بعثت نبوی کا چھٹا سال

 سیدالشہداء حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کاقبول اسلام

ذی الحجہ چھ  بعثت نبوی

حمزہ بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاتھے

 وَأَخُوهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ

کیونکہ انہوں  نے بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کادودھ پیاتھااس لئے رضاعی بھائی بھی تھے۔[1]

آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دوسال ہی بڑے تھے،

كَانَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یُكَنَّى أَبَا عُمَارَةَ

حمزہ بن عبدالمطلب کی کنیت ابوعمارہ تھی۔[2]

حمزہ رضی اللہ عنہ  بڑے بہادر،جنگجو،طاقت وراورقدآورتھے، یہ قریش میں  بڑے معزز،باوقار اور خوددار مانے جاتے تھے جبکہ شکارکے بھی بہت شوقین تھے ،ان کامعمول تھاکہ جب شکارسے واپس آتے توپہلے کعبہ کاطواف کرتے ،طواف کے بعدقریش کے دارشوری میں  جاتےوہاں  حاضرین سے باتیں  کرتے اورپھرگھرتشریف لے جاتے ،اتنے قریبی تعلق کے باوجودابھی تک قبول اسلام سے سرفرازنہیں  ہوئے تھےلیکن اللہ کی تدبیرکے آگے کس کی تدبیرچل سکتی ہے وہ جب کسی کے لئے خیرکاارادہ فرماتاہے توعجیب وغریب طریقے سے خیرعنایت فرمادیتاہے ،چنانچہ اللہ نے مسلمانوں  کی مددکے لئے حمزہ  رضی اللہ عنہ  کوشرف عطاکرنے کاارادہ فرمایا:

أَنَّ أَبَا جَهْلٍ اعْتَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الصَّفَا، فَآذَاهُ وَشَتَمَهُ وَقَالَ فِیهِ مَا یُكْرَهُ مِنَ الْعَیْبِ لِدِینِهِ، وَالتَّضْعِیفِ لَهُ، فَلَمْ یُكَلِّمْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،وَمَوْلَاةٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ التَّیْمِیِّ فِی مَسْكَنٍ لَهَا فَوْقَ الصَّفَا تَسْمَعُ ذَلِكَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَعَمَدَ إِلَى نَادِی قُرَیْشٍ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فَجَلَسَ مَعَهُمْ، وَكَانَ یَوْمَئِذٍ مُشْرِكًا عَلَى دَیْنِ قَوْمِهِ

ایک دن یہ شکارپرگئے ہوئے تھے کہ ابوالحکم (ابوجہل)کاکوہ صفامیں  واقع غلاموں  کےمشہورتاجرعبداللہ بن جدعان کے مکان کے قریب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے آمناسامنا ہو گیا ، اس کادل توپہلے ہی دعوت اسلام کے اعلان سے بغض وعناد سے بھراہواتھا اس پرمسلمانوں  کاہجرت حبشہ کرنا اوروہاں  سے قریش کے وفدکی ذلت ونامرادی سے واپسی سے اوربھرگیاتھا چنانچہ اس نے اپنی شقاوت قلبی کامظاہرکرتے ہوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواکیلادیکھ کر دین اسلام کی خوب تنقیص وتحقیرکرتارہا مگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیااورخاموشی سے اس کی باتیں  سنتے رہے،عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی(جس سے اللہ نے کام لیناتھا) مکان کی بالائی منزل سے یہ سب باتیں  سنتی اوردیکھتی رہی ،وہ مسلمان تونہیں  تھی مگرجس طرح ابوجہل نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دین کی تنقیص وتحقیرکی اورایذا پہنچائی اس سے اس کی آنکھوں  میں  خون اترآیامگروہ کیاکرسکتی تھی ،اس معاشرے میں ایک عورت کی کیاحیثیت تھی اوراس پرایک بیوہ کی لونڈی کی کیاحیثیت ہوسکتی تھی ،وہ بس تلملاکررہ گئی اوراس نے فیصلہ کیاکہ وہ اس واقعہ کی خبرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بہادرچچا حمزہ رضی اللہ عنہ  کودے گی ، چنانچہ وہ حمزہ  رضی اللہ عنہ  کا انتظارکرنے لگی جوکہ ابھی اپنے آباؤاجدادکے مشرکانہ دین پرتھے،

وَلَمْ یَلْبَثْ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْ أَقْبَلَ مُتَوَشِّحًا قَوْسَهُ رَاجِعًا مِنْ قَنْصٍ لَهُ، وَكَانَ إِذَا فَعَلَ ذَلِكَ لَمْ یَمُرَّ عَلَى نَادِی قُرَیْشٍ، وَأَشَدُّهَا شَكِیمَةً،   فَجَاءَتْهُ الْمَوْلَاةُ وَقَدْ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَرْجِعَ إِلَى بَیْتِهِ، فَقَالَتْ لَهُ: یَا عُمَارَةُ، لَوْ رَأَیْتَ مَا لَقِیَ ابْنُ أَخِیكَ مُحَمَّدٍ مِنْ أَبِی الْحَكَمَ آنِفًا وَجَدَهُ هَا هُنَا، فَآذَاهُ وَشَتَمَهُ، وَبَلَغَ مَا یُكْرَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ فَعَمَدَ إِلَى نَادِی قُرَیْشٍ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَجَلَسَ مَعَهُمْ وَلَمْ یُكَلِّمْ مُحَمَّدًا

تھوڑی دیربعدجب حمزہ  رضی اللہ عنہ شکارسے واپس ہوئے اور اپنے معمولات سے فارغ ہوکرگھرجاتے ہوئے مضبوط قدموں  سے عبداللہ بن جدعان کے مکان کے پاس سے گزرے جہاں  وہی لونڈی ان کاانتظارکررہی تھی تواس نے حمزہ  رضی اللہ عنہ  کوروکااورکہااے ابوعمارہ!کاش آپ دیکھ سکتے کہ ابوالحکم نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ کتنابراسلوک کیا ہے،اس نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کویہاں  اکیلاپاکرسب وشتم کیااورآپ کی شان کے خلاف نازیباباتیں  کیں ،آپ کے بھتیجے خاموشی سے اس کی نفرت انگیز اور زہرمیں  بجھی باتیں  سنتے رہے ،مگرپھربھی اس نے انہیں تکلیف پہنچائی اوراپنے دل کابوجھ ہلکاکرکے وہ آگے بڑھ گیااورآپ کے بھتیجے بھی گھرتشریف لے گئے،اے ابوعمارہ !کیااپنے دودھ شریک بھائی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی شان میں  نازیباباتیں  سن کراوران پرنارواظلم دیکھ کر تمہاری خاندانی غیرت و حمیت بیدارنہیں  ہوتی؟کیااعلائے کلمہ حق کایہ صلہ ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندے سے یہ معاملہ کیاجائے اوراس کے بھائی بندخاموشی سے دیکھتے رہیں ؟

فَاحْتَمَلَ حَمْزَةُ الْغَضَبَ لِمَا أَرَادَ اللَّهُ مِنْ كَرَامَتِهِ، فَخَرَجَ سَرِیعًا لَا یَقِفُ عَلَى أَحَدٍ كَمَا كَانَ یَصْنَعُ، یُرِیدُ الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ مُتَعَمِّدًا لِأَبِی جَهْلٍ أَنْ یَقَعَ بِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ نَظَرَ إِلَیْهِ جَالِسًا فِی الْقَوْمِ فَأَقْبَلَ نَحْوَهُ، حَتَّى إِذَا قَامَ عَلَى رَأْسِهِ رَفَعَ الْقَوْسَ فَضَرَبَهُ عَلَى رَأْسِهِ ضَرْبَةً مَمْلُوءَةً، وَقَامَتْ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ إِلَى حَمْزَةَ لِیَنْصُرُوا أَبَا جَهْلٍ، فَقَالُوا: مَا نَرَاكَ یَا حَمْزَةُ إِلَّا صَبَأْتَ

لونڈی کی باتیں  سن کرحمزہ رضی اللہ عنہ  کی قبائلی غیرت وحمیت جاگ اٹھی اور وہ غیض وغضب سے بھڑک اٹھے اور ابوجہل کی تلاش میں  بیت اللہ کی طرف روانہ ہوگئے، جب حرم میں  پہنچے تودیکھاکہ ابوجہل بنومخزوم کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھاہواہے، حمزہ  رضی اللہ عنہ  نے اس کے قریب پہنچ کراس کے سرپراپنی کمان ا تنے زورسے ماری کہ اس کاسرپھٹ گیا اور کہا زبان کی گستاخی کے ساتھ اب تیرے ہاتھ بھی گستاخ ہوگئے ہیں ،دیکھ لومیں  نے خودان کادین اختیارکرلیاہے اورجووہ کہتاہے وہی میں  بھی کہتاہوں اگرتجھ میں  کچھ طاقت ہے تومجھے جواب دو،محفل میں  بیٹھے بنی مخزوم کےکچھ لوگوں  نے ابوجہل کی حمایت میں  کھڑاہوناچاہالیکن ابوجہل کے دل میں  خودہی چورتھااسے علم تھاکہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چندلمحوں  پہلے کیاسلوک کیاتھااوریہ اسی کی ہی سزاہے اس لئے اس نے ان لوگوں  کوخودہی کوئی کاروائی کرنے سے منع کر دیا اور کہاابوعمارہ سے کچھ نہ کہوواقعی میں  نے ان کے بھتیجے کوآج بہت سی بے ہودہ باتیں  کی ہیں ،بعض حاضرین مجلس نے حیرت سے کہااے حمزہ !کیاتم صابی(بے دین)ہوگئے ہو،

فَقَالَ حَمْزَةُ: وَمَا یَمْنَعُنِی وَقَدِ اسْتَبَانَ لِی ذَلِكَ مِنْهُ، أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّ الَّذِی یَقُولُ حَقٌّ، فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِعُ، فَامْنَعُونِی إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: دَعُوا أَبَا عُمَارَةَ، لَقَدْ سَبَبْتُ ابْنَ أَخِیهِ سَبًّا قَبِیحًا، وَمَرَّ حَمْزَةُ عَلَى إِسْلَامِهِ، وَتَابَعَ یُخَفِّفُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حمزہ  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاہاں  محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حقانیت وصداقت مجھ پراچھی طرح منکشف ہوچکی ہےاورمیں  تم سب کے سامنے گواہی دیتاہوں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں  اورجوکچھ آپ پرنازل ہوتاہے سراسرحق ہے،اب جبکہ صراط مستقیم مجھے صاف دکھائی دے رہی ہے تومیں  اس سچی ،صاف ستھری راہ کوکبھی نہیں  چھوڑوں  گاتم لوگ میرے مقابل آناچاہتے تومیں  اس کے لئے تیارہوں ،غصہ میں  یہ سب کام کرکے اورزبان سے کہہ کرجب گھرتشریف لے آئے اورکچھ غصہ بھی ٹھنڈاہوگیاتوشیطان نے ان کے دل میں  وسوسہ جگایاکہ اے حمزہ!یہ تم نے کیاکہہ ڈالاتم توقریش کے ایک بہادرسردارہوکیاتم اپناآبائی دین چھوڑکرایک صابی کی پیروی کروگے جوتم سے عمرمیں  بھی چھوٹا ہےایساکرنے سے تومرجانازیادہ بہترہے ،جب اس طرح کے خیالات دماغ میں  جمع ہوگئے تو حمزہ رضی اللہ عنہ  کچھ تردداوراشتباہ میں  پڑگئے کہ اب وہ کیاکریں کیااپنے آبائی دین پر قائم رہیں  یاجواعلان کر کے آئے ہیں  اس پرکاربندرہیں ،جب کچھ سمجھ میں  نہ آیاتواللہ تعالیٰ کے حضورہاتھ اٹھاکربیٹھ گئے اورکہنے لگے اے اللہ اگریہ تیری بخشی ہوئی ہدایت ہے تومیرے دل کواس پرمضبوط فرمادے ،ورنہ اس سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا فرما دے۔[3]

ایک اورروایت میں  ہے

ثُمَّ رَجَعَ حَمْزَةُ إِلَى بَیْتِهِ فَأَتَاهُ الشَّیْطَانُ، فَقَالَ: أَنْتَ سَیِّدُ قُرَیْشٍ اتَّبَعْتَ هَذَا الصَّابِئَ وَتَرَكْتَ دَیْنَ آبَائِكَ، لَلْمَوْتُ خَیْرٌ لَكَ مِمَّا صَنَعْتَ، فَأَقْبَلَ عَلَى حَ

۔ان کے دل میں  جووسوسہ ڈالاتھاکہ تم قریش کے سردارہوتم اپنے ااباؤاجدادکادین ترک کرکے ایک صابی کی اطاعت کروگے،اس سے توموت بہترہے،ان خیالات کی وجہ سے ان کی تمام رات اسی پریشانی واضطراب میں  کٹ گئی اوروہ ایک لمحہ کے لئے بھی آرام نہ کرسکے اور انہو ں نے دعا فرمائی، اے اللہ !اگر یہی راہ راست ہے تو میرے قلق وبے چینی کو دور فرمادے اور میرے لیے راستہ نکال دے جس میں  میں  پڑا ہوا ہوں ، ساری رات اسی تردد وقلق میں  اس طرح گزاری کہ اس سے قبل ایسی رات کبھی نہیں  گزاری تھی جب صبح ہوئی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تشریف لے آئے،

فَقَالَ: ابْنَ أَخِی، إِنِّی وَقَعْتُ فِی أَمَرٍ لَا أَعْرِفُ الْمَخْرَجَ مِنْهُ، وَأَقَامَهُ مَثَلِی عَلَى مَا لَا أَدْرِی مَا هُوَ أَرْشَدُ هُوَ أَمْ غَیْرُ شَدِیدٍ، فَحَدَّثَنِی حَدِیثًا فَقَدِ اسْتَشْهَیْتُ یَا ابْنَ أَخِی أَنْ تُحَدِّثَنِی،  فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَّرَهُ وَوَعَظَهُ وَخَوَّفَهُ وَبَشَّرَهُ ، فَأَلْقَى اللَّهُ فِی نَفْسِهِ الْإِیمَانَ

اور کہا اے بھتیجے ! میں ایسی پریشانی میں  مبتلا ہوگیا ہوں  جس سے راہ نجات مجھے نہیں  سوج رہی اس معاملے میں  میری رہنمائی فرمائیں کہ صحیح اور غلط میں  تمیز ہوسکے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے واقعہ کا حل بتایا تو میں  نے عرض کیا اے بھتیجے! تو نے ایسی رہنمائی فرمائی کہ میرا خیال بھی اسی کے موافق تھا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  (اپنے چچا کی طرف) متوجہ ہوکرپند ونصائح فرمائی، جہنم سے ڈرایا اور جنت کی خوشخبری دی تو اللہ نے ان کے دل میں  ایمان ڈال دیا ۔

وَتَضَرّعْت إلَى اللهِ سُبْحَانَهُ أَنْ یَشْرَحَ صَدْرِی لِلْحَقّ وَیُذْهِبَ عَنّی الرّیْبَ فَمَا اسْتَتْمَمْتُ دُعَائِی حَتّى زَاحَ عَنّی الْبَاطِلُ وَامْتَلَأَ قَلْبِی یَقِینًا – أَوْ كَمَا قَالَ – فَغَدَوْت إلَى رَسُولِ اللهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  فَأَخْبَرْته بِمَا كَانَ مِنْ أَمْرِی، فَدَعَا لِی بِأَنْ یُثَبّتَنِی اللهُ

جب صبح ہوئی توحرم میں  تشریف لے گئے اورہاتھ اٹھاکرنہایت تضرع وگریہ زاری کے ساتھ دعامانگی کہ اے اللہ !جوحق ہے اس کے لئے میراسینہ کھول دے اورمیرے دل کے شک وتردد کو دور فرمادے،اللہ تعالیٰ جودعاؤں  کاسننے اورانہیں  پوراکرنے والاہے نے ان کی دعاسنی اورقبول فرمائی اوریک لخت تمام فاسدخیالات،شیطانی وسوسے ان کے دل سے کافورہوگئے اوران کادل حق پریقین کی دولت سے بھرگیا ،پھروہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورتمام واقعہ گوش گزارکیاان کی تمام رودادسنکر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دین پراستقامت کے لئے دعافرمائی۔[4]

ایک روایت ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے تو کہا

 أَشْهَدُ إِنَّكَ لَصَادِقٌ شَهَادَةً الْمُصَدِّقِ وَالْمُعَارِفِ،  فَأَظْهِرْ یَا ابْنَ أَخِی دِینَكَ، فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنْ لِی مَا أَلَمَعَتِ الشَّمْسُ، وَإِنِّی عَلَى دِینِی الْأَوَّلِ

میں تصدیق کرنے والے اورپہچاننے والے کی طرح گواہی دیتاہوں  کہ آپ یقیناًسچے نبی ہیں ،اے میرے بھتیجے آپ اپنے دین کوکھلم کھلابیان کریں  ،واللہ اگرمجھے دنیاکی تمام نعمتیں  بھی مل جائیں  میں  تب بھی ان کے بدلے دین اسلام چھوڑکرآبائی دین اختیارنہیں  کروں  گا۔[5]

فَلَمّا أَسْلَمَ حَمْزَةُ عَرَفَتْ قُرَیْشٌ أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَزّ وَامْتَنَعَ وَأَنّ حَمْزَةَ سَیَمْنَعُهُ فَكَفّوا عَنْ بَعْضِ مَا كَانُوا یَنَالُونَ مِنْهُ

جب قریش نے حمزہ رضی اللہ عنہ کااسلام دیکھاتوان کی ہمتیں  پست ہوگئیں  اوروہ سمجھ گئے کہ حمزہ رضی اللہ عنہ  اب ان کی حمایت پرہیں  اورپھروہ بہت سی ایذارسانی کی باتوں  سے باز آگئے ۔[6]

[1] مستدرک حاکم۴۸۷۷

[2] مستدرک حاکم۴۸۹۹

[3] مستدرک حاکم ۴۸۷۸

[4] الروض الانف ۵۸؍۳

[5] مستدرک حاکم۴۸۷۸

[6] الروض الانف۵۸؍۳،ابن ہشام۲۹۲؍۱

Related Articles