بعثت نبوی کا چھٹا سال

 مضامین سورة الشوریٰ

اس سورة میں  کفارکومخاطب کرکے ان کودعوت فکردی گئی اوران کی جانب سے پیداکیے جانے والے اعتراضات واشکالات کودورکیاگیا۔

xاہل مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی بابت مختلف قسم کی باتیں  کیاکرتے تھے،اس سلسلہ میں  فرمایاکہ انسانیت کی تخلیق کی طرح ان کی ہدایت ورہنمائی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے قبل بھی اللہ تعالیٰ نے بت شمارانبیاء ورسل انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے مبعوث فرمائے  تھے،اسی لیے تمام انبیاء کی تعلیمات میں  یکسانیت پائی جاتی ہے اوریہی اس کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ انسانی دماغ وفکرکی کاوش کے نتیجہ میں  جوچیزتیارہوگی اس کی جہتیں  مختلف اورمتفرق ہوں  گی،اس حقیقت کے واضح ہوجانے کے باوجودتمہاری ہٹ دھرمی،دین سے دوری اورشرک ایسے عظیم گناہ کے سبب تم پرآسمان پھٹ پڑیں  توکچھ بعیدنہیں ،تمہاری اس بے راہروی اورگمراہی پرتوفرشتے بھی حیران ہیں  اورہروقت ڈررہے ہیں  کہ نہ معلوم کب تم پراللہ کاغضب ٹوٹ پڑے۔

xاہل مکہ کاایک اعتراض یہ تھاکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جودین پیش کررہے ہیں  اگریہ دین برحق ہے تواللہ تعالیٰ ساری انسانیت کواس پرہی کیوں  نہیں  جمع کردیتا؟اس سلسلہ میں  فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کوجبری ہدایت مطلوب نہیں  ہے،انسان کی عظمت وشرافت کی بنیادہی یہ ہے کہ اسے عقل وشعوراورحق وباطل کے امتیازکی صلاحیت دے کر پیدا کیا گیا ہے ، اس کوایک حدتک ذی اختیاربنایاگیاہے کہ سوچ وبچارکرکے چاہے توہدایت کواختیارکرے اوراگرچاہے توگمراہی کی راہ پرگامزن ہوجائے،اورآخرت کی زندگی اس لیے ہی بنائی گئی ہے کہ انسان کواس کی سوچ وفکراوراس کے اختیاری اعمال پرجزاوسزاکامستحق ٹھہرایاجاسکےجبکہ دیگرمخلوقات کویہ امتیازحاصل نہیں ،یہ عقل وشعورکاامتیازہی انسان کی ولایت وخلافت کی بنیادبنایاگیاہے،جوشخص اپنے اختیارسے حق ولایت اداکرے گاوہی ولی وخلیفہ ہوگااورانعامات کاحقداربھی۔

xمنصب نبوت پرکوئی شخص اپنے کسب اورریاضت سے فائزنہیں  ہوسکتابلکہ یہ اللہ کاانعام ہے کہ جس کوچاہے اس منصب پرفائزفرمادے،اورنبی کی ذمہ داری یہ ہے کہ گمراہ اور بہکے ہوئے لوگوں  کوغفلت سے بیدارکرکے راہ راست کی دعوت دےاورقبل ازوقت اللہ کے منکروں  کوآخرت کے محاسبہ اورجہنم کے دردناک عذاب کی خبرپہنچادےتاکہ لوگ آخرت کے دردناک عذاب اوراللہ کے غضب سے بچنے کی راہ پرچل سکیں ،اوریہ بھی نبی کی ذمہ داری میں  شامل ہے کہ وہ لوگوں  کواس عظیم الشان کائنات کے خالق کاصحیح تعارف کرائے اورحق وباطل کے امتیازکے لیے معیاراورکسوٹی دے،اسی لیے ہرنبی اللہ کی حاکمیت اورالوہیت کاذکرکرکے انسانوں  کواپنے رب کے آگے جھکنے کاحکم دیتاہے۔

xدین داری اس کانام نہیں  ہے کہ انسان اس کی حقانیت کااقرارکرکے بیٹھ رہے بلکہ اس کے ذمہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کوسمجھ کراللہ کی زمین پربسنے والے سارے انسانوں  کو اس سے متعارف کرائے اوراس دین کواللہ کی زمین پرنافذاوررائج کرنے کی جدوجہدکرے تاکہ خودنمائی اورخودپسندی کی بدولت پیداشدہ فرقوں  اورمصنوعی مذہبوں  کاخاتمہ ہو جائے اوریہ کہ اس زمین پربسنے والے انسان اپنی بے راہروی اورگمراہی پراڑے رہیں  اورنبی کی پرزور مخالفت کرتے رہیں  تونبی کوذرہ برابرنقصان نہ پہنچاسکیں  گےالبتہ بدترین جرم (شرک اوراللہ کے نبیوں  کی مخالفت)کے باعث اللہ کے غضب کے مستحق ضرورہوجائیں  گے۔

xنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے ساتھیوں  کی بے داغ سیرت وکردارکاتذکرہ ہوااورفرمایاکہ تمہارے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  چالیس برس تک تم میں  رہے اوراس دوران کتاب کے تصورسے بالکل خالی الذہن اورایمان کے مسائل ومباحث سے قطعی ناآشناتھے اوراس بات کے تم خودبھی شاہدہواوریہ سب اس بات کاکھلاثبوت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ نبوت کسبی نہیں  اورنہ ہی آپ کی خواہش پریہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوعطاکی گئی ہے،اوریہ ضروری نہیں  کہ اللہ تعالیٰ ہرنبی کے ساتھ براہ راست کلام کرے۔

xاس سورة میں  تفرقہ سے بچنے،وحدت امت اورمحبت ومروت کی ضرورت کے ساتھ ایمان،اعمال صالحہ،اقامت صلوٰة،انفاق فی سبیل اللہ،عفوودرگزراوراصلاح عامہ کی تلقین ہے،بے حیائی گناہ اورہرقسم کی برائی سے بچنے کاحکم ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ عسق ‎﴿٢﴾‏ كَذَٰلِكَ یُوحِی إِلَیْكَ وَإِلَى الَّذِینَ مِن قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٣﴾‏ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ ‎﴿٤﴾‏ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ۚ وَالْمَلَائِكَةُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِی الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ‎﴿٥﴾(الشوریٰ)
حم ،عسق ، اللہ تعالیٰ جو زبردست ہے اور حکمت والا ہےاسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں  کی طرف وحی بھیجتا رہا، آسمانوں  کی (تمام) چیزیں  اور جو کچھ زمین میں  ہے سب اسی کا ہے، وہ برتر اور عظیم الشان ہے،قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں  اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں  اور زمین والوں  کے لیے استغفار کر رہے ہیں ، خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی معاف فرمانے والا ہے۔

ح،م،ع،س،ق،اللہ رب العزت کی طرف سے نزول قرآن کاسلسلہ جاری تھا ،واضح دلائل کے ساتھ اللہ کی توحیداورمعبودان باطلہ کی بے بسی ولاچاری بیان ہورہی تھی،لوگوں  کوبراہین کے ساتھ باطل معبودوں  کی بندگی سے روک کرمالک حقیقی کی بندگی کی طرف راغب کیاجارہاتھا،اخلاقی تعلیم کے ساتھ نئے نئے مضامین پیش ہورہے تھے ،اہل مکہ کوان کے ہراعتراض کاجواب دے کرلاجواب کیاجارہاتھاجس کی وجہ سے اہل مکہ میں دعوت اسلام اورقرآن کریم کے بارے میں  شدیداضطراب پایا جاتا تھا ، اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  !جس طرح اللہ جوانتقام لینے میں  غالب اوراپنے اقوال وافعال میں  حکمت والاہے نے انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تمہاری طرف قرآن کریم نازل کیاہے اسی طرح گزشتہ زمانوں  میں  بھی انبیاء ومرسلین کی طرف بھی فرشتے کے ذریعے صحیفے اورکتابیں  نازل کرتارہاہے،جیسے فرمایا

وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭاِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙصُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ [1]

ترجمہ:حالانکہ آخرت بہترہے اورباقی رہنے والی ہےیہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں  میں  کہی گئی تھی ،ابراہیم علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام  کے صحیفوں  میں  ۔

یعنی رسولوں  اورکتابوں  کایہ سلسلہ کوئی انوکھی بات نہیں  ہے اورنہ ہی یہ دعوت نئی ہے اورنہ اس کلام میں  کوئی نرالی دعوت دی گئی ہے اس لیے اہل مکہ کا قرآنی تعلیمات پراعتراض اوردعوت پراضطراب بے معنی ہے ،آسمانوں  اورزمین میں  جوکچھ بھی ہے سب کاخالق اللہ وحدہ لاشریک ہے،یہ تمام اشیاء اس کی عاجزولاچار مخلوق اوراس کی ملکیت ہیں ،اورکوئی بھی مخلوق چاہے وہ کتنی بڑی اورعظیم ہو خالق ومالک کے ساتھ ملک میں  شریک نہیں  ہوسکتی ، وہ تواپنی ذات ،اپنی قدرت اوراپنے قہروغلبہ کے ساتھ بلند اورعظمت والاہے ،جیسے فرمایا

عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ۝۹ [2]

ترجمہ:وہ پوشیدہ اور ظاہرہر چیز کا عالِم ہے، وہ بزرگ ہے اور ہرحال میں  بالاتر رہنے والا ہے۔

۔۔۔وَہُوَالْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ۝۲۳ [3]

ترجمہ:اور وہ بزرگ و برتر ہے ۔

کائنات کی کوئی مخلوق اس کی ہمسرنہیں  ہوسکتی،اس کی ذات ، صفات،اختیارات اور حقوق میں  کوئی حصہ دارنہیں  ہوسکتا ، اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کسی مخلوق کانسب ملادینا،اس کے صالح بندوں  کواس کا بیٹا اور فرشتوں  کواس کی بیٹی قرار دے دینا،خودساختہ معبودوں  کو خدائی کے اختیارات سونپ دیناوغیرہ اتنابڑاگناہ ہے کہ اس کے جرم سے باوجوداپنی عظمت اور مضبوطی کے آسمان پھٹ پڑیں  توکچھ بعید نہیں  ہے ، جیسے فرمایا:

 وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚوَمَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝۹۲ۭاِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭ [4]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں  کہ رحمان نے کسی کوبیٹابنایاہے سخت بیہودہ بات ہے جوتم لوگ گھڑلائے ہو ،قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پرکہ لوگوں  نے رحمان کے لئے اولادہونے کادعویٰ کیا،رحمان کی یہ شان نہیں  ہے کہ وہ کسی کوبیٹابنائے،زمین اورآسمان کے اندرجوبھی ہیں  سب اس کے حضوربندوں  کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔

جن مکرم فرشتوں  کویہ اللہ کی بیٹیاں قراردیتے ہیں  اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں ،اس کے غلبہ کے سامنے عاجزاوراس کی ربوبیت کے سامنے مطیع اور فروتن ہیں  اور اپنے رب کی عظمت وجلالت سے کپکپاتے ہوئے اس کی حمدکے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں  اوراہل زمین کی جسارتوں  پرجورب کی عظمت اورکبریائی کے لائق نہیں اللہ غفورورحیم کی بارگاہ میں  درگزرکی درخواستیں  کرتے رہتے ہیں  ، جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِیْمِ۝۷رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۸ۙوَقِهِمُ السَّیِّاٰتِ۝۰ۭ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ۝۰ۭ وَذٰلِكَ هُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۹ۧ [5]

ترجمہ:عرش الٰہی کے حامل فرشتے اوروہ جوعرش کے گردوپیش حاضررہتے ہیں  سب اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کررہے ہیں ،وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں  اورایمان لانے والوں  کے حق میں  دعائے مغفرت کرتے ہیں  وہ کہتے ہیں  اے ہمارے رب! تواپنی رحمت اوراپنے علم کے ساتھ ہرچیزپرچھایاہواہے ،پس معاف کردے اورعذاب دوزخ سے بچالے ان لوگوں  کو جنہوں  نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیاہے ،اے ہمارے رب! اور داخل کران کوہمیشہ رہنے والی ان جنتوں  میں  جن کاتونے ان سے وعدہ کیاہے اوران کے والدین اوربیویوں  اور اولاد میں  سے جو صالح ہوں  (ان کوبھی وہاں  ان کے ساتھ پہنچا دے)توبلاشبہ قادرمطلق اورحکیم ہے،اوربچادے ان کوبرائیوں  سے ،جس کوتونے قیامت کے دن برائیوں  سے بچادیااس پرتونے بڑارحم کیایہی بڑی کامیابی ہے ۔

حقیقت میں  اللہ غفورورحیم ہے اس لیے فوراًعذاب نازل کردینے کے بجائے کفروشرک،دہریت،فسق وفجور اور ظلم وستم کی انتہا کر دینے والے لوگوں  کو بھی سوچنے ،سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دیے چلاجارہاہے۔

وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِیَاءَ اللَّهُ حَفِیظٌ عَلَیْهِمْ وَمَا أَنتَ عَلَیْهِم بِوَكِیلٍ ‎﴿٦﴾‏ وَكَذَٰلِكَ أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیهِ ۚ فَرِیقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیقٌ فِی السَّعِیرِ ‎﴿٧﴾(الشوریٰ)
اور جن لوگوں  نے اس کے سوا دوسروں  کو کارساز بنا لیا ہے اللہ تعالیٰ ان پر نگران ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں  ہیں ، اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں  کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں  کو خبردار کردیں  اور جمع ہونے کے دن جس کے آنے میں  کوئی شک نہیں  ڈرا دیں ، ایک گروہ جنت میں  ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں  ہوگا۔

آج یہ لوگ اپنے آباؤاجدادکے مقررکیے ہوئے طریقوں ،رسموں  اورقوانین وضوابط کی پیروی کررہے ہیں ،جن بزرگوں  پران کویقین ہے کہ وہ انہیں  غلطیوں  سے پاک صحیح راستہ پرچھوڑکرگئے ہیں  ،اورانہیں  یہ اعتمادویقین بھی ہے کہ دنیامیں  وہ ان کی پریشانیوں ،مصیبتوں  میں  فوق الفطری طریقے سے مددکرتے ہیں ،روزگاردلواتے ہیں  ،اولاد عطا کرتے ہیں ،مرادیں  برلاتے ہیں ،اورہرطرح کی حاجات پوری کرتے ہیں ،اوراسی طرح اگرآخرت ہے بھی توجہاں  جزاوسزاملے گی تویہ بزرگ جن کی خوشنودی کے لئے ہم ان کی درگاہوں  پر رسوم عبادت بجالاتے ہیں  انہیں  اللہ کے عذاب سے بچالیں  گے یاہماری بدعملی اوربے عملی کے باوجوداللہ کے قریب کردیں  گے ،فرمایااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ! اللہ  لوگوں کے عقائدواعمال کا نامہ اعمال تیارکررہاہے اوروہ ان کوان کے اعمال کے مطابق جزایاسزادے گا،آپ کاکام لوگوں  کوپوری امانت ودیانت کے ساتھ اللہ کاپیغام پہنچادیناہے ،کسی کوہدایت سے سرفرازکرنا یا ہدایت نہ دینااللہ کاکام ہے ،اور اپنے احسان کاذکر فرمایاکہ جس طرح ہم نے ہررسول اس کی قوم کی زبان میں  بھیجااسی طرح اللہ نے اس قرآن کوتمہاری قوم کی زبان عربی میں  نازل کیاگیاہے،جواپنے الفاظ ومعانی میں  واضح ہے اورجسے وہ براہ راست خودسمجھ سکتے ہیں ،چنانچہ اے لوگو!اس میں  بیان کیے گئے توحید،رسالت اور آخرت کے پر زور دلائل ،اس کے مضامین کی وسعت وگہرائی،پہلی اقوام کے عبرت ناک واقعات پرغوروتدبرکرواورسوچوکہ اللہ رب العالمین کے سوا کون ایسے جلیل القدرکلام کوکون نازل کرسکتاہے ؟اللہ کے سواکون ایسی رہنمائی کر سکتاہے ، اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !اس قرآن کی مددسے،اہل مکہ مکرمہ ،شرق وغرب کی دیگر بستیوں  اوردنیاکے تمام لوگوں  کوہوشیار کردوکہ اگروہ عقائدواعمال کی گمراہیوں  اوراخلاق وکردارکی خرابیوں  سے بازنہ آئے،اگروہ اللہ کی ذات ، صفات ، اختیارات،حقوق ، سفارش کے باطل عقیدہ اوراللہ کی عظمت کااقرارکرتے ہوئے مخلوق میں  سے اپنے لیے اولیاء اورکارسازبنانے سے بازنہ آئے تو ان کا انجام بڑاخوفناک ہوگا ،اور وہ حیات بعدالموت کاعقیدہ تسلیم کریں  یانہ کریں لیکن ایک دن ایسابھی آنے والاہے جب   اللہ مالک یوم الدین تمام جن وانس ،ظالم ومظلوم ،مومن وکافرکوان کی قبروں  سے زندہ کر کے میدان محشرمیں جمع کرے گا اور ان سے زرہ زرہ کاحساب لے گا،اگرکوئی شخص اللہ کی مشیت سے دنیامیں  اپنی گمراہی وبداعمالیوں  کے برے نتائج سے بچ بھی گیا ہومگرحساب کتاب کے دن اس کے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں  ہوگی ، اس وقت پوری خلقت دوگروہوں  میں  بٹ جائے گی ایک گروہ ان خوش نصیب لوگوں  کاہوگاجواللہ تعالیٰ پرایمان لائے ہوں  گے ، انبیاء ومرسلین کی تصدیق کی ہوگی،جواللہ کے حکموں  کوبجالائے ہوں  گے اوراللہ کی مقررہ کردہ حدودکی پابندی کی ہوگی ،جنہوں  نے اللہ کے خوف ورجاکے ساتھ زندگی بسر کی ہو گی ، اللہ اس گروہ کواجرعظیم عطافرماکرلازوال نعمتوں  بھری جنت میں  داخل فرمائے گا اور دوسرا گروہ ان بدقسمت لوگوں  پرمشتمل ہوگاجو اللہ کے دین سے بغاوت ، احکامات میں  سرکشی ، حدود سے تجاوز اوربداعمالیوں  کے سبب عذاب الٰہی کے مستحق قرارپائیں  گے،جیسےفرمایا:

۔۔۔ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ۝۰ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ۝۱۰۳وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ۝۱۰۴ۭیَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ۝۱۰۵ [6]

ترجمہ:وہ ایک دن ہوگاجس میں  سب لوگ جمع ہوں  گے اورپھرجوکچھ بھی اس روزہوگاسب کی آنکھوں  کے سامنے ہوگا،ہم اس کے لانے میں  کچھ بہت زیادہ تاخیرنہیں  کررہےبس ایک گنی چنی مدت اس کے لیے مقررہے،جب وہ آئے گاتوکسی کوبات کرنے کی مجال نہ ہوگی الایہ کہ اللہ کی اجازت سے کچھ عرض کرے،پھرکچھ لوگ اس روزبدبخت ہوں  گے اورکچھ نیک بخت۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی یَدِهِ كِتَابَانِ فَقَالَ:أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الْكِتَابَانِ؟ قَالَ: قُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ لِلَّذِی فِی یَدِهِ الْیُمْنَى:هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، بِأَسْمَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا یُزَادُ فِیهِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِی فِی یَسَارِهِ:هَذَا كِتَابُ أَهْلِ النَّارِ، بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا یُزَادُ فِیهِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَلِأَیِّ شَیْءٍ إِذَنْ نَعْمَلُ إِنْ كَانَ هَذَا أَمْرًا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اس وقت آپ کے مبارک ہاتھوں  میں  دو کتابیں  تھیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ یہ دونوں  کتابیں  کیسی ہیں  ؟ ہم نے عرض کیا نہیں ، ہاں  اگر آپ اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں  بتادیں  تو ہمیں  معلوم ہو جائے گا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دائیں  ہاتھ والی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ اللہ رب العلمین کی کتاب ہے،جس میں  اہل جنت ان کے آباؤ اجداد اور ان کے قبائل کے نام لکھے ہوئے ہیں  اس میں  کسی قسم کی کمی بیشی نہیں  ہو سکتی کیونکہ اس میں  آخری آدمی تک سب کے نام آ گئے ہیں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بائیں  ہاتھ والی کتاب کے بارے میں  فرمایایہ اہل دوزخ کی کتاب ہے اس میں  ان کے نام اوران کے آباؤاجداد اورقبائل کے نام ہیں ، اس میں  کسی قسم کی کمی بیشی نہیں  ہو سکتی کیونکہ اس میں  آخری آدمی تک سب کے نام آ گئے ہیں ،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! جب اس کام سے فراغت ہوچکی تو پھر ہم عمل کس مقصد کے لئے کریں  ؟

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ یُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَمِلَ أَیَّ عَمَلٍ، وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ لَیُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنْ عَمِلَ أَیَّ عَمَلٍ ثُمَّ قَالَ: بِیَدِهِ فَقَبَضَهَا ثُمَّ قَالَ:فَرَغَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْعِبَادِ ثُمَّ قَالَ بِالْیُمْنَى: فَنَبَذَ بِهَا، فَقَالَ:فَرِیقٌ فِی الْجَنَّةِ ، وَنَبَذَ بِالْیُسْرَى، فَقَالَ:فَرِیقٌ فِی السَّعِیرِ

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا درستگی پر رہو اور قریب ہوجاؤ کیونکہ جنتی کا خاتمہ جنتیوں  والے اعمال پر ہی ہو گا گو کہ وہ کوئی سے اعمال کرتا رہے،اور جہنمی کا خاتمہ جہنمیوں  والے اعمال پر ہوگا گوکہ وہ کیسے ہی اعمال کرتا رہے،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس کی مٹھی بنائی اور فرمایا تمہارا رب بندوں  کی تقدیر لکھ کر فارغ ہوچکا پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دائیں  ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے پھونک ماری اور فرمایا ایک فریق جنت میں  ہوگااس کے بعدبائیں  ہاتھ پر پھونک کر فرمایا اور ایک فریق جہنم میں  ہوگا۔[7]

عَنْ أَبِی نَضْرَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَهُ: أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، دَخَلَ عَلَیْهِ أَصْحَابُهُ یَعُودُونَهُ وَهُوَ یَبْكِی، فَقَالُوا لَهُ: مَا یُبْكِیكَ؟ أَلَمْ یَقُلْ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُذْ مِنْ شَارِبِكَ، ثُمَّ أَقِرَّهُ حَتَّى تَلْقَانِی؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ بِیَمِینِهِ قَبْضَةً، وَأُخْرَى بِالْیَدِ الْأُخْرَى، وَقَالَ: هَذِهِ لِهَذِهِ، وَهَذِهِ لِهَذِهِ، وَلَا أُبَالِی فَلَا أَدْرِی فِی أَیِّ الْقَبْضَتَیْنِ أَنَا

ابونضرہ سے مروی ہےصحابہ کرام میں  سے ایک شخص کوابوعبداللہ کہاجاتاتھاان کے رفقاء ان کی زیارت کے لیے ان کے پاس گئے ،انہوں  نے دیکھاکہ وہ رورہے ہیں   رفقاء نے ان سے پوچھاآپ کیوں  رورہے ہیں ؟کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ سے یہ نہیں  فرمایاتھااپنی مونچھیں  کتراؤاورپھراسی حالت پرانہیں  رکھوحتی کہ مجھ سے ملاقات کرو؟  انہوں  نے جواب دیاہاں  یہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتھالیکن میں  نے آپ کویہ بھی فرماتے ہوئے سناہے بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں  ہاتھ میں  ایک مٹھی پکڑی اوردوسری اپنے دوسرے ہاتھ میں  اورفرمایاکہ یہ مٹھی اس (جنت)کے لیے اوریہ مٹھی اس(دوزخ)کے لیے ہےاورمجھے کوئی پرواہ نہیں اورمجھے نہیں  معلوم کہ میں  ان میں  سے کس مٹھی میں  ہوں ۔[8]

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن یُدْخِلُ مَن یَشَاءُ فِی رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿٨﴾‏ أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِیَاءَ ۖ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِیُّ وَهُوَ یُحْیِی الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٩﴾‏(الشوریٰ)
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں  داخل کرلیتا ہے اور ظالموں  کا حامی اور مددگار کوئی نہیں ،کیا ان لوگوں  نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں    (حقیقتاً تو) اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے، وہی مردوں  کو زندہ کرے گا اور وہی ہر چیز کا قادر ہے۔

اگراللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی تو سب انسانوں  کوایک ہی گروہ بنادیتاجوراہ ہدایت پرچلتالیکن اس میں  انسان کوارادہ واختیارکی آزادی نہ ہوتی ،جبکہ اللہ نے انسانوں  کودونوں  راستوں  سے خوب آگاہ فرماکرارادہ واختیارکی آزادی بخشی ہے تاکہ وہ اپناراستہ خودمتعین کرے اوراسی کے مطابق جزایاسزاپائے ، چنانچہ جس کے دل میں  وہ خیرکی روشنی پاتا ہے اسے راہ راست کی توفیق بخش دیتاہے اورکفارومشرکین کانہ کوئی ولی ہے جوان کی مددکرسکے اور نہ کوئی مددگارجوان سے کسی تکلیف کودورکرسکے ،مشرکین کی جہالت بیان فرمائی کہ انہوں  نے اپنے معبودحقیقی اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑکربے شمار معبودوں  کواپناسرپرست بنارکھا ہے ،حالانکہ انسان کاحقیقی سر پرست وہی ہوسکتاہے جو زندگی وموت اورنفوذمشیت وقدرت میں  تصرف کرتا ہو ، جو حق ولایت اداکرنے کی قدرت اوراختیارات بھی رکھتاہو ،جواپنے مومن بندوں  کو تاریکیوں  سے نکال کرروشنی میں  لاتا ہو، جیسے فرمایا:

اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۲۵۷ۧ [9]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لاتے ہیں  ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں  سے روشنی میں  نکال لاتا ہے۔

۔۔۔وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶ [10]

ترجمہ:اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں  سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

ہُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍؚبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۔۝۹ [11]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں  نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں  سے نکال کر روشنی میں  لے آئے ۔

جو اپنے لطف وکرم سے ان کی تربیت کرتا اورتمام امورمیں  ان پراپنی اعانت کافیضان کرتاہو ، اگراللہ کے سواکسی اورکے پاس ایسی قدرت اور اختیارات ہوں توانہیں  اپناولی بناؤ اور اگراللہ کے سواکسی کے پاس ایسی کوئی قدرت واختیارات نہیں  توپھراس کے سواکسی اورکواپناولی بنالیناجہالت ،حماقت اورخودکشی کے سوااورکچھ نہیں  ہے۔

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیهِ مِن شَیْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّی عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَیْهِ أُنِیبُ ‎﴿١٠﴾‏فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ یَذْرَؤُكُمْ فِیهِ ۚ لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ‎﴿١١﴾‏ لَهُ مَقَالِیدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاءُ وَیَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١٢﴾‏(الشوریٰ)
اور جس جس چیز میں  تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں  نے بھروسہ کر رکھا ہے   اور جس کی طرف میں  جھکتا ہوں ، وہ آسمانوں  اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس کے جوڑے بنا دیئے ہیں ، اور چوپایوں  کے جوڑے بنائے ہیں  تمہیں  وہ اس میں  پھیلا رہا ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں ، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، آسمانوں  اور زمین کی کنجیاں  اسی کی ہیں ، جس کی چاہے روزی کشادہ کردے اور تنگ کردے،  یقیناً وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

یہودونصاریٰ،مجوسیوں  اوراسلام میں  اختلافات ہیں ،اورہرمذہب کاپیروکاریہی دعویٰ کرتاہے کہ وہ راہ راست پرہے اورباقی تمام گروہ گمراہ ہیں ،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اپنی آخری کتاب نازل فرمادی ہے، اس کوحکم مان کرباآسانی ہرمعاملے کاچاہے وہ یہودونصاری ٰ اوراسلام کے درمیان ہویامسلمانوں  کے گروہوں  کے درمیان ہوفیصلہ کیاجاسکتاہے اورتمام اختلافات ختم کیے جاسکتے ہیں  مگرلوگ اپنے تعصب اوربغض وعنادمیں قرآن مجیدکوثالث ماننے کوتیارنہیں  ہوتے ، حالاں  کہ اللہ تعالیٰ نے اس اصول کوقرآن مجیدمیں یوں  بیان فرمایا

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۵۹ۧ [12]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو! اطاعت کرواللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوں  کی جوتم میں  سے صاحب امرہوں ،پھراگرتمہارے درمیان کسی معاملہ میں  نزاع ہو جائے تواسے اللہ اوررسول کی طرف پھیردواگرواقعی اللہ اورروزآخرپرایمان رکھتے ہو،یہی ایک صحیح طریق کار ہے اورانجام کے اعتبارسے بھی بہترہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ۝۰ۭ وَمَنْ یَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا۝۳۶ۭ [13]

ترجمہ: کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ سزاوار نہیں  کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو اسے اپنے اس معاملے میں  خودفیصلہ کرنے کا اختیار رہے،اور جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں  پڑ گیا۔

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝۳ [14]

ترجمہ:لوگو!جوکچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پرنازل کیاگیاہے اس کی پیروی کرواوراپنے رب کوچھوڑکردوسرے سرپرستوں  کی پیروی نہ کرومگرتم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاانسانی گروہوں  میں  جن معاملات میں  بھی اختلافات اورتنازعات ہیں  اس کا فیصلہ اللہ احکم الحاکمین کردے گا ،وہی اللہ جواختلافات اورتنازعات کافیصلہ کرنے والااصل حاکم ہے میرارب ہے ،میں  اسی کی مدد،رہنمائی ،حمایت وحفاظت اور فیصلوں  پراعتمادکرتاہوں  اوراپنے دل وجان سے اس کی طرف اوراس کی عبادت واطاعت کی طرف متوجہ ہوتاہوں  ،اللہ تعالیٰ نے انہی دواصولوں  کوکثرت سے بیان کیاہے۔

 اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ۝۴ [15]

ترجمہ:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں  اورتجھ ہی سے مددکے طلب گار ہیں  ۔

۔۔۔فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِ۔۔۔  ۝۱۲۳ۧ [16]

ترجمہ: پس اے نبی!تواسی کی بندگی کراوراسی پربھروسہ رکھ۔

اللہ خالق کائنات نے اپنی قدرت،مشیت اورحکمت سے ساتوں آسمانوں  اور زمین کو سات دنوں  میں  تخلیق کیااوریہ اس کااحسان ہے کہ جس نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرواورتمہاری نسل بڑھ سکے اور چوپایوں  میں  بھی انہی کے ہم جنس جوڑے بنائےتاکہ ان کی نسل باقی رہ کربڑھتی رہے اورتمہاری بہت سی ضروریات پوری ہوں ،اس طرح وہ مذکراورمونث کے ملاپ سے تمہاری اورچوپایوں  کی نسلیں  کثرت سے پھیلاتاہے،وہ اپنی ذات ، صفات ،اسماء اورافعال میں بے نظیر ہے،وہ اپنے کمال میں واحداورمنفردہے ،اوروہ کائنات کوتخلیق کرکے غافل نہیں  ہوگیابلکہ وہ اپنے بندوں  کی مختلف زبانوں  اورمتنوع دعاؤں  کے باوجودسب کی آوزیں  سنتااوران کے کھلے اورچھپے تمام اعمال دیکھتاہے،سارے عالم کامتصرف مالک اورحاکم وہی یکتا لاشریک ہے ،اوراسی کے ہاتھ میں  رحمت و رزق اورظاہری وباطنی نعمتوں  کی کنجیاں  ہیں  ،اوروہ مشیت وحکمت سے جس کو چاہتاہے کھلارزق عطافرما دیتاہے اورجس کو چاہتا ہے تنگ حال کر دیتاہے۔

مَا یَفْتَحِ اللهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا۝۰ۚ وَمَا یُمْسِكْ۝۰ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ۝۰ۭ وَهُوَالْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۲ [17]

ترجمہ: اللہ جس رحمت کادروازہ بھی لوگوں  کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والانہیں  اورجسے وہ بندکردے اسے اللہ کے بعدپھرکوئی دوسراکھولنے والانہیں ، وہ زبردست اور حکیم ہے ۔

اس کاوسیع علم ہرچیزکوگھیرے ہوئے ہے ،یعنی وہ اپنے بندوں  کے احوال کوخوب جانتاہے اورہرشخص کووہی کچھ عطاکرتاہے جواس کی مشیت تقاضاکرتی ہے اور جواس کی حکمت کے لائق ہے ۔

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ وَعِیسَىٰ ۖ أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِینَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَیْهِ ۚ اللَّهُ یَجْتَبِی إِلَیْهِ مَن یَشَاءُ وَیَهْدِی إِلَیْهِ مَن یُنِیبُ ‎﴿١٣﴾‏ وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِیَ بَیْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِینَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِی شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیبٍ ‎﴿١٤﴾‏(لشوریٰ)
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو  دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنااور اس میں  پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں  بلا رہے ہیں  وہ تو (ان) مشرکین پر گراں  گزرتی ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ، ان لوگوں  نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا (اور وہ بھی) باہمی ضد بحث سے، اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت تک کے لیے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی ہوتی، تو یقیناً ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور جن لوگوں  کو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

تمام انبیاء کاایک ہی دین اسلام تھا:

اے لوگو!محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی نئے دین کی بنیاد نہیں  رکھ رہے،اورنہ ہی اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس کوئی نیادین بھیجاہےبلکہ اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک ہی دین،دین اسلام رہاہے جوتمام ادیان میں  سب سے افضل اورسب سے پاک دین ہے، دین اسلام جوتمام انبیاء ومرسلین کادین تھااورجس کی دعوت تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کو پیش کرتے چلے آرہے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [18]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجاہے اس کویہی وحی کی ہے کہ میرے سواکوئی الٰہ نہیں  ہے پس تم لوگ میری بندگی کرو۔

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــیَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ۝۵ۭ [19]

ترجمہ:اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں  دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں  اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے بالکل یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں  اور زکوٰة دیں  ، یہی نہایت صحیح اور درست دین ہے۔

چنانچہ اصولی طورپرتمام انبیاء ومرسلین کا دین ایک ہی رہاہے ،البتہ حالات کے لحاظ سے احکام شرح میں  جزوی فرق تھا،جیسے فرمایا

۔۔۔ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا۔۔۔  ۝۴۸ۙ [20]

ترجمہ:ہم نے تم( انسانوں ) میں  سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اورایک راہ عمل مقرر کی ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَالْأَنْبِیَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِینُهُمْ وَاحِدٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں  ابن مریم کے دنیا اور آخرت میں  سب سے زیادہ قریب ہوں  اور انبیاء کی جماعت علاتی بھائیوں (کی طرح) ہیں  ،ان کے مسائل میں  اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے۔[21]

اوراب اسی قدیم دین کومحمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تمہارے سامنے پیش کررہے ہیں تاکہ وہ خوداسے اپنی ذات پرنافذکریں  اوردوسروں  پر نافذکرنے کے لیے جدوجہد کریں ، اوراے لوگو!اب صحیح وسچا دین آگیاہے تو اس کے اصول وفروع پرمتفق رہو،سب لوگ مل کراللہ کے دین کوقائم کرنے میں  لگ جاؤاورپہلے انبیاء کی امتوں  کی طرح تفرقہ برپامت کرو یعنی اس کی عبادت واطاعت سے گریز نہ کرو،اللہ کی ذات وصفات،اسماء اورافعال میں دوسروں  کوشریک کرکے افتراق وانتشارانگیزی نہ کرو، اللہ کے دین میں  اپنی طرف سے نئی نئی باتیں  شامل نہ کرو، دین کے نصوص میں  تاویلات کرکے نرالے عقائداورانوکھے اعمال ایجادنہ کرو ،اگرایساکروگے توتم گروہ در گروہ تقسیم ہو جاؤاورتمہاری ہو ا اکھڑ جائے گی ،جیسے فرمایا

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۔۔۔ ۝۱۰۳ [22]

ترجمہ:سب مل کراللہ کی رسی کومضبوط پکڑلواورتفرقہ میں  نہ پڑو۔

مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۳۱ۙمِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَكَانُوْا شِیَعًا۝۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ [23]

ترجمہ:(قائم ہوجاؤ اس بات پر)اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اس سے اور نماز قائم کرو اور نہ ہوجاؤ ان مشرکین میں  سے جنہوں  نے اپنا اپنا دین الگ بنادیا ہے اور گروہوں  میں  بٹ گئے ہیں ، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں  وہ مگن ہے ۔

اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   ! جب آپ ان لوگوں  کواللہ کے لیے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں تو مشرکین کو اللہ رب العالمین کی توحید اور اللہ ورسول کی اطاعت کی صدائیں  ناگوار گزرتی ہیں ،شعیب علیہ السلام  کی قوم کوبھی دعوت حق ناگوارگزرتی تھی۔

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۝۰ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ۝۸۷  [24]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیااے شعیب علیہ السلام کیاتیری نمازتجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں  کو چھوڑ دیں  جن کی پرستش ہمارے باپ داداکرتے تھے ؟یایہ کہ ہم کواپنے مال میں  اپنے منشاکے مطابق تصرف کرنے کااختیارنہ ہو؟بس توہی توایک عالی ظرف اورراستبازآدمی رہ گیا ہے ۔

وَاِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [25]

ترجمہ:جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتاہے توآخرت پرایمان نہ رکھنے والوں  کے دل کڑھنے لگتے ہیں  اورجب اس کے سوا دوسروں  کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ۔

وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ۝۰ۡوَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝۴ۖۚاَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [26]

ترجمہ:منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحرہے سخت جھوٹاہے ، کیا اس نے سارے خداؤں  کی جگہ بس ایک ہی خدابناڈالا؟یہ توایک عجیب بات ہے۔

اللہ جس کوچاہتاہے اپنی بارگاہ میں  برگزیدہ بنالیتاہے،اوراس کوراستہ دکھاتا ہے جواس کی طرف رجوع کرتاہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُـبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ۝۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۝۱۵ۙیَّهْدِیْ بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِهٖ وَیَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶ [27]

ترجمہ: ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب الٰہی کی بہت سی ان کتابوں  کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے، اور بہت سی باتوں  سے درگزر بھی کرجاتا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کوجواس کی رضاکے طالب ہیں  سلامتی کے طریقے بتاتا ہے،اوراپنے اذن سے ان کواندھیروں  سے نکال کراجالے کی طرف لاتاہے اورراہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتاہے۔

مگرلوگوں  نے انبیاء کے مبعوث ہونے اوران پرکتابیں  نازل ہوجانے کے بعد جب حجت ان پرقائم ہوگئی محض بغض و عناد ، ہٹ دھرمی اورحسدکی وجہ سے اختلاف اورتفریق کاراستہ اختیارکیا اوران کے اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ وہ شریعت کے خلاف نئے عقائد،نئی عبادات ،مراسم اور نئے نظام حیات ایجادکرکے ایک دوسرے پرظلم وزیادتی کرناچاہتے تھے ،اگرتیرارب پہلے ہی یہ نہ فیصلہ کرچکاہوتاکہ قیامت کے دن تک فیصلہ کن عذاب کو ملتوی رکھاجائے گا تو دنیامیں  ہی ان کاقضیہ کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا ، اور حقیقت یہ ہے کہ یہودونصاریٰ جو اگلوں  کے بعدتورات وانجیل کے وارث بنائے گئے انہوں  نے ان کتابوں  کویقین واعتمادکے ساتھ نہیں  لیابلکہ وہ اس کی طرف سے شکوک وشبہات اورذہنی الجھنوں  میں  مبتلاہوگئے ۔

فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَیْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ ۖ اللَّهُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا ۖ وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ ‎﴿١٥﴾‏(الشوریٰ)
پس آپ لوگوں  کو اسی طرف بلاتے رہیں  اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں  اور ان کی خواہشوں  پر نہ چلیں  اور کہہ دیں  کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں  نازل فرمائی ہیں  میرا ان پر ایمان ہے، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں  انصاف کرتا رہوں ،  ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں  ہم تم میں  کوئی کٹ حجتی نہیں ، اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  !اب آپ اسی دین اورصراط مستقیم کی طرف اپنی امت کو دعوت دیں ،اوراس کے پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں  جس کی خاطراللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث کئے اور ان پرکتابیں  نازل فرمائیں اورجواس کوقبول نہیں  کرتے ان لوگوں  سے جہادکریں ، اللہ کی الوہیت ،وحدانیت وربوبیت اورعبادت پرآپ خوداوراہل ایمان استقامت رکھیں  ، اور کفارومشرکین کوراضی کرنے کے لئے اس دین کے اندرکوئی ردوبدل اورکمی بیشی نہ کریں  ،جس شخص کوایمان لاناہے وہ اس خالص دین پرایمان لے آئے اور پورا کا پورا اس میں  داخل ہوجائے اورجواپنے تعصبات بغض وعناد میں  اس پرایمان نہیں  لاتااوراندھابن کرزندگی گزارناچاہتاہے وہ جلد اپناانجام خوددیکھ لے گا ،اگرآپ نے علم کے آجانے کے بعدبھی ان کی خواہشات کی پیروی کی توآپ کاشمارظالموں  میں  ہوگا،اگراہل کتاب بعض کتابوں  اوربعض رسولوں  پر ایمان لاکر اور دیگر کا انکار کر کے مناظرہ کریں توان سے احسن طریقے پر بحث ومباحثہ کرو،جیسے فرمایا:

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ۔۔۔۝۰۝۴۶ [28]

ترجمہ:اوراہل کتاب سے بحث نہ کرومگرعمدہ طریقے سے۔

اورصاف کہہ دو کہ مجھ سے پہلے اللہ نے جوآسمانی کتاب نازل فرمائیں  ہیں  میراان سب پرپختہ ایمان ہے ،میں  ان تفرقہ پرداز لوگوں  کی طرح نہیں  ہوں  جواللہ کی نازل کردہ بعض کتابوں  کومانتے ہیں  اوربعض کونہیں  مانتے ، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے درمیان قاضی مقررکیاہے تاکہ میں  لوگوں  کے درمیان انصاف کروں  ، اللہ ہی ہمارارب بھی ہے اورتمہارارب بھی،یعنی وہ سب کارب ہے تم ہم سے زیادہ اس کے مستحق نہیں  ہو،ہم میں  ہرایک اپنے اپنے عمل کاخودذمہ دار وجوابدہ ہے ،اگرتم نیکی کروگے تواس کا پھل ہمیں  نہیں  پہنچ جائے گابلکہ تم ہی اس سے متمتع ہوگے،اوراگرہم برائی کریں  گے تواس کی پاداش میں  تم نہیں  پکڑے جاؤگے بلکہ ہمیں  خود ہی اس کاخمیازہ بھگتنا پڑے گا،جیسے فرمایا

وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ۝۰ۚ اَنْتُمْ بَرِیْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۴۱ [29]

ترجمہ:اگریہ تجھے جھٹلاتے ہیں  توکہہ دے کہ میراعمل میرے لیے ہے اورتمہاراعمل تمہارے لیے ،جوکچھ میں  کرتاہوں  اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اورجوکچھ تم کررہے ہواس کی ذمہ داری سے میں  بری ہوں  ۔

 قُلْ اَتُحَاۗجُّوْنَـــنَا فِی اللهِ وَھُوَرَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۚ وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۚ وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ۝۱۳۹ۙ [30]

ترجمہ:اے نبی ان سے کہو!کیاتم اللہ کے بارے میں  ہم سے جھگڑتے ہو؟حالانکہ وہی ہمارارب بھی ہے اورتمہارارب بھی،ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں  تمہارے اعمال تمہارے لیے اورہم اللہ ہی کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَاَنَا بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۝۳۵ۧ [31]

ترجمہ:اے نبی!کیایہ لوگ کہتے ہیں  کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیاہے ؟ان سے کہو اگر میں  نے یہ خود گھڑا ہے تومجھ پراپنے جرم کی ذمہ داری ہے اورجوجرم تم کررہے ہواس کی ذمہ داری سے میں  بری ہوں ۔

ہم نے معقول دلائل سے یہ بات سمجھانے کاحق ادا کر دیا ہے،حق ظاہراورواضح ہوچکاہے اب حجت بازی کی کوئی گنجائش باقی نہیں  رہی ، روزقیامت اللہ تعالیٰ تمام اولین وآخرین کوجمع کرے گا اس وقت تم پر واضح ہوجائے گاکہ سچاکون تھااورجھوٹاکون؟جیسے فرمایا

قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَهُوَالْفَتَّاحُ الْعَلِـیْمُ۝۲۶ [32]

ترجمہ:کہوہمارارب ہم کوجمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے گا،وہ ایسازبردست حاکم ہے جوسب کچھ جانتاہے۔

ذِینَ یُحَاجُّونَ فِی اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا اسْتُجِیبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ ‎﴿١٦﴾‏ اللَّهُ الَّذِی أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ ۗ وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیبٌ ‎﴿١٧﴾‏ یَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَیَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ أَلَا إِنَّ الَّذِینَ یُمَارُونَ فِی السَّاعَةِ لَفِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ ‎﴿١٨﴾‏(الشوریٰ)
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں  میں  جھگڑا ڈالتے ہیں  اس کے بعد کہ (مخلوق) اسے مان چکی، ان کی کٹ حجتی اللہ کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے، اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے اور ترازو بھی (اتاری ہے)،اور آپ کو کیا خبر شاید قیامت قریب ہی ہو،اس کی جلدی انہیں  پڑی ہے جو اسے نہیں  مانتے اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں  وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں  انہیں  اس کے  حق ہونے کا پورا علم ہے، یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں  لڑ جھگڑ رہے ہیں  وہ دور کی  گمراہی میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

مشرکین ان اہل ایمان سے جودین اسلام پرقطعی دلائل اوروشن براہین کودیکھ کرایمان لائے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں  ان سے اللہ کے دین کے معاملہ میں  مجادلہ،جھگڑا کرتے ہیں  تاکہ وہ انہیں  راہ راست سے بھٹکادیں ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَمُجَاهِدٌ: جَادَلُوا الْمُؤْمِنِینَ بَعْدَ مَا اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، لِیَصُدُّوهُمْ عَنِ الْهُدَى، وَطَمِعُوا أَنْ تَعُودَ الْجَاهِلِیَّةُ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  اورمجاہدنے کہاکہ مومنوں  نے جب اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کومان لیاتوانہوں  نے مومنوں  سے جھگڑاکیاتاکہ وہ انہیں  ہدایت سے روک دیں اوریہ لوگ خواہش رکھتے تھے کہ اے کاش!مومن پھرجاہلیت کی طرف لوٹ آئیں ۔[33]

وَقَالَ قَتَادَةُ: هُمُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى، قَالُوا لَهُمْ: دِینُنَا خَیْرٌ مِنْ دِینِكُمْ، وَنَبِیُّنَا قَبْلَ نَبِیِّكُمْ، وَنَحْنُ خَیْرٌ مِنْكُمْ، وَأَوْلَى بِاللَّهِ مِنْكُمْ وَقَدْ كَذَبُوا فِی ذَلِكَ

قتادہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں  اس سے مرادیہودونصاریٰ ہیں  جنہوں  نے مومنوں  سے کہاکہ ہمارادین تمہارے دین سے بہترہے،ہمارانبی تمہارے نبی سے بہترہے،اورہم تم سے بہتراورتمہاری نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں  حالانکہ وہ ان سب باتوں  میں  جھوٹے تھے۔[34]

ان کی اس طرح کی حجت بازیاں  ا للہ کے نزدیک باطل اورناقابل قبول ہیں ،اللہ کے رسول کوجھٹلانے ،اللہ تعالیٰ کے دلائل وبراہین سے روگردانی کے جرم عظیم کے سبب ان پراللہ کاغیض وغضب ہے جس کے نتیجے میں  آخرت میں ان کے لئے جہنم کا سخت عذاب ہے،وہ اللہ ہی ہے جس نے انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیے پہلے رسولوں  پر کتابیں  اورتم پر یہ کتاب قرآن عظیم اورشریعت نازل کی ہے جوحق اورسچ ہے ، جیسےفرمایا

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔۔۔۝۰۝۲۵ۧ [35]

ترجمہ:ہم نے اپنے رسولوں  کو صاف صاف نشانیوں  اورہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اورمیزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔

وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ۝۷ۙاَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ۝۸وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ۝۹ [36]

ترجمہ: آسمان کواس نے بلندکیااورمیزان قائم کردی ، اس کاتقاضایہ ہے کہ تم میزان میں  خلل نہ ڈالو ، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں  ڈنڈی نہ مارو۔

اور تم لوگوں  کو کیا خبر شایدکہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آلگی ہواس لیے بلاخیرایمان لے آؤورنہ پچھتاتے اورحسرت ہی کرتے رہ جاؤگے ،،جولوگ قیامت کے آنے پرایمان نہیں  رکھتے وہ توبطوراستہزااس کے لئے جلدی مچاتے ہیں  مگرجواس پرایمان رکھتے ہیں  وہ اس سے ڈرتے اورخوف محسوس کرتے ہیں  کہ کہیں  وہ مواخذہ الٰہی کی زدمیں  نہ آ جائیں ،جیسے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ۝۶۰ۙ [37]

ترجمہ:اورجن کاحال یہ ہے کہ دیتے ہیں  جوکچھ دیتے ہیں  اوردل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں  کہ ہمیں  اپنے رب کی طرف پلٹناہے۔

اہل ایمان کوکامل یقین ہے کہ یقیناًایک وقت مقررہ پر قیامت آنے والی ہے،اس لیے وہ خوف ورجاع کے ساتھ عمل صالحہ کرتے ہیں  تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  داخل ہوسکیں ،خوب سن لوجولوگ اس گھڑی کے آنے کے دلائل پر غوروتدبرنہیں  کرتے بلکہ انبیاء اوران کے پیروکاروں سے شک وشبہ میں  ڈالنے والی بحثیں  کرتے ہیں  وہ راہ راست سے بھٹک کرگمراہی میں  بہت دورنکل گئے ہیں ۔

اللَّهُ لَطِیفٌ بِعِبَادِهِ یَرْزُقُ مَن یَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ ‎﴿١٩﴾‏ مَن كَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِی حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِن نَّصِیبٍ ‎﴿٢٠﴾(الشوریٰ)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  پر بڑا ہی لطف کرنے والا ہے، جسے چاہتا ہے کشادہ روزی دیتا ہے اور وہ بڑی طاقت بڑے غلبے والا ہے،  جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں  ترقی دیں  گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں  سے ہی کچھ دے دیں  گے، ایسے شخص کا آخرت میں  کوئی حصہ نہیں ۔

 غفورورحیم اللہ :

اللہ احکم الحاکمین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام بندوں  کافرومومن ،نیک وبدپربڑی شفقت وعنایت اوران کی دقیق ترین ضروریات پربھی نگاہ رکھتاہے ،اگرچہ وہ اپنے خزانوں  سے سب ہی کوعنایت کررہاہے،جیسے فرمایا

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا ۔۔۔ ۝۶ [38]

ترجمہ:زمین میں  چلنے والاکوئی جاندار ایسا نہیں  ہے جس کارزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔

مگراس لطف عام کاتقاضایہ نہیں  ہے کہ وہ سب بندوں  کویکساں  ہی عطاوبخشش اوررزق عطافرمائے بلکہ وہ اپنی مشیت وحکمت سے جس کو چاہتاہے کشادہ رزق عنایت فرماتا ہے اورجسے چاہتا نپاتلارزق دیتاہے،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ۔۔۔۝۵۲ۧ [39]

ترجمہ:اور کیا انہیں  معلوم نہیں  ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ؟۔

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۔۔۔۝۳۹ [40]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو میرا رب اپنے بندوں  میں  سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ۔۔۔۝۳۷ [41]

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں  ہیں  کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے(جس کا چاہتا ہے)۔

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۔۔۔۝۶۲ [42]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں  میں  سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے۔

اس کی بخشش وعطاکایہ نظام اس کے اپنے زورپرقائم ہے ،کسی مخلوق میں  اتنی طاقت اوراختیار نہیں  کہ اللہ جسے دیناچاہے کوئی اسے روک سکے اور جسے نہ دیناچاہے اسے زبردستی دلاسکے،یہ دنیادارالعمل اوردارالامتحان ہے اس لیے اللہ کسی بندے کوبھی کسی عمل پرزبردستی مجبور نہیں  کرتا بلکہ ہرشخص کونیکی اوربرائی کابرابرموقع دیتاہے ، اگرکوئی بندہ اللہ ،اس کے رسول ،نازل کردہ کتابوں  اورآخرت پرایمان لاتاہے ،اورپھر دنیامیں  آخرت کے اجروثواب کے لئے ممکن حدتک سعی وعمل کرتاہے تواللہ اس کی کوشش کی قدردانی کرتاہے،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا۝۱۹ [43]

ترجمہ:اورجوآخرت کاخواہشمندہواوراس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اورہووہ مومن توایسے ہرشخص کی سعی مشکور ہو گی ۔

اور دنیامیں  اس کے لیے بھلائی کے اسباب مہیاکرکے اسے بھلائی کی راہ دکھلاتااور اسے اورزیادہ نیک عمل کی توفیق عطافرماتا ہے، اورنیکیوں  کی کوششوں  کے باوجودجوگناہ سرزدہوجاتے ہیں  ان سے چشم پوشی کرتاہے ،اللہ کے مکرم فرشتے اس مومن بندے کوبھلائی کی ترغیب دیتے ہیں  اورمشکلات وپریشانیوں  میں  صراط مستقیم پرثابت قدم رکھتے ہیں ، اورسب سے زیادہ یہ کہ آخرت میں  بھی اس کاحصہ ہوگا، اس دنیامیں  اس کی ایک ایک نیکی کااجر کم ازکم دس گناسے لیکرسات سوگنابلکہ اس سے زیادہ تک بھی بڑھاکر عطافرمائے گا ، اورجس شخص کی مطلوب ومقصود دنیاہی ہو،اسے آخرت کے ثواب کی امیدہے نہ اس کے عذاب کاڈر تواللہ کی مشیت وقدیرکے مطابق جواس کارزق مقررہے وہ اسے دنیامیں  ہی دے دیاجاتاہے اورآخرت کی بھلائیوں  میں  اس کاکوئی حصہ نہیں  ہوگا،جنت اس پرحرام کردی گئی اوروہ راندئہ درگاہ ہوکرجہنم کے عذاب میں  دھکیل دیاجائے گا،جیسے فرمایا:

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ۰ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۱۸ [44]

ترجمہ:جوکوئی (اس دنیامیں  )جلدی حاصل ہونے والے فائدوں  کاخواہشمندہواسے ہم دے دیتے ہیں  جوکچھ بھی جسے دیناچاہیں  ،پھراس کے مقسوم میں  جہنم لکھ دیتے ہیں  جسے وہ تاپے گاملامت زدہ اوررحمت سے محروم ہوکر۔

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَهُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ۝۱۵اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ۝۰ۡۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۶ [45]

ترجمہ:جولوگ بس اس دنیاکی زندگی اوراس کی خوشنمائیوں  کے طالب ہوتے ہیں  اس کی کارگزاری کاساراپھل ہم یہیں  ان کودے دیتے ہیں  اوراس میں  ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں  کی جاتی ، مگر آخرت میں  ایسے لوگوں  کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں  ہے،(وہاں  معلوم ہوجائے گا)جوکچھ انہوں  نے دنیامیں  بنایاوہ سب ملیامیٹ ہوگیااوراب ان کاساراکیادھرامحض باطل ہے۔

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ:قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَشِّرْ هَذِهِ الْأُمَّةَ بِالسَّنَاءِ وَالرِّفْعَةِ، وَالدِّینِ، وَالنَّصْرِ، وَالتَّمْكِینِ فِی الْأَرْضِ ، وَهُوَ یَشُكُّ فِی السَّادِسَةِ، قَالَ: فَمَنْ عَمِلَ مِنْهُمْ عَمَلَ الْآخِرَةِ لِلدُّنْیَا، لَمْ یَكُنْ لَهُ فِی الْآخِرَةِ نَصِیبٌ

ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانہوں  نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایااس امت کوعظمت ،رفعت،مذہب(اسلام)نصرت اورزمین میں  غلبے کی بشارت سنادو، پس ان میں  سے جوشخص آخرت کاعمل دنیاکے لیے کرے گااس کاآخرت میں  کوئی حصہ نہ ہوگا۔[46]

اب انسان کو خود فیصلہ کر لیناچاہیے کہ اس کابہترین فائدہ طالب دنیابننے میں  ہے یاطالب آخرت بننے میں  ہے۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّینِ مَا لَمْ یَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِینَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٢١﴾‏(الشوریٰ)
کیا ان لوگوں  نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں  جنہوں  نے ایسے احکام دین مقرر کردیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ، اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں  فیصلہ کردیا جاتا، یقیناً (ان) ظالموں  کے لیے دردناک عذاب ہے۔

یہ کفارو مشرکین اللہ رب العالمین کے پاکیزہ  دین کے توپیروکار نہیں  ہیں  جس میں  ان کی دنیاوی واخروی فلاح پنہاں  ہے مگرانہوں  نے اپنی خواہشات نفس کے تقاضوں  کو پوراکرنے کے لیے شیاطین صفت انسانوں  کواللہ کے ساتھ شریک فی الحکم ٹھہرالیاہے،جوان کے باطل عقائدونظریات کاپرچارکرتے ہیں ،اپنے من پسند اخلاقی اصولوں  کو فروغ دیتے ہیں ،خلاف فطرت قوانین ،ضابطے اورحدود مقررکرتے ہیں ،جواللہ کی حلال کردہ چیزوں  کوحرام اوراس کی محرمات کوحلال ٹھہراتے ہیں  حالانکہ دین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ دین قراردے تاکہ لوگ اسے دین بنائیں  اوراس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کاتقرب حاصل کریں ، یہ ایساظلم عظیم ہے کہ اگر فیصلہ قیامت پرنہ اٹھارکھاگیاہوتاکہ میں  گنہگاروں  کوقیامت کے آنے تک ڈھیل دوں  گاتودنیاہی میں  ہراس شخص پرعذاب نازل کردیاجاتاجس نے اللہ کابندہ ہوتے ہوئے اللہ کی زمین پرخوداپنادین جاری کیا اوروہ سب لوگ بھی تباہ کردیے جاتے جنہوں  نے اللہ کے دین کوچھوڑکردوسروں  کے بنائے ہوئے دین کوقبول کیا،مگرآخرت میں  ایسے ظالموں  کے لئے جہنم کادردناکلل عذاب تیار ہے جوبدترین ٹھکاناہے ۔

تَرَى الظَّالِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ ۗ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِی رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ۖ لَهُم مَّا یَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیرُ ‎﴿٢٢﴾‏ذَٰلِكَ الَّذِی یُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِیهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ ‎﴿٢٣﴾(الشوریٰ)
آپ دیکھیں  گے کہ یہ ظالم اپنے اعمال سے ڈر رہے ہوں  گے جن کے وبال ان پر واقع ہونے والے ہیں ، اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں  نے نیک اعمال کئے وہ بہشتوں  کے باغات میں  ہوں  گےوہ جو خواہش کریں  اپنے رب کے پاس موجود پائیں  گے یہی ہے بڑا فضل،یہی وہ ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کو دے رہا ہے جو ایمان لائے ، اور (سنت کے مطابق) نیک عمل کئے تو کہہ دیجئے! کہ میں  اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں  چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی، جو شخص  جوکوئی نیکی کرے ہم اس کے لیے اس کی نیکی میں  اور نیکی بڑھا دیں  گے، بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا (اور) بہت قدردان ہے ۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن،میدان محشرمیں  تم ان ظالموں  کودیکھوگے کہ یہ اپنے کرتوتوں  کے انجام سے لرزاں  وترساں  ہوں  گے مگراس وقت ان کااپنے کرتوتوں  پر حسرت وافسوس اوران کے نتائج سے ڈرنابے فائدہ ہوگاکیونکہ اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ،دین حق کے مقابلے میں  سرکشی وبغاوت، اور باطل عقائدونظریات اوراعمال کی سزاتوانہیں  بہرحا ل بھگتنی ہی ہوگی ،بخلاف اس کے جولوگ اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے آخری رسول ،اللہ تعالیٰ کی طرف سےمنزل کتابوں ،قیامت ،حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاوسزاپر ایمان لے آئے ہیں  اورجنہوں  نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت میں اعمال صالحہ اختیار کیے ہیں ،اس روزوہ ہرطرح کے غم وفکرسے آزاد انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت کے حسین گلستانوں  میں  ہوں  گے،جس میں  طرح طرح کی نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ،جیسے فرمایا:

یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ۝۶۸اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَكَانُوْا مُسْلِـمِیْنَ۝۶۹ۚۚاُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ۝۷۰ [47]

ترجمہ:اے میرے بندو !آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں  اور نہ تمہیں  کوئی غم لاحق ہوگااس روز ان لوگوں  سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں  تم اور تمہاری بیویاں  تمہیں  خوش کر دیا جائے گا ۔

جنتی جنت کاحریری لباس پہن کراپنے بالاخانوں  میں  جنت کی حوروں  کے ساتھ طرح طرح کی راحتوں  اورلذتوں  میں  ہوں  گے ،

وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ:فِیمَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ عزوجل ارشادفرماتاہےاوروہ ایسی نعمتیں  ہوں  گی جنہیں  کسی آنکھ نے نہیں  دیکھاکسی کان نے نہیں  سنااورکسی انسان کے دل میں  ان کا تصور تک نہیں  آیا۔ [48]

وہاں  وہ جس چیزکی بھی تمناکریں  گےاللہ تعالیٰ ان کی ہرخواہش کوفورا ًپوراکردے گا ،جیسے فرمایا:

لَہُمْ مَّا یَشَاۗءُوْنَ فِیْہَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ۝۳۵ [49]

ترجمہ:وہاں  ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں  گے اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے ۔

۔۔۔وَلَكُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ [50]

ترجمہ:وہاں  جو کچھ تم چاہو گے تمہیں  ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔

اللہ کی رضاوخوشنودی کے حصول میں  کامیابی اورجنت کی نعمتوں  سے بہرہ مندہونے سے بڑھ کربھی کوئی فضل ہوسکتاہے ،یہ ہے وہ انمول نعمت ہے جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں  کودیتاہے جنہوں  نے اللہ کی دعوت کومان لیا،اللہ کاتقویٰ اختیارکیااوراللہ نے جو شریعت نازل کی ہے اس پرکاربندرہے ، اے نبی!ان منکرین حق سے کہہ دوکہ میں  اس وعظ ونصیحت،دعوت وتبلیغ کاتم سے کسی بھی طرح کے اجرکاطالب نہیں  ہوں البتہ ایک چیزکاسوال ضرورکرتاہوں  کہ میرے اور تمہارے درمیان قرابت داری کاجورشتہ ہے اس کی وجہ سے صلہ رحمی کرو،

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَجِلْتَ إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَیْشٍ، إِلَّا كَانَ لَهُ فِیهِمْ قَرَابَةٌ، فَقَالَ:إِلَّا أَنْ تَصِلُوا مَا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ مِنَ القَرَابَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہےقریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں  جس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قرابت داری نہ ہو،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایاکہ تم سے صرف یہ چاہتاہوں  کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کامعاملہ کروجومیرے اورتمہارے درمیان میں  موجود ہے۔[51]

تم لوگ اللہ کی دعوت پرایمان نہیں  لاتے اورطاغوت کی بندگی کرناپسندکرتے ہو تویہ تمہاری اپنی منتخب راہ ہے لیکن مجھے نقصان پہنچانے سے توبازرہو کیونکہ صلہ رحمی اورقرابت کاپاس شرفاء کی پہچان ہے ،جوکوئی بھلائی کمائے گاہم اس کومزیدتوفیق بخش دیں  گے اوراس کے اجروثواب میں  کئی گنااضافہ کردیں  گے ، جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [52]

ترجمہ:اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں  کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔

بے شک اللہ اپنے بندوں  کے گناہوں  سے پردہ پوشی فرماتااور معاف کردیناپسندکرتاہے اوران کے تھوڑے سے عمل پربھی زیادہ اجر عطا فرما کر اس عمل کی قدرکرتا ہے۔

أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن یَشَإِ اللَّهُ یَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَیَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَیُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٢٤﴾‏(الشوریٰ)
کیا یہ کہتے ہیں  کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے اور اللہ تعالیٰ اپنی  باتوں  سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے اور سچ کو ثابت رکھتا ہے، وہ سینے کی باتوں  کو جاننے والا ہے۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ جاہل کفار آپ پربدترین اورقبیح ترین بہتان لگاتے ہیں  کہ آپ نے نبوت کادعویٰ کرکے اور اس قرآن کو خودتصنیف کرکے اللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھاہے ،کیا ان لوگوں  کو آپ جیسے بہترین اخلاق وکردارکے حامل شخص پرجس کے اخلاق وکردارکودیکھ کر خود صادق وامین کا خطاب دے چکے ہیں  مگراللہ پرجھوٹ  جیسے گھناونے فعل کا الزام رکھتے ہوئے ذراندامت نہیں  ہوتی ، اگر اس الزام میں  زرہ برابربھی صداقت ہوتی توہم آپ کے دل پرمہرلگادیتے ،جس سے قرآن ہی آپ کے دل سے محو ہو جاتا اور آپ کے دل میں  کوئی بھلائی داخل نہ ہوتی ، ایک مقام پراسی مضمون کویوں  بیان فرمایا:

تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۳وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۝۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ۝۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ۝۴۶ۡۖفَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِیْنَ۝۴۷ [53]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہواہے اوراگراس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے خودگھڑکرکوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کادایاں  ہاتھ پکڑلیتے اوراس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے ،پھرتم میں  سے کوئی (ہمیں  )اس کام سے روکنے والانہ ہوتا ۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ وہ باطل کوکبھی بھی سربلندی نہیں  بخشتابلکہ باطل کو نیست ونابوداور حق کواپنے سچے وعدے اوراحکام تکوینی کے ذریعے سربلندکرکے دکھا دیتاہے،اس لئے یہ قرآن بھی مکذبین کے دعویٰ کے مطابق اگرباطل ہوتا تو یقینا ًاللہ تعالیٰ اپنی عادت کے مطابق اس کو بھی مٹادیتا،جن اغراض ومقاصدکے لیے یہ اس دعوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اللہ کوان کی حقیقت خوب معلوم ہے،اس لئے اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان کے شوروغل کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں  اوران کی شرارتوں  سے بے فکرہوکراپنافرض منصبی اداکرتے رکھیں ،جزاوسزاکامقررہ وقت قریب آلگاہے،جیسے فرمایا:

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ۔۔۔ ۝۱ۚ  [54]

ترجمہ: قریب آگیاہے لوگوں  کے حساب کاوقت۔

اس دن ان کے جھوٹ اوران کے مکروفریب کاپول کھل جائے گا اوردین اسلام کی حقانیت ثابت ہوجائے گی،جیسے فرمایا

وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلهِ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۷۵ۧ [55]

ترجمہ:اورہم ہرامت میں  سے ایک گواہ نکال لائیں  گے پھرکہیں  گے کہ لاؤاب اپنی دلیل ،اس وقت انہیں  معلوم ہوجائے گاکہ حق اللہ کی طرف ہے اورگم ہوجائیں  گے ان کے وہ سارے جھوٹ جوانہوں  نے گھڑرکھے تھے۔

وَهُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ وَیَسْتَجِیبُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَیَزِیدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ ‎﴿٢٦﴾‏(الشوریٰ)
وہی ہے جو اپنے بندوں  کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں  سے درگزر فرماتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو (سب) جانتا ہے، ایمان والوں  اور نیکوکار لوگوں  کی سنتا ہے اور انہیں  اپنے فضل سے اور بڑھا کردیتا ہے اور کفار کے لیے  سخت عذاب ہے۔

 خالص توبہ گناہوں  کی معافی کاذریعہ:

لوگو!تم نے اس دعوت حق اوررسول کی تکذیب اوراس کے راستے میں  روڑے اٹکاکرجوجرم عظیم کیا ہے ان سب پر اپنے رب سے معافی مانگ لو،وہ تمہارا غفورورحیم رب ہی تو ہے جواپنے بندوں  کی گناہوں  پرندامت کااظہاراورمستقبل میں  نہ کرنے کے عزم پران کی توبہ قبول فرماتا اوران کی برائیوں  سے درگزر کرتااوران کے برے اثرات اورعقوبات کوبھی ختم فرمادیتاہے حالانکہ وہ تمہارے کھلے یاچھپے،چھوٹے یابڑے تمام اقوال و افعال کا علم رکھتا ہے جیسےفرمایا:

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [56]

ترجمہ: اگرکوئی شخص برافعل کرگزرے یااپنے نفس پرظلم کرجائے اوراس کے بعداللہ سے درگزرکی درخواست کرے تواللہ کو درگزرکرنے والا اوررحیم پائے گا۔

وہ ایمان لانے والوں  اورنیک عمل کرنے والوں  کی دعاقبول کرتاہےاوران کی خواہشیں  اورتمنائیں  پوری کرتاہے اوراپنے فضل وکرم سے ان کواورزیادہ دیتاہے ،

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَهُوَ عَمُّهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِینَ یَتُوبُ إِلَیْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَیْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَیِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّهَا، قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَیْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَةً عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ: اللهُمَّ أَنْتَ عَبْدِی وَأَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سےزیادہ خوشی ہوتی ہے جب وہ توبہ کرتاہے، اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جوایک صاف بے آب ودانہ جنگل میں اپنے اونٹ پرسوارہواوروہ اونٹ مع کھانے پینے کے سامان کے صحرا،بیابان میں  گم ہوجائے، اوروہ ناامیدہوکرکسی درخت کے سایہ کے نیچے آکر لیٹ جائےاوروہ اونٹ سے بالکل ناامیدہوگیاہووہ اسی حال میں  ہو کہ اچانک اونٹ اس کے سامنے آکرکھڑاہوجائے اوروہ اس کی نکیل تھام لے،اورفرط مسرت میں غلطی سے یہ کلمہ اس کے منہ سے نکل جائے اے اللہ !تومیرابندہ اورمیں  تیرارب۔[57]

عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنِ الحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدِیثَیْنِ: أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، قَالَ:إِنَّ المُؤْمِنَ یَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْهِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ یَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ،فَقَالَ بِهِ هَكَذَا، قَالَ أَبُو شِهَابٍ: بِیَدِهِ فَوْقَ أَنْفِهِ،ثُمَّ قَالَ: لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ نَزَلَ مَنْزِلًا وَبِهِ مَهْلَكَةٌ، وَمَعَهُ رَاحِلَتُهُ، عَلَیْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ نَوْمَةً، فَاسْتَیْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ، حَتَّى إِذَا اشْتَدَّ عَلَیْهِ الحَرُّ وَالعَطَشُ أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِی، فَرَجَعَ فَنَامَ نَوْمَةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَهُ

اعمش، عمارہ بن عمیر حارث بن سوید سے روایت کرتی ہیں ہم سے عبداللہ نے دو حدیثیں  بیان کیں  ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اور دوسرے خود سے نقل کرتے ہیں بیان کیا کہ مومن اپنے گناہوں  کو اس طرح دیکھتا ہے گویا وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈر رہا ہے کہ کہیں  گر نہ جائےاور بد کار اپنے گناہوں  کو مکھی کے برابر سمجھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے، اور وہ ایسے اڑا دیتا ہے،  پھر ابو شہاب نے ناک پر اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا،پھر کہا کہ اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایسی جگہ میں  اترے کہ جان کا خوف ہواور اس کے ساتھ اس کی سواری ہو جس پر اس کا کھانا اور پانی ہو، وہ سر رکھ کر سو گیااور جب بیدار ہوا تو دیکھا کہ اس کی سواری غائب تھی یہاں  تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت ہوئی تو اس کہا کہ میں  اپنی جگہ واپس جاتا ہوں ، وہاں  جا کر وہ تھوڑی دیر سو گیا پھر اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ اس کی سواری اس کے پاس تھی۔[58]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ یَجِدُ ضَالَّتَهُ فِی الْمَكَانِ الَّذِی یَخَافُ أَنْ یَقْتُلَهُ مِنَ الْعَطَشُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتاہے جواپنی گم شدہ سواری کواس جگہ پالے جہاں  اسے یہ خدشہ ہوکہ پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گا۔[59]

وَقَالَ هَمَّامُ بْنُ الْحَارِثِ: سُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَنْ الرَّجُلِ یَفْجُرُ بِالْمَرْأَةِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُهَا؟  قَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ،وَقَرَأَ:وَهُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ

ہمام بن حارث سے روایت ہےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں  پوچھاگیاجوکسی عورت کے ساتھ بدکاری کرتااورپھراس سے شادی کرلیتاہے؟ انہوں  نے فرمایا کوئی حرج نہیں   پھرانہوں  نے یہی آیت کریمہ پڑھی’’  وہی ہے جواپنے بندوں  سے توبہ قبول کرتاہے اوربرائیوں  سے در گزر فرماتا ہے۔‘‘[60]

رہے اس دعوت کی تکذیب کرنے والے توان کے لئے ہم نے جہنم کا سخت ترین عذاب تیارکررکھاہے ۔

وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِی الْأَرْضِ وَلَٰكِن یُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِیرٌ بَصِیرٌ ‎﴿٢٧﴾‏(الشوریٰ)
اگر اللہ تعالیٰ اپنے (سب) بندوں  کی روزی فراخ کردیتا تو وہ زمین میں  فساد برپا کردیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا نازل فرماتا ہے، وہ اپنے بندوں  سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے۔

مکہ مکرمہ کے سرداروں  کی حیثیت ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے سے زیادہ حیثیت نہ تھی ، اللہ نے ان کوبیت اللہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے دوسرے عربوں  کی نسبت زیادہ خوشحالی ،بڑائی اورامن نصیب کیاہواتھا،زمین کے اس مختصرسے ٹکڑے پر اقتدار، بڑائی ،خودمختاری اورمال واسباب نے ان کواتنا مغرورومتکبربنادیاتھاکہ قریش کے سردار محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کواپناھادی وپیشواماننے ،ان کی اطاعت قبول کرنے اور مفلس مسلمانوں  کے ساتھ بیٹھنے کو اپنی کسرشان سمجھتے تھے،اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ ان لوگوں کے ظرف کو خوب جانتاہے اگراللہ ان لوگوں  پرواقعی ہی رزق کے دروازے کھول دیتا اورہرشخص کوحاجت وضرورت سے زیادہ یکساں  طورپر وسائل رزق عطافرمادیتا تو سرکشی،تکبراوربے پرواہی حدسے بڑھ جاتی ہرشخص خرمستی میں  مبتلاہوکر شروفسادمیں  ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوتا جس سے اللہ کی زمین فتنہ وفساد سے بھرجاتی ،اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اورحکمت سے ہرشخص کو اس کے ظرف اورصلاحیت کے مطابق ناپ تول کراتناہی عنایت کررہاہے جوان کوآپے سے باہرنہ ہونے دے، یقیناًوہ اپنے بندوں  کے ظرف اورصلاحیتوں  سے باخبر ہے اوران کے اعمال پرنگاہ رکھتاہے۔

وَهُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَیَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیدُ ‎﴿٢٨﴾‏ وَمِنْ آیَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِیهِمَا مِن دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا یَشَاءُ قَدِیرٌ ‎﴿٢٩﴾‏ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِیبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَیْدِیكُمْ وَیَعْفُو عَن كَثِیرٍ ‎﴿٣٠﴾‏ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِینَ فِی الْأَرْضِ ۖ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿٣١﴾‏(الشوریٰ)
اور وہی ہے جو لوگوں  کے ناامید ہوجانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، وہی ہے کارساز اور قابل حمد و ثنا،  اور اس کی نشانیوں  میں  سے آسمانوں  اور زمین کی پیدائش ہے اور ان میں  جانداروں  کا پھیلانا ،وہ اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے انہیں  جمع کر دے، تمہیں  جو کچھ مصیبتیں  پہنچتی ہیں  وہ تمہارے اپنے ہاتھوں  کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں  سے درگزر فرما دیتا ہے، اور تم ہمیں  زمین میں  عاجز کرنے والے نہیں  ہو، تمہارے لیے سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی کارساز نہ مدد گار۔

یہ اللہ رب العالمین ہی کی قدرت ہے کہ جب لوگ باران رحمت کاانتظارکرتے کرتے ناامید ہوجاتے ہیں اورقحط سالی کاخطرہ پڑجاتاہے تواس سخت حاجت اور مصیبت کے وقت آسمان سے بارش برساتاہے جس سے ان کی خشک سالی ختم ہوجاتی ہے،جیسے فرمایا

وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْہِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِیْنَ۝۴۹ [61]

ترجمہ:حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہورہےتھے۔

اوراس بارش کے نتیجے میں اللہ انسانوں  ،چوپایوں  اورہرطرح کی جاندارمخلوق کی خوراک کا سامان پیداکردیتاہے ،اوروہی کارساز ہے جومختلف تدابیرکے ساتھ اپنی مخلوقات کی سرپرستی اوران کے دینی  ودنیاوی مصالح کاانتظام فرماتاہے ،اس کاہرکام قابل ستائش وتعریف ہے،یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،الوہیت ،رزاقیت اورقدرت کاملہ کی کھلی نشانیوں  میں  سے ہے کہ اس نے اپنی حکمت ومشیت سے اس وسیع وعریض اور ہموارزمین اور بغیر ستونوں  کے بلندوبالاساتوں  آسمانوں  اوران کے درمیان جوکچھ ہے کی تخلیق کی ہے، جیسے فرمایا:

۔۔۔اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ۝۲ [62]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں  ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۱۰ [63]

ترجمہ:اس نے آسمانوں  کو پیدا کیا بغیر ستونوں  کے جو تم کو نظر آئیں ۔

اورہرطرح کی جاندارمخلوقات،فرشتے،جن وانس اورمختلف قسم کے حیوانات ، پرندے وغیرہ جن کی شکلیں ، رنگتیں ، زبانیں  اورطبائع مختلف ہیں کو آسمانوں  ،زمین اورکائنات کے کونے کونے میں  پھیلارکھاہے،جس طرح اس نے اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کوکائنات میں پھیلارکھاہے اسی طرح اوروہ جب چاہے اعمال کی جوابدہی کے لیے انہیں  میدان محشرمیں  اکٹھابھی کرسکتاہے ،اس کی قدرت ومشیت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اوریقیناًایک وقت مقررہ پروہ تمام اولین وآخرین جن وانس کومیدان محشرمیں جمع بھی کرے گا،لوگو!تم لوگوں  پر جو بھی بیماریاں ، مصائب، بلائیں  اورآفتیں آتی ہیں  وہ تمہارے اپنے گناہوں  کانتیجہ ہوتی ہیں  ،اللہ توظالم نہیں  ہے کہ خوامخواہ تم پرکوئی مصیبت ڈال دے،اس لیے ہوش کے ناخن لواورغوروفکرکروکہ جن ہستیوں کوتم اللہ کوچھوڑکر اپناکارسازاورمشکل کشاسمجھتے ہووہ تواتنی بے بس ولاچارہیں  کہ تمہارے علاقہ سے یہ قحط سالی دورنہیں  کرسکتیں کیاوہ قیامت کے روزتمہیں  اللہ کے عذاب سے بچالیں  گی؟ اللہ کی شان رحیمی تو یہ ہے کہ تمہارے بہت سی عام لغزشوں  اورحکم عدولیوں  سے ویسے ہی چشم پوشی فرماتااورانہیں  معاف کردیتا ہے،جیسے فرمایا

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ ۔۔۔۝۴۵ۧ [64]

ترجمہ:اگرکہیں  وہ لوگوں  کوان کے کیے کرتوتوں  پرپکڑتاتوزمین پرکسی متنفس کوجیتانہ چھوڑتا ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَأَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا یُصِیبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ یُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَایَاهُ

ابوسعیدخدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن جب بھی کسی پریشانی،بیماری ،رنج وملال ،تکلیف اورغم وحزن میں  مبتلاہوتاہےحتی کہ اس کے پیرمیں  کانٹابھی چبھتاہےتواللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔[65]

عَنْ مُعَاوِیَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ شَیْءٍ یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ فِی جَسَدِهِ یُؤْذِیهِ، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ عَنْهُ بِهِ مِنْ سَیِّئَاتِهِ

معاویہ بن ابوسفیان  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سناکہ مومن کواس کے جسم میں  ایذادینے والی جوچیزبھی پہنچے تواللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں  کاکفارہ بنادیتاہے۔[66]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كَثُرَتْ ذُنُوبُ الْعَبْدِ، وَلَمْ یَكُنْ لَهُ مَا یُكَفِّرُهَا مِنَ الْعَمَلِ، ابْتَلَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْحُزْنِ لِیُكَفِّرَهَا عَنْهُ

اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب بندے کے گناہ زیادہ ہوجائیں  اوراس کے پاس ان کاکفارہ بننے والی کوئی چیزنہ ہو تواللہ تعالیٰ اسے غم وحزن میں  مبتلافرمادیتاہے تاکہ اسے اس کے گناہوں  کاکفارہ بنادے۔

[67] اگر اللہ تعالیٰ تم پرکوئی مصیبت یاعذاب نازل کرناچاہے توتم اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں  بھاگ یاچھپ نہیں  سکتے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِیُعْجِزَهٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَلِــیْمًا قَدِیْرًا۝۴۴ [68]

ترجمہ:اللہ کوکوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں  ہے نہ آسمانوں  میں  اورنہ زمین میں ،وہ سب کچھ جانتاہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللہَ فِی الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًا۝۱۲ۙ [69]

ترجمہ:اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں  ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں  اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں ۔

اور اللہ کے مقابلے میں  تمہارا کوئی کارسازاورمددگارنہیں  ہے ۔

وَمِنْ آیَاتِهِ الْجَوَارِ فِی الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ ‎﴿٣٢﴾‏ إِن یَشَأْ یُسْكِنِ الرِّیحَ فَیَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ‎﴿٣٣﴾‏ أَوْ یُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا وَیَعْفُ عَن كَثِیرٍ ‎﴿٣٤﴾‏ وَیَعْلَمَ الَّذِینَ یُجَادِلُونَ فِی آیَاتِنَا مَا لَهُم مِّن مَّحِیصٍ ‎﴿٣٥﴾(الشوریٰ)
اور دریا میں  چلنے والی پہاڑوں  جیسی کشتیاں  اس کی نشانیوں  میں  سے ہیں  اگر وہ چاہے تو ہوا بند کر دے اور یہ کشتیاں  سمندروں  پر رکی رہ جائیں ،یقیناً اس میں  ہر صبر کرنے والے شکر گزار کے لیے نشانیاں  ہیں ، یا انہیں  ان کے کرتوتوں  کے باعث تباہ کر دے، وہ تو بہت سی خطاؤں  سے درگزر فرمایا کرتا ہےاور تاکہ جو لوگ ہماری نشانیوں  میں  جھگڑتے ہیں  وہ معلوم کرلیں  کہ ان کے لیے کوئی چھٹکارہ نہیں ۔

  سمندروں  کی تسخیرقدرت الٰہی کی نشانی :

یہ بھی اللہ کی قدرت تامہ کی دلیل ہے کہ اس نے ٹھاٹھیں  مارتے سمندر کومسخرکررکھاہے ،جس میں پہاڑوں  کی طرح اونچے بادبانی جہازجوسمندرمیں  ہواکے دوش پروزنی سامان لے کردوردرازملکوں  میں  جانے کے لیے رواں  دواں  ہوتے ہیں  ،اللہ جب چاہے اپنی مخلوق ہواکوساکن ہونے کاحکم فرما دے توان جہازوں  کے بادبان جہازکودھکیل ہی نہ سکیں  اوریہ جہازسمندرکی سطح پرکھڑے کے کھڑے رہ جائیں ،اس میں  بڑی نشانیاں  ہیں  ہراس شخص کے لئے جوہرحالت میں اپنے نفس پرقابورکھتاہو اورجوخوشحالی وبدحالی دونوں  حالتوں  میں  اپنے رب کاشکرگزارہو ،یاوہ ہواؤں  کوناموافق کردے اوریہ بڑے بڑے جہازمتلاطم موجوں  پرتنکوں  کی طرح ادھرادھرڈولنے لگیں  اورپھرسب سمندروں  میں  غرق ہوجائیں اس وقت ،منکرین حق کوپتہ چل جائے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بھاگ کرکہیں  چھپ سکتے ہیں  اورنہ اس سے چھٹکاراہی حاصل کرسکتے ہیں مگریہ اس کاحلم اوراس کی بے پایاں  رحمت ہی ہے کہ وہ بندوں  کے بہت سے گناہوں  کومعاف کردیتاہے اور ان جہازوں  کورواں  دواں  رکھنے کے لیے موافق ہوائیں  چلاتاہے ۔

فَمَا أُوتِیتُم مِّن شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَیْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَالَّذِینَ یَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ یَغْفِرُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَالَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَیْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَالَّذِینَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْیُ هُمْ یَنتَصِرُونَ ‎﴿٣٩﴾(الشوریٰ)
تو تمہیں  جو کچھ دیا گیا وہ زندگانی دنیا کا کچھ یونہی سا اسباب ہے، اور اللہ کے پاس جو ہے وہ اس سے بدرجہ بہتر اور پائیدار ہے،  وہ ان کے لیے ہے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں  اور کبیرہ گناہوں  سے اور بےحیائیوں  سے بچتے ہیں  اور غصے کے وقت (بھی) معاف کردیتے ہیں  اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں  اور نماز کی پابندی کرتے ہیں ، اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں  دے رکھا ہے اس میں  سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں  اور جب ان پر ظلم (و زیادتی) ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں ۔

 دنیاآخرت کی کھیتی ہے:

اے لوگو!اللہ نے تمہیں  اقتدار،ریاست،سرداری ، اولاد،مال ودولت اورصحت وعافیت عطافرمائی ہے ،یہ بہت معمولی وحقیر اور عارضی وفانی نعمتیں ہیں ،اس لیے ان کے دھوکے میں  مبتلانہ ہوجانا جبکہ اللہ کے ہاں  نیکیوں  کاجوبے پایاں  ثواب،جلیل القدراوردائمی نعمتوں  ملیں  گی وہ لذات دنیاسے کہیں  زیادہ بہتر اور پائیدارہیں ،اخروی نعمتوں  اوردنیاوی لذتوں  کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں  ،اس لیے دنیاکے عارضی فائدوں  کوآخرت کی دائمی نعمتوں  پرترجیح نہ دو، اوریہ پائیدار نعمتیں  ان لوگوں کے لئے لکھ دی گئی ہیں  جواللہ تعالیٰ پرغیرمتزلزل ایمان اوراس کی رہنمائی پرکامل اعتمادرکھتے ہیں ، جولوگ حقوق اللہ ،حقوق والدین ،حقوق العباد وغیرہ کو اداکرکے کبیرہ گناہوں  سے بچتے ہیں  ،وہ لوگ جب انہیں  کسی کے قول یافعل پرغصہ آجائے توغیض وغضب میں  بھی اللہ کے بندوں  سے درگزر ،چشم پوشی اورحسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں ، جیسےفرمایا

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴وَمَا یُلَقّٰىهَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا۝۰ۚ وَمَا  یُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۝۳۵ [70]

ترجمہ:تم بدی کواس نیکی سے دفع کروجوبہترین ہو،تم دیکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے،یہ صفت نصیب نہیں  ہوتی مگران لوگوں  کوجوصبرکرتے ہیں  اوریہ مقام حاصل نہیں  ہوتامگران لوگوں  کوجوبڑے نصیبے والے ہیں ۔

چنانچہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی عفوودرگزرکی ایک مکمل تصویرتھی ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے غورث بن حارث کومعاف فرمادیا جس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے وقت آپ کی تلوار پرقبضہ کرلیاتھااور

حَتَّى قَامَ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّیْفِ مَنْ یَمْنَعُكَ مِنِّی؟ قُلْتُ: اللَّهُ،فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِهِ،  فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُكَ مِنِّی؟ثُمَّ لَمْ یُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم

َبرہنہ تلواررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سرپرلہراکرکہاتھااب آپ کو کون میرے ہاتھ سے بچاسکتاہے ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ مجھے تیرے ہاتھ سے بچاسکتاہےتوخوف سے اس کے ہاتھ سے تلوارگرگئی،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلواراٹھالی اوراس سے پوچھا اب تمہیں  کون  میرے ہاتھ سے بچائے گا ؟ووہ سرجھکاکر کھڑاہو گیا ، مگررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے کوئی بدلہ نہیں  لیااوراسے جانے دیا۔[71]

اورجب مرحب یہودی کی بہن زینب نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کوغزوہ خیبرکے موقعہ پر بکرے کی دستی پرزہرلگاکردیاتھامگرآپ نے اس سے بدلہ لینے کی قدرت ہونے کے باوجوداسے معاف فرمادیا تھا،حدیبیہ میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ۸۰آدمیوں  کو بدلہ لینے کی قدرت ہونے کے باوجودمعاف فرمادیاجنہوں  نے آپ کے خلاف سازش تیارکی تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیدبن اعصم یہودی جس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پرجادوکیاتھا سے بدلہ لینے کی قدرت ہونے کے باوجود کوئی بدلہ نہیں  لیا،اورفتح مکہ کے موقعہ پراپنے خون کے پیاسوں  کو بدلہ لینے کی قدرت ہونے کے باوجودعام معافی دے دی ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَهُمَا، مَا لَمْ یَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِی شَیْءٍ قَطُّ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَیَنْتَقِمَ بِهَا لِلَّهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےجب بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کودوچیزوں  میں  سے ایک کواختیارکرنے کااختیاردیاگیاتوآپ نے ہمیشہ ان میں  آسان چیزوں  کواختیارکیا بشرطیکہ اس میں  گناہ کاکوئی پہلونہ ہوتااگراس میں  گناہ کاکوئی پہلوہوتاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے سب سے زیادہ دورہونے والے ہوتے تھےاورسیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں  لیا سوائے اس کے کہ اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی حرمتوں  میں  سے کسی حرمت کوتوڑتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے تومحض اللہ کے لئے انتقام لیتے تھے۔[72]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمْ یَكُنِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبَّابًا، وَلاَ فَحَّاشًا، وَلاَ لَعَّانًا، كَانَ یَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ المَعْتِبَةِ:مَا لَهُ تَرِبَ جَبِینُهُ

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نہ گالی دیتے،نہ بدگوتھے اورنہ بدخوتھے اورنہ لعنت ملامت کرتے تھے ، اگر ہم میں  سے کسی پرناراض ہوتے تواتنافرماتےاسے کیاہوگیاہے اس کی پیشانی پرخاک لگے۔[73]

وہ لوگ جواپنے رب کی پکار پرلبیک کہتے اوراطاعت کرتے ہیں  ، جولوگ رب کی یادکے لئے اپنے وقت پرخشوع وخضوع کے ساتھ نمازقائم کرتے ہیں ،جولوگ خودکوعقل کل اوراپنی رائے کوحرف آخرسمجھنے اوراسے مسلط کرنے کے بجائے اپنے دینی اوردنیاوی معاملات اہل رائے کے ساتھ اپنے بہترین علم اورایمان وضمیرکے مطابق طے کرتے ہیں  ، ایک مقام پرفرمایا

وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۝۱۵۹ [74]

ترجمہ:اوردین کے کام میں  ان کوبھی شریک مشورہ رکھو۔

چنانچہ جیسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جہادوغیرہ کے موقع پراہل رائے سے(جومعاملے کی نزاکتوں  اورضرورتوں  کوسمجھتے تھے) مشاورت فرماتے تھے ،اسی طرح سیدناعمر رضی اللہ عنہ  نے بسترمرگ پرجانشین بنانے کے لئے چھ جلیل القدرصحابہ سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ ،سیدنا علیٰ  رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ ، سعد رضی اللہ عنہ  اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ  کومشورے کے لئے نامزدفرمایاچنانچہ مشاورت کے بعداس کمیٹی نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کوخلیفہ مقررکردیا ، جو لوگ اللہ کاعطا فرمایا ہو ا پاکیزہ رزق سینت سینت کررکھنے ،یا صرف اپنی ذات پرہی خرچ نہیں  بلکہ اس کے بجائے فی سبیل اللہ یتیموں ،مسکینوں ،بیواؤں ،محتاجوں وغیرہ پر بھی خرچ کرتے ہیں  ، اور اگر کوئی اپنی طاقت کے زعم میں ،ان کی نرم مزاجی،درگزروچشم پوشی کوان کی کمزوری سمجھ کر ان پردست درازی کرے تویہ ایسے ذلیل ،پست اوربے زورنہیں  ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی کوئی روک تھام نہ کرسکیں  بلکہ ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں  اورظالموں  کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں ۔

وَجَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَیْهِم مِّن سَبِیلٍ ‎﴿٤١﴾‏ إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَى الَّذِینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٤٢﴾ ﴿٤٢﴾‏ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ‎﴿٤٣﴾‏(الشوریٰ)
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے، اور جو معاف کردے اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالیٰ ظالموں  سے محبت نہیں  کرتا، اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں  پر (الزام) کا کوئی راستہ نہیں ، یہ راستہ صرف ان لوگوں  پر ہے جو خود دوسروں  پر ظلم کریں  اور زمین میں  ناحق فساد کرتے پھریں  یہی لوگ  ہیں  جن کے لیے دردناک عذاب ہے، اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً  یہ بڑی ہمت کے کاموں  میں  سے (ایک کام) ہے۔

اصولی طورپرجیسی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہواس کابدلہ ویسی ہی برائی ہے ،اس سے زیادہ کاوہ حقدارنہیں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ  ۔۔۔ ۝۱۹۴ [75]

ترجمہ:لہذاجوکوئی تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پردست درازی کرو۔

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ۔۔۔۝۱۲۶  [76]

ترجمہ:اوراگرتم لوگ بدلہ لوتوبس اسی قدرلوجس قدرتم پر زیادتی کی گئی ہو۔

بیشک زیادتی کرنے والے سے بدلہ لیناجائزہے مگرپھرجوکوئی کڑواگھونٹ پی کر معاف کردے اورصلح وصفائی کرلے تویہ بہترہے اور اس کااجرعظیم اورثواب جزیل اللہ تعالیٰ عطافرمائے گا ،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَكَفَّارَةٌ لَّهٗ۔۔۔۝۰۝۴۵ [77]

ترجمہ: پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تووہ اس کے لیے کفارہ ہے۔

اوراللہ اس کی عزت اوربڑھادیتاہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ، إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصدقہ دینے سے کوئی مال گھٹتانہیں ،اورجوبندہ معاف کر دیتاہے اللہ اس کی عزت بڑھاتاہےاورجوبندہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کادرجہ بلندکرتاہے۔[78]

دوسروں  پرزیادتی کرنے میں  ابتداکرنے والے اوراس کے جرم سے بڑھ کربدلہ لینے والے ظالموں  کواللہ پسند نہیں  کرتا ، اور جولوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں  ان کوملامت نہیں  کی جاسکتی،ملامت کے مستحق تووہ ہیں  جو دوسروں  پرظلم کرتے ہیں  اورزمین میں  ناحق زیادتیاں  کرتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِئِ، مَا لَمْ یَعْتَدِ الْمَظْلُومُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادوگالیاں  دینے والے جوکہیں  اس کاگناہ ابتداکرنے والے پرہے بشرطیکہ مظلوم حدسے تجاوزنہ کرے۔[79]ایسے لوگوں  کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے،البتہ جوشخص کسی کے ایذاپر صبرسے کام لے اورمعاف کردے تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں  میں  سے ہے۔

‏ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن وَلِیٍّ مِّن بَعْدِهِ ۗ وَتَرَى الظَّالِمِینَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ یَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِیلٍ ‎﴿٤٤﴾‏ وَتَرَاهُمْ یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا خَاشِعِینَ مِنَ الذُّلِّ یَنظُرُونَ مِن طَرْفٍ خَفِیٍّ ۗ وَقَالَ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ الْخَاسِرِینَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِیهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ الظَّالِمِینَ فِی عَذَابٍ مُّقِیمٍ ‎﴿٤٥﴾‏ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنْ أَوْلِیَاءَ یَنصُرُونَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۗ وَمَن یُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن سَبِیلٍ ‎﴿٤٦﴾‏(الشوریٰ)
’’اور جسے اللہ تعالیٰ بہکا دے اس کا اس کے بعد کوئی چارہ ساز نہیں ، اور تو دیکھے گا کہ ظالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں  گے کہ کیا واپس جانے کی کوئی راہ ہے، اور تو انہیں  دیکھے گا کہ وہ (جہنم کے) سامنے لا کھڑے کئے جائیں  گے مارے ذلت کے جھکے جا رہے ہوں  گے اور کن آنکھوں  سے دیکھ رہے ہونگے، ایمان دار صاف کہیں  گے کہ حقیقی زیاں  کار وہ ہیں  جنہوں  نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں  کو نقصان میں  ڈال دیا، یاد رکھو کہ یقیناً ظالم لوگ دائمی عذاب میں  ہیں ، ان کے کوئی مددگار نہیں  جو اللہ سے الگ ان کی امداد کرسکیں ، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں ۔

 اللہ تعالیٰ سے کوئی پوچھنے والانہیں  :

جب اللہ ہی کسی کواس کے ظلم کے سبب سے اپنے دروازے سے دھتکاردے تواللہ کے سوااسے راہ راست پرلانے کاکون ذمہ لے سکتا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔مَنْ یَّهْدِ اللهُ فَهُوَالْمُهْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ [80]

ترجمہ:جس کواللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والاہے اورجسے اللہ بھٹکادے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشدنہیں  پاسکتے۔

اس دنیامیں یہ ظالم محض تعصبات،بغض وعناد،فخروغروراور معمولی سے مفادات کے پیش نظر دعوت حق پرایمان نہیں  لاتے ،لیکن میدان محشرمیں جہاں  ایک طرف جہنم غیض وغضب سے پھٹی جارہی ہوگی اوراس میں  سے خوفناک آوازیں  نکل رہی ہوں  گی ،جیسے فرمایا

اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِىَ تَفُوْرُ۝۷ۙتَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۝۸ [81]

ترجمہ:جب وہ اس میں  پھینکے جائیں  گے تو اس کے دھاڑنے کی ہولناک آوازیں  سنیں  گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی،شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔

اوردوسری طرف جنت پوری دل فریبیوں  ، رعنائیوں کے ساتھ نظرآرہی ہوگی،جیسے فرمایا

وَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ۝۱۳۠ۙ [82]

ترجمہ:اور جب جنت قریب لائی جائے گی۔

اللہ تعالی ٰعدل وانصاف کے تمام تقاضوں  کوپوراکرکے تمام جن وانس کے اعمال و مقدمات کے فیصلے فرمادے گا،اس وقت ساری خلقت کے سامنے مجرموں  کے چہروں  پر ذلت برس رہی ہو گی،ذلت وندامت کے مارے وہ جھکے جارہے ہوں  گے، جیسے فرمایا:

خَاشِعَةً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّةٌ۔۔۔۝۴۴ۧ [83]

ترجمہ:ان کی نگاہیں  جھکی ہوئی ہوں  گی، ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔

خَاشِعَةً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّةٌ۔۔۔۝۴۳ [84]

ترجمہ:ان کی نگاہیں  نیچی ہوں  گی، ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔

اپنے کرتوتوں  پرحسرت وافسوس کااظہارکررہے ہوں  گے ،جیسے فرمایا

یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ۝۲۴ۚ [85]

ترجمہ:وہ کہے گا کہ کاش میں  نے اپنی اس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!۔

خوف زدہ اورحواس باختہ ہوکرجہنم کے ہولناک اورقبیح منظرکوگوشہ چشم سے دیکھیں  گے تولرزجائیں  گے،جہنم کی ہیبت اورخوف کی شدت سے ان کی آنکھیں  نیلی پڑجائیں  گی ،جیسے فرمایا:

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۝۷ۙ [86]

ترجمہ:پھر جب دیدے پتھرا جائیں  گے۔

اوران کے دل ان کے حلق میں  پھنس رہے ہوں  گے کہ اب ہم اس میں  داخل ہونے والے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۔۔۔۝۱۸ۭ [87]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ڈرا دو ان لوگوں  کو اس دن سے جو قریب آ لگا ہے جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں  گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہونگے۔

۔۔۔یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۝۳۷ۤۙ [88]

ترجمہ:وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں  جس میں  دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی ۔

اللہ کے حکم سے مجرموں  کوگلے میں  طوق ڈال کراورسترہاتھ لمبی زنجیروں  میں  جکڑ کرمنہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم کے قریب لایاجائے گا،جیسے فرمایا

 خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ۝۳۰ۙثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ۝۳۱ۙثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْہُ۝۳۲ۭ [89]

ترجمہ:(حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں  طوق ڈال دوپھر اسے جہنم میں  جھونک دوپھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں  جکڑ دو ۔

 اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝۰ۭ یُسْحَبُوْنَ۝۷۱ۙفِی الْحَمِیْمِ۝۰ۥۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ۝۷۲ۚ [90]

ترجمہ:جب طوق ان کی گردنوں  میں  ہوں  گے اور زنجیریں جن سے پکڑ کر وہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں  گے اور پھر دوزخ کی آگ میں  جھونک دیے جائیں  گے۔

اس وقت یہ اللہ تعالیٰ سے التجاکریں  گے کہ انہیں  دنیامیں  عمل صالح اختیارکرنے کے لئے واپس بھیج دیاجائے،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷ [91]

ترجمہ:کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھرے کیے جائیں  گے اس وقت وہ کہیں  گے کاش کوئی صورت ایسی ہوکہ ہم دنیامیں  واپس بھیجے جائیں  اوراپنے رب کی نشانیوں  کونہ جھٹلائیں  اورایمان لانے والوں  میں  شامل ہوں ۔

کیونکہ دنیامیں  دوبارہ واپسی ممکن نہیں  ہوگی اس لئے ان کی یہ گزارش ردکردی جائے گی ، اس وقت اہل ایمان مجرمین کودیکھ کر کہیں  گے دنیامیں  ہم دنیاوی کام بھی کرتے تھے مگرہم اس میں  الجھ کرنہیں  رہ گئے تھے بلکہ ہماری زیادہ تر تگ ودوصرف آخرت کی کامیابی وکامرانی کے لئے تھی اس لئے ہم دنیاکے معمولی خسارے کوکوئی اہمیت نہیں  دیتے تھے ،اس وقت تم لوگ ہمیں  بیوقوف اوردنیوی خسارے کاحامل سمجھتے تھے اورہم پرآوازے کستے تھے، مگرآج دیکھ لوحقیقی خسارے سے کون دو چارہے ،کیاوہ جنہوں  نے دنیاکے عارضی خسارے کونظراندازکیے رکھااورآج وہ جنت میں  لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  کے مزے لوٹ رہے ہیں ؟ یاوہ جنہوں  نے دنیاہی کوسب کچھ سمجھ رکھاتھااوردنیاکی رنگینیوں  میں  غرق ہوگئے تھے اورآج ایسے جہنم کے دردناک عذاب میں  گرفتارہیں  جس سے اب چھٹکاراممکن ہی نہیں ؟ لوگو!خبردارہوجاؤ،وہ لوگ جواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت قبول نہیں  کرتے،جواللہ کی اس جلیل القدرکتاب قرآن کریم سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنے من مانے اصول وقوانین بناتے ہیں  وہ دائمی ،ابدی اورسرمدی عذاب کے لئے جہنم میں  دھکیل دیے جائیں  گے،جہاں  اللہ کے مقابلے میں ان کاکوئی حامی یا مددگارنہ ہوگا ، جسے اللہ گمراہی میں  پھینک دے پھر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل کرنے کی کوئی سبیل نہیں  ہے۔

اسْتَجِیبُوا لِرَبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۚ مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ یَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُم مِّن نَّكِیرٍ ‎﴿٤٧﴾(الشوریٰ)
اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے ، تمہیں  اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی ۔

اے لوگو!اس سے پہلے کہ تمہیں  موت آئے یاقیامت ہی ٹوٹ پڑے ،مہلت کی ان گھڑیاں  کوغنیمت جانواور اس سے فائدہ اٹھالو اورکچھ تاخیرکیے  بغیرکفروشرک سے تائب ہوکراپنی دنیاوی و اخروی زندگی کی کامیابی وسربلندی کے لئے دعوت حق کوقبول کرلو،اوراپنی زندگیوں  کواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے فرامین کے تابع کرلو،وہ علام الغیوب ہے اس لیے تمہارے فائدوں  اورنقصانات کوتم سے زیادہ جانتاہے اس لیے وہ جس بات کاحکم دے چاہے تمہیں  اس کی غرض وغایت سمجھ آئے یانہ آئے اس کی بخوشی تعمیل کرواورجس چیزسے روک دے بغیرچوں  وچراں کیے اس سے فوراً اجتناب کرو، اللہ کے حکم سے یقیناًایک وقت مقررہ پر قیامت قائم ہوگی پھرنہ خوداللہ اسے موخرکرے گا اور نہ کسی مخلوق میں  یہ طاقت وقدرت ہے کہ اسے ردیا ٹال سکے ،وہ ایساسخت دن ہوگاجس میں  تمہیں  کہیں  کوئی جائے پناہ یاکوئی راہ فرار نہ مل سکے گی اورنہ ہی کوئی ایسی جگہ ملے گی جہاں  جاکراللہ کی نظرسے چھپ سکو،جیسے فرمایا:

یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ۝۱۰ۚكَلَّا لَا وَزَرَ۝۱۱ۭاِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ۝۱۲ۭ [92]

ترجمہ:اس وقت یہی انسان کہے گاکہاں  بھاگ کرجاؤں ؟ہرگزنہیں ،وہاں  کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اس روزتیرے رب ہی کے سامنے جاکرٹھہرنا ہوگا ۔

فرشتے تمام خلائق کو پیچھے سے گھیرے ہوئے ہوں  گے اورانہیں  پکارکرکہاجائے گا۔

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ [93]

ترجمہ:اے گروہ جن وانس! اگرتم زمین اورآسمانوں  کی سرحدوں  سے نکل کربھاگ سکتے ہوتوبھاگ دیکھو،نہیں  بھاگ سکتےاس کے لیے بڑازور چاہیے ۔

پھرجب اللہ تعالیٰ چاہے گا اعمال کی جزاوسزاکے لئے تمہیں  تمہاری قبروں  سے اسی جسم وجان کے ساتھ دوبارہ زندہ فرمائے گا اور میدان محشرمیں  جمع کرے گا،کرامین کاتبین کے تیارکردہ تمہارے اعمال نامے تمہارے ہاتھ میں  پکڑادیے جائیں  گے ،اس روزتم اپنے نامہ اعمال میں  لکھے ہوئے جرائم کا اعتراف کروگے ، اور اگر اس اعمال نامہ کی صحت سے انکار کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے منہ پرمہرلگادے گااورتمہارے اعضا اورتمہاری کھالوں  کو زبان عطافرمادے گااوروہ تمہارے خلاف گواہی دیں  گے،اس لیے اعتراف گناہ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  ہوگا ،جیسے فرمایا

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰ [94]

ترجمہ:پھر جب سب وہاں  پہنچ جائیں  گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں  اور ان کے جسم کی کھالیں  ان پر گواہی دیں  گی کہ وہ دنیا میں  کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔

پھراللہ تعالیٰ گناہوں  کی پاداش میں  تمہیں جہنم کے دردناک عذاب میں  ڈال دے گا اوراس عذاب سے تمہیں  نجات دلانے والاکوئی مشفق دوست نہ ہوگا۔

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ۖ إِنْ عَلَیْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ ‎﴿٤٨﴾‏(الشوریٰ)
اگر یہ منہ پھیر لیں  تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں  بھیجا آپ کے ذمہ تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے، ہم جب کبھی انسان کو اپنی مہربانی کا مزہ چکھاتے  ہیں  تو وہ اس پر اترا جاتا ہے ،اور اگر انہیں  ان کے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو بیشک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔

 آسانی میں  شکر،تنگی میں  صبرمومنوں  کی صفت ہے:

اب اگریہ لوگ واضح دلائل وبراہین کے باوجود دعوت حق کوقبول نہیں  کرتے تواے نبی! ہم نے تم کوان پرنگہبان بناکرتونہیں  بھیجا ہے،تم پرتوصرف اللہ کا پیغام پہنچادینے کی ذمہ داری ہے،اس دعوت پرایمان لائیں  یا روگردانی کریں  اس کاحساب ہم خودکریں  گے،اللہ نے ان کے صغیرہ وکبیرہ ، ظاہری اورباطنی اعمال کومحفوظ کر رکھا ہے، آپ سے اس کے بارے میں  کوئی بازپرس نہیں  کی جائے گی جیسےفرمایا

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰۔۔۔ ۝۲۷۲ [95]

ترجمہ:اے نبی !لوگوں  کوہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پرنہیں  ہےہدایت تواللہ ہی جسے چاہتاہے بخشتا ہے۔

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭلَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۙ [96]

ترجمہ:اچھاتو(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)نصیحت کیے جاؤ،تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہوکچھ ان پر جبرکرنے والے نہیں  ہو۔

فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰  [97]

ترجمہ:بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے ۔

انسانوں  کی غالب اکثریت میں  یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ جب ہم اپنی رحمت سے اسے رزق کی فراوانی،صحت وعافیت،اولادکی کثرت اورجاہ ومنصب عنایت کرتے ہیں  تواس پراللہ کا شکر گزار ہونے کے بجائے غروروتکبرمیں  مبتلاہوجاتاہے اوراگراس کے گناہوں  کے نتیجے میں  اس پرمال کی کمی ،بیماری ،اولادسے محرومی وغیرہ کی صورت میں کوئی مصیبت الٹ پڑتی ہے تواس پر صبر کرنے کے بجائے اگلی نعمتوں  کابھی منکربن جاتاہے ،مگراہل ایمان کایہ شیوہ نہیں  ہے وہ ہرحال میں  اپنے رب کاشکربجالاتے ہیں  ،

  عَنْ صُهَیْبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَفَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَیْرًا لَهُ

صہیب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کابھی عجب حال ہے اس کاثواب کہیں  نہیں  گیا،یہ بات کسی کوحاصل نہیں  ہے اگراس کوخوشی حاصل ہوتووہ شکرکرتاہے اس میں  بھی ثواب ہے اورجواس کونقصان پہنچاتوصبرکرتاہے اس میں  بھی ثواب ہے۔[98]

لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ۚ یَهَبُ لِمَن یَشَاءُ إِنَاثًا وَیَهَبُ لِمَن یَشَاءُ الذُّكُورَ ‎﴿٤٩﴾‏ أَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَیَجْعَلُ مَن یَشَاءُ عَقِیمًا ۚ إِنَّهُ عَلِیمٌ قَدِیرٌ ‎﴿٥٠﴾(الشوریٰ)
آسمانوں  کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں  دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں  جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں  بھی اور جسے چاہے بانجھ کردیتا ہے، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔

 اولادکااختیاراللہ کے پاس ہے :

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی زمین اورآسمانوں  کاخالق ، بادشاہی کامالک ہے اورمتصرف ہے،اس کی سلطنت میں اسی کی ہی مشیت اورتدبیرکام کرتی ہے ،کوئی دوسرااس کی قدرت واختیارمیں  دخل اندازی کی طاقت نہیں  رکھتا،کائنات میں  اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اوراس میں  تصرف کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ وہ مخلوق میں کسی کوصرف بیٹیاں  دیتاہے،

یَعْنِی لُوطًا لَمْ یُولَدْ لَهُ ذَكَرٌ إِنَّمَا وُلِدَ لَهُ ابْنَتَانِ

امام بغوی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسے لوگوں  میں  لوط علیہ السلام  بھی ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے صرف بیٹیوں  ہی سے نوازاتھا۔[99]

کسی کو صرف لڑکے عطافرماتاہے،

یَعْنِی إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ لَمْ یُولَدْ له أنثى

امام بغوی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل علیہ السلام  کوبیٹوں  ہی سے نوازا۔[100]

کسی کوبیٹیاں  اور بیٹے دونوں  عطاکردیتاہے ،

یَعْنِی مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وُلِدَ لَهُ بَنُونَ وَبَنَاتٌ

امام بغوی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جیسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوبیٹے بھی عطافرمائے اوربیٹیاں  بھی۔ [101]

اورکسی کو بانجھ رکھتا ہے ،

یَحْیَى وَعِیسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ لَمْ یُولَدْ لَهُمَا

امام بغوی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں جیسے یحییٰ اورعیسیٰ علیہ السلام جن کے ہاں  کوئی اولادنہیں  ہوئی۔[102]

وہ علیم ہے اورہرمستحق کوجانتا اور کامل قدرت والاہے

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن یُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ بِإِذْنِهِ مَا یَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِیٌّ حَكِیمٌ ‎﴿٥١﴾‏ وَكَذَٰلِكَ أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِی مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِی بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِی إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٥٢﴾‏ صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِیرُ الْأُمُورُ ‎﴿٥٣﴾‏(الشوریٰ)
ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے،اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں  جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں  میں  جس کو چاہتے ہیں  ہدایت دیتے ہیں ، بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں ، اس اللہ کی راہ جس کی ملکیت میں  آسمانوں  اور زمین کی ہر چیز ہے، آگاہ رہو سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں ۔

 قرآن حکم شفاہے :

اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولوں  کی تکذیب کرنے والے اپنے تکبروسرکشی میں کہتے تھے کہ اللہ خودہم سے روبروگفتگوکرے پھرہم ایمان لائیں  گے،جیسےفرمایا:

۔۔۔لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللهُ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَةٌ۔۔۔  ۝۱۱۸ [103]

ترجمہ:نادان کہتے ہیں  کہ اللہ خودہم سے بات کیوں  نہیں  کرتایاکوئی نشانی ہمارے پاس کیوں  نہیں  آتی؟۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبے کوردکردیااورفرمایا کسی بشرکایہ مقام نہیں  ہے کہ اللہ اس سے روبروبات کرے یاتووہ کسی پیغام کواپنے رسول کے دل میں القاکر دیتاہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،  قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:وَإِنَّ الرُّوحَ الأَمِینَ نَفَثَ فِی رُوعِی، أَنَّهُ لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ حَتَّى تَسْتَوْفِیَ رِزْقَهَافَاتَّقُوا اللَّهَ، وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاروح القدس نے میرے دل میں  یہ بات پھونکی ہے کہ کوئی نفس اس وقت ترک ہرگزفوت نہیں  ہوگاجب تک وہ اپنے رزق اورعمرکوپورانہیں  کرلیتا خبردار!پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرواوراچھے طریقے سے رزق تلاش کرو۔[104]

یاوہ پس پردہ  بالمشافہ کلام کرتا ہے ،جیساکہ کوہ طورپر موسیٰ علیہ السلام  سے پس پردہ گفتگوفرمائی،اور معراج کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پس پردہ بالمشافہ گفتگوفرمائی ،جب عبداللہ  رضی اللہ عنہ  غزوہ احدمیں  شہیدہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے فرمایا

قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ(وَأَنَّهُ ) وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا

اللہ تعالیٰ نے ہرشخص سے پس پردہ کلام فرمایا مگر تمہارے والدسے آمنے سامنے کلام فرمایا۔[105]

قوسین والالفظ مستدرک حاکم میں  ہے۔

یاپھروہ وحی کولانے پرمامور جبریل امین یاکسی اورفرشتہ کے ذریعہ پیغام بھیجتاہے ،جواپنے رب کے حکم سے وحی القاکرتاہے ،اللہ تعالیٰ اس سے بہت برتراوربالاہے کہ کسی بشرسے روبروگفتگو کرے اوروہ تمام مخلوقات اورشرائع میں  سے ہر چیز کو اس کے لائق مقام پررکھنے میں  حکمت والاہے ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح پہلے انبیاء ومرسلین پرہم وحی کرتے رہے ہیں اسی طرح ہم نے بندوں  پراحسان فرماتے ہوئے اس قرآن کریم کوتینوں  طریقوں  سے آپ کی طرف اتارا ہے ،منصب نبوت پرسرفرازہونے سے قبل آپ کے تصورمیں  بھی نہ تھاکہ آپ کوکتاب ملنے والی ہے بلکہ آپ کوسرے سے سابقہ آسمانی کتب کا علم تھااورنہ شرائع الہیہ پرایمان وعمل کاعلم تھا لیکن ہم نے اس قرآن کونوراورہدایت بنادیاتاکہ اس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایمان داربندوں  کوراہ راست دکھلائیں مگرجولوگ خودہی اپنی عقل وفہم کو بروے کارنہ لائیں  انہیں  اس سے کوئی ہدایت نہیں  مل سکتی،جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَعَلَیْهِمْ عَمًى۔۔۔۝۰۝۴۴ۧ [106]

ترجمہ :ان سے کہویہ قرآن ایمان لانے والوں  کے لیے توہدایت اور شفاہے مگر جولوگ ایمان نہیں  لاتے ان کے لیے یہ کانوں  کی ڈاٹ اورآنکھوں  کی پٹی ہے۔

آپ ان کے سامنے انتہائی خلوص کے ساتھ دین اسلام کی تعلیمات کوواضح کرتے ہیں  اور یہ وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کے لئے پسندفرمایاہے ،جیسے فرمایا

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۔۔۔۝۱۹ [107]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۸۵ [108]

ترجمہ:اس فرماں  برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں  وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

۔۔۔اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔۝۳  [109]

ترجمہ:آج میں  نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اور یہ وہ سیدھاراستہ ہے جواللہ کی رضاوخوشنودی کاباعث ہے  اوراس کے عزت وتکریم کے گھرتک پہنچاتاہے ، روزقیامت تمام اچھے اوربرے معاملات کافیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں  ہوگااوروہ ہرایک کواس کے عمل کی جزدے گااگرعمل اچھا ہوگاتواس کی جزابھی اچھی ہی ملے گی اوراگربراعمل ہوگاتوبری جزاہوگی۔

[1] الاعلی۱۷تا۱۹

[2] الرعد۹

[3] سبا۲۳

[4] مریم ۸۸تا۹۳

[5] المومن۷تا۹

[6] ھود۱۰۳تا۱۰۵

[7] مسنداحمد۶۵۶۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْقَدَرِ بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا لأَهْلِ الجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ۲۱۴۱،السنن الکبری للنسائی۱۱۴۰۹،سلسلة الأحادیث الصحیحة وشیء من فقهها وفوائدها۸۴۸

[8] مسنداحمد۱۷۵۹۳

[9] البقرة۲۵۷

[10] المائدة۱۶

[11] الحدید۹

[12] النسائ۵۹

[13] الاحزاب ۳۶

[14] الاعراف۳

[15] الفاتحة۴

[16] ھود۱۲۳

[17] فاطر۲

[18] الانبیائ۲۵

[19] البینة۵

[20] المائدة۴۸

[21] صحیح بخاری کتاب احادیث بَابُ قَوْلِ اللَّهِ وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا۳۴۴۳،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ ۶۱۳۰،مسنداحمد۱۰۲۵۸

[22] آل عمران۱۰۳

[23] الروم۳۱،۳۲

[24] ھود۸۷

[25] الزمر۴۵

[26] ص۴،۵

[27] المائدہ ۱۵،۱۶

[28] العنکبوت۴۶

[29] یونس۴۱

[30] البقرة ۱۳۹

[31] ھود۳۵

[32] سبا۲۶

[33] تفسیرابن کثیر۱۹۶؍۷

[34] تفسیرابن کثیر۱۹۶؍۷

[35] الحدید۲۵

[36] الرحمٰن۷تا۹

[37] المومنون۶۰

[38] ھود۶

[39] الزمر۵۲

[40] سبا۳۹

[41] الروم۳۷

[42] العنکبوت۶۲

[43] بنی اسرائیل۱۹

[44] بنی اسرائیل ۱۸

[45] ھود۱۵،۱۶

[46] مسنداحمد۲۱۲۲۰

[47] الزخرف۶۸تا۷۰

[48] مسند احمد ۸۱۴۳

[49] ق۳۵

[50] حم السجدة۳۱

[51] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الشوری بَابُ قَوْلِهِ إِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبَى ۴۸۱۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ حم عسق ۳۲۵۱، مسند احمد ۲۵۹۹

[52] النسائ۴۰

[53] الحاقة ۴۳تا ۴۷

[54]الانبیائ۱

[55] القصص۷۵

[56] النسائ۱۱۰

[57] صحیح مسلم کتاب التوبة  بَابٌ فِی الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا۶۹۶۰، شرح السنة للبغوی ۱۳۰۳

[58] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ التَّوْبَةِ ۶۳۰۸، صحیح مسلم کتاب التوبة بَابٌ فِی الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا۶۹۵۵ 

[59] تفسیرعبدالرزاق۱۶۱؍۳،السنن الکبری للنسائی۱۱۴۱۱

[60] تفسیرابن کثیر۲۰۵؍۷

[61] الروم۴۹

[62] الرعد۲

[63] لقمان۱۰

[64] فاطر۴۵

[65] صحیح بخاری کتاب المرضٰی بَابُ مَا جَاءَ فِی كَفَّارَةِ المَرَضِ ۵۶۴۲، صحیح مسلم کتاب البروصلة بَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِیمَا یُصِیبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ یُشَاكُهَا۶۵۵۹،مسند احمد ۸۰۲۷،شعب الایمان ۹۳۷۱، صحیح ابن ابی شیبة۱۰۸۰۶،مسندابی یعلی۱۲۳۷،شرح السنة للبغوی۱۴۲۱

[66] مسنداحمد۱۶۸۹۹

[67]مسنداحمد۲۵۲۳۶

[68] فاطر۴۴

[69] الجن۱۲

[70] حم السجدہ ۳۴،۳۵

[71]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ ۴۱۳۵، مسند احمد ۱۴۹۲۹،مستدرک حاکم ۴۳۲۲،صحیح ابن حبان ۲۸۸۳،مسندابی یعلی ۱۷۷۸

[72] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا  ۶۱۲۶ ، کتاب المناقب بَابُ صِفَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۵۶۰، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مُبَاعَدَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْآثَامِ وَاخْتِیَارِهِ مِنَ الْمُبَاحِ، أَسْهَلَهُ وَانْتِقَامِهِ لِلَّهِ عِنْدَ انْتِهَاكِ حُرُمَاتِهِ ۶۰۴۵،سنن ابوداودکتاب الادببَابٌ فِی التَّجَاوُزِ فِی الْأَمْرِ۴۷۸۵، مسند احمد ۲۴۸۳۰،شعب الایمان ۷۷۱۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۳۲۸۳،شرح السنة للبغوی ۳۷۰۳

[73] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ لَمْ یَكُنِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلاَ مُتَفَحِّشًا۶۰۳۱،وبَابُ مَا یُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ۶۰۴۶،مسنداحمد۱۲۴۶۳،شرح السنة للبغوی ۳۶۶۹

[74] آل عمران۱۵۹

[75] البقرة۱۹۴

[76]النحل ۱۲۶

[77] المائدة۴۵

[78] صحیح مسلم کتاب البروصلة بَابُ اسْتِحْبَابِ الْعَفْوِ وَالتَّوَاضُعِ۶۵۹۲،جامع ترمذی ابواب  البروالصلةبَابُ مَا جَاءَ فِی التَّوَاضُعِ۲۰۲۹،مسنداحمد۹۰۰۸،صحیح ابن خزیمة۲۴۳۸،صحیح ابن حبان ۳۲۴۸،شعب الایمان۳۱۳۸،سنن الدارمی ۱۷۱۸،السنن الکبری للبیہقی ۷۸۱۷، مسندابی یعلی ۶۴۵۸،شرح السنة للبغوی ۱۶۳۳

[79] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ النَّهْیِ عَنِ السِّبَابِ۶۵۹۱،مسنداحمد۷۲۰۵

[80] الکہف۱۷

[81] الملک۸

[82] التکویر۱۳

[83]المعارج۴۴

[84] القلم۴۳

[85] الفجر۲۴

[86] القیامة۷

[87] المومن۱۸

[88] النور۳۷

[89] الحاقة۳۲

[90] المومن۷۱،۷۲

[91] الانعام۲۷

[92] القیامة ۱۰تا۱۲

[93]الرحمٰن ۳۳

[94] حم السجدة۲۰

[95] البقرة ۲۷۲

[96] الغاشیة ۲۱، ۲۲

[97] الرعد۴۰

[98] صحیح مسلم کتاب الزھدبَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ ۷۵۰۰، مسنداحمد۲۳۹۲۴، صحیح ابن حبان۲۸۹۶،شعب الایمان۴۱۶۹

[99] تفسیرالبغوی۱۵۲؍۴

[100] تفسیرالبغوی۱۵۲؍۴

[101] تفسیرالبغوی۱۵۳؍۴

[102] تفسیرالبغوی۱۵۳؍۴

[103]  البقرة۱۱۸

[104] شرح السنة للبغوی۴۱۱۳

[105] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ   بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ۳۰۱۰،سنن ابن ماجہ  افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۹۰،جامع الأصول فی أحادیث الرسول ۶۶۳۰،مستدرک حاکم۴۹۱۴

[106] حم السجدہ۴۴

[107] آل عمران۱۹

[108] آل عمران۸۵

[109] المائدة۳

Related Articles