بعثت نبوی کا چھٹا سال

مضامین حم السجدہ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کے ایمان سے پہلے سردارقریش عتبہ کارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنااورمختلف لالچ دینا،جواب میں  یہ سورت تلاوت کی گئی۔

سورة کے آغازمیں فرمایاکہ یہ کتاب اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جوبے حدمہربان اورانتہائی رحم کرنے والاہے،اس قرآن کو عربی زبان میں  اس لیے نازل کیاگیا ہے تا کہ تم اس کی تہ تک باآسانی رسوخ حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حقداربن جاؤ،اب اس ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے والی کتاب کواگرتم لوگ زحمت قراردوتویہ تمہاری محرومی اور بدقسمتی ہے۔

xاہل مکہ کویہ اعتراض تھاکہ یہ شخص عربی میں  قرآن سناتاہے یہ توکوئی معجزہ نہیں  ہے، کوئی بھی صاحب فکراپنی زبان میں  ایک کلام تصنیف کرکے اسے من جانب اللہ منسوب کرسکتا ہے،جواب میں  ارشاد فرمایاکہ عربی زبان میں  قرآن نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ تم اس کے اسرارورموزاورمعارف و حکم کوخوب اچھی طرح سمجھ لو،اگریہ قرآن کسی عجمی زبان میں  ہوتا تو تمہیں  یہ اشکال ہوتاکہ یہ ہماری سمجھ سے بالاچیزہے،اب اگرتم اپنے دلوں  میں  اس کتاب کی حقانیت کے قائل ہوکر،اس کی آفاقیت کوپہچان کراس کاانکار کر دو تویہ تمہاری بدقسمتی ہے مگر عنقریب اس پیغام حق کوپھیلتے اورآفاق میں  غالب آتے ہوئے تم اپنی آنکھوں  سے دیکھ لوگے۔

xتم لوگ کہتے ہوکہ تمہارے کانوں  میں  ڈاٹ ،آنکھیں  بنداوردلوں  پرپردے پڑے ہوئے ہیں اس لیے اے نبی !ہمارے اورتمہارے درمیان ایک دیوارحائل ہوگئی ہے لہذانہ تو ہم تمہاری دعوت کو سمجھتے ہیں ،نہ سن سکتے ہیں  اورنہ ہی تجھے دیکھ پاتے ہیں  ، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم فرمایاکہ آپ اپنی شخصیت کاتعارف اوراپنی بعثت کا مقصد بتادیں  ، آپ برملا کہہ دیں  کہ میں  فرشتہ یاکوئی دوسری مخلوق ہونے کادعویٰ دارنہیں  ہوں ،میں  بشری تقاضے اورضروریات رکھنے والاتمہارے جیساانسان ہوں  لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی اور رسالت کے ساتھ امتیازبخشاہے ،ارشادہواکہ یادرکھومحمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاکام اس ہدایت کوتمہارے دلوں  میں  اتارنانہیں  بلکہ لوگوں تک اس پاکیزہ دعوت کوپوری امانت و دیانت کے ساتھ صاف صاف پہنچادینا ہے اور اگر تم علم وعقل کی راہ خودہی اپنے پر بندکرلوتوپھرتمہیں  کون سمجھاسکتاہے؟لیکن اس کے باوجودیادرکھوکہ تمہارا معبود برحق صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے،جس نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ عظیم الشان کائنات،بلندوبالاآسمان،ہموارزمین،بلندوبالاٹھوس پہاڑ،ستاروں  اور تمہارا رزق کو پیدا کیا ہے،اب اگران تمام نعمتوں  کے باوجود بھی تم کفرو شرک پرجمے رہوتوتمہاری یہ ہٹ دھرمی اوربغض وعنادتمہیں  پہلی زبردست اقوام قوم عادوثمود جیسے عذاب کی طرف لے جارہی ہے اوراس دنیاوی عذاب کے علاوہ آخرت میں  بازپرس الگ ہوگی اور تمہارے اعضاء اور جسم کی کھال بھی تمہارے خلاف گواہی دے گی۔

x بدقسمت انسان کی بابت فرمایاکہ یہ وہ شخص ہواکرتاہے جواور اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے آثار وبراہین دیکھ کراوراپنی عقل وفراست سے کام لے کرراہ ہدایت اختیار کو نہیں  کرتابلکہ شیاطین کے دکھائے گئے سبزباغ کودیکھ کردنیاکی رنگینیوں  میں  گم ہوجاتاہےاور اپنی گھٹیاچالوں  اورباطل اعمال کے ذریعے اہل حق کوشکست دینے کے خیال میں  مست رہتاہے ، حالانکہ باطل کسی صورت بھی حق پرغالب نہیں  آسکتاجبکہ حق ہمیشہ باطل پرغالب آکررہتاہے،اورقیامت کے روزان میں ہرایک کہے گاکہ جن لوگوں  نے مجھے راہ حق سے گمراہ کیاتھاوہ میرے ہاتھ لگ جائیں  توانہیں  اپنے پاؤں  میں  روندڈالوں ۔

xاہل ایمان کے خلاف ہونے والی مزاحمت اوردرپیش مشکلات سے نبردآزماہونے اورہمت افزائی کے لیے فرمایاکہ دشمنوں  کی اس کثرت اوران کے بے پناہ مظالم کا مطلب یہ ہرگزنہیں  کہ تم بے یارومددگارچھوڑدیئے گئے ہوبلکہ جوشخص بھی ایک دفعہ اللہ رب العالمین کواپنارب مان لے اوراس عقیدے اورمسلک پرمضبوطی سے جم جائے اس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے رحمت،سلامتی اوربرکت لے کراہل ایمان پرنازل ہوتے ہیں  اوراہل ایمان کے لیے استقامت کی دعاکرتے ہیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت افزائی کے لیے فرمایاکہ کفروشرک کی نمائشی سنگلاخ چٹانوں  کوہٹانے کے لیے بہترین ہتھیاراخلاق حسنہ ہے جس کے باعث ہرسنگلاخ چٹان ازخودپگھل کرتمہاراراستہ چھوڑدے گی۔

xاخلاق حسنہ کے ضمن میں  زکوٰة،استعانت باللہ،استغفار،توبہ،ایمان اوراعمال حسنہ کی تلقین ہے جبکہ شک،نفاق،ایمان سے اندھاپن اوربرے اعمال سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ تَنزِیلٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ‎﴿٢﴾‏ كِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٣﴾‏ بَشِیرًا وَنَذِیرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُونَ ‎﴿٤﴾‏ وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِی أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَیْهِ وَفِی آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَیْنِنَا وَبَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ ‎﴿٥﴾(حم السجدة)
حا، میم .اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے،( ایسی) کتاب جس کی آیتوں  کی واضح تفصیل  کی گئی ہے (اس حال میں  کہ) قرآن عربی زبان میں  ہے، اس قوم کے لیے جو جانتی ہے، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا ہے  پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ پھیرلیا اور وہ سنتے ہی نہیں ، اور انہوں  نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں  بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں  ہیں  اور ہمارے کانوں  میں  گرانی ہے اور ہم میں  اور تجھ میں  ایک حجاب ہے، اچھا تو اب اپنا کام کئے جا ہم بھی یقیناً کام کرنے والے ہیں ۔

حا، میم ،مشرکین بڑے زوروشورسے پروپیگنڈاکرتے تھے کہ یہ عظیم الشان کلام اللہ کی طرف سے نازل نہیں  ہوابلکہ محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )نے ہم پربڑائی حاصل کرنے کے لیے کچھ لوگوں  کی مددسے خودتصنیف کرلیاہے ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۝۰ۭ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ۝۱۰۳ [1]

ترجمہ:ہمیں  معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں  کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَہٗ۝۰ۚ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۝۳۳ۚفَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ۝۳۴ۭ [2]

ترجمہ:کیا یہ کہتے ہیں  کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں  لانا چاہتے،اگر یہ اپنے اس قول میں  سچے ہیں  تو اسی شان کا ایک کلام بنا لائیں  ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۔۔۔۝۸ [3]

ترجمہ:کیاان کاکہنایہ ہے کہ رسول نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ ۔

اَنّٰى لَہُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ۝۱۳ۙثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ۝۱۴ۘ [4]

ترجمہ:ان کی غفلت کہاں  دور ہوتی ہے؟ ان کا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس رسول مبین آگیا پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے۔

اللہ رب العزت نے تمہیدکے طورپرفرمایایہ جلیل القدر کتاب قرآن مجید محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف کردہ نہیں  بلکہ پہلی منزل کتابوں  کی طرح یہ کتاب بھی اللہ رحمان ورحیم نے نازل فرمائی ہے،جیسے فرمایا:

قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۝۱۰۲ [5]

ترجمہ:ان سے کہو کہ اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں  کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں  برداروں  کو زندگی کے معاملات میں  سیدھی راہ بتائے اور انہیں  فلاح و سعادت کی خوشخبری دے ۔

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙ [6]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے،اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تو ان لوگوں  میں  شامل ہو جو( اللہ کی طرف سے اس کی مخلوق کو)متنبہ کرنے والے ہیں ۔

یہ ایک ایسی کتاب ہےجو حق وباطل،صحیح وغلط عقائد،اچھے اوربرے اخلاق،نیکی اوربدی،صحیح اورغلط راہ وغیرہ ہرچیز کو پیچیدگی سے نہیں  بلکہ صاف صاف اور سادہ اندازمیں  بیان کرتی ہے،جیسے فرمایا:

الۗرٰ۝۰ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍ۝۱ۙ [7]

ترجمہ: فرمان ہے ،جس کی آیتیں  پختہ اور مفصل ارشادہوئی ہیں ،ایک دانااورباخبرہستی کی طرف سے ۔

جوواضح عربی زبان زبان میں  ہے،جیسے فرمایا:

بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۝۱۹۵ۭ [8]

ترجمہ:صاف صاف عربی زبان میں ۔

جن کے معانی مفصل اورعام فہم ہیں  ، اس قوم کے لئے جوعربی زبان ، اس کے معانی ومفاہیم اوراس کے اسرارواسلوب کوخوب جانتی ہے،اس کتاب سے دانالوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْہِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۲ۙ [9]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں  کوئی شک نہیں ہے،ہدایت ہے پرہیزگاروں  کے لئے ۔

مگراعراض کرنے والوں  کی گمراہی اور اندھے پن میں  اضافہ کرتی ہے،پہلی منزل کتابوں  کی طرح یہ کتاب بھی ان لوگوں  کوانواع و اقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت کی خوشخبری سناتی ہے جواس پرایمان لاتے ہیں ،اپنے عقائددرست کرتے ہیں ،آخرت پریقین رکھتے ہیں  اوراعمال صالحہ اختیارکرتے ہیں ،اورمشرکین ومکذین کوجہنم کے دردناک عذاب سے ڈرانے والی ہے ،چاہیے تویہ تھاکہ یہ لوگ اس کلام پر،اس کی فصاحت وبلاخت پراس کے وسیع مضامین پراورپہلی اقوام کے عبرت ناک واقعات پرغوروفکراورتدبروتعقل کرتے ،اللہ کی اس عظیم نعمت پر شکرگزار ہوتے اوراپنے خالق مالک اور رازق کے حضورسراطاعت خم کردیتے کہ اس نے انہیں  ظلمتوں  میں  بھٹکنے اورجہنم کے ہولناک گڑھوں  میں  گرنے کے لئے نہیں  چھوڑ دیا بلکہ دنیاوی واخروی زندگی سنوارنے کے لئے رہنمائی کا بندوبست فرمایا ،جیسے فرمایا

فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ [10]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔

وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [11]

ترجمہ:اور(نیکی اوربدی کے) دونوں  نمایاں  راستے اسے (نہیں ) دکھا دیے ؟۔

مگر متکبرین نے اس دعوت کومحض اپنی ہٹ دھرمی اوربغض وعنادکی وجہ سے قبول کرنے سے انکارکیااوراپنے فخروغروراورڈھٹائی سے کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے دلوں  پرحجاب اورکانوں  پرگرانی ہے اس لیے توجس دین کی ہمیں  دعوت دے رہاہے وہ دعوت ہمارے دلوں  تک نہیں  پہنچتی ،اس لیے ہم تیری توحیدوایمان کی دعوت کونہیں  سمجھ سکتے ،اس لیے تم اپنے دین پرعمل کرتے ہواور ہم بھی اپنے آباؤاجدادکے دین پرپوری طرح عمل پیرا رہیں  گے ، تم بھی اپناکام کیے جاؤ ہم بھی اس انوکھے دین کو نیچادکھانے کے لئے تمام جتن کرگزریں  گے۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوحَىٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیمُوا إِلَیْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِینَ ‎﴿٦﴾‏ الَّذِینَ لَا یُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُونٍ ‎﴿٨﴾(حم السجدة)
آپ کہہ دیجئے کہ میں  تم ہی جیسا انسان ہوں  مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے  سو تم اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے گناہوں  کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں  کے لیے (بڑی ہی) خرابی ہے جو زکوة نہیں  دیتے اور آخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں ، بیشک جو لوگ ایمان لائیں  اور بھلے کام کریں   ان کے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ انہیں  واضح طورپربتادیں  کہ میں  تو تمہارے جیسابشرہوں ،میرے ہاتھ میں  کسی طرح کا کوئی اختیارنہیں ، نہ میں  تمہارے مطالبہ پرکوئی معجزہ دکھاسکتاہوں  اورنہ عذاب نازل کرسکتاہوں  جس کے لئے تم جلدی مچارہے ہو،معجزہ دکھانایاعذاب نازل کرنا تورب کاکام ہے جووہ اپنی مشیت وحکمت سے سرانجام دیتاہے ،البتہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے ساتھ مجھے تمہاری ہدایت ورہنمائی کا شرف بخشاہے،میں  اس عام فہم دعوت سے اسی انسان کوسمجھانے کی کوشش کرسکتاہوں  جس میں  حق کی جستجوہو اور جوصراط مستقیم پرچلنے کے لئے تیار ہو ،تم نے اپنے دلوں  پرازخود جو غلاف چڑھا رکھے ہیں  یہ میرے بس سے باہرہے کہ تمہارے دلوں  سے غلاف اتاردوں  اور تمہارے بہرے کانوں  کوکھول دوں  ،کسی کوہدایت نصیب کرنایانہ کرنااللہ تعالیٰ ہی کاکام ہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۴۲ [12]

ترجمہ:اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

۔۔۔وَّاَنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ۝۱۶ [13]

ترجمہ:اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

۔۔۔یَہْدِی اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۳۵ۙ [14]

ترجمہ: اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے ۔

اگروہ تمہارے دلوں  کے اندرکچھ بھی بھلائی پائے گا توتمہیں  ہدایت عطافرمادے گاورنہ شیطان کے ساتھ اندھیروں  میں  بھٹکتے اورٹھوکریں  کھانے کے لیے چھوڑدے گے، اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ فرض سونپا ہے کہ میں  تمہیں  تمہاراحقیقی مقام بتلاؤں ، تمہارے ان گنت باطل معبودوں  کی پرستش،مشرکانہ رسم ورواج ،اورظالمانہ قانون وضابطوں کی نفی کر کے تمہیں  تمہارے معبود حقیقی کی طرف دعوت دوں ،اوردلائل وبراہین سے سمجھاؤں  کہ اپنے خالق ومالک حقیقی کوچھوڑکرکسی اورکوالٰہ نہ بناؤ،اس وحدہ لاشریک کے سواکسی اورکی بندگی وپرستش نہ کرو،اپنی مشکلات ومصائب اور پریشانیوں  میں  اس کے سواکسی اور کو مددکے لئے مت پکارو ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے سواکسی اورکے آگے سر تسلیم خم نہ کرو،اللہ کا نازل فرمایا ہوا قانون وضابطہ چھوڑکرکسی اورکے رسم ورواج اورقانون وضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو،اوراپنی گزشتہ زندگی میں  جوکفروشرک اورجن صغیرہ وکبیرہ گناہوں  کا تم نے ارتکاب کیاہے اس پرخلوص نیت سے بخشش و مغفرت چاہو تاکہ وہ غفوررحیم تمہارے گناہوں  کو معاف فرما کر تمہیں پاک وصاف کردے ، اوران لوگوں  کے لیےتباہی وبربادی ہے جواللہ کوچھوڑکران ہستیوں  کی پرستش کرتے ہیں  جوکسی نفع یانقصان کا اختیارنہیں  رکھتیں ،اورجونہ موت وحیات کااورنہ مرنے کے بعددوبارہ زندہ کرنے کااختیاررکھتی ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [15]

ترجمہ:لوگوں  نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں  کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں  نہ جلا سکتے ہیں نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں  ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:وَوَیْلٌ لِلْمُشْرِكِینَ الَّذِینَ لَا یُؤْتَوْنَ الزَّكَاةَ ،  قَالَ:هُمُ الَّذِینَ لَا یَشْهَدُونَ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے آیت کریمہ ’’اوران مشرکوں  کے لئے(بڑی ہی)خرابی ہے جوزکوٰةنہیں  دیتے۔‘‘کے بارے میں  روایت ہے اس کے معنی یہ ہیں  کہ جو لاالٰہ الااللہ کی گواہی نہیں  دیتے۔[16]

یہ لوگ اپنے رب اللہ وحدہ لاشریک کی وحدانیت اور ربوبیت پرایمان لا کر پاکیزگی اختیار نہیں  کرتے ، اورحیات بعدالموت ،حساب کتاب،جنت وجہنم اور جزاوسزا کو جھٹلاتے ہیں ،اوروہ لوگ جو اللہ وحدہ لاشریک ، رسولوں  ، کتابوں ،آخرت اوراچھی بری تقدیرپر ایمان لائے اوررسول کی اطاعت میں نیک اعمال کیے ان کے لئے یقیناً ایسا اجرعظیم ہے جس میں کبھی کمی نہیں  آئے گی ، جیسےفرمایا

۔۔۔عَطَاۗءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۝۱۰۸ [17]

ترجمہ: ایسی بخشش ان کوملے گی جس کاسلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا ۔

ایک مقام پرفرمایا

مَّاكِثِیْنَ فِیْهِ اَبَدًا۝۳ۙ [18]

ترجمہ:جس میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٩﴾‏ وَجَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِیهَا وَقَدَّرَ فِیهَا أَقْوَاتَهَا فِی أَرْبَعَةِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ‎﴿١٠﴾‏ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ ‎﴿١١﴾‏فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَىٰ فِی كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ ‎﴿١٢﴾(حم السجدة)
آپ کہہ دیجئے کہ تم اس( اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں  زمین پیدا کردی،  سارے جہانوں  کا پروردگار وہی ہے، اور اس نے زمین میں  اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں  برکت رکھ دی اور اس میں  (رہنے والوں )کی غذاؤں  کی تجویز بھی اسی میں  کردی (صرف) چار دن میں ، ضرورت مندوں  کے لیے یکساں  طور پر،  پھر آسمانوں  کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں  (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں  خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے،  دونوں  نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں ، پس دو دن میں  سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں  اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی، اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں  سے زینت دی اور نگہبانی کی، ی یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے۔

 تخلیق کائنات کامرحلہ وارذکر:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے یہ بھی کہوکہ کیاتم اپنے باطل معبودوں  کی محبت اوراپنے گمراہ آباؤاجدادکے بنائے ہوئے مشرکانہ رسم ورواج کی بناپر اللہ احکم الحاکمین کاانکارکرتے ہو جس کی قدرت کا کمال تویہ ہے کہ وہ چاہے تو اپنی قدرت کے کلمہ كُنْ سے تمام کائنات کوایک لمحے میں  تخلیق کردے مگر اس نے اپنی مشیت و حکمت سے دودنوں  یعنی اتوار اور پیر کے روز اس وسیع وعریض ہموارزمین کو پھیلادیا، اورپھرزمین ہی سے پہاڑوں کو پیدا کرکے ان کواس کے اوپرگاڑدیاتاکہ زمین ادھر ادھرنہ ڈولے، زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لئے دوروزیعنی منگل اوربدھ کے روز اس میں  پانی کے ذخائر رکھے جن کی بدولت ہی زمین پرنباتی،حیوانی اورانسانی زندگی ممکن ہوئی،زمین کو پیداوارکی صلاحیت بخشی، زمین کی خشکی وتری میں  ہرقسم کی مخلوق کی خوراک و ضروریات کے مطابق جمادات ونباتات کی بے شماراقسام رکھیں ،جیسے فرمایا

 اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا۝۳۱۠وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا۝۳۲ۙمَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ۝۳۳ۭ [19]

ترجمہ:اس کے اندرسے اس کاپانی اور چارہ نکالا اور پہاڑاس میں  گاڑدیے سامان زیست کے طورپرتمہارے لیے اورتمہارے مویشیوں  کے لیے۔

فَجُعِلَتِ الأَرْضُ وَمَا فِیهَا مِنْ شَیْءٍ فِی أَرْبَعَةِ أَیَّامٍ

اس طرح زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چاردنوں  میں  مکمل ہو گئی۔[20]

پھراس نے آسمانوں  کی تخلیق کاقصدکیا جودھویں  کی شکل میں  تھا(یعنی کائنات کی ابتداء میں  دھواں  دھواں  تھی،آج سے ڈیڑھ ہزارسال قبل کسی کے تصورمیں  بھی یہ بات نہیں  تھی کہ کائنات ابتدامیں  دھواں  تھی اوراس میں  سے اجرام فلکی پیداکیے گئے،ہاں  جدیدسائنس یہ کہتی ہے کہ کائنات کی تشکیل ایسے گیسی مادے سے ہوئی جوہائیڈروجن اورہیلیم جیسے عناصرسے مرکب تھااورآہستہ آہستہ گردش کررہاتھا،یہ دھواں  دھارمادہ انجام کارمتعددٹکڑوں  میں  بٹ گیااوراس سے ستارے اورسیارے وجودمیں  آئے)پھراللہ کوآسمان وزمین تخلیق کرنے کے لیے کوئی محنت یاکوشش نہیں  کرنی پڑی بس اللہ نے دھویں  کوحکم فرمایاکہ تم چاہویانہ چاہو سیاروں ،تاروں  اورکہکشاؤں  کی شکل میں  ڈھل جاؤ ، دونوں  نے کہاہم تیرے فرمانبردارہیں ہم تیرے ارادے کی مخالفت نہیں  کرسکتے چنانچہ وہ اپنے مالک کے فرمان کے مطابق ڈھلتا چلا گیا ، الغرض دودنوں  یعنی جمعرات اور جمعہ کے روز سات آسمانوں  کی تخلیق فرمائی ،سورج ،چانداورستاروں کی گردش مقررفرمائی، آسمان دنیاکوان گنت ستاروں ،کہکشاؤں  اورسیاروں  سے مزین فرمایا جو زمین پر چمکتے ہیں  اوران شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں  جوملاء اعلی کی باتیں  سننے کے لئے اوپرچڑھناچاہتے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیْنَ۝۱۶ۙوَحَفِظْنٰہَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۝۱۷ۙاِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ   السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ۝۱۸ [21]

ترجمہ:یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں  ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے، ان کو دیکھنے والوں  کے لیے مزین کیااور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا کوئی شیطان ان میں  راہ نہیں  پا سکتا،الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے ۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙوَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ۝۷ۚلَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ۝۸ۤۖدُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۝۹ۙاِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَةَ فَاَتْــبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ۝۱۰ [22]

ترجمہ:ہم نے آسمان دنیا کو تاروں  کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے ،یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں  سن سکتے ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں  اور ان کے لیے پیہم عذاب ہےتاہم اگر کوئی ان میں  سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے ۔

اللہ نے مختلف بازووالی نورانی مخلوق فرشتوں  کو پیدا کیا،جیسے فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۭ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱ [23]

ترجمہ:تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں  اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں  کو پیغام رساں  مقرر کر نے والاہے (ایسے فرشتے ) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں  وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں  جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور انہیں  مختلف کاموں  پر مقررفرمادیا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِی فَقَالَ:خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ یَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِیهَا الْجِبَالَ یَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ یَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ یَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِیهَا الدَّوَابَّ یَوْمَ الْخَمِیسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِی آخِرِ الْخَلْقِ، فِی آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِیمَا بَیْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّیْلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے میراہاتھ پکڑکرفرمایااللہ تعالیٰ نے مٹی (زمین)کوہفتہ کے دن پیدا کیا اور اتوارکے دن اس میں  پہاڑوں  کوپیداکیااورپیرکے دن درخت کو پیداکیااورکام کاج کی چیزیں  (مختلف دھاتیں )منگل کوپیداکیں  اورنورکوبدھ کے دن پیداکیااورجمعرات کے دن زمین میں جانورپھیلائے،اورسب سے آخری مخلوق آدم علیہ السلام کوجمعہ کے دن عصرکے بعدرات تک بنایا۔[24]

اللہ تعالیٰ عرش کے اوپراپنی شان کے لائق اپنے تخت سلطنت پرمتمکن ہے، اس مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا:

اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۣ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا۝۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِهٖ۝۰ۭ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۵۴ [25]

ترجمہ:درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ،جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیےسب اس کے فرمان کے تابع ہیں ، خبردار رہو ! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے،بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں  کا مالک و پروردگار۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۳ [26]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا ، پھر تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہو کر کائنات کا انتظام چلا رہا ہے کوئی شفاعت (سفارش)کرنے والا نہیں  ہے اِلا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے،یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو،پھر کیا تم ہوش میں  نہ آؤ گے؟ ۔

اَللهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۝۲  [27]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا، اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے،وہ نشانیاں  کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰى۝۵ [28]

ترجمہ:وہ رحمان (کائنات کے) تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۚۛ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔــلْ بِهٖ خَبِیْرًا۝۵۹  [29]

ترجمہ:وہ جس نے چھ دنوں  میں  زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں  ، پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا ، رحمن اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو ۔

هُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۭ یَعْلَمُ مَا یَـلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا۝۰ۭ وَهُوَمَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۴ [30]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا ، اس کے علم میں  ہے جو کچھ زمین میں  جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اس میں  چڑھتا ہے ، وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں  بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

یہ عظیم الشان کائنات ایک زبردست علیم ہستی کامنصوبہ ہے جوکوئی کام عبث نہیں  کرتا،جیسے فرمایا:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [31]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں  فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں  ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں  ہے؟ ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۝۱۶لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَہْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ۝۰ۤۖ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ۝۱۷ [32]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں  ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں  بنایا ہے،اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں  کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔

وہ مخلوقات کی تمام حرکات وسکنات سے آگاہ ہےاس لئے دانائی کاتقاضایہ ہے کہ اللہ نے جوہدایت نازل فرمائی اس پرایمان لاؤاور باطل معبودوں  کی پرستش سے تائب ہوکر اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں  جھک جاؤ۔

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ‎﴿١٣﴾‏ إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ ‎﴿١٤﴾‏(حم السجدة)
 اب بھی یہ روگردان ہوں  تو کہہ دیجئے! کہ میں  تمہیں  اس کڑک (عذاب آسمانی) سے اتارتا ہوں  جو مثل عادیوں   اور ثمودیوں  کی کڑک کے ہوگی، ان کے پاس جب ان کے آگے پیچھے سے پیغمبر آئے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو انہوں  نے جواب دیا کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتوں  کو بھیجتا ہم تو تمہاری رسالت کے بالکل منکر ہیں ۔

انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کاسبب :

ہرطرح کے دلائل وبراہین کے باوجوداب بھی یہ لوگ اس بات پرایمان نہیں  لاتے کہ الٰہ اورمعبودصرف وہی ہے جس نے یہ وسیع وعریض زمین اوربے حدوحساب پھیلی ہوئی کائنات بنائی ہے، خشکی وتری میں  بے شمارانواع کی جاندارمخلوقات کوپیداکرکے ان کے رزق کابندوبست فرمایاہے، اوراپنی جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں  کہ اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسروں  کوبھی ،جوحقیقت میں  اس کے مخلوق ومملوک ہیں  ،معبودبنائیں  گے اوراللہ کی ذات وصفات اورحقوق واختیارات میں  انہیں  اس کاشریک ٹھہرائیں  گے، توآپ ان سے کہہ دیں  کہ اب تمہیں  قوم عادوثمودکی طرح کے اچانک ٹوٹ پڑنے والی کڑک کے عذاب کی کسرباقی رہ گئی ہے کہیں  تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں  سے نہ کردے ،کہیں  اللہ کاعذاب تمہاراملیامیٹ نہ کرکے رکھ دے ،اللہ کاعذاب تمہاری جڑکاٹ کرنہ رکھ دے ، اللہ نے ان کی قوم میں  بھی یکے بعددیگرے لگاتار بشر رسول بھیجے ، جوبستی بستی گاؤں  گاؤں  اللہ کاپیغام لیکرپھرتے رہے ،رسولوں  نے اپنی قوموں  کو ہر پہلوسے باطل معبودوں  کی لاچاری و بے اختیاری اور اللہ کی وحدانیت وربوبیت کو سمجھانے کی کوشش کی ،انہیں  صراط مستقیم پرلانے کے لئے کوئی تدبیراختیارکرنے میں  کسرنہ اٹھارکھی لیکن ان کی آنکھوں  میں  چربی چڑھی ہوئی تھی اوردماغوں  میں  رعونیت بسی ہوئی تھی اس لئے انہوں  نے بھی اپنے ظلم وکفرکے باعث ایک بشرکورسول تسلیم کرنے سے انکارکردیا ،جیسے فرمایا:

وَاذْكُرْ اَخَا عَادٍ۝۰ۭ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۝۰ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۲۱ [33]

ترجمہ:ذرا انہیں  عاد کے بھائی(ہود علیہ السلام ) کا قصہ سناؤ جبکہ اس نے احقاف ف میں  اپنی قوم کو خبردار کیا تھا اور ایسے خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، مجھے تمہارے حق میں  ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔

اور کہا کہ چونکہ تم ہماری طرح ہی کے انسان ہو،ہماری طرح کھاتے پیتے ہو،بازاروں  میں  چلتے پھرتے ہو،شادی بیاہ کرتے ہو،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا۝۷ۙاَوْ یُلْقٰٓى اِلَیْہِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَہٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْہَا۝۰ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۸  [34]

ترجمہ:اور کہتے ہیں  کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں  میں  چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی ایسا فرشتہ کیوں  نہ بھیج دیا گیا جو اس کے ساتھ رہ کر نہ ماننے والوں  کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ؟یا اس کے لیے غیب سے کوئی خزانہ آپڑتا، یا اس کے پاس کم از کم کوئی ایسا باغ ہوتا جس سے یہ خود کھایا پیا کرتا اور یہ ظالم تو مسلمانوں  سے یہاں  تک کہتے ہیں  کہ تم لوگ تو بس جادو کے مارے ہوئے ایک شخص کے پیچھے چلتے ہو ۔

اس لئے ہم تمہیں  نبی تسلیم نہیں  سکتے اوربطورطنزکہا اگر اللہ تعالیٰ ہمارے پاس کوئی رسول بھیجنا چاہتا تووہ کسی فرشتے کوبھیجتاکسی انسان کونہیں ،اس لئے جودعوت تم دے رہے ہوہم اس پرایمان نہیں  لاتے،چنانچہ ایک وقت مقررہ پرعذاب الٰہی ان پرٹوٹ پڑ ا ، جیسے فرمایا:

وَفِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ۝۴۳فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَهُمْ یَنْظُرُوْنَ۝۴۴فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ۝۴۵ۙ [35]

ترجمہ:اور(تمہارے لیے نشانی ہے)ثمودمیں  جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلومگراس تنبیہ پربھی انہوں  نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی،آخرکاران کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب(ایک زبردست کلیجے پھاڑدینے والی چنگھاڑ) نے ان کوآلیا،پھرنہ ان میں  اٹھنے کی سکت تھی اورنہ وہ اپنابچاؤکرسکتے تھے۔

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِی خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ ‎﴿١٥﴾‏ فَأَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی أَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا یُنصَرُونَ ‎﴿١٦﴾(حم السجدة)
اب عاد نے تو بےوجہ زمین میں  سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے ؟ کیا انہیں  یہ نظر نہ آیا  جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے، وہ (آخر تک) ہماری آیتوں  کا انکار ہی کرتے رہے  بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند آندھی منحوس دنوں  میں  بھیج دی کہ انہیں  دنیاوی زندگی میں  ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں ، اور (یقین مانو)کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا، اور وہ مدد نہیں  کئے جائیں  گے۔

اللہ تعالیٰ نے عادکو درازقداورنہایت زورآوربنایاتھا،جیسے فرمایا:

الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۝۸ [36]

ترجمہ:جن کے مانندکوئی قوم دنیاکے ملکوں  میں  پیدانہیں  کی گئی تھی۔

اس قوم کے تیرہ (۱۳)بڑے بڑے قبیلے تھے اورسب کے سب شرک کے اندھیروں  میں  غرق ہوچکے تھے ،ان کی قوت وطاقت نے ان کوفریب میں  مبتلاکردیااوروہ اپنے اس تکبرمیں  اپنے اردگردکے لوگوں  پرقہراورظلم وستم کے پہاڑتوڑتے تھے ،ہود علیہ السلام نے ان کی اس روش پر فرمایاتھا۔

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ۝۱۳۰ۚ [37]

ترجمہ: اور جب کسی پرہاتھ ڈالتے ہوجباربن کرڈالتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ہود علیہ السلام کومبعوث فرمایا:

وَاِلٰی عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا۔۔۔  ۝۵۰ [38]

ترجمہ:اورعادکی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود علیہ السلام کو بھیجا ۔

جب ہود علیہ السلام نے انہیں  دعوت توحیدپیش کی اورانہیں  اللہ کے عذاب سے ڈرایاتوانہوں  نے اطاعت کے بجائے سرکشی اختیارکی اور اپنی قوت وطاقت پرنازاں  ہوکرکہنے لگے لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں  ڈرارہے ہو،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۲۲ [39]

ترجمہ: اچھاتولے آاپناوہ عذاب جس سے تو ہمیں  ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے ۔

ہم نہایت طاقتورہیں ہم عذاب کوروک لینے کی طاقت وقوت رکھتے ہیں  ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاان کویہ سمجھ نہ آئی کہ جس خالق مطلق نے ان کو تخلیق کیااورایسی قوت و طاقت سے نوازاہے وہ ان سے زیادہ زورآورہے؟ہود علیہ السلام انہیں  دلائل وبراہین کے ساتھ اللہ کی وحدانیت ،ربوبیت اوررزاقیت کی وعظ ونصیحت کرتے رہے مگروہ آخر وقت تک ہماری توحیدکے دلائل اورہرسوبکھری نشانیوں  کاانکارہی کرتے رہے،آخرکار جب ایک عرصہ گزرگیااوراس قوم نے بھی کفرکاراستہ ترک کرکے ایمان وتقویٰ کی راہ اختیارنہ کی توہم نے ان چنددنوں  میں  جوقوم عادکے لیے منحوس تھے ان پرطوفانی ہواکاعذاب نازل کردیا تاکہ انہیں  دنیاہی کی زندگی میں  ذلت ورسوائی کے عذاب کامزاچکھادیں ،یہ تند و تیز سرد، سرسراتی ہوئی ہواان پرمسلسل سات راتیں  اورآٹھ دن تک مسلط رہی جوانہیں  اٹھااٹھاکرپٹخ رہی تھی یہاں  تک کہ وہ کھجورکے کھوکھلے بوسیدہ تنوں  جیسے بن کررہ گئے ،جیسے فرمایا:

 اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ۝۱۹ۙتَنْزِعُ النَّاسَ۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ۝۲۰ [40]

ترجمہ: ہم نے ایک پیہم نحوست کے دن سخت طوفانی ہواان پر بھیج دی جو لوگوں  کواٹھااٹھاکراس طرح پھینک رہی تھی جیسے وہ جڑسے اکھڑے ہوئے کھجورکے تنے ہوں ۔

وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ۝۶ۙسَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ۝۰ۙ حُسُوْمًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ۝۷ۚفَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۝۸ [41]

ترجمہ: اور عاد ایک بڑی شدیدطوفانی آندھی سے تباہ کردیے گئے،اللہ تعالیٰ نے اس کومسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پرمسلط رکھا(تم وہاں  ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ وہاں  اس طرح پچھاڑے پڑے ہیں  جیسے وہ کھجورکے بوسیدہ تنے ہوں اب کیاان میں  سے کوئی تمہیں  باقی نظر آتا ہے۔

اس ہوانے ان کے مکانات کے سواکچھ باقی نہ چھوڑا

۔۔۔فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ۔۔۔  ۝۲۵ [42]

ترجمہ:آخرکاران کاحال یہ ہواکہ ان کے رہنے کی جگہوں  کے سواوہاں  کچھ نظرنہ آتاتھا۔

اورآخرت کاعذاب تواس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے ، وہاں  کوئی ان کی مددکرنے والانہ ہوگا۔

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَیْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَنَجَّیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا وَكَانُوا یَتَّقُونَ ‎﴿١٨﴾‏(حم السجدة)
رہے قوم ثمود، سو ہم نے ان کی بھی راہبری کی پھر بھی انہوں  نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس بنا پر انہیں  (سراپا) ذلت کے عذاب کی کڑک نے ان کے کرتوتوں  کے باعث پکڑ لیا،اور (ہاں ) ایمان دار اور پارساؤں  کو ہم نے  (بال بال) بچا لیا۔

رہے ثمودتوہم نے اتمام حجت کے لیے ان کی طرف صالح  علیہ السلام کومبعوث کیااورانہوں  نے کفروشرک اوردوسری اخلاقی برائیوں  میں  ڈوبی اس قوم کوشرک اوران برائیوں  سے روکااوردلائل وبراہین کے ساتھ توحیدکی دعوت پیش کی،جیسے فرمایا

وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا۝۰ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ هُوَاَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۝۶۱ [43]

ترجمہ:اورثمودکی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح  علیہ السلام کو بھیجا، اس نے کہااے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرواس کے سواتمہاراکوئی الٰہ نہیں  ہے ،وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیداکیاہے اوریہاں  تم کوبسایاہے لہذاتم اس سے معافی چاہواوراس کی طرف پلٹ آؤ،یقیناًمیرارب قریب ہے اوروہ دعاؤں  کاجواب دینے والاہے۔

مگرانہوں  نے بھی اس دعوت کوقبول کرنے کے بجائے تکذیب اور مخالفت کی اورمعجزات کا مطالبہ کیا،جیسے فرمایا:

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۵۳ۚمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۚۖ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۵۴ [44]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیاتومحض ایک سحرزدہ آدمی ہے ،توہم جیسے ایک انسان کے سوااورکیاہے ؟ لاکوئی نشانی اگرتوسچاہے؟۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پرایک اونٹنی کو معجزہ بنا کر بھیجا اور پانی کی باری مقررفرمادی،جیسے فرمایا

قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۱۵۵ۚوَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۱۵۶ [45]

ترجمہ:صالح  علیہ السلام نے کہایہ(اللہ کی) اونٹنی ہے ،ایک دن اس کے پینے کاہے اورایک دن تم سب کے پانی لینے کا،اس کوہرگزنہ چھیڑناورنہ ایک بڑے دن کاعذاب تم کوآلے گا۔مگراس پیشگی سخت تنبیہ کے باوجودانہوں  نے اس کی کونچیں  کاٹ ڈالیں  ۔

فَعَقَرُوْهَا۔۔۔۝۱۵۷ۙ [46]

ترجمہ:مگرانہوں  نے اس کی کونچیں  کاٹ دیں ۔

آخرہم نے ان کے کرتوتوں  کی بدولت ایک کلیجے پھاڑ دینے والی چنگھاڑ اوردل پاش پاش کردینے والے زلزلے کے ساتھ عذاب نازل کیااورانہیں  ذلت ورسوائی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹادیا،جیسے فرمایا:

وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۶۷ۙ [47]

ترجمہ:وہ لوگ جنہوں  نے ظلم کیاتھاتوایک سخت دھماکے نے ان کودھرلیااوروہ اپنی بستیوں  میں  اس طرح بے حس وحرکت پڑے کے پڑے رہ گئے کہ گویاوہ وہاں  کبھی بسے ہی نہ تھے۔

فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ۝۵ [48]

ترجمہ: ثمود ایک سخت حادثہ سے ہلاک کیے گئے۔

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱ [49]

ترجمہ: ہم نے ان پربس ایک ہی دھماکا چھوڑا اور وہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہوکررہ گئے ۔

اور اپنی سنت کے مطابق ہم نے ان لوگوں  کواس دردناک عذاب سے پہلے ہی وہاں  سے نکال لیاجو اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول پرایمان لائے تھے اورگمراہی وبدعملی سے پرہیزکرتے تھے۔

وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ‎﴿١٩﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٢٠﴾‏وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَیْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِی أَنطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٢١﴾(حم السجدة)
اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں  گے اور ان (سب) کو جمع کردیا جائے گا یہاں  تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آجائیں  گے ان پر ان کے کان پر اور ان کی آنکھیں  اور ان کی کھالیں  ان کے اعمال کی گواہی دیں  گی،  یہ اپنی کھالوں  سے کہیں  گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں  دی، وہ جواب دیں  گی ہمیں  اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے، اسی نے تمہیں  اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔

قوم ثمودتوتم لوگوں  سے زیادہ زورآورتھے ،ہم نے انہیں  تم سے زیادہ مال واسباب سے بھی خوب نوازاتھا،ان کاتم سے زیادہ یک بڑے علاقہ پراقتدارتھااورانہوں  نے تم سے زیادہ اس زمین کوآبادکیاتھامگراپنے غلط عقائداوراعمال کی بدولت انہیں  نیست ونابودکردیاگیا،مگرتم لوگ ذرااس وقت کاخیال کروجب جہنم کے تندخوفرشتے  اللہ مالک یوم الدین  ،اس کے رسولوں ،اس کی کتابوں اورحیات بعدالموت کے منکرین کواللہ کی بارگاہ میں  پیش کرنے کے لیے سختی کے ساتھ گھیرلائیں  گے،پیاس کی شدت سے ان کا برا حال ہوگا،جیسے فرمایا:

 وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا۝۸۶ۘ [50]

ترجمہ:اورمجرموں  کوپیاسے جانوروں  کی طرح جہنم کی طرف ہانک لے جائیں  گے۔

مگرجہنم میں  دھکیل دینے سے پہلے باقی لوگوں  کے آنے تک انہیں  روک رکھاجائے گا،پھرجب اول وآخرتمام نسلیں  جہنم کے کنارے پر جمع ہو جائیں  گی تویہ لوگ اپنے کفروشرک کاانکارکردیں  گے کہیں  گے کہ میں  اپنی ذات کی گواہی کے سواکسی کی گواہی تسلیم نہیں  کرتا،باری تعالیٰ فرمائے گاٹھیک ہے ہم تیری ذات کی گواہی ہی لے لیتے ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اوران کے اپنے اعضاوجوارح کوگواہی دینے کے لیے زبان عطافرمادے گاچنانچہ ان کے مادی اورجسمانی کان اوران کی آنکھیں  اوران کے جسم کی کھالیں  ان پر گواہی دیں  گی اوران کے تمام گناہوں  اورلغزشوں  کووہاں  اگل دیں  گے ،اس وقت انہیں  معلوم ہوجائے گاکہ یہ سب توپرائے اور بیگانے نکلے ،جیسے فرمایا:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۶۵ [51]

ترجمہ:آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ،ان کے ہاتھ ہم سے بولیں  گے اوران کے پاؤں  گواہی دیں  گے کہ یہ دنیامیں  کیاکمائی کرتے رہے ہیں  ۔

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۴ [52]

ترجمہ:وہ اس دن کو بھول نہ جائیں  جبکہ ان کی اپنی زبانیں  اوران کے اپنے ہاتھ پاؤں  ان کے کرتوتوں  کی گواہی دیں  گے۔

انسان کے اعضاہی نہیں  زمین بھی انسان کے خلاف گواہی دے گی ،جیسے فرمایا

وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا۝۲ۙوَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا۝۳ۚیَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا۝۴ۙبِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا۝۵ۭ

ترجمہ:اورزمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کرباہرڈال دے گی اورانسان کہے گاکہ یہ اس کوکیا ہورہا ہے؟ اس روزوہ اپنے (اوپرگزرے ہوئے ) حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے(ایساکرنے کا)حکم دیاہوگا۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، فَقَالَ:هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ؟ قَالَ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، یَقُولُ: یَا رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِی مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ: یَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَیَقُولُ: فَإِنِّی لَا أُجِیزُ عَلَى نَفْسِی إِلَّا شَاهِدًا مِنِّی، قَالَ: فَیَقُولُ: كَفَى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ شَهِیدًا، وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِینَ شُهُودًا، قَالَ: فَیُخْتَمُ عَلَى فِیهِ، فَیُقَالُ لِأَرْكَانِهِ: انْطِقِی، قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ یُخَلَّى بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْكَلَامِ، قَالَ فَیَقُولُ: بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ

انس بن مالک سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،اتنے میں  آپ ہنسےآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم جانتے ہومیں  کس واسطے ہنستاہوں ؟ہم نے کہاکہ اللہ اوراس کارسول خوب جانتاہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  بندے کی گفتگوپرہنستا ہوں جووہ اپنے مالک سے کرے گابندہ کہے گااے مالک !کیاتومجھ کوظلم سے پناہ نہیں  دے چکا(یعنی تونے وعدہ کیاہے کہ ظلم نہ کروں  گا)؟اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیوں  نہیں ،بندہ کہے گامیں  اپنی ذات کی گواہی کے سوا اپنے اوپرکسی کی گواہی کوجائزنہیں  رکھتا، پروردگارفرمائے گااچھاآج کے دن کراماًکاتبین کی گواہی اورتیری ذات کی گواہی تجھ پرکفایت کرتی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاپھربندہ کے منہ پرمہرلگادی جائے گی اوراس کے ہاتھ پاؤں  سے کہاجائے گاتم بولو،وہ اس کے سارے اعمال بول دیں  گے، پھربندہ کوبات کرنے کی اجازت دی جائے گی تومجرمین ناراض ہوکر اپنے جسم  کی کھالوں  سے کہیں  گے تمہارے لیے ہلاکت اوردوری ہومیں  تو تمہاری ہی خاطرجھگڑرہااورمدافعت کر رہا تھا۔[53]

قَالَ أَبُو بُرْدَةَ قَالَ أَبُو مُوسَى: وَیُدْعَى الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُ لِلْحِسَابِ فَیَعْرِضُ علیه ربه عز وجل عَمَلَهُ فَیَجْحَدُ وَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ كَتَبَ عَلَیَّ هَذَا الْمَلَكُ مَا لَمْ أَعْمَلْ! فیق، ل لَهُ الْمَلَكُ: أَمَا عَمِلْتَ كَذَا فِی یَوْمِ كذا فی مكان كذا؟ فیقول: لا وعزتك أَیْ رَبِّ مَا عَمِلْتُهُ فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ خُتِمَ عَلَى فِیهِ قَالَ الْأَشْعَرِیُّ: فَإِنِّی لاحْسَبَ أَوَّلَ مَا یَنْطِقُ مِنْهُ فَخْذَهُ الْیُمْنَى .

ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ نے کہاکہ کافراورمنافق کوحساب کے لیے بلایاجائے گا اوراللہ عزوجل اس کے سامنے اس کے عمل کوپیش فرمائے گا تووہ انکارکردے گا اورکہے گااے میرے رب!مجھے تیری عزت کی قسم !اس فرشتے نے میرے ذمے ایسے عمل لکھ دیے ہیں  جومیں  نے کیے ہی نہیں ،فرشتہ کہے گاکیاتونے فلاں  دن،فلاں  جگہ فلاں  عمل نہیں  کیاتھا؟ بندہ جواب دے گااے اللہ!مجھے تیری عزت کی قسم !میں  نے یہ عمل نہیں  کیا،جب وہ یہ بات کہے گاتواس کے منہ پرمہرلگادی جائے گی ،ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  نے بیان کیاکہ میرے خیال میں  اس کے اعضاء میں  سے سب سے پہلے اس کی دائیں  ران بات کرے گی۔[54]

ان کی کھالیں  جواب دیں  گی ہمیں  اسی اللہ وحدہ لاشریک نے گویائی کی قوت عطافرمائی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے ، اسی خالق وحدہ لاشریک نے تم کواپنے ہاتھوں  سے پہلی مرتبہ مٹی سے بغیرکسی نمونے کے پیدا کیا تھا ، اور دنیامیں  انبیاء ومرسلین کے ذریعے تمہیں  خبردارکردیاگیاتھاکہ ایک دن تمہیں  اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے اس کی بارگاہ میں  پیش ہونا ہے مگرتم اس کاانکارکرتے تھے ،اس حقیقت کودیوانے کی ایک بڑسے زیادہ وقعت نہیں  دیتے تھے ، مگردیکھ لواللہ کاوعدہ سچاتھااوراب اسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو۔

وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن یَشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِی ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٢٣﴾(حم السجدة)
اور تم (اپنی بد اعمالیوں ) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں  اور تمہاری کھالیں  گواہی دیں  گی، ہاں  تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس میں  سے بہت سے اعمال سے اللہ بےخبر ہے، تمہاری اس بدگمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں  ہلاک کردیا اور بالآخر تم زیاں  کاروں  میں  ہوگئے۔

تم دنیامیں  جرائم کرتے وقت لوگوں  سے تو چھپنے کی کوشش کرتے تھے مگرعقیدہ حیات بعدالموت پرایمان نہ لانے کی وجہ سے تمہیں  اس بات کاکوئی خوف نہ تھاکہ روز محشر تمہارے اپنے کان ،تمہاری آنکھیں  اورتمہارے جسم کی کھالیں  تم پرگواہ نہ بن جائیں  ،(اللہ نے تین اعضاکاخاص طورپرذکرفرمایاہے کیونکہ اکثرگناہوں  کاارتکاب یہی تین اعضاکرتے ہیں ) بلکہ تم تویہ سمجھتے تھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبرہی نہیں  ہے،اس لیے تم اللہ کی مقررہ حدوں  کوتوڑنے اوراپنے مالک کی نافرمانی کرنے میں  بہت بے باک تھے ، اپنے رب کے بارے میں تمہارے اسی اعتقادفاسداور گمان باطل نے کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کوبھی خبرنہیں  ہے تمہیں  ہلاکت میں  ڈال دیا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں  پڑگئے ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: اخْتَصَمَ عِنْدَ البَیْتِ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ قُرَشِیَّانِ وَثَقَفِیٌّ، أَوْ ثَقَفِیَّانِ وَقُرَشِیٌّ، قَلِیلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ كَثِیرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ،  فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ یَسْمَعُ مَا نَقُولُ؟ فَقَالَ الآخَرُ: یَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا وَلاَ یَسْمَعُ إِنْ أَخْفَیْنَا  وَقَالَ الآخَرُ: إِنْ كَانَ یَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَهُوَ یَسْمَعُ إِذَا أَخْفَیْنَا قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ یَشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ}[55] الآیَةَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےبیت اللہ کے پاس تین آدمی اکٹھےہوئے اوران میں  دوقریش کے تھے اورایک ثقیف کایادوثقیف تھے اورایک قریش کاتھا،ان کے دلوں  میں  سمجھ کم تھی اوران کے پیٹوں  میں  چربی بہت تھی،(ان تینوں ) میں  سے ایک نے کہا تم لوگوں  کا خیال ہے کہ جو باتیں  ہم کر رہے ہیں  وہ اللہ تعالیٰ سن رہاہے؟ دوسرا کہنے لگا اگر روز سے بولیں  تو سنتا ہے اور اگر آہستہ سے بولیں  تونہیں  سنتا،  دوسرے نے کہا کہ اگر اللہ ہماری اونچی آوازوں  کوسنتاہے تونیچی آوازوں  کوبھی سنتاہوگا، فرمایامیں  نے اس بات کاذکرنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کیاجس پریہ آیت’’ تم دنیا میں  جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں  یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں  اور تمہارے جسم کی کھالیں  تم پر گواہی دیں  گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں  ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[56]

خط کشیدہ الفاظ مسنداحمدمیں  ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :قَالَ اللَّهُ أَنَا مَعَ عَبْدِی عِنْدَ ظَنِّهِ بِی، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتمہارارب کہتاہے میں  اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں  ،اورمیں  اس کے ساتھ ہوں  جب وہ مجھے بلائے۔[57]

فَإِن یَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ۖ وَإِن یَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُم مِّنَ الْمُعْتَبِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ ۞ وَقَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَیَّنُوا لَهُم مَّا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِینَ ‎﴿٢٥﴾‏(حم السجدة)
اب اگر یہ صبر کریں  تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور اگر یہ (عذر و) معافی کے خواستگار ہوں  تو بھی( معذور و) معاف نہیں  رکھے جائیں  گے ،اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں  نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں  میں  خوبصورت بنا رکھے تھے ،اور ان کے حق میں  بھی اللہ کا قول امتوں  کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں  اور انسانوں  کی گزر چکی ہیں ، یقیناً وہ زیاں  کار ثابت ہوئے۔

اس حالت میں  وہ اللہ مالک یوم الدین سے دنیامیں  واپس بھیجنے کی درخواست کریں  تاکہ وہ نیک اعمال کرکے آئیں  مگران کی درخواست کومسترد کر دیا جائے گا ،جیسے فرمایا :

قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَاۗلِّیْنَ۝۱۰۶رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْہَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸ [58]

ترجمہ:وہ کہیں  گے اے ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی ہم واقعی گمراہ لوگ تھے،اے پروردگار! اب ہمیں  یہاں  سے نکال دے پھر ہم ایسا قصور کریں  تو ظالم ہوں  گے،اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں  اور مجھ سے بات نہ کرو ۔

اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی خصلت کے بارے میں  فرمایا

۔۔۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸ [59]

ترجمہ:اگرانہیں  سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے توپھروہی سب کچھ کریں  جس سے انہیں  منع کیاگیاہے،وہ توہیں  ہی جھوٹے(اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہارمیں  بھی جھوٹ ہی سے کام لیں  گے)۔

اوراگروہ توبہ کرنا چاہیں  گے تو قبول نہیں  کی جائے گی کیونکہ اس کاوقت موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتاہے اورجہنم کی آگ ہی ان کاٹھکاناہوگی جیسے فرمایا:

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِـمِیْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۝۵۲ [60]

ترجمہ: جب ظالموں  کوان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اوران پرلعنت پڑے گی اوربدترین ٹھکانہ ان کے حصے میں  آئے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی مستقل اوردائمی سنت ہے کہ جو لوگ دعوت حق کو قبول نہیں  کرتے اللہ ان پر ایسے شیاطین جن وانس مسلط کر دیتاہے جوانہیں  کفروشرک اوردوسرے اعمال بدکو خوشنما بنا کر دکھاتے رہتے تھے،درخشاں  مستقبل کے خواب دکھاتے رہتے ہیں اوریہ سمجھتے رہتے ہیں  کہ وہ صحیح راہ کے مسافرہیں جیسے فرمایا:

 وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَلَهٗ قَرِیْنٌ۝۳۶وَاِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۝۳۷  [61]

ترجمہ:جوشخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتاہے ہم اس پرایک شیطان مسلط کردیتے ہیں  اور وہ ان کارفیق بن جاتاہے،یہ شیاطین ایسے لوگوں  کوراہ راست پرآنے سے روکتے ہیں  اوروہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ تَـــؤُزُّهُمْ اَزًّا۝۸۳ۙ [62]

ترجمہ:کیاتم دیکھتے نہیں  ہوکہ ہم نے منکرین حق پرشیاطین چھوڑرکھے ہیں  جوانہیں  خوب خوب (مخالفت حق پر)اکسارہے ہیں ۔

اس لیے وہ اپنے پیروں  پرخودکلہاڑی چلاکرظلمتوں  میں  ٹھوکریں  کھاتے رہے اوردائمی خسارے کے مستحق قرارپائے ، آخرکاراللہ کی قضاوقدرکافیصلہ عذاب ان پر چسپاں  ہو کر رہا جوان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں  اورانسانوں  کے گروہوں  پرچسپاں  ہوچکاتھا،یقیناًوہ خسارے میں  رہ جانے والے تھے۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ فَلَنُذِیقَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِیدًا وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِی كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ ذَٰلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِیهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ (حم السجدة)
اور کافروں  نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت، (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بےہودہ گوئی کرو کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ،  پس یقیناً ہم ان کافروں  کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں  گے اور انہیں  ان کے بدترین اعمال کا بدلہ (ضرور) ضرور دیں  گے، اللہ کے دشمنوں  کی سزا یہی دوزخ کی آگ ہے جس میں  ان کا ہمیشگی کا گھر ہے، (یہ) بدلہ ہے ہماری آیتوں  سے انکار کرنے کا۔

شیطانی منصوبہ :

مشرکین مکہ نے دعوت اسلام کوروکنے کے لئے ہرممکن جتن کیے، دعوت اسلام کامذاق اڑایا،اس کے خلاف جھوٹاپروپیگنڈاکیا،مسلمانوں  کوظلم وستم کی چکی میں  پیساجس کی وجہ سے ایک بڑی تعدادمیں  مردوزن اپناگھربار،عزیزواقارب اوروطن چھوڑنے پرمجبورہوگئی مگران میں  سے کسی نے بھی ان معمولی چیزوں  کی خاطر اس عظیم نعمت سے منہ نہ موڑا ، کفارمکہ کوخوب تجربہ ہوچکاتھا کہ قرآن مجیداپنے اندرکس بلاکی تاثیر رکھتاہےاوراسے سنانے والے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،جوصادق وامین ہیں ،ان کی زبان مبارک سے جواس جلیل القدرکلام کوسنے گاو ہ آخرکاراس پرایمان لاکررہے گا،چنانچہ اپنے ظلم وعنادکے باعث دعوت اسلام کاراستہ روکنے اوراپناغلبہ حاصل کرنے کے لئے انہوں  نے یہ شیطانی منصوبہ بنایاکہ پہلے توخود اس کلام کونہ سنو تاکہ اس کلام کاجادو ہم میں  سے کسی پراثراندازنہ ہوسکے ،اوردوسرا کام یہ کرو کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یاان کے اصحاب میں  سے کوئی کسی کویہ کلام سننانے کی کوشش کریں  توخوب تالیاں  پیٹو، سیٹیاں  بجاؤ ،آوازے کسو،اعتراضات کی بارش کردو، آپس میں  چیخ چیخ کر باتیں  کروتاکہ ان کی آواز تمہاری آوازکے مقابلے میں  دب جائےاور لاشعوری طورپربھی حاضریں  کے کانوں  میں  اس کلام کی آوازنہ پہنچ سکے،ممکن ہے اس طرح شوروغل کرنے سے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے اصحاب اس کلام کی تلاوت ہی نہ کر سکیں  جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں  ،چنانچہ انہوں  نے اس شیطانی منصوبہ پرعمل کرناشروع کردیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یاصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  جہاں  کہیں  جاتے پیچھے ٹولیوں  کی شکل میں  چلتے رہتے اورجب وہ کسی کودعوت اسلام دینے کی کوشش کرتے توشوروغل مچاتے ،

قَالَ مُجَاهِدٌ: {وَالْغَوْا فِیهِ}  یَعْنِی: بِالْمُكَاءِ  وَالصَّفِیرِ وَالتَّخْلِیطِ فِی الْمَنْطِقِ عَلَى  رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إذا قَرَأَ الْقُرْآنَ قُرَیْشٌ تَفْعَلُهُ

مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ’’اوربے ہودہ گوئی کرو۔‘‘سے مرادیہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن پڑھنے لگیں  توسیٹیاں  اورتالیاں  بجاکرشورمچادیاکروجیساکہ قریش کیاکرتے تھے۔[63]

اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوحکم فرمایا

وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۲۰۴ [64]

ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ (اس کی برکت سے) تم پر رحمت ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی ان حرکات پرفردجرم لگائی۔

x اس جرم میں  کہ یہ خود اس دعوت حق پرایمان نہیں  لائے اورکفرومعاصی کی راہ اختیارکی۔

xاس جرم میں  کہ جولوگ ایمان لائے ان پرناحق انسانیت سوز ظلم وستم کیا۔

xاس جرم میں کہ دوسرے لوگوں تک اس آواز کوروکنے کی کوشش کرتے ہیں  ۔

ان جرائم اوردوسرے گناہوں کی پاداش میں  روزمحشرجہنم کے بدترین عذاب میں  جھونک دیئے جائیں  گے اورکہاجائے گااب چکھواپنے اعمال کامزہ جوتم دنیامیں  کرتے رہے ہو ۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَیْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِیَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِینَ ‎﴿٢٩﴾‏(حم السجدة)
اور کافر لوگ کہیں  گے اے ہمارے رب ! ہمیں  جنوں  انسانوں  (کے وہ دونوں  فریق) دکھا جنہوں  نے ہمیں  گمراہ کیا ہے (تاکہ) ہم انہیں  اپنے قدموں  تلے ڈال دیں ، تاکہ وہ جہنم میں  سب سے نیچے (سخت عذاب میں ) ہوجائیں ۔

اللہ تعالیٰ نے کفارکوان کی ہٹ دھرمی اورمخالفت حق کے نتائج پرمتنبہ فرمایاکہ دنیامیں  تویہ کافر کارندے چندٹکوں  کے لالچ،عہدوں  اورقربت میں  اپنے لیڈروں  ،پیشواؤں  اورفریب دینے والے شیاطین کے اشاروں  پرناچ رہے ہیں ،نہ تو یہ خوداللہ اور اس کے رسول پرایمان لاتے ہیں  اور ساتھ ہی دعوت حق کاراستہ روکنے کی ناکام کوشش بھی کررہے ہیں ، مگرجب قیامت کے روزان پرحقیقت کھلے گی کہ ان کے رہنماؤں  نے انہیں  اپنے مفادات کے لئے کیسے استعمال کیاتھااور رسولوں  کے مقابلے میں  ان سے کیسے غلط کام کرائے تھے ،جس کی پاداش میں  ا نہیں  جہنم میں  جھونکاجانے والاہے تویہی وفادار وجانثار کارندے ا پنے لیڈروں  اورپیشواؤں  کو کوسنے لگیں  گے اوربیزاری کا اظہار کریں  گے اوراپنے غصہ کی تشفی کے لئے رب سے التجا کریں  گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں  وہ جن وانس ایک باردکھادے جنہوں  نے گمراہی اورعذاب کی طرف ہماری قیادت کی اوراپنے مفادات کے لیے ہمیں  رسولوں  کے مقابلے پرکھڑاکیااورہمیں  جہنم میں  ڈالنے کاسبب بنے تاکہ ہم انہیں  اپنے پاؤں  تلے روندکرخوب ذلیل وخوار کریں  ، اور التجاکریں  گے اے اللہ ! ان ظالموں  کودوہراعذاب دے ،جیسے فرمایا

۔۔۔كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی  اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸ [65]

ترجمہ:ہرگروہ جب جہنم میں  داخل ہوگاتواپنے پیش روگروہ پرلعنت کرتاہواداخل ہوگاحتیٰ کہ جب سب وہاں  جمع ہوجائیں  گے تو ہر بعد والاگروہ پہلے گروہ کے حق میں  کہے گاکہ اے رب !یہ لوگ تھے جنہوں  نے ہم کوگمراہ کیالہذاانہیں  آگ کادوہراعذاب دے،جواب میں  ارشادہوگاہرایک کے لیے دوہراعذاب ہی ہے مگرتم جانتے نہیں  ہو۔

ایک مقام پرفرمایا

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ۝۸۸ [66]

ترجمہ:جن لوگوں  نے خودکفرکی راہ اختیارکی اوردوسروں  کواللہ کی راہ سے روکاانہیں  ہم عذاب پرعذاب دیں  گے اس فسادکے بدلے جووہ دنیامیں  برپاکرتے رہے۔

إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی كُنتُمْ تُوعَدُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُكُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِیهَا مَا تَشْتَهِی أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیهَا مَا تَدَّعُونَ ‎﴿٣١﴾‏ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیمٍ ‎﴿٣٢﴾(حم السجدة)
 (واقعی) جن لوگوں  نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں  کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو  (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو، تمہاری دنیاوی زندگی میں  بھی ہم  تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں  بھی رہیں  گے ، جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے  (جنت میں  موجود) ہے،غفور و رحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔

اللہ کی الوہیت وربوبیت پر استقامت اوراس کاانعام:

کفارومشرکین کی ہٹ دھرمی اوردعوت حق کی مخالفت کے نتائج پرمتنبہ کردینے کے بعداہل ایمان کی تسکین قلب کے لئے فرمایاجو لوگ اسلام اوراس کی تعلیمات کوقبول کرلینے کے بعدمرتے دم تک اس پرقائم رہے،اوراسلام کی تعلیمات کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ یانظریہ اختیارنہ کیا ، اور نہ ہی عقیدہ توحید اورعقیدہ ربوبیت کے ساتھ کسی باطل عقیدے یانظریہ(شرک) کی آمیزش کی اوراپنی عملی زندگی میں  بھی اپنے اعمال کواللہ کے لئے خالص کرلیا اوراللہ کے عائدکردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ اداکرتے رہے،سخت سے سخت حالات ،مصائب میں  بھی ایمان وتوحیدپرقائم رہے،راہ راست پر استقامت اورپختگی کے ساتھ گامزن رہے اوراس سے انحراف نہیں  کیا، توحق و باطل کی کشمکش ،مصیبتوں  اورمصائب میں  اور موت کے وقت اللہ ان کی ہمت بندھانے،تسکین دینے اوران کے دلوں  کومطمئن کرنے کے لئے ان پرنہایت عزت واکرام والے فرشتے نازل فرماتاہے جواس شخص کوخوشخبری دیتے ہیں  کہ دنیامیں  باطل کی طاقتیں  خواہ کتنی ہی بالادست اورچیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ نہ ہو،دنیامیں حق پرستی کی وجہ سے جو تکالیف اورمحرومیاں  بھی تمہیں  سہنی پڑیں  ان پررنج وغم نہ کروکیونکہ مستقبل میں  تمہیں  اس کے بدلے جنت میں  ایسی نعمتیں  اوردرجات ملیں  گے جس کے مقابلے میں  دنیاکی ہرنعمت اوردرجہ ہیچ ہے،

عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِیِّ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ حَدِّثْنِی بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ،قَالَ: قُلْ: رَبِّیَ اللَّهُ، ثُمَّ اسْتَقِمْ،قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَكْثَرُ مَا تَخَافُ عَلَیَّ؟فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ:هَذَا

سفیان بن عبداللہ ثقفی  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں  نے کہااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !مجھے ایک ایسی بات بتلادیں  جس کومیں  مضبوط تھامے رہوں ، توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہہ اللہ تعالیٰ میرارب ہے پھراس پراستقامت اختیار کر،میں  نے عرض کیا اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کومیرے اوپرسب سے زیادہ ڈرکس چیزکاہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان تھامی اورفرمایااس کا۔[67]

اورموت کی سختیوں ،قبرکی تاریکیوں ،قیامت کے روزپل صراط کے ہولناک منظر کے وقت ثابت قدم رہنے کی ہمت بڑھاتے ہیں  اورجنت کے اندران کے رب کی طرف سے عطاکردہ اکرام وتکریم پر انہیں  مبارک باددیتے ہیں  اورجنت کے ہردروازے میں  داخل ہوتے ہوئے ان سے کہیں  گے۔

سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۝۲۴ۭ [68]

ترجمہ:تم پر سلامتی ہے،تم نے دنیامیں  جس طرح صبرسے کام لیااس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو۔

اس زندگی کو چھوڑ کرجہاں  تم جارہے ہووہاں  کے حالات کا اندیشہ نہ کرو، وہاں  تمہارے لئے کوئی غم وخوف نہ ہوگابلکہ رب کی بخشیش وعنایات ہوں  گی ،تم اپنے پیچھے جودنیاچھوڑے جارہے ہواس پربھی کوئی رنج وغم نہ کروتمہارے اہل وعیال ،مال ومتاع کی دین ودیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ الْمَیِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِی أَیَّتُهَا النَّفْسُ الطَّیِّبَةُ، كَانَتْ فِی الْجَسَدِ الطَّیِّبِ، اخْرُجِی حَمِیدَةً، وَأَبْشِرِی بِرَوْحٍ، وَرَیْحَانٍ، وَرَبٍّ غَیْرِ غَضْبَانَ ، قَالَ: فَلَا یَزَالُ یُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا قریب المرگ آدمی کے پاس فرشتے آتے ہیں  اگر وہ نیک آدمی ہو تو اس سے کہتے ہیں  کہ اے نفس طیبہ! جو پاکیزہ جسم میں  رہا یہاں  سے نکل قابل تعریف ہو کر نکل اور روح و ریحان کی خوش خبری قبول کر اور اس رب سے ملاقات کر جو تجھ سے ناراض نہیں ، فرمایااس کے سامنے یہ جملے بار بار دہراتے جاتے ہیں  حتی کہ اس کی روح نکل جاتی ہے۔[69]

اورثابت قدمی کے لئے ان کی ہمت بڑھانے کے لئے مزید خوشخبری دیتے ہیں  کہ ہم اس دنیوی زندگی میں  بھی تمہارے ساتھی رہے ہیں  اورروزقیامت بھی تمہارے ساتھی ہوں  گے، اس زندگی میں  تم نے اپنی تمناؤں  اورخواہش کا گلا گھونٹا ہواہے مگرجنت میں  تم جن لذات وشہوات کی تمناکروگے اللہ تمہیں  عنایت فرمادے گا،وہ ایسی لذات ہوں  گی جن کوکسی آنکھ نے دیکھاہے نہ کان نے سناہے اورنہ کسی بشر کے قلب میں  اس کاخیال گزراہے، یہ بے پایاں  ثواب اورہمیشہ رہنے والی نعمت ،مہمانی اورضیافت رحم وکرم اوربخشش ومغفرت کرنے والی ہستی کی طرف سے ہوگاجس نے تمہارے گناہوں  کوبخش دیاہے یہاں  تک کہ تمہاری تمنائیں  اورخواہش ختم ہوجائیں  گی مگررب کی طرف سے نعمتوں  کانزول جاری وساری رہے گا۔

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَكَ وَبَیْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ‎﴿٣٤﴾‏ وَمَا یُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ‎﴿٣٥﴾‏ وَإِمَّا یَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٣٦﴾‏(حم السجدة)
اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں  یقیناً مسلمانوں  میں  سے ہوں ،  نیکی اور بدی برابر نہیں  ہوتی ،برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہوجائے گا جیسے دلی دوست،اور یہ بات انہیں  نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں  اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں  کے کوئی نہیں  پاسکتا،اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو،  یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کامحبوب انسان :

مکہ مکرمہ میں  اس وقت حالت یہ تھی کہ دعوت حق کامقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اورسخت جارحانہ مخالفت سے کیاجارہاتھا،جس میں  اخلاق،انسانیت اورشرافت کی تمام حدیں  توڑڈالی گئی تھیں ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب  رضی اللہ عنہم  کے خلاف ہرجھوٹ بولاجارہاتھا،ہرطرح کے ہتھکنڈے سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوبدنام کرنے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے لوگوں  کوبدگمان کرنے کے لئے استعمال کیے جارہے تھے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر طرح طرح کے الزامات چسپاں  کیے جارہے تھے اورمخالفانہ پروپیگنڈاکرنے والوں  کی ایک فوج کی فوج آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دلوں  میں  وسوسے ڈالتی پھررہی تھی ،ہرقسم کی اذیتیں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کواورآپ کے اصحاب  رضی اللہ عنہم  کودی جارہی تھیں ،جوشخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتاتھااسے یکایک یہ محسوس ہوتاتھاکہ اس نے خونخوار درندوں  کے جنگل میں  قدم رکھ دیاہے جہاں  ہرایک اسے پھاڑکھانے کودوڑرہا ہے ،اوراس سے آگے بڑھ کرجس نے اسلام کی تبلیغ کے لئے زبان کھولی اس نے گویادرنددں  کوپکاردیاکہ آؤمجھے بھنبھوڑڈالو ،جس سے تنگ آکرمسلمانوں  کی ایک بڑی تعداداپناوطن چھوڑکرنکل جانے پرمجبورہوگئی تھی ، پھر آپ کوتبلیغ سے روک دینے کے لئے یہ پروگرام بنایاگیاکہ اس کلام کولوگوں  تک پہنچنے ہی نہ دیاجائے،چنانچہ اس مقصدکے لیے ہلڑمچانے والوں  کاایک گروہ ہروقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تاک میں  لگارہتاتھا اورجب آپ دعوت حق کے لئے زبان کھولتے تووہ اتنا شور برپا کرتے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکتاتھا ،یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں  بظاہردعوت کے تمام راستے مسدودنظرآتے تھے ،ان حالات میں  اہل ایمان کوتسکین دینے اورہمت بندھانے کے بعد فرمایا کہ کسی شخص کااللہ کواپنارب مان کرسیدھی راہ اختیارکرلینااوراس سے پیچھے نہ ہٹنابلاشبہ اپنی جگہ بڑی اوربنیادی نیکی ہے لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ شدیدمخالفت کے ماحول میں  بھی جہاں  اسلام کااعلان واظہار کرنا اپنے اوپرمصیبتوں  کودعوت دیناہو آدمی ڈٹ کر اللہ وحدہ لاشریک کی الوہیت وربوبیت کااعلان کردے اور نتائج سے بے پروا ہوکر امربالمعروف اورنہی عن المنکرکی دعوت دے ایسے ہی لوگوں  کااللہ کے ہاں  بڑامرتبہ ہے،جیسے فرمایا

وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ۝۱۳۲ [70]

ترجمہ:ہرشخص کادرجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے اورتمہارارب لوگوں  کے اعمال سے بے خبرنہیں ۔

کیونکہ موذن لوگوں  کوحی الصلاة پکارکرلوگوں  کو اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی طرف بلاتاہے،اس لیے ان کی فضیلت میں  یہ روایت ہے،

 مُعَاوِیَةَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ

امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن موذن سب لوگوں  سے زیادہ لمبی گردنوں  والے ہوں  گے (یعنی اپنے اس عمل کی وجہ سے دور سے پہچانے جائیں  گے کہ یہ لوگوں  کواللہ کی بندگی کی پکارکرتے تھے)۔ [71]

اورلوگوں  کواللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خودبھی اللہ کے حکم کی اطاعت اور عمل صالحہ اختیارکرے تاکہ کسی کودین اسلام اوراس کے علمبرداروں  پرانگلی اٹھانے کاکوئی موقعہ نہ ملے ،اور مخالفتوں  کے توڑنے کاپہلا اخلاقی نسخہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوبتایاگیاکہ نیکی اوربدی یکساں  نہیں  بلکہ ان میں  عظیم فرق ہے ، تم برائی کواچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی قول وفعل سے برائی کابدلہ احسان کے ساتھ ،ظلم وزیادتی کابدلہ عفوکے ساتھ،غصہ وغضب کاصبرکے ساتھ ،بے ہودگیوں  کاجواب چشم پوشی کے ساتھ ، ناپسندیدہ باتوں  کاجواب برداشت اورحلم کے ساتھ،قطع رحمی کاصلہ رحمی کے ساتھ اورجہالت پربردباری کے ساتھ دیاجائے،جیسے فرمایا

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِىَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ۔۔۔[72]

ترجمہ:اے نبی  برائی کواس طریقہ سے دفع کروجوبہترین ہو۔

قَالَ عُمَرُ [رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ] مَا عَاقَبْتَ مَنْ عَصَى اللَّهَ فِیكَ بِمِثْلِ أَنْ تُطِیعَ اللَّهَ فِیهِ

سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ  نے فرمایاجوتمہارے بارے میں  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے توتم اسے اس سے بڑھ کراورکوئی سزانہیں  دے سکتے کہ تم اس کے بارے میں  اللہ تعالیٰ کی فرماں  برداری کرو۔[73]

مگراس کے لئے بڑادل گردہ،بڑاعزم ،بڑاحوصلہ ،بڑی قوت برداشت ، بڑاضبط وتحمل،بڑاصبر اوراپنے نفس پربہت بڑا قابو درکار ہے ، اوریہ اوصاف ان لوگوں  کوحاصل ہوتے ہیں  جن کے لیے جنت میں  جانالکھ دیاگیاہو ، جس کے ذریعے سے بندے کو دنیا و آخرت میں  رفعت عطاہوتی ہے اوریہ مکارم اخلاق میں  سب سے بڑی خصلت ہے ، اگرآپ نے اپنے نفس کوعقل وشعورکے تابع کرلیا توآپ کوعظیم فائدہ حاصل ہو گا ، اس طرح کے طریقہ کارسے تمہارے دشمن اپنی کمینہ چالوں ،ذلیل ہتھکنڈوں  اوررکیک حرکتوں  سے باز آ جائیں  گے اور تمہارے قریبی اورانتہائی مشفق دوست بن جائیں  گے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی تَفْسِیرِ هَذِهِ الْآیَةِ:أَمر الله الْمُؤمنِینَ بِالصبرِ عِنْد الْغَضَب والحلم عِنْد الْجَهْل وَالْعَفو عِنْد الإِساءة فَإِذا فعلوا ذَلِك عصمهم الله من الشَّیْطَان وخضع لَهُم عدوهم {كَأَنَّهُ ولی حمیم}

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں  روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں  کوحکم دیاہے کہ وہ غصے کے وقت صبرسے کام لیں اورجہالت کے وقت حلم اوربردباری کامظاہرہ کریں ، اوربرے سلوک کے جواب میں  عفوودرگزر کاثبوت دیں ، اورجب وہ ایساکریں  گے تواللہ تعالیٰ انہیں  شیطان سے بچالے گااوران کا دشمن اس کے لیے اس طرح ہوجائے گاجیسے گرم جوش دوست ہو۔[74]

مگر دنیا میں  قلیل التعداد ایسے خبیث شخص بھی ہیں  جن کے ساتھ کچھ بھی احسان وبھلائی کریں  اس کازہریلاپن زرہ برابربھی کم نہیں  ہوتا،اوراپنی قوت فیصلہ وقوت ارادی کے زعم میں  مبتلانہ ہوجانایہ شیطان کا دوسرا اور خطرناک وارہے اس لئے جب کبھی شیطان کا اشتعال محسوس کرو تواس کے شرسے بچنے کے لئے فوراً اللہ کی پناہ طلب کرو ،جیسے فرمایا

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۝۱۹۹وَاِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ۝۰ۭ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۲۰۰  [75]

ترجمہ: اے نبی! نرمی ودرگزر کا طریقہ اختیارکرو،معروف کی تلقین کیے جاؤاورجاہلوں  سے نہ الجھو،اگرکبھی شیطان تمہیں  اکسائے تواللہ کی پناہ مانگو۔

اسی مضمون کوایک مقام پریوں  بیان فرمایا

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ۝۰ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ۝۹۶وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ۝۹۷ۙوَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ۝۹۸ [76]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو جو کچھ باتیں  وہ تم پر بناتے ہیں  وہ ہمیں  خوب معلوم ہیں ،اور دعا کرو کہ پروردگار! میں  شیاطین کی اکساہٹوں  سے تیری پناہ مانگتا ہوں ،بلکہ اے میرے رب! میں  تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں  کہ وہ میرے پاس آئیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ هَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ، وَنَفْثِهِ

ابوسعیدخڈری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب نمازکے لیے کھڑے ہوتے تو پڑھتے  میں  اللہ کی پناہ لیتاہوں  جوسننے والااورجاننے والاہے ،مردودشیطان سے یعنی اس کے وسوسوں  اس کے تکبراوراس کے پیداکردہ بے ہودہ خیالات سے۔[77]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَمَعَهُ أَصْحَابُهُ وَقَعَ رَجُلٌ بِأَبِی بَكْرٍ، فَآذَاهُ، فَصَمَتَ عَنْهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ آذَاهُ الثَّانِیَةَ، فَصَمَتَ عَنْهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ آذَاهُ الثَّالِثَةَ، فَانْتَصَرَ مِنْهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ حِینَ انْتَصَرَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَوَجَدْتَ عَلَیَّ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَزَلَ مَلَكٌ مِنَ السَّمَاءِ یُكَذِّبُهُ بِمَا قَالَ لَكَ، فَلَمَّا انْتَصَرْتَ وَقَعَ الشَّیْطَانُ، فَلَمْ أَكُنْ لِأَجْلِسَ إِذْ وَقَعَ الشَّیْطَانُ

اسی ضبط وتحمل اورنفس پرقابو کے بارے میں  سعیدبن مسیب  رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے ہوئے تھے اورآپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام بھی تھے کہ ایک آدمی نے سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ  کوبرابھلاکہااورانہیں  اذیت دی سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  خاموش رہے،اس نے پھردوسری مرتبہ اذیت دی توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے، اس نے پھرتیسری مرتبہ اذیت دی توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  کاپیمانہ صبر لبریز ہو گیا اورانہوں  نے بھی جواب میں  اسے ایک سخت بات کہہ دی،جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے بدلہ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اٹھ کھڑے ہوئے توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !کیاآپ مجھ سے ناراض ہوگئے؟تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاآسمان سے ایک فرشتہ اتراتھاجواس آدمی کواس کے کہے پرجھٹلارہاتھا جب تم نے اس سے بدلہ لیاتوفرشتے کی جگہ شیطان آگیامیں  شیطان کے ساتھ تو نہیں  بیٹھ سکتاتھا ۔ [78]اوریقین رکھوکہ اللہ بے خبر نہیں  ہے ،وہ ہربات کوسننے والااورجاننے والا ہے اور وہی پناہ کے طلب گاروں  کوپناہ دے سکتاہے ۔

‏ وَمِنْ آیَاتِهِ اللَّیْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِی خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِیَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِینَ عِندَ رَبِّكَ یُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا یَسْأَمُونَ ۩ ‎﴿٣٨﴾‏(حم السجدة)
اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں  میں  سے ہیں ، تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ  اس اللہ کے لیے کرو جس نے سب کو پیدا کیا ہے  اگر تمہیں  اس کی عبادت کرنی ہے تو، پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں  تو وہ (فرشتے) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں  وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں  اور (کسی وقت بھی) نہیں  اکتاتے۔

مخلوق کونہیں  خالق کوسجدہ کرو:

عرب میں  مظاہرپرست بھی تھے ،جوسورج و چانداوردوسرے سیاروں  کی پرستش کرتے تھے ،ان کوحقیقت سمجھانے کے لیے فرمایا لوگو!یہ دن ورات ،یہ چاندوسورج اللہ کے مظاہرنہیں  ہیں  کہ یہ سمجھنے لگوکہ اللہ ان کی شکل میں  خوداپنے آپ کوظاہرکررہاہےبلکہ یہ تواللہ کی نشانیاں  ہیں جواس کے کمال قدرت ،نفوذمشیت ، لامحدودقوت اوربندوں  پربے پایاں  رحمت پردلالت کرتی ہیں ،ان نشانیوں  پر غوروتدبرکرکے تم کائنات اوراس کے نظام کوسمجھ سکتے ہو،اوریہ اچھی طرح جان سکتے ہوکہ انبیاء ومرسلین جودعوت دے رہے ہیں  وہ حق ہے ، رات کوسورج کاچھپنااورچاندکانکل آناتاکہ تم چاندکی ٹھنڈی میٹھی روشنی میں آرام حاصل کرسکو اوردن کوچاندکاچھپنااورسورج کا نمودار ہو جاناتاکہ تمہیں  کسب معاش میں  پریشانی نہ ہو،پھریکے بعددیگرے ایک دوسرے کاآناجانااورکبھی رات کالمبااوردن کاچھوٹا ہونا اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا او ر رات کا چھوٹاہونا،اسی طرح سورج اورچاندکااپنے اپنے وقت پرطلوع وغروب ہونااوراپنے اپنے مدارپراپنی منزلیں  طے کرتے رہنا اور آپس میں  باہمی تصادم سے محفوظ رہنا وغیرہ صاف طورپردلالت کررہا ہے کہ ان کایقیناًکوئی خالق اورمالک ہے،نیزوہ ایک اورصرف ایک ہے اورکائنات میں  صرف اسی کاتصرف اورحکم چلتاہے ،اگراس کائنات میں  تدبیروحکم کااختیاررکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے تویہ نظام کائنات ایسے مستحکم طریقہ سے کبھی نہیں  چل سکتاتھا،جیسے فرمایا

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ كَـمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا۝۴۲ [79]

ترجمہ:اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو!اگراللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے جیساکہ یہ لوگ کہتے ہیں  تووہ مالک عرش کے مقام کوپہنچنے کی ضرورکوشش کرتے۔

لَوْ كَانَ فِیْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا ۔۔۔ ۝۲۲ [80]

ترجمہ:اگرآسمان وزمین میں  ایک اللہ کے سوادوسرے خدابھی ہوتے تو(زمین وآسمان)دونوں  کانظام بگرجاتا۔

سورج چاندوغیرہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مجبورولاچار مخلوق ہیں ، اورانہیں  کسی طرح کاکوئی قدرت یااختیارحاصل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے روزاول سے ان کے لیے جوضابطہ مقررفرمادیاہے اسی کے مطابق وہ اپنے راستے پرگردش کرتے ہوئے اپناکام سرانجام دے رہے ہیں ،کیونکہ سجدہ کرنے کے لائق خالق ورازق ہوتاہے مخلوق نہیں  اس لئے مظاہرقدرت کواپنا معبودسمجھ کران کی رسوم عبادت بجالانے کے بجائے خالق عظیم کی بندگی کرو اوراسی کے لئے اپنے دین کاخالص کرو،لیکن اگریہ لوگ غروروتکبرمیں  مبتلاہوکراللہ کی بندگی نہیں  کرتے ،اللہ تعالیٰ کی آیات وبراہین کے سامنے سرتسلیم خم نہیں  کرتے تویہ اللہ کوکوئی نقصان نہیں  پہنچاسکتے ،اللہ جہانوں  سے بے نیازاوراپنی ذات میں  آپ محمودہے ،اس کے مقرب فرشتے شب وروزاس کی تسبیح وتحمیدبیان کرتے ہوئے اکتاتے نہیں  ہیں ،جیسے فرمایا

وَمِنْ آیَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ الَّذِی أَحْیَاهَا لَمُحْیِی الْمَوْتَىٰ ۚ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٣٩﴾‏(حم السجدة)
ترجمہ:اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں  تو(پروا نہیں )ہم نے کچھ اور لوگوں  کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں  ہیں  ۔ اس اللہ کی نشانیوں  میں  سے (یہ بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے ، پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں  تو وہی ترو تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے ، جس نے اسے زندہ کیا وہی یقینی طور پر مردوں  کو بھی زندہ کرنے والا ہے،بیشک وہ ہر(ہر)چیزپرقادرہے۔

حیات بعدالموت پرایک دلیل :

اوراللہ تعالیٰ کی بیشمارنشانیوں  میں  سے زمین بھی ہے،جواس کے کمال قدرت ،ملکیت وتدبیرکائنات اوروحدانیت میں  منفردہونے پردلالت کرتی ہیں  فرمایایہ تمہارے روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ زمین مردہ پڑی ہوئی ہے اوراس کے اندرکوئی نباتات پیدا نہیں  ہورہی،پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے وہاں  بارش برسادی ،پانی کے چندچھینٹے پڑتے ہی اسی مردہ زمین میں  زندگی کے چشمے ابلنے لگتے ہیں  ،اسی مردہ زمین کی تہوں  میں  دبی ہوئی بیشمارمردہ نباتات لہلہا اٹھتی ہیں ،پھریہی زمین انواع واقسام کے خوش ذائقہ پھل اوردوسری نباتات پیداکرتی ہے جس سے تمام بندوں  اورزمین کی زندگی ہوتی ہے ،بے شمارحشرات الارض جن کانام ونشان تک گرمی کے زمانے میں  باقی نہ رہاتھایکایک پھراسی شان سے نمودارہوگئے جیسے پہلے دیکھے گئے تھے ،یہ سب کچھ تم ا پنی زندگی میں  باربار دیکھتے رہتے ہواورپھرنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ سنکرحیرت زدہ ہوتے ہوکہ اللہ تمام انسانوں  کومرنے کے بعددوبارہ زندہ کرے گا،حالانکہ جس طرح اللہ بارش کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندہ اور روئیدگی کے قابل بنادیتاہے ،یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ مردوں  کوزندہ کرنے میں  بھی بے بس وعاجزنہیں ،اللہ تعالیٰ یقیناًجن وانس کے اعمال کی جزاء کے لئے انہیں  زندہ کرے گابیشک اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔

إِنَّ الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی آیَاتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا ۗ أَفَمَن یُلْقَىٰ فِی النَّارِ خَیْرٌ أَم مَّن یَأْتِی آمِنًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٤٠﴾‏(حم السجدة)
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں  میں  کج روی کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں ، (بتلاؤ تو) جو آگ میں  ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن وامان کے ساتھ قیامت کے دن آئے ؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔

دعوت اسلام کوزک پہنچانے کے لئے کفارمکہ کی ایک چال یہ بھی تھی کہ وہ اللہ کاکلام سن کرجاتے پھراپنے غلط عقائدونظریات کے اثبات کے لئے کسی آیت کوسیاق وسباق سے کاٹ کر،کسی آیت میں  لفظی تحریف کرکے،کسی فقرے یالفظ کوغلط معنی پہناکرطرح طرح کے اعتراضات جڑتے اورلوگوں  کو بہکاتے پھرتے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں  وعید فرمائی کہ وہ لوگ جواللہ کی قدرتوں  پرایمان نہیں  لاتے اورپوری ہٹ دھرمی کے ساتھ مخالفت پرڈٹے ہوئے ہیں  اوراللہ کے نازل کردہ پاکیزہ کلام میں  ٹیڑھ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں  ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {إِنَّ الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی آیَاتِنَا لَا یُخْفَوْنَ عَلَیْنَا} الْإِلْحَادُ:هُوَ أَنْ یُوضَعَ الْكَلَامُ عَلَى غَیْرِ مَوْضِعِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  نے آیت کریمہ ’’بیشک جولوگ ہماری آیتوں  میں  کج روی کرتے ہیں  وہ(کچھ)ہم سے مخفی نہیں ۔‘‘کے بارے میں فرمایاالحادیہ ہے کہ کلام کواس کے اپنے مقام کے بجائے غیرمقام پررکھا جائے۔[81]

جس سے خودبھی گمراہ ہوتے ہیں  اوردوسروں  کوبھی گمراہی میں  ڈالتے ہیں  اللہ ایسے ملحدین کے ظاہروباطن سےخوب با خبرہے ،اوریہ اللہ کے درد ناک عذاب سے بچ نہیں  سکیں  گے ،یہ اپنی چالوں  ،سازشوں  ،جھوٹے پروپیگنڈے اوراپنی مخالفت کاطوفان کھڑاکردیں  مگریہ اللہ کی مشیت کو روک دینے پرقادرنہیں  ہیں  ، اب ان کی مرضی ہے جوراستہ چاہیں  پسند کرلیں ،اگرچاہیں توہدایت کاراستہ اختیارکرلیں  جواللہ کی رضااورجنت کی منزل ہے اورچاہیں  توگمراہی کے راستے کواختیارکرلیں  جو اللہ کی ناراضی اور بدبختی کی منزل پر جا کر ختم ہوتاہے۔بیشک جواچھایابراعمل تم کرتے ہواللہ اسے دیکھ رہاہے ،اورتمہارے اعمال کے مطابق تمہیں  اس کی جزادے گا،جیسے فرمایا:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَكْفُرْ۝۰ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا۰ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۝۰۝۲۹ [82]

ترجمہ: صاف کہہ دوکہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ،اب جس کاجی چاہے مان لے اورجس کاجی چاہے انکارکردے،ہم نے (انکارکرنے والے)ظالموں  کے لیے ایک آگ تیارکررکھی ہے جس کی لپٹیں  انہیں  گھیرے میں  لے چکی ہیں ۔

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِیزٌ ‎﴿٤١﴾‏ لَّا یَأْتِیهِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِیلٌ مِّنْ حَكِیمٍ حَمِیدٍ ‎﴿٤٢﴾‏ مَّا یُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِیلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٤٣﴾‏(حم السجدة)
جن لوگوں  نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ) یہ با وقعت کتاب ہے، جس کے پاس باطل پھٹک نہیں  سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں  والے خوبیوں  والے (اللہ) کی طرف سے، آپ سے وہی کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں  سے بھی کہا گیا ہے، یقیناً آپ کا رب معافی والا اور دردناک عذاب والا ہے ۔

اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوتسلی کے لئے فرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ وہ لوگ ہیں  جن کے سامنے اللہ کاجلیل القدرکلام آیاجس میں  انہیں  دلائل وبراہین کے ساتھ دعوت توحیددی گئی ،معبودان باطلہ کی بے بسی ولاچاری بیان کی گئی ،دعوت حقہ کونہ ماننے والی اقوام کے عبرت ناک واقعات بیان کیے گئے مگرانہوں  نے اس سے کچھ سبق حاصل نہ کیااور محض اپنے بغض و عناد میں  اس پرایمان لانے سے انکارکردیا،اللہ تعالیٰ نے کئی جگہوں  پردعویٰ کیا کہ یہ ایسی عظیم الشان منزل کتاب ہے جس میں  بیان کردہ حقائق اورواقعات کوغلط ثابت نہیں  کیاجاسکتا، شیاطین جن وانس میں  سے کوئی اس میں  چوری،دخل اندازی یاکمی بیشی کے ارادے سے قریب بھی نہیں  آسکتے،یہ اپنی تنزل میں  محفوظ اوراس کے الفاظ ومعانی ہرتحریف سے مامون ومحفوظ ہیں  کیونکہ یہ اس ہستی کی طرف سے نازل کیاگیاہے جواپنے اقوال وافعال میں  حکیم ومحمودہےاوراسی نے اس کتاب کی حفاظت کاذمہ اٹھایا ہے ، جیسے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ [83]

تر جمہ:بے شک ہم نے اس ذکرکونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

اورچودہ سوسال سے زائدکی مدت نے ثابت کر دیاکہ اللہ کایہ دعویٰ سچاہے ،کفارومشرکین کی ہرطرح کی کوششوں  کے باوجودیہ کتاب پوری آب وتاب کے ساتھ دنیامیں  محفوظ ہے اورقیامت تک محفوظ رہے گی ،ان شاء اللہ ، چنانچہ اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح یہ مشرکین اللہ وحدہ لاشریک کی دعوت پرتعجب کرتے اورہرممکن طریقے سے اس دعوت کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، تمہیں  بشررسول تسلیم نہیں  کرتے،جیسے فرمایا

۔۔۔قَالُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۭ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۔۔۔ ۝۱۰ [84]

ترجمہ: انہوں  نے جواب دیا تم کچھ نہیں  ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں  تم ہمیں  ان ہستیوں  کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے۔

۔۔۔الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۝۰ۤۖ ہَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝۳ [85]

ترجمہ: اور ظالم آپس میں  سرگوشیاں  کرتے ہیں  کہ یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے پھر کیا تم آنکھوں  دیکھتے جادو کے پھندے میں  پھنس جاؤ گے؟ ۔

۔۔۔مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۝۳۳۠ۙ [86]

ترجمہ: انہوں  نے کہا کہ یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں  کہ ایک بشر اور انسان ہے تم ہی جیسا وہی کچھ کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی کچھ پیتا ہے جو تم لوگ پیتے ہو۔

مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۚۖ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۵۴ [87]

ترجمہ:تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے؟ لا کوئی نشانی اگر تو سچا ہے۔

تم سے معجزات کامطالبہ کرتے ہیں ،اس کتاب کوتمہاری تصنیف کہتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰى عَلَیْہِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵ [88]

ترجمہ:کہتے ہیں  یہ پرانے لوگوں  کی لکھی ہوئی چیزیں  ہیں  جنہیں  یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں ۔

تمہیں  شاعراورمجنون کے القابات سے نوازتے ہیں ،جیسے فرمایا

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍؚبَلِ افْتَرٰىہُ بَلْ ہُوَشَاعِرٌ۔۔۔۝۵ [89]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں  بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں  بلکہ یہ اس کی من گھڑت ہےبلکہ یہ شخص شاعر ہے۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝۳۰ [90]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں  کہ یہ شخص شاعر ہے جس کے حق میں  ہم گردش ایام کا انتظار کر رہے ہیں  ؟۔

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ۝۱۴ۘ [91]

ترجمہ:پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے۔

تمہاری تعلیم کامذاق اڑاتے ہیں ، اسی طرح کی حجت بازیاں  پہلی اقوام بھی اپنے رسولوں  سے کرچکی ہیں ،جیسے فرمایا

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۵۲ۚ [92]

ترجمہ:یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں  کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں  آیا جسے انہوں  نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔

کیونکہ کفروشرک میں  ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں  اس لیے ان کے اقوال بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہیں  ،

عَنْ قَتَادَة رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی قَوْلِهِ: مَا یُقَالُ لَكَ مِنَ التَّكْذِیبِ إِلا مَا قَدْ قِیلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ، فَكَمَا كُذِّبْتَ فَقَدْ كُذِّبُوا وَكَمَا صَبَرُوا عَلَى أَذَى قَوْمِهِمْ لَهُمْ فَاصْبِرْ عَلَى أَذَى قَوْمِكَ إِلَیْكَ

قتادہ رحمہ اللہ نے کہاہے کہ آپ کی تکذیب میں بھی وہی کچھ کہاجاتاہے جوآپ سے پہلے پیغمبروں  سے کہاگیاتھا،جیسے آپ کی تکذیب کی جارہی ہے ان کی بھی تکذیب کی گئی تھی،  لہذاجس طرح انہوں  نے اپنی قوم کی طرف سے ایذاپرصبرکیاتھاآپ بھی اپنی قوم کی تکلیفوں  پرصبرکریں ۔[93]

کفارکوتوبہ اوراسباب مغفرت کی طرف آنے کی دعوت دی کہ جواللہ کی طرف رجوع کرلے اور اعمال صالحہ اختیارکرے تو بیشک تمہارارب لوگوں  کی توبہ قبول کرتا اوران کے گناہوں  سے در گزر فرماتاہے اورجوتکبرکرتے ہوئے گناہوں  پراصرارکرتے ہیں  اوردعوت ایمان قبول نہیں  کرتے توایسے لوگوں  کو بڑی دردناک سزادینے والابھی ہے،جیسےارشادفرمایا

نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۴۹ۙوَاَنَّ عَذَابِیْ هُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ۝۵۰ [94]

ترجمہ:اے نبی!میرے بندوں  کوخبردے دوکہ میں  بہت درگزرکرنے والااوررحیم ہوں  مگراس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِیًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آیَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِیٌّ وَعَرَبِیٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَیْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ یُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِیدٍ ‎﴿٤٤﴾‏ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِی شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیبٍ ‎﴿٤٥﴾‏ مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَیْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ ‎﴿٤٦﴾‏(حم السجدة)
 اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں  صاف صاف بیان کیوں  نہیں  کی گئیں  ؟ یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول ؟ آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں  کے لیے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں  لاتے ان کے کانوں  میں  تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، یہ وہ لوگ ہیں  جو کسی بہت دور دراز جگہ سے  پکارے جا رہے ہیں  ،یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی سو اس میں  بھی اختلاف کیا گیا اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی  (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہوچکی ہے تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہوچکا ہوتا، یہ لوگ تو  اسکے بارے میں  سخت بےچین کرنے والے شک میں  ہیں ، جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لیے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے، اور آپ کا رب بندوں  پر ظلم کرنے والا نہیں  ۔

مشرکین مکہ کاایک اعتراض یہ بھی تھاکہ رسول اللہ جس کلام کواللہ کاکلام کہتے ہیں  وہ عربی زبان میں  ہے،کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان عربی ہے اس لیے یہ کلام ان کا اپنا تصنیف کردہ ہےاگریہ اللہ کاکلام ہوتاتوعربی کے بجائے کسی اورعجمی زبان میں  ہوتا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایااگرہم اس قرآن کوعربی زبان کے بجائے کسی اورزبان میں  نازل کرتے تویہ لوگ اعتراض کرتے کہ اسے ہماری زبان میں  نازل ہوناچاہیے تھاتاکہ ہم اس کو سمجھ سکتے، عجمی زبان توہماری سمجھ سے بالاترہے ،اوراس پر بھی اعتراض کرتے کہ رسول توعربی زبان جاننے والاہے مگراس پرکلام عجمی زبان میں  نازل ہواہے ،جسے یہ خودنہیں  جانتے ،جیسےفرمایا۔

وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰی بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ۝۱۹۸ۙفَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَ۝۱۹۹ۭ [95]

ترجمہ:(لیکن ان کی ہٹ دھرمی کاحال تویہ ہے کہ)اگرہم اسے کسی عجمی پربھی نازل کردیتے اوریہ (فصیح عربی کلام)وہ ان کو پڑھ کر سناتا تب بھی یہ مان کرنہ دیتے۔

مگرہم نے قرآن کریم کوعربی زبان میں  نازل کرکے ان کاکوئی عذرباقی نہیں  چھوڑا،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہویہ قرآن ایمان لانے والوں  کے لئے توسراسرہدایت اورجسمانی وروحانی امراض کی شفاہے ،یہ انہیں  رشدوہدایت اورراہ رست کی طرف رہنمائی کرتاہے مگر جولوگ اس  پر ایمان نہیں  لاتے وہ اس کوسننے سے محروم اورروگردانی کاشکارہیں  ،اوریہ ان کے حق میں  اندھاپن ہے جس کی وجہ سے انہیں  رشدوہدایت نظرآتی ہے نہ راہ راست ملتی ہے ، جیسےفرمایا۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۙ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا۝۸۲ [96]

ترجمہ: ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزل میں  وہ کچھ نازل کررہے ہیں  جوماننے والوں  کے لیے شفااوررحمت ہے مگرظالموں  کے لیے خسارے کے سوااورکسی چیزمیں  اضافہ نہیں  کرتا ۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دور کا شخص دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آوازسمجھنے سے قاصرہوتاہے اسی طرح یہ قرآن ان لوگوں  کی عقل وفہم میں  نہیں  آتا ،

قَالَ ابْنُ جَرِیرٍ: مَعْنَاهُ: كَأَنَّ مَنْ یُخَاطِبُهُمْ یُنَادِیهِمْ  مِنْ مَكَانٍ بَعِیدٍ، لَا یَفْهَمُونَ مَا یَقُولُ

ابن جریرکہتے ہیں  اس کے معنی یہ ہیں  کہ گویاوہ شخص جوان سے مخاطب ہے وہ انہیں  کسی دورجگہ سے آوازدے رہاہے تویہ سمجھتے ہی نہیں  کہ وہ کیاکہہ رہاہے۔ [97]

جیسے فرمایا

وَمَثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُونَ [98]

ترجمہ:ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہاجانوروں  کوپکارتاہے اوروہ ہانک کی پکارکی صدا کے کچھ نہیں  سنتے ،یہ بہرے ہیں  ، گونگے ہیں ،اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں  نہیں  آتی۔

آپ پرکتاب نازل کرنے سے پہلے ہم نے موسی علیہ السلام پر تورات نازل کی تھی ،ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاگیاتھاجویہ لوگ آپ کے ساتھ کررہے ہیں ، بنی اسرائیل میں کچھ لوگ اس پرایمان لائے اورانہوں  نے اس سے رہنمائی حاصل کی اورکچھ لوگوں  نے جھٹلایا اوراس سے فائدہ حاصل نہ کرسکے ،اگراللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کوسوچنے سمجھنے کے لیے ڈھیل دینے کی بات طے نہ کر دی ہوتی تو اختلاف کرنے والوں  پرفوراً عذاب نازل کردیتااور ان کا نام ونشان تک مٹادیتا،جیسے فرمایا:

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى۝۱۲۹ۭ [99]

ترجمہ:اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور ان کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔

مگر وہ اپنی سنت کے مطابق بندوں  کوسوچنے سمجھنے کے لیے مہلت عطا فرماتا ہے ، جیسے فرمایا:

وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا۝۴۵ۧ [100]

ترجمہ :مگروہ انہیں  ایک مقررہ وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے ، پھر جب ان کاوقت آن پورا ہو گا تواللہ اپنے بندوں  کودیکھ لے گا ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس کلام پراس لیے ایمان نہیں  لارہے کہ انہوں  نے اس پر کوئی غوروتدبر کیا ہے ،اوراس میں  کوئی کجی تلاش کرلی ہے بلکہ عقل وبصیرت کوبروئے کارلائے بغیر محض جاہلانہ تعصبات،،بغض وعناداورذاتی اغراض کی بناپر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اوراس دعوت کی تکذیب کررہے ہیں ،جوکوئی اللہ وحدہ لاشریک ،اس کے رسولوں  ، منزل کتابوں ،حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاوسزاپر کامل ایمان لائے گااورسنت رسول میں  اعمال صالحہ اختیارکرے گاتووہ اللہ پراحسان نہیں  کرے گابلکہ اپنے ہی حق میں  اچھافیصلہ کرے گا،اورجواللہ کی دعوت کی تکذیب کرے گا اوراعمال خبیثہ میں  ملوث ہوگاتووہی اس کے وبال میں گرفتار ہو گا ، جیسے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْہَا۔۔۔۝۱۵ [101]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔

مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْہِ كُفْرُہٗ۝۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُوْنَ۝۴۴ۙ [102]

ترجمہ:جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہےاور جن لوگوں  نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں ۔

روز محشر اللہ عدل وانصاف کے تمام تقاضوں  کوبروے کارلاکرفیصلہ فرمادے گااورہرشخص کواس کے اعمال کے مطابق سزایاجزادے گا،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  پر ظلم کرنے والا نہیں  ہے کہ وہ کسی کی نیکی کوضائع کردے اوربدکاروں  کوان کی برائیوں  کی سزانہ دے یاان پران کی برائیوں  سے بڑھ کرعذاب مسلط کردے۔

إِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَیَوْمَ یُنَادِیهِمْ أَیْنَ شُرَكَائِی قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِیدٍ ‎﴿٤٧﴾‏ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَدْعُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُم مِّن مَّحِیصٍ ‎﴿٤٨﴾(حم السجدة)
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور جو جو پھل اپنے شگوفوں  میں  سے نکلتے ہیں  اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے، اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں ) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں  ہیں ،  وہ جواب دیں  گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں  سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں ، اور یہ جن (جن) کی پرستش اس سے پہلے کرتے تھے وہ ان کی نگاہ سے گم ہوگئے اور انہوں  نے سمجھ لیاکہ اب ان کے لیے کوئی بچاؤ نہیں ۔

پہلی اقوام کی طرح کفارمکہ بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے قائل نہیں  تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بطورمذاق باربار ایک سوال یہ بھی کرتے تھے کہ آخروہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی جس سے آپ ہمیں  ڈراتے رہتے ہیں ؟ وہ گھڑی کب آئے گی جب برائی کرنے والے کواس کی برائی کی سزااورنیکوکاروں  کوجزادی جائے گی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اللہ کے سواکوئی دوسراعالم الغیب نہیں  ہے، قیامت کی گھڑی ہویاامورغیب کاعلم ہوان کو اللہ کے سوا کوئی نبی،رسول یافرشتہ یابزرگ نہیں  جانتا ،سب اپنے عجزاوربے بسی کااقرارکرتے ہیں ،جیسے فرمایا

یَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰـىهَا۝۴۲ۭفِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا۝۴۳ۭاِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا۝۴۴ۭ [103]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخروہ گھڑی کب آکرٹھہرے گی ؟تمہاراکیاکام کہ اس کاوقت بتاؤاس کاعلم تواللہ پرختم ہے ۔

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ۝۰ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۔۔۔ ۝۱۸۷ [104]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخروہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہو گی ؟ کہواس کاعلم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پروہی ظاہرکرے گا۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجبرائیل علیہ السلام  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے وقت کے بارے میں  معلوم کیاقیامت کب واقع ہوگی؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والانہیں ۔[105]

اس لئے قیامت کی گھڑی معلوم کرنے کی فکرکرنے کے بجائے اس بات کی فکرکروکہ جب وہ عظیم گھڑی واقع ہوگی تو تمہیں  اپنی گمراہیوں  اور گناہوں  کاکیاخمیازہ بھگتناپڑے گا،

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَارِجَانِ مِنَ المَسْجِدِ، فَلَقِیَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟، فَكَأَنَّ الرَّجُلَ اسْتَكَانَ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا كَبِیرَ صِیَامٍ، وَلاَ صَلاَةٍ، وَلاَ صَدَقَةٍ، وَلَكِنِّی أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ:أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ

اسی کے بارے میں  ا نس بن مالک سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مسجدسے نکل رہے تھے ،اتنے ایک شخص ہم کومسجدکے سائبان کے پاس ملااوربولااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب قائم ہو گی ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا(اے اللہ کے بندے!وہ تو بہر حال آنی ہی ہے)تونے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کیا میں  نے اس کے لیے بہت ساری نمازیں ،روزے اورصدقے نہیں  تیارکررکھے ہیں  لیکن میں  اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتاہوں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوان کے ساتھ ہوگاجن سے تومحبت رکھتاہے۔[106]

اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کامل کابیان فرمایاکہ صرف قیامت ہی نہیں  بلکہ تمام امور غیب کاعلم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے،اس کے سواکوئی عالم الغیب نہیں  ہے، وہی ان سارے درختوں  کے پھلوں  کوجانتاہے جواپنے شگوفوں  میں  سے نکلتے ہیں ،اسی کومعلوم ہے کہ کونسی مادہ چاہے بنی آدم میں  سے ہویاتمام حیوانات میں  سے حاملہ ہوئی ہے اورکس نے بچہ جناہے، اس کی علم کی وسعت تویہ ہے

۔۔ لَا یَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۳ۤۙ[107]

ترجمہ:اس سے ذرہ برابرکوئی چیزنہ آسمانوں  میں  چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں ،نہ ذرے سے بڑی اورنہ اس سے چھوٹی ،سب کچھ ایک نمایاں  دفترمیں  درج ہے۔

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹ [108]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں  ہیں  جنہیں  اس کے سواکوئی نہیں  جانتا ،بحروبرمیں   جوکچھ ہے سب سے وہ واقف ہے،درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسانہیں  ہے جس کااسے علم نہ ہو،زمین کے تاریک پردوں  میں  کوئی دانہ ایسانہیں  جس سے وہ باخبرنہ ہو،خشک وترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھاہواہے۔

اَللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ۝۰ۭ وَكُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ۝۸ [109]

ترجمہ:اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے، جو کچھ اس میں  بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں  کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہےہر چیز کے لیے اس کے ہاں  ایک مقدار مقرر ہے۔

لہذاجورب اس عظیم الشان کائنات کی تمام چیزوں  کااتناوسیع علم رکھتاہے اس کی نظروں  سے کسی شخص کے اعمال وافعال اوجھل نہیں  ہیں  اس لیے اللہ کی پکڑسے بے خوف ہوکردنیاکی رنگینیوں  میں  مست نہ ہوجاؤبلکہ آخرت کی فکرکرو،اللہ تعالیٰ قیامت کے روزمشرکین کوان کے جھوٹ کو ظاہرکرنے کے لیے باربارہرہرمرحلے میں باآوازبلند کہے گاکہاں  ہیں  میرے وہ شریک جن کی تم اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکر رسوم عبادت بجالاتے تھے،جنہیں  تم معبود حقیقی کو چھوڑکر مشکلات ومصائب میں  پکارتے تھے،مالک حقیقی کے بجائے جن سے آس وامید رکھتے تھے، جن کی محبت میں  سرشارہوکررسولوں  کی دعوت کامذاق اڑاتے اوران سے عداوت رکھتے تھے،اپنے دینوی مفادات کے لئے اللہ کے کلام میں  تحریف کرتے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اسوہ میں  نئی نئی باتیں  داخل کرتے تھے،اس وقت یہ مجرمین ہرطرف نظر دوڑائیں  گے کہ عمربھرجن ہستیوں  کی سیواکرتے رہے ،جن سے آس وامیدیں  رکھتے تھے ،جن کے درباروں  پرنذرانے چڑھاتے رہے،جن کی قبروں  کوعرق گلاب سے دھوتے رہے،جن کی قبروں  پرقیمتی چادریں  چڑھاتے رہے،جن کی درگاہوں ،خانقاؤں  پرلنگرتقسیم کرتے رہے، شایدان میں  سے کوئی مددکوپہنچ جائے اورہمیں  اللہ کے عذاب سے چھڑالے ،یاکم ازکم سزامیں  کمی کرادے مگرکسی طرف سے کوئی مددگارنظرنہیں  آئے گا ان کاگمان جھوٹاثابت ہوجائے گاتومایوسی کے عالم میں  جواب دیں  گے اے ہمارے رب! اب ہم اچھی طرح جان گئے ہیں  کہ دنیامیں  ہماراعقیدہ سراسرغلط تھاکہ اللہ کی قدرتوں  اور اختیارات میں  کوئی شریک ہے، اللہ کے سوا کوئی اوربھی مشکل کشا، حاجت روا،کرنی بھرنی اورڈوبے بیڑے تیرانے والا بھی ہے،اپنے خودساختہ معبودوں  کی الوہیت اوران کی شرکت کاانکارکرتے ہوئے کہیں  گے اے ہمارے رب!اب ہم میں  سے کوئی بھی ان معبودان باطلہ کی الوہیت اورشرکت گواہی دینے والانہیں  ہے، اس وقت وہ اچھی طرح جان لیں  گے کہ اب انہیں  جہنم میں  جھونکاجانے والاہے اور انہیں  اللہ کے سواکوئی اورپناہ دینے والانہیں  ہے،جیسے فرمایا:

 وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۝۵۳ۧ   [110]

ترجمہ: اور گنہگار لوگ دوزخ کو دیکھیں  گے تو یقین کرلیں  گے کہ وہ اس میں  گرنے والے ہیں  اور اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ پائیں  گے۔

یہ ہے اس شخص کاانجام جس نے اپنے معبود حقیقی کوچھوڑکرغیراللہ کواپنی آس وامیدوں  کامرکزقراردیا۔

لَّا یَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَیْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَئُوسٌ قَنُوطٌ ‎﴿٤٩﴾‏ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَیَقُولَنَّ هَٰذَا لِی وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّی إِنَّ لِی عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِیقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِیظٍ ‎﴿٥٠﴾‏ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِیضٍ ‎﴿٥١﴾‏(حم السجدة)
بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں  اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے ،اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں  تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں  حقدار ہی تھااور میں  تو خیال نہیں   کرسکتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں  اپنے رب کے پاس واپس گیا تو بھی یقیناً میرے لیے اس کے پاس بھی بہتری ہے، یقیناً ہم ان کفار کو ان کے اعمال سے خبردار کریں  گے اور انہیں  سخت عذاب کا مزہ چکھائیں  گے،اور جب  ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں  تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں  کرنے والا بن جاتا ہے۔

انسان کی سرکشی کاحال :

دنیامیں  ہرطرح کے انسان بستے ہیں ،انبیاء اورصلحاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں  مگریہ اللہ پرغیرمتزلزل یقین وبھروسہ رکھتے ہیں ،کچھ ایسے انسان ہوتے ہیں  جودنیاکے طالب نہیں  ہوتے بلکہ ان کے سامنے ہروقت آخرت کی فکرہی ہوتی ہے ،ایسے لوگوں  کو کسی طرح کی تکلیف پہنچتی ہے تووہ اللہ کی رحمت وفضل و کرم سے مایوس نہیں  ہوتے بلکہ وہ آزمائشوں  کوبھی گناہوں  کاکفارہ اوررفع درجات کاباعث گردانتے ہیں  اورآزمائشوں  پررب کی پناہ اور نعمتوں  پراس کاشکراداکرتے رہتے ہیں اورکچھ غالب اکثریت کم ظرف اورچھچھورے انسان بھی ہوتے ہیں جن کامطمع نظرصرف دنیاہوتاہے، جو اکثروبیشتر دینوی نعمتوں  یعنی فوزوفلاح،مال واولاد اور دیگر دنیاوی مطالب ومقاصدکے لئے لمبی لمبی دعائیں  کرتے ہوئے کبھی نہیں  تھکتے ،اگرانہیں  دنیاکی ہرچیزمل جائے تب بھی وہ مزیددنیاطلبی میں  لگے رہتے ہیں مگران کے اعمال بد کے سبب ان پر جب کوئی مصیبت یعنی بیماری،فقراورمختلف مصائب وارد ہو جاتی ہے توفوراًہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اورناامیدہوجاتے ہیں  اور دل شکستہ ومایوس ہوکراللہ تعالیٰ سے شکوے شکایات کرنے لگتے ہیں اورسمجھتے ہیں  کہ یہ مصیبت انہیں  ہلاک کرڈالے گی ،پھروہ ایسے اسباب اختیارکرنے کی فکرکرنے لگتے ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ پسندنہیں  فرماتا مگر جب اللہ تعالیٰ ان کی پریشانیوں  ومصیبتوں ،بیماریوں  اورفقر کوٹال دیتاہے اور اپنے رحم و کرم سے انہیں  دینوی نعمتیں  عنایت کردیتاہے تواللہ کے رحم وکرم اورفضل کا شکرکرنے کے بجائے بغاوت اورسرکشی کارویہ اختیارکرتے ہیں  ،اور اللہ کی اطاعت وبندگی سے منہ موڑتے ہیں  اوراللہ کی بارگاہ میں  جھکنے کواپنی توہین سمجھتے ہیں  اور کفریہ کلمات کہتے ہیں  کہ یہ سب کچھ ہمیں  اپنی قابلیت واہلیت کی بدولت حاصل ہواہے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ۔۔۔۝۷۸   [111]

ترجمہ: اس نے کہا یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے ۔

فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا۝۰ۡثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا۝۰ۙ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ۔۔۔۝۴۹ [112]

ترجمہ:یہی انسان جب ذرا سی مصیبت اسے چھو جاتی ہے تو ہمیں  پکارتا ہے اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اپھار دیتے ہیں  تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھ علم کی بنا پر دیا گیا ہے ! ۔

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۝۰ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ۔۔۔ ۝۱۲ [113]

ترجمہ:انسان کاحال یہ ہے کہ جب اس پرکوئی سخت وقت آتا ہے توکھڑے اوربیٹھے اورلیٹے ہم کوپکارتاہے ، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں  تو ایسا چل نکلتاہے کہ گویااس نے کبھی اپنے کسی برے وقت پرہم کوپکاراہی نہ تھا۔

ایک مقام پرفرمایا

فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ۔۔۔  ۝۳۹ [114]

ترجمہ:تووہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا ۔

قال مُجَاهِدٍ، لَیَقُولَنَّ هَذَا لِی :أَیْ بِعَمَلِی، وَأَنَا مَحْقُوقٌ بِهَذَا

امام مجاہد  رحمہ اللہ نے’’اس کاتومیں  حقدارہی تھا۔‘‘کی تفسیرمیں  فرمایایہ مال ودولت تومیری محنت وکاوش کانتیجہ ہے اورمیں  اس کاحق داربھی ہوں ۔[115]

وقال ابن عباس:یرید من عندی

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میری اپنی کاوش ہے۔

چنانچہ وہ اس غلط فہمی کاشکارہوجاتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عقائدو اعمال سے خوش ہے اور ہم اللہ کے ہاں  محبوب ہیں  اس لئے وہ ہمیں  اپنی ان گنت نعمتوں  سے نواز رہاہے ، حالانکہ مال واسباب کی کمی بیشی محبت یاناراضگی کی علامت ہرگزنہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ صرف آزمائش کے لئے کسی کو زیادہ عنایت فرمادیتاہے اورکسی کوکم دیتاہے یا چھین لیتا ہے یاتکالیف میں  مبتلافرمادیتاہے تاکہ وہ دیکھے کہ اس کی بخشی ہوئی نعمتوں  پرکون شکرگزار اورتکلیفوں  میں  کون صابر ہے؟ کیونکہ دنیاداربندے کی تمام ترکاوشیں  دنیا حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں  اوران میں  غرق ہوکروہ آخرت کے بارے میں کبھی نہیں  سوچتا اس لئے اس کاعقیدہ یہی ہوتا ہے کہ قیامت کبھی قائم نہیں  ہوگی ،اورلمبی امیدیں  باندھ کر کہتا ہے اگربالفرض محال قائم ہوبھی گئی توجس طرح میں  دنیامیں  خیروعافیت کے ساتھ رہ رہاہوں  اس طرح آخرت میں  بھی میں  مزے کروں  گا،جیسے ایک مقام پر دنیا دار شخص کا قول نقل فرمایاگیاہے۔

 وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ۝۰ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖٓ اَبَدًا۝۳۵ۙ وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا۝۳۶ [116]

ترجمہ:پھروہ اپنی  جنت میں  داخل ہوااوراپنے نفس کے حق میں  ظالم بن کرکہنے لگامیں  نہیں  سمجھتاکہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی اورمجھے توقع نہیں  کہ قیامت کی گھڑی کبھی آے گی تاہم اگرکبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیاتو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں  گا۔

ایک مقام پرفرمایا:

كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓى۝۶ۙاَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى۝۷ۭاِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى۝۸ۭ [117]

ترجمہ: ہرگز نہیں  ، انسان سرکشی کرتاہے اس بناپرکہ وہ اپنے آپ کوبے نیاز دیکھتا ہے (حالانکہ) پلٹنا یقیناًتیرے رب ہی کی طرف ہے۔

یہ ان کی طرف سے بڑی جسارت اور انکارقیامت ہے اوراللہ تعالیٰ کی عطافرمائی ہوئی نعمتوں  اوررحمتوں  کی ناسپاسی ہے ، ایسے کٹے کافروں  کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کاعذاب تیارکررکھا ہے جس میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے۔

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُم بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ ‎﴿٥٢﴾‏ سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ یَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ‎﴿٥٣﴾‏ أَلَا إِنَّهُمْ فِی مِرْیَةٍ مِّن لِّقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیطٌ ‎﴿٥٤﴾‏(حم السجدة)
آپ کہہ دیجئے !کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں  (حق سے) دور چلا جائے، عنقریب ہم انہیں  اپنی نشانیاں  آفاق عالم میں  بھی دکھائیں  گے اور خود ان کی اپنی ذات میں  بھی یہاں  تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں ،
 یقین جانو! کہ یہ لوگ اپنے رب کے روبرو جانے سے شک میں  ہیں ، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !قرآن کی تکذیب اورکفران نعمت میں  جلدی کرنے والوں  سے کہہ دیجئے ،آج تم بغیرسوچ وبچار کے محض اپنے تعصابات،بغض وعناداوراپنے وہم و گمان پرکلام الٰہی کا انکار کررہے ہو،مگرکبھی یہ بھی سوچاکہ اگریہ کلام اللہ کی طرف سے ہوااوروہ سب کچھ پیش آگیاجس کی یہ پیشگی خبردے رہاہے توپھرسوچ لوکہ اس کاانکار اوراس کی مخالفت کرکے تم کس انجام سے دوچارہوجاؤگے،اس لئے تمہارے اپنے مفاد کا تقاضاہے کہ خوامخواہ کی ضدوہٹ دھرمی چھوڑکرسنجیدگی سے کلام اللہ پرغوروتدبرکرو،اس کے بعدبھی اگرتم ایمان نہیں  لاتے تویہ تمہاری اپنی مرضی ہے، مگراس کی مخالفت میں  اتنے آگے نہ بڑھ جاؤکہ اس دعوت کوروکنے کے لئے جھوٹ وفریب،اورظلم وستم کے ہتھیاراستعمال کرنے لگو ،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ اس دعوت کوروکنے کی جتنی چاہے کوشش کرلیں مگریہ اللہ کی مشیت کوروک نہیں  سکتے، عنقریب ان پرقرآن مجیدکی صداقت ،اس کامن جانب اللہ ہونااوردین اسلام کی حقانیت خودبخود واضح ہوجائے گا ، اس کلام کی دعوت تمام گردوپیش کے علاقوں  پرچھاکررہے گی اوریہ خودبھی اس کے آگے سرنگوں  ہوجائیں  گے،اس وقت انہیں  معلوم ہو جائے گا کہ اس کلام کی دعوت سراسرحق تھی،کیاان کے لیے اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی نہیں  کہ قرآن حق ہے اوراس کوپیش کرنے والی ہستی سچی ہے ؟مگریہ لوگ حیات بعدالموت اورقیامت کے بارے میں  شک رکھتے ہیں ،جیسے فرمایا:

لٰكِنِ اللهُ یَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ۝۰ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَشْهَدُوْنَ۝۰ۭ وَكَفٰی بِاللهِ شَهِیْدًا۝۱۶۶ۭاِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۝۱۶۷  [118]

ترجمہ:(لوگ نہیں  مانتے تونہ مانیں )مگراللہ گواہی دیتاہے کہ اے نبی !جوکچھ اس نے تم پرنازل کیاہے اپنے علم سے نازل کیاہے اوراس پرملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کاگواہ ہونابالکل کفایت کرتاہے ،جولوگ اس کوماننے سے خودانکارکرتے ہیں  اوردوسروں  کواللہ کے راستے سے روکتے ہیں  وہ یقیناًگمراہی میں  حق سے بہت دورنکل گیا۔

آگاہ رہوبیشک اللہ نے اپنے علم وقدرت اورغلبے سے ہر چیز کااحاطہ کررکھاہے اور یہ اس کی گرفت سے بچ کرنہیں  جاسکتے۔

کفارمکہ کی چندتجاویز:

جب کفارنے دیکھاکہ حمزہ  رضی اللہ عنہ  کے اسلام لانے کے بعد سیدالامم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں  میں  روزبروزاضافہ ہوتاجارہاہے،توابوجہل ،عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ ، ولیدبن مغیرہ ،امیہ بن خلف ،اسودبن المطلب اوردوسرے سرداران قریش جو یہ تسلیم کرنے کوتوبالکل تیارنہیں  تھے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں  اور ان پرکلام اللہ نازل ہورہا ہے جو رشدو ہدایت سے لبریز ہے،اس لئے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم جودعوت پیش کررہے ہیں  اس کامقصدیاتومال ودولت ہے یاپھرحکومت واقتدارحاصل کرناہے، کیونکہ انسان طبعاًخاص کرجب کہ وہ فقیرومحتاج ہو مال ودولت کالالچ کرنے لگتاہے اورحکومت کی عظمت وطمطراق اسے دھوکہ میں  ڈال دیتے ہیں ،اس لئے ان دونوں  سے تعلق خاطررہتاہے اور ان کے حصول کے لئے جو تدبیر بھی بن پڑے اس کی جدوجہدکرتاہے، یاپھرپچھلی قوموں  کی طرح ان کابھی یہی خیال تھاکہ معاذاللہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل میں  کچھ فتور پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ایسی بہکی بہکی باتیں  کرتے ہیں  ،

قَالَ یَوْمًا وَهُوَ جَالِسٌ فِی نَادِی قُرَیْشٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ وَحْدَهُ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، أَلَا أَقُومُ إلَى مُحَمَّدٍ فَأُكَلِّمَهُ وَأَعْرِضَ عَلَیْهِ أُمُورًا لَعَلَّهُ یَقْبَلُ بَعْضَهَا فَنُعْطِیهِ أَیَّهَا شَاءَ، وَیَكُفُّ عَنَّا؟فَقَالُوا: بَلَى یَا أَبَا الْوَلِیدِ، قُمْ إلَیْهِ فَكَلِّمْهُ، فَقَامَ إلَیْهِ عُتْبَةُ حَتَّى جَلَسَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یابن أَخِی، إنَّكَ مِنَّا حَیْثُ قَدْ علمتَ مِنْ السِّطَة فیِ الْعَشِیرَةِ، وَالْمَكَانِ فِی النَّسَبِ، وَإِنَّكَ أَتَیْتَ قومَك بِأَمْرِ عَظِیمٍ فرَّقت بِهِ جَمَاعَتَهُمْ وسفهتَ بِهِ أحلامَهم وعِبتَ بِهِ آلِهَتَهُمْ وَدِینَهُمْ وكفَّرت بِهِ مَنْ مَضَى مِنْ آبَائِهِمْ، فَاسْمَعْ مِنِّی أعرضْ عَلَیْكَ أُمُورًا تَنْظُرُ فِیهَا لَعَلَّكَ تَقْبَلُ مِنْهَا بَعْضَهَا

ایک دن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  مسجدمیں  تنہا تشریف فرما تھے، انہیں  دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ نے جوسحر،کہانت اورشعرگوئی میں  یکتاتھا کہا اے جماعت قریش!کیایہ مناسب نہ ہوگاکہ میں  محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس جاکران سے کچھ گفتگوکرواورانہیں  چندتجاویزپیش کروں  ،ہوسکتاہے کہ وہ میری تجاویز کو قبول کرلیں  اور ہماری تکفیر اوراس نئے دین کی دعوت دینا بند کردیں  اورہم اس مصیبت سے چھٹکاراپاجائیں ؟ حاضرین نے کہاضرور اے ابوولید!تم جاکر ان سے گفتگو کرو اور اپنی تجاویزانہیں  پیش کرو، ابوالولید کا گمان تھاکہ وہ مال وجاہ اورملک نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کوپیش کرے گاتووہ اسے قبول کرلیں  گے ،اور ان کے دین سے تعرض نہ کریں  اورنہ ہی انہیں  بتوں  کی پرستش ترک کرنے کی دعوت دیں  گے،چنانچہ عتبہ بن ربیعہ اپنے ساتھیوں  کی مجلس سے اٹھ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پہنچااورآپ کے نزدیک بیٹھ کر کہنے لگااے میرے بھتیجے! جیسا کہ تمہیں  علم ہے تم ہم میں  ایک معزز اور اعلیٰ کنبہ کے فرداور نسبی شرافت میں  ہم سے برترہو،تم اپنی قوم کے لئے ایک عظیم تحریک لیکرآئے جس کی وجہ سے تم نے اپنی جماعت میں  تفریق پیدا کر دی ،اپنی قوم کے بڑے بوڑھے سرداروں  کو نادان گرداناحالانکہ ان کی سرداری اور دانشمندی کواہل عرب تسلیم کرتے ہیں  ، ان کے آباؤاجداد سے پرستش کیے جانے والے معبودوں  اوران کے دین میں  طرح طرح کے عیب نکالے ،ان کے گزرے ہوئے آباؤاجداد کو گمراہ اور کافر بتایا،اب میں  تمہارے سامنے چندتجاویزرکھتاہوں  ، ان پرٹھنڈے دل سے غورکروشایدتم ان میں  سے کوئی بات تسلیم کر لو اس طرح ہم میں  جوتفرقہ برپاہے ختم ہو جائے گا اورہم امن وسکون سے رہنے لگیں  گے،

قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ یَا أبا الولید، أسمع ، قال: یابنَ أَخِی، إنْ كنتَ إنَّمَا تُرِیدُ بِمَا جئتَ بِهِ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ مَالًا جَمَعْنَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِنَا حَتَّى تَكُونَ أَكْثَرَنَا مَالًا وَإِنْ كُنْتَ تُرِیدُ بِهِ شَرَفًا سَوَّدْنَاكَ عَلَیْنَا، حَتَّى لَا نَقْطَعَ أَمْرًا دُونَكَ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِیدُ بِهِ مُلكًا مَلَّكْنَاكَ عَلَیْنَا وَإِنْ كَانَ هَذَا الَّذِی یَأْتِیكَ رَئِیًّاتَرَاهُ لَا تَسْتَطِیعُ رَدَّهُ عَنْ نفسِك، طَلَبْنَا لَكَ الطبَّ، وَبَذَلْنَا فِیهِ أَمْوَالَنَا حَتَّى نبرئَك مِنْهُ، فَإِنَّهُ رُبَّمَا غَلَبَ التابعُ عَلَى الرَّجُلِ حَتَّى یُدَاوَى مِنْهُ أَوْ كَمَا قَالَ لَهُ، حَتَّى إذَا فَرَغَ عُتْبَةُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَمِعُ مِنْهُ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے ابوولید!آپ جوکہناچاہتے ہیں  شوق سے کہیں  میں  ہمہ تن گوش ہوں ،عتبہ بن ربیعہ نے کہااے بھتیجے جو تحریک تم نے چلائی ہے اگر اس سے تمہارامقصدمال و دولت حاصل کرناہے توہم تمہیں  اتنامال ودولت جمع کردیں  گے کہ تم ہم سب سے زیادہ متمول بن جاؤگے،اگر تمہیں  عزت وجاہ کی خواہش ہے تو ہم تمہیں  اپناسردارتسلیم کر لیتے ہیں  یہاں  تک کہ کبھی تمہاری مرضی کے بغیرکوئی کام نہیں  کریں  گے،اوراگرتم بادشاہ بنناچاہتے ہوتوہم تمہیں  اپنا بادشاہ بنانے کوتیارہیں ، اور بقول تمہارے تم پرجوشخص آتا ہے اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ کوئی جن ہے جسے تم خوداپنے آپ سے نہیں  ہٹا سکتے توہم کسی طبیب کوبلاکرتمہاراعلاج کرانے کوتیارہیں  ، اس پرجوخرچ ہو گاوہ سب ہم برداشت کرلیں  گے تاکہ تمہیں  اس سے نجات دلاسکیں  کیونکہ کبھی ایساہوتاہے کہ کوئی جن کسی انسان پرمسلط ہوجاتاہے اور موثر تدبیر کے بغیرنہیں  ٹلتا،اس طرح عتبہ بن ربیعہ نے پہلے آپ سے سودے بازی کی بات کی اورپھردوسری بات کرکے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے لگا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ بن ربیعہ کی ان بیہودہ تجاویزکوخاموشی سے سنتے رہے جب وہ اپنی تجاویز پیش کر چکا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قَالَ: أَقَدْ فَرَغْتَ یَا أَبَا الْوَلِیدِ؟قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاسْمَعْ مِنِّی، قَالَ: أَفْعَلُ، فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ. حم. تَنْزِیلٌ مِنَ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ. كِتابٌ فُصِّلَتْ آیاتُهُ قُرْآناً عَرَبِیًّا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ. بَشِیراً وَنَذِیراً، فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُونَ. وَقالُوا قُلُوبُنا فِی أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونا إِلَیْهِ 41: 0- 5 ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَا یَقْرَؤُهَا عَلَیْهِ. فَلَمَّا سَمِعَهَا مِنْهُ عُتْبَةُ، أَنْصَتَ لَهَا، وَأَلْقَى یَدَیْهِ خَلْفَ ظَهْرِهِ مُعْتَمِدًا عَلَیْهِمَا یَسْمَعُ مِنْهُ، ثُمَّ انْتَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى السَّجْدَةِ مِنْهَا،فَسَجَدَ ثُمَّ قَالَ: قَدْ سَمِعْتَ یَا أَبَا الْوَلِیدِ مَا سَمِعْتَ، فَأَنْتَ وَذَاكَ.

اے ابوولید!کیاتم اپنی تجاویزپیش کرچکے ؟ قَالَ: نَعَمْ اس نے کہاہاں !قَالَ: فَاسْمَعْ مِنِّی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااب میری بات غورسے سنو،اس نے کہافرمایئے  اورپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حم السجدہ کی آیت ۱تا۳۸ تلاوت فرمائیں ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم برابرتلاوت فرماتے رہے اورعتبہ بن ربیعہ اپنے ہاتھوں  کوکمرکے پیچھے زمین پر ٹیک کراس سورہ کو سنتا رہاحتی کہ آیت سجدہ پرپہنچے اورسجدہ فرمایاپھرعتبہ بن ربیعہ سے فرمایااے ابوولید!جوکچھ تم نے سنناتھاتم نے سن لیایہی تمہاری تجاویزکا جواب ہے،

فَقَامَ عُتْبَةُ إلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ: نَحْلِفُ باللَّه لَقَدْ جَاءَكُمْ أَبُو الْوَلِیدِ بِغَیْرِ الْوَجْهِ الَّذِی ذَهَبَ بِهِ. فَلَمَّا جَلَسَ إلَیْهِمْ قَالُوا: مَا وَرَاءَكَ یَا أَبَا الْوَلِیدِ؟ قَالَ:وَرَائِی أَنِّی قَدْ سَمِعْتُ قَوْلًا وَاَللَّهِ مَا سَمِعْتُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَاَللَّهِ مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، وَلَا بِالسِّحْرِ، وَلَا بِالْكِهَانَةِ، یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، أَطِیعُونِی وَاجْعَلُوهَا بِی، وَخَلُّوا بَیْنَ هَذَا الرَّجُلِ وَبَیْنَ مَا هُوَ فِیهِ فاعتزلوه، فو الله لَیَكُونَنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِی سَمِعْتُ مِنْهُ نَبَأٌ عَظِیمٌ، فَإِنْ تُصِبْهُ الْعَرَبُ فَقَدْ كُفِیتُمُوهُ بِغَیْرِكُمْ، وَإِنْ یَظْهَرْ عَلَى الْعَرَبِ فَمُلْكُهُ مُلْكُكُمْ، وَعِزُّهُ عِزُّكُمْ، وَكُنْتُمْ أَسْعَدَ النَّاسِ بِهِ، قَالُوا: سَحَرَكَ وَاَللَّهِ یَا أَبَا الْوَلِیدِ بِلِسَانِهِ، قَالَ: هَذَا رَأْیِی فِیهِ، فَاصْنَعُوا مَا بَدَا لَكُمْ.

عتبہ بن ربیعہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے اٹھ کراپنے ساتھیوں  کی طرف روانہ ہوااس کے چہرے کی ہیئت دیکھتے ہی ایک نے دوسرے سے کہناشروع کردیا ابوولیدتمہارے پاس سے جس طرح گئے تھے اس سے بدلے ہوئے واپس ہورہے ہیں ،جب یہ جاکر اپنی مجلس میں  بیٹھاتوسب نے پوچھااے ابوولید!کہوکیاخبرلائے ہو؟ اس نے جواب دیا بخدا میں  نے وہ کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایساکلام نہ سناتھا ، واللہ وہ نہ شعرہے نہ جادواورنہ ہی کہانت ہے اے جماعت قریش !میری بات مانواور میری رائے سے اتفاق کروتم اس شخص کواپنے حال پرچھوڑدو،اللہ کی قسم! میں  نے اس سے جو کلام سناہے وہ ایک عظیم مستقبل کاحامل ہےاورمیں  سمجھتاہوں  کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا،پس اگر عرب نے ازخوداس کی تائید کر دی توان کایہ طرزتمہیں  ممکنہ تہمت سے باز رکھنے کا سبب بن جائے گااوراگریہ شخص عرب پرغالب آگیاتواس کاملک تمہارا ا پنا ہی ملک ہوگااس کی عزت تمہاری اپنی عزت ہو گی  اورتم اس کی وجہ سے اقوام عالم میں  بہت سربلند،صاحب نصیب اورخوش بخت رہوگے،اس کی باتیں  سنکرسب نے کہا واللہ اے ابوولید!اس شخص نے اپنی لسانی سے تم پر جادو کردیاہے،ابوولید نے کہامیری اس کے بارے میں  یہی رائے ہے ،اب تم جوچاہوسوکرو۔[119]

وَقَرَأَ السُّورَةَ إِلَى قَوْلِهِ: {فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ} فَأَمْسَكْتُ بِفِیهِ، وَنَاشَدْتُهُ بِالرَّحِمِ أَنْ یَكُفَّ، وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ مُحَمَّدًا إِذَا قَالَ شَیْئًا لَمْ یَكْذِبْ، فَخَشِیتُ أَنْ یَنْزِلَ بِكُمُ الْعَذَابُ  .

بعض روایات میں  ہے کہ جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے ہوئے آیت ’’اب اگریہ لوگ منہ موڑتے ہیں  تو ان سے کہہ دوکہ میں  تمہیں  عادوثمودکے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں  ۔‘‘ پرپہنچے تو عتبہ بن ربیعہ نے بے اختیارآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیااورکہااللہ کے لئے اپنی قوم پررحم کرو،بعدمیں  اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان  کی کہ آپ جانتے ہیں  محمدکی زبان سے جوبات نکلتی ہے پوری ہوکررہتی ہے اس لئے میں  ڈرگیاکہ کہیں  ہم پر عذاب نازل نہ ہوجائے۔[120]

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  بن خطاب کاقبول اسلام

عام طورپرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے ایمان لانے کاقصہ یوں  بیان کیاجاتاہےجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کیاگیااس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کاستائیسواں  سال تھا،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں  کواسلام کی دعوت دی تو سعید رضی اللہ عنہ بن زیدبن نفیل اولین سابقین میں  شامل ہوئے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کی حقیقی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا  جو سعید بن زیدبن نفیل کی اہلیہ تھیں  بھی اپنے شوہرکے ساتھ ایمان لانے والوں  میں  شامل ہوگئیں ،اسی خاندان کاایک اورمعززشخص ابو نعیم بن عبداللہ بھی اس دولت سے فیض یاب ہو چکا تھا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  ابھی تک اسلام سے کوسوں  دورتھے،ان کے کانوں  میں  جب توحید کی صداپہنچی توسخت غصہ ہوئے اوران کے قبیلہ میں جولوگ ایمان لاچکے تھے ان کی جان کے دشمن ہو گئے اورجس جس پربس چلتاتھااسے زدوکوب سے دریغ نہیں  کرتے تھے۔

وجاریة بنى المؤمل بن حبیب بن تمیم بن عبد اللَّه بن قرظ بن رازح ابن عدىّ، ویقال لها لبیبة، أسلمت قبل إسلام عمر بن الخطاب رضى اللَّه تبارك وتعالى عنه كان عمر یعذبها حتى تفتر، فیدعها ثم یقول: أما أنى أعتذر إلیك، ما أدعوك الا مسلمة ، فتقول: كذلك یعذبك اللَّه إن لم تسلم

اوربنی المومل بن حبیب بن تمیم بن عبداللہ بن قرظ بن رازح ابن عدی کی ایک کنیزجس کانام لبیبہ تھانے سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے قبل اسلام قبول کرلیاتھاسیدناعمراس کوبے تحاشامارتے یہاں  تک کہ مارتے مارتے تھک جاتے تواسے کہتے کہ میں  زرادم لے لوں  پھرتمہیں  مارتاہوں یہاں  تک کہ تو میری بات کو تسلیم کرلے،وہ کہتی اگرتم نے اسلام قبول نہ کیاتو بیشک اللہ تمہیں  عذاب دے گا۔[121]

هی زنیرة الرومیّة، كانت من السابقات فی الإسلام فعذبها المشركون على إسلامها فاحتملت عذابهم بصبر ورباطة جأش ولم تصبأ عن دینها ثم اشتراها أبو بكر الصدیق فأعتقها

اورزنیرہ رومی تھیں  جواسلام قبول کرنے میں  سبقت رکھتی تھیں ،اسلام قبول کرنے کے جرم میں  مشرکین ان پرظلم وستم کرتےیہاں  تک کہ ان کی بنیائی کونقصان پہنچامگرانہوں  نے دین کونہیں  چھوڑا،پھرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں  خریدکرآزادکردیا۔[122]

زنّیرة الرومیة أمة عمر بن الخطاب، أسلمت قبله، فكان یضربها حتى یفتر ویشاركه فی ضربها أبو جهل، فلا یزیدها ذلك إلا إصرارا على الإسلام، ولما أسلمت أصیب بصرها فقالت قریش: ما أذهب بصرها إلا اللات والعزّى،  فقالت: كذبوا وبیت الله ما تضر اللات والعزى، وما تنفعان، ولكن هذا أمر من السماء، وربی قادر على أن یرد علیّ بصری، فرد الله بصرها فقالت قریش: هذا من سحر محمد

ایک روایت یوں  بھی ہے  یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کی ایک لونڈی زنیرہ تھیں جوسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے پہلے اسلام قبول کرچکی تھیں ، اسلام قبول کرنے کے جرم میں  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  انہیں  اس قدرمارتے کہ تھک جاتے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کی والدہ حنتمہ بنت ہشام قبیلہ مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں اس رشتہ سے ابوجہل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاماموں  ہوتاتھاوہ بھی ان پرظلم وستم ڈھاتاتھامگر ان مظالم کے باوجود وہ اپنے اسلام پر قائم رہیں  لیکن  انہیں  مظالم میں  زنیرہ کی بینائی جاتی رہی،اس پر مشرکین کہنے لگے لات ومنات نے اسے اندھاکردیاہے،اس پر زنیرہ نے جواب دیالات ومنات وعزیٰ کوجن کی تم پرستش کرتے ہولکڑی پتھرکے چندبے جان ٹکڑے ہیں  جونہ نفع پہنچاسکتے ہیں  اورنہ نقصان یہ تومحض اللہ کی طرف سے ہے اللہ اگرچاہے تومیری بینائی واپس لوٹاسکتاتھا،اللہ کی قدرت کہ اسی شب کی صبح جب وہ بیدارہوئیں  توان کی بینائی واپس آچکی تھی،مشرکین مکہ نے کہا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے جادوکردیاہے۔[123]

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  ظالم ہرگزنہ تھے ،وہ ایک بہادرانسان تھے اورکسی بہادرشخص سے اس طرح کی سنگ دلی منسوب کرنامحض حماقت ہی ہے ،علاوہ ازیں  ایمان لانے والوں  کی فہرست دیکھ لیں  بنوموئل بن حبیب کی لبیبہ نامی کوئی کنیزجوایمان لائی ہوآپ کونہیں  ملے گی،اسی طرح زنیرہ بھی آپ کو کہیں  نہیں  ملے گی اوراگروہ تھیں  بھی توآخر وہ کہاں  گم ہو گئیں ۔

ابوجہل اوردوسرے سرداران مکہ زنیرہ کے قدموں  کوڈگمگانے کے لئے کہاکرتے تھے کہ اگراسلام میں  کوئی بھلائی ہوتی توزنیرہ یادوسرے کم عقل لوگوں سے قبل ہم جیسے دانشمند لوگ اسلام قبول کرچکے ہوتے۔

فاشتراها أبو بكر فأعتقها

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ  نے خرید کر آزاد کر دیا۔[124]

لیکن اسلام کانشہ ایساتھا کہ جس پرچڑھ جاتاتھاپھرلاکھ کوششوں  سے بھی اترتانہیں  تھا  اس لئے تمام ترسختیوں  کے باوجودوہ کسی ایک شخص کوبھی اسلام سے بددل نہ کر سکے

فخرج عُمَر بْن الْخَطَّابِ ذات یَوْم متوشحا بالسیف، یرید رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ورهطا من أصحابه ذكروا لَهُ،فَلَقِیَهُ نُعَیْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ: أَیْنَ تُرِیدُ یَا عُمَرُ؟ فَقَالَ: أُرِیدُ مُحَمَّدًا هَذَا الصَّابِئَ، الَّذِی فَرَّقَ أَمْرَ قُرَیْشٍ، وَسَفَّهُ أَحْلَامَهَا، وَعَابَ دِینَهَا، وَسَبَّ آلِهَتَهَا، وذم من مضى من آبائها،فَأَقْتُلَهُ فیرجع الأمر إِلَى مَا كَانَ عَلَیْهِ، أیظن مُحَمَّد أن قریشا تنقاد لَهُ؟ كلا واللات والعزى، فَقَالَ لَهُ نُعَیْمٌ: وَاَللَّهِ لَقَدْ غَرَّتْكَ نَفْسُكَ مِنْ نَفْسِكَ یَا عُمَرُ، أَتَرَى بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ تَارِكِیكَ تَمْشِی عَلَى الْأَرْضِ وَقَدْ قَتَلْتَ مُحَمَّدًا!لا أعلم رجلا جاء قومه بمثل مَا جئت بِهِ

آخرمجبورہوکرکمرسے تلوار لگا کرنعوذباللہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   اور ان کے ساتھیوں  کوقتل کرنے کے ارادے سے رسول اللہ کی طرف نکلے،اتفاقاًراہ میں  ان کے خاندان سے ایک معززشخص نعیم  رضی اللہ عنہ  بن عبداللہ مل گئے ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے تیوردیکھے توان سے پوچھااے  عمر رضی اللہ عنہ !خیرتوہے کہاں  کاارادہ ہے؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ  نے جواب دیامیں  آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاقصہ ہی تمام کرنے جارہاہوں جس نے قریشیوں  کے مابین تفریق ڈالی ، ان کے بزرگوں  کو برابھلا کہا، ان کے دین کی عیب جوئی،سب وشتم ، آباء واجداد کے معبودوں  کی مذمت کرتاہے لات وعزی کی قسم آج قریش محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو میرے ہاتھوں  سے نہیں  بچا سکتے،نعیم  رضی اللہ عنہ نے کہااے عمر!اللہ کی قسم !تیرے نفس نے تجھ کوفریب دیاہے کیاتویہ خیال کرتاہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کرکے بنی عبدمناف تجھے زمین پرچلنے پھرنے دیں  گےمیں  نہیں  جانتاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  جس طرح کی خیروبرکت اپنی قوم کے پاس لائے ہیں  کوئی اورشخص لایاہو

 فَقَالَ عمر: إن مَعَ عدی غیرها من قُرَیْش، وأراك تتكلم عَنْهُ وَمَا أظنك إِلا قد تبعته، فسكت نعیم وَقَالَ ارجع إِلَى بَیْتِكَ فأقم أمره، فَقَالَ: وَأَیُّ أَهْلِ بَیْتِی اتبع محمدا؟  قَالَ: فاطمة أختك، وختنك سَعِید بْن زَیْد قدوَاَللَّهِ أَسْلَمَا  فَقَالَ عمر: أراك وَاللَّه صادقاقَالَ: فدخل عمر عَلَى أخته وزوجها وعندهما خباب، ومعه صحیفة فِیهَا سورة طه وَهُوَ یقرئهما إیاها ،فلما سمعوا حسه تغیب خباب فِی مخدع لهم فِی البیت، فَلَمَّا دَخَلَ قَالَ: مَا هَذِهِ الْهَیْنَمَةُ الَّتِی سَمِعْتُ؟ قَالَا لَهُ: مَا سَمِعْتَ شَیْئًا، قَالَ: بَلَى وَاَللَّهِ، لَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنَّكُمَا تَابَعْتُمَا مُحَمَّدًا عَلَى دِینِهِ، وَبَطَشَ بِخَتَنِهِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ، فَقَامَتْ إلَیْهِ أُخْتُهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْخَطَّابِ لَتَكُفَّهُ عَنْ زَوْجِهَا، فَضَرَبَهَا فَشَجَّهَا

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہامجھے قریش کی کچھ پرواہ نہیں  بنی عدی میرے ساتھ ہیں  اورمیں  خیال کرتاہوں  کہ توبھی اسلام قبول کرچکاہے،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کاجواب سن کرنعیم خاموش ہوگئے اورانہوں  نے کہاپہلے اپنے گھرکی خبرلواورکہاتمہارے تواپنے گھروالےمحمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت قبول کرچکے ہیں ، اللہ کی قسم! تمہاری بہن فاطمہ اورتمہارے بہنوئی سعیداسلام میں  داخل ہوچکے ہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے کہا واللہ! میں  اس خبر کی تصدیق کروں  گا، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانے کے بجائے پلٹ کراپنی بہن وبہنوئی کے ہاں  جا پہنچےجہاں   رضی اللہ عنہ  بھی موجودتھے جوانہیں  ایک ورق پرلکھی ہوئی سورۂ طہ پڑھا رہے تھے، جب انہوں  نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی آہٹ سنی توایک کوٹھری میں  چھپ گئے

 وَأَخَذَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْخَطَّابِ الصَّحِیفَةَ فَجَعَلَتْهَا تَحْتَ فَخِذِهَا

اورفاطمہ بنت خطاب  رضی اللہ عنہما نے اس کاغذکواپنی ران کے نیچے چھپالیا،

لیکن قرآن پڑھنے کی آوازان کے کانوں  میں  پڑچکی تھی اپنی بہن سے پوچھایہ کیسی آوازتھی جومیں  نے سنی ہے؟بہن اوربہنوئی نے جواب دیا یہاں  توکچھ ذکرنہیں  جس کی تم نے آوازسنی ہوگی،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے کہاواللہ!میں یہ سن چکاہوں  کہ تم دونوں  ہمارے دین سے پھرچکے ہواورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے دین کے پیروکاربن گئے ہو،یہ کہہ کرغصہ سے اپنے بہنوئی سعید رضی اللہ عنہ بن زیدسے دست وگریباں  ہو گئے،ان کی بہن اپنے خاوندکوبچانے کے لئے آگے بڑھیں  توان کی بھی خوب خبرلی اورمارمار کر انہیں  لہولہان کردیا،

فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ قَالَتْ لَهُ أُخْتُهُ وَخَتَنُهُ: نَعَمْ قَدْ أَسْلَمْنَا وَآمَنَّا باللَّه وَرَسُولِهِ، فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا بِأُخْتِهِ مِنْ الدَّمِ نَدِمَ عَلَى مَا صَنَعَ، فَاِرْعَوى  ، وَقَالَ لِأُخْتِهِ: أَعْطِینِی هَذِهِ الصَّحِیفَةَ الَّتِی سَمِعْتُكُمْ تَقْرَءُونَ آنِفًا أَنْظُرْ مَا هَذَا الَّذِی جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ، وَكَانَ عُمَرُ كَاتِبًا فَقَالَتْ: لا أفعل حَتَّى تغتسل فإنه كتاب لَا یَمَسُّهَا إلَّا الطَّاهِرُ فَاغْتَسَلَ عُمَر، ثُمَّ فَأَعْطَتْهُ الصَّحِیفَةَ وَفِیهَا:طَه، فَلَمَّا قَرَا ٔ صدرا مِنْهَا قَالَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا الْكَلَامَ وَأَكْرَمَهُ!فلما سمع خباب قوله طمع فِیهِ فخرج وقرأ عَلَیْهِ السورة، وَقَالَ:وَاَللَّهِ إنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَكُونَ اللَّهُ قَدْ خَصَّكَ بِدَعْوَةِ نَبِیَّهُ فَإِنِّی سَمِعْتُهُ أَمْسِ وَهُوَ یَقُولُ: اللَّهمّ أَیِّدْ الْإِسْلَامَ بِأَبِی الْحَكَمِ بْنِ هِشَامٍ، أَوْ بِعُمَرِ بْنِ الْخَطَّابِ فاللَّه اللَّهَ یَا عُمَرُ

لیکن اسلام کی محبت ان چندزخموں  سے بالاترتھی جب یہ سب ہوچکاتوفاطمہ  رضی اللہ عنہا ا پنے بھائی سے بولیں  اے عمر! ہاں  ،اللہ کی قسم !ہم نے اسلام قبول کرلیاہےاوراللہ اوراس کے رسول پرایمان لے آئے ہیں اب جوتم کر سکتے ہوکرگزرو لیکن اب ہم اسلام کواپنے دلوں  سے نکال نہیں  سکتے، جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کے سرمیں  سے خون بہتاہوادیکھاتوبہت شرمندہ ہوئے، دردبھرے دل سے نکلے ہوئے یہ الفاظ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  پر بہت اثر انداز ہوئے ، اپنی بہن کی طرف جن کے جسم سے خون جاری تھا محبت سے دیکھا اور رقت طاری ہوئی فرمایالاؤیہ کاغذمجھ کوتودومیں  دیکھوں  کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پرکیانازل ہواہے؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ پڑھے لکھے تھے،فاطمہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایاتم اسے چھونہیں  سکتے جب تک کہ غسل کر کے پاک نہ ہوجاؤاس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے غسل کیاتوفاطمہ رضی اللہ عنہا  نے چھپائے ہوئے قرآن کے اجزاسامنے لاکر رکھ دیئے ،اٹھاکردیکھاتوسورۂ   طہ کی آیات تھیں ، جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے وہ سورۂ پڑھی تواس کلام نے دل پراثرکیاتوکہایہ کلام کیسااچھااورکیسابزرگ کلام ہے، جب خباب رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کایہ کلام سناتوکوٹھری سے باہرنکل آئے اورکہااے عمر رضی اللہ عنہ !واللہ!میں  امیدکرتاہوں  کہ تمہیں  اللہ نے اپنے رسول کی دعاکے ساتھ مخصوص کیاہے کیونکہ کل میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناتھاآپ دعافرمارہے تھے کہ اے اللہ!ابوحکم بن ہشام(فرعون امت ابوجہل)یاعمربن خطاب کے ذریعے اسلام کی تائیدفرماپس اے عمر رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ نے تمہیں  اس دعاکے ساتھ مخصوص کیاہے،

قَالَ عمر: فدلنی على محمد حتى آتیه فأسلم، فدله عَلَیْهِ، فخرج حَتَّى انتهى إِلَى دار الأرقم المخزومی  فَضَرَبَ عَلَیْهِمْ الْبَابَ،  فلما سمعوا صوته قَالَ الأرقم:یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مُتَوَشِّحًا السَّیْفَ، فَقَالَ حمزة بْن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: إن كَانَ یُرِیدُ خَیْرًا بَذَلْنَاهُ لَهُ، وَإِنْ كَانَ یرید سوى ذَلِكَ  قَتَلْنَاهُ بِسَیْفِهِ، فَأْذَنْ لَهُ، فدخل ونهض إِلَیْه رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَقِیَهُ فِی الْحُجْرَةِ فَأَخَذَ حُجْزَتَهُ  ، أَوْ بِمِجْمَعِ رِدَائِهِ، ثُمَّ جَبَذَهُ (بِهِ)  جَبْذَةً شَدِیدَة، وَقَالَ:وَاللَّه مَا أراك تَنْتَهِیَ أَوْیُنْزِلَ اللَّهُ بِكَ قَارِعَةً،  فَقَالَ: جِئْتُكَ لِأُومِنَ باللَّه وَبِرَسُولِهِ، وَبِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، فقد سمعت قولا لم أسمع مثله قط، فكبر رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تكبیرة عرف أهل البیت بِهَا أنه قد أسلم

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہامجھے بتلاؤمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت کہاں  ہیں  تاکہ میں  حاضر ہوکراسلام قبول کرلوں ، وہ انہیں  ساتھ لے کرروانہ ہوئے یہاں  تک کہ کوہ صفاکی تلی میں دار ارقم مخزومی  رضی اللہ عنہ  کے مکان پرپہنچ گئےاورایسی شمشیربکف حالت میں  وہاں  پہنچ کردروازے پردستک دی،جب ارقم رضی اللہ عنہ نے دستک کی آواسنی توجھانک کرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کواس حالت میں  دیکھا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !سیدناعمر رضی اللہ عنہ ! شمشیربکف دروازے پرکھڑے ہیں ، حمزہ  رضی اللہ عنہ  جوتین دن قبل ایمان لاچکے تھے اس وقت وہاں  موجود تھے انہوں  نے کہااسے اندر آنے دو مخلصانہ طورپرآیا ہے تو بہتر ہے اوراگرکسی برے ارادے سے آئے ہیں  تو ان کی تلوار سے ان کاسرقلم کر دوں  گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اس کااندرانے کی اجازت دو،چنانچہ دروازہ کھول دیاگیااور عمر رضی اللہ عنہ  نے گھرکے اندرقدم رکھاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم خودآگے بڑھے اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کی چادرکوپکڑکرزورسے کھینچا اور کہا اے ابن خطاب!کس ارادہ سے آیاہے ؟واللہ !توبازنہ رہے گاجب تک کہ اللہ تیرے اوپرکوئی سخت آفت نہ نازل فرمائے،نبوت کی پرجلال آوازنے عمر رضی اللہ عنہ  کوکپکپادیانہایت خضوع کے ساتھ عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس لیے حاضرہواہوں  کہ اللہ اوراس کے رسول اوراس پرجونازل ہواہے اس پر ایمان لے آؤں ، یہ سن کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلندآوازسے اللہ اکبرکہااس طرح کہ گھرکے تمام افرادنے سنی اورسمجھ گئے کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیاہے۔

قَالَ: فَكَبَّرَ أَهْلُ الدَّارِ تَكْبِیرَةً سَمِعَهَا أَهْلُ الْمَسْجِدِ

ایک روایت میں  ہے اورساتھ ہی تمام صحابہ کرام نے بھی مل کراس زورسے اللہ اکبرکانعرہ ماراکہ مسجدبیت الحرام تک آوازسنی گئی۔[125]

فَتَفَرَّقَ  اَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَانِهِمْ ذَلِكَ، وعزوا بإسلام حَمْزَةَ، وعُمَر،وعلمواأَنَّهُمَا  سَیَمْنَعَانِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَنْتَصِفُونَ لَهُ مِنْ عدوه

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ جگہ جگہ پھیل گئے اوران کوسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے اسلام سے بہت زیادہ تقویت حاصل ہوئی جیسی کہ سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام سے حاصل ہوئی تھی  اور سب صحابہ رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیاکہ اب یہ دونوں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دشمنوں  سے حفاظت کریں  گے۔[126]

ایسی ہی ایک دوسری روایت ہے جس میں  سورہ طہ کے بجائے سورۂ  الحدید کی ابتدائی آیات کاذکرہے

 سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ حَتَّى بَلَغْتُ:آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ۔۔[127]

ترجمہ: آسمانوں  اورزمینوں  میں  جتنی بھی اشیاء ہیں  سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں  اوروہ غالب وحکیم ہے۔ایمان لاؤاللہ اوراس کے رسول پر۔[128]

مکہ مکرمہ میں  لوگ لکھناپڑھناجانتے ہی نہ تھے توپھریہ لکھاہواقرآن ان کے پاس کہاں  سے آگیااورکیاخباب بن الارت  رضی اللہ عنہ جوام انمارکےغلام تھے پڑھناجانتے تھے ۔

عرب کے قبائلی معاشرے میں  کسی انسان کو قتل کرنا معمولی کام نہیں  تھا اوریہاں  معاملہ بنوہاشم اوربنوعبدالمطلب کاتھا،کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  اور ان کا قبیلہ اتنا طاقتور تھا کہ وہ بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کے سامنے کھڑا ہوسکتا تھا حالانکہ جب قریش نے تیرہ بعثت نبوی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دار الندوة میں  بحث وتمحیص کے بعد قتل کرنے کا ارادہ کیا تواس مقصد کے لیے تمام قبائل سے ایک ایک نوجوان کا انتخاب کیاگیاتاکہ وہ رات کی تاریکی میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو قتل کرسکیں  تاکہ بنوہاشم کسی سے انتقام نہ لیے سکیں  اورفدیہ پرمعاملہ ٹل جائے۔

اس روایت کے ضعیف ہونے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ چھ بعثت نبوی میں  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا جارہاہے جبکہ سورہ الحدید پندرہ سال بعد فتح مکہ کے بعد مدینہ منورہ میں  نازل ہوئی تھی ۔

ان دونوں  روایات کے مشترک راوی اسحاق بن یوسف،قاسم بن عثمان،اسحاق بن ابراہیم الحنینی اوراسامہ بن زیدبن اسلم ہیں  اورسب کے سب پایہ اعتبارسے ساقط ہیں ۔

خَرَجَ عُمَرُ مُتَقَلِّدًا السَّیْفَ فَلَقِیَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی زُهْرَةَ فَقَالَ: أَیْنَ تَعْمَدُ یَا عُمَرُ؟ قَالَ: أُرِیدُ أَنْ أَقْتُلَ مُحَمَّدًا، قَالَ: وَكَیْفَ تَأْمَنُ بَنِی هَاشِمٍ وَبَنِی زُهْرَةَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ؟ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ:مَا أَرَاكَ إِلا قَدْ صَبَوْتَ. فَقَالَ لَهُ: أَفَلا أَدُلُّكَ عَلَى أُخْتِكَ وَخَتَنِكَ فَقَدْ صَبَآ وَتَرَكَا دِینَكَ الَّذِی أَنْتَ عَلَیْهِ،فَمَشَى عمر متذمرا حتى أتاهما وَعِنْدَهُمَا خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ، فَلَمَّا سَمِعَ خَبَّابٌ حِسَّ عُمَرَ تَوَارَى فِی الْبَیْتِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمرننگی تلوارلے کرنکلے راستے میں  بنی زہرہ کاایک شخص آپ کوملااورکہااے عمر!کہاں  کاارادہ ہے؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیامیں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوقتل کرنے کے لیے جارہاہوں ،اس شخص نے کہااگرتم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوقتل کردیاتوکیابنوہاشم اوربنوزہرہ تجھے زندہ چھوڑدیں  گے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہامیراخیال ہے تم بھی صابی ہوگئے ہو،اس شخص نے کہاکیاتمہیں  معلوم ہے کہ تمہاری بہن اورتمہارے بہنوئی بھی صابی ہوگئے ہیں  اورانہوں  نے اس دین ترک کردیاہے جس پرتم ہو ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ اسی حالت میں  اپنی بہن کے گھر پہنچے اوراندرخباب  رضی اللہ عنہ بن الارت بھی موجودتھےجب انہوں  نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے قدموں  کی آہٹ سنی توگھرکے اندرچھپ گئے۔

فَدَخَلَ عَلَیْهِمَا فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْهَیْنَمَةُ الَّتِی سَمِعْتُهَا عِنْدَكُمْ؟ قَالَ: وَكَانُوا یَقْرَأُونَ:طه، فَقَالا: حَدِیثٌ تَحَدَّثْنَاهُ بَیْنَنَا، فَقَالَ: لَعَلَّكُمَا قَدْ صَبَأْتُمَا؟فَقَالَ خَتَنُهُ:أَرَأَیْتَ یَا عُمَرُ إِنْ كَانَ الْحَقُّ فِی غَیْرِ دِینِكَ،قَالَ: فَوَثَبَ عَلَیْهِ عُمَرُ فَوَطِئَهُ وَطْئًا شَدِیدًا فَجَاءَتْ أُخْتُهُ فَدَفَعَتْهُ عَنْ زَوْجِهَا فَنَفَحَهَا نَفْحَةً بِیَدِهِ فَدَمَى وَجْهُهَا، فَقَالَتْ وَهِیَ غَضْبَى: یَا عُمَرُ إِنَّ الْحَقَّ لَفِی غَیْرِ دِینِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّه وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،  أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّه وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ اندرداخل ہوئے اوربہن سےپوچھاتم کیاپڑھ رہے تھے جس کی آوازمیں  نے اندرسےسنی ہے،اوروہ سورۂ  طہ پڑھ رہی تھیں ،بہن نے جواب دیاہم توآپس میں  باتیں  کررہے تھے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہامجھے معلوم ہوگیاہے کہ تم دونوں  صابی ہوگئے ہو؟ان کے بہنوئی نے کہا اے عمر تمہارا کیا خیال ہے کہ صرف تمہارا ہی دین برحق ہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بہنوئی کوپکڑلیااورانہیں  خوب زدوکوب کیافاطمہ  رضی اللہ عنہا اپنے خاوندکوچھڑانے کے لیے کھڑی ہوئی توسیدناعمر رضی اللہ عنہ اپنی بہن کے چہرے پراس زورسے طمانچہ مارابھی کہ ان کے چہرے سے خون بہنے لگا، بہن نے کہااے عمر رضی اللہ عنہ !تم چاہے کچھ کرلومگرہم اس دین حق کوچھوڑکردوسرادین اختیارنہیں  کریں  گے،اورکلمہ شہادت اشھدان لاالٰہ الااللہ وان محمدرسول اللہ پڑھا،

فَقَالَ: أَعْطُونِی هَذَا الْكِتَابَ الَّذِی عِنْدَكُمْ أَقْرَأُهُ، وَكَانَ عُمَرُ یَقْرَأُ الْكُتُبَ، فَقَالَتْ أُخْتُهُ: إِنَّكَ نَجِسٌ، وَإِنَّهُ (لا یمسه إلا المطهرون)  فَقُمْ فَاغْتَسِلْ، أَوْ تَوَضَّأْ  فَقَامَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ أَخَذَ الْكِتَابَ فَقَرَأَ:طه،حَتَّى انْتَهَى إِلَى قوله: إنی أَنَا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدْنِی وأقم الصلاة لذكری،  فَقَالَ: دُلُّونِی عَلَى مُحَمَّدٍ فَلَمَّا سَمِعَ خَبَّابٌ قَوْلَ عُمَرَ خَرَجَ مِنَ الْبَیْتِ فَقَالَ: أَبْشِرْ یا عمر فإنی أَرْجُو أَنْ تَكُونَ دَعْوَةُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ الْخَمِیسِ لَكَ، فَإِنَّهُ قَالَ:اللَّهُمَّ أَعِزَّ الدِّینَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَوْ بِعَمْرِو بْنِ هِشَامٍ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاجس کتاب کوتم پڑھ رہے تھے مجھے وہ دکھلاؤ،اورسیدناعمرلکھناپڑھناجانتے تھے،ان کی بہن فاطمہ بولیں  تم ناپاک ہواوراس کتاب کوسوائے پاک لوگوں  کے کوئی نہیں  چھوسکتااس لئے اٹھوپہلے غسل کرویاوضوکرکے پاک ہوجاؤ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوروضوکیاپھرکتاب لے کرسورۂ  طہ پڑھی جب آیت  إنی أَنَا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدْنِی وأقم الصلاة لذكر یرپہنچےتوکہامجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لے چلو،جب خباب  رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات سنی توگھرکے اندرسے باہرنکلےاور کہا اے عمر رضی اللہ عنہ !خوشخبری قبول کروکیونکہ کل میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کودعاکرتے ہوئے سناہے اے اللہ!عمربن خطاب یاعمروبن ہشام(ابوجہل) سے اسلام کوطاقت وعزت عطافرما،

قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الدَّارِ الَّتِی فِی أَصْلِ الصَّفَا فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتَّى أَتَى الدَّارَ وَعَلَى بَابِهَا حَمْزَةُ، وَطَلْحَةُ وَنَاسٌ من أصحاب النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَوْهُ وَجِلُوا مِنْهُ، فَقَالَ حَمْزَةُ: هَذَا عُمَرُ فَإِنْ یُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَیْرًا یُسْلِمُ، وَإِنْ یَكُنْ غَیْرُ ذَلِكَ یَكُنْ قَتْلُهُ عَلَیْنَا هَیِّنًا، قَالَ: وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَئِذٍ دَاخِلٌ یُوحَى إِلَیْهِ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى عُمَرَ فَأَخَذَ بِمَجَامِعِ ثَوْبِهِ وَحَمَائِلِ سَیْفِهِ، وَقَالَ: مَا أَرَاكَ یَا عُمَرُ مُنْتَهِیًا حَتَّى یَنْزِلَ بِكَ مِنَ الْخِزْیِ وَالنَّكَالِ كَمَا نَزَلَ بِالْوَلِیدِ اللَّهُمَّ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَعِزَّ بِهِ الدِّینَ، فَقَالَ عُمَرُ:أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ. وَأَسْلَمَ،ثُمَّ قَالَ: أَخْرُجُ یَا رَسُولَ اللَّهِ

کہتے ہیں  اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوہ صفاکی تلی میں  ایک گھرمیں  تشریف رکھتے تھے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ وہاں  سے روانہ ہوئے اوراس گھرتک پہنچ گئے،اس گھرمیں  اس وقت سیدالشہداحمزہ رضی اللہ عنہ ،طلحہ  رضی اللہ عنہ اوردوسرے بہت سے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،جب ان لوگوں  نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کودیکھاتوحمزہ  رضی اللہ عنہ نے کہااگرسیدناعمرخیرکے ارادے سے آئے ہیں  توبہترہے اوراگرکسی ارادہ بدسے آئے ہیں  تواسی کی تلوارسے اس کوقتل کردوں  گا،اسی اثنامیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پروحی نازل ہوئی اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ اندرداخل ہوئےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی قمیص کادامن پکڑکر فرمایااےعمر!کس ارادے سے آئے ہوکیااس وقت ایمان لاؤ گے جب اللہ کاعذاب تم پرنازل ہوجائے جیسے ولیدپرنازل ہواہے،پھردعافرمائی اے اللہ!سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے دین کوطاقت اورعزت عطافرما، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بولے میں  گواہی دیتاہوں  کہ آپ اللہ کے رسول ہیں  اوراسلام قبول کرلیا  پھرعرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! باہر نکلیں ۔[129]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی ایک روایت اس طرح ہے

 أَنَّ إسْلَامَ عُمَرَ فِیمَا تَحَدَّثُوا بِهِ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ:كُنْتُ لِلْإِسْلَامِ مُبَاعِدًا، وَكُنْتُ صَاحِبَ خَمْرٍ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، أُحِبُّهَا وَأُسِرُّ بِهَا، وَكَانَ لَنَا مَجْلِسٌ یَجْتَمِعُ فِیهِ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ بِالْحَزْوَرَةِ  ، عِنْدَ دُورَ آلِ عُمَرَابْن عَبْدِ بْنِ عِمْرَانَ الْمَخْزُومِیِّ،قَالَ: فَخَرَجْتُ لَیْلَةً أُرِیدُ جُلَسَائِی أُولَئِكَ فِی مَجْلِسِهِمْ ذَلِكَ، قَالَ: فَجِئْتهمْ فَلَمْ أَجِدْ فِیهِ مِنْهُمْ أَحَدًا،  قَالَ: فَقُلْتُ: لَوْ أَنِّی جِئْتُ فُلَانًا الْخَمَّارَ، وَكَانَ بِمَكَّةَ یَبِیعُ الْخَمْرَ، لَعَلِّی أَجِدُ عِنْدَهُ خَمْرًا فَأَشْرَبَ مِنْهَاقَالَ: فَخَرَجْتُ فَجِئْتُهُ فَلَمْ أَجِدْهُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ خودفرماتے ہیں  کہ میں  زمانہ جاہلیت میں  اسلام کاسخت دشمن تھااورشراب کاشغل بھی کثرت کے ساتھ کرتاتھااورہم چندشرابیوں   نے ایک مکان میں  اپنی نشست مقرر کررکھی تھی جس میں  جمع ہوکرشراب کاشغل کیاکرتے تھےاوریہ مکان مقام حزورہ میں  آل عمربن عبدبن عمران مخزومی کے گھروں کے پاس تھا، ایک شب میں  حسب دستوراس مکان میں  گیامگروہاں  ساتھیوں  میں  سے کسی کونہ دیکھا،میں  نے خیال کیاکہ فلاں  شراب فروش کے پاس چلناچاہیے وہاں  چل کرشراب نوشی کریں  گے میں  اس کی دوکان پرآیاتواس کوبھی موجودنہ پایا

قَالَ: فَقُلْتُ: فَلَوْ أَنِّی جِئْتُ الْكَعْبَةَ فَطُفْتُ بِهَا سَبْعًا أَوْ سَبْعِینَ، قَالَ: فَجِئْتُ الْمَسْجِدَ أُرِیدُ أَنْ أَطُوِّفَ بِالْكَعْبَةِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یُصَلِّی   وَكَانَ إذَا صَلَّى اسْتَقْبَلَ الشَّامَ، وَجَعَلَ الْكَعْبَةَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الشَّامِ، وَكَانَ مُصَلَّاهُ بَیْنَ الرُّكْنَیْنِ: الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ، وَالرُّكْنِ الْیَمَانِیِّ.قَالَ: فَقُلْتُ حِینَ رَأَیْتُهُ، وَاَللَّهِ لَوْ أَنِّی اسْتَمَعْتُ لِمُحَمَّدٍ اللَّیْلَةَ حَتَّى أَسْمَعَ مَا یَقُولُ!

تب مجھے خیال آیاکہ جاکرکعبہ کے سات یاسترطواف کروں ،پس میں  طواف کی غرص سے کعبہ آیاوہاں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کودیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نمازپڑھ رہے ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  شام کی طرف منہ کرکے رکن اسوداوررکن یمانی کے درمیان میں  کعبہ کواپنے سامنے کرکے نمازپڑھتے تھے،میں  نے سوچاکہ آج سنوں  کہ محمد!کیاپڑھ رہے ہیں ؟

(قَالَ) فَقُلْتُ: لَئِنْ دَنَوْتُ مِنْهُ أَسْتَمِعُ مِنْهُ لَأُرَوِّعَنَّهُ، فَجِئْتُ مِنْ قِبَلِ الْحِجْرِ، فَدَخَلْتُ تَحْتَ ثِیَابِهَا، فَجَعَلْتُ أَمْشِی رُوَیْدًاوَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یُصَلِّی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ، حَتَّى قُمْتُ فِی قِبْلَتِهِ مُسْتَقْبِلَهُ، مَا بَیْنِی وَبَیْنَهُ إلَّا ثِیَابُ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ الْقُرْآنَ رَقَّ لَهُ قَلْبِی، فَبَكَیْتُ وَدَخَلَنِی الْإِسْلَامُ، فَلَمْ أَزَلْ قَائِمًا فِی مَكَانِی ذَلِكَ، حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ،

پھرسوچاکہ ان کے پاس جاناتومناسب نہیں  ہوگااس لیے چھپ کرسنوں  توبہترہوگاچنانچہ میں  کعبہ کے پردے کے اندرداخل ہوگیااورتھوڑاتھوڑاکھسکتاہواآپ کے سامنے آگیایعنی میں  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اورکعبہ کے درمیان میں  تھارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کی حالت میں  قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے اورمیرے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے درمیان میں  صرف غلاف کعبہ تھا،پھرمیں  نے خوب اچھی طرح قرآن سنااورمیرے دل میں  اسلام اثرکرگیایہاں  تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فارغ ہوکرچلے میں  بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے پیچھے چلا،

وَكَانَ إذَا انْصَرَفَ خَرَجَ عَلَى دَارِ ابْنِ أَبِی حُسَیْنٍ وَكَانَتْ طَرِیقَهُ، ثُمَّ یَسْلُكُ بَیْنَ دَارِ عَبَّاسِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، وَبَیْنَ دَارِ ابْنِ أَزْهَرَ بْنِ عَبْدِ عَوْفٍ الزُّهْرِیِّ، ثُمَّ عَلَى دَارِ الْأَخْنَسِ بْنِ شَرِیقٍ حَتَّى یَدْخُلَ بَیْتَهُ،  وَكَانَ مَسْكَنُهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الدَّارِ الرَّقْطَاءِ  ، الَّتِی كَانَتْ بِیَدَیْ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ ،قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: فَتَبِعْتُهُ حَتَّى إذَا دَخَلَ بَیْنَ دَارِ عَبَّاسٍ، وَدَارِ ابْن أَزْهَرَ، أَدْرَكْتُهُ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِسِّی عَرَفَنِی، فَظَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنِّی إنَّمَا تَبِعْتُهُ لِأُوذِیَهُ فَنَهَمَنِی ، ثُمَّ قَالَ: مَا جَاءَ بِكَ یَا بن الْخَطَّابِ هَذِهِ السَّاعَةَ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاراستہ دارابن ابی حسین کی طرف سے تھاپھروہاں  سے آپ عباس رضی اللہ عنہ  بن عبد المطلب کے گھرکی طرف آئے پھراخنس بن شریق کے گھرکے پاس سے نکل کراپنے دولت خانہ میں  داخل ہوئے،اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کادولت خانہ دارالرقطاء کے محلہ میں  معاویہ بن ابی سفیان کے پاس تھا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  عباس رضی اللہ عنہ اورابن ازہرکے گھروں  کے درمیان میں  پہنچے تومیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب ہواآپ نے میری آہٹ سن کرمجھے پہچانااورخیال فرمایاکہ میں  آپ کی ایذارسانی کے خیال سے آیاہوں  چنانچہ مجھے آوازدے کرکہااے ابن خطاب!اس وقت کیوں  آئے ہو؟

قَالَ: قُلْتُ: (جِئْتُ)  لِأُومِنَ باللَّه وَبِرَسُولِهِ، وَبِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ،قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ثُمَّ قَالَ:قَدْ هَدَاكَ اللَّهُ یَا عُمَرُ ثُمَّ مَسَحَ صَدْرِی، وَدَعَا لِی بِالثَّبَاتِ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْتَهُ

میں  نے عرض کیامیں  اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول اوراس کتاب پرجو اللہ کی طرف سے ان پرنازل ہوئی ہے ایمان لانے آیاہوں ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ سن کرفرمایا ا لَحَمِدَ اللَّهَ پھرفرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ نے تجھے ہدایت فرمائی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے سینہ پرہاتھ پھیرااورثابت قدمی کی دعافرمائی، پھرمیں  واپس چلاآیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے دولت کدے میں  داخل ہوگئے۔[130]

اس روایت کے غلط ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ شراب نہیں  پیتے تھے اوراس سے شدید نفرت کرتے تھے اورانہی کی خواہش پرشراب کی مناہی نازل ہوئی تھی۔

عن عمر:أن أبا جهل جعل لمن یقتل محمدا مائة ناقة حمراء أو سوداء وألف أوقیة من فضة،فقلت له: یا أبا الحكم! الضمان صحیح،قال:نعم، فخرجت متقلدا السیف متنكبا كنانتی أرید رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فمررت على عجل وهم یریدون ذبحه فقمت أنظر إلیه، فإذا صائح یصیح من جوف العجل: یا آل ذریح، أمر نجیح رجل یصیح بلسان فصیح یدعو إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فقلت فی نفسی: إن هذا الأمر ما یراد به إلا أنا ثم مررت بصنم، فإذا هاتف من جوفه

ایک روایت میں  ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ابوجہل نے اعلان کیاکہ جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کردے گامیں  اسے سوسرخ یا کالی اونٹنیاں  اورایک ہزاراوقیہ چاندی انعام میں  دوں  گا میں  نے اسے کہااے ابوالحکم کیایہ اعلان صحیح ہےاس نے کہاہاں  یہ صحیح ہے، میں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تلاش میں  بے نیام شمشیر لے کر نکلا تو میرا گزر ایک بچھڑے سے ہوا جسےذبح کے لیے لایاگیاتھا میں  ٹھہر کر دیکھتا رہا کہ ایک چیخنے والا بچھڑے کے پیٹ سے چیخ رہا ہے کہ اے آل ذریح ! ایک راہ راست شخص فصیح وبلیغ زبان میں  دعوت کا اقرار کر رہا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں  اور محمد اللہ کے رسول ہیں  میں  نے اپنے دل میں  کہا کہ یہ معاملہ میرے ہی متعلق ہوسکتاہے پھر میرا گزر بت سے ہوا جس کے پیٹ سے پکارنے کی آواز آرہی تھی جو یہ کہہ رہا تھا

یَا أَیُّهَا النَّاسُ ذَوُو الْأَجْسَامِ، مَا أَنْتُمْ وَطَائِشُ الْأَحْلَامِ

وَمُسْنِدُ الحُكم إِلَى الْأَصْنَامِ ،أصبحتهم كراتع الأنعام

أما ترون ما أرى أمامی،من ساطع یجلو دجى الظلام

قد لاح للناظر من تهام،وقد بدا للناظر الشآمی

محمد ذو البر والإكرام ، أَكْرَمَهُ الرَّحْمَنُ مِنْ إِمَامِ

قد جاء بعد الشرك بالإسلام،یأمرُ بِالصَّلَاةِ وَالصِّیَامِ

وَالْبِرِّ وَالصِّلَاتِ لِلْأَرْحَامِ ،ویزجرُ النَّاسَ عَنِ الْآثَامِ

فبادروا سبقا إلى الإسلام ،بلا فتور وبلا إحجام

قال عمر: فقلت: والله ما أراه إلا أرادنی، ثم مررت بالضمائر فإذا هاتف من جوفه

سیدناعمر فرماتے ہیں  واللہ ! میرے خیال میں  مجھے ہی بلایا جارہاہے، پھر میرا گزر بتوں  سے ہوا کہ جس کے پیٹ سے پکارنے کی آواز آرہی تھی وہ یہ کہہ رہا تھا۔

أودی الضمار وكان یعبد مدة ، قبل الكتاب وقبل بعث محمد

إن الذی ورث النبوة والهدى ، بعد ابن مریم من قریش مهتدی

سیقول من عبد الضمار ومثله ،ولیت الضمار ومثله لم یعبد

أبشر أبا حفص بدین صادق، تهدی إلیه وبالكتاب المرشد

واصبر أبا حفص فإنك آمر،یأتیك عز غیر عز بنی عدی

لا تعجلن فأنت ناصر دینه ،حقا یقینا باللسان وبالید

قال عمر: فوالله لقد علمت أنه أرادنی، فلقینی نعیم وكان یخفی إسلامه فرقا من قومه فقال: أین تذهب؟ قلت: أرید هذا الصابی الذی فرق أمر قریش فأقتله، فقال نعیم: یا عمر أترى بنی عبد مناف تاركیك تمشی على وجه الأرض وبالغ فی منعه، ثم قال: ألا ترجع إلى أهل بیتك فتقیم أمرهم، فذكر دخوله على أخته

سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اللہ جانتاہے جومیں  نے دل میں  ارادہ کیا،راستے میں  مجھے نعیم ملاجس نے اپناایمان چھپایاہواتھااورقوم سے الگ ہوگیاتھا،اس نے پوچھاکہاں  جارہے ہو؟میں  نے اسے کہامیں  اس صابی کوقتل کرنے جارہاہوں  جس نے قریش میں  تفرقہ پیداکردیاہے،نعیم نے کہااے عمر رضی اللہ عنہ !کیابنی عبدمناف تجھے زمین پرچلتاپھرتاچھوڑدیں  گے  اور ایسی حرکت کرنے سے انہیں  منع کیاپھراس نے کہاپہلے تم اپنے گھرکی خبرلو پھروہی قصہ ہے کہ میں  اپنی بہن کے گھرمیں  داخل ہوا[131]

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِی إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْحَاقَّةِ فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِیفِ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ شَاعِرٌ كَمَا قَالَتْ قُرَیْشٌ، قَالَ: فَقَرَأَ {إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِیمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیلًا مَا تُؤْمِنُونَ} [الحاقة: 41] قَالَ: قُلْتُ: كَاهِنٌ، قَالَ: {وَلا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِیلًا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِیلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ} [الحاقة: 42] إِلَى [ص:263] آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: فَوَقَعَ الْإِسْلامُ فِی قَلْبِی كُلَّ مَوْقِعٍ

ایک روایت میں  ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کا کہناہے ایک مرتبہ میں  قبول اسلام سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ چھیڑ چھاڑکے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں  جاچکے ہیں ، میں  جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورت الحاقہ کی تلاوت شروع کر دی مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا،قرآن مجیدکے نظم و اسلوب بیان کودیکھ کردل میں  یہ خیال کیاکہ یہ کوئی شاعر ہے جیساقریش کہتے ہیں  ابھی دل میں  یہ خیال گزراہی تھاکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’یہ ایک رسول کریم کاقول ہے کسی شاعر کاقول نہیں  ہے،تم لوگ بہت کم ایمان لاتے ہو۔‘‘(یعنی وہ بات نہیں  جوتم لوگوں  نے سمجھ رکھی ہے)۔میں  نے دل میں  کہایہ توکاہن ہے جومیرے دل کی بات جان گیاہے،اس پرآپ نے یہ آیت پڑھی ،’’اورنہ یہ کسی کاہن کاقول ہے تم لوگ کم ہی غورکرتے ہو،یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہواہے،اور اگراس نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں  ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے،پھر تم میں  سے کوئی ہمیں  اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت تلاوت فرمائی۔‘‘ سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  اورمیرے دل میں  اسلام پوری طرح گھرگیااس طرح وہ اسلام قبول کرنے والوں  میں  شامل ہوگئے۔[132]

قَالَ: عُمَرُ صَدَقَ بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، عِنْدَ آلِهَتِهِمْ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ بِعِجْلٍ فَذَبَحَهُ، فَصَرَخَ بِهِ صَارِخٌ، لَمْ أَسْمَعْ صَارِخًا قَطُّ أَشَدَّ صَوْتًا مِنْهُ یَقُولُ: یَا جَلِیحْ، أَمْرٌ نَجِیحْ، رَجُلٌ فَصِیحْ، یَقُولُ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، فَوَثَبَ القَوْمُ، قُلْتُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَعْلَمَ مَا وَرَاءَ هَذَا، ثُمَّ نَادَى: یَا جَلِیحْ، أَمْرٌ نَجِیحْ، رَجُلٌ فَصِیحْ، یَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقُمْتُ، فَمَا نَشِبْنَا أَنْ قِیلَ: هَذَا نَبِیٌّ

ایک روایت میں  ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  کہ میں  ایک روزکفارکے بتوں  کے درمیان لیٹاہواتھا کہ ایک شخص ایک بچھڑا لے کرآیااوراسے ذبح کر دیااس بچھڑے کے ذبح ہوتے ہی ایک چیخنے والے کی زبردست چیخ سنائی دی جومیں  نے کبھی نہیں  سنی تھی جوکہہ رہا تھاکہ اے دشمن عمدہ کام ظہورپذیرہواہے،ایک عقل مند انسان ہے جوکہتاہے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  اتنی زبردست چیخ کوسن کر باقی لوگ بھاگ کھڑے ہوئے مگرمیں  نے دل میں  تہہ کرلیاکہ اصل حقیقت معلوم ہونے تک اس جگہ سے نہ ہٹوں  گا ، اس طرح دوبارہ وہی آواز سنائی دی کہ اے دشمن ایک عمدہ کام کا ظہور پذیرہواہے ایک عقل مندانسان کہتاہے لاالٰہ الااللہ،یہ سنکرمیں  وہاں  سے چلاآیااور چنددن ہی گزرے تھے کہ سننے میں  آیاکہ فلاں  شخص نبی ہے۔[133]

یہ کہانیاں  آپ نے پڑھیں  اصل واقعات کچھ یوں  تھے زیدبن عمرو بن نفیل جو عمر رضی اللہ عنہ  بن خطاب کے چچاذادبھائی تھے ان لوگوں  میں  سے تھے جنہوں  نے دور جہالت میں  بت پرستی اوران کے ناموں  پرقربانی اورچڑھائے ہوئے کھانوں  سے لوگوں  کوروکاتھاجس کی پاداش میں  انہیں  تکالیف بھی پہنچائی گئیں  مگروہ اپنی بات پرقائم رہے،بنوتمیم میں  لڑکیوں  کوزندہ دفن کردینے کارواج تھا، شاعر فرزدق کے داداصعصعہ اورزیدبن عمروبن نفیل انہیں  اس عمل سے روکتے اوران لڑکیوں  کووالدین سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے تاکہ ان کی جان ان کے شقی القلب والدسے بچ جائے،وہ ان لڑکیوں  کے سنگدل باپوں  سے گزارش کرتے ہوئے کہتے

وَكَانَ یُحْیِی المَوْءُودَةَ، یَقُولُ لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَقْتُلَ ابْنَتَهُ، لاَ تَقْتُلْهَا، أَنَا أَكْفِیكَهَا مَئُونَتَهَا فَیَأْخُذُهَا فَإِذَا تَرَعْرَعَتْ قَالَ لِأَبِیهَا: إِنْ شِئْتَ دَفَعْتُهَا إِلَیْكَ، وَإِنْ شِئْتَ كَفَیْتُكَ مَئُونَتَهَا

اس لڑکی کی جان مت لومیں  اس کے تمام اخراجات کا ذمہ لیتاہوں  چنانچہ وہ لڑکیوں  کواپنی آغوش شفقت میں  لے لیتےجب وہ جوان ہوتیں  توپھر ان لڑکیوں  کے والدین کے پاس جاتے اور عرض کرتے کہ تمہاری بیٹی اب جوان ہوچکی ہے اگرتم پسند کرو تو اسے تمہارے حوالے کردوں   اوراگرپسندنہیں  کرتے تومیں  خوداس کی شادی کے تمام مصارف برداشت کرکے اس کو رخصت کردیتاہوں ۔[134]

اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  بن خطاب ایک سمجھدار نوجوان بن چکے تھے اوراپنے چچاذادبھائی کی باتوں  اور فلاحی کاموں  کاان کے اور خاندان کے دوسرے لوگوں  کے ذہن پر یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوئے ہوں  گےاس لئے جیسے ہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعوت حق دی توان کے خاندان سے کئی لوگوں  نے لبیک کہا جن میں  زیدبن عمرو بن نفیل کے بیٹے اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کے چچا ذادبھائی سعید رضی اللہ عنہ بن زیدبن عمرو بن نفیل اوران کی زوجہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  بنت الخطاب( سیدناعمر رضی اللہ عنہ  کی حقیقی بہن ) اور عمر رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی زید رضی اللہ عنہ بن الخطاب بھی ایمان لائےاوران کے خاندان سے ایک معززشخص نعیم  رضی اللہ عنہ  بن عبداﷲبھی ایمان لاچکے تھے اس طرح زیدبن عمرو بن نفیل کی بیٹی اور سعید رضی اللہ عنہ  کی بہن عمر رضی اللہ عنہ  کے نکاح میں  تھیں ،یعنی سعید  رضی اللہ عنہ بن زیداورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ  آپس میں  سالے بہنوئی تھے،چھ ہجری تک دعوت اسلام خوب پھیل چکی تھی اور جو لوگ ایمان لاچکے تھے وہ سب اہل مکہ کی نظروں  کے سامنے تھےاورجولوگ دعوت قبول کرتے ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ بیت اﷲمیں  جاکرجہاں  قریش موجود ہوتے اپنے ایمان کابرملااعلان کر دیں  چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کوبھی ان کے ایمان لانے کاعلم تھا کیونکہ سعید رضی اللہ عنہ  کاخودیہ بیان ہے جیسے قتیبہ بن سعید،سفیان ثوری، اسماعیل بن ابی خالداورقیس بن ابی حازم نے روایت کیا ہے

وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَیْتُنِی، وَإِنَّ عُمَرَ لَمُوثِقِی عَلَى الإِسْلاَمِ، قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عُمَرُ

اللہ کی قسم !میں  نے خودکو اس حال میں  دیکھاہے کہ اسلام لانے سے قبل سیدناعمر رضی اللہ عنہ  مجھے باندھ کرڈال دیا کرتے تھے تاکہ ان کا دوسرے لوگوں  سے میل جول نہ ہو۔[135]

اس کے علاوہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اپنی ایک عزیزہ لیلیٰ بنت حثمہ اوران کے خاوند عامربن ربیعہ کوہجرت حبشہ کی تیاری کرتے دیکھ کردل پر چوٹ لگی اورانہوں  نے بھی اسلام کے بارے میں  سنجیدگی سے سوچناشروع کردیا اوررسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی تھی۔

اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْكَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ عَمْرِو بْنِ هِشَامٍ

اے اﷲ! عمربن خطاب یاعمروبن ہشام میں  سے کسی ایک کے ساتھ جوتیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو اسلام کوقوت وطاقت دے۔[136]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً

جبکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں  صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے بارے میں  دعا فرمائی تھی اے اﷲ! عمربن خطاب کے زریعہ اسلام کوقوت وطاقت دے[137]

اس دعاکی خوشخبری کاذکر عامر رضی اللہ عنہ  نے اپنی اہلیہ سے ہجرت حبشہ کے وقت کیاتھا کہ بہت جلدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ  حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں  گے ،اس کے علاوہ خباب  رضی اللہ عنہ  نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بارے میں  بتایاتھااورکہاتھاکہ عنقریب اﷲآپ سے اپنے دین کی نشرواشاعت کاخوب کام لے گا،چنانچہ رب نے دعاکوقبولیت عطافرمائی اوراس دعاکوابھی چنددن ہی گزرے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  اسلام کےحلقہ بگوش ہوگئے ۔

أنه لما أسلم، قال: یا رسول الله! لا ینبغی أن یكتم هذا الدین، أظهر دینك، فخرج ومعه المسلمون وعمر أمامهم معه سیف ینادی: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حتى دخل المسجد فقالت قریش: لقد أتاكم عمر مسرورا، ما وراءك یا عمر؟قال: ورائی لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فإن تحرك أحد منكم لأمكنن سیفی منه، ثم تقدم أمامه صلى الله علیه وسلم یطوف ویحمیه حتى فرغ من طوافه

ایک روایت ہےجب سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیااے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں  اپنے دین کوچھپانے کی ضرورت نہیں  ہم اپنے دین کوظاہرکریں  گے،چنانچہ وہ دوسرے مسلمانوں  کے ساتھ باہرنکلے اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ  اپنی ننگی تلواراٹھائے کلمہ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ  پڑھتے ہوئےان کے آگے آگے تھے یہاں  تک کہ مسجدالحرام میں  داخل ہوگئے،قریش کے لوگ جووہاں  موجودتھے کہنے لگے عمربڑے خوش خوش آرہے ہیں  اے عمراس کی کیاوجہ ہے؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں  نے کلمہ اختیارکرلیاہے اگرتم میں  سے کسی نے حرکت کی تومیری تلواراس پراٹھے گی، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آگے بڑھے اورسب مسلمانوں  کے ساتھ بیت اللہ کاطواف کیایہاں  تک کہ طواف سے فارغ ہوگئے۔[138]

قَالَ عُمَرُ: لَمَّا أَسْلَمْتُ تِلْكَ اللَّیْلَةَ، تَذَكَّرْتُ أَیَّ أَهْلِ مَكَّةَ أَشَدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَدَاوَةً حَتَّى آتِیَهُ فَأُخْبِرَهُ أَنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ،  قَالَ:قُلْتُ: أَبُو جَهْلٍ وَكَانَ عُمَرُ لِحَنْتَمَةَ بِنْتِ هِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَةِ- قَالَ: فَأَقْبَلْتُ حِینَ أَصْبَحْتُ حَتَّى ضَرَبْتُ عَلَیْهِ بَابَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ إلَیَّ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِ أُخْتِی، مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ  : جِئْتُ لِأُخْبِرَكَ أَنِّی قَدْ آمَنْتُ باللَّه وَبِرَسُولِهِ مُحَمَّدٍ، وَصَدَّقْتُ بِمَا جَاءَ بِهِ، قَالَ: فَضَرَبَ الْبَابَ فِی وَجْهِی وَقَالَ: قَبَّحَكَ اللَّهُ، وَقَبَّحَ مَا جِئْتَ بِهِ

ایک روایت ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  جب میں  نے اسلام قبول کیاتواسی رات کومیں  نے خیال کیاکہ قریش میں  سے جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادہ عداوت رکھتا ہو پہلے اس کے پاس جاکراپنے اسلام قبول کرنے کی خبربیان کروں ، پس میں  نے دل میں  کہاکہ ابوجہل سے بڑھ کرکوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کادشمن نہیں  ہے چنانچہ صبح ہوتے ہی میں  ابوجہل کے گھر گیا اورابوجہل سیدناعمر رضی اللہ عنہ کاسگاماموں  تھااورمیں  نے دروازہ کھٹکھٹایا،ابوجہل نے آکردروازہ کھولااورمجھے دیکھ کرکہاآؤمیرے بھانجے آؤخوب آئے کس طرح آناہوا؟میں  نے کہامیں  اس لیے آیاہوں  کہ تم کواپنے اسلام قبول کرنے کی خبردے دوں ،میں  اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پرایمان لایاہوں  اورجوان پرنازل ہواہے اس کی تصدیق کی ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  میرے یہ کہتے ہی ابوجہل نے زورسے دروازہ بندکردیااورکہااللہ تجھ کوخراب کرے اوراس کوبھی جوتولایاہے۔[139]

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خِرَاشٍ الْحَوْشَبِیُّ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ، نَزَلَ جِبْرِیلُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب سیدناعمرنے اسلام قبول کیاتوجبرائیل علیہ السلام  آئے اورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے پرفرشتوں  نے مبارک باددی۔[140]

حكم الألبانی ضعیف جدا

شیخ البانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں  یہ ضعیف روایت ہے۔ اس روایت کی سندمیں  راوی عبد الله بن خراش ضعیف ہے۔

سیدالشہداء حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کاقبول اسلام کفرکے لئے یہ ایک بہت بڑاجھٹکاتھا

بَیْنَمَا هُوَ فِی الدَّارِ خَائِفًا، إِذْ جَاءَهُ العَاصِ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِیُّ أَبُو عَمْرٍو، عَلَیْهِ حُلَّةُ حِبَرَةٍ وَقَمِیصٌ مَكْفُوفٌ بِحَرِیرٍ، وَهُوَ مِنْ بَنِی سَهْمٍ، وَهُمْ حُلَفَاؤُنَا فِی الجَاهِلِیَّةِ، فَقَالَ لَهُ: مَا بَالُكَ؟  قَالَ: زَعَمَ قَوْمُكَ أَنَّهُمْ سَیَقْتُلُونِی إِنْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: لاَ سَبِیلَ إِلَیْكَ، بَعْدَ أَنْ قَالَهَا أَمِنْتُ، فَخَرَجَ العَاصِ فَلَقِیَ النَّاسَ قَدْ سَالَ بِهِمُ الوَادِی، فَقَالَ: أَیْنَ تُرِیدُونَ؟ فَقَالُوا: نُرِیدُ هَذَا ابْنَ الخَطَّابِ الَّذِی صَبَا قَالَ: لاَ سَبِیلَ إِلَیْهِ فَكَرَّ النَّاسُ

ان کے اسلام قبول کرتے ہی ایک بڑی تعدادمیں  لوگوں  نے ان کے مکان کوگھیرلیا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  خوفزدہ  ہو کرگھرمیں  بیٹھے رہے، گھر کے باہرلوگ (غصہ)سے چلارہے تھے کہ عمربے دین ہوگیا کہ ان کے پاس عاص بن وائل سہمی ابوعمرو آیا جو ایک ریشمی حلہ اور ایک ریشمی گوٹ کا کرتہ پہنے ہوئے تھا، عاص قبیلہ بنو سہم کا تھا اور بنو سہم زمانہ جاہلیت میں  ہمارے حلیف تھے تو عاص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تمہارا کیا حال ہے؟سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے کہاتمہاری قوم کہتی ہے کہ اگرمیں  نے اسلام قبول کرلیاتووہ مجھے قتل کردے گی،عاص بن وائل نے کہامیرے امان دینے کے بعدوہ تم پرقابو نہیں  پاسکتے،چنانچہ عاص بن وائل گھرسے باہرنکلاتودیکھاکہ وادی لوگوں  سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے ،عاص بن وائل نے پوچھا کیامعاملہ ہے(یعنی تم یہاں  کیوں  جمع ہو)لوگوں  نے کہاسیدناعمربے دین ہوگیاہے،عاص بن وائل نے کہامیں  نے اسے پناہ دی ہےاب تم اس کاکچھ نہیں  بگاڑ سکتے، عاص بن وائل کی پناہ کاسنکرلوگ منتشر ہوگئے۔[141]

ایک حلیف کی حیثیت سے عاص بن وائل نے اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کوپناہ دے کرحمایت کی مگرکفرپرسختی سے جمارہااوراسلام قبول نہیں  کیا ۔

اہل مکہ حیات بعدازموت،حشرنشر اورحساب وجزاکی تمام باتوں  کوڈھکوسلا،اوردیوانے کی ایک بڑقراردیتے تھے،اوراپنے آبائی مشرکانہ دین کوبرحق سمجھتے تھے جبکہ حیات بعد ازموت اسلام کاایک بنیادی عقیدہ ہے ، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  ایمان لائے تومشرکین کے لئے یہ ایک دوسربڑادھکچا تھا،چنانچہ ابوسفیان اورحرب بن امیہ بن خلف نے ان سے مل کران کو ڈگمگانے کے لئے کہا زندگی بعد از موت کی یہ سب باتیں  فضول اورلایعنی ہیں  ،مرنے کے بعدجب ہڈیاں  بھی منتشرہوجائیں  گی تب کس نے زندہ ہوناہے اورکس نے زندہ کرناہے ، تم ہمارے کہنے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کادین چھوڑدواوراپنے آبائی دین کی طرف پلٹ آؤیادین کے کچھ حصے کوترک کردواگربالفرض کوئی اورزندگی ہے بھی تواوراس میں  حساب کتاب بھی ہوناہے توہم یہ ذمہ لیتے ہیں  کہ اللہ کے سامنے ہم سارا عذاب اپنی گردن پرلے لیں  گے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْ۝۰ۭ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍ۝۰ۭ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۱۲وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ۝۰ۡوَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۱۳ۧ [142]

ترجمہ:یہ کافرلوگ ایمان لانے والوں  سے کہتے ہیں  کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اورتمہاری خطاؤں  کوہم اپنے اوپرلے لیں  گے حالانکہ ان کی خطاؤں  سے کچھ بھی وہ اپنے اوپرلینے والے نہیں  ہیں  ،وہ قطعاًجھوٹ کہتے ہیں  ہاں  ضروروہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں  گے اوراپنے بوجھوں  کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی ،اورقیامت کے روزان سے ان افتراپردرازیوں  کی بازپرس ہوگی جووہ کرتے رہے ہیں ۔

یعنی ہرشخص اپنے کیے کاآپ ذمہ دارہے ،اللہ کے قانون میں  ایساہرگزنہیں  کہ کوئی کسی کاگناہ اپنے ذمہ لے لے اورگناہ کرنے والاخوداپنے گناہ کی سزاسے بچ جائے ،کسی نے دوسرے کے گناہ تواپنے ذمہ کیالینے ہیں ،دہکتی اور غیض وغضب سے پھٹتی جہنم کودیکھ اس روزتونفسانفسی کا یہ عالم ہوگاماں  ، باپ اپنی اولادکی طرف نہیں  دیکھیں  گے اوراولادوالدین کی طرف نہیں  دیکھیں ،کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آسکے گا بلکہ ہرشخص کی خواہش ہوگی کہ وہ اس جہنم میں  جانے سے کسی طرح بچ جائے چاہئے ساری مخلوق جس میں  اس کے والدین ،بہن بھائی ،عزیزواقارب ، دوست احباب بھی ہوں  گے آگ میں  ڈال دی جائے،یہ لوگ جوایسی  باتیں  کررہے ہیں  یہ اپنے گناہوں  کے بوجھ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں  کابوجھ بھی اٹھائیں  گے جنہیں  ان لوگوں  نے گمراہ کیاہوگا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس دعوت دینے والے نے ہدایت کی طرف بلایا پھر اس کی پیروی کی گئی تو اس کو پیروی کرنے والوں  کے برابر اجر ملے گا اور پیروی کرنے والے کے اجر میں  کچھ کمی نہیں  کی جائے گی اور جس دعوت دینے والے نے بھی گمراہی کی دعوت دی اور اس کی پیروی کی گئی تو اس کو پیروی کرنے والوں  کے برابر گناہ ہوگا پیروی کرنے والوں  کے گناہ میں  کمی کئے بغیر۔[143]

[1] النحل۱۰۳

[2] الطور۳۳،۳۴

[3] الاحقاف۸

[4] الدخان۱۳،۱۴

[5] النحل۱۰۲

[6] الشعرائ۱۹۲تا۱۹۴

[7] ھود۱

[8] الشعرائ۱۹۵

[9] البقرة۲

[10] الشمس۸

[11] البلد۱۰

[12] البقرة۱۴۲

[13] الحج۱۶

[14] النور۳۵

[15] الفرقان۳

[16] تفسیرطبری۴۳۰؍۲۱

[17] ھود۱۰۸

[18] الکہف۳

[19] النازعات۳۱تا۳۳

[20] صحیح بخاری کتاب تفسیرسُورَةُ حم السَّجْدَةِ

[21] الحجر۱۶تا۱۸

[22] الصافات۶تا۱۰

[23] فاطر۱

[24] صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ ابْتِدَاءِ الْخَلْقِ وَخَلْقِ آدَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُu ۷۰۵۴،صحیح ابن حبان ۶۱۶۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۰۵،مسندابی یعلی ۶۱۳۲

[25] الاعراف۵۴

[26] یونس۳

[27] یونس۳

[28] طہ۵

[29] الفرقان۵۹

[30] الحدید۴

[31] المومنون۱۱۵

[32] الانبیائ۱۶،۱۷

[33] الاحقاف۲۱

[34] الفرقان۷،۸

[35] الذاریات۴۳تا۴۵

[36] الفجر۸

[37] الشعرائ۱۳۰

[38] ھود۵۰

[39] الاحقاف۲۲

[40] القمر۱۹،۲۰

[41] الحاقة ۶ تا ۸

[42] الاحقاف۲۵

[43] ھود۶۱

[44] الشعراء ۱۵۳، ۱۵۴

[45] الشعرائ۱۵۵ ، ۱۵۶

[46] الشعراء ۱۵۷

[47] ھود۶۷

[48] الحاقہ۵

[49] القمر۳۱

[50] مریم۸۶

[51] یٰسین۶۵

[52] النور۲۴

[53] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۳۹،صحیح ابن حبان ۷۳۵۸،السنن الکبری للنسائی ۱۱۵۸۹،مسندابی یعلی ۳۹۷۷،مستدرک حاکم ۸۷۷۸

[54] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۷۱؍۱۰

[55] فصلت: 22

[56] صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیرسورةحم السجدہ بَابُ قَوْلِهِ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ یَشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ، وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لاَ یَعْلَمُ كَثِیرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ  ۴۸۱۶،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین باب  صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ ۲۷۷۵،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ ۳۲۴۸،مسنداحمد۳۶۱۴

[57]صحیح بخاری کتاب التوحید الجھمیة بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى یُرِیدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ۷۵۰۵، صحیح مسلم کتاب بَابُ فَضْلِ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّقَرُّبِ إِلَى اللهِ تَعَالَى۶۸۲۹ ، مسند احمد ۷۹۴۹،مسندابی یعلی ۳۲۳۲

[58] المومنون۱۰۶تا۱۰۸

[59] الانعام۲۸

[60] المومن۵۲

[61]الزخرف ۳۶، ۳۷

[62] مریم۸۳

[63] تفسیر طبری ۴۶۰؍۲۱

[64] الاعراف ۲۰۴

[65] الاعراف۳۸

[66] النحل۸۸

[67]صحیح مسلم کتاب الایمان  بَابُ جَامِعِ أَوْصَافِ الْإِسْلَامِ۱۵۹،جامع ترمذی ابواب الزھدبَابُ مَا جَاءَ فِی حِفْظِ اللِّسَانِ۲۴۱۰،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَةِ ۳۹۷۲،مسنداحمد۱۵۴۱۸،صحیح ابن حبان ۵۶۹۹،سنن الدارمی ۲۷۵۳

[68] الرعد۲۴

[69] مسنداحمد۸۷۶۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالِاسْتِعْدَادِ لَهُ۴۲۶۲

[70] الانعام ۱۳۲

[71] سنن ابن ماجہ کتاب الاذان بَابُ فَضْلِ الْأَذَانِ، وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِینَ ۷۲۵،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ فَضْلِ الْأَذَانِ وَهَرَبِ الشَّیْطَانِ عِنْدَ سَمَاعِهِ ۸۵۲،مسنداحمد۱۳۷۸۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۷۳۶،صحیح ابن حبان ۱۶۶۹،مسندابی یعلی۷۳۸۴

[72] المومنون ۹۶

[73] الدر المنثور۲۲؍۷

[74]  الدر المنثور۳۲۷؍۷،صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ سورة حٰم السجدة قبل الحدیث ۴۸۱۶، السنن الکبری للبیہقی۱۳۲۹۹

[75] الاعراف ۱۹۹، ۲۰۰

[76] المومنون۹۶تا۹۸

[77] سنن ابوداودکتاب  تَفْرِیعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ۷۷۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ۲۴۲، مسنداحمد۱۱۴۷۳

[78] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الِانْتِصَارِ۴۸۹۶

[79] بنی اسرائیل۴۲

[80] الانبیائ۲۲

[81] تفسیرطبری۴۷۸؍۲۱

[82] الکہف۲۹

[83] الحجر۹

[84] ابراہیم۱۰

[85] الانبیائ۳

[86] المومنون۳۳

[87] الشعرائ۱۵۴

[88] الفرقان۵

[89] الانبیائ۵

[90] الطور۳۰

[91] الدخان۱۴

[92] الذاریات۵۲

[93] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۷۳؍۱۰

[94] الحجر۴۹،۵۰

[95] الشعرائ۱۹۸،۱۹۹

[96] بنی اسرائیل۸۲

[97] تفسیرابن کثیر۱۸۴؍۷

[98] البقرة۱۷۱

[99] طہ۱۲۹

[100] فاطر۴۵

[101] الجاثیة۱۵

[102] الروم۴۴

[103] النازعات ۴۲تا۴۴

[104] الاعراف۱۸۷

[105] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ ۵۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ: الْإِیمَانُ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ ۹۷،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۶۹۵، مسند احمد ۱۸۴،صحیح ابن حبان۱۵۹، السنن الکبری للبیہقی ۲۰۸۷۱،مصنف ابن ابی شیبة۳۷۵۵۸،شرح السنة للبغوی ۲

[106] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لقولہ تعالیٰ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۶۱۷۱،۶۱۶۷ ،صحیح مسلم کتاب ابروالصلة بَابُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ۶۷۱۰،مسند احمد ۱۲۷۶۲،مسندابی یعلی ۳۶۳۲

[107] سبا۳

[108] الانعام ۵۹

[109] الرعد۸

[110] الکہف۵۳

[111] القصص۷۸

[112] الزمر۴۹

[113] یونس۱۲

[114] الزاریات۳۹

[115]تفسیرطبری۴۹۱؍۲۱

[116] الکہف۳۵،۳۶

[117] العلق۶تا۸

[118] النسائ۱۶۶،۱۶۷

[119] ابن ہشام ۲۹۳،۲۹۴؍۱، الروض الانف۶۰؍۳،عیون الآثر۱۲۴؍۱

[120] تفسیرابن کثیر ۱۶۱؍۷ ،البدایة والنہایة ۸۰؍۳، السیرة النبویة لابن کثیر۵۰۳؍۱

[121] امتاع الاسماع۱۱۲؍۹

[122]امتاع الاسماع۱۱۲؍۹

[123] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۳۴۴؍۱

[124] شرح الزرقانی علی المواھب ۵۰۲؍۱

[125] دلائل النبوة لابی نعیم۲۴۱؍۱

[126] ابن ہشام ۳۴۶؍۱،الروض الانف ۱۶۳؍۳،انساب الاشراف للبلاذری ۲۸۶؍۱۰

[127]۔الحدید ۱تا۷

[128]دلائل النبوة للبیہقی ۲۱۶؍۲

[129] انساب الاشراف للبلاذری۲۸۶؍۱۰

[130] ابن ہشام۳۴۶؍۱،الروض الانف۱۶۷؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۱۱؍۲

[131] شرح الزرقانی علی المواھب۱۰؍۲

[132] مسنداحمد۱۰۷،شرح الزرقانی علی المواھب۱۱؍۲

[133] صحیح بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۳۸۶۶،شرح الزرقانی علی المواھب۱۰؍۲

[134] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ حَدِیثِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ۳۸۲۸ ،ابن سعد۲۹۱؍۳،البدایة والنہایة۲۹۹؍۲

[135]بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ إِسْلاَمِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۳۸۶۲

[136] مستدرک حاکم۶۱۲۹

[137]سنن ابن ماجہ کتاب السنة باب فضل عمر رضی اللہ عنہ :۱۰۵

[138] شرح الزرقانی علی المواھب۱۲؍۲

[139] ابن ہشام۳۵۰؍۱،الروض الانف۱۷۳؍۳

[140] سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم باب فَضْلُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۱۰۳

[141]صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۳۸۶۴

[142] العنکبوت ۱۲،۱۳

[143] صحیح مسلم كتاب الْعِلْمِ بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَیِّئَةً وَمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى أَوْ ضَلَالَةٍ۶۸۰۰،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَیِّئَةً ۲۰۶،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابُ لُزُومِ السُّنَّةِ۴۶۰۹،شرح السنة للبغوی۱۰۹،صحیح ابن حبان ۱۱۲،مسندابی یعلی ۶۴۸۹،مسنداحمد۹۱۶۰

Related Articles