ہجرت نبوی کا آٹھواں سال

فتح مکہ(تاریخ اسلام کاعظیم واقعہ)رمضان آٹھ ہجری

فِی الْفَتْحِ الْأَعْظَمِ الَّذِی أَعَزَّ اللهُ بِهِ دِینَهُ وَرَسُولَهُ، وَجُنْدَهُ وَحِزْبَهُ الْأَمِینَ، وَاسْتَنْقَذَ بِهِ بَلَدَهُ وَبَیْتَهُ الَّذِی جَعَلَهُ هُدًى لِلْعَالَمِینَ مِنْ أَیْدِی الْكُفَّارِ وَالْمُشْرِكِینَ، وَهُوَ الْفَتْحُ الَّذِی اسْتَبْشَرَ بِهِ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَضَرَبَتْ أَطْنَابُ عِزِّهِ عَلَى مَنَاكِبِ الْجَوْزَاء،وَدَخَلَ النَّاسُ بِهِ فِی دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا، وَأَشْرَقَ بِهِ وَجْهُ الْأَرْضِ ضِیَاءً وَابْتِهَاجًا

امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں فتح مکہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اپنے رسول اپنے لشکراورامانت داروں کوعزت بخشی اورجس کے ذریعہ اپنا شہر اوراپناگھرکفارومشرکین سے آزادکرایاجسے عالمین کے لئے ہدایت بنایاگیاتھا،یہی وہ فتح اعظم تھی جس سے آسمان والے خوش ہوئے اوربرج جوزاپرخیمے گاڑدیئے اورلوگ گروہ درگروہ اللہ کے دین میں داخل ہوئے ،اس سے رخ زمین چمکااورروشن ہوگیا۔[1]

اوریہ حقیقت ہے ،یہی وہ فتح تھی جس سے قریش کی غرورسے تنی ہوئی گردن جھک گئی جواسلام کی پھیلاؤمیں سب سے بڑی روکاوٹ بنے ہوئے تھے،جب یہ جھک گئے توسب سے پہلی عبادت گاہ بیت اللہ کفارومشرکین کے قبضہ سے نکل کران لوگوں کے ہاتھوں میں چلاگیا جن کواللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مصاحبت کے لئے چن لیاتھا ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہانابڑی سعادت سمجھتے تھے ،طلوع اسلام سے فتح مکہ اوربعدتک جن کاایمان ہرکسوٹی پرپورااتراتھا،اسلام کی عظیم برکتیں ہر سو پھیل گئیں اوراردگردکے وہی سرکش قبائل جومسلمانوں کے خلاف شورش پیداکرتے رہتے تھے جوق درجوق اسلام میں داخ ہونے لگے،اورپوراجزیرہ العرب اسلام کے سائے میں امن وسکون کاپیکربن گیااور مجاہدین اسلام نے اس پاکیزہ پیغام کوساری دنیامیں پہنچانے کے لئے سرپرکفن باندھ لیا ۔

غزوہ کاسبب:

فَلَمَّا كَانَ صُلْحُ الْحُدَیْبِیَةِ بَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ قُرَیْشٍ، كَانَ فِیمَا شَرَطُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَطَ لَهُمْ، أَنَّهُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَهْدِهِ فَلْیَدْخُلْ فِیهِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَهْدِهِمْ فَلْیَدْخُلْ فِیهِ، فَدَخَلَتْ بَنُو بَكْرٍ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَهْدِهِمْ، وَدَخَلَتْ خُزَاعَةُ فِی عَقْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَهْدِهِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش کے مابین صلح ہوئی توصلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ قبائل عرب میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے داخل ہوسکتاہے اورجو قریش کے ساتھ معاہدے میں شریک ہوناچاہئے داخل ہوسکتاہے،اورجوفریق جس فریق کے ساتھ معاہدہ میں شامل ہوگا اس فریق کاحصہ سمجھاجائے گا،اس لئے اگرایساکوئی فریق کسی حملے یازیادتی کا شکار ہوگاتویہ خوداس فریق پرحملہ اورزیادتی تصورکی جائے گی، چنانچہ معاہدے کی اس شق کے تحت بنوبکرنے قریش سے معاہدہ کرلیااوربنوخزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدے میں شریک ہوگئےاس طرح دونوں قبیلے ایک دوسرے سے مامون ہوگئے۔

بنوبکراوربنوخزاعہ میں دورجاہلیت سے فتنہ وفساداورقتل وغارت کاسلسلہ جاری تھا،جس کاسب یہ تھا

وَكَانَ الَّذِی هَاجَ مَا بَیْنَ بَنِی بَكْرٍ وَخُزَاعَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِی الْحَضْرَمِیِّ، وَاسْمُهُ مَالِكُ بْنُ عَبَّادٍ- وَحِلْفُ الْحَضْرَمِیِّ یَوْمَئِذٍ إلَى الْأَسْوَدِ بْنِ رَزْنٍ – خَرَجَ تَاجِرًا، فَلَمَّا تَوَسَّطَ أَرْضَ خُزَاعَةَ، عَدَوْا عَلَیْهِ فَقَتَلُوهُ، وَأَخَذُوا مَالَهُ ،فَعَدَتْ بَنُو بَكْرٍ عَلَى رَجُلٍ مِنْ خُزَاعَةَ فَقَتَلُوهُ،فَعَدَتْ خُزَاعَةُ قُبَیْلَ الْإِسْلَامِ عَلَى بَنِی الْأَسْوَدِ بْنِ رَزْنٍ الدِّیلِیِّ وَهُمْ مَنْخَرُ بَنِی كِنَانَةَ وَأَشْرَافُهُمْ سَلْمَى وَكُلْثُومٌ وَذُؤَیْبٌ فَقَتَلُوهُمْ بِعَرَفَةَ عِنْدَ أَنْصَابِ الْحَرَمِ،كَانَ بَنُو الْأَسْوَدِ بْنِ رَزْنٍ یُودَوْنَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ دِیَتَیْنِ دِیَتَیْنِ، وَنُودَى دِیَةً دِیَةً، لِفَضْلِهِمْ فِینَافَبَیْنَا بَنُو بَكْرٍ وَخُزَاعَةُ عَلَى ذَلِكَ حَجَزَ بَیْنَهُمْ الْإِسْلَامُ، وَتَشَاغَلَ النَّاسُ بِهِ

ایک مرتبہ مالک بن عبادحضرمی مال تجارت لے کرخزاعہ کے علاقہ میں داخل ہواخزاعہ کے لوگوں نے اسے قتل کرڈالااوراس کاتمام مال واسباب لوٹ لیابنوبکرمالک بن عبادکابدلہ لینے کے لئے موقعہ کی تلاش میں رہے اورموقعہ پاکربدلہ میں بنوخزاعہ کاایک آدمی قتل کردیابنوخزاعہ بھی پیچھے رہنے والے نہیں تھے موقعہ پاکرانہوں نے بنوبکرکے تین سردارذویب ،سلمی اورکلثوم کوحدودحرم کے نزدیک میدان عرفات میں قتل کرڈالا، بنواسودزمانہ جاہلیت میں اپنے مقتول کے دوخون بہا لیتے تھے اورباقی سب لوگ ایک خون بہالیاکرتے تھے اوریہ ان کی فضیلت کی بات تھی، بنی خزاعہ اوربنی بکرآپس کے انہی جھگڑوں میں گرفتارتھے کہ ظہوراسلام کے بعدیہ آگ کچھ ٹھنڈی پڑگئی تھی اورلوگوں کی توجہ نئے دین کے قبول یاردکی طرف منعطف ہوگئی ، صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق جب بنوبکر قریش کے ساتھ اوربنوخزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوگئے توبنوخزاعہ ، بنوبکرکی طرف سے مطمئن ہوگئے، اب بنوبکرکی ایک جماعت جنھیں بنونفاثہ کہاجاتاتھانے اس موقعہ کوغنیمت سمجھااورلڑائی کی آگ کوبھڑکادیا۔

فَلَمَّا كَانَتْ الْهُدْنَةُ اغْتَنَمَهَا بَنُو الدِّیلِ مِنْ بَنِی بَكْرٍ مِنْ خُزَاعَةَ، وَأَرَادُوا أَنْ یُصِیبُوا مِنْهُمْ ثَأْرًا بِأُولَئِكَ النَّفَرِ الَّذِینَ أَصَابُوا مِنْهُمْ بِبَنِی الْأَسْوَدِ بْنِ رَزْنٍ،لَمّا دَخَلَ شَعْبَانُ عَلَى رَأْسِ اثْنَیْنِ وَعِشْرِینَ شَهْرًا مِنْ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَةِ تَكَلّمَتْ بَنُو نُفَاثَةَ. وهم مِن بَنِی بَكْرِ.أَشْرَافُ قُرَیْشٍ أن یُعِینُوهُمْ عَلَى خزاعة بِالرّجَالِ وَالسّلَاحِ

بنی دیل نے جوبنوبکرکی ایک شاخ تھے اس صلح کوغنیمت سمجھ کرچاہاکہ کہ بنی اسودکے ان لوگوں کاجوبنی خزاعہ نے قتل کئے تھے قصاص لیں ، چنانچہ صلح حدیبیہ کے بیسویں مہینے جب شعبا ن ا ٓٹھ ہجری آیاتوبنونفاثہ نے جوبنوبکرمیں سے تھے اشراف قریش سے گفتگوکی کہ بنی خزاعہ کے مقابلے میں آدمیوں اورہتھیاروں سے ان کی مددکریں ،قریش نے ان سے وعدہ کر لیا

فَخَرَجَ نَوْفَلُ بْنُ مُعَاوِیَةَ الدِّیلِیُّ فِی بَنِی الدِّیلِ، وَهُوَ یَوْمَئِذٍ قَائِدُهُمْ، وَلَیْسَ كُلُّ بَنِی بَكْرٍ تَابَعَهُ حَتَّى بَیَّتَ خُزَاعَةَ وَهُمْ عَلَى الْوَتِیرِ، مَاءٌ لَهُمْ، فَأَصَابُوا مِنْهُمْ رَجُلًا، وَتَحَاوَزُوا وَاقْتَتَلُوا، وَرَفَدَتْ بَنِی بَكْرٍ قُرَیْشٌ بِالسِّلَاحِ، وَقَاتَلَ مَعَهُمْ مِنْ قُرَیْشٍ مَنْ قَاتَلَ بِاللیْلِ مُسْتَخْفِیًا، فیهم صَفْوَانُ بْنُ أُمَیّةَ وحُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزّى وَمِكْرَزُ بْنُ حَفْصِ بْنِ الْأَخْیَفِ، حَتَّى حَازُوا خُزَاعَةَ إلَى الْحَرَمِ،فَلَمَّا انْتَهَوْا إلَیْهِ، قَالَتْ بَنُو بَكْرٍ: یَا نَوْفَلُ، إنَّا قَدْ دَخَلْنَا الْحَرَمَ، إلَهَكَ إلَهَكَ

چنانچہ بنوبکرکے سردارنوفل بن معاویہ دیلی نے رات کے وقت اپنی قوم کی ایک جمعیت کے ساتھ بنوخزاعہ پر جو وتیر نامی کنوئیں پرخیمہ زن تھے شبخون ماراجس سے بنوخزاعہ کے کئی آدمی قتل اورکئی زخمی ہوگئے،حسب وعدہ اس جنگ میں قریش نے بنی بکرکی اسلحہ اورآدمیوں سے ان کی مددکی اوران کے بعض لوگ چوری چھپے بنوبکرکے ساتھ حملہ میں بھی شامل ہوئے، اس جماعت میں صفوان بن امیہ،عکرمہ بن ابی جہل ،شیبہ بن عثمان،سہیل بن عمرو،حویطب بن عبدالعزیٰ اورمکرزبن حفص وغیرہ نے بنوبکرکی ہتھیاروں سے مدد کی،بنوخزاعہ نے مجبورہوکر حرم میں پناہ لی جوامن کی جگہ تھی اورکوئی قبیلہ حرم کے احترام کی وجہ سے اس کے اندرپناہ لینے والے پرہاتھ نہیں اٹھاتاتھا، اس وقت بنو بکرکے بعض لوگوں نے اپناہاتھ روک لیااورنوفل سے کہااے نوفل !اب توہم حرم میں داخل ہوگئے ہیں جوامن کی جگہ ہےاس لئے اللہ سے ڈر،اللہ سے ڈر اوربنوخزاعہ کے قتل سے ہاتھ اٹھالو،

فَقَالَ: كَلِمَةً عَظِیمَةً، لَا إلَهَ لَهُ الْیَوْمَ، یَا بَنِی بَكْرٍ أَصِیبُوا ثَأْرَكُمْ، فَلَعَمْرِی إنَّكُمْ لَتَسْرِقُونَ فِی الْحَرَمِ، أَفَلَا تُصِیبُونَ ثَأْرَكُمْ فِیه، فَلَمَّا دَخَلَتْ خُزَاعَةُ مَكَّةَ، لَجَئُوا إلَى دَارِ بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَاءَ، وَدَارِ مَوْلَى لَهُمْ یُقَالُ لَهُ رَافِعٌ، قَتَلُوا مِنْهُمْ عِشْرِینَ رَجُلًا

مگرنوفل کے سرپرخون سوارتھااس نے سرکشی اوررعونت سے جواب دیااے بنوبکر!آج کسی الٰہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آج موقعہ ہے تم اپنا پرانابدلہ چکالومیری عمرکی قسم !تم لوگ حرم میں چوری کرتے ہولیکن حرم میں انتقام لینے سے ڈرتے ہو،چنانچہ اس نے قتل وغارت کاسلسلہ بددستورجاری رکھاحتی کہ بنوخزاعہ نے بھاگ کربدیل بن ورقاء خزاعی اوراپنے ایک آزاد کردہ غلام رافع کے گھروں میں پناہ لی، مگرجولوگ محترم حرم کااحترام نہ کر پائے وہ گھروں کاکیالحاظ رکھتے ،بنوبکر اور روساء قریش نے ان گھروں میں گھس کران کومارا اور لوٹا،بہرحال بنوخزاعہ کے بیس سے زائد افرادقتل ہوگئے۔

ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ عَائِشَةَ أَنْ تُجَهِّزَهُ وَلَا تُعْلِمُ أَحَدًا ،قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَیْهَا أَبُوهَا فَقَالَ: یَا بُنَیَّةُ مَا هَذَا الْجِهَازُ؟قَالَتْ: وَاللهِ مَا أَدْرِی،قَالَ: مَا هَذَا بِزَمَانِ غَزْوِ بَنِی الْأَصْفَرِ فَأَیْنَ یُرِیدُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَتْ: وَاللهِ مَا أَدْرِی

اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوحکم فرمایا آپ کا جنگی سازوسامان تیارکردیں مگرکسی کوعلم نہ ہو،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سامان سفرستووغیرہ تیار کرہی رہیں تھیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے حجرے میں داخل ہوئے اوریہ تیاری دیکھ کردریافت کیابیٹی !یہ کیسی تیاری کررہی ہو؟عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیاواللہ !مجھے اس کاعلم نہیں ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ بولے یہ رومیوں سے جنگ کرنے کاتووقت نہیں پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرف کاقصدرکھتے ہیں ؟عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہااللہ کی قسم !مجھے علم نہیں ،پھربعدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کوخبردی کہ آپ قریش پرحملہ کاارادہ رکھتے ہیں لیکن اس خبر کو صیغہ رازمیں رکھنا[2]

خَرَجَ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ الْخُزَاعِیُّ، قَالَ ابْنُ سَعْدٍ: فِی أَرْبَعِینَ رَاكِبًا، حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةِ، فَوَقَفَ عَلَیْهِ وَهُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ بَیْنَ ظَهْرَانَیْ أَصْحَابِهِ

اس سانحہ کے تیسرے روز خزاعہ کے سردارعمروبن سالم بنوخزاعہ کے چالیس سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ آیااس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے بعد اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مسجدمیں تشریف فرما تھےاس نے کھڑے ہوکرفی البدیہہ آپ کے سامنے یہ اشعارکہے۔

یَا رَبِّ إِنِّی نَاشِدٌ مُحَمَّدًا ، حِلْفَ أَبِینَا وَأَبِیهِ الْأَتْلُدَا

الٰہی!میں محمد علیہ السلام کواپنے اورآپ کے باپ کاقدیم عہدیادکراتاہوں ۔

إِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوكَ الْمَوْعِدَ ، وَنَقَضُوا مِیثَاقَكَ الْمُؤَكَّدَا

بلاشبہ قریش نے آپ کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے اورآپ کے پختہ عہدکوتوڑدیاہے۔

إِنَّا وَلَدْنَاكَ فَكُنْتَ وَلَدًا، ثَمَّةَ أَسْلَمْنَا فَلَمْ تَنْزَعْ یَدًا

ہم بمنزلہ باپ کے ہیں اورآپ بمنزلہ اولادکے(کیونکہ عبدمناف کی ماں قبیلہ خزاعہ کی تھی،اسی طرح قصیٰ کی ماں فاطمہ بنت سعدسہمی قبیلہ خزاعہ کی تھی)اس کے علاوہ ہم ہمیشہ آپ کے مطیع اورفرمانبرداررہے ہیں اورکبھی آپ کی اطاعت سے دستکش نہیں ہوئے۔

وَزَعَمُوا أَنْ لَسْتُ أَدْعُو أَحَدَا ،فَانْصُرْ هَدَاكَ اللهُ نَصْرًا أَلْبَدَا

وہ اس زعم میں مبتلاہیں کہ میں اپنی مددکے لئے کسی کونہیں بلاسکتا،اللہ آپ کوتوفیق دے آپ ہماری مددفرمائیں ۔

وَادْعُ عَبَادَ اللهِ یَأْتُوا مَدَدًا ،فِیهِمْ رَسُولُ اللهِ قَدْ تَجَرَّدَا

اوراللہ کے بندوں کودعوت دیں کہ وہ ہماری مددکوآئیں ،ان میں اللہ کے رسول ہیں جومشرکین کے حق میں تلواربے نیام ہیں

إِنْ سِیمَ خَسْفًا وَجْهُهُ تَرَبَّدَا

اگران سے کوئی ناجائزمعاملہ کرتا ہے تومارے غصہ کے ان کاچہرہ سرخ ہوجاتاہے۔

ابن اسحاق نے یہ اشعارزیادہ کیے ہیں ۔

فِی فَیْلَقٍ كَالْبَحْرِ یَجْرِی مُزْبِدَا،إِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوكَ الْمَوْعِدَا

ان کے پاس ایسالشکرہے جوتیزدریاکی طرح ٹھاٹھیں مارتاہوااورجھاگ ابھارتاہواچلتاہے،قریش نے سونے کی حالت میں ہم پرشبخون ماراہے

فَقَتَّلُونَا رُكَّعًا وَسُجَّدَا،فَهُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا

اورہمیں رکوع اورسجودکی حالت میں قتل کیاہے(یعنی ہم مسلمان تھے اورہمیں قتل کیاگیاہے)حالانکہ وہ تعدادمیں کم اورعزوشرف میں بے حیثیت ہیں ۔[3]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :نُصِرْتَ یَا عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ،ثُمَّ عَرَضَتْ سَحَابَةٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:إِنَّ هَذِهِ السَّحَابَةَ لَتَسْتَهِلُّ بِنَصْرِ بَنِی كَعْبٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمروبن سالم !تمہیں مدددی جائے گی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پربادل کا ٹکڑا دیکھا تو فرمایایہ ابربنی کعب کی مددکے لئے ضروربرسے گا۔[4]

عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَجُرّ طَرَفَ رِدَائِهِ، وَهُوَ یَقُولُ: لَا نَصَرْت إنْ لَمْ أَنْصُرْ بَنِی كَعْبٍ مِمّا أَنْصُرُ مِنْهُ نَفْسِی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے عمروبن سالم خزاعی کی فریادسن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبارہوگئیں اوربعجلت کھڑے ہوئے اوراپنی چادرکوکھینچتے ہوئے فریایا اے عمروبن سالم!میری مددبھی نہ کی جائے اگرمیں اس چیزسے بنی کعب کی مددنہ کروں جس سے میں اپنی مددکرتاہوں ۔[5]

عن ابن عباس، مرفوعا: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لأمنعنهم مما أمنع منه نَفْسِی وأَهْلِ بَیْتِی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےآپ نے فرمایااس ذات کی قسم کس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں ان کا ایسا ہی دفاع کروں گا جیساخوداپنی جان اور اپنے اہل بیت کاکرتاہوں ۔[6]

اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوقریش کی عہدشکنی کاعلم ہوا

ثُمّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ سَالِمٍ وَأَصْحَابِهِ: ارْجِعُوا وَتَفَرّقُوا فِی الْأَوْدِیَةِ!

پھر رازداری کے پیش نظرآپ نے عمرو بن سالم اوران کے رفقاء کوحکم دیاکہ تم ابھی واپس چلے جاؤاورپہاڑوں کی گھاٹیوں میں الگ الگ چھپ جاؤ۔

فَبَعَثَ عَلَیْهِمْ ضَمْرَة یخبرهم بین، أن یدوا قتلى خزاعة، أو یبرءوا من حلف بنی نفاثة، أو ینبذ إلیهم على سواء

پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین شرائط دے کرقریش کے پاس اپنا قاصد(ضمرہ رضی اللہ عنہ )کوروانہ کیا۔

۱۔خزاعہ کے جتنے آدمی قتل ہوگئے ہیں ان کاخون بہااداکردیں ۔

۲۔بنونفاثہ کی حمایت چھوڑدیں ۔

۳۔یہ اعلان کردیں کہ حدیبیہ کامعاہدہ ٹوٹ گیاہے۔

قاصدنے قریش کی مجالس مشاورت کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں شرائط پیش کیں کہ ان میں میں سے ایک قبول کرلی جائے اگرقریش مکہ اپنی آنکھوں سے غروروتکبرکی پٹی ہٹاکر کچھ بھی غوروفکرکرتے تودیکھتے کہ اردگردکے لوگ کس قدرتیزی کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں اورمسلمانوں کی افرادی طاقت سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ چکی ہے ، قریش مکہ کو مجاہدین کی بہادری ودلیری کابھی خیال ہوناچاہیے تھاکس طرح اردگردکے شورش کرنے والے قبائل چندمجاہدین پرمشتمل دستہ کا مقابلہ کرنے سے عاجز رہتے ہیں ، قریش مکہ کوعہدشکنی کے انجام کو بھی پیش نظررکھناچاہیے تھاکہ کس طرح مسلمانوں نے بنوقریظہ کے سینکڑوں جانبازوں کوعہدشکنی کے جرم میں قتل کیا تھااوران کے ہم قوم وہم مذہب جنگجویہودخیبراوروادی القریٰ کے یہودان کی مددسے قاصررہے تھے،قریش مکہ کویہ بھی زیر غور رکھنا چاہیے تھاکہ کس طرح یہودکادس ہزار آزمودہ کارلشکرجن کے پاس وافرمقدارمیں اسلحہ ،خوراک اورمضبوط قلعہ جات تھے مسلمانوں کے ضرب پرریت کے گھروندے ثابت ہوئے تھے،قریش مکہ کی آنکھیں ابھی حالیہ مشہورواقعہ میں بھی کھل جانی چائیں تھیں کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک صحابی(قاصد) کے قتل کابدلہ لینے کے لئے اپنے وقت کی ایک بڑی عالمی طاقت کے خلاف کھڑے ہوگئے اور کس طرح مٹھی بھرمجاہدین نے اپنے علاقہ سے دور قیصرروم کے علاقہ میں جاکراسکی دولاکھ فوج کوبڑی جرات وبہادری سے للکاراتھااورکوئی بڑا نقصان اٹھائے بغیرواپس آ گئے تھے، اوریہ ناممکن تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پرانے حلیف بنوخزاعہ کوجس کے ساتھ ظلم ہواتھابے یارومددگارچھوڑدیں گے، اس لئے سب سے مناسب فیصلہ یہی ہوتاکہ وہ خاموشی سے خون بہاپرراضی ہوجاتے اورمعاملہ خوش اسلوبی سے ٹل جاتامگرانہوں نے کسی پہلو پر غوروفکر نہ کیا،جاہلی حمیت ان پرغالب آگئی فَقَالَ قُرَطَةُ بْنُ عَمْرٍو: لا ندی وَلَا نَبْرَأُ لكنا ننبذ إلیه على سواء

اور حالات کی نزاکت کوسوچے سمجھے بغیر قرطہ بن عمرو نے قریش کی جانب سے قاصدکو کہاہم نہ مقتولین کاخوب بہااداکریں گے نہ ہی بنونفاثہ سے تعلقات منقطع کریں گے ہاں تیسری شرط ہمیں منظورہے۔[7]

قاصدکے روانہ ہوجانے تک کسی نے اس اعلان کی تردیدنہیں کی گویامکہ مکرمہ کے فتنہ جواورشرپسندعناصرتھوڑی دیرکے لئے اس کے صلح جواور خیر پسند عناصر پرغالب آگئے ،قریش کا غیر دانشمندانہ جواب سن کرقاصدمدینہ منورہ روانہ ہوگیا۔

قریش کاابوسفیان کومدینہ بھیجنا:

فرجع بذلك، فندمت قریش على ما ردّوا

مگرجب قریش کا جاہلانہ جوش کچھ ٹھنڈاہواتو انہیں اپنے فیصلے پرندامت ہوئی۔[8]

اس فیصلہ کے نتائج وعواقب ذہن میں آئے ،انہیں اپنے سروں پرمجاہدین کی تلواریں چمکتی اورلپکتی ہوئی نظرآنے لگی توانہوں نے دارالندہ میں مجلس مشاورت طب کی، جس میں فیصلہ کیاگیا

أَبْصِرُوا أَبَا سُفْیَانَ فَإِنَّهُ قَادِمٌ عَلَیْكُمْ یَلْتَمِسُ تَجْدِیدَ الْعَهْدِ وَالزِّیَادَةَ فِی الْمُدَّةِ ،فَأَرْسَلَتْ قُرَیْشٌ أَبَا سُفْیَانَ یُسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی تَجْدِیدِ الْعَهْدِ

ابوسفیان کوقریش کانمائندہ بناکرتجدیدعہد اورصلح کی مدت بڑھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ بھیجا جائے، چنانچہ انہوں نے ابوسفیان کوتجدیدعہدکے لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ روانہ کیا۔[9]

وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ:كَأَنَّكُمْ بِأَبِی سُفْیَانَ قَدْ جَاءَكُمْ لِیَشُدَّ الْعَقْدَ، وَیَزِیدَ فِی الْمُدَّةِ،فَدَخَلَ عَلَى ابْنَتِهِ أُمِّ حَبِیبَةَ بِنْتِ أَبِی سُفْیَانَ، فَلَمَّا ذَهَبَ لِیَجْلِسَ عَلَى فِرَاشِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَوَتْهُ عَنْهُ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّةُ، مَا أَدْرِی أَرَغِبْتُ بِی عَنْ هَذَا الْفِرَاشِ أَمْ رَغِبْتُ بِهِ عَنِّی؟قَالَتْ: بَلْ هُوَ فِرَاشُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ نَجَسٌ، وَلَمْ أُحِبَّ أَنْ تَجْلِسَ عَلَى فِرَاشِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابوسفیان کی روانگی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوخبردی کہ ابوسفیان تجدیدعہداورصلح کی مدت بڑھانے کے لئے مدینہ منورہ آرہے ہیں ، مدینہ منورہ پہنچ کر ابوسفیان پہلے اپنی بیٹی ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں پہنچے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترپربیٹھنے لگےمگرام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جلدی سے اسے لپیٹ دیا،اس پر ابوسفیان بولےاے میری بیٹی! اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھ سکاکہ تونے اس بسترکومجھ پرترجیح دی ہے یا مجھے اس بسترکے لائق نہیں سمجھا؟ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپاک بسترہےاس پرایک مشرک کوجوشرک کی نجاست میں ملوث اور آلودہ ہونہیں بیٹھ سکتا

قَالَ: وَاَللَّهِ لَقَدْ أَصَابَكَ یَا بُنَیَّةُ بَعْدِی شَرٌّ، قَالَتْ: هَدَانِی اللهُ تعالى لِلْإِسْلَامِ ، فأَنْتَ یَا أَبَت سَیّدُ قُرَیْشٍ وَكَبِیرُهَا،، كَیْفَ یَسْقُطُ عَنْك الدّخُولُ فِی الْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ تَعْبُدُ حَجَرًا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ فقام؟ فقال:أَأَتْرُكُ مَا كَانَ یَعْبُدُ آبَائِی وَأَتّبِعُ دِینَ مُحَمّدٍ؟

ابوسفیان چلاّ کر بولے اللہ کی قسم! میرے گھرسے نکلنے کے بعدتوشرمیں مبتلاہوگئی ہے، ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاایسانہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کفرکی ظلمتوں سے نکال کر اسلام کے نوروہدایت کاراستہ دکھلایاہے اورآپ پرتعجب ہے کہ آپ قریش کے سرداراورایک بڑی شخصیت ہونے کے باوجود ابھی تک پتھروغیرہ کے بے جان بتوں کی پرستش کرتے ہیں جونہ توسن سکتے ہیں اورنہ ہی دیکھ سکتے ہیں ،ابوسفیان نے کہاکیامیں اپناآبائی دین چھوڑکرمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے دین کا اتباع کرنے لگوں ؟۔[10]

فَأَقْبَلَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ جدّد العهد وَزِدْنَا فِی الْمُدَّةِ

پھروہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورتجدیدعہداورجنگ بندی کی مدت میں توسیع کی درخواست کی۔[11]

مگراب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کوباطل معبودوں کی نحوست سے پاک کرنے کافیصلہ کرچکے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدیدعہدسے گریزکیا

ثُمَّ ذَهَبَ إلَى أَبِی بَكْرٍ، فَكَلَّمَهُ أَنْ یُكَلِّمَ لَهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلِ،ثُمَّ أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَكَلَّمَهُ، فَقَالَ: أَأَنَا أَشْفَعُ لَكُمْ إلَى رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟فو اللهِ لَوْ لَمْ أَجِدْ إلَّا الذَّرَّ لَجَاهَدْتُكُمْ بِهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب نہ پاکر ابوسفیان سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے درخواست کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مقاصدکی تائیدمیں گفتگوکریں ، انہوں نے عذرکردیاکہ میں کچھ نہیں کرسکتا، پھرابوسفیان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی خدمت میں حاضرہوئے اوران سے بھی اس بارے میں گفتگوکی انہوں نے جواب دیااللہ اکبر! میں تمہاری سفارش کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوسکتاہوں ،اللہ کی قسم !اگرمیرے ساتھ چیونٹیوں کے علاوہ اورکوئی نہ ہوتب بھی میں انہیں لے کرتم سے جنگ کروں گا۔

ثم لقى عمر رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فَكَلّمَهُ بِمِثْلِ مَا كَلّمَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ عُمَرُ:وَاَللهِ، لَوْ وَجَدْت الذّرّ تُقَاتِلُكُمْ لَأَعَنْتهَا عَلَیْكُمْ! قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: جُزِیَتْ مِنْ ذِی رَحِمٍ شَرّا

مغازی واقدی میں لکھاہے پھرمیں سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے ملااورانہیں بھی وہی کہاجوسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہاتھا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم! اگر میں چیونٹیوں کوتم سے جنگ کرتاپاؤں توان کی بھی مددکروں گا،ابوسفیان نے کہاتمہیں رشتے داروں کی طرف سے برابدلہ دیاجائے۔[12]

ثُمَّ خَرَجَ فَدَخَلَ عَلَى عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رِضْوَانُ اللهِ عَلَیْهِ، وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ عَنْهَا، وَعِنْدَهَا حَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، غُلَامٌ یَدِبُّ بَیْنَ یَدَیْهَا،فَقَالَ: یَا عَلِیُّ، إنَّكَ أَمَسُّ الْقَوْمِ بِی رَحِمًا، وَإِنِّی قَدْ جِئْتُ فِی حَاجَةٍ، فَلَا أَرْجِعَنَّ كَمَا جِئْتُ خَائِبًا، فَاشْفَعْ لِی إلَى رَسُولِ اللهِ، فَقَالَ: وَیْحَكَ یَا أَبَا سُفْیَانَ! وَاَللَّهِ لَقَدْ عَزَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَمْرٍ مَا نَسْتَطِیعُ أَنْ نُكَلِّمَهُ فِیهِ، فَالْتَفَتَ إلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: یَا بْنَةَ مُحَمَّدٍ، هَلْ لَكَ أَنْ تَأْمُرِی بُنَیَّكَ هَذَا فَیُجِیرَ بَیْنَ النَّاسِ، فَیَكُونَ سَیِّدَ الْعَرَبِ إلَى آخِرِ الدَّهْرِ؟قَالَتْ: وَاَللَّهِ مَا بَلَغَ بُنَیَّ ذَاكَ أَنْ یُجِیرَ بَیْنَ النَّاسِ، وَمَا یُجِیرُ أَحَدٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

یہ نا گوار جواب سن کرابوسفیان سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے پاس آئے،اس وقت ان کے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھی ہوئی تھیں اوران کے کم سن صاحبزادے حسن بن علی رضی اللہ عنہ زمین پرپھدک پھدک کر چل رہے تھے،انہوں نے کہااے سیدنا علی رضی اللہ عنہ !میراتمہاراآپس میں گہرانسبی تعلق ہے میں آپ کے پاس ایک شدیدضرورت سے آیاہوں ایسانہ ہوکہ میں جیساآیاہوں ویساہی خالی ہاتھ ناکام ونامراد واپس لوٹ جاؤں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری سفارش کردیں ، انہوں نے جواب دیااے ابوسفیان!تم پرافسوس ہے اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کاعزم فرمالیاہےاب ہماری مجال نہیں کہ اس کے بارے میں آپ کے سامنے لب کشائی کر سکیں ،پھروہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی طرف متوجہ ہوئے اورکہااے بنت محمد!کیایہ ہوسکتاہے کہ آپ اپنے اس چھوٹے صاحبزادے کوحکم دیں کہ وہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرکے رہتی دنیاتک عرب کا سردار کہلائے، فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیااللہ کی قسم!میرایہ کم سن بچہ اس عمرکونہیں پہنچاکہ لوگوں کوپناہ دینے کااعلان کر سکے(یعنی پناہ دینابڑوں کاکام ہے)پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کسی کوپناہ نہیں دے سکتا

قَالَ: یَا أَبَا الْحَسَنِ، إنِّی أَرَى الْأُمُورَ قَدْ اشْتَدَّتْ عَلَیَّ، فَانْصَحْنِی؟قَالَ: وَاَللَّهِ مَا أَعْلَمُ لَكَ شَیْئًا یُغْنِی عَنْكَ شَیْئًا، وَلَكِنَّكَ سَیِّدُ بَنِی كِنَانَةَ، فَقُمْ فَأَجِرْ بَیْنَ النَّاسِ، ثُمَّ الْحَقْ بِأَرْضِكَ،قَالَ: أَوَ تَرَى ذَلِكَ مُغْنِیًا عَنِّی شَیْئًا؟قَالَ: لَا وَاَللَّهِ، مَا أَظُنُّهُ، وَلَكِنِّی لَا أَجِدُ لَكَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَقَامَ أَبُو سُفْیَانَ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إنِّی قَدْ أَجَرْتُ بَیْنَ النَّاسِ. ثُمَّ رَكِبَ بَعِیرَهُ فَانْطَلَقَ

اپنی کوششوں کی ناکامی کے بعدابوسفیان کی آنکھوں کے سامنے اندھیراچھاگیااورانتہائی مایوسی وناامیدی کی حالت میں بولے اے ابوالحسن!میں دیکھ رہاہوں کہ معاملہ ہمارے خلاف شدت اختیارکرچکا ہےپس آپ ہی مجھے نصیحت کریں مجھے کیاکرناچاہیے؟ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے کہااللہ کی قسم!میں خودکوئی ایسی تدبیرنہیں جانتاجوآپ کو بچاسکے لیکن آپ بنی کنانہ کے سردارہیں اس لئے کھڑے ہوجائیں اورباہم لوگوں میں پناہ وامن و امان کااعلان کردیں اوراپنے شہرکولوٹ جائیں ،ابوسفیان بولے کیاآپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مجھے کچھ فائدہ پہنچ سکے گا ؟ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایانہیں ،اللہ کی قسم! میرے خیال میں تمہیں کوئی فائدہ تونہیں پہنچ سکے گالیکن اس کے سواکوئی اور تدبیرمیرے ذہن میں نہیں آرہی،چنانچہ ابوسفیان مسجدنبوی میں پہنچے اورباآوازبلندا علان کیااے لوگو!سنو!میں لوگوں میں امن وامان اورپناہ کااعلان کرتاہوں ،یہ کہہ کراپنے اونٹ پرسوارہوئے اورسوچوں میں گم سرجھکاکرمکہ مکرمہ روانہ ہو گئے

فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى قُرَیْشٍ، قَالُوا:مَا وَرَاءَكَ؟قَالَ: جِئْتُ مُحَمَّدًا فكلّمته ، فو الله مَا رَدَّ عَلَیَّ شَیْئًاثُمَّ جِئْتُ ابْنَ أَبِی قُحَافَةَ، فَلَمْ أَجِدْ فِیهِ خَیْرًا ، ثُمَّ جِئْتُ ابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَجَدْتُهُ أَدْنَى الْعَدُوِّ، ثُمَّ جِئْتُ عَلِیًّا فَوَجَدْتُهُ أَلْیَنَ الْقَوْمِ،وَقَدْ أَشَارَ عَلَیَّ بِشَیْء صَنعته، فو الله مَا أَدْرِی هَلْ یُغْنِی ذَلِكَ شَیْئًا أَمْ لَا؟ قَالُوا: وَبِمَ أَمَرَكَ؟قَالَ: أَمَرَنِی أَنْ أُجِیرَ بَیْنَ النَّاسِ، فَفَعَلْتُ،قَالُوا: فَهَلْ أَجَازَ ذَلِكَ مُحَمَّدٌ؟قَالَ: لَا، قَالُوا: وَیْلَكَ! وَاَللَّهِ إنْ زَادَ الرَّجُلُ عَلَى أَنْ لَعِبَ بِكَ، فَمَا یُغْنِی عَنْكَ مَا قُلْتُ، وَاَللَّهِ، مَا وَجَدْتُ غَیْرَ ذَلِكَ

جب ابوسفیان مکہ مکرمہ پہنچے توقریش نے پوچھاکیاخبرلائے ہو؟بولے میں نے محمد علیہ السلام سے بات کی لیکن انہوں نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا،پھر سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگوہوئی مگراس سے کچھ حاصل نہ ہوا،پھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیاوہ سب سے بڑاسخت دشمن ثابت ہوا،اس کے بعدسیدناعلیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیااس کومیں نے دوسروں کی بہ نسبت ہمدردپایااس نے مجھے مشورہ دیا تھا اور اس کے مشورہ کے مطابق عمل کرکے واپس آگیاہوں میں نہیں کہہ سکتاکہ اس کاکچھ فائدہ ہوگایانہیں ،قریش نے پوچھاانہوں نے کیامشورہ دیاتھا؟ ابوسفیان نے کہا اس نے مجھے مشورہ دیاتھاکہ میں خودہی لوگوں کوپناہ اورامن وامان کااعلان کردوں چنانچہ میں نے اعلان کردیا،قریش نے پوچھا کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس کو منظورکرلیا، بولےنہیں ،وہ کہنے لگے تم پر افسوس ہوسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے صرف تجھ سے مذاق کیاتھاتمہیں اس سے کیاحاصل ہوا،ابوسفیان نے جواب دیاواللہ!اس کے سوا اورکوئی چارہ نہ تھا۔[13]

یہ واقعات قریش کی اخلاقی پسپائی اورذہنی شکست کی بڑی واضح تصویرہیں ،مکہ ذہنی طورپراسلام کے مقابلے میں مکمل طورپر شکست کھاچکاتھاالبتہ مسلمانوں کے ہاتھوں مکہ کی جسمانی فتح کی رسم باقی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکمیل کی تیاریاں شروع فرمادیں ۔

غزوہ کی تیاری :

ثُمَّ إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ النَّاسَ أَنَّهُ سَائِرٌ إلَى مَكَّةَ، وَأَمَرَهُمْ بِالْجِدِّ وَالتَّهَیُّؤِ

ابوسفیان کی واپسی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومکہ مکرمہ کی تیاری ،سامان سفراورآلات حرب درست کرنے کاحکم فرمایااوریہ تاکیدفرمائی کہ اس کوپو شیدہ رکھاجائے اوراس بات کااظہارنہ کیا جائے۔[14]

كیف تأمرنی فی غزو مكة؟قلت: یا رَسُولِ الله هم قومك،ثم دعا عمر، فَقَالَ عُمَرُ: هم رَأْسُ الْكُفْرِ حتى ذكر له كل شیء كانوا یقولونه وَاَیْمُ اللهِ لا تذل العرب حتى تذل أهل مكة, وقد أمركم بالجهاز لتغزوا مكة،ثم دعا الناس، فقال:ألا أحدثكم بمثل صاحبیكم هذین، قالوا: نعم یا رَسُولُ اللهِ، فأقبل بوجهه الْكَرِیمِ علی أبی بكر، فقال:إنّ إبراهیم كان ألین فی الله تعالى من الدّهن اللیّن،ثم أقبل على عمر، فقال: إن نوحا كان أشد فی الله تعالى من الحجر وإن الأمر أمر عمر

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ طلب کیاتم مجھے مکہ پرچڑھائی کے بارے میں کیامشورہ دیتے ہو؟ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ آپ اہل مکہ پرحملہ کے لئے کوچ نہ فرمائیں کیونکہ وہ آپ ہی کی قوم ہے، پھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ سے پوچھاتوسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد پرآمادہ کیااورعرض کیا یہی لوگ کفرکے سرغنہ ہیں ،وہی آپ کو (نعوذباللہ) کذاب اور جادو گر کہتے ہیں اور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم !جب تک قریش نہیں جھکیں گے اس وقت تک اہل عرب بھی نہیں جھکیں گے اس لئے حجازمیں مکہ مکرمہ کے جہادکااعلان کردیں ،یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر فرمایاکیامیں تمہیں ان دونوں اصحاب کی مثال بیان کروں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاہاں ، اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ضروربیان فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناسرمبارک سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف کیااورفرمایاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ، ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہیں جواللہ کے معاملہ میں معمول سے کہیں زیادہ نرم تھے،پھر سر مبارک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف کیااورفرمایاسیدناعمر رضی اللہ عنہ نوح علیہ السلام کی طرح ہیں جواللہ کے معاملہ میں پتھر سے زیادہ سخت تھے، واقعی صحیح مشورہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاہی ہے۔[15]

ثم اسْتَنْفَرَ عَلَیْهِ الصّلَاةُ وَالسّلَامُ الْأَعْرَابِ الذین حَوْلِ الْمَدِینَةِ، وقال:مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاَللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَحْضُرْ رَمَضَانَ بِالْمَدِینَةِ ،فقدم جمع من قبائل أسلم وغفار ومزینة وأشجع وجهنیة،وَقَالَ: اللهمّ خُذْ الْعُیُونَ وَالْأَخْبَارَ عَنْ قُرَیْشٍ حَتَّى نَبْغَتَهَا فِی بِلَادِهَا

چنانچہ مشاورت کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارد گرد کے مسلم قبائل میں پیغام بھیجاکہ ہروہ شخص جواللہ اور اس کے رسول پرایمان رکھتاہووہ ماہ رمضان میں مدینہ منورہ میں حاضرہوجائے وہ خفیہ طور پر مکہ مکرمہ کے لئے تیار ہو جائیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااعلان سن کر قبائل اسلم اورغفاراورمزینہ اوراشجع اورجھنیہ مدینہ منورہ میں جمع ہوگئے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العالمین سے دعافرمائی کہ اے اللہ! کفارکی آنکھوں اورکانوں کوبندکردے پس وہ ہمیں اچانک ہی دیکھیں اورہماری آمدکی خبریکایک ہی سنیں ۔[16]

وأمر رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جماعة أن تقیم بِالْأَنْقَابِ ،فَیَقُولُ: لَا تَدْعُوا أَحَدًا یَمُرّ بِكُمْ تُنْكِرُونَهُ إلّا رَدَدْتُمُوهُ

اور جاسوسوں کوحکم دیاکہ کہ وہ ہرراستے پر ایک جماعت متعین کردیں تاکہ وہ ہرراہ گیرکوپہچان لے اور ہدایت فرمائی کہ اگرتم پرکسی اجنبی اورمشتبہ شخص کاگزرہوتواسے آگے نہ آنے دینا بلکہ واپس کر دینا۔[17]

الغرض پوری کوشش کی گئی کہ مکہ کوان تیاریوں کاکسی طریقہ سے علم نہ ہوسکے ، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازپرلبیک کہااور ایک جوش وجذبہ کے ساتھ جہادکی تیاریاں شروع کردیں ۔

سریہ حارث ا بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ )(بطن اضم)رمضان آٹھ ہجری

لما هُم رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بغزو أهل مكّة بعث أَبَا قتادة بْن ربعی فِی ثمانیة نفر سریة إلَى بَطْنِ إِضَمَ. وهی فیما بین ذی خشب وذی المروة. وبینها وبین المدینة ثلاثة برد،لیظن ظان أن رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ توجه إلى تلك الناحیة ولأن تذهب بذلك الأخبار،وكان فِی السریة مُحَلّمُ بْنُ جَثّامَةَ اللیثی، فمر عَامِرُ بْنُ الْأَضْبَطِ الْأَشْجَعِیّ فَسَلّم بِتَحِیّةِ الْإِسْلَامِ فأمسك عَنْهُ القوم وَحَمَلَ عَلَیْهِ مُحَلّمُ بْنُ جَثّامَةَ فَقَتَلَهُ، وَسَلَبَهُ بَعِیرًا لَهُ وَمَتَاعًا وَوَطْبًا مِنْ لَبَنٍ كَانَ مَعَهُ،فمضوا وَلَمْ یَلْقَوْا جَمْعًا حَتّى انْتَهَوْا إلَى ذِی خُشُبٍ فَبَلَغَهُمْ أَنّ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَوَجّهَ إلَى مَكّةَ فَأَخَذُوا عَلَى بِین حَتّى لَحِقُوا النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسّقْیَا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے جنگ کاارادہ کیاتورازداری کے پیش نظر شروع رمضان میں آٹھ مجاہدین کاایک دستہ دے کر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کومدینہ منورہ سے اٹھاون کلومیڑکے فاصلہ پرذی خشب اورذی مروہ کے مابین اشجع اورجہنیہ قبائل کی وادی بطن اضم کی طرف روانہ فرمایا (یہ وادی مدینہ کی وادیوں کاسنگم ہے،جغرافیہ دانوں کاکہناہے کہ یہ سمینہ کے نزدیک مکہ مکرمہ اوریمامہ کے درمیان ایک پانی ہے جس سے راستہ گزرتاہے،بعض جغرافیہ دانوں کاکہناہے کہ یہ ایک وادی ہے جوحجازسے گزرتی ہوئی مدینہ منورہ کے قریب سمندرمیں جاگرتی ہے،اس وادی میں اشجح اورجہنیہ آبادتھے)مقصدیہ تھا کہ یہ مشہورہوجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقہ پرفوج کشی کا ارادہ رکھتے ہیں اورلوگ یہ خبریں سن کردہشت زدہ ہوجائیں اورمسلمانوں کے خلاف کسی کاروائی میں حصہ نہ لیں ، اس سریہ میں محلم بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ بھی تھے، سفر کے دوران ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی ملاقات عامربن اضبط اشجعی رضی اللہ عنہ سے ہوئی،اس نے اہل اسلام کے طریقہ کے مطابق ان کوالسلام علیکم کہا،دوسرے افرادنے توانہیں کچھ نہ کہامگرمحلم بن جثامہ نے(جن کانام یزیدبن قیس ہے) اس کوکسی پرانی رنجش کی بناقتل کردیااوراس کااونٹ اوردوسرے سامان پرقبضہ کرلیا،ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اورآپ کے ساتھیوں کو کفارکی کوئی جماعت نہیں ملی اورانہیں خبرملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے ارادے سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوچکے ہیں تو یہ لوگ مقام سقیاپرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔[18]

اور اس واقعہ کی اطلاع دی توان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

 یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۝۰ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۡفَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۝۹۴ [19]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے، اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموالِ غنیمت ہیں ، آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو پھر اللہ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تحقیق سے کام لو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ [20]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ، اللهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، مَا مَكَثَ مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَةَ إلَّا سَبْعًا حَتَّى مَاتَ، قَالَ: لَمّا مَاتَ مُحَلّمُ بْنُ جَثّامَةَ دَفَنَهُ قَوْمُهُ فَلَفَظَتْهُ الْأَرْضُ، ثُمّ دَفَنُوهُ فَلَفَظَتْهُ الْأَرْضُ، ثُمّ دَفَنُوهُ فَلَفَظَتْهُ الْأَرْضُ، فَطَرَحُوهُ بَیْنَ صَخْرَتَیْنِ فَأَكَلَتْهُ السّبَاعُ

پھر محلم دو چادروں میں ملبوس ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااورآپ سے استغفارکی درخواست کی مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بارفرمایااے اللہ!محلم کونہ بخش( تاکہ آئندہ دوسرے لوگ کسی مومن کوقتل کرنے میں لاپروائی سے کام نہ لیں )یہ سن کروہ رونے لگااوراپنی چادرکے پلوں سے اپنے آنسوپونچھتے ہوئے رسول اللہ کی محفل سے اٹھ کرچلا گیا، اور شدت غم سے ساتویں دن محلم بن جثامہ کاانتقال ہوگیا،جب محلم بن جثامہ کاانتقال ہوگیاتواس کی نعش کئی بار زمین میں دفن کی گئی مگرہرمرتبہ زمین نے اس کی نعش کوباہرپھینک دیا،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کی نعش دوپہاڑوں کے درمیان ڈال کراس پرپتھرڈال دیئے گئےچنانچہ درندوں کی خوراک بنی ۔[21]

فَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَأْنُهُ، فَقَالَ: وَاَللَّهِ إنَّ الْأَرْضَ لَتَطَّابِقُ عَلَى مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنْهُ، وَلَكِنَّ اللهَ أَرَادَ أَنْ یَعِظَكُمْ فِی حُرْمِ مَا بَیْنَكُمْ بِمَا أَرَاكُمْ مِنْهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بارے میں خبردی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازمین اس سے زیادہ گناہ گار اور بدکارشخص کی نعش کوقبول کرلیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کومومن کے قتل کے انجام کوبتانے کے لئے یہ عمل فرمایاہے۔[22]

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّهُ اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ

ابن اسحاق رحمہ اللہ کابیان ہے اس کی قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعدمیں اس کی مغفرت کی دعافرمادی تھی۔[23]

حاطب رضی اللہ عنہ بن ابی بلتعہ کاواقعہ :

ایک طرف اتنی رازداری سے تیاریاں کی جارہی تھی تاکہ دشمن کوکچھ خبرنہ ہوسکے دوسری طرف ابوعبداللہ(یاابومحمد) حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ جویمن کے رہنے والے تھے اوربنولخم بن عدی سے تعلق رکھتے تھے ،بعض اہل سیرنے انہیں قحطانی النسل قراردیاہے اوربعض نے ان کوبنومذحج کاایک رکن بتایاہے ،لیکن جمہورکی رائے میں وہ لخمی یمنی ہیں ،عہدجاہلیت میں گردش زمانہ انہیں مکہ مکرمہ لے آئی جہاں وہ بنواسدبن عبدالعزیٰ سے حلیفانہ تعلقات قائم کرکے مستقل طورپرمقیم ہوگئے تھے نے اپنے اہل کوبچانے کے لئے قریش کی طرف ایک خط لکھاجس میں ان کوخبردارکیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ پرحملہ کرنے والے ہیں ،اورپھرایک عورت کودس دیناراورایک چادر پر معاوضہ طے کرکے اس خط کواس کے حوالے کیاکہ وہ یہ خط قریش تک پہنچادے،

 كَتَبَ حَاطِبٌ إلَى ثَلَاثَةِ نَفَرٍ: صَفْوَانَ بْنِ أُمَیّةَ، وَسُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَعِكْرِمَةَ بْنِ أَبِی جَهْلٍ

واقدی کی روایت ہےحاطب رضی اللہ عنہ نے یہ خط صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل کے پاس بھیجاتھا،اوریہ تینوں ہی فتح مکہ کے روزایمان لائے تھے۔[24]

فَجَعَلَتْهُ فِی قُرُونٍ فِی رَأْسِهَا، ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ، وَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ بِمَا صَنَعَ حاطب، یَقُولُ:بَعَثَ علیا والمقداد والزبیر فَقَالَ: انْطَلِقَا حَتَّى تَأْتِیَا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِینَةً مَعَهَا كِتَابٌ إِلَى قُرَیْشٍ، فَانْطَلَقَا تَعَادَى بِهِمَا خَیْلُهُمَا، حَتَّى وَجَدَا الْمَرْأَةَ بِذَلِكَ الْمَكَانِ فَاسْتَنْزَلَاهَا، وَقَالَا: مَعَكِ كِتَابٌ؟قَالَتْ: مَا مَعِی كِتَابٌ،فَفَتَّشَا رَحْلَهَا فَلَمْ یَجِدَا شَیْئًا،فَقَالَ لَهَا علی رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَحْلِفُ بِاللهِ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا كَذَبْنَا، وَاللهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ،فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ مِنْهُ، قَالَتْ: أَعْرِضْ، فَأَعْرَضَ فَحَلَّتْ قُرُونَ رَأْسِهَا فَاسْتَخْرَجَتِ الْكِتَابَ مِنْهَا، فَدَفَعَتْهُ إِلَیْهِمَا فَأَتَیَا بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس عورت نے اس خط کواپنے سرکی مینڈیوں میں چھپالیااورمکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئی، لیکن اللہ علام الغیوب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے اس خط کی خبردے دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ ،مقداد رضی اللہ عنہ ،زبیر رضی اللہ عنہ اورابومرثدغنوی رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ وہ رَوْضَةَ خَاخٍ پہنچیں ،وہاں انہیں اونٹ پرسوار ایک مشرک عورت مکہ کی جانب سفر کرتے ہوئے ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کاقریش کے نام ایک خط ہوگاوہ اس سے حاصل کرکے لے آئیں ،تعمیل حکم میں چاروں صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے گھوڑوں پرسوار ہو کر تیزی سے وہاں پہنچے اور ایک عورت کو اونٹ پر موجود پایا، انہوں نے اس کے اونٹ کو نیچے بیٹھاکر اس سے کہاقریش کے نام کا خط نکالو، مگراس عورت نے کہامیرے پاس کوئی خط نہیں ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے کجاوے کی بھی تلاشی لی مگرکچھ حاصل نہ ہوا، سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے اس عورت سے کہا میں اللہ کی قسم کھاتاہوں کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غلط کہانہ میں نے جھوٹ بولا اس لئے تمہارے لئے بہتریہی ہے کہ تم وہ خط ہمارے حوالے کردوورنہ ہم مکمل جامہ تلاشی کے لئے تمہیں کپڑوں سے باہرکردیں گے،جب اس عورت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کایقین کامل دیکھا کہ جوانہوں نے کہاہے وہ کرگزریں گے توکہنی لگی اچھامیں وہ خط تمہارے حوالے کردیتی ہوں مگر تم لوگ اپنےچہرے دوسری طرف کرلو،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے اس کی طرف سے گھمالئے،پھراس عورت نے اپنے سرکی مینڈیاں کھولیں اور خط نکال کران کے حوالے کر دیا ، اس طرح قریش کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی تیاریوں کی خبرنہ ہوسکی ،خط حاصل کرکے یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اورحاطب رضی اللہ عنہ بن ابی بلتعہ کاخط پیش خدمت کردیا۔

خط کھول کر پڑھاگیا تو اس میں تحریرتھا

أَنَّ حَاطِبًا كَتَبَ إِلَى سُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ وَعِكْرِمَة

أَمَّا بَعْدُ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَاءَكُمْ بِجَیْشٍ كَاللیْلِ یَسِیرُ كَالسَّیْلِ فَوَاللهِ لَوْ جَاءَكُمْ وَحْدَهُ لَنَصَرَهُ اللهُ وَأَنْجَزَ لَهُ وَعْدَهُ فَانْظُرُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَالسَّلَامُ

منجانب حاطب بن ابی بلتعہ بنام صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل

امابعد!اے جماعت قریش !تم کومعلوم رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طوفانی لشکرلے کرتمہاری طرف آرہے ہیں جوسیلاب کی طرح بڑھ رہاہے ، اللہ کی قسم ! اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلالشکرکے تن تنہابھی تمہارے پاس تشریف لے جائیں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی مددفرمائے گااوران سے اپنافتح ونصرت کاوعدہ ضرور پورا فرمائے گا لہذاتم لوگ اپنے انجام کا سوچ لو،والسلام۔ [25]

واقدی کے مطابق خط کامضمون یوں تھا ۔

إنّ رَسُولَ اللهِ قَدْ أَذّنَ فِی النّاسِ بِالْغَزْوِ، وَلَا أَرَاهُ یُرِیدُ غَیْرَكُمْ، وَقَدْ أَحْبَبْت أَنْ تَكُونَ لِی عِنْدَكُمْ یَدٌ بِكِتَابِی إلَیْكُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادعام کااعلان فرمادیاہے ،معلوم نہیں کہ کس طرف ارادہ ہےتمہاری طرف یاکسی اورطرف تم اپنی فکرکرومیں نے تمہارے ساتھ احسان کرنے کے لئے ایسالکھاہے۔[26]

تفسیرابن سلام میں یہ مضمون لکھاہے۔

إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ نَفَرَ فَإِمَّا إِلَیْكُمْ وَإِمَّا إِلَى غَیْرِكُمْ فَعَلَیْكُمُ الْحَذَرَ

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوجہادکےلئے بلالیاہے ہوسکتاہے تمہاری طرف ارادہ ہویاکسی اورطرف اس لئے تم اپنی فکرکرو۔[27]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، لاَ تَعْجَلْ عَلَیَّ، إِنِّی كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ المُهَاجِرِینَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ یَحْمُونَ بِهَا أَهْلِیهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِیهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ یَدًا یَحْمُونَ قَرَابَتِی، وَلَمْ أَفْعَلْهُ ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی، وَلاَ رِضًا بِالكُفْرِ بَعْدَ الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کوبلاکر دریافت کیااے حاطب ! رازداری کی تاکیدکے باوجود تم نے قریش کوخبردینے کی کوشش کیوں کی؟انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ میرے مواخذہ کرنے میں عجلت نہ فرمائیں ،اے اللہ کے رسول!میری حیثیت (مکہ مکرمہ میں )یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہناسہنا اختیار کر لیا تھا ان سے میری کوئی قرابت داری نہیں تھی،آپ کے ساتھ جودوسرے مہاجرین ہیں ان کی تومکہ مکرمہ میں سب کی رشتہ داری ہے اورمکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اوران کے مالوں کی حفاظت وحمایت کریں گے مگرمکہ والوں کے ساتھ میراکوئی نسبی تعلق نہیں ہے اس لئے میں نے سوچا کہ ان پرکوئی احسان کردوں جس سے اثرلے کروہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں ، میں نے یہ کفریاارتدادکی وجہ سے ہرگزنہیں کیاہے اورنہ اسلام کے بعدکفرسے خوش ہوکر،ان کا عذرسن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًاس نے تم سے سچ بیان کیاہے،

قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللهِ دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا المُنَافِقِ، قَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّ اللهَ أَنْ یَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ،فَدَمَعَتْ عَیْنَا عُمَرَ، وَقَالَ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس منافق نے اللہ اوراس کے رسول سے خیانت کی ہے مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں (سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے قانون شرعی اورقانون سیاست کے مطابق رائے دی کہ جوکوئی اپنی قوم یاسلطنت کی خبردشمنوں کوپہنچائے وہ سزائے موت کے قابل ہے)(مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کی صحیح نیت جان کراوران کے بدری صحابی ہونے کی بناپرسیدناعمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیااور) آپ نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !حاطب غزوہ بدرمیں حاضر ہوا ہے ، اور اے عمر رضی اللہ عنہ !تجھے کیا معلوم ہے شایداللہ تعالیٰ نے اپنی نظر رحمت سے اہل بدرکویہ فرمادیاہوکہ جو چاہے کروبلاشبہ میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے،یہ سن کر سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آشکبار ہو گئیں اور عرض کیا اللہ اور اس کارسول زیادہ جاننے والے ہیں ۔[28]

فَأَنْزَلَ اللهُ السُّورَةَ: یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِیَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ

اوراللہ تعالیٰ نے سورۂ الممتحنہ نازل فرمائی۔[29]

مضامین سورةالممتحنہ

حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پرسخت گرفت کی گئی کہ انہوں نے محض اپنے اہل وعیال کوبچانے کی خاطررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خفیہ رازسے دشمنوں کو خبردارکرنے کی کوشش کی تھی ،جسے ناکام بنادیاگیا،اس شدیدغلطی پرتنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کوتعلیم دی کہ

x مومنین کو کسی بھی صورت میں کفارکے ساتھ محبت اوردوستی کاتعلق نہیں رکھناچاہیے،اورکوئی ایساکام نہ کرناچاہے جوکفرواسلام کی کشمکش میں کفارکے لیے مفیدہو،اورجن لوگوں نے نہ توقبول ایمان کی وجہ سے تمہارے ساتھ قتال کیااورنہ ہی تمہیں گھروں سے نکالاہوتوتمہیں ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہے۔

xجب دعوت ایمان پھیلنے لگی تواس کی صداقت اورحقانیت سے متاثرہوکرمردوں اورعورتوں نے ایمان قبول کرنا شروع کردیا،ایسے میں بے شمارخواتین دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں جبکہ ان کے خاونداپنے آباواجدادکے مشرکانہ مذہب پرکاربندتھے،یہ مومنہ خواتین جن میں عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی تھیں اپنے گھربارچھوڑ کر مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئیں ،اسی طرح بہت سے مسلمان مردہجرت کرکے مدینہ آگئے تھے اوران کی کافربیویاں مکہ میں رہ گئی تھیں اس بارے میں فرمایاکہ جومردوعورت دعوت اسلام قبول کرلے اوراس کی بیوی یا خاوند کافرہی رہے تورشتہ ازدواج ازخودفسخ ہوجائے گا۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی کہ جوخواتین ایمان قبول کرکے آپ کی خدمت میں حاضرہوں ان سے عہدلیا جائے کہ وہ دورجاہلیت کی تمام رسموں سے کنارہ کشی اختیارکر لیں گی اورزندگی کے سارے معاملات میں اللہ اوراس کے رسول کے حکم کواولیت دیں گی۔

xخصوصیت کے ساتھ جہاداوراسوہ ابراہیمی کی پیروی کاحکم دیاگیا۔

xسورۂ کی آخری آیت میں دوبارہ تاکیدکی گئی کہ اے مسلمانو!تم اس قوم سے دوستی نہ رکھوجن پراللہ کاغضب نازل ہوچکاہے،جوآخرت سے اس طرح مایوس ہیں جیسے کہ قبر والوں سے کافرمایوس ہیں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی ۚ تُسِرُّونَ إِلَیْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن یَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ ‎﴿١﴾‏(الممتحنة)
’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کے لیے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو) ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا ۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اگرتم میری رضاجوئی کی خاطر وطن اورگھربارکوچھوڑکر جہادفی سبیل اللہ کے لیےنکلے ہوتواپنے اندرکی کی خبریں کفار تک پہنچاکرمیرے اور اپنے دشمنوں کودوست نہ بناؤبلکہ اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرواورصرف اہل ایمان کے ساتھ موالات ومودت قائم کرو جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۵۱ [30]

ترجمہ:اے لوگوجو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے ، یقینا ًاللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۵۷ [31]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔

یایٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۭ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا۝۱۴۴ [32]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو؟۔

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً۝۰ۭ وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهٗ۔۔۔ ۝۲۸ [33]

ترجمہ:مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یارو مددگار ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ،ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

مسلمانوں کوہوشیارکرتے ہوئے فرمایاتم ان کے ساتھ محبت ومودت کی طرح ڈالتے ہوحالانکہ اللہ تعالیٰ نے جوحق تمہاری اورتمام انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل فرمایاہے اس کومحض اپنی بے جاہٹ دھرمی اورتعصب کی بناپر ماننے سے انکارکرچکے ہیں اورتمہارے ساتھ کسی موقعہ پربھی بدسلوکی میں کمی نہیں کرتے، اوران کی روش تویہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواورخودتم کوجبراًصرف اس قصورپر اپنے شہرسے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائے ہوجس کی عبودیت کوقائم کرناتمام مخلوق پرفرض ہے،جیسے اصحاب اخدودکے بارے میں فرمایا

وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۸ۙ [34]

ترجمہ: اور ان اہلِ ایمان سے ان کی دشمنی کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئے تھے اس اللہ پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔

اورمہاجرین کے بارے میں فرمایا

الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللهُ۔۔۔۝۰۝۴۰ [35]

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔

جب ان کاحق کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو کیاتمہارے لیے یہ مناسب ہے کہ تم ان سے محبت اورمودت کارویہ اختیارکرو،تم چھپاکر ان کودوستانہ پیغام بھیجتے ہوحالانکہ جوکچھ تم چھپاکر کرتے ہواور جو علانیہ کرتے ہو ہر چیز کومیں خوب جانتاہوں ،میں توتمہارے ظاہروباطن اوردلوں کے خفیہ بھیداورنفس کے وسوسوں کوبھی جانتا ہوں ،جیسے فرمایا

 وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ۝۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱۶ [36]

ترجمہ:ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔

پس اللہ تعالیٰ کے منع کرنے کے باوجود تم میں سے جوشخص بھی کفارسے محبت وموالات رکھے گااورانہیں خفیہ نامہ وپیغام بھیجے گا وہ یقیناًراہ راست سے بھٹک جائے گا۔

‏ إِن یَثْقَفُوكُمْ یَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَیَبْسُطُوا إِلَیْكُمْ أَیْدِیَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ ‎﴿٢﴾‏ لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَفْصِلُ بَیْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٣﴾‏(الممتحنة)
’’اگر وہ تم پر کہیں قابو پالیں تو وہ تمہارے (کھلے) دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور (دل سے) چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ، تمہاری قرابتیں، رشتہ داریاں، اور اولاد تمہیں قیامت کے دن کام نہ آئیں گی، اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘

ان کارویہ تویہ ہے کہ اگرکسی موقع پرتم پرقابوپاجائیں توتمہارے ساتھ کھلی دشمنی کرنے سے دریغ نہیں کریں گے اورتمہیں قتل کرنے اورضرب وغیرہ لگانے کے لیے تمہاری طرف ہاتھ بڑھائیں گے اوراپنی زبانوں سےتمہیں تکلیف پہنائیں گےمگرتم ہوکہ ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھارہے ہو،ان کے دلوں میں توحق کے خلاف بغض و عناد اس طرح بھرا ہواہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح دین حق کوچھوڑکر،اللہ وحدہ لاشریک کی عبودیت کوچھوڑکراللہ کے نافرمان بن جاؤاورجہنم کے مستحق ہوجاؤ ،تم نے جس آل اولادکی حفاظت کی خاطرخفیہ نامہ وپیغام کرنے کی کوشش کی ہے تویادرکھو قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد،اس روزاللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا،تمام رشتے،تعلقات اوررابطے توڑ دیے جائیں گے اورہرشخص اپنی ذاتی حیثیت سے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگااور ہر شخص اپنے کیے کی سزا خودہی بھگتے گااوراس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسراشریک نہ ہوگا

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭ [37]

ترجمہ:اس روز آدمی اپنے بھائی اپنی ماں اور اپنے باپ سےاور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ: أَیْنَ أَبِی؟ قَالَ:فِی النَّارِ فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ فَقَالَ:إِنَّ أَبِی وَأَبَاكَ فِی النَّارِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کہاں ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ میں ، جب وہ آدمی واپس جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور پھر فرمایا کہ میرا باپ اور تیرا باپ دونوں دوزخ میں ہیں ۔[38]

اس لیے اللہ اوررسول کی اطاعت کرواوروہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والاہے۔

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاهِیمَ وَالَّذِینَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِیمَ لِأَبِیهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَیْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَیْكَ أَنَبْنَا وَإِلَیْكَ الْمَصِیرُ ‎﴿٤﴾‏ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِینَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٥﴾‏(الممتحنة)
’’(مسلمانو !) تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی، لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لیے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لیے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں، اے ہمارے پروردگار! تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے، اے ہمارے رب ! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال، اور اے ہمارے پالنے والے! ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب، حکمت والا ہے۔‘‘

اے مومنوں کے گروہ! تم لوگوں کے لیے کفارسے عدم موالات کے مسئلے میں ابراہیم علیہ السلام اوراس کے ساتھیوں میں ایک اچھانمونہ ہے کہ انہوں نے اوران کے اہل ایمان ساتھیوں نے اپنی کافرومشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اورقطع تعلق کااعلان کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ ہم تم سے اورتمہارے ان معبودوں سے جن کوتم اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑکر پوجتے ہوقطعی بیزارہیں ،ہم نہ تمہیں حق پر مانتے ہیں اورنہ تمہارے مشرکانہ دین کواور ہمارے اورتمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اوربیر پڑ گیاجب تک تم کفروشرک کوچھوڑکر،ہرطرف سے منہ موڑکر اللہ وحدہ لاشریک پرایمان نہ لاؤ،مگرابراہیم علیہ السلام کااپنے باپ سے یہ کہنا(اس سے مستثنٰی ہے)کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرورکروں گااورپھرعملاًاس کے حق میں دعابھی کی ،

قَدْ كَانَتْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاهِیمَ فِی جَمِیعِ أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ إِلَّا قَوْلَهُ لِأَبِیهِ

یعنی ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ایک قابل تقلیدنمونہ ہے البتہ ان کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعاکرناایک ایساعمل ہے جس میں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔[39]

أَیْ: لَكُمْ فِی إِبْرَاهِیمَ وَقَوْمِهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَتَأَسَّوْنَ بِهَا، إِلَّا فِی اسْتِغْفَارِ إِبْرَاهِیمَ لِأَبِیهِ، فَإِنَّهُ إِنَّمَا كَانَ عَنْ مَوعِدة وَعَدَهَا إِیَّاهُ

یعنی تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اوران کی اصحاب میں نمونہ ہے لیکن باپ کے لیے استغفارکی جوبات کی تھی وہ اسوہ نہیں ہے وہ ان سے کیے ہوئے وعدے کی بات تھی۔[40]

کیونکہ ان کایہ فعل اس وقت کاہے جب ان کواپنے باپ کی بابت علم نہیں تھا،چنانچہ جب ان پرواضح ہوگیاکہ ان کاباپ اللہ کادشمن ہے توانہوں نے اپنے باپ سے بھی اظہاربرات کردیاتھا،جیسے فرمایا

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ۝۰ۭ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ۝۱۱۴ [41]

ترجمہ:ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا ، حق یہ ہے کہ ابراہیم بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُرد بار آدمی تھا۔

اورمیں اللہ کے سامنے تمہارے بارے میں کسی چیزکاکچھ اختیارنہیں رکھتامگرمیں اپنے رب سے دعاکرتارہوں گاہوسکتاہے کہ میں اپنے رب سے دعاکرکے محروم نہ رہوں (اور ابراہیم علیہ السلام واصحاب ابراہیم علیہ السلام کی دعایہ تھی کہ )اے ہمارے رب!ہم نے امکانی حدتک ظاہری اسباب ووسائل اختیارکرنے کے بعدتیرے ہی اوپر بھروسہ کیا،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ، أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ؟ قَالَ: اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ

انس بن مالک سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا باندھو اور اللہ پر بھروسہ رکھ۔[42]

اورتیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیااورہم تیری اطاعت ،تیری رضااوران تمام امورکی طرف لوٹتے ہیں جوتیراقرب عطاکرتے ہیں ،اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کے سبب سےکفار اور مشرکین کوہم پرغلبہ وتسلط عطانہ فرمااس طرح وہ سمجھیں گے کہ وہ حق پرہیں اورہم باطل پرہیں اس طرح وہ کفروسرکشی میں اورزیادہ بڑھ جائیں گے اوریوں ہم ان کے لیے فتنے کاباعث بن جائیں گے،

قَالَ مُجَاهِدٌ: مَعْنَاهُ: لَا تُعَذِّبْنَا بِأَیْدِیهِمْ،وَلَا بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِكَ، فَیَقُولُوا: لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ عَلَى حَقٍّ مَا أَصَابَهُمْ هَذَا

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں نہ توان کے ہاتھوں سے عذاب دینا اورنہ اپنے پاس سے عذاب دیناتاکہ کافریہ طعنہ نہ دیں کہ اگریہ لوگ حق پرہوتے توانہیں یہ عذاب لاحق نہ ہوتا۔[43]

وَقَالَ قَتَادَةُ لَا تُظْهِرهم عَلَیْنَا فَیَفْتَتِنُوا بِذَلِكَ، یَرَوْنَ أَنَّهُمْ إِنَّمَا ظَهَرُوا عَلَیْنَا لِحَقٍّ هُمْ عَلَیْهِ

اورقتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انہیں ہم پرغلبہ نہ دیناتاکہ یہ ہمیں فتنے میں مبتلانہ کردیں اوروہ یہ خیال نہ کرنے لگیں کہ وہ حق پرہیں اس لیے ہم پرغالب آگئے ہیں ۔[44]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، یَقُولُ: لَا تُسَلِّطْهُمْ عَلَیْنَا فَیَفْتِنُونَا

اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کوہم پرمسلط نہ کرناتاکہ یہ ہمیں فتنے میں مبتلانہ کردیں ۔[45]

اوراے ہمارے رب!ہم نے جن گناہوں اوربرائیوں کا ارتکاب کیاہے اورتعمیل حکم میں جو تقصیر سرزدہوئی ہیں اس سے درگزر فرما ، ہماری پردہ پوشی فرمااورہمیں معاف فرمادے،بے شک توہی زبردست اوردانا ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ یَرْجُو اللَّهَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن یَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ ‎﴿٦﴾‏ ۞ عَسَى اللَّهُ أَن یَجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ الَّذِینَ عَادَیْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِیرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٧﴾‏(الممتحنة)
’’یقیناً تمہارے لیے ان میں اچھا نمونہ (اور عمدہ پیروی ہے خاص کر) ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو، اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےنیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے، کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے، اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ (بڑا) غفور رحیم ہے۔‘‘

اورتاکیدکے طورپرفرمایاکہ ابراہیم علیہ السلام اوران کے اہل ایمان ساتھیوں کے طرزعمل میں تمہارے لیے اورہراس شخص کے لیے اچھانمونہ ہے جواللہ وحدہ لاشریک پرایمان رکھتاہو اورآخرت کے عذاب سےڈرتا ہو،اوراگر کوئی ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کواپنانے سے گریزکرےتوبیشک اللہ ہرلحاظ سے غنائے مطلق کامالک ہے اورکسی بھی پہلوسے وہ مخلوق میں سے کسی کامحتاج نہیں اوروہ اپنی ذات وصفات اورافعال میں قابل ستائش ہے،جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایاتھا

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۸ [46]

ترجمہ:اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{الْغَنِیُّ}الَّذِی [قَدْ ]كَمُلَ فِی غِنَاهُ، وَهُوَ اللهُ،هَذِهِ صِفَتُهُ لَا تَنْبَغِی إِلَّا لَهُ، لَیْسَ لَهُ كُفْءٌ ، وَلَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ، سُبْحَانَ اللهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’الغنی۔‘‘ کے بارے میں روایت ہے، غنی وہ ہے جوبے نیازی میں کامل ہواوروہ اللہ ہی ہے اوریہ صفت اللہ تعالیٰ ہی کے شیایان شان ہے کہ اس کاکوئی ہمسرنہیں ،اس جیسی کوئی چیزنہیں پاک ہے وہ اللہ جوواحداورسب پرغالب ہے۔[47]

اوراے مسلمانو!تم ان کے ایمان کی طرف لوٹنے سے مایوس نہ ہوبعیدنہیں کہ اللہ کبھی ان کو مسلمان کر کے تمہارابھائی اورساتھی بنادے،بغض ونفرت اورفرقت کے بعد محبت مودت اورالفت پیدافرما دے، جیسےفرمایا

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ [48]

ترجمہ:سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اللہ نے تم کو اس سے بچا لیااس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔

 هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ۝۶۲ۙوَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۶۳ [49]

ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی، اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔

فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ اللهُ بِی، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ فألَّفَكُم اللهُ بِی؟

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغزوہ طائف کے موقع پرانصارکومخاطب ہوکرفرمایاتھااے گروہ انصار!کیامیں نے تمہیں رستے سے بھٹکے ہوئے نہ پایاپھراللہ تعالیٰ نے میری بدولت تمہیں ہدایت سے نوازا؟اورتم جداجداتھے تومیری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم میں الفت پیدافرمادی۔[50]

چنانچہ فتح مکہ کے بعد ایساہی ہوا،فتح مکہ کے بعدلوگ فوج درفوج دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اوران کی نفرتیں محبت میں تبدہل ہوگئیں ،جومسلمانوں کوصفحہ ہستی سے مٹاناچاہتے تھے وہ ان کے دست وبازوبن گئے،اللہ تعالیٰ ہرچیزپر قدرت رکھتاہے اوراس کے سامنے کوئی گناہ بڑانہیں کہ وہ اسے بخش نہ سکے اورکوئی عیب بڑانہیں کہ وہ اسے ڈھانپ نہ سکے۔

لَّا یَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوكُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوكُم مِّن دِیَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ‎﴿٨﴾‏ إِنَّمَا یَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوكُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِیَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٩﴾‏(الممتحنة)
’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیاان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا،بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس سے نکال دیئےاور دیس سے نکال دینے والوں کی مدد کی، جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ (قطعًا) ظالم ہیں ۔‘‘

اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتاکہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اورانصاف کابرتاؤکروجنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے ،تمہارے ساتھ بغض وعدوات کابرتاؤنہیں کیا اورمسلمانوں کے خلاف مشورے اوررائے اورہتھیاروں سے کفارکی مددکرکےتمہیں ہجرت پرمجبورنہیں کیا ،توانصاف کاتقاضاتویہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ کرو،دشمن اورغیردشمن کوایک ہی درجہ میں رکھنااوردونوں سے ایک جیساسلوک کرناانصاف نہیں ،انصاف تویہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھابرتاؤکرواوررشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جوحقوق تم پرعائدہوتے ہیں انہیں اداکرنے میں کوتاہی نہ کرو،جیسے اولادکووالدین کے حقوق کے بارے میں فرمایا

وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۔۔۔۝۰۝۱۵ [51]

ترجمہ:لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ ۔

قَدِمَتْ عَلَیَّ أُمِّی وَهِیَ مُشْرِكَةٌ فِی عَهْدِ قُرَیْشٍ إِذْ عَاهَدَهُمْ فَاسْتَفْتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَدِمَتْ عَلَیَّ أُمِّی وَهِیَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّی؟ قَالَ:نَعَمْ، صِلِی أُمَّكِ

اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکرنے عرض کی ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی اس وقت وہ مشرک تھیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں (جن کانام قتیلہ بیان کیا جاتاہے) آئی ہوئی ہے اوراب تک وہ اپنے دین سے الگ ہیں کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔[52]

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَدِمَتْ قُتَیْلَةُ ابْنَةُ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ عَبْدِ أَسْعَدَ مِنْ بَنِی مَالِكِ بْنِ حَسَلٍ، عَلَى ابْنَتِهَا أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِی بَكْرٍ بِهَدَایَا، ضِبَابٍ، وَقِرظٍ، وَسَمْنٍ وَهِیَ مُشْرِكَةٌ، فَأَبَتْ أَسْمَاءُ أَنْ تَقْبَلَ هَدِیَّتَهَا، وَتُدْخِلَهَا بَیْتَهَا، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَا یَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوكُمْ فِی الدِّینِ[53] إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَقْبَلَ هَدِیَّتَهَا وَأَنْ تُدْخِلَهَا بَیْتَهَا

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےقتیلہ اپنی بیٹی اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سانڈے،پنیر اورگھی کاتحفہ لے کرآئی اوروہ مشرکہ تھی،اسماء رضی اللہ عنہا نے اس کے تحفے قبول کرنے اوراسے اپنے گھرمیں آنے سے منع کردیا،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمادی’’ اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتاکہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اورانصاف کابرتاؤکروجنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے،اللہ انصاف کرنے والوں کوپسندکرتاہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ اس کے تحائف کوقبول کرلواوراسے اپنے گھرمیں آنے کی اجازت دو۔[54]

اللہ انصاف کرنے والوں کوپسندکرتا ہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمُقْسِطِینَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ یَمِینِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا یَدَیْهِ یَمِینٌ، الَّذِینَ یَعْدِلُونَ فِی حُكْمِهِمْ وَأَهْلِیهِمْ وَمَا وَلُوا

اورانصاف کی فضیلت میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انصاف کرنے والے رحمن کے دائیں جانب اور اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں دائیں ہاتھ ہیں یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی رعایا اور اہل وعیال میں عدل وانصاف کرتے ہوں گے۔[55]

تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کاحق ہے جنہوں نے ایمان قبول کرنے کی پاداش میں تم پر انسانیت سوزظلم کے پہاڑتوڑے اورتمہیں اپنے وطن اور گھربارکوچھوڑکرہجرت کرنے پرمجبورکیا اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مددکی ہےاورپھروہاں بھی تمہارا پیچھانہیں چھوڑا چنانچہ جولوگ ارشادالٰہی اورامرربانی سے اعراض کرتے ہوئےان سے دوستی کریں وہی ظالم ہیں ،جیسےفرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۵۱ [56]

ترجمہ:اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے ، یقینا ًاللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِیمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ یَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَیْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْیَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿١٠﴾‏ وَإِن فَاتَكُمْ شَیْءٌ مِّنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِینَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ‎﴿١١﴾‏(الممتحنة )
’’اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں، اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وہ انہیں ادا کردو، ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو وہ مانگ لو اور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو وہ بھی مانگ لیں، یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم (اور) حکمت والا ہے، اور اگر تمہاری کوئی بیوی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور کافروں کے پاس چلی جائے پھر تم اس کے بدلے کا وقت مل جائے تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں انہیں ان کے اخراجات کے برابر ادا کردو اور اس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘

مومن عورتوں کی ہجرت :اے ایمان والو!جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں توان کے مومن ہونے کی جانچ پڑتال کرلواوران کی ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہترجانتاہے پھرجب تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں توانہیں کفارکی طرف واپس نہ کرو،کیونکہ اسلام کوصرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی ہرطرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لئے مدینہ کوپناہ گاہ بنانامقصودنہ تھااس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاکہ جو عورتیں ہجرت کرکے آجائیں اورخودکومومنہ ظاہرکریں توان کے ایمان کے بارے میں تسلی کرلو اورجب اطمینان ہوجائے کہ وہ اللہ کی توحیداوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں توانہیں کفارکوواپس نہ کرو، نہ وہ کفارکے لئے حلال ہیں اورنہ کفاران کے لئے حلال،ہاں اگرشوہربھی مسلمان ہوجائے توپھران کانکاح برقراررہ سکتاہے چاہے خاوندعورت کے بعدہجرت کرکے مدینہ منورہ آجائے،

قَالَ: سُئِل ابنُ عَبَّاسٍ: كَیْفَ كَانَ امتحانُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النساءَ؟ قَالَ: كَانَ یَمْتَحِنُهُنَّ: بِاللهِ مَا خَرجت مِنْ بُغض زَوْجٍ؟وَبِاللهِ مَا خَرجت رَغبةً عَنْ أَرْضٍ إِلَى أَرْضٍ؟ وَبِاللهِ مَا خَرَجْتِ الْتِمَاسَ دُنْیَا؟ وَبِاللهِ مَا خَرَجْتِ إِلَّا حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ؟ وَذَكَرَ فِیهِ أَنَّ الَّذِی كَانَ یُحَلِّفُهُنَّ عَنْ أَمْرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ له عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھاگیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کاامتحان کس طرح لیتے تھے؟فرمایاآپ ان سے حلفیہ بیان لیتے کہ وہ شوہرکی نافرمانی کرکے نہیں آئی ہے ،آب وہوااورزمین کی تبدیلی کرنے کے لیے بطورسیروسیاحت تونہیں آئی،وہ کسی دنیاطلبی کے لیے تونہیں آئی بلکہ اللہ اوراس کے رسول کی محبت میں ہجرت کی ہے؟ قسم دے کران سے سوالات کرنااورخوب آزمالیناسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے سپرتھاجو عورت ان سوالات کاتسلی بخش جواب دے دیتیں توانہیں کفارکی طرف واپس نہ فرماتے۔[57]

وَقِیلَ: الِامْتِحَانُ هُوَ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ

اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ امتحان یہ تھاکہ وہ کلمہ شہادت لاالٰہ الااللہ وان محمدرسول اللہ کی گواہی دیں ۔[58]

ان کے کافرشوہروں نے جومہران کودیئے تھے وہ تم انہیں اداکردواورانقضائے عدت اورولی کی اجازت اوردوعادل گواہوں کی موجودگی میں ان کا حق المہر اداکرکے نکاح کرلینے میں تم پرکوئی گناہ نہیں

لقول أبی حنیفة: أنَّهُ لاَ عِدَّةَ عَلَیْهَا وفی أقوال أبی یوسف ومحمد: علیها العدة امام

ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس عورت پرکوئی عدت نہیں ہے، اورامام یوسف اورامام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس عورت پرعدت لازم ہے۔[59]

اورتم خودبھی کافر عورتوں کواپنے نکاح میں نہ روکے رہوبلکہ فوراًطلاق دے کراپنے سے علیحدہ کر دو اور جو مہرتم نے اپنی کافربیویوں کودیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہرکافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کودیئے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں ،یہ اللہ کاحکم ہے وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اورعلیم وحکیم ہے،

قَالَ الْقُرْطُبِیُّ: وَكَانَ هَذَا مَخْصُوصًا بِذَلِكَ الزَّمَانِ فِی تِلْكَ النَّازِلَةِ خَاصَّةً بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس دورکے ساتھ ہی خاص تھااس پرمسلمانوں کااجماع ہے۔[60]

اوراگرتمہاری کافربیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اورپھرتمہاری نوبت آئے توجن لوگوں کی بیویاں ادھررہ گئی ہیں ان کواتنی رقم اداکردوجوان کے دیے ہوئے مہروں کے برابرہواوراس اللہ سے ڈرتے رہو جس پرتم ایمان لائے ہو،

ذِكْرُ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَةِ الَّذِی وَقَعَ بَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ كُفَّارِ قُرَیْشٍ، فَكَانَ فِیهِ:عَلَى أَلَّا یَأْتِیكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِینِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَیْنَا

معاہدہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورکفارقریش کے درمیان جومعاہدہ ہواتھااس میں ایک شق تھی کہ مکہ مکرمہ سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلاجائے گاتووہ اسے کفارکو واپس کردیں گے ۔

لیکن اس معاہدے میں مروعورت کی کوئی صراحت نہیں تھی بظاہرکوئی (احد)میں دونوں ہی شامل تھے صلح حدیبیہ کے بعداول اول تومسلمان مردمکہ مکرمہ سے بھاگ بھاگ کرمدینہ منورہ آتے رہے اورصلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق جومسلمان مردمکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آجاتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس لوٹادیتے مگرمعاہدہ حدیبیہ کے بعدسب سے پہلے ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کرکے مدینہ آگئیں ،قریش سمجھتے تھے کہ معاہدہ میں واپسی کی شرط مردوزن دونوں پرلاگوہوگی اس لئے ازروئے معاہدہ ان کے دوبھائی ولیدبن عقبہ اورعمارہ بن عقبہ انہیں واپس لینے کے لئے مدینہ منورہ پہنچ گئے اوراپنی بہن کی واپسی کا مطالبہ کیا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کایہ مطالبہ مسترکردیا

 فَقَالَ كَانَ الشَّرْطُ فِی الرِّجَالِ وَلَمْ یَكُنْ فِی النِّسَاءِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس معاہدہ میں واپسی کی شرط مردوں کے ساتھ مخصوص ہے عورتوں کے ساتھ نہیں ۔

اورانہیں معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تووہ دم بخودرہ گئے اورانہیں ناچار اس فیصلے کو مانناپڑا ،لیکن ہجرت کے بعدایک معاشرتی مسئلہ بڑی پیچیدگی پیداکررہاتھاوہ یہ کہ مکہ مکرمہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہرکافرتھے ،اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مردایسے تھے جن کی بیویاں کافرتھیں اوروہ مکہ مکرمہ ہی میں رہ گئی تھیں ،ان کے بارے میں یہ سوال پیداہوتاتھاکہ ان کے درمیان رشتہ ازواج باقی ہے یانہیں ،کافرہ بیوی کوالگ کر دینے کاحکم نازل نہیں ہواتھااس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زوجیت میں ایسی عورتیں موجود تھیں جوشرک پرقائم تھیں ،چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس اہم معاشرتی مسئلے کاہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ فرمادیاکہ مسلمان عورت کے لئے کافرشوہرحلال نہیں اورمسلمان مردکے لئے بھی یہ جائزنہیں کہ وہ مشرک بیوی کواپنے نکاح میں رکھے اورمسلمان عورتوں کی واپسی سے منع فرمایااور یہ آیت نازل فرمائی۔

جب یہ حکم نازل ہواکہ کافرہ عورت کواپنے نکاح میں نہ رکھوتو مسلمانوں نے جواللہ کے حکم کے سامنے کسی تعلق اورمحبت کوزرہ برابراہمیت نہ دیتے تھے اپنی کافرہ بیویوں کوطلاق دے دی ،

طَلَّقَ عُمَرُ یَوْمَئِذٍ قَرِیبَةَ بِنْتَ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ، فَتَزَوَّجَهَا مُعَاوِیَةُ، وَأُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَمْرِو بْنِ جَرْوَلٍ الْخُزَاعِیَّةَ، وَهِیَ أَمُّ عُبَید اللهِ، فَتَزَوَّجَهَا أبو جهم ابن حُذَیْفَةَ بْنِ غَانِمٍ، رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، وَهُمَا عَلَى شِرْكِهِمَا،وَطَلَّقَ طلحةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ أَرْوَى بنتَ رَبِیعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ خَالِدُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ

زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں قرییہ اورام کلثوم دو بیویاں تھیں جومکہ مکرمہ میں اپنے شرک پرقائم تھیں سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی ،ان میں سے قرییہ بنت ابوامیہ بن مغیرہ نے امیرمعاویہ (جواس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے)نکاح کرلیااورام کلثوم بنت عمرو بن جرول الخزعی جوام عبیداللہ کہلاتی تھیں نے اپنی قوم کے ابوجہم ابن حذیفہ بن غانم سے نکاح کرلیا اورطلحہ بن عبیداللہ نے اروی بنت ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کو طلاق دے دی جس سے بعدمیں خالدبن سعیدبن عاص سے نکاح کر لیا ۔[61]

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا یُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَأْتِینَ بِبُهْتَانٍ یَفْتَرِینَهُ بَیْنَ أَیْدِیهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا یَعْصِینَكَ فِی مَعْرُوفٍ ۙ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٢﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ قَدْ یَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا یَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ ‎﴿١٣﴾‏(الممتحنة)
’’اے پیغمبر ! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں، اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں ،بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے، اے مسلمانو ! تم اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے، جو آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں جیسے کہ مردہ اہل قبر سے کافر ناامید ہیں ۔‘‘

یہ آیت فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ،اے نبی !جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اوربطورخاص ان چیزوں کاعہدکریں جن کاارتکاب عام طورپرعورتوں سے ہوتاہےکہ وہ اللہ کی ذات،صفات اورافعال میں کسی چیزکوشریک نہ کریں گی بلکہ وہ اللہ وحدہ لاشریک کوعبادت کامستحق سمجھیں گی ،چوری نہ کریں گی

یعنی: لا یأخذن مال أحد بغیر حق

یعنی بغیرحق کسی کامال حاصل نہیں کریں گی۔

زنانہ کریں گی،اور اپنی اولادکوقتل نہیں کریں گی

یعنی:ولا یقتلن بناتهن، كما قتلن فی الجاهلیة

یعنی دورجاہلیت کی طرح اپنی بیٹیوں کوزندہ درگورنہیں کریں گی۔

اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑکرنہ لائیں گی یعنی کوئی عورت دوسری عورت پرغیرمردوں سے آشنائی کی تہمتیں نہیں لگائے گی اورنہ اس طرح کے قصے لوگوں میں پھیلائے گی ،

وَإِنَّمَا مَعْنَى الْكَلَامِ: وَلَا یُلْحِقْنَ بِأَزْوَاجِهِنَّ غَیْرَ أَوْلَادِهِمْ

اوراس کلام کامعنی یہ بھی ہے کہ عورت بچہ توکسی کاجنے اورشوہرکویہ یقین دلائے کہ یہ بچہ تیراہی ہے۔[62]

اور تمام نیک کاموں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گی توان سے بیعت لے لیں اوران کی دل جمعی کے لیے ان کی تقصیرکی اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کریں ۔

ویدخل فی ذلك ترك النِّیَاحَةِ وَشَقِّ الْجُیُوبِ ونتف الشّعر عند المصیبة وتخمیش الوجوه والتبرّج وإظهار الزینة

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے یہ عہدبھی لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی ،گریبان چاک نہیں کریں گی ،مصیبت کے وقت سرکے بال نہیں نوچیں گی اوراپنامنہ نہیں پیٹیں گے اوراپنی زینت کے اظہارکے لیے تبرج نہیں کریں گی۔[63]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ قَالَتْ:أَخَذَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْبَیْعَةَ عَلَى أَنْ لَا نَنُوحَ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت لی کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی[64]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ تُبَایِعُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ عَلَیْهَا: {أَنْ لَا یُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ}،[65]] الْآیَةَ قَالَتْ:فَوَضَعَتْ یَدَهَا عَلَى رَأْسِهَا حَیَاءً، فَأَعْجَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى مِنْهَا فَقَالَتْ عَائِشَةُ:أَقِرِّی أَیَّتُهَا الْمَرْأَةُ، فَوَاللَّهِ مَا بَایَعَنَا إِلَّا عَلَى هَذَا قَالَتْ: فَنَعَمْ إِذًا، فَبَایَعَهَا بِالْآیَةِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےفاطمہ بنت عتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے آئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ عہدلیاکہ ’’وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کریں گی ،چوری نہیں کریں گی ،اورزنانہیں کریں گی ۔‘‘تواس نے حیاسے اپناہاتھ اپنے سرپررکھ لیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی یہ بات پسندآئی،عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کہااے خاتون!اس بات کااقرارکرلو،اللہ کی قسم !ہم نے بھی انہی باتوں پرآپ سے بیعت کی ہے، اس نے کہااگرتم لوگوں نے بیعت کی ہے توپھرمیں بھی بیعت کرتی ہوں پس اس نے اس آیت کریمہ میں مذکورباتوں پربیعت کر لی۔[66]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ:قَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ بَایَعْتُكِ كَلاَمًا، وَلاَ وَاللهِ مَا مَسَّتْ یَدُهُ یَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِی المُبَایَعَةِ، مَا یُبَایِعُهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف گفتگو کے ذریعہ بیعت کرتے اور اللہ کی قسم! بیعت میں کبھی آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا آپ ان عورتوں سے صرف زبانی بیعت کرتے اور فرماتے کہ میں نے تجھ سے اس پر بیعت کی۔[67]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرزعمل میں ان نام نہادپیروں کے لیے درس عبرت ہے جومردوں اورنامحرم عورتوں سے بلاامتیازدستی بیعت لیتے ہیں ،اگریہ جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پرہیزنہ فرماتے۔

عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، یَقُولُ:كُنَّا نُبَایِعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، یَقُولُ لَنَا:فِیمَا اسْتَطَعْتَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اپنی طاقت اوروسعت کے مطابق(تم پابندرہوگے)۔[68]

یقیناًاللہ نافرمانوں کوبہت کثرت سے بخشنے والااورگناہ گارتائبین پراحسان کرنے والا ہے،اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اگراپنے رب پرایمان رکھتے ہو،اس کی رضاوخوشنودی کی اتباع کرتے ہواوراس کی ناراضی سے دوررہتے ہوتویہودونصاری یاکفار کودوست نہ بناؤجن پراللہ نے غضب فرمایاہے اور انہیں آخرت کی بھلائی سے محروم کردیا گیا ہے اس لیےانہیں آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگاجب وہ آخرت کے گھرجائیں گے اور وہاں حقیقت حال کامشاہدہ کریں گے اورانہیں یقین کامل ہوجائے گاکہ آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ:كَمَا یَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ ، قَالَ: كَمَا یَئِسَ هَذَا الْكَافِرُ إِذَا مَاتَ وَعَایَنَ ثَوَابَهُ وَاطَّلَعَ عَلَیْهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ’’جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں ۔ ‘‘کے بارے میں روایت ہے جس طرح کافربوقت موت مایوس ہوجاتاہے اوروہ اپنے انجام کودیکھ لیتاہے اوراس کامشاہدہ کرلیتاہے اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے انجام سے مایوس ہیں ۔[69]

بنوسلیم سے عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس کاقبول اسلام

وَحَدِیثُهُ أَنَّهُ كَانَ لِأَبِیهِ مِرْدَاسٍ وَثَنٌ یَعْبُدُهُ، وَهُوَ حَجَرٌ كَانَ یُقَالُ لَهُ ضِمَارِ فَلَمَّا حَضَرَ مِرْدَاسٌ قَالَ لِعَبَّاسِ: أَیْ بُنَیَّ، اُعْبُدْ ضِمَارِ فَإِنَّهُ یَنْفَعُكَ وَیَضُرُّكَ،فَبَیْنَا عَبَّاسٌ یَوْمًا عِنْدَ ضِمَارِإذْ سَمِعَ مِنْ جَوْفِ ضِمَارِ مُنَادِیًا یَقُولُ:

عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس کے والدمرداس ضمارنامی ایک بت کی پرستش کیاکرتے تھے،انہوں نے اپنے بیٹے کوکہاکہ ضمارہی تمہارے ہرطرح کے نفع ونقصان کا مالک ہے اس لئے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمہیں اس کی دل وجان سے پرستش کرنی چاہیے،چنانچہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق وہ بھی اس کی پوجاپاٹ میں لگ گئے،ایک دن جب وہ اس کی عبادت میں مشغول تھے کہ ایک منادی کی آواز سنی

قُلْ لِلْقَبَائِلِ مِنْ سُلَیْمٍ كُلِّهَا ، أَوْدَى ضِمَارِ وَعَاشَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ

إنَّ الَّذِی وَرِثَ النُّبُوَّةَ وَالْهُدَى ، بَعْدَ ابْنِ مَرْیَمَ مِنْ قُرَیْشٍ مُهْتَدِی

أَوْدَى ضِمَارِ وَكَانَ یُعْبَدُ مَرَّةً ، قَبْلَ الْكِتَابِ إلَى النَّبِیِّ مُحَمَّدِ

 فَحَرَّقَ عَبَّاسٌ ضِمَارِ، وَلَحِقَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ

جوضمادکی بربادی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کااعلان کررہی تھی ،عباس بن مرداس کواللہ رب العزت نے فطرت سلیم عطافرمائی تھی ،وہ اس دورمیں بھی بادہ نوشی سے دورہی رہتے تھےاس آوازکوسن کروہ کانپ گئےانہوں نے اپنے والدکے معبودضمارکوآگ میں جھونک دیااورسیدھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کراسلام قبول کرلیا۔[70]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس کومدمورنامی ایک جاگیرعطافرمائی اورتحریری فرمان عنایت فرمایاجس کامضمون یوں تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

 هَذَا مَا أَعْطَى النَّبِیُّ مُحَمَّدٌ عَبَّاسَ بْنَ مرداس السلمى، أعطَاهُ مدمورا فَمن خافه فِیهَا فَلَا حَقَّ لَهُ، وَحَقُّهُ حَقٌّ

 وَكَتَبَ الْعَلَاءُ بْنُ عُقْبَةَ وَشَهِدَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ وہ عطیہ ہے جومحمدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس السلمی کودیا،آپ نے ان کومدمورعطاکیاجوان کے خلاف حق جتائے گااس کاکوئی حق نہیں اصل حق انہیں کاہے۔

کاتب اورگواہ علاء بن عقبہ [71]

رجعت بَنِی سُلَیْمٍ إِلَى بلادهم، وذكر إسلام الْعَبَّاسُ وبَنِی سُلَیْمٍ

چنددن بعدجب بنوسلیم کے وفدنے بارگاہ رسالت میں حاضرہونے کے بعد واپسی کاارادہ کیاتو عباس اور بنو سلیم دونوں کے اسلام لانے کا ذکر بھی کیا۔ [72]

مدینہ منورہ سے روانگی:

وَاسْتَخْلَفَ على الْمَدِینَة أبارهم، كُلْثُومَ بْنَ حُصَیْنِ ابْن عُتْبَةَ بْنِ خَلَفٍ الْغِفَارِیَّ، وَخَرَجَ لِعَشْرٍ مَضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ ،وخرج بعد العصر وَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَهُ الزّبَیْرُ بْنُ الْعَوّامِ، فِی مِائَتَیْنِ مِنْ الْمُسْلِمِینَ

دس رمضان المبارک آٹھ ہجری (ابتداجنوری۶۳۰ء)کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پرکلثوم بن حصین بن عتبہ بن خلف غفاری رضی اللہ عنہ جن کی کنیت ابورہم تھی کواورابن سعد کے مطابق عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کواپناقائم مقام مقررفرمایااورعصرکے بعد جاں نثاروں ،پروانوں رسالت کالشکرلے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلصل پہنچے توزبیربن العوام رضی اللہ عنہ کودوسو مسلمانوں کے ہمراہ آگے روانہ کیا۔[73]

فَصَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَصَامَ النَّاسُ مَعَهُ، وَأَوْعَبَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، فَلَمْ یَتَخَلَّفْ عَنْهُ مِنْهُمْ أَحَدقَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: ثُمَّ مَضَى حَتَّى نَزَلَ مَرَّ الظَّهْرَانِ فِی عَشَرَةِ آلَافٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ ،مِنْ بَنِی سلیم سبع مائَة. وَیَقُولُ بَعْضُهُمْ: أَلْفٌ، وَمِنْ بَنِی غفار أَربع مائَة،وَمِنْ أسلم أَربع مائَة،وَمِنْ مُزَیْنَةَ أَلْفٌ وَثَلَاثَةُ نَفَرٍ، وَسَائِرُهُمْ مِنْ قُرَیْشٍ وَالْأَنْصَارِ وَحُلَفَائِهِمْ، وَطَوَائِفُ الْعَرَبِ مِنْ تَمِیمٍ وَقَیْسٍ وَأَسَدٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسب مجاہدین اسلام نے روزہ رکھااورمہاجرین وانصارمیں سے کوئی شخص پیچھے نہیں رہاتھا،ابن اسحاق کہتے ہیں مختلف قبائل راستے میں آکرملتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب لشکراسلام نے مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلے پریعنی تقریباًآٹھ میل دورمَرَّ الظَّهْرَانِ(وادی فاطمہ ) کے مقام پرپڑاؤڈالااس وقت مجاہدین کی تعداددس ہزارتھی، ان میں بنوسلیم سات سویاایک ہزارتھی اور ان پرضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ امیرمقرر تھے،بنو غفار میں سے چار سواوربنواسلم سے چارسواوربنومزینہ ایک ہزارتین سو جانبازوں کے ساتھ تھے،باقی سب قریش ،انصاران کے حلفاء اوردیگرقبائل بنوتمیم ،بنوقیس اوربنواسدسے تعلق رکھتے تھے۔[74]

اس غزوہ میں امہات المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور میمونہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسفرتھیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کورمضان میں افطارکی اجازت دینا:

حَتَّى بَلَغَ الكَدِیدَ، وَهُوَ مَاءٌ بَیْنَ عُسْفَانَ، وَقُدَیْدٍ أَفْطَرَ وَأَفْطَرُوا

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عُسْفَانَ اورَقُدَیْدٍکے درمیان مقام الكَدِیدَ

(المَاءَ الَّذِی بَیْنَ قُدَیْدٍ وَعُسْفَانَ

یہ ایک جاری چشمہ ہے جومکہ مکرمہ سے ۸۶کلومیٹر اورمدینہ منورہ سے ۳۰۱کلومیٹردورعسفان اور قدید کے درمیان واقع ہے۔[75]

وَهُوَ الَّذِی تُسَمِّیهِ النَّاسُ الْیَوْمَ قُدَیْدًا

امام ابن القیم رحمہ اللہ کاکہناہے یہ وہی جگہ ہے جسے لوگ آج کل قدیدکہتے ہیں ۔[76]

پرپہنچے تووہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشقت کے خیال سے روزہ افطار فرمایا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کی اقتداء میں روزہ توڑدیا۔[77]

قرآن مجیدمیں بھی مسافرکے لئے خاص اجازت ہے کہ مسافرنہ چاہے توروزہ سفرمیں نہ رکھے یاسفرپوراکرکے چھوڑے ہوئے روزوں کوپوراکرے۔

فَمَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُبُّ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهِ مِنَ الْحَرِّ وَهُوَ صَائِمٌ

اور منادی کرادی جوچاہے روزہ رکھ سکتاہے اورجونہ چاہے وہ نہ رکھے، راوی کابیان ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگرمی کی شدت کی وجہ سے بعض دنوں میں اپنے سرپرپانی بہاتے ہوئے دیکھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں تھے۔[78]

فَقِیلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَیْهِمِ الصِّیَامُ، وَإِنَّمَا یَنْظُرُونَ فِیمَا فَعَلْتَ، فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ الْعَصْرِفَرَفَعَهُ، حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَیْهِ، ثُمَّ شَرِبَ، فَقِیلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ، فَقَالَ: أُولَئِكَ الْعُصَاةُ، أُولَئِكَ الْعُصَاةُ

ایک روایت میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کدیدپرپہنچے تو آپ کواطلاع ملی کہ لوگوں پرروزے رکھنا دشوار ہو رہا ہے اوروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل معلوم کرنے کے منتظرہیں پس آپ نے عصرکے بعداپنی سواری پربیٹھے بیٹھے پانی کا اور ایک قول کے مطابق دودھ کابرتن منگوایااوراسے بلندکیایہاں تک کہ لوگوں نے ان کی طرف دیکھاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سے پی لیا،پھرعرض کیاگیاکہ کچھ لوگ روزہ دارہیں ، فرمایاوہی نافرمان ہیں ،وہی نافرمان ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ نہ رکھنے کے حکم کے خلاف کیا ہے۔[79]

فَلَمْ یَزَلْ مُفْطِرًا حَتَّى انْسَلَخَ الشَّهْرُ

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم رمضان تک روزے نہیں رکھے۔[80]

وَكَانَ العباس قَدْ خَرَجَ قَبْلَ ذَلِكَ بِأَهْلِهِ وَعِیَالِهِ مُسْلِمًا مُهَاجِرًا، فَلَقِیَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْجُحْفَةِ

ابن اسحاق رحمہ اللہ لکھتے ہیں عباس رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرکے اپنے اہل وعیال کو لے کرہجرت کی غرض سے مکہ مکرمہ سے نکل چکے تھےوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام حجفہ میں ملے ۔[81]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی خوش آمدیدکہااوربہت ہی تپاک اورمحبت سے ملے اوران کے بچوں کوعزت وآرام کے ساتھ مدینہ منورہ بھجوادیا

وَكَانَ مِمَّنْ لَقِیَهُ فِی الطَّرِیقِ ابْنُ عَمِّهِ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ، وعبد الله بن أبی أمیة، لَقِیَاهُ بِالْأَبْوَاءِ، وَهُمَا ابْنُ عَمِّهِ وَابْنُ عَمَّتِهِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُمَا

اسی طرح آپ کے چچازاداوردودھ شریک بھائی ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حارث بن عبدالمطلب(حلیمہ سعدیہ نے ان کوبھی دودھ پلایاتھا) اورآپ کے پھوپھی زادبھائی( عاتکہ بنت عبدالمطلب کے لڑکے) عبداللہ بن امیہ مخزومی (ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی)نے بھی ابواء کے مقام پرآپ سے باریابی کی اجازت چاہی لیکن آپ نے ان کی ایک نہ سنی۔[82]

کہاجاتاہے چاراشخاص شکل وصورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھےجعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ ،قثم بن عباس اورابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حارث ۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِجَعْفَرٍ:أَشْبَهْتُ خَلْقِی وَخُلُقِی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایاتم اپنے اخلاق اورصورت میں میری مشابہت رکھتے ہو۔[83]

إِنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ كَانَ یُشَبَّهُ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔[84]

قُثَمُ، وَكَانَ یُشْبِهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

قثم بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔[85]

اورابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حارث۔ابوسفیان رضی اللہ عنہ برجستہ شعر کہنے والوں میں تھے اس سے قبل وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجومیں اشعارکہہ چکے تھے جس کاحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان اشعار میں جواب دیاتھا۔

أَلَا أَبْلِغْ أَبَا سُفْیَانَ عَنِّی ، مُغَلْغَلَةً فَقَدْ بَرِحَ الْخَفَاءُ

خبرداررہو!ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوببانگ دہل میرایہ پیغام پہنچادوکہ ان امرنبوت واضح ہوچکاہے

هَجَوْتَ مُحَمَّدًا وَأَجَبْتُ عَنْهُ ، وَعِنْدَ اللهِ فِی ذَاكَ الْجَزَاءُ

تم نے محمد علیہ السلام کی جوہجوکی تھی میں نے اس کاترکی بہ ترکی جواب دے دیا،انشااللہ مجھے اللہ کے پاس اس کابہترصلہ ملے گا۔

ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حارث بن عبدالمطلب کاقبول اسلام

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَدْ كَانَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ قَدْ لَقِیَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیْضًا بِنِیقِ الْعُقَابِ، فِیمَا بَیْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِینَةِ، فَالْتَمَسَا الدُّخُولَ عَلَیْهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ فِیهِمَا فَقَالَتْ:یَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ عَمِّكَ وَابْنُ عَمَّتِكَ وَصِهْرُكَ،قَالَ: لَا حَاجَةَ لِی بِهِمَا، فَقَالَتْ لَهُ أم سلمة: لَا یَكُنِ ابْنُ عَمِّكَ وَابْنُ عَمَّتِكَ أَشْقَى النَّاسِ بِكَ

ابن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اورعبداللہ بن امیہ بن مغیرہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان مقام بنیق عقاب پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوملے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی خواہش کی ،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں عرض کیاام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے چچازاداورپھوپھی زادبھائی اورسالے حاضرہوناچاہتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ان سے ملنے کی ضرورت نہیں ،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ایک آپ کا چچازاداوردوسراآپ کاپھوپھی زادبھائی اورسالاہےکیایہ دونوں آپ کے ہاں بدبخت ہوں گے ؟آپ ان کی لغزشیں اورخطائیں معاف فرمائیں ،آپ نے فرمایامجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ، ابوسفیان بن حارث نے میری ہجوکی اور عبداللہ بن امیہ نے مکہ مکرمہ میں مجھ سے کہاتھا

فَوَاللهِ لَا أُؤْمِنُ بِكَ أَبَدًا حَتَّى تَتَّخِذَ إِلَى السَّمَاءِ سُلَّمًا، ثُمَّ تَرْقَى فِیهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ حَتَّى تَأْتِیَهَا، وَتَأْتِیَ مَعَكَ بِنُسْخَةٍ مَنْشُورَةٍ، مَعَكَ أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، یَشْهَدُونَ أَنَّكَ كَمَا تَقُول

اللہ کی قسم! میں آپ پراس وقت تک ایمان نہ لاؤں گاجب تک آپ سیڑھی لگاکرآسمان پرنہ چڑھ جائیں جسے میں دیکھتاہوں ،پھرآپ ایک مہرزدہ تحریرآسمان سے لے کرآئیں اور چار فرشتے آپ کے ساتھ آکرگواہی دیں کہ واقعی اللہ نے آپ کوپیغمبربناکربھیجاہے،

وَمَعَ أَبِی سُفْیَانَ بُنَیٌّ لَهُ. فَقَالَ: وَاَللَّهِ لَیَأْذَنَنَّ لِی أَوْ لَآخُذَنَّ بِیَدَیْ بُنَیَّ هَذَا، ثُمَّ لَنَذْهَبَنَّ فِی الْأَرْضِ حَتَّى نَمُوتَ عَطَشًا وَجُوعًافَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ رَ سُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهُمَا، ثُمَّ أَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلَا عَلَیْهِ، فَأَسْلَمَا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب سن کر ابو سفیان بن حارث نے جس کے ساتھ اس کاایک بیٹابھی تھاکہااللہ کی قسم ! اگر آپ مجھے معاف نہیں فرمائیں گے تومیں اپنے اس بیٹے کے ساتھ جنگل میں چلاجاؤں گا اور بھوکا پیاسامرجاؤں گا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خبر ملی توآپ پررقت طاری ہوگئی اورآپ نے دونوں کو ملنے کی اجازت فرمادی چنانچہ وہ دونوں ابوسفیان اورعبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ اندرداخل ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔

وَقَالَ علی لأبی سفیان فِیمَا حَكَاهُ أبو عمر: ائْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، فَقُلْ لَهُ مَا قَالَ إِخْوَةُ یُوسُفَ لِیُوسُفَ: تَاللهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللهُ عَلَیْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕیْنَ ،فَفَعَلَ ذَلِكَ أبو سفیان،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ،۰ۭ یَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ۰ۡوَهُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ

ابوعمربیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حارث اورعبداللہ بن امیہ کومعاف کرنے سے انکارکردیاتھاتوسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ابوسفیان بن حارث سے کہاتم براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجاؤاوروہی بات دہراؤجویوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے سر جھکا کر یوسف علیہ السلام کودربارمیں کہی تھی’’ انہوں نے کہاواللہ! اللہ نے آپ کوہم پرفضیلت دی ہے اور ہم واقعی ہی خطاکارتھے ۔‘‘

چنانچہ ابوسفیان نے ایسا ہی کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً جواب دیا ’’آج تم پرکوئی ملامت نہیں ،اللہ تمہاری خطائیں معاف فرمائے اوروہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے۔‘‘[86]

پھرابوسفیان نے آپ کی مدح میں ایک لمبا قصیدہ پڑھاجس کے چندابتدائی اشعاریوں ہیں ۔

لَعَمْرُكَ إِنِّی حِینَ أَحْمِلُ رَایَةً،لِتَغْلِبَ خَیْلُ اللاتِ خَیْلَ مُحَمَّدِ

آپ کی عمرکی قسم!جس دن میں کفرکا جھنڈااٹھائے ہوئے تھا،تاکہ محمد علیہ السلام کے لشکرپرلات کالشکرغالب آجائے

لَكَالْمُدْلِجِ الْحَیْرَانِ أَظْلَمَ لَیْلُهُ،فَهَذَا أَوَانِی حِینَ أُهْدَى فَأَهْتَدِی

اس وقت میں رات کے اس مسافرکی طرح تھاجواندھیروں میں ٹھوکریں کھاتاپھرتاہے،اب مجھے سیدھاراستہ مل گیاہے اورمیں اس پرگامزن ہوں

هَدَانِی هَادٍ غَیْرُ نَفْسِی وَدَلَّنِی،عَلَى اللهِ مَنْ طَرَّدْتُ كُلَّ مُطَرَّدِ

میں نے ازخودہدایت نہیں پائی بلکہ ایک ہدایت عطافرمانے والی ہستی نے مجھے راہ مستقیم دکھائی اوراس ہستی نے مجھے اللہ سے روشناس کرایاجسے پہلے ہم نے اپنے وطن سے جلا وطن کردیاتھا۔[87]

فَضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ،أَنْتَ طَرَّدْتَنِی كُلَّ مُطَرَّدٍ

ابن اسحاق نے لکھاہےقصیدہ سن کرآپ نے اس کے سینہ پرہاتھ مارااورفرمایاہاں تونے بھی تومجھے وطن سے بے وطن کردیاتھا ۔

وَحَسُنَ إِسْلَامُهُ بَعْدَ ذَلِكَ ، وَیُقَالُ: إِنَّهُ مَا رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمَ حَیَاءً مِنْهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – یُحِبُّهُ، وَشَهِدَ لَهُ بِالْجَنَّةِ أَرْجُو أَنْ یَكُونَ خَلَفًا مِنْ حمزة،وَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ: لَا تَبْكُوا عَلَیَّ، فَوَاللهِ مَا نَطَقْتُ بِخَطِیئَةٍ مُنْذُ أَسْلَمْتُ

ابوعمرکہتے ہیں اس کے بعدان کااسلام پرخلوص تھا،کہا جاتا ہے کہ حیاکی وجہ سے یہ کبھی آپ کی طرف نگاہ اٹھاکرنہیں دیکھتے تھے بلکہ آپ کی مجلس میں ہمیشہ اپنی نگائیں نیچی رکھتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے محبت کرتے تھے ، آپ نے ان کے لئے جنت کی شہادت فرمائی تھی اورفرمایامجھے امیدہے کہ یہ سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کانعم البدل بنے گا جب یہ فوت ہونے لگے تواپنے اہل خانہ کووصیت کی کہ مجھ پرمت رونااسلام لانے کے بعدمیں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیاہے۔[88]

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن بدیل خزاعی کاقبول اسلام

عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والدبدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء بنی خزاعہ کے سرداروں میں سے تھے ،وہ قبول اسلام سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہ وربط رکھتے تھے اوروقتاًفوقتاًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ،

وَهُوَ الَّذِی كَتَبَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُوهُ إِلَى الْإِسلَامِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خط بھی لکھا تھا جس میں انہیں دعوت اسلام پیش کی گئی تھی۔[89]

ان کاقبیلہ صلح حدیبیہ(ذیقعدہ چھ ہجری)کے زمانے میں مسلمانوں کاحلیف ہوگیاتھااورصلح نامہ کی ایک شرط کے مطابق مشرکین مکہ اس بات کے پابندتھے کہ وہ بنوخزاعہ کوکسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچائیں گے اورنہ ان کے دشمنوں کی مددان کے مقابلے میں کریں گے لیکن چندماہ بعدقریش کے حلیف قبیلہ بنوبکرنے بنوخزاعہ پرحملہ کیاتومشرکین قریش نے کھلم کھلابنوبکرکی مددکی یوں انہوں نے معاہدہ صلح کوعملاًتوڑدیا،بنوبکرنے قریش کے ساتھ مل کربنوخزاعہ پرظلم ڈھایاتوبنوخزاعہ کے ایک وفدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع دی،چالیس آدمیوں پرمشتمل اس وفدمیں بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء اوران کے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،اہل سیرکابیان ہے کہ جن اسباب کی بناپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ ہجری میں مکہ پرلشکرکشی کی ان میں سے ایک سبب بنوخزاعہ کی حمایت بھی تھا،فتح مکہ سے پہلے عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والدبدیل رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے محض حلیف تھے لیکن فتح مکہ کے فوراًبعدوہ شرف اسلام سے بہرہ ورہوگئے،

وكان إسلامه قبل الفتح، وقیل یوم الفتح

کہاجاتاہے انہوں فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیااوریہ بھی کہاجاتاہے کہ فتح مکہ کے روزمشرف بہ اسلام ہوئے۔[90]

وقد قیل: إنه أسلم قبل الفتح

اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ انہوں نے فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا۔[91]

قبول اسلام کے وقت بدیل رضی اللہ عنہ کی عمرستانوےسال کی تھی لیکن ان کی صحت مندی کی یہ کیفیت تھی کہ ڈاڑھی کے تمام بال سیاہ تھے،

لما كان یوم الفتح قال لی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ورأى بعارضی سوادا:كم سنوك؟ قلت:سبع وتسعون، فقال:زادك الله جمالا وسوادا

وہ خود فرماتے ہیں فتح مکہ کے روزبیعت اسلام لیتے وقت میری صحت اوربالوں کی سیاہی کودیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھاتمہاری عمر کیاہے؟ میں نے عرض کیا ستانوے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تمہارے جمال اوربالوں کی سیاہی میں برکت دے۔[92]

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ:مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ حَكِیمِ بْنِ حِزَامٍ فَهُوَ آمِنٌ ،وَمَنْ دَخَلَ دَارَ بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَاءَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ

ہشام بن عروہ سے روایت ہےفتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھرمیں داخل ہوجائے گااسے امان ہے،جوشخص حکیم بن حزام کے گھرمیں داخل ہوجائے گااسے امان ہے ، جو آدمی بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاکے گھرمیں داخل ہوجائے گااسے بھی امان ہوگی،اورجوشخص اپنے گھرکے دروازے بندکرلے گااسے بھی امان ہوگی۔ [93]

وَشَهِدَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَاءَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتْحَ مَكَّةَ وَحُنَیْنٍ،وَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبْیَ هَوَازِنَ مِنْ حُنَیْنٍ إِلَى الْجِعْرَانَةِ , وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْهِمْ بُدَیْلَ بْنَ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِیَّ

بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب ہوکرفتح مکہ اورغزوہ حنین میں حصہ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں گرفتار قبیلہ ہوزان کے قیدیوں کو جعرانہ میں جمع کیااوران پربدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء کومامورفرمایا۔[94]

حتى یقدم علیه، ففعل

یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ طائف سے واپس تشریف لے آئے اورمال غنیمت تقسیم فرمادیا۔[95]

وشهد بدیل وابنه عَبْد اللهِ حنینًا والطائف وتبوك

بدیل رضی اللہ عنہ اوران کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ حنین،غزوہ کائد اورغزوہ تبوک میں شامل ہونے کاشرف حاصل کیا۔[96]

وَشَهِدُوا جَمِیعًا مَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ، وَشَهِدَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَاءَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب ہونے کاشرف حاصل کیا،اورحجة الوداع کے موقع پربھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔[97]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُدَیْلَ بْنَ وَرْقَاءَ، فَنَادَى فِی أَیَّامِ التَّشْرِیقِ: لَا تَصُومُوا هَذِهِ الْأَیَّامَ؛ فَإِنَّهَا أَیَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء کوحکم فرمایاکہ وہ ایام تشریق میں یہ منادی کردیں کہ ان ایام میں روزہ نہ رکھاجائے کیونکہ یہ ایام کھانے پینے کے ہیں ۔[98]

قَالَ سَلَمَةُ: دَفَعَ إِلَیَّ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَاءَ هَذَا الْكِتَابَ، وَقَالَ: یَا بُنَیَّ، هَذَا كِتَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَوْصُوا بِهِ، فَلَنْ تَزَالُوا بِخَیْرٍ مَا دَامَ فِیكُمْ

بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء کے بیٹےسلمہ کہتے ہیں وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکتوب مبارک میرے حوالے کرتے ہوئے کہایہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامکتوب مبارک ہے اس حفاظت سے اپنے پاس رکھنا،جب تک یہ گرامی نامہ تمہارے پاس رہے گاتم لوگ خیروبرکت میں رہوگے۔[99]

فقال: وَمَاتَ قَبْلَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔[100]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سریرآرائے خلافت ہوئے تویکایک عرب کی فضاوگرگوں ہوگئی اورہرطرف فتنہ ارتدادکے شعلے بھڑک اٹھے تاہم سیدناابوبکرصدق رضی اللہ عنہ کی بے مثال قوت ایمانی اورعزم وہمت کی بدولت چندماہ کے اندراندرفتنہ کااستیصال ہوگیا،اس پرآشوب دورمیں عبداللہ بن بدیل رضی اللہ عنہ نے نہایت استقامت سے پرچم حق تھامے رکھااوراپنے قبیلے کوبھی اس فتنہ کی آگ سے بچانے کی پوری کوشش کی۔عبداللہ رضی اللہ عنہ نے چاروں خلفائے کے عہدخلافت میں اپنی شجاعت کالوہامنوایا۔

بنی سلیم کے ایک وفدکی آمد:

فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ خَرَجَتْ بَنُو سُلَیْمٍ فَلَقُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقُدَیْدٍ وَهُمْ سَبْعُمِائَةٍ.وَیُقَالُ: كَانُوا أَلْفًا، وَفِیهِمُ الْعَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَعْیَانِهِمْ، فَأَسْلَمُوا،وَقَالُوا: اجْعَلْنَا فِی مُقَدِّمَتِكَ، وَاجْعَلْ لِوَاءَنَا أَحْمَرَ وَشِعَارَنَا مُقَدَّمًا فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ، فَشَهِدُوا مَعَهُ الْفَتْحَ وَالطَّائِفَ وَحُنَیْنًا

ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام الكَدِیدَ پرہی تھے کہ بنوسلیم کاسات سویاایک ہزار آدمیوں پرمشتمل ایک وفدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا،وفدکے قابل ذکر افرادمیں نامور شاعرعباس رضی اللہ عنہ بن مرداس،انس رضی اللہ عنہ بن عیاض اورراشد رضی اللہ عنہ بن عبدرب شامل تھے ، وفدمیں شامل جن لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیاتھاانہوں نے اس موقع پراسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کرلی اور پھر سب نے فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کاشرف حاصل کیاانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں لشکرکے ہراول(مقدمہ) میں جگہ دی جائے،ہمیں سرخ جھنڈاعنایت فرمایاجائے اورہمارانشان مقدم مقرر کیا جائےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ تمام باتیں منظورفرمالیں ،فتح مکہ کے بعدیہ اصحاب غزوہ حنین اورغزوہ طائف میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔ [101]

چھوٹے بڑے جھنڈوں کی تیاری:

مقام الكَدِیدَپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے علم اورچھوٹی جھنڈیاں تیارکرائیں اورمختلف قبائل میں اس طرح تقسیم فرمائے۔بنوسلیم کو ایک بڑا علم اور ایک چھوٹی جھنڈی عطافرمائے۔بنوغفارکوصرف ایک بڑاعلم عطافرمایا۔بنواسلم کودوچھوٹی جھنڈیاں عطافرمائیں ۔بنوکعب کوصرف ایک بڑاعلم عنایت فرمایا۔مزینہ کوتین چھوٹی جھنڈیاں عطافرمائیں ،

فَدَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِوَاءَ مُزَیْنَةَ یَوْمَ الْفَتْحِ إِلَى خُزَاعِیٍّ، وكان (بِلالُ بْنُ الْحَارِثِ) یحمل لِوَاءَ مُزَیْنَةَ یَوْمَ فتح مكة

فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومزینہ کی ایک شاخ کاجھنڈاخزاعی بن عبدنہم کو اوردوسری شاخ کا جھنڈابلال رضی اللہ عنہ بن حارث کو عطا فرمایا۔[102]

بنو جہینہ کوچارچھوٹی جھنڈیاں عطافرمائیں ،ان میں ایک جھنڈی بردارعبداللہ رضی اللہ عنہ بن بدرتھے ۔ بنوبکرکی مسلمان جماعت کوایک چھوٹی جھنڈی عطافرمائی ۔ اشجع کودوچھوٹی جھنڈیاں عطافرمائیں ۔

لشکرکاآگ روش کرنا:

اوروہاں سے روانہ ہوکرعشاء کے وقت مَرَّ الظَّهْرَانِ پرخیمہ زن ہوئے اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کومحافظ دستوں کاامیر مقررفرمایا،ہرطرف گھپ اندھیرا چھا چکاتھاعرب کے قدیم دستوراورشوکت اسلام کی دھاک بیٹھانے کے لئے حکم فرمایاکہ ہرمجاہداپنے خیمہ کے آگے الگ الگ آگ جلائے ، آپ کے ارشادکے مطابق تمام لشکر نے اپنے اپنے خیموں کے باہر الگ الگ آگ روشن کی جس سے تمام صحراوادی نوربن گیامگرتعجب انگیزبات یہ ہے کہ یہ لشکرمدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ کے درمیانی راستے میں سے گزراتھا جو آج سے تقریباًپونے دو سال قبل یعنی صلح حدیبیہ تک قریش مکہ کامنطقہ اثرتھا،اس وقت میدان حدیبیہ تک چودہ سوحجاج کے پہنچنے کی خبرمکہ کوبہت پہلے مل گئی تھی اوراسے اتناوقت مل گیاتھاکہ وہ قبائل عرب کو جمع کرے اورمسلمانوں کاراستہ روکنے کے لئے انہیں مکہ مکرمہ کے باہرخیمہ زن کردے،معاہدہ حدیبیہ کے بعدکاانقلاب توجہ طلب ہے کہ اسی راستے پرچل کرآنے والاعظیم الشان لشکر مکہ مکرمہ کی سرحدوں تک اس طرح چپ چاپ آپہنچاکہ مکہ مکرمہ میں اس کی کوئی اطلاع نہ ہوسکی،یہ قیاس کرناغلط ہوگاکہ مکہ ابوسفیان کی سفارت کے بعدمطمئن ہوگیاہوگاکہ ابوسفیان نے واپسی پرمکہ کے سامنے پورے حالات رکھ دیئے تھے اورمکہ مکرمہ والے اس بات پرمضطرب ہوگئے تھے کہ یہ نہ توصلح ہے کہ ہم مطمئن ہوجائیں اورنہ اعلان جنگ ہے کہ اس کی تیاری کریں مگراپنی بدعہدی کی وجہ سے ان کے دلوں میں کھٹکاضرورتھاکہ نہ معلوم کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پر چڑھائی کردیں چنانچہ جب انہوں نے وادی میں اچانک حدنگاہ تک آگ کے الاؤ جلتے دیکھے تو ان کے دل ان کے حلق میں آپہنچےاورابوسفیان بن حرب ، بدیل بن ورقاء اور(قریش کے معزز و ذی وجاہت ،خدیجہ رضی اللہ عنہا الکبری ٰکے بھتیجے ، زبیر بن العوم کے چچیرے بھائی) حکیم بن حزام تجسس کے لئے مکہ مکرمہ سے باہرنکلے،جب وہ مَرَّ الظَّهْرَانِ کے قریب پہنچے اورانہیں دورتک لشکرپھیلانظرآیاتوحواس گم ہو گئے

 یَقُولُ: مَا رَأَیْتُ كَاللیْلَةِ نِیرَانًا قَطُّ وَلَا عَسْكَرًا یَقُولُ بُدَیْلِ:هَذِهِ وَاَللَّهِ خُزَاعَةُ حَمَشَتْهَا الْحَرْبُ، یَقُولُ أَبُو سُفْیَانَ: خُزَاعَةُ أَذَلُّ وَأَقَلُّ مِنْ أَنْ تَكُونَ هَذِهِ نِیرَانَهَا وَعَسْكَرَهَاقَالَ: فَعَرَفْتُ صَوْتَهُ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَنْظَلَةَ، فَعَرَفَ صَوْتِی، فَقَالَ: أَبُو الْفَضْلِ؟قَالَ: قُلْتُ: نعم،قَالَ: قُلْتُ: وَیْحَكَ یَا أَبَا سُفْیَانَ، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ،وَاصَبَاحَ قُرَیْشٍ وَاَللَّهِ،قَالَ: فَمَا الْحِیلَةُ؟قَالَ: قُلْتُ:وَاَللَّهِ لَئِنْ ظَفِرَ بِكَ لَیَضْرِبَنَّ عُنُقَكَ،فَارْكَبْ فِی عَجُزِ هَذِهِ الْبَغْلَةِ حَتَّى آتِیَ بِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْتَأْمِنَهُ لَكَ

ابوسفیان نے بدیل بن ورقاء سے پوچھایہ کیسی آگ ہے؟میں نے آج سے قبل اتنی دورتک پھیلی ہوئی آگ نہیں دیکھی اورنہ اتنابڑالشکردیکھاہے، بدیل بن ورقاء نے کہااللہ کی قسم! یہ بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں ، ابوسفیان نے کہامگرخزاعہ توبہت قلیل ہیں اللہ کی قسم ! قیامت تک خزاعہ کی یہ شان نہیں ہوسکتی آگ کایہ جنگل اورآدمیوں کا ٹھاٹھیں مارتاہوایہ سمندر کچھ اورکہانی بیان کررہاہے،ابھی یہ دونوں تبادلہ خیالات کر ہی رہے تھے کہ عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچرپرسوارہوکر گھومتے ہوئے اس طرف آ نکلے اور ابوسفیان کی آوازپہچان کربولے اےابوحنظلہ !ابوسفیان نے بھی ان کی آوازپہچان کر حیرت سے کہاابوالفضل ،مکہ مکرمہ سے تنہایہاں کیسے آناہوا؟ اورآپ یہاں کیسے گھوم رہے ہیں ؟ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا! اے ابوسفیان تجھ کوخرابی ہو تو نہیں جانتاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالشکرہے،اللہ کی قسم !قریش کی ہلاکت کا وقت قریب آگیااب قریش کے لئے بہترراہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کے خواستگارہوجائیں اور اطاعت قبول کرلیں ،ابو سفیان جوپہلے ہی دور تک پھیلے ہوئے لشکرکودیکھ کرحواس باختہ ہوچکے تھے پوچھا اے ابوالفضل ! پھراب نجات کی کیاصورت ہوگی؟ عباس رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم !اگرتم مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئے تووہ فوراً تمہاری گردن ماردیں گے اس لئے آپ اس خچرپر میرے پیچھے سوار ہو جائیں میں آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاتاہوں اورآپ کے لئے امان حاصل کرنے کی کوشش کرتاہوں

قَالَ: فَرَكِبَ خَلْفِی وَرَجَعَ صَاحِبَاهُ، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِ، كُلَّمَا مَرَرْتُ بِنَارِ مِنْ نِیرَانِ الْمُسْلِمِینَ قَالُوا: مَنْ هَذَا؟فَإِذَا رَأَوْا بَغْلَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَیْهَا، قَالُوا عَمُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ،حَتَّى مَرَرْتُ بِنَارِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟وَقَامَ إلَیَّ، فَلَمَّا رَأَى أَبَا سُفْیَانَ عَلَى عَجُزِ الدَّابَّةِ، قَالَ: أَبُو سُفْیَانَ عَدُوُّ اللهِ! الْحَمْدُ للَّه الَّذِی أَمْكَنَ مِنْكَ بِغَیْرِ عَقْدٍ وَلَا عَهْدٍ

چنانچہ ابو سفیان فوراًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچرپرسوارہوگئے اوران کے دونوں ساتھی حکیم بن حزام اوربدیل بن ورقاء واپس لوٹ گئے،عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب ابوسفیان بن حرب کو اسلامی لشکرکے درمیان سے لے کر روانہ ہوئےجب وہ کسی خیمہ کے پاس سے گزرتے تولوگ پوچھتے کون ہے ؟لیکن جب آگ کی روشنی سےعباس رضی اللہ عنہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچرپرسواردیکھتے توکہتے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچرپر سوار ہیں ،مگرجب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے قریب سے گزرے توانہوں نے بھی پوچھا کون ہے ؟ اورآگے بڑھ کردیکھاجب انہوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو کہایہ تو اللہ اوراس کے رسول کادشمن ابوسفیان ہے اللہ کاشکرہے آج بغیرکسی عہدوپیمان کے یہ ہمارے قابومیں آگیاہے پھرانہیں پکڑنے کے لئے اس پر جھپٹے،

ثُمَّ خَرَجَ یَشْتَدُّ نَحْوَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكَضْتُ الْبَغْلَةَ، فَسَبَقَتْهُ بِمَا تَسْبِقُ الدَّابَّةُ الْبَطِیئَةُ الرَّجُلَ الْبَطِیءَ،قَالَ: فَاقْتَحَمْتُ عَنْ الْبَغْلَةِ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَدَخَلَ عَلَیْهِ عُمَرُ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا أَبُو سُفْیَانَ قَدْ أَمْكَنَ اللهُ مِنْهُ بِغَیْرِ عَقْدٍ وَلَا عَهْدٍ، فَدَعْنِی فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ،قَالَ: قُلْتُ: مَهْلًا یَا عمر، فو الله أَن لَو كَانَ مِنْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبٍ مَا قُلْتُ هَذَا، وَلَكِنَّكَ قَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ مِنْ رِجَالِ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ،فَقَالَ: مَهْلًا یَا عبّاس، فو الله لَإِسْلَامُكَ یَوْمَ أَسْلَمْتُ كَانَ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ إسْلَامِ الْخَطَّابِ لَوْ أَسْلَمَ، وَمَا بِی إلَّا أَنِّی قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ إسْلَامَكَ كَانَ أَحَبَّ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إسْلَامِ الْخَطَّابِ لَوْ أَسْلَمَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ بِهِ یَا عَبَّاسُ إلَى رَحْلِكَ، فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَأْتِنِی بِهِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ پیدل تھے جبکہ عباس رضی اللہ عنہ اورابوسفیان خچرپرسوارتھے،جب عباس رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے یہ کلمات سنے توفوراًہی خچرکوایڑلگائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے ، ان کے پیچھے پیچھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تلوار سونت کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اللہ اوراس کے رسول کادشمن ابو سفیان ہے آج یہ کسی عہدوپیمان کے قابوآ گیا ہے مجھے اجازت فرمائیں کہ میں اس کی گردن ماردوں ،عباس رضی اللہ عنہ جلدی سے بولے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ابوسفیان کواپنی پناہ میں لیا ہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ برہنہ تلوارلئے باربارعرض کرتے رہےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کے منتظر رہے ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے باربار اصرارپرعباس رضی اللہ عنہ نے چلاّکرکہااے عمر رضی اللہ عنہ ! بس اب جانے دوتم ابو سفیان کواس لئے قتل کرناچاہتے ہوکہ یہ بنی عبدمناف میں سے ہیں اگر یہ بنو عدی بن کعب سے ہوتے توتم ان کے قتل کرنے پراس قدراصرارنہ کرتے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہااے عباس رضی اللہ عنہ !اللہ کی قسم تمہارااسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب ہے اگر میرا باپ اسلام قبول کرلیتاتومجھے اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی تمہارے اسلام سے ہوئی ہےکیونکہ میں اچھی طرح جانتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمہارااسلام خطاب کے اسلام سے زیادہ پسندیدہ ہے،تمہاری نسبت میرایہی خیال ہے اب تم جوسمجھو ،ابھی یہ نوک جھونکی جاری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ کوفرمایامیں نے انہیں امن دے دیاآپ ابوسفیان کو اپنے خیمے میں لے جائیں اورصبح میرے پاس لائیں چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ ابوسفیان کولے کر اپنے خیمے میں چلے گئے ۔

[1] زادالمعاد۳۴۷؍۳

[2]۔المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۵۲ ، شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۰؍۳

[3] المعجم الكبیر للطبرانی ۱۰۵۲،عیون الآثر۲۱۲؍۲،زاد المعاد ۳۴۸؍۳، دلائل النبوة للبیہقی ۵؍۵، البدایة والنهایة ۳۱۸؍۴  

[4] زادالمعاد ۳۴۹؍۳،ابن ہشام۳۹۵؍۲،الروض الانف۱۹۹؍۷،عیون الآثر۲۱۳؍۲،شرف المصطفی ۳۷۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۵؍۵

[5] مغازی واقدی۷۸۹؍۲  ،امتاع الاسماع۳۴۹؍۱، المواھب اللدینة ۳۶۹؍۱، سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد ۲۰۳؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۰؍۳

[6] شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۰؍۳ 

[7] شرح الزرقانی علی المواھب ۳۸۴؍۳،إنارة الدجى فی مغازی خیر الورى صلى الله علیه وآله وسلم۶۰۰؍۱،السیرة النبویة لأبی الحسن الندوی۴۴۵؍۱

[8] إنارة الدجى فی مغازی خیر الورى صلى الله علیه وآله وسلم۶۰۰؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۴؍۳

[9] فتح الباری ۶؍۸

[10] شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۵؍۳،السیرة الحلبیة۱۰۵؍۳،المغازی الواقدی۷۹۳؍۲

[11] تاریخ اسلام تدمری ۵۲۸؍۲

[12] مغازی واقدی۷۹۳؍۲

[13] ابن ہشام ۳۹۶؍۲،الروض الانف۲۰۰؍۷،عیون الآثر۲۱۴؍۲،تاریخ طبری ۴۶؍۳،البدایة والنہایة۳۲۰؍۴،زادالمعاد۳۵۰؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۵؍۵

[14] ابن ہشام ۳۹۷؍۲،الروض الانف۲۰۲؍۷،عیون الآثر۲۱۵؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۸۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۳۵؍۳

[15] شرح الزرقانی علی المواھب ۳۸۷؍۳،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد ۲۰۸؍۵، السیرة الحلیبة۱۰۷؍۳

[16] ابن ہشام ۳۹۷؍۲،الروض الانف ۲۰۲؍۷،عیون الآثر۲۱۵؍۲،السیرة الحلبیة۱۰۸؍۳،نورالیقین فی سیرة سید المرسلین ۱۹۴؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب۳۸۶؍۳

[17] سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۲۰۹؍۵،مغازی واقدی۷۹۶؍۲،امتاع الاسماع ۳۵۱؍۱

[18]ابن سعد ۱۰۱؍۲، مغازی واقدی۷۹۶؍۲

[19] النسائ۹۴

[20] مسند احمد ۲۳۸۸۱،مغازی واقدی۷۹۷؍۲،ابن ہشام۶۲۶؍۲،الروض الانف ۵۴۰؍۷،عیون الآثر۲۰۷؍۲،تاریخ طبری ۳۶؍۳،ابن سعد۱۰۱؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۳۰۵؍۴

[21] مغازی واقدی۹۲۱؍۳

[22] ابن ہشام۶۲۸؍۲،الروض الانف ۵۴۱؍۷،السیرة النبویة لابن کثیر۴۲۶؍۳

[23] زادالمعاد۳۲۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۳۰۷؍۴،البدایة والنہایة۲۵۶؍۴

[24] مغازی واقدی۷۹۸؍۲

[25] فتح الباری ۵۲۰؍۷،البدایة والنہایة۳۲۴؍۴

[26] مغازی واقدی ۷۹۸؍۲،فتح الباری ۵۲۰؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۹۴؍۳

[27] السیرة النبویة لابن کثیر۵۳۷؍۳

[28] صحیح بخاری کتاب الجہاد بَابُ الجَاسُوسِ ۳۰۰۷،وکتاب  المغازی بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ ۴۲۷۴، بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا۳۹۸۳، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَهْلِ بَدْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَقِصَّةِ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَةَ ۶۴۰۱،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی حُكْمِ الْجَاسُوسِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا ۲۶۵۰،مسنداحمد۶۰۰

[29] صحیح بخاری کتاب  المغازی بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ ۴۲۷۴

[30] المائدة۵۱

[31] المائدة۵۷

[32] النسائ ۱۴۴

[33] آل عمران۲۸

[34] البروج ۸

[35] الحج ۴۰

[36] ق۱۶

[37] عبس ۳۴ تا۳۶

[38] مسنداحمد۱۲۱۹۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ أَنَّ مِنْ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ فَهُوَ فِی النَّارِ، وَلَا تَنَالُهُ شَفَاعَةٌ، وَلَا تَنْفَعُهُ قَرَابَةُ الْمُقَرَّبِینَ۵۰۰،سنن ابوداودبَابُ شَرْحِ السُّنَّةِ بَابٌ فِی ذَرَارِیِّ الْمُشْرِكِینَ۴۷۱۸

[39] فتح القدیر ۲۵۳؍۵

[40] تفسیرابن کثیر۸۷؍۸

[41] التوبة ۱۱۴

[42] جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ   باب۶۰ ح۲۵۱۷

[43] تفسیرطبری۳۱۹؍۲۳

[44] تفسیر طبری ۳۲۰؍۲۳

[45] تفسیرطبری۳۲۰؍۲۳

[46] ابراہیم۸

[47] تفسیرابن کثیر۸۸؍۸

[48] آل عمران۱۰۳

[49] الانفال۶۲،۶۳

[50] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ ۴۳۳۰،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ  بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ ۲۴۴۶

[51] لقمان۱۵

[52] مسنداحمد۲۶۹۱۵،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الْأَقْرَبِینَ وَالزَّوْجِ وَالْأَوْلَادِ، وَالْوَالِدَیْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِینَ۲۳۲۵، صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ صِلَةِ الوَالِدِ المُشْرِكِ۵۹۷۸، مسنداحمد ۲۶۹۱۵

[53] الممتحنة: 8

[54] مسنداحمد۱۶۱۱۱

[55] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ فَضِیلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ، وَعُقُوبَةِ الْجَائِرِ، وَالْحَثِّ عَلَى الرِّفْقِ بِالرَّعِیَّةِ، وَالنَّهْیِ عَنْ إِدْخَالِ الْمَشَقَّةِ عَلَیْهِمْ۴۷۲۱

[56] المائدة۵۱

[57] تفسیرابن کثیر۹۲؍۸

[58] فتح القدیر ۲۵۶؍۵

[59] تفسیرالسمرقندی۔بحرالعلوم۴۳۹؍۳

[60] فتح القدیر۲۵۷؍۵

[61] تفسیرابن کثیر۹۴؍۸،فتح الباری ۴۱۹؍۹

[62] تفسیرطبری۳۴۰؍۲۳

[63] لطائف الإشارات = تفسیر القشیری۵۷۳؍۳

[64]۔سنن نسائی كِتَابُ الْبَیْعَةِ باب بَیْعَةُ النِّسَاءِ۴۱۸۵

[65] الممتحنة: 12

[66] مسند احمد ۲۵۱۷۵

[67] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ سورة الممتحنة بَابُ إِذَا جَاءَكُمُ المُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ۴۸۹۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ كَیْفِیَّةِ بَیْعَةِ النِّسَاءِ ۴۸۳۴

[68] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ  بَابُ الْبَیْعَةِ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِیمَا اسْتَطَاعَ۴۸۳۶،جامع ترمذی أَبْوَابُ السِّیَرِ بَابُ مَا جَاءَ فِی بَیْعَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۵۹۳،سنن نسائی كِتَابُ الْبَیْعَةِ بَابُ بَیْعَةُ النِّسَاءِ۴۱۸۶

[69] تفسیرابن کثیر۱۰۳؍۸

[70] ابن ہشام۴۲۷؍۲،الروض الانف۲۶۰؍۷، عیون الآثر۹۳؍۱

[71] البدایة والنہایة۳۵۳؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۶۹۴؍۴

[72] اسدالغابة۱۶۲؍۳

[73]ابن سعد۱۰۲؍۲،مغازی واقدی۸۰۱؍۲

[74] ابن ہشام۴۲۱؍۲

[75] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ فِی رَمَضَانَ۴۲۷۵

[76] زادالمعاد۳۵۲؍۳

[77] صحیح بخاری کتاب المغازی  بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ فِی رَمَضَانَ۴۲۷۶ ،مسنداحمد۳۰۸۹

[78] مسنداحمد۱۶۶۰۲

[79] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ جَوَازِ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ إِذَا كَانَ سَفَرُهُ مَرْحَلَتَیْنِ فَأَكْثَرَ۲۶۱۱

[80] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ فِی رَمَضَانَ ۴۲۷۵

[81] زادالمعاد۳۵۲؍۳،ابن ہشام ۴۰۰؍۲، الروض الانف۲۰۷؍۷،عیون الآثر۲۱۶؍۲

[82] زادالمعاد۳۵۲؍۳

[83]مصنف ابن ابی شیبة۳۲۲۰۱،صحیح بخاری فضائل  بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ الهَاشِمِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَخِی عَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۷۶۵

[84] مسندالبزار۵۳،صحیح ابن حبان۶۹۷۳،المعجم الکبیرللطبرانی۲۵۲۹،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَالْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا ۳۷۷۷

[85] زادالمعاد۲۹۹؍۳،مغازی واقدی۷۰۴؍۲،دلائل النبوة للبیہقی ۲۶۶؍۴، مسند البزار ۶۹۱۶، صحیح ابن حبان۴۵۳۰

[86] زادالمعاد۳۵۲؍۳،عیون الآثر ۲۱۶؍۲،ابن ہشام۴۰۰؍۲،تفسیرابن کثیر۱۱۹؍۵

[87] زادالمعاد۳۵۳؍۳

[88] زادالمعاد ۳۵۳؍۳

[89] ابن سعد۴۵۹؍۵

[90] الإصابة فی تمییز الصحابة۴۰۹؍۱

[91] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۰؍۱

[92] الإصابة فی تمییز الصحابة۴۰۸؍۱

[93]ابن سعد۸۳؍۱

[94] ابن سعد۲۲۰؍۴

[95]الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۰؍۱

[96] اسدالغابة۲۰۳؍۱

[97] ابن سعد۲۲۱؍۴

[98] معرفة الصحابة لابی نعیم۱۲۴۱، ۴۲۲؍۱

[99] معرفة الصحابة لابی نعیم ۱۲۴۲،۴۲۲؍۱

[100] الإصابة فی تمییز الصحابة۴۰۸؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم ۴۲۱؍۱

[101] ابن سعد۲۳۴؍۱،البدایة والنہایة۱۰۷؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۷؍۴

[102] ابن سعد ۲۲۳؍۱، اسد الغابة۴۱۳؍۱

Related Articles