بعثت نبوی کا چھٹا سال

مضامین سورة الفرقان

اہل مکہ کبھی قرآن مجیدکوگزشتہ اقوام کے قصے اورکہانیاں  قراردیتے تھے ،کبھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاافتراء اورایسی تخلیق کہتے تھے جس میں  اہل کتاب نے آپ کے ساتھ تعاون کیاتھااورکبھی اسے واضح جادوقراردیتے تھے،چنانچہ   سورہ کے آغازمیں  قرآن مجیداوررسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم   کی تعلیمات پرجومختلف اعتراضات کیے جاتے تھے ان میں  سے ایک ایک کاجچاتلاجواب دیاگیاہے،اورساتھ ہی اہل مکہ کوتنبیہ کی گئی کہ سابقہ قوم عاد ، ثمود، اصحاب الرس،قوم موسٰی ،قوم نوح اوربنی اسرائیل کے واقعات سے عبرت حاصل کریں کہ دعوت حقہ کی تکذیب کی پاداش میں  ان پر کیسا دردناک عذاب نازل ہوا،حشرکی منظر کشی کی گئی کہ مشرکین کے معبودوں  کوگھیرکرلایاجائے گا اوران سے پوچھاجائے گاکہ کیاتم نے میرے ان بندوں  کوگمراہ کیاتھایایہ خودراہ راست سے بھٹک گئے تھے؟ان کے معبودانہیں  جھٹلادیں  گے،اس وقت یہ مکذبین حسرت وافسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ چبائیں  گے اورکہیں  گے کاش! میں  نے رسول کاساتھ دیاہوتا،ہائے میری کم بختی !کاش میں  نے فلاں  شخص کودوست نہ بنایاہوتااس کے بہکائے میں  آکرمیں  نے وہ نصیحت نہ مانی جومیرے پاس آئی تھی ،شیطان انسان کے حق میں  بڑاہی بے وفانکلا،اورجب وہ دست وپابستہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں  ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں  گے توالمناک عذاب سے گھبراکراپنی موت کوپکارنے لگیں  گے مگرموت نہیں  آئے گی اوران سے کہاجائے گاآج ایک موت نہیں  بہت سی موتوں  کوپکارو ،کامل مومن کے تیرہ اوصاف واخلاق بیان کیے گئے،اورایمان ، اعمال صالح،رب کے حضورتوبہ،نیکی و بھلائی،آداب تلاوت قرآن اوراﷲکی اطاعت کاحکم دیاگیا اور اس کے مقابلے میں  ظلم ، کفروشرک اورجہالت سے گریزکی تلقین فرمائی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

تَبَارَكَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِیَكُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا ‎﴿١﴾‏ الَّذِی لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَكُن لَّهُ شَرِیكٌ فِی الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِیرًا ‎﴿٢﴾ وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا یَخْلُقُونَ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ وَلَا یَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا یَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَیَاةً وَلَا نُشُورًا ‎﴿٣﴾(الفرقان)
بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں  کے لیے آگاہ کرنے والا بن جائے، اس اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں  اور زمین کی، اور وہ کوئی اولاد نہیں  رکھتا،نہ اس کی سلطنت میں  کوئی ساتھی ہے ،اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایا ہے، ان لوگوں  نے اللہ کے سوا جنہیں  اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں  وہ کسی چیز کو پیدا نہیں  کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں ، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں  رکھتے، اور نہ موت وحیات کے، اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں ۔‘‘

مقصدقرآن :

اللہ تعالیٰ نے رسالت اورنبوت کاذکرفرمایانہایت بزرگ وباعظمت ،مقدس ومنزہ،کمال قدرت کے لحاظ سے بلندوبرتر ہے اللہ جس نے یہ حق وباطل ،ہدایت وگمراہی ،توحید و شرک اورعدل وظلم کے درمیان فرق کرنے والااپناآخری کلام قرآن مجید اپنے مخلص بندے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  پرتھوڑاتھوڑاکرکے نازل فرمایا،جیسے فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْكِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۝۱ۭ۫قَیِّـمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَـنًا۝۲ۙ [1]

ترجمہ:تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں  کوئی ٹیڑھ نہ رکھی،ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب تاکہ وہ لوگوں  کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں  کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے۔

جس کی صفت یہ ہے کہ اس میں  جھوٹ کہیں  سے بھی داخل نہیں  ہوسکتا،جیسے فرمایا:

لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [2]

ترجمہ:باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

تاکہ سارے جہان والے انسانوں  اورجنوں  کے لئے غفلت اورگمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والاہو،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا۔۔۔ ۝۱۵۸ [3]

ترجمہ: اے محمد کہو! اے انسانوں  میں  تم سب کی طرف اللہ کاپیغمبرہوں ۔

۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۔۔۔ ۝۱۹ۘ [4]

ترجمہ:میری طرف یہ قرآن بھیجاگیاہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں  تم کوخبردارکروں  اور جس جس کوبھی یہ پہنچے ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا۔۔۔ ۝۲۸ [5]

ترجمہ: ہم نے تم کوسارے ہی انسانوں  کے لئے بشارت دینے والااورخبردارکرنے والابنا کر بھیجا ہے ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۷ [6]

ترجمہ:ہم نے تم کوتمام دنیاوالوں  کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے ۔

أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں  ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئی تھیں میری ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ مدد دی گئی،اور زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنا دی گئی لہذا میری امت میں  جس شخص پر نماز کا وقت (جہاں ) آجائےاسے چاہئے کہ (وہیں  زمین پر) نماز پڑھ لے،اورمیرے لئے مال غنیمت حلال کر دئیے گئے، حالانکہ مجھ سے پہلے کسی (نبی) کے لئے حلال نہ کئے گئے تھے اور مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی،اور پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتاتھااور میں  تمام لوگوں  کی طرف نبی بناکربھیجاگیاہوں ۔[7]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں  ہےمیں  ساری خلقت کی طرف بھیجاگیاہوں اور میری آمدپرانبیاء ختم کردیے گئے۔[8]

اللہ کی وحدانیت پرآفاق کوبطوردلیل پیش کیاگیااللہ جوزمین اورآسمانوں  کی بادشاہی کامالک اورمتصرف ہے،یہودعزیرؑکو اورنصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کا بیٹا سمجھتے تھے،جیسے فرمایا

وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۔۔۔۝۳۰ [9]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں  کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں  کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔

اور مشرکین مکہ فرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  سمجھتے تھے،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى۝۲۷ [10]

ترجمہ:مگر جو لوگ آخرت کو نہیں  مانتے وہ فرشتوں  کو دیویوں  کے ناموں  سے موسوم کرتے ہیں ۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙ [11]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں  رحمن اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ! وہ ( یعنی فرشتے) تو بندے ہیں  جنہیں  عزت دی گئی ہے۔

اس کی تردیدمیں  فرمایاوہ ہرطرح کے نقائص سے پاک اوربالاوبرتر ہے کہ کوئی اس کی بیوی یابیٹایابیٹی ہو،جیسے فرمایا

قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ [12]

ترجمہ:کہووہ اللہ ہے یکتا ،اللہ سب سے بے نیازہےاور سب اس کے محتاج ہیں  ،نہ اس کی کوئی اولادہے اورنہ وہ کسی کی اولاد،اور کوئی اس کا ہمسر نہیں  ہے۔

صنم پرست اورمشرکین بہت سے دیوی دیوتاؤں  کے جبکہ مجوسی دوخداؤں  خیروشر،ظلمت ونور کے قائل تھے،ان قائلین کے ردمیں  فرمایاکہ کائنات میں  بادشاہی صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے ، وہ ہی ساری کائنات کامختارمطلق ہے ،کائنات کی تخلیق ،اس میں فرمانروائی وتصرف کے اختیارات میں ، اس کائنات کاعظیم الشان نظام چلانے اور رزق پہنچانے میں  کوئی اس کا ذرہ برابر ساجے دار اور مددکرنے والانہیں  ہے، اللہ وحدہ لاشریک نے اس عظیم الشان کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیزکوتخلیق کیا پھراپنی حکمت ومشیت کے تحت اس کی صورت ، جسامت،قوت واستعداد،اوصاف وخصائص،کام اورکام کاطریق،بقاء کی مدت ،عروج وارتقاء کی حداوردوسری وہ تمام تفصیلات مقرر فرمائیں  جواس چیزکی ذات سے متعلق ہیں  ،اورپھراسی نے عالم وجودمیں  وہ اسباب ووسائل اورمواقع پیداکیے ہیں  جن کی بدولت ہر چیز یہاں  اپنے اپنے دائرے میں  اپنے حصے کاکام کررہی ہے،جیسے فرمایا:

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝۱ۙالَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙوَالَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدٰى۝۳۠ۙ [13]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے رب برترکے نام کی تسبیح کروجس نے پیداکیااورتناسب قائم کیاجس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔

۔۔۔ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى۝۵۰ [14]

ترجمہ: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہرچیزکواس کی ساخت بخشی پھراس کوراستہ بتایا۔

مشرکین کے من گھڑت معبودوں  کے عجزاوربے چارگی کا ذکر فرمایالیکن ظالموں  نے ایسے ہمہ صفات رب کو چھوڑکر فرشتوں  ، جنوں ،انبیائ،اولیا،سورج چاند، ستاروں  ، سیاروں ، درختوں ،جانوروں  اوراپنے ہاتھ کے تراشے ہوئے لکڑی ،پتھراورسونے چاندی کے بتوں  کو اپنا معبودبنالیا، جو ایک مچھرکاپر یاکھجورکی گھٹلی کے اوپر کا چھلکاتک بناسکنے کی قدرت نہیں  رکھتے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۝۱۳ۭ [15]

ترجمہ:جنہیں  تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں  ۔

بلکہ اگرکوئی مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تواس سے واپس لینے سے بھی عاجزہیں  ،بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  یعنی خالق نہیں  بلکہ مخلوق ہیں  ، اور مخلوق کوکوئی قدرت واختیار حاصل نہیں  ہوتا، جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـیْـــــًٔـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳ [16]

ترجمہ:جن معبودوں  کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں  تو نہیں  کر سکتےبلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں  سکتے،مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔

وہ معبودایسے ہیں  جو خود اپنے لئے بھی کسی نفع یا نقصان کااختیارنہیں  رکھتے،چہ جائیکہ وہ کسی اورکے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ورہوں ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ۝۱۹۷ [17]

ترجمہ:بخلاف اس کے تم جنہیں  اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں  اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں ۔

وہ معبود ایسے ہیں جواپنی موت وزیست کا اور دوبارہ جی اٹھنے کابھی اختیار نہیں  رکھتے ،جیسے فرمایا

اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ [18]

ترجمہ:مردہ ہیں  نہ کہ زندہ، اور ان کو کچھ معلوم نہیں  ہے کہ انہیں  کب دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

پھروہ اپنی عبادت کرنے والوں  کی موت وحیات کے مالک کیسے ہوجائیں  گے ،ان تمام کاموں  پرتو اللہ وحدہ لاشریک کو قدرت و اختیارہے،اوروہی جب چاہے گا اپنی تمام مخلوق کوزندہ کرکے میدان محشرمیں  جمع کرلے گا، اوروہ معبود ایسے ہیں  کہ مرے ہوئے کوپھردوبارہ زندہ بھی نہیں  کرسکتے ہیں ۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَیْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا ‎﴿٤﴾‏ وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلَىٰ عَلَیْهِ بُكْرَةً وَأَصِیلًا ‎﴿٥﴾‏ قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِی یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٦﴾(الفرقان)
اور کافروں  نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے، جس پر اور لوگوں  نے بھی اس کی مدد کی ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں ،اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں  کے افسانے ہیں  جو اس نے لکھا رکھے ہیں ،  بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں ، کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ باتوں  کو جانتا ہے، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

جن لوگوں  نے دعوت حق کو ماننے سے انکارکردیاہے وہ پیغمبرپر بہتان تراشتے ہیں  کہ یہ قرآن جوسراسررحمت وہدایت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں  ہواہے بلکہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خودتصنیف کرلیاہے،کفارحق سے فرارکے لئے ہمیشہ اسی طرح کی باتیں  کرتے آئے ہیں ،جیسے فرمایا:

قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَاۗءَنَا نَذِیْرٌ۝۰ۥۙ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۚۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ۝۹ [19]

ترجمہ:وہ جواب دیں  گے ہاں خبردارکرنے والاہمارے پاس آیاتھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیااورکہااللہ نے کچھ بھی نازل نہیں  کیاہے تم بڑی گمراہی میں  پڑے ہوئے ہو۔

اورکہتے ہیں یہودنے یاان کے بعض موالی مثلاًابوفکیہ ،حویطب بن عبدالعزیٰ کاآزادکردہ غلام عدس،علاء بن الحضرمی کاآزادکردہ غلام یسار اورعامربن ربیعہ کاآزادکردہ غلام جبروغیرہ نے اس کام میں  اس کی مددکی ہے،بڑی بے انصافی اورسخت جھوٹ ہے جس پریہ لوگ نازاں  ہیں  ، کبھی یہ یوں کہتے ہیں  کہ یہ پرانے لوگوں  کی لکھی ہوئی چیزیں  ہیں  جو اسے راتوں  کوچپکے چپکے ترجمہ اورنقل کرائے جاتے ہیں  اوریہ ان کے اقتباسات نکلوانکلوا کریادکرتاہے اور دن کوہمیں سناتاہے مگرحق سے فرارکے لئے یہ صرف الزامات ہی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاگھراپنے چچاابولہب کاہم دیوارہی تھااگروہ اپنے الزامات میں  سچے ہوتے تورات کو کسی وقت چھاپہ مارکرحقیقت حال لوگوں  کے سامنے لے آتے،یادن دھاڑے مکان میں  گھس کرپرانی کتابیں  نکال لاتے،پھرجن لوگوں  کے بارے میں سکھانے پڑھانے کادعویٰ کرتے تھے وہ محض عجمی غلام تھے اور ان کی ذہنی اڑان ،تعلیم اورتجربے کوبھی اہل مکہ خوب جانتے تھے ،اوران لوگوں  نے بھی یہ کبھی دعویٰ نہیں  کیاکہ ہم ایسا ایسا کام کرتے رہے ہیں ،اس لئے تفصیلات میں  جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے ان شبہات کوحقارت سے رد کر دیااور ان کی کم عقلی پرفرمایا

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ۝۰ۭ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ۝۱۰۳ [20]

ترجمہ:ہمیں  معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں  کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہےحالانکہ ان کااشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اوریہ صاف عربی زبان ہے ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! ان سے کہوکہ اس پاکیزہ کلام کواس نے نازل کیاہے جو زمین اور آسمانوں  کی ہرپوشیدہ بات تک جانتا ہے ،جیسے فرمایا

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙبِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۝۱۹۵ۭ [21]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے ،اسے لے کرتیرے دل پرامانت دارروح اتری ہے تاکہ توان لوگوں  میں  شامل ہوجو(اللہ کی طرف سے اس کی مخلوق کو)متنبہ کرنے والے ہیں ،صاف عربی زبان میں ۔

اس لئے وہ عفوودرگزرسے کام لیتا ہے ، ورنہ رسول پرقرآن مجیدکو خود تصنیف کرلینے کا الزام اتناشدیدہے کہ جس پروہ فوری طورپر عذاب الٰہی کی گرفت میں  آسکتے ہیں ،اس لئے ظالموابھی وقت ہے اپنے تعصبات اور بغض وعناد سے باز آجاؤاوردعوت حق پرایمان لے آؤ، دین اسلام قبول کرتے ہی اللہ تعالیٰ تمہارےگناہوں  کومعاف فرمادے گا ۔

‏ وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ یَأْكُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُونَ مَعَهُ نَذِیرًا ‎﴿٧﴾‏ أَوْ یُلْقَىٰ إِلَیْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ یَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ‎﴿٨﴾‏ انظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا یَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا ‎﴿٩﴾‏ تَبَارَكَ الَّذِی إِن شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّن ذَٰلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَیَجْعَل لَّكَ قُصُورًا ‎﴿١٠﴾‏(الفرقان)
اور انہوں  نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں  میں  چلتا پھرتا ہے ، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں  نہیں  بھیجا جاتا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جاتا،یا اس کے پاس کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا، یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس میں  سے یہ کھاتا، اور ان ظالموں  نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لیے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے، خیال تو کیجئے کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں  بناتے ہیں ، پس جس سے خود ہی بہک رہے ہیں  اور کسی طرح راہ پر نہیں  آسکتے،  اللہ تعالیٰ تو ایسا بابرکت ہے کہ اگر چاہے تو آپ کو بہت سے ایسے باغات عنایت فرما دے جو ان کے کہے ہوئے باغ سے بہت ہی بہتر ہوں  جس کے نیچے نہریں  لہریں  لے رہی ہوں ، اور آپ کو بہت سے (پختہ) محل بھی دے دے ۔

مشرکین کی حماقتیں :

مشرکین بشررسول پرطعن کرتے ہوئے کہتے ہیں  یہ کیسارسول ہے جومنصب رسالت کادعویٰ کرتاہے مگرعام انسانوں  کی طرح کھاناکھاتاہے اورمعاشی ضروریات کے لئے بازاروں  میں  جوتیاں  چٹخاتاپھرتا ہے؟اگریہ رسول ہی ہوتاتوکم ازکم اس کے ساتھ کوئی فرشتہ بھیجاجاتاجواس کامعاون بنتااورتکذیب کرنے والوں  کو ڈراتادھمکاتا؟ یااگریہ بھی نہیں  تواس کے لئے کوئی خزانہ ہی اتاردیاجاتا تاکہ یہ طلب رزق سے بے نیاز ہو جاتا ، فرعون نے بھی موسیٰ  علیہ السلام کے بارے میں  یہی کہاتھا

فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ۝۵۳ [22]

ترجمہ:کیوں  نہ اس پرسونے کے کنگن اتارے گئے؟یافرشتوں  کاایک دستہ اس کی اردلی میں  نہ آیا؟۔

یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتاجس سے یہ اطمینان کی روزی حاصل کرتااوراس کی حیثیت ہم سے ممتازہو جاتی ،اور یہ ظالم اہل ایمان کامذاق اوراستہزاکرتے ہوئے کہتے ہیں  تم لوگ کسی رسول کے نہیں  بلکہ ایک ایسے شخص کے اطاعت گزارہوگئے ہوجس کی عقل وفہم سحرزدہ اورمختل ہے،جیسے فرمایا

وَیَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۝۳۶ۭ [23]

ترجمہ:اور کہتے تھے کیا ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں  کو چھوڑ دیں  ؟۔

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ۝۱۴ۘ [24]

ترجمہ:پھر بھی انہوں  نے منہ پھیرا اور کہہ دیا کہ سکھایا پڑھایا ہوا باؤلا ہے۔

الغرض پچھلی تباہ شدہ اقوام کا بھی اپنے بغض وعنادمیں  یہی وطیرہ تھاکہ رسولوں  کو ساحراورمجنون کہتے تھے۔

 كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۵۲ۚ [25]

ترجمہ:یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں  کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں  آیا جسے انہوں  نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! دیکھو تو سہی یہ کیسی مثالیں  بیان کرتے ہیں حالانکہ جن میں  کچھ بھی عقل وفہم ہے وہ انکا جھوٹا ہونااچھی طرح جانتے ہیں ،پس یہ گمراہ ہوگئے اورانہیں  راہ راست نصیب نہیں  ہوسکتی ،اللہ بڑاہی بابرکت ہے ،اگراس کی حکمت ومشیت ہو توان کی تجویزکردہ چیزوں  سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کرتم کوعطاکردینے پرقادرہے ،تمہارے رزق اورتمہاری حیثیت ممتازکرنے کے لئے دنیامیں ایک دو نہیں  بہت سے باغ عطا فرماسکتاہے، جن کے نیچے میٹھے پانی کی نہریں  بہتی ہوں  اوربڑے بڑے آراستہ محل بھی عطاکرسکتاہے،جس سے ان کی آنکھیں  چکاچوندہوجائیں مگران کے مطالبے تو محض تکذیب وبغض وعنادکے طورپرہیں  نہ کہ طلب ہدایت اورتلاش نجات کے لئے۔

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیرًا ‎﴿١١﴾‏ إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِیدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَیُّظًا وَزَفِیرًا ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِینَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ‎﴿١٣﴾‏ لَّا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِیرًا ‎﴿١٤﴾‏ قُلْ أَذَٰلِكَ خَیْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِیرًا ‎﴿١٥﴾‏ لَّهُمْ فِیهَا مَا یَشَاءُونَ خَالِدِینَ ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْئُولًا ‎﴿١٦﴾(الفرقان)
بات یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھتے ہیں ، اور قیامت کے جھٹلانے والوں  کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے،  جب وہ انھیں  دور سے دیکھے گی تو یہ غصے سے بپھرنا اور دھاڑنا سنیں  گے، اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں  مشکیں  کس کر پھینک دیئے جائیں  گے تو وہاں  اپنے لیے موت ہی موت پکاریں  گے،(ان سے کہا جائے گا) آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو، آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت جس کا وعدہ پرہیزگاروں  سے کیا گیا ہے، جو ان کا بدلہ ہے اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے،وہ جو چاہیں  گے ان کے لیے وہاں  موجود ہوگا، ہمیشہ رہنے والے، یہ تو آپ کے رب کے ذمے وعدہ ہے جو قابل طلب ہے ۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ روزآخرت کوجھٹلاچکے ہیں اس لئے عقیدہ واعمال کی جزاوسزا،جنت وجہنم کے بارے میں  وہ سرے سے کسی غوروفکراورتحقیق وجستجوکی ضرورت ہی محسوس نہیں  کرتے ،اورجوکوئی عقیدہ و اعمال کی جوابدہی کے لئے اللہ کی بارگاہ میں  کھڑے ہونے کوجھٹلائے اس کے لئے ہم نے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ تیارکررکھی ہے،وہ جب ان کافروں  کو دور سے دیکھے گی توغصے سے کھول اٹھے گی اوریہ اس کے غضب اورجوش کی آوازیں  سن لیں  گے،جیسے فرمایا

اِذَآ اُلْقُوْا فِیْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا وَّهِىَ تَفُوْرُ۝۷ۙتَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ  ۝۸ [26]

ترجمہ جب وہ اس میں  پھینکے جائیں  گے تواس کے دہاڑنے کی ہولناک آوازسنیں  گے اوروہ جوش کھا رہی ہوگی ،شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ اللَّیْثِیِّ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {سَمِعُوا لَهَا , تَغَیُّظًا وَزَفِیرًا}إِنَّ جَهَنَّمَ تَزْفَرُ زَفْرَةً لَا یَبْقَى مَلَكٌ , وَلَا نَبِیٌّ إِلَّا خَرَّ تَرْعَدُ فَرَائِصُهُ، حَتَّى إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَیَجْثُو عَلَى رُكْبَتَیْهِ فَیَقُولُ:أَیْ رَبِّ إِنِّی لَا أَسْأَلُكَ الْیَوْمَ إِلَّا نَفْسِی

عبیدبن عمیرلیثی آیت کریمہ ’’تویہ غصے سے بھپرنااوردھاڑناسنیں  گے۔‘‘کے بارے میں  فرمایاہے  دوزخ جوش غضب سے اس قدرشدت کے ساتھ چیخے چلائے گی جس سے ہرملک مقرب اورنبی مرسل چہرے کے بل گرجائے گااوراس کاجسم کانپ رہاہوگا حتی کہ ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدرپیغمبربھی گھٹنوں  کے بل ہوکرعرض کریں  گے اے اللہ!آج میں  صرف اپنے بارے میں  تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔[27]

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:من یَقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ، أَوِ ادَّعَى إِلَى غَیْرِ وَالِدَیْهِ،  أَوِ انْتَمَى إِلَى غَیْرِ مَوَالِیهِ، فَلْیَتَبَوَّأْ [مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. وَفِی رِوَایَةٍ:فَلْیَتَبَوَّأْ  بَیْنَ عَیْنَیْ جَهَنَّمَ مَقْعَدًا قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ لَهَا مِنْ عَیْنَیْنِ؟قَالَ: أَمَا سَمِعْتُمُ اللَّهَ یَقُولُ:اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص میرانام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جومیں  نے نہ کہی ہو،اورجوشخص اپنے ماں  باپ کے سوادوسروں  کواپناماں  باپ کہے،اور جو غلام اپنے آقا کے سوااورکی طرف اپنی غلامی نسب کرے،وہ جہنم کی دونوں  آنکھوں  کے درمیان اپناٹھکانہ بنالے،لوگوں  نے کہااے اللہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !کیاجہنم کی بھی آنکھیں  ہیں  ؟کیاتم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت ’’وہ جب دور سے ان کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آوازیں  سن لیں  گے۔‘‘نہیں سنی۔[28]

اور جب یہ سترہاتھ لمبی زنجیروں  میں  باندھ کراورگلے میں  طوق ڈال کر جہنم کی ایک تنگ جگہ میں  ٹھونسے جائیں  گے توشدت عذاب سے تنگ آکر موت کی آرزو کریں  گے ،اس وقت فرشتے ان سے کہیں  گے اب تمہاری قسمت میں  ہمیشہ کے لئے انواع واقسام کے عذاب ہیں ،تم کہاں  تک موت کامطالبہ کروگے ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے پوچھوکفروشرک کے بدلہ میں یہ انجام بد اچھاہے یا لازوال نعمتوں  سے بھری دائمی جنت، جس کاوعدہ اللہ نے متقین سے ان کے تقویٰ واطاعت الٰہی کی بناپر کررکھا ہے جوان کے اعمال صالحہ کی جزا اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے، جس میں  ان کے لئے من مانی نعمتیں  ،ابدی لذتیں  اوردائمی مسرتیں ہوں  گی اورجس میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے،جیسے فرمایا

 اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۝۶۲ [29]

ترجمہ:بولو ، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟۔

جس کاعطاکرنا تمہارے رب کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہےجو یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِی هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیلَ ‎﴿١٧﴾‏ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ یَنبَغِی لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِیَاءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ‎﴿١٨﴾‏ فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِیعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَن یَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیرًا ‎﴿١٩﴾‏ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَیَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِیرًا ‎﴿٢٠﴾‏(الفرقان)
اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں  اور سوائے اللہ کے جنہیں  یہ پوجتے رہےانہیں  جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں  و تم نے گمراہ کیا یا یہ خود ہی راہ سے گم ہوگئے ، وہ جواب دیں  گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں  ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا  کاوروں  کو اپنا کارساز بناتے، بات یہ ہے کہ تو نے انھیں  اور ان کے باپ دادوں  کو آسودگیاں  عطا فرمائیں  یہاں  تک کہ وہ  نصیحت بھلا بیٹھے، یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے،تو انہوں  نے تمہیں  تمہاری تمام باتوں  میں  جھٹلایا،  اب نہ تو تم عذابوں  کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی، تم میں  سے جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں  گے،  ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں  میں  بھی چلتے پھرتے تھے،  اور ہم نے تم میں  سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا کیا تم صبر کروگے ؟  تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔‘

میدان حشرمیں ایک مکالمہ :

جس دن تمہارارب میدان محشرمیں  کفارومشرکین کوبھی گھیرلائے گااوران کے معبودوں  مثلاً عزیرؑ ،عیسیٰ  علیہ السلام ،فرشتوں  ،جنات اوردیگربہت سے نیک بندوں  کوبھی بلالے گاجنہیں  آج یہ اللہ کوچھوڑکرپوج رہے ہیں  پھراللہ تعالیٰ ان سے سوال کرے گا کیا تم نے میرے ان بندوں  کواپنی عبادت کاحکم دیاتھایایہ خودہی تمہاری عبادت کرکے راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟وہ کہیں  گے کہ اے ہمارے رب !تیری ذات ہرطرح کے شرک سے پاک ومنزہ ہے،ہم نے انہیں  ایساکرنے کوکبھی کچھ نہیں  کہاتھاہم توخودتیرے سواکسی کوکارسازنہیں  سمجھتے تھے توپھرہم اپنی بابت کس طرح لوگوں  کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں  اپناولی ،کارسازاورحاجت روا سمجھو، ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ نے ان کواوران کے آباؤاجداد کوخوب سامان زندگی عطاکیاحتی کہ دنیاکے مال واسباب کی فراوانی نے انہیں  تیری یادسے غافل کردیا اورہلاکت وتباہی ان کامقدربن گئی۔فرشتے عرض کریں  گے

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۴۰قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ۝۰ۚ بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ۝۰ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ۝۴۱ [30]

ترجمہ:جس روزوہ ان سب کوجمع کرے گاپھرفرشتوں  سے پوچھے گاکیایہ لوگ تمہاری ہی بندگی کررہے تھے؟وہ کہیں  گے پاک ہے آپ کی ذات !ہماراتعلق توآپ سے ہے نہ کہ ان سے ،یہ لوگ توجنوں  یعنی شیاطین کی بندگی کررہے تھے ان میں  سے اکثرانہی کے مومن تھے ۔

اللہ تعالیٰ عیسیٰ  علیہ السلام سے سوال فرمائے گا

وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ۝۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ۝۰۝۱۱۷ [31]

ترجمہ:اللہ فرمائے گاکہ اے عیسیٰ بن مریم!کیا تونے لوگوں  سے کہا تھاکہ اللہ کے سوامجھے اورمیری ماں  کو بھی الٰہ بنالو؟تووہ جواب میں  عرض کرے گا کہ سبحان اللہ!میرایہ کام نہ تھاکہ وہ بات کہتاجس کے کہنے کامجھے حق نہ تھا ، اگرمیں  نے ایسی بات کہی ہوتی توآپ کوضرورعلم ہوتا، آپ جانتے ہیں  جوکچھ میرے دل میں  ہے اورمیں  نہیں  جانتاجوکچھ آپ کے دل میں  ہے آپ توساری پوشیدہ حقیقتوں  کے عالم ہیں ،میں  نے ان سے اس کے سواکچھ نہیں  کہا جس کاآپ نے حکم دیاتھایہ کہ اللہ کی بندگی کروجومیرارب بھی ہے اورتمہارارب بھی ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاجن کوتم اپنامعبودگمان کرتے ہو ، جن کومشکل کشااور اور حاجت رواسمجھتے ہو ،جن کے بارے میں  تمہیں  بھروسہ ہے کہ یہ اللہ کے ہاں  ہمارے سفارشی ہوں  گے ،روزمحشروہ توتمہاری آنکھوں  کے سامنے تمہاری عبادت سے منکر اور تمہارے دشمن ہوجائیں  گے، جیسے فرمایا:

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ [32]

ترجمہ: آخراس شخص سے زیادہ بہکا ہواانسان اورکون ہوگاجواللہ کوچھوڑکران کوپکارے جوقیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکاررہے ہیں اورجب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اوران کی عبادت کے منکرہوں  گے ۔

اب نہ توتم جہنم کے عذابوں  کو پھیرنے کی طاقت رکھتے ہو اور نہ کہیں  سے مددپاسکوگے ، تم میں  جوبھی حق کی تکذیب کرے گااور کفروشرک کامرتکب ہوگا ہم اسے ہم سخت عذاب کامزاچکھائیں  گے، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے بھی ہم نے نوح  علیہ السلام ،موسیٰ  علیہ السلام ،عیسیٰ  علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام اوربہت سے رسول مبعوث کیے ہیں جن سے یہ لوگ واقف ہیں  اوران کی رسالت کوتسلیم کرتے ہیں  وہ بھی توانسان ہی تھے اور غذا کے محتاج تھے اور رزق حلال کی فراہمی کے لئے بازاروں  میں  چلتے پھرتے تھے پھرآپ کے بارے میں  یہ نرالااعتراض کیوں  اٹھارہے ہیں ؟جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔۔۔۝۰۝۱۰۹ [33]

ترجمہ:اے نبی!تم سے پہلے ہم نے جوپیغمبربھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اورانہی بستیوں  کے رہنے والوں  میں  سے تھے۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۷وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ۝۸ [34]

ترجمہ:اوراے نبی!تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں  ہی کورسول بناکربھیجاتھاجن پرہم وحی کیاکرتے تھے ،تم لوگ اگرعلم نہیں  رکھتے تواہل کتاب سے پوچھ لوان رسولوں  کوہم نے کوئی ایساجسم نہیں  دیاتھاکہ وہ کھاتے نہ ہوں اورنہ وہ سداجینے والے تھے ۔

یعنی یہ بات شان نبوت کے خلاف نہیں  کہ نبی یارسول بشرہو،اس کے بشری تقاضے ہوں  اوران کوپوراکرنے کے لئے اسے عام انسانوں  کی طرح بازاروں  میں  چلت پھرت کرنی پڑے،بشریت نبوت کے منافی نہیں  بلکہ نبوت کاتقاضاہے کیونکہ زمین میں  انسان بستے ہیں  اس لیے تمام رسول بشرہی تھے ، اوراگرزمین میں  فرشتے بستے ہوتے تویقیناان کی طرف فرشتے ہی رسول بن کرمبعوث ہوتے،جیسے فرمایا:

قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝۹۵ [35]

ترجمہ:ان سے کہو اگر زمین میں  فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔

ہاں  رسالت اپنی جگہ عظیم ترین منصب ہے ،اس طرح ہم نے ان انبیاء کی اور ان کے ذریعے سے ان پرایمان لانے والوں  کی بھی آزمائش کی تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہوجائے، جن لوگوں نے آزمائش میں  صبرکادامن تھامے رکھاوہ کامیاب و کامران ٹھہرے اوردوسرے ناکام ونامرادہوئے،اب اس حقیقت کوسمجھ لینے کے بعد کیاتم صبر کرتے ہو؟جس خلوص اورراست بازی کے ساتھ تم دعوت حق کوپھیلانے کی کوشش کررہے ہو وہ اوراس کامقابلہ جن سازشوں  اورہتھکنڈوں سے کیاجارہاہے وہ بھی اس سے چھپاہوانہیں  ہے۔

وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِی أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِیرًا ‎﴿٢١﴾‏ یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِینَ وَیَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا ‎﴿٢٢﴾‏ وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا ‎﴿٢٣﴾‏ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِیلًا ‎﴿٢٤﴾(الفرقان)
اور جنہیں  ہماری ملاقات کی توقع نہیں  انہوں  نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں  نہیں  اتارے جاتے ؟ یا ہم اپنی آنکھوں  سے اپنے رب کو دیکھ لیتے، ان لوگوں  نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے، جس دن یہ فرشتوں  کو دیکھ لیں  گے اس دن ان گناہ گاروں  کو کوئی خوشی نہ ہوگی اور کہیں  گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے، اور انہوں  نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انھیں  پراگندہ ذروں  کی طرح کردیا، البتہ اس دن جنتیوں  کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی۔

تصدیق نبوت کے لئے احمقانہ شرط:

جولوگ روزمحشراور ہماری بارگاہ میں پیش ہونے کی تکذیب کرتے ہیں  وہ کہتے ہیں اگرواقعی اللہ کاارادہ یہ ہے کہ ہم تک اپناپیغام پہنچائے تو ایک نبی کوواسطہ بناکرصرف اس کے پاس فرشتہ بھیج دیناکافی نہیں  ہے ،ہرشخص کے پاس ایک فرشتہ آناچاہیے جواسے بتائے کہ تیرا رب تجھے یہ ہدایت دیتاہے ، یافرشتوں  کا ایک وفدمجمع عام میں  ہم سب کے سامنے آجائے اوراللہ کاپیغام پہنچادے ، یاپھر رب آکرہمیں  کہتاکہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  میرارسول ہے اوراس پرایمان لاناضروری ہے ، جیسےفرمایا

۔۔۔اَوْ تَاْتِیَ بِاللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙ [36]

ترجمہ:یا اللہ اور فرشتوں  کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے۔

یہ اپنے نفس میں بڑا گھمنڈ لے بیٹھے اوریہ اپنی سرکشی میں حدسے گزرگئے،ان لوگوں  نے اپنی دانست میں  خود کو بڑی چیزسمجھ لیاہے ، ابھی تویہ فرشتوں  کو دیکھنے کی آرزو کررہے ہیں  مگرسکرات موت کے وقت جب یہ فرشتوں  کو دیکھیں  گے وہ مجرموں  کے لئے کسی بشارت کادن نہ ہو گا ، جیسے فرمایا:

 وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ۝۰ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ۝۸ [37]

ترجمہ:کہتے ہیں  کہ اس نبی پرکوئی فرشتہ کیوں  نہیں  اتاراگیا ؟ اگر کہیں  ہم نے فرشتہ اتاردیاہوتاتواب تک کبھی کافیصلہ ہوچکاہوتاپھرانہیں  کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔

 لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۷مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِیْنَ۝۸  [38]

ترجمہ:اگرتوسچاہے توہمارے سامنے فرشتوں  کولے کیوں  نہیں  آتا؟ہم فرشتوں  کویوں  ہی نہیں  اتاردیاکرتے ،وہ جب اترتے ہیں  توحق کے ساتھ اترتے ہیں  اورپھر لوگوں  کومہلت نہیں  دی جاتی۔

موت کی سختیوں  پر وہ چیخ اٹھیں  گے اورفرشتے انہیں  کہیں  گے تم ان چیزوں  سے محروم ہوجن کی خوش خبری متقین کودی جاتی ہے ،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا۝۰ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْ هَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ۝۰ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۵۰ [39]

ترجمہ:کاش تم اس حالت کودیکھ سکتے جب کہ فرشتے مقتول کافروں  کی روحیں  قبض کر رہے تھے ،وہ ان کے چہروں  اور ان کے کولھوں  پرضربیں  لگاتے جاتے تھے اورکہتے جاتے تھے لواب جلنے کی سزابھگتو۔

 وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْهِمْ۝۰ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳  [40]

ترجمہ:کاش! تم ظالموں  کواس حالت میں  دیکھ سکوجب کہ وہ سکرات موت میں  ڈبکیاں  کھارہے ہوتے اورفرشتے ہاتھ بڑھابڑھا کرکہہ رہے ہوتے ہیں  کہ لاؤنکالواپنی جان ،آج تمہیں  ان باتوں  کی پاداش میں  ذلت کاعذاب دیا جائے گاجوتم اللہ پر تہمت رکھ کرناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں  سرکشی دکھاتے تھے۔

دوسراموقع وہ ہے جب قبرمیں  ان کے پاس منکرنکیرآئیں  گے اور ان سے ان کے رب، ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے دین کے بارے میں  دریافت کریں  گے اوروہ کوئی جواب نہ دے سکیں  گے جوان کوعذاب قبرسے نجات دلاسکے ،تیسراموقع وہ ہے جب قیامت کے روزفرشتے انہیں  جہنم کی طرف ہانک کرلے جائیں  گے اورپھرانہیں  دروغہ جہنم کے حوالے کردیں  گے جوان کوسزااورعذاب دینے پرمقررہوں  گے ، اور ان کے اعمال جن کے بارے میں  انہیں  امیدہے کہ وہ نیکی کے کام ہیں  اوران کے لئے انہوں  نے محنت مشقت کی ہے ، کیونکہ وہ ایمان واخلاص سے خالی اور شریعت کے مطابق بھی نہیں  ہوں  گے اس لئے ہم انہیں  غبار کی طرح اڑادیں  گےیعنی انہیں  کوئی اہمیت دیں  گے اورنہ وزن ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَا لَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا۝۰ۭ لَا یَـقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۝۲۶۴ [41]

ترجمہ: اے ایمان لانے والو!اپنے صدقات کواحسان جتاکراوردکھ دے کراس شخص کی طرح خاک میں  نہ ملا دو جو اپنامال محض لوگوں  کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اورنہ اللہ پر ایمان رکھتاہے نہ آخرت پر،اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پرجب زورکامینہ برسا توساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ، ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جونیکی کماتے ہیں  اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں  آتا اور کافروں  کوسیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں  ہے ۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ۝۰ۭ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ هُوَالضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ۝۱۸ [42]

ترجمہ:جن لوگوں  نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیاہو،وہ اپنے کیے کاکچھ بھی پھل نہ پاسکیں  گےیہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے ۔

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚبِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَـیْــــًٔـا۔۔۔۝۳۹ۙ [43]

ترجمہ:جنہوں  نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بےآب میں  سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں  پہنچا تو کچھ نہ پایا ۔

بس وہی لوگ جو جنت کے مستحق ہیں  اس دن اچھی جگہ ٹھہریں  گے اوردوپہر گزارنے کوعمدہ مقام پائیں  گے،یعنی اہل ایمان کے لئے قیامت کایہ ہولناک دن اتنامختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہوگاکہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں  گے اورجنت میں  یہ اپنے اہل خاندان اورحورعین کے ساتھ دوپہرکواستراحت فرمارہے ہوں  گے ،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، فِی قَوْلِ اللَّهِ:{أَصْحَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِیلًا}قَالَ: یَفْرُغُ اللَّهُ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ نِصْفَ النَّهَارِ فَیَقِیلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِی الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ فِی النَّارِ فَیَقُولُ اللَّهُ یَوْمَئِذٍ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِیلًا

سعیدبن جبیرآیت کریمہ’’البتہ اس دن جنتیوں  کاٹھکانابہترہوگااورخواب گاہ بھی عمدہ ہوگی۔‘‘ کے بارے میں  فرمایاہےاللہ تعالیٰ حساب سے نصف النہارکے وقت فارغ ہوجائے گااوراس وقت اہل جنت جنت میں  اوراہل دوزخ دوزخ میں  اپنے اپنے ٹھکانے پرپہنچادیے جائیں  گے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے ’’بس وہی لوگ جوجنت کے مستحق ہیں  اس دن اچھی جگہ ٹھہریں  گے اوردوپہر گزارنے کوعمدہ مقام پائیں  گے۔‘‘ [44]

قَالَ عِكْرِمَةُ: إِنِّی لَأَعْرِفُ السَّاعَةَ الَّتِی یَدْخُلُ فِیهَا أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ السَّاعَةُ الَّتِی تَكُونُ فِی الدُّنْیَا ارْتِفَاعَ الضُّحَى الْأَكْبَرِ إِذَا انْقَلَبَ النَّاسُ إِلَى أَهْلِیهِمْ لِلْقَیْلُولَةِ، فَیَنْصَرِفُ أَهْلُ النَّارِ إِلَى النَّارِ  وَأَمَّا أَهْلُ الْجَنَّةِ، فَیُنْطَلَقُ بِهِمْ إِلَى الْجَنَّةَ، فَكَانَتْ قَیْلُولُتُهُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَأُطْعِمُوا كَبِدَ حُوتٍ فَأَشْبَعَهُمْ، ذَلِكَ كُلَّهُمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِیلًا

عکرمہ کہتے ہیں  مجھے اس گھڑی کاعلم ہے جب اہل جنت جنت میں  اوراہل دوزخ دوزخ میں  داخل ہوں  گے،یہ وہ گھڑی ہوگی جس کے حساب سے دنیامیں  دوپہرکے وقت سورج خوب بلندہوجاتاہے اورلوگ قیلولہ کرنے کے لیے اپنے گھروالوں  کے پاس آجاتے ہیں ،اس وقت اہل دوزخ دوزخ میں  ہوں  گےاوراہل جنت کوجنت میں  پہنچادیاجائے گاجہاں  وہ محواستراحت ہوں  گےاورانہیں  مچھلی کے کباب کھلائے جائیں  گے جس سے سب سیرہوجائیں  گے یہی معنی ہے اس آیت کریمہ کا’’بس وہی لوگ جوجنت کے مستحق ہیں  اس دن اچھی جگہ ٹھہریں  گے اوردوپہر گزارنے کوعمدہ مقام پائیں  گے۔‘‘ [45]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قِیلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَوْمًا كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، مَا أَطْوَلَ هَذَا الْیَوْمَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، إِنَّهُ لَیُخَفَّفُ عَلَى الْمُؤْمِنِ، حَتَّى یَكُونَ أَخَفَّ عَلَیْهِ مِنْ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ یُصَلِّیهَا فِی الدُّنْیَا

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیاگیا ایک ایسے دن میں  ’’جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔‘‘یہ توبہت لمبادن ہو گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے ، قیامت کاعظیم الشان اورخوفناک دن ایک مومن کے لئے ہلکا کردیاجائے گا،حتی کہ اتنا ہلکا جتنا دنیامیں  ایک فرض نماز ادا کر لینےکاہے۔[46]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔ اٰۗللهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۵۹ۭ [47]

ترجمہ:(ان سے پوچھو)اللہ بہترہے یاوہ معبود جنہیں  یہ لوگ اس کاشریک بنارہے ہیں ؟۔

وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِیلًا ‎﴿٢٥﴾‏ الْمُلْكُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ یَوْمًا عَلَى الْكَافِرِینَ عَسِیرًا ‎﴿٢٦﴾‏ وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ یَدَیْهِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا ‎﴿٢٧﴾‏ یَا وَیْلَتَىٰ لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ‎﴿٢٨﴾‏ لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِی ۗ وَكَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ‎﴿٢٩﴾‏ وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ‎﴿٣٠﴾‏ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِینَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِیًا وَنَصِیرًا ‎﴿٣١﴾‏(الفرقان)
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں  گے،اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا، اور یہ دن کافروں  پر بڑا بھاری ہوگا ،اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں  کو چبا چبا کر کہے گا ہائے  کاش! کہ میں  نے رسول اللہ کی راہ اختیار کی ہوتی، ہائے افسوس! کاش کہ میں  نے فلاں  کو دوست نہ بنایا ہوتا،  اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی، اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے، اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا، اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن گناہ گاروں  کو بنادیا ہے اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا کافی ہے۔

فیصلوں  کادن :

روزقیامت آسمان پھٹ جائے گا،جیسے فرمایا:

اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ۝۱ۙ [48]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گا۔

اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ۝۱ۙ [49]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گا۔

وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا۝۱۹ۙ [50]

ترجمہ:اور آسمان کھول دیا جائے گا حتی کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا ۔

وَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْ۝۹ۙ [51]

ترجمہ:اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا۔

اوربادل سایہ فگن ہوجائیں  گے ،اس وقت اللہ عزوجل کاعرش آٹھ فرشتوں  نے اٹھا رکھاہوگا،اورساتوں  آسمانوں  کے فرشتوں  کے جلومیں  میدان محشرمیں  جہاں  ساری مخلوق جمع ہوگی اعمال کے حساب کتاب کے لئے جلوہ فرماہوگا ،جیسے فرمایا

وَّالْمَلَكُ عَلٰٓی اَرْجَاۗىِٕہَا۝۰ۭ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَہُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ۝۱۷ۭ [52]

ترجمہ:فرشتے اس کے اطراف و جوانب میں  ہوں  گے اور آٹھ فرشتے اس روز تیرے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں  گے ۔

فرشتے میدان محشرمیں صف درصف کھڑے ہوکراللہ کی تسبیح وتہلیل و تقدس بیان کریں  گے،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا۔۔۔۝۳۸ [53]

ترجمہ:جس روزروح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے۔

وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۝۲۲ۚ [54]

ترجمہ:اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اس حال میں  کہ فرشتے صف درصف کھڑے ہوں  گے۔

ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ  وَقُضِیَ الْاَمْرُ   ۝۲۱۰ۧ [55]

ترجمہ:کیااب وہ اس کے منتظرہیں  کہ اللہ بادلوں  کاچترلگائے فرشتوں  کے پرے ساتھ لئے خودسامنے آموجودہواورفیصلہ کرڈالاجائے ۔

قیامت کے ساتھ ہی دنیاوی بادشاہیاں  ،ریاستیں  اور اختیارات جو انسانوں  کودھوکے میں  رکھتی ہیں  ختم ہوجائیں  گی،حالانکہ کائنات کامالک حقیقی اللہ ہی ہے،چنانچہ اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَہُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ۔۔۔۝۷۳ [56]

ترجمہ: اور جس روز صور پھونکا جائیگااس روز بادشاہی اسی کی ہوگی۔

۔۔۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ۝۰ۭ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۱۶ [57]

ترجمہ: (اس روزپکار کرپوچھا جائے گا)آج بادشاہی کس کی ہے ؟(ساراعالم پکاراٹھے گا)اللہ واحد قہارکی ۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَطْوِی اللهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یَأْخُذُهُنَّ بِیَدِهِ الْیُمْنَى، ثُمَّ یَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ ثُمَّ یَطْوِی الْأَرَضِینَ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں  کواپنے داہنے ہاتھ میں  لپیٹ لے گاپھرفرمائے گامیں  بادشاہ ہوں  کہاں  ہیں  جابر؟کہاں  ہیں  غرورکرنے والے؟ پھربائیں  ہاتھ سے زمین کولپیٹ لے گا(جوداہنے کے مثل ہے اوراسی واسطے دوسری حدیث میں  ہے کہ پروردگارکے دونوں  ہاتھ داہنے ہیں )پھرفرمائے گامیں  بادشاہ ہوں  ، کہاں  ہیں  جابر؟  کہاں  ہیں تکبرکرنے والے؟۔[58]

وہ دن منکرین حق کے لئے بڑا سخت ہو گا،جیسے فرمایا:

فَذٰلِكَ یَوْمَىِٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ۝۹ۙعَلَی الْكٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ۝۱۰ [59]

ترجمہ:وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگاکافروں  کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔

وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا۝۸۶ۘ [60]

ترجمہ: اورمجرموں  کو پیاسے جانوروں  کی طرح جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں  گے۔

اوراس کے برعکس مومن کامعاملہ آسان اوراس کابوجھ بہت ہلکاہوگا،جیسے فرمایا

لَا یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ۝۰ۭ ھٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۱۰۳ [61]

ترجمہ:وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گااور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں  ہاتھ لیں  گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا۝۸۵ [62]

ترجمہ:وہ دن آنے والاہے جب متقی لوگوں  کوہم مہمانوں  کی طرح رحمان کے حضورپیش کریں  گے ۔

اس وقت ظالم انسان اپنے شرک،کفراورانبیاء ورسل کی تکذیب کی بناپر تاسف و حسرت سے اپنے ہاتھ چبائے گااورحزن وغم کااظہارکرتے ہوئے کہے گاکاش! میں  نے حق کی تکذیب کرنے والوں  کاساتھ دینے کے بجائے رسول اوراس کی تعلیمات پرایمان لاتا،ان کی اطاعت کرتااوراوران کے طریقہ کے مطابق نیک اعمال انجام دیتا ،ہائے میری بدنصیبی کاش! میں  نے فلاں  شخص کواپناجگری دوست اورمخلص ساتھی نہ بنایاہوتاجس نے مکروفریب سے گمراہی کومزین کیا جس سے متاثرہوکر میں  نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی،اکثرلوگوں  کی گمراہی کاسبب راہ راست سے بھٹکے ہوئے دوستوں  کا انتخاب اورصحبت بدکااختیارکرناہی ہےجیسے فرمایا

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶ [63]

ترجمہ:جس روزان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں  گے اس وقت وہ کہیں  گے کہ کاش! ہم نے اللہ اوررسول کی اطاعت کی ہوتی ۔

اور شیطان تو انسان کے سامنے باطل کوآراستہ کرتاہے اورحق کوبری صورت میں  پیش کرتاہے ،اس سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مثال بیان فرمائی،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَثَلُ الجَلِیسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ وَنَافِخِ الكِیرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ یُحْذِیَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِیحًا طَیِّبَةً، وَنَافِخُ الكِیرِ: إِمَّا أَنْ یُحْرِقَ ثِیَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیحًا خَبِیثَةً

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانیک مصاحب اوربدمصاحب کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے اوربھٹی دھونکنے والے کی،(جس کے پاس مشک ہے اورتم اس کی محبت میں  ہو)وہ اس میں  سے یاتمہیں  کچھ تحفہ کے طورپردے دے گایاتم اس سے خریدسکوگے، یا(کم ازکم)تم اس کی عمدہ خوشبو سے تومحفوظ ہوہی سکوگے،  اوربھٹی دھونکنے والایاتوتمہارے کپڑے(بھٹی کی آگ سے) جلادے گایاتمہیں  اس کے پاس سے ایک ناگواربدبوداردھواں  پہنچے گا۔[64]

اوررسول قرآن سے ان کی روگردانی کاشکوہ کرتے اور ان کے رویے پرتاسف کااظہارکرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں  استغاثہ دائرکرے گا کہ اے میرے رب! میری قوم کے لوگوں  نے اس قرآن عظیم کونشانہ تضحیک بنا لیا تھا ،جب قرآن پڑھاجاتاتھاتویہ اس وقت شوروغل مچاتے تھے تاکہ دعوت حق کسی کے کان تک نہ پہنچے ،جیسے فرمایا

 وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۝۲۶ [65]

ترجمہ:یہ منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کوہرگزنہ سنواورجب یہ سنایاجائے تواس میں  خلل ڈالوشایدکہ اسی طرح تم غالب آجاؤ۔

یہ لوگ اس پرکامل ایمان لائے اورنہ ہی اس کی تعلیمات پرکوئی غور و فکر اورتدبر کیااورنہ ہی اس کے امر پرعمل اورنواہی سے اجتناب کیا،اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے تواسی طرح مجرموں  کوہرنبی کادشمن بنایا ہے یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تیری قوم میں  سے جو لوگ تیرے دشمن ہیں  ، جنہوں  نے قرآن کو چھوڑدیااسی طرح گزشتہ امتوں  میں  بھی تھایعنی ہرنبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جوگنہگار تھے اورلوگوں  کوگمراہی کی دعوت دیتے تھے ،جیسے فرمایا:

 وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَـیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۝۱۱۲ [66]

ترجمہ:اورہم نے تواسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں  اور شیطان جنوں  کو ہر نبی کادشمن بنایاہے جوایک دوسرے پرخوش آئند باتیں  دھوکے اورفریب کے طورپرالقاکرتے رہے ہیں ۔

یہ کفار و مشرکین لوگوں  کواللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، لیکن تیرارب اپنی رحمت وحکمت سے جس کوہدایت دے اس کوہدایت سے کون روک سکتاہے ؟جیسے فرمایا:

مَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِیْ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِـرُوْنَ۝۱۷۸ [67]

ترجمہ:جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔

وَمَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِہٖ۔۔۔۝۹۷ [68]

ترجمہ:جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں  ڈال دے تو اس کے بعد ایسے لوگوں  کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں  پاسکتا۔

مَنْ یَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ [69]

ترجمہ:جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں  پاسکتے۔

اصل ہادی اور مددگار توتیرارب ہی ہے ۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِیلًا ‎﴿٣٢﴾‏ لَا یَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیرًا ‎﴿٣٣﴾‏ الَّذِینَ یُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ سَبِیلًا ‎﴿٣٤﴾(الفرقان)
اور کافروں  نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں  نہ اتارا گیا، اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں ، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے ، یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں  گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتادیں  گے، جو لوگ اپنے منہ کے بل جہنم کی طرف جمع کئے جائیں  گے، وہی بدتر مکان والے اور گمراہ تر راستے والے ہیں ۔

قرآن حکیم مختلف اوقات میں  کیوں  نازل ہوا:

منکرین حق کاایک دل پسند اعتراض بیان فرمایاجسے وہ بارباردہراتے تھے کہ تورات ،انجیل اورزبورکی طرح اس شخص( محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پرساراقرآن بیک وقت کیوں  نہ نازل کردیا گیا؟یعنی اللہ کاطریقہ تویہ تھاکہ جوبھی کتاب نازل فرمائی بیک وقت ہی نازل فرمادی گئی ،یہ جو تھوڑاتھوڑاکرکے ہمیں  سنایاجاتاہے وہ دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم خودہی تصنیف کررہے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایااگراللہ کی مشیت وحکمت ہوتی تو ایسابھی ممکن ہوسکتاتھا مگر ۲۳سالوں  میں  تھوڑاتھوڑاکرکے اس لئے نازل کیاگیاتاکہ وہ لفظ بلفظ حافظہ میں  محفوظ ہوسکے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:أُنْزِلَ الْقُرْآنُ جُمْلَةً إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْزِلَ بَعْدَ ذَلِكَ فِی عِشْرِینَ سَنَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےساراقرآن ایک دفعہ لیلة القدرمیں  آسمان دنیاپرنازل کردیاگیاتھاپھراس کے بعدبیس سالوں  میں  اس کانزول مکمل ہوا۔ [70]

اس کی تعلیمات اچھی طرح ذہن نشین ہوسکیں ،اس کے بتائے ہوئے طریق زندگی پردل جمتاجائے ،اورتحریک اسلامی کے دوران جبکہ حق وباطل کی مسلسل کشمکش میں  پیغمبر اور اہل ایمان کی ہمت بندھائی جاتی رہے ،جیسے فرمایا

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا۝۴ۭ [71]

ترجمہ:قرآن کوٹھہر ٹھہر کرپڑھاکرو۔

یعنی قرآن مجیدکواس طرح ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے کہ حروف نہ کٹنے پائیں ،ہرہرحرف الگ الگ اورواضح پڑھاجائے ، ایک مقام پر اس کی حکمت وعلت یوں  بیان فرمائی

 وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا۝۱۰۶ [72]

ترجمہ: اوراس قرآن کو ہم نے تھوڑاتھوڑاکرکے نازل کیاہے تاکہ تم ٹھہرٹھہر کر اسے لوگوں  کوسناؤاوراسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتاراہے۔

اور اسی غرض کے لئے ہم نے اس کوایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے اور اس میں  یہ مصلحت بھی ہے کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات یا عجیب سوال لے کر آئے اس کاٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں  دے دیااوربہترین طریقے سے بات کھول دی اس طرح انہیں  لوگوں  کو گمراہ کرنے کاموقع نہیں  ملا، روز قیامت تکذیب حق کرنے اوراللہ کی حکمت پر اعتراضات کرنے والے یہ لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۝۰ۭ مَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا۝۹۷ [73]

ترجمہ:ان لوگوں  کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں  گے، اندھے، گونگے اور بہرےان کا ٹھکانا جہنم ہےجب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں  گے۔

ان کا عقیدہ بہت ہی برا اوران کاعمل حددرجہ غلط ہے،

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ كَیْفَ یُحْشَرُ الْكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟قَالَ: أَلَیْسَ الَّذِی أَمْشَاهُ عَلَى الرِّجْلَیْنِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلَى أَنْ یُمْشِیَهُ عَلَى وَجْهِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !کافرکوقیامت کے دن اس کے چہرہ کے بل کس طرح چلایاجائے گا؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایااللہ جس نے اسے اس دنیامیں دو پاؤں  پر چلایاہے اس پرقادرہے کہ قیامت کے دن اس کواس کے چہرہ کے بل چلادے۔[74]

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِیرًا ‎﴿٣٥﴾‏ فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِیرًا ‎﴿٣٦﴾‏ وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آیَةً ۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِینَ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿٣٧﴾‏ وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَٰلِكَ كَثِیرًا ‎﴿٣٨﴾‏ وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ ۖ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیرًا ‎﴿٣٩﴾‏ وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِی أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ یَكُونُوا یَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا یَرْجُونَ نُشُورًا ‎﴿٤٠﴾‏(الفرقان)
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے ہمراہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنادیا، اور کہہ دیا کہ تم دونوں  ان لوگوں  کی طرف جاؤ جو ہماری آیتوں  کو جھٹلا رہے ہیں ،پھر ہم نے انھیں  بالکل ہی پامال کردیا،اور قوم نوح نے بھی جب  رسولوں  کو جھوٹا کہا تو ہم نے انھیں  غرق کردیا اور لوگوں  کے لیے انھیں  نشان عبرت بنادیا، اور ہم نے ظالموں  کے لیے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے، اور عادیوں  اور ثمودیوں  اور کنوئیں  والوں  کو اور ان کے درمیان کی بہت سی امتوں  کو   (ہلاک کردیا) ، اور ہم نے ان کے سامنے مثالیں  بیان کیں ، پھر ہر ایک کو بالکل ہی تباہ و برباد کردیا،یہ لوگ اس بستی کے پاس سے بھی آتے جاتے ہیں  جن پر بری طرح بارش برسائی گئی، کیا یہ پھر بھی اسے دیکھتے نہیں  ؟  حقیقت یہ ہے کہ انھیں  مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں  ۔

انبیاء کوجھٹلانے کاخمیازہ:

منصب رسالت پرفائزہونے کے وقت ہم نے موسیٰ علیہ السلام کوہدایات عطافرمائیں  اوراس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون علیہ السلام کومددگارکے طورپرلگایااوران دونوں  سے کہاکہ فرعون اورقوم فرعون کودعوت اسلام پیش کریں  ،اس نے اپنی سرکشی اورغروروتکبرمیں  یعقوب علیہ السلام  اوریوسف  علیہ السلام کے ذریعے پہنچی ہوئی ہماری آیات کوجھٹلادیاہے ، جب ہرطرح کی دلیل اوربراہین کے باوجودوہ دعوت اسلام پرایمان نہ لائے تو آخرکار ان ظالم لوگوں  کوہم نے سمندرمیں  غرق کر دیا،جیسے فرمایا

وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ۝۶۵ۚثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ۝۶۶ۭ [75]

ترجمہ:موسی علیہ السلام  اور ان سب لوگوں  کو جو اس کے ساتھ تھےہم نے بچا لیااور دوسروں  کو غرق کر دیا۔

یہی حال قوم نوح  علیہ السلام کاہوا انہوں  نے بشر رسول کی تکذیب کی ،ہماری آیات کامذاق اڑایا اورطاغوت کی پرستش میں  لگے رہے،آخرکارایک لمبی مہلت کے بعدہم نے انہیں پانی میں غرق کرکے دنیابھر کے لوگوں  کے لئے ایک نشان عبرت بنادیا ،جیسے فرمایا

فَاَنْجَیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۱۱۹ۚثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَ۝۱۲۰ۭ [76]

ترجمہ:آخرکار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں  کو ایک بھری ہوئی کشتی میں  بچا لیااور اس کے بعد باقی لوگوں  کو غرق کر دیا۔

سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ۝۷۹اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۸۰اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ۝۸۱ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ۝۸۲ [77]

ترجمہ:سلام ہے نوح علیہ السلام  پر تمام دنیا والوں  میں ،ہم نیکی کرنے والوں  کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں ،درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں  میں  سے تھاپھر دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کر دیا ۔

اور ان ظالموں  کے لئے ہم نے آخرت کا دردناک عذاب تیارکررکھاہے،اسی طرح قوم عاد،قوم ثمود،اصحاب الرس اوربیچ کی صدیوں  کی بہت سی قومیں  طاغوت کی بندگی ، دعوت حق قبول نہ کرنے اوراللہ کی آیات کامذاق اڑانے کے جرم میں  تباہ کیے گئے،ان میں  سے ہرقوم کودعوت اسلام پیش کی گئی ، گزشتہ تباہ شدہ قوموں  کی مثالیں  دے دے کر سمجھایا گیا مگروہ باطل معبودوں  پرتکیہ کرتے ہوئے حق کا مذاق ہی اڑاتے رہے ،آخرکاراتمام حجت کے بعدہرقوم کوہم نے نشان عبرت بنا دیا ، جیسے فرمایا

وَكَمْ اَہْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ۔۔۔۝۱۷ [78]

ترجمہ:دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں  ہیں  جو نوح علیہ السلام  کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں  ۔

اورشام وفلسطین کے راستے پر قوم لوط کی بستیاں  سدوم اورعمورہ وغیرہ پرتودن رات ان کاگزر ہو تارہتاہےجوخلاف فطرت فعل انجام دیتے تھے ،جیسے فرمایا

اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۝۸۱ [79]

ترجمہ:تم عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْـہَلُوْنَ۝۵۵ [80]

ترجمہ:کیا تمہارا یہی چلن ہے کہ عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو۔

جب انہوں  نےکسی طرح حق و سچ کوقبول نہ کیااوراپنی روش کونہ بدلاتوان پرپکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کی بدترین بارش برسائی گئی تھی،جیسے فرمایا

وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا۝۰ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۝۱۷۳ [81]

ترجمہ:اور ان پر برسائی ایک برسات ، بڑی ہی بری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں  پر نازل ہوئی۔

وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا۝۰ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۝۵۸ۧ [82]

ترجمہ:اور برسائی ان لوگوں  پر ایک برسات ، بہت ہی بری برسات تھی وہ ان لوگوں  کے حق میں  جو متنبہ کیے جا چکے تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاکے منکرہیں ، اس لئے ان تباہ شدہ بستیوں  اوران کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت حاصل نہیں  کرتے اورآیات الٰہی اوراللہ کے رسول کی تکذیب سے بازنہیں  آتے ۔

وَإِذَا رَأَوْكَ إِن یَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا ‎﴿٤١﴾‏ إِن كَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْهَا ۚ وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا ‎﴿٤٢﴾‏ أَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَیْهِ وَكِیلًا ‎﴿٤٣﴾‏ أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُونَ أَوْ یَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِیلًا ‎﴿٤٤﴾(الفرقان)
اور تمہیں  جب کبھی دیکھتے ہیں  تو تم سے مسخر پن کرنے لگتے ہیں  کہ کیا یہی وہ شخص ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ،  (وہ تو کہئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں  نے تو ہمیں  ہمارے معبودوں  سے بہکا دینے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی تھی،  اور یہ جب عذابوں  کو دیکھیں  گے تو انھیں  صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا ؟ کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں  ؟ کیا آپ اسی خیال میں  ہیں  کہ ان میں  سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ، وہ تو نرے چوپایوں  جیسے ہیں  بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔

یہ مکذبین جب تمہیں  دیکھتے ہیں  توتمہارامذاق بنالیتے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ یَّـتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُـزُوًا۝۰ۭ اَھٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ    ۝۳۶ [83]

ترجمہ:یہ منکرین حق جب تمہیں  دیکھتے ہیں  توتمہارامذاق بنالیتے ہیں  کہتے ہیں  کیایہ ہے وہ شخص جوتمہارے خداؤں  کاذکرکیاکرتاہے۔

یعنی ہمارے معبودوں  کی شان میں  گستاخی کرتے ہوئے کہتاہے کہ وہ تمہاری حالت زارکو دیکھ نہیں  سکتے ،چاہے قیامت تک پکارتے رہوتمہاری پکارکوسن نہیں  سکتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ [84]

ترجمہ:آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بےخبر ہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں ۔

تمہیں کچھ ہدایت دینے کے لئے بول نہیں  سکتے اور انہیں کسی قسم کی قدرت واختیار حاصل نہیں  ہے ،اورطنزواستہزا اورحقارت آمیزلہجے میں  کہتے ہیں کیایہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟یعنی یہ تو اس منصب کے لائق ہی نہیں  ہے،جیسے ان لوگوں  کاخیال تھا

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَـتَیْنِ عَظِیْمٍ۝۳۱ [85]

ترجمہ:کہتے ہیں  یہ قرآن دونوں  شہروں (مکہ اورطائف) کے بڑے آدمیوں  میں  سے کسی پرکیوں  نہ نازل کیاگیا۔

اگرہم اپنے آباؤ اجداد کی تقلید میں  اپنے معبودوں  کی پرستش پرجم نہ گئے ہوتے تو اس نے ہمیں  گمراہ کرنے میں  کوئی کسرنہیں  چھوڑی تھی ،جیسے فرمایا:

وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِـهَتِكُمْ۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ یُّرَادُ۝۶ۖۚ [86]

ترجمہ:اورسرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلواورڈٹے رہواپنے معبودوں  کی عبادت پر۔

اچھاوہ وقت دورنہیں  ہے جب انہیں  کفروشرک کے سبب عذاب جہنم سے دوچار ہونا پڑے گاتو انہیں  خودہی معلوم ہوجائے گاکہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت واطاعت کرنے والے حق پرتھے یادردرپراپنی پیشانیاں  ٹیکانے والے کون گمراہی میں  دورنکل گیاتھا ، کیونکہ اللہ کے احکام اوراس کی ہدایت کوچھوڑکرکسی دوسرے کے احکام اوررہنمائی کااتباع دراصل اس کوخدائی میں  اللہ کاشریک ٹھہراناہے،خواہ آدمی اس دوسرے کوزبان سے اللہ کاشریک قراردیتاہویانہ قراردیتاہو،بلکہ اگرآدمی دوسری ہستیوں  پرلعنت بھیجتے ہوئے بھی امرالٰہی کے مقابلے میں  ان کے اوامرکااتباع کررہاہوتب بھی وہ شرک کا مجرم ہے،اس لئے اللہ تعالیٰ نے گمراہی کاسب سے بڑاسبب بیان فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم نے کبھی اس شخص کے حال پرغورکیاہے جس نے اپنی خواہش نفس کواپناالٰہ بنالیاہو؟جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ۔۔۔۝۲۳ [87]

ترجمہ:پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ۔

۔۔۔وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَیْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۔۔۔۝۵۰ۧ [88]

ترجمہ:اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ ۔

ان کانفس اورشیطان جس چیزکومزین کرکے انہیں  دکھاتاہے اسے اچھاسمجھنے لگتے ہیں ،جیسے فرمایا

اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَـنًا۔۔۔۝۸ [89]

ترجمہ:(بھلا کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہو؟۔

کیاتم ایسے نفس کے بندے اور خواہشات کے غلام کوجوایک شتربے مہارکی طرح ہے راہ راست پرلانے کاذمہ لے سکتے ہو؟

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمْ:مَا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ مِنْ إِلَهٍ یُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ أَعْظَمُ مِنْ عِنْدِ اللهِ مِنْ هَوًى مُتَّبَعٍ

ابوامامہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سواجتنے معبودبھی پوجے جارہے ہیں ان میں  اللہ کے نزدیک بدترین معبودوہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو۔ [90]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَالدِّرْهَمِ، وَالقَطِیفَةِ، وَالخَمِیصَةِ، إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ لَمْ یَرْضَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااشرفی کابندہ ، دینار کا بندہ ، چادرکابندہ ،کمبل کابندہ ہلاک ہوا، اگراسے کچھ دے دیاجائے تب توخوش ہوجاتاہے اور اگر نہیں  دیاجائے توناراض ہو جاتا ہے۔[91]

یعنی جس چیزکوہم اتنی اہمیت دے دیں  کہ وہ ہم سے دین ومذہب ہی چھڑادے ،وہی ہمارا معبود باطل ہے ،یہ لوگ اپنے شیطان نفس اوراپنے گمراہ کن لیڈروں  کے اشاروں  پرآنکھیں  بندکرکے چلے جارہے ہیں ،یہ توچوپاؤں  جیسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل وشعورسے نہیں  نوازاہے مگرمویشیوں  کوجب ان کاچرواہاراہ دکھاتاہے تووہ اس راہ پرچل پڑتے ہیں ،مگرحیف ہے انسانوں  پرجب انہیں  صراط مستقیم کی طرف بلایاجاتاہے توکفرکرتے ہیں  توپھر ان سے زیادہ بدتراورگمراہ کون ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ [92]

ترجمہ: ان کے پاس دل ہیں  مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں  ہیں  مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان تو ہیں  مگر وہ ان سے سنتے نہیں  ، وہ جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں  جو غفلت میں  کھوئے گئے ہیں  ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیلًا ‎﴿٤٥﴾‏ ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَیْنَا قَبْضًا یَسِیرًا ‎﴿٤٦﴾‏ وَهُوَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ اللَّیْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ‎﴿٤٧﴾‏ وَهُوَ الَّذِی أَرْسَلَ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا ‎﴿٤٨﴾‏ لِّنُحْیِیَ بِهِ بَلْدَةً مَّیْتًا وَنُسْقِیَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِیَّ كَثِیرًا ‎﴿٤٩﴾‏ وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ‎﴿٥٠﴾‏(الفرقان)
کیا آپ نے نہیں  دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے ؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کردیتا، پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا ، پھر ہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا، اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ بنایا، اور نیند کو راحت بنائی، اور دن کو کھڑے ہونے کا وقت، اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں  کو بھیجتا ہے، اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں  تاکہ اس کے ذریعے سے مردہ شہر کو زندہ کردیں ، اور اسے ہم اپنی مخلوقات میں  سے بہت سے چوپایوں  اور انسانوں  کو پلاتے ہیں ،اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ، مگر پھر بھی اکثر لوگوں  نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے وجوداور قدرت پر دلائل بیان فرمائے کہ مختلف اورمتضادچیزوں  کووہی پیداکررہاہے، تم روزانہ دیکھتے ہوکہ اللہ رب العالمین صبح صادق کے بعدسورج کے طلوع ہونے تک کس طرح سایہ پھیلادیتا ہے؟اور پھردھوپ کے ساتھ سمٹنااورسکڑناشروع ہوجاتاہے ،اگراللہ چاہتاتواسے دائمی سایہ بنادیتااورسورج کی دھوپ سائے کوختم ہی نہ کرتی،جیسے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَاۗءٍ۔۔۔۝۷۱ [93]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہو کبھی تم لوگوں  نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں  روشنی لادے؟ ۔

ہم نے سورج کواس پردلیل بنایا،یعنی اگرسورج نہ ہوتاتوسایہ نہ پہچاناجاتاکیوں  کہ تمام اشیاء اپنی ضدسے پہچانی جاتی ہیں ،پھر جیسے جیسے سورج بلندہوتاہے ہم اس سائے کورفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں یہاں  تک کہ ختم ہوجاتاہے اوراس کی جگہ رات کاگمبھیراندھیرا چھا جاتا ہے ،

عَنِ السُّدِّیِّ: قَوْلُهُ:ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَیْنَا قَبْضًا یَسِیرًا،  یَقُولُ: قَبْضًا خَفِیًّا حَتَّى لَا یَبْقَى فِی الْأَرْضِ ظِلٌّ إِلَّا تَحْتَ سَقْفٍ أَوْ تَحْتَ شَجَرَةٍ، وَقَدْ أَظَلَّتْ مَا فَوْقَهُ

سدی آیت ’’پھرہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا۔‘‘کے بارے میں  کہتے ہیں  آہستہ آہستہ اس کاسمیٹ لیتے ہیں  حتی کہ زمین میں  سایہ باقی نہیں  رہتااوروہ صرف چھت یادرخت کے نیچے ہوتاہے حالانکہ اوپر سورج موجودہوتاہے۔[94]

اوریہ اللہ تعالیٰ کی تم پربے پایاں  رحمت اوراس کالطف وکرم ہے کہ اس نے رات کوتمہارے لئے بمنزلہ لباس بنایا جو تمہارے وجودکوڈھانپ لیتی ہے،جیسے فرمایا

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى۝۱ۙ [95]

ترجمہ:قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے۔

اوراسی نے نیندکوراحت وسکون کاسبب بنایا اور دن کو جی اٹھنے اور کاروباروتجارت کا وقت بنایا،جیسے فرمایا

وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ۔۔۔۝۷۳ [96]

ترجمہ:یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم (رات میں ) سکون حاصل کرو اور(دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔

وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا۝۱۰ۙوَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا۝۱۱۠ [97]

ترجمہ:اور رات کو پردہ پوش اور دن کو معاش کا وقت بنایا ۔

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ الیَمَانِ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، قَالَ:بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْیَا وَإِذَا قَامَ قَالَ:الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْهِ النُّشُورُ

حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بستر پر جاتے، تو فرماتے تیرے ہی نام پر سوتا اور جاگتا ہوں ،اور جب صبح بیدار ہوتے تویہ دعاپڑھتے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں  مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف دوبارہ جانا ہے۔[98]

اوریہ بھی اللہ کی قدرت اوراس کالطف وکرم ہے کہ بارش سے پہلے خنک اوربھیگی ہواؤں  کوبشارت بناکربھیجتاہے،جیسے فرمایا:

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۔۔۔۝۵۷ [99]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے۔

اَمَّنْ یَّہْدِیْكُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۔۔۔۝۶۳ۭ [100]

ترجمہ:اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں  میں  تم کو راستہ دکھاتا ہےاور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں  کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ ۔

پھرآسمان سے ہرطرح کے زہریلے جراثیم سے پاک پانی نازل کرتاہے تاکہ ایک مردہ زمین کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں  سے بہت سے جانوروں  اور انسانوں  کوسیراب اوررزق مہیاکرے،جیسے فرمایا

وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِیجٍ ۝۵ [101]

ترجمہ: اورتم دیکھتے ہوکہ زمین سوکھی پڑی ہے ،پھرجہاں  ہم نے اس پرمینہ برسایاتو یکایک وہ پھبک اٹھی اورپھول گئی اوراس نے ہرقسم کی خوش منظرنباتات اگلنی شروع کردی ۔

کیاایسی بابرکت ذات جس نے تمہارے آرام وسکون کے لئے رات،معاشی ضروریات کے لئے دن اورتمہارے رزق کے لئے بارش کا انتظام فرمایا اس بات کی مستحق نہیں  کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اوراس کی ذات وصفات اورافعال میں  کسی کواس کاشریک نہ ٹھہرایاجائے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لَا یُنَجِّسُهُ شَیْءٌ

ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ  سے بھی مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانی پاک ہے اسے کوئی چیزناپاک نہیں  کرتی۔[102]

ہاں  اگراس کارنگ یابویاذائقہ بدل جائے توایساپانی ناپاک ہے، اللہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت بارش کے ساتھ مردہ زمین کوزندہ کردینے کے کرشمے کو نت نئے اندازسے پے درپے ان کی نگاہوں  کے سامنے لاتے ہیں  تاکہ یہ ظالم کچھ نصیحت حاصل کریں  کہ جس طرح اللہ تعالیٰ بارش سے مردہ زمین کوزندہ کردیتاہے اوراس میں  سے طرح طرح کی نباتات وحشرات پیداہونے لگتے ہیں  اسی طرح وہ مردہ انسانوں  کوبھی زندہ کردینے کی قدرت رکھتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى ۔۔۔۝۵۷ [103]

ترجمہ:پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  تو انہیں  کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں  مینہ برسا کر( اسی مری ہوئی زمین سے )طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے، دیکھو اس طرح ہم مردوں  کو حالت موت سے نکالتے ہیں  ۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۔۔۔۝۳۹ [104]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہےیقینا ًجو اللہ اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں  کو بھی زندگی بخشنے والا ہے ۔

وَاللہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُـثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ۝۹ [105]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں  کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں  پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں  اور ایسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں  جو مری پڑی تھی، مرے ہوئے انسانوں  کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔

وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ۝۰ۚ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَةً مَّیْتًا۝۰ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ۝۱۱ [106]

ترجمہ:جس نے ایک خاص مقدار میں  آسمان سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھایا اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کیے جاؤ گے۔

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ۝۹ۙوَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ۝۱۰ۙرِّزْقًا لِّلْعِبَادِ۝۰ۙ وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَةً مَّیْتًا۝۰ۭ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ۝۱۱ [107]

ترجمہ:اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں  سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں  ،یہ انتظام ہے بندوں  کو رزق دینے کا، اس پانی سے ہم ایک مردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں (مرے ہوئے انسانوں  کا زمین سے ) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا۔

مشرکین مکہ کایہ عقیدہ تھاکہ بارش فلاں  ستارے کی وجہ سے برستی ہے فرمایاکہ اکثر لوگ بارش کواللہ کی رحمت اوراس کافضل وکرم سمجھ کرشکرگزارہونے کے بجائے کفر اور ناشکری کرتے ہیں  ،

عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِیِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَیْبِیَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّیْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِی مُؤْمِنٌ بِی وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِی وَكَافِرٌ بِالكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِی وَمُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ

زیدبن خالدجہنی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقام حدیبیہ میں  ہمیں  فجرکی نمازپڑھائی جب کہ رات کو بارش ہوچکی تھی،نمازسے فارغ ہونے کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں  کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیاتمہیں  معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟انہوں  نے عرض کیااللہ اوراس کارسول خوب جاننے والاہے،آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے فرمایامیرے بندوں  میں  سے بہت سے میرے ساتھ مومن ہوگئے اوربہت سے کافرہوگئے،جنہوں  نے کہاکہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ بارش ہم پر برس رہی ہے وہ تومیرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں  سے کفرکرنے والے ہوئے، اورجنہوں  نے کہاکہ ہم پرفلاں  فلاں  ستارے کے اثر سے پانی برسایاگیا انہوں  نے میرے ساتھ کفرکیااورستاروں  پر ایمان لائے۔

وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِی كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیرًا ‎﴿٥١﴾‏ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِینَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِیرًا ‎﴿٥٢﴾‏ ۞ وَهُوَ الَّذِی مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا ‎﴿٥٣﴾‏ وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِیرًا ‎﴿٥٤﴾‏ وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَنفَعُهُمْ وَلَا یَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِیرًا ‎﴿٥٥﴾‏ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا ‎﴿٥٦﴾‏ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاءَ أَن یَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِیلًا ‎﴿٥٧﴾(الفرقان)
’’اگر ہم چاہتے تو ہر ہر بستی میں  ایک ڈرانے والا بھیج دیتے، پس آپ کافروں  کا کہنا نہ مانیں  اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں  ، اور وہی ہے جس نے سمندر آپس میں  ملا رکھے ہیں ، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا،  ان دونوں  کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی، وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں  والا کردیا، بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے، یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں  جو نہ تو انھیں  کوئی نفع دے سکیں  نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں ، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے والا،  ہم نے تو آپ کو خوشخبری اور ڈر سنانے والا (نبی) بنا کر بھیجا ہے، کہہ دیجئے کہ میں  قرآن کے پہنچانے پر تم سے کوئی بدلہ نہیں  چاہتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راہ پکڑنا چاہے۔

ہماری مشیت اس سے قاصرنہ تھی ہم ہر بستی میں  ایک متنبہ کرنے والامبعوث فرمادیتے مگرہم نے اپنی مشیت وحکمت سے ایسانہیں  کیابلکہ آپ کوہی تمام انسانوں  کے لئے نذیر وبشیر بنا کربھیجاہے ،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۔۔۔۝۱۵۸ [108]

ترجمہ:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! کہو کہ اے انسانو! میں  تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں  جو زمین اور آسمانوں  کی بادشاہی کا مالک ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِی، وَلا أَقُولُهُنَّ فَخْرًا: بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَأُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَجُعِلَتْ لِی الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، فَأَخَّرْتُهَا لِأُمَّتِی، فَهِیَ لِمَنْ لَا یُشْرِكُ بِاللَّهِ شَیْئًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے پانچ ایسی خصوصیات عطاء فرمائی گئی ہیں  جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں  دی گئیں   اور میں  یہ بات فخر کے طور پر بیان نہیں  کر رہا،مجھے ہر سرخ اور سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اورایک ماہ کی مسافت پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اورمیرے لئے مال غنیمت کو حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں  کیا گیااورمیرے لئے روئے زمین کو سجدہ گاہ اور باعث طہارت بنا دیا گیا ہےاور مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہےجسے میں  نے اپنی امت کے لئے قیامت کے دن تک مؤخر کر دیا ہے اور یہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔

أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ  سے روایت میں  ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرنبی کوبطورخاص انہی کی قوم کی طرف بھیجاجاتاتھاجبکہ مجھے تمام لوگوں  کی طرف بھیجاگیاہے۔[109]

پس اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! کفارکی ہدایت سے مایوس ہوکراوران کی خواہشات کی خاطروعظ ونصیحت کوترک نہ کروبلکہ اس قرآن کے ساتھ اوامرونواہی کھول کھول کر بیان کرواوراہل کفرکے لئے جو زجروتوبیخ اوروعیدیں  ہیں  واضح کرو ، جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ۔۔۔۝۰۝۷۳ [110]

ترجمہ:اے نبی !کفار اورمنافقین دونوں  کاپوری قوت سے مقابلہ کرواوران کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ    ۔۔۔ ۝۶۷ [111]

ترجمہ:اے پیغمبر!جوکچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پرنازل کیاگیاہے وہ لوگوں  تک پہنچادواگرتم نے ایسانہ کیاتواس کی پیغمبری کاحق ادانہ کیا۔

اوریہ بھی اللہ ہی کی قدرت ہے جس نے دو سمندروں  کوبرابربرابرجاری کررکھاہے ،جن میں  ایک کاپانی تمہارے پینے، گھریلو ضروریات اورآب پاشی کے لئے لذیذوشیریں  ہےجبکہ دوسراپانی جومحفوظ ذخیرہ ہے سخت کھاری اورکڑواہے اوردونوں  کے درمیان ایک حجاب حائل ہے جوانہیں  کڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے،جیسے فرمایا:

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۝۱۹ۙبَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۝۲۰ۚ [112]

ترجمہ:دوسمندروں  کواس نے چھوڑدیاکہ باہم مل جائیں پھربھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوزنہیں  کرتے۔

۔۔۔وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا۔۔۔۝۶۱ۭ [113]

ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں  کے درمیان پردے حائل کر دیے۔

اوریہ بھی اللہ وحدہ لاشریک کی قدرت کاادنیٰ ساکرشمہ ہے جس نے پانی کے ایک حقیر بدبو دار قطرے سے متناسب جسم وجاں  ،خوبصورت شکل وصورت اوربہترین صلاحیتوں  والا ایک جیتاجاگتا انسان پیدا کردیا ، جن میں  مرد اور عورتیں  ہوتی ہیں  ،جو انسانیت میں  یکساں  مگرجسمانی ونفسانی خصوصیات میں  نہایت مختلف ہیں ، پھر ان سے بے شماراولادپھیلائی اورنسب اور سسرال کے دوالگ سلسلے چلائے ، بیشک اللہ رب العالمین بڑا ہی قدرتوں  والاہے اورہرطرح کے شریک سے بالاوبرترہے جویہ مشرکین کرتے ہیں ،ایسی قدرتوں  والے الٰہ کوچھوڑکرلوگ آباواجدادکی تقلیداورنفسانی خواہشات کی وجہ سے ان معبودوں  کی پرستش کر رہے ہیں  جو ان کونفع پہنچاسکتے ہیں  نہ کسی قسم کا نقصان،جیسے فرمایا

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۔۔۔۝۷۶ [114]

ترجمہ:اِن سے کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا ؟ ۔

اوراس پر مزیدیہ کہ اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول اوراس کی نازل کردہ کتاب سے کفرکرنے والا ہرسرکش وباغی کامددگار بناہوا ہے،مگرانجام کارحزب شیطان کوعبر ت ناک شکست اور حزب اللہ کوغلبہ اورشوکت نصیب ہوگا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَكَلِمَةُ اللہِ ہِىَ الْعُلْیَا۔۔۔۝۴۰ [115]

ترجمہ: اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جوراہ راست اختیارکرے ان کے لئے اللہ کی رحمت ،رضاوخوشنودی اورلازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  کی بشارت دینے والا اور جو روگردانی کرے انہیں عذاب جہنم سے ڈرانے والابناکربھیجاہے، اوراپنی بے غرضی کے لئے ببانگ دھل اعلان کر دوکہ میں  تم سے اس وعظ ونصیحت اور خیر خواہی کی کوئی اجرت نہیں  مانگتا میری اجرت بس اتنی ہے کہ تم میں  سے جوراہ راست اختیارکرنا چاہے وہ طاغوت کی بندگی واطاعت سے تائب ہوکراپناچہرہ اللہ رب العالمین کی طرف پھرلے ۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِی لَا یَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِیرًا ‎﴿٥٨﴾‏ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِیرًا ‎﴿٥٩﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ۩ ‎﴿٦٠﴾(الفرقان)
اس ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں  جسے کبھی موت نہیں ، اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں ،  وہ اپنے بندوں  کے گناہوں  سے کافی خبردار ہے،وہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں  کو چھ دن میں  پیدا کردیا ہے، پھر عرش پر مستوی ہوا ،وہ رحمان ہے، آپ اس کے بارے میں  کسی خبردار سے پوچھ لیں ، ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو، تو جواب دیتے ہیں  رحمان ہے کیا ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں  جس کا تو ہمیں  حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں  مزید اضافہ کردیا۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس اللہ وحدہ لاشریک پربھروسہ رکھوجوزندہ ہے اورکبھی مرنے والانہیں ،جیسے فرمایا

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۣ كُلُّ شَیْءٍ ہَالِكٌ اِلَّا وَجْہَہٗ۔۔۔۝۸۸ۧ [116]

ترجمہ:اور اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی معبود نہیں  ہے، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔

اس کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح وتہلیل بیان کرو،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ،سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی،یَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع اورسجودمیں  یوں  تسبیح کیاکرتے تھے  اے اللہ!ہمارے پروردگار!ہم تیری تسبیح تیری حمدکے ساتھ بیان کرتے ہیں  اے اللہ مجھے بخش دے،قرآن پرعمل کرتے ہوئے۔[117]

اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کے گناہوں  سے خبررکھنے کو کافی ہے،اس کی قدرت کمال تویہ ہے کہ اس نے چھ دنوں  میں  وسیع وعریض سات زمینوں  اوربغیرستونوں  کے تہ بہ تہہ بلندوبالاسات آسمانوں  کواوران کے درمیان چاند، سورج،ستارے ،سیارے،پانی کے ذخیرے سمندراوربحروبرکی انگنت مخلوقات کوتخلیق کر دیا،پھرآپ ہی اپنی شان کے لائق عرش عظیم پرجلوہ فرماہو،اَلرَّحْمٰنُ  کی شان کیاہے اس کی معرفت تواس سے پوچھوجوذات الٰہ کاعالم اورصفات الٰہ کوجانتاہو ،پس اس کی اتباع اوراقتداکرو، مشرکین اللہ کے سواغیراللہ کوسجدہ کرتے تھے اس لئے ان لوگوں  سے جب کہا جاتا کہ معبودان باطلہ کے بجائے اپنے رب رحمان کوسجدہ کروجس نے تمہیں  بھوک میں  کھانااورہرطرح کے خوف سے امن دیاہے،جیسے فرمایا:

فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ۝۳ۙالَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۝۰ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ۝۴ۧ [118]

ترجمہ:لہذا ان کو چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں  ،جس نے انہیں  بھوک سے بچا کر کھانے کو دیااور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔

اور انواع واقسام کی نعمتوں  سے نوازرکھاہے توناواقفیت کی بناپرنہیں  کیونکہ رحمان  کا لفظ قدیم زمانے سے معروف ومستعمل تھا بلکہ طغیان جاہلیت کی بناپرکہتے رحمان کیا ہوتا ہے ، جیسے فرعون نے موسیٰ کوکہاتھا:

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى۝۴۹ [119]

ترجمہ:فرعون نے کہا اچھا تو پھر تم دونوں  کا رب کون ہے اے موسیٰ ؟۔

اورجیسے صلح حدیبیہ میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کاتب کو معاہدے کے اوپر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  لکھنے کوکہا تو مشرکین مکہ نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم الرحمٰن الرحیم کونہیں  جانتے ،اس لئے صرف باسمک اللھم لکھو۔[120]

ایک مقام پر فرمایا

وَهُمْ یَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ [121]

ترجمہ:اس حال میں  کہ یہ  اپنے نہایت مہربان اللہ کے کافر بنے ہوئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں  فرمایا:

قُلِ ادْعُوااللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ  ۭ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۱۱۰ [122]

ترجمہ: اے نبی !ان سے کہو اللہ کوپکارویارحمان کہہ کر جس نام سے بھی پکارواس کے لئے سب اچھے ہی نام ہیں ۔

اورکافرانہ شوخی سے کہتے کیا بس جسے توکہہ دے اسی کوہم سجدہ کرتے پھریں ؟یہ دعوت ان کی نفرت میں  الٹا اوراضافہ کردیتی ہے۔

اس جگہ سجدہ تلاوت مشروع ہے،مسنون ہے کہ آدمی جب اس آیت کوسنے توجواب میں  کہے

زادنا اللہ خُضُوعًاما زاد للاعدآء نفورا

اللہ کرے ہماراخضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں  کانفور بڑھتاہے۔[123]

تَبَارَكَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِیرًا ‎﴿٦١﴾‏ وَهُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا ‎﴿٦٢﴾‏ وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ‎﴿٦٣﴾‏ وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا ‎﴿٦٤﴾‏(الفرقان)
بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں  برج بنائے، اور اس میں  آفتاب بنایا، اور منور مہتاب بھی، اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا، اس شخص کی نصیحت کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، رحمان کے (سچے) بندے وہ ہیں  جو زمین پر مصلحت کے ساتھ چلتے ہیں ، اور جب بےعلم لوگ ان سے باتیں  کرنے لگتے ہیں  تو وہ کہہ دیتے ہیں  کہ سلام ہے، اور جو اپنے رب کے سامنے  سجدےاور قیام کرتے ہوئے راتیں  گزار دیتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کی رفعت وعظمت :

اللہ تعالیٰ نے اسی سورة میں  تیسری مرتبہ تبارک اللہ فرمایاجواس کی عظمت ،اس کے کثرت اوصاف اوراس کے احسان وبھلائی کی وسعت پر دلالت کرتاہے ،فرمایا بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان دنیا میں محفوظ خطے بنائےجسے جن یاشیاطین عبورنہیں  کرسکتے ، اوراس میں  ایک خوب چمکتااور دھمکتاہواسورج بنایا جیسے فرمایا

وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا۝۱۳۠ۙ [124]

ترجمہ: اورایک نہایت روشن اورگرم چراغ پیداکیا۔

اورچاندکونوربنایا،جیسے فرمایا

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا۝۵ [125]

ترجمہ:وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا ۔

نوح  علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙوَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۝۱۶ [126]

ترجمہ:کیادیکھتے نہیں  ہوکہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ برتہ بنائے اوران میں  چاندکونوراورسورج کو چراغ بنایا؟ ۔

و ہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جس نے یہ نظام بنایاکہ رات جاتی تودن آجاتاہے اورجب دن جاتاہے تورات آ جاتی ہے،دونوں  بیک وقت جمع نہیں  ہوتے،جیسے فرمایا

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [127]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں  یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اورنہ رات دن پرسبقت لیجاسکتی ہے ۔

یہ ہراس شخص کے لئے ایک نشانی ہے جو نصیحت لیناچاہے یاشکر گزارہو نا چاہیے،

یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَهُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیءُ النَّهَارِ، وَیَبْسُطُ یَدَهُ بِالنَّهَارِ لِیَتُوبَ مُسِیءُ اللَّیْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا

ابوموسیٰ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا بے شک اللہ عزت وبزرگی والا رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگارتوبہ کرلے اور دن کوہاتھ پھیلاتاہے کہ رات کاگنہگارتوبہ کرلے یہاں  تک کہ آفتاب پچھم سے نکلے۔[128]

کامل مومنوں  کے اوصاف بیان فرمائے کہ رحمان کے محبوب وپسندیدہ بندے وہ ہیں  جواللہ کی زمین پرغرور و تکبرسے نہیں  بلکہ تواضع ،فروتنی اور باوقارمہذب انداز سے چلتے ہیں ، لقمان  رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کونصیحت کی تھی۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝۱۸ۚ [129]

ترجمہ:اور لوگوں  سے منہ پھیر کر بات نہ کر نہ زمین میں  اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں  کرتا۔

۔۔۔وَاللہُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِۨ۝۲۳ۙ [130]

ترجمہ: اللہ ایسے لوگوں  کو پسند نہیں  کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں  اور فخر جتاتے ہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا سَمِعْتُمُ الإِقَامَةَ، فَامْشُوا إِلَى الصَّلاَةِ وَعَلَیْكُمْ بِالسَّكِینَةِ وَالوَقَارِ، وَلاَ تُسْرِعُوا، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگ تکبیرکی آوازسن لوتو نمازکے لئے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون اوروقارکو(بہرحال)لازم پکڑے رکھواور دوڑ کر نہ آؤپھرنمازکاجوحصہ ملے اسے پڑھ لواورجوفوت ہوجائےاسے بعدمیں  پوراکرلو۔[131]

اوراگرجاہل ان سے بدتمیزی کابرتاؤکرنے لگیں  تویہ ان کی طرح جہالت پرنہیں  اترآتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں  اور گندی باتوں  سے اپنی زبان کو آلودہ نہیں  کرتے،جیسے فرمایا

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۰ۡسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۡلَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ۝۵۵ [132]

ترجمہ:اورجب انہوں  نے بیہودہ بات سنی تویہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اورتمہارے اعمال تمہارے لئے ،تم کوسلام ہے ، ہم جاہلوں  کاسا طریقہ اختیارکرنانہیں  چاہتے۔

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ الْمُزَنِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَسَبَّ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ الْمَسْبُوبُ یَقُولُ: عَلَیْكَ السَّلَامُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّ مَلَكًا بَیْنَكُمَا یَذُبُّ عَنْكَ كُلَّمَا یَشْتُمُكَ هَذَا، قَالَ لَهُ: بَلْ أَنْتَ وَأَنْتَ أَحَقُّ بِهِ، وَإِذَا قَالَ لَهُ: عَلَیْكَ السَّلَامُ، قَالَ: لَا بَلْ لَكَ أَنْتَ، أَنْتَ أَحَقُّ بِهِ

نعمان بن مقرن مزنی سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کسی دوسرے شخص کوگالی دی،جس توگالی دی گئی تھی اس نے جواب میں  یہ کہناشروع کردیاتجھ پراللہ کی سلامتی ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے مخاطب ہوکرفرمایاسنو!یقیناًتمہاری طرف سے ایک فرشتہ دفاع کررہاہےجب بھی وہ تمہیں  گالی دیتاہے توفرشتہ کہتاہے تم ہی اس گالی کے مصداق ہوبلکہ تم اس کے زیادہ حق دارہواورجب تم یہ کہتے ہوکہ تجھ پراللہ کی سلامتی ہو توفرشتہ کہتاہے اس پرنہیں  بلکہ تم پراللہ کی سلامتی ہو اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے اس کی نسبت تم زیادہ حق دارہو۔[133]

ان کی راتیں  لہوولعب میں  نہیں  بلکہ آدھی یا تہائی رات اپنے رب کے حضوراپنے گناہوں  کی بخشش اوراس کی رضاوخوشنودی کے لئے سجدے اورقیام میں  گزارتے ہیں  ، جیسےفرمایا

اِنَّ رَبَّكَ یَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُـثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَكَ۝۲۰ۧ [134]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں  کھڑے رہتے ہو اور تمہارے ساتھیوں  میں  سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۔۔۔ ۝۱۶  [135]

ترجمہ:اُن کی پہلو بستروں  سے الگ رہتے ہیں  اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں ۔

كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ۝۱۷وَبِالْاَسْحَارِهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝۱۸ [136]

ترجمہ:یہ اہل جنت وہ لوگ تھے جوراتوں  کوکم ہی سوتے تھے اورسحرکے اوقات میں  مغفرت کی دعائیں  مانگاکرتے تھے ۔

اَمَّنْ هُوَقَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَیَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ۔۔۔ ۝۹ۧ [137]

ترجمہ:کیااس شخص کاانجام کسی مشرک جیسا ہو سکتاہے جواللہ کافرماں  بردارہو،رات کے اوقات میں  سجدے کرتااورکھڑارہتاہو،آخرت سے ڈرتاہواوراپنے رب کی رحمت سے امیدلگاتاہو ؟۔

وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ‎﴿٦٥﴾‏ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ‎﴿٦٦﴾‏ وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَكَانَ بَیْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ‎﴿٦٧﴾‏ وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ ۚ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِكَ یَلْقَ أَثَامًا ‎﴿٦٨﴾‏ یُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیهِ مُهَانًا ‎﴿٦٩﴾‏ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ یُبَدِّلُ اللَّهُ سَیِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٧٠﴾‏(الفرقان)
اور جو یہ دعا کرتے ہیں  اے ہمارے پروردگار ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ، بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے ،اور جو خرچ کرتے وقت بھی اسراف کرتے ہیں   نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں  کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں  ، اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں  پکارتے ، اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں  کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ،  اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا،اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں  رہے گا، سوائے ان لوگوں  کے جو توبہ کریں  اور ایمان لائیں  اور نیک کام کریں ، ایسے لوگوں  کے گناہوں  کو اللہ تعالیٰ نیکیوں  سے بدل دیتا ہے ،اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔

جواپنی راست روی اورعبادات پرمغرورنہیں  ہوجاتے بلکہ اپنی ساری نیکیوں  اورعبادتوں  کے باوجودوہ اس خوف سے کانپتے رہتے ہیں  کہ کہیں  ہمارے عمل کی کوتاہیاں  ہمیں  مبتلائے عذاب نہ کردیں اس لئے اپنے رب کے حضورگڑگڑاکردعائیں  کرتے ہیں  کہ اے ہمارے رب!ہمیں  جہنم کے الم ناک عذاب سے بچالےاس کاعذاب توجان کالاگوہے،جبکہ جنت ٹھہرنے اوررہنے کی بہت ہی عمدہ جگہ ہے۔

۔۔۔حَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا۝۷۶ [138]

ترجمہ: کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔

عَنِ الْحَسَنِ:{وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا} [139]الْآیَةَ: قَالَ: كُلُّ شَیْءٍ یُصِیبُ ابْنَ آدَمَ یَزُولُ عَنْهُ وَلَیْسَ بِغَرَامٍ، وَإِنَّمَا الْغَرَامُ اللَّازِمُ مَا دَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ

حسن بصری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’کیونکہ اس کاعذاب چمٹ جانے والاہے۔‘‘ سے مرادہے ہروہ چیزہے جوابن آدم کولاحق ہوپھروہ زائل ہوجائے تووہ غرام نہیں  ہے بلکہ غرام وہ ہے جواس وقت تک باقی رہے جب تک آسمان اور زمین باقی رہے گا ۔[140]

وہ تو بڑاہی برامستقراورمقام ہے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں  جوپاکیزہ رزق عطاکیاہے اسے عیاشیوں  ،ناجائز اوردکھاوے کے کاموں  پرخرچ کرنے کے بجائے اللہ کی رضاو خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں  تونہ فضول خرچی کرتے ہیں  کہ خودہی محتاج ہوجائیں  اور نہ بخیلی پراترآتے ہیں  کہ خرچ ہی نہ کریں بلکہ میانہ روی اختیارکرتے ہیں  ، جیسے فرمایا

وَلَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۝۲۹ [141]

ترجمہ:نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔

جو اپنی مشکلات اورپریشانیوں  میں  اپنے خالق اوررازق اللہ وحدہ لاشریک کے سواکسی اورخودساختہ معبودکونہیں  پکارتے ،جیسے لقمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کونصیحت کی تھی۔

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَیَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳ [142]

ترجمہ:یادکروجب لقمان اپنے بیٹے کونصیحت کررہاتھا تواس نے کہابیٹااللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرناحق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے ۔

اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کوناحق ہلاک نہیں  کرتے ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۱۵۱ [143]

ترجمہ: اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۳۳ [144]

ترجمہ:قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔

یعنی قتل تین صورتوں  میں  کیاجاسکتاہے،

إما بكفر بالله بعد إسلامها أو زنا بعد إحصانهاأو قتل نفس، فتقتل بها

اسلام لانے کے بعدکوئی کفرکرے جسے ارتدادکہتے ہیں ،شادی شدہ زانی کوزناکی پاداش میں  سنگسارکرنا  یاقتل کے قصاص میں  قتل کرنا ،ان صورتوں  میں  حکومت وقت اس شخص کوقتل کاحکم دے گی ۔

اور زناکے مرتکب نہیں  ہوتے بلکہ وہ اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں جیسے فرمایا

اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ۔۔۔۝۶ۚ [145]

ترجمہ: سوائے اپنی بیویوں  کے اوران عورتوں  کے جوان کی ملکیت میں  ہوں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ؟ قَالَ:أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ ، قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ:أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَكَ ، قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ:أَنْ تُزَانِیَ حَلِیلَةَ جَارِكَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِیقَ ذَلِكَ : {وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا یَزْنُونَ، وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِكَ یَلْقَ أَثَامًا}  [146]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیاکون ساگناہ سب سے بڑاہے ؟فرمایایہ کہ تواللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیداکیاہے،میں نے کہا اس کے بعدکون ساگناہ بڑا ہے ؟فرمایااپنی اولادکواس خوف سے قتل کرناکہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی،میں  نے پوچھاپھر کونسا؟ فرمایایہ کہ تواپنے پڑوسی کی بیوی سے زناکرے،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ان باتوں  کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے ،پھرآپ نے آیت تلاوت فرمائی۔’’(رحمٰن کے بندے وہی ہیں )جواللہ کے ساتھ کسی اورکونہیں  پکارتے اورنہ اللہ کی حرام کردہ کسی جان کوقتل کرتے ہیں  مگرحق کے ساتھ اورنہ بدکاری کرتے ہیں ،یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔‘‘[147]

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ قَیْسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ: إِنَّمَا هُنَّ أَرْبَعٌ، لا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَیْئًا  وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَسْرِقُوا

سلمہ بن قیس الاشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحجة الوداع میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چارچیزوں  سے منع فرمایاچارگناہوں  سے بچو،اللہ کے ساتھ کسی کو شرک نہ کرواور کسی حرمت والے نفس کوقتل نہ کرومگرحق کے ساتھ اور زناکاری نہ کرواورچوری نہ کرو۔[148]

یہ کام جوکوئی کرے وہ اپنے گناہ کابدلہ پائے گا قیامت کے روز اس کو باربارعذاب دیا جائے گا اور اسی میں  وہ ہمیشہ ذلت ورسوائی کے ساتھ پڑا رہے گا،

عِكْرِمَةَ، فِی قَوْلِهِ: وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِكَ یَلْقَ أَثَامًا،  قَالَ: وَادِیًا فِی جَهَنَّمَ فِیهِ الزُّنَاةُ ، أَثَام

عکرمہ آیت کریمہ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِكَ یَلْقَ أَثَامًاکے بارے میں  قول ہے جہنم کی وہ وادیاں  ہیں  جن میں  زانیوں  کوعذاب دیاجائے گا۔[149]

اوراللہ تعالیٰ نے گنہگاروں  کوبخشش ومغفرت کی امیدکی ایک کرن دکھلائی الایہ کہ کوئی کفروشرک سے تائب ہو کرخلوص نیت سے توبہ کرچکاہواورایمان لاکرعمل صالحہ کرنے لگاہو ، جیسے فرمایا

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [150]

ترجمہ: اگر کوئی شخص برافعل کرگزرے یااپنے نفس پرظلم کرجائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزرکی درخواست کرے تواللہ کودرگزرکرنے والااوررحیم پائے گا ۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ ۔۔۔۝۱۰۴ [151]

ترجمہ: کیاان لوگوں  کومعلوم نہیں  ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں  کی توبہ قبول کرتاہے۔

اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۴۸ [152]

ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں  کرتا اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں  وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےبتایاسوآدمیوں  کے قاتل نے بھی خالص توبہ کی تواللہ نے اسے معاف فرمادیا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كَانَ فِیمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِینَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِینَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ یَحُولُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ التَّوْبَةِ؟ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا یَعْبُدُونَ اللهَ فَاعْبُدِ اللهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ، فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِیقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ،

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ  سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاتم سے پہلے ایک شخص تھاجس نے ننانوے خون کیے تھے، پھر اس نے اہل زمین میں  سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں  پوچھا پس اس کی ایک راہب کی طرف راہنمائی کی گئی وہ اس کے پاس آیا تو کہنے لگا اس نے ننانوے جانوں  کو قتل کیا ہے کیا اس کے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے ، اس نے کہا نہیں  پس اس نے اس راہب کو قتل کر کے سو پورے کر دیئے،پھر زمین والوں  سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں  پوچھا تو ایک عالم کی طرف اس کی راہنمائی کی گئی اس نے کہا میں  نے سو آدمیوں  کو قتل کیا ہے میرے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے،وہ بولاہاں  ہوسکتی ہے اورتوبہ کرنے سے کون سی چیزمانع ہے،توفلاں  ملک میں  چلاجاوہاں  کچھ لوگ ہیں  جواللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں  توبھی جاکران کے ساتھ عبادت کراوراپنے ملک میں  مت جاوہ براملک ہے،پھروہ اس ملک کی طرف چلاجب وہ آدھی دورپہنچاتواس کوموت آگئی،

فَاخْتَصَمَتْ فِیهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ یَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِی صُورَةِ آدَمِیٍّ، فَجَعَلُوهُ بَیْنَهُمْ، فَقَالَ: قِیسُوا مَا بَیْنَ الْأَرْضَیْنِ، فَإِلَى أَیَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِی أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ

اب عذاب کے فرشتوں  اوررحمت کے فرشتوں  میں  جھگڑاہوارحمت کے فرشتوں  نے کہایہ توبہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوکرآرہاتھاعذاب کے فرشتوں  نے کہااس نے کوئی نیکی نہیں  کی،آخرایک فرشتہ آدمی کی صورت بن کرآیااورانہوں  نے اس کو جھگڑاکافیصلہ کرنے کے لئےمقررکیااس نے کہادونوں  ملکوں  تک ناپواورجس ملک کے قریب ہووہ وہیں  کاہے،چنانچہ زمین کوناپاگیاتووہ اس ملک کے قریب تھاجہاں  کاارادہ رکھتاتھاآخررحمت کے فرشتے اس کولے گئے۔[153]

اللہ جوبڑاہی غفورورحیم ہے خالص توبہ کرنے والے لوگوں  کی برائیوں  کو بھلائیوں  سے بدل دے گا۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، رَجُلٌ یُؤْتَى بِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَیْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ، وَارْفَعُوا عَنْهُ كِبَارَهَا، فَتُعْرَضُ عَلَیْهِ صِغَارُ ذُنُوبِهِ، فَیُقَالُ: عَمِلْتَ یَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، وَعَمِلْتَ یَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، فَیَقُولُ: نَعَمْ، لَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یُنْكِرَ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوبِهِ أَنْ تُعْرَضَ عَلَیْهِ،

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں  اس شخص کوجانتاہوں  جوسب سے آخرمیں  جنت میں  داخل ہوگااور سب سے آخرمیں  جہنم سے نکلے گا،وہ ایک شخص ہوگاجو قیامت کے دن لایا جائے گاپھرحکم ہوگااس کے ہلکے گناہ پیش کرواوراس کے بھاری گناہ پیش نہ کروچنانچہ اس کے ہلکے گناہ پیش کیے جائیں  گے،اوراس کوکہاجائے گا فلاں  روزتونے ایساکام کیاتھااور فلاں  روزیہ کام کیاتھا؟وہ کہے گاہاں ،علاوہ ازیں  وہ اس بات سے بھی ڈررہاہوگاکہ ابھی توبڑے گناہ پیش بھی کیے جائیں  گے،

فَیُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَیِّئَةٍ حَسَنَةً، فَیَقُولُ: رَبِّ، قَدْ عَمِلْتُ أَشْیَاءَ لَا أَرَاهَا هَا هُنَا “ فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ

اتنے میں  اس سے کہا جائے گا ہم نے تجھے ہرایک گناہ کے بدلے ایک نیکی دی (اللہ کی یہ مہربانی دیکھ کر)وہ کہے گااے میرے مالک! ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں  کہ میں  انہیں  یہاں  نہیں  دیکھ رہا،یہ بیان کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہنس پڑے، یہاں  تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں  ظاہرہوگئیں ۔[154]

جَاءَ شَیْخٌ كَبِیرٌ هَرِمٌ قَدْ سَقَطَ  حَاجِبَاهُ عَلَى عَیْنَیْهِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ غَدَرَ وَفَجَرَ، وَلَمْ یَدَعْ حَاجَةً وَلَا دَاجَةَ إِلَّا اقْتَطَعَهَا بِیَمِینِهِ   لَوْ قُسِّمَتْ خَطِیئَتُهُ بَیْنَ أَهْلِ الْأَرْضِ لَأَوْبَقَتْهُمْ  فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أسلمتَ؟ فَقَالَ: أَمَا أَنا، فَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِنَّ اللَّهَ غَافِرٌ لَكَ مَا كُنْتَ كَذَلِكَ، وَمُبْدِّلٌ سَیِّئَاتِكَ حَسَنَاتٍ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وغَدَراتی وفَجَراتی؟ فَقَالَ: وغَدرَاتك وفَجَراتك،فَوَلّى الرَّجُلُ یُهَلِّلُ وَیُكَبِّرُ

احادیث میں  ایک واقعہ مروی ہےایک عمررسیدہ آدمی جن کے ابروآنکھوں  پرگرچکے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  حاضرہوااورعرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ساری زندگی گناہوں  میں  گزری ہے ،کوئی گناہ ایسانہیں  ہے جس کاارتکاب نہ کرچکا ہوں بلکہ اپنے گناہ تمام روئے زمین کے باشندوں  پربھی تقسیم کردوں  توسب کولے ڈوبیں کیااب بھی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاکیاتونے اسلام قبول کرلیاہے؟ اس نے عرض کیاہاں  میں  نے اسلام قبول کرلیاہےمیں  گواہی دیتاہوں  کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اورمحمداللہ کے بندے اور رسول ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جا،اللہ تعالیٰ تیری تمام برائیاں ،گناہ،بدکاریاں  سب کچھ معاف فرمادے گابلکہ جب تک تواس پرقائم رہے گا ،اللہ تعالیٰ تیری برائیوں  کوبھلائی سے بدل دے گا ، اس نے پھر عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کیامیری غداریاں  اور بدکاریاں  معاف ہوجائیں  گے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایاہاں ،ہاں  تمہاری ساری غداریاں  اوربدکاریاں  بھی،پھرتووہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگااورتکبیروتہلیل پکارتا لوٹ گیا۔[155]

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ یَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا ‎﴿٧١﴾‏ وَالَّذِینَ لَا یَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ‎﴿٧٢﴾‏ وَالَّذِینَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْهَا صُمًّا وَعُمْیَانًا ‎﴿٧٣﴾‏ وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا ‎﴿٧٤﴾(الفرقان)
اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو (حقیقتًا) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے، اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں  دیتے، اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ، اور جب انہیں  ان کے رب کے کلام کی  آیتیں  سنائی جاتی ہیں  تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں  گرتے ،اور یہ دعا کرتے ہیں  کہ اے ہمارے پروردگار ! تو ہمیں  ہماری بیویوں  اور اولاد سے آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا ۔

جوشخص گناہوں  اورکوتاہیوں  سے توبہ کرکے شریعت کے مطابق نیک عملی اختیارکرتاہے وہ تواللہ کی طرف پلٹ آتاہے جوواقعی ہی پلٹنے کے قابل جگہ ہے ،اوررحمٰن کے بندے وہ ہیں جوجھوٹی گواہی سے لے کر کفروشرک اورہرطرح کی غلط چیزیں  مثلاًلہوولعب،گانا،غیبت ،چغلی ،سب وشتم ،قذف واستہزا،شراب پینا،ریشم کے بچھونے اورتصاویر اور دیگر بیہودہ جاہلانہ رسوم وافعال میں  حاضرنہیں  ہوتے،

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَدْخُلِ الحَمَّامَ بِغَیْرِ إِزَارٍ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُدْخِلْ حَلِیلَتَهُ الحَمَّامَ، وَمَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ یُدَارُ عَلَیْهَا بِالخَمْرِ.

جابر  رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جوشخص اللہ پراوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے توبغیرتہمد کے حمام میں  داخل نہ ہو(یعنی برہنہ نہ نہاؤ)جوشخص اللہ پراوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے تووہ اپنی عورت کوحمام میں  نہ بھیجے کہ وہاں  بے ستری،بے حیائی اورکشف سترہوتاہے، جوشخص اللہ پراوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہےوہ اس دسترخوان پرنہ بیٹھے جس پرشراب کادور چل رہاہو۔[156]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرَةَ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ؟ ثَلاَثًا، قَالُوا: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ  أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، قَالَ: فَمَا زَالَ یُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَیْتَهُ سَكَتَ

ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ (نقیع رضی اللہ عنہ )سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیامیں  تمہیں  سب سے بڑاگناہ بتادوں ؟تین مرتبہ یہی فرمایا؟صحابہ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا ہاں  اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم !   آپ نے فرمایااللہ کے ساتھ شرک کرنااورماں  باپ کی نافرمانی کرنا،اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہوکرفرمانے لگے اورجھوٹی گواہی دینایافرمایاجھوٹی بات کہنا،اسے باربارفرماتے رہے یہاں  تک کہ ہم اپنے دل میں  کہنے لگے کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اب خاموش ہوجاتے،اوریہ فرماناتاکیداًتھا۔[157]

اورکسی فضول ، لایعنی چیزپران کاگزرہوجائے تونگاہ غلط اندازتک ڈالے بغیر عزت ووقارکے ساتھ پہلوبچاکر گزرجاتے ہیں ،جنہیں  اگران کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تووہ اس سے اعراض وغفلت نہیں  برتتے بلکہ وہ غوراورتوجہ سے سنتے اورانہیں  آویزہ گوش اورحرزجان بناتے ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۱۵۞  [158]

ترجمہ:ہماری آیات پرتووہ لوگ ایمان لاتے ہیں  جنہیں  یہ آیات سناکرجب نصیحت کی جاتی ہے توسجدے میں  گرپڑتے ہیں  اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں  اورتکبرنہیں  کرتے ۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ [159]

ترجمہ:سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں  جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں  اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں  تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں  ۔

جبکہ کافرپراس کے برخلاف اثرہوتاہے۔

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِیْمَانًا۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۱۲۴ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ۝۱۲۵ [160]

ترجمہ:جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں  سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں  سے) پوچھتے ہیں  کہ کہوتم میں  سے کس کے ایمان میں  اس سے اضافہ ہوا ؟ جو لوگ ایمان لائے ہیں  ان کے ایمان میں  تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں ،البتہ جن لوگوں  کے دلوں  کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اں  کی سابق نجاست پر (ہر نئی سورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر ہی میں  مبتلا رہے ۔

جواپنے رب حقیقی کی بارگاہ میں  گڑگڑاتے ہیں  کہ اے ہمارے رب! ہماری بیویوں  او اولادکوایمان اور عمل صالح کی توفیق بخش دے ،انہیں  پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کردے ،انہیں اپنافرماں  برداراورہمارااطاعت گزاربنادے جس سے دنیاوآخرت میں ہماری آنکھیں  ٹھنڈی ہوں اورہمیں  تقویٰ طاعت اور ایسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطافرما کہ نیک لوگ خیرمیں  ہماری اقتداکریں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلَهُ:هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ، یَعْنُونَ: مَنْ یَعْمَلُ لَكَ بِالطَّاعَةِ , فَتَقَرُّ بِهِمْ أَعْیُنُنَا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  آیت کریمہ’’اے ہمارے پروردگار!توہمیں  ہماری بیویوں  اوراولادسے آنکھوں  کی ٹھنڈک عطافرما۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں  ان کی مرادیہ ہے کہ ان کی اولادایسی ہوجواللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مطابق عمل کرے تاکہ دنیاوآخرت میں  انہیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک نصیب ہو۔[161]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب ابن آدم فوت ہوجاتاہے توتین کے سوااس کے تمام اعمام منقطع ہوجاتے ہیں ، صدقہ جاریہ،یاوہ علم جس کے ساتھ اس کے بعدنفع حاصل کیاجارہاہویاایسانیک بیٹاجواس کے لیے دعاکرتاہو۔[162]

أُولَٰئِكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّوْنَ فِیهَا تَحِیَّةً وَسَلَامًا ‎﴿٧٥﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ‎﴿٧٦﴾‏ قُلْ مَا یَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّی لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُونُ لِزَامًا ‎﴿٧٧﴾‏(الفرقان)
یہی وہ لوگ ہیں  جنہیں  ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند وبالا خانے دیئے جائیں  گے جہاں  انھیں  دعا سلام پہنچایا جائے گا،  اس میں  یہ ہمیشہ رہیں  گے، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے، کہہ دیجئے ! اگر تمہاری دعا التجا (پکارنا) نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا، تم تو جھٹلا چکے اب عنقریب اس کی سزا تمہیں  چمٹ جانے والی ہوگی ۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے انعامات :

وہ متقین جوہرخوف اورلالچ کے مقابلے میں  راہ راست پر ثابت قدم رہے،اللہ کی حرام کردہ ہرچیز سے پرہیزکرتے رہے،اللہ تعالیٰ نے جوحدود قائم کی ہیں  اس پرقائم رہے،گناہ کی ساری لذتوں  اورمنفعتوں  کوٹھکراکرنیکی وراستی کے ہرنقصان اوراس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کوبرداشت کرتے رہے ،دین حق کوقائم اورسربلندکرنے کی جدوجہدمیں  ہرقسم کے مصائب اورتکلیفوں  پرصبرکرتے رہے ،اللہ تعالیٰ ان کواس صبرکے صلہ میں  جنت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتیں  ،موتیوں  کی طرح چمکتے ہوئے غلمان اور آراستہ محلات عطافرمائے گا،جیسے فرمایا

وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ كَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝۲۴ [163]

ترجمہ:اور ان کی خدمت میں  وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں  گے جو انہی کے لیے مخصوص ہوں  گے ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۰ۚ اِذَا رَاَیْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا۝۱۹ [164]

ترجمہ:ان کے خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں  گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں  گے تم انہیں  دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں  جو بکھیر دیے گئے ہیں ۔

جنت کے ہرہردروازے پرفرشتے آداب وتسلیمات سے ان کا استقبال کریں  گے، ہر طرف سلامتی ہے سلامتی ہے کی گونج ہوگی ، جیسے فرمایا

دَعْوٰىھُمْ فِیْہَا سُبْحٰنَكَ اللّٰہُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ۝۰ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰ۧ [165]

ترجمہ:وہاں  ان کی صدا یہ ہوگی کہ پاک ہے تو اے اللہ !ان کی یہ دعا ہوگی کہ سلامتی ہو اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔

وَاُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۝۰ۭ تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ۝۲۳ [166]

ترجمہ:بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں  ایمان لائے ہیں  اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  وہ ایسے باغوں  میں  داخل کیے جائیں  گے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی، وہاں  وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں  گے، اور وہاں  ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہوگا ۔

تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ۝۰ۖۚ وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا۝۴۴ [167]

ترجمہ:جس روز وہ اس سے ملیں  گے ان کا استقبال سلام سے ہوگااور ان کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔

سَلٰمٌ۝۰ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۝۵۸ [168]

ترجمہ: ان کو سلام کہا جائے گا رب رحیم کی طرف سے ۔

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ۝۷۳ [169]

ترجمہ:اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں  گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا یہاں  تک کہ جب وہ وہاں  پہنچیں  گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں  گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں  گے کہ سلام ہو تم پر بہت اچھے رہے ، داخل ہو جاؤ اس میں  ہمیشہ کے لیے ۔

وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَـنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عُقْبَى الدَّارِ۝۲۲ۙجَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰــتِہِمْ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ۝۲۳ۚسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۝۲۴ۭ [170]

ترجمہ:ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں  ، نماز قائم کرتے ہیں ، ہمارے دیے ہوئے رزق میں  سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں ، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں ،آخرت کا گھر انہی لوگوں  کے لیے ہے ،یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں  گے، وہ خود بھی ان میں  داخل ہوں  گے اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں  اور ان کی اولاد میں  سے جو جو صالح ہیں  وہ بھی ان کے ساتھ وہاں  جائیں  گے ، ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں  گے اور ان سے کہیں  گے تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں  جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو ،پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر !۔

ایسی پاکیزہ اور امن وسکون کی جگہ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے،کیاہی اچھا وہ مستقراوروہ مقام ہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں  سے کہواللہ نے تمہیں  اپنی عبادت اورتسبیح وتہلیل کے لئے پیداکیاہے ،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ [171]

ترجمہ:میں  نے جن اور انسانوں  کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں  کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں  ۔

اگر تم اپنے معبودحقیقی اللہ وحدہ لاشریک کواپنی مشکلات اورپریشانیوں  میں  نہ پکارو ، اس کی عبادت نہ کرو توتم اللہ کے نزدیک حقیرترین مخلوق ہو ،اب جبکہ تم نے اللہ کوجھٹلادیا ہےتویہ نہ سمجھوکہ معاملہ ختم ہوگیاہے ،نہیں  ،اس کاوبال تمہارے ساتھ ہی رہے گا،بہت جلدروزآخرت تم ایسادائمی دردناک عذاب پاؤگے کہ جان چھڑانی محال ہوگی۔

 

 

[1] الکہف۲

[2] حم السجدة۴۲

[3] الاعراف۱۵۸

[4] الانعام۱۹

[5] سبا۲۸

[6] الانبیائ۱۰۷

[7]صحیح بخاری كِتَابُ التَّیَمُّمِ  باب ۱،ح۳۳۵، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ۱۱۶۳، مسند احمد ۱۴۲۶۴، صحیح ابن حبان ۶۳۹۸،السنن الکبری للبیہقی۱۰۱۷،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۴۲، شرح السنة للبغوی۳۶۱۶

[8] صحیح مسلم کتاب المساجد باب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ ۱۱۶۷

[9] التوبة۳۰

[10] النجم۲۷

[11] الانبیائ۲۶

[12] اخلاص۱تا۴

[13] الاعلیٰ۱تا۳

[14] طہ۵۰

[15] فاطر۱۳

[16] الحج۷۳

[17] الاعراف۱۹۷

[18] النحل۲۱

[19] الملک۹

[20] النحل ۱۰۳

[21] الشعرائ۱۹۲تا۱۹۵

[22]الزخرف۵۳

[23] الصافات۳۶

[24] الدخان۱۴

[25] الذاریات۵۲

[26] الملک۷،۸

[27]تفسیر عبد الرزاق ۴۵۲؍۲

[28] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۶۷؍۸ 

[29] الصافات۶۲

[30] سبا۴۰،۴۱

[31] المائدة۱۱۶،۱۱۷

[32] الاحقاف۵

[33] یوسف۱۰۹

[34] الانبیائ۷،۸

[35] بنی اسرائیل۹۵

[36] بنی اسرائیل۹۲

[37] الانعام۸

[38] الحجر ۷،۸

[39] الانفال۵۰

[40] الانعام۹۳

[41] البقرة ۲۶۴

[42] ابراہیم ۱۸

[43] النور۳۹

[44] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۸۱؍۸

[45] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۸۱؍۸

[46] مسنداحمد۱۱۷۱۷،صحیح ابن حبان ۷۳۳۴،شعب الایمان ۳۵۵،مسندابی یعلی ۱۳۹۰،شرح السنة للبغوی ۴۳۱۸

[47] النمل۵۹

[48] الانشقاق۱

[49] الانفطار۱

[50] النبا۱۹

[51] المرسلات۹

[52] الحاقة۱۷

[53] النبا۳۸

[54] الفجر۲۲

[55] البقرة۲۱۰

[56] الانعام۷۳

[57] المومن۱۶

[58] سنن ابوداودکتاب السنةبَابٌ فِی الرَّدِّ عَلَى الْجَهْمِیَّةِ۴۷۳۲،صحیح بخاری کتاب التوحیدالجھمیةبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۷۴۱۲،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین باب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ۷۰۵۱، مسندابی یعلی۵۵۵۸

[59] المدثر۹،۱۰

[60] مریم۸۶

[61] الانبیائ۱۰۳

[62] مریم۸۵

[63] الاحزاب ۶۶

[64] صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید بَابُ المِسْكِ۵۵۳۴، صحیح مسلم کتاب البر و الصلة بَابُ اسْتِحْبَابِ مُجَالَسَةِ الصَّالِحِینَ، وَمُجَانَبَةِ قُرَنَاءِ السُّوءِ۶۶۹۲،السنن الکبری للبیہقی۱۱۱۲۶،شرح السنة للبغوی ۳۴۸۳ ، صحیح ابن حبان۵۶۱

[65] حم السجدة۲۶

[66] الانعام۱۱۲

[67] الاعراف۱۷۸

[68] بنی اسرائیل۹۷

[69] الکہف۱۷

[70] السنن الکبری للنسائی۱۱۳۰۸

[71] المزمل۴

[72] بنی اسرائیل۱۰۶

[73] بنی اسرائیل۹۷

[74] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة فرقان بَابُ قَوْلِهِ الَّذِینَ یُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِیلًا ۴۷۶۰،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ یُحْشَرُ الْكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ۷۰۸۷ ،مسندابی یعلی۳۰۴۶،شرح السنة للبغوی ۴۳۱۵،مسند احمد۱۳۳۹۲

[75] الشعرائ۶۵،۶۶

[76] الشعرائ۱۱۹،۱۲۰

[77] الصافات۷۹تا۸۲

[78] بنی اسرائیل۱۷

[79] الاعراف۸۱

[80] النمل۵۵

[81] الشعرائ۱۷۳

[82] النمل۵۸

[83] الانبیائ۳۶

[84] الاحقاف۵

[85]  الزخرف۳۱

[86] ص۶

[87] الجاثیة۲۳

[88] القصص۵۰

[89] فاطر۸

[90] المعجم الکبیر للطبرانی ۷۵۰۲

[91] صحیح بخاری کتاب الجہاد بَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۲۸۸۶  ،وکتاب الرقاق بَابُ مَا یُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ المَالِ ۶۴۳۵،السنن الکبری للبیہقی۲۱۱۴۸،شرح السنة للبغوی ۴۰۵۹

[92]الاعراف۱۷۹

[93] القصص۷۱

[94] تفسیرابن ابی حاتم۲۷۰۳؍۸

[95] الیل۱

[96] القصص۷۳

[97] النبا۱۰،۱۱

[98] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا نَامَ ۶۳۱۲،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ النَّوْمِ ۵۰۴۹،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ إِذَا انْتَبَهَ مِنَ اللَّیْلِ ۳۴۱۷، مسنداحمد۲۳۲۷۱، مسندالبزار۲۸۲۵،صحیح ابن حبان ۵۵۳۲،شعب الایمان ۴۰۷۵،السنن الکبری للنسائی ۱۰۶۲۶،سنن الدارمی ۲۷۲۸، مصنف ابن ابی شیبة۲۶۵۲۱،شرح السنة للبغوی ۱۳۱۱

[99] الاعراف۵۷

[100] النمل۶۳

[101] الحج۵

[102] سنن ابوداودکتاب الطہارة بَابُ مَا جَاءَ فِی بِئْرِ بُضَاعَةَ۶۷،جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمَاءَ لاَ یُنَجِّسُهُ شَیْءٌ ۶۶ ، سنن نسائی كِتَابُ الْمِیَاهِ  بَابُ ذِكْرِ بِئْرِ بُضَاعَةَ۳۲۷ ،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْحِیَاضِ ۵۱۹

[103] الاعراف۵۷

[104] حم السجدة۳۹

[105] فاطر۹

[106] الزخرف۱۱

[107] ق۹تا۱۱

[108] الاعراف۱۵۸

[109]صحیح بخاری كِتَابُ التَّیَمُّمِ باب ۱حدیث۳۳۵،صحیح مسلم كِتَابُ وباب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ ۱۱۶۳،مسنداحمد۱۴۲۶۴

[110] التوبة۷۳

[111] المائدة۶۷

[112] الرحمٰن۱۹،۲۰

[113] النمل۶۱

[114] المائدة۷۶

[115] التوبة۴۰

[116] القصص۸۸

[117] صحیح بخاری كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ الدُّعَاءِ فِی الرُّكُوعِ۷۹۴،صحیح مسلم  كِتَابُ الصَّلَاةِ  بَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۱۰۸۵، مسنداحمد۲۴۶۸۵

[118] القریش۳،۴

[119] طہ۴۹

[120] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ ۲۷۳۱، ۲۷۳۲،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَةِ فِی الْحُدَیْبِیَةِ۴۶۳۱ ، مسند احمد ۶۵۶، مستدرک حاکم ۲۶۵۷،صحیح ابن حبان ۴۸۷۲،السنن اکبری للنسائی ۱۱۴۴۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۶۷۴۱،مصنف ابن ابی شیبة۳۶۸۳۹، مسند ابی یعلی ۴۷۴، مصنف عبدالرزاق ۹۷۲۰،ابن ہشام۳۱۷؍۲

[121] الرعد۳۰

[122] بنی اسرائیل۱۱۰

[123] تفسیرالثعلبی۱۴۳؍۷، تفسیرالزمحشری۶۶۹؍۲، غرائب القرآن ورغائب الفرقان۲۵۳؍۵

[124] النبا۱۳

[125] یونس۵

[126] نوح۱۵،۱۶

[127] یٰسین۴۰

[128] صحیح مسلم کتاب التوبہ بَابُ قَبُولِ التَّوْبَةِ مِنَ الذُّنُوبِ وَإِنْ تَكَرَّرَتِ الذُّنُوبُ وَالتَّوْبَةُ۶۹۸۹، مسنداحمد۱۹۶۱۹، شعب الایمان ۶۶۷۳،السنن الکبری للبیہقی۲۰۷۶۶

[129] لقمان ۱۸

[130] الحدید۲۳

[131] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ لاَ یَسْعَى إِلَى الصَّلاَةِ، وَلْیَأْتِ بِالسَّكِینَةِ وَالوَقَارِ ۶۳۶،صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ اسْتِحْبَابِ إِتْیَانِ الصَّلَاةِ بِوَقَارٍ وَسَكِینَةٍ، وَالنَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِهَا سَعْیًا۱۳۵۹،مسند احمد ۱۰۸۹۳،السنن الکبری للبیہقی ۵۱۴۵

[132] القصص۵۵

[133] مسنداحمد۲۳۷۴۵

[134] المزمل۲۰

[135] السجدة۱۶

[136] الذاریات ۱۷، ۱۸

[137] الزمر۹

[138] الفرقان۷۶

[139] [الفرقان: 65

[140] تفسیرابن ابی حاتم۲۷۲۴؍۸

[141] بنی اسرائیل۲۹

[142] لقمان۱۳

[143] الانعام۱۵۱

[144] بنی اسرائیل۳۳

[145] المومنون۶

[146] [الفرقان: 68

[147] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورة البقرة بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۴۴۷۷،وکتاب التفسیرسورة الفرقان بَابُ قَوْلِهِ وَالَّذِینَ لاَ یَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَلاَ یَزْنُونَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِكَ یَلْقَ أَثَامًا ۴۷۶۱ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الشِّرْكِ أَقْبَحَ الذُّنُوبِ وَبَیَانِ أَعْظَمِهَا بَعْدَهُ۲۵۷ ،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الفُرْقَانِ۳۱۸۲،سنن نسائی کتاب المحاربہ ذِكْرُ أَعْظَمِ الذَّنْبِ ۔۔۔۴۰۱۸،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی تَعْظِیمِ الزِّنَا۲۳۱۰، مسنداحمد۴۱۰۲

[148] مسنداحمد۱۸۹۸۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۳۱۶،مستدرک حاکم ۸۰۳۳

[149] تفسیر طبری ۳۰۸؍۱۹

[150] النسائ۱۱۰

[151] التوبة۱۰۴

[152] النسائ۴۸

[153] صحیح مسلم کتاب التوبة بَابُ قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ۷۰۰۸،صحیح ابن حبان ۶۱۱،شعب الایمان۶۶۶۴،السنن الکبری للبیہقی۱۵۸۳۶

[154] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِیهَا۴۶۷،السنن الکبری للبیہقی ۲۰۷۷۲

[155] تفسیرابن ابی حاتم۲۷۳۵؍۸

[156] جامع ترمذی کتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی دُخُولِ الحَمَّامِ۲۸۰۱

[157] صحیح بخاری کتاب الشھاداتہ بَابُ مَا قِیلَ فِی شَهَادَةِ الزُّورِ ۲۶۵۴، وکتاب الادب بَابٌ عُقُوقُ الوَالِدَیْنِ مِنَ الكَبَائِرِ ۵۹۷۶،وکتاب الاستئذان بَابُ مَنِ اتَّكَأَ بَیْنَ یَدَیْ أَصْحَابِهِ ۶۲۷۳،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا ۲۵۹،جامع ترمذی ابواب البروالصلة  بَابُ مَا جَاءَ فِی عُقُوقِ الوَالِدَیْنِ ۱۹۰۱،وابواب الشھادات بَابُ مَا جَاءَ فِی شَهَادَةِ الزُّورِ  ۲۳۰۱،وابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ۳۰۱۹

[158] السجدة۱۵

[159] الانفال۲

[160] التوبة۱۲۴،۱۲۵

[161] تفسیرابن ابی حاتم۲۷۴۲؍۸،تفسیرطبری۳۱۸؍۱۹

[162] صحیح مسلم كِتَابُ الْوَصِیَّةِ بَابُ مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ۴۲۲۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ  بَابٌ فِی الوَقْفِ۱۳۷۶،السنن الکبری للنسائی ۶۴۴۵،مسنداحمد۸۸۴۴

[163] الطور۲۴

[164] الدھر۱۹

[165] یونس۱۰

[166] ابراہیم۲۳

[167] الاحزاب۴۴

[168] یٰسین۵۸

[169] الزمر۷۳

[170] الرعد۲۲تا۲۴

[171] الذاریات۵۶

Related Articles