ہجرت نبوی کا آٹھواں سال

ام ہانی رضی اللہ عنہا کی پناہ قبول کرنا

أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِی طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ یَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ،فَقَالَ:مَنْ هَذِهِ؟فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِی طَالِبٍ،فَقَالَ:مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ،فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِیَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّی أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ، فُلاَنَ ابْنَ هُبَیْرَةَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ هَانِئٍ

ام ہانی رضی اللہ عنہا (سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ)کہتی ہیں میں چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اس وقت آپ غسل فرمارہے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ کیے ہوئے تھیں ،میں نے انہیں سلام کیا،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سلام کاجواب دینے کے بعد)پوچھاکون ہے؟میں نے کہامیں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاام ہانی کوخوش آمدید،جب آپ غسل سے فارغ ہوئے توآپ نے کھڑے ہوکراورایک کپڑااوڑھ کرآٹھ رکعت نمازپڑھی،جب نمازسے فارغ ہوئے تومیں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں کے لڑکے (سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب)کہتے ہیں کہ وہ فلاں بن ہبیرہ کوقتل کریں گے حالانکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ام ہانی رضی اللہ عنہا ! جس کوتم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔[1]

 وَكَانَتْ ضُحًى فَظَنَّهَا مَنْ ظَنَّهَا صَلَاةَ الضُّحَى، وَإِنَّمَا هَذِهِ صَلَاةُ الْفَتْحِ، وَكَانَ أُمَرَاءُ الْإِسْلَامِ إِذَا فَتَحُوا حِصْنًا أَوْ بَلَدًا صَلَّوْا عَقِیبَ الْفَتْحِ، هَذِهِ الصَّلَاةَ اقْتِدَاءً بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ زادامعادمیں لکھتے ہیں پس جس نے گمان کیااس نے کہایہ ضحی کی نمازتھی حالانکہ یہ فتح کے شکرانہ کی نمازتھی ،بعدمیں امرائے اسلام کایہی قاعدہ رہاکہ سنے نبوی پرعمل کرتے ہوئے جب بھی کسی شہریاقلعہ فتح کرتے اس نمازکواداکرتے تھے۔[2]

ایک مقدمہ :

اسی دن سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اورعبد رضی اللہ عنہ بن زمعہ میں زمعہ کی ایک لونڈی کے بچے کے معاملہ میں اختلاف ہوا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، عَهِدَ إِلَى أَخِیهِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِیدَةِ زَمْعَةَ مِنِّی فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ وَقَالَ: ابْنُ أَخِی قَدْ عَهِدَ إِلَیَّ فِیهِ،فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِی، وَابْنُ وَلِیدَةِ أَبِی، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے عتبہ بن ابی وقاص (کافر)نے اپنے بھائی سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو(مرتے وقت ) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کالڑکامیراہے اس لیے تم اپنے قبضہ میں لے لینا،انہوں نے کہاکہ فتح مکہ کے سال سعدبن ابی وقاص نے اسے لے لیااورکہاکہ یہ میرے بھائی کالڑکاہے اوروہ اس کے متعلق مجھے وصیت کرگئے ہیں ، لیکن عبدبن زمعہ نے اٹھ کرکہاکہ میرے باپ کی لونڈی کابچہ ہے میرے باپ کے بسترپر پیداہوا ہے،آخردونوں یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے ،

فَقَالَ سَعْدٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ أَخِی كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَیَّ فِیهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِی، وَابْنُ وَلِیدَةِ أَبِی، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُوَ لَكَ یَا عَبْدَ بْنَ زَمْعَةَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :احْتَجِبِی مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِیَ اللهَ

سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرے بھائی کالڑکاہے اورمجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی،عبدبن زمعہ نے کہایہ میرابھائی ہے،میرے باپ کی لونڈی کابچہ ہے اور میرے باپ کے بسترپرپیداہواہے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عبدبن زمعہ!لڑکاتوتمہارے ہی ساتھ رہے گا اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایابچہ اسی کاہوتاہے جوجائزشوہریامالک ہوجس کے بسترپروہ پیدا ہوا ہو اورزانی کے حصہ میں پتھروں کی سزا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ اس بچے میں عتبہ کی مشابہت پائی جاتی ہے تواپنی زوجہ مطہرہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایااے سودہ!اس لڑکے سے پردہ کیاکرو (کیونکہ یہ تمہارے والدکا لڑکا معلوم نہیں ہوتا)ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے حکم کی تعمیل کی اوراس لڑکے کے سامنے نہیں آئیں یہاں تک کہ اسکی وفات ہوئی۔[3]

عثمان بن عامرتمیمی (ابی قحافہ رضی اللہ عنہ ) کاقبول اسلام

فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، وَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، أَتَى أَبُو بَكْرٍ بِأَبِیهِ یَقُودُهُ،فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:هَلَّا تَرَكْتُ الشَّیْخَ فِی بَیْتِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا آتِیَهُ فِیهِ؟قَالَ أَبُو بَكْرٍ، یَا رَسُولَ اللهِ، هُوَ أَحَقُّ أَنْ یَمْشِیَ إلَیْكَ مِنْ أَنْ تَمْشِیَ إلَیْهِ أَنْتَ،قَالَ: (قَالَتْ) : فَأَجْلَسَهُ بَیْنَ یَدَیْهِ، ثُمَّ مَسَحَ صَدْرَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:أَسْلِمْ تَسْلَمْ، فَأَسْلَمَ

قیام مکہ کے دوران ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدالحرام میں تشریف فرماتھے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے نابینا بوڑھے باپ کولے کر آپ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھاتوفرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! تونے اس بوڑھے کوگھرہی پرکیوں نہ رہنے دیامیں خوداس کے پاس چلاآتا؟ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کی طرف چل کرجائیں زیادہ بہتریہی ہے کہ میراباپ خودچل کرآپ کی خدمت اقدس میں حاضرہو جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےابوقحافہ کو اپنےسامنے بٹھایاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوقحافہ کے سینہ پر اپنا دست مبارک پھیر ا اور فرمایا اسلام قبول کرلونجات پاجاؤگےچنانچہ وہ مشرف باسلام ہو گئے۔[4]

وهنأ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ بإسلام أبیه رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، أی وعند ذلك قال أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ للنبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : والذی بعثك بالحق لإسلام أبی طالب كان أقر لعینی من إسلامه، یعنی أباه أبا قحافة

جب ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کومبارک باددی،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کوحق دے کربھیجاہے ابوطالب اگراسلام قبول کرلیتے تومیری آنکھیں زیادہ ٹھنڈی ہوتیں ۔ [5]

فَدَخَلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ وَكَأَنَّ رَأْسُهُ ثَغَامَةً ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: غَیِّرُوا هَذَا مِنْ شَعَرِهِ

شدیدبڑھاپے کی وجہ سے ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے چہرہ اورسرکے تمام بال سفیدتھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب کے لئے ارشادفرمایااور تاکید فرمائی کہ سیاہی سے بالکل دوررکھنایعنی سیاہ خضاب ہرگزاستعمال نہ کرنا۔[6]

ثُمَّ تُوُفِّیَ أَبُو قُحَافَةَ بِمَكَّةَ فِی الْمُحَرَّمِ سَنَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعٍ وَتِسْعِینَ سَنَةً

ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں ستانوے سال کی عمرمیں بزمانہ خلافت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب وفات پائی۔

شراب وغیرہ کی بیع کی حرمت کااعلان:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ: سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ عَامَ الفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ: إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَیْعَ الخَمْرِ، وَالمَیْتَةِ وَالخِنْزِیرِ وَالأَصْنَامِ،فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ شُحُومَ المَیْتَةِ، فَإِنَّهَا یُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، وَیُدْهَنُ بِهَا الجُلُودُ، وَیَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟فَقَالَ:لاَ، هُوَ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:قَاتَلَ اللهُ الیَهُودَ إِنَّ اللهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ، فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ

جابربن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہےمکہ مکرمہ کے قیام کے دوران میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ اعلان سناکہ بے شک اللہ اوراس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید وفروخت کوحرام کردیاہے،ایک شخص نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مردارکی چربی کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں اس لئے کہ وہ کشتیوں پراورکھالوں پر لگائی جاتی ہے اورلوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں وہ بھی حرام ہے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ یہودکوغارت کرے جب اللہ نے ان پرچربی حرام کی توانہوں نے اسے پگھلاکربیچااوراس کی قیمت وصول کی۔[7]

یعنی وہ اشیاء جن کااستعمال جائزنہ ہوان کی تجارت کس طرح جائزقراردی جاسکتی ہے؟اس طرح بت اورذی روح اشیاء کی تماثیل (مجسمے)لکڑی،لوہے،مٹی،پتھریاپلاسٹک وغیرہ کی ہوں خواہ بچوں کے کھلونے ہی کیوں نہ ہوں ان کابنانااورتجارت کرناحرام ہے۔

فضالہ رضی اللہ عنہ بن عمیربن ملوح کااسلام قبول کرنا

أَنَّ فَضَالَةَ بْنَ عُمَیْرِ بْنِ الْمُلَوَّحِ اللیْثِیَّ أَرَادَ قَتْلَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عَامَ الْفَتْحِ،فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفَضَالَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ فَضَالَةُ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: مَاذَا كُنْتُ تُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَكَ؟قَالَ: لَا شَیْءَ، كُنْتُ أَذْكُرُ اللهَ،قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْتَغْفِرْ اللهَ،ثُمَّ وَضَعَ یَدَهُ عَلَى صَدْرِهِ، فَسَكَنَ قَلْبُهُ،فَكَانَ فَضَالَةُ یَقُولُ: وَاَللَّهِ مَا رَفَعَ یَدَهُ عَنْ صَدْرِی حَتَّى مَا مِنْ خَلْقِ اللهِ شَیْءٌ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْهُ

انہی قیام کے دنوں میں ایک دفعہ آپ بیت اللہ کاطواف فرما رہے تھے کہ فضالہ بن عمیربن ملوح جوایک دلیرآدمی تھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کرنا چاہا،جب وہ اس ارادہ بدسے آپ کے نزدیک پہنچاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافضالہ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں فضالہ ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ارادہ کر کے آئے ہو؟وہ بولا کچھ نہیں ، دل میں اللہ کاذکرکر رہاتھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اورفرمایااے فضالہ !اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کر، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے سینہ پر رکھا ،جس سے اس کے دل میں سکون پیداہوگیااوردشمنی جاتی رہی اوراس نے اسلام قبول کرلیا،بعدمیں فضالہ کہاکرتا تھا اللہ کی قسم!جب آپ نے اپناہاتھ میرے سینہ سے اٹھایاتوآپ میرے نزدیک سب مخلوق سے زیادہ محبوب تھے۔[8]

حدودکانفاذ:

چوری اہل عرب کی فطرت بن چکی تھی مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی کچھ پیچھے نہیں تھیں ان قبائل میں اسلم ،غفار،مزینہ اورجہینہ جوحاجیوں کامال واسباب چوری کیا کرتے تھے خاص طورپربدنام تھے

أَنَّ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا بَایَعَكَ سُرَّاقُ الحَجِیجِ، مِنْ أَسْلَمَ وَغِفَارَ وَمُزَیْنَةَ،وَأَحْسِبُهُ وَجُهَیْنَةَ

اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ آپ سے ان لوگوں نے بیعت کی ہے جوحاجیوں کاسامان چرایاکرتے تھے یعنی قبیلہ اسلم ، اورغفاراورمزینہ اورجہینہ کے لوگ۔[9]

عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ،أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةِ الفَتْحِ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ یَسْتَشْفِعُونَهُ، فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِیهَا، تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ:أَتُكَلِّمُنِی فِی حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ،قَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِی یَا رَسُولَ اللهِ،فَلَمَّا كَانَ العَشِیُّ قَامَ رَسُولُ اللهِ خَطِیبًا، فَأَثْنَى عَلَى اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ النَّاسَ قَبْلَكُمْ: أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِیهِمُ الشَّرِیفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِیهِمُ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْهِ الحَدَّ

عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےغزوہ فتح (مکہ)کے موقع پرایک(مخزومی) عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں چوری کرلی تھی، قریش کی کوشش ہوئی کہ اس معزز خاتون کواس کے کئے کی سزانہ ملے چنانچہ اس مقصدکے لئے اسامہ بن زیدکو جنہیں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت پیارکرتے تھے سفارش کے لئے بھیجا گیا،جب اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کارنگ بدل گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیا تم  اللہ  کی حدودمیں سے ایک حدکے بارے میں سفارش کرتے ہو،اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے لئے دعائے مغفرت کریں (مجھ سے غلطی ہوگئی) پھر اسی دن شام کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکرایک پرزورخطبہ میں فرمایا،اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمدوثناکے بعد فرمایا اے لوگو!تم سے پہلی قومیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی شریف اور معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑدیتے مگراگرکوئی ضعیف چوری کرتاتواسے سزا دیتے،

وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَهَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ المَرْأَةِ فَقُطِعَتْ یَدُهَافَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ وَتَزَوَّجَتْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تَأْتِی بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے!اگرفاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمدبھی چوری کرتیں تومیں اس کاہاتھ بھی کاٹ دیتا،خطبہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کاہاتھ کاٹنے کاحکم دیااوراس کاہاتھ کاٹ دیاگیا، پھراس عورت نے بڑی اچھی توبہ کی اورنکاح کر لیا،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں بعدمیں وہ میرے پاس آیا کرتی تھیں اوران کواگرکوئی ضرورت ہوتی تومیں اس کی بات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیاکرتی تھیں ۔[10]

چوری میں دیدہ دلیری کاایک واقعہ سنن الدارقطنی میں کچھ یوں ہے۔

كَانَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّةَ بْنِ خَلَفٍ نَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ , ثِیَابُهُ تَحْتَ رَأْسِهِ , فَجَاءَ سَارِقٌ فَأَخَذَهَا فَأُتِیَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَرَّ السَّارِقُ , فَأَمَرَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقْطَع،فَقَالَ صَفْوَانُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَیُقْطَعُ رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ فِی ثَوْبِی؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَفَلَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَجِیءَ بِهِ

ایک دن صفوان بن امیہ مسجدمیں ایک قیمتی چادر اوڑھے سورہے تھے کہ ایک عرب نے وہ چادراتارلی مگرپکڑا گیا اوراس چورکو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود کے مطابق اسکا ہاتھ کاٹنے کاحکم صادرفرمایا،یہ حکم سن کرصفوان بن امیہ کواس عرب پرترس آ گیا اوراس نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ایک چادرکے لئے ایک عرب کاہاتھ کاٹا جائیگا؟صفوان بن امیہ کی گزارش سن کررسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس اس کو لانے سے پہلے ہی اس کا خیال رکھنا تھاجب معاملہ حاکم کی عدالت میں پہنچ جائے توپھرکسی کوسفارش کاحق حاصل نہیں ہے۔[11]

حدودحرم کی نشان دہی :

ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَمِیمُ بْنُ أُسَیْدِ الخزاعی فَجَدَّدَ أَنْصَابَ الْحَرَمِ

اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسیدخزاعی کوحکم فرمایاکہ وہ حدود حرم کے نشانات کونئے سرے سے بنادےحسب حکم اس نے حدودحرم کے نئے کھمبے نصب کردیئے۔[12]

گھروں میں رکھے بتوں کاصفایا:

کیونکہ مشرکین اپنے گھروں میں بھی اپنے خاص بت رکھتے تھےجن کی وہ رات کوسوتے اوردن کوجاگتے وقت اورکہیں جانے اورآنے کے بعداس کے آگے سرجھکاتے تھے وَنَادَى مُنَادِیهِ بِمَكَّةَ:مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یَدَعْ فِی بَیْتِهِ صَنَمًا إِلَّا كَسَرَهُ

اس لئے ان کے انہدام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں منادی کرادی کہ جوشخص اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے گھرکے ہربت کوتوڑ ڈالے، یہ سن کرسب نے بغیر کسی ترددکے اپنے اپنے گھروں سے بتوں کوتوڑڈالا۔[13]

فتح مکہ کے نتائج:

۱۔عرب کامذہبی مرکزمسلمانوں کی تحویل میں آگیا،مشرکوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہ رہی اورتھوڑی ہی مدت میں شرک کوعرب کوخیربادکہناپڑا۔

۲۔فتح مکہ کااہم ترین نتیجہ اللہ کے گھرکابتوں سے پاک ہوناتھااگرچہ یہ بت اکثرقدیم انبیاء اوربزرگوں کے تھےلیکن اسلام کسی بت یاتصویرکی تعظیم کی اجازت نہیں دیتااس لئے اللہ کے گھرسے علامات شر ک کاختم کرناضروری تھا۔

۳۔مشرکوں کے دینی سربراہ اسلام لے آئے اب اسلام کے لئے کوئی رکاوٹ نہ رہی۔

۴۔مکہ مکرمہ ایک مدت سے اہل عرب کاتجارتی،سیاسی اورمذہبی مرکزچلاآرہاتھااس پرمسلمانوں کاقبضہ اسلام کی بہت بڑی کامیابی تھا۔

۵۔اصحاب فیل کے حملہ کی عبرت انگیزناکامی کاواقعہ ابھی اہل عرب کے ذہنوں میں تازہ تھاانہوں نے خیال کیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کایہی رازہے کہ آپ حق پرہیں ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کومکہ مکرمہ پرقابض نہ ہونے دیتا،ان پراسلام کی صداقت روشن ہوگئی اوروہ خودبخوددین اسلام میں داخل ہونے لگے۔

مہاجرین کے متروکہ مکانات کامسئلہ:

جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے توقریش ہجرت کرنے والوں کے عزیزواقارب نے ان کی جائیدادوں پرقبضہ کرلیاتھا ، بعض نے اپنے حلیفوں کے مکانات پربھی قبضہ کرلیاتھا،مگرآج وہی لوگ جنہوں نے اللہ اوراس کے رسول کے لئے اپنا وطن ،عزیزواقارب ،مال اورگھرکوچھوڑاتھا فاتحانہ حیثیت سے آئے ہوئے تھے ، بعض مہاجرین کے دلوں میں اپنے آبائی مکانات کے بارے میں شکایات تھیں جنہیں ان کے عزیزواقارب نے قبضہ کرکے فروخت کر ڈالا تھا،

فَرَغَ مِنْ خُطْبَتِهِ قَامَ أَبُو أَحْمَدَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَرْضَى یَا عَبْدَ اللهِ أَنْ یُعْطِیَكَ اللهُ بِهَا دَارًا خَیْرًا مِنْهَا فِی الْجَنَّةِ؟قَالَ: بَلَى

چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوگئے اورابھی بیت اللہ کے دروازے پرہی کھڑے تھے کہ ابواحمدبن جحش کھڑے ہوئے اوراپنے مکان کے بارے میں کچھ عرض کرناچاہاجسے ابوسفیان بن حرب نے علقمہ عامری کوچارسودرہم میں فروخت کردیاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوبلاکرآہستہ سے کچھ فرمایاجسے سنتے ہی ابواحمدبن جحش رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اس کے بعدجب ابواحمد رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیاکہاتھاتوعبداللہ رضی اللہ عنہ بن جحش نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتوصبرکرے تواللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں اس سے بہترگھرعنایت فرمائے گا؟میں نے عرض کیامیں صبرکروں گا۔[14]

اس طرح بعض مہاجرین نے بھی اپنے مکانات کی واپسی کاچاہا

إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَكْرَهُ أَنْ تَرْجِعُوا فِی شَیْءٍ مِنْ أَمْوَالِكُمْ أُصِیبَ مِنْكُمْ فِی اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَمْسَكَ عَنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاراجومال اللہ عزوجل کی راہ میں جاچکاہے میں اس کی واپسی پسندنہیں کرتا،آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنتے ہی صحابہ کرام خاموش ہو گئے اورجوگھرواملاک اللہ اوراس کے رسول کے لئے چھوڑچکے تھے اس کی واپسی کاکوئی حرف زبان پرنہ لائے۔[15]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آبائی مکان جس میں آپ کی ولادت ہوئی تھی اور وہ مکان جوام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے آپ کوملاتھا اس کاذکرتک نہ فرمایا۔

فتح مکہ کے بعدسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کاابوجہل کی بیٹی کونکاح کاپیغام دینا:

فتح مکہ کے بعدسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کاارادہ کیا،اس بات کی اطلاع کسی طورپرفاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی ہوگئی ،آپ رضی اللہ عنہ سخت کبیدہ خاطراور ناراض ہوکراپنے والدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چلی آئیں اورتمام ماجراآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزارکردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی اس بات سے رنج ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں خطبہ ارشادفرمایا،

المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ،قَالَ: إِنَّ عَلِیًّا خَطَبَ بِنْتَ أَبِی جَهْلٍ فَسَمِعَتْ بِذَلِكَ، فَاطِمَةُ فَأَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: یَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّكَ لاَ تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِیٌّ نَاكِحٌ بِنْتَ أَبِی جَهْلٍ،فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ النَّاسَ فِی ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا یَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ ، فَقَالَ:إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّی، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِی دِینِهَا ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَیْهِ فِی مُصَاهَرَتِهِ إِیَّاهُ، قَالَ:حَدَّثَنِی، فَصَدَقَنِی وَوَعَدَنِی فَوَفَى لِی، وَإِنِّی لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلاَلًا، وَلاَ أُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللهِ أَبَدًا

چنانچہ مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو(جومسلمان تھیں )کوپیغام نکاح دیا،اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کوہوئی تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، اورعرض کیاکہ آپ کی قوم کاخیال ہے کہ آپ کواپنی بیٹیوں کی خاطر(جب انہیں کوئی تکلیف دے)کسی پرغصہ نہیں آتا،اب دیکھیں یہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی (جمیلہ یاجویرہ)سے نکاح کرناچاہتے ہیں ، میں نے خود سنا کہ اس مسئلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبرپرکھڑے ہوکرصحابہ رضی اللہ عنہم کوخطاب فرمایااور میں اس وقت بالغ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا فاطمہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ہےاورمجھے ڈرہے کہ کہیں وہ (اس رشتہ کی وجہ سے)کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں کسی فتنہ میں مبتلاہو، اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبدشمس کے ایک اپنے داماد(عاص بن ربیع) کا ذکرکیااوردامادی سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ، جو وعدہ کیااسے پوراکیا،میں کسی حلال(یعنی نکاح ثانی)کوحرام نہیں کرسکتااورنہ کسی حرام کوحلال بناتاہوں ،لیکن اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اوراللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں ۔[16]

چناچہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرابوجہل کی بیٹی سے نکاح کاارادہ ترک کردیا۔

سریہ خالدبن ولید رضی اللہ عنہ (نخلہ کی طرف)، رمضان آٹھ ہجری

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں اندراورباہرنصب بتوں کاصفایاکرچکے،اس کی دیواروں پرمنقش تصویروں کومٹا چکے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لوگوں کے گھروں میں رکھے بت بھی توڑدیئے گئے توآپ نے مکہ مکرمہ کے مضافاتی بستیوں کے بتوں کومنہدم کرنے کی طرف توجہ فرمائی تاکہ پوراملک بت پرستی کی لعنت سے پاک ہوجائے اوراس کی جگہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جانے لگے۔

فَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلَى الْعُزَّى لِخَمْسِ لَیَالٍ بَقِینَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِیَهْدِمَهَا،فَخَرَجَ إِلَیْهَا فِی ثَلَاثِینَ فَارِسًا مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى انْتَهَوْا إِلَیْهَا فَهَدَمَهَاثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:هَلْ رَأَیْتَ شَیْئًا؟قَالَ: لَا،قَالَ: فَإِنَّكَ لَمْ تَهْدِمْهَا فَارْجِعْ إِلَیْهَا فَاهْدِمْهَا،

پچیس رمضان آٹھ ہجری کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکوعزیٰ کومنہدم کرنے کے لئے نخلہ(مکہ مکرمہ سے دورات کے فاصلہ پرہذیل کی ایک وادی کانام ہے،یہاں حراض نامی جگہ پرعزیٰ کاستھان تھا) کی طرف بھیجا،خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدتیس سواروں کاایک دستہ لے کرروانہ ہوئے اوروہاں پہنچ کراسے توڑدیا، پھروہ لوٹ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعزیٰ کو توڑنے کی خبردی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاکیاتم نے کوئی چیزدیکھی ہے؟انہوں نے عرض کیاکچھ نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے اسے منہدم نہیں کیادوبارہ جاؤاوراسے منہدم کردو،

فَرَجَعَ خالد وَهُوَ مُتَغَیِّظٌ فَجَرَّدَ سَیْفَهُ فَخَرَجَتْ إِلَیْهِ امْرَأَةٌ عَجُوزٌ عُرْیَانَةٌ سَوْدَاءُ نَاشِرَةُ الرَّأْسِ، فَجَعَلَ السَّادِنُ یَصِیحُ بِهَافَضَرَبَهَا خالد فَجَزَلَهَا بِاثْنَتَیْنِ،وَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: نَعَمْ، تِلْكَ الْعُزَّى وَقَدْ أَیِسَتْ أَنْ تُعْبَدَ فِی بِلَادِكُمْ أَبَدًا، وَكَانَتْ بِنَخْلَةَ وَكَانَتْ لِقُرَیْشٍ وَجَمِیعِ بَنِی كِنَانَةَ، وَكَانَتْ أَعْظَمَ أَصْنَامِهِمْ، وَكَانَ سَدَنَتُهَا بَنِی شَیْبَانَ

خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سخت غصہ میں وہاں دوبارہ گئے انہوں نے تلوارمیان سے نکال رکھی تھی کہ اچانک ایک برہنہ سیاہ رنگ کی عورت بال بکھرے سامنے آگئی جس کے بال کھلے تھے اوردربان اس کے ساتھ چیخنے لگا،خالد رضی اللہ عنہ نے اس پرتلوارماری اوراس کے دوٹکڑے کردیئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آکرواقعہ کی اطلاع دی،آپ نے فرمایاہاں یہی حبشی عورت کی شکل میں عزیٰ دیوی تھی اوریہ اس سے قطعا ًناامید ہو چکی تھی کہ اب اس ملک میں اس کی پرستش کی جائے گی اور عزیٰ کا بت ایک کھجورکے درخت کے پاس تھااوریہ قریش اوربنی کنانہ کے تمام قبائل کامشترک بت تھاجوان کے تمام دوسرے بتوں سے بڑا تھا اوربنی شیبان اس کے دربان تھے۔[17]

ایک روایت میں یہ واقعہ یوں بیان کیاگیاہے پچیس رمضان ا ٓٹھ ہجری کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکوتیس سواروں کاایک دستہ کاامیربناکرعزیٰ کومنہدم کرنے کے لئے نخلہ (مکہ مکرمہ سے دورات کے فاصلہ پرہذیل کی ایک وادی کانام ہے،یہاں حراض نامی جگہ پرعزیٰ کاستھان تھا) کی طرف روانہ فرمایا

وَكَانَتْ لِقُرَیْشٍ وَجَمِیعِ بَنِی كِنَانَةَ، وَكَانَتْ أَعْظَمَ أَصْنَامِهِمْ، بعث خَالِد بن الْوَلِید إِلَى نَخْلَة فَكَانَت بهَا الْعُزَّى فَأَتَاهَا خَالِد وَكَانَت على ثَلَاث سمُرَات فَقطع السَّمُرَات وَهدم الْبَیْت الَّذِی كَانَ عَلَیْهَا ثمَّ أَتَى النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم فَأخْبرهُ، فقال:هل رأیت شیئا؟ قال: لا،قَالَ:فَإِنَّكَ لَمْ تَهْدِمْهَا، فَقَالَ:هَلْ رَأَیْتَ شَیْئًا؟ قال: لا ،قَالَ:فَإِنَّكَ لَمْ تَهْدِمْهَا، فَارْجِعْ إِلَیْهَا فَاهْدِمْهَا،

یہ بت جوقریش اوربنی کنانہ کے تمام قبائل کامشترک بت تھاجوان کے تمام دوسرے بتوں سے بڑاتھاعزیٰ پرایک شیطان جنیہ کاتسلط تھاجس کی وجہ سے اس میں سے ایک آوازآتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو فرمایاکہ بطن نخلہ میں جاؤ وہاں تمہیں ایک قطار میں کیکرکے تین درخت ملیں گے ان میں پہلے درخت کوکاٹ دواوراس کا استھانہ گرادو، خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے حکم کی تعمیل کی اور واپس آکر خبردی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایادرخت کاٹنے کے بعدکچھ نظرآیا ؟جواب دیانہیں ، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے اسے نہیں گرایااب جاکر دوسرا درخت کاٹ دو،انہوں نے حکم کی تعمیل کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرپوچھا درخت کاٹنے کے بعد کچھ نظرآیا،انہوں نے عرض کیاکچھ نہیں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریایاتم نے اسے نہیں گرایاجاؤاورتیسرے درخت کوبھی کاٹ دو،

فَرَجَعَ فَجَرَّدَ سَیْفَهُ فَخَرَجَتْ إِلَیْهِ امْرَأَةٌعجوز عُرْیَانَةٌسَوْدَاءُ ثائرة الرأس، فجعل السادن یصیح بها، یقول:یا عز كفرانك لا سبحانك إنی رأیت الله قد أهانك، فضربها خالد فجزلها اثنتین، ورجع إلى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأخبره فَقَالَ:نَعَمْ، تِلْكَ الْعُزَّى، وَقَدْ أَیِسَتْ أَنْ تُعْبَدَ بِبِلادِكُمْ أَبَدًا

خالد رضی اللہ عنہ بن ولید غصہ سے بھرے ہوئے ننگی تلوارلے کر وہاں پہنچے تو وہاں ایک ننگی سیاہ فام عورت کودیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ اپنے دونوں ہاتھ کندھوں پر رکھے غصے سے دانت پیس رہی تھی اور اس بت خانے کامجاوراس کے پیچھے کھڑا اسے چیخ چیخ کر بلا رہا تھا،خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے اس سے مخاطب ہوکرکہااب تیری پوجا پاٹ کازمانہ بیت گیااوربے عزتی کازمانہ آگیا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ  اللہ تعالیٰ نے تجھے ذلیل کر دیا ہے پھر تلوارکی ایک ہی ضرب سے اس کے دوٹکڑے کرڈالے اور وہ کوئلہ کی طرح بھسم ہوگئی پھردرخت کاٹ کرمجاور کو بھی قتل کردیااوربت خانہ بھی منہدم کردیا اورواپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی یہ سن کرآپ نے فرمایایہی حبشی عورت کی شکل میں عزیٰ دیوی تھی اوریہ اس سے قطعا ًناامید ہو چکی تھی کہ اب اس ملک میں اس کی پرستش کی جائے گی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کوعام لوگوں میں تقسیم کردیا۔[18]

سریہ سعدبن زیداشہلی رضی اللہ عنہ (مشلل کی طرف)رمضان آٹھ ہجری

ثُمَّ بَعَثَ سعد بن زید الأشهلی إِلَى مَنَاةَ، وَكَانَتْ بِالْمُشَلَّلِ عِنْدَ قُدَیْدٍ لِلْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ وَغَسَّانَ وَغَیْرِهِمْ، فَخَرَجَ فِی عِشْرِینَ فَارِسًا، حَتَّى انْتَهَى إِلَیْهَا وَعِنْدَهَا سَادِنٌ فَقَالَ السَّادِنُ: مَا تُرِیدُ؟ قَالَ:هَدْمَ مَنَاةَ! قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ! فَأَقْبَلَ سعد یَمْشِی إِلَیْهَا وَتَخْرُجُ إِلَیْهِ امْرَأَةٌ عُرْیَانَةٌ سَوْدَاءُ ثَائِرَةُ الرَّأْسِ تَدْعُو بِالْوَیْلِ وَتَضْرِبُ صَدْرَهَا،

چھبیس رمضان المبارک کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن زیداشہلی رضی اللہ عنہ کوبیس سواروں کاایک دستہ دے کرمناة کی شکست وریخت کے لئے مقام مشلل نامی پہاڑی کی طرف روانہ فرمایاجواوس،خزرج اورغسان وغیرہ کامعبودتھا،جب سعدبن زیدوہاں پہنچے تواس کا خدمت گار موجود تھااس نے ان سے دریافت کیاآپ یہاں کس مقصد سے آئے ہیں ؟سعدبن زید رضی اللہ عنہ نے کہامیں اس بت مناة کومنہدم کردیناچاہتاہوں ، مجاور ایک طرف ہوگیااورکہاتم جانواورتمہاراکام جانے!سعدبن زید رضی اللہ عنہ اس بت کومنہدم کرنے کے لئے اس کی طرف بڑھےتو ایک سیاہ فام ننگی پراگندہ بالوں والی ایک عورت بین کرتی اپناسینہ پیٹتی سامنے آئی،

فقال السَّادِنُ: مناة دونك بعض غضباتك!فَضَرَبَهَا سعد بْن زید الأشهلی فَقَتَلَهَا وَأَقْبَلَ إِلَى الصَّنَمِ وَمَعَهُ أَصْحَابُهُ فَهَدَمَهُ وَكَسَرُوهُ، وَلَمْ یَجِدُوا فِی خِزَانَتِهِ شَیْئًاوانصرف راجعا إلى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

مجاورنے اس کوکہااے مناة!اپنے ان نافرمانوں کواپنی گرفت میں لے لےمگراس سے پہلے وہ حرکت کرتی سعد بن زید رضی اللہ عنہ نے تلوارکی ایک بھرپورضرب سے اس کوٹکڑوں میں تقسیم کردیایہاں سے فارغ ہوکراس کے بت کوپاش پاش کردیا،اس کے خزانے والے کمرہ سے بھی کچھ حاصل نہ ہوااورلوٹ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔[19]

سریہ عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص(بنوہذیل کی طرف) رمضان آٹھ ہجری

بَعَثَ النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إلى سُوَاعٍ.صَنَمِ هُذَیْلٍ. لیهدمه،قَالَ عمرو: فَانْتَهَیْتُ إِلَیْهِ وَعِنْدَهُ السَّادِنُ فَقَالَ: مَا تُرِیدُ؟قلت: أَمَرَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَهْدِمَهُ، قَالَ: لا تقدر عَلَى ذَلِكَ، قُلْتُ: لِمَ؟قَالَ: تُمْنَعُ! قُلْتُ: حَتَّى الْآنَ أَنْتَ عَلَى الْبَاطِلِ، وَیْحَكَ فَهَلْ یَسْمَعُ أَوْ یُبْصِرُ؟! قَالَ: فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَكَسَرْتُهُ وَأَمَرْتُ أَصْحَابِی فَهَدَمُوا بَیْتَ خِزَانَتِهِ، فَلَمْ نَجِدْ فِیهِ شَیْئًا،ثُمَّ قُلْتُ لِلسَّادِنِ: كَیْفَ رَأَیْتَ؟قَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کوچندساتھوں پر امیر مقررفرماکرسواع نامی بت کومنہدم کرنے کے لئے روانہ کیا(یہ قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی اس کابت ایک عورت کی شکل پر تھااور مکہ مکرمہ سے مغرب میں تین میل کے فاصلہ پر ینبع کے قریب رہاط کے مقام پرکھجورکے باغ میں نصب تھااوراس کاپجاری قبیلہ بنولحیان سے تھا)جب عمروبن العاص رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تواس دیوی کامجاوروہاں موجودتھا اس نے ان سے پوچھاتم کس ارادہ سے آئے ہو ؟عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پراسے منہدم کرنے کے لئے آیا ہوں ، مجاورکواپنے معبوددیوی کی طاقت وقوت پربڑامان تھاوہ کہنے لگاتم اس پرکبھی قادرنہ ہوسکوگے، عمرو رضی اللہ عنہ نے دریافت کیامیں اسے منہدم کیوں نہیں کرسکتا؟مجاورنے بت کی طرف اشارہ کرکے کہایہ اپنی طاقت وقوت سے تمہیں روک دے گی،عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایاافسوس! تم اب تک باطل معبودوں کی پرستش پرلگے ہوئے ہوجونہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اورنہ بول سکتے ہیں اوروہ مجھے روک دے گی،پھرجاکراس دیوی کے بت کوٹکڑے ٹکڑے کردیاپھرانہوں نے اوران کے ساتھیوں نے اس کے چڑھاوے کو رکھنے والے کمرہ کو گرا دیا مگرمال پہلے ہی گم کیا جا چکا تھا اس لئے کچھ ہاتھ نہ آیا،جب اس کام سے فارغ ہوئے تومجاورسے کہااب کہوکیا تمہاری دیوی خوداپنی مددپرقادرہوسکی؟کیاوہ اپنے معبدکو بچا سکی؟خودسوچوجوخوداپنی مددپر قادرنہ ہووہ دوسروں کی داررسی کیاکرسکتی ہے؟ اپنی دیوی کی یہ بے بسی اوربے کسی دیکھ کرمجاورکی آنکھیں کھل گئیں ، اوراس نے کہامیں اللہ پرایمان لاتاہوں ۔[20]

سریہ خالدبن ولید رضی اللہ عنہ (بنوجذیمہ کی طرف) شوال آٹھ ہجری

وَلَمَّا رَجَعَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مِنْ هَدْمِ الْعُزَّى، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُقِیمٌ بِمَكَّةَ، بَعَثَهُ إِلَى بَنِی جُذَیْمَةَ دَاعِیًا إِلَى الْإِسْلَامِ

عزیٰ کومنہدم کرکے جب خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدواپس تشریف لائے توشوال آٹھ ہجری کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مجاہدین کے دستہ کاامیر بناکر محض تبلیغ اسلام اوردعوت حق کے لئے بنی جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا،

وَكَانُوا بِأَسْفَلِ مَكَّةَ عَلَى لَیْلَةٍ نَاحِیَةَ یَلَمْلَمَ

یہ قبیلہ مکہ مکرمہ کے نشیبی جانب ایک رات کے فاصلے پریلملم کی طرف آبادتھا۔[21]

موضع على لیلتین من مكة وهو میقات أهل الیمن وفیه مسجد معاذ بن جبل، وقال المرزوقی: هو جبل من الطائف على لیلتین أو ثلاث،وقیل: هو واد هناك

یہ مکہ مکرمہ سے دوراتوں کے فاصلے پرایک موضع ہے،یہ اہل یمن یایمن کی طرف گزرکرآنے والے لوگوں کے لیے احرام کی میقات ہے یہاں مسجدمعاذبن جبل ہے،یلملم طائف سے دوتین رات کے فاصلے پرایک پہاڑہے بعض نے اسے وادی بھی بتایاہے۔[22]

فَخَرَجَ فِی ثَلَاثمِائَةٍ وَخَمْسِینَ رَجُلًا، مِنَ الْمُهَاجِرِینَ، وَالْأَنْصَارِ، وَبَنِی سُلَیْمٍ،فَانْتَهَى إِلَیْهِمْ، فَقَالَ: مَا أَنْتُمْ؟قَالُوا: مُسْلِمُونَ قَدْ صَلَّیْنَا وَصَدَّقْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَبَنَیْنَا الْمَسَاجِدَ فِی سَاحَتِنَا، وَأَذَّنَّا فِیهَا قَالَ: فَمَا بَالُ السِّلَاحِ عَلَیْكُمْ؟ قَالُوا: إِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمٍ مِنَ الْعَرَبِ عَدَاوَةً، فَخِفْنَا أَنْ تَكُونُوا هُمْ ،وَقَدْ قِیلَ: إِنَّهُمْ قَالُوا: صَبَأْنَاوَلَمْ یُحْسِنُوا أَنْ یَقُولُوا: أَسْلَمْنَا

خالد رضی اللہ عنہ بن ولید تین سوپچاس مجاہدین کادستہ لے کرروانہ ہوئے ،یہ دستہ مہاجرین ،انصاراوربنی سلیم کےلوگوں پرمشتمل تھا یہ لوگ مکہ مکرمہ کے نشیبی علاقہ یلملم (مکہ مکرمہ سے دو رات کے فاصلہ پرہے)کے قریب ایک تلاب کے کنارے جس کانام غمیصاء تھارہتے تھے،جب خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدوہاں پہنچے توان لوگوں نے کہاتم کون ہو؟خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدنے کہا ہم مسلمان ہیں ،ہم نے نمازپڑھی ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اوراپنے علاقہ میں مساجدبنائیں اوران میں نمازکے لئےاذانیں دیں ،انہوں نے پوچھاتمہارے بدن پرہتھیارکیوں ہیں ؟انہوں نے کہاکہ ہمارے اورعرب قوم کے درمیان عداوت ہے ہمیں خطرہ ہواکہ کہیں وہی( ہمارے دشمن)نہ ہوں ،ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ مجاہدین کودیکھ کرگھبراگئے اوراسی گھبراہٹ میں وہ صَبَأْنَا،صَبَأْنَا ہم بے دین ہو گئے ہیں ،ہم بے دین ہوگئے ہیں کہنے لگے اوراچھے اندازسے یوں نہ کہاکہ ہم مسلمان ہوگئے،

قَالَ: فَضَعُوا السِّلَاحَ، فَوَضَعُوهُ ، فَقَالَ لَهُمْ: اسْتَأْسِرُوا فَاسْتَأْسَرَ الْقَوْمُ،فَأَمَرَ بَعْضَهُمْ فَكَتَّفَ بَعْضًا، وَفَرَّقَهُمْ فِی أَصْحَابِه، فَلَمَّا كَانَ فِی السَّحَرِ، نَادَى خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ: مَنْ كَانَ مَعَهُ أَسِیرٌ فَلْیَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَأَمَّا بَنُو سُلَیْمٍ، فَقَتَلُوا مَنْ كَانَ فِی أَیْدِیهِمْ،قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقُلْتُ: وَاللهِ لَا أَقْتُلُ أَسِیرِی،وَأَمَّا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ فَأَرْسَلُوا أَسْرَاهُمْ ، فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ خالدفَقَالَ:اللهُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ خالدمَرَّتَیْنِ

اس گفتگوکے بعدانہوں نے اپنے ہتھیاررکھ دیئے، خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اورانہوں نے مجاہدین کوحکم دیا کہ انہیں گرفتارکرلو مجاہدین نے انہیں گرفتار کرلیا اوربعض کوگرفتارکر کے اپنے ساتھیوں کی حفاظت میں دے دیا، دوسرے دن سحری کے وقت خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیاکہ ہرساتھی اپنے قیدی کی گردن ماردے،تعمیل حکم میں بنوسلیم نے تواپنے قیدیوں کوقتل کردیا، مگرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں نے یہ حکم ماننے سے انکارکردیااور مہاجرین وانصار نے اپنے اپنے قیدی رہاکردیئے ،جس پر خالد رضی اللہ عنہ بن ولیداورعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ سخت کلامی بھی ہوئی، جب مجاہدین واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اورخالد رضی اللہ عنہ کاواقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک اٹھاکردومرتبہ فرمایااے اللہ!خالدنے جوکچھ کیاہے میں اس سے بری ہوں ۔[23]

وَكَانَ بَیْنَ خالد وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ كَلَامٌ وَشَرٌّ فِی ذَلِكَ، فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:مَهْلًا یَا خالد دَعْ عَنْكَ أَصْحَابِی، فَوَاللهِ لَوْ كَانَ لَكَ أُحُدٌ ذَهَبًا ثُمَّ أَنْفَقْتَهُ فِی سَبِیلِ اللهِ مَا أَدْرَكْتَ غَدْوَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِی وَلَا رَوْحَتَهُ

اسی سلسلہ میں خالد رضی اللہ عنہ بن ولید اورعبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایااے خالد!ٹھیروصبرسے کام لومیرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوکچھ کہنے سے بازرہو،اللہ کی قسم !اگرتم احدپہاڑجتناسونابھی اللہ کی راہ میں خرچ کروتوتم میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے صبح یاشام کی عبادت کے درجے کونہیں پہنچ سکتے ۔

فَخَرَجَ عَلِیٌّ حَتَّى جَاءَهُمْ وَمَعَهُ مَالٌ قَدْ بَعَثَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَوَدَى لَهُمْ الدِّمَاءَ وَمَا أُصِیبَ لَهُمْ مِنْ الْأَمْوَالِ ، حَتَّى إنَّهُ لَیَدِی لَهُمْ مِیلَغَةَ الْكَلْبِ ،حَتَّى إذَا لَمْ یَبْقَ شَیْءٌ مِنْ دَمٍ وَلَا مَالٍ إلَّا وَدَاهُ بَقِیَتْ مَعَهُ بَقِیَّةٌ مِنْ الْمَالِ، فَقَالَ لَهُمْ عَلِیٌّ رِضْوَانُ اللهِ عَلَیْهِ حِینَ فَرَغَ مِنْهُمْ: هَلْ بَقِیَ لَكُمْ بَقِیَّةٌ مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ لَمْ یُودَ لَكُمْ؟ قَالُوا: لَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوخون بہااداکرنے کے لیےبہت سامال دے کربنوجذیمہ کے پاس بھیجاوہ اس قوم کے پاس آئے اورجس قدرلوگ خالد رضی اللہ عنہ نے اس قوم کے قتل کیے تھے ان سب کاخون بہاادا کر دیا اوروہ تمام مال جوخالد رضی اللہ عنہ نے لے لیاتھاسب ان کوواپس کردیاکوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چیزبھی باقی نہیں رکھی،جب سب خون بہااداکرچکے تب بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ مال بچ گیاتوسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اس قوم سے فرمایا اگر تمہارا کوئی اورخون بہایامال باقی ہوتواس کے بدلہ میں یہ مال لے لو، بنوجذیمہ نے کہااب ہماراکچھ باقی نہیں رہا

قَالَ: فَإِنِّی. أُعْطِیكُمْ هَذِهِ الْبَقِیَّةَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، احْتِیَاطًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا یَعْلَمُ وَلَا تَعْلَمُونَ، فَفَعَلَ،ثُمَّ رَجَعَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ :فَقَالَ أَصَبْتُ وَأَحْسَنْتُ!

سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایامگریہ مال میں تم ہی لوگوں کودیئے دیتاہوں شاید تمہاراایساخون بہایامال رہ گیاہوجس کی نہ تم کوخبر ہواورنہ ہمیں ،بس یہ اس کے معاوضہ میں سمجھو ، واپس آکر جب انہوں نے بارگاہ نبوی میں ساراواقعہ بیان کیاتوآپ بیحدمسرورہوتےہوئےفرمایا اور فرمایابہت اچھااوردرست کیا[24]

وَقَدْ عَذَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فِی اجْتِهَادِهِ وَلِذَلِكَ لم یقد مِنْهُ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں خالدبن ولیدکابنوجذیمہ کاقتل کرناغلط فہمی اوراجتہادی غلطی کانتیجہ تھااس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی سزانہیں دی۔[25]

وَذكر بن إِسْحَاق من حَدِیث بن أَبِی حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِیِّ قَالَ كُنْتُ فِی خَیْلِ خَالِدٍ فَقَالَ لِی فَتًى مِنْ بَنِی جَذِیمَةَ قَدْ جُمِعَتْ یَدَاهُ فِی عُنُقِهِ بِرُمَّةٍ یَا فَتَى هَلْ أَنْتَ آخِذٌ بِهَذِهِ الرُّمَّةِ فَقَائِدِی إِلَى هَؤُلَاءِ النِّسْوَةِ ، فَقُلْتُ نَعَمْ فَقُدْتُهُ بِهَافَقَالَ لَهُمْ:إِنِّی لَسْتُ مِنْهُمْ، عَشِقْتُ امْرَأَةً فَلَحِقْتُهَا، فَدَعُونِی أَنْظُرُ إِلَیْهَا نَظْرَةً، ثُمَّ اصْنَعُوا بِی مَا بَدَا لَكُمْ قَالَ:فَإِذَا امْرَأَةٌ طَوِیلَةٌ أَدْمَاءُ فَقَالَ لَهَا: أَسْلِمِی حُبَیْشُ قَبْلَ نِفَادِ الْعَیْشُ أَرَیْتُكِ إِنْ طَالَبْتُكُمْ فَوَجَدْتُكُمْ بِحِلْیَةٍ أَوْ أَدْرَكْتُكُمْ بِالْخَوَانِقِ الْأَبْیَاتَ

ابن اسحاق نے بنوجذیمہ کے ایک نوجوان قیدی کاقصہ بیان کیاہے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے دستہ میں شامل تھاہم نے بنوجذیمہ سے لڑائی کی اوران کی مشکیں کس لیں ،ایک اسیر نے ابن ابی حدردسے استدعاکی کہ مجھے رسی میں بندھاہواہی عورتوں کے پاس لے جائیں ،میں ان سے کچھ باتیں کرناچاہتاہوں پھرواپس لاکرآپ مجھ سے جوسلوک چاہیں کرلیں ،انہوں نے اس کی بات مان لی اور اسے لے کرعورتوں کے پاس جاکھڑے ہوئے،وہ ان میں سے ایک عورت سے مخاطب ہوااس عورت سے اسے عشق تھاکہنے لگاحبیثہ ! توہمیشہ ہمیشہ سلامت رہے،پھراس نے اسے مخاطب کرکے انتہائی جذباتی شعرپڑھا،وہ لڑکی بے قرارہوگئی ،

قَالَ فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ وَأَنْتَ نجیت عشرا وتسعا ووترا وثمانیا تَتْرَى،فَقَدَّمُوهُ فَضَرَبُوا عُنُقَهُ، فَجَاءَتِ الْمَرْأَةُ فَوَقَعَتْ عَلَیْهِ فَشَهِقَتْ شَهْقَةً أَوْ شَهْقَتَیْنِ ثُمَّ مَاتَتْ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَا كَانَ فِیكُمْ رَجُلٌ رَحِیمٌ

اس نے جواب میں کہااللہ کرے توبھی سترہ اورآٹھ سال (پچیس سال)زندہ سلامت رہے، اس کے بعدابن ابی حدرداسے واپس لائے اورقتل کرڈالا،اس کی معشوقہ بے تاب ہوکربھاگتی ہوئی آئی اورنوجوان کی لاش پراوندھی گرپڑی،اسے بے تحاشہ بوسے دینے لگی اوراس کی لاش سے لپٹی لپٹی ہی مرگئی، جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ واقعہ بتایاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے اور ارشاد فرمایاکیاتم میں رحم کرنے والاکوئی آدمی نہ تھا۔[26]

ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے نکاح اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کوکاتب مقررفرمانا:

ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا یَنْظُرُونَ إِلَى أَبِی سُفْیَانَ وَلَا یُقَاعِدُونَهُ،فَقَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا نَبِیَّ اللهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِیهِنَّ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عِنْدِی أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ، أُمُّ حَبِیبَةَ بِنْتُ أَبِی سُفْیَانَ، أُزَوِّجُكَهَا قَالَ:نَعَمْ، قَالَ: وَمُعَاوِیَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَیْنَ یَدَیْكَ،قَالَ:نَعَمْ، قَالَ: وَتُؤَمِّرُنِی حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ، كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: نَعَمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےابوسفیان بن حرب فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے مگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کو(پرانی کارگزاریوں کی بناپر)اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھےاوران سے نشست وبرخاست سے اجتناب برتتے تھے،انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری تین درخواستیں قبول فرمائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھا،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ عرب کی تمام عورتوں سے زیادہ حسین وجمیل ہےمیں اس کانکاح آپ سے کرتا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہامعاویہ رضی اللہ عنہ کواپناکاتب بنالیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھا،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہامجھے حکم دیجئے کہ کافروں سے لڑائی کروں ( جس طرح میں اسلام سے پہلے)مسلمانوں سے لڑتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا۔[27]

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کی دعا:

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ حَبِیبَةَ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ أَمْتِعْنِی بِزَوْجِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَبِأَبِی أَبِی سُفْیَانَ، وَبِأَخِی مُعَاوِیَةَ،قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ سَأَلْتِ اللهَ لِآجَالٍ مَضْرُوبَةٍ، وَأَیَّامٍ مَعْدُودَةٍ، وَأَرْزَاقٍ مَقْسُومَةٍ، لَنْ یُعَجِّلَ شَیْئًا قَبْلَ حِلِّهِ، أَوْ یُؤَخِّرَ شَیْئًا عَنْ حِلِّهِ،وَلَوْ كُنْتِ سَأَلْتِ اللهَ أَنْ یُعِیذَكِ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ، أَوْ عَذَابٍ فِی الْقَبْرِ، كَانَ خَیْرًا وَأَفْضَلَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک دن ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے دعاکی اے اللہ مجھے میرے شوہرنبی صلی اللہ علیہ وسلم ،میرے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ اورمیرے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ سے (دینوی)فائدہ اٹھانے(کاموقع)دینا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ دعاسنی توفرمایاتم نے اللہ سے ایسی باتوں کاسوال کیاجن کے میعادی مقررہوچکی ہیں ،دن معین ہوگئے ہیں اورروزیاں لکھ دی گئی ہیں ،ان میں سے اللہ کسی چیزکومقدم یاموخرنہیں کرے گا،اگرتم اللہ سے یہ مانگتیں کہ اے اللہ جہنم اورقبرکے عذاب سے مجھے عافیت دے توبہتر ہوتا ،

قَالَ: وَذُكِرَتْ عِنْدَهُ الْقِرَدَةُ، قَالَ مِسْعَرٌ: وَأُرَاهُ قَالَ: وَالْخَنَازِیرُ مِنْ مَسْخٍ،فَقَالَ:إِنَّ اللهَ لَمْ یَجْعَلْ لِمَسْخٍ نَسْلًا وَلَا عَقِبًا، وَقَدْ كَانَتِ الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِیرُ قَبْلَ ذَلِكَ

اسی موقع پرکسی نے سوال کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بندراورسوران ہی لوگوں کی اولادہیں جنہیں مسخ کیاگیاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ جس قوم پرعذاب نازل(کرکے مسخ) کرتاہے اس کی نسل کوباقی نہیں رکھتااوربندراورسورتو(ان قوموں کے مسخ ہونے سے)پہلے بھی موجود تھے[28]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکہ میں قیام :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْزِلُنَا إِنْ شَاءَ اللهُ، إِذَا فَتَحَ اللهُ الخَیْفُ حَیْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الكُفْرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراللہ تعالیٰ نے فتح مکہ عنایت فرمائی توان شاء اللہ ہماری قیام گاہ منیٰ میں خیف بنی کنانہ کے مقام پرہوگی جہاں کفارنے مسلمانوں کے خلاف باہم متحد رہنے کاعہدوپیمان کیاتھا۔[29]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:أَقَمْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَشْرًا نَقْصُرُ الصَّلاَةَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم دس دن مکہ معظمہ میں رہے اور نمازوں میں قصرکرتے رہے۔[30]

عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَقَامَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّة بَعْدَ فَتْحِهَا خَمْسَ عَشْرَةَ لَیْلَةً یَقْصُرُ الصَّلَاةَ

عتبہ بن مسعودکہتے ہیں فتح مکہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ راتیں مکہ میں رہے اورنمازقصرادافرماتے رہے۔[31]

ایک روایت میں ہےچھ شوال تک مکہ مکرمہ میں اٹھارہ روزقیام فرمایا۔[32]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:أَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا یُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں انیس دن قیام فرمایاتھا اس عرصہ میں آپ چارکے بجائے دورکعت نماز (قصر)پڑھتے رہے۔[33]

اس دوران آپ کواطلاع ملی کہ قبیلہ ہوزان آپ سے جنگ کی تیاریاں کررہا ہے ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے روانگی کے انتظارمیں تھے۔

فتح مکہ کے سیاسی اثرات

صلح حدیبہ جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین کانام دیاتھاکی وجہ سے قریش کارعب ودبدبہ کم ہوچکاتھا،اس معاہدہ کے مطابق دس سال کے لئے امن کا پروانہ ملاتواس سے فائدہ اٹھاکرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بے خوف وخطر وعظ ونصیحت کے لئے اردگردکے قبائل میں تشریف لے گئےاورمشرکین کواللہ کی وحدانیت اوراسلام کی حقانیت کے دلائل پیش کیے ،باطل معبودوں کی بے بسی اوربے کسی پربحثیں ہوئیں ،قبائل نے مسلمانوں کے اخلاق وکردارکامطالعہ کیاجس سے متاثرہوکر ایک کثیرخلقت نے اسلام قبول کرلیا،اورہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی غزوہ میں مسلمانوں کی تعدادتین ہزارسے متجاوزنہیں تھی مگرجب فتح مکہ کاموقعہ آیاتوآپ کے زیرکمان دس ہزارمجاہدین کاایک بڑالشکرعظیم تھا،فتح مکہ سے قریش کا فخروغرور،جاہ وجلال اورشان وشوکت خاک میں مل گئی بہت سے عرب قبائل اس انتظارمیں تھے کہ قریش اورمسلمانوں میں کونسافریق غالب اورفاتح بنتاہے تاکہ وہ بھی اسی کی رفاقت اختیارکرلیں چنانچہ اس فتح کے بعداہل مکہ کے زعما اور اردگردکے قبائل نے اسلام قبول کرلیا،مکہ مکرمہ میں جولوگ درپردہ اسلام قبول کرچکے تھے وہ بھی کھل کرسامنے آگئے مگرقبائل ہوزان اورثقیف نے جنگی تیاریاں شروع کردیں ۔

[1] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ الصَّلاَةِ فِی الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ۳۵۷،وکتاب الجزیة والموادعة بَابُ أَمَانِ النِّسَاءِ وَجِوَارِهِنَّ ۳۱۷۱ ،وکتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی زَعَمُوا۶۱۵۸،صحیح مسلم  كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا  بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْسَطُهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَیْہا۱۶۶۹

[2] زاد المعاد فی هدی خیر العباد ۳۶۱؍۳

[3] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ تَفْسِیرِ المُشَبَّهَاتِ ۲۰۵۳،وکتاب العتق بَابُ أُمِّ الوَلَدِ۲۵۳۳

[4]ابن ہشام ۴۰۶؍۲،الروض الانف۲۱۵؍۷،دلائل النبوة للبیہقی۹۵؍۵

[5] السیرة الحلیبة۱۲۶؍۳

[6] ابن ہشام ۴۰۶؍۲،الروض الانف۲۱۵؍۷

[7] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ بَیْعِ المَیْتَةِ وَالأَصْنَامِ۲۲۳۶،صحیح مسلم کتاب البیوع  بَابُ تَحْرِیمِ بَیْعِ الْخَمْرِ، وَالْمَیْتَةِ، وَالْخِنْزِیرِ، وَالْأَصْنَامِ۴۰۴۸،سنن ابوداودکتاب  الاجارة بَابٌ فِی ثَمَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْتَةِ ۳۴۸۶،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَا لَا یَحِلُّ بَیْعُهُ۲۱۶۸،جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی بَیْعِ جُلُودِ الْمَیْتَةِ وَالأَصْنَامِ ۱۲۹۷، مسنداحمد۶۹۹۷، زادالمعاد۶۶۰؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۸۵؍۵

[8] ابن ہشام ۴۱۷؍۲، الروض الانف ۲۴۰؍۷،عیون الآثر۲۲۸؍۲،البدایة والنہایة ۳۵۲؍۴،زادالمعاد۳۶۳؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۶۰؍۳،السیرة الحلیبة۱۴۶؍۳

[9] بخاری کتاب المناقب بَابُ ذِكْرِ أَسْلَمَ وَغِفَارَ وَمُزَیْنَةَ وَجُهَیْنَةَ وَأَشْجَعَ۳۵۱۶، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ غِفَارَ، وَأَسْلَمَ، وَجُهَیْنَةَ، وَأَشْجَعَ، وَمُزَیْنَةَ، وَتَمِیمٍ، وَدَوْسٍ، وَطَیِّئٍ۶۴۴۴،مسنداحمد۲۰۴۲۳

[10] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺبَابُ ذِكْرِ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ ۳۷۳۳، وکتاب المغازی ابواب غزوہ فتح مکہ باب بَابٌ۴۳۰۴، وکتاب الحدود باب کراہتہ الشفاعتہ فی الحد۶۷۸۷،وکتاب احادیث الانبیائ باب باب ۳۴۷۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْحُدُودِبَابُ قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِیفِ وَغَیْرِهِ، وَالنَّهْیِ عَنِ الشَّفَاعَةِ فِی الْحُدُودِ عن عائشہ صدیقہ  وجابر ۴۴۱۰،دلائل النبوة للبیہقی۸۷؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۶۰۱؍۳

[11] سنن الدارقطنی۳۴۶۶

[12] زادالمعاد۳۶۴؍۳  ،عیون الآثر ۲۲۸؍۲، ابن سعد ۱۰۴؍۲،مغازی واقدی۸۴۲؍۲

[13] زادالمعاد۳۶۴؍۳ ،عیون الآثر۲۲۹؍۲،ابن سعد۱۰۴؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۴۸۷؍۳،مغازی واقدی ۸۷۰؍۲

[14] ابن ہشام۵۰۰؍۱

[15] ابن ہشام۵۰۰؍۱

[16] صحیح بخاری كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَصَاهُ، وَسَیْفِهِ وَقَدَحِهِ، وَخَاتَمِهِ۳۱۱۰،وکتاب أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ ذِكْرِ أَصْهَارِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو العَاصِ بْنُ الرَّبِیعِ۳۷۲۹

[17] زادالمعاد ۳۶۴؍۳، عیون الآثر۲۳۳؍۲،ابن سعد۱۱۱؍۲،مغازی واقدی۸۷۳؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۴۸۸؍۳

[18] شرح الزرقانی علی المواھب۴۸۸؍۳،الخصائص الکبری۴۳۹؍۱

[19] ابن سعد۱۱۱؍۲،زادالمعاد۳۶۵؍۳،عیون الآثر۲۳۴؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۴۹۰؍۳

[20] ابن سعد۱۱۱؍۲،زادالمعاد۳۶۵؍۳،عیون الآثر۲۳۳؍۲،مغازی واقدی ۸۷۰؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۴۹۰؍۳

[21] ابن سعد۱۱۲؍۲

[22] معجم البلدان۴۴۱؍۵

[23] صحیح بخاری کتاب  المغازی بَابُ بَعْثِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ إِلَى بَنِی جَذِیمَةَ۴۳۳۹،مسنداحمد۶۳۸۲،فتح الباری۵۷؍۸،زادالمعاد۳۶۶؍۳

[24] ابن ہشام ۴۳۰؍۲، الروض الانف ۲۶۶؍۷،تاریخ طبری ۶۷؍۳،البدایة والنہایة۳۵۸؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۴۹۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۹۲؍۳

[25] فتح الباری ۲۷۴؍۶

[26] السنن الکبری للنسائی ۸۶۱۰،المعجم الکبیر للطبرانی۱۲۰۳۷،فتح الباری۵۷؍۸،مجمع الزوائد۲۱۰؍۶

[27] صحیح مسلم  کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۴۰۹

[28] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ بَیَانِ أَنَّ الْآجَالَ وَالْأَرْزَاقَ وَغَیْرَهَا لَا تَزِیدُ وَلَا تَنْقُصُ عَمَّا سَبَقَ بِهِ الْقَدَرُ۶۷۷۰،مسنداحمد۳۷۰۰

[29] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۴

[30]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَقَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ زَمَنَ الفَتْحِ۴۲۹۷

[31] ابن ہشام۴۳۶؍۲

[32]صحیح بخاری

[33] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَقَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ زَمَنَ الفَتْحِ۴۲۹۸

Related Articles