سے اللہ کا عذاب دورکردے گاتوفرمایاکوئی گناہ گاراللہ کے مقابلہ میں  اپنے لیے کوئی حامی ومددگارنہ پا سکے گا، اورجو شخص اللہ اوراس کے رسول پرایمان لاکراور رسول کی سنت کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کرے گاخواہ مردہویاعورت تواللہ ایسے ہی لوگوں  کو انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت میں  داخل فرمائے گا اوران کی ذرہ برابرحق تلفی نہ ہونے پائے گی بلکہ وہ اپنے اعمال کا پورا پورا ، وافراورکئی گنازیادہ اجرپائیں  گے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ: {مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ} ؟ قَالَ:نَعَمْ، وَمَنْ یَعْمَلْ حَسَنَةً یُجزَ بِهَا عَشْرًا. فَهَلَكَ مَنْ غَلَبَ وَاحِدَتُهُ عَشْرًا”

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہربرائی کابدلہ دیاجائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، اسی جیسااوراسی جتنالیکن ہربھلائی کابدلہ دس گنابڑھاکر دیا جائے گاپس اس شخص پرافسوس ہے جس کی اکائیاں  دہائیوں  سے بڑھ جائیں ۔[121]

دین میں اس شخص سے بہتراورکس کا طریق زندگی ہوسکتاہے جس نے اخلاص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کےاحکام،اس کی نازل کردہ شریعت کے آگے اپنا سرتسلیم خم کر دیا اوراپنارویہ نیک رکھا اور ہر طرف سے منہ موڑ کرابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کے طریقے کی پیروی کی،جیسے فرمایا

ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۲۳ [122]

ترجمہ:پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیم کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں  میں  سے نہ تھا۔

اس ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کی جوہر آزمائش میں  پورااترے تھےاورپھر اللہ نے انہیں  تمام لوگوں  کے لئے پیشواٹھیرایااور اپناخلیل بنالیااورتمام جہانوں  میں  ان کے ذکر کو بلند کیا،جیسے فرمایا

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۔۔۔ ۝۱۲۴ [123]

ترجمہ:یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں  میں  آزمایا اور وہ ان سب میں  پورا اُتر گیا تو اس نے کہا میں  تجھے سب لوگوں  کا پیشوا بنانے والا ہوں  ۔

اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰى۝۳۶ۙوَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی۝۳۷ۙ [124]

ترجمہ:کیا اسے ان باتوں  کی کوئی خبر نہیں  پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں اور اس ابراہیم کے صحیفوں  میں  بیان ہوئی ہیں  جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ ۔

حَدَّثَنِی جُنْدَبٌ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ بِخَمْسٍ، وَهُوَ یَقُولُ:إِنِّی أَبْرَأُ إِلَى اللهِ أَنْ یَكُونَ لِی مِنْكُمْ خَلِیلٌ، فَإِنَّ اللهِ تَعَالَى قَدِ اتَّخَذَنِی خَلِیلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا،

جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نےوفات سے پانچ روزپہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ میں  اس بات سےبیزارہوں  کہ اللہ کے سوا تم میں  سے کسی کو اپنا دوست بناؤں  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوست بنایاہے جیسے ابراہیم علیہ السلام کودوست بنایاتھا۔[125]

وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا مِنْ أُمَّتِی لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِیلًا

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں  اپنی امت میں  سے کسی کودوست بناتاتو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کودوست بناتا۔[126]

آسمانوں  اورزمین اوران کے درمیان جوکچھ سب کاخالق ،مالک ، رازق اورتمام معاملات کی تدبیرکرنے والااللہ وحدہ لاشریک ہے،تمام مخلوقات اس کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، اس لئے انسان کوچاہیے کہ وہ بھی سرکشی چھوڑکرا للہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے، اوراگروہ شیطان کے دلفریب وعدوں  پریقین کرکے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت نہیں  کرتاتووہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں  سکے گا ۔

لَّیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ وَلَا یَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿١٢٣﴾‏ وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُونَ نَقِیرًا ‎﴿١٢٤﴾‏ وَمَنْ أَحْسَنُ دِینًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ‎﴿١٢٥﴾‏ وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیطًا ‎﴿١٢٦﴾(النساء)
آپ سےعورتوں  کے بارے میں  حکم دریافت کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے ! خود اللہ ان کے بارے میں  حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں  جو تم پر یتیم لڑکیوں  کے بارے میں  پڑھی جاتی ہیں  جنہیں  ان کا مقرر حق تم نہیں  دیتے ، اور انہیں  اپنے نکاح میں  لانے کی رغبت رکھتے ہو اور کمزور بچوں  کے بارے میں  اور اس بارے میں  کہ یتیموں  کی کار گزاری انصاف کے ساتھ کرو، تم جو نیک کام کرو بےشبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے ۔

سورہ نساء کی آیات تین اورچار کے نزول کے بعدصحابہ کرام  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی مزیدوضاحت چاہی کہ اگرایک سے زائدبیویاں  ہونے کی صورت میں  جوعدل وانصاف کاحکم دیاگیاہے اس پرکس طرح عمل کیاجائے جبکہ ایک بیوی دائم المرض ہے یاتعلق زن وشوکے قابل نہیں  رہی ہے،کیااس صورت میں  بھی اس پرلازم ہے کہ دونوں  کے ساتھ یکساں  رغبت رکھے ؟یکساں  محبت رکھے؟جسمانی تعلق میں  بھی یکسانی برتے ؟اوراگروہ ایسانہ کرے توکیاعدل کی شرط کاتقاضایہ ہے کہ وہ دوسری شادی کرنے کے لئے پہلی بیوی چھوڑدے ؟نیزیہ کہ اگرپہلی بیوی خودجدانہ ہوناچاہے توکیازوجین میں  اس قسم کامعاملہ ہوسکتاہے کہ جوبیوی غیرمرغوب ہوچکی ہے وہ اپنے بعض حقوق سے خود دست بردارہوکرشوہرکوطلاق سے بازرہنے پرراضی کرلے؟کیاایساکرناعدل کی شرط کے خلاف تونہ ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان سے کہہ دیں  کہ خوداللہ ان کی بابت وضاحت فرماتاہے اورکتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں  جواس سے قبل یتیم لڑکیوں  کے بارے میں  نازل ہوچکی ہے،پس عورتوں  کے تمام معاملات میں  اللہ تعالیٰ نے جوفتویٰ دیاہے اس کے مطابق اس پرعمل کرو، عام طورپراورخاص طورپران کے حقوق اداکرواوران پرظلم کرناچھوڑدو،اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایازمانہ جاہلیت میں  صرف بڑے لڑکے کوہی وارث سمجھاجاتاتھا،چھوٹے کمزوربچے اورعورتیں  وراثت سے محروم ہوتی تھیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کمزور بچوں  اوریتیموں  کے معاملہ میں  اہتمام اوران کے حقوق میں  کوتاہی پرخصوصی وصیت فرمائی کہ یتیم لڑکوں  اورعورتوں  کے معاملے میں  کتاب اللہ کے اندرجوکچھ تم پرتلاوت کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں  اسی کافتوی ٰ دیتاہے کہ ماں  باپ اورقریبوں  کے مال سے ان کوخواہ لڑکے ہوں  یالڑکیاں  حصہ موافق شریعت دیا کرو،خلاصہ سب کایہ ہے کہ یتیم بچی صاحب جمال ہوتب بھی اوربدصورت ہوتب بھی دونوں  صورتوں  میں  انصاف کرو،

أَخْبَرَنِی عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِی الیَتَامَى} [127]، قَالَتْ: یَا ابْنَ أُخْتِی، هَذِهِ الیَتِیمَةُ تَكُونُ فِی حِجْرِ وَلِیِّهَا، فَیَرْغَبُ فِی جَمَالِهَا وَمَالِهَا، وَیُرِیدُ أَنْ یَنْتَقِصَ صَدَاقَهَا فَنُهُوا عَنْ نِكَاحِهِنَّ إِلَّا أَنْ یُقْسِطُوا فِی إِكْمَالِ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا بِنِكَاحِ مَنْ سِوَاهُنَّ. قَالَتْ:وَاسْتَفْتَى النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَیَسْتَفْتُونَكَ فِی النِّسَاءِ}، [128] إِلَى {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ}،[129] فَأَنْزَلَ اللَّهُ لَهُمْ: أَنَّ الیَتِیمَةَ إِذَا كَانَتْ ذَاتَ جَمَالٍ وَمَالٍ رَغِبُوا فِی نِكَاحِهَا وَنَسَبِهَا وَسُنَّتِهَا فِی إِكْمَالِ الصَّدَاقِ، وَإِذَا كَانَتْ مَرْغُوبَةً عَنْهَا فِی قِلَّةِ المَالِ وَالجَمَالِ، تَرَكُوهَا وَأَخَذُوا غَیْرَهَا مِنَ النِّسَاءِ “ قَالَتْ: فَكَمَا یَتْرُكُونَهَا حِینَ یَرْغَبُونَ عَنْهَا، فَلَیْسَ لَهُمْ أَنْ یَنْكِحُوهَا إِذَا رَغِبُوا فِیهَا، إِلَّا أَنْ یُقْسِطُوا لَهَا، وَیُعْطُوهَا حَقَّهَا الأَوْفَى فِی الصَّدَاقِ

عروہ بن زبیرنے خبردی میں  نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آیت’’ اوراگرتمہیں  خوف ہوکہ یتیم لڑکیوں  کے بارے میں  تم انصاف نہیں  کرسکوگے۔‘‘ کے متعلق سوال کیاعائشہ رضی اللہ عنہا نے کہامیرے بھانجے!اس آیت میں  اس یتیم لڑکی کاحکم بیان ہواہے جواپنے ولی کی پرورش میں  ہواوراس کاولی اس کی خوبصورتی اورمال داری پرریجھ کریہ چاہئے کہ اس سے نکاح کرےلیکن اس کے مہرمیں  کمی کرنے کابھی ارادہ ہو ایسے ولی کواپنی زیرپرورش یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیاگیاہے البتہ اس صورت میں  انہیں  نکاح کی اجازت ہے جب وہ ان کامہرانصاف سے پورااداکردیں  گے اگروہ ایسانہ کریں  توپھرآیت میں  ایسے ولیوں  کوحکم دیاگیاکہ وہ اپنی زیرپرورش یتیم لڑکی کے سواکسی اورسے نکاح کرلیں ،عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ لوگوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بعدسوال کیاتواللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں  آیت’’ لوگ تم سے عورتوں  کے بارے میں  فتویٰ پوچھتے ہیں  سے لیکراورجن کے نکاح کرنے سے تم بازرہتے ہو(یالالچ کی بناپرتم خودان سے نکاح کرلیناچاہتے ہو)۔‘‘تک نازل فرمائی،اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاکہ یتیم لڑکیاں  اگرخوبصورت اورصاحب مال ہوں  توان کے ولی بھی ان کے ساتھ نکاح کرلیناچاہتے ہیں  ،اس کاخاندان پسندکرتے ہیں  اورمہرپوراادکرکے ان سے نکاح کرلیتے ہیں لیکن ان میں  حسن کی کمی ہواورمال بھی نہ ہوتوپھران کی طرف رغبت نہیں  ہوگی اوروہ انہیں  چھوڑکردوسری عورتوں  سے نکاح کرلیتے ہیں ،عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ آیت کامطلب یہ ہے کہ جسے اس وقت یتیم لڑکی کوچھوڑدیتے ہیں  جب وہ نادارہواورخوبصورت نہ ہوایسے ہی اس وقت بھی چھوڑدیناچاہیے جب وہ مالداراورخوبصورت ہوالبتہ اگراس کے حق میں  انصاف کریں  اوراس کامہرپورااداکریں  تب اس سے نکاح کرسکتے ہیں  ۔[130]

اوراللہ تعالیٰ نے کمزوربچوں  اوریتیموں  کے معاملے میں  کوتاہی پرزجروتوبیخ کے طورپرخصوصی وصیت فرمائی اور وہ احکام جوان چھوٹے بچوں  کے متعلق ہیں  جوبیچارے زورنہیں  رکھتے ،اللہ تمہیں  ہدایت کرتاہے کہ تم وراثت میں  یتیموں  کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لو اورظلم واستبدادسے ان کے مال پرقبضہ نہ جمالو،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ {وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ}كَمَا إِذَا كَانَتْ ذَاتَ جَمَالٍ وَمَالٍ نَكَحْتَهَا وَاسْتَأْثَرْتَ بِهَا كَذَلِكَ إِذَا لَمْ تَكُنْ ذَاتَ جَمَالٍ وَلَا مَالٍ فَانْكِحْهَا وَاسْتَأْثِرْ بِهَا

سعیدبن جبیرنے اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ اوراللہ تمہیں  ہدایت کرتاہے کہ یتیموں  کے ساتھ انصاف پرقائم رہو۔‘‘کے بارے میں  فرمایاہے کہ جیسے یتیم لڑکی کے صاحب مال وجمال ہونے کی صورت میں  تم اس کوترجیح دیتے ہواس سے خودنکاح کرلیتے ہو،توایسے ہی اگروہ صاحب مال وجمال نہ ہوتوپھربھی اس سے نکاح کرلواوراس صورت میں  بھی اسی کوترجیح دو۔[131]

اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کرنے کاشوق دلاتے ہوئے فرمایاتم یتیموں  یادوسروں  کے ساتھ جوبھی بھلائی تم کروگے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہے سکے گی اورقیامت کے روزاللہ ہرایک کواس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَیْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ‎﴿١٢٨﴾‏(النساء)
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بددماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں  آپس میں  صلح کرلیں  اس میں  کسی پر کوئی گناہ نہیں  ، صلح بہت بہتر چیز ہے، طمع ہر ہر نفس میں  شامل کردی گئی ہے، اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے۔

خاوندکی زیادتی کے بارے میں  احکام :خاونداگرکسی وجہ سے اپنی بیوی کوناپسندکرے اوراس سے دوررہنااوراعراض کرنامعمول بنالے یاایک سے زیادہ بیویاں  ہونے کی صورت میں  کسی کم ترخوبصورت بیوی سے اعراض کرے تواگرعورت اپنے تمام یاکچھ حق (مہرسے یانان ونفقہ سے یاباری سے)چھوڑکرخاوندسے مصالحت کرلے تاکہ وہ اسے طلاق نہ دے دے تواس مصالحت میں  خاوند یا بیوی پرکوئی گناہ نہیں ،کیونکہ صلح بہرحال طلاق وجدائی سے بہترہے۔

وَلِهَذَا لَمَّا كَبِرَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَة عَزْمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فِرَاقِهَا فَصَالَحَتْهُ عَلَى أَنْ یُمْسِكَهَا، وَتَتْرُكَ یَوْمَهَا لِعَائِشَةَ، فَقَبِل ذَلِكَ مِنْهَا وَأَبْقَاهَا عَلَى ذَلِكَ

جب ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ بہت بوڑھی ہوگئیں  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  طاق دینے کاارادہ فرمایاتوانہوں  نے اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کرلی کہ وہ انہیں  طلاق نہ دیں  میں  اپنی باری ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کوہبہ کردیتی ہوں  چنانچہ اسی پرصلح ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کوقبول فرمالیا۔[132]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:فَمَا اصْطَلَحَا عَلَیْهِ مِنْ شَیْءٍ فَهُوَ جَائِزٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  دونوں  جس چیزپربھی صلح کرلیں  وہ جائزہے۔[133]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمام حلال چیزوں  میں  سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیزاللہ کے نزدیک طلاق ہے۔[134]

شیخ البانی نے اس روایت کوضعیف قراردیاہے۔[135]

بخل اورطمع انسان کی جبلت میں  شامل ہے لیکن اگرتم لوگ اپنے نفس سے اس گھٹیاخلق کاقلع قمع کرکے بے رغبتی کے باوجود عورتوں  سے احسان سے پیش آؤاورپرہیزگاری سے کام لے کران کے حقوق گھٹانے کی کوشش نہ کروتویقین رکھوکہ اللہ تمہارے اس طرزعمل سے بے خبرنہ ہوگااوروہ تمہیں  اس کی پوری پوری جزادے گا۔

وَلَن تَسْتَطِیعُوا أَن تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِیلُوا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿١٢٩﴾(النساء)
تم سے یہ کبھی نہیں  ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں  میں  ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کرلو ، اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی نہ چھوڑو ، اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بیویوں  کے درمیان عدل وانصاف کی مزیدتشریح فرمائی کہ تم چاہئے کتنی ہی خواہش اورکوشش کرو بیویوں  کے درمیان پوراپوراعدل وانصاف کرناتمہارے بس میں  نہیں  ہے ،تمہارادلی رجحان ومحبت میں  کمی بیشی ہونافطری بات ہے جس پرکسی کواختیارنہیں  ہے ،جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ازواج مطہرات کے مقابلہ میں  ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت رکھتے تھے،لہذاایسابھی نہ کروکہ ایک بیوی ہی کی طرف مائل نہ ہوجاؤ اوردوسری کومعلق چھوڑدوکہ نہ تواس کےحقوق زوجیت اداکرواورنہ ہی اسے طلاق دے کرآزادکردوتاکہ وہ کہیں  اورجگہ نکاح کرسکے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ {فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ} قَالَ: لَا مُطَلَّقَةٌ وَلَا ذَاتُ بَعْلٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ دوسری کواس طرح چھوڑدو گویا وہ نہ شوہروالی ہواورنہ مطلقہ۔[136]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَهُمَا جَاءَ یَوْمَ القِیَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرکسی شخص کی دوبیویاں  ہوں  اوروہ اختیاررکھنے کے باوجودان میں  (شب باشی وغیرہ میں )عدل نہ کرے توقیامت کے دن وہ اس حال میں  آئے گاکہ اس کےجسم کانصف حصہ ساقط ہوگا ۔[137]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ فَیَعْدِلُ، وَیَقُولُ:اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِی، فِیمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِی، فِیمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی ازواج محترمات کے مابین)تقسیم کرتے اورعدل کرتے اوردعافرمایاکرتے تھےاے اللہ!یہ میری تقسیم ہے جومیرے بس میں  ہے اوراس بات میں  مجھے ملامت نہ فرماناجس کاتومالک ہے اورمیرااس پراختیارنہیں  یعنی معاشرتی برتاؤمیں  میں  کوتاہی نہیں  کرتالیکن دل کامعاملہ میرے اختیارمیں  نہیں  اس لئے قلبی محبت میں  کمی بیشی پرمجھے ملامت نہ کرنا۔[138]

اس طرح اگرتم اپنی استطاعت بھر عورتوں  کے درمیان نان ونفقہ،لباس اورشب باشی کی تقسیم میں عدل وانصاف اوربرابری کروگے تواللہ بھی جواپنے بندوں  پررحم فرمانے والااوربخشنے والاہے تمہاری لغزشوں  اورکوتاہیوں  کو نظر انداز فرمادے گا۔

وَإِن یَتَفَرَّقَا یُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِیمًا ‎﴿١٣٠﴾‏ وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِیَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَنِیًّا حَمِیدًا ‎﴿١٣١﴾‏ وَلِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِیلًا ‎﴿١٣٢﴾‏ إِن یَشَأْ یُذْهِبْكُمْ أَیُّهَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِینَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ قَدِیرًا ‎﴿١٣٣﴾‏ مَّن كَانَ یُرِیدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِندَ اللَّهِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِیعًا بَصِیرًا ‎﴿١٣٤﴾‏(النساء)
اور اگر میاں  بیوی جدا ہوجائیں  تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بےنیاز کر دے گا اللہ تعالیٰ وسعت والا حکمت والا ہے ،زمین اور آسمانوں  کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت میں  ہے، واقعی ہم نے ان لوگوں  کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے، اور اللہ بہت بےنیاز اور تعریف کیا گیا ہے،اللہ کے اختیار میں  ہے آسمانوں  کی سب چیزیں  اور زمین کی بھی اور اللہ کارساز کافی ہے،اگر اسے منظور ہو تو اے لوگو ! وہ تم سب کو لے جائے اور دوسروں  کو لے آئے اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ،جو شخص دنیا کا ثواب چاہتا ہو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا ا ور آخرت (دونوں ) کا ثواب موجود ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے

پھرتیسری صورت بیان فرمائی کہ کوشش کے باوجود حالت اس موڑپرپہنچ جائیں  کہ میاں  بیوی میں  نباہ کی کوئی صورت نہ رہے اورزوجین طلاق،فسخ یاخلع کے ذریعے ایک دوسرے سے الگ ہی ہوجائیں  توممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں  میاں  بیوی کواپنے فضل وکرم اورلامحدوداحسان کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بے نیازکردے ،شوہرکوکسی دوسری بیوی کے ذریعے سے پہلی بیوی سے اوربیوی کواپنے فضل وکرم سے مستغنی کردے ،اللہ تعالیٰ بہت زیادہ فضل وکرم اوربے پایاں  رحمت کامالک ہے،اگروہ کسی کو عطا کرتا ہےیامحروم کرتاہے توحکمت کی بنیادپرہی کرتاہے،ساتوں  آسمانوں  اورزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب کاخالق ومالک اللہ ہی کاہے،تم سے پہلے بھی ہم نے اہل کتاب کو یہی ہدایت کی تھی اوراب تم کوبھی یہی ہدایت کرتے ہیں  کہ اللہ وحدہ لاشریک تسلیم کرو ،اس کے سواکسی اورکی عبادت نہ کرولیکن اگرتم اطاعت گزارنہیں  بنتے اوراس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہیں  کرتے اورایسی چیزوں  کواللہ کاشریک ٹھیراتے ہوجس پراللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں  کی،جیسے فرمایا

 وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ۝۰ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ۔۔۔۝۰۝۱۱۷ [139]

ترجمہ:اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔

تونہ مانواس طرح تم اپناہی نقصان کرو گے ، اسمانوں  وزمین کی ساری چیزوں  کامالک اللہ ہی ہے اوروہ بے نیاز اورہرطرح کی تعریف کا مستحق ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللهُ۝۰ۭ وَاللهُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۶ [140]

ترجمہ:اس طرح انہوں  نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا تب اللہ بھی ان سے بے پروا ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں  آپ محمود ۔

پھرمکررفرمایاہاں  آسمانوں  اورزمین میں  اللہ وحدہ لاشریک ہی کااقتدارہے ،اورکارسازی کے لیے بس وہی کافی ہے،لوگوں  کے اپنے کفرپرقائم رہنے اوراپنے معبودحقیقی سے روگردانی کرنے پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایااللہ ہی قدرت کاملہ اورمشیت نافذہ کامالک ہےاگروہ چاہے توتم لوگوں  کوتمہارے اعمال باطلہ کے سبب اس دنیاسے نیست ونابودکر کے تمہاری جگہ اورلوگوں  کوپیداکردے،جوتم سے بہتراوراللہ تعالیٰ کی زیادہ اطاعت گزارہوں  گےاوروہ اس کی پوری قدرت رکھتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۝۳۸ۧ [141]

ترجمہ: اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں  گے۔

جوشخص کوتاہ نظری سےمحض ثواب دنیاکاطالب ہوتواسے معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ کے پاس ثواب دنیابھی ہے اورثواب آخرت بھی،جوکوئی صرف دنیاہی کاطالب ہوتوہم اسے اسی دنیامیں  ہی عطاکردیتے ہیں لیکن آخرت میں  وہ اس کاکوئی حصہ نہیں  ہوگا،جیسے متعدد مقامات پرفرمایا

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۝۲۰ [142]

ترجمہ:جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں  ، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں  سے دیتے ہیں  مگر آخرت میں  اس کا کوئی حصہ نہیں  ہے۔

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۱۸ [143]

ترجمہ:جو کوئی (اس دنیا میں ) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں  کا خواہشمند ہو اسے یہیں  ہم دے دیتے ہیں  جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں  ، پھر اس کے مقسوم میں  جہنم لکھ دیتے ہیں  جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر ۔

 مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَهُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ۝۱۵ [144]

ترجمہ:جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں  کے طالب ہوتے ہیں  ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں  ان کو دے دیتے ہیں  اور اس میں  ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں  کی جاتی۔

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ۝۲۰۰وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۲۰۱ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا۝۰ۭ وَاللهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۲۰۲ [145]

ترجمہ: (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں  میں  بھی بہت فرق ہے) ان میں  سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں  دنیا ہی میں  سب کچھ دے دے ، ایسے شخص کے لیے آخرت میں  کوئی حصہ نہیں ،اورکوئی کہتا ہے کہ ! اے ہمارے رب ! ہمیں  دنیا میں  بھی بھلا ئی دے اور آخرت میں  بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں  بچاایسے لو گ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں  جگہ) حصہ پائیں  گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں  لگتی۔

اس لئے صرف دنیاہی کے تھوڑے سے ناپائیدار متاع کواپنانصب ا لعین کی نہ بنالوبلکہ اللہ تعالیٰ سے دنیاوآخرت کے دائمی ثواب کے طلبگاربنواوراللہ سمیع وبصیرہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ ۚ إِن یَكُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ‎﴿١٣٥﴾(النساء)
اے ایمان والو ! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ گ و وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں  باپ کے یا رشتہ داروں  عزیزوں  کے، وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں  کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے، اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی کی یا پہلو تہی کی  تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

انصاف اورسچی گواہی تقوی کی روح ہے: اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوعدل وانصاف قائم کرنے اورحق کے مطابق گواہی دینے کی تاکیدفرمائی اے لوگوجوایمان لائے ہو!اپنے تمام احوال میں  یعنی حقوق اللہ اورحقوق العبادمیں عدل وانصاف کے علمبرداربنو تاکہ معاشرے سے ظلم وفساد مٹ جائے اوراس کی جگہ عدل وانصاف قائم ہوجائے ،جیسےایک اورمقام پرفرمایا

۔۔۔وَاَقِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلهِ ۔۔۔ ۝۲ۙ [146]

ترجمہ:اور (اے گواہ بننے والو!) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیے ادا کرو ۔

اوراللہ تمہاری گواہی کسی ذاتی مفادکے بجائے صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہیے اگرچہ تمہارے انصاف اورتمہاری گواہی کی زدخودتمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اوررشتہ داروں  پرہی کیوں  نہ پڑتی ہو،فریق معاملہ خواہ مالدارہو تواس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اوراگرتنگ دست ہے توبزعم خویش اس کے فقرکا اندیشہ نہ کرو بلکہ ہرحال میں  عدل کے تقاضوں  کواہمت دو،اللہ تم سے زیادہ ان کاخیرخواہ ہے،لہذااپنی خواہش نفس یاذاتی دشمنی یا قومیت یادینی بغض وتعصبات کی پیروی میں  عدل وانصاف سے بازنہ رہوبلکہ ان سب کونظراندازکرکے بے لاگ عدل کرو،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ هُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰۝۸ [147]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ،کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ، عدل کرو ، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔

قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، لَمَّا بَعَثَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْرُصُ عَلَى أَهْلِ خَیْبَرَ ثِمَارَهُمْ وَزَرْعَهُمْ، فَأَرَادُوا أَنْ یُرْشُوه لِیَرْفُقَ بِهِمْ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ أَحَبِّ الْخَلْقِ إلیَّ، وَلْأَنْتَمْ أَبْغَضُ إلیَّ مِنْ أَعْدَادِكُمْ مِنَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِیرِ، وَمَا یَحْمِلُنِی حُبی إِیَّاهُ وَبُغْضِی لَكُمْ عَلَى أَلَّا أَعْدِلَ فِیكُمْ. فَقَالُوا: “بِهَذَا قَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ

عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خیبرکے یہودیوں  کی طرف بھیجاتاکہ وہ وہاں  کے پھلوں  اورفصلوں  کاتخمینہ لگاکرآئیں ،یہودیوں  نے انہیں  رشوت کی پیش کش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں ،انہوں  نے جواب دیااللہ کی قسم!میں  اس کی طرف سے نمائندہ بن کرآیاہوں  جودنیامیں  مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اورتم میرے نزدیک بندروں  اورخنزیروں  سے بدترہولیکن اپنے محبوب کی محبت اورتمہاری دشمنی مجھے اس بات پرآمادہ نہیں  کرسکتی کہ میں  تمہارے معاملے میں  انصاف نہ کروں ، یہ سن کرانہوں  نے کہااسی عدل کی وجہ سے آسمان وزمین کایہ نظام قائم ہے۔[148]

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله علیه وسلم كَانَ یَبْعَثُ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ إِلَى خَیْبَرَ. فَیَخْرُصُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ یَهُودِ خَیْبَرَ. قَالَ، فَجَمَعُوا لَهُ حُلْیاً مِنْ حَلْیِ نِسَائِهِمْ. فَقَالُوا: هذَا لَكَ. وَخَفِّفْ عَنَّا. وَتَجَاوَزْ فِی الْقَسْمِ.فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ: یَا مَعْشَرَ یَهُودَ، وَاللهِ إِنَّكُمْ لَمِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَیَّ وَمَا ذَاكَ بِحَامِلِی عَلَى أَنْ أَحِیفَ عَلَیْكُمْ. فَأَمَّا مَا عَرَّضْتُمْ مِنَ الرُّشْوَةِ فَإِنَّهَا سُحْتٌ. وَإِنَّا لاَ نَأْكُلُهَا.فَقَالُوا: بِهذَا قَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ.

سلیمان بن یسار سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن روحہ کو خبیر کی طرف بھیجتے تھے وہ پھلوں  کا اور زمینوں  کا اندازہ کر دیتے تھے ایک بار یہودیوں  نے اپنی عورتوں  کا زیور جمع کیا اور عبداللہ بن روحہ کو دینے لگے یہ لے مگر ہمارے محصول میں  کمی کر دو،عبداللہ بن روحہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے یہود! اللہ کی ساری مخلوق میں  میں  تم کو زیادہ برا سمجھتا ہوں  اس پر بھی میں  نہیں  چاہتا کہ تم پر ظلم کروں  اور جو تم مجھے رشوت دیتے ہو وہ حرام ہے اس کو ہم لوگ نہیں  کھاتے، اس وقت یہودی کہنے لگے اس وجہ سے اب تک آسمان اور زمین قائم ہیں ۔[149]

اوراگرتم نے لگی لپٹی بات کہی یاجان بوجھ کرسچائی سے پہلوبچایاتوجان رکھوکہ جوکچھ تم کرتے ہواللہ کواس کی خبرہے یعنی وہ تمہارے افعال کااحاطہ کئے ہوئے ہے اورتمہارے ظاہروباطن تمام اعمال کاعلم رکھتاہےاورروزقیامت وہ تم سب کو اپنے اعمال کی جزادے گا ،

عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَیْرِ الشُّهَدَاءِ الَّذِی یَأْتِی بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَهَا

زیدبن خالدالجہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  تم کوبتلاؤں  بہترگواہ کون ہے؟وہ جوطلب کرنے سے پہلے ازخوداپنی گواہی پیش کردے۔[150]

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: قَالَ مَالِكٌ: الَّذِی یُخْبِرُ بِشَهَادَتِهِ وَلَا یَعْلَمُ بِهَا الَّذِی هِیَ لَهُ ، قَالَ الْهَمَدَانِیُّ: وَیَرْفَعُهَا إِلَى السُّلْطَانِ

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام مالک رحمہ اللہ نے کہااس سے مرادیہ ہے کہ صاحب حق کوعلم نہ ہوکہ اس کا گواہ کون ہے،ہمدانی نے کہاوہ(ازخود)اپنے آپ کوسلطان کے روبروپیش کر دے۔[151]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ، ثُمَّ یَجِیءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ یَمِینَهُ، وَیَمِینُهُ شَهَادَتَهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے بہترمیرے زمانہ کے لوگ ہیں  پھروہ لوگ جواس کے بعدہوں  گے(تابعین) پھروہ لوگ جواس کے بعد ہوں  گے(تبع تابعین) اوراس کے بعدایسے لوگوں  کازمانہ آئے گاجوقسم سے پہلے گواہی دیں  گے اورگواہی سے پہلے قسم کھائیں  گے۔ [152]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِی أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن یَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا ‎﴿١٣٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللَّهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیلًا ‎﴿١٣٧﴾(النساء)
اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ پر اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اتاری ہے اور ان کتابوں  پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں  ایمان لاؤ ! جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں  سے اور اس کی کتابوں  سے اور اس کے رسولوں  سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں  جا پڑا،جن لوگوں  نے ایمان قبول کرکےپھرکفرکیا پھر ایمان لا کر پھر کفر کیاپھر اپنے کفر میں  بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ یقیناً انہیں  نہ بخشے گا، اور نہ انہیں  راہ ہدایت سجھا ئے گا۔

اے لوگوجوایمان لائے ہو!ہرطرف سے منہ موڑکرپوری سنجیدگی اورخلوص نیت کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک پر،اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاؤ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ۔۔۔ ۝۲۸ۙۚ [153]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاؤ ۔

اوراس آخری جلیل القدرکتاب قرآن مجید پرجواللہ نے اپنے رسول پرنازل کی ہے اورہراس کتاب پرجواس سے پہلے وہ انبیاء پر نازل کرچکاہے غیرمتزلزل ایمان لاؤ ، اور موت تک اس پرثابت قدم رہوجیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲ [154]

ترجمہ: اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ تم مسلم ہو ۔

اورلوگوں  کومتنبہ کرتے ہوئے فرمایاجس شخص نے اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے ملائکہ اوراس کی منزل کتابوں  اوراس کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں  اورروزآخرت کوماننے سے صاف انکارکیایازبانی تو اقرار کرے مگراس کا طرزعمل اس کے خلاف ہو یعنی اسلام کے ان اساسی عقیدوں  کے ساتھ جوایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں  کفرکیاوہ گمراہی میں  بھٹک کربہت دورنکل گیاجہاں  اسے دنیاوآخرت میں  ناکامی ونامرادی کے سواکچھ حاصل نہ ہوگا، رہے وہ منافقین جنہیں  مسلمان بن جانے میں  مفادنظرآیاتو ایمان لے آئےاورجب دوسری جانب منفعت نظرآئی توپھرکفرکی جانب چلے گئے،مگرپھراسلام قبول کرنے میں  فائدہ نظرآیاتودوبارہ مسلمان بن گئے ،اسی طرح پھرکفرمیں  کچھ منفعت نظرآئی تواس جانب کھسک گئے،پھراپنے کفروضلالت میں  اتنے بڑھ گئے کہ کفرکوسربلندکرنے کے لئے اسلام کی خلاف خفیہ سازشوں  اورعلانیہ تدبیروں  سے دوسرے لوگوں  کوبھی دعوت حق سے پھیرنے کی کوشش کرنے لگے، تواللہ ہرگزان کو معاف نہ کرے گااورنہ کبھی ان کوراہ راست دکھائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۵ [155]

ترجمہ: پھر جب انہوں  نے ٹیڑھ اِختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اللہ فاسقوں  کو ہدایت نہیں  دیتا۔

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱۰ۧ [156]

ترجمہ:ہم اُسی طرح ان کے دلوں  اور نگاہوں  کو پھیر رہے ہیں  جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان لائے تھے ہم انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتےہیں ۔

عَنْ أَبِی رَیْحَانَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ انْتَسَبَ إِلَى تِسْعَةِ آبَاءٍ كُفَّارٍ یُرِیدُ بِهِمْ عِزًّا وَكَرَمًا، فَهُوَ عَاشِرُهُمْ فِی النَّارِ

ابوریحانہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص فخروغرورکے طورپراپنی عزت ظاہرکرنے کے لئے اپنانسب اپنے کفارآباواجدادسے جوڑے گااورنوتک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں  جہنمی ہوگا۔[157]

بَشِّرِ الْمُنَافِقِینَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿١٣٨﴾‏ الَّذِینَ یَتَّخِذُونَ الْكَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۚ أَیَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا ‎﴿١٣٩﴾‏ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللَّهِ یُكْفَرُ بِهَا وَیُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِینَ وَالْكَافِرِینَ فِی جَهَنَّمَ جَمِیعًا ‎﴿١٤٠﴾‏ الَّذِینَ یَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِینَ نَصِیبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ ۚ فَاللَّهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ وَلَن یَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا ‎﴿١٤١﴾‏(النساء)
منافقین کو اس امر کی خبر پہنچا دو کہ ان کے لیے دردناک عذاب یقینی ہے،جن کی یہ حالت ہے کہ مسلمانوں  کو چھوڑ کر کافروں  کو دوست بناتے پھرتے ہیں  ، کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں  جاتے ہیں  ؟ (تو یاد رکھیں  کہ) عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں  ہے، اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب میں  یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں  کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں  ان کے ساتھ نہ بیٹھو ! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں  نہ کرنے لگیں  (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں  اور سب منافقین کو جہنم میں  جمع کرنے والا ہے،یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں  اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں  کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں  اور اگر کافروں  کو تھوڑاسا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں  کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں  مسلمانوں  کے ہاتھوں  سے نہ بچایا تھا؟ پس قیامت میں  خود اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گااور اللہ تعالیٰ کافروں  کو ایمان والوں  پر ہرگز راہ نہ دے گا۔

منافقین کاہولناک انجام اوراہل ایمان کے لئے تنبیہ:اورجولوگ اسلام ظاہرکرتے ہیں  مگراپنے دلوں  میں  کفرکوچھپائے ہوئے ہیں  اس لئے کفارسے محبت کرتے ہیں  اور اہل ایمان کوچھوڑکراللہ کے دشمنوں  کواپنادوست اورولی ومددگار بناتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝۰ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۝۱۴ [158]

ترجمہ:جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں  تو کہتے ہیں  کہ ہم ایمان لائے ہیں  اور جب علیحدگی میں  اپنے شیطانوں  سے ملتے ہیں  تو کہتے ہیں  کہ اصل میں  تو ہم تمہارے ساتھ ہیں  اور اِن لوگوں  سے محض مذاق کر رہے ہیں ۔

انہیں  یہ بدترین بشارت سنادوکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جہنم کا درد ناک عذاب تیارکررکھاہے،جہنم کی آگ انہیں  اوپرنیچے ہرطرف سے گھیرلے گی جس میں  نہ یہ جی سکیں  گے اورنہ ہی انہیں  موت آئے گی،جیسے فرمایا

 اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [159]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [160]

ترجمہ:جو بڑ ی آگ میں  جائے گا،پھر نہ اس میں  مرے گا نہ جیئے گا۔

کیایہ منافقین کفارسے دوستی کرکے عزت واحترام اورقدرومنزلت حاصل کرناچاہتے ہیں ؟مگریہ ان کی بھول ہے کفارکی دوستی سے توذلت وخواری کے سواکچھ حاصل نہیں  ہوتا،ان لوگوں  کومعلوم ہوناچاہیے کہ عزت توساری کی ساری اللہ وحدہ لاشریک ہی کے اختیارمیں  ہےاوروہ اپنے اطاعت گزاربندوں  کوہی دنیاوآخرت میں عزت عطا فرماتا ہے ،جیسے فرمایا

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا۔۔۔۝۰۝۱۰ [161]

ترجمہ:جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔

 ۔۔۔وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۸ۧ [162]

ترجمہ:حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہےمگر یہ منافق جانتے نہیں  ہیں ۔

اللہ اس کتاب قرآن مجید میں  تم کوپہلے ہی حکم دے چکاہے کہ جہاں  تم سنوکہ اللہ کی آیات کے خلاف کفربکاجارہاہے اوران کامذاق اڑایاجارہاہے وہاں  نہ بیٹھوجب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں  نہ لگ جائیں ،جیسے فرمایا

وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ۝۰ۭ وَاِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِیْنَ۝۶۸ [163]

ترجمہ:اور اے نبی ! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں  کر رہے ہیں  تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ یہاں  تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں  میں  لگ جائیں  اور اگر کبھی شیطان تمہیں  بھلاوے میں  ڈال دے تو جس وقت تمہیں  اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں  کے پاس نہ بیٹھو۔

اس حکم کے باوجود اگرتم ایسی مجلسوں  اوراجتماعات میں  بیٹھوگے جہاں  اللہ تعالیٰ،آیات الٰہی،شعائردین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کاقولاًیاعملاً مذاق اڑایاجارہاہواورتم طاقت رکھنے کے باوجود وہاں  انہیں  روکنے کے بجائے یااحتجاج کرنے یاوہاں  سے ہٹ جانے کے بجائےٹھنڈے دل سے یہ سب سنتے رہو تواس عظیم ترین گناہ میں تم بھی برابرکے شریک ہو،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَدْخُلِ الحَمَّامَ بِغَیْرِ إِزَارٍ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُدْخِلْ حَلِیلَتَهُ الحَمَّامَ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ یُدَارُ عَلَیْهَا بِالخَمْرِ.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ برہنہ ہو کر حمام میں  داخل نہ ہو،جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی بیوی کو حمام میں  نہ بھیجے،نیز اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لانے والا ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہا ہو۔ [164]

یقین جانوکہ جس طرح یہ منافقین کفارکے ساتھ ان کے کفر وموالات پرمجتمع ہیں  اسی طرح اللہ منافقوں  اورکافروں  کوجہنم کے ہولناک عذاب میں  ایک جگہ جمع کرنیوالا ہے ، جہاں  یہ گرم پانی اوردوزخیوں  کے جسموں  سے نکلنے والی پیپ کے پانی اوردیگرسزاؤں  میں  ان کے شریک ہوں  گے،یہ منافق تمہارے معاملہ میں  انتظارکررہے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہےاگراللہ اپنی رحمت سےتمہیں  فتح ونصرت سے ہمکنارفرمادے تومنافقین فے اورمال غنیمت حاصل کرنے کے لئے آکر کہیں  گے کہ کیاہم ظاہری وباطنی طور پرتمہارے ساتھ نہ تھے؟اوراگراللہ کی حکمت ومشیت سےکفار کاعارضی طورپرپلڑا بھاری رہاتوانہیں  یقین دلائیں  گے کہ ہم تو تمہارے خلاف لڑنے پرقدر ت اورطاقت رکھتےتھے مگرکیونکہ کفروشرک اوراسلام کی کشمکش میں  ہماری وفاداریاں  تمہارے ساتھ تھیں  اس لئےہم نے اپنی حکمت عملی سے تمہیں مسلمانوں  سے بچایا؟اس دنیامیں  ہو سکتا ہے یہ منافقین اپنی منافقت میں  کچھ دنیاوی فائدے حاصل کرلیں  لیکن اللہ قیامت کے روز تمہارے اوران کے باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں  فیصلہ کردے گاجووہ اپنے سینوں  میں  چھپائے ہوئے ہیں ،ایمان ایسی نعمت ہے کہ جس کیلے مغلوبیت کاتصورہی ممکن نہیں  مگراس میں  شرط یہ ہے کہ اہل ایمان کے قلوب واقعی ایمان کی دولت سے معمورہوں ،تومنافقین خواہ مال دارہوں  ،خواہ صاحب اقتداروہ کبھی اہل ایمان پرغالب نہیں  آسکیں  گے ،منافقین دوکشتیوں  میں  پاؤں  رکھ کراس دن کے منتظرتھے کہ کب مسلمان کفارکے ہاتھوں ذلیل وخوارہوکر صفحہ ہستی سے مٹتے ہیں  مگراللہ تعالیٰ نے انہیں  ہمیشہ کے لئے مایوس فرمادیافرمایا اللہ تعالیٰ قیامت تک کفارکوایساتسلط اورغلبہ عطا نہیں  کرے گاکہ مسلمانوں  کی دولت وشوکت کابالکل ہی خاتمہ ہوجائے اوروہ حرف غلط کی طرح دنیاکے نقشے سے ہی محوہوجائیں ۔

عَنْ یَسِیعٍ الْكِنْدِیِّ {وَلَنْ یَجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا} قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ أَبِی طَالِبٍ فَقَالَ: كَیْفَ تَقْرَأُ هَذِهِ الْآیَةَ: {وَلَنْ یَجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا} وَهُمْ یُقْتَلُونَ؟ فَقَالَ عَلِیٌّ:ادْنُهُ , فَاللهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ , وَلَنْ یَجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِینَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا

یسیع کندی کی روایت ہےایک شخص سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کے پاس آیااوراس نے اس آیت’’ اللہ نے کافروں  کے لیے مسلمانوں  پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں  رکھی ہے۔‘‘ کامطلب پوچھااورکہنے لگاکہ کافران کوشہیدبھی کردیتے ہیں ؟سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایاقریب ہوجاؤ اورفرمایا بس اللہ ہی تمہارے اوران کے معاملہ کافیصلہ قیامت کے روزکرے گااور(اس فیصلہ میں )اللہ نے کافروں  کے لئے مسلمانوں  پرغالب آنے کی ہرگزکوئی سبیل نہیں  رکھی ہے۔[165]

إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿١٤٢﴾‏ مُّذَبْذَبِینَ بَیْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِیلًا ‎﴿١٤٣﴾‏(النساء)
بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں  کر رہے ہیں  اور وہ انہیں  اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے، اور جب نماز کو  کھڑے ہوتے ہیں  تو بڑی کاہلی کی حالت میں  کھڑے ہوتے ہیں  صرف لوگوں  کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں  ،وہ درمیان میں  ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں ، نہ پورے ان کی طرف اور نہ صحیح طور پر ان کی طرف ،اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں  ڈال دے توتو اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔

منافق کی نماز:یہ منافق اپنی کم فہمی سے اللہ علام الغیوب کے ساتھ دھوکابازی ومکاری کررہے ہیں  حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انہیں  ان کے عقائدواعمال کے سبب دھوکہ میں  ڈال رکھاہے جیسے فرمایا

یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ [166]

ترجمہ:وہ اللہ اور ایمان لانے والوں  کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں  مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں  ڈال رہے ہیں  اور انہیں  اس کا شعور نہیں  ہے۔

اوراس میں  قطعاًکوئی شک نہیں  کہ اللہ تعالیٰ کودھوکانہیں  دیاجاسکتاکیونکہ وہ توآنکھوں  کی خیانت اوردلوں  کے خفیہ بھیدتک جانتاہے،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [167]

ترجمہ:اللہ خوب جانتا ہے آنکھوں  کی (چوری اور) خیانت کو بھی اور دلوں  میں  چھپے رازوں  کو بھی۔

عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدَبًا، یَقُولُ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ ، وَمَنْ یُرَائِی یُرَائِی اللَّهُ بِهِ

جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(کسی نیک کام کے نتیجہ میں )جوشہرت کاطالب ہواللہ تعالیٰ اس کی بدنیتی قیامت کے دن سب کوسنادے گااسی طرح جوکوئی لوگوں  کودکھانے کے لئے نیک کام کرے اللہ بھی قیامت کے دن اس کوسب لوگوں  کودکھادے گا۔[168]

عِیَاذًا بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ اللہ اس سے پناہ دے۔

اور منافقین جن کا قلب ایمان ،خشیت الہٰی اورخلوص سے محروم ہوتاہے کاشوہ یہ ہے کہ نماز جواسلام کااہم ترین رکن اوراشرف ترین فرض ہے وہ بھی مختصرپڑھتے ہیں  جس میں  اخلاص، خشیت الہٰی اورخشوع وخضوع نہیں  ہوتابلکہ صرف مسلمانوں  کوفریب دینے کے لئے ریاکاری اوردکھلاوے کے لئے پڑھتے ہیں  مگر اس میں  بھی کاہلی اورسستی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، یہی وجہ سے کہ عشاء اورفجرکی نمازبطورخاص ان پربہت بھاری تھی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «لَیْسَ صَلاَةٌ أَثْقَلَ عَلَى المُنَافِقِینَ مِنَ الفَجْرِ وَالعِشَاءِ، وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ المُؤَذِّنَ، فَیُقِیمَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا یَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَى مَنْ لاَ یَخْرُجُ إِلَى الصَّلاَةِ بَعْدُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ منافقون پرفجراورعشاء کی نمازسے زیادہ اورکوئی نمازبھاری نہیں  اوراگرانہیں  معلوم ہوتاکہ ان کاثواب کتنازیادہ ہے (اورچل نہ سکتے)توگھٹنوں  کے بل گھسٹ کرآتے،اورمیراتوارادہ ہوگیاتھاکہ مؤذن سے کہوں  کہ وہ تکبیرکہے ،پھرمیں  کسی کونمازپڑھانے کے لئے کہوں اورخودآگ کی چنگاریاں  لے کران سب کے گھروں  کوجلادوں  جوابھی تک نمازکے لئے نہیں  نکلے۔[169]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَیُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ، فَیُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَیْهِمْ بُیُوتَهُمْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُهُمْ، أَنَّهُ یَجِدُ عَرْقًا سَمِینًا، أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ، لَشَهِدَ العِشَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے میں  نے ارادہ کرلیاتھاکہ لکڑیوں  کے جمع کرنے کاحکم دوں پھرنمازکے لئے کہوں ،اس کے لئے اذان دی جائےپھرکسی شخص سے کہوں  کہ وہ امامت کراے اورمیں  ان لوگوں  کی طرف جاؤں (جونمازباجماعت میں  حاضرنہیں  ہوتے)پھرانہیں  ان کے گھروں  سمیت جلادوں ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے اگریہ جماعت میں  نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں  کہ انہیں  مسجدمیں  ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی تویہ عشاء کی جماعت کے لئے مسجدمیں  ضرورحاضر ہو جائیں  ۔[170]

وَالْحَدِیثُ اسْتَدَلَّ بِهِ الْقَائِلُونَ بِوُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ؛ لِأَنَّهَا لَوْ كَانَتْ سُنَّةً لَمْ یُهَدَّدْ تَارِكُهَا بِالتَّحْرِیقِ

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث سے ان لوگوں  نے دلیل پکڑی ہے جونمازباجماعت کوواجب قراردیتے ہیں  اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کوآگ میں  جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔[171]

بعض علماء اس کے وجوب کے قائل نہیں  ہیں  اورکہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تنبیہ جن لوگوں  کوفرمائی تھی وہ منافق لوگ تھے ،

وَالَّذِی یَظْهَرُ لِی أَنَّ الْحَدِیثَ وَرَدَ فِی الْمُنَافِقِینَ لِقَوْلِهِ فِی صَدْرِ الْحَدِیثِ الْآتِی بَعْدَ أَرْبَعَةِ أَبْوَابٍ لَیْسَ صَلَاةٌ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِینَ مِنَ الْعِشَاءِ وَالْفَجْرِ الْحَدِیثَ وَلِقَوْلِهِ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُهُمْ إِلَخْ لِأَنَّ هَذَا الْوَصْفَ لَائِقٌ بِالْمُنَافِقِینَ لَا بِالْمُؤْمِنِ الْكَامِلِ لَكِنِ الْمُرَادُ بِهِ نِفَاقُ الْمَعْصِیَةِ لَا نِفَاقُ الْكُفْرِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میری سمجھ میں  یہ آتاہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خاص منافقین کے بارے میں  ہے ،شروع کے الفاظ صاف ہیں  کہ سب سے بھاری نماز منافقین پر عشاء اورفجرکی نمازیں  ہیں ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادبھی یہی ظاہرکرتاہے یعنی اگروہ ان نمازوں  کاثواب باجماعت پڑھنے کاجان لیتے تو ۔۔۔ آخرتک،پس یہ بری عادت اہل ایمان کی شان سے بہت ہی بعیدہے،یہ خاص اہل نفاق ہی کاشیوہ ہوسکتاہے،یہاں  نفاق سے مرادنفاق معصیت ہے نفاق کفرمرادنہیں  ہے۔[172]

بہرحال جمہور علماء نے نمازباجماعت کوسنت قراردیاہےان کی دلیل وہ احادیث ہیں  جن میں  نمازباجماعت کی اکیلے کی نمازپرستائیس درجہ زیادہ فضیلت بتلائی گئی ہے ،معلوم ہواکہ جماعت سے باہربھی نمازہوسکتی ہے مگرثواب میں  وہ اس قدرکم ہے کہ اس کے مقابلہ پرجماعت کی نمازستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے ،

فَأَعْدَلُ الْأَقْوَالِ وَأَقْرَبُهَا إلَى الصَّوَابِ أَنَّ الْجَمَاعَةَ مِنْ السُّنَنِ الْمُؤَكَّدَةِ الَّتِی لَا یُخِلُّ بِمُلَازَمَتِهَا مَا أَمْكَنَ إلَّا مَحْرُومٌ مَشْئُومٌ

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  درست ترقول یہی معلوم ہوتاہے کہ جماعت سے نمازاداکرناسنن موکدہ سے ہے ،ایسی سنت کہ امکانی طاقت میں  اس سے وہی شخص تساہل برت سکتاہے جو انتہائی بدبخت بلکہ منحوس ہے۔[173]

امام بخاری رحمہ اللہ کارجحان اس طرف معلوم ہوتاہے کہ نمازباجماعت واجب ہے جیساکہ منعقدہ باب سے ظاہرہے اسی لئے مولانامرزاحیرت مرحوم فرماتے ہیں

ان المحققین ذھبوا إلی وجوبھا والحق أحق بالاتباع

محققین کی رائے میں  یہ واجب ہے لیکن حق اور سچ بات یہ ہے کہ سچائی کا دامن نہ چھوٹے،

حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے جس میں  الفاظ کی کمی بیشی ہے،امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ روایت میں  منافقین کاذکرصریح لفظوں  میں  نہیں  ہے دوسری روایات میں  منافقین کاذکرصراحتاًآیاہے جیساکہ اوپرمذکورہوا،بعض علماء کہتے ہیں  کہ اگرنمازباجماعت ہی فرض ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوبغیرجلائے نہ چھوڑتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااس سے رک جانااس امرکی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں  بلکہ سنت موکدہ ہے،نیل الاوطارمیں  تفصیل سے ان مباحث کولکھاگیاہے

من شاء فلیرجع إلیہ

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ:أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟. قَالُوا: لَا، فَقَالَ:أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟ فَقَالُوا: لَا، لِنَفَرٍ مِنَ الْمُنَافِقِینَ لَمْ یَشْهَدُوا الصَّلَاةَ، فَقَالَ:إِنَّ هَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ أَثْقَلُ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِینَ، وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا

اورابی بن کعب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  فجرکی نمازپڑھائی پھراپناچہرہ مبارک ہماری طرف کرکے دریافت فرمایاکیافلاں  شخص نمازمیں  موجودہے؟ لوگوں  نے عرض کیاکہ نہیں ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاکیافلاں  شخص موجودہے؟ لوگوں  نے عرض کیاکہ نہیں  وہ بھی نہیں  ہےاورمنافقین کی ایک جماعت نمازفجرمیں  موجودنہیں  تھی،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامنافقین پردونمازیں  بڑی بھاری ہیں  اگرانہیں  ان کے اجرو ثواب کاعلم ہوتاتوگھٹنوں  کے بل گھسیٹ کر آتے۔[174]

اورنمازعصرمیں  بھی منافقین کا یہی وطیرہ ہے،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ: یَجْلِسُ یَرْقُب الشَّمْسَ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَیْنَ قَرْنَی الشَّیْطَانِ، قَامَ فَنَقَر أَرْبَعًا لَا یَذْكُرُ اللَّهَ فِیهَا إِلَّا قَلِیلًا

انس مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ منافق کی نماز ہے،یہ منافق کی نمازہے، یہ منافق کی نمازہے، وہ بیٹھاہواسورج کاانتظارکرتارہتاہے یہاں  تک کہ جب سورج شیطان کے دوسینگوں  کے درمیان (یعنی غروب کے وقت)ہوجاتاہے تواٹھتاہے اورچارٹھونگیں  مارلیتاہے(یعنی ارکان کے اذکارواورادبھی صحیح طرح نہیں  پڑھتا کیونکہ رغبت نہیں  ہوتی) اوراس میں  اللہ کویادنہیں  کرتا مگر تھوڑا ۔ [175]

قَوْلُهُ: (بَیْنَ قَرْنَیْ الشَّیْطَانِ) اخْتَلَفُوا فِیهِ، فَقِیلَ: هُوَ عَلَى حَقِیقَتِهِ وَظَاهِرِ لَفْظِهِ، وَالْمُرَادُ أَنَّهُ یُحَاذِیهَا بِقَرْنَیْهِ عِنْدَ غُرُوبِهَا، وَكَذَلِكَ عِنْدَ طُلُوعِهَا؛ لِأَنَّ الْكُفَّارَ یَسْجُدُونَ لَهَا حِینَئِذٍ وَتَخَیَّلَ لِنَفْسِهِ وَلِأَعْوَانِهِ أَنَّهُمْ إنَّمَا یَسْجُدُونَ لَهُ، وَقِیلَ: هُوَ عَلَى الْمَجَازِ، وَالْمُرَادُ بِقَرْنِهِ وَقَرْنَیْهِ: عُلُوُّهُ وَارْتِفَاعُهُ وَسُلْطَانُهُ وَغَلَبَةُ أَعْوَانِهِ، وَسُجُودُ مُطِیعِیهِ مِنْ الْكُفَّارِ لِلشَّمْسِ

سورج کاشیطان کے دوسینگوں  کے درمیان ہوناکےمفہوم میں  اختلاف ہے علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں  کہاجاتاہے کہ یہ حقیقت ہے اورسورج کے طلوع وغروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آ جاتا ہے اورایسے لگتاہے گویاسورج اس کے سرکے درمیان سےنکل رہاہے یاغروب ہورہاہے اورسورج کی پجاری بھی ان اوقات میں  اس کے سامنے سجدہ ریزہوتے ہیں  تویہ سمجھتا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیاجارہاہے،اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ دوسینگوں  سے مرادمجازاًشیطان کابلندہونااورشیطانی قوتوں  کاغلبہ ہے اورکفارطلوع وغروب کے اوقات میں  سورج کوسجدہ کرتے ہیں ۔[176]

منافقین کی نفسیات کوان الفاظ میں  ذکرفرمایاکہ ان لوگوں  کاطریقہ کاریہ ہے کہ جب کافروں  ومشرکین کے پاس جاتے ہیں  تو ان کے ساتھ اورمومنوں  کے پاس آتے ہیں  تو ان کے ساتھ دوستی اورتعلق کا اظہار کرتے ہیں  ،ظاہراًوباطناًوہ نہ مسلمانوں  کے ساتھ ہیں  نہ ہی کافروں  کے ساتھ ،ظاہران کا مسلمانوں  کے ساتھ ہے توباطن کافروں  کے ساتھ اوربعض منافق توکفروایمان کے درمیان متحیراورتذبذب کاشکاررہتے تھے ،

عَنْ مُجَاهِدٍ:مُذَبْذَبِینَ بَیْنَ ذَلِكَ لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ، یَقُولُ: لَا إِلَى أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ الْیَهُودِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  آیت کریمہ’’کفر و ایمان کے درمیان ڈانواڈول ہیں ۔ نہ پورے اس طرف ہیں  نہ پورے اس طرف۔‘‘کے معنی یہ ہیں  یہ نہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتے ہیں  اورنہ ان یہودیوں  کی طرف۔[177]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ الْعَائِرَةِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلَى هَذِهِ مَرَّةً، وَإِلَى هَذِهِ مَرَّةً، لَا تَدْرِی أَهَذِهِ تَتْبَعُ، أَمْ هَذِهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامنافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جوجفتی کے لئے دوریوڑوں  کے درمیان (بکرے کی تلاش میں ) مترددرہتی ہےکبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف(یعنی دھوبی کاکتانہ گھرکانہ گھاٹ کا)۔[178]

جسے اللہ گمراہی میں  ڈال دے اس کے لئے تم کوئی راستہ نہیں  پاسکتے۔ جیسےفرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ [179]

ترجمہ: اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں  پاسکتے۔

مَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ۔۔۔ ۝۱۸۶ [180]

ترجمہ:جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں  ہے۔

[1] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الغَارِ۳۴۷۰،صحیح مسلم کتاب التوبة بَابُ قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ۷۰۰۸،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ هَلْ لِقَاتِلِ مُؤْمِنٍ تَوْبَةٌ۲۶۲۳، مسنداحمد۱۱۶۸۷،صحیح ابن حبان ۶۱۱

[2] فتح الباری ۵۱۸؍۶

[3] الزمر۵۳

[4] مسند احمد ۷۵۰۰

[5] مستدرک حاکم۱۹۹۴

[6] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ: مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّیَّةِ وَالحِسْبَةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى۵۴، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّةِ، وَأَنَّهُ یَدْخُلُ فِیهِ الْغَزْوُ وَغَیْرُهُ مِنَ الْأَعْمَالِ۴۹۲۷، سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِیمَا عُنِیَ بِهِ الطَّلَاقُ وَالنِّیَّاتُ ۲۲۰۱

[7] ابن سعد۴۶؍۲

[8] زادالمعاد۲۲۴؍۳،ابن سعد۴۷؍۲

[9] ابن ہشام۲۰۳؍۲ ، ابن سعد ۴۶؍۲، زادالمعاد۲۲۴؍۳

[10] البقرة ۱۵۸

[11] مسنداحمد۱۷۴،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا۱۵۷۳،سنن ابوداودکتاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِبَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ۱۱۹۹،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ ۱۰۶۵

[12] النساء: 101

[13] مسنداحمد۶۱۹۴

[14] مسند احمد۱۸۷۲۷، مصنف ابن ابی شیبة ۸۱۷۷،صحیح ابن حبان ۲۷۵۶، صحیح بخاری کتاب تقصیرالصلوٰةبَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى۱۰۸۳، صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ قَصْرِ الصَّلَاةِ بِمِنًى۱۵۹۸

[15] صحیح بخاری کتاب الجمعہ بَابُ یَقْصُرُ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَوْضِعِهِ۱۰۹۰،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا۱۵۷۰ ،مسنداحمد۲۵۹۶۷،سنن الدارمی۱۵۵۰،صحیح ابن خزیمة۲۹۶۵،صحیح ابن حبان ۲۷۳۶، السنن الکبری للنسائی ۳۱۳

[16] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا ۱۵۷۵،مسند احمد۲۱۷۷،سنن ابوداودکتاب صلاة السفربَابُ مَنْ قَالَ یُصَلِّی بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً وَلَا یَقْضُونَ ۱۲۴۷،السنن الکبری للبیہقی ۵۳۸۳،السنن الکبری للنسائی ۱۹۱۳،صحیح ابن حبان ۲۸۶۸صحیح ابن خزیمة۳۰۴

[17] سنن نسائی کتاب الصلاة بَابُ كَیْفَ فُرِضَتِ الصَّلَاةُ۴۵۸ ،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ ۱۰۶۶ ، مسنداحمد۵۳۳۳، السنن الکبری للبیہقی ۵۳۸۸،صحیح ابن حبان ۱۴۵۱،صحیح ابن خزیمة ۹۴۶،موطاامام مالک كِتَابُ الصَّلاَةِ باب قَصْرُ الصَّلاَةِ فِی السَّفَرِ۸

[18] جامع ترمذی ابواب أَبْوَابُ السَّفَرِ بَابُ التَّقْصِیرِ فِی السَّفَرِ۵۴۷، مسند احمد ۱۹۹۵

[19] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین وقصرھابَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا۱۵۷۳ ،سنن ابوداودکتاب صلاة السفر بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ ۱۱۹۹ ، جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ۳۰۳۴،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ۱۰۶۵،سنن نسائی كِتَابُ تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ باب تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ۱۴۳۶،سنن الددارمی ۱۵۴۶،مصنف ابن ابی شیبة۸۱۵۹،صحیح ابن خزیمة ۹۴۵،مسنداحمد۱۷۴،صحیح ابن حبان۲۷۴۱

[20] ۔سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ تَقْصِیرِ الصَّلَاةِ فِی السَّفَرِ ۱۰۶۴،مسنداحمد۲۵۷،صحیح ابن حبان ۲۷۸۳،السنن الکبری للنسائی ۴۹۴،السنن الصغیرللبیہقی۶۳۳

[21] مسند احمد ۵۸۶۶، صحیح ابن حبان ۲۷۴۲،شعب الایمان ۳۶۰۷

[22] صحیح بخاری کتاب الجمعتة بَابُ مَنْ لَمْ یَتَطَوَّعْ فِی السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا۱۱۰۲،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین وقصرھابَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا۱۵۷۹،سنن ابوداودکتاب صلاة السفر بَابُ التَّطَوُّعِ فِی السَّفَرِ۱۲۲۳،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ التَّطَوُّعِ فِی السَّفَرِ ۱۰۷۱،مسنداحمد۵۱۸۵،صحیح ابن خزیمة ۱۲۵۷

[23] زادالمعاد۴۴۷؍۱

[24] مجموع الفتاوی۱۵۸؍۲۴، مسند احمد ۱۹۸۶۵،السنن الکبری للبیہقی ۵۴۸۴

[25] سنن الدارقطنی ۱۴۴۷،السنن الکبری للبیہقی۵۴۰۴،المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱۱۶۲

[26] بلوغ المرام ۴۱۸

[27] الدررالبھیة۱۲۲؍۱

[28] بدائع الصنائع ۹۳؍۱، الام ۲۱۴؍۱، المجموع ۳۲۵؍۴

[29] مصنف ابن ابی شیبة ۸۱۱۳، تلخیص الجیر ۱۱۹؍۲

[30] تقریب التھذیب ۴۸۴۰

[31] مجموع الفتاوی ۴۸؍۲۴

[32]زادالمعاد۴۸۱؍۱

[33] نیل الاوطار ۲۴۸؍۳

[34] الروضة الندیة ۳۹۹؍

[35] تحفة الاحوذی۸۸؍۳

[36] نیل الاوطار۲۴۷؍۳

[37] صحیح بخاری کتاب تقصیرالصلاة بَابُ یَقْصُرُ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَوْضِعِهِ۱۰۸۹

[38] صحیح بخاری کتاب تَقْصِیرِ الصَّلاَةِ بَابٌ فِی كَمْ یَقْصُرُ الصَّلاَةَ؟

[39] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ إِذَا أَقَامَ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ یَقْصُرُ۱۲۳۵،مسنداحمد۱۴۱۳۹،صحیح ابن حبان ۲۷۴۹،مصنف عبدالرزاق۴۳۳۵

[40] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّقْصِیرِ وَكَمْ یُقِیمُ حَتَّى یَقْصُرَ۱۰۸۰،جامع ترمذی ابواب السفر بَابُ مَا جَاءَ فِی كَمْ تُقْصَرُ الصَّلاَةُ ۵۴۹

[41] سنن ابوداود کتاب صلاة السفر بَابُ مَتَى یُتِمُّ الْمُسَافِرُ؟۱۲۳۱

[42]سنن ابوداود کتاب صلاة السفر بَابُ مَتَى یُتِمُّ الْمُسَافِرُ؟۱۲۳۱

[43] نیل الاوطار۲۵۱؍۳

[44] سبل السلام ۳۹۱؍۱

[45]۔مجموع الفتاوی ۱۰؍۲۴

[46]جامع ترمذی ابواب السفر بَابُ مَا جَاءَ فِی كَمْ تُقْصَرُ الصَّلاَةُ ۵۴۸

[47] السنن الکبری للبیہقی۵۴۷۶

[48] السنن الکبری للبیہقی ۵۴۸۰

[49] الدرایة فی تخریج أحادیث الهدایة ۲۱۲؍۱

[50] تهذیب الآثار وتفصیل الثابت عن رسول الله من الأخبار۴۲۳

[51] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ إِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ مَا زَاغَتِ الشَّمْسُ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ ۱۱۱۲ ،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ جَوَازِ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِی السَّفَرِ۱۶۲۵، سنن ابوداودکتاب صلاة السفر بَابُ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ ۱۲۱۸،السنن الکبری للنسائی ۱۵۷۵،مسند احمد ۱۳۵۸۴، السنن الکبری للبیہقی ۵۵۲۰

[52] مسنداحمد۲۲۰۷۰

[53] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ۱۲۰۷

[54] سنن ابوداودکتاب صلاة السفر بَابُ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ۱۲۰۷،صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ یُصَلِّی المَغْرِبَ ثَلاَثًا فِی السَّفَرِ۱۰۹۱،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ جَوَازِ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِی السَّفَرِ۱۶۲۲ ،جامع ترمذی ابواب ابواب السفر بَابُ مَا جَاءَ فِی الجَمْعِ بَیْنَ الصَّلاَتَیْنِ ۵۵۲،سنن نسائی کتاب الصلوٰة باب الْوَقْتُ الَّذِی یَجْمَعُ فِیهِ الْمُسَافِرُ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۵۹۹، مسند احمد ۵۱۲۰

[55] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فِی الْحَضَرِ۱۶۳۰

[56] شرح المہذب ۳۷۱؍۴

[57] فتاوی نور علی الدرب ۲۱؍۱۳

[58] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ۴۱۲۹

[59] الانفال۴۵

[60] تفسیرطبری۱۶۹؍۹

[61] آل عمران۱۴۰

[62] تفسیرابن کثیر۳۵۹؍۲،تفسیرالقاسمی ۳۱۹؍۳،الدرالمنثورفی تفسیر بالماثور ۶۷۳؍۲،فی ظلال القرآن ۷۵۱؍۲

[63] النجم۳،۴

[64]صحیح بخاری كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ مَنْ قُضِیَ لَهُ بِحَقِّ أَخِیهِ فَلاَ یَأْخُذْهُ، فَإِنَّ قَضَاءَ الحَاكِمِ لاَ یُحِلُّ حَرَامًا وَلاَ یُحَرِّمُ حَلاَلًا۷۱۸۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْأَقْضِیَةِبَابُ الْحُكْمِ بِالظَّاهِرِ، وَاللحْنِ بِالْحُجَّةِ۴۴۷۳،سنن ابوداودكِتَاب الْأَقْضِیَةِ بَابٌ فِی قَضَاءِ الْقَاضِی إِذَا أَخْطَأَ ۳۵۸۳،سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام بَابُ قَضِیَّةِ الْحَاكِمِ لَا تُحِلُّ حَرَامًا وَلَا تُحَرِّمُ حَلَالًا۲۳۱۸

[65] مصنف ابن ابی شیبة ۲۲۹۷۴، مسند احمد۲۶۶۱۸

[66] النور۲۵

[67] تفسیرطبری۱۹۵؍۹

[68] النساء: 110

[69] آل عمران: 135

[70] مسنداحمد۴۷

[71] بنی اسرائیل۱۵

[72] الانعام۱۶۴

[73] الشوریٰ۵۲

[74] الضحیٰ۷

[75] القصص۸۶

[76]صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ بَیَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَةِ یَقَعُ عَلَى كُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوفِ ۲۳۲۹

[77] الحجرات۹

[78] النساء ۱۲۸

[79] صحیح بخاری کتاب الصلح بَابٌ لَیْسَ الكَاذِبُ الَّذِی یُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ۲۶۹۲،صحیح ابن حبان۵۷۳۳

[80] مسند احمد ۲۷۲۷۲، صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الْكَذِبِ وَبَیَانِ مَا یُبَاحُ مِنْهُ۶۶۳۳

[81] مسند البزار ۶۶۳۳

[82] مسنداحمد۲۷۵۰۸،سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی إِصْلَاحِ ذَاتِ الْبَیْنِ۴۹۱۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب۲۵۰۹

[83] الاعراف۱۸۲

[84] الصف۵

[85] الانعام۱۱۰

[86] یونس۸۱

[87] ص۷۵

[88] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۲۶، صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَابَابُ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَقْوَامٌ أَفْئِدَتُهُمْ مِثْلُ أَفْئِدَةِ الطَّیْرِ۷۱۶۳

[89] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ خَلْقِ الْإِنْسَانِ خَلْقًا لَا یَتَمَالَكُ۶۶۴۹، مسند احمد ۱۲۵۳۹

[90] الحجر۳۶،۳۷

[91]الاعراف ۱۶،۱۷

[92] بنی اسرائیل۶۲

[93] بنی اسرائیل۶۴،۶۵

[94] طہ۱۲۳تا۱۲۶

[95] البقرة ۳۸،۳۹

[96] سبا۲۰

[97] الزخرف۱۹

[98] الصافات۱۵۰

[99] الصافات ۱۵۸

[100] الحج۳

[101] یٰسین۶۰

[102] تفسیرابن ابی حاتم۱۰۶۹؍۴

[103] مسنداحمد۳۹۷۷

[104]مسند احمد ۲۵۳۸۴

[105] البقرة۲۶۸

[106] آل عمران۱۷۵

[107] ابراہیم۲۲

[108] السجدة ۱۷

[109] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۴، صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَابَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۷۱۳۲

[110] السنن الکبری للنسائی۱۷۹۹،صحیح ابن خزیمة ۱۷۸۵، المعجم الکبیرللطبرانی۸۵۲۱

[111] المائدة۱۸

[112] آل عمران۲۴

[113] البقرة۱۱۱

[114] تفسیرطبری۲۲۹؍۹

[115] النساء: 123

[116] النساء: 89

[117] النساء: 123

[118] النساء: 125

[119] تفسیر طبری۲۳۰؍۹

[120] الزلزال۷،۸

[121] تفسیرابن کثیر ۴۲۱؍۲، تفسیر القاسمی ۔محاسن التأویل۳۴۹؍۳

[122] النحل۱۲۳

[123] البقرة۱۲۴

[124] النجم۳۷

[125] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ ۱۱۸۸

[126] السنن الکبری للنسائی ۱۱۰۵۸، صحیح ابن حبان ۶۴۲۵

[127] النساء: 3

[128]النساء: 127

[129] النساء: 127

[130] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ الأَكْفَاءِ فِی المَالِ وَتَزْوِیجِ المُقِلِّ المُثْرِیَةَ ۵۰۹۲، و بَابُ تَزْوِیجِ الیَتِیمَةِ۵۱۴۰،كِتَاب الشَّرِكَةِ بَابُ شَرِكَةِ الیَتِیمِ وَأَهْلِ المِیرَاثِ۲۴۹۴،كِتَابُ الوَصَایَابَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَآتُوا الیَتَامَى أَمْوَالَهُمْ، وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الخَبِیثَ بِالطَّیِّبِ۲۷۶۳،کتاب التفسیربَابُ وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِی الیَتَامَى۴۵۷۳ ، صحیح مسلم کتاب التفسیر باب فی تفسیرآیات متفرقة۷۵۲۸

[131] تفسیرابن ابی حاتم ۱۰۷۸؍۴

[132] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ المَرْأَةِ تَهَبُ یَوْمَهَا مِنْ زَوْجِهَا لِضَرَّتِهَا، وَكَیْفَ یَقْسِمُ ذَلِكَ ۵۲۱۲، کتاب الھبة وفضلھاوالتحریض علیھا باب ھبة المراة لغیرزوجھا۲۵۹۳،کتاب التفسیربَابُ هِبَةِ المَرْأَةِ لِغَیْرِ زَوْجِهَا وَعِتْقِهَا، إِذَا كَانَ لَهَا زَوْجٌ فَهُوَ جَائِزٌ، إِذَا لَمْ تَكُنْ سَفِیهَةً، فَإِذَا كَانَتْ سَفِیهَةً لَمْ یَجُزْعن عائشہ ۴۶۰۱ ،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ جَوَازِ هِبَتِهَا نَوْبَتَهَا لِضُرَّتِهَا۳۶۲۹، کتاب التفسیر باب فی تفسیر آیات متفرقة۷۵۳۷

[133] مسندابوداودالطیالسی۲۸۰۵

[134] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الطَّلَاقِ۲۱۷۸،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ حَدَّثَنَا سُوَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ۲۰۱۸،مستدرک حاکم۲۷۹۴

[135] ارواء الخلیل۲۰۴۰

[136] تفسیرابن ابی حاتم ۱۰۸۴؍۴

[137] جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْوِیَةِ بَیْنَ الضَّرَائِرِ ۱۱۴۱،سنن نسائی كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ باب مَیْلُ الرَّجُلِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ ۳۳۹۴،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الْقَسْمِ بَیْنَ النِّسَاءِ ۲۱۳۳،مستدرک حاکم ۲۷۵۹

[138] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الْقَسْمِ بَیْنَ النِّسَاءِ ۲۱۳۴،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْوِیَةِ بَیْنَ الضَّرَائِرِ۱۱۴۰،سنن نسائی كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ باب مَیْلُ الرَّجُلِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ ۳۳۹۵،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الْقِسْمَةِ بَیْنَ النِّسَاءِ۱۹۷۲ ، سنن الدارمی ۲۲۵۳

[139] المومنون۱۱۷

[140] التغابن۶

[141] محمد۳۸

[142] الشوری۲۰

[143] بنی اسرائیل۱۸

[144] ھود۱۵

[145] البقرة۲۰۰تا۲۰۲

[146] الطلا ق۲

[147] المائدة۸

[148] تفسیرابن کثیر۴۳۳؍۲،تفسیرابن ابی حاتم ۳۲۷؍۱۱، تفسیر القاسمی ۳۶۸؍۳، التفسیر المنیرللزحیلی ۳۱۴؍۵

[149] موطاامام مالک كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ مَا جَاءَ فِی الْمُسَاقَاةِ

[150] صحیح مسلم كِتَابُ الْأَقْضِیَةِ بَابُ بَیَانِ خَیْرِ الشُّهُودِ۴۴۹۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ الرَّجُلِ عِنْدَهُ الشَّهَادَةُ لَا یَعْلَمُ بِهَا صَاحِبُهَا۲۳۶۵

[151] سنن ابوداود كِتَاب الْأَقْضِیَةِبَابٌ فِی الشَّهَادَاتِ ۳۵۹۶

[152] صحیح بخاری كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابٌ لاَ یَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ ۲۶۵۲،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ۶۴۶۹ ،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَحْكَامِ بَابُ الرَّجُلِ عِنْدَهُ الشَّهَادَةُ لَا یَعْلَمُ بِهَا صَاحِبُهَا۲۳۶۳،مسنداحمد۳۵۹۴

[153] الحدید۲۸

[154] آل عمران۱۰۲

[155] الصف۵

[156] الانعام۱۱۰

[157] مسنداحمد۱۷۲۱۲

[158] البقرة۱۴

[159] طہ۷۴

[160] الاعلی۱۲،۱۳

[161] فاطر۱۰

[162] المنافقون۸

[163] الانعام۶۸

[164]جامع ترمذی ابواب الادب باب ماجاء فی دخول الحمام ۲۸۰۱،مسند احمد ۱۴۶۵۱، سنن الدارمی ۲۱۳۷

[165] تفسیرعبدالرزاق ۴۸۱؍۱، رقم۶۴۷

[166] البقرة۹

[167] المومن۱۹

[168] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ ۶۴۹۹، صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِی عَمَلِهِ غَیْرَ اللهِ۷۴۷۶،السنن الکبری للنسائی۱۱۶۳۶، مسند ابی یعلی ۱۵۲۴،مصنف ابن ابی شیبة۳۵۳۰۱، مسند احمد ۲۰۴۵۶،شعب الایمان ۶۴۰۰،شرح السنة للبغوی ۴۱۳۴

[169] صحیح بخاری کتاب الاذان بابُ فَضْلِ العِشَاءِ فِی الجَمَاعَةِ۶۵۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ، وَبَیَانِ التَّشْدِیدِ فِی التَّخَلُّفِ عَنْهَا۱۴۸۲،مسند احمد ۹۴۸۶

[170] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ وُجُوبِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ۶۴۴،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ، وَبَیَانِ التَّشْدِیدِ فِی التَّخَلُّفِ عَنْهَا۱۴۸۱

[171] نیل الاوطار۳۶۲؍۱

[172] فتح الباری ۱۲۷؍۲

[173] نیل الاوطار ۱۵۴؍۳

[174] سنن الدارمی۱۳۰۵

[175] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ اسْتِحْبَابِ التَّبْكِیرِ بِالْعَصْرِ۱۴۱۲،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ ۴۱۳،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی تَعْجِیلِ العَصْرِ ۱۶۰،سنن نسائی کتاب الصلوٰة بَابُ التَّشْدِیدِ فِی تَأْخِیرِ الْعَصْرِ۵۱۲، مسنداحمد۱۱۹۹۹

[176] نیل الاوطار۳۸۰؍۱

[177] تفسیرطبری۳۳۵؍۹

[178] مسنداحمد۵۰۷۹،صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ باب صلاة المنافقین۷۰۴۳

[179] الکہف۱۷

[180] الاعراف۱۸۶

Related Articles