ہجرت نبوی کا آٹھواں سال

ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب کااسلام قبول کرنا

فَذَهَبْتُ بِهِ إلَى رَحْلِی، فَبَاتَ عِنْدِی،فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِهِ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَیْحَكَ یَا أَبَا سُفْیَانَ، أَلَمْ یَأْنِ لَكَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّهُ لَا إلَهَ إلَّا اللهُ؟قَالَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، مَا أَحْلَمَكَ وَأَكْرَمَكَ وَأَوْصَلَكَ، وَاَللَّهِ لَقَدْ ظَنَنْتُ أَنْ لَوْ كَانَ مَعَ اللهِ إلَهٌ غَیْرُهُ لَقَدْ أَغْنَى عَنِّی شَیْئًا بَعْدُ،قَالَ: وَیْحَكَ یَا أَبَا سُفْیَانَ! أَلَمْ یَأْنِ لَكَ أَنْ تَعْلَمَ أَنِّی رَسُولُ اللهِ؟قَالَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، مَا أَحْلَمَكَ وَأَكْرَمَكَ وَأَوْصَلَكَ! أَمَّا هَذِهِ وَاَللَّهِ فَإِنَّ فِی النَّفْسِ مِنْهَا حَتَّى الْآنَ شَیْئًا،فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: وَیْحَكَ! أَسْلِمْ وَاشْهَدْ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ قَبْلَ أَنْ تُضْرَبَ عُنُقُكَ،قَالَ: فَشَهِدَ شَهَادَةَ الْحَقِّ، فَأَسْلَمَ

میں انہیں اپنے خیمے میں لے گیا وہاں رات گزاری،حسب ہدایت دوسرے دن صبح سویرے عباس رضی اللہ عنہ ،ابوسفیان کولے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابوسفیان کودیکھاتو مخاطب ہوکرفرمایا اے ابوسفیان افسوس!کیاابھی وقت نہیں آیاکہ تواس بات کوسمجھ لے کہ اللہ کے سواکوئی اورمعبودنہیں ،ابوسفیان بولے میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں ، آپ نہایت بردبار، معزز اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں ،اللہ کی قسم !اگراللہ کے سواکوئی اورمعبودہوتاتواس مشکل گھڑی میں ہمارے کچھ کام آتااورہم آپ کے مقابلہ میں اس سے مددطلب کرتے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوسفیان!تم پرافسوس !کیااب بھی وقت نہیں آیاکہ تم جان لوکہ میں اللہ کارسول ہوں ؟ابوسفیان نے کہامیرے ماں باپ آپ پرفداہوں آپ نہایت بردبار، معزز اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں اللہ کی قسم !ابھی میرادل اس معاملہ میں ترددکاشکارہے،عباس رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان سے کہاتم پرہلاکت ہواس سے پہلے کہ تمہاری گردن ماردی جائے جلدی سے کلمہ شہادت پڑھ لو،پس انہوں نے فی الفور کلمہ شہادت پڑھ کرشہادت حق کااقرارکرلیا۔

اس موقع پرابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عجیب جوش ونشاط کے ساتھ یہ اشعارپڑھے۔

لَعَمْرُكَ إنِّی یَوْمَ أَحْمِلُ رَایَةً ، لِتَغْلِبَ خَیْلُ اللاتِ خَیْلَ مُحَمَّدِ

قسم ہے کہ میں جن دنوں لڑائی کاجھنڈااس ناپاک خیال سے اٹھایاکرتاتھاکہ لات کے بت کے پوجنے والوں کی فوج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج پرغالب آجائے

لَكَالْمُدْلِجِ الْحَیْرَانِ أَظْلَمَ لَیْلُهُ ، فَهَذَا أَوَانِی حِینَ أُهْدَى وَأَهْتَدِی

ان د نوں میں اس خارپشت جیساتھاجواندھیری رات میں ٹکریں کھاتاہو،اب وقت آگیاہے کہ میں ہدایت پاؤں اورسیدھے راستے پرگامزن ہوجاؤں

هَدَانِی هَادٍ غَیْرُ نَفْسِی وَنَالَنِی ، مَعَ اللهِ مَنْ طَرَّدْتُ كُلَّ مُطَرَّدِ

مجھے سچے ہادی برحق نے ہدایت فرمادی ہےاوراللہ کاراستہ مجھے اس ہادی برحق نے دکھلادیاہے جیسے میں نے ہمیشہ دھتکاررکھاتھا۔[1]

ابوسفیان مکہ معظمہ کے قائدحرب اوررئیس سیاست تھے ان کامسلمان ہوجانامکہ کے لئے جتنااہم ہوسکتاہے کسی تفصیل کامحتاج نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کاسر جھکاہواہے ،چہرے پراداسی چھائی ہوئی ہے فرمایااے ابوحنظلہ !کیابات ہے ہمارے ساتھ مشوروں میں شریک نہیں ہورہے ہو؟ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اب قریش پرآپ کا غلبہ ہے آپ کے لشکرمیں کچھ ایسے بھی ہیں جوانتقامی جذبہ سے لبریزہیں آپ سے گزارش ہے کہ فتح پائیں تونرمی سے کام لیں دشمنوں کوہنسنے کاموقعہ نہ دیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،نہیں نہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ !تم اطمنان رکھومکہ مکرمہ میں تومسلمانوں کے بھی بھائی بندہیں ،مہاجرین کے بھی باپ ،چچاوغیرہ ہیں ،وہیں پرابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام کامحترم گھربھی ہے ، محمدبن عبداللہ !مکہ میں ایک اچھے بھائی کی طرح داخل ہوگاآج نہ کوئی غالب ہے نہ مغلوب ،نہ کوئی فاتح ہیں نہ کوئی مفتوح ،آج تومحبت اوراتحادکادن ہے ، آج توامن وامان اوراطمینان کادن ہے،

قَالَ الْعَبَّاسُ: قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللهِ، إنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ یُحِبُّ هَذَا الْفَخْرَ، فَاجْعَلْ لَهُ شَیْئًاقَالَ: نَعَمْ، مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَهُوَ آمِنٌ،قَالُوا: قَاتَلَكَ اللهُ،وَمَا تُغْنِی عَنَّا دَارُكَ؟وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ

عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسفیان ایک اعزاز پسند آدمی ہے اسے کوئی مراعات دے دیں جوان کے لئے باعث عزت وشرف اورموجب امتیاز ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااچھااعلان کردوجوابوسفیان کے گھرمیں پناہ لے لے گاوہ مامون ہے، ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے گھرمیں سب لوگ کیسے سماسکتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسجد الحرام میں داخل ہوجائے گاوہ بھی مامون ہے، ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مسجدبھی کافی نہیں ہوسکتی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواپنادروازہ اندرسے بندکرلے گا(یعنی جنگ نہیں کرے گا)وہ مامون ہے ،ابوسفیان نے کہا ہاں اس میں بہت وسعت اورگنجائش ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا عَبَّاسُ، احْبِسْهُ بِمَضِیقِ الْوَادِی عِنْدَ خَطْمِ الْجَبَلِ ، حَتَّى تَمُرَّ بِهِ جُنُودُ اللهِ فَیَرَاهَا ،قَالَ:فَخَرَجْتُ حَتَّى حَبَسْتُهُ بِمَضِیقِ الْوَادِی، حَیْثُ أَمَرَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَحْبِسَهُ، فَكَانَ أَوّلَ مَنْ قدم رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی بَنِی سُلَیْمٍ، وَهُمْ أَلْفٌ،قَالَ: وَمَرَّتْ الْقَبَائِلُ عَلَى رَایَاتِهَا، كُلَّمَا مَرَّتْ قَبِیلَةٌ قَالَ: یَا عَبَّاسُ، مَنْ هَذِهِ؟فَأَقُولُ: سُلَیْمٍ،فَیَقُول: مَا لی وَلِسُلَیْمٍ،ثُمَّ تَمُرُّ الْقَبِیلَةُ فَیَقُولُ: یَا عَبَّاسُ، مَنْ هَؤُلَاءِ؟فَأَقُولُ: مُزَیْنَةُ،فَیَقُول: مَا لی وَلِمُزَیْنَةَ

سترہ رمضان المبارک آٹھ ہجری بروزمنگل کی صبح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ الظَّهْرَانِ سے کوچ کرنے لگےتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوحکم فرمایاکہ وہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کواپنے ہمراہ لے کرتنگ گھاٹی میں پہاڑی کی چوٹی پرکھڑے ہوجائیں تاکہ وہ بچشم خوداسلامی لشکرکی طاقت اورشان وشوکت کودیکھ سکیں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقبیلہ کوحکم فرمایاکہ وہ اپنے اپنے سردارکے جھنڈے کے پاس جمع رہیں اوراپنی افرادی واسلحہ کی قوت کامظاہرہ کرے چنانچہ قبیلے رجزپڑھتے ہوئے اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ قدم وبازوملاکرچلے اور دستے اپنے اپنے جھنڈوں کے ساتھ گزرے،سب سے پہلے بنوسلیم کے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدایک ہزارمجاہدین کادستہ لے کرسامنے سے گزرے،جب کوئی قبیلہ اپنے قبیلے کاجھنڈااٹھائے ہوئے گزرتاتوابوسفیان پوچھتااے عباس رضی اللہ عنہ !یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیایہ بنوسلیم کے مجاہدین ہیں ، ابوسفیان نے کہامیری بنوسلیم سے کوئی دشمنی نہیں ہے،پھردوسراقبیلہ گزراتوپوچھااے عباس رضی اللہ عنہ !یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیایہ قبیلہ مزینہ کے مجاہدین ہیں ،ابوسفیان نے کہابنومزینہ سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے،

ومرّ بنو غفار فِی ثَلَاثِمِائَةٍ، یَحْمِلُ رَایَتَهُمْ أَبُو ذَرّ الْغِفَارِیّ- وَیُقَالُ إیمَاءُ بْنُ رَحْضَةَ،ثُمّ مَضَتْ أَسْلَمُ فِی أَرْبَعِمِائَةٍ، فیها لواءان یحمل أحدهما بریدة بن الحصیب، والآخر ناجیة بْنُ الْأَعْجَمِ،ثُمّ مَرّتْ بَنُو عَمْرِو بْنُ كَعْبٍ فِی خَمْسِمِائَةٍ، یَحْمِلُ رَایَتَهُمْ بُسْرُ بْنُ سُفْیَانَ،ثُمّ مَرّتْ جُهَیْنَةُ فِی ثَمَانِمِائَةٍ مَعَ قَادَتِهَا، فِیهَا أَرْبَعَةُ أَلْوِیَةٍ، لِوَاءٌ مَعَ أَبِی رَوْعَةَ مَعْبَدَ بْنِ خَالِدٍ، وَلِوَاءٌ مَعَ سُوَیْدِ بْنِ صَخْرٍ، وَلِوَاءٌ مَعَ رَافِعِ بْنِ مَكِیثٍ، وَلِوَاءٌ مَعَ عبد الله بن بدرثُمّ مَرّتْ كِنَانَةُ، بَنُو لَیْثٍ، وَضَمْرَةُ، وَسَعْدُ بْنُ بَكْرٍ فِی مِائَتَیْنِ، یَحْمِلُ لِوَاءَهُمْ أَبُو وَاقِدٍ اللّیْثِیّ

اورقبیلہ غفارکاتین سو پر مشتمل دستہ گزراجس کاجھنڈاابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے یاایمابن رحضہ رضی اللہ عنہ نے تھام رکھاتھا،پھربنواسلم چار سو مجاہدین کے ساتھ گزرے ،ان کاایک جھنڈابریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ نے اورایک جھنڈاناجیہ بن الاعجم رضی اللہ عنہ نے تھام رکھاتھا،پھربنوعمروبن کعب پانچ سومجاہدین کے ساتھ گزرے ان کاجھنڈابسربن سفیان رضی اللہ عنہ نے اٹھارکھاتھا، پھرقبیلہ جھینہ کے آٹھ سو لوگ گزرے انہوں نے چارجھنڈے اٹھائے ہوئے تھے ایک جھنڈاابوروعہ معبدبن خالد نے ایک جھنڈاسویدبن صخرنے ایک جھنڈارافع بن مکیث نے اور ایک جھنڈاعبداللہ بن بدرنے تھام رکھاتھا، پھربنوکنانہ ، بنولیث،اورضمرہ اورسعدبن بکرکےدو سو لوگ گزرےان کاجھنڈا ابوواقدلیثی اٹھائے ہوئے تھے۔

ابوبردہ ہانی بن نیار رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی حارثہ کاجھنڈاتھام رکھا تھا ، جابربن عیتک انصاری جن کی کنیت ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ تھی نے اپنے قبیلہ انصارکاجھنڈااٹھارکھاتھا،بشیرانصاری جن کی کنیت ابولبانہ رضی اللہ عنہ تھی نے ایک جھنڈاتھام رکھاتھا،جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروانصاری نے اپنے قبیلہ کاجھنڈاتھاماہواتھا،حارث بن عوف بن اسید رضی اللہ عنہ نے بنی لیث کا جھنڈا پکڑا ہوا تھا ، خویلدبن عمرونے اپنے قبیلہ کاجھنڈاتھام رکھا تھا، زیدبن خالدنے اپنے قبیلہ کاجھنڈا تھاماہواتھا،عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کاجھنڈااٹھایاہواتھا،ا س طرح مختلف قبائل جوق درجوق گزرتے رہے اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوحیرت زدہ کرتے رہے

حَتَّى نَفِدَتْ الْقَبَائِلُ، مَا تَمُرُّ بِهِ قَبِیلَةٌ إلَّا یَسْأَلُنِی عَنْهَا، فَإِذَا أَخْبَرْتُهُ بهم،قَالَ: مَا لی وَلِبَنِی فُلَانٍ،حَتَّى مَرَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی كَتِیبَتِهِ الْخَضْرَاءِ،فِیهَا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ، لَا یُرَى مِنْهُمْ إلَّا الْحَدَقُ مِنْ الْحَدِیدِ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللهِ: یَا عَبَّاسُ، مَنْ هَؤُلَاءِ؟قَالَ: قُلْتُ:هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ قَالَ: مَا لِأَحَدِ بِهَؤُلَاءِ قِبَلٌ وَلَا طَاقَةٌ، وَاَللَّهِ یَا أَبَا الْفَضْلِ، لَقَدْ أَصْبَحَ مُلْكُ ابْنِ أَخِیكَ الْغَدَاةَ عَظِیمًا قَالَ:قُلْتُ: یَا أَبَا سُفْیَانَ، إنَّهَا النُّبُوَّةُ،قَالَ: فَنَعَمْ إذَنْ

یہاں تک کہ مختلف قبائل اپنے اپنے جھنڈے اٹھائے ہوئے گزرتے رہے ، جب بھی کوئی قبیلہ گزرتاتوابوسفیان اس کے بارے میں پوچھتارہااورعباس رضی اللہ عنہ انہیں جواب دیتے رہے، اورابوسفیان یہی کہتا رہا میری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے، حتی کہ رحمة للعالمین،سیدعرب وعجم،سیدکونین،سیدالانبیائ،سرورعالم،سیدالامم،خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین وانصارکے دوہزارمسلح اورزرہ پوش دستہ کے جلومیں جلوہ افروز ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں ،مہاجرین کاعلم زبیربن العوام رضی اللہ عنہ اورانصارکاعلم سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں پوری شان وشوکت کے ساتھ لہرا رہاتھا،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے ابوالفضل !سبحان اللہ !یہ اتنابڑالشکرکس قبیلہ سے تعلق رکھتاہے ؟انہوں نے جواب دیایہ مہاجرین وانصارکے پروانوں میں گھرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، طاقت وقوت اورشان وشوکت کایہ مرعوب کن منظر دیکھ کرابوسفیان دنگ رہ گیا،وہ اردگرد کے حالات سے اتنے بے خبرتھے کہ انہیں یقین ہی نہیں آرہاتھاکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت وقوت اس قدربڑھ اورپھیل چکی ہے،انہوں نے کہااے ابوالفضل !واقعی تمہارے بھتیجے کی بڑی حکومت اورشان قائم ہوگئی ہے بھلاان سے مقابلے کی کس میں مجال ہوسکتی ہے،عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیااے ابوسفیان رضی اللہ عنہ !تم پرافسوس ہویہ بادشاہت نہیں نبوت ہے،ابوسفیان نے کہا ہاں اب تویہی کہاجائے گا بہرحال مجاہدین کایہ سیل بے پناہ ابوسفیان اوران کے ساتھ مشرکین قریش کے احساس برتری اورفخرنسب کوخس و خاشاک کی طرھ بہالے گیا،

فَلَمَّا مَرَّ بأبی سفیان قَالَ لَهُ الْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَةِ، الْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْحُرْمَةُ، الْیَوْمَ أَذَلَّ اللهُ قُرَیْشًا

جب سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ پہاڑی کے پاس سے گزرے توابوسفیان رضی اللہ عنہ کودیکھ کرانہیں جوش چڑھ گیااوران کی زبان سے یہ نامناسب ا لفاظ نکل گئےآج کادن جنگ وقتال کادن ہے ، آج کعبہ میں قتل وقتال حلال ہوگاآج اللہ تعالیٰ قریش کوذلیل وخوارکرے گا۔

یَا رَسُولَ اللهِ، أُمِرْت بِقَتْلِ قَوْمِك؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْیَوْمَ یَوْمُ الْمَرْحَمَةِ! الْیَوْمَ أَعَزّ اللهُ فِیهِ قُرَیْشًا!

سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ سن کرابوسفیان رضی اللہ عنہ گھبراگئےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پہاڑی کے پاس سے گزرے توابوسفیان رضی اللہ عنہ نے سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کاقول نقل کرکے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کواپنی قوم کے قتل کاحکم فرمایاہے ؟اورمزیدکہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کواللہ کااورقرابطوں کاواسطہ دیتاہوں بیشک آپ نیکی اور صلہ رحمی میں سب سے بڑھ کرہیں ،ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بات سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابوسفیان!آج کادن تومہربانی کادن ہے جس میں اللہ تعالیٰ قریش کو عزت سے نوزے گا۔[2]

بَلِ الْیَوْمَ یَوْمٌ تُعَظَّمُ فِیهِ الْكَعْبَةُ، الْیَوْمَ یَوْمٌ أَعَزَّ اللهُ فِیهِ قُرَیْشًا

آج کادن توبیت اللہ کی عظمت کادن ہے ، آج اللہ تعالیٰ قریش کوعزت سے نوزے گا۔[3]

فَقَالَ:كَذَبَ سَعْدٌ، وَلَكِنْ هَذَا یَوْمٌ یُعَظِّمُ اللهُ فِیهِ الكَعْبَةَ، وَیَوْمٌ تُكْسَى فِیهِ الكَعْبَةُ

ایک روایت میں یوں ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسعد رضی اللہ عنہ نے غلط کہاآج کادن توبیت اللہ کی عظمت کادن ہےاورخانہ کعبہ کونیاغلاف پہنایاجائے گا۔[4]

قَالَ عَبْدُ الرّحْمَنِ بن عَوْفٍ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفّانَ: یَا رَسُولَ اللهِ: اسْمَعْ مَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، مَا نَأْمَنُ أَنْ یَكُونَ لَهُ فِی قُرَیْش صولة، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ: أَدْرِكْهُ، فَخُذْ الرَّایَةَ مِنْهُ فَكُنْ أَنْتَ الَّذِی تَدْخُلُ بِهَا

ابن اسحاق نے روایت کیاہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اورعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے سناکہ سعدبن عبادہ نے کیا کہاہےہمیں خطرہ محسوس ہورہاہے کہ سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ قریش کے اندرخونریزی نہ کردیں ،اس اندیشے کے پیش نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو حکم فرمایا علم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لے کراپنے ہاتھ میں کر لو۔

ایک روایت ہے کہ زبیربن العوام رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا۔

ابن عساکرکی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے گزرے توقریش کی ایک عورت نے یہ اشعارپڑھے۔

یَا نَبِیّ الْهُدَى إِلَیْك لجا حَیّ قُرَیْشٍ وَلَاتَ حِینَ لَجَاءِ

اے نبی ہدایت!قریش نے آپ کی طرف پناہ لی ہے حالانکہ یہ پناہ کاوقت نہیں ہے

حِینَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ سَعَةُ الْأَرْ ضِ وَعَادَاهُمْ إلَهُ السّمَاءِ

جس وقت زمین وسیع ہونے کے باوجود بھی ان پرتنگ ہوگئیں اوراسمان میں اللہ ان کادشمن ہوگیا

إنّ سَعْدًا یُرِید قاصمة الظّهْر بِأَهْلِ الْحَجُونِ وَالْبَطْحَاءِ

سعدبن عبادہ اہل حجون اوراہل بطحاء کی کمرتوڑدیناچاہتاہے

پھرابوسفیان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوگئے۔[5]

حَتَّى إذَا جَاءَهُمْ صَرَخَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ:یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، هَذَا مُحَمَّدٌ قَدْ جَاءَكُمْ فِیمَا لَا قِبَلَ لَكُمْ بِهِ، فَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَامَتْ إلَیْهِ هِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ، فَأَخَذَتْ بِشَارِبِهِ، فَقَالَتْ: اُقْتُلُوا الْحَمِیتَ الدَّسِمَ الْأَحْمَسَ ، قُبِّحَ مِنْ طَلِیعَةِ قَوْمٍ!قَالَ: وَیْلَكُمْ لَا تَغُرَّنَّكُمْ هَذِهِ مِنْ أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَكُمْ مَا لَا قِبَلَ لَكُمْ بِهِ، فَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَهُوَ آمِنٌ ، قَالُوا:قَاتَلَكَ اللهُ! وَمَا تُغْنِی عَنَّا دَارُكَ؟قَالَ: وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَیْهِ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ،

اوربہ عجلت مکہ داخل ہوکرباآوازبلنداعلان کیااے گروہ قریش ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے لشکرکے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف آرہے ہیں میں نے اس لشکرکوبچشم خوددیکھاہے اورمیرا خیال ہے کہ اس لشکرکامقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت وقوت نہیں اس لئے میری بات مان کراسلام قبول کرلو تمہاری جان سلامت رہے گی لہذاجوشخص ابوسفیان کے گھرمیں داخل ہوگاوہ امن میں رہے گا،ابوسفیان کے اس اعلان نے پورے مکہ کوورطہ ٔ حیرت میں ڈال گیاابوسفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ہندبنت عتبہ نے ان کی باتیں سن کرانہیں بہت برا بھلا کہا اور ابوسفیان کایہ کلام سن کراس کی مونچھ پکڑلی اورقریش سے کہاکہ اس مضبوط موٹے فربہ پہلوان کوقتل کردوکہ ایک ذراسے لشکرکودیکھ کراس قدرحواس باختہ ہوگیاہے،ابوسفیان نے کہااے قریش!تم اس کے بہکانے میں آکراپنی جان نہ کھونا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )تم پرآگئے ہیں جوابوسفیان کے گھرمیں داخل ہوگااس کوامن ہے،قریش نے کہاتجھ کوخرابی ہوتیرے گھرمیں کس قدرلوگ داخل ہوں گے؟ ابوسفیان نے کہاجوشخص اپنے گھرمیں بندرہے گااسلام کی تلواریں اس سے عرض نہیں کریں گی اور جوشخص مسجدالحرام میں داخل ہوجائے گاوہ امان میں ہے ، اور اپنی اہلیہ سے کہامیں سچ کہہ رہاہوں اگرتواپنی جان کی امان چاہتی ہے تواسلام قبول کرلے یااپنے گھرمیں بیٹھ کر دروازہ اندرسے بندکرلے۔

دوسرے لفظوں میں یہ امن وامان کااعلان عام تھاشرط یہ تھی کہ مکہ والے مکمل طور پر سپر انداز ہوجائیں اوران طریقوں کواختیارکرکے یہ ظاہرکردیں کہ وہ امان کے طلب گار ہیں ،یہ نفسیاتی جنگ کی آخری اورفیصلہ کن ضربیں تھیں ،اس عظیم الشان اورتاریخ عالم میں یقیناًبے مثال نفسیاتی جہادنے مشرکین قریش کی طاقت کاکلی استیصال کردیااورکعبہ آخری اورحتمی طورپراللہ وحدہ لاشریک کی پرستش واطاعت کے لئے وقف ہوگیا۔

فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إلَى دُورِهِمْ وَإِلَى الْمَسْجِدِ، وَتَجَمَّعَ سُفَهَاءُ قُرَیْشٍ، وَأَخِفَّاؤُهَا مَعَ عِكْرِمَةَ بْنِ أَبِی جَهْلٍ، وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ، وَسُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو بِالْخَنْدَمَةِ؛ لِیُقَاتِلُوا الْمُسْلِمِینَ،وَكَانَ حماس بن قیس بن خالد أخو بنی بكر یُعِدُّ سِلَاحًا قَبْلَ دُخُولِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: لِمَاذَا تُعِدُّ مَا أَرَى؟قَالَ: لِمُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ،قَالَتْ: وَاللهِ مَا یَقُومُ لِمُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ شَیْءٌ، قَالَ: إِنِّی وَاللهِ لَأَرْجُو أَنْ أُخْدِمَكِ بَعْضَهُمْ

اب لوگوں کو احساس ہواکہ خطرہ سر پرآگیاہے اس لئے کوئی مسجدالحرام کی طرف اورکوئی اپنے گھرکی طرف پناہ لینے کے لئے دوڑا، البتہ کچھ لوگ مجاہدین اسلام سے مقابلہ کے لئے عکرمہ بن ابی جہل ، صفوان بن امیہ اورسہیل بن عمروکی کمان میں خذمہ کے اندرجمع ہوئے،ان میں بنوبکرکا حماس بن قیس بھی تھا جوہتھیارٹھیک کرنے کاکام کرتاتھااسے ہتھیاروں کوٹھیک کرتے دیکھ کراس کی اہلیہ نے کہایہ کیسی تیاریاں ہورہی ہیں ؟حماس بن قیس نے کہاہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب سے مقابلے کے لئے تیاریاں کررہے ہیں ،اس کی اہلیہ نے کہااللہ کی قسم !محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوران کے اصحاب کے مقابلہ میں کوئی نہیں ٹھیر سکتا،حماس بن قیس نے کہااللہ کی قسم!مجھے یقین ہے کہ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے بعض اصحاب کواپناغلام بنالوں گا

ثُمَّ قَالَ:

إِنْ یُقْبِلُوا الْیَوْمَ فَمَا لِی عِلَّهْ،هَذَا سِلَاحٌ كَامِلٌ وَأَلَّهْ

اگرآج وہ مدمقابل آگئے تومیرے لئے کوئی عذرنہ ہوگا،یہ مکمل ہتھیار،لمبی انی والانیزہ

وَذُو غِرَارَیْنِ سَرِیعُ السَّلَّهْ

اورجھٹ سونتی جانی والی دودھاری تلوارہے

ثُمَّ شَهِدَ الْخَنْدَمَةَ مَعَ صَفْوَانَ وَسُهَیْلٍ وَعِكْرِمَةَ

پھریہ حماس بھی خندمہ(یہ مکہ مکرمہ کے قریب (جنوب مشرقی سمت میں )ایک پہاڑکانام ہے) کی لڑائی میں صفوان ،سہیل اورعکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ شریک ہوا۔

لشکرکی تریب وتقسیم:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا انْتَهَى إلَى ذِی طُوًى وَقَفَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُعْتَجِرًا بِشُقَّةِ بُرْدٍ حِبَرَةٍ حَمْرَاءَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَضَعَ رَأْسَهُ تَوَاضُعًا للَّه حِینَ رَأَى مَا أَكْرَمَهُ اللهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ، حَتَّى إنَّ عُثْنُونَهُ لَیَكَادُ یَمَسُّ وَاسِطَةَ الرَّحْلِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ الظَّهْرَانِ سے کوچ فرماکر ذِی طُوًى میں پہنچے،توسرخ چادرکاایک کنارہ گردن میں لپیٹے ہوئے وہاں کھڑے ہوگئے ،اس وقت آپ نے سرپرخودپہن رکھا تھا اورخوش الحانی سے سورت فتح تلاوت فرمارہے تھے کہ فتح کے آثاردیکھتے ہی سجدہ شکرکے لئے اپناسرمبارک رب العالمین کے حضور جھکادیا اوراللہ عزوجل کی بڑائی بیان کی کہ اس نے آپ کے لئے اپناشہرحلال کردیاجسے آپ کے سواکسی کے لئے حلال نہیں کیاگیاتھایہاں تک کہ آپ کی داڑھی مبارک پالان کے درمیانی حصہ سے جالگی

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ فَرَّقَ جَیْشَهُ مِنْ ذِی طُوَى، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ، فَدَخَلَ مِنْ اللِّیطِ، أَسْفَلَ مَكَّةَ، فِی بَعْضِ النَّاسِ، وَكَانَ خَالِدٌ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْیُمْنَى، وَفِیهَا أَسْلَمُ وَسُلَیْمٌ وَغِفَارٌ وَمُزَیْنَةُ وَجُهَیْنَةُ وَقَبَائِلُ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہیں لشکرکی ترتیب وتقسیم فرمائی،قضاعہ ،بنواسلم،بنوسلیم،بنوغفار،مزینہ جہینہ اور کچھ دوسرے قبائل عرب پرخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کوامیر مقرر فرما کر انہیں اپنے دائیں پہلوپررکھااورانہیں ہدایت فرمائی کہ وہ مکہ مکرمہ میں نچلے حصہ سے داخل ہوں اورباہرکے محلہ میں اپناجھنڈاگاڑدیں کیونکہ مقابلہ اورمقاتلہ کے لئے تمام اوباش اسی جانب جمع تھےاوراگرقریش کی طرف سے کوئی روکاوٹ پیش آئے تو بزورطاقت اسے کچل کرصفامیں آپ سے آملیں ۔

وبعث رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الزّبَیْرُ بْنُ الْعَوّامِ على الْمُهَاجِرِینَ وخیلهم وأمره أن یدَخَلَ مِنْ كَدَاءٍ بأعلى مَكّةَ، وأمره أن یركز رایته بِالْحَجُونِ ولا یبرح حتى یأتیه ،وبعث سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فی كَتِیبَةُ الْأَنْصَار فی مقدمةرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأمرهم أن یكفوا أیدیهم ولا یقاتلوا إلا من قاتلهم

زبیربن العوام رضی اللہ عنہ کوجن کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم تھامہاجرین اوران کے شاہسواروں پر امیرمقررفرماکرانہیں اپنے بائیں پہلوپرمقررفرمایا اور انہیں حکم فرمایاکہ وہ مکہ میں اوپروالی گھاٹی یعنی کداء سے داخل ہوں اور حجون میں آپ کاعلم نصب کرکے آپ کے وہاں پہنچنے تک رکے رہیں ۔سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کوانصار پر امیر مقرر فرمایا اوریہ لوگ آپ کامقدمة الجیش تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ جب تک کفارکی طرف سے پہل نہ ہوکسی سے جنگ نہ کریں ،

وَأَقْبَلَ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ بِالصَّفِّ مِنْ الْمُسْلِمِینَ یَنْصَبُّ لِمَكَّةَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَاخِرَ، حَتَّى نَزَلَ بِأَعْلَى مَكَّةَ،وَضُرِبَتْ لَهُ هُنَالِكَ قُبَّتُهُ

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کوپیادہ پرامیرمقرر فرمایااورانہیں حکم فرمایا کہ وہ مجاہدین اسلام کالشکرلے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگےأَذَاخِرَکی طرف سے مکہ مکرمہ کی بلندی پر اتریں وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خیمہ کھڑاکیاگیا۔

لشکرکی ترتیب وتقسیم اورہدایات کے بعددستے مکہ مکرمہ کی طرف اپنے اپنے مقررہ راستوں کی طرف گامزن ہو گئے،

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، أَنَّهُ قَالَ زَمَنَ الفَتْحِ:یَا رَسُولَ اللهِ، أَیْنَ تَنْزِلُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللهُ؟ وَذَلِكَ زَمَنَ الْفَتْحِ ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِیلٌ مِنْ مَنْزِلٍ

اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کل کہاں اتریں گے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پرجوام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ملاتھاعقیل بن ابوطالب نے قبضہ کرلیاتھا، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عقیل نے ہمارے لئے مکان ہی کہاں چھوڑاہے۔[6]

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَیْنَ تَنْزِلُ فِی دَارِكَ بِمَكَّةَ؟فَقَالَ: وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عقیل مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ

ایک اورروایت میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مکہ مکرمہ میں اپنے گھرمیں قیام فرمائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاعقیل نے ہمارے مکان یا حویلیاں چھوڑی ہیں جہاں ہم اتریں ؟۔[7]

وَقَالَ الْقُرْطُبِیُّ یُحْتَمَلُ أَنْ یَكُونَ مُرَادُ الْبُخَارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنَّ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِأَمْوَالِهِمْ وَدُورِهِمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُسْلِمُوا

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شایدامام بخاری رحمہ اللہ کی مرادیہ ہوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں پران کے اسلام سے پہلے ہی یہ احسان فرمادیاتھاکہ ان کے مال اور گھر ہر حالت میں ان کی ہی ملکیت تسلیم کرلیے اس طرح عقیل رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے گھرسب سے پہلے ہی بخش دیے تھے۔[8]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْزِلُنَا إِنْ شَاءَ اللهُ، إِذَا فَتَحَ اللهُ الخَیْفُ حَیْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الكُفْرِ

ایک دوسری روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطافرمائی توہم ان شاء اللہ خیف بنی کنانہ(محصب)میں اتریں گے جہاں بنوکنانہ اورقریش نے معاہدہ کرکے بنوہاشم اوربنومطلب کونکال دیاتھا۔ [9]

حسب ہدایت خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدمکہ مکرمہ میں نچلی جانب سے داخل ہوئے ۔

أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّةَ وَعِكْرِمَةَ بْنَ أَبِی جَهْلٍ وَسُهَیْلَ بْنَ عَمْرٍو كَانُوا قَدْ جَمَعُوا نَاسًا بِالْخَنْدَمَةِ لِیُقَاتِلُواوَأُصِیبَ مِنْ الْمُشْرِكِینَ نَاسٌ قَرِیبٌ مِنْ اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا، أَوْ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، ثُمَّ انْهَزَمُوا فَقُتِلَ كُرْزُ بْنُ جَابِرٍ الفهرىّ، وخُنَیْسُ بْنُ خَالِدٍ بن ربیعة مِنَ الْمُسْلِمِینَ،وَكَانَا فِی خَیْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ فَشَذَّا عَنْهُ فَسَلَكَا طَرِیقًا غَیْرَ طَرِیقِهِ فَقُتِلَا جَمِیعًا

ابن اسحاق کی روایت ہے صفوان بن امیہ ،عکرمہ بن ابی جہل اورسہیل بن عمرونے مجاہدین اسلام کے مقابلے کے لئے کچھ اوباشوں کوساتھ لے کرمقام خندمہ پر خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے مقابلہ پرآئےتو مشرکین کے بارہ تیرہ آدمی مارے گئے اورباقی لوگوں نے راہ فراراختیارکی،اورمجاہدین اسلام میں سے کرزبن جابرالفہری اورخنیس بن خالدبن ربیعہ نے جولشکرسے بچھڑگئے تھے دونوں نے جام شہادت نوش کیا۔[10]

فَقُتِلَ مِنْ خَیْلِ خَالِدِ بْنِ الوَلِیدِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ رَجُلاَنِ: حُبَیْشُ بْنُ الأَشْعَرِ، وَكُرْزُ بْنُ جابِرٍ الفِهْرِیُّ

صحیح بخاری میں ہےخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے دستے میں دوآدمی جیش بن اشعراورکرزبن جابرفہری شہیدہوئے۔[11]

حُبَیْشُ بْنُ الأَشْعَرِ وَهُوَ لَقَبٌ وَاسْمُهُ خَالِدُ بْنُ سَعْدِ بْنِ مُنْقِذِ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ أَخْزَمَ الْخُزَاعِیُّ وَهُوَ أَخُو أُمِّ مَعْبَدٍ الَّتِی مَرَّ بِهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرًا

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ حُبَیْشُ بْنُ الأَشْعَرِکے بارے میں کہتے ہیں اشعرلقب ہے اس کااصل نام خالدبن سعدبن منقذبن ربیعہ خزاعی تھا،یہ ام معبدکابھائی تھاجس نے سفر ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوش آمدیدکہاتھا۔[12]

فقتل من المسلمین ثلاثة وهم: كُرْزُ بْنُ جَابِرٍ من بنی محَارب بْن فهر، وحبیش بن خَالِد بْن ربیعَة بْن أَصْرَم الْخُزَاعِیّ، وسَلمَة بْن المیلاء الْجُهَنِیّ، رَضِیَ اللهُ عنهم ،وَقتل من الْمُشْركین ثَلَاثَة عشر رجلا

ایک روایت میں ہےلشکراسلام میں سے تین مجاہدین کرزبن جابرالفہری اورخنیس بن خالدبن ربیعہ اورسلمہ بن میلا جہنی نے جام شہادت نوش کیااورمشرکین میں سے تیس آدمی جہنم واصل ہوئے۔[13]

صفوان بْن أُمیّة وَسُهَیْلُ بْن عَمْرو وَعِكْرِمَةُ بْن أَبِی جَهْلٍ فِی جمع مِن قریش بِالْخَنْدَمَةِ، فمنعوه مِن الدخول وشهرواالسّلَاحَ ورموا بِالنَّبْلِ فَصَاحَ خَالِدٌ فِی أَصْحَابِهِ وَقَاتَلَهُمْ ،فَقَتَلَ أربعة وعِشْرِینَ رَجُلًا مِن قریش وأَرْبَعَةٌ نفر مِنْ هُذَیْلٍ،وَانْهَزَمُوا أقبح الانهزام

ابن سعدمیں ہے صفوان بن امیہ ،سہیل بن عمرواورعکرمہ بن ابوجہل کچھ لوگوں کے ساتھ الخندمہ میں جمع ہوئے،اورخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکومکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکاانہوں نے اپنے ہتھیار نکال لئے اورمجاہدین پرتیراندازی کی خالدبن ولیدبھی اپنے دستہ کے ساتھ مقابلہ پرآگئے اوران سے جنگ کی، جس سے قریش کے چوبیس آدمی اورچارآدمی ہذیل کے قتل ہوگئے جوبچے وہ بری طرح بھاگ نکلے۔[14]

بعض مورخین نے مقتولین کی تعدادستربھی بتائی ہے۔

وَقُتِلُوا بِالْحَزْوَرَةِ حَتَّى بَلَغَ قَتَلُهُمْ بَابَ الْمَسْجِدِ، وَفَرَّ بَعْضُهُمْ حَتَّى دَخَلُوا الدُّورَ ثُمَّ انْهَزَمُوا وَانْهَزَمَ حماس صَاحِبُ السِّلَاحِ، حَتَّى دَخَلَ بَیْتَهُ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَغْلِقِی عَلَیَّ بَابِی، فَقَالَتْ: وَأَیْنَ مَا كُنْتَ تَقُولُ؟فَقَالَ

اورپناہ حاصل کرنے کے لئے مسجدالحرام کے دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے حزورہ تک ان کاقتل جاری رہایہاں تک کہ وہ اپنے گھروں میں داخل ہوگئے اوراندرسے دروازے بندکرلئے،حماس بن قیس بھی بھاگ کراپنے گھرمیں جاچھپااوراپنی اہلیہ سے کہاکہ وہ دروازہ بندکرلے،اس کی اہلیہ نے کہاجوتم دعویٰ کیا کرتے تھے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوچاراصحاب کواپناغلام بناؤگے اس کاکیاہوا؟حماس بن قیس نے جواب دیا۔

إِنَّكِ لَوْ شَهِدْتِ یَوْمَ الْخَنْدَمَهْ،إِذْ فَرَّ صفوان وَفَرَّ عكرمه

اگرتم نے جنگ خندمہ کاحال دیکھاہوتا،جب کہ صفوان اورعکرمہ بھاگ کھڑے ہوئے

وَاسْتَقْبَلَتْنَا بِالسُّیُوفِ الْمُسْلِمَهْ،یَقْطَعْنَ كُلَّ سَاعِدٍ وَجُمْجُمَهْ

اورہمارااستقبال سونتی ہوئی تلواروں سے کیاگیا،جوکلائیاں اورکھوپڑیاں اس طرح کاٹتی جارہی تھیں کہ

ضَرْبًا فَلَا نَسْمَعُ إِلَّا غَمْغَمَهْ،لَهُمْ نَهِیتٌ حَوْلَنَا وَهَمْهَمَهْ

پیچھے سوائے ان کے شوروغوغاکے کچھ سنائی نہیں پڑتاتھا      

لَمْ تَنْطِقِی فِی اللوْمِ أَدْنَى كَلِمَهْ

توتم ملائمت کی ادنیٰ بات نہ کہتیں

وَانْطَلَقَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَوْقَ رُءُوسِ الْجِبَالِ، وَاتّبَعَهُمْ الْمُسْلِمُونَ وَلَمّا ظَهَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ثَنِیّةِ أَذَاخِرَنَظَرَ إلَى الْبَارِقَةِ فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْبَارِقَةُ، أَلَمْ أَنْهَ عَنْ الْقِتَالِ؟قِیلَ:یَا رَسُولَ اللهِ، خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ قُوتِلَ، وَلَوْ لَمْ یُقَاتَلْ مَا قَاتَلَ!فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَضَى اللهُ خَیْرًا!

ان میں سے ایک جماعت پہاڑوں کی چوٹیوں پرپہنچ گئی اورمجاہدین ان کے تعاقب میں وہاں پہنچ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے أَذَاخِرَکی طرف پر جب چمکتی تلواریں دیکھیں تو دریافت فرمایاکہ یہ تلواریں کیوں چمک رہی ہیں ؟کیامیں نے لڑائی سے منع نہیں کیاتھا؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہماراخیال ہے کہ کفارنے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سے لڑائی شروع کردی ہے اورابتداء کفار کی طرف سے ہی ہوئی ہےاس لئے خالد رضی اللہ عنہ کے لئے بھی لڑائی کے بغیرکوئی چارہ کارنہیں رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کافیصلہ سب سے بہترہے [15]

فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ:وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنَّبَةِ الأُخْرَى،فَبَعَثَ الزُّبَیْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنَّبَتَیْنِ،وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ عَلَى الْحُسَّرِوهم الذین لَا سِلَاحَ مَعَهُمْ، فَقَالَ:یَا أَبَا هُرَیْرَةَ ، قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَقَالَ:اهْتِفْ لِی: یَا لِلأَنْصَارِ وَلا یَأْتِنِی إِلَّا أَنْصَارِیٌّ فَهَتَفَ بِهِمْ فَجَاءُوا، فَأَطَافُوا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِهِمْ،ثُمَّ قَالَ بِیَدَیْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى: احْصُدُوهُمْ حَصْدًا حَتَّى تُوَافُونِی بِالصَّفَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرکے ایک حصہ پرخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکو دوسرے پر زبیربن العوام رضی اللہ عنہ کواوران لوگوں پرجن کے پاس دفاع کے ہتھیارنہیں تھے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کوامیر مقررفرمایا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں حاضر ہوں ، اور حکم فرمایاکہ میں انصارکوبلاؤں ،میں نے انصارکو آواز دی ،وہ آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردجمع ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامختلف قبائل سے جمع کیے ہوئے قریش کے پٹھووں اوران کے اتباع کودیکھتے ہوپھرآپ نے ایک ہاتھ کو دوسرے پرمار کر اشارہ کیاکہ ان کی بیخ کنی کردواورفارغ ہوکر صفا کے پاس آکرمجھے ملو،

فَقَالَ: أَبُو هُرَیْرَةَ: فَانْطَلَقْنَا، فَمَا یَشَاءُ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ مِنْهُمْ مَا شَاءَ، وَمَا أَحَدٌ یُوَجِّهُ إِلَیْنَا مِنْهُمْ شَیْئًا قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا رَسُولَ اللهِ أُبِیحَتْ خَضْرَاءُ قُرَیْشٍ، لا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ،قَالَ: فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَهُوَ آمِنٌ، قَالَ: وَالأَنْصَارُ تَحْتَهُ، قَالَ: یَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِی قَرْیَتِهِ، وَرَأْفَةٌ بِعَشِیرَتِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں چنانچہ ہم وہاں گئے اورجس کو قتل کرناچاہتے تھے قتل کردیتے تھے،حتی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضرہوکرکہنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !قریش کاقتل عام ہورہاہے اگریہی حال رہاتوآج کے بعدقریش کاکوئی فردباقی نہیں رہے گا،یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایاکہ جواپنے دروازے بند کرلے گاوہ امن میں ہے اورابوسفیان کی حویلی میں داخل ہوجائے گااس کے لئے امن ہے،انصارنے یہ اعلان سناتوآپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے ان کواپنے شہرمیں رہنے اوراپنی قوم کوبچانے کاخیال آگیاہے،

وَقَالَ فِی الْوَحْیِ: فَإِذَا جَاءَ فَلَیْسَ أَحَدٌ یَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى یَنْقَضِیَ الْوَحْیُ،فَلَمَّا قُضِیَ الْوَحْیُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: قُلْتُمْ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِی قَرْیَتِهِ وَرَأْفَةٌ بِعَشِیرَتِهِ،قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ،قَالَ:كَلَّا، إِنِّی عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللهِ وَإِلَیْكُمْ، فَالْمَحْیَا مَحْیَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ،قَالَ: فَأَقْبَلُوا إِلَیْهِ یَبْكُونَ وَیَقُولُونَ: وَاللهِ مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللهِ وَرَسُولَهُ،فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ یَعْذِرَانِكُمْ وَیُصَدِّقَانِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہوئی اورجب وحی نازل ہوتی تھی توہمیں پتہ چل جاتاتھاپھراس کے ختم ہونے تک کوئی آپ کی طرف نظراٹھاکرنہیں دیکھتاتھا، جب وحی ختم ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے گروہ انصار!انہوں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم حاضرہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم نے کہاہے کہ اس آدمی کو اپنے شہرمیں رہنے اوراپنی قوم کوبچانے کاخیال آگیاہے؟انہوں نے کہاہاں یہ بات ہوئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایساکبھی نہیں ہوگامیں اللہ کابندہ اوراس کارسول ہوں میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اورتمہاری طرف ہجرت کی ہے،اب میری زندگی تمہاری زندگی اورمیری موت تمہاری موت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر انصاررونے لگے اورانہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ ہم کسی حالت میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ اوراس کارسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اورتمہیں معذور جانتے ہیں ۔[16]

ایک روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے روزعکرمہ کے ہاتھ سے ایک مسلمان شہیدہواجب آپ کویہ خبردی گئی توآپ نے تبسم فرمایااورارشادکیاقاتل اورمقتول دونوں ہی جنت میں ہیں ۔[17]

لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ رَأَى النِّسَاءَ یَلْطِمْنَ وُجُوهَ الْخَیْلِ بِالْخُمُرِ فَتَبَسَّمَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ فَقَالَ یَا أَبَا بَكْرٍ كَیْفَ قَالَ حَسَّانُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے توآپ نے دیکھاکہ مکہ مکرمہ کی عورتیں گھوڑوں کے چہروں پراپنے دوپٹے ماررہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کودیکھ کرمسکرائے اورفرمایاابوبکر رضی اللہ عنہ !حسان نے کیاکہاتھا

 فَأَنْشَدَهُ قَوْلَهُ

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے حسان رضی اللہ عنہ کے یہ شعرپڑھے۔

عَدِمْتُ بُنَیَّتِی إِنْ لَمْ تَرَوْهَا، تُثِیرُ النَّقْعَ مَوْعِدُهَا كَدَاءٌ

میری بیٹی مرجائے اگرایسانہ ہوکہ تم ہمارے گھوڑوں کومقام کداء پرغباراڑاتے دیکھو

یُنَازِعْنَ الْأَسِنَّةَ مُسْرَجَاتٍ، یُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ

وہ جوش میں سواروں سے اپنی لگامیں چھڑانے کی کوشش کریں گے اورتمہاری عورتیں انہیں اپنے دوپٹے ماریں گی

فَقَالَ أَدْخِلُوهَا مِنْ حَیْثُ قَالَ حَسَّانُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگھوڑوں کواسی مقام سے داخل کروجس کاذکرحسان نے کیاہے۔[18]

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ تیرہ اشعاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایماپرقریش کی ہجومیں کہے تھے۔[19]

قُبَّةٌ مِنْ أَدَمٍ بِالْحَجُونِ فَمَضَى الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ بِرَایَتِهِ حَتَّى رَكَزَهَا عِنْدَهَا وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَهَا

اس کے بعدخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدحسب ہدایت کوہ صفاپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک چمڑے کاقبہ لگایاگیا زبیربن العوام رضی اللہ عنہ نے بھی حسب ہدایت حجون پہنچ کرخیمہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم نصب کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوراس کے اندرتشریف لے گئے۔[20]

اس کے بعدامن قائم ہوگیا،لوگ مطمئن ہوگئے اورفتح مکمل ہوگئی ۔

عَنْ أَبِی كَبْشَةَ الأَنْمَارِیِّ قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَهَدَأَ النَّاسُ جَاءَا بِفَرَسَیْهِمَا فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ الْغُبَارَ عَنْ وُجُوهِهِمَا بِثَوْبِهِ وَقَالَ: إِنِّی قَدْ جَعَلْتُ لِلْفَرَسِ سَهْمَیْنِ وَلِلْفَارِسِ سَهْمًا فَمَنْ نَقَصَهُمَا نَقَصَهُ اللَّهُ

ابوکبشہ الانماری کہتے ہیں فتح مکہ کے بعدجب ہرطرف امن وسکون ہوگیاتوزبیر رضی اللہ عنہ اورمقداد رضی اللہ عنہ بن الاسودکندی اپنے گھوڑوں پرسواررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے ،اس موقع پرانہیں یہ عظیم سعادت نصیب ہوئی کہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکراپنی چادرسےان کے چہروں سے گردپونچھنے لگے۔[21]

مسجدالحرام میں داخلہ :

بیس رمضان المبارک،بروزدوشنبہ آٹھ ہجری(جنوری۶۳۰ئ) کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیرحج یاعمرہ کااحرام باندھے مہاجرین وانصارکے جھرمٹ میں مسجدالحرام میں داخل ہوئے ،

لَمْ یَدْخُلْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ إِلا مُحْرِمًا إِلا یَوْمَ الْفَتْحِ دَخَلَ بِغَیْرِ إِحْرَامٍ

ابن سعدمیں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے فتح مکہ کے دن بیت اللہ میں بغیراحرام کے داخل نہیں ہوئے۔[22]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ یَوْمَ الفَتْحِ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، مُرْدِفًا أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کے بالائی حصہ سے اندرداخل ہوئے ، آپ اپنی مشہور اونٹنی قصواء پر سوار تھے اورآپ کے پیچھے آپ کے خادم زادے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی سوارتھے۔[23]

جب آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تومسلمانوں کی کثرت اس عظیم الشان فتح کودیکھتے ہوئے اللہ کے سامنے اظہار عجزونیاز کرتے ہوئے اپنی سواری پر سر جھکائے ہوئے داخل ہوئے اورزبان سے یہ کلمات ادافرماتے جاتے تھے ۔

اللهُمَّ لَا عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الْآخِرَهْ

اےاللہ!حقیقی زندگی توآخرت ہی کی زندگی ہے

كَانَ لِوَاءُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ أَبْیَضَ وَرَایَتُهُ سَوْدَاءَ قِطْعَةَ مِرْطٍ مُرَجَّلٍ وَكَانَتِ الرَّایَةُ تُسَمَّى الْعُقَابُ

اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچھوٹا جھنڈا سفیدرنگ کااوربڑاعلم سیاہ رنگ کاتھاجس کانام عقاب تھااورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی چادرسے بنایاگیاتھا۔[24]

فَطَافَ بِهِ سَبْعًا عَلَى رَاحِلَتِهِ ، یَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنِ فِی یَدِهِ

حجراسودکوبوسہ دیااوراپنی اونٹنی پر سوار ہوکر بیت اللہ کے سات طواف کیے اور اپنے عصا سے جو آپ کے ہاتھ میں تھی حجر اسود کو چھوکر بوسہ دیا۔[25]

طَافَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، آخِذٌ بِزِمَامِهَامُحَمّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ

محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ ساتوں چکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھامے رہے۔[26]

وہی بیت اللہ جوخلیل اللہ کاتعمیرکردہ تھاوہی کعبہ جورسول بت شکن کی یادگارتھا

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، وَحَوْلَ البَیْتِ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِائَةِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ یَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِی یَدِهِ، وَیَقُولُ:{جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ، إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا}[27]، {جَاءَ الحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ البَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ} [28]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں (فتح کے بعد) داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سوساٹھ بت نصب تھے ، جن کے پیرسیسہ سے مضبوطی سے جمائے ہوئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی آپ اس سے بت کی آنکھ میں چوکامارتے اور فرماتے’’حق آگیااورباطل مٹ گیااوربلاشبہ باطل مٹنے والاہی ہے۔‘‘حق آگیااوراس کے مقابلہ میں باطل کی کچھ پیش نہ گئی۔‘‘[29]

فَیَقَعُ الصّنَمُ لِوَجْهِهِ

تووہ بت منہ کے بل اوندھے گرپڑتے۔[30]

وَأُخْرِجَتِ الرَّاحِلَةُ، وَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى زَمْزَمَ فَاطَّلَعَ فِیهَا وَقَالَ:لَوْلَا أَنْ تُغْلَبَ بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَى سِقَایَتِهِمْ لَنَزَعْتُ مِنْهَا بِیَدِی دَلْوًافَنَزَعَ لَهُ الْعَبّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ وَتَوَضَّأَ وَالْمُسْلِمُونَ یَبْتَدِرُونَ وَضُوءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُبُّونَهُ عَلَى وُجُوهِهِمْ وَالْمُشْرِكُونَ یَنْظُرُونَ إِلَیْهِمْ یَتَعَجَّبُونَ وَیَقُولُونَ: مَا رَأَیْنَا مُلْكًا قَطُّ بَلَغَ هَذَا وَلَا سَمِعْنَا بِه

طواف سے فارغ ہوکرسواری سے اترے اورمقام ابراہیم پردونفلیں اداکیں ،پھرچاہ زمزم پرتشریف لائے اورفرمایااگراس پربنوعبدالمطلب کاتسلط نہ ہوتاتومیں اس میں سے ایک ڈول پانی کھینچتا،اس پرعباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے ایک ڈول پانی نکال کرآپ کودیاجس سے آپ نے پیااوروضوفرمایا،مسلمان آپ کے وضوکاپانی لینے کے لئے ایک دوسرے پرگرے جارہے تھے اوریہ پانی اپنے چہروں پرمل رہے تھے ،مشرکین یہ دیکھ کرتعجب کررہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ ہم نے کبھی ایساعظیم بادشاہ نہ کبھی دیکھانہ سنا ۔[31]

بیت اللہ کی چابی حاصل کرنا:

عَن أبی هُرَیرة؛ كان صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ قاعد وَأَبُو بَكْرٍ قائم عَلَى رَأْسِهِ بِالسَّیْفِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدالحرام کے ایک حصہ میں تشریف فرماہوئے اور سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آپ کے سرہانے تلوارلے کرکھڑے ہوگئے۔[32]

دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ، فَأَخَذَ مِنْهُ مِفْتَاحَ الْكَعْبَةِ، فَأَمَرَ بِهَا فَفُتِحَتْ فَدَخَلَهَاوَرَأَى إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ بِأَیْدِیهِمَا الأَزْلاَمُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَاتَلَهُمُ اللهُ، لَقَدْ عَلِمُوا: مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے دربان عثمان بن طلحہ کوبلاکران سے بیت اللہ کی چابی لی اوربیت اللہ کادروازہ کھولنے کاحکم دیااوراس میں داخل ہوئے،اس میں بت رکھے ہوئے تھے جن میں ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام کے مجسمے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی کے تیرتھمائے ہوئے تھے ( مشرکین مکہ کا رواج تھاکہ جب کوئی جانورذبح کرتے تواس کے کئی حصہ دارہوجاتے تھے،انہوں نے کئی تیرپہلے سے وہ کعبہ  اللہ میں رہے ہوئے تھے جن کاجداجدانام ہوتاتھا،کسی تیرپرزیادہ حصہ دارتھے ،کسی پرکم حصہ دار تھے اورکسی پرکچھ حصہ نہ ہوتا تھا ، مشرکین ان تیروں کولے کرایک تھیلے میں ڈال لیتے تھے پھرحصہ داروں میں سے ہرایک کے نام پرایک ایک تیرنکالتے تھے جس کے نام کے ساتھ زیادہ حصوں والاتیرنکلتاوہ بہت سعادت مندسمجھاجاتاحتی کہ جس کے نام پرایساتیرنکلتاجس کاکوئی حصہ نہ ہوتاتووہ شخص منحوس سمجھاجاتااورپھراس کودوسرے ساتھی لعن طعن کرتے تھے ،اس شرک وبدعت کی مشرکین کے ہاں بڑی وقعت تھی ، اس لئے انھوں نے کعبہ میں بھی( نعوذباللہ)ابراہیم واسماعیل کی تصویروں میں یہ تیر پکڑا رکھے تھے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردیدکرتے ہوئے فرمایااللہ تعالیٰ مشرکوں کو برباد کرےاللہ کی قسم!ان کومعلوم ہے کہ انہوں نے ان تیروں کے ساتھ کبھی قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔[33]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ البَیْتَ، فَوَجَدَ فِیهِ صُورَةَ إِبْرَاهِیمَ، وَصُورَةَ مَرْیَمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تووہاں ابراہیم علیہ السلام اورمریم کے بت رکھے ہوئے دیکھے۔[34]

فَوَجَدَ فِیهَا حَمَامَةً مِنْ عِیدَانٍ، فَكَسَرَهَا بِیَدِهِ ، ثُمَّ أَمَرَ بِتِلْكَ الصُّوَرِ كُلِّهَا فَطُمِسَتْ

وہاں آپ نے لکڑی کی بنی ہوئی ایک کبوتری کی تصویربھی دیکھی جس کوآپ نے اپنے ہاتھ سے توڑ دیا اوربیت اللہ کے اندر موجود سب تصویروں کو مٹانے ،بیت اللہ کی چھت پرنصب ہبل اورتمام بتوں کوتوڑنے کاحکم دیا چنانچہ تمام بت مسجدسے باہرنکال کر توڑیاجلادیئے گئے اورتمام تصاویرمٹادی گئیں ۔[35]

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ زَمَنَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ أَنْ یَأْتِیَ الْكَعْبَةَ، فَیَمْحُوَ كُلَّ صُورَةٍ فِیهَا

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کوفتح مکہ کے موقع پرحکم فرمایاجبکہ آپ خودوادی بطحاء میں ٹھیرے ہوئے تھے کہ کعبہ میں جائیں اوراس میں موجود تمام تصاویرکومٹادیں ۔[36]

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اندرداخل ہوئے اورسب تصویروں کوکھرچ کر مٹادیا

وانجروا عَلَى زَمْزَمَ یغسلون الكعبة ظَهْرَهَا وبَطْنِهَا فلم یدعو أثرا مِنْ الْمُشْرِكِینَ إلا محوه وغَسَّلُوهُ

جب تمام تصویریں مٹادی گئیں توبیت اللہ کواندر اورباہر سےزمزم سے دھویاگیااور مشرکین کے سارے برے اثرات کو ختم اور دھوڈالاگیا۔[37]

اس موقع پرراشدبن عبدرب رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار پڑھے ۔

قَالَتْ هَلُمَّ إِلَى الْحَدِیثِ فَقُلْتُ لَا ، یَأْبَى عَلَیْكِ اللهُ وَالْإِسْلَامُ

محبوبہ نے کہااورمل کرباتیں کریں ،میں نے کہانہیں،اب تواللہ اوراسلام تمہارے پاس آنے سے روکتے ہیں

لَوْ قَدْ رَأَیْتِ مُحَمَّدًا وَقَبِیلَهُ ،بِالْفَتْحِ یَوْمَ تُكَسَّرُ الْأَصْنَامُ

اگراس دن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے قبیلہ کودیکھتی ،فتح مکہ کے موقعہ پرجب بتوں کوتوڑاجارہاتھا

لَرَأَیْتِ دِینَ اللهِ أَضْحَى بَیِّنًا،،وَالشِّرْكُ یَغْشَى وَجْهَهُ الْإِظْلَامُ

تودیکھتی کہ اللہ کے دین کانورتاباں ودرخشاں ہے  اورشرک کے چہرے پرسیاہی چھارہی ہے۔[38]

عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس نے بھی اس پر مسرت موقع پرایک پرزورقصیدہ کہا۔

بیت اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز :

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْبَیْتَ وَمَعَهُ أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ، وَبِلاَلٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، فَأَجَافُوا عَلَیْهِمِ الْبَابَ طَوِیلًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،بلال رضی اللہ عنہ ،اسامہ رضی اللہ عنہ بن زیداورعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ چاروں بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کادروازہ بند کر دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیرتک اندر ٹھیرے رہے۔[39]

ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ: أَخْبَرَنِی أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَیْتَ، دَعَا فِی نَوَاحِیهِ كُلِّهَا، وَلَمْ یُصَلِّ فِیهِ حَتَّى خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ فِی قُبُلِ الْبَیْتِ رَكْعَتَیْنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تواس کے سارے کونوں میں تکبیریں کہیں اور نمازنہیں پڑھی پھرباہرنکل کرخانہ کعبہ کے سامنے نماز(شکرانہ)پڑھی۔ [40]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،تَرَكَ عَمُودَیْنِ عَنْ یَمِینِهِ، وَعَمُودًا عَنْ یَسَارِهِ، وَثَلَاثَةَ أَعْمِدَةٍ خَلْفَهُ، ثُمَّ صَلَّى، وَبَیْنَهُ وَبَیْنَ الْقِبْلَةِ ثَلَاثَةُ أَذْرُعٍ، صَلَّى بَیْنَ الْعَمُودَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ،وَفِیهَا سِتُّ سَوَارٍ فَقَامَ عِنْدَ سَارِیَةٍ فَدَعَا

جبکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہےبلال رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے سامنے کی جانب دیوارکی جانب چلے جب تین ستون پیچھے رہ گئے اور دیوارسے تقریبا ًتین ہاتھ کافاصلہ رہ گیا تو وہیں رک گئے اس وقت دوستون آپ کے دائیں جانب تھےاورایک ستون بائیں جانب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں (یمنی) ستونوں کے درمیان کھڑے ہوکردورکعت نماز(شکرانہ) ادا فرمائی ،اس وقت بیت اللہ کی چھت چھ ستونوں پرتھی،نمازسے فارغ ہوکربیت اللہ میں گھومے اوراس کے تمام کونوں میں تکبیریں کہیں ،اللہ کی وحدانیت کااعلان کیاپھردروازہ کھول کرباہرنکلے ۔[41]

بیت اللہ میں نمازکے بعدخطبہ :

اس وقت مسجدالحرام لوگوں سے کچھاکھچ بھری ہوئی تھی ،اورسب لوگ بے تاب تھے کہ دشمنوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیاحکم فرماتے ہیں

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ،فَقَالَ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، أَلَا كُلُّ مَأْثُرَةٍ أَوْ دَمٍ أَوْ مَالٍ یُدَّعَى فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ إلَّا سَدَانَةَ الْبَیْتِ وَسِقَایَةَ الْحَاجِّ، أَلَا وَقَتِیلُ الْخَطَأِ شِبْهِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا، فَفِیهِ الدّیة مُغَلّظَة، مائَة مِنْ الْإِبِلِ، أَرْبَعُونَ مِنْهَا فِی بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا. یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِیَّةِ، وَتَعَظُّمَهَا بِالْآبَاءِ، النَّاسُ مِنْ آدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثى، وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ لِتَعارَفُوا، إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ 49: 13 … الْآیَةَ كُلَّهَا. ثُمَّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، مَاذَا تَقُولُونَ وَمَاذَا تَظُنّونَ؟نَقُولُ خَیْرًا وَنَظُنّ خَیْرًا، أَخٌ كَرِیمٌ وَابْنُ أَخٍ كَرِیمٍ، وَقَدْ قَدَرْت!فَقَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فإنی أَقُولُ كَمَا قَالَ أَخِی یُوسُفُ:قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ۰ۭ یَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ۰ۡوَهُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ، ثُمَّ قَالَ:اذْهَبُوا فأنتم الطلقاء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے دروازے پرکھڑے ہوئے ،دروازے کی چابی آپ کے ہاتھ میں تھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ ارشادفرمایااللہ کے سواکوئی معبودنہیں ، اس نے اپناوعدہ سچاکردکھایااپنے بندے کی مددفرمائی اوردشمنوں کی تمام جماعتوں کواس نے تنہاشکست دی ،آگاہ ہوجاؤ جوخصلت وعادت خواہ وہ جانی ہویامالی ہوجس کادعویٰ کیاجاسکے وہ سب میرے قدموں کے نیچے ہیں مگربیت اللہ کی دربانی اورحاجیوں کوزمزم کاپانی پلانے کااعزاز حسب دستورقائم رہے گا ،خبردار قتل خطا،شبہ عمدکی دیت ،جو کوڑے یالاٹھیوں کے ذریعہ ہو سواونٹ وصول کی جائے گی جس میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی،اے گروہ قریش!اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی نخوت وغروراورآباؤاجداد پرفخرکرنے کوباطل کردیاسب لوگ آدم سے ہیں اورآدم مٹی سے،اس کے بعدیہ آیت تلاوت فرمائی’’ لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہےیقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘پھر رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے نظراٹھائی توجبارین قریش سامنے تھے جواسلام کامٹانے کے پیش روتھے، وہ بھی تھےجن کی زبانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیاں برساتی تھیں ،وہ بھی تھےجنہوں نے اللہ کے رسول کے راستے میں کانٹے بچھائے تھےاوروہ ظالم بھی تھے جواپنی پیاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون سے بجھاناچاہتے تھے،اوروہ بھی جومسلمانوں کوجلتی رہت پرلٹاکران کے سینوں پرآتشیں مہریں لگایاکرتے تھے،مگرآج بے بس تھے ،سرجھکائے کھڑے تھے رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اوردرشت لہجہ میں پوچھااے گروہ قریش !تمہارامیری نسبت کیاخیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا،سہیل بن عمرو جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے فی البدیہہ کہا’’خیرہی کہتے ہیں اورخیرہی کاگمان رکھتے ہیں آپ شریف بھائی ہیں اورشریف بھائی کے بیٹے ہیں اورانتقام پرہرطرح قادرہیں ۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں تم سے وہی کہتاہوں جویوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘جاؤتم سب آزادہو۔[42]

عفوعام کے بعدچندخاص مجرموں کے بارے میں حکم:

رحمة العالمین،خاتم النبیین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہراس شخص کومعاف فرمادیاجومحسن عالم کا باغی تھاجس نے آپ کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے جنہوں نے آپ پرپتھربرسائے تھے جنہوں نے آپ کی ایڑیوں کولہولہان کردیاتھاجوآپکی دعوت کامذاق اڑاتے اور آپ کو (نعوذباللہ) شاعر،کاہن جادوگروغیرہ کے القاب سے نوازتے تھے ،ان میں وہ بھی تھے جوآپ کے جانثاروں کودین حق سے ہٹانے کے لئے تپتی ہوئی ریت پر لٹا کرچٹانوں سے دبادیتے تھے جوان کے نحیف وکمزورجسم کولوہے کی گرم سلاخوں سے داغتے تھےان میں وہ لوگ بھی تھے جن کی تلواروں نے مقابلہ کرنے کی گستاخیاں کی تھیں الغرض جو ہرممکن طریقہ سے دعوت اسلام کوروکنے کے لئے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے

إلَّا أَنَّهُ قَدْ عَهِدَ فِی نَفَرٍ سَمَّاهُمْ أَمَرَ بِقَتْلِهِمْ وَإِنْ وُجِدُوا تَحْتَ أَسْتَارِ الْكَعْبَةِ

مگرچنداشخاص کے بارے میں جوغایت درجہ گستاخ تھے ان کے بارے میں حکم ہواکہ جہاں کہیں ملیں قتل کردیئے جائیں خواہ وہ بیت اللہ کے پردوں میں چھپے ہوں ۔[43]

اللہ تعالیٰ کاایسے لوگوں کے بارے میں یہی حکم ہے۔

مَّلْعُوْنِیْنَ۝۰ۚۛ اَیْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِیْلًا۝۶۱ سُـنَّةَ اللهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلًا۝۶۲ [44]

ترجمہ:ان پرہرطرف سے لعنت کی بوچھاڑہوگی جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اوربری طرح مارے جائیں گے ،یہ اللہ کی سنت ہے جوایسے لوگوں کے معاملے میں چلی آرہی ہے اورتم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاوگے۔

مگربعدمیں ان میں سے اکثرنے اسلام قبول کرلیا۔ان کے نام یہ ہیں ۔

عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی سَرْحٍ،عَبْدُ اللهِ بْنُ خَطَلٍ،عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ،مِقْیَسُ بْنُ صُبَابَةَ،هَبَّارُ بْنُ الْأَسْوَدِ،الحَارِثِ بن نفیل،زُهَیْرِ بْنِ أَبِی أُمَیَّةَ،كَعْبُ بْنُ زُهَیْرٍ،صَفْوَان بن أُمیَّة،وَحْشِیُّ بْنُ حَرْبٍ،هِنْدَ بِنْتِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ،وَقَیْنَتَیْنِ لِأَبِی خَطَلٍ: قُرَیْنَا وَقُرَیْبَةَ، وَیُقَالُ: فَرْتَنَا وَأَرْنَبَةَ،وسارة مَوْلَاةٌ لِبَعْضِ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

۱۔عبداللہ بن ابی سرح بن حارث عامری(عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی)۲۔ عبداللہ بن خطل ۳۔عکرمہ بن ابی جہل۴۔ حارث بن نفیل۵۔مقیس بن صبابہ ۶۔ہباربن اسود بن مطلب۷۔کعب بن زہیربن ابی سلمی مزنی ۸۔حارث بن ہشام مخزومی (ابوجہل کے حقیقی بھائی) ۹۔ زہیربن ابی امیہ مخزومی (ام سلمہ کابھائی) ۱۰۔صفوان بن امیہ بن خلف۱۱۔ وحشی بن حرب (حمزہ بن عبدالمطلب کاقاتل)۱۳۔اورعورتوں میں ہندبن عتبہ (ابوسفیان کی بیوی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ) عبداللہ بن خطل کی دولونڈیاں فرتنا اور ارنبہ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوگایاکرتی تھیں ۔۱۴۔بنومطلب بن عبدمناف کی باندی۔

عبداللہ بن ابی سرح بن حارث عامری

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کے لئے سخت موذی تھا،اس نے پہلے اسلام قبول کرلیاتھامگرپھرمرتدہوکرمکہ مکرمہ واپس چلاگیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے لگا،اس لئے فتح مکہ کے دن ان کاخون بہانامباح قراردیاگیا،

 وإنما أمر صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بقتل عَبْدُ اللهِ بن أَبِی سَرْحٍ، لأنه كان أسلم قبل الفتح وكان یكتب لرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الوحی،وكان صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إذا أملى علیه سَمِیعًا بَصِیرًا كتب عَلِیمًا حَكِیمًا، وإذا أملى علیه حَكِیمًا كتب غَفُورًا رَحِیمًا سَمِیعًا بَصِیرًاوكان یفعل مثل هذه الخیانات حتى صدر عنه أنه قال: إن محمدا لا یعلم ما یقول ،فلما ظهرت خیانته لم یستطع أن یقیم بالمدینة فارْتَدَّ وهرب إِلَى مَكَّةَ

سیرت حلبیہ میں مذکورہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کاحکم اس لئے دیاتھاکہ وہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لے آئے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل وحی لکھاکرتے تھے،مگران کاحال یہ تھاکہ جب انہیں سَمِیعًا بَصِیرًا لکھواتے تواس کے بجائے یہ عَلِیمًا حَكِیمًا لکھ دیتے تھے اور جب آپ عَلِیمًا حَكِیمًا لکھواتے تو غَفُورًا رَحِیمًا لکھ دیتے تھےیہ اسی طرح کی خیانتیں کیاکرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیاکہ(نعوذباللہ) محمدخودنہیں جانتے کہ وہ کیافرمارہے ہیں ،جب اس کی خیانت ظاہرہوگئی تویہ مرتدہوکرمکہ فرار ہوگیا۔

وقیل إنه لما كتب:وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۱۲ۚثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۱۳۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ،تعجب من تفصیل خلق الإنسان فنطق بقوله: فَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ قبل إملائه، فقال له رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اكتب ذلك، هكذا أنزلت، فقال عبد الله: إن محمد نبیا یوحى إلیه فأنا نبی یوحى إلیّ، فارتد ولحق بمكة،فقال لِقُرَیْشٍ:إنی كنت أصرف مُحَمَّدًا كَیْفَ شِئْتَ كان یُمْلِی عَلَیْهِ عَزِیزٌ حَكِیمٌ. فأقول أو عَلِیمٌ حَكِیمٌ، فیقول نعم كل صواب، وكل ما أقوله یقول اكتب، هكذا نزلت

ایک روایت میں یہ بھی ہےجب اس شخص نے یہ آیت لکھی ’’ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ،پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا ،پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا ، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔‘‘تویہ انسانی تخلیق کی تفصیل سے متعجب ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھوانے سے قبل ہی برجستہ بول اٹھا’’ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر ۔ ‘‘پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہی لکھ دوکیونکہ آیت کایہ جملہ اسی طرح نازل ہواہے،اس پراس نے کہااگرمحمدنبی ہوتے تویہ آیت ان پرنازل ہوتی لیکن نبی میں ہوں کیونکہ یہ آیت میرے قلب پر القا ہوئی ہے،اس کے بعدمرتدہوکرمکہ مکرمہ چلاگیایہاں آکرقریش سے کہاکہ میں جس طرح چاہتا تھا محمد کو پھیر دیتا تھا،اس طرح کہ وہ مجھ سے عَزِیزٌ حَكِیمٌ لکھواتے تومیں کہتاعَلِیمٌ حَكِیمٌ لکھ دوں آپ فرماتے ہاں دونوں کلمے درست ہیں اورجوکچھ میری زبان سے نکل جاتاآپ بھی فرماتے ہاں یہی لکھ دوایسے ہی نازل ہواہے۔

فلما كان یَوْمَ الْفَتْحِ وعلم بإهدار النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دمه لجأ إلى عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أخیه مِنْ الرّضَاعَةِ، فقال له: یا أخی استأمن لی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قبل أن یضْرب عنقِی،فغیبه عثمان رَضِیَ اللهُ عَنْهُ حتى هدأ الناس واطمأنوا، فاستأمن له، ثم أتى به إلى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَم، فأعرض عنه النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فصار عثمان رَضِیَ اللهُ عَنْهُ یقول: یَا رَسُولَ اللهِ أمنته، والنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یعرض عنه، ثم قال: نعم، فبسط یده فبایعه

جب مکہ فتح ہوااور انہیں اس بات کاعلم ہواتواپنے رضاعی بھائی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاکرپناہ لے لی اورکہااے میرے بھائی !اس سے قبل کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گردن مادریں آپ میرے لئے ان سے امن حاصل کرلیں ،چنانچہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے انہیں کچھ دنوں کے لئے چھپالیا،جب حالات کچھ پرسکون ہوئے اورلوگ اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوگئے توانہیں لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے انہیں پناہ دی ہے پس آپ ان سے بیعت کرلیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اسے ٹال دیا مگر پھراپنی انگلیوں سے بیعت لے لی۔[45]

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:وَقَالَ: أَمَا كَانَ فِیكُمْ رَجُلٌ رُشَیْدٌ یَنْظُرُ إِذْ رَآنِی قَدْ كَفَفْتُ یَدِی عَنْ بَیْعَتِهِ فَیَقْتُلُهُ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ لَوْ أَوْمَأْتَ إِلَیْنَا بِعَیْنَیْكِ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَا یَنْبَغِی لِنَبِیٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الْأَعْیُنِ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اتناسمجھ دار نہ تھاکہ میں نے جونہی اس کی بیعت سے ہاتھ روکاآگے بڑھ کراس کاکام تمام کر دیتا ، اس پرصحابہ رضی اللہ عنہم نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرایساہی تھاتوپھرآنکھ سے ہمیں اشارہ ہی کردیتے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نبی کی یہ شان نہیں کہ اس کی آنکھیں خیانت کرنے والی ہوں ۔[46]

بعدمیں یہ مخلص مسلمان ثابت ہوئے اوراسلام پربہت اچھی طرح عمل پیرارہے،خلیفہ دوم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورخلیفہ سوم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مصر وغیرہ کے والی اورحاکم رہے ،خلیفہ سوئم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت۲۷ہجری یا۲۸ہجری میں افریقہ کی فتح کاسہراانہیں کے سر رہا اور مال غنیمت میں ایک ایک شخص کے حصہ میں تین ہزاردینارآئے تھے،

قال: لما كان عِنْد الصُّبْح، قال ابْنُ أَبِی سَرْحٍ: اللهم اجعل آخر عملی الصُّبْح فتوضأ، ثم صلى فسلم عن یمینه، ثم ذهب یسلم عن یساره، فقبض الله روحه رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

امیرمعاویہ کے عہدخلافت میں ایک روزصبح کواٹھے اوردعامانگی اے اللہ میراآخری عمل صبح کے وقت ہو پھر وضوکیا اور نماز پڑھائی ، نماز ختم کرتے وقت دائیں جانب سلام پھیرکربائیں جانب سلام پھیرناہی چاہتے تھے کہ روح عالم بالاکوپروازکرگئی۔[47]

 عبداللہ بن خطل

قُلْتُ: وَیُقَالُ إِنَّ اسْمَهُ عَبْدُ الْعُزَّى بْنُ خَطَلٍ اوران کانام عبدالعزیٰ بن خطل تھافَإِنَّمَا أَمَرَ بِقَتْلِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ مُسْلِمًاثُمَّ لَمَّا أَسْلَمَ سُمِّیَ عَبْدَ اللهِ،فَبَعَثَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُصْدَقًا، وَبَعَثَ مَعَهُ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ، وَكَانَ مَعَهُ مَوْلًى لَهُمْ یَخْدِمُهُ، وَكَانَ مُسْلِمًافَنَزَلَ مَنْزِلا، وَأَمَرَ الْمَوْلَى أَنْ یَذْبَحَ لَهُ تَیْسًا فَیَصْنَعُ لَهُ طَعَامًا،فَنَامَ،فَاسْتَیْقَظَ ابْنُ خَطْلٍ وَلَمْ یَصْنَعْ لَهُ شَیْئًا، فَعَدَا عَلَیْهِ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ ارْتَدَّ مُشْرِكًاوَكَانَتْ لَهْ قَیْنَتَانِ: فَرْتَنَا وَقُرَیْبَةُ، وَكَانَتَا تُغَنِّیَانِ بِهِجَاءِرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

یہ ایک شاعرتھےاس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ فتح مکہ سے پہلے اس نے اسلام قبول کرلیاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام عبدالعزیٰ سے بدل کرعبداللہ رکھ دیا اورانہیں صدقات وصول کرنے کوبھیجااورایک انصاری کوبھی ان کی خدمت کے لئے ان کے ہمراہ کردیااور ایک غلام کو بھی اس کی خدمت کیلئے بھیجا،راستے میں ایک جگہ انہوں نے پڑاؤکیااورانصاری کوبکراذبح کرکے کھانا تیار کرنے کاحکم دے کرسوگئے،جب یہ بیدارہوئے اوردیکھاکہ انصاری نے کھاناتیارنہیں کیاہے بلکہ وہ بھی سوگیاہے توانہیں شدیدغصہ چڑھ گیااورغصہ سے مغلوب ہوکر انصاری ساتھی کوقتل کردیااورمرتدہوگیااس کے بعدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجومیں اشعارکہنے لگا،اس کی دوباندیاں فرتنااورقریبہ ان اشعارکوگایاکرتی تھیں ۔[48]

فتح مکہ کے روزاس نے زرہ پہنی، نیزہ ہاتھ میں لیااور گھوڑے پرسوارہوکرقوم کھائی کہ وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوبزورطاقت مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہونے دے گالیکن مجاہدین کے سواردستوں کودیکھ کرخوف زدہ ہو گیا اورکعبہ میں ہتھیارپھینک کراس کے پردوں سے چمٹ گیاکیونکہ کعبہ کسی گنہگارکوپناہ نہیں دیتااورنہ حدقائم کرنے سے روکتاہے اس لئے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ یازبیربن العوام رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا

وَأَمَّا قَیْنَتَا ابْنِ خَطَلٍ فَقُتِلَتْ إحْدَاهُمَا، وَهَرَبَتْ الْأُخْرَى، حَتَّى اُسْتُؤْمِنَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ، فَأَمَّنَهَا

اس کی دولونڈیوں میں ایک قریبہ کوقتل کردیاگیااوردوسری فرتنا بھاگ گئی ،لیکن فرتناکے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان کی درخواست کی گئی جسے آپ نے امان دے دی پس اس نے اسلام قبول کرلیااور خلیفہ سوئم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورتک زندہ رہی۔

عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل

أنه ركب البحر فأصابتهم ریح عاصف فنادى عِكْرِمَةُ: اللاتَ وَالْعُزَّى، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِینَةِ أَخْلِصُوا فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِی عَنْكُمْ شَیْئًا هَاهُنَافَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللهِ لَئِنْ لَمْ یُنَجِّنِی فِی الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ مَا یُنَجِّینِی فِی الْبَرِّ غَیْرُهُ، اللهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَیَّ عَهْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَیْتَنِی مِمَّا أَنَا فِیهِ أَنْ آتِیَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ یَدِی فِی یَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِیمًا

یہ خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے چچازادبھائی اوراپنے والدکی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں سب سے زیادہ شدیدتھےجب انہیں خبرملی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاخون مباح کردیاہے تویہ مکہ مکرمہ سے فرارہوکرساحل پرپہنچے اوریمن جانے کے لئے ایک کشتی میں سوارہوگئےمگراللہ کی قدرت کہ کشتی ابھی کچھ ہی دورگئی تھی کہ تندوتیزہواؤں نے کشتی کوگھیرلیاجس سے کشتی ڈوبنے لگی اورمسافروں کواپنی جان کے لالے پڑگئے ،اس خطرناک موقعہ پردوسرے مسافروں کی طرح عکرمہ نے بھی اپنے معبودلات وعزیٰ کومددکے لئے پکارا،مگرکشتی کے ملاحوں نے کہااس وقت لات وعزیٰ کچھ کام نہ دیں گے ،ایک اللہ کوپکارووہی ہمیں اس طوفان سے نکال سکتاہے،اسی وقت عکرمہ کے دل میں خیال پیداہواکہ اگردریامیں اللہ کے علاوہ کوئی مدد نہیں کرسکتاتوخشکی میں بھی اللہ کے سواکوئی مددگاراورحاجت روانہیں ہوسکتااسی وقت اپنے دل میں پکاعہدکرلیااے اللہ !میں تجھ سے پکاعہدکرتاہوں کہ اگرتو نے اس مصیبت سے نجات دے دی تومیں ضرورمحمدرسول اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گااوریقیناًان کوبڑامعاف کرنے والا اور درگزر کرنے والاپاؤں گا ۔[49]

ثُمّ قَالَتْ أُمّ حَكِیمٍ امْرَأَةُ عِكْرِمَةَ بْنِ أَبِی جَهْلٍ:یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ هَرَبَ عِكْرِمَةُ مِنْك إلَى الْیَمَنِ، وَخَافَ أَنْ تَقْتُلَهُ فَأَمّنْهُ،هُوَ آمِنٌ،فَخَرَجَتْ أُمّ حَكِیمٍ فِی طَلَبِهِ وَمَعَهَا غُلَامٌ لَهَا رُومِی، وَأَدْرَكَتْ عِكْرِمَةَ،وَتَقُولُ: یَا ابْنَ عَمّ، جِئْتُك مِنْ عِنْدِ أَوْصَلِ النّاسِ وَأَبَرّ النّاسِ وَخَیْرِ النّاسِ، لَا تُهْلِكْ نَفْسَك. فَوَقَفَ لَهَا حَتّى أَدْرَكَتْهُ فَقَالَتْ: إنّی قَدْ اسْتَأْمَنْت لَك مُحَمّدًا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: أَنْتِ فَعَلْت؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَنَا كَلّمْته فَأَمّنَك ،قَالَ:وَجَعَلَ عِكْرِمَةُ یَطْلُبُ امْرَأَتَهُ یُجَامِعَهَا، فَتَأْبَى عَلَیْهِ،وَتَقُولُ: إنّك كَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمَةٌ،فَیَقُولُ: إنّ أَمْرًا مَنَعَك مِنّی لَأَمْرٌ كَبِیرٌ

دوسری طرف ان کی اہلیہ ام حکیم رضی اللہ عنہا بنت حارث بن ہشام جواس سے پہلے اسلام لے آئی تھیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عکرمہ یمن کی طرف بھاگ گیاہےاسے خوف ہے کہ اسے قتل کردیاجائے گا آپ اسے امان دے دیں ،رحمة العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جوعفوودرگزکرناپسندفرماتے تھے نے امان کی استدعاقبول فرمالی اورفرمایاوہ امان میں ہے،چنانچہ ام حکیم رضی اللہ عنہا ایک رومی غلام کے ساتھ اپنے خاوندکو تلاش کرنے نکلیں ، اورعکرمہ کو پالیااوراپنے خاوندسے کہااے ابن عم !میں سب سے زیادہ نیکوکاراورسب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اورسب سے بہترشخص کے پاس سے آئی ہوں تواپنے آپ کوہلاکت میں مت ڈالومیں نے تیرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان حاصل کرلی ہے ،یہ سن کر عکرمہ بن ابی جہل اپنی اہلیہ ام حکیم رضی اللہ عنہا کے ہمراہ ہوگئے،عکرمہ نے راستہ میں اپنی اہلیہ کے قریب ہوناچاہاتوام حکیم رضی اللہ عنہا نے اس سے اجتناب کیااورکہا میں مسلمان ہوں اورتوابھی تک اپنے شرک پرقائم ہے میں تمہارے ساتھ کس طرح ازواجی تعلق رکھ سکتی ہوں ،عکرمہ نے کہاکس بڑی شئے نے تجھے ایساکرنے سے روکاہے اورمکہ مکرمہ کا قصدکیا

فَلَمّا دَنَا مِنْ مَكّةَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: یَأْتِیكُمْ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا، فَلَا تَسُبّوا أَبَاهُ ، فَإِنّ سَبّ الْمَیّتِ یُؤْذِی الْحَیّ وَلَا یَبْلُغُ الْمَیّت،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ کے مکہ پہنچنے سے بیشترہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومخاطب ہوکرفرمایاعکرمہ مسلمان ہوکرآرہا ہے لہذااس کے باپ کوبرامت کہنا مردہ کوبراکہنے سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے۔[50]

فَلَمّا رَأَى النبىّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِكْرِمَةَ وَثَبَ إلَیْهِ وَمَا عَلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رِدَاءٌ- فَرَحًا بِعِكْرِمَةَ

جب عکرمہ پرنظرپڑتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انورپربشاشت پھیل گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاًاٹھ کھڑے ہوئے اوران کی طرف اتنی تیزی سے بڑھے کہ ردائے مبارک دوش اقدس سے گرگئی پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت گرمجوشی سے ان کوگلے لگالیا۔

فلما رآه قال مرحبا بالراكب المهاجرمرحبا بالراكب المهاجر

ایک روایت میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھاتو فرمایا خوش آمدیداے پردیسی سوارخوش آمدیداے پردیسی سوار۔[51]

ثُمّ جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ بَیْنَ یَدَیْهِ، وَزَوْجَتُهُ مُنْتَقِبَةٌ، فَقَالَ: یَا مُحَمّدُ إنّ هَذِهِ أَخْبَرَتْنِی أَنّك أَمّنْتنِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صدقت، فَأَنْتَ آمِنٌ! فَقَالَ عِكْرِمَةُ: فَإِلَى مَا تَدْعُو یَا مُحَمّدُ؟قَالَ: أَدْعُوك إلَى أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إلَهَ إلّا الله وأنی رسول اللهِ، وَأَنْ تُقِیمَ الصّلَاةَ، وَتُؤْتِیَ الزّكَاةَ وَتَفْعَلَ، وَتَفْعَلَ، حَتّى عَدّ خِصَالَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاَللهِ مَا دَعَوْت إلّا إلَى الْحَقّ وَأَمْرٍ حَسَنٍ جَمِیلٍ، قَدْ كُنْت وَاَللهِ فِینَا قَبْلَ أَنْ تَدْعُوَ إلَى مَا دَعَوْت إلَیْهِ وَأَنْتَ أَصْدَقُنَا حَدِیثًا وَأَبَرّنَا بِرّا

پھرعکرمہ بن ابی جہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکرکھڑے ہوگئے ان کی اہلیہ بھی اپنے چہرے پرنقاب ڈالے آکرساتھ کھڑی ہوگئی،عکرمہ نے عرض کیااے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )میری بیوی موجودہے اس نے مجھے خبردی ہے کہ آپ نے مجھے امان بخش دی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے سچ کہاتجھے امان ہے،عکرمہ نے کہااے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہیں ؟آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایااس بات کی شہادت کہ اللہ ایک ہے اس کے سواکوئی اورمعبودنہیں اورمیں اللہ کارسول ہوں ، نمازقائم کرو ، زکواة اداکرواوراس کے علاوہ اسلام کی چنداورباتوں کی تلقین فرمائی،یہ سن کرعکرمہ نے کہااللہ کی قسم!بیشک آپ نے خیراورمستحسن کاموں کی طرف دعوت دی ہے اوراس دعوت حق سے پہلے بھی آپ ہم میں سب سے زیادہ سچے اورنیکوکارتھے،

ثُمّ قَالَ عِكْرِمَةُ: فَإِنّی أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنّ مُحَمّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،فَسُرّ بِذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَقُولُ: أُشْهِدُ اللهَ وَأُشْهِدُ مَنْ حَضَرَ أَنّی مُسْلِمٌ مُهَاجِرٌ مُجَاهِدٌ

پھرعکرمہ نے کہامیں گواہی دیتاہوں ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ محمداللہ کے بندے اوررسول ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عکرمہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے خوش ہوئےکلمہ شہادت پڑھنے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہومیں اللہ کواورتمام حاضریں کوگواہ بناتاہوں کہ میں مسلمان اور مجاہداور مہاجر ہوں ۔ [52]

فَقَالَ عِكْرِمَةُ: فَإِنّی أَسْأَلُك أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِی كُلّ عَدَاوَةٍ عَادَیْتُكَهَا، أَوْ مَسِیرٍ وَضَعْت فِیهِ، أَوْ مَقَامٍ لَقِیتُك فِیهِ، أَوْ كَلَامٍ قُلْته فِی وَجْهِك أَوْ وَأَنْتَ غَائِبٌ عَنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمّ اغْفِرْ لَهُ كُلّ عَدَاوَةٍ عَادَانِیهَا، وَكُلّ مَسِیرٍ سَارَ فِیهِ إلَى مَوْضِعٍ یُرِیدُ بِذَلِكَ الْمَسِیرِ إطْفَاءَ نُورِك، فَاغْفِرْ لَهُ مَا نَالَ مِنّی مِنْ عِرْضٍ، فِی وَجْهِی أَوْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهُ!

عکرمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری درخواست ہے کہ آپ میری تمام عداوتوں اوران تمام مقامات پرجومیں آپ کے مدمقابل ہوااورہروہ کلام جومیں نے آپ کی شان اقدس میں کہے اللہ تعالیٰ سے میرے لئے استغفارفرمائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ!عکرمہ رضی اللہ عنہ کی تمام عداوتوں اور ان تمام معارک وغزوات میں جو آپ کے مد مقابل آیا کہ آپ کو تگ ودو وکاوشوں کو بجھانے کے سرگرم رہا اور ہر وہ بات جو میں نے آپ کی موجودگی وعدم موجودگی میں آپ کی توہین میں کہ کہی درگزر فرمادے،

فَقَالَ عِكْرِمَةُ: رَضِیت یَا رَسُولَ اللهِ،ثُمّ قَالَ عِكْرِمَةُ: أَمَا وَاَللهِ یَا رَسُولَ اللهِ، لَا أَدَعُ نَفَقَةً كُنْت أُنْفِقُهَا فِی صَدّ [عَنْ] سَبِیلِ اللهِ إلّا أَنْفَقْت ضِعْفَهَا فِی سَبِیلِ اللهِ، وَلَا قِتَالًا كُنْت أُقَاتِلُ فِی صَدّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إلّا أَبْلَیْت ضِعْفَهُ فِی سَبِیلِ اللهِ. ثُمّ اجْتَهَدَ فِی الْقِتَالِ حَتّى قُتِلَ شَهِیدًا

عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں راضی ہوگیا،عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم ! میں نے لوگوں کواللہ کی راہ سے روکنے کے لئے جوخرچ کیاتھااب میں لوگوں کواللہ کی طرف بلانے کے لئے دوگناخرچ کروں گااورجس جس مقام پرلوگوں کواللہ کی راہ سے روکاہے اس اس مقام پرجاکرلوگوں کواللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دوں گااورجس قدرقتال اللہ اوراس کے رسول کے خلاف کیاتھااب اس سے دوچندقتال اللہ عزوجل کی راہ میں کروں گایہاں تک کہ شہید ہو جاؤں ۔[53]

كان عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِی جَهْلٍ إذا نشر الْمُصْحَفَ غشى علیه ویقول هو كَلَامَ رَبِّی هو كلام ربی

اس کے بعدان کا شمار اکابر صحابہ میں ہونے لگا عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کے مسلمان ہونے کے بعدیہ حالت تھی کہ جب تلاوت قرآن کے لئے بیٹھتے اورکلام الہی کوکھولتے توروتے اور غشی کی سی کیفیت ہوتی اورباربارکہتے یہ میرے رب کاکلام ہے،یہ میرے پروردگارکاکلام ہے۔[54]

الغرض انہوں نے اپنی باقی زندگی اللہ اوراس کے رسول کے دشمنوں سے جہادوقتال میں گزاری اور جنگ یرموک میں شہید ہوئے،اس وقت ان کے جسم پرتلواروں اورتیروں کے سترسے زیادہ زخم تھے ۔

حویرث بن نفیل

فَإِنّهُ كَانَ یُؤْذِی النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ دَمَهُ،فَبَیْنَا هُوَ فِی مَنْزِلِهِ یَوْمَ الْفَتْحِ قَدْ أَغْلَقَ بَابَهُ عَلَیْهِ، وَأَقْبَلَ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ یَسْأَلُ عَنْهُ،فَقِیلَ هُوَ فِی الْبَادِیَةِ،فَأُخْبِرَ الْحُوَیْرِثُ أَنّهُ یُطْلَبُ، وَتَنَحّى عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ عَنْ بَابِهِ، فَخَرَجَ الْحُوَیْرِثُ یُرِیدُ أَنْ یَهْرُبَ مِنْ بَیْتٍ إلَى بَیْتٍ آخَرَ، فَتَلَقّاهُ عَلِیّ فَضَرَبَ عُنُقَهُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں لوگوں کودعوت اسلام دیتے پھرتے تھے اس وقت یہ آپ کی شان میں بڑی گستاخانہ باتیں کرتااورہجومیں اشعار کہتا تھاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی توان کے اونٹ کولکڑی چبھو کر بھڑکانے میں یہ بھی ہباربن اسودکاشریک کارتھا،فتح مکہ کے موقع پریہ اپنے گھر میں دروازہ بندکرکے بیٹھا ہواتھااس کے قتل کافرمان سن کر سیدناعلی رضی اللہ عنہ اس کے گھرآئے اوراس کے بارے میں پوچھا اس کے گھروالوں نے کہاوہ مکہ مکرمہ سے باہرچلاگیاہے ،جب حویرث بن نفیل کوعلم ہواکہ وہ قتل کے لئے مطلوب ہے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ اس مقصدکے لئے اس کے گھرپرآئے تھےتوحویرث نے کوشش کی کہ اپنے گھرسے بھاگ کرکہیں چلاجائے مگرسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے اسے قتل کردیا۔[55]

مقیس بن صبابہ

وَكَانَ الْأَنْصَارِیُّ قَتَلَ أَخَاهُ هِشَامًا خَطَأًوَقَدِمَ مِقْیَسُ بْنُ صُبَابَةَ مِنْ مَكَّةَ مُسْلِمًا، فِیمَا یَظْهَرُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُكَ مُسْلِمًا، وَجِئْتُكَ أَطُلُبُ دِیَةَ أَخِی، قُتِلَ خَطَأًفَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِدِیَةِ أَخِیهِ هِشَامِ بْنِ صُبَابَةَ،أَخَذَ الدِّیَةَ، ثُمَّ عَدَا عَلَى قَاتِلِ أَخِیهِ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إلَى مَكَّةَ مُرْتَدًّاقَتَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ یُقَالُ لَهُ نُمَیْلَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ

ایک انصاری نے غزوہ ذی قردمیں اس کے بھائی ہشام بن صبابہ کودشمن کاآدمی سمجھ کرغلطی سے قتل کردیاتھامقیس بن صبابہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آیااوراسلام قبول کرلیااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے میرے بھائی دیت اداکی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ اس کے بھائی ہشام بن صبابہ کی دیت اداکردی جائے، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کی دیت وصول کرلی، پھر اس انصاری کوقتل کردیاجس نے اس کے بھائی کوقتل کیاتھا اور مرتد ہوکرمکہ واپس چلاگیا،اس نے اس سلسلہ میں کچھ اشعاربھی کہے،چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر اسی کی قوم کے ایک شخص نمیلہ بن عبداللہ لیثی نے اسے جب وہ بازارجارہاتھا قتل کردیا۔[56]

ہبار رضی اللہ عنہ بن اسود بن مطلب

وَأَمَّا هَبَّارٌ فَكَانَ شَدِیدَ الْأَذَى لِلْمُسْلِمِینَ،فَهُوَ الَّذِی عَرَضَ لِزَیْنَبَ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا هَاجَرَتْ،فَنَخَسَ بَعِیرَهَا حَتَّى سَقَطَتْ عَلَى صَخْرَةٍ وَأَسْقَطَتْ جَنِینَهَا,وَلَمْ یَزَلْ ذَلِكَ الْمَرَضُ بِهَا حَتَّى مَاتَتْ

یہ آدمی بھی مسلمانوں کی ایذارسانی میں شدیدتھا جب زینب رضی اللہ عنہ بنت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے جارہی تھیں تویہ راستہ میں آڑے آیااوران کے سواری کے اونٹ کولکڑی مار کر بدکایا جس سے زینب رضی اللہ عنہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پرسے ایک چٹان پرگرپڑیں جس سے ان کاحمل ساقط ہوگیااوروہ بیماررہنے لگیں یہاں تک کہ اسی تکلیف سے رحلت فرمائی ۔[57]

فَلَمْ یُقْدَرْ عَلَیْهِ یَوْمَ الْفَتْحِ،قَالَ: كُنْت جَالِسًا مَعَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَصْحَابِهِ فِی مَسْجِدِهِ، مُنْصَرَفَهُ مِنْ الْجِعِرّانَةِ، فَطَلَعَ هَبّارُ بْنُ الْأَسْوَدِ مِنْ بَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فلما نَظَرَ الْقَوْمُ إلَیْهِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، هبّار ابن الْأَسْوَدِ! قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ رَأَیْته، فَأَرَادَ بَعْضُ الْقَوْمِ الْقِیَامَ إلَیْهِ، فَأَشَارَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ اجْلِسْ،وَوَقَفَ عَلَیْهِ هَبّارٌ فَقَالَ: السّلَامُ عَلَیْك یَا رَسُولَ اللهِ، إنّی أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ وَأَنّك رَسُولُ اللهِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ عَفَوْت عَنْك

فتح مکہ کے روزیہ وہاں سے فرارہوگیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں تشریف فرماتھے تویہ خدمت اقدس میں حاضرہوکرکھڑاہوگیا،جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے دیکھاتو عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہباربن اسودہے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے دیکھ لیاہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے ہبارکی طرف اٹھنے کاارادہ کیاتوآپ نے انہیں بیٹھ جانے کااشارہ فرمایا، تھوڑی دیرکے بعدہباربن اسودنے عرض کیا اے اللہ کے نبی آپ پرسلام ہواورپھراپنی غلطی کا اعتراف کرکے کلمہ شہادت پڑھ کراسلام قبول کرلیا باوجودیکہ یہ شخص آپ کی صاحبزادی کی موت کاسبب بناتھالیکن نبی رحمت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دشمن کوبھی معاف فرمادیا۔[58]

حارث بن ہشام مخزومی (ابوجہل کے حقیقی بھائی)

یہ آدمی اوراس کابیٹاعبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں شدیدگستاخی کرتے رہتے تھے۔

حارث رضی اللہ عنہ بن ہشام اورزبیربن ابی امیہ

أَنَّ أمّ هَانِئ بنت أَبِی طَالِبٍ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَى مَكَّةَ، فَرَّ إلَیَّ رَجُلَانِ مِنْ أَحْمَائِی، مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ، وَكَانَتْ عِنْدَ هُبَیْرَةَ بْنِ أَبِی وَهْبٍ الْمَخْزُومِیِّ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَیَّ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخِی، فَقَالَ: وَاَللَّهِ لَأَقْتُلَنَّهُمَا فَأَغْلَقْتُ عَلَیْهِمَا بَابَ بَیْتِی، ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِأَعْلَى مَكَّةَ، فلما رآنی، قال: مرحبا وأهلا بأم هانئ مَا جَاءَ بِكِ؟ فأخبرته خبر الرجلین وخبر علی، فَقَالَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ،زاد فی روایة ابن إسحاق:وأمنا من أمنت فلا یقتلهما

سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام ہانی بنت ابی طالب کہتی ہیں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بلندجانب سے رونق افروزہوئے(اور انہیں علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کاحکم فرمایاہے) توحارث بن ہشام اورزبیربن ابی امیہ مخزومی پناہ کی تلاش میں بھاگ کرمیرے گھر میں آئےاوران کے پیچھے پیچھے میرے بھائی سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی تلوار لئے ہوئے آئے اورکہامیں ان کوضرورقتل کروں گا، ام ہانی کہتی ہیں یہ دونوں شخص میرے خاوندہبیرہ بن ابی وہب کے رشتے دارتھے میں نے ان کوگھرکے ایک کمرے میں بند کر دیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی کو دیکھاتوانہیں خوش آمدیدکہااورپوچھاکیسے آناہوا؟ ام ہانی نے ان دونوں آدمیوں کاپناہ کے لئے آنے اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ کاانہیں قتل کرنےکے ارادہ کے بارے میں بتلایا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے ام ہانی نے پناہ دی ہے اسے ہم نے بھی پناہ دی اور جس کوہم نے امان دی تم نے بھی اسے امان دی ، ابن اسحاق میں اتنازیادہ ہے کہ تب وہ ان دونوں مجرموں کولے کرحاضرخدمت ہوئیں اوران دونوں نے اسلام قبول کرلیا اورانہیں قتل نہیں کیاگیا،پھران کااسلامی کردارمثالی اور بہترین رہا۔[59]

صفوان بن امیہ بن خلف

یہ سرداران قریش میں سے تھے اورجودوسخامیں مشہورتھے ،یہ حالت کفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت رکھنے اورآپ کی ایذارسانی میں دوسروں سے بہت سخت تھے،ان کاباپ امیہ بن خلف غزوہ بدرمیں ماراگیاتھااپنے قتل کاحکم سن کرجدہ بھاگ گیا

فَقَالُ عُمَیْرُ بْنُ وَهْبٍ: یَا نَبِیَّ اللهِ إنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّةَ سَیِّدُ قَوْمِهِ، وَقَدْ خَرَجَ هَارِبًا مِنْكَ، لِیَقْذِفَ نَفْسَهُ فِی الْبَحْرِ، فَأَمِّنْهُ، صَلَّى اللهُ عَلَیْكَ،قَالَ: هُوَ آمِنٌ،قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، فَأَعْطِنِی آیَةً یَعْرِفُ بِهَا أَمَانَكَ،فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِمَامَتَهُ الَّتِی دَخَلَ فِیهَا مَكَّة،فَخَرَجَ بِهَا عُمَیْرٌ حَتَّى أَدْرَكَهُ، وَهُوَ یُرِیدُ أَنْ یَرْكَبَ فِی الْبَحْرِ

جب ان کے چچازادبھائی عمیربن وہب حاضرخدمت ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !صفوان اپنی قوم کے سردارہیں اوروہ یہاں سے بھاگ کرخودکشی کے ارادے سے سمندرکی طرف چل پڑے ہیں آپ سے درخواست ہے کہ آپ انہیں امان عطافرمادیں کیونکہ آپ نے ہرسرخ فام وسیاہ فام کو امان عطافرمادی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاکراپنے بھائی کوتلاش کرکے لے آؤمیں نے انہیں امان دی،انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دیں جسے دیکھ کروہ آپ کی امان کی تصدیق کرسکیں کیونکہ میں نے ان سے واپسی کی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے کہامیں تمہارے ساتھ واپس نہیں آؤں گاجب تک تم کوئی ایسی نشانی نہ لاؤجسے میں پہچان سکوں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپناوہ عمامہ عطافرمادیاجسے باندھے ہوئے آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے،یہ اسے لیکر بھائی کے پاس عین اس وقت پہنچے جب وہ سمندرمیں جہازپرسوارہونے والے تھے،

قَالَ: وَیْحَكَ! اُغْرُبْ عَنِّی فَلَا تُكَلِّمْنِی،قَالَ:أَیْ صَفْوَانُ، فِدَاكَ أَبِی وَأُمِّی، أَفْضَلُ النَّاسِ، وَأَبَرُّ النَّاسِ، وَأَحْلَمُ النَّاسِ، وَخَیْرُ النَّاسِ، ابْنُ عَمِّكَ، عِزُّهُ عِزُّكَ، وَشَرَفُهُ شَرَفُكَ، وَمُلْكُهُ مُلْكُكَ،قَالَ:إنِّی أَخَافُهُ عَلَى نَفْسِی، قَالَ: هُوَ أَحْلَمُ مِنْ ذَاكَ وَأَكْرَمُ،فَرَجَعَ مَعَهُ،حَتَّى وَقَفَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَفْوَانُ: إنَّ هَذَا یَزْعُمُ أَنَّكَ قَدْ أَمَّنْتَنِی، قَالَ: صَدَقَ،قَالَ: فَاجْعَلْنِی فِیهِ بِالْخِیَارِ شَهْرَیْنِ،قَالَ: أَنْتَ بِالْخِیَارِ فِیهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ

انہیں دیکھ کرصفوان بن امیہ نے کہامجھ سے دوررہو،مجھ سے بات نہ کرو،عمیربن وہب رضی اللہ عنہ نے کہا اے صفوان!تم پرمیرے والدین فداہوں میں اس ہستی کے پاس سے تمہارے پاس آیاہوں جوتمام بنی نوع بشرمیں افضل،سب سے زیادہ حسن سلوک کرنے والی،سب سے زیادہ نرم دل اورسب سے بہترہستی ہیں اوروہ تمہارے چچازادبھائی بھی ہیں ،ان کی عزت تمہاری عزت ،ان کاشرف تمہارا شرف اوران کی حکومت خود تمہاری حکومت ہے، صفوان بن امیہ نے کہامجھے ان سے اپنی جان کااندیشہ ہے،عمیربن وہب رضی اللہ عنہ نے کہاوہ اس سے کہیں زیادہ درگزراورمہربانی فرمانے والے ہیں ،یہ کہہ کرانہیں وہ عمامہ مبارک دکھایاجسے وہ لے کرآئے تھے،چنانچہ وہ ان کے ساتھ واپس آگئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرعرض کیاعمیربن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے امان بخشی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہوں نے سچ کہا،صفوان بن امیہ نے عرض کیامجھے اپنے معاملہ میں رائے قائم کرنے کے لئے دوماہ کی مہلت عطافرمادیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہیں چارماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔[60]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ ہوزان پرجانے کاقصدفرمایاتوان سے چالیس ہزاردرہم بطورقرض طلب کیانیزان کے پاس جتنی زرہیں تھیں وہ بھی طلب فرمائیں

فَقَالَ صَفْوَانُ: أَغَصْبًا یَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: بَلْ عَارِیَةٌ وَمَضْمُونَةٌ حَتَّى نُؤَدِّیَهَا إلَیْكَ،فَأَعْطَاهُ مِائَةَ دِرْعٍ بِمَا یَكْفِیهَا مِنَ السِّلَاحِ

صفوان نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کیامجھ سے یہ سب زبردستی وصول کیاجارہاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں بلکہ مستعارطلب کیاجارہاہے جوواپس کیاجائے گا یااس کی ضمانت دی جائے گی، تب صفوان نے ایک سو زرہیں مع ان کے ہتھیاروں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں [61]

إن صفوان طاف معه صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَصَفّحُ الْغَنَائِمَ إذا مر بشعب مملوءا إبلا وغنما، فأعجبه وَجَعَلَ یَنْظُرُ إلَیْهِ فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَعْجَبَك یَا أَبَا وَهْبٍ هَذَا الشّعْبُ؟

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ ہوزان پرروانہ ہوئے تویہ بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہواحالانکہ اس وقت تک آبائی مشرکانہ دین پرقائم تھےپھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوزان کے اموال غنیمت حنین میں پہنچ کرمجاہدین میں تقسیم فرمائے توانہیں بھی تین مرتبہ کرکے سوسواونٹ (کل تین سواونٹ)عطافرمائے ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھاکہ یہ مجاہدین کواس بات پر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ انہیں اونٹوں اوربکریوں کے بھرپور عطیات ملے ہیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا تمہیں یہ پسندہیں !

قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هُوَ لَك وَمَا فِیهِ،فَقَالَ صَفْوَانُ: أَشْهَدُ مَا طَابَتْ بِهَذَا نَفْسُ أَحَدٍ قَطّ إلّا نَبِیّ، وَأَشْهَدُ أَنّك رَسُولُ الله!وَأَقَرَّهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وصفوان عَلَى نِكَاحِهِمَا الْأَوَّلِ

صفوان نے عرض کیا! ہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ سب کچھ تمہاراہے،چنانچہ صفوان نے ان لوگوں کے حصہ پرقبضہ کرلیااوربول اٹھاکہ بادشاہ کبھی ایسی فراخ دلانہ بخشش پر آمادہ نہیں ہوتےاس جیسی فراخ دلانہ بخشش نبی ہی کرسکتاہے میں کلمہ اشھدان لاالٰہ الااللہ وان محمدرسول اللہ پڑھتا ہوں پس وہ اسلام لے آئے،اس کی اہلیہ پہلے ہی اسلام قبول کرچکی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کوپہلے ہی نکاح پربرقرار فرمایااس کے بعد ان کااسلام مثالی اوربہترین رہا۔[62]

 وحشی رضی اللہ عنہ بن حرب (حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کاقاتل)

اس غلام نے سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوغزوہ احدمیں شہیدکیاتھا،

عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ قَالَ: أَمَرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بقتل وحشىّ مَعَ النّفَرِ وَلَمْ یَكُنْ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَحَدٍ أَحْرَصَ مِنْهُمْ عَلَى وَحْشِیّ،وَهَرَبَ وَحْشِیّ إلَى الطّائِفِ،فَلَمْ یَزَلْ بِهِ مُقِیمًا حَتّى قَدِمَ فِی وَفْدِ الطّائِفِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ عَلَیْهِ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ، وَأَنّ مُحَمّدًا رَسُولُ اللهِ،فَلَمَّا خَرَجَ الْمُسْلِمُونَ إلَى مُسَیْلِمَةَ الْكَذَّابِ صَاحِبِ الْیَمَامَةِ خَرَجْتُ مَعَهُمْ،وَأَخَذْتُ حَرْبَتِی الَّتِی قَتَلْتُ بِهَا حَمْزَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی بن حرب کوقتل کرنے کاحکم دیاتھا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے قتل کرڈالنے کے درپے تھے،فتح مکہ کے روزبھاگ کرطائف چلا گیا،جب طائف کاوفداسلام لانے کے لئے روانہ ہوااوران پرتمام راہیں تنگ ہوگئیں تویہ بھی وہاں سے روانہ ہوکرخدمت اقدس میں حاضر ہوا اورکلمہ شہادت اشھدان لاالٰہ الااللہ وان محمدرسول اللہ پڑھ کراسلام قبول کرلیا،خلیفہ اول سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں مرتدین سے جنگ کے لئے کوچ کرنے والوں کے ہمراہ یہ بھی روانہ ہوا ،اوروہی نیزہ ساتھ لے کرگیاجس سے سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوشہدکیاتھا

وَمَا أَعْرِفُهُ، فَتَهَیَّأْتُ لَهُ، وَتَهَیَّأَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ النَّاحِیَةِ الْأُخْرَى، كِلَانَا یُرِیدُهُ، فَهَزَزْتُ حَرْبَتِی حَتَّى إذَا رَضِیتُ مِنْهَا دَفَعْتُهَا عَلَیْهِ، فَوَقَعَتْ فِیهِ، وَشَدَّ عَلَیْهِ الْأَنْصَارِیُّ فَضَرَبَهُ بِالسَّیْفِ، فَرَبُّكَ أَعْلَمُ أَیُّنَا قَتَلَهُ،فَإِنْ كُنْتُ قَتَلْتَهُ، فَقَدْ قَتَلْتُ خَیْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ قَتَلْتُ شَرَّ النَّاسِ

جب مقابلہ شروع ہواتواس نے مسیلمہ کذاب کوہاتھ میں تلوارلیے لڑتے ہوئے دیکھاکہتے ہیں میں نے اپناوہی حربہ جس سے حمزہ رضی اللہ عنہ شہیدہوئے تھے مسیلمہ کے سامنے گردش دیناشروع کیااورجب وہ پوری طرح گردش کھاچکاتواس وقت اس کومیں نے مسیلمہ کی طرف پھینک دیا،ادھرسے میں نے یہ حربہ اس کی طرف چھوڑااوردوسری طرف سے ایک انصاری نے دوڑکرمسیلمہ کے تلوارماری،اب اللہ کوعلم ہے کہ ہم دونوں کے ہتھیاروں میں سے کس کے حربہ نے اسے قتل کیا،یہ کہاکرتے تھے اگرمیرے حربہ نے اس کوقتل کیاتویہ میرے حمزہ رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے کاکفارہ ہوگیاکیونکہ جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خیرالناس حمزہ رضی اللہ عنہ کوشہیدکیاایسے ہی شرالناس مسیلمہ کذاب کوقتل کیا۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَكَانَ قَدْ شَهِدَ الْیَمَامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ یَوْمئِذٍ صَارِخًا یَقُولُ: قَتَلَهُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جویمامہ کی جنگ میں شریک تھے میں نے سناکہ ایک شخص پکارپکارکرکہہ رہاتھاکہ مسیلمہ کوحبشی غلام نے قتل کیاہے۔[63]

قُلْتُ: لَأَخْرُجَنَّ إِلَى مُسَیْلِمَةَ، لَعَلِّی أَقْتُلُهُ فَأُكَافِئَ بِهِ حَمْزَةَ

 وحشی کہاکرتاتھامجھے امیدہے میرایہ عمل میرے سابقہ جرم کاکفارہ کردے گا. [64]

ہند رضی اللہ عنہ بن عتبہ (ابوسفیان کی بیوی اورکاتب وحی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ )

ان کے اشارے پرغزوہ احدمیں سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کوشہیدکیاگیاتھا،جب اسے اپنے قتل کے حکم کے بارے میں علم ہواتویہ اپنے شوہرکے مکان میں چھپ گی مگربعدمیں حاضر ہو کراسلام قبول کرلیاابوسفیان رضی اللہ عنہ اوران کے اسلام قبول کرنے میں ایک دن کافرق ہے۔

بنومطلب بن عبدمناف کی باندی

وَكَانَتْ سارة مولاة عمرو ابن هَاشِمٍ مُغَنّیَةً نَوّاحَةً بِمَكّةَ، فَیُلْقَى عَلَیْهَا هِجَاءُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتُغَنّی بِهِ، وَكَانَتْ قَدْ قَدِمَتْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَطْلُبُ أَنْ یَصِلَهَا وَشَكَتْ الْحَاجَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا كَانَ لَك فِی غِنَائِك وَنِیَاحِك مَا یُغْنِیك!فَقَالَتْ: یَا مُحَمّدُ، إنّ قُرَیْشًا مُنْذُ قُتِلَ مَنْ قُتِلَ مِنْهُمْ بِبَدْرٍ تَرَكُوا سَمَاعَ الْغِنَاءِ، فَوَصَلَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَوْقَرَ لَهَا بَعِیرًا طَعَامًا، فَرَجَعَتْ إلَى قُرَیْشٍ وَهِیَ عَلَى دِینِهَافَأَمَرَ بها رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ أَنْ تُقْتَلَ،وَأَمَّا سَارَةُ فَاسْتُؤْمِنَ لَهَا فَأَمَّنَهَاوَأَمَّا سَارَةُ فَأَسْلَمَتْ

سارہ عمروبن ہشام کی آزادکردہ لونڈی تھی اور یہ مغنیہ تھی،اس نے مکہ مکرمہ کے باہراس نے گانے بجانے کاسلسلہ چلارکھاتھاابن خطل اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجولکھ کردیتاتھااوریہ اسے گاتی تھی، غزوہ بدر کے بعداس نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکراپنی تنگدستی کی شکایت پیش کرکے آپ سے مددمانگی تھی،جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتمہیں اپنے گانے سے کچھ روپیہ نہیں ملتا ؟ اس نے عرض کیااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!جب سے غزوہ بدرمیں قریش کے سردارمارے گئے ہیں اس وقت سے انہوں نے گانا سننا چھوڑ دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرترس کھاکرایک اونٹ پر غلہ لاد کر عنایت فرمادیاجسے لے کریہ مکہ مکرمہ واپس آگئی اوریہ انہی کے دین پرتھی،فتح مکہ کے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کاحکم فرمایاتواپنے قتل کاحکم سن کریہ روپوش ہوگئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لئے امان کی درخواست کی گئی،جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن دے دیاچنانچہ اس نے حاضر خدمت ہوکراسلام قبول کرلیااورپکی مسلمان رہیں ۔[65]

عبدالعزی ٰ(ابی لہب )کے بیٹے عتبہ رضی اللہ عنہ اورمعتب رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام

فتح مکہ کے موقع پرابولہب کے دونوں فرزندعتبہ اورمعتب بھی خوف سے روپوش ہوگئے تھے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِیهِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فِی الْفَتْحِ قَالَ لِی: یَا عَبَّاسُ أَیْنَ ابْنَا أَخِیكَ عُتْبَةُ وَمُعَتَّبٌ لا أَرَاهُمَا؟ قَالَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ تَنَحَّیَا فِیمَنْ تَنَحَّى مِنْ مُشْرِكِی قُرَیْشٍ،فَقَالَ لِیَ: اذْهَبْ إِلَیْهِمَا وَأْتِنِی بِهِمَاقَالَ الْعَبَّاسُ: فَرَكِبْتُ إِلَیْهِمَا بِعُرَنَةَ فَأَتَیْتُهُمَا،فَدَعَاهُمَا إلى الإسلام،فَأَسْلَمَا وَبَایَعَا، ثمَّ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأخذ بأیدیهما وَانْطَلق بهما حَتَّى أَتَى الْمُلْتَزم فَدَعَا سَاعَة ثمَّ انْصَرف وَالسُّرُور یرى فِی وَجهه، قَالَ الْعَبَّاسُ فَقُلْتُ لَهُ: سَرَّكَ اللهُ یَا رَسُولَ اللهِ فَإِنِّی أَرَى فِی وَجْهِكَ السُّرُورَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ إِنِّی اسْتَوْهَبْتُ ابْنَیْ عَمِّی هَذَیْنِ رَبِّی فَوَهَبَهُمَا لِی

عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پرمکہ میں داخل ہوئے تو مجھ سے فرمایاتمہارے دونوں بھتیجے عتبہ ومعتب بن ابی لہب کہاں ہیں ،وہ مجھے دکھائی نہیں دیتے، میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !دوسرے مشرکین کی طرح اپنی جان کے خوف سے وہ بھی روپوش ہوگئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کی طرف جاؤاوران دونوں کومیرے پاس لاؤ،عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکی تعمیل میں میں سوارہوکرعرنہ گیااوروہاں سے دونوں کواپنے ساتھ لے آیا،آپ نے ان کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جودونوں نے قبول کرلی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اوردونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے کعبہ کے قریب ملتزم پرآئے اوردیرتک دعامانگتے رہے ، دعاسے فراغت پاکرجب واپس ہوئے توچہرہ مبارک پرمسرت کے آثارتھے،عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیااللہ تعالیٰ آپ کوہمیشہ مسروروشاداماں رکھے میں آپ کاچہرہ مسروردیکھ رہاہوں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ! میں نے اپنے پروردگارسے درخواست کی تھی کہ مجھے میرے چچاکے دونوں بیٹے عتبہ اورمعتب عطافرمادیئے جائیں سواللہ نے ان دونوں کومجھے عطافرمادیاہے اورمیرے لئے دونوں کوہبہ کردیاہے ۔[66]

 سہیل رضی اللہ عنہ بن عمروکاقبول اسلام

سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍووَهُوَ خَطِیبُ قُرَیْشٍ

سہیل بن عمروجومکہ کے اشراف اورسادات میں سے تھےاورخطیب قریش کے نام سے مشہورتھے[67]

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ سُهِّلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ

صلح حدیبیہ میں انہیں آتادیکھ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھااب تمہارامعاملہ کچھ آسان ہوگیاہے۔

لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ مَكَّةَ اقْتَحَمْتُ بَیْتِی وَغَلَّقْتُ عَلَیَّ بَابِی، وَأَرْسَلْتُ إِلَى ابْنِی عَبْدِ اللهِ وَكَانَ عَبْدُ اللهِ قَدْ أَسْلَمَ وَشَهِدَ بَدْرًا: اطْلُبْ لِی جِوَارًا مِنْ مُحَمَّدٍ فَإِنِّی لا آمَنُ أَنْ تَلَ، فَذَهَبَ عَبْدُ اللهِ إِلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَبِی تُؤَمِّنُهُ، قَالَ:نَعَمْ هُوَ آمِنٌ بِأَمَانِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلْیَظْهَرْ،ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ لِمَنْ حَوْلَهُ:مَنْ لَقِیَ سُهَیْلَ بْنَ عَمْرٍو فَلا یَشُدَّ النَّظَرَ إِلَیْهِ، فَلِعَمْرِی/ أَنَّ سُهَیْلا لَهُ عَقْلٌ وَشَرَفٌ وَمَا مِثْلُ سُهَیْلٍ جَهِلَ الإِسْلامَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے یہ اپنے گھرمیں چھپ گئے اوردروازہ بندکردیا،اوراپنے بیٹے عبداللہ کوجواسلام قبول کرکے غزوہ بدرمیں شریک ہوچکے تھے سہیل بن عمرونے اپنے اس بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوبارگاہ نبوت میں بھیجاکہ جاکرمیرے لئے امان حاصل کرو، انہوں نے بارگاہ رسالت میں حاضرہوکرعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے والدکوامان دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،وہ اللہ عزوجل کی امان میں محفوظ ہے وہ باہرآجائے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگردبیٹھے ہوئےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاجوشخص سہیل سے ملے وہ اس کی طرف تیز نظروں سے نہ دیکھے سہیل بڑا عاقل اورشریف ہے ،سہیل جیساشخص اسلام سے جاہل اوربے خبرنہیں رہ سکتا،

فَخَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سُهَیْلٍ إِلَى أَبِیهِ فَخَبَّرَهُ بِمَقَالَةِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ، فَقَالَ سُهَیْلٌ:كَانَ وَاللهِ بَرًّا صَغِیرًا وَكَبِیرًا، فَكَانَ سُهَیْلٌ یُقْبِلُ وَیُدْبِرُ آمِنًا،وَخَرَجَ إِلَى حُنَیْنٍ مَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وآله وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى شِرْكِهِ حَتَّى أَسْلَمَ بِالْجِعْرَانَةَ، فأعطاه رسول الله صَلى اللهُ عَلَیه وآله وَسَلَّمَ مِنْ غَنَائِمَ حُنَیْنٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان حاصل کرکے عبداللہ بن سہیل اپنے والدکی طرف گئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوگفتگوہوئی وہ بیان کیا،سہیل نے کہااللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم توچھوٹے بھی تھے تو نیکوکار اور جب بڑے ہوئے تو بھی اور سہیل آگے پیچھے سے امان میں ہے،غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اوربعدمیں مقام جِعْرَانَةَ(مکہ کے قریب طائف ومکہ کے درمیان ایک کنوئیں کانام ہے) پراسلام قبول کرلیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کی غنیمت میں سےانہیں سو اونٹ عنایت فرمائے۔

الْحَسَنَ یُحَدِّثُ، یَقُولُ:حَضَرَ أُنَاسٍ بَابَ عُمَرَ وَفِیهِمْ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ وَالشُّیُوخُ مِنْ قُرَیْشٍ،فَخَرَجَ آذِنُهُ فَجَعَلَ یَأْذَنُ لِأَهْلِ بَدْرٍ كَصُهَیْبٍ وَبِلَالٍ وَعَمَّارٍ، قَالَ: وَكَانَ وَاللهِ بَدْرِیًّا وَكَانَ یُحِبُّهُمْ، وَكَانَ قَدْ أَوْصَى بِهِ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: مَا رَأَیْتُ كَالْیَوْمِ قَطُّ، أَنَّهُ یُؤْذَنُ لِهَذِهِ الْعَبِیدِ وَنَحْنُ جُلُوسٌ لَا یُلْتَفَتُ إِلَیْنَا فَقَالَ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو ـ وَیَا لَهُ مِنْ رَجُلٍ مَا كَانَ أَعْقَلَهُ ـ:أَیُّهَا الْقَوْمُ إِنِّی وَاللهِ قَدْ أَرَى الَّذِی فِی وُجُوهِكُمْ، فَإِنْ كُنْتُمْ غِضَابًا فَاغْضَبُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، دُعِیَ الْقَوْمُ وَدُعِیتُمْ، فَأَسْرَعُوا وَأَبْطَأْتُمْ، أَمَا وَاللهِ لِمَا سَبَقُوكُمْ بِهِ مِنَ الْفَضْلِ فِیمَا یَرَوْنَ أَشَدَّ عَلَیْكُمْ فَوْتًا مِنْ بَابِكُمْ هَذَا الَّذِی تَنَافَسُونَ عَلَیْهِ

حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں ایک مرتبہ قریش کے بڑے بڑے رؤسااورشیوخ امیرالمومنین سے ملنے آئے ان میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب،عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل ،حارث رضی اللہ عنہ بن ہشام اورسہیل رضی اللہ عنہ بن عمروبھی شامل تھے، اسی اثنامیں کچھ اورلوگ بھی امیر المومنین سے ملنے کی خاطرآپہنچے ان میں بلال رضی اللہ عنہ حبشی،سلمان رضی اللہ عنہ فارسی،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ اورصہیب رومی رضی اللہ عنہ جیسے اصحاب(جوکبھی غلام رہ چکے تھے)شامل تھے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوان سب اصحاب کی آمدکی اطلاع ہوئی توانہوں نے سب سے پہلے موخرالذکراصحاب کواندربلابھیجاکیونکہ وہ سابقون الاولون اوراہل بدرمیں سے تھے اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ ان کی حدسے زیادہ تعظیم وتکریم کرتے تھے، ابوسفیان رضی اللہ عنہ کویہ بات ناگوار معلوم ہوئی اوربول اٹھے میں نے آج جیسی ذلت کبھی نہیں دیکھی ہم لوگ انتظارکررہے ہیں اورغلاموں کواندربلایاجاتاہے، اس پر سہیل رضی اللہ عنہ نے جوایک عقل مند آدمی تھے ابوسفیان اور دیگر قریشیوں کومخاطب ہوکرکہااے قوم!اللہ کی قسم میں تمہارے چہروں پرغصہ اورناگواری کے آثارواضح طورپردیکھ رہاہوں حالانکہ تمہیں دوسروں کو ملامت کرنے کے بجائے خوداپنے نفسوں کوملامت کرناچاہیے کیونکہ انہیں بھی دعوت دی گئی تھی اورتمہیں بھی ، مگرتم لوگ حق کوقبول کرنے میں پس وپیش کرتے رہے اورپیچھے رہ گئے جبکہ وہ لوگ بغیرکسی ترددکے دوڑپڑےاورآگے نکل گئے

ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا الْقَوْمَ قَدْ سَبَقُوكُمْ بِمَا تَرَوْنَ، وَلَا سَبِیلَ لَكُمْ وَاللهِ إِلَى مَا سَبَقُوكُمْ إِلَیْهِ، فَانْظُرُوا هَذَا الْجِهَادَ فَالْزَمُوهُ، عَسَى اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَرْزُقَكُمُ الْجِهَادَ وَالشَّهَادَةَ، ثُمَّ نَفَضَ ثَوْبَهُ فَقَامَ فَلَحِقَ بِالشَّامِ

پھرفرمایایہ لوگ ایمان لانے میں تم پرسبقت لے چکے اب کوئی چیزتمہارے لیے ان پرسبقت لے جانے کی باقی نہیں رہ گئی لہذاتم لوگ جہادکی طرف توجہ دواوراس کواپنے اوپرلازم کرلوشایداللہ تعالیٰ تم لوگوں کوشہادت کی نعمت سے نوازکرتلافی مافات کردے، پھراپنی چادراٹھاکرکھڑے ہوگئے اورجہادمیں شریک ہونے کے لیے شام چلے گئے اورلڑتے ہوئے شہیدہوگئے[68]

ویقال: قتل بالیرموك ،بعضه بعضامَاتَ بالشَّامِ بِطَاعُونِ عِمْوَاسَ

اورکہاجاتاہے کہ یہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے،بعض کہتے ہیں طاعون عمواس میں وفات پائی۔[69]

زہیربن امیہ مخزومی (ام سلمہ کابھائی)

یہ بھی حارث بن ہشام کی طرح اپنے کفرمیں شدیدتھے۔

اس طرح فتح مکہ کے روزصرف چارافرادقتل کیے گئے۔

حویطب رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیٰ کاقبول اسلام

حویطب رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیٰ کاتعلق قریش کے خاندان عامربن لوی سے تھا،حویطب رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے رؤسامیں سے تھے اورقریش کے ذی اثراورمتمول ترین لوگوں میں شمارہوتے تھے ، دورجاہلیت میں وہ ان معدودے چندآدمیوں میں سے تھے جولکھناپڑھناجانتے تھے،

وحُوَیْطِبُ یكنى أَبَا مُحَمَّدٍ

حویطب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابومحمدتھی۔[70]

سِتِّینَ سَنَةً فِی الْجَاهِلِیَّةِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کودعوت توحیددی تواس وقت حویطب رضی اللہ عنہ کی عمرساٹھ برس کی تھی۔

دعوت حق نے ان پرخاص اثرکیا اور انہوں نے کئی مرتبہ شرف اسلام سے بہرہ ورہوناچاہالیکن ہرباربنوامیہ کے رئیس حکم بن امیہ نے انہیں اس سے سعادت سے بہرہ مندہونے سے روکا،چنانچہ وہ خودبیان کرتے ہیں

فَلَمَّا وَلِیَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ الْمَدِینَةَ فِی عَامِهِ الْأَوَّلِ دَخَلَ عَلَیْهِ حُوَیْطِبُ مَعَ مَشْیَخَةٍ جُلَّةٍ: حَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ , وَمَخْرَمَةُ بْنُ نَوْفَلٍ، فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ ثُمَّ تَفَرَّقُوا، فَدَخَلَ عَلَیْهِ حُوَیْطِبٌ یَوْمًا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَحَدَّثَ عِنْدَهُ ،فَقَالَ مَرْوَانُ: مَا سِنُّكَ؟ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ: تَأَخَّرَ إِسْلَامُكَ أَیُّهَا الشَّیْخُ حَتَّى سَبَقَكَ الْأَحْدَاثُ، فَقَالَ حُوَیْطِبٌ: اللهُ الْمُسْتَعَانُ،وَاللهِ لَقَدْ هَمَمْتُ بِالْإِسْلَامِ غَیْرَ مَرَّةٍ كُلُّ ذَلِكَ یَعُوقُنِی أَبُوكَ وَیَنْهَانِی

امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں مروان بن الحکم مدینہ منورہ کا گورنر مقررہواتوحویطب رضی اللہ عنہ اپنے دوسرے ساتھیوں حکیم رضی اللہ عنہ بن حزام اورمخزمہ رضی اللہ عنہ بن نوفل کے ساتھ ملنے کے لیے گئے، مروان نے ان سے پوچھاآپ کی عمر کیا ہے؟ انہوں نے اپنی عمربتلائی، مروان نے طنزاً ان سے کہابڑے میاں !آپ نےاسلام قبول کرنے میں اتنی تاخیرکیوں کی ،بہت سے نوجوان اس سعادت کے حصول میں آپ پرسبقت لے گئے، حویطب رضی اللہ عنہ نے فرمایااللہ جانتاہے میں نے متعددمرتبہ اسلام قبول کرنے کاارادہ کیامگرتمہارے والد(حکم بن امیہ)نے مجھے غیرت دلاکرمجھے اس شرف سے محروم رکھا،

وَیَقُولُ: تَضَعُ شَرَفَكَ، وَتَدَعُ دِینَ آبَائِكَ لِدِینٍ مُحْدَثٍ، وَتَصِیرُ تَابِعًا؟ قَالَ: فَأَسْكَتَ وَاللهِ مَرْوَانَ، وَنَدِمَ عَلَى مَا كَانَ قَالَ لَهُ،ثُمَّ قَالَ حُوَیْطِبٌ: أَمَا كَانَ أَخْبَرَكَ عُثْمَانُ , رَحِمَهُ اللهُ , مَا كَانَ لَقِیَ مِنْ أَبِیكَ حِینَ أَسْلَمَ؟ فَازْدَادَ مَرْوَانُ غَمًّا

وہ کہتاتھاکہ اس عمرمیں نیامذہب قبول کرناتمہاری غیرت کے منافی ہے ، آباؤاجدادکامذہب ترک کرکے تم اس عزت اورمرتبہ سے ہاتھ دھوبیٹھوگے جواس وقت تمہیں قوم میں حاصل ہے، مروان یہ سن کرفرط خجالت سے چپ ہوگیا،حویطب رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا شایدتمہیں معلوم نہ ہوکہ تمہارے باپ نے عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان پرقبول اسلام کے جرم میں کیاکیاستم ڈھائے،اس پرمروان اوربھی نادم ہوااوراس نے پھرکبھی حویطب رضی اللہ عنہ سے طنزآمیزگفتگونہ کی۔[71]

بعثت نبوی سے فتح مکہ تک کازمانہ حویطب رضی اللہ عنہ نے کس طرح گزارااس کاحال خودحویطب رضی اللہ عنہ نےاس طرح بیان کیاہے۔

ثُمَّ قَالَ حُوَیْطِبٌ:وَلَقَدْ شَهِدْتُ بَدْرًا مَعَ الْمُشْرِكِینَ فَرَأَیْتُ عِبَرًا، رَأَیْتُ الْمَلَائِكَةَ تَقْتُلُ وَتَأْسِرُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ , فَقُلْتُ: هَذَا رَجُلٌ مَمْنُوعٌ، وَلَمْ أَذْكُرْ مَا رَأَیْتُ،فَانْهَزَمْنَا رَاجِعِینَ إِلَى مَكَّةَ، فَأَقَمْنَا بِمَكَّةَ وَقُرَیْشٌ تُسْلِمُ رَجُلًا رَجُلًا، فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ الْحُدَیْبِیَةِ حَضَرْتُ وَشَهِدْتُ الصُّلْحَ وَمَشَیْتُ فِیهِ حَتَّى تَمَّ، وَكُلُّ ذَلِكَ أُرِیدُ الْإِسْلَامَ، وَیَأْبَى اللهُ إِلَّا مَا یُرِیدُ، فَلَمَّا كَتَبْنَا صُلْحَ الْحُدَیْبِیَةِ , كُنْتُ أَنَا أَحَدَ شُهُودِهِ، وَقُلْتُ: لَا تَرَى قُرَیْشٌ مِنْ مُحَمَّدٍ إِلَّا مَا یَسُوؤُهَا , قَدْ رَضِیتُ أَنْ دَافَعْتُهُ بِالرَّاحِ

میں غزوہ بدرمیں بھی مشرکین کے ساتھ تھا،میں نے بچشم خوددیکھاکہ ملائکہ آسمان سے اتررہے ہیں میں نے اسی وقت سمجھ لیاکہ اس آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کی حفاظت کی گئی ہے، تاہم میں نے جوکچھ دیکھااس کاتذکرہ کسی سے نہ کیا، چنانچہ ہم بدترین شکست کھاکرمکہ واپس گئے، میں مکہ مکرمہ میں ٹھیرارہااورقریش ایک ایک دودوکرکے اسلام قبول کرتے رہے، صلح حدیبیہ کے دن بھی میں موجودتھااوراس معاملہ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہاتھاصلح نامہ کاآخری گواہ بھی میں تھااورمیں نے اپنے دل میں کہاقریش کومحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے وہی دیکھناہوگاجوان کوبرالگتاہے،

وَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی عُمْرَةِ الْقَضِیَّةِ وَخَرَجَتْ قُرَیْشٌ عَنْ مَكَّةَ، كُنْتُ فِیمَنْ تَخَلَّفَ بِمَكَّةَ أَنَا وَسُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو لِأَنْ یَخْرُجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَضَى الْوَقْتُ وَهُوَ ثَلَاثٌ، فَلَمَّا انْقَضَتِ الثَّلَاثُ أَقْبَلْتُ أَنَا وَسُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقُلْتُ: قَدْ مَضَى شَرْطُكَ , فَاخْرُجْ مِنْ بَلَدِنَا، فَصَاحَ:یَا بِلَالُ، لَا تَغِیبُ الشَّمْسُ وَأَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِمَكَّةَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرة القضاکے لیے مکہ معظمہ تشریف لائے توبہت سے قریش مکہ سے باہرچلے گئے، لیکن میں اورسہیل بن عمرومکہ مکرمہ میں رہے گئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیئے ہوئے تین دن پورے ہوجائیں توانہیں مکہ سے جانے کاکہیں ،چنانچہ تیسرادن ہوتے ہی میں نے اورسہیل نے آپ کے پاس جاکرکہاکہ آپ کی شرط پوری ہوچکی آپ اب اس شہرسے تشریف لے جائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت بلال رضی اللہ عنہ کاحکم فرمایاکہ منادی کردیں کہ سورج چھپنے سے پہلے پہلے جتنے مسلمان میرے ہمراہ آئے ہیں ایک بھی مکہ میں نہ رہے۔[72]

رمضان آٹھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ پرپرچم اسلام بلندکیاتوحویطب پرکیابیتی اس کاحال بھی انہوں نے خوداس طرح بیان کیاہے۔

قَالَ حُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى: لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ خِفْتُ خَوْفًا شَدِیدًا فَخَرَجْتُ مِنْ بَیْتِی وَفَرَّقْتُ عِیَالِی فِی مَوَاضِعَ یَأْمَنُونَ فِیهَا، ثُمَّ انْتَهَیْتُ إِلَى حَائِطِ عَوْفٍ فَكُنْتُ فِیهِ، فَإِذَا أَنَا بِأَبِی ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ , وَكَانَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ خُلَّةٌ، وَالْخُلَّةُ أَبَدًا نَافِعَةٌ , فَلَمَّا رَأَیْتُهُ هَرَبْتُ مِنْهُ، فَقَالَ: یَا أَبَا مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: لَبَّیْكَ، قَالَ: مَالَكَ؟قُلْتُ: الْخَوْفُ، قَالَ: لَا خَوْفَ عَلَیْكَ، تَعَالَ أَنْتَ آمِنٌ بِأَمَانِ اللهِ

حویطب بن عبدالعزی کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعدشہرمیں داخل ہوئے تومجھے انتہائی خوف محسوس ہوا،میں اپنے گھرسے نکلااوراپنے اہل وعیال کومختلف محفوظ مقامات میں پہنچادیااورخودعوف کے باغ میں پناہ لے لی، اچانک میں نے دیکھاکہ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ میری طرف آرہے ہیں میرے اوران کے درمیان پرانی دوستی تھی لیکن اس وقت میں انہیں دیکھ کربھاگ کھڑاہوا،انہوں نے پکارکرکہاابومحمدرک جاؤ،میں رک گیا،انہوں نے پوچھابھاگ کیوں رہے ہو؟ میں نے کہاتمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ان کے خوف سے بھاگ رہاہوں ، ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہاتم ان کاخوف نہ کھاؤ تم اللہ کے دیئے ہوئے امان میں مامون ہو،

فَرَجَعْتُ إِلَیْهِ وَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ، فَقَالَ لِیَ: اذْهَبْ إِلَى مَنْزِلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَهَلْ لِی سَبِیلٌ إِلَى مَنْزِلِی، وَاللهِ مَا أَرَانِی أَصِلُ إِلَى بَیْتِی حَیًّا حَتَّى أُلْقَى فَأُقْتَلَ، أَوْ یُدْخَلَ عَلَیَّ مَنْزِلِی فَأُقْتَلَ، وَإِنَّ عِیَالِی لَفِی مَوَاضِعَ شَتَّى، قَالَ: فَاجْمَعْ عِیَالَكَ مَعَكَ فِی مَوْضِعٍ , وَأَنَا أَبْلُغُ مَعَكَ مَنْزِلَكَ،فَبَلَغَ مَعِی مَنْزِلِی وَجَعَلَ یُنَادِی عَلَى بَابِی: أَنَّ حُوَیْطِبَ آمِنٌ فَلَا یُهَجْ

یہ سن کرمیں ان کے پاس گیااورسلام کیا، انہوں نے کہاچلواپنے گھرچلو، یں نے کہامیرے لیے گھرجانے کی کوئی سبیل بھی ہے اللہ کی قسم!مجھے تویہ گمان ہے کہ میں گھرتک زندہ نہیں پہنچ سکتا یاتوراستے میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے ماراجاؤں گااوراگرگھرپہنچ بھی گیاتوکوئی مسلمان گھرمیں گھس کرمجھے ماڑڈالے گا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہااپنے بال بچوں کوکسی جگہ اکٹھاکرلوتم کومیں خودتمہارے گھرپہنچادوں گا ، چنانچہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کرچلے اوربلندآوازسے یہ اعلان کرتے گئے کہ حویطب کوامان مل چکاہے ان کوکوئی شخص نہ چھیڑے،

ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُو ذَرٍّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ ،فَقَالَ:أَوَلَیْسَ قَدْ أَمَّنَّا النَّاسَ كُلَّهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرْتُ بِقَتْلِهِ ؟ قَالَ: فَاطْمَأْنَنْتُ، وَرَدَدْتُ عِیَالِی إِلَى مَوَاضِعِهِمْ، وَعَادَ إِلَیَّ أَبُو ذَرٍّ فَقَالَ: یَا أَبَا مُحَمَّدٍ، حَتَّى مَتَى وَإِلَى مَتَى، قَدْ سُبِقْتَ فِی الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا , وَفَاتَكَ خَیْرٌ كَثِیرٌ , وَبَقِیَ خَیْرٌ كَثِیرٌ فَأْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ

ابوذر رضی اللہ عنہ مجھے بحفاظت گھرپہنچاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورساراواقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم کومعلوم نہیں کہ سوائے چنداشتہاری مجرموں کے باقی سب لوگوں کوامن ہے؟ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکاعلم ہواتومیں مطمئن ہوگیااوراپنے بال بچوں کوگھرلے آیا، پھرابوذر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اورکہاابومحمد!کب تک اورکب تک؟بھلائی کے بہت سے موقعے ہاتھ سے نکل گئے اب بھی وقت ہے چلورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکراسلام قبول کرلو،

وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَرُّ النَّاس، وَأَوْصَلُ النَّاسِ،وَأَحْلَمُ النَّاسِ، شَرَفُهُ شَرَفُكَ , وَعِزُّهُ عِزُّكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَنَا أَخْرُجُ مَعَكَ فَآتِیهِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى أَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ، وَعِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ , فَوَقَفْتُ عَلَى رَأْسِهِ، وَقَدْ سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ: كَیْفَ یُقَالُ لَهُ إِذَا سُلِّمَ عَلَیْهِ؟ قَالَ: قُلِ: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللهِ، فَقُلْتُهَا، فَقَالَ:وَعَلَیْكَ السَّلَامُ , أَحُوَیْطِبٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَاكَ، قَالَ: وَسُرَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْلَامِی، وَاسْتَقْرَضَنِی مَالًا فَأَقْرَضْتُهُ أَرْبَعِینَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَأَعْطَانِی مِنْ غَنَائِمِ حُنَیْنٍ مِائَةَ بَعِیرٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ بھلے، سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اورسب سے زیادہ بردبارہیں ، ان کے شرف واعزازمیں تمہاراشرف واعزازہے، میں نے کہامیں تمہارے ساتھ چلنے کوتیارہوں ،چنانچہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بطحاکے مقام پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بھی موجودتھے،میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کرنے کاکیاطریقہ ہے؟ انہوں نے کہاالسلام علیک اے نبی ورحمة اللہ، میں نے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاوعلیک السلام اے حویطب؟ میں نے کہامیں گواہی دیتاہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی معبودنہیں اوربے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمام حمدوثنااس اللہ کے لیے ہے جس نے تمہیں ہدایت عطافرمائی، میرے قبول اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کچھ قرض طلب کیامیں نے چالیس ہزاردرہم بطورقرض دیئے اور حنین کے مال غنیمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوسواونٹ مرحمت فرمائے۔[73]

 أسلم حُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى یوم فتح مَكَّةَ

اس طرح حویطب رضی اللہ عنہ بن عبدالعزی فتح مکہ کے روزاسلام لائے۔[74]

وَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حُنَیْنًا وَالطَّائِفَ

قبول اسلام کے وقت حویطب رضی اللہ عنہ کی عمراسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن اس بڑھاپے کے باوجودو ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب ہوکرغزوہ حنین اورغزوہ طائف میں شریک ہوئے۔[75]

 ثُمَّ قَدِمَ حُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى بَعْدَ ذَلِكَ الْمَدِینَةَ

غزوہ طائف کے بعدحویطب رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کومنتقل ہوگئے۔[76]

امیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ حویطب رضی اللہ عنہ کو بہت ماتے تھے انہوں نے اپنے عہدخلافت میں حدودحرم کوازسرنومقررکرناچاہااوراس مقصدکے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کونامزدکیا،حویطب رضی اللہ عنہ بھی اس جماعت کے ایک رکن تھے۔

سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے خلاف شورش برپاہوئی توحویطب رضی اللہ عنہ اوربعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے باغیوں کوبہت سمجھایالیکن وہ اپنی مفسدانہ روش سے بازنہ آئے یہاں تک کہ چندشریرالنفس باغیوں نے حرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کوپامال کرڈالااوراپنے عہدکی عظیم اورمقدس ترین ہستی کونہایت سفاکی سے شہیدکرڈالا،پیکرجودوسخا،مجسمہ حلم وتحمل خلیفہ عرب وعجم خویش رسول سیدناعثمان ذوالنورین کی نعش اپنے گھرمیں بے گوروکفن پڑی تھی ،باغی ہرطرف دندناتے پھرتے تھے اوران بدبختوں کویہ بھی گوارانہ تھاکہ ضعیف العمر،قاری قرآن خلیفہ شہیدکے جسدمبارک کوسپردخاک کیاجائے ،ان پرخطرحالات میں دوسرے دن رات کوچند(بقول بعض سترہ)دلیرمسلمان سربکفن ہوکرامیرالمومنین کے گھرپہنچے اوران کی خون آغشتہ میت کواٹھایا،پھران کی نمازجنازہ پڑی اورجان پرکھیل کرجنت البقیع کے پیچھے حش کوکب میں سپردخاک کیا،ان دلیرمسلمانوں میں سوبرس سے زیادہ عمرکے ایک بزرگ بھی تھے ،انہوں نےیہ فرض انجام دینے کے لیے نہ اپنی جان کی پرواہ کی اورنہ اپنی کبرسبی اورنقاہت کواڑے آنے دیا،یہ بزرگ ابومحمد حویطب رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیٰ تھے۔

وَمَاتَ حُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى بِالْمَدِینَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِینَ، فِی خِلَافَةِ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ , وَكَانَ لَهُ یَوْمَ مَاتَ مِائَةٌ وَعِشْرُونَ سَنَةً

اورحویطب رضی اللہ عنہ بن عبدالعزی نےامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں سواسوسال کے قریب عمر میں وفات پائی۔[77]

بیت اللہ کی کنجی حقدارکوعطاکیاجانا :

ثُمَّ جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ فَقَامَ إلَیْهِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَمِفْتَاحُ الْكَعْبَةِ فِی یَدِهِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، اجْمَعْ لَنَا الْحِجَابَةَ مَعَ السِّقَایَةِ صَلَّى اللهُ عَلَیْكَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیْنَ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ؟فَدُعِیَ لَهُ،فَقَالَ: هَاكَ مِفْتَاحَكَ یَا عُثْمَانُ، الْیَوْمُ یَوْمُ بِرٍّ وَوَفَاءٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ: إنَّمَا أُعْطِیكُمْ مَا تُرْزَءُونَ لَا مَا تَرْزَءُونَ

اس کے بعدآپ مسجدالحرام میں بیٹھ گئے، اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کی کنجی ہاتھ میں لے کرسامنے آئے، سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے کھڑے ہوکردرخواست کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بیت اللہ کی کلیدہمیں عنایت فرما دیں تاکہ سقایت زمزم (موسم حج میں حاجیوں کوپانی پلانا،یہ خدمت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اوربنو ہاشم کے سپردتھی)کے ساتھ حجابت بیت اللہ (بیت اللہ کی دربانی) کا شرف بھی ہمیں حاصل ہوجائے،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعثمان بن طلحہ کہاں ہے؟اس کوبلایاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عثمان ! اپنی یہ چابی لے لوآج نیکی اوروفاداری کا دن ہے، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایاہم تم کوایسی چیزعنایت کریں گے جس سے تم مشقت میں نہ پڑو۔[78]

ایک روایت میں ہے کہ آپ یہ چابی عباس رضی اللہ عنہ کودینا چاہتے تھے مگراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

اِنَّ اللهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۔۔۔۝۰۝۵۸ [79]

ترجمہ:تحقیق اللہ تم کوحکم دیتاہے کہ امانتیں پہنچادوامانت والوں کو۔

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَ مِفْتَاحَ الْكَعْبَةِ إِلَى عُثْمَانَ فَقَالَ خُذْهَا خَالِدَةً مُخَلَّدَةً إِنِّی لَمْ أَدْفَعْهَا إِلَیْكُمْ وَلَكِنَّ اللهَ دَفَعَهَا إِلَیْكُمْ وَلَا یَنْزِعُهَا مِنْكُمْ إِلَّا ظَالِمٌ

تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کوبلاکراسے چابی مرحمت فرمادی اورفرمایایہ کنجی ہمیشہ کے لئے لے لو،میں نے یہ خودنہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے دلائی ہے سوائے ظالم اور غاصب کے کوئی تم سے نہ چھین سکے گا۔[80]

أن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أعطى السِّقَایَةِ الْعَبَّاسُ یَوْمَ الْفَتْحِ

اورفتح مکہ کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےپانی پلانے کی خدمت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوعطافرمائی۔[81]

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: كُنَّا نَفْتَحُ الْكَعْبَةَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا یُرِیدُ أَنْ یَدْخُلَ الْكَعْبَةَ مَعَ النَّاسِ فَأَغْلَقْتُ لَهُ وَنِلْتُ مِنْهُ، فَحَلُمَ عَنِّی، ثُمَّ قَالَ:یَا عثمان لَعَلَّكَ سَتَرَى هَذَا الْمِفْتَاحَ یَوْمًا بِیَدِی أَضَعُهُ حَیْثُ شِئْتُ، فَقُلْتُ: لَقَدْ هَلَكَتْ قُرَیْشٌ یَوْمَئِذٍ وَذَلَّتْ، فَقَالَ: بَلْ عَمَرَتْ وَعَزَّتْ یَوْمَئِذٍ

عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ہم دور جاہلیت میں خانہ کعبہ کادروازہ ہفتہ میں سومواراورجمعرات دودن کھولاکرتے تھے،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہونے لگے تومیں نے دروازہ بندکردیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکچھ نازیباکہاآپ نے میری اس حرکت کوبرداشت کیااورفرمایاعثمان !ایک دن آئے گاتودیکھے گاکہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی میں جسے چاہوں گا دوں گا،میں نے کہایہ تب ہوگاجب قریش ہلاک ہوجائیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں !بلکہ اس دن قریش زندہ ہوں گے اورعزت پائیں گے،

وَدَخَلَ الْكَعْبَةَ فَوَقَعَتْ كَلِمَتُهُ مِنِّی مَوْقِعًا ظَنَنْتُ یَوْمَئِذٍ أَنَّ الْأَمْرَ سَیَصِیرُ إِلَى مَا قَالَ، فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ الْفَتْحِ قَالَ: یَا عثمان ائْتِنِی بِالْمِفْتَاحِ ،فَأَتَیْتُهُ بِهِ فَأَخَذَهُ مِنِّی ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَیَّ وَقَالَ: خُذُوهَا خَالِدَةً تَالِدَةً لَا یَنْزِعُهَا مِنْكُمْ إِلَّا ظَالِمٌ، یَا عثمان إِنَّ اللهَ اسْتَأْمَنَكُمْ عَلَى بَیْتِهِ، فَكُلُوا مِمَّا یَصِلُ إِلَیْكُمْ مِنْ هَذَا الْبَیْتِ بِالْمَعْرُوفِ،قَالَ: فَلَمَّا وَلَّیْتُ نَادَانِی فَرَجَعْتُ إِلَیْهِ، فَقَالَ: أَلَمْ یَكُنِ الَّذِی قُلْتُ لَكَ؟ قَالَ: فَذَكَرْتُ قَوْلَهُ لِی بِمَكَّةَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ: لَعَلَّكَ سَتَرَى هَذَا الْمِفْتَاحَ بِیَدِی أَضَعُه، فقلت: بلى، أشهد أنك رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

آپ خانہ کعبہ میں داخل توہوگئے مگرآپ کی یہ بات میرے دل میں جم گئی اورمیں نے یقین کرلیاکہ جوآپ نے فرمایاہے ایساہوکررہے گا،جب مکہ فتح ہواتوآپ نے فرمایاعثمان !چابی لاؤ،میں نے چابی لا کر دے دی،آپ نے وہ چابی اپنے ہاتھ میں لی پھریہ کہتے ہوئے واپس فرمادی یہ چابی لویہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی اگرکوئی تم سے چھینے گاتووہ ظالم ہوگا، اےعثمان!اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے گھرکاامین بنایاہے اس کی آمدنی دستورکے مطابق اپنے استعمال میں لاؤ، پھرجب میں جانے لگاتوآپ نے مجھے بلایا اورفرمایا!جوکچھ میں نے کہا تھاوہی ہوا یا نہیں ؟ تو عثمان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول جو ہجرت سے قبل کہا تھا اے عثمان ! ایک دن آئے گاتودیکھے گاکہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی،میں نے کہاہاں !میں شہادت دیتاہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔[82]

بلال رضی اللہ عنہ کابیت اللہ کی چھت پرچڑھ کراذان کہنا:

أنه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لمافَتْحِ مَكَّةَ وأمربِلَالا، بأن یؤذن فوق الْكَعْبَةِ،وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ وَعَتَّابُ بْنُ أَسِیدٍ وَالْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ جُلُوسٌ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ،قال عَتَّابُ بْنُ أَسِیدٍ: لَقَدْ أَكْرَمَ اللهُ أَسِیدًا إذا لم یر هذا الیوم ، فَیَسْمَعَ مِنْهُ مَا یَغِیظُهُ، وقال الْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ:أَمَا وجد مُحَمّد مؤذنا غیر هذا الْغُرَابَ الْأَسْوَد!وَقَالَ الْحَكَمُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ: هَذَا وَاَللهِ الْحَدَثُ الْعَظِیمُ أَنْ یَصِیحَ عَبْدُ بَنِی جُمَحَ ینھق عَلَى بَیتہ،

جب نمازظہرکاوقت آیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ وہ بیت اللہ کی چھت پرکھڑے ہوکراذان کہیں لیکن مکہ والوں نے جب توحیدورسالت کی پکارسنی توان میں کوئی سوزوگدازپیدانہ ہوا،ابوسفیان بن حرب،عتاب بن اسید،حارث بن ہشام ،حکم بن عاص اور مکہ کے دوسرے سرداراس وقت مسجدالحرام میں بیٹھے تھے،بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر عتاب بن اسید بولااللہ کاشکرہے کہ اس نے میرے باپ اسیدکواس کے سننے سے بچالیاہےورنہ اسے یہ سن کربہت غم ہوتا،اورحارث بن ہشام نے کہاکیامحمد علیہ السلام کواس کالے کوئے کے سوااورکوئی موذن نہیں ملاتھا؟اورحکم بن عاص نے کہااللہ کی قسم ! یہ ایک بڑاحادثہ ہے کہ بنوجمح کاایک غلام ابوطلحہ کی تعمیرکردہ عمارت (یعنی کعبہ)پرکھڑے ہوکرچیخ رہاہے،

فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ:أَمَا وَاَللَّهِ لَوْ أعلم أَنه محقّ لَاتَّبَعْتُهُ وقَالَ اَبُو سُفْیَانَ بن حرب:لَا أَقُولُ شَیْئًا،لَوْ تَكَلَّمْتُ لأخبرته هذه الحصباء،فَخَرَجَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وقال: قَدْ عَلِمْتُ الَّذِی قُلْتُمْ، وذكر مقالتهم،فَقَالَ الْحَارِثُ وَعَتَّابٌ:نَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، ما كان معنا أحد فنقول: أخبرك، ثُمَّ حَسُنَ إِسْلَامُ

حارث بن ہشام بولااگرمیں اس کوحق پرسمجھتاتومیں ضروراس کی اتباع کرتا،ابوسفیان بن حرب نے کہامیں توکچھ بھی نہیں کہتا اگرمیں کچھ کہوں گاتومیری بات یہ کنکریاں بھی ظاہرکردیں گی، اللہ نے بذریعہ وحی آپ کواس بات کی اطلاع دے دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف آئے اورفرمایاجوکچھ تم نے کہا ہے وہ مجھے معلوم ہوگیاہےپھرآپ نے ان کووہ سب کچھ من وعن بتادیاجوانہوں نے کہاتھا، یہ سن کرعتاب بن اسیداورحارث بن ہشام بولےہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،واللہ!ہماری ان باتوں کاکسی کوعلم نہیں تھاکہ ہم کہیں کہ اس نے آپ کوبتائی ہیں ،پھران کااسلام اچھارہا۔[83]

وَاسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَتَّابَ بْنَ أَسِیدِ بْنِ أَبِی الْعِیصِ بْنِ أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ عَلَى مَكَّةَ أَمِیرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسیدکوجن کی عمراس وقت اکیس سال کی تھی مکہ مکرمہ کاوالی مقررفرمایا۔[84]

قَالَ: لَمَّا اسْتَعْمَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَتَّابَ بْنَ أَسِیدٍ عَلَى مَكَّةَ رَزَقَهُ كُلَّ یَوْمٍ دِرْهَمًافَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، أَجَاعَ اللهُ كَبِدَ مَنْ جَاعَ عَلَى دِرْهَمٍ، فَقَدْ رَزَقَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دِرْهَمًا كُلَّ یَوْمٍ، فَلَیْسَتْ بِی حَاجَةٌ إلَى أَحَدٍ

اورجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسیدکومکہ مکرمہ کاامیرمقررفرمایاتوان کاروزانہ ایک درہم یومیہ مقررفرمایااس پرعتاب رضی اللہ عنہ بن اسیدنے کہا اے لوگو!اللہ اس شخص کے جگر کو بھوکارکھے جوایک درہم میں بھی بھوکارہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میراایک درہم روزمقررکیاہے اب مجھے کسی سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔[85]

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک برابرمکہ مکرمہ کے امیررہے ،خلیفہ اول سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کواپنے عہدے پربرقراررکھا،

ومات عَتّابَ بْنِ أُسَیْد بمكة فی الیوم الذى مات فیه أَبُو بَكْرٍ

جس دن سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اسی دن عتاب رضی اللہ عنہ بن اسیدنے بھی مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔[86]

ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کااسلام لانا

أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ قَالَ: خَرَجْتُ فِی نَفَرٍ عَشَرَةٍ، فَكُنَّا فِی بَعْضِ الطَّرِیقِ حِینَ قَفَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَیْنٍ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلاةِ [عِنْدَهُ] ، فَسَمِعْنَا صَوْتَ الْمُؤَذِّنِ وَنَحْنُ مُتَنَكِّبُونَ، فَصَرَخْنَا نَحْكِیهِ وَنَسْتَهْزِئُ بِهِ ، وَأَمّا أَبُو مَحْذُورَةَ الْجُمَحِیّ، وَاسْمُهُ سَلَمَةُ بْنُ مِعْیَرٍ وَقِیلَ سَمُرَةُ فَإِنّهُ لَمّا سَمِعَ الْأَذَانَ وَهُوَ مَعَ فِتْیَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ خَارِجَ مَكّةَ أَقْبَلُوا یَسْتَهْزَؤُونَ وَیَحْكُونَ صَوْتَ الْمُؤَذّنِ غَیْظًا، فَكَانَ أَبُو مَحْذُورَةَ مِنْ أَحْسَنِهِمْ صَوْتًا

ابومخدورہ کہتے ہیں میں دس ساتھیوں کے ہمراہ نکلا ہم راستے ہی میں تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس تشریف لے آئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن نے نماز کے لیے اذان دی توجب ہم آذان کی آواز سنتے تو ہم سب نوجوان مل کر بلند آواز سے قصے کہانیاں پڑھنے اور مؤذن کا استہزاء کرتے،کچھ نوجوان قریشی بھی بلال رضی اللہ عنہ کامذاق اڑانے لگے اورغصہ میں ان کی آوازکی نقلیں اتارنے لگےانہیں نوجوانوں میں اوس بن معیربن لوذان بن ربیعہ بن عریج بن سعدبن جمح( ابومحذورہ رضی اللہ عنہ حمجی) بھی تھے جن کی عمراس وقت سولہ سال کی تھی، ابومحذورہ بہت خوش الحان وبلندآواز کے مالک تھے۔[87]

فَسَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّوْتَ،فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا إِلَى أَنْ وَقَفْنَا بَیْنَ یَدَیْهِ، فَقَالَ: أَیُّكُمُ الَّذِی سَمِعْتُ صَوْتَهُ قَدِ ارْتَفَعَ؟ فَأَشَارَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ إِلَیَّ وَصَدَّقُوافَأَرْسَلَهُمْ وَحَبَسَنِی،ثُمَّ قَالَ: قُمْ فَأَذِّنْ بِالصَّلاةِ،فَقُمْتُ وَلا شَیْءَ أَكْرَهُ إِلَیَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلا مِمَّا یَأْمُرُنِی بِهِ، فَقُمْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَأَلْقَى عَلَیَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ التَّأْذِینَ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ: قُلِ اللهُ أَكْبَرُ. اللهُ أَكْبَرُ … فَذَكَرَ الأَذَانَ

ان لوگوں کی اذان کامذاق اڑاتی ہوئی آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئیں ،آپ نے حکم فرمایاکہ ان لڑکوں کومیرے قریب لاؤ،جب وہ قریب آکرکھڑے ہوئے توآپ نے دریافت فرمایاتم لوگوں میں وہ کون ہے جس کی آواز میرے کانوں میں پہنچی ہے؟سب لڑکوں نے ابومحذورہ کی طرف اشارہ کردیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لڑکوں کو چھوڑ دیااورمجھےروک لیا،ابومحذورہ سامنے کھڑے دل میں ڈرے اور گمان کرنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اذان کاتمسخراڑانے پرقتل کردیں گے مگر آپ نے انہیں حکم دیاکھڑے ہو جاؤ اور نمازکے لئے اذان دو، میں کھڑاہوااورمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر خوف سے بادل نخواستہ اذان دی،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب کھڑاتھااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر آذان کے کلمات پڑھنے جاتے میں بآواز بلند ان کو دھراتا جاتا یہاں تک کہ مکمل آذان کہہ ڈالی،

 ثُمَّ دَعَانِی حِینَ قَضَیْتُ التَّأْذِینَ فَأَعْطَانِی صِرَّةً فِیهَا شَیْءٌ مِنْ فِضَّةٍ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَهُ عَلَى نَاصِیَتِی، ثُمَّ مِنْ بَیْنِ ثَدْیَیَّ، ثُمَّ عَلَى كَبِدِی، حَتَّى بَلَغَتْ یدرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُرَّتِی،ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللهُ فِیكَ، وَبَارَكَ اللهُ عَلَیْكَ،فَقُلْتُ: وَذَهَبَ كُلُّ شَیْءٍ كَانَ فِی نَفْسِی لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَرَاهَةٍ، وَعَادَ ذَلِكَ كُلُّهُ مَحَبَّةً لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مُرْنِی بِالتَّأْذِینِ بِمَكَّةَ،قَالَ: قَدْ أَمَرْتُكَ بِهِ،فقدمت على عَتَّابُ بْنُ أَسِیدٍ عَامِلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَأَذَّنْتُ مَعَهُ بِالصَّلاةِ عَنْ أَمْرِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اذان کے بعدآپ نے انہیں ایک تھیلی عنایت فرمائی جس میں چنددرہم تھے، پھر میرےسر،پیشانی، سینہ اورناف تک دست مبارک پھیرااور پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دعا دیتے ہوئے فرمایا بَارَكَ فِیكَ وَبَارَكَ اللهُ عَلَیْكَ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، دست مبارک کامیرے جسم پرپھرنا تھا کہ میرے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تمام نفرت یکلخت الفت میں بدل گئی ،میرادل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریزہوگیامیں نے خدمت اقدس میں عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے مکہ مکرمہ کا موذن مقررفرما دیں ،آپ نے ان کی درخواست پر انہیں مکہ مکرمہ کاموذن مقررفرمادیا، پھرمیں نے امیرمکہ عتاب بن اسیدکواپنی بحیثیت موذن تقرری کی اطلاع دی اور اپنی وفات ۵۹ہجری تک مسجد الحرام میں اذان دیتے رہے،ان کے بعدان کی اولادنسلاًبعدنسل اذان کی وارث ہوتی رہی۔[88]

بیعت کے لئے لوگوں کااجتماع :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا، فَعَلَا عَلَیْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَیْتِ، وَرَفَعَ یَدَیْهِ فَجَعَلَ یَحْمَدُ اللهَ وَیَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ یَدْعُوَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ طواف سے فارغ ہونے کے بعدکوہ صفا پرچڑھے پھربیت اللہ کی طرف منہ کرکے دیرتک اللہ عزوجل کی حمدو ثنامیں مصروف رہے اور دعائیں کرتے رہے۔[89]

دعاسے فارغ ہوکروہیں کوہ صفا پرتشریف فرماہوگئے،لوگ آپ کے گرداگردبیعت کے لئے جمع ہوگئے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب آپ کی نشست سے نیچے بیٹھے تھے اورلوگوں سے بیعت لیتے جاتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے جہاں تک ہوسکے اللہ عزوجل اوراس کے رسول کی اطاعت اوران کے احکامات کوماننے پربیعت لی،جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پربیعت کی آپ نے اس سے اسی طریقہ پربیعت لی،

عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ یَدَیْهِ فَأَخَذَهُ مِنَ الرِّعْدَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَوِّنْ عَلَیْكَ فَإِنِّی لَسْتُ بِمَلِكٍ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ كَانَتْ تَأْكُلُ الْقَدِیدَ

قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاسی اثنامیں ایک شخص بیعت کے لئے حاضرہوامگرآپ کی ہیبت سے کانپ رہاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااطمینان رکھومیں بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں توایک قریشی خاتون کافرزندہوں جو سکھایا ہواگوشت کھاتی تھی۔[90]

 إنه أسلم عَامَ الْقَضِیّةِ، وَإِنه لقی رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مسلماوَكَتَمَ إسْلَامَهُ من أبیه وأمه

ان بیعت کرنے والوں میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بھی تھے جوصلح حدیبیہ کے بعداسلام قبول کرچکے تھے مگراسےاپنے والدین سے مخفی رکھاتھا۔[91]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مرحباکہاکیونکہ یہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اس لئے انہیں کاتب وحی مقرر فرمایا۔

امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بہت مناقب بیان کئے گئے ہیں ،

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عُمَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِیَةَ: اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِیًا مَهْدِیًّا وَاهْدِ بِهِ

عبدالرحمن بن ابی عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ کیلئے دعا کی کہ اے اللہ اسے ہدایت والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔[92]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أولُ هذا الأ مرِ نبوةٌ ورحمةٌ، ثمَّ یكونُ خلافةٌ ورحمةٌ، ثمّ یكون مُلكاً ورحمةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے پہلے نبوت اوررحمت ہے پھرخلافت اوررحمت ہوگی پھربادشاہت اوررحمت ہوگی۔[93]

وكانت إمارةُ مُعَاوِیَةَ مُلكًا ورحمةٌ

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت بادشاہت اوررحمت تھی۔[94]

قَالَ: عُمَیْرٌ، فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ:أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِی یَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَنَا فِیهِمْ؟ قَالَ:أَنْتِ فِیهِمْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِی یَغْزُونَ مَدِینَةَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ، فَقُلْتُ: أَنَا فِیهِمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: لاَ

عمیرنے بیان کیاکہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیامیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھامیری امت کاسب سے پہلالشکرجودریائی سفرکرکے جہادکے لئے جائے گااس نے(اپنے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت)واجب کرلی،ام حرام نے بیان کیاکہ میں نے کہاتھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں ان کے ساتھ ہوں گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں تم بھی ان کے ساتھ ہوگی،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے پہلالشکرمیری امت کاجوقیصر(رومیوں کے بادشاہ)کے شہر (قسطنطنیہ)پرچڑھائی کرے گاان کی مغفرت ہوگی،میں نے کہامیں بھی ان کے ساتھ ہوں گی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ۔[95]

پہلاجہادسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں )اٹھائیس ہجری میں ہواجس پرجزیرہ قبرص کے نصاری پرچڑھائی کی گئی اس میں ام حرام رضی اللہ عنہا شریک تھیں ،واپسی میں یہ راستہ پرسواری سے گرکرشہیدہوگئیں ،دوسراجہاد۵۵ہجری میں بزمانہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہواجس میں قسطنطنیہ پرحملہ کیاگیا،ابوایوب نصاری رضی اللہ عنہ نے اس میں شہادت پائی اور قسطنطنیہ ہی میں دفن کئے گئے،یہ لشکریزیدبن معایہ رحمہ اللہ کے زیرقیادت تھامگرخلافت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی تھی ،

قَالَ الْمُهَلَّبُ فِی هَذَا الْحَدِیثِ مَنْقَبَةٌ لِمُعَاوِیَةَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ وَمَنْقَبَةٌ لِوَلَدِهِ یَزِیدَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِینَةَ قَیْصَرَ

مہلب کہتے ہیں اس حدیث سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ظاہرہوتی ہےانہوں نے سب سے پہلے دریائی سفرکرکے(جزیرہ قبرص میں ) جہادکیااوران کے بیٹے یزید رحمہ اللہ کی بھی منقبت ظاہرہوتی ہے انہوں نے سب سے پہلےقیصرکے شہر(قسطنطنیہ )پرحملہ کیاتھا۔[96]

گویااس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ معاویہ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں جن کوخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی اورقسطنطنیہ پرجولشکرگیااس کاقائدیزید رحمہ اللہ تھاجس کے پرچم تلے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جنگ کی ،اس بشارت کے مطابق اس کی اللہ کے ہاں بخشش ہوگئی ہے جس کی بشارت خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔

قِیلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَلْ لَكَ فِی أَمِیرِ المُؤْمِنِینَ مُعَاوِیَةَ، فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ؟قَالَ: أَصَابَ، إِنَّهُ فَقِیهٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہاگیاکہ امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیافرماتے ہیں انہوں نے وترکی نمازصرف ایک رکعت پڑھی ہے؟انہوں نے کہاوہ خودفقیہ ہیں ۔[97]

ظَاهر شَهَادَة بن عَبَّاسٍ لَهُ بِالْفِقْهِ وَالصُّحْبَةِ دَالَّةٌ عَلَى الْفَضْلِ الْكثیر

حافظ ابن حجرالعسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ شہادت کہ وہ خودفقیہ ہیں امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے بےشمار فضائل کی دلیل ہے۔[98]

عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ سَمِعْتُ ابْنَ عبَّاس یَقُولُ: مَا رَأَیْتُ رَجُلًا كَانَ أَخْلَقَ بِالْمُلْكِ مِنْ مُعَاوِیَةَ

معمر رحمہ اللہ ھمام رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کوکہتے ہوئے سناہے میں نے کسی کوبھی معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حکمرانی کے لائق نہیں پایا ۔[99]

عن ابن عمرو.قَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِیَةَ، قَالَ قُلْتُ: وَلَا عُمَرَ؟ قَالَ: كَانَ عُمَرُ خَیْرًا مِنْهُ، وَكَانَ مُعَاوِیَةُ أَسْوَدَ مِنْهُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کوسرداری کے لائق نہیں پایا،سننے والے نے کہاسیدناعمر رضی اللہ عنہ سے بھی؟توفرمایاسیدناعمر رضی اللہ عنہ ان سے افضل تھے لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ سرداری میں ان سے بڑھ کرتھے۔[100]

أن عبد الله بن المبارك المذكور سئل: أیهما أفضل: معاویة بن أبی سفیان أم عمر بن عبد العزیز فقال: والله إن الغبار الذی دخل فی أنف معاویة مع رسول الله صلى الله علیه وسلم أفضل من عمر بألف مرة

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے سوال کیاگیاکہ معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ افضل ہیں یاعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ،انہوں نے کہااللہ کی قسم! معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوجہادکیے ہیں اور جو گردوغباران کے نتھنوں میں گھساہے وہ عمربن عبدالعزیزسے ہزارگناہ بہترہے۔[101]

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ، قَالَ: ثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَثْرَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَوَّاسٍ أَبُو عَاصِمٍ الْحَنَفِیُّ، قَالَ: ثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ الْمُكْتِبُ حُبَابٌ قَالَ:قَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْأَعْمَشِ فَذَكَرُوا عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَعَدْلِهِ، فَقَالَ الْأَعْمَشُ: فَكَیْفَ لَوْ أَدْرَكْتُمْ مُعَاوِیَةَ؟ قَالُوا: یَا أَبَا مُحَمَّدٍ، یَعْنِی فِی حِلْمِهِ؟ قَالَ: لَا وَاللهِ، أَلَا بَلْ فِی عَدْلِهِ۔[102]

قال الامام الذھبی رحمہ اللہ حَسْبُكَ بِمَنْ یُؤَمِّرُهُ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ عَلَى إِقْلِیْمٍ وَهُوَ ثَغْرٌ فَیَضْبِطُهُ، وَیَقُوْمُ بِهِ أَتَمَّ قِیَامٍ، وَیُرْضِی النَّاسَ بِسَخَائِهِ وَحِلْمِهِ، وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ تَأَلَّمَ مَرَّةً مِنْهُ، وَكَذَلِكَ فَلْیَكُنِ المَلِكُ.وَإِنْ كَانَ غَیْرُهُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – خَیْراً مِنْهُ بِكَثِیْرٍ، وَأَفْضَلَ، وَأَصْلَحَ، فَهَذَا الرَّجُلُ سَادَ وَسَاسَ العَالَمَ بِكَمَالِ عَقْلِهِ، وَفَرْطِ حِلْمِهِ، وَسَعَةِ نَفْسِهِ، وَقُوَّةِ دَهَائِهِ وَرَأْیِهِ۔[103]

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ: كَانَ مُعَاوِیَةُ وَكَانَ وَكَانَ، وَمَا رَأَیْنَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ

ابن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعدان جیسانہیں دیکھا۔[104]

قال مُجَاهِدٍ، قَالَ: لَوْ رَأَیْتُمْ مُعَاوِیَةَ لَقُلْتُمْ: هَذَا الْمَهْدِیُّ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں اگرتم معاویہ رضی اللہ عنہ کودیکھتے تویہی کہتے کہ یہی مہدی ہیں ۔[105]

 قَتَادَةَ، قَالَ: لَوْ أَصْبَحْتُمْ فِی مِثْلِ عَمِلَ مُعَاوِیَةَ لَقَالَ أَكْثَرُكُمْ: هَذَا الْمَهْدِیُّ۔[106]

قیل للحسن یا أبا سعید إن ها هنا قوما یشتمون أو یلعنون معاویة وابن الزبیر فقال على أولئك الذین یلعنون لعنة الله۔[107]

مُجَاشِعٌ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَخِی بَعْدَ الفَتْحِ،قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُكَ بِأَخِی لِتُبَایِعَهُ عَلَى الهِجْرَة،قَالَ:ذَهَبَ أَهْلُ الهِجْرَةِ بِمَا فِیهَا، فَقُلْتُ:عَلَى أَیِّ شَیْءٍ تُبَایِعُهُ؟قَالَ:أُبَایِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ، وَالإِیمَانِ، وَالجِهَادِ

مجاشع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں فتح مکہ مکرمہ کے بعدمیں اپنے بھائی کولے کرآپ کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس سے ہجرت پربیعت لے لیں ،آپ نے فرمایااب مکہ مکرمہ سے ہجرت اوراس کاثواب ختم ہوچکاہے، میں نے عرض کیااب آپ کس چیزپربیعت لیتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب میں اسلام ، ایمان اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں ۔[108]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِیَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایاآج مکہ مکرمہ سے ہجرت ختم ہوگئی ہے ہاں جہاد اور اس کی نیت باقی ہے جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تواس کے لئے فوراً حاضر ہو۔[109]

مردوں کی بیعت سے فراغت کے بعدعورتوں کی باری آئی،آپ کی خدمت میں قریشی خواتین جمع ہو گئیں جن میں ام ہانی بنت ابی طالب(سیدنا علیٰ رضی اللہ عنہ کی بہن)ام حبیبہ بنت عاص بن امیہ زوجہ عمروبن عبدووعامری،ارویٰ بنت ابی العص(عتاب رضی اللہ عنہ بن اسیدکی پھوپھی) عاتکہ بنت ابی العص(ارویٰ کی بہن ) اور ہندبنت عتبہ( زوجہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ ووالدہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ )شامل تھیں

وهِنْدِ بِنْتِ عُتْبَةَ امْرَأَةً أبی سُفْیَانَ متقنعة متنكرة خوفا من رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أن یعرفها لما صنعت بحمزة

ہندہ جب بیعت کے لئے حاضرہوئیں توکیونکہ انہیں اپنے قتل کا اندیشہ تھااس لئے اپنی ہیت بدل کراوراپنے چہرے پرنقاب ڈال کر حاضر خدمت ہوئیں ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں سے بیعت کے الفاظ ذکرفرمائے

 یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللهِ شَـیْـــــًٔــا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲ [110]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی ،اور کسی امرِ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی الفاظ پرعورتوں سےبیعت کی۔

فَقَالَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ:أُبَایِعُكُنَّ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكْنَ بالله شَیْئًا وإنك لتأخذ علینا أمرا ما رأینا أَخَذْتَهُ عَلَى الرِّجَالِ،فَقَالَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: وَلَا تَسْرِقْنَ،فَقَالَتْ هِنْدُ: إِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ شَحِیحٌ وَإِنِّی أَصَبْتُ مِنْ مَالِهِ هَنَاةً فَمَا أَدْرِی أَتَحِلُّ لِی أَمْ لَا؟فَقَالَ: أَبُو سُفْیَانَ مَا أَصَبْتِ مِنْ شَیْءٍ فِیمَا مَضَى وَفِیمَا غَبَرَ فَهُوَ لَكِ حَلَالٌ، فَضَحِكَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَرَفَهَا، فَقَالَ لَهَا: وَإِنَّكِ لَهِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ؟قَالَتْ: نَعَمْ فَاعْفُ عَمَّا سَلَفَ یَا نَبِیَّ الله عَفَا الله عَنْكَ،فَقَالَ: وَلَا تَزْنِینَ، فَقَالَتْ: أَتَزْنِ الْحُرَّةُ

جب یہ خواتین بیعت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتم سب مجھ سے اس عہدپربیعت کروکہ کبھی کسی چیزکواللہ کاشریک نہ بناؤگی، اس پرہند بولیں آپ ہم سے اس امرکاعہدلے رہے ہیں جو آپ نے مردوں سے نہیں لیا ہےلیکن ہم آپ سے اس کاعہدکرتی ہیں ،پھرآپ نے اس بات پربیعت کی کہ تم کبھی چوری نہ کرنا،ہند پھر بول اٹھیں میراخاوندابوسفیان بخیل آدمی ہے وہ مجھے پوراخرچ نہیں دیتااس لئے میں اس کے مال سے اس کی اطلاع کے بغیر کبھی کبھی تھوڑامال لے لیاکرتی ہوں مجھے معلوم نہیں کہ یہ حلال تھایاحرام ؟اس وقت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجودتھے اوریہ سب سن رہے تھے انہوں نے کہاتم نے گزشتہ دورمیں اس طرح جوکچھ لیا تھامیں وہ تمہیں معاف کرتاہوں ،اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندبنت عتبہ کو پہچانا اورہنس پڑے اورپوچھاکیاتم ہندبنت عتبہ ہو؟ انہوں نے عرض کیاہاں میں ہندہ ہوں اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ آپ پر اپنا فضل فرمائے آپ میری سابقہ غلطیوں سے درگزرفرمائیں ،پھرآپ نے فرمایاتم سب کبھی زنانہ کروگی،ہندنے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !بھلاکوئی شریف عورت بھی زناکرسکتی ہے؟

فَقَالَ: وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَكُنَّ، فَقَالَتْ: رَبَّیْنَاهُمْ صِغَارًا وَقَتَلْتَهُمْ كِبَارًا، فَأَنْتُمْ وَهُمْ أَعْلَمُ، وَكَانَ ابْنُهَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ قَدْ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍفَضَحِكَ عُمَرُ رَضِیَ الله عَنْهُ حَتَّى اسْتَلْقَى، وَتَبَسَّمَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،فَقَالَ: وَلَا تَأْتِینَ بِبُهْتَانٍ تَفْتَرِینَهُ،فَقَالَتْ هِنْدُ: والله/ إِنَّ الْبُهْتَانَ لَأَمْرٌ قَبِیحٌ وَمَا تَأْمُرُنَا إِلَّا بِالرُّشْدِ وَمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ،فقال:ولاتَعْصِینَنِی فِی مَعْرُوفٍ، فَقَالَتْ:والله مَا جَلَسْنَا مجلسنا هذا وفی أنفسنا أن نعصینك فِی شَیْءٍ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی اولادوں کو ہلاک نہیں کروگی، ہند نے(اپنے بیٹے حنظلہ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرکے جوغزہ بدرمیں قتل ہوگیاتھا) عرض کیاہم نے اپنی اولادوں کو بچپن سے پال پوس کرجوان کیاتھاجب وہ بڑے ہوگئے توآپ نے انہیں قتل کرڈالا اب آپ اوروہی اس معاملہ کوزیادہ بہترطورپرسمجھ سکتے ہیں ،اس بات پر سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کوہنسی آگئی یہاں تک کہ ہنستے ہنستے چت لیٹ گئےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تبسم فرمایا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی دوست پربہتان وافترا پردازی نہ کرنا ، ہندنے عرض کیااللہ کی قسم!بہتان طرازی بہت مذموم فعل ہے اورآپ ہمیں رشدوہدایت اور اوراعلیٰ مکارم اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں ،پھرآپ نے فرمایاتم کسی نیکی میں میری نافرمانی نہ کرنا،ہندنے عرض کیا اللہ کی قسم!ہم اس مجلس میں اس لئے حاضرنہیں ہوئی ہیں کہ ہم کسی کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی۔[111]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ وَاللهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ یَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الیَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ یَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ:وَأَیْضًا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ہندبنت عتبہ نے اسلام قبول کرنے کے بعدعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم !روئے زمین پرکسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سے زیادہ میرے لئے خوشی کاباعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پرآپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لئے خوشی کی وجہ نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس میں ابھی اورترقی ہوگی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!۔[112]

لَمّا أَسْلَمَتْ هِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ جَعَلَتْ تَضْرِبُ صَنَمًا فِی بَیْتِهَا بِالْقَدُومِ، فِلْذَةً فِلْذَةً، وَهِیَ تَقُولُ: كُنّا مِنْك فِی غُرُورٍ!

کوہ صفاپربیعت سے فارغ ہوکرہندہ نے گھرآکراپناخاص بت توڑ ڈالااور کہنے لگی ہم اب تک تیرے بارے میں دھوکے میں ہی رہے۔[113]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: بَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ الله، إِن الله غَفُور رَحِیم ، فَبَایَعَهُنَّ عُمَرُ

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ وہ آپ کی طرف سے باقی عورتوں سے بیعت لیں یعنی پچھلے اعمال کی توبہ کرائیں اورپھران کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کریں کہ وہ غفوررحیم ہے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عورتوں سے بیعت لی۔

وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یُصَافِحُ النِّسَاءَ وَلَا یَمَسُّ إِلَّا امْرَأَةً أَحَلَّهَا اللهُ لَهُ أَوْ ذَاتَ مَحْرَمٍ مِنْهُ

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں یاان خواتین کے سواجن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم تھے کسی عورت کاہاتھ نہیں چھوتے تھے اورہندسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت اس کاہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں نہیں لیا تھا۔[114]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: لَا وَاللهِ مَا مَسَّتْ یَدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ تک نہیں چھوا۔ [115]

مَا كَانَ یُبَایِعُهُنَّ إِلَّا كَلَامًا وَیَقُولُ إِنَّمَا قَوْلِی لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ كَقَوْلِی لِمِائَةِ امْرَأَةٍ

ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے ان میں سے کسی کااپنے ہاتھ پررکھوائے بغیرہمیشہ زبانی بیعت لیاکرتے تھے۔[116]

عَنْ أُمَیْمَةَ بِنْتِ رُقَیْقَةَ، قَالَتْ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نِسَاءٍ نُبَایِعُهُ،قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تُصَافِحُنَا؟قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تُصَافِحُنَا؟ قَالَ:إِنِّی لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ

امیمہ رضی اللہ عنہا بنت رقیقہ سے مروی ہےمیں کئی عورتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کے لئے آئی، اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ مصافحہ نہیں کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاکہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔[117]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: إِنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِیلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ، فَخَطَبَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِیلَ، وَسَلَّطَ عَلَیْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِینَ،أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَلَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِی ، أَلَا وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِی سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِی هَذِهِ حَرَامٌ، لاَ یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَسْفِكَ بِهَا دَمًا لَا یُخْبَطُ شَوْكُهَا، وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفتح مکہ کے دن بنوخزاعہ نے اپنے ایک مقتول کاجسے قتل کیاگیاتھابنولیث سے مطالبہ کیااور اپنے آدمی کے بدلے ان کاایک آدمی قتل کرناچاہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم ہواتوآپ نے اپنی اونٹنی پرسوارہوکرخطبہ ارشادفرمایا، اللہ عزوجل نے مکہ مکرمہ میں لڑائی کرنے سے اصحاب الفیل کوروک دیاتھااوراپنے رسول اوراہل ایمان کو اس پرمسلط کیاہے،خبردار!یہ مجھ سے پہلے نہ کسی کے لئے حلال ہواہے اورنہ آئندہ کسی کے لئے حلال ہوگامجھے بھی صرف دن کے کچھ حصہ میں لڑائی کی اجازت ہوئی تھی ، خبردار!اس کی حرمت پھرویسی ہی ہوگئی ہے جیسے کل تھی،جوشخص اللہ اورآخرت پرایمان رکھتاہواس کے لئے یہ حلال نہیں کہ اس میں خون بہائے،اس کاکانٹانہ اکھاڑاجائے اوراس کے درخت نہ کاٹے جائیں ،

وَلَا یَلْتَقِطُ سَاقِطَتَهَا إِلَّا مُنْشِدٌوَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِیلٌ فَهُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ: إِمَّا أَنْ یُعْطَى یَعْنِی الدِّیَةَ ، وَإِمَّا أَنْ یُقَادَ أَهْلُ الْقَتِیلِ،وَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الیَمَنِ فَقَالَ: اكْتُبُوا لِی یَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبُوا لِأَبِی شَاهٍ

اوراس میں گری پڑی چیزنہ اٹھائی جائے،ہاں اگرکسی نے اعلان کرناہوتواس کے لئے اٹھانا جائز ہے(تاکہ اصل مالک تک پہنچادے) آئندہ اگرکسی کاکوئی آدمی قتل کیا جائے تو اس کو اختیارہے کہ وہ ان دوچیزوں میں سے جسے چاہے پسند کرے یاتووہ دیت وصول کرلے یامقتول کے بدلے قصاص میں قاتل کوقتل کیاجائے،اب جوحاضرہے وہ غائب کویہ بات پہنچادے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، آپ کاخطبہ ختم ہونے کے بعدیمن کاایک آدمی آیاجس کو ابوشاہ کہاجاتاتھااس نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے یہ تقریر لکھوا دیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوشاہ کویہ تقریرلکھ دو۔[118]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافتح مکہ کے دوسرے روزایک خطبہ :

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ عَدَتْ خُزَاعَةُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ هُذَیْلٍ فَقَتَلُوهُ وَهُوَ مُشْرِكٌ،فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِینَا خَطِیبًا، فَقَالَ: یَا أَیهَا النَّاسُ، إنَّ اللهَ حَرَّمَ مَكَّةَ یَوْم خلق السّماوات وَالْأَرْضَ، فَهِیَ حَرَامٌ مِنْ حَرَامٍ إلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ،فَلَا یَحِلُّ لِامْرِئِ یُؤْمِنُ بالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ یَسْفِكَ فِیهَا دَمًاوَلَا یَعْضِدَ فِیهَا شَجَرًا لَمْ تَحْلِلْ لِأَحَدِ كَانَ قَبْلِی، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدِ یَكُونُ بَعْدِی، وَلَمْ تَحْلِلْ لِی إلَّا هَذِهِ السَّاعَةَ، غَضَبًا عَلَى أَهْلِهَاأَلَا، ثُمَّ قَدْ رَجَعَتْ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، فَلْیُبَلِّغْ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ

ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے دوسرے دن ایک خزاعی نے ایک ہزیلی کوقتل کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقع کاعلم ہواتوکوہ صفاپرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان کھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرمایااے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جس دن سے آسمان اورزمین پیداکیے اس شہرکوحرام کیاہے پس یہ اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے کی وجہ سے قیامت تک حرام رہے گا،پس جوشخص اللہ اورروزقیامت پرایمان رکھتا ہواس کے لئے یہ جائزنہیں کہ مکہ مکرمہ میں خون بہائے،نہ کسی کے لئے کسی درخت کوکاٹناجائزہے،مکہ مکرمہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال ہوااورنہ میرے بعدکسی کے لئے حلال ہوگا اور میرے لئے بھی صرف اسی ساعت اوراسی گھڑی کے لئے حلال کیاگیاتھااہل مکہ کی نافرمانی پراورناراضی کی وجہ سے،اورآگاہ ہوجاؤکہ اس کی حرمت پھرویسی ہی ہو گئی ہے جیساکہ کل تھی،پس تم میں سے جوحاضرہے وہ میرایہ پیغام ان لوگوں کوپہنچادے جوغائب ہیں ،

فَمَنْ قَالَ لَكُمْ: إنَّ رَسُولَ اللهِ (قَدْ) قَاتَلَ فِیهَا، فَقُولُوا: إنَّ اللهَ قَدْ أَحَلَّهَا لِرَسُولِهِ، وَلَمْ یُحْلِلْهَا لَكُمْ،یَا مَعْشَرَ خُزَاعَةَ ارْفَعُوا أَیْدِیَكُمْ عَنْ الْقَتْلِ، فَلَقَدْ كَثُرَ الْقَتْلُ إنْ نَفَعَ، لَقَدْ قَتَلْتُمْ قَتِیلًا لَأَدِیَنَّهُ،فَمَنْ قُتِلَ بَعْدَ مَقَامِی هَذَا فَأَهْلُهُ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ: إنْ شَاءُوا فَدَمُ قَاتِلِهِ، وَإِنْ شَاءُوا فَعَقْلُهُ،فوداه بِمِائَة نَاقَةٍ

پس تم میں سے جوشخص یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں قتال کیاتو تم اس سے کہہ دیناکہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کے لئے مکہ کچھ وقت کے لئے حلال کردیااورتمہارے لئے حلال نہیں کیا، اے گروہ خزاعہ قتل سے اپنے ہاتھ اٹھاؤتم نے ایک شخص کومارڈالاجس کی دیت میں دوں گاجوشخص آج کے بعدکسی کوقتل کرے گاتومقتول کے گھروالوں کودوباتوں میں سے ایک کااختیارہوگایاتووہ خون کے بدلے قاتل کو قتل کردیں یامقتول کی دیت لے لیں ،بعدازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے سواونٹ اس شخص کی دیت ادافرمائی جس کوخزاعہ نے قتل کیاتھا [119]

[1] ابن ہشام۴۰۱؍۲

[2] مغازی واقدی۸۲۲؍۲

[3] زادالمعاد۳۵۵؍۳

[4] صحیح بخاری کتاب  المغازی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۰

[5] البدایة والنہایة۳۳۸؍۴،الروض الانف۲۱۹؍۷،عیون الآثر۲۲۱؍۲

[6] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟ ۴۲۸۲ ،مسنداحمد۲۱۷۵۲

[7]صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ تَوْرِیثِ دُورِ مَكَّةَ، وَبَیْعِهَا وَشِرَائِهَا، وَأَنَّ النَّاسَ فِی المَسْجِدِ الحَرَامِ سَوَاءٌ خَاصَّةً ۱۵۸۸،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ النُّزُولِ بِمَكَّةَ لِلْحَاجِ، وَتَوْرِیثِ دُورِهَا ۳۲۹۴،زادالمعاد۱۰۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۶۱؍۳

[8] فتح الباری ۱۷۶؍۶

[9] صحیح بخاری کتاب المغازی  بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۴

[10] ابن ہشام۴۰۷؍۲ ،الروض الانف ۲۲۱؍۷،عیون الآثر۲۲۲؍۲،زادالمعاد۳۵۷؍۳

[11] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۰،دلائل النبوة للبیہقی۳۸؍۵

[12] فتح الباری۱۰؍۸

[13] الفصول فی السیرة۲۰۱؍۱

[14] ابن سعد ۱۰۳؍۲

[15] مغازی واقدی۸۲۶؍۲

[16] عیون الآثر۲۲۳؍۲،امتاع الاسماع۳۷۹؍۱۳، شمائل الرسولﷺ ۳۵۴؍۲

[17] مدارج النبوت ۳۹۳؍۲

[18] فتح الباری۱۰؍۸،دلائل النبوة للبیہقی۴۹؍۵

[19] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ فَضَائِلِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۳۹۵

[20] ابن سعد۱۰۴؍۲

[21] ابن سعد۷۳؍۳ 

[22] ابن سعد۱۰۶؍۲

[23] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ دُخُولِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ ۴۲۸۹

[24] دلائل النبوة للبیہقی ۶۸؍۵

[25] ابن ہشام۴۱۱؍۲،الروض الانف۲۳۰؍۷،عیون الآثر۲۲۶؍۲،البدایة والنہایة۳۴۴؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۵۶۹؍۳

[26] مغازی واقدی۸۳۲؍۲

[27] الإسراء: 81 

[28]سبأ: 49

[29] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ وَقُلْ جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۴۷۲۰،دلائل النبوة للبیہقی۷۰؍۵

[30] مغازی واقدی۸۳۲؍۲

[31] دلائل النبوة للبیہقی۳۹؍۵،مغازی واقدی۸۳۲؍۲

[32] مسندالبزار۸۷۷۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۶۴؍۳

[33] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟ ۴۲۸۸،وکتاب احادیث الانبیائبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ۳۳۵۲،دلائل النبوة للبیہقی۷۲؍۵، البدایة والنہایة۱۹۴؍۱، زادالمعاد ۳۵۸؍۳

[34] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیائبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ۳۳۵۱

[35] ابن ہشام ۴۱۳؍۲،الروض الانف ۲۳۳؍۷

[36] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی الصُّوَرِ ۴۱۵۶،ابن سعد۱۰۸؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۷۳؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۴۶۵؍۳

[37] شرح الزرقانی علی المواھب۴۶۶؍۳

[38] زادالمعاد۳۶۳؍۳،الروض الانف۲۴۱؍۷،عیون الآثر۲۲۸؍۲،البدایة والنہایة ۳۵۲؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۴۶۰؍۳

[39] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ دُخُولِ الْكَعْبَةِ لِلْحَاجِّ وَغَیْرِهِ، وَالصَّلَاةِ فِیهَا، وَالدُّعَاءِ فِی نَوَاحِیهَا كُلِّهَا ۳۲۳۳

[40] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ دُخُولِ الْكَعْبَةِ لِلْحَاجِّ وَغَیْرِهِ، وَالصَّلَاةِ فِیهَا، وَالدُّعَاءِ فِی نَوَاحِیهَا كُلِّهَا۳۲۳۷

[41] صحیح مسلم کتاب  الحج بَابُ اسْتِحْبَابِ دُخُولِ الْكَعْبَةِ لِلْحَاجِّ وَغَیْرِهِ، وَالصَّلَاةِ فِیهَا، وَالدُّعَاءِ فِی نَوَاحِیهَا كُلِّهَا۳۲۳۶،۳۲۳۰، ۳۲۳۸

[42] ابن ہشام ۴۱۲؍۲،الروض الانف ۲۳۱؍۷،عیون الآثر۲۲۶؍۲، زادالمعاد ۳۵۸؍۳، شرح الزرقانی علی المواھب ۴۳۱؍۳،البدایة والنہایة۳۴۴؍۴ ،تاریخ طبری ۶۰؍۳،مغازی واقدی۸۳۵؍۲

[43] ابن ہشام۴۰۹؍۲،الروض الانف۲۲۵؍۷

[44] الاحزاب۶۱،۶۲

[45] السیرة الحیبة۱۳۰؍۳

[46] مسندالبزار۱۱۵۱

[47] شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۳؍۳

[48] ابن ہشام۴۰۹؍۲،الروض الانف ۲۲۶؍۷، عیون الآثر۲۲۴؍۲، تاریخ طبری ۵۹؍۳،البدایة والنہایة۳۴۰؍۴،دلائل النبوة للبیہقی ۶۱؍۵، شرح الزرقانی علی المواھب۴۳۷؍۳

[49] السنن  الکبری للنسائی۳۵۱۶،دلائل النبوة للبیہقی ۵۸؍۵،البدایة والنہایة۳۴۱؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۲۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۶۵؍۳

[50] تاریخ طبری۵۰۱؍۱۱

[51] تاریخ الخمیس۹۲؍۲

[52] شرح الزرقانی علی المواھب ۳۱۴؍۲

[53] مغازی واقدی۸۵۱؍۲،تاریخ طبری۵۰۱؍۱۱

[54] احیاء علوم الدین ۲۸۱؍۱

[55] مغازی واقدی۸۵۷؍۲

[56] فتح الباری۱۱؍۸،البدایة والنہایة۳۴۱؍۴

[57] فتح الباری ۱۱؍۸، زادالمعاد۳۶۲؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۵؍۳

[58]مغازی واقدی۶۵۸؍۲

[59] ابن ہشام ۴۱۱؍۲،الروض الانف ۲۲۹؍۷،ابن سعد ۱۱۰؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۴۴۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۶۸؍۳

[60] ابن ہشام ۴۱۷؍۲، الروض الانف۲۴۳؍۷،تاریخ طبری۶۳؍۳،البدایة والنہایة۳۵۳؍۴، السیرة النبویة  لابن کثیر۵۸۴؍۳

[61]۔زادالمعاد۴۱۱؍۳،ابن ہشام۴۴۰؍۲،الروض الانف ۲۷۹؍۷،عیون الآثر ۲۳۸؍۲،البدایة والنہایة۳۷۰؍۴،تاریخ طبری۷۳؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۱۳؍۳

[62] شرح الزرقانی علی المواھب ۲۱؍۴ ، مغازی واقدی ۹۴۶؍۳، زادالمعاد۳۶۴؍۳

[63] ابن ہشام۷۲؍۲،الروض الانف۳۱۶؍۵

[64] فتح الباری ۳۶۸؍۷

[65] ابن ہشام ۴۱۱؍۲،الروض الانف ۲۲۸؍۷،عیون الآثر ۲۲۵؍۲، تاریخ طبری ۶۰؍۳،مغازی واقدی ۸۶۰؍۲، فتح الباری ۱۱؍۸

[66] الخصائص الکبریٰ۴۳۹؍۱،تاریخ طبری۵۳۰؍۱۱،ابن سعد۴۴؍۴

[67]۔الروض الانف ۲۲۳؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۹۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۶۲؍۳

[68] مستدرک حاکم۵۲۲۷،المنتظم فی تاریخ الملوک والامم۲۶۱؍۴ ،حیاة الصحابة۴۹؍۲، المفصل فی التاریخ العرب قبل اسلام۴۲۴؍۱۶، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۶۷۱؍۲، اسدالغابة۵۸۵؍۲،محض الصواب فی فضائل أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب۴۷۱؍۲

[69] شرح الزرقانی علی المواھب۱۹۶؍۳

[70] معجم الصحابة للبغوی ۱۹۷؍۲

[71] الطبقات الکبری ۔متمم الصحابة  الطبقة الرابعة من الصحابة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك۴۴۳؍۱

[72] الطبقات الکبری ۔متمم الصحابة  الطبقة الرابعة من الصحابة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك۴۴۳؍۱

[73] الطبقات الکبری ۔متمم الصحابة  الطبقة الرابعة من الصحابة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك۴۴۴؍۱

[74] ابن سعد۴۵۴؍۵

[75] ابن سعد۱۰؍۶

[76] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۵۹؍۱۵ ،تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۴۶۸؍۷

[77] الطبقات الکبری ۔متمم الصحابة   الطبقة الرابعة من الصحابة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك۴۴۵؍۱

[78] ابن ہشام ۴۱۱؍۲،الروض الانف۳۲۳؍۷،عیون الآثر۲۲۶؍۲،البدایة والنہایة۳۴۴؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۵۷۰؍۳

[79] النساء ۵۸

[80] فتح الباری۱۹؍۸،شرح الزرقانی علی المواھب۴۷۴؍۳

[81] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۷۴؍۱

[82] زادالمعاد ۳۶۰؍۳، عیون الآثر۲۲۷؍۲،الخصائص الکبری۴۴۲؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب۴۶۹؍۳

[83] ابن ہشام۴۱۳؍۲،الروض الانف۲۳۴؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب۱۱۳؍۱۰

[84] دلائل النبوة للبیہقی۱۱۹؍۵،عیون الآثر۲۳۹؍۲،البدایة والنہایة ۴۲۲؍۴،سیرة الحلیبة۱۴۵؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۱۵؍۳

[85] الروض الانف۳۶۷؍۷،ابن ہشام۵۰۰؍۲،البدایة والنہایة۴۲۲؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۸؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۹۷؍۳

[86] تاریخ طبری۴۱۹؍۳

[87] الروض الانف ۲۳۹؍۷

[88] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۷۵۳؍۴، امتاع الاسماع۱۲۶؍۱۰

[89] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ فَتْحِ مَكَّةَ۴۶۲۲

[90] ابن سعد۲۱؍۱

[91] اسد الغابة ۲۰۱؍۵

[92] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۴۲،مسنداحمد۱۷۸۹۵،حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء۳۵۸؍۸،الجامع الصحیح للسنن والمسانید ۳۵۸؍۱۶،سلسلة الأحادیث الصحیحة۱۸۶۹

[93] سلسلة الأحادیث الصحیحة۳۲۷۰،المعجم الكبیرللطبرانی۱۱۱۳۸

[94] جامع المسائل لابن تیمیة۱۵۴؍۵

[95] صحیح بخاری  كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَا قِیلَ فِی قِتَالِ الرُّومِ۲۹۲۴

[96] فتح الباری ۱۰۲؍۶

[97] صحیح بخاری  كتاب أصحاب النبی صلى الله علیه وسلم بَابُ ذِكْرِ مُعَاوِیَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۷۶۵

[98] فتح الباری ۱۰۴؍۷

[99] البدایة والنهایة۱۴۳؍۸، مجموع فیه مصنفات أبی العباس الأصم وإسماعیل الصفار۳۰۹؍۱

[100] البدایة والنهایة۱۴۳؍۸

[101] وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان۳۳؍۳،مائة من عظماء أمة الإسلام غیروا مجرى التاریخ۱۹۱؍۱، التاج المكلل من جواهر مآثر الطراز الآخر والأول۴۴؍۱

[102] السنة لابی بکربن الخلال۶۶۷

[103] سیر أعلام النبلاء۱۳۲؍۱

[104] ابن سعد۱۲۲؍۱

[105] السنة لابی بکربن الخلال۶۶۹

[106] السنة لابی بکربن الخلال۶۶۸

[107] تاریخ دمشق۲۰۶؍۵۹

[108] صحیح بخاری کتاب المغازی باب باب ۴۳۰۵،۴۳۰۶

[109] صحیح مسلم کتاب  الامارةبَابُ الْمُبَایَعَةِ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ عَلَى الْإِسْلَامِ وَالْجِهَادِ وَالْخَیْرِ، وَبَیَانِ مَعْنَى لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ۴۸۲

[110] الممتحنة۱۲

[111] تفسیرالرازی۵۲۳؍۲۹، تفسیر الثعالبی۲۹۷؍۹، تفسیرالبغوی ۷۶؍۵

[112] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ ذِكْرِ هِنْدٍ بِنْتِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا ۳۸۲۵،وکتاب الاحکام بَابُ مَنْ رَأَى لِلْقَاضِی أَنْ یَحْكُمَ بِعِلْمِهِ فِی أَمْرِ النَّاسِ، إِذَا لَمْ یَخَفِ الظُّنُونَ وَالتُّهَمَةَ ۷۱۶۱،صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ قَضِیَّةِ هِنْدٍ ۴۴۷۷،فتح الباری ۷۱۶۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۰۱؍۵،البدایة والنہایة۶۰؍۷

[113]مغازی واقدی ۸۷۰؍۲، امتاع الاسماع ۶؍۲،السیرة الحلبیة۱۴۷؍۳

[114] البدایة النہایة۳۶۵؍۴،تاریخ طبری ۶۱؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۰۳؍۳

[115] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ إِذَا أَسْلَمَتِ المُشْرِكَةُ أَوِ النَّصْرَانِیَّةُ تَحْتَ الذِّمِّیِّ أَوِ الحَرْبِیِّ۵۲۸۸،وکتاب الاحکام بَابُ بَیْعَةِ النِّسَاءِ ۷۲۱۴،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ كَیْفِیَّةِ بَیْعَةِ النِّسَاءِ۴۸۳۴،سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ بَیْعَةِ النِّسَاءِ۲۸۷۵، مسنداحمد۲۵۲۰۴

[116]البدایةوالنہایة۳۶۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۰۴؍۳ 

[117] السنن الکبری للنسائی۷۷۵۶،مسنداحمد۲۷۰۰۹،المعجم الکبیرللطبرانی۴۷۰، ابن سعد ۳؍۸

[118]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْزِلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الفَتْحِ ۴۲۹۵، وکتاب المحصروجزائ الصیدبَابٌ لاَ یُنَفَّرُ صَیْدُ الحَرَمِ ۱۸۳۳،وکتاب اللقطة بَابُ كَیْفَ تُعَرَّفُ لُقَطَةُ أَهْلِ مَكَّةَ۲۴۳۴،سنن ابن داودکتاب المناسک بَابُ تَحْرِیمِ حَرَمِ مَكَّةَ۲۰۱۷ ،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ تَحْرِیمِ مَكَّةَ وَصَیْدِهَا وَخَلَاهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا، إِلَّا لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ ۳۳۰۶،ابن ہشام۴۱۶؍۲ 

[119] ابن ہشام ۴۱۴؍۲،الروض الانف۲۳۷؍۷

Related Articles