بعثت نبوی کا چھٹا سال

مضامین سورة المومنون

اس سورة کامرکزی مضمون اتباع رسول کی دعوت ہے ، سورہ کے شروع میں  ترغیب دینے کے لئے دنیاوآخرت میں  کامیاب وکامران لوگوں  کے اخلاق واوصاف بیان کئے گئے کہ وہ اپنی نمازمیں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں ،لغویات سے دوررہتے ہیں ،کامل طریقے سے زکوٰة اداکرتے ہیں ،زنااورفحش کاموں  سے اپنے آپ کوبچاکررکھتے ہیں ،امانتیں  کی حفاظت کرتے ہیں  ، اپنے عہدوپیمان کاپاس رکھتے ہیں  اوراپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں ، عقیدہ توحیدوآخرت کوثابت کرنے کے لئے آسمان ، زمین،اوراس میں  سے پیداہونی والی نبات وجمادات ، حیوانات اورانسان کی تخلیق کوبیان کیاگیا،اہل مکہ نبوت ودسالت کے قائل ہی نہ تھے ،بتایاگیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پرجوشبہات اوراعتراضات واردکررہے ہووہ کچھ نئے نہیں  بلکہ تم سے پہلے جتنی امتیں  آئیں  انہوں  نے بھی یہی اعتراضات کیے تھے،دین اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوا کرتاہے ،انسانوں  کے بنائے ہوئے رسم ورواج دین نہیں  ہوا کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوعقائدونظریات پیش کررہے ہیں  یہ کوئی نئے نہیں  بلکہ پہلے انبیاء بھی یہی پیش کرتے رہے ہیں  ، جس کی انکار کی پاداش میں  ان پرقہرالہٰی نازل ہوا اوروہ عبرت کانشان بن گئے، اس کے علاوہ اپنی یہ غلط فہمی بھی دورکردوکہ اگرہم نے تمہیں  مال ودولت ، طاقت اورافرادی قوت دی ہوئی ہے توہم تم سے خوش ہیں  اورتم ہمارے محبوب ہواور جن کوہم نے اپنی نعمتوں  سے نہیں  نوازاتوہم ان سے ناراض ہیں ، ایسا ہرگزنہیں  بلکہ ہمارے پسندیدہ اورمحبوب بندے وہ ہیں  جوایمان لاتے ہیں  اورہر معاملے میں ہمارے رسول کی اطاعت کرتے ہیں  ،اس کے علاوہ یہ ہماری سنت ہے کہ ہم اصل عذاب آنے سے بیشترآخری بارسمجھانے کے لئے چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھ جائیں ، موجودہ قحط سالی بھی تمہیں  تمہاری بداعمالیوں  پر تنبہ کرنے کے لئے ہمارا ہلکا سا عذاب ہے تمہارے لئے بہتریہی ہے کہ سمجھ جاؤاوراپنابغض وعناداورغروروتکبرکوچھوڑکردعوت اسلام قبول کرلوورنہ جب ہماراعذاب نازل ہوگاتوپھرتم بلبلا اٹھو گے ،اور اگر تم نے اہل ایمان کے ساتھ اپنے ظلم وستم کوبندنہ کیا تو روزآخرت تمہیں  اس کاسخت حساب دیناہوگا،رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کوعفوودرگزرکی تلقین کی گئی اور فرمایا گیاکہ ان ناسمجھ لوگوں  کی برائی کابدلہ اچھائی کی شکل میں  دو، ظالم ،متکبر،ہٹ دھرم ، اور نقصان اٹھانے والے لوگوں  کے حالات اوران کاانجام بدبیان کیاگیا اور آخر میں  ایک بہترین دعا ہے،

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۝۱۱۸ۧ

ترجمہ:اے میرے رب! مجھے معاف فرمادے اورمجھ پررحم فرمااورتوسب رحم کرنے والوں  میں  سے زیادہ رحم کرنے والاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  میں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١﴾‏ الَّذِینَ هُمْ فِی صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَالَّذِینَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَالَّذِینَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ‎﴿٤﴾‏ وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎﴿٥﴾‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ ‎﴿٦﴾‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ‎﴿٧﴾‏ وَالَّذِینَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَالَّذِینَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ یُحَافِظُونَ ‎﴿٩﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ‎﴿١٠﴾‏ الَّذِینَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿١١﴾‏(المؤمنون)
یقیناً ایمان والوں  نے فلاح حاصل کرلی جو اپنی نماز میں  خشوع کرتے ہیں ، جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں  ،جو زکوة ادا کرنے والے ہیں ، جو اپنی شرم گاہوں  کی حفاظت کرنے والے ہیں  بجز اپنی بیویوں  اور ملکیت کی لونڈیوں  کے یقیناً یہ ملامتیوں  میں  سے نہیں  ہیں  جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں  وہی حد سے تجاوز کر جانے والے  ہیں ، جو اپنی امانتوں  اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں  ، جو اپنی نمازوں  کی نگہبانی کرتے ہیں  یہی وارث ہیں  جو فردوس کے وارث ہوں  گےجہاں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

مومنین کونویدسنائی گئی کہ دنیادار،صاحب ثروت اورصاحب مرتبہ لوگوں  نے نہیں  بلکہ دعوت حقہ پرایمان لانے والوں  نے دنیاوآخرت میں  فلاح وسعادت پائی ہے،جوان اوصاف سے متصف ہوں  گی کہ وہ اپنی نمازوں میں  عجزوانکساری اور خشوع و خضوع اختیارکرتے ہیں ،

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:الْخُشُوعُ فِی الْقَلْبِ

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے روایت ہے خشوع دل کے عجزوانکسارکانام ہے۔[1]

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:  حُبِّبَ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا: النِّسَاءُ، وَالطِّیبُ،وَجُعِلَ قُرَّةُ عَیْنِی فِی الصَّلَاةِ

انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے دنیاکی سب چیزوں  میں  عورتیں  اورخوشبو زیادہ پسندہیں   اورمیری آنکھوں  کی ٹھنڈک نماز میں  ہے۔[2]

وہ شرک ،صغیرہ وکبیرہ گناہوں  اوربے فائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں  ، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا [3]

ترجمہ:اورکسی لغوچیزپران کاگزر ہو جائے تو مہذب، پروقار طریقے سے گزرجاتے ہیں ۔

جواپنے نفس کا تزکیہ کرتے اور دوسروں  کوبھی پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙوَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى۝۱۵ۭ [4]

ترجمہ:فلاح پائی اس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیارکی اور اپنے رب کانام یادکرکے نمازپڑھی۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۝۹۠ۙ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىهَا۝۱۰ۭ [5]

ترجمہ:بامرادہواوہ جس نے نفس کاتزکیہ کیا اور نامرادہواوہ جس نے اس کودبادیا۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ یَوْمًا قَرِیبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِیرُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الجَنَّةَ وَیُبَاعِدُنِی عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِی عَنْ عَظِیمٍ، وَإِنَّهُ لَیَسِیرٌ عَلَى مَنْ یَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَیْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكْ بِهِ شَیْئًا، وَتُقِیمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِی الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَیْتَ,

معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک سفر میں  تھا کہ ایک صبح میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب ہوگیا ہم سب چل رہے تھے میں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! مجھے ایسا عمل بتائیں  جو مجھے جنت میں  داخل اور جہنم سے دور کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم نے مجھ سے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے البتہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان فرما دے اس کے لیے آسان ہے،اور وہ یہ کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرواور  زکوٰة اداکرواوررمضان کے روزے رکھواور بیت اللہ کا حج کرو،

ثُمَّ قَالَ: أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الخَیْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِیئَةَ كَمَا یُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَصَلاَةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ قَالَ: ثُمَّ تَلاَ {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ}، حَتَّى بَلَغَ {یَعْمَلُونَ} , ثُمَّ قَالَ: أَلاَ أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ، وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ؟ قُلْتُ: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: رَأْسُ الأَمْرِ الإِسْلاَمُ، وَعَمُودُهُ الصَّلاَةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الجِهَادُ,

پھر فرمایا کیا میں  تمہیں  خیر کا دروازہ نہ بتاؤں ،  روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں  کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے پانی آگ کو  اور آدھی رات کو نماز پڑھنا (یعنی یہ بھی اور خیر ہے)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت پڑھی’’ ان کے پہلو بستروں  سے الگ رہتے ہیں  اور اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں ۔‘‘ یہ آیت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا میں  تمہیں  تمام امور کی جڑ اس کی بالائی چوٹی اور اس کی ریڑھ کی ہڈی نہ بتادوں ؟میں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کیوں  نہیں  !فرمایا اس کی جڑ اسلام، اس کی بالائی چوٹی نماز اور اس کی ریڑھ کی ہڈی جہاد ہے،

ثُمَّ قَالَ: أَلاَ أُخْبِرُكَ بِمَلاَكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ قُلْتُ: بَلَى یَا نَبِیَّ اللهِ، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ: كُفَّ عَلَیْكَ هَذَا، فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ یَا مُعَاذُ، وَهَلْ یَكُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ.

کیامیں  تمہیں  اس چیزکے بارے میں  آگاہ نہ کروں  جس پران سب چیزوں  کادارومدار ہے؟میں  نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ضروربتائیں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ نے زبان پکڑی اورفرمایااس کواپنے قابومیں  رکھو،میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاہم جوباتیں  کرتے ہیں ان پرپکڑے جائیں  گے؟فرمایااے معاذتیری ماں  تجھ پرروئے! لوگوں  کواوندھےمنہ دوزخ میں  اورکیاچیزگراتی ہے سوائے اپنی باتوں  ہی کی وجہ سے۔[6]

جو عریانی سے پرہیزکرتے ہیں  اوراپناستردوسروں  کے آگے نہیں  کھولتے سوائے اپنی منکوحہ بیویوں  کے اوران عورتوں  کے جوان کی ملک یمین میں  ہوں  کہ ان پرمحفوظ نہ رکھنے میں  وہ قابل ملامت نہیں  ہیں البتہ جواس کے علاوہ کچھ اور چاہیں  وہی زیادتی کرنے والے ہیں ،یعنی جنسی تسکین کے صرف دوذریعہ مقرر فرمائےمنکوحہ بیوی اورمملوکہ لونڈی اس کے علاوہ جنسی تسکین کاکوئی دوسرا جائزطریقہ نہیں ، مثلاًعمل قوم لوط ،مشت زنی اورمتعہ کرنا تواسلام میں  اس کی قطعاً اجازت نہیں  ہے ،کیونکہ لواطت کی وجہ سے قوم لوط کوعذاب نازل کرکے نشان عبرت بنا دیاگیا،جیسے فرمایا

اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓی اَہْلِ ہٰذِہِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۳۴ [7]

ترجمہ:ہم اس بستی کے لوگوں  پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں  اس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں  ۔

مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے گزرنے والاہے، اورمتعہ والی عورت نہ تومنکوحہ بیوی کے زمرے میں  آتی ہے نہ ہی ملک یمین کے ،جواپنی امانتوں  کی چاہے وہ رازدرانہ باتیں  ہوں  یامالی امانتیں  ہوں  حفاظت کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۔۔۔۝۰۝۵۸ [8]

ترجمہ:اللہ تمہیں  حکم دیتاہے کہ امانتیں  اہل امانت کے سپردکرو۔

اور اپنے رب ،بندوں  اورقوموں  سے عہدو پیمان کا پاس رکھتے ہیں ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ

انس  رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایاجوامانت کی صفت نہیں  رکھتاوہ ایمان نہیں  رکھتا اور جو عہدکاپاس نہیں  رکھتاوہ دین نہیں  رکھتا۔[9]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آیَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامنافق کی تین نشانیاں  ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے اورجب وعدہ کرے تواس کی خلاف ورزی کرے اورجب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تواس میں  خیانت کرے۔[10]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى یَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چارخصلتیں  ہیں  کہ جس میں  وہ چاروں  پائی جائیں  وہ خالص منافق ہے اورجس میں  کوئی ایک پائی جائے اس کے اندرنفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑنہ دےجب کوئی امانت اس کے سپردکی جائے توخیانت کرے، جب بولے توجھوٹ بولے،جب عہدکرے توتوڑدےاورجب کسی سے جھگڑے تو(اخلاق ودیانت کی) ساری حدیں  پھلاندجائے۔[11]

نمازکی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ فرمایاکہ جواوقات نماز،آداب نماز،ارکان واجزائے نمازالغرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہرچیزکی نگہداشت کرتے ہیں ،

عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ:الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ:ثُمَّ بِرُّ الوَالِدَیْنِ قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ:الجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کونساہے ؟فرمایانمازکواپنے وقت پرادا کرنا،میں  نےپوچھا اس کے بعد؟ فرمایاماں  باپ سے اچھاسلوک کرنا،میں نےپوچھاس کے بعد؟ فرمایا اللہ کی راہ میں  جہادکرنا۔

[12]عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَقِیمُوا، وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَیْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةَ، وَلَا یُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ

ثوبان  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدھے سیدھے رہواورتم ہرگزاحاطہ نہ کرسکوگے جان لوکہ تمہارے تمام اعمال میں  بہترین عمل نمازہے،دیکھو وضوکی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتاہے۔[13]

ان اوصاف کے علاوہ بھی مومنین کی خصوصیات بیان فرمائیں ۔

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ۝۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ۝۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ۝۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷ [14]

ترجمہ:نیکی یہ نہیں  کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یامغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کواوریوم آخراورملائکہ کواوراللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اوراس کے پیغمبروں  کودل سے مانے اوراللہ کی محبت میں  اپنادل پسندمال رشتے داروں  اوریتیموں  پر،مسکینوں  اورمسافروں  پر،مددکے لئے ہاتھ پھیلانے والوں  پراورغلاموں  کی رہائی پرخرچ کرے ،نمازقائم کرے اورزکوٰة دےاورنیک وہ لوگ ہیں  کہ جب عہدکریں  تواسے وفاکریں  اورتنگی ومصیبت کے وقت میں  اورحق وباطل کی جنگ میں  صبرکریں  ،یہ ہیں  راستبازلوگ اوریہی لوگ متقی ہیں ۔

اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللهِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۱۲ [15]

ترجمہ:اللہ کی طرف باربارپلٹنے والے،اس کی بندگی بجالانے والے،اس کی تعریف کے گن گانے والے،اس کی خاطرزمین میں  گردش کرنے والے،اس کے آگے رکوع اورسجدے کرنے والے،نیکی کاحکم دینے والےبدی سے روکنے والے اوراللہ کی حدودکی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں  وہ مومن جواللہ سے بیع کایہ معاملہ کرتے ہیں )اوراے نبی!ان مومنوں  کوخوشخبری دے دیں ۔

 وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۝۶۴وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ۝۰ۤۖ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا۝۶۵ۤۖاِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا۝۶۶وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ۝۰۝۶۸ۙ [16]

ترجمہ:رحمان کے (اصلی)بندے وہ ہیں  جوزمین پرنرم چال چلتے ہیں  اورجاہل ان کے منہ آئیں  توکہہ دیتے ہیں  کہ تم کوسلام،جواپنے رب کے حضورسجدے اورقیام میں  راتیں  گزارتے ہیں ،جودعائیں  کرتے ہیں  کہ اے ہمارے رب! جہنم کے عذاب سے ہم کوبچالےاس کاعذاب توجان کالاگوہےوہ تو بڑاہی برا مستقراورمقام ہے،جوخرچ کرتے ہیں  تونہ فضول خرچی کرتے ہیں  نہ بخل بلکہ ان کاخرچ دونوں  انتہاؤں  کے درمیان اعتدال پرقائم رہتاہے،جواللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں  پکارتے،اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کوناحق ہلاک نہیں  کرتے اورنہ زناکے مرتکب ہوتے ہیں  ۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡسِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۔۔۔۝۲۹ۧ [17]

ترجمہ:محمداللہ کے رسول ہیں  اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں  وہ کفارپرسخت اورآپس میں  رحیم ہیں ،تم جب دیکھوگے انہیں  رکوع وسجوداوراللہ کے فضل اوراس کی خوشنودی کی طلب میں  مشغول پاؤ گے، سجود کے اثرات ان کے چہروں  پرموجودہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں ۔

الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ۝۲۳۠ۙوَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙلِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵۠ۙوَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۝۲۶۠ۙوَالَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ۝۲۷ۚاِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ۝۲۸وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ۝۲۹ۙ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۝۳۰ۚفَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ۝۳۱ۚوَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲۠ۙوَالَّذِیْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَاۗىِٕمُوْنَ۝۳۳۠ۙوَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ۝۳۴ۭاُولٰۗىِٕكَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ۝۳۵ۭۧ [18]

ترجمہ:جونمازپڑھنے والے ہیں ،جواپنی نمازکی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں ،جن کے مالوں  میں  سائل اورمحروم کاایک مقررحق ہے،جوروزجزاکوبرحق مانتے ہیں ،جواپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں  کیونکہ ان کے رب کاعذاب ایسی چیزنہیں  ہے جس سے کوئی بے خوف ہو،جواپنی شرم گاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں بجزاپنی بیویوں  یااپنی مملوکہ عورتوں  کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں  ان پرکوئی ملامت نہیں  البتہ جواس کے علاوہ کچھ اورچاہیں  وہی حدسے تجاوزکرنے والے ہیں ،جواپنی امانتوں  کی حفاظت اوراپنے عہد کاپاس کرتے ہیں ،جواپنی گواہیوں  میں  راست بازی پرقائم رہتے ہیں  اورجواپنی نمازکی حفاظت کرتے ہیں ،یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں  میں  رہیں  گے ۔

فرمایا یہی لوگ فلاح یاب ہوں  گے اور میراث میں ( جنت کابلندترین،بہتراورافضل طبقہ) جنت فردوس پائیں  گے،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۝۱۰۷ۙ [19]

ترجمہ:البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں  گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا لَهُ مَنْزِلَانِ: مَنْزِلٌ فِی الْجَنَّةِ، وَمَنْزِلٌ فِی النَّارِ، فَإِذَا مَاتَ، فَدَخَلَ النَّارَ، وَرِثَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْزِلَهُ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ} [20]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم میں  سے ہرشخص کے لیے دومقام ہیں ایک مقام جنت میں  اوردوسرامقام جہنم میں ،اگروہ مرنے کے بعدجہنم میں  داخل ہوگا تواس کے جنت والے مقام کے اہل جنت وارث ہوں  گے یہی معنی ہیں  اس آیت کریمہ  کے ، یہی لوگ وارث ہوں  گے۔[21]

اورجنتی اس کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  سے ہمیشہ فیض یاب ہوں  گے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، جَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ – أُرَاهُ – فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص اللہ اوراس کے رسول پرایمان لائےاورنمازقائم کرے   اوررمضان کے روزے رکھے تواللہ تعالیٰ پرحق ہے کہ وہ جنت میں  داخل کرے گاخواہ اللہ کے راستے میں  وہ جہادکرے یااسی جگہ پڑارہے جہاں  پیداہواتھاصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! کیاہم لوگوں  کواس کی بشارت نہ دے دیں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جنت میں  سودرجے ہیں  جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں  جہادکرنے والوں  کے لئے تیارکئے ہیں ان کے دودرجوں  میں  اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین میں  ہےاس لئے جب اللہ تعالیٰ سے مانگناہوتوجنت الفردوس مانگو وہ سب سے اعلیٰ اوراوسط جنت ہے ،اسی کے اوپراللہ تعالیٰ کاعرش ہےاوروہیں  سے جنت کی نہریں  جاری ہوتی ہیں ۔ [22]

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِینٍ ‎﴿١٢﴾‏ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَّكِینٍ ‎﴿١٣﴾‏ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ ‎﴿١٤﴾‏ ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَیِّتُونَ ‎﴿١٥﴾‏ ثُمَّ إِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُونَ ‎﴿١٦﴾‏(المؤمنون)
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں  قرار دے دیا،پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنادیا، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں  بنادیں ،  پھر ہڈیوں  کوہم نے گوشت پہنا دیا پھر دوسری بناوٹ میں  اسے پیدا کردیا ، برکتوں  والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ، اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مرجانے والے ہو،  پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے۔

انسان کی پیدائش مرحلہ وار:

انسان کی تخلیق میں  تدبرکی دعوت دی کہ ہم نے انسان کے جدامجدآدم علیہ السلام  کو تمام زمین سے حاصل کردہ مٹی کے ست سے بنایا،جیسے متعددمقامات پرفرمایا

اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ۝۱۱ [23]

ترجمہ: ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚ [24]

ترجمہ:ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ۝۲۰ [25]

ترجمہ:اس کی نشانیوں  میں  سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں ) پھیلتے چلے جا رہے ہو ۔

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وحَدَّثَنَاهُ هَوْذَةُ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ قَسَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ الْأَشْعَرِیَّ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ. جَاءَ مِنْهُمْ: الْأَحْمَرَ وَالْأَبْیَضَ وَالْأَسْوَدَ وَبَیْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلَ وَالْحَزْنَ وَبَیْنَ ذَلِكَ، وَالْخَبِیثَ وَالطَّیِّبَ وَبَیْنَ ذَلِكَ

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام  کو(مٹی کی)ایک مٹھی سے پیدافرمایاجسے اس نے ساری زمین سے اکٹھاکیاتھاتواسی زمین کے مطابق بنوآدم پیداہوئےان میں  سے کچھ کارنگ سرخ ہے کچھ کاسفیداورکچھ کابین بین،ان میں  سے کچھ برے کچھ اچھے،کچھ نرم اورکچھ سخت جبکہ کچھ درمیانے ہیں ۔[26]

پھر نسل انسانی کے فروغ کے لئے اسے رحم مادرمیں  ٹپکی ہوئی بوندمیں  تبدیل کیا ،جیسے فرمایا

وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ۝۷ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۸ۚ [27]

ترجمہ:اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی،پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔

اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۲۰ۙفَجَــعَلْنٰہُ فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۝۲۱ۙ [28]

ترجمہ:کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں  پیدا نہیں  کیااور ایک مقرر مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا ؟۔

جومرد کی پشت اورعورت کےسینے کی ہڈیوں  سے نکلتاہے ،جیسے فرمایا:

یَّخْرُجُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۝۷ۭ [29]

ترجمہ:جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں  کے درمیان سے نکلتا ہے ۔

پھراس حقیربدبودارپانی کی اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ یُجْمَعُ خَلْقُهُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا ثُمَّ یَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ  ثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَیَعْمَلُ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ كِتَابُهُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الكِتَابُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم سے صادق المصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں  کے پیٹ میں چالیس دن تک(نطفہ کی صورت میں )کی جاتی ہے،اتنے ہی دنوں  تک پھرایک بستہ خون کی صورت میں  اختیارکئے رہتاہے،اورپھروہ اتنے ہی دنوں  تک ایک مضغہ گوشت رہتاہے،اس کے بعداللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتاہے اوراسے چارباتوں (کے لکھنے)کاحکم دیتاہے، اس سے کہاجاتاہے کہ اس کے عمل ،اس کارزق،اس کی مدت زندگی اوریہ کہ بدہے یانیک ،لکھ لے، اب اس نطفہ میں  روح ڈالی جاتی ہے (یادرکھ)ایک شخص(زندگی بھرنیک) عمل کرتارہتاہے اورجب جنت اوراس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتاہے تواس کی تقدیرسامنے آجاتی ہے اوروہ دوزخ والوں  کے عمل شروع کردیتاہے، اسی طرح ایک شخص(زندگی بھربرے) کام کرتارہتاہے اورجب دوزخ اوراس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتاہے تواس کی تقدیرغالب آجاتی ہے اور جنت والوں  کے کام شروع کردیتاہے۔[30]

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ أَسِیدٍ،یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  یَدْخُلُ الْمَلَكُ عَلَى النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِینَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَأَرْبَعِینَ لَیْلَةً، فَیَقُولُ:یَا رَبِّ أَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ؟فَیُكْتَبَانِ،فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ أَذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟فَیُكْتَبَانِ،وَیُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَثَرُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ،ثُمَّ تُطْوَى الصُّحُفُ   فَلَا یُزَادُ فِیهَا وَلَا یُنْقَصُ

حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا چالیس یاپینتالیس دن کے بعدجب وہ بچہ دانی میں  جم جاتاہے توفرشتہ نطفے کے پاس جاتاہے،اوروہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتاہے اے رب!اس کوبدبخت لکھوں  یانیک بخت؟پھرجوپروردگارکہتاہے ویساہی لکھتاہے،پھرکہتاہے مردلکھوں یا عورت ؟پھر جوپروردگارفرماتاہے ویسا لکھ لیتاہے، اوراس کا عمل اورعمراورروزی لکھتاہے، پھر کتاب لپیٹ دی جاتی ہےنہ اس سے کوئی چیزبڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے۔[31]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللَّهَ وَكَّلَ فِی الرَّحِمِ مَلَكًا، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ نُطْفَةٌ، یَا رَبِّ عَلَقَةٌ، یَا رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَخْلُقَهَا قَالَ: یَا رَبِّ أَذَكَرٌ، یَا رَبِّ أُنْثَى، یَا رَبِّ شَقِیٌّ أَمْ سَعِیدٌ، فَمَا الرِّزْقُ، فَمَا الأَجَلُ، فَیُكْتَبُ كَذَلِكَ فِی بَطْنِ أُمِّهِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ماں  کے رحم کے لئے ایک فرشتہ مقررکردیاہےوہ فرشتہ عرض کرتاہے ،اے رب،یہ نطفہ ہے،اے رب! یہ مضغہ( لوتھڑا)ہے ، اے رب!علقہ (گوشت کاٹکڑا)ہے،پھرجب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتاہے توفرشتہ پوچھتاہے اے رب!یہ مردہےیااے رب!یہ عورت ہے،اے رب!یہ شقی ہےیاسعید؟اس کی روزی کیاہے؟اورمدت زندگی کتنی ہے ؟چنانچہ اسی کے مطابق ماں  کے پیٹ ہی میں  سب کچھ فرشتہ لکھ لیتاہے۔[32]

پھرلوتھڑے کوچالیس دن بعد سرخ رنگ کی بوٹی میں  بدل دیاجس کی کوئی شکل وصورت نہیں  ہوتی ، پھراس کونک سک سے درست کیا ، پھر ہڈیوں  پرایک خاص تناسب اورمقدار سے گوشت کالباس چڑھایا ، پھراسے متوازن جسامت ، خوبصورت شکل وصورت ،دیکھنے ، سننے اورادراک کی قوتیں  اورکئی طرح کی صلاحیتیں  عطا کرکے نوماہ بعد ماں  کے پیٹ سے باہرنکال لائے ،یعنی نطفے کو ایک حالت کے بعد دوسری حالت میں  تبدیل کرنے کے بعدایک جیتاجاگتابچہ بنا دیتے ہیں ،اتنی کامل قدرتوں  کوبیان فرما کر فرمایا جو اللہ اس بوند کو مختلف مراحل سے گزارکرپوراانسان بنادیتاہے وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزہ ہے کہ کوئی اس کاشریک ہو اوراس سے بدرجہ مقدس ہے کہ اسی انسان کودوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہ ہو ،اوراللہ تمام تخلیق کاروں  سے بڑااورسب سے اچھاتخلیق کارہے، تخلیق کے ان مراحل کے بعدایک مرحلہ پرتم موت سے ہم کنارہوگے ،پھرقیامت کے روز اعمال کی جزاکے لئے یقیناًتم اٹھائے جاؤگے،جیسے فرمایا

 اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭاَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْـنٰى۝۳۷ۙثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى۝۳۸ۙفَجَــعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۳۹ۭ اَلَیْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۴۰ۧ [33]

ترجمہ:کیاانسان نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑدیاجائے گا؟ کیاوہ ایک حقیرپانی کانطفہ نہ تھاجو(رحم مادرمیں ) ٹپکایا جاتا ہے؟پھروہ ایک لوتھڑابناپھراللہ نے اس کاجسم بنایااوراس کے اعضادرست کیے پھر اس سے مرداورعورت کی دو قسمیں  بنائیں ،کیاوہ اس پرقادرنہیں  ہے کہ مرنے والوں  کوپھرسے زندہ کردے۔

۔۔۔ثُمَّ اللہُ یُنْشِیُٔ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ۔۔۔۝۲۰ۚ [34]

ترجمہ:پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا۔

أَبَا هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَبَیْتُ وَیَبْلَى كُلُّ شَیْءٍ مِنَ الإِنْسَانِ، إِلَّا عَجْبَ ذَنَبِهِ، فِیهِ یُرَكَّبُ الخَلْقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاانسان کا تمام جسم گل جائے گا سوائے ریڑھ کی ہڈی کے، اوراسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔ [35]

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ ‎﴿١٧﴾‏ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِی الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ ‎﴿١٨﴾‏ فَأَنشَأْنَا لَكُم بِهِ جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ لَّكُمْ فِیهَا فَوَاكِهُ كَثِیرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْنَاءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَإِنَّ لَكُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِیكُم مِّمَّا فِی بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِیهَا مَنَافِعُ كَثِیرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَعَلَیْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ ‎﴿٢٢﴾(المؤمنون)
ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں  اور ہم مخلوقات میں  غافل نہیں  ہیں ، ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں  پھر اسے زمین میں  ٹھہرا دیتے ہیں  اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں ، اسی پانی کے ذریعے سے ہم تمہارے لیے کھجوروں  اور انگوروں  کے باغات پیدا کردیتے ہیں  کہ تمہارے لیے ان میں  بہت سے میوے ہوتے ہیں  انہی میں  سے تم کھاتے بھی ہو ،اور وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے، اور کھانے والے کے لیے سالن ہے، تمہارے لیے چوپایوں  میں  بھی بڑی بھاری عبرت ہے ان کے پیٹوں  میں  سے ہم تمہیں  دودھ پلاتے ہیں  اور بھی بہت سے نفع تمہارے لیے ان میں  ہیں  ان میں  سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو، اور ان پر اور کشتیوں  پر تم سوار کرائے جاتے ہو۔

دلائل النفس کے بعددلائل آفاق کاذکرفرمایاکہ ہم نے تمہارے اوپر دودنوں  میں  طبق برطبق سات آسمان بنائے،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔۔۔۝۳ [36]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے ۔

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙ [37]

ترجمہ:کیا دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے۔

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ ۔۔۔ ۝۴۴ [38]

ترجمہ:اس کی پاکی توساتوں  آسمان اور زمین اوروہ ساری چیزیں  بیان کررہی ہیں  جوآسمان وزمین میں  ہیں ۔

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۔۔۔۝۱۲ۧ [39]

ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند ۔

گو سائنس کا یہ دعویٰ ہے کہ آسمانوں  کاکوئی وجودنہیں  بس ایک منتہائے نظرہے جو رنگوں  کی رنگینی ہے ، اس کوہم لفظ آسمان کے ساتھ تعبیرکرتے ہیں  اوربس۔

اوراس سارے نظام کوہم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے پرپورے علم کے ساتھ بنایاگیاہے،اہم قوانین اس میں  کارفرما ہیں ،اورسارے نظام کائنات میں  ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی اورمقصدیت نظرآتی ہے،

وَقَالَ أَكْثَرُ الْمُفَسِّرِینَ: الْمُرَادُ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ بِغَافِلِینَ، بَلْ حَفِظْنَا

بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ اس کے بعدہم مخلوق کے مصالح اوران کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں  ہوگئے بلکہ ہم اس کاانتظام کرتے ہیں ۔[40]

جیسے فرمایا:

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۔۔۔ ۝۶ [41]

ترجمہ:زمین میں  چلنے والاکوئی جاندارایسانہیں  ہے جس کارزق اللہ کے ذمے نہ ہواورجس کے متعلق وہ نہ جانتاہوکہ کہاں  وہ رہتاہے اورکہاں  وہ سونپاجاتاہے۔

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ۝۰ۭ وَهُوَاللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۝۱۴ۧ [42]

ترجمہ:کیاوہی نہ جانے گاجس نے پیداکیاہے؟حالاں  کہ وہ باریک بین اور باخبر ہے ۔

۔۔۔بَلٰى۝۰ۤوَهُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـیْمُ۝۸۱ [43]

ترجمہ:کیوں  نہیں جب کہ وہ ماہرخلاق ہے۔

أی: ویعلم مَا یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا، وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یعرُج فِیهَا، وَهُوَ مَعَكُمْ أَیْنَمَا كُنْتُمْ

بعض یوں  کہتے ہیں  زمین سے جوکچھ نکلتاہے یاداخل ہوتااسی طرح آسمان سے جواترتا اورچڑھتاہےسب اس کے علم میں  ہے اورہرچیز پر وہ نظررکھتاہے اور ہرجگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتاہے۔[44]

اورہم سمندروں  سے پانی کشیدکرتے ہیں  اور پھر بادلوں  کے ذریعے زمین کے کسی حصے پر ایک خاص مقدار میں  میٹھا اورخوش ذائقہ پانی برساتے ہیں ،نہ اتنازیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اورنہ اتناکم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو،اوراس کے ساتھ یہ انتظام بھی کردیاکہ پانی برس کرفورابہہ نہ جائے بلکہ ہم نے زمین میں  جذب کرنے کی صلاحیت بھی پیداکر دی تاکہ پانی جذب ہوکر چشموں ، نہروں ، دریاؤں  اورتالابوں  اور کنوؤں  کی شکل میں  محفوظ ہوجائے ،اوراسی میں  کچھ حصہ برف کی شکل میں  پہاڑوں  پرگرکرسینکڑوں  فٹ برف کی شکل میں  جمع ہوگیا اور گرمیوں  میں  وہ برف پگھلناشروع ہوئی اورتھوڑاتھوڑاپانی دریاؤں  میں  آنے لگاتاکہ بعدمیں  ان دونوں  ذرائع سے حسب ضرورت استعمال میں  لایاجاسکے ،جس طرح ہم نے اپنے فضل وکرم سے پانی کاایساوسیع انتظام کیاہے ،وہیں  اس بات پربھی قدرت رکھتے ہیں  کہ ہم آسمان سےپانی نہ برسائیں  یاکڑواکردیں  ،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ [45]

ترجمہ:کبھی تم نے آنکھیں  کھول کر دیکھا یہ پانی جو تم پیتے ہواسے تم نے بادل بر سایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں  تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں  پھر کیوں  تم شکر گزار نہیں  ہوتے؟۔

یا پانی کی سطح اتنی نیچی کردیں  کہ تمہارے لئے پانی کاحصول ناممکن ہوجائے ، جیسے فرمایا:

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِیْنٍ۝۳۰ۧ [46]

ترجمہ:کبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگرتمہارے کنوؤں  کاپانی زمین میں  اترجائے توکون ہے جواس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں  تمہیں  نکال کرلادے گا؟۔

پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لئے کھجور، انگور ،انار،سیب اورطرح طرح کے پھلوں  کے باغ پیدا کر دیے ،جیسے فرمایا

 یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۔۔۔۝۱۱ [47]

ترجمہ:وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں  اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے ۔

 وَاٰیَةٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْہَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْہَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙ لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ۝۰ۙ وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۳۵ [48]

ترجمہ:ان لوگوں  کے لئے بےجان زمین ایک نشانی ہےہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ،ہم نے اس میں  کھجوروں  اور انگوروں  کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ، یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں  کا پیدا کیا ہوا نہیں  ہےپھر کیا یہ شکر ادا نہیں  کرتے ؟ ۔

ان باغوں میں  تمہارے لئے انواع و اقسام کے لذیذپھل ہیں جن کوتم کھاتے اوران سے اپنی معاش پیداکرتے ہو،اورہم نے زیتون بھی پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے،جس کاروغن تیل کے طورپر اور اس کاپھل سالن کے طورپراستعمال ہوتاہے،

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ائْتَدِمُوا بِالزَّیْتِ، وَادَّهِنُوا بِهِ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاروغن زیتون سے روٹی کھاؤاوراس کوسراوربدن میں  لگاؤکیونکہ وہ مبارک درخت سے نکلتاہے۔[49]

اور تمہارے لئے مویشیوں  میں  بھی ایک سبق ہے ، ان کے پیٹوں  میں  جوکچھ ہے(یعنی خون اورگوبر) اسی میں  سے خوش ذائقہ اور صحت بخش دودھ نکال کر ہم تمہیں  پلاتے ہیں ،جیسےفرمایا

وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً۝۰ۭ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۶۶[50]

ترجمہ:اورتمہارے لئے مویشیوں  میں  بھی ایک سبق موجودہے ،ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیزتمہیں  پلاتے ہیں  یعنی خالص دودھ جوپینے والوں  کے لئے نہایت خوشگوارہے۔

اور ان میں  بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ،ان کوتم کھاتے ہو، صحراکی وسعتوں  میں اونٹوں  کی سواری اور باربرداری کے کام کرتے ہو ، جیسے فرمایا

وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ۔۔۔۝۷ۙ  [51]

ترجمہ:وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں  جہاں  تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں  پہنچ سکتے ۔

ان کے بالوں  اوراون سے لباس تیار کرتے ہو،ان کے چمڑے سے خیمے وغیرہ تیارکرتے ہو،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰلِكُوْنَ۝۷۱ وَذَلَّــلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَكُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاْكُلُوْنَ۝۷۲وَلَہُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۷۳ [52]

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں  ہیں  کہ ہم نے اپنے ہاتھوں  کی بنائی ہوئی چیزوں میں  سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے اور اب یہ ان کے مالک ہیں ،ہم نے انہیں  اس طرح ان کے بس میں  کر دیا ہے کہ ان میں  سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں  ، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں  اور ان کے اندر ان کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں  پھر کیا یہ شکر گذار نہیں  ہوتے ؟ ۔

اَللہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْہَا وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۷۹ۡوَلَكُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوْا عَلَیْہَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ۝۸۰ۭ [53]

ترجمہ:اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں  تاکہ ان میں  سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ ان کے اندر تمہارے لیے اور بھی بہت سے منافع ہیں  ،وہ اس کام بھی آتے ہیں  کہ تمہارے دلوں  میں  جہاں  جانے کی حاجت ہو وہاں  تم ان پر پہنچ سکو ان پر بھی اور کشتیوں  پر بھی تم سوار کیے جاتے ہو ۔

اورپانی میں  تیرتی کشتیوں  پربھی سوار ہوتے ہو،جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّــتَہُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۴۱ۙوَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْكَبُوْنَ۝۴۲  [54]

ترجمہ:ان کے لے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں  سوار کر دیا اور پھر ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں  اور پیدا کیں  جن پر یہ سوار ہوتے ہیں  ۔ چنانچہ جواللہ یہ سب کچھ اور آسمان جس کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی ، بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے تخلیق کرسکتاہے وہ تمہیں  دوبارہ کیوں  پیدانہیں  کر سکتا ،جیسے فرمایا

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ۔۔۔۝۵۷ [55]

ترجمہ: آسمانوں  اورزمین کاپیداکرناانسان کوپیداکرنے کی بہ نسبت یقیناًزیادہ بڑا کام ہے۔

اس لئے جس رب کی ان نعمتوں  سے تم فیض یاب ہوتے ہو،کیاوہ اس لائق نہیں  کہ تم اس کے شکرگزار بندے بنواورصرف اسی کی عبادت واطاعت کرو اور روزآخرت پرایمان لاؤ۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُرِیدُ أَن یَتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِی آبَائِنَا الْأَوَّلِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِینٍ ‎﴿٢٥﴾(المؤمنون)
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت  کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تم (اس سے) نہیں  ڈرتے، اس کی قوم کے کافر سرداروں  نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہےاگر اللہ ہی کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتا، ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں  کے زمانے میں  سنا ہی نہیں  ،یقیناً اس شخص کو جنون ہے پس تم اسے ایک وقت  مقرر تک ڈھیل دو ۔

رسالت اوربشریت :

ہم نے نوح  علیہ السلام کواس کی مشرک قوم کی طرف بشیرونذیربناکر مبعوث کیا،اس نے اپنی قوم کودعوت توحیددیتے ہوئے کہااے میری قوم کے لوگو!طاغوت کی بندگی سے تائب ہو کر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرواس کے سواتمہارے لئے کوئی معبودنہیں  ہے،کیاتم اپنے خالق ومالک اوررازق رب کوچھوڑکرغیراللہ کی بندگی واطاعت کرتے ہوئے ڈرتے نہیں  ہو؟جیسے فرمایا

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۝۰ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۵۹ [56]

ترجمہ:ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجااس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرواسکے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں  ہے میں  تمہارے حق میں  ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں  ۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ۝۰ۡاِنِّىْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۲۵ۙاَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۝۰ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ۝۲۶ [57]

ترجمہ:ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (اس نے کہا) میں  تم لوگوں  کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں  کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا۔

جو روزآخرت تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا،پھرنیکوکاروں  کولازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں  اورحق کی تکذیب کرنے والوں  اوربدکاروں  کوجہنم کے دردناک عذاب میں  داخل کرے گا،جیسے فرمایا

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۶ۙفَہُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝۸ۙ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ۝۹ۭ [58]

ترجمہ:پھرجس کے پلڑے بھاری ہوں  گےوہ دل پسند عیش میں  ہوگا،اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں  گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی۔

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ۔۔۔ ۝۹ [59]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پائیں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں  مبتلا کرنے والے ہوں  گے۔

مشرک قوموں  کوبڑی اوراصلی ٹھوکرقبول رسالت کی راہ میں  انبیاء کی بشریت ہی لگی ہے،وہ یہ بات کسی طورپرتسلیم کرنے کوتیارنہیں  ہوتے تھے کہ کوئی بشربھی رسول ہوسکتا ہے ، جیسے متعددمقامات پرفرمایا:

اس کی قوم کے جن متکبر وڈیروں  نے اس پاکیزہ دعوت کو ماننے سے انکارکیاوہ اپنی قوم سے کہنے لگے کہ یہ شخص تم جیسے ایک بشر کے سوا کچھ نہیں  ہے جوتمہاری طرح کھاتا پیتا ہے ، جس کے بیوی بچے ہیں  اورجوعام انسانوں  کی طرح معاش کے لئے بازاروں  میں  چلتا پھرتا ہے۔

فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا۔۔۔۝۲۷ [60]

ترجمہ:اس کی قوم کے سردارجنہوں  نے بات ماننے سے انکار کیاتھا بولےہماری نظرمیں  توتم اس کے سواکچھ نہیں  ہوکہ بس ایک انسان ہم جیسے ۔

۔۔۔قَالُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۭ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۔۔۔۝۱۰  [61]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیاتم کچھ نہیں  ہومگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ،تم ہمیں  ان ہستیوں  کی بندگی سے روکناچاہتے ہوجن کی بندگی باپ داداسے ہوتی چلی آرہی ہے ۔

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۔۔۔۝۱۵ [62]

ترجمہ:بستی والوں  نے کہا تم کچھ نہیں  ہو مگر ہم جیسے چند انسان ۔

مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۚۖ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۵۴ [63]

ترجمہ:توہم جیسے ایک انسان کے سوااورکیاہے؟لاکوئی نشانی اگرتوسچاہے۔

وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۱۸۶ۚ [64]

ترجمہ:اور تو کچھ نہیں  ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں  ۔

۔۔۔ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۝۰ۤۖ هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۔۔۔۝۳ [65]

ترجمہ: اور ظالم آپس میں  سرگوشیاں  کرتے ہیں  کہ یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے۔

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا   [66]

ترجمہ:لوگوں  کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں  روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ؟ ۔

اس کانبوت ورسالت کا دعویٰ محض جھوٹ ہے ، اوراس کا پیغمبری کا دعویٰ کرنے کی غرض وغایت یہ ہے کہ تم پرفضیلت اوربڑائی حاصل کرے ، یعنی یہ مال ودولت اور اقتدار کا بھوکاہے ،نوح  علیہ السلام کی قوم اللہ کی منکرنہ تھی ،وہ فرشتوں  کوبھی اللہ کاتابع فرمان سمجھتے تھے مگروہ اللہ کی صفات واختیارات اورحقوق میں  غیراللہ کوشامل کرتے تھے ،اس لئے کہنے لگے اگراللہ کوہماری ہدایت ور ہنمائی کے لئے پیغمبربھیجنا ہوتاتوکسی فرشتے کورسول بناکر بھیجتا،یہ بات کہ کوئی ہم جیسا بشر رسول بن کرآئے ہم نے کبھی اپنے باپ داداکے وقتوں  میں  سنی ہی نہیں  ،یعنی بشر رسول نہیں  ہوسکتا، اصل بات یہ ہے کہ نوح  علیہ السلام  جو ہمیں  ایک انوکھی دعوت دے رہاہے ،جوہمارے معبودوں  کی شان میں  گستاخیاں  کرتاہے ،انہیں  بے بس اورلاچارکہتاہے اورجو ہمارے آباواجدادکوگمراہ سمجھتا اورکہتاہے اس کوبس ذراجنون لاحق ہوگیاہےاسے کچھ مدت تک ڈھیل دے دواس کی موت کے ساتھ اس دعوت بھی دم توڑدے گی۔

قَالَ رَبِّ انصُرْنِی بِمَا كَذَّبُونِ ‎﴿٢٦﴾‏ فَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِیهَا مِن كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ فَإِذَا اسْتَوَیْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٢٨﴾‏ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِینَ ‎﴿٣٠﴾‏(المؤمنون)
 نوح (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے رب! ان کو جھٹلانے پر تو میری مدد کر ،تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہماری آنکھوں  کے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا، جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابل پڑےتو تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں  رکھ لے اور اپنے اہل کو بھی، مگر ان میں  سے جن کی بابت ہماری بات پہلے گزر چکی ہے، خبردار جن لوگوں  نے ظلم کیا ان کے بارے میں  مجھ سے کچھ کلام نہ کرنا وہ تو سب ڈبوئے جائیں  گے ،جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر باطمینان بیٹھ جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہی ہے جس نے ہمیں  ظالم لوگوں  سے نجات عطا فرمائی، اور کہنا کہ اے میرے رب ! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں  میں ، یقیناً اس میں  بڑی بڑی نشانیاں  ہیں  اور ہم بیشک آزمائش کرنے والے ہیں  ۔

جب نوح علیہ السلام کووعظ ونصیحت کرتے ہوئے نوسوپچاس برس بیت گئے،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا۔۔۔۝۱۴ [67]

ترجمہ:ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس ان کے درمیان رہا۔

اورقوم کے چندمفلس مگرسلیم الفطرت لوگوں  کے سواکوئی اسلام کوقبول کرنے کوتیارنہ ہواتوانہوں نے دعا کی اے پروردگار!ان لوگوں  نے جومیری تکذیب کی ہے اس پراب توہی میری نصرت فرما،جیسے فرمایا:

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰ [68]

ترجمہ: پس نوح  علیہ السلام نے اپنے رب کوپکاراکہ میں  دبالیاگیاہوں  اب توان سے بدلہ لے ۔

وہ اپنی قوم سے اس قدرمایوس ہوگئے کہ ایک جگہ ان کی دعایوں  مذکورہے۔

وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝۲۷ [69]

ترجمہ:اورنوح نے کہااے میرے پروردگار!اس زمین پر کافروں  میں  سے ایک بسنے والابھی نہ چھوڑاگرتونے ان کورہنے دیاتویہ تیرے بندوں  کوگمراہ کردیں  گے اوران کی نسل سے بدکارمنکرین حق ہی پیداہوں  گے ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاکوشرف قبولیت بخشا،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ۝۷۵ۡۖ [70]

ترجمہ:ہم کو(اس سے پہلے)نوح  علیہ السلام نے پکاراتھاتودیکھوکہ ہم کیسے اچھے جواب دینے والے تھے ۔

اوران پروحی کی کہ ہماری نگرانی میں  اورہماری وحی کے مطابق ایک بڑی کشتی تیارکر ،پھرجب ہماراعذاب نازل ہونے کاوقت آجائے اوراس مخصوص تنورسے پانی پھوٹ پڑے توہرقسم کے جانوروں  میں  سے ایک ایک جوڑالے کراس میں  سوارہوجااوراپنے اہل وعیال کوبھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہوچکاہے،اوراب ظالموں  کے بارے میں  مجھ سے کوئی درخواست نہ کرنا ،اب یہ سب اجتماعی طورپرپانی میں  غرق ہونے والے ہیں ،پھر جب تواپنے ساتھیوں  سمیت سرکش موجوں  پرتیرتی کشتی پر سوارہو جائے تواپنی نجات وسلامتی اورقوم کی تباہی پر اللہ کاشکرکرتے ہوئے کہو شکرہے اس اللہ کاجس نے ہمیں  ظالم لوگوں  سے نجات دی اور کشتی کے خیروعافیت کے ساتھ کنارے پرلگنے کی یہ دعابھی کرنا،اے پروردگار!اب ہم تیرے مہمان ہیں  اورتوہمارامیزبان ہے مجھے اور اہل ایمان کوبرکت والی جگہ اتار اور تو بہترین جگہ دینے والا ہے ، چنانچہ جب کشتی نوح  علیہ السلام جودی پہاڑیاکسی اونچی جگہ پرجاکررکی توفرمایا

قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ۔۔۔۝۴۸ [71]

ترجمہ:حکم ہوااے نوح اترجا،ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں  ہیں  تجھ پراوران گروہوں  پرجوتیرے ساتھ ہیں ۔

اس عبرت آموز واقعہ میں  بڑی نشانیاں  ہیں  جودلالت کرتی ہیں  کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودحقیقی ہے ،اس کی ذات،صفات،اوراختیارات میں  کوئی شریک نہیں  اور انبیاء دعوت حق ہی پیش کرتے رہے ہیں  ،اس لئے اللہ کی نصرت بھی ان کے شامل حال رہی اوربالآخر فیصلہ ان کے حق میں  ہوااورکفروشرک پراصرارکرنے والے باطل پرتھے ،اس لئے نشان عبرت بنادیے گئے ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ تَّرَكْنٰهَآ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۵ [72]

ترجمہ: اس کشتی کوہم نے ایک نشان بناکرچھوڑاپھرکوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟۔

اورفرمایاکہ ہمارا قانون ہے کہ کسی قوم کومال ودولت ،طاقت واقتدار عطا کر کے آزادنہیں  چھوڑ دیتے بلکہ انبیاء ورسل کے ذریعے ہم ان کی آزمائش کرکے ہی رہتے ہیں  ، اوراہل مکہ سنبھل جاؤاب تمہاری آزمائش کی جارہی ہے۔

ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِینَ ‎﴿٣١﴾‏ فَأَرْسَلْنَا فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَرًا مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ ‎﴿٣٤﴾‏(المؤمنون)
ان کے بعد ہم نے ایک اور امت پیدا کی پھر ان میں  خود ان میں  سے (ہی) رسول بھی بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں  تم کیوں  نہیں  ڈرتے ؟ اور سردار قوم نے جواب دیا جو کفر کرتے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھےاور ہم نے انھیں  دنیاوی زندگی میں  خوشحال کر رکھا تھا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، تمہاری ہی خوراک یہ بھی کھاتا ہے اور تمہارے پینے کا پانی ہی یہ بھی پیتا ہے ،اگر تم نے اپنے جیسے ہی انسان کی تابعداری کرلی تو بیشک تم سخت خسارے والے ہو ۔

قوم نوح  علیہ السلام کے بعدہم نے ایک دوسرے دورکی مشرک قوم عاد اٹھائی،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ۔۔۔ ۝۶۹ [73]

ترجمہ:بھول نہ جاؤکہ تمہارے رب نے نوح  علیہ السلام کی قوم کے بعدتم کواس کاجانشین بنایا۔

بعض کے مطابق قوم ثمودکاذکرہے ،بہرحال پھرہم نے ان میں  خودانہی کی قوم کاایک رسول مبعوث کیا جس کے حسب ونسب ،کرداراور معاملات کووہ اچھی طرح جانتے تھے، اس نے بھی اپنے پیش روکی طرح انہیں  دعوت توحیدپیش کی کہ اپنے ہاتھوں  سے تراشے ہوئے خودساختہ معبودوں  کی بندگی اور اطاعت سے منہ موڑکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو ،خالق کائنات کے سوا کوئی بندگی واطاعت کامستحق نہیں  ہے ،کیاتم اپنے خالق ومالک اوررازق رب کوچھوڑکرغیراللہ کی بندگی واطاعت کرتے ہوئے ڈرتے نہیں  ہو؟جو روزآخرت تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا،پھرنیکوکاروں  کولازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں  اورحق کی تکذیب کرنے والوں  اوربدکاروں  کو جہنم کے دردناک عذاب میں  داخل کرے گا،قوم نوح  علیہ السلام  کے سرداروں  کی طرح اس کی قوم کے سرداروں  نے بھی اس پاکیزہ دعوت پرایمان لانے سے انکارکردیااورحیات بعد الموت ،روزآخرت اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں  پیشی اورجنت ودوزخ کوجھٹلایا،جن رؤسا کو ہم نے دنیاوی آسائشوں  کی فراوانی عطاکررکھی تھی ،دنیاوی زندگی کی خوشحالی اور آسودگی نے انہیں  سرکش بنادیاتھاجب انہیں  خطرہ محسوس ہوا کہ عوام پیغمبرکی پاکیزہ شخصیت اوردعوت حقہ سے متاثرہوجائیں  گے تو عوام الناس کوبہکانے کے لئے کہنے لگے یہ شخص جو مدعی نبوت و رسالت ہے تم جیساگوشت پوست کے ایک انسان کے سوا کچھ نہیں  ہے ، یعنی اس کادعویٰ نبوت و رسالت جھوٹ پرمبنی ہے ،جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جوکچھ تم پیتے ہووہی یہ پیتا ہے،یعنی نبوت ورسالت کے لئے توکوئی فرشتہ ہونا چاہیےتھاجونہ کھاتانہ پیتا،اب اگرتم نے اپنے ہی جیسے ایک انسان کی فضیلت وبرتری تسلیم کرلی توتم اپنے اس فعل پرندامت اٹھاؤگے ،جیسے فرمایا

فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗٓ۝۰ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝۲۴ءَ اُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا بَلْ هُوَكَذَّابٌ اَشِرٌ۝۲۵ [74]

ترجمہ:اور کہنے لگے !ایک اکیلاآدمی جوہم ہی میں  سے ہے کیاہم اس کے پیچھے چلیں ؟اس کااتباع ہم قبول کرلیں  تواس کے معنی یہ ہوں  گے کہ ہم بہک گئے اور ہماری عقل ماری گئی ہے،کیاہمارے درمیان بس یہی ایک شخص تھاجس پراللہ کاذکرنازل کیاگیا؟نہیں ،بلکہ یہ پرلے درجے کاجھوٹااوربرخودغلط ہے۔

یعنی قوم نوح  علیہ السلام  کی طرح ان کے انکارکی وجہ بھی یہی تھی کہ کوئی بشررسول نہیں  ہوسکتانبوت ورسالت کے لئے فرشتہ ہوناچاہیے۔

أَیَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُم مُّخْرَجُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ ۞ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ إِنْ هِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ قَالَ رَبِّ انصُرْنِی بِمَا كَذَّبُونِ ‎﴿٣٩﴾‏ قَالَ عَمَّا قَلِیلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نَادِمِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٤١﴾‏(المؤمنون)
کیا یہ تمہیں  اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر صرف خاک اور ہڈی رہ جاؤ گے تو تم پھر زندہ کیے جاؤ گے، نہیں  نہیں  دور اور بہت دور ہے وہ جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو ،(زندگی) تو صرف دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے جیتے رہتے ہیں  اور یہ نہیں  کہ ہم اٹھائے جائیں  گے،یہ تو بس ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر جھوٹ (بہتان) باندھ لیا ہے، ہم تو اس پر ایمان لانے والے نہیں  ہیں ، نبی نے دعا کی کہ پروردگار ! ان کے جھٹلانے پر میری مدد کر، جواب ملا کہ یہ تو بہت ہی جلد اپنے کیے پر پچھتانے لگیں  گے ، بالآخر عدل کے تقاضے کے مطابق چیخ نے پکڑ لیا اور ہم نے انھیں  کوڑا کرکٹ کر ڈالا پس ظالموں  کے لیے دوری ہو۔

یہ تمہیں  وعدہ دیتاہے کہ جب تم مرکرمٹی ہوجاؤگے اورہڈیوں  کاپنجربن کررہ جاؤگے اس وقت تمہیں  قبروں  سے زندہ کرکے نکالاجائے گا؟جیسے فرمایا

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶ۙ [75]

ترجمہ:بھلا کہیں  ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں  اور مٹی بن جائیں  اور ہڈیوں  کا پنجر رہ جائیں  اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں  ؟۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙ [76]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں  گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں  گے ؟۔

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۵ [77]

ترجمہ:اب اگر تمہیں  تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں  کا یہ قول ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں  گے؟ ۔

لوگو!جو وعد ہ تم سے کیا جا رہاہے وہ ناممکن ہے ،بالکل دورازقیاس ہے ،جیسے فرمایا:

فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌ۝۲ۚءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝۰ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ۝۳ [78]

ترجمہ:پھرمنکرین کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہےکیاجب ہم مر جائیں  گے اورخاک ہوجائیں  گے (تودوبارہ اٹھائے جائیں  گے)؟یہ واپسی توعقل سے بعیدہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی خام خیالی پر فرمایا

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ۝۰ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِیْظٌ۝۴ [79]

ترجمہ:(حالاں  کہ)زمین ان کے جسم میں  سے جوکچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں  ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں  سب کچھ محفوظ ہے۔

مشرکین حیات بعدالموت کے منکرتھے اوران کاعقیدہ یہ تھاکہ زندگی کچھ نہیں  ہے مگربس یہی دنیاکی زندگی،یہیں  ہم کومرنااورجیناہے اوراس کے بعدکوئی زندگی نہیں  ہے ،جیسے فرمایا:

وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۚ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ۝۲۴ [80]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں  کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں  ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں  جو ہمیں  ہلاک کرتی ہو۔

یہ شخص خودجھوٹ گھڑکر اللہ کے نام سے منسوب کر رہا ہے اورہم کبھی اس کی لایعنی باتوں  پر ایمان نہیں  لائیں  گے،یعنی یہ قوم بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی کی منکرنہ تھی بلکہ اللہ کے ساتھ غیراللہ کی بندگی و اطاعت بھی کرتی تھی ،جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۔۔۔۝۷۰ [81]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیاکیاتوہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں  اور انہیں  چھوڑدیں  جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں  ۔

قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِیْٓ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۵۳ [82]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیااے ہود! توہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کرنہیں  آیاہے اورتیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں  کونہیں  چھوڑسکتے اورتجھ پرہم ایمان لانے والے نہیں  ہیں  ۔

قَالُوْٓا اَجِئْتَـنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا۔۔۔  ۝۲۲ [83]

ترجمہ:انہوں  نے کہا کیا تواس لیے آیاہے کہ ہمیں  بہکا کر ہمارے معبودوں  سے برگشتہ کر دے ؟۔

جب مکذبین کاکفروعنادبہت بڑھ گیا اور انذار نے ان کوکوئی فائدہ نہ پہنچایاتونوح  علیہ السلام کی طرح اس پیغمبر نے بھی دست دعادرازکیاکہ اے پروردگار!ان لوگوں  نے جومیری تکذیب کی ہے اس پراب توہی میری نصرت فرما اورانہیں  دنیا و آخرت میں  رسواکردے ،اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کوبھی شرف قبولیت بخشااورجواب دیا بہت جلد یہ حق کی تکذیب اورا پنے عقائدواعمال پرپچھتائیں  گےمگراس وقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا،آخرکارایک وقت مقررہ پرعدل وانصاف کے مطابق تندوتیزہواکے ساتھ ایک زبردست چیخ اوربے پناہ چنگھاڑ نے ان کوآلیااورہم نے ان مکذبین اورمتکبرین کوکوڑاکرکٹ بناکرپھینک دیا،جیسے فرمایا

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱ [84]

ترجمہ:ہم نے ان پر بس ایک ہی دھماکاچھوڑااوروہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہو کر رہ گئے ۔

۔۔۔فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُہُمْ۔۔۔۝۲۵ [85]

ترجمہ: آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں  کے سوا وہاں  کچھ نظر نہ آتا تھا ۔

پھران کی حالت پرکوئی چشم نم نہ ہوئی،

فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۝۲۹  [86]

ترجمہ: پھرنہ آسمان ان پررویانہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کونہ دی گئی۔

دورہوظالم قوم۔

ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِیثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٤٤﴾(المؤمنون)
ان کے بعد ہم نے اور بھی بہت سی امتیں  پیدا کیں  نہ تو کوئی امت اپنے وقت مقرہ سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی، پھر ہم نے لگاتار رسول بھیجے، جب جب جس امت کے پاس اس کا رسول آیا اس نے جھٹلایا پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیا اور انھیں  افسانہ بنادیا، ان لوگوں  کو دوری ہے جو ایمان قبول نہیں  کرتے۔

اکثریت ہمیشہ بدکاروں  کی رہی :

پھر ان کے بعدہم نے قوم صالح  علیہ السلام ،قوم لوط علیہ السلام  اورقوم شعیب علیہ السلام اٹھائیں مگریہ قومیں  بھی نبیوں  کی منکررہیں ،جیسے فرمایا

یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ۝۰ۚؗ  مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۳۰ [87]

ترجمہ:افسوس بندوں  کے حال پر،جورسول بھی ان کے پاس آیااس کامذاق ہی اڑاتے رہے ۔

چنانچہ یہ سب امتیں  بھی دعوت حق اوررسالت کی تکذیب کی وجہ سے جب ان کی ہلاکت کاوقت موعودآگیاتوایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں  اورتباہ وبربادہوگئیں ،جیسے فرمایا

وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ۝۰ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۝۱۷ [88]

ترجمہ:،دیکھ لوکتنی ہی نسلیں  ہیں  جونوح  علیہ السلام کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں ، تیرارب اپنے بندوں  کے گناہوں  سے پوری طرح باخبرہے اورسب کچھ دیکھ رہاہے۔

پھرہم نے ہربستی میں  پیغام حق پہنچانے کے لئے واضح نشانیوں  کے ساتھ یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے شایدکہ وہ ایمان لے آئیں  اوراللہ کی طرف رجوع کریں مگرکفراورتکذیب کافراورباغی قوموں  کاوطیرہ بنارہا، چنانچہ جس قوم کے پاس بھی اس کا رسول آیااس نے ان کی رسالت کو جھٹلایااورہم تکذیب کے جرم میں  ایک کے بعدایک قوم کوصفحہ ہستی سے مٹاتے چلے گئے حتی کہ ان کو بس قصے کہانیاں  ہی بناکررکھ دیا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ۔۔۔۝۱۹ [89]

ترجمہ:آخرکار ہم نے انہیں  افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں  بالکل تتر بتر کر ڈالا ۔

جولوگ دعوت حق اوررسالت پرایمان نہیں  لاتے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہیں ۔

ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآیَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِینٍ ‎﴿٤٥﴾‏ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُونَ ‎﴿٤٩﴾(المؤمنون)
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں  اور کھلی دلیل کے ساتھ بھیجا فرعون اور اس کے لشکروں  کی طرف، پس انہوں  نے تکبر کیا اور تھے ہی وہ سرکش لوگ، کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے جیسے دو شخصوں  پر ایمان لائیں  ؟ حالانکہ خود ان کی قوم (بھی) ہمارے ماتحت ہے،پس انہوں  نے دونوں  کو جھٹلایا آخر وہ بھی ہلاک شدہ لوگوں  میں  مل گئے، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (بھی) دی کہ لوگ راہ راست پر آجائیں  ۔

پھرہم نے موسیٰ  علیہ السلام  اوراس کے بھائی ہارون علیہ السلام  کو نو معجزات اورکھلی دلیلوں کے ساتھ فرعون اوراس کے اعیان سلطنت کودعوت حق پہنچانے کے لئے بھیجامگروہ بھی گزشتہ قوموں  کی طرح بڑے گھمنڈی ،ظالم اوردرازدست تھے ،انہوں  نے بھی سابقہ امتوں  کی طرح دعوت حق،رسالت اور عقیدہ آخرت سے انکارکیا اور تکبروغرورسے ضعیف العقل لوگوں  سے فریب کاری کرتے ہوئے کہنے لگے کیاہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں  پرایمان لے آئیں ؟اوراس پرمستزادیہ کہ ہم ان آدمیوں  پرایمان لے آئیں  جن کی قوم بنی اسرائیل ہماری غلام ہے ،یعنی ان کابھی یہی خیال تھاکہ بشررسول نہیں  ہوسکتا،رسالت کے لئے کوئی فرشتہ ہی ہونا چاہیے ،پس انہوں  نے دونوں  کوجھٹلایا اورپچھلی تباہ شدہ قوموں  کے ساتھ جا ملے ،یعنی جتنی بھی قومیں  آئیں  انہوں  نے پیغمبروں  کوبشرتسلیم کرنے سے انکارکیااس طرح ان لوگوں  کی  ذہنیتیں  ایک جیسی ہی تھیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ۝۰ۭ تَشَابَہَتْ قُلُوْبُھُمْ۔۔۔۝۱۱۸ [90]

ترجمہ: ایسی ہی باتیں  ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں  )کی ذہنیتیں  ایک جیسی ہیں  ۔

فرعون اوراس کی قوم کوبنی اسرائیل کے سامنے غرق کرنے کے بعد موسیٰ  علیہ السلام  کوطورپرہم نے تورات عطا فرمائی،تاکہ لوگ اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کریں ، جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۝۴۳ [91]

ترجمہ: پچھلی نسلوں  کوہلاک کرنے کے بعدہم نے موسیٰ کوکتاب عطاکی ،لوگوں  کے لئے بصیرتوں  کاسامان بناکر،ہدایت اوررحمت بناکرتاکہ شایدلوگ سبق حاصل کریں ۔

وبعد أن أَنْزَلَ اللَّهُ التَّوْرَاةَ لَمْ یُهْلِكْ أُمَّةً بِعَامَّةٍ، بَلْ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِقِتَالِ الْكَافِرِینَ

چنانچہ نزول تورات کے بعداللہ نے کسی قوم کوعذاب عام سے ہلاک نہیں  کیابلکہ مومنوں  کو یہ حکم دیاجاتارہاکہ وہ کافروں  سے جہاد کریں ۔[92]

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّهُ آیَةً وَآوَیْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ ‎﴿٥٠﴾‏ یَا أَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ ‎﴿٥١﴾‏ وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ ‎﴿٥٢﴾‏ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَیْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ فَذَرْهُمْ فِی غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِینٍ ‎﴿٥٤﴾‏(المؤمنون)
ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں  کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں  پناہ دی، اے پیغمبر ! حلال چیزیں  کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں  بخوبی واقف ہوں ، یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں  ہی تم سب کا رب ہوں ، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو، پھر انہوں  نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں  ٹکڑے ٹکڑے کر لئےہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر اترا رہا ہے، پس آپ (بھی) انھیں  ان کی غفلت میں  ہی کچھ مدت پڑا رہنے دیں ۔

کسب حلال کی فضیلت :

اورابن مریم اوراس کی ماں  کوہم نے اپنی قدرت کی ایک نشانی بنایایعنی مریم  علیہ السلام کاکسی مردکی صحبت کے بغیرحاملہ ہونااورعیسیٰ علیہ السلام  کوجنم دیناہماری قدرت کی ایک نشانی ہے ،مریم  علیہ السلام عیسیٰ  علیہ السلام کی پیدائش کے بعدان کی حفاظت کے لئے دومرتبہ وطن چھوڑنے پرمجبورہوئیں ،چنانچہ فرمایاکہ اس غریب الوطنی میں ہم نے ان کوایک بلندہموار زمین پرٹھکانہ دیاجس میں  چشمے جاری تھے،اورضرورت کی سب چیزیں  پائی جاتی تھیں ،اورہرقوم میں  مبعوث ہونے والے انبیاء کویہی ہدایت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ  پاکیزہ اورلذت بخش چیزوں  کوجوحلال طریقے سے حاصل کی گئی ہوں  کھاؤ اورعمل صالحہ کرکے اللہ تعالیٰ کاشکربجالاؤ،تم جوعمل بھی کرتے ہومیں  اس کوخوب جانتاہوں ،یعنی لقمہ حلال عمل صالحہ کامددگارہے ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۷۲ [93]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اگرتم حقیقت میں  اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہوتوجوپاک چیزیں  ہم نے تمہیں  بخشی ہیں  انہیں  بے تکلف کھاؤاوراللہ کاشکراداکرو۔

چنانچہ تمام پیغمبرمحنت کر کے حلال کی روزی کمانے اورکھانے کااہتمام کرتے رہے ،

عَنِ المِقْدَامِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِهِ،وَإِنَّ نَبِیَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، كَانَ یَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِهِ

مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکسی انسان نے اس شخص سے بہترروزی نہیں  کھائی جوخوداپنے ہاتھوں  سے کماکرکھاتاہے،اللہ کے نبی داود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کھایاکرتے تھے۔[94]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِیًّا إِلَّا رَعَى الغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ:نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِیطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ کوئی ایسانبی نہیں  بھیجاجس نے بکریاں  نہ چرائی ہوں ،اس پرآپ کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے پوچھاکیاآپ نے بھی بکریاں  چرائی ہیں  ؟فرمایاہاں !کبھی میں  بھی اہل مکہ کی بکریاں  چند قراریط کے عوض چرایاکرتاتھا۔[95]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِینَ، فَقَالَ: {یَا أَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ} [96]وَقَالَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [97]ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَیْهِ إِلَى السَّمَاءِ، یَا رَبِّ، یَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى یُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاکہ لوگو!اللہ خودپاک ہے(یعنی صفات حدوث اورسمات نقص وزوال سے) اس لئے پاک ہی چیز کو پسندکرتاہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں  کووہی حکم کیاجومرسلین کوحکم کیااورفرمایا’’اے پیغمبرو! کھاؤپاک چیزیں  اورعمل کروصالح،تم جوکچھ بھی کرتے ہومیں  اس کوخوب جانتاہوں ۔‘‘اور’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم حقیقت میں  اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں  ہم نے تمہیں  بخشی ہیں  انہیں  بے تکلف کھاؤ۔‘‘پھرایسے شخص کاذکرفرمایاجولمبے لمبے سفرکرتاہے اورگردو غبارآلودہ میں  بھراہے  اورپھرآسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعائیں  مانگتاہے ،یا رب ! یارب!حالانکہ کھانااس کا حرام ہے،اورپینااس کاحرام ہے اورلباس اس کا حرام ہے اورعذااس کی حرام ہےپھراس کی دعاکیونکرقبول ہو۔[98]

وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِی أَفْضَلِ الْمَكَاسِبِ،قَالَ الْمَاوَرْدِیُّ أُصُولُ الْمَكَاسِبِ الزِّرَاعَةُ وَالتِّجَارَةُ وَالصَّنْعَةُ،وَالْأَشْبَهُ بِمَذْهَبِ الشَّافِعِیِّ أَنَّ أَطْیَبَهَا التِّجَارَةُ ،قَالَ وَالْأَرْجَحُ عِنْدِی أَنَّ أَطْیَبَهَا الزِّرَاعَةُ لِأَنَّهَا أَقْرَبُ إِلَى التَّوَكُّلِ، وَتَعَقَّبَهُ النَّوَوِیُّ بِحَدِیثِ الْمِقْدَامِ الَّذِی فِی هَذَا الْبَابِ وَأَنَّ الصَّوَابَ أَنَّ أَطْیَبَ الْكَسْبِ مَا كَانَ بِعَمَلِ الْیَدِ  قَالَ فَإِنْ كَانَ زِرَاعًا فَهُوَ أَطْیَبُ الْمَكَاسِبِ لِمَا یَشْتَمِلُ عَلَیْهِ مِنْ كَوْنِهِ عَمَلَ الْیَدِ وَلِمَا فِیهِ مِنَ التَّوَكُّلِ وَلِمَا فِیهِ مِنَ النَّفْعِ الْعَامِّ لِلْآدَمِیِّ وَلِلدَّوَابِّ، وَلِأَنَّهُ لَا بُدَّ فِیهِ فِی الْعَادَةِ أَنْ یُوكَلَ مِنْهُ بِغَیْرِ عِوَضٍ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں  علماء کااس بارے میں  اختلاف ہے کہ افضل کسب کونساہے،ماوردی نے کہاکہ کسب کے تین اصولی طریقے ہیں  زراعت،تجارت اورصنعت وحرفت اورامام شافعی رحمہ اللہ  کے قول میں  افضل تجارت ہے، مگرماوردی کہتے ہیں  کہ میں  زراعت کوترجیح دیتاہوں  کہ یہ توکل سے قریب ہے،اورامام نووی رحمہ اللہ نے اس پرتعاقب کیاہے اور کہادرست بات یہ ہے کہ بہترین پاکیزہ کسب وہ ہے جس میں  اپنے ہاتھ کودخل زیادہ ہو،اگر زراعت کوافضل کسب ماناجائے توبجاہے کیونکہ اس میں  انسان زیادہ تراپنے ہاتھ سے محنت کرتاہے اس میں  توکل بھی ہےاورانسانوں  اورحیوانوں  کے لئے عام نفع بھی ہے،اس میں  بغیرکسی معاوضہ کے حاصل ہوئے غلہ سے کھایاجاتاہے اس لئے زراعت بہترین کسب ہے بشرطیکہ کامیاب زراعت ہوورنہ عام طورپرزراعت پیشہ لوگ مقروض،تنگ دست اورپریشان حال ملتے ہیں  اس لئے کہ نہ توان کے پاس زراعت کے قابل کافی زمین ہوتی ہے نہ دیگروسائل بفراغی مہیاہوتے ہیں  نتیجہ یہ کہ ان کاافلاس دن بدن بڑھتاہی چلا جاتاہے ، ایسی حالت میں  زراعت کوبہترین کسب نہیں  کہاجاسکتاان حالات میں  مزدوری بھی بہترہے۔[99]

انبیاء چونکہ اختلاف زمانہ ومقام کے باوجود ایک عقیدے ، ایک دین اورایک دعوت پرجمع تھے اس لئے فرمایاکہ سب انبیاء کی دعوت یہی تھی کہ طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک  کی عبادت واطاعت کرو اسی میں  تمہاری دنیاوی اوراخروی کامیابی کی ضمانت ہے اورمیں  تمہارارب ہوں  پس مجھ سے تم ڈرو ، مگربعدمیں  لوگ دین حق چھوڑکرالگ الگ فرقوں  اور گروہوں  میں  بٹ گئے اورہرگروہ اپنے عقیدہ وعمل پرخوش ہے چاہے وہ حق سے کتناہی دورہو ، اوربطورڈانٹ کے فرمایا اچھااگر یہ حق قبول نہیں  کرتے توانہیں  گمراہی کی تاریکیوں  میں چھوڑدو،جیسے فرمایا

 فَمَــہِّلِ الْكٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا۝۱۷ۧ [100]

ترجمہ:پس چھوڑ دو اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کافروں  کو اک ذرا کی ذرا ان کے حال پر چھوڑ دو۔

ذَرْہُمْ یَاْكُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْہِہِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ۝۳ [101]

ترجمہ:چھوڑو انہیں ، کھائیں  پئیں  مزے کریں  اور بھلاوے میں  ڈالے رکھے ان کو جھوٹی امید، عنقریب انہیں  معلوم ہو جائے گا ۔

مگریہ مقصدنہیں  کہ انہیں  وعظ ونصیحت ترک کردو،ایک وقت مقررہ پرجب ان پرعذاب نازل ہوگاتویہ اپنی غفلت سے چونک پڑیں  گے اورانہیں  حقیقت حال کاعلم ہوجائے گا۔

أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرَاتِ ۚ بَل لَّا یَشْعُرُونَ ‎﴿٥٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ هُم مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَالَّذِینَ هُم بِآیَاتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ وَالَّذِینَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِكُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ‎﴿٦٠﴾‏ أُولَٰئِكَ یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ ‎﴿٦١﴾‏(المؤمنون)
’’کیا یہ (یوں ) سمجھ بیٹھے ہیں  کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں  وہ ان کے لیے بھلائیوں  میں  جلدی کر رہے ہیں ، (نہیں  نہیں ) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں ، یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں  اور جو اپنے  رب کی آیتوں  پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں  کرتے، اور جو لوگ دیتے ہیں  جو کچھ دیتے ہیں  اور ان کے دل کپکپاتے ہیں  کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ، یہی ہیں  جو جلدی جلدی بھلائیاں  حاصل کر رہے ہیں  اور یہی ہیں  جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں ۔

مومن کی تعریف :

کیایہ مادہ پرستانہ نقطہ نظررکھنے والے مکذبین ومتکبرین یہ گمان کرتے ہیں  کہ ہم جوانہیں  مال و اولاددے رہے ہیں وہ اس امرکی دلیل ہے کہ وہ بھلائی اور سعادت سے بہرہ مندہیں  اوردنیااورآخرت کی بھلائی انہی کے لئے ہے ؟یہ ان کازعم باطل ہے ،حالانکہ معاملہ ایسے نہیں  ہے بلکہ وہ سمجھتے نہیں  ہیں  کہ ہم ان کوڈھیل اور مہلت دیئے جارہے ہیں  اوران کونعمتوں  سے نوازرہے ہیں ،وہ اس لئے کہ تاکہ وہ اپنے گناہوں  میں  اوراضافہ کرلیں ، اورآخرت میں  اپنے عذاب کوبڑھالیں ، اوردنیامیں  ان کوجو نعمتیں  عطاہوئی ہیں  انہی سے مزے لیتے رہیں ،جیسے فرمایا

وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۝۱۷۸ [102]

ترجمہ:یہ ڈھیل جو ہم انھیں  دیے جاتے ہیں  اس کو یہ کافر اپنے حق میں  بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انھیں  اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں  کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں  پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ۝۵۵ [103]

ترجمہ:ان کے مال ودولت اوران کی کثرت اولادکودیکھ کردھوکانہ کھاؤ،اللہ تویہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں  کے ذریعہ سے ان کو دنیاکی زندگی میں  بھی مبتلائے عذاب کرے اوریہ جان بھی دیں  توانکارحق ہی کی حالت میں  دیں ۔

۔۔۔ حَتّٰٓی  اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً۔۔۔ ۝۴۴   [104]

ترجمہ: یہاں  تک کہ جب وہ ان بخششوں  میں  جوانہیں  عطاکی گئی تھیں  خوب مگن ہوگئے تواچانک ہم نے انہیں  پکڑلیااوراب حال یہ تھاکہ ہرخیرسے مایوس تھے ۔

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا۝۱۱ۙوَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا۝۱۲ۙوَّبَنِیْنَ شُهُوْدًا۝۱۳ۙوَّمَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًا۝۱۴ۙثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ۝۱۵ۤۙكَلَّا۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا۝۱۶ ۭ سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا۝۱۷ۭ [105]

ترجمہ:چھوڑدومجھے اوراس شخص کوجسے میں  نے اکیلاپیداکیابہت سامال اس کودیااس کے ساتھ حاضررہنے والے بیٹے دیے اور اس کے لئے ریاست کی راہ ہموارکی ،پھر وہ طمع رکھتاہے کہ میں  اسے اورزیادہ دوں ،ہرگزنہیں وہ ہماری آیات سے عنادرکھتاہے ،میں  تواسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں  گا۔

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷ [106]

ترجمہ: یہ تمہاری دولت اورتمہاری اولادنہیں  ہے جوتمہیں  ہم سے قریب کرتی ہو،ہاں  مگرجوایمان لائے اورنیک عمل کرے یہی لوگ ہیں  جن کے لئے ان کے عمل کی دہری جزا ہے، اور وہ بلندوبالاعمارتوں  میں  اطمینان سے رہیں  گے ۔

حقیقت میں  توجولوگ اپنے رب کی بارگاہ میں  جوابدہی کے خوف سے  ڈرنے والے ہوتے ہیں  جواپنے نفس اورہرطرف آفاق میں  پھیلی ہوئی آیات پرایمان لاتے ہیں ،جواپنے رب کی ذات وصفات اورافعال میں  کسی کوشریک نہیں  کرتے اور جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری میں  جوکچھ بھی نیکیاں  کرتے ہیں ،جوبھی قربانیاں  کرتے ہیں  ان پرپھول نہیں  جاتے ، غرورتقویٰ اورپندارخدارسیدگی میں  مبتلانہیں  ہوتے ، بلکہ مقدوربھر اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں  کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہماراعمل یاصدقہ نامقبول قرارنہ پائے ، بالآخر ہمیں  اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے رب کی طرف پلٹناہے،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ فِی هَذِهِ الْآیَةِ: {الَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ} [107]أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ الَّذِی یَسْرِقُ وَیَزْنِی وَیَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَهُوَ یَخَافُ اللَّهَ؟ قَالَ:لَا یَا بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ، یَا بِنْتَ الصِّدِّیقِ، وَلَكِنَّهُ الَّذِی یُصَلِّی وَیَصُومُ وَیَتَصَدَّقُ وَهُوَ یُخَافُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !’’ اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں  جو کچھ بھی دیتے ہیں  اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں  کہ ہمیں  اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ۔‘‘سے کیامرادہے ۔جوچوری کرتا ، زنا کرتا ، شراب پیتااورعزوجل سے ڈرتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہیں  ،اے بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما ! اے بنت صدیق  رضی اللہ عنہما  !  بلکہ اس سے مرادوہ شخص ہے جونمازپڑھتا،روزے رکھتا،صدقہ کرتااوراللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔[108]

ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں

قَالَ: لاَ یَا بِنْتَ الصِّدِّیقِ، وَلَكِنَّهُمُ الَّذِینَ یَصُومُونَ وَیُصَلُّونَ وَیَتَصَدَّقُونَ، وَهُمْ یَخَافُونَ أَنْ لاَ تُقْبَلَ مِنْهُمْ،أُولَئِكَ یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ

نہیں ،اے بنت صدیق رضی اللہ عنہما  !بلکہ اس سے مرادوہ لوگ ہیں  جونمازپڑھتے ہیں ،روزہ رکھتے ،صدقہ کرتے اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں  کہ کہیں  ایسانہ ہوکہ ان کے اعمال قبول ہی نہ ہوں ، یہی لوگ ہیں  کہ جلدی کرتے ہیں  بھلائیوں  میں  اوروہ ان کے لیے سبقت کرنے والے ہیں ۔[109]

ایسے عقائدواعمال کرنے والے لوگ ہی بھلائیوں  کی طرف دوڑنے اورسبقت کرکے انہیں  پالینے والے ہیں ۔

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَیْنَا كِتَابٌ یَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ بَلْ قُلُوبُهُمْ فِی غَمْرَةٍ مِّنْ هَٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِیهِم بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ یَجْأَرُونَ ‎﴿٦٤﴾‏ لَا تَجْأَرُوا الْیَوْمَ ۖ إِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ قَدْ كَانَتْ آیَاتِی تُتْلَىٰ عَلَیْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ مُسْتَكْبِرِینَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ‎﴿٦٧﴾‏(المؤمنون)
ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں  دیتے، اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے ان کے اوپر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا، بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں  ہیں  اور ان کے لیے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں  جنہیں  وہ کرنے والے ہیں ، یہاں  تک کہ جب ہم نے ان کے آسودہ حال لوگوں  کو عذاب میں  پکڑ لیا تو بلبلانے لگے، آج مت بلبلاؤ یقیناً تم ہمارے مقابلہ پر مدد نہ کئے جاؤ گے ، میری آیتیں  تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں  پھر بھی تم اپنی ایڑیوں  کے بل الٹے بھاگتے تھے، اکڑتے، اینٹھتے ،  افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے ۔

مومنوں  کایہ کردارواخلاق کوئی فوق البشری چیزنہیں  ہے جس پرتم چل نہ سکو،ہم انسان پراتنی ہی ذمہ داری ڈالتے ہیں  جواس کے بس میں  ہوتی ہے ،جیسے فرمایا

لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۝۰ۭ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَااكْتَسَبَتْ۔۔۔۝۰۝۲۸۶ۧ [110]

ترجمہ:اللہ کسی متنفس پراس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں  ڈالتا ، ہر شخص نے جونیکی کمائی ہے اس کاپھل اسی کے لئے ہے اورجوبدی سمیٹی ہے اس کاوبال اسی پرہے۔

اورہمارے پاس ہرمتنفس کانامہ اعمال ہے جس میں اس کے ارادوں  ، خیالات ، چھوٹے یا بڑے ، اچھے یا برے اعمال کے بارے میں  ٹھیک ٹھیک لکھا ہے،جیسے فرمایا:

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [111]

ترجمہ: اورنامہ اعمال سامنے رکھ دیاجائے گاپھرتم دیکھوگے کہ مجرم لوگ اس کے مندراجات سے ڈررہے ہوں  گے اورکہہ رہے ہوں  گے کہ ہائے ہماری کم بختی!یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یابڑی حرکت ایسی نہیں  رہ گئی جواس میں  درج نہ ہو،جوجوکچھ انہوں  نے کیاتھاوہ سب اپنے سامنے حاضرپائیں  گے اورتیرارب کسی پرظلم کرنے والانہیں  ہے ۔

اوراعمال کی جزادیتے ہوئے ہم کسی پر کسی طرح کاظلم نہیں  کریں  گے کہ کسی کی نیکیوں  میں  کمی اورکسی کے گناہوں  میں  اضافہ کردیں ،مگر یہ لوگ اس معاملے سے بے خبرہیں  کہ ان کااعمال نامہ مرتب ہورہاہے ،اور ان وڈیروں  کے اعمال بھی مومنوں  کے اعمال کے برعکس ہیں  ، وہ حق کی تکذیب،حق کودبانے کی کوششیں  اور دوسرے اعمال بد کیے چلے جائیں  گے، ان کی جہالت اورغفلت انہیں  قرآن تک نہیں  پہنچنے دیتی،جیسے فرمایا

وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۝۴۵ۙوَّجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَفِیْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا۔۔۔۝۰۝۴۶ [112]

ترجمہ:جب تم قرآن پڑھتے ہو توہم تمہارے اورآخرت پرایمان نہ لانے والوں  کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں ،اوران کے دلوں  پرایساغلاف چڑھادیتے ہیں  کہ وہ کچھ نہیں  سمجھتے اوران کے کانوں  میں  گرانی پیداکردیتے ہیں ۔

یہاں  تک کہ جب ہم ان کی عیش کوشی کودنیاوی عذاب میں  پکڑلیں  گے توپھروہ عذاب کی تکلیف سے بلبلانے لگیں  گے ،جیسے فرمایا

كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ۝۳ [113]

ترجمہ:ان سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں  کوہلاک کر چکے ہیں  (اور جب ان کی شامت آتی ہے)تووہ چیخ اٹھتے ہیں مگروہ وقت بچنے کانہیں  ہوتا۔

وَذَرْنِیْ وَالْمُكَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَةِ وَمَهِلْهُمْ قَلِیْلًا۝۱۱اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْكَالًا وَّجَحِــیْمًا۝۱۲ۙوَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۳ۤ [114]

ترجمہ:ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں  سے نمٹنے کاکام تم مجھ پرچھوڑدواورانہیں  ذراکچھ دیر اسی حالت پر رہنے دو، ہمارے پاس (ان کے لئے) بھاری بیڑیاں  ہیں  اوربھڑکتی ہوئی آگ اورحلق میں  پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔

اللہ تحقیراورطنزکے اندازمیں  فرمائے گااب بندکرواپنی فریادو فغاں ! اب تمہاری یہ جزع و فزع تمہیں  اللہ کے عذاب سے بچانہیں  سکتی، اورتم اس لئے مبتلائے عذاب ہوئے کہ جب ہمارے پیغمبرتمہیں  ہدایت ورہنمائی کے لئے قرآن مجیدکی آیات یا احکام الٰہی سناتے تھے توتم کبرونخوت میں  مبتلا ہو جاتے تھے ، حق اور اہل حق کوحقیرسمجھتے تھے اور ان کی بات سنناتک گوارانہیں  کرتے تھے ،اپنے غرور و تکبر میں  اس کوخاطرہی میں  نہ لاتے تھے ،جیسے فرمایا

ذٰلِكُمْ بِاَنَّہٗٓ اِذَا دُعِیَ اللہُ وَحْدَہٗ كَفَرْتُمْ۝۰ۚ وَاِنْ یُّشْرَكْ بِہٖ تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ فَالْحُكْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ۝۱۲ [115]

ترجمہ:(جواب ملے گا) یہ حالت جس میں  تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں  کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے ۔

اور راتوں  کوتم اپنی چوپالوں  میں  قرآن کے بارے میں  قبیح گفتگوکرتے تھے،جیسے فرمایا

اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَهٗ۔۔۔۝۰   ۝۳۳ۚ [116]

ترجمہ:کیایہ کہتے ہیں  کہ اس شخص نے یہ قرآن خودگھڑلیاہے؟۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۝۲۶ [117]

ترجمہ:یہ منکرین حق کہتے ہیں  اس قرآن کوہرگزنہ سنواورجب یہ سنایا جائے تواس میں  خلل ڈالوشایدکہ اسی طرح تم غالب آجاؤ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ۝۵۹ۙوَتَضْحَكُوْنَ وَلَا تَبْكُوْنَ۝۶۰ۙوَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۝۶۱ [118]

ترجمہ:اب کیایہی وہ باتیں  ہیں  جن پرتم اظہارتعجب کرتے ہو؟ ہنستے ہواورروتے نہیں  ہو؟اورگابجاکرانہیں  ٹالتے ہو؟۔

اور اپنی گپ شپ میں  پیغمبرآخرالزماں   صلی اللہ علیہ وسلم  کوشاعر،کاہن،مجنون وغیرہ کے القابات سے نوازتے تھے۔

أَمْ لَمْ یَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ أَمْ یَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیهِنَّ ۚ بَلْ أَتَیْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ ‎﴿٧١﴾(المؤمنون)
کیا انہوں  نے اس بات میں  غور و فکر ہی نہیں  کیا؟ بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں  کے پاس نہیں  آیا تھا؟ یا انہوں  نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں  کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں ؟ یا یہ کہتے ہیں  کہ اسے جنون ہے؟ بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لایا ہے، ہاں  ان میں  اکثر حق سے چڑنے والے ہیں  اگر حق ہی ان کی خواہشوں  کا پیرو ہوجائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہوجائے، حق تو یہ ہے کہ ہم نے انھیں  ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں ۔

مشرکین اورمکذبین کوجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت اسلام سن کراعراض کرتے تھےانہیں  متوجہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے چندسوال پیش کیے کہ کیاتم لوگوں  نے کبھی اس پاکیزہ کلام کے مضامین،موضوع اوران کی وسعت وگہرائی پر غوروفکراورتدبرنہیں  کیا؟یہ بات نہیں  ہے ،یہ کلام خودتمہاری اپنی زبان فصیح عربی میں  نازل کیاگیاہے اوریہ اتناعام فہم ہے کہ ہرشخص اس کوباآسانی سمجھ سکتاہے ،اوریہ وہ دعوت دے رہاہے جوتمہاری فطرت میں  موجودہے اوراس عہد کی یاددہانی کرارہاہے جوتم نے اپنے رب سے کیاتھاجب اس نے پوچھاتھاکیامیں  تمہارارب نہیں  ہوں ؟اورتم لوگوں  نے جواب دیاتھا ہاں  توہمارارب ہے،اوران قوموں  کے عبرت ناک واقعات پیش کررہاہے جنہوں  نے فخروغرورمیں  دعوت حقہ اوررسول کی تکذیب کی اورطاغوت کی پرستش پرقائم رہے پھربالآخردردناک عذاب سے دوچارہوئے ،

وَقَالَ قَتَادَةُ: أَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ، إذًا وَاللَّهِ یَجِدُونَ  فِی الْقُرْآنِ زَاجِرًا عَنْ مَعْصِیَةِ اللَّهِ لَوْ تَدَبَّرَهُ الْقَوْمُ وَعَقَلُوهُ، وَلَكِنَّهُمْ أَخَذُوا بِمَا تَشَابَهَ  فَهَلَكُوا عند ذلك

قتادہ رحمہ اللہ  آیت کریمہ أَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَکے بارے میں فرماتے ہیں یہ لوگ قرآن میں  غورکرتے تواللہ کی قسم !اس میں  ایسی چیزیں  پاتے جوانہیں  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکتیں ، لیکن یہ تومتشابہات کے پیچھے لگ گئے جس کی وجہ سے تباہ وبربادہوگئے۔[119]

یااس رسول کا دعوت توحیددینا ، آخرت کی بازپرس سے ڈرانااوراخلاق کی معروف بھلائیاں  پیش کرنا کوئی نرالی تعلیم ہے جوکبھی ان کے آباؤاجداد کونہیں  دی گئی تھی ؟یہ بات نہیں  ہے کیونکہ یہ خودتسلیم کرتے ہیں  کہ ہود علیہ السلام ،صالح  علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام  ان کی سرزمین پردعوت حق پہنچانے کے لئے آئے تھے اوراس لئے یہ خودکودین ابراہیمی کاپیروکارسمجھتے ہیں ، یا یہ اپنے رسول کی نسبی شرافت ،اس کی صداقت وامانت ،راست بازی ،عفت وپاکدامنی اورقوم وفعل کی بلندی کے شاہدنہ تھے کہ اب انجانا آدمی سمجھ کر اس سے بدکتے ہیں ؟یہ بات بھی نہیں  ہے کیونکہ یہ تمام حقائق کااعتراف کرتے اوراخلاق جمیلہ کے حامل ہونے کی وجہ سے برملا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوصادق وامین کہتے تھے،

قَالَ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، لِلنَّجَاشِیِّ مَلِكِ الْحَبَشَةِ: أَیُّهَا الْمَلِكُ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ إِلَیْنَا رَسُولًا نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِدْقَهُ وَأَمَانَتَهُ

جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب نے شاہ حبشہ نجاشی سے کہا تھا اے بادشاہ!بے شک اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک ایسے رسول کومبعوث فرمایاہے جن کے نسب اورجن کی صداقت وامانت کوہم خوب جانتے ہیں ۔[120]

اسی طرح ابوسفیان صخربن حرب نے بھی جب وہ ابھی دائرہ اسلام میں  داخل نہیں  ہوئے تھے شاہ روم ہرقل سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صداقت وامانت کااعتراف کیاتھا۔[121]

حق وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں ۔

یایہ بھی پچھلی تباہ شدہ قوموں  کی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  کو(نعوذباللہ)مخبوط الحواس آدمی سمجھتے ہیں ؟یہ بات بھی نہیں  کیونکہ اس پیغمبرنے ایساقرآن پیش کیاہے جس کی مثل اور نظیرپیش کرنے سے دنیاقاصرہے،اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اورامن وسکون کاباعث ہیں ،کیاایساقرآن اورایسی تعلیمات کوئی ایساشخص بھی پیش کرسکتاہے جومخبوط الحواس ہو؟نہیں ،بلکہ وہ بھی گزشتہ انبیاء کی طرح دعوت حق لایاہے کہ طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی اوراطاعت کرو،پھرنتیجہ بیان فرمایاکہ مکذبین کے پاس اس دعوت کی تکذیب کے لئے کوئی دلیل نہیں  ہے،ان کے اعراض کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت ہے ،اوراگردین وشریعت کہیں  ان کے خیالات وخواہشات کے مطابق اترے توزمین و آسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے کانظام درہم برہم ہو جاتا،حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس وہ چیزلائے ہیں  جوان کے اپنے ہی بھلے کے لئے ہے،اگریہ اسے قبول کرلیں  توانہی کو دنیا و آخرت میں عزت اورسرفرازی نصیب ہوگی ،اوراس سے روگردانی کسی اور چیزسے نہیں  اپنی ہی ترقی اوراپنے ہی اٹھان کے ایک زریں موقع سے روگردانی ہے،چنانچہ اپنی بدبختی کے سبب اللہ نے انہیں  فراموش کردیاجیسے فرمایا

۔۔۔نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ۔۔۔[122]

ترجمہ:یہ اللہ کوبھول گئے تواللہ نے بھی انہیں  بھلادیا۔

۔۔۔نَسُوا اللهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۹ [123]

ترجمہ:جواللہ کوبھول گئے تواللہ نے انہیں  خوداپنانفس بھلادیا۔

‏ أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ ۖ وَهُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ ‎﴿٧٢﴾‏ وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٧٣﴾‏ وَإِنَّ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ ۞ وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُونَ ‎﴿٧٦﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِم بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیدٍ إِذَا هُمْ فِیهِ مُبْلِسُونَ ‎﴿٧٧﴾‏(المؤمنون)
کیا آپ ان سے کوئی اجرت چاہتے ہیں  ؟ یاد رکھیے کہ آپ کے رب کی اجرت بہت ہی بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی رساں  ہے، یقیناً آپ انھیں  راہ راست کی طرف بلا رہے ہیں ، بیشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں  رکھتے وہ سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں ، اور اگر ہم ان پر رحم فرمائیں  اور ان کی تکلیفیں  دور کردیں  تو یہ تو اپنی اپنی سرکشی میں  جم کر اور بہکنے لگیں ، اور ہم نے انھیں  عذاب میں  پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی،  یہاں  تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی وقت فوراً مایوس ہوگئے۔

اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مشرکین دعوت حق سن کرانحراف کرتے ہیں  کیاآپ اس وعظ ونصیحت کے لئے توان سے مال ودولت یاحیثیت ومرتبہ طلب کر رہے ہیں ؟یہ بات بھی نہیں  ہے ،کسی پیغمبرنے اپنی قوم سے اس خیرخواہی کے لئے کبھی کچھ بھی طلب نہیں  کیابلکہ وہ توببانگ دھل یہ کہتے تھے کہ ہم تم سے کوئی اجرکے طالب نہیں  ہیں  ہمارااجرتواللہ رب العالمین کے ذمہ ہے ،جس نے ہماری یہ ڈیوٹی لگائی ہے،

نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۹ۚ  [124]

ترجمہ:میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں  میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔

ہودؑنے بھی اپنی قوم کویہی کہاتھا

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۲۷ۭ [125]

ترجمہ:میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

یٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا۝۰ۭ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ۔۔۔۝۵۱ [126]

ترجمہ:اے برادران قوم! اس کام پر میں  تم سے کوئی اجر نہیں  چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔

صالح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی کہاتھا

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۴۲ۚاِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۴۳ۙفَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۴۴ۚ وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۴۵ۭ [127]

ترجمہ:یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالح علیہ السلام  نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں  ،لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں  میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

لوط علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی کہاتھا

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۶۰ۚۖاِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۶۱ۚاِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۶۲ۙفَاتَّــقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۶۳ۚوَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۴ۭ [128]

ترجمہ:لوطؑ کی قوم نے رسولوں  کو جھٹلایایاد کرو جبکہ ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ،لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ،اور میں  تبلیغ حق کے اس کام پر تم سے کوئی مزدوری نہیں  مانگتامیری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمے ہے۔

ایک مقام پر ایک مومن کی نصیحت یوں  بیان فرمائی۔

وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰى قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ۝۲۰ۙاتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا وَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۝۲۱ [129]

ترجمہ: اتنے میں  شہرکے دوردرازگوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولااے میری قوم کے لوگو!رسولوں  کی پیروی اختیارکرلو،پیروی کروان لوگوں  کی جوتم سے کوئی اجر نہیں  چاہتے اورٹھیک راستے پرہیں ۔

اورسیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی کچھ کہاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا۝۰ۭ اِنْ هُوَاِلَّا ذِكْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ۝۹۰ۧ [130]

ترجمہ: اورکہہ دوکہ میں (اس تبلیغ وہدایت کے)کام پرتم سے کسی اجرکاطالب نہیں  ہوں یہ توایک عام نصیحت ہے تمام دنیاوالوں  کے لئے۔

فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ۝۰ۭ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللهِ۝۰ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۷۲ [131]

ترجمہ:تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا(تومیراکیانقصان کیا)میں  تم سے کسی اجرکا طلب گارنہ تھامیرااجرتواللہ کے ذمہ ہے،اورمجھے حکم دیاگیاہے کہ (خواہ کوئی مانے یانہ مانے)میں  خودمسلم بن کر رہوں ۔

وَمَا تَسْــــَٔـلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۭ اِنْ هُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۴ۧ [132]

ترجمہ:حالاں  کہ تم اس خدمت پران سے کوئی اجرت بھی نہیں  مانگتے ہویہ توایک نصیحت ہے جودنیاوالوں  کے لئے عام ہے ۔

قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَلَكُمْ۝۰ۭ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللہِ۝۰ۚ وَہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ۝۴۷ [133]

ترجمہ: ان سے کہو اگر میں  نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے ۔

قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ۝۸۶ [134]

ترجمہ:اے نبی(  صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہہ دو کہ میں  اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں  مانگتا اور نہ میں  بناوٹی لوگوں  میں  سے ہوں  ۔

۔۔۔قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰى۔۔۔۝۲۳ [135]

ترجمہ: اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان لوگوں  سے کہہ دو کہ میں  اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں  ہوں  البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں  ۔

اوررزق دینے والاتورب العالمین ہے جو بحروبر میں اپنی انگنت مخلوقات کو رزق پہنچاتا ہے،آپ توان لوگوں  کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دے رہے ہیں  جس میں  ان کی دنیاوی واخروی سعادت وفلاح ہے،مگر جولوگ حیات بعدالموت، روزآ خرت،حشرنشر اوراعمال کی جزا پرایمان نہیں  رکھتے وہ راہ راست سے ہٹ کرجانوروں  کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ فِیمَا یَرَى النَّائِمُ مَلَكَانِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رِجْلَیْهِ، وَالْآخَرُ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ الَّذِی عِنْدَ رِجْلَیْهِ لِلَّذِی عِنْدَ رَأْسِهِ: اضْرِبْ مَثَلَ هَذَا، وَمَثَلَ أُمَّتِهِ، فَقَالَ: إِنَّ مَثَلَهُ وَمَثَلَ أُمَّتِهِ كَمَثَلِ قَوْمٍ سَفْرٍ، انْتَهَوْا إِلَى رَأْسِ مَفَازَةٍ، فَلَمْ یَكُنْ مَعَهُمْ مِنَ الزَّادِ مَا یَقْطَعُونَ بِهِ الْمَفَازَةَ، وَلا مَا یَرْجِعُونَ بِهِ، فَبَیْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ أَتَاهُمْ رَجُلٌ فِی حُلَّةٍ حِبَرَةٍ، فَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ إِنْ وَرَدْتُ بِكُمْ رِیَاضًا مُعْشِبَةً، وَحِیَاضًا رُوَاءً، أَتَتَّبِعُونِی؟ فَقَالُوا: نَعَمْ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خواب میں  دو فرشتے آئے ان میں  سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاؤں  کی طرف بیٹھ گیااور دوسرا سر کی طرف،جو فرشتہ پاؤں  کی طرف بیٹھا تھا اس نے سر کی طرف بیٹھے ہوئے فرشتے سے کہا کہ ان کی اور ان کی امت کی مثال بیان کرو،اس نے کہا کہ ان کی اور ان کی امت کی مثال اس مسافر قوم کی طرح ہے جو ایک جنگل کے کنارے پہنچی ہوئی ہے، ان کے پاس اتنا زاد سفر نہ ہو کہ وہ اس جنگل کو طے کر سکیں  یا واپس جا سکیں ،ابھی یہ لوگ اسی حال میں  ہوں  کہ ان کے پاس یمنی حلے میں  ایک آدمی آئےاور ان سے کہے دیکھو! اگر میں  ایک سر سبز و شاداب باغ اور جاری حوض پر لے کر جاؤں  تو کیا تم میری پیروی کرو گے؟وہ جواب دیں  کہ ہاں !

قَالَ: فَانْطَلَقَ بِهِمْ، فَأَوْرَدَهُمْ رِیَاضًا مُعْشِبَةً، وَحِیَاضًا رُوَاءً، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا وَسَمِنُوا، فَقَالَ لَهُمْ: أَلَمْ أَلْقَكُمْ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَجَعَلْتُمْ لِی إِنْ وَرَدْتُ بِكُمْ رِیَاضًا مُعْشِبَةً، وَحِیَاضًا رُوَاءً، أَنْ تَتَّبِعُونِی؟ فَقَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ بَیْنَ أَیْدِیكُمْ رِیَاضًا أَعْشَبَ مِنْ هَذِهِ، وَحِیَاضًا هِیَ أَرْوَى مِنْ هَذِهِ، فَاتَّبِعُونِی، قَالَ: فَقَالَتْ طَائِفَةٌ: صَدَقَ وَاللَّهِ لَنَتَّبِعَنَّهُ، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ: قَدْ رَضِینَا بِهَذَا نُقِیمُ عَلَیْهِ

چنانچہ وہ شخص انہیں  لے کر سر سبز و شاداب باغات اور سیراب کرنے والے جاری حوضوں  پر پہنچ جائے اور یہ لوگ کھا پی کر خوب صحت مند ہو جائیں ،پھر وہ آدمی ایک دن ان سے کہے کیا تم سے میری ملاقات اس حالت میں  نہیں  ہوئی تھی کہ تم نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر میں  تمہیں  سر سبز و شاداب باغات اور سیراب کرنے والے جاری حوضو پر لے کر پہنچ جاؤں  تو تم میری پیروی کرو گے؟ وہ جواب دیں  کیوں  نہیں !وہ آدمی کہیں  کہ پھر تمہارے آگے اس سے بھی زیادہ سر سبز و شاداب باغات ہیں  اور اس سے زیادہ سیراب کرنے والے حوض ہیں  اس لئے اب میری پیروی کرو،اس پر ایک گروہ ان کی تصدیق کرے اور کہے کہ ان شاء اللہ ہم ان کی پیروی کریں  گےاور دوسرا گروہ کہے ہم یہیں  رہنے میں  خوش ہیں ۔[136]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کومکہ مکرمہ میں دعوت اسلام دیتے ہوئے تقریباًپانچ سال بیت چکے تھے مگرقوم مسلسل تکذیب ہی کرتی چلی آرہی تھی اوردن بدن ان کی مزاحمت بڑھتی ہی چلی جاتی تھیں ،چنانچہ قوم کی شرارتوں  سے تنگ آکرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پربددعا فرمائی تھی،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَیْشًا قَدِ اسْتَعْصَوْا عَلَیْهِ، قَالَ:اللَّهُمَّ أَعِنِّی عَلَیْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ یُوسُفَ،  قَالَ:فَأَخَذَتْهُمُ السَّنَةُ، حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَیْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْعِظَامَ ، وَقَالَ أَحَدُهُمَا: حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ، وَالْمَیْتَةَ، وَجَعَلَ یَخْرُجُ مِنَ الرَّجُلِ كَهَیْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ: أَیْ مُحَمَّدُ، إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَكْشِفَ عَنْهُمْ ،قَالَ:فَدَعَا ، ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ إِنْ یَعُودُوا فَعُدْ

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی میں  حد سے آگے بڑھ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بددعاء فرمائی اے اللہ!جس طرح یوسف علیہ السلام  کے زمانے میں  سات سال قحط رہا،اسی طرح قحط سالی میں  انہیں  مبتلاکرکے ان کے مقابلے میں  میری مددفرما،چنانچہ قریش کو قحط سالی اور مشکلات نے آگھیرایہاں  تک کہ وہ کھالیں  اور ہڈیاں  کھانے پر مجبور ہوگئے اور یہ کیفیت ہوگئی کہ جب کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں  دکھائی دیتا،چنانچہ ابوسفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوااورعرض کیااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں  کہ یہ قحط ان سے ٹل جائے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعافرمائی اے اللہ !ان پرسے قحط دورفرمادے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعا کو شرف قبولیت بخشااورسخت قحط دورفرمادیا۔[137]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ أَبُو سُفْیَانَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، فَقَدْ أَكَلْنَا الْعِلْهِزَ یَعْنِی الْوَبَرَ وَالدَّمَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُونَ} [138]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں  حاضرہوکرعرض کی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں  آپ کواللہ تعالیٰ اورقرابت داری کی قسم دے کرکہتاہوں  کہ اب توہم نے اون اورخون کھالیاہےتواس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ان کاحال تویہ ہے کہ ہم نے انہیں  تکلیف میں  مبتلاکیاپھربھی یہ اپنے رب کے آگے نہ جھکے اورنہ عاجزی اختیارکرتے ہیں ۔[139]

فرمایا کہ اگرہم ان پررحم کریں  اورقحط سالی دور کردیں  تویہ اپنی سرکشی میں  بالکل ہی بہک جائیں  گے،ان کاحال تویہ ہے کہ ہم نے انہیں  قحط سالی میں  مبتلاکیاتاکہ یہ اپنے رب کی بارگاہ میں  جھک جائیں  اورعاجزی اختیار کریں مگر پھربھی یہ اپنے رب کے آگے جھکے اورنہ عاجزی اختیارکی بلکہ کفروضلالت پراڑے رہے ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ۝۴۲ فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۴۳ [140]

ترجمہ:تم سے پہلے بہت سی قوموں  کی طرف ہم نے رسول بھیجے اوران قوموں  کو مصائب وآلام میں  مبتلاکیاتاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں ،پس جب ہماری طرف سے ان پرسختی آئی توکیوں  نہ انہوں  نے عاجزی اختیارکی؟مگران کے دل تواورسخت ہوگئے اورشیطان نے ان کو اطمینان دلایاکہ جوکچھ تم کررہے ہوخوب کر رہے ہو۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ۝۹۴ [141]

ترجمہ:کبھی ایسانہیں  ہواکہ ہم نے کسی بستی میں  نبی بھیجاہواوراس بستی کے لوگوں  کوپہلے تنگی اورسختی میں  مبتلانہ کیاہواس خیال سے کہ شایدوہ عاجزی پراترآئیں ۔

البتہ جب نوبت یہاں  تک پہنچ جائے گی کہ ہم ان پر اچانک سخت عذاب کادروازہ کھول دیں  تو تم دیکھوگے کہ ان کی تمام امیدیں  منقطع ہو جائیں  گی اورخوف ودہشت کے مارے دم بخودہوجائیں  گے ۔

وَهُوَ الَّذِی أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِیلًا مَّا تَشْكُرُونَ ‎﴿٧٨﴾‏ وَهُوَ الَّذِی ذَرَأَكُمْ فِی الْأَرْضِ وَإِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ وَهُوَ الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ ‎﴿٨١﴾‏ قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٨٣﴾(المؤمنون)
وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں  اور دل پیدا کئے مگر تم بہت (ہی) کم شکر کرتے ہو، اور وہی ہے جس نے تمہیں  پیدا کرکے زمین میں  پھیلا دیا اور اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے، اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور رات دن کے ردو بدل کا مختار بھی وہی ہے، کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں ؟بلکہ ان لوگوں  نے بھی ویسی ہی بات کہی جو اگلے کہتے چلے آئے کہ  کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں  گے کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں  گے؟ ہم سے ہمارے باپ دادوں  سے پہلے ہی سے یہ وعدہ ہوتا چلا آیا ہے کچھ نہیں  یہ صرف اگلے لوگوں  کے افسانے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کابیان فرمایاکہ وہ اللہ ہی توہے جس نے تمہیں  عقل وفہم اورسننے کی یہ صلاحیتیں  عطاکیں  تاکہ ان کے ذریعے سے تم حق کوپہچانواوراللہ کی وحدانیت کواختیار کرو مگراللہ کی پے درپے نعمتوں  کے باوجودتم لوگ کم ہی شکرگزارہوتے ہو ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۱۰ۧ [142]

ترجمہ:ہم نے تمہیں  زمین میں  اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں  سامان زیست فراہم کیا مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۸ۚثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۹ [143]

ترجمہ:پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے ،پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیے ، آنکھیں  دیں  اور دل دیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ [144]

ترجمہ:کبھی تم نے آنکھیں  کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو،اسے تم نے بادل بر سایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں  تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں  ،پھر کیوں  تم شکر گزار نہیں  ہوتے؟۔

اوریہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے تمہیں  پیداکرکے زمین کے اطراف میں  میں  پھیلادیاہے،جیسے فرمایا

قُلْ ہُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [145]

ترجمہ:ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  زمین میں  پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ۔

پھرایک وقت مقررہ پروہ تم سب کی بوسیدہ اورکھوکھلی ہڈیوں  کوقبروں  سے زندہ کرکے اعمال کی جوابدہی کے لئے اپنی بارگاہ میں  جمع فرمائے گا ،جیسے فرمایا:

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ۝۰ۙ لَا یَبْعَثُ اللہُ مَنْ یَّمُوْتُ۝۰ۭ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۳۸ۙ [146]

ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں  کھا کر کہتے ہیں  کہ اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا اٹھائے گا کیوں  نہیں ، یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں  ۔

اور اللہ ہی زندگی بخشتاہے اوروہی موت دینے پرقادر ہے ،جیسے فرمایا:

 قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَیُـحْیٖ وَیُمِیْتُ۔۔۔۝۱۵۸ [147]

ترجمہ:اے محمد کہو کہ اے انسانو!میں  تم سب کی طرف اس اللہ کا پیغمبر ہوں  جو زمین اور آسمانوں  کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی الہ نہیں  ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔

اِنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ یُـحْیٖ وَیُمِیْتُ۔۔۔۝۱۱۶ [148]

ترجمہ:اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضے میں  آسمان و زمین کی سلطنت ہے، اسی کے اختیار میں  زندگی و موت ہے۔

ھُوَیُـحْیٖ وَیُمِیْتُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۵۶ [149]

ترجمہ:وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہوگا۔

ہُوَالَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ۔۔۔۝۶۸ۧ [150]

ترجمہ:وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی ہے موت دینے والا ہے ۔

رات کے بعددن اوردن کے بعدرات کاآنااوررات ودن کا چھوٹا بڑاہونے کانظام بھی اسی نے بنایاہے ، جیسے فرمایا

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰۝۴۰ [151]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں  یہ ہے کہ وہ چاندکوجاپکڑے اورنہ رات دن پرسبقت لیجاسکتی ہے ۔

اگراللہ چاہے توتم پرہمیشہ کے لئے دن طاری کردے یاہمیشہ کے لئے رات طاری کرے تواللہ کے سواتمہاراکون سامعبودہے جوان میں  تبدیلی کرسکے جب تم اللہ کی ان نشانیوں  کو کھلی آنکھوں دیکھتے ہو،جیسے فرمایا:

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَاۗءٍ۝۰ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ۝۷۱قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْكُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْہِ۝۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۷۲ [152]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہو کبھی تم لوگوں  نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں  روشنی لادے؟ کیا تم سنتے نہیں  ہو؟ان سے پوچھو کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں  رات لا دے تاکہ تم اس میں  سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں  ؟۔

اورتسلیم کرتے ہوکہ یہ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت واختیار میں  ہے توتمہاری سمجھ میں  یہ بات نہیں  آتی کہ کائنات کایہ عظیم الشان نظام بہت سے معبودوں  کی مددسے نہیں  بلکہ ایک اللہ وحدہ لاشریک کے اشارے پرچل رہاہے جوہرچیزپرغالب ہے اورہرمخلوق اس کے سامنے جھکی ہوئی ہے ؟مگریہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں  جوان کی پیش روقومیں  اللہ کی قدرت وحکمت کا انکارکرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ کیاجب ہم مرکرمٹی ہوجائیں  گے اورہڈیوں  کاپنجربن کررہ جائیں  گے تو ہم کوپھرزندہ کر کے اٹھایاجائے گا؟ہم اور ہمارے آباواجدادبھی زندہ کیے جائیں  گے،جیسے فرمایا

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸ [153]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں  گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں  گے ؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں  گے جو پہلے گزر چکے ہیں ؟۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۝۶۷ [154]

ترجمہ:یہ منکرین کہتے ہیں  کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں  گے تو ہمیں  واقعی قبروں  سے نکالا جائے گا ؟ ۔

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶اَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭ [155]

ترجمہ:بھلا کہیں  ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں  اور مٹی بن جائیں  اور ہڈیوں  کا پنجر رہ جائیں  اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں  ؟اور کیا ہمارے اگلے وقتوں  کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں  گے ؟۔

ایسی لایعنی باتیں  سنتے رہے ہیں یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں ،ان میں  حقیقت کچھ بھی نہیں  ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ [156]

ترجمہ:اب وہ ہم پرمثالیں  چسپاں  کرتاہے اوراپنی پیدائش کوبھول جاتاہےکہتاہے کون ان ہڈیوں  کو زندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ۝۰ۭ وَهُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ۝۷۹ۙ [157]

ترجمہ:اس سے کہوانہیں  وہی زندہ کرے گاجس نے پہلے انہیں  پیدا کیا تھا اوروہ تخلیق کاہرکام جانتاہے۔

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ سَیَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ‎﴿٨٦﴾‏ سَیَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿٨٧﴾‏ قُلْ مَن بِیَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَیْءٍ وَهُوَ یُجِیرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ سَیَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ‎﴿٨٩﴾‏ بَلْ أَتَیْنَاهُم بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿٩٠﴾‏(المؤمنون)
پوچھئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں  کس کی ہیں  ؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو؟ فوراً جواب دیں  گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں  نہیں  حاصل کرتے، دریافت کیجئے کہ ساتوں  آسمانوں  کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے ؟  وہ لوگ جواب دیں  گے کہ اللہ ہی ہے، کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں  نہیں  ڈرتے؟ پوچھئے کہ تمام چیزوں  کا اختیار کس کے ہاتھ میں  ہے ؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں  کوئی پناہ نہیں  دیا جاتا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ ؟ یہی جواب دیں  گے کہ اللہ ہی ہے،  کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کردیئے جاتے ہو؟ حق یہ ہے کہ ہم نے انھیں  حق پہنچا دیا ہے اور یہ بیشک جھوٹے ہیں ۔‘‘

اہل مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ،خالقیت،ملکیت تصرف اوررزاقیت کے منکرنہیں  تھے بلکہ یہ سب باتیں  تسلیم کرتے تھے ،انہیں  انکارتھاتو صرف توحیدالوہیت سے ،وہ اس مغالطے میں  تھے کہ یہ بھی اللہ کے نیک بندے تھے ،ان کوبھی اللہ نے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں  اورہم ان کے ذریعے سے اللہ کاقرب حاصل کرتے ہیں اورآج بھی یہی مغالطہ ہے ،مردہ پرست فوت شدگان کوجوقیامت تک ان کی فریادوں  کوسن نہیں  سکتے مددکے لئے پکارتے ہیں ،جیسے فرمایا:

لَہٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْہِ اِلَى الْمَاۗءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَبِبَالِغِہٖ۝۰ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۝۱۴ [158]

ترجمہ: اسی کو پکارنا برحق ہے،رہیں  وہ دوسری ہستیاں  جنہیں  اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں  وہ ان کی دعاؤں  کا کوئی جواب نہیں  دے سکتیں ، انہیں  پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچے والا نہیں ، بس اسی طرح کافروں  کی دعائیں  بھی کچھ نہیں  ہیں  مگر ایک تیر بےہدف!۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّہِمُ الْوَسِـیْلَةَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ۝۰ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا۝۵۷ [159]

ترجمہ:جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں  وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں  کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔

ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے نام کی نذرونیاز دیتے اوران کواللہ کی عبادت میں  شریک گردانتے ہیں ،حالانکہ اللہ نے اوراس کے کسی پیغمبرنے کہیں  بھی یہ نہیں  فرمایاکہ اللہ نے کسی فوت شدہ بزرگ،ولی یانبی کوکچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں اس لئے تم ان کے ذریعے سے اللہ کاقرب حاصل کرویاانہیں  مشکلات وپریشانیوں  میں  مددکے لئے پکارو یاان کے نام کی نذرونیازدو،چنانچہ ان کومتوجہ کرنے کے لئے کہ معبودبرحق صرف وہی ہے ،اس کے سواکوئی عبادت کامستحق نہیں  فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوبتاؤکہ زمین اورزمین کی تمام مخلوقات ،حیوانات ، نباتات ، جمادات ،سمندروں ،دریاؤں  اورپہاڑوں  کوکس نے پیداکیاہے ؟ان کامالک کون ہے اورکون ان کی تدبیرکرتاہے ؟یہ صاف لفظوں  میں  دوٹوک جواب دیں  گے کہ صرف اللہ ، توان سےکہوپھرتم یہ بات کیوں  نہیں  سمجھتے کہ اللہ کے سواکوئی بندگی کامستحق نہیں  اوراس کے لئے انسانوں  کودوبارہ پیداکردیناکوئی مشکل نہیں  ہے؟دوسری دلیل بیان فرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے پوچھو ساتوں  بلندوبالااوروسعتوں  والے آسمانوں ،ان کے اندر ستاروں ، سیاروں ، کواکب اور عرش عظیم کامالک کون ہے؟اس حقیقت کااقرارکرتے ہوئے یہ دوٹوک جواب دیں  گے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہرچیزکامالک اورمتصرف ہے،توان سےکہوپھرتم اللہ سے بغاوت وسرکشی کیوں  کرتے ہو،عاجزاوربے بس مخلوق کی عبادت سے تائب ہوکراوراللہ کی وحدانیت کوتسلیم کرکے اس کے عذاب سے بچنے کااہتمام کیوں  نہیں  کرتے؟عرب میں  دستورتھاکہ سردارقبیلہ اگرکسی کوپناہ دے دے توساراقبیلہ اس کاپابندتھالیکن قبیلے میں  سے کوئی کسی کواپنی پناہ میں  لے لے توسردارپراس کی پابندی نہیں  تھی ،چنانچہ اللہ نے اپنی بادشاہی، اپنے اقتداراورتصرف کاذکر فرمایاکہ اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ کائنات کی ہرچیزپرکامل اقتداراورمالکانہ اختیارات کس کوحاصل ہے ؟ اورکون ہے جوپناہ دیتا ہے اورکوئی اسے نقصان نہیں  پہنچاسکتا اورجس کووہ نقصان پہنچانا چاہے ،کیا کائنات میں  اللہ کے سواکوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچالے اور اپنی پناہ میں  لے لے ، یہ ضرورکہیں  گے کہ کائنات کی ہرچیزپرا قتداروتصرف رب العالمین ہی کا ہے اوراس کے مقابلے میں  کوئی پناہ نہیں  دے سکتا،تواے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تو ان سے کہو پھر تمہاری آنکھوں  پرکس نے پٹی باندھ دی ہے کہ اس اعتراف اورعلم کے باوجودتم غیراللہ کواس کی عبادت میں  شریک کرتے ہو ؟

مشرکین تویہ تسلیم کرتے تھے کہ ہرچیزکی طاقت،اختیاروتصرف اللہ کے ہاتھ میں  ہے ،مگرآج مسلمانوں  کی راہبری کے دعویداروں  کے نظریات کیا ہیں  ۔

جوپکڑے خداتوچھڑائے محمد  ، جوپکڑے محمدچھڑاکوئی نہیں  سکتا

اور

اللہ کے پلے میں  وحدت کے سواکیاہے، جوکچھ ہمیں  لیناہے لے لیں  گے محمدسے

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم نے ان کے سامنے توحیدربوبیت کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت کو واضح کردیا ہے، اور اتنی ساری تسلیم شدہ صداقتوں  یعنی زمین میں  جوکچھ ہے اس کامالک اورخالق اللہ ہے اوراس کے سواکوئی خالق اورمالک نہیں  ہے،سات آسمانوں  اورعرش عظیم کارب صرف اللہ ہے اورہرچیزکااختیاروتصرف صرف اللہ کوحاصل ہے ،اصل پناہ دینے والاوہی ہے اس کے سواکوئی پناہ نہیں  دے سکتا،وہ جب کسی کوگرفت میں  لے لے توپھرکوئی چھڑانے والانہیں  ہے،پھرکوئی پناہ نہیں  دے سکتا،پھربھی غیر اللہ کوسجدے کرتے ہو،ان سے مرادیں  مانگتے ہو،ان کی اطاعت کرتے ہو،مانتے ہوکہ یہ سب کچھ اللہ کاہے اورجھکتے ہوغیروں  کے آگے ،اس سے یہ بات کھل کرواضح ہوگئی ہے کہ ان لوگوں  نے اپنے معبودوں  کے بارے میں جھوٹے عقائدگھڑرکھے ہیں  ، اللہ کی ذات ، صفات ،اختیارات اورحقوق میں  کسی کا کوئی نہیں  حصہ ہے، اللہ ہرطرح کے شرک سے پاک ہے۔

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یَصِفُونَ ‎﴿٩١﴾‏ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَىٰ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِیَنِّی مَا یُوعَدُونَ ‎﴿٩٣﴾‏ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِی فِی الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٩٤﴾‏ وَإِنَّا عَلَىٰ أَن نُّرِیَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ ‎﴿٩٥﴾(المؤمنون)
نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لیے لیےپھرتا،  اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا، جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں  ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے، وہ غائب حاضر کا جاننے والا ہے اور جو شرک یہ کرتے ہیں  اس سے بالا تر ہے، آپ دعا کریں  کہ اے میرے پروردگار ! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا  وعدہ انھیں  دیا جا رہا ہے تو اے رب ! تو مجھے ان ظالموں  کے گروہ میں  نہ کرنا، ہم جو کچھ وعدے انھیں  دے رہے ہیں  سب آپ کو دکھا دینے پر یقیناً قادر ہیں ۔

اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اس نے کسی کواپنی اولادنہیں  بنایاہے،وہ بیوی اوراولادکی حاجت سے پاک ہے،جیسے فرمایا

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ۝۰ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۚ وَهُوَبِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۱۰۱ [160]

ترجمہ:وہ تو آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں  ہے، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

 وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا [161]

ترجمہ:اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلی و ارفع ہے اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں  بنایا ہے۔

اوراس عظیم الشان کائنات کانظام چلانے کے لئے اس کے ساتھ کوئی کوئی دوسراالٰہ نہیں  ہے،اگرتخلیق کائنات میں اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے توان میں  مکمل تعاون برقرارنہ رہتااورہرالٰہ جب چاہتااپنی خلق کولے کرالگ ہو جاتا اورپھر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے پرچڑھ دوڑتے، اوراس کھینچاتانی میں  کائنات کایہ عظیم الشان نظام قائم نہیں  رہ سکتاتھا،جیسے فرمایا

لَوْ كَانَ فِیْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا۔۔۔۝۰۝۲۲ [162]

ترجمہ:اگرزمین اورآسمان میں  اللہ کے سوادوسرے الٰہ بھی ہوتے تودونوں  کانظام بگڑجاتا۔

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ كَـمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا۝۴۲ [163]

ترجمہ:اگراللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے جیساکہ یہ لوگ کہتے ہیں  تو ضروروہ مالک عرش کے مقام پرپہنچنے کی کوشش کرتے ۔

نظام کی یہ باقاعدگی اوراجزائے نظام کی ہم آہنگی ،اقتدارکی مرکزیت ووحدت خوددلالت کررہی ہے کہ کائنات کاخالق ومالک اورمتصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے ،اس لئے وہی بندگی کے لائق ہے ،اورہرطرح کی حمدوثنااورستائش اسی کے لئے ہے، جبکہ مشرک جو فرشتوں  اوراپنی دیویوں  کو ، یہودی عزیرؑکواورعیسائی عیسیٰ  علیہ السلام  کواللہ کی اولاد ٹھہراتے اوراس کاشریک گردانتے ہیں اللہ ان نقائص سے بلندوبالا ، برترومنزہ ہے ،وہ ہرطرح کے شرک سے بالاترہے جویہ لوگ تجویز کرتے ہیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۶۸ [164]

ترجمہ:اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں  ۔

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۱۸۰ۚۙ [165]

ترجمہ:پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک ان تمام باتوں  سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں  ۔

سُبْحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۸۲  [166]

ترجمہ:پاک ہے آسمانوں  اور زمین کا فرماں  روا عرش کا مالک، ان ساری باتوں  سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں  ۔

اَمْ لَہُمْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۴۳ [167]

ترجمہ:کیا اللہ کے سوا یہ کوئی اور معبود رکھتے ہیں  ؟ اللہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔

وہ غیب اورحاضرکاجاننے والاہے،اس کے سواکسی کوئی غیب کاعلم نہیں  رکھتا ،جیسے فرمایا:

وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۔۔۔۝۵۹ [168]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں  ہیں  جنہیں  اس کے سوا کوئی نہیں  جانتا ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوحکم دیاکہ مصیبت کے وقت یہ دعاکریں  اے پروردگار !جس عذاب کی ان کودھمکی دی جارہی ہے وہ اگرمیری موجودگی میں  تولائے تواے میرے رب!مجھے ان ظالم لوگوں  میں  شامل نہ کرنا ،یعنی اے میرے رب،مجھ پررحم فرمامجھے ان گناہوں  سے بچالے جوتیری ناراضگی کے موجب ہیں  اورجن کے ذریعے سے تونے ان کفارکوآزمائش میں  مبتلاکیاہے ،اے میرے رب!مجھے اس عذاب سے بھی بچالے جوان پرنازل ہوگاکیونکہ عذاب عام جب نازل ہوتاہے تونیک وبدسب کواپنی لپیٹ میں  لے لیتاہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہاری آنکھوں  کے سامنے ہی عذاب نازل کردینے کی پوری قدرت رکھتے ہیں  جس کی دھمکی ہم انہیں  دے رہے ہیں ۔

ادْفَعْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ ‎﴿٩٧﴾‏ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن یَحْضُرُونِ ‎﴿٩٨﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ‎﴿٩٩﴾‏ لَعَلِّی أَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏(المومنون)
برائی کو اس طریقے سے دور کریں  جو سراسر بھلائی والا ہو، جو کچھ بیان کرتے ہیں  ہم بخوبی واقف ہیں ، اور دعا کریں  کہ اے میرے پروردگار ! میں  شیطانوں  کے وسوسوں  سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، اور اے میرے رب ! میں  تیری پناہ چاہتا ہوں   کہ وہ میرے پاس آجائیں  یہاں  تک کہ جب ان میں  سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار ! مجھے واپس لوٹا دےکہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں  جاکر نیک اعمال کرلوں ، ہرگز ایسا نہیں  ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک۔

برائی کے بدلے اچھائی :

اورایک مبلغ کی حیثیت سے آپ کوحکمت بتائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !برائی کوبرائی کے ساتھ نہیں  بلکہ بھلائی کے ساتھ دفع کرو،جیسے فرمایا

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَـنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴ [169]

ترجمہ: اوراے نبی!نیکی اوربدی یکساں  نہیں  ہیں  تم بدی کواس نیکی سے دفع کروجوبہترین ہو،تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے۔

اورجوبدلہ لینے کے بجائے معاف کردیتاہے اس کااجراللہ کے ذمہ ہے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللهِ۔۔۔۝۰۝۴۰ [170]

ترجمہ:پھرجوکوئی معاف کردے اوراصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔

اورجوبرے القابات وہ تمہیں  دیتے ہیں  وہ ہمیں  خوب معلوم ہیں ،اورجب ان مصائب میں  ابلیسی افکارآپ کاپیچھاکرنے لگیں  تواس دعاکے ذریعے سے ان سے چھٹکارا حاصل کریں ،اے میرے پروردگار!میں  شیاطین کی اکساہٹوں ،وسوسوں  سے تیری پناہ مانگتاہوں ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ  أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِیعِ العَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رات کوکھڑے ہوتے توشیطان سے اس طرح استعاذہ کرتے، اورمیں  پناہ مانگتاہوں  کہ شیطان میرے کسی کام میں  حائل ہواوروہ میرے پاس پہنچ جائے اور اے میرے رب!میں  تواس سے تیری پناہ مانگتاہوں  کہ وہ میرے پاس آئیں ۔[171]

اس لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدفرمائی کہ ہراہم کام کی ابتدابسم اللہ پڑھ کر کروکیوں  کہ اللہ کی یادشیطان کودورکرنے والی چیزہے ،

عَنْ أَبِی الْیَسَرِ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّی، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ یَتَخَبَّطَنِی الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِی سَبِیلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِیغًا

اس لئے ابوالیسر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعا بھی مانگتے تھے اے اللہ ! میں  تیری پناہ چاہتا ہوں  کہ کوئی مکان یادیوارمجھ پرآگرےاور پناہ مانگتا ہوں  میں  اس بات سے کہ کسی بلند مقام(فضاسے یاپہاڑسے یامکان کی چھت وغیرہ سے کہ بچنے کاامکان نہ ہو) سے گر پڑوں ،اورمیں  تیری پناہ چاہتاہوں  غرق ہونے سے اورآگ میں جلنے سےاور ازحدبوڑھا ہونے سے اورتیری پناہ چاہتاہوں  اس سے کہ شیطان مجھے موت کے وقت کے بدحواس کردے (یعنی گمراہ کردے یا توبہ وکلمہ کی طرف توجہ نہ کرنے دے یااللہ تعالیٰ سے بدگمان کردے وغیرہ)اور پناہ چاہتا ہوں  میں  تیری راہ میں  (جہاد سے) منہ موڑ کر بھاگنے سے یااس کیفیت سے کہ زہریلے جانورکے کاٹے سے مجھے موت آئے۔[172]

ان میں  سے اکثرحادثاتی موتیں  ہیں  جن میں  انسان اچانک مر جاتاہے،کلمہ اورتوبہ کاموقع نہیں  ملتالہذایہ موتیں  اچھی نہیں ،ویسے بھی ان سے انسان کی شکل بگڑجاتی ہے جو ظاہرہے اچھی بات نہیں  ،اس لیے ان سے پناہ مانگناحق ہے، میدان جنگ سے بھاگناجرم عظیم ہے اس حالت میں  موت گناہ والی موت ہے ،قرآن مجیدمیں  اس کی مذمت کی گئی ہےجیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۝۱۵ۚوَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۱۶  [173]

ترجمہ:اے ایمان والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں  کفار سے دو چار ہو تو ان کے مقابلہ میں  پیٹھ نہ پھیرو جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیرے الا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے تو وہ اللہ کے غضب میں  گھِر جائے گا، اس کا ٹھکانا جہنّم ہوگااور وہ بہت بری جائے باز گشت ہے ۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ:أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ

عمروبن شعیب اپنے والدسے وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ڈر یا گھبراہٹ کے موقع پرانہیں  یہ دعاسکھلایاکرتے تھے   میں  اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں  آتاہوں  اس کے غضب سے اوراس کے بندوں  کی شرارتوں سے اورشیطان کے وسوسوں  سے اوراس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں ۔[174]

یہ لوگ مرتے دم تک اپنی سازشوں سے بازنہ آئیں  گےاور جب ان میں  سے کسی کی موت کاوقت آجائے گی تووہ جان کنی کے عالم میں  کہے گا کہ اے میرے رب!مجھے اسی دنیامیں  واپس بھیج دیجئے جسے میں  چھوڑ آیاہوں ، امید ہے کہ اب میں  نیک عمل کروں  گا، جیسے فرمایا

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۰ [175]

ترجمہ:جورزق ہم نے تمہیں  دیاہے اس میں  سے خرچ کروقبل اس کے کہ تم میں  سے کسی کی موت کاوقت آجائے اوراس وقت وہ کہے گاکہ اے میرے رب ! کیوں  نہ تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں  صدقہ دیتااورصالح لوگوں  میں  شامل ہوجاتا ۔

اور میدان محشرمیں  حسرت وافسوس کے ساتھ یہ آرزوکریں  گے۔

۔۔۔قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۝۰ۚ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۔۔۔۝۰۝۵۳ [176]

ترجمہ: کہیں  گے کہ واقعی ہمارے رب! رسول حق لے کرآئے تھے ،پھر کیااب ہمیں  کچھ سفارشی ملیں  گے جوہمارے حق میں  سفارش کریں ؟ یاہمیں  دوبارہ واپس ہی بھیج دیاجائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پرکام کرکے دکھائیں ۔

رب کی بارگاہ میں  کھڑے ہوکر آرزوکریں  گے۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [177]

ترجمہ:کاش تم دیکھووہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں  گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں  گے ) اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیااورسن لیااب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ،ہمیں  اب یقین آ گیا ہے ۔

ایک مقام پرمجرمین کی حسرت کویوں  بیان فرمایا

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ۝۱۰۰ۙوَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ۝۱۰۱فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۲  [178]

ترجمہ:اب نہ ہماراکوئی سفارشی ہے اورنہ کوئی جگری دوست ،کاش ہمیں  ایک دفعہ پھرپلٹنے کاموقع مل جائے توہم مومن ہوں ۔

اورمجرمین دوزخ کے کنارے پر کھڑے ہوکرآرزوکریں  گے۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷  [179]

ترجمہ:کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں  گے اس وقت وہ کہیں  گے کاش ! کوئی صورت ایسی ہوکہ ہم دنیامیں  پھرواپس بھیجے جائیں  اوراپنے رب کی نشانیوں  کونہ جھٹلائیں  اورایمان لانے والوں  میں  شامل ہوں ۔

مجرمین جہنم میں  بھی یہ آرزوکریں  گے۔

وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِـــعِ الرُّسُلَ۝۰۝۴۴ۙ [180]

ترجمہ:اے نبی!اس دن سے تم انہیں  ڈرادوجبکہ عذاب انہیں  آلے گااس وقت یہ ظالم کہیں  گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں  تھوڑی سی مہلت اوردیدے،ہم تیری دعوت پرلبیک کہیں  گے اوررسولوں  کی پیروی کریں  گے ۔

 اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۵۷ۙاَوْ تَـقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۵۸ [181]

ترجمہ:یاکہے کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تومیں  بھی متقیوں  میں  سے ہوتایاعذاب دیکھ کرکہےکاش! کاش! مجھے ایک موقع اورمل جائے اور میں  نیک عمل کرنے والوں  میں  شامل ہوجاؤں ۔

۔۔۔وَتَرَى الظّٰلِـمِیْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ یَقُوْلُوْنَ ہَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِیْلٍ۝۴۴ۚ [182]

ترجمہ:تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں  گے تو کہیں  گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟۔

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ۝۱۱   [183]

ترجمہ:کہیں  گے اے ہمارے رب! تو نے واقعی ہمیں  دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی اب ہم اپنے قصوروں  کا اعتراف کرتے ہیں  کیا اب یہاں  سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ۔

وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۔۔۔۝۳۷ۧ [184]

ترجمہ:وہ وہاں  چیخ چیخ کر کہیں  گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں  یہاں  سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔

فرمایاایساکبھی نہیں  ہوسکتاکہ انہیں  دوبارہ دنیامیں  بھیج دیاجائے ،یہ توبس ایک بات ہے جووہ بک رہاہےاگرانہیں  دنیامیں  دوبارہ بھیج بھی دیاجائے تووہی عمل کریں  گے جو کرتے رہے ہیں ، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸ [185]

ترجمہ: اگرانہیں  دنیامیں  لوٹادیاجائے تویہ پھر وہی کام کریں  گے جن سے انہیں  منع کیا گیا تھا کچھ شک نہیں  کہ یہ جھوٹے ہیں ۔

اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے دوبارہ زندہ ہونے تک ایک حجاب حائل ہےجس میں  وہ مبتلائے عذاب ہوں  گے جو قیامت تک جاری رہے گا ، جیسے فرمایا

مِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ جَهَنَّمُ ۔۔۔ ۝۱۰ۭ  [186]

ترجمہ: ان کے آگے جہنم ہے۔

۔۔۔وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ۝۱۷ [187]

ترجمہ:اورآگے ایک سخت عذاب اس کی جان کولاگو رہے گا ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قُبِرَ الْمَیِّتُ، أَوْ قَالَ: أَحَدُكُمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، یُقَالُ لأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ، وَلِلآخَرِ: النَّكِیرُ، فَیَقُولاَنِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِی هَذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُولُ: مَا كَانَ یَقُولُ: هُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَیَقُولاَنِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا، ثُمَّ یُفْسَحُ لَهُ فِی قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِی سَبْعِینَ، ثُمَّ یُنَوَّرُ لَهُ فِیهِ، ثُمَّ یُقَالُ لَهُ، نَمْ، فَیَقُولُ: أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِی فَأُخْبِرُهُمْ، فَیَقُولاَنِ: نَمْ كَنَوْمَةِ العَرُوسِ الَّذِی لاَ یُوقِظُهُ إِلاَّ أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَیْهِ، حَتَّى یَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُولُونَ، فَقُلْتُ مِثْلَهُ، لاَ أَدْرِی، فَیَقُولاَنِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ، فَیُقَالُ لِلأَرْضِ: التَئِمِی عَلَیْهِ، فَتَلْتَئِمُ عَلَیْهِ، فَتَخْتَلِفُ فِیهَا أَضْلاَعُهُ، فَلاَ یَزَالُ فِیهَا مُعَذَّبًا حَتَّى یَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب کسی میت یا فرمایا تم میں  سے کسی ایک کو قبر میں  رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلی آنکھوں  والے دو فرشتے آتے ہیں  ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں  اس میت سے پوچھتے ہیں  تو اس شخص (یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں  کیا کہتا ہے، وہ شخص وہی جواب دیتا ہے جو دنیا میں  کہتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں  میں  گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، پھر وہ فرشتے کہیں  گے کہ ہم جانتے تھے تو یہی جواب دے گا، پھر اس کی قبر ستر گز وسیع کر دی جاتی ہے اورپھر اسے منور کر دیا جاتا ہے،پھر اسے کہا جاتا ہے کہ سوجا،وہ کہتا ہے میں  اپنے گھر والوں  کے پاس جا کر ان کو بتادوں (کہ قبرمیں  منکرنکیرکے سوالات حق ہیں  اوریہ کہ میں  امتحان میں  پاس ہوگیاہوں )وہ کہتے ہیں  دلہن کی طرح سوجا جسے اس کے محبوب ترین شخص کے علاوہ کوئی نہیں  جگاتا حتی کہ اللہ اسے قیامت کے دن اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا،اور اگر وہ منافق ہو تو یہ جواب دے گا میں  لوگوں  سے کچھ سنا کرتا تھا اور اسی طرح کہا کرتا تھا مجھے نہیں  معلوم،فرشتے کہیں  گے ہمیں  معلوم تھا کہ تو یہی جواب دے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھرزمین کوحکم ہوتاہے کہ اس کودبوچ لےچنانچہ وہ اس کودبوچ لیتی ہے جس سے اس کی ادھرکی پسلیاں  ادھرہوجاتی ہیں  اور وہ ہمیشہ عذاب میں  رہتاہے جب تک اللہ اس کواس پڑے رہنے کی جگہ سے اٹھائے۔ [188]

‏ فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿١٠١﴾‏ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِی جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ‎﴿١٠٣﴾‏ تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِیهَا كَالِحُونَ ‎﴿١٠٤﴾‏(المؤمنون)
پس جب صور پھونک دیا جائے گا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں  گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ ،جن کی ترازو  کا پلہ بھاری ہوگیا وہ تو نجات والے ہوگئے، اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا یہ ہیں   وہ جنہوں  نے اپنا نقصان آپ کرلیا، جوہمیشہ جہنم واصل ہوئے،ان کے چہروں  کو آگ جھلستی رہے گی اور وہ وہاں  بد شکل بنے ہوئے ہوں  گے ۔

پھرجب ایک وقت مقررہ پراللہ تعالیٰ کے حکم پراسرافیل علیہ السلام  صورمیں پھونک دیں  گے توکائنات کاتمام نظام تہہ وبالاہوجائے گا،اورپھرانسانوں  کے درمیان بھی کوئی رشتہ نہ رہے گا،محشرکی ہولناکیوں  اوردل دہلادینے والے مناظر کی وجہ سے کسی کو کسی کاہوش نہ ہوگانہ توباپ کواولاد پر شفقت ہوگی نہ اولادباپ کاغم کھائے گی ،جیسے فرمایا:

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭ [189]

ترجمہ:وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اورماں  اورباپ اوربیوی اوراولادسے بھاگے گااس روز ہرشخص اپنے حال میں  ایسامبتلاہوگاکہ اسے کسی کاہوش نہ رہے گا ۔

اورنہ ہی کوئی دوست اپنے جگری دوست کو پوچھے گا،جیسے فرمایا:

وَلَا یَسْـَٔــلُ حَمِیْمٌ حَمِـیْمًا ۝۱۰ [190]

ترجمہ:کوئی جگری دوست اپنے دوست کونہ پوچھے گا۔

ایک نفسانفسی کا عالم ہوگااورہرشخص کوصرف اپنی نجات کی فکر ہوگی،جیسے فرمایا:

 یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍؚ بِبَنِیْهِ۝۱۱ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْهِ۝۱۲ۙوَفَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـــــْٔـوِیْهِ۝۱۳ۙوَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِ۝۱۴ۙ [191]

ترجمہ:اس روزمجرم کاجی چاہے گاکہ اپنی اولاداوربیوی اور بھائی اوراپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیابھر کے سب لوگوں  کو فدیے میں  دے دے اوراپنے آپ کوعذاب سے بچا لے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِذَا كَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ جَمْعَ اللَّهُ الْأَوَّلِینَ وَالْآخَرِینَ ثُمَّ نَادَى مُنَادٍ أَلَا مَنْ كَانَ یَطْلُبُ مظلمة فلیجئ إِلَى حَقِّهِ فَلْیَأْخُذْهُ، فَیَفْرَحُ الْمَرْءُ أَنْ یَكُونُ لَهُ الْحَقُّ عَلَى وَالِدِهِ أَوْ وَلَدِهِ أَوْ زَوْجَتِهِ أَوْ أَخِیهِ، فَیَأْخُذُ مِنْهُ وَإِنْ كَانَ صَغِیرًا، وَمِصْدَاقُ ذَلِكَ فِی كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى: فَإِذا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلا أَنْسابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَلا یَتَساءَلُونَ  [192]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پہلے اورپچھلے تمام لوگوں  کوجمع کرے گا اورپھرایک منادی کرنے والایہ اعلان کرے گالوگو!جس پرظلم ہواہووہ آئے اوراپناحق وصول کرلے تواس وقت ہرشخص خوش ہوگاکہ اس کے والدیابیٹے یابیوی پرحق ہے خواہ وہ حق کتناچھوٹاہی کیوں  نہ ہو،اوراس کی تائیداللہ تعالیٰ کی کتاب سے اس طرح ہوتی ہے’’ پھرجونہی کہ صورپھونک دیاگیاان کے درمیان پھرکوئی رشتہ نہ رہے گااورنہ وہ ایک دوسرے کوپوچھیں  گے۔‘‘ [193]

میدان محشرمیں  ترازوعدل نصب کردیاجائے گاجس میں  لوگوں  کے اچھے برے اعمال تولے جائیں  گے ،جیسے فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [194]

ترجمہ:اور قیامت کے دن ہم انصاف کی ترازو میں  قائم کریں  گے پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی کا عمل ہوگا تو اس کو بھی ہم لا موجود کریں  گے اور ہم حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

اس وقت جن خوش نصیبوں  کا نیکیوں  کاپلڑابرائیوں  کے پلڑے سے بھاری ہو گا وہی جہنم سے نجات اورلازوال نعمتوں  سے بھرپورجنتوں  میں  داخل ہونے کی سعادت پائیں  گے اورجن کابرائیوں  کا پلڑا نیکیوں  کے پلڑے سے بھاری ہو گایہی وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے آپ کوگھاٹے میں  ڈالا جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ایسے لوگ عذاب جہنم میں مبتلا رہیں  گے ،جیسے فرمایا:

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [195]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہی فلاح پائیں  گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں  گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں  مبتلا کرنے والے ہوں  گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

 وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۸ۙ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ۝۹ۭوَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِیَہْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ۧ [196]

ترجمہ:اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں  گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی،اور تمہیں  کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟وہ ایک بڑی ہی ہولناک دہکتی (بھڑکتی) آگ ہوگی۔

آگ ان کے جسموں  کی کھالوں  سمیت ان کے چہروں  (جوانسان کااہم اوراشرف حصہ ہے)کی کھال چاٹ جائے گی،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَّتَغْشٰى وُجُوْہَہُمُ النَّارُ۝۵۰ۙ [197]

ترجمہ:اور آگ کے شعلے ان کے چہروں  پر چھائے جا رہے ہوں  گے۔

لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْہِہِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُہُوْرِہِمْ۔۔۔۝۳۹  [198]

ترجمہ:کاش ان کافروں  کو اس وقت کا کچھ علم ہوتا جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں  گے نہ اپنی پیٹھیں ۔

اوران کے جبڑے باہرنکل آئیں  گےاوروہ ایک ڈراؤنی شکل و صورت والےانسان بن کررہ جائیں  گے۔

أَلَمْ تَكُنْ آیَاتِی تُتْلَىٰ عَلَیْكُمْ فَكُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ‎﴿١٠٥﴾‏ قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّینَ ‎﴿١٠٦﴾‏ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ ‎﴿١٠٧﴾‏ قَالَ اخْسَئُوا فِیهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ‎﴿١٠٨﴾‏ إِنَّهُ كَانَ فَرِیقٌ مِّنْ عِبَادِی یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ ‎﴿١٠٩﴾‏ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِیًّا حَتَّىٰ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِی وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ ‎﴿١١٠﴾‏ إِنِّی جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ ‎﴿١١١﴾(المؤمنون)
کیا میری آیتیں  تمہارے سامنے تلاوت نہیں  کی جاتی تھیں  ؟ پھر بھی تم انھیں  جھٹلاتے تھے، کہیں  گے کہ اے پروردگار ! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی (واقعی) ہم تھے ہی گمراہ، اے پروردگار ! ہمیں  یہاں  سے نجات دے اگر اب بھی  ہم ایسا ہی کریں  تو بیشک ہم ظالم ہیں ،اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھٹکارے ہوئے یہیں  پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو میرے بندوں  کی ایک جماعت تھی جو برابر یہی کہتی رہی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لا چکے ہیں  تو ہمیں  بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں  سے زیادہ مہربان ہے، (لیکن) تم انھیں  مذاق ہی اڑاتے رہے یہاں  تک کہ (اس مشغلے نے) تم کو میری یاد (بھی) بھلا دی اور تم ان سے مذاق کرتے رہے، میں  نے آج انھیں  ان کے اس صبر کا بدلہ دے دیا ہے ک ہ وہ خاطر خواہ اپنی مراد کو پہنچ چکے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ مجرمین سے فرمائے گامیں  نے اتمام حجت کے لئے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے، جنہوں  نے وعظ ونصیحت کاحق اداکردیاتھا ،تمہاری ہدایت وہنمائی کے لئے ان پرکتابیں  نازل کی تھیں ،تمہیں  سوچنے سمجھنے کے لئے وقت دیاتھا مگرتم اپنی گمراہی میں  اس قدرغرق تھے کہ جب میری آیات تمہیں  سنائی جاتی تھیں  توان پرغوروفکراورتدبرکر نے کے بجائے ظلم وعنادکی وجہ سے انہیں  جھٹلاتے تھے؟مجرمین اپنے جرائم کااعتراف کرتے ہوئے کہیں  گے اے ہمارے رب!دنیاوی لذات اورشہوات ہم پرغالب آگئی،ہم واقعی گمراہ لوگ تھے ، پروردگار!اب ہمیں  عذاب جہنم سے نکال دے پھرہم ایساقصورکریں  توظالم ہوں  گے، جیسے فرمایا:

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ۝۱۱ذٰلِكُمْ بِاَنَّہٗٓ اِذَا دُعِیَ اللہُ وَحْدَہٗ كَفَرْتُمْ۝۰ۚ وَاِنْ یُّشْرَكْ بِہٖ تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ فَالْحُكْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ۝۱۲ [199]

ترجمہ:وہ کہیں  گے اے ہمارے رب!تونے واقعی دودفعہ موت اوردودفعہ زندگی دے دی اب ہم اپنے قصوروں  کااعتراف کرتے ہیں کیااب یہاں  سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ (جواب ملے گا) یہ حالت جس میں  تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں  کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھےاب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے ۔

وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰ [200]

ترجمہ: اوروہ کہیں  گےکاش !ہم سنتے یاسمجھتے توآج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں  میں  شامل نہ ہوتے ۔

اللہ تعالیٰ جواب دے گامیری رحمت سے دورہوکر اسی طرح ذلیل وخوار ہوکرجہنم میں پڑے رہو اوراپنی رہائی کے لئے معذرتیں پیش مت کرو،تم وہی غروروتکبرکے مارے ہوئے لوگ توہوکہ جب میرے کچھ بندے ہماری بارگاہ میں  رحمت ومغفرت کی التجاکرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار!ہم تجھ پر،تیرے تمام رسولوں  پر،تیری تمام نازل کردہ کتابوں  پر ،ان گنت فرشتوں  پر،اچھی بری تقدیرپر ،حیات بعدالموت پراورجنت وجہنم پرایمان لائے پس ہمارے گناہوں اورتقصیروں  کو معاف کردے،وغفورورحیم ہے ،ہم پر رحم فرماتوسب سے بہتر رحیم کرنے والا ہے توتم انہیں  استہزاوملامت کانشانہ بنالیتے تھے ، جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَكُوْنَ۝۲۹ۡۖوَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ یَتَغَامَزُوْنَ۝۳۰ۡۖوَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِیْنَ۝۳۱ۡۖوَاِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْٓا اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ۝۳۲ۙ [201]

ترجمہ:مجرم لوگ دنیامیں  ایمان لانے والوں  کامذاق اڑاتے تھے ، جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں  مارمارکران کی طرف اشارے کرتے تھے ،اپنے گھروالوں  کی طرف پلٹتے تومزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے اورجب انہیں  دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں ۔

یہاں  تک کہ ان کی ضدوبغض نے تمہیں  میری یادہی بھلادی اورتم ان سے مذاق کرتے رہے ، آج ان کے حق کی خاطر اذیتوں  پر صبر،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت اوراعمال صالحہ کا میں  نے یہ پھل دیاہے کہ وہی کامیاب ہیں  اورجنت کی انواع وقسام کی لازوال نعمتوں  سے فیض یاب ہورہے ہیں اورتمہاری حالت زار پرہنس رہے ہیں  ، جیسے فرمایا:

فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ یَضْحَكُوْنَ۝۳۴ۙ [202]

ترجمہ:آج ایمان لانے والے کفارپرہنس رہے ہیں  ۔

قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِینَ ‎﴿١١٢﴾‏ قَالُوا لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّینَ ‎﴿١١٣﴾‏ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا ۖ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿١١٤﴾‏ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ ‎﴿١١٥﴾(المؤمنون)
اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ زمین میں  باعتبار برسوں  کی گنتی کے کس قدر رہے ؟ وہ کہیں  گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں  سے بھی پوچھ لیجئے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں  بہت ہی کم رہے ہو اے کاش ! تم اسے پہلے ہی جان لیتے ؟ کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں  یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔

مختصرزندگی طویل گناہ :

پھراللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گابتاؤزمین میں  تم کتنے سال زندہ رہے اورہماری ان گنت نعمتوں  سے فیض یاب ہوتے رہے؟قیامت کی ہولناکیاں  ان کے ذہنوں  سے دنیاکی عیش وعشرت کومحوکرچکے ہوں  گے اور دنیاکی زندگی انہیں  ایسے لگے گی جیسے دن یاآدھادن،اس لئے جواب دیں  گے ہم توایک دن یااس سے بھی کم وقت دنیامیں  رہے ہیں بیشک آپ حساب جاننے والوں  سے پوچھ لیں ، باری تعالیٰ ارشادفرمائے گاآخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں  یقیناًدنیاکی زندگی بہت ہی قلیل ہے لیکن اس نکتے کودنیامیں  تم نے نہیں  جانا،تم حیات بعدالموت کومحض من گھڑت افسانہ سمجھتے رہے ،تم سمجھتے تھے کہ بس اسی دنیامیں  جیناہے اوراسی میں  مرناہے کوئی قیامت نہیں  کوئی جزاوسزانہیں ، کاش! تم دنیامیں  اس حقیقت سے دنیاکی بے ثباتی سے آگاہ ہو جاتے توآج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب وکامران ہوتے ،

ثنا صَفْوَانُ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَمَّا أَدْخَلَ أَهْلَ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلَ النَّارِ النَّارَ، وَقَالَ:یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِینَ ؟، {قَالُوا: لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ}  [203]، قَالَ:لَنِعْمَ مَا اتَّجَرْتُمْ فِی یَوْمٍ أَوْ بَعْضِ یَوْمٍ، رَحْمَتِی وَرِضْوَانِی وَجَنَّتِی، امْكُثُوا فِیهَا خَالِدِینَ ، ثُمَّ یَقُولُ:یَا أَهْلَ النَّارِ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِینَ؟ قَالُوا: لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ، فَیَقُولُ:بِئْسَ مَا اتَّجَرْتُمْ فِی یَوْمٍ أَوْ بَعْضِ یَوْمٍ، نَارِی وَسُخْطِی، امْكُثُوا فِیهَا خَالِدِینَ مُخَلَّدِینَ

صفوان رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ جب اہل جنت کوجنت میں  اوراہل دوزخ کودوزخ میں  داخل کردے گا تووہ فرمائے گااے اہل جنت!تم زمین میں  کتنے برس رہے؟وہ جواب دیں  گے ہم وہاں  ایک روزیاایک روزسے بھی کم رہے،اللہ تعالیٰ فرمائے گاوہ بہت اچھی تجارت ہے جوتم نے ایک روزیاایک روزسے بھی کم عرصے میں  کی تھی اوراس طرح تم نے میری رحمت ،میری خوشنودی اورمیری جنت کوحاصل کرلیالہذااب تم ہمیشہ کے لیے جنت میں  رہوگے،پھراللہ تعالیٰ فرمائے گااے دوزخیو!تم زمین میں  کتنے برس رہے تھے؟’’وہ بھی یہی جواب دیں  گے کہ ہم ایک روزیاایک روزسے بھی کم عرصے رہے تھے۔‘‘اللہ تعالیٰ فرمائے گاوہ بہت بری تجارت ہے جوتم نے ایک روزیاایک روزسے بھی کم مدت میں  کی تھی اوراس طرح تم نے میری دوزخ اور میری ناراضی کوحاصل کرلیالہذااب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ ہی میں  رہوگے۔[204]

خط کشیدہ الفاظ اسدالغابہ میں  ہیں ۔

کیاتم نے یہ سمجھ رکھاتھاکہ ہم نے تمہیں  یونہی بطورتفریح بناکردنیامیں  پھیلادیاتھا کہ تم جانوروں  کی طرح کھاؤپیواورآنکھیں  بندکرکے سوجاؤ،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ۝۱۶ [205]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں  ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں  بنایا ہے۔

اللہ کی زمین میں  اکڑکرچلو،دنیاکی لذتوں  سے متمتع ہوتے رہو،تمہاری تخلیق کی کوئی غرض وغایت نہیں  ہے اورتمہیں  اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے ہماری بارگاہ میں  حاضرنہیں  ہونا،جیسے فرمایا

 اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭ [206]

ترجمہ:کیاانسان نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑدیاجائے گا۔

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیمِ ‎﴿١١٦﴾‏ وَمَن یَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الْكَافِرُونَ ‎﴿١١٧﴾‏ وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ ‎﴿١١٨﴾‏(المؤمنون)
اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے، جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر  ہی ہے، بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ، اور کہو کہ اے میرے رب ! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں  سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ اس فعل عبث سے بہت بالاوبرترہے کہ وہ انسان جیسی باشعور مخلوق کوبغیرکسی مقصدکے یوں  ہی ایک کھیل کے طورپربے کارپیداکردےاوروہ جوچاہے کرتا پھرے اوراس کی کوئی بازپرس ہی نہ ہو ،اللہ بالاوبرترہے اس سے کہ اس کی مخلوق اس کی خدائی میں  اس کے ساتھ شریک ہو ،وہ عرش عظیم کامالک ہے جہاں  سے رحمتوں  اوربرکتوں  کا نزول ہوتاہے ،اورجوکوئی اللہ کے ساتھ کسی اورخودساختہ معبود کوپکارے جس کے لئے اس کے پاس اپنے اس فعل کے حق میں  کوئی دلیل نہیں ،وہ اللہ کے محاسبے اوربازپرس سے بچ نہیں  سکے گا،حق کی تکذیب اوردنیاوی مال واسباب کی کثرت پرتکبراوردنیاکی رنگینیوں  میں  گم ہوجانے والے کافرنجات جہنم سے محروم رہیں  گے ،پہلے اہل ایمان کی یہ دعا گزر چکی ہےاے ہمارے پروردگار!ہم ایمان لائے ،ہمیں  معاف کردے،ہم پر رحم کرتوسب رحیموں  سے اچھارحیم ہے، جن کاکفارمذاق اڑاتے تھے اور بالآخرداخل جہنم ہوئے ،اب وہی دعاپھرفرمائی کہ اے نبی!دین کواپنے رب کے لئے خالص کرکے رحمت ومغفرت کی دعاکروکہ میرے رب درگزرفرمااوررحم کرتوسب رحیموں  سے اچھارحیم ہے،اگریہ لوگ بھی تمہارامذاق اڑاتے ہیں  توان کاانجام بھی ان لوگوں  سے مختلف نہیں  ہوگا۔

[1] ۔تفسیرطبری۹؍۱۹

[2] سنن نسائی كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِبَابُ حُبِّ النِّسَاءِ ۳۹۳۹،مسنداحمد۱۲۲۹۴،السنن الکبری للنسائی ۸۸۳۶،مسندابی یعلی ۳۴۸۲

[3] الفرقان۷۲

[4] الاعلی۱۴،۱۵

[5] الشمس۹،۱۰

[6] جامع ترمذی کتاب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِی حُرْمَةِ الصَّلاَةِ۲۶۱۶،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَةِ۳۹۷۳، مسنداحمد۲۲۰۱۶،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۳۰،شرح السنة للبغوی ۱۱

[7] العنکبوت۳۴

[8] النسائ۵۸

[9]  مسنداحمد۱۲۳۸۳، مسندالبزار۷۱۹۶، صحیح ابن حبان ۱۹۴،شعب الایمان۴۰۴۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۶۹۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۰۴۰۱،مسندابی یعلی ۲۸۶۳، شرح السنة للبغوی ۳۸

[10] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ۳۳، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ ۲۱۱،جامع ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِی عَلاَمَةِ الْمُنَافِقِ ۲۶۳۱، مسنداحمد۸۶۸۵،مسندالبزار۸۳۱۵،شعب الایمان ۴۴۶۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۶۸۹،شرح السنة للبغوی ۳۵

[11] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ۳۴ ، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ ۲۱۰،صحیح ابن حبان ۲۵۴،شعب الایمان ۴۰۴۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۸۸۴۵،شرح السنة للبغوی ۳۷

[12]صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة بَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ لِوَقْتِهَا۵۲۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ الْإِیمَانِ بِاللهِ تَعَالَى أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ ۲۵۲،مسنداحمد۳۸۹۰،شعب الایمان ۲۵۴۴،السنن الکبری للبیہقی ۳۱۶۵

[13] سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْمُحَافَظَةِ عَلَى الْوُضُوءِ۲۷۷، مسنداحمد۲۲۴۳۶، مسندالبزار۲۳۶۷، مستدرک حاکم ۴۴۹،صحیح ابن حبان ۱۰۳۷،شعب الایمان ۲۵۴۵،شرح السنة للبغوی۱۵۵

[14] البقرة۱۷۷

[15] التوبة۱۱۲

[16] الفرقان۶۳تا۶۸

[17] الفتح۲۹

[18] المعارج۲۳تا۳۵

[19] الکہف۱۰۷

[20] [المؤمنون: 10]

[21] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ۴۳۴۱

[22]صحیح بخاری کتاب الجھادبَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ یُقَالُ هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی۲۷۹۰، مسنداحمد۸۴۱۹،صحیح ابن حبان۴۶۱۱،السنن الکبری للبیہقی۱۸۴۹۴،شرح السنة للبغوی۲۶۱۰

[23] الصافات۱۱

[24] الحجر۲۶

[25] الروم۲۰

[26] مسنداحمد۱۹۶۴۲،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۶۹۳، جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ  بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹۵۵

[27] السجدة۷،۸

[28] المرسلات۲۰،۲۱

[29] الطارق۷

[30] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۸ ،کتاب احادیث الانبیاء بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۳۲، کتاب القدر بَابٌ فِی القَدَرِ۶۵۹۴، کتاب توحیدالجھمیة بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِینَ ۷۴۵۴،صحیح مسلم کتاب القدربَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ۶۷۲۳،جامع ترمذی ابواب القدر بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الأَعْمَالَ بِالخَوَاتِیمِ۲۱۳۷،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۷۶،سنن ابوداود کتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۷۰۸

[31] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ ۶۷۲۵ ، مسنداحمد۱۶۱۴۲

[32] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ ۳۳۳۳،صحیح مسلم کتاب القدربَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ ۶۷۳۰،مسنداحمد۱۲۴۹۹،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۴۲۲،شرح السنة للبغوی ۷۰

[33] القیامة۳۶تا۴۰

[34] العنکبوت۲۰

[35] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الزمربَابُ قَوْلِهِ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ، إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ نُفِخَ فِیهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ ۴۸۱۴ ، صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ۷۴۱۴

[36] الملک۳

[37] نوح۱۵

[38] بنی اسرائیل۴۴

[39] الطلاق۱۲

[40] فتح القدیر۵۶۵؍۳

[41] ھود۶

[42] الملک۱۴

[43] یٰسین۸۱

[44] تفسیرابن کثیر۵۵۰؍۳

[45] الواقعة۶۸تا۷۰

[46] الملک۳۰

[47] النحل۱۱

[48] یٰسین۳۳تا۳۵

[49] جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَطْعِمَةِ   بَابُ مَا جَاءَ فِی أَكْلِ الزَّیْتِ۱۸۵۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابُ الزَّیْتِ۳۳۱۹، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار۲۷۵،شرح مشكل الآثار۴۴۴۸، مستدرک حاکم۷۱۴۲

[50]النحل ۶۶

[51] النحل۷

[52] یٰسین۷۳

[53] المومن۷۹،۸۰

[54] یٰسین۴۱،۴۲

[55] المومن۵۷

[56] الاعراف۵۹

[57] ھود۲۵،۲۶

[58] القارعة۶تا۹

[59] الاعراف۸،۹

[60] ھود۲۷

[61] ابراہیم۱۰

[62] یٰسین۱۵

[63] الشعرائ۱۵۴

[64] الشعرائ۱۸۶

[65] الانبیائ۳

[66] بنی اسرائیل۹۴

[67] العنکبوت۱۴

[68] القمر۱۰

[69] نوح۲۶،۲۷

[70] الصافات۷۵

[71] ھود ۴۸

[72] القمر۱۵

[73] الاعراف۶۹

[74] القمر۲۴،۲۵

[75] الصافات۱۶

[76] الواقعة۴۷

[77] الرعد۵

[78] ق۲، ۳

[79] ق۴

[80] الجاثیة۲۴

[81] الاعراف۷۰

[82] ھود۵۳

[83] الاحقاف۲۲

[84] القمر۳۱

[85] الاحقاف۲۵

[86] الدخان۲۹

[87] یٰسین۳۰

[88] بنی اسرائیل ۱۷

[89] سبا۱۹

[90] البقرة۱۱۸

[91] القصص۴۳

[92] تفسیر    ابن کثیر۴۷۶؍۵

[93] البقرة۱۷۲

[94] صحیح بخاری البیوع بَابُ كَسْبِ الرَّجُلِ وَعَمَلِهِ بِیَدِهِ۲۰۷۲،شعب الایمان ۱۱۷۰،شرح السنة للبغوی ۲۰۲۶

[95] صحیح بخاری کتاب الاجارة بَابُ رَعْیِ الغَنَمِ عَلَى قَرَارِیطَ۲۲۶۲،شرح السنة للبغوی ۲۱۸۵

[96] [المؤمنون: 51

[97] [البقرة: 172

[98] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ قَبُولِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِهَا ۲۳۴۶، جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ ۲۹۸۹، مسنداحمد۸۳۴۸،شعب الایمان ۵۳۵۳،مصنف عبدالرزاق ۸۸۳۹

[99] فتح الباری۳۰۴؍۴

[100] الطارق۱۷

[101] الحجر۳

[102] آل عمران۱۷۸

[103] التوبة۵۵

[104] الانعام۴۴

[105] المدثر ۱۱تا ۱۷

[106] سبا۳۷

[107] [المؤمنون: 60

[108] مسنداحمد۲۵۲۶۳

[109] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ التَّوَقِّی عَلَى الْعَمَلِ ۴۱۹۸،جامع ترمذی  أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْمُؤْمِنُونَ۳۱۷۵

[110] البقرہ۲۸۶

[111] الکہف۴۹

[112] بنی اسرائیل۴۵،۴۶

[113] ص ۳

[114] المزمل۱۱تا۱۳

[115] المومن۱۲

[116] الطور۳۳

[117] حم السجدہ۲۶

[118] النجم۵۹تا۶۱

[119] تفسیرابن کثیر ۴۸۳؍۵، الدر المنثور۱۱۰؍۶

[120] مسنداحمد ۱۷۴۰، صحیح ابن خزیمہ۲۲۶۰،ابن ہشام۳۳۶؍۱

[121] صحیح بخاری کتاب بَدْءِ الوَحْیِ كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۷ الحق ماشھدت بہ الاعدائ

[122] التوبة۶۷

[123] الحشر۱۹

[124] الشعرائ۱۰۹

[125] الشعرائ۱۲۷

[126] ھود۵۱

[127] الشعرائ۱۴۲تا۱۴۵

[128] الشعرائ۱۶۰تا۱۶۴

[129] یٰسین ۲۰ ، ۲۱

[130] الانعام۹۰

[131] یونس۷۲

[132] یوسف۱۰۴

[133] سبا۴۷

[134] ص۸۶

[135] الشوری۲۳

[136] مسنداحمد۲۴۰۲

[137] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ عَلَى المُشْرِكِینَ۶۳۹۲،وکتاب التفسیرسورة الروم باب الم غلبت الروم ۴۷۷۴، وكِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَكَ ۴۶۹۳، وکتاب الِاسْتِسْقَاءِبَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اجْعَلْهَا عَلَیْهِمْ سِنِینَ كَسِنِی یُوسُفَ۱۰۰۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِی جَمِیعِ الصَّلَاةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِینَ نَازِلَةٌ۱۵۴۰،وکتاب صفات المنافقین بَابُ الدُّخَانِ۷۰۶۶،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الدُّخَانِ ۳۲۵۴،مسنداحمد۴۲۰۶،۴۱۰۴

[138] [المؤمنون: 76

[139] تفسیر طبری ۶۰؍۱۹، السنن الکبری للنسائی۱۱۲۸۹

[140] الانعام۴۲،۴۳

[141] الاعراف ۹۴

[142] الاعراف۱۰

[143] السجدة۸،۹

[144] الواقعة۶۸تا۷۰

[145] الملک۲۴

[146] النحل۳۸

[147] الاعراف۱۵۸

[148] التوبة۱۱۶

[149] یونس۵۶

[150] المومن۶۸

[151] یٰسین۴۰

[152] القصص۷۱،۷۲

[153] الواقعة۴۷،۴۸

[154] النمل۶۷

[155] الصافات۱۶،۱۷

[156] یٰسین۷۸

[157] یٰسین۷۹

[158] الرعد۱۴

[159] بنی اسرائیل ۵۷

[160] الانعام۱۰۱

[161] الجن۳

[162] الانبیاء ۲۲

[163] بنی اسرائیل۴۲

[164] القصص۶۸

[165] الصافات۱۸۰

[166] الزخرف۸۲

[167] الطور۴۳

[168] الانعام۵۹

[169] حم السجدة۳۴

[170] الشوریٰ۴۰

[171] سنن ابوداود کتاب الصلوٰة بَابُ مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ۷۷۵ ، جامع ترمذی  بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ۲۴۲،مسنداحمد۱۱۴۷۳،صحیح ابن خزیمة۴۶۷،سنن الدارقطنی ۱۱۴۲

[172] سنن ابوداود کتاب الوتربَابٌ فِی الِاسْتِعَاذَةِ ۱۵۵۲،سنن نسائی کتاب الاستعاذہ الِاسْتِعَاذَةُ مِنَ التَّرَدِّی، وَالْهَدْمِ۵۵۳۳،مسنداحمد۱۵۵۲۳

[173] الانفال۱۵،۱۶

[174] سنن ابوداودکتاب الطب بَابُ كَیْفَ الرُّقَى۳۸۹۳،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ۳۵۲۸، مسند احمد۶۶۹۶، مستدرک حاکم ۲۰۱۰،مصنف ابن ابی شیبة ۲۳۵۴۷

[175] المنافقون۱۰

[176] الاعراف ۵۳

[177] السجدة۱۲

[178] الشعراء ۱۰۰تا۱۰۲

[179]الانعام ۲۷

[180] ابراہیم ۴۴

[181] الزمر۵۷،۵۸

[182] الشوری۴۴

[183] المومن۱۱

[184] فاطر۳۷

[185] الانعام۲۸

[186] الجاثیة۱۰

[187] ابراہیم۱۷

[188]جامع ترمذی کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱ ،مسند البزار ۸۴۶۲، صحیح ابن حبان۳۱۱۷

[189] عبس ۳۴ تا۳۷

[190] المعارج۱۰

[191] المعارج۱۱تا۱۴

[192] [المؤمنون: 101

[193] تفسیر البغوی ۶۲۴؍۱، تفسیر طبری ۳۶۳؍۸

[194] الانبیائ۴۷

[195] الاعراف۸،۹

[196] القارعة۸تا۱۱

[197] ابراہیم۵۰

[198] الانبیائ۳۹

[199] المومن۱۱،۱۲

[200] الملک۱۰

[201] المطففین۲۹تا۳۲

[202] المطففین۳۴

[203] [الكهف: 19

[204] تفسیرابن ابی حاتم۲۵۱۱؍۸، أسد الغابة۱۸۷؍۱

[205] الانبیائ۱۶

[206] القیامة۳۶

Related Articles