ہجرت نبوی کا آٹھواں سال

خالدبن ولید ،عمروبن العاص  اورعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم کاقبول اسلام(صفرآٹھ ہجری)

أَسْلَمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقدکے کچھ عرصہ بعدصفرآٹھ ہجری میں خالدبن ولید رضی اللہ عنہ (جوایک جنگجوفوجی اوربہترین شہسوارتھے اس لئے قریش کے سواردستوں کے افسر رہا کرتے تھے) عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (جوایک دلیرجنگجواورسیاسی شخصیت تھے) اورعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ باسلام ہوگئے۔[1]

ان کے اسلام لانے کاواقعہ یوں ہے کہ خالدبن ولید،جن کی کنیت ابوسلیمان اورابوولیداور والدہ کانام لبابہٰ صضرٰی بنت حارث بن حزن ہلالیہ تھا

قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ قَالَ: لَمَّا أَرَادَ اللهُ بِی مَا أَرَادَ مِنَ الْخَیْرِ قَذَفَ فِی قَلْبِی الْإِسْلَامَ، وَحَضَرَنِی رُشْدِی ،فَقُلْتُ: قَدْ شَهِدْتُ هَذِهِ الْمَوَاطِنَ كُلَّهَا عَلَى محمَّد صلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَیْسَ فِی مَوْطِنٍ أَشْهَدُهُ إِلَّا أَنْصَرِفُ وَأَنَا أَرَى فِی نَفْسِی أَنِّی مَوْضِعٌ فِی غیر شئ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا سَیَظْهَرُفَلَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحُدَیْبِیَةِ خَرَجْتُ فِی خَیْلٍ مِنَ الْمُشْرِكِینَ فَلَقِیتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَصْحَابِهِ بَعُسْفَانَ

کہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ خیروبھلائی کاارادہ فرمایاتواس نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی کہتے ہیں میرادل یہ شہادت دیتاتھاکہ یہ سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہے میرے دل میں اچانک یہ خیال پیداہواکہ میں قریش مکہ کی طرف سے جس لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جاتاہوں اورجب واپس آتا ہوں توواپسی میں میرے دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے،میرادل اندرسے یہ کہتاہے کہ تیری یہ تمام کوشش اوریہ تمام جدوجہدلاحاصل اوربے سودہے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرورغالب ہوکررہیں گےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حدیبیہ تشریف لائے تومیں بھی دوسرے مشرکین مکہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے عسفان آیا

فَقُمْتُ بِإِزَائِهِ وَتَعَرَّضْتُ لَهُ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ الظُّهْرَ أَمَامَنَا فَهَمَمْنَا أَنْ نُغِیرَ عَلَیْهِمْ، ثُمَّ لَمْ یُعْزَمْ لَنَا وَكَانَتْ فِیهِ خِیَرَةٌ فَاطَّلَعَ عَلَى مَا فِی أَنْفُسِنَا مِنَ الْهَمِّ بِهِ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْعَصْرِ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَوَقْعَ ذَلِكَ مِنَّا مَوْقِعًا وَقُلْتُ: الرَّجُلُ مَمْنُوعٌ فَاعْتَزَلَنَا، وَعَدَلَ عن سیر خَیْلِنَا وَأَخَذَ ذَاتَ الْیَمِینِ ، فَلَمَّا صَالَحَ قُرَیْشًا بالحدیبیة ودافعته قُرَیْشٌ بِالرّوَاحِ قُلْت فِی نَفْسِی:أَیّ شَیْءٍ بَقِیَ؟أَیْنَ أذهب إِلَى النَّجَاشِیِّ!فَقَدِ اتَّبَعَ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابُهُ عِنْدَهُ آمِنُونَ، فَأَخْرُجُ إِلَى هِرَقْلَ فَأَخْرُجُ مِنْ دِینِی إِلَى نَصْرَانِیَّةٍ أَوْ یَهُودِیَّةٍ،فَأُقِیمُ فِی عَجَمٍ، فأقیم فی داری بمن بَقِیَ فَأَنَا فِی ذَلِكَ إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فِی عمرة القضیة،فتغیب وَلَمْ أَشْهَدْ دُخُولَهُ،وَكَانَ أَخِی الْوَلِیدُ بْنُ الْوَلِیدِ قَدْ دَخَلَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی عُمْرَةِ الْقَضِیَّةِ،فَطَلَبَنِی فَلَمْ یَجِدْنِی فَكَتَبَ إِلَیَّ كِتَابًا فَإِذَا فِیهِ

اوروہاں آپ کی مجلس میں اعتراضات کاسلسلہ شروع کرنے کے لیے کھڑاہواہی تھاکہ ظہرکی نمازکاوقت ہوگیاجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ادافرمائی تو ہم نے بددیانتی اور قتل کرنے کا سوچا ابھی ہم ارادہ کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے ہمارے برے ارادے کی خبر مل گئی تو انہوں نے عصر کی نماز صلاة خوف میں پڑھی تو ہمیں خطرہ محسوس ہونے لگا اور میں نے کہا تو ہم نے کنارہ کشی اختیار کی اور انہوں نے بھی ہمارے لشکر سے کشارہ کشی اختیار کرکے داہنی جانب چلنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش سے صلح کرکے واپس ہوئے تومیرے دل میں یہ خیال جڑپکڑگیاکہ قریش کی قوت اورشوکت ختم ہوئی،شاہ حبشہ نجاشی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیروکاربن چکاہے اورآپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم حبشہ میں امن و امان کے ساتھ رہتے ہیں ،اب ایک ہی صورت ہے کہ میں شاہ روم ہرقل کے پاس چلا جاؤں اور یہودی یانصرانی ہوکراس کے تابع عیب کی زندگی گزاروں ،میں اسی خیال میں تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرة القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، تومیں نے اس کے نظارے سے عمداًاحترازکیااور مکہ مکرمہ سے نکل کرروپوش ہوگیا،میرا بھائی ولیدبن الولیدبھی عمرة القضاء کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیاتھااس نے مجھے بہت تلاش کیامگرمیں اسے نہ ملااس نے ایک خط میرے نام سے لکھاجس کامضمون کچھ یوں تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّی لَمْ أَرَ أَعْجَبَ مِنْ ذَهَابِ رَأْیِكَ عَنِ الْإِسْلَامِ وَعَقْلُكَ عَقْلُكَ! وَمِثْلُ الْإِسْلَامِ جَهِلَهُ أَحَدٌ؟ وَقَدْ سَأَلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْكَ وَقَالَ أَیْنَ خَالِدٌ؟ فقلت یأتى الله به، فقال مِثْلُهُ جَهِلَ الْإِسْلَامَ؟ وَلَوْ كَانَ جَعَلَ نِكَایَتَهُ وجده مَعَ الْمُسْلِمِینَ كَانَ خَیْرًا لَهُ، وَلَقَدَّمْنَاهُ عَلَى غَیْرِهِ» فَاسْتَدْرِكْ یَا أَخِی مَا قَدْ فَاتَكَ [من ] مَوَاطِنُ صَالِحَةٌ.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

أَمَّا بَعْدُ!میں نے اس سے زیادہ کوئی تعجب خیزامرنہیں دیکھاکہ تیرادل دین اسلام کو قبول کرنے سے منحرف ہے حالانکہ تیری عقل تیری عقل ہے( یعنی مشہور و معروف ہے) اور اسلام جیسے دین سے کسی کابے خبررہنانہایت تعجب انگیزہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تمہارے متعلق دریافت فرمایاکہ خالدکہاں ہے میں نے عرض کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ عنقریب اس کوآپ کے پاس لے آئے گا،آپ نے فرمایاتعجب ہے کہ اس جیساعاقل دین اسلام سے بے خبرونادان ہے اورفرمایاکہ اگرخالدمسلمانوں کے ساتھ مل کر دین حق کی مددکرتااوراہل باطل کامقابلہ کرتاتویہ اس کے لئے بہترہوتااورہم اس کودوسروں پر مقدم رکھتے،پس اے میرے بھائی! تجھ سے جوعمدہ مقامات فوت ہوگئے ہیں توان کی تلافی اورتدارک کرلے ابھی تدارک کاوقت ہے۔

قَالَ فَلَمَّا جَاءَنِی كِتَابُهُ نَشِطْتُ لِلْخُرُوجِ، وَزَادَنِی رَغْبَةً فِی الْإِسْلَامِ،وَسَرَّنِی سُؤَالُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِّی،وَأَرَى فِی النَّوْمِ كَأَنِّی فِی بِلَادٍ ضَیِّقَةٍ مجدبة فخرجت فی بِلَادٍ خَضْرَاءَ وَاسِعَةٍ، فَقُلْتُ إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْیَا وَالضِّیقُ الَّذِی كُنْتَ فِیهِ مِنَ الشِّرْكِ،قَالَ: فَلَمَّا أَجْمَعْتُ الْخُرُوجَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ مَنْ أُصَاحِبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟

میرے بھائی کایہ نامہ جب میرے پاس پہنچاتواس نے میرے دل میں اسلام لانے کی ہلچل پیداکردی ،میرے دل کوہجرت مدینہ کی ایک خاص نشاط ومسرت سے بھردیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے متعلق جوکچھ فرمایاتھااس نے مجھے مسرورکردیا،اسی دوران میں نے ایک خواب دیکھاکہ میں ایک تنگ قحط زدہ زمین پرہوں ،اورپھر اس تنگ وقحط زدہ علاقہ سے نکل کرکشادہ وسرسبزوشاداب علاقہ میں چلاگیاہوں ،اس خواب سے میں فوری طورپرکوئی نتیجہ تواخذنہ کرسکالیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکردائرہ اسلام میں داخل ہونے کامصمم ارادہ کرلیا،مگرمیں چاہتاتھاکہ کوئی اوربھی میرے ہمراہ مدینہ طیبہ چلے ،کہتے ہیں کہ جب مصمم ارادہ ہوا تو اپنے اندر ہی کہا کہ اس مبارک سفر میں ساتھی کس کو بناؤں ،

فَلَقِیتُ صَفْوَانَ بْنَ أمیَّة فَقُلْتُ: یَا أَبَا وَهْبٍ، أَمَا تَرَى مَا نَحْنُ فِیهِ؟إِنَّمَا نَحْنُ كأضراس وَقَدْ ظَهَرَ مُحَمَّدٌ عَلَى الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ، فَلَوْ قَدِمْنَا عَلَى مُحَمَّدٍ وَاتَّبَعْنَاهُ فَإِنَّ شَرَفَ مُحَمَّدٍ لَنَا شَرَفٌ؟فَأَبَى أَشَدَّ الْإِبَاءِ فَقَالَ: لَوْ لَمْ یَبْقَ غَیْرِی مَا اتَّبَعْتُهُ أَبَدًا، فَافْتَرَقْنَا وَقُلْتُ: هَذَا رَجُلٌ قُتِلَ أَخُوهُ وَأَبُوهُ بِبَدْرٍ فَلَقِیتُ عِكْرِمَةَ بْنَ أَبِی جَهْلٍ فَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ مَا قُلْتُ لِصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ، فَقَالَ لِی مِثْلَ مَا قَالَ صَفْوَانُ بْنُ أمیَّة،قَلْتُ فَاكْتُمْ علیَّ،قَالَ: لَا أَذْكُرُهُ

اس خیال سے میں نے صفوان بن امیہ کوملااوراسے کہااے ابووہب تم دیکھتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل عرب پرغلبہ پالیاہے اگرہم ان کے پاس جائیں اوران کااتباع کریں تویہ ہمارے لئے بہترہوگا ان کاشرف ہماراشرف ہوگا، مگرصفوان بن امیہ نے سختی سے انکارکرتے ہوئے کہااگرروئے زمین پر میرے سواکوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع سے باقی نہ رہے تب بھی میں ان کی پیروی نہیں کروں گا،میں نے اپنے دل میں کہاکیونکہ اس شخص کاباپ اوربھائی غزوہ بدرمیں مارے گئے ہیں اس لئے اس سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی،پھرمیں عکرمہ بن ابی جہل سے ملااورجوبات میں نے صفوان بن امیہ سے کہی تھی اس سے بھی کہی مگرعکرمہ نے بھی مجھے وہی جواب دیاجوصفوان نے دیاتھا،میں نے انہیں کہاکہ اس بات کاکسی سے ذکرنہ کریں ، انہوں نے کہامیں کسی سے ذکرنہیں کروں گا

فَخَرَجْتُ إِلَى مَنْزِلِی فَأَمَرْتُ بِرَاحِلَتِی فَخَرَجْتُ بِهَا إِلَى أَنْ لَقِیتُ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا لِی صَدِیقٌ فَلَوْ ذَكَرْتُ لَهُ مَا أَرْجُو، ثُمَّ ذَكَرْتُ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُذَكِّرَهُ،ثُمَّ قُلْتُ: وَمَا عَلَیَّ وَأَنَا رَاحِلٌ مِنْ سَاعَتِی فَذَكَرْتُ لَهُ مَا صَارَ الْأَمْرُ إِلَیْه،فَقُلْتُ إِنَّمَا نَحْنُ بِمَنْزِلَةِ ثَعْلَبٍ فِی جُحْرٍ، لَوْ صُبَّ فِیهِ ذَنُوبٌ مِنْ مَاءٍ لَخَرَجَ، وَقُلْتُ لَهُ نَحْوًا مِمَّا قلت لصاحبی: فأسرع الإجابة، وقال لقد غَدَوْتُ الْیَوْمَ وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَغْدُوَ، وَهَذِهِ رَاحِلَتِی بِفَخٍّ مُنَاخَةٍ، قَالَ فَاتَّعَدْتُ أَنَا وَهُوَ یَأْجَجَ، إِنْ سَبَقَنِی أَقَامَ وَإِنْ سَبَقْتُهُ أَقَمْتُ عَلَیْهِ

میں گھرگیااوراونٹنی کوتیارکیااسی اثنامیں مجھے خیال ہواکہ اپنے سچے دوست عثمان بن طلحہ سے بھی ملاقات کرلوں پھرمجھے اس کے باپ داداکاقتل ہونایادآیااورمیں مترددہوگیاکہ عثمان سے ذکرکروں یانہ کروں ،پھرخیال آیامیں تواب مدینہ منورہ جاہی رہا ہوں ذکرکرنے میں میرا کیانقصان ہے، میں نے کہا کہ ہم اس لومڑی کے درجے پر ہیں جو کہ سوراخ میں چھپی بیٹھی ہو اگر اس میں پانی کے ڈول ڈالے جائیں تو باہر نکل آئے وگرنہ وہی چھپی بیٹھی رہے اور اسی طرح میں اپنے ساتھی سے ہم کلام ہوا چنانچہ میں عثمان بن طلحہ سے ملااورجوکچھ صفوان اورعکرمہ کومشورہ دیا تھااسے بھی دیا،عثمان بن طلحہ نے میرے مشورہ کو قبول کرلیااورکہامیں بھی تمہارے ساتھ مدینہ منورہ چلتاہوں میں تم سے مقام یاجج پرملوں گااگرتم پہلے پہنچ جاؤتو میرا انتظار کرنا اور اگرمیں پہلے پہنچ گیاتومیں تمہارا انتظار کروں گا یہ طے کرکے میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا اورحسب وعدہ مقام یاجج پرعثمان بن طلحہ مجھے مل گئے،

قَالَ: فَأَدْلَجْنَا سَحَرًا فَلَمْ یَطْلُعِ الْفَجْرُ حَتَّى الْتَقَیْنَا بِیَأْجَجَ، فَغَدَوْنَا حتَّى انْتَهَیْنَا إِلَى الهدة، فنجد عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ بهاقال: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ فَقُلْنَا: وَبِكَ،فَقَالَ إِلَى أَیْنَ مَسِیرُكُمْ؟فَقُلْنَا: وَمَا أَخْرَجَكَ؟فَقَالَ وَمَا أَخْرَجَكُمْ؟ قُلْنَا: الدُّخُولُ فِی الْإِسْلَامِ وَاتِّبَاعُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ وَذَاكَ الَّذِی أَقْدَمَنِی، فَاصْطَحَبْنَا جَمِیعًا حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِینَةَ فَأَنَخْنَا بِظَهْرِ الْحَرَّةِ رِكَابَنَا

دوسرے دن صبح سویرے ہم دونوں وہاں سے روانہ ہوئےجب ہم مقام ھدہ پرپہنچے توعمروبن العاص بن وائل سے ملاقات ہوئی،(یہ بڑے خوش گفتاراورشیریں بیاں خطیب،قادرالکلام مدبر،سیاستدان اورسپہ سالارتھے، ان کی کنیت ابوعبداللہ یاابومحمدتھی ،اوراس وقت ان کی عمربیالیس سال کی تھی ، ان کی والدہ کانام سلمیٰ بنت حرملہ اورلقب بابغہ تھا،جو عرب کے فقروفاقہ کے دور ابتلامیں عکاظ کے بازارمیں فروخت ہوئیں تھیں ،انہیں فاکہہ بن مغیرہ نے خرید لیا تھا پھرانہیں عبداللہ بن جدعان نے خریدلیاتھا،پھرعاص بن وائل کے پاس پہنچ گئیں ان کے بطن سے ایک شریف النسب لڑے عمروپیداہوئے)عمروبن العاص نے ہم دونوں کو مرحبا کہا،ہم نے بھی مرحباکہا اورپوچھاکہ آپ کہاں جارہے ہیں ؟ کس چیز نے آپ کو نکلنے پر مجبور کیا ہے ؟تو اس نے بھی اسی بابت ان سے سوالاً پوچھا؟انہوں نے کہاکہ وہ اسلام قبول کرنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے ارادے سے مدینہ منورہ جارہے ہیں ،(ابن اسحاق کے مطابق وہ نجاشی شاہ حبشہ کے ہاتھ پرمسلمان ہوکرمدینہ جارہے تھے)ہم نے کہاہم دونوں بھی اسی ارادہ سے مدینہ منورہ جارہے ہیں ،اس طرح ہم تینوں ساتھ ہوکرمدینہ منورہ میں داخل ہوئے اوراپنے سواری کے اونٹ مقام حرہ میں بٹھلائے،

فَأُخْبِرَ بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسُرَّ بِنَافَلَبِسْتُ مِنْ صَالِحِ ثِیَابِی ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَقِیَنِی أَخِی: فَقَالَ: أَسْرِعْ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُخْبِرَ بِكَ فَسُرَّ بِقُدُومِكَ وَهُوَ یَنْتَظِرُكُمْ، فَأَسْرَعْنَا الْمَشْیَ فَاطَّلَعْتُ عَلَیْهِ،فَمَا زَالَ یَتَبَسَّمُ إِلَیَّ حَتَّى وَقَفْتُ عَلَیْهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ بِالنُّبُوَّةِ فَرَدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ،فَقُلْتُ إِنِّی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ،فَقَالَ : تَعَالَ

کسی نے ہمارے آمدکی خبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادی جسے سن کرآپ بہت مسرورہوئے،خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عمدہ کپڑے پہنے اورآپ کی خدمت میں حاضری کے لئے روانہ ہواراستہ میں مجھے میرابھائی ولیدملااورکہاجلدی چلورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمہاری آمدکی خبرپہنچ گئی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری آمدسے بہت خوش ہوئے ہیں اورتمہارے منتظرہیں ،ہم تیزی کے ساتھ چلے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے میں نے کہاالسلام علیک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے میرے سلام کاجواب دیا،میں نے عرض کیامیں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اورآپ اللہ کے رسول ہیں ،آپ نے ارشاد فرمایاقریب ہوجاؤ

ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَاكَ قَدْ كُنْتُ أَرَى لَكَ عَقْلًا رَجَوْتُ أَنْ لَا یُسْلِمَكَ إِلَّا إِلَى خیر قلت یارَسُولُ الله إنی قَدْ رَأَیْتَ مَا كُنْتُ أَشْهَدُ مِنْ تِلْكَ المواطن علیك معانداً للحق فأدعو اللهَ أَنْ یَغْفِرَهَا لِی،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامُ یَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ،قُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ عَلَى ذَلِكَ،قَالَ اللهُمَّ اغْفِرْ لِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ كُلَّ مَا أَوْضَعَ فِیهِ مِنْ صَدٍّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ،قَالَ خَالِدٌ: وَتَقَدَّمَ عُثْمَانُ وَعَمْرٌو فَبَایَعَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا أَنْ قَدِمْتُ الْمَدِینَةَ قُلْتُ لَأَذْكُرَنَّهَا لِأَبِی بَكْرٍ، فَقَالَ: مَخْرَجُكَ الذى هَدَاكَ اللهُ لِلْإِسْلَامِ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحمداس ذات پاک کی جس نے تجھے اسلام کی توفیق بخشی میں دیکھتاتھاکہ تجھ میں عقل ہے اورامید کرتا تھا کہ وہ عقل تجھے خیراوربھلائی کی طرف تیری رہنمائی کرے گی،میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دیکھتے تھے میں جنگوں میں آپ کے اورحق کے مقابلہ میں حاضرہوتاتھا(جس پرمیں نادم ہوں )اس لئے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میرے لئے دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری ان تمام خطاؤں کومعاف فرمادے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااسلام ان تمام گناہوں کومٹا دیتا ہے جواس سے پہلے سرزدہوچکے ہیں ،میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھربھی دعافرمائیں توآپ نے میرے لئے یہ دعافرمائی اے اللہ! توخالدبن ولیدکی ان تمام خطاؤں کومعاف فرمادے جوخالدنے اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے کے لئے کی ہیں ،چنانچہ میرے بعدعثمان بن طلحہ اورعمروبن العاص آگے بڑے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پربیعت کی، خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پربیعت سے قبل میں نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنے خواب کاذکرنہیں کیاتھالیکن جب اس کے بعدمیں نے ان سے اپنے اس خواب کا ذکرکیاتووہ بولے کہ اس خواب میں میں نے جوتنگ وتاریک جگہ دیکھی تھی وہ کفرکاظلمت کدہ تھااورپھرجووسیع اورسرسبزوشاداب جگہ دیکھی وہ فضائے اسلام تھی۔[2]

فَتَقَدَّمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَبَایَعَ، ثُمَّ تَقَدَّمَ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ فَبَایَعَ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ فو الله مَا هُوَ إِلَّا أَنْ جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ فما استطعت أن أرفع طرفی حَیَاءً مِنْهُ. قَالَ فَبَایَعْتُهُ عَلَى أَنْ یُغْفَرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَلَمْ یَحْضُرْنِی مَا تَأَخَّرَ وَلا أَذْكُرَ مَا تَأَخَّرَفَقَالَ :إِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَالْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعدپہلے خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے بیعت کی پھر عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کی پھرمیں بیعت کے لئے آگے بڑھامگرمیری اس وقت یہ حالت تھی اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے توبیٹھ گیامگرشرم وندامت کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اٹھاکرنہیں دیکھ سکتاتھابالآخرمیں نے آپ کے دست مبارک پربیعت کی اورعرض کیا کہ اس شرط پربیعت کرتاہوں کہ میری تمام گزشتہ خطائیں اورقصورمعاف کردیئے جائیں ،عمروکہتے ہیں اس وقت یہ خیال نہ آیاکہ یہ بھی عرض کر دیتا کہ میرے آئندہ اورپچھلے قصورمعاف کردیئے جائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام ان تمام گناہوں کومٹادیتاہے جواسلام سے پہلے کفرکی حالت میں کئے گئے ہیں اسی طرح ہجرت بھی تمام گزشتہ گناہوں کومٹادیتی ہے۔[3]

قال : فو الله مَا عَدَلَ بِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِی أَمْرٍ حَزَبَهُ مُنْذُ أَسْلَمْنَا

عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ کی قسم! جس دن سے ہم مسلمان ہوئے اس دن سے جومہم پیش آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے برابرکسی کونہیں فرمایا۔[4]

ذكر الزّبیر بن بكّار أنّ رجلا قال لعمرو: ما أبطأ بك عن الإسلام وأنت أنت فی عقلك؟ قال: إنا كنا مع قوم لهم علینا تقدّم، وكانوا ممّن یواری حلومهم الخبال فلما ذهبوا وصار الأمر إلینا نظرنا وتدبّرنا فإذا حقّ بیّن، فوقع فی قلبی الإسلام

زبیربن بکار رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ کسی نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ آپ اتنے دانشمندوسمجھدارہوکراتنی دیرتک اسلام سے کیوں دوررہے؟انہوں نے جواباًکہاہم ایسی قوم کے ساتھ تھے جنہیں ہم پرتقدم حاصل تھااوران کی عقلیں پہاڑوں کامقابلہ کرتی تھیں پس ہم ان کی پناہ میں رہے ،جب وہ لوگ جاچکے اورہمیں امن میسرآیاتواس وقت ہم نے اسلام کی حقانیت پرغوروفکراورتدبرشروع کیاتب ہم پراسلام کی حقیقت منکشف ہوئی پس اس وقت اسلام نے میرے دل میں گھرکرلیا۔[5]

اسلام کوخالد رضی اللہ عنہ بن ولیداورعمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے بہت فائدہ پہنچاکیونکہ ان دونوں سیاسی وجنگی قائدین نے اسلامی فتوحات ،دعوت اسلامی کی عام تبلیغ اور دین کی سربلندی کی تاریخ میں ایک اہم اورعظیم الشان دورکی بناڈالی تھی۔

خالدبن ولیدکے بھائی ولید رضی اللہ عنہ بن ولیدکی وفات:

عمرة القضاکے کچھ عرصہ بعدولید رضی اللہ عنہ نےآٹھ ہجری میں وفات پائی،ان کی والدہ لبابہ رضی اللہ عنہ ابھی حیات تھیں انہیں جوان فرزندکی موت نے نڈھال کردیااورانہوں نے ایک دلدوز مرثیہ کہا جس کاایک شعریہ ہے۔

یَا عَیْنُ فَابْكِی لِلْوَلِیدِ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ، كَانَ الْوَلِیدُ بْنُ الْوَلِیدِ أَبُو الْوَلِیدِ فَتَى الْعَشِیرَةِ

اے آنکھواس ولید بن ولیدبن مغیرہ کی یادمیں آنسوبہاؤ،ولیدبن ولیدجوشجاعت اوربہادری میں اپنے باپ کی طرح خاندان کاہیروتھا

فَقَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لا تَقُولِی هَكَذَا یَا أُمَّ سَلَمَةَ وَلَكِنْ قُولِی وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیدُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مرثیہ سناتوان سے فرمایااے ام سلمہ رضی اللہ عنہ !یہ نہ پڑھوبلکہ قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرو’’اورموت کی بے ہوشی ضرورآکررہے گی (اس وقت کہاجائے گا) یہ ہے وہ جس سے توبھاگتاتھا۔‘‘[6]

سریہ غالب رضی اللہ عنہ بن عبداللہ(کدیداورفدک کی طرف)صفرآٹھ ہجری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفرآٹھ ہجری(جون ۶۲۹ئ) میں غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کوپندرہ یاسولہ مجاہدین کے ایک دستہ پرامیرمقررفرماکرمکہ سے بیالیس (۴۲)میل کے فاصلے پرکدید نامی جگہ پربنی ملوح کی طرف روانہ فرمایا

قَالَ: فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِقُدَیْدٍ لَقِینَا الْحَارِثَ بْنَ الْبَرْصَاءِ اللیْثِیَّ فَأَخَذْنَاهُ،فَقَالَ: إِنَّمَا جِئْتُ أُرِیدُ الإِسْلامَ وَإِنَّمَا خَرَجْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم،قُلْنَا: إِنْ تَكُنْ مُسْلِمًا لَمْ یَضْرُرْكَ رِبَاطُنَا یَوْمًا وَلَیْلَةً. وَإِنْ تَكُنْ عَلَى غَیْرِ ذَلِكَ نَسْتَوْثِقُ مِنْكَ،قَالَ: فَشَدَدْنَاهُ وِثَاقًا وَخَلَّفْنَا عَلَیْهِ رُوَیْجِلا مِنَّا أَسْوَدَ فَقُلْنَا: إِنْ نَازَعَكَ فَاحْتَزَّ رَأْسَهُ!

جب یہ مقام قدیدپرپہنچے توحارث بن مالک لیثی عرف ابن برصا(یہ ان کی والدہ تھیں )سے آمناسامناہواجسے مجاہدین نے گرفتار کرلیا،اس نے کہاکہ اس نےاسلام قبول کرنے کاارادہ کرلیاہے اوراسی مقصدکےلئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کے لئے جارہاتھا،لیکن مجاہدین نے اس کی بات کا یقین نہ کیااوراس سے کہااگرتم نے مسلمان ہونے کاارادہ کرلیاہے توایک دن اورایک رات تک ہمارالشکرتمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گااوراگراس کے خلاف ہواتوہم تیری نگرانی کریں گے ،ہم نے اسے رسی سے باندھ کررویجل حبشی کے سپردکردیااوران سے کہہ دیاکہ اگروہ تم سے جھگڑاکرے تواس کاسراڑادیناسے [7]

ابن برصاء اسلام لے آئے اورامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری زمانے میں وفات پائی،ان سے صرف ایک حدیث مروی ہے،

عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ الْبَرْصَاءِ، قَالَ: سَمِعْت رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا تُغْزَى قُرَیْشٌ بَعْدَ الْیَوْمِ إلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ!

عراک بن مالک کہتے ہیں حارث بن البرصاء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن فرماتے ہوئے سناہے کہ آج کے بعدقیامت تک مکہ مکرمہ پرکوئی چڑھائی نہیں ہوگی۔[8]

فَقَدِمَ غَالِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ اللیْثِیُّ مِنَ الْكَدِیدِ مِنْ سَرِیَّةٍ قَدْ ظَفَّرَهُ اللهُ عَلَیْهِمْ،بَعَثَ غَالِبَ بْنَ عَبْدِ اللهِ فِی مِائَتَیْ رَجُلٍ، وَخَرَجَ أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ فِیهَاحَتَّى انْتَهَى إِلَى مُصَابِ أَصْحَابِ بَشِیرٍ وَخَرَجَ مَعَهُ عُلْبَةُ بْنُ زَیْدٍ فِیهَا فَأَصَابُوا مِنْهُمْ نَعَمًا وَقَتَلُوا مِنْهُمْ قَتْلَى، فَأَدْرَكَنَا الْقَوْمُ ، أَرْسَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ حَیْثُ شَاءَ سَیْلًا، لَا وَاللهِ مَا رَأَیْنَا قَبْلَ ذَلِكَ مَطَرًا فَجَاءَ بِمَا لَا یَقْدِرُ أَحَدٌ یَقْدَمُ عَلَیَّ

جب غالب بن عبداللہ لیثی رضی اللہ عنہ سریہ سے واپس ہوئے اللہ نے انہیں فتح مندکیاتھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسومجاہدین کاایک دستہ پرامیرمقررفرماکر فدک کے اطراف میں بشیربن سعد رضی اللہ عنہ اوران کے رفقاکی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے روانہ فرمایا انہی میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، مجاہدین اسلام بشیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پرمصیبت لانے والوں تک پہنچ گئے ان کے ہمراہ علبہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، مجاہدین اسلام کواس جنگ میں مکمل کامیابی ہوئی ، دشمن کے متعددآدمی قتل ہوگئے اورمجاہدین ان کے بہت سے اونٹ ، بکریاں ہانک کرروانہ ہوئے،اس قوم کے لوگ ایک بہت بڑی جمعیت لیکرہمارے تعاقب میں روانہ ہوئے، لیکن اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی زورکی بارش ہوئی کہ مجاہدین اورکفارکے درمیان جوایک وادی حائل تھی وہ پانی سے بھرگئی حالانکہ اس سے قبل ہم نے بارش کو دیکھا تک نہ تھا اور وہ ہم تک نہ پہنچ سکے۔ [9]

سریہ شجاع رضی اللہ عنہ بن وہب اسدی (السیی کی طرف) ربیع الاول آٹھ ہجری

فِی شهر ربیع الأول سنة ثمان، بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شُجَاعَ بْنَ وَهْبٍ فِی أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِینَ رَجُلا إِلَى جَمْعٍ مِنْ هَوَازِنَ بِالسِّیِّ نَاحِیَةَ رُكْبَةَ مِنْ وَرَاءِ الْمَعْدِنِ. وَهِیَ مِنَ الْمَدِینَةِ عَلَى خَمْسِ لَیَالٍ، وَأَمَرَهُ أَنْ یُغِیرَ عَلَیْهِمْ،وَكَانَ یَسِیرُ اللیْلَ وَیَكْمُنُ النَّهَارَ حَتَّى صَبَّحَهُمْ وَهُمْ غَارُّونَ،فَأَصَابُوا نَعَمًا كَثِیرًا وَشَاءً وَاسْتَاقُوا ذَلِكَ حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِینَةَ وَاقْتَسَمُوا الْغَنِیمَةَ. وَكَانَتْ سِهَامُهُمْ خَمْسَةَ عَشَرَ بَعِیرًا وَعَدَلُوا الْبَعِیرَ بِعَشْرٍ مِنَ الْغَنَمِ،وَغَابَتِ السَّرِیَّةُ خَمْسَ عَشْرَةَ لَیْلَةً

بنوہوزان نے متعددبارمسلمانوں کے خلاف دشمنوں کوکمک پہنچائی تھی ،اس لئے ان کی سرکوبی کے لئے ربیع الاول آٹھ ہجری میں (جولائی ۶۲۹ئ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےشجاع بن وہب اسدی رضی اللہ عنہ کوچوبیس مجاہدین کے ایک دستہ کاامیرمقررفرماکرمدینہ منورہ سے پانچ رات کی مسافت پر السیی نامی جگہ پرقبیلہ ہوزان کی ایک جماعت کی طرف بھیجا جو معدن کے پیچھے رکبہ کی جانب ہے(یہ بصرہ سے مکہ مکرمہ کی طرف جانے والی شاہراہ پرواقع ایک جنگل ہے جہاں چورپناہ لیاکرتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ ان پراچانک حملہ کردیں ،رازداری کے پیش نظریہ لشکردن کے وقت چھپا رہتا اوررات میں سفرکرتارہایہاں تک کہ ہوزان کے جتھے پرغفلت کی حالت میں اچانک حملہ کردیامگر جنگ کی نوبت نہ آئی اوردشمن فرارہوگیاشجاع بن وہب اسدی رضی اللہ عنہ مال غنیمت میں بہت سارے اونٹ اوربکریاں ہانک کر مدینہ واپس آگئے اس مال کی تقسیم سے ان کے حصہ میں پندرہ اونٹ آئے جو کہ ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر گردانہ گیا، یہ سریہ پندرہ دن کاتھا۔[10]

سریہ کعب رضی اللہ عنہ بن عمیر غفاری(ذات اطلاح کی طرف)  ربیع الاول آٹھ ہجری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرملی کہ شمالی عرب میں حمیری قحطانی قبیلہ بنوقضاعہ نے مسلمانوں پرحملہ کرنے کے لئے ایک بڑی جمیعت فراہم کررکھی ہے ،ان کی بستیاں شحر (یمن) نجران ،حجازاورشام میں تھیں

وصنما كان لهم فی مشارف الشام یقال له:الأقیصر، فكانوا یحجون الیه، ویحلقون رؤوسهم عنده

اوریہ لوگ الأقیصرنامی بت کے پجاری تھے جس کے آستانے کاحج کرنے آتے اوروہاں سرمنڈاتے تھے۔[11]

وكانت النصرانیة منتشرة فی بعضهم

ان میں بعض نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔[12]

قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَعْبَ بْنَ عُمَیْرٍ الْغِفَارِیَّ فِی خَمْسَةَ عَشَرَ رَجُلا حَتَّى انْتَهَوْا إِلَى ذَاتِ أَطْلاحٍ مِنْ أَرْضِ الشَّامِ ،فَوَجَدُوا جَمْعًا مِنْ جَمْعِهِمْ كَثِیرًا فَدَعَوْهُمْ إِلَى الإِسْلامِ فَلَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُمْ وَرَشَقُوهُمْ بِالنَّبْلِ،فَلَمّا رَأَى ذَلِكَ أَصْحَابُ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَاتَلُوهُمْ أَشَدّ الْقِتَالِ حَتّى قَتَلُوا فَأَفْلَتْ مِنْهُمْ رَجُلٌ جَرِیحٌ فِی الْقَتْلَى، حَتّى آتی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ، فَشَقّ ذَلِكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ بِالْبَعْثِ إلَیْهِمْ، فَبَلَغَهُ أَنّهُمْ قَدْ سَارُوا إلَى مَوْضِعٍ آخَرَ فَتَرَكَهُمْ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عمیرغفاری رضی اللہ عنہ کوصرف پندرہ مجاہدین کے ایک دستہ کا امیرمقررفرماکران کی سرکوبی کے لئے ذات اطلاح نامی جگہ کی طرف جوشام کے علاقہ میں ہے روانہ فرمایا،مجاہدین اسلام کو گھوڑوں پر سوار دشمنوں کی کثیر تعداد کا سامنا کرنا پڑا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی مگر انہوں نے اس دعوت کوقبول کرنے سے انکارکردیااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرتیروں کی بوچھاڑ کردی،جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ کیفیت دیکھی توانہوں نے ان کانہایت سخت مقابلہ کیایہاں تک کہ لڑتے لڑتے چودہ مجاہدین شہیدہوگئے،ان شہداء کے درمیان صرف ایک زخمی مجاہدزندہ بچا،ابن سعدکاقول ہے کہ یہ سرلشکرتھے،یہ رات کی سردی میں مصیبت جھیلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اوراس حادثہ کی اطلاع دی ،اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے اور ان پردوسرادستہ بھیجنے کاارادہ فرمایالیکن آپ کوپتاچلاکہ دشمن کسی دوسری جگہ پرجاچکے ہیں تو آپ نے ان کاخیال چھوڑدیا۔[13]

غزوہ موتہ(غزوہ جیش الامراء)   جمادی الاولیٰ آٹھ ہجری(اگست یاستمبر۶۲۹ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلاطین اورامراء کے نام دعوت اسلامی کے خطوط روانہ فرمائے تو حارث بن عمیرازدی رضی اللہ عنہ کوہرقل کی طرف سے بصریٰ کے حاکم حارث بن ابی شمرغسانی کے نام ایک نامہ گرامی دے کر بھیجا

وَیُقَالُ إِنَّ السَّبَبَ فِیهَا أَنَّ شُرَحْبِیلَ بْنَ عَمْرٍو الْغَسَّانِیَّ وَهُوَ مِنْ أُمَرَاءِ قَیْصَرَ عَلَى الشَّامِ قَتَلَ رَسُولًا أَرْسَلَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَاحِبِ بُصْرَى وَاسْمُ الرَّسُولِ الْحَارِثُ بْنُ عُمَیْرٍ

جب یہ موتہ میں ٹھیرے تو شرحبیل بن عمروغسانی نے جوقیصرکی طرف سے شام کاحاکم تھااس نے تمام سفارتی آداب واخلاق کوپس پشت ڈال کرحارث بن عمیرازدی رضی اللہ عنہ کوبندھواکرقتل کردیا۔[14]

وَلَمْ یُقْتَلْ لِرَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رسول غیره،فاشتد ذَلِكَ عَلَیْهِ

ان کے سوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی اور قاصدشہیدنہیں کیاگیاتھافتح خیبرکے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ کوبہت شاق گزرا۔[15]

فَأَقَامَ بِهَا بَقِیَّةَ ذِی الْحِجَّةِ، وَوَلِیَ تِلْكَ الْحَجَّةَ الْمُشْرِكُونَ، وَالْمُحَرَّمَ وَصَفَرًا وَشَهْرَیْ رَبِیعٍ، وَبَعَثَ فِی جُمَادَى الْأُولَى بَعْثَهُ إلَى الشَّامِ الَّذِینَ أُصِیبُوا بِمُؤْتَةَ وَهُمْ ثَلَاثَةُ آلَافٍ،وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْهِمْ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ، ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ فَجَعْفَرٌ، فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ فَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَإِنْ أُصِیبَ فَلْیَرْتَضِ الْمُسْلِمُونَ رَجُلًا فَلْیَجْعَلُوهُ عَلَیْهِمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں باقی مہینہ ذی الحجہ ،محرم ،صفر،ربیع الاول اورربیع الثانی کامہینہ رہے،پھرجمادی الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام موتہ کی طرف جومضافات ملک شام میں ہے اپنالشکرروانہ فرمایا جوتین ہزارمجاہدین پرمشتمل تھا اورزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کوان پرسردارمقررفرمایااور وصیت فرمائی،اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب امیر ہوں گے اوراگروہ بھی شہید ہو جائیں توعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ امیرہوں گےاگروہ بھی کام آجائیں توپھرلوگ خوداپنی مرضی سے اپنی جماعت میں سے کسی سپہ سالارکاانتخاب کر لیں ۔[16]

قَالَ: جَاءَ النُّعْمَانُ بْنُ فُنْحُصٍ الْیَهُودِیُّ فَوَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم مَعَ النَّاس، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ أَمِیرُ النَّاسِ، فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ فَجَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَإِنْ قُتِلَ جَعْفَرٌ فَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَإِنْ قُتِلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلْیَرْتَضِ الْمُسْلِمُونَ بَیْنَهُمْ رَجُلًا فَلْیَجْعَلُوهُ عَلَیْهِمْ، فَقَالَ النُّعْمَانُ: أَبَا الْقَاسِمِ إِنْ كُنْتَ نَبِیًّا فَلَوْ سَمَّیْتَ مَنْ سَمَّیْتَ قَلِیلًا أَوْ كَثِیرًا أُصِیبُوا جَمِیعًا، وإن الأنبیاء فی بَنِی إِسْرَائِیلَ كَانُوا إِذَا سَمَّوُا الرَّجُلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالُوا إِنْ أُصِیبَ فُلَانٌ فَفُلَانٌ، فَلَوْ سموا مائة أصیبوا جمیعاً ثم جعل یَقُولُ لِزَیْدٍ، اعْهَدْ فَإِنَّكَ لَا تَرْجِعُ أَبَدًا إِنْ كَانَ محمَّد نَبِیًّا فَقَالَ زَیْدٌ:فَأَشْهَدُ أَنَّهُ نَبِیٌّ صَادِقٌ بَارٌّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیدبن حارثہ کی سرکردگی میں لشکرموتہ کی طرف روانہ فرمارہے تھے تواس وقت نعمان ابن فنحص یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ حاضرتھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر زید بن حارثہ لشکرکے امیرہوں گے اگروہ شہید ہو جائیں تو جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب امیرلشکرہوں گےاوراگروہ بھی شہید ہو جائیں توعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ امیرہوں گے اگروہ بھی کام آجائیں توپھرلوگ خوداپنی مرضی سے اپنی جماعت میں سے کسی سپہ سالارکاانتخاب کرلیں ،نعمان نے عرض کیااے ابوقاسم!بنی اسرائیل کے انبیاء اپنے حواریوں کوبالکل اسی طرح احکام دیاکرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اب تک جوکچھ کم وبیش میں نے سناہے اس کے مطابق اگرآپ واقعی سچے نبی ہیں توزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ اس مہم سے ناکام ہوکرواپس نہیں لوٹیں گے بلکہ آپ کے حکم کے متابعت میں انبیائے بنی اسرائیل کے متبعین کی طرح دشمن کاحتی الامکان مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے کرآپ کی نبوت کی صداقت کاثبوت دیں گےپھراس نے زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کہااپنے متعلقین کووصیت کرجاؤکیونکہ اگرمحمدسچے نبی ہیں توتم اب ان کی طرف واپس نہ ہو سکو گے،زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں گواہی دیتاہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں ۔[17]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجس افرادی قوت کامہیاکرناتھااس میں کمانداروں کی تربیت اوران کاچناؤخاص اہمیت رکھتاتھا،سبھی سپاہی ایک سے نہیں ہوتے ،کسے کمان سونپی جائے اورکن کن کوصف میں رہنے دیاجائے ؟سپہ سالارکی نظرانتخاب پر جب تک پوری فوج کوکلی اعتمادنہ ہواس وقت تک افسروں ،ماتحت افسروں اورعہدیدارکے تقررکامسئلہ بخروخوبی انجام نہیں پاسکتا ،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر،وسعت نظر،استقامت اورانصاف پروری وعدل گستری کاثبوت ہے کہ کمانداروں کے چناؤاورتقرر،ان کی تربیت اوربالآخران کومیدان جنگ میں کمان سونپنے کے معاملہ میں ابھی تک ایساایک واقعہ بھی پیش نہیں آیاتھاکہ کسی سمت سے اعتراض ہواہومگراس مرتبہ مہاجرین اورانصارمیں زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت اوربڑے بڑے خاندانی معززین کی ماتحتی کے متعلق چہ میگوئیاں ہوئیں ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہی سبق دیناتھاکہ درجہ بندی خاندان اور تعلقات کی نسبت سے نہیں اہلیت کی نسبت سے ہوتی ہےاس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کی سیادت پرہی اصرارفرمایااورزید رضی اللہ عنہ بن حارثہ ہی امیرلشکرکی حیثیت سے شام کو روانہ ہوئے،آئندہ مسلمانوں کے ہردورکی تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اہلیت کارکوخاندانی اورتعلقاتی مصلحتوں پرترجیح دینے کی سنت شریفہ پر عمل کیاکامیابی نے ان کے قدم چومے اورجب اس سنت سے انحراف کیاگیااس کے منطقی اورقدرتی نتائج سے مفرممکن نہ ہوسکا

وعقد لَهُمْ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لواء أبیض ودفعه إلى زید بْن حارثة وأوصاهم رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أن یأتوا مقتل الحارث بْن عمیر وأن یدعوا مِن هناك إلى الْإِسْلَام فإن أجابوا وإلا استعانوا علیهم بالله وقاتلوهم . وخرج مشیعا لهم حتى بلغ ثنیة الوداع فوقف وودعهم،فَقَالَ: اُغْزُوا بِسْمِ اللهِ، فَقَاتِلُوا عَدُوّ اللهِ وَعَدُوّكُمْ بِالشّامِ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفیدجھنڈاتیارکرکے زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عطافرمایااورانہیں ہدایت فرمائی کہ پہلے حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کے قتل کی جگہ پرپہنچ کروہاں کے موجودہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اگروہ قبول کرلیں توبہترورنہ اللہ سے مددطلب کرکے ان سے جہاد شروع کرنا،چنانچہ لشکراسلام مدینہ سے بجانب شام تین میل پرواقع مقام جرف پر جمع ہوا،اس کے بعدلشکرروانہ ہوااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکرکورخصت کرنے کے لئے ثنیة الوداع تک تشریف لے گئےاورفرمایااللہ کانام لے کرجہادکرواوراللہ کے دشمنوں اورشام میں جودشمن ہیں انہیں قتل کردو۔[18]

اس دورکی گھمسان کی جنگوں میں امن پسندشہریوں پرجن کاجنگ میں کوئی دخل نہیں ہوتاتھاظلم وتعدی اورشقاوت وتشددکرنے میں جنگی حدودسے بہت تجاوز کیا جاتاتھا، بے رحم حملہ آورفتح پاکربچوں ،عورتوں ،بوڑھوں ،اپنی عبادت گاہوں میں مصروف مذہبی لوگوں ،لاچارمریضوں اورمجروحین کوبلاامتیازقتل کرنے کی کوشش کرتے تھے ، ان کے کھیت جلااوردرخت کاٹ دئیے جاتے تھے ،گھروں اوربازاروں میں لوٹ مارکے بعد مکانات اوردوکانوں کوآگ لگاکر شہروں کوتہس نہس کردیاجاتاتھا،شکست خوردہ باشندے ایسی ہرانتہائی بربریت وشقاوت سے دوچارہوجاتے تھے جن کاذہن میں تصوربھی ممکن نہیں ،

أن رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُوصِیكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَبِمَنْ مَعَكُمْ مِنْ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًااُغْزُوا بِسْمِ اللهِ فِی سَبِیلِ اللهِ، فَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاَللهِ، لَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغْلُواوَلا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ،وَلا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھناونے فعل سے مجاہدین کوخبردارکرنے کے لئے عظیم الشان نصیحتیں فرمائیں میں تمہیں اللہ کاتقویٰ اوراپنے مسلمان ساتھیوں سے حسن سلوک کی نصیحت کرتاہوں ،اللہ کانام لے کراللہ کی راہ میں اللہ کے منکرین حق سے جہاد کرنا،نہ عہدشکنی کرنااورنہ کسی قسم کی زیادتی کرنااورنہ کسی بچے،عورت،عمررسیدہ بوڑھے کوقتل کرنااورنہ اپنی عبادت گاہ میں گوشہ نشین شخص کوقتل کرنا،کسی کھجورکے باغ کے قریب نہ جانا،نہ کسی درخت کوکاٹنااورنہ کسی مکان کومنہدم کرنا ۔[19]

فَلَمَّا حَضَرَ خُرُوجُهُمْ، وَدَّعَ النَّاسُ أُمَرَاءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوا عَلَیْهِمْ، فَبَكَى عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَقَالُوا:مَا یُبْكِیكَ یَا بْنَ رَوَاحَةَ؟فَقَالَ: أَمَا وَاَللَّهِ مَا بِی حُبُّ الدُّنْیَا وَلَا صَبَابَةٌ بِكُمْ، وَلَكِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ آیَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، یَذْكُرُ فِیهَا النَّارَ وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِیًّافَلَسْتُ أَدْرِی كَیْفَ لِی بِالصَّدَرِ بَعْدَ الْوُرُودِفَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: صَحِبَكُمْ اللهُ وَدَفَعَ عَنْكُمْ، وَرَدَّكُمْ إلَیْنَا صَالِحِینَ

جب تین ہزارمجاہدین پر مشتمل یہ مختصرلشکر اس وقت کے سب سے بڑی عالمی مسیحی طاقت روم سے مقابلہ کے لئے شام کی طرف روانہ ہونے لگاتولوگ لشکرکے سردارکورخصت کرنے آئے جب سب سے رخصت ہوگئے توعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ رونے لگےلوگوں نے پوچھااے عبداللہ رضی اللہ عنہ !تم کیوں روتے ہو؟عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں دنیاکی کسی چیزکی محبت میں نہیں رورہاہوں لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی کتاب میں سے ایک آیت سنی ہے جس میں جہنم کاذکرہے’’تم میں سے کوئی ایسانہیں ہے جودوزخ پرواردنہ ہوگایہ اللہ کابڑاپکاوعدہ ہے۔‘‘اس لئے میں اس خوف سے روتاہوں کہ دوزخ پرواردہوکروہاں سے چھٹکاراکیونکرہوگا، مسلمانوں نے کہااے عبداللہ رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی حفظ وحمایت میں رکھے اوردشمن کومغلوب کرکے تمہیں صحیح وسالم ہم سے ملائے،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت یہ اشعارکہے۔

 لَكِنَّنِی أَسْأَلُ الرَّحْمَنَ مَغْفِرَةً ،وضربة ذَات فرغ تَقْذِفُ الزَّبَدا

میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کاطلبگارہوں ،اورتلوارکاایساوسیع گھاؤکھانے کی دعاکرتاہوں جوخون کے جھاگ ڈال رہاہو

أَوْ طَعْنَةً بِیَدَیْ حَرَّانَ مُجْهِزَةً ،بِحَرْبَةٍ تُنْفِذُ الْأَحْشَاءَ وَالْكَبِدَا

یاسامنے سےنیزے کی ایسی ضرب ، ،جوانتڑیوں اورجگرکے پارہوجائے

حَتَّى یُقَالَ إذَا مَرُّوا عَلَى جَدَثِی ، أَرْشَدَهُ اللهُ مِنْ غَازٍ وَقَدْ رَشَدَا

تاکہ جب لوگ میری طرف سے گزریں ،توکہیں اللہ تعالیٰ اس کونیکی دے یہ وہی شخص ہے جس نے جہادکیااورہدایت پائی۔[20]

ان کانام عبداللہ بن ثعلبہ بن امرءالقیس بن عمروبن امرءالقیس الاکبرانصاری خزرجی تھایہ قبیلہ بنوحارث سے تھے،ان کی کنیت ابومحمد،ایک قول کے مطابق ابورواحہ اورایک قول کے مطابق ابوعمرتھی،ان کی والدہ کانام کبشہ بنت واقدبن عمروبن اطنابہ تھایہ بھی بنوحارث بن خزرج قبیلہ کی تھیں ،یہ صحابی بیت عقبہ میں شریک تھے ،غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق،غزوہ حدیبیہ،عمرة القضا اورتمام دوسری جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے ،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کرنے والے شعراء میں سے تھے ،ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ دواشعاردرج ہیں

إنِّی تَفَرَّسْتُ فِیكَ الْخَیْرَ نَافِلَةً ،، اللهُ یَعْلَمُ أَنِّی ثَابِتُ الْبَصَرِ

میں نے آپ کی ذات میں کثیرعطایاوبخشش کی خوبی پائی،اللہ علیم ہے کہ میں اپنی اس رائے میں صحیح النظرہوں

أَنْتَ الرَّسُولُ فَمَنْ یُحْرَمْ نَوَافِلَهُ ،، وَالْوَجْهَ مِنْهُ فَقَدْ أَزْرَى بِهِ الْقَدَرُ

آپ سچے رسول ہیں جوشخص آپ کے عطایاوتوجہات سے، محروم رہاوہ بڑاہی بدنصیب رہا

ثُمَّ مَضَوْا حَتَّى نَزَلُوا مَعَانَ، مِنْ أَرْضِ الشَّامِ، فَبَلَغَ النَّاسَ أَنَّ هِرَقْلَ قَدْ نَزَلَ مَآبَ، مِنْ أَرْضِ البلقاء، فِی مائَة أَلْفٍ مِنْ الرُّومِ، وانضمّ إِلَیْهِم مل لَخْمٍ وَجُذَامٍ وَالْقَیْنِ وبهراء وبلىّ مائَة أَلْفٍ مِنْهُمْ، عَلَیْهِمْ رَجُلٌ مِنْ بَلِیٍّ ثُمَّ أَحَدُ إرَاشَةَ، یُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ زَافِلَةَ

جب اسلامی لشکر چلتے چلتے جنوبی اردن پہنچ کرمَعَانَ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، وہاں جاسوسوں نے انہیں خبردی کہ ہرقل نے ایک لاکھ رومیوں کااورایک لاکھ کالشکرقبائل لخم وجذام اوربہراء اورقین اوربلی سے جمع کیاہے اورشہرمآب میں جوبلقاء کامقام ہے آکرخیمہ زن ہے، اورقبائل کے لشکرپراس نے مالک بن زافلہ نامی ایک شخص کوسردار مقرر کیا ہے۔

اگراس تعدادکوتسلیم کرلیاجائے توجنگ میں فریقین میں جونسبت قرارپاتی ہے وہ عالمی تاریخ کی کسی جنگ میں اپنی مثال نہیں رکھتی تین ہزارمجاہدین کاایک بریگیڈدولاکھ کے لشکرسے نبردآزما ہونے کے لئے بڑھ رہاہے،دشمن کے لشکرکاایک حصہ جوایک لاکھ افرادپرمشتمل تھامسلمانوں سے پہلے رابطہ پیداکرنے کے لئے اگلی صفوں میں موجودتھابقیہ ایک لاکھ مآرب میں اس کی پشت پناہی کے لئے تیارتھا،یہ خواب کی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن پرانے مورخین میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔

اس جنگ کی سیاسی وجہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ تھی مسلمان یہ دعویٰ لے کرآئے تھے کہ رومی سلطنت کے زیرحفاظت امیرنے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی ہے اور ایک خودمختیارریاست کے سفیرکوقتل کردیاہے،عظیم سلطنت روماکواپنی عظمتوں کے پیش نظرسفارتی اعتمادکی بحالی اوراسلامی ریاست مدینہ منورہ کی خودمختاری کوتسلیم کرنے کے اظہارکے طورپراپنے زیرحفاظت امیرکے اس فعل کی تلافی کرناچاہیے تھی لیکن سلطنت رومانے اس کے خلاف قوت کامظاہرہ کرکے یہ ثابت کیاکہ وہ اسلامی ریاست مدینہ کی آزادی اورخودمختاری کوتسلیم کرنے سے انکارکرتی ہے،اس ریاست کاسفیرسلطنت روم کی نظرمیں سفیرنہیں ،تین ہزارکایہ معمولی لشکراسی سیاسی نکتے کی وضاحت کے لئے روانہ کیا گیاتھاکہ مسلمان کمزوراورکم تعدادہونے کے باوجوداپنی آزادی اورخودمختاری کی نفی کوبرداشت نہیں کریں گے ،اس کے مقابلے میں سلطنت رومانے دولاکھ آہن پوشوں کا سیل بے پناہ تیارکرکے اس نکتے کی وضاحت کی تھی کہ وہ مدینہ کے اس دعوے کوتسلیم نہیں کرتے اوربزورشمشیراسے اس دعوے سے دستبردارہونے پرمجبورکریں گے۔

فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الْمُسْلِمِینَ أَقَامُوا عَلَى مَعَانَ لَیْلَتَیْنِ یُفَكِّرُونَ فِی أَمْرِهِمْ وَقَالُوا: نَكْتُبُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخْبِرُهُ بِعَدَدِ عَدُوِّنَا، فَإِمَّا أَنْ یُمِدَّنَا بِالرِّجَالِ، وَإِمَّا أَنْ یَأْمُرَنَا بِأَمْرِهِ، فَنَمْضِیَ لَهُ، قَالَ: فَشَجَّعَ النَّاسَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، وَقَالَ: یَا قَوْمِ، وَاَللَّهِ إنَّ الَّتِی تَكْرَهُونَ، لَلَّتِی خَرَجْتُمْ تَطْلُبُونَ الشَّهَادَةُ، وَمَا نُقَاتِلُ النَّاسَ بِعَدَدِ وَلَا قُوَّةٍ وَلَا كَثْرَةٍ، مَا نُقَاتِلُهُمْ إلَّا بِهَذَا الدِّینِ الَّذِی أَكْرَمَنَا اللهُ بِهِ، فَانْطَلِقُوا فَإِنَّمَا هِیَ إحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ إمَّا ظُهُورٌ وَإِمَّا شَهَادَة

اس اطلاع پر ایک مجلس مشاورت بلائی گئی جس میں حالات کے پس وپیش پرغورکیاگیااوریہ تجویززیرغورآئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودشمن کی کثرت تعدادکی اطلاع دے کرآپ سے مدد طلب کریں یاتوآپ مزیدمجاہدین کوبھیج کرہماری مددفرمائیں گے یاکوئی دوسراحکم صادرفرمائیں گے توہم اس کی تعمیل کریں گے،اس پرلشکرکے تیسرے درجے کے کمانڈرابن رواحہ رضی اللہ عنہ جوشوق شہادت سے سرشارتھے نے تقریرکرکے لوگوں کوجوش دلایا اور فرمایا اے میری قوم ! جس بات کوتم آج ناپسندکرنے لگے ہو یہ وہی چیز ہے جس کی طلب میں تم نے یہ مسافت طے کی ہے ، ہم مخالفین سے افرادکی تعداد،کثرت اورقوت کے بل بوتے پرجہادنہیں کرتے بلکہ ہم توصرف اس دین کی سربلندی کے لئے جہاد کرتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ نے ہمیں سربلندی عطافرمائی ہے،پس اس کاامکان ہے کہ اللہ ہمیں غلبہ عطافرمادے اوراگرکوئی دوسری صورت پیش آئی تووہ شہادت ہی کی ہو سکتی ہے ،اورہردوصورتوں میں کوئی صورت بھی بری نہیں ۔

یہ مجاہدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست شفقت اورنگرانی میں تیارہوئے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپوراپورااندازہ تھاکہ یہ مجاہدین شہادت تو پاسکتے ہیں لیکن افرادی طاقت اورجنگی وسائل کی زیادتی کے خوف سے انہیں اپنامقام چھوڑنے پراورپسپاہونے پرمجبورنہیں کیاجاسکتا،یہی اندازہ اورعلم تھاجس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعدادووسائل کی کمی کے باوجوددشمن کی ہرللکارکاجواب میدان جنگ میں دیاکرتے تھے اورایک باربھی اس خدشہ کااظہارنہیں کیاکہ وسائل وتعدادکی کمی کہیں خطرہ کاباعث نہ بن جائے، غالباًیہی مجلس کے دوسرے ارکان کے دل کی آوازتھی۔

قَالَ:فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ وَاَللَّهِ صَدَقَ ابْنُ رَوَاحَةَ، فَمَضَى النَّاسُ، حَتَّى إذَا كَانُوا بِتُخُومِ الْبَلْقَاءِ لَقِیَتْهُمْ جَمُوعُ هِرَقْلَ، مِنْ الرُّومِ وَالْعَرَبِ، بِقَرْیَةِ مِنْ قُرَى الْبَلْقَاءِ یُقَالُ لَهَا مَشَارِفُ، ثُمَّ دَنَا الْعَدُوُّ، وَانْحَازَ الْمُسْلِمُونَ إلَى قَرْیَةٍ یُقَالُ لَهَا مُؤْتَةُ فَالْتَقَى النَّاسُ عِنْدَهَا فَتَعَبَّأَ لَهُمْ الْمُسْلِمُونَ، فَجَعَلُوا عَلَى مَیْمَنَتِهِمْ رَجُلًا مِنْ بَنِی عُذْرَةَ، یُقَالُ لَهُ: قُطْبَةُ بْنُ قَتَادَةَ ، وَعَلَى مَیْسَرَتِهِمْ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَهُ عُبَایَةُ بْنُ مَالِكٍ

اس پرمجاہدین اسلام بول پڑے اللہ کی قسم !ابن رواحہ رضی اللہ عنہ صحیح فرما رہے ہیں ،چنانچہ اللہ کے پرستاراورجانبازوں ،شہادتوں کے متمنی کی تین ہزارکی جمعیت اعداء اللہ کے ایک لاکھ کے کوہ گراں سے جنگ کافیصلہ کرکے بلقاء کی سرحدپرپہنچے تو شاہ روم کی فوجیں مشارف نامی بستی میں ان کے سامنے آگئیں ،مسلمان پیچھے ہٹ کربحر مردار کے جنوب مشرق میں بیت المقدس سے دومرحلہ (چوبیس میل)پرواقع مشہور شہرموتہ میں جوتلواریں بنانے کامرکزتھاجوپورے عرب میں اپنی کاٹ اورپختگی کی وجہ سے مشہورتھیں خیمہ زن ہوگئے ،پھر امیرلشکرزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نے وہیں لشکر کی صف بندی کی اورمیمنہ پرقطبہ بن قتادہ عذری اورمیسرہ پرعبایہ بن مالک یاعبادہ بن مالک انصاری کو مقرر کر کے لڑائی کے لئے تیارہوگئے۔

دشمن کوشایدیہ خیال ہوکہ یہ معمولی تعداداس کے سیل بے پناہ کودیکھ کرمرعوب ہوجائے گی اوراس کی عددی قوت کے سامنے راہ فراراختیارکرنے پرمجبورہوجائے گی لیکن ایسانہیں ہوا،مسلمانوں نے یہ حیرت انگیزکارنامہ دکھایاکہ ان کی تین ہزارکی تعدادبے دھڑک دشمن پرٹوٹ پڑی ۔

ان تین ہزارسربکف مجاہدوں نے رومیوں پردوباتیں واضح طورپرثابت کردیں ۔

x مسلمان رومیوں کی عددی برتری سے مرعوب نہیں ہیں ۔

x اسلامی ریاست کے جانبازاپنی آزادی اورخودمختاری پرکامل ایمان رکھتے ہیں اوروہ دنیاکی بڑی سے بڑی طاقت کومجبورکردیں گے کہ وہ اس کااحترام کرے۔

اس سے قبل مجاہدین کااتنی بڑی فوج سے مقابلہ نہیں ہواتھا،اس ٹکراؤکے بعدتاریخ انسانی کاعجیب ترین ، خوفناک اورسنگین معرکہ شروع ہوگیا

ثمَّ الْتَقَى النَّاسُ وَاقْتَتَلُوافَقَاتَلَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ بِرَایَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى شَاطَ فِی رِمَاحِ الْقَوْمِ،ثُمَّ أَخَذَهَا جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ بِهَا، حَتَّى إذَا أَلْحَمَهُ الْقِتَالُ اقْتَحَمَ عَنْ فَرَسٍ لَهُ شَقْرَاءَ، فَعَقَرَهَا، ثُمَّ قَاتَلَ الْقَوْمَ

تین ہزارمجاہدین سرپرکفن باندھ کردولاکھ آزمودہ کا ر لشکرجرارکاڈٹ کرمقابلہ کررہے تھے،ہتھیاروں سے لیس بھاری بھرکم رومی لشکردن بھران پرطوفانی لہروں کی طرح حملے کرتارہاجس میں ان کے بہت سے بہادراپنی جان گنوابیٹھے مگراس مختصرنفری کوپسپاکرنے میں کامیاب نہیں ہوئے،امیرلشکرزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم اٹھائے لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعت شہادت سے مشرف ہوکرزمین پرگرگئے،ان کے بعد جعفر رضی اللہ عنہ نے لپک کرعلم سنبھالااورخوب دلیری سے جنگ کی جب لڑائی کی شدت شباب کوپہنچی اورجعفر رضی اللہ عنہ کا سرخ وسیاہ گھوڑازخمی ہوگیاتوجعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے کی پشت سے کودپڑے اس کی کونچیں کاٹ دیں تاکہ ان کے بعد دشمن اسے حاصل کرکے اسی پرسوارہوکرمسلمانوں سے مقابلہ نہ کر سکے اوردشمن پربے جگری سے وار پروارکرتے اورروکتے رہے ،اس وقت وہ یہ پڑھتے جاتے تھے

یَا حَبَّذَا الْجَنَّةُ وَاقْتِرَابُهَا ، طَیِّبَةً وَبَارِدًا شَرَابُهَا

جنت اوراس کاقرب کیاہی پاکیزہ اورپسندیدہ ہے،اورپانی اس کانہایت ٹھنڈاہے

وَالروم روم قددنا عَذَابُهَا ، كَافِرَةٌ بَعِیدَةٌ أَنْسَابُهَا

اوررومیوں کاعذاب قریب آگیاہے،اوران کے نسب ہم سے بہت دورہیں ، یعنی ہم میں اوران میں کوئی قرابت نہیں

عَلَیَّ إذْ لَاقَیْتُهَا ضِرَابُهَا

مقابلہ کے وقت ان کامارنامجھ پرفرض اورلازم ہے۔

أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَخَذَ اللِّوَاءَ بِیَمِینِهِ فَقَطِعَتْ، فَأَخَذَهُ بِشِمَالِهِ فَقُطِعَتْ، فَاحْتَضَنَهُ بِعَضُدَیْهِ حَتَّى قُتِلَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب جنہوں نے دائیں ہاتھ میں جھنڈااٹھایاہواتھاوہ دشمن کی ضرب سےکٹ گیا،انہوں نے جھنڈابائیں ہاتھ میں لے لیااور بلند رکھا یہاں تک کہ ان کابایاں بازو بھی کاٹ دیا گیا پھردونوں باقی ماندہ بازؤں کی مددسے جھنڈاسینہ سے لگاکربلندرکھا اوروہ آسمانی فضامیں لہراتا رہا یہاں تک کہ وہ شہادت سے سرفرازہوگئے۔

 فَوَجَدْنَا فِیمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ بِضْعًا وَسَبْعِینَ بَیْنَ طَعْنَةٍ وَرَمْیَةٍ،

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے کچوکوں کے نوے سے زیادہ زخم تھے۔

فَلَمَّا قُتِلَ جَعْفَرٌ أَخَذَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ الرَّایَةَ، ثُمَّ تَقَدَّمَ بِهَا، وَهُوَ عَلَى فَرَسِهِ، فَجَعَلَ یَسْتَنْزِلُ نَفْسَهُ، وَیَتَرَدَّدُ بَعْضَ التَّرَدُّدِثُمَّ قَالَ:

ان کی شہادت کے بعدعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈالے لیااورآگے بڑھے اورخودکومقابلہ کے لئے تیار کرنے لگے لیکن ایک لمحہ کے لئے ان میں کچھ ترددلاحق ہوالیکن فوراًہی اپنے نفس کومخاطب کرکے کہنے لگے

أَقْسَمْتُ یَا نَفْسُ لَتَنْزِلِنَّهْ ،لَتَنْزِلِنَّ أَوْ لَتُكْرَهِنَّهْ

اے جان!اللہ کی قسم!تجھے میدان جنگ میں اترناپڑے گا ،خواہ خوشی خوشی خواہ ناگواری کے ساتھ

إِنْ أَجْلَبَ النَّاسُ وَشَدُّوا الرَّنَّهْ ، مَا لِی أَرَاكِ تَكْرَهِینَ الْجَنَّهْ

جب دشمن نے حملہ کردیا ہے اورجنگ کے نعرے لگ رہے ہیں توکیاوجہ ہے تو جنت سے گریز کررہی ہے

قَدْ طَالَ مَا قَدْ كُنْتِ مُطْمَئِنَّهْ ، هَلْ أَنْتِ إِلَّا نُطْفَةٌ فِی شَنَّهْ

توتوایک عرصہ سے اپنے دین پرمطمئن ہے،تیری حقیقت کیاہے؟پرانے مشکیزہ میں پانی کی ایک بوند

یَا نَفْسُ إِنْ لَا تُقْتَلِی تَمُوتِی ،هَذَا حِمَامُ الْمَوْتِ قَدْ صَلِیتِ

اے جان!اگرقتل نہیں ہوگی توآخرمرجائے گی،اب توموت کے حوض میں داخل ہوگئی ہے

وَمَا تَمَنَّیْتِ فَقَدْ أُعْطِیتِ ،إِنْ تَفْعَلِی فِعْلَهُمَا هُدِیتِ

اب تری آرزوبرآئی ہے اگرتو،اپنے دونوں دوستوں کاکرداراداکرے گی توراہ حق پالے گی

اس کے بعددشمن سے مقابلے پراترآئے

فَلَمَّا نَزَلَ أَتَاهُ ابْنُ عَمٍّ لَهُ بِعَرْقٍ مِنْ لَحْمٍ فَقَالَ: شُدَّ بِهَذَا صُلْبَكَ، فَإِنَّكَ قَدْ لَقِیتُ فِی أَیَّامِكَ هَذِهِ مَا لَقِیتُ،فَأَخَذَهُ مِنْ یَدِهِ ثُمَّ انْتَهَسَ مِنْهُ نَهْسَةً، ثُمَّ سَمِعَ الْحَطْمَةَ فِی نَاحِیَةِ النَّاسِ،فَقَالَ:وَأَنْتَ فِی الدُّنْیَا، ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ یَدِهِ، ثُمَّ أَخَذَ سَیْفَهُ فَتَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ

اسی اثنامیں آپ رضی اللہ عنہ کاچچیرابھائی ایک ہڈی لے کرآیاجس پرگوشت لگاہواتھااوربولااس کوچوس لوتاکہ اس کی قوت سے کچھ لڑسکو کیونکہ کئی دن تم پرفاقے کے گزرچکے ہیں ، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے اس گوشت میں سے ذراساکھایاتھاکہ لشکرکے ایک طرف سے شوروغل کی آوازآئی،بس اس گوشت کوپھینک کرلشکرکی طرف متوجہ ہوئےاورکہااے نفس! لوگ جہادکررہے ہیں اورتودنیامیں مشغول ہے،اور تلوارتھام کراپنے معمعہ نامی گھوڑے سے اترکردشمن سے لڑنے لگے اورلڑتے لڑتے شہیدہوگئے اورعلم ہاتھ سے گرگیا۔[21]

ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَةَ ثَابِتُ بْنُ أَقْرَمَ أَخُو بَنِی الْعَجْلانِ، فَقَالَ: یَا قَوْمِ اصْطَلِحُوا عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ،فَقَالُوا:أَنْتَ،قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، فَاصْطَلَحَ النَّاسُ عَلَى خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ ثُمَّ انْهَزَمَ الْمُسْلِمُونَ أَسْوَأَ هَزِیمَةٍ رَأَیْتُهَا قَطُّ حَتَّى لَمْ أَرَ اثْنَیْنِ جَمِیعًافأخذ خالد اللِّوَاءَ ثُمَّ حَمَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَهَزَمَهُمُ اللهُ أَسْوَأَ هَزِیمَةٍ رَأَیْتُهَا قَطُّ حَتَّى وَضَعَ الْمُسْلِمُونَ أَسْیَافَهُمْ حَیْثُ شَاءُوا

پھرانصارکے حلیف ثابت بن اقرم عجلانی بلوی رضی اللہ عنہ (بدری)نے لپک کر علم سنبھالااور کہااے مسلمانوں ! اپنے میں سے کسی ایک شخص کی سرداری پرمتفق ہوجاؤ ، سب نے کہاآپ ہمارے سپہ سالاربن جائیں ، انہوں نے کہامیں اس کااہل نہیں اوریہ کہہ کرجھنڈاخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کوپکڑادیاکہ آپ جنگ سے خوب واقف ہیں ،خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے امارت قبول کرنے میں کچھ تامل کیا کیونکہ ابھی ان کے اسلام پرتقریباًتین ہی ماہ گزرےاور انہوں نے ابھی تک کسی اسلامی لشکرکی کمان نہیں کی تھی لیکن مسلمانوں کے بے حد اصرار پر خالدابن ولیدمخزومی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لشکرکی کمان سنبھال لی،عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے شہیدہونے کے بعد مسلمان منتشراورشکستہ خاطرہوچکے تھے یہاں تک کہ کوئی دومسلمان بھی یک جانہ دیکھے جاتے تھے،جب خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفید جھنڈالے لیااورپھر رومیوں پرحملہ کردیااللہ نے انہیں ایسی بری شکست دی کہ میں نے ایسی شکست کبھی نہیں دیکھی تھی مسلمان جہاں چاہتے تھے وہیں اپنی تلواررکھتے تھے۔[22]

ثُمَّ انْحَازَ وَانْحِیزَ عَنْهُ، حَتَّى انْصَرَفَ بِالنَّاسِ

اورپھربڑی بہادری اوردلیری کے ساتھ لڑتے ہوئے مجاہدین اسلام کو واپس اپنی قیام گاہ پرلےآئے۔ [23]

خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ، یَقُولُ:لَقَدِ انْقَطَعَتْ فِی یَدِی یَوْمَ مُؤْتَةَ تِسْعَةُ أَسْیَافٍ فَمَا بَقِیَ فِی یَدِی إِلَّا صَفِیحَةٌ یَمَانِیَةٌ

خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدسے مروی ہےجنگ موتہ کے روزمیرے ہاتھ میں نوتلواریں ٹوٹ گئیں پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا(چھوٹی سی تلوار) باقی بچی [24]

خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ، یَقُولُ:لَقَدْ دُقَّ فِی یَدِی یَوْمَ مُؤْتَةَ تِسْعَةُ أَسْیَافٍ، وَصَبَرَتْ فِی یَدِی صَفِیحَةٌ لِی یَمَانِیَةٌ

ایک اورروایت میں خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکہتے ہیں جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں اوراختتام جنگ تک صرف ایک یمنی چوڑی تلوارمیرے ہاتھ میں موجودرہی۔[25]

مگروہ محسوس کررہے تھے کہ مٹھی بھر مسلمان رومیوں کے جم غفیرکامقابلہ نہیں کرسکیں گے اس لئے دشمن کومرعوب کرکے انہیں پیچھے ہٹالیناچاہیے تاکہ جب مسلمان پیچھے ہٹیں تو رومی ان کا تعاقب کرنے کی جرات نہ کرسکیں

فَلَمّا أَصْبَحَ غَدَا، وَقَدْ جَعَلَ مُقَدّمَتَهُ سَاقَتَهُ، وَسَاقَتَهُ مُقَدّمَتَهُ، وَمَیْمَنَتَهُ مَیْسَرَتَهُ، وَمَیْسَرَتَهُ مَیْمَنَتَهُ، فَأَنْكَرُوا مَا كَانُوا یَعْرِفُونَ مِنْ رَایَاتِهِمْ وَهَیّأَتْهُمْ وَقَالُوا: قَدْ جَاءَهُمْ مَدَدٌ! فَرُعِبُوا فَانْكَشَفُوا مُنْهَزِمِینَ

چنانچہ دوسرے روز خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے جنگی جوہرکامظاہرہ کرتے ہوئے لشکر کی ہیت میں تبدیلی کردی ،لشکرکے مقدمہ( اگلے دستے) کوساقہ (پیچھے دستہ) کی جگہ بھیج دیااورساقہ کومقدمہ کی جگہ کردیا،میمنہ (دائیں سمت کے دستے)کومیسرہ (بائیں سمت کے دستے)سے بدل دیا اس پردشمن کوخیال ہواکہ مسلمانوں کے پاس کمک پہنچ گئی ہے جس سے وہ مرعوب ہوگئے۔[26]

جب دونوں لشکرآمنے سامنے ہوئے اورکچھ دیرتک جھڑپیں ہوتی رہیں توخالد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکرکوآہستہ آہستہ پیچھے ہٹانا شروع کیارومی سمجھے کہ مسلمان انہیں صحراکی پہنائیوں میں پھینکنے کے لئے گھیرنے کے لئے جنگی چال چل رہے ہیں چنانچہ اس خوف سے وہ آگے نہ بڑھے اورنہ ہی مجاہدین کا تعاقب کیا

حَتَّى رَجَعَ بِهِمْ إِلَى الْمَدِینَة

جس کی وجہ سے خیروعافیت کے ساتھ مدینہ منورہ واپس پلٹ آئے۔[27]

ادھرجبکہ میدان جنگ سے کوئی خبرموصول نہیں ہوئی تھی،

فَانْطَلَقُوا فَلَبِثُوا مَا شَاءَ اللهُ،فَصَعِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَأَمَرَ فَنُودِیَ الصَّلاة جَامِعَةٌ، فَقَالَ:أَخَذَ الرَّایَةَ زَیْدٌ فَأُصِیبَ ،ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِیبَ،ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِیبَ، وَعَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ:حَتَّى أَخَذَ الرَّایَةَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللهِ، حَتَّى فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ وحی اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو میدان جنگ میں پیش آنے والے واقعات کی اطلاع دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپرجلوہ افروز ہوئےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنمازکے لئے جمع ہوجاؤکی منادی کرادی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمع ہوگئے توآپ کی آنکھوں سے سیل اشک رواں تھے، اورآپ نے فرمایا اے لوگو!مجاہدین یہاں سے روانہ ہوکردشمن سے نبردآزماہوئےپہلے زید رضی اللہ عنہ نے جھنڈالیااورشہیدہوگیا پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور دشمن پرسخت حملہ کیاپھروہ بھی شہید ہو گئے، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالااور ثابت قدمی سے کفارکے ساتھ جہادوقتال کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہیدہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے، پھر اس کے بعداللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے علم سنبھالا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوفتح دی۔[28]

حاکم کی روایت میں ہے کچھ سامان غنیمت میں ملاتھا۔

قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَةَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَاسْتُشْهِدَ ثُمَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ مُعْتَرَضًا فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْأَنْصَارِ، فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا اعترضُهُ؟ قَالَ: لَمَّا أَصَابَتْهُ الْجِرَاحُ نكل.فعاتب نفسه فتشجع، واستشهد ودخل الْجَنَّةَ، فَسُرِّیَ عَنْ قَوْمِهِ

ایک روایت میں یوں ہےپھرعبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ نے جھنڈالیااورشہیدہوئے پھروہ جنت میں کچھ رکتے رکتے داخل ہوئے،یہ بات سن کرانصارکورنج ہوااورکسی نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس کی کیاوجہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس وقت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کومیدان کارزارمیں زخم لگے تووہ (بشری تقاضہ کے تحت تھوڑی دیرکے لئے)سست ہوگئے اورپیش قدمی میں پس وپیش کرنے لگےپھرانہوں نے اپنے نفس کو ملامت کی اورہمت وشجاعت سے کام لیا اور شہید ہو کرجنت میں داخل ہوگئے، یہ سن کرانصارکی پریشانی دورہوئی۔[29]

أخوای ومؤنسای ومحدثای

جب زید رضی اللہ عنہ غزوہ موتہ میں شہیدہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روتے ہوئے ان کی شہادت کی خبرسنائی اورفرمایا یہ میرے بھائی ،میرے مونس اورمجھ سے بات چیت کرنے والے تھے۔[30]

لَمَّا بَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَتْلُ زَیْدٍ، وَجَعْفَرٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ، ذَكَرَ شَأْنَهُمْ، ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ، اللهُمَّ اغْفِرْ لِزَیْدٍ، اللهُمَّ اغْفِرْ لِجَعْفَرٍ، اللهُمَّ اغْفِرْ لِجَعْفَرٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ

ایک روایت میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوزید رضی اللہ عنہ ،جعفر رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبرملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ!زیدکوبخش دے،اے اللہ!زیدکوبخش دے،اے اللہ!جعفر رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرما،اے اللہ!جعفر رضی اللہ عنہ !کی مغفرت فرمااورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی بھی مغفرت فرما۔[31]

قیل وهو ابن خمس وخمسین سنة

شہادت کے وقت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کی عمرپچپن برس کی تھی۔[32]

قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ رَبَاحٍ فَوَجَدْتُهُ قَدْ اجْتَمَعَ إِلَیْهِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَیْشَ الْأُمَرَاءِ وَقَالَ:عَلَیْكُمْ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ، فجَعْفَرٌ، فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ، فعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ الْأَنْصَارِیُّ ،

خالد بن سمیر کہتے ہیں ایک مرتبہ ہمارے یہاں عبداللہ بن رباح آئے میں نے دیکھا کہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش امراء نامی لشکر کو روانہ کرتے ہوئے فرمایا تمہارے امیر زید بن حارثہ ہیں اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفرامیرہوں گے اگر جعفر بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ انصاری امیر ہوں گے،

فَوَثَبَ جَعْفَرٌ فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللهِ وَأُمِّی مَا كُنْتُ أَرْهَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَیَّ زَیْدًا قَالَ:امْضُوا، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِی أَیُّ ذَلِكَ خَیْرٌ قَالَ: فَانْطَلَقَ الْجَیْشُ فَلَبِثُوا مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، وَأَمَرَ أَنْ یُنَادَى الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَابَ خَبرٌ، أَوْ ثَابَ خَبَرٌ، شَكَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ جَیْشِكُمْ هَذَا الْغَازِی

اس پر جعفر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میرا خیال نہیں تھا کہ آپ زید رضی اللہ عنہ کو مجھ پر امیر مقرر کریں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم روانہ ہوجاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس بات میں خیر ہے؟ چنانچہ وہ لشکر روانہ ہوگیا کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور نماز تیار ہے کی منادی کرنے کا حکم دیا اور فرمایا ایک افسوس ناک خبر ہے کیا میں تمہیں مجاہدین کے اس لشکر کے متعلق نہ بتاؤں ؟

إِنَّهُمْ انْطَلَقُوا حَتَّى لَقُوا الْعَدُوَّ، فَأُصِیبَ زَیْدٌ شَهِیدًا، فَاسْتَغْفِرُوا لَهُ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ النَّاسُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَاءَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَشَدَّ عَلَى الْقَوْمِ حَتَّى قُتِلَ شَهِیدًا، أَشْهَدُ لَهُ بِالشَّهَادَةِ، فَاسْتَغْفِرُوا لَهُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَأَثْبَتَ قَدَمَیْهِ حَتَّى أُصِیبَ شَهِیدًا، فَاسْتَغْفِرُوا لَهُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَاءَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ وَلَمْ یَكُنْ مِنَ الْأُمَرَاءِ هُوَ أَمَّرَ نَفْسَهُ . فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُصْبُعَیْهِ وَقَالَ: اللهُمَّ هُوَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِكَ فَانْصُرْهُ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مَرَّةً: فَانْتَصِرْ بِهِ،فَیَوْمَئِذٍ سُمِّیَ خَالِدٌ سَیْفَ اللهِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:انْفِرُوا، فَأَمِدُّوا إِخْوَانَكُمْ، وَلَا یَتَخَلَّفَنَّ أَحَدٌ فَنَفَرَ النَّاسُ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ مُشَاةً وَرُكْبَانًا

وہ لوگ یہاں سے روانہ ہوئے اور دشمن سے آمنا سامنا ہوا تو زید رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ان کے لئے بخشش کی دعاء کرو، لوگوں نے ان کے لیے مغفرت کی دعاکی،پھر جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے جھنڈا پکڑا اور دشمن پر سخت حملہ کیا حتٰی کہ وہ بھی شہید ہوگئے میں ان کی شہادت کی گواہی دیتا ہوں لہٰذا ان کی بخشش کے لئے دعاء کرو،پھر عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا پکڑا اور نہایت پامردی سے ڈٹے رہے حتیٰ کہ وہ بھی شہید ہوگئے ان کے لئے بھی استغفار کرو ، پھر خالد بن ولید نے جھنڈا پکڑ لیا گو کہ کسی نے انہیں امیر منتخب نہیں کیا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی بلند کر کے فرمایا اے اللہ! وہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما، اسی دن سے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کا نام سیف اللہ پڑ گیا،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے کوچ کرو اور کوئی آدمی بھی پیچھے نہ رہے،چنانچہ اس سخت گرمی کے موسم میں لوگ پیدل اور سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔[33]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللهُمَّ إِنَّهُ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِكَ فَأَنْتَ تَنْصُرُهُ فَمِنْ یَوْمِئِذٍ سُمِّیَ سَیْفُ اللهِ

ایک روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ! خالدتیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے بس توہی اس کی مددفرمائے گااس دن کے بعدخالدبن ولید سیف اللہ کے لقب سے مشہورہوگئے۔[34]

انہوں نے ساری عمرشہادت کی تمنامیں جہادوقتال میں گزاری لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کی تلواربتایا تھا اس لئے اس تلوارکونہ کوئی توڑسکااورنہ ہی موڑسکا۔

وقتل زید فى غزوة مؤتة فى جمادى الاولى سنة ثمان من الهجرة وهو ابن خمس وخمسین سنة

زید رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں شہیدہوئے اس وقت ان کی عمرپچپن برس تھی۔[35]

أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:: كان بین رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ عَشْرُ سِنِینَ؛ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنْهُ

دوسری طرف ابن سعدمیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمیرے والدزیدبن حارثہ کی عمرمیں دس برس کا فرق تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بڑے تھے ،اگرابن سعد کی روایت درست تسلیم کی جائے توشہادت کے وقت زید رضی اللہ عنہ کی عمر۵۱،۵۲ سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔[36]

وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ:قَدِمَ یَعْلَى بْنُ مُنْیَةَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – بِخَبَرِ أَهْلِ مُؤْتَةَ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :إِنْ شِئْتَ فَأَخْبِرْنِی وَإِنْ شِئْتَ أَخْبَرْتُكَ ، قَالَ: أَخْبِرْنِی یَا رَسُولَ اللهِ، فَأَخْبَرَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَهُمْ كُلَّهُ، وَوَصَفَهُمْ لَهُ،فَقَالَ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا تَرَكْتَ مِنْ حَدِیثِهِمْ حَرْفًا وَاحِدًا لَمْ تَذْكُرْهُ، وَإِنَّ أَمْرَهُمْ لَكَمَا ذَكَرْتَ

موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں اہل موتہ کی خبریعلیٰ رضی اللہ عنہ بن امیہ لے کرآئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایااگرچاہوتوتم سارے واقعہ کی تفصیل بیان کرواوراگرچاہوتومجھ سے پوری روائداد سن لو، تووہ بولے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہی بتلائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوپوری خبربتادی توانہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم !آپ نے توپوراواقعہ بیان کر دیا ہے اورایک حرف بھی نہ چھوڑاجس کاتذکرہ نہ کیاہواورواقعات اس طرح ہیں جیسے آپ نے بیان فرمائے ہیں ،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللهَ رَفَعَ لِیَ الْأَرْضَ حَتَّى رَأَیْتُ مُعْتَرَكَهُمْ ومسعود بن الأوس، ووهب بن سعد بن أبی سرح، وعباد بن قیس، وَحَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، وسراقة بن عمرو بن عطیة، وأبو كلیب وجابر ابنا عمرو بن زید، وعامر وعمرو ابنا سعید بن الحارث، وَغَیْرُهُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے میرے آگے سے زمین کاپردہ ہٹادیاتھااورمیں نے پوری جنگی کاروائی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے،اوراس دن جعفر رضی اللہ عنہ ،زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ،مسعود رضی اللہ عنہ بن اوس،وہب رضی اللہ عنہ بن سعدبن ابی سرح،عباد رضی اللہ عنہ بن قیس،حارثہ رضی اللہ عنہ بن نعمان،سراقہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن عطیہ ،عمرو رضی اللہ عنہ بن زیدکے دونوں بیٹے ابوکلیب رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ اورسعد رضی اللہ عنہ بن حرث کے دونوں بیٹےعامر رضی اللہ عنہ اورعمرو رضی اللہ عنہ وغیرہ نے شہادت پائی۔[37]

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ لَمَّا جَاءَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ، جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْرَفُ فِیهِ الحُزْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ صَائِرِ البَابِ، تَعْنِی مِنْ شَقِّ البَابِ،فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَیْ رَسُولَ اللهِ إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍقَالَ: وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ،فَأَمَرَهُ أَنْ یَنْهَاهُنَّ،قَالَ: فَذَهَبَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَى، فَقَالَ: قَدْ نَهَیْتُهُنَّ، وَذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ یُطِعْنَهُ، قَالَ: فَأَمَرَ أَیْضًا فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ: وَاللهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا،فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فَاحْثُ فِی أَفْوَاهِهِنَّ مِنَ التُّرَابِ،قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللهُ أَنْفَكَ، فَوَاللهِ مَا أَنْتَ تَفْعَلُ، وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ العَنَاءِ

ام المومنین عائشہ ؓ سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوزیدبن حارثہ ؓ ، عبداللہ بن رواحہ ؓ اورجعفر ؓبن ابی طالب کی شہادت کی خبرملی توآپ کوانتہائی صدمہ ہوا،آپ مسجدمیں تشریف فرماتھے اورآپ کے چہرہ پررنج وملال کے آثارظاہرتھےمیں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی،ایک آدمی آیااورکہنے لگااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جعفر رضی اللہ عنہ کی عورتیں چلاکررورہی ہیں ،آپ نے اس کاحکم دیاکہ ان کومنع کرے،تھوڑی دیرکے بعدآکرکہنے لگااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے ان کومنع کیاہے لیکن وہ بازنہیں آتیں اورانہوں نے میراکہانہیں مانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع کرنے کے لیے فرمایا،وہ صاحب پھرجاکرواپس آئے اورکہااللہ کی قسم !وہ توہم پرغالب آگئی ہیں ،عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤان کے منہ میں مٹی ڈالو، ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں نے کہااللہ تیری ناک غبارآلودکرے نہ توتوعورتوں کوروک سکانہ تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف دینا ہی چھوڑا۔[38]

قَالَ:تَقُولُ وَرُبَّمَا ضَرَّ التَّكَلُّفُ أَهْلَهُ

ابن اسحاق کی روایت میں ہےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہااکثرتکلف کرنے والے نقصان اٹھاتے ہیں ۔[39]

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ وَقَفَ عَلَى جَعْفَرٍ یَوْمَئِذٍ، وَهُوَ قَتِیلٌ، فَعَدَدْتُ بِهِ خَمْسِینَ، بَیْنَ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ، لَیْسَ مِنْهَا شَیْءٌ فِی دُبُرِهِ یَعْنِی فِی ظَهْرِهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہےمیں نے جنگ موتہ کے روزجعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدان کے پاس کھڑے ہوکران کے جسم پرنیزے اورتلواروں کے پچاس زخم شمارکیے یہ سارے زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں آئے تھے۔[40]

فَوَجَدْنَاهُ فِی القَتْلَى، وَوَجَدْنَا مَا فِی جَسَدِهِ بِضْعًا وَتِسْعِینَ، مِنْ طَعْنَةٍ وَرَمْیَةٍ

ایک دوسری روایت میں ہےمیں بھی اس جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ شریک تھاہم نے جعفر رضی اللہ عنہ کوتلاش کیاتوانہیں مقتولین میں پایااوران کے جسم پرنیزے اور تیرکے نوے سے زیادہ زخم تھے۔[41]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتُ جَعْفَرًا یَطِیرُ فِی الجَنَّةِ مَعَ الْمَلاَئِكَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوفرشتوں کے ساتھ اڑتے ہوئے دیکھاہے۔[42]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ مَرَّ مَعَ جِبْرِیلَ وَمِیكَائِیلَ، لَهُ جَنَاحَانِ، عَوَّضَهُ اللهُ مِنْ یَدَیْهِ، یَطِیرُ بِهِمَا فِی الْجَنَّةِ حَیْثُ شَاءَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جعفرابن ابوطالب جبرائیل علیہ السلام اورمیکائیل علیہ السلام کے ساتھ اڑرہاہےاللہ نے انہیں دوبازوؤں کے عوض دوپر عطا کردیئے ہیں جن کے ذریعہ سے وہ(جنت میں ) جہاں چاہتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں ۔[43]

عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَنِیئًا لَكَ یَا عَبْدَ اللهِ، أَبُوكَ یَطِیرُ مَعَ الْمَلَائِكَةِ فِی السَّمَاءِ

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایااے عبداللہ !تمہیں مبارک ہوتیراباپ آسمانوں پر فرشتوں کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے۔[44]

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ إِذَا سَلَّمَ عَلَى ابْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْكَ یَا ابْنَ ذِی الجَنَاحَیْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوسلام کہتے توفرماتے اے ذوالجناحین کے بیٹے !السلام علیکم!۔[45]

فلهذا یُقال له: ذو الجَنَاحَیْنِ،ویقال له الطیارُ

اس لئے ان کالقب جعفر رضی اللہ عنہ (دوبازوں والا) اور جعفر رضی اللہ عنہ طیار(اڑنے والا) اور پڑگیا۔ [46]

وَانْكَشَفَ النّاسُ فَكَانَتْ الْهَزِیمَةُ. وَاتّبَعَهُمْ الْمُشْرِكُونَ فَقَتَلَ مَنْ قُتِلَ مِن الْمُسْلِمِین

ابن سعدنے لکھاہےمسلمان بھاگے ان کوشکست ہوگئی ،مشرکین نے ان کاتعاقب کیامسلمانوں میں سے جوقتل ہوگیاوہ ہوگیا۔[47]

حَتَّى فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِمْ

جبکہ صحیح بخاری میں لکھاہےاللہ تعالیٰ نے ان (خالدبن ولید رضی اللہ عنہ ) کےہاتھ پرفتح عنایت فرمائی۔[48]

إِمْرَةٍ فَفُتِحَ لَهُ

اوران(مجاہدین) کوفتح حاصل ہوئی۔[49]

فریقین کے مقتولین:

یہ جنگ ایک ہفتہ جاری رہی جس میں ابن اسحاق کے مطابق بارہ مسلمان شہیدہوئے،جن کے نام یہ ہیں ۔

زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ۔جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب۔عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انصاری خزرجی(مسلمانوں نے تینوں شہیدسپہ سالاروں کوایک ہی قبرمیں دفن کردیا)مسعودبن اوس۔وہب بن سعدبن ابی سرح۔عبادہ بن قیس۔حارثہ بن نعمان۔سراقہ بن عمروبن عطیہ،عمروبن زیدکے دونوں بیٹے ابوکلیب اورجابر۔اورسعدبن حارث کے دونوں بیٹے عمرواورعاصم۔

لیکن دشمن کے مقتولین کی صحیح تعدادمعلوم نہ ہوسکی،مگرانداز ہ لگایاجاسکتاہے کہ جب دوران امیرلشکرخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے ہاتھوں سے نوتلواریں ٹوٹ گئیں توزخمیوں اورمقتولین کی تعدادکیاہوگی ۔

غزوہ موتہ کے اثرات :

موتہ کے میدان میں نڈراوردلیراسلامی لشکرنے اپنی قلیل تعدادکے باوجوداپنے دورکی طاقت ورترین مملکت کے دولاکھ جنگجوؤں سے ٹکرانے اورکوئی بڑانقصان اٹھائے بغیر واپس آجانے سے صحرائے شام کے سرحدی علاقوں کے مسیحی عرب قبائل کواوران کی وساطت سے رومی سلطنت کوچوکناکردیااوررومی سلطنت نے اپنے ان علاقوں میں اسلام کی بڑھتی اورپھیلتی ہوئی قوت کوتشویش کی نگاہوں سے دیکھناشروع کردیا،اس کاایک نتیجہ یہ ہواکہ مدینے پرغسانیوں (سرحدی قبیلے)کاخطرہ محسوس کیاجانے لگا،غسانیوں کایہ خطرہ اتنازیادہ ہوگیاتھاکہ مدینے کے رہنے والوں کوہرآن اس کاکھٹکالگارہتاتھا،چنانچہ جب واقعہ ایلاکی خبرعام ہوئی توعتبان رضی اللہ عنہ بن مالک ، سیدناعمرفاروق کے پاس بھاگے ہوئے آئے اورگھبراکرکہاغضب ہوگیا،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جوسوال دفتعاًپوچھاوہ یہ تھاکیوں خیرہے؟کیاغسانی آگئے ؟ قبائل عرب بنوسلیم ، اشجع، بنوغطفان، ذبیان اورفزارہ وغیرہ نے اچھی طرح سمجھ لیاکہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے،اس لئے بہت جلد ان قبائل نے اسلام قبول کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ، اوروہ ہزاروں کی تعدادمیں مسلمان ہوگئے۔

فروہ رضی اللہ عنہ بن عمروالجذامی کی شہادت

وَبعث إِلَى فَروة بن عَمْرو الجُذامیّ یَدعُوهُ إِلَى الإِسلام. وَقیل: لم یبْعَث إِلَیْهِ، وَكَانَ عَاملا لقیصر بمُعان، فأسلَمَ،وَكتب بِإِسْلَامِهِ، وَبعث هدیّةً مَعَ مَسْعُود بن سعد، وَهِی بَغلة شَهباء، یُقال لَهَا: فِضَّة، وفَرس یُقَال لَهُ الضَّرب وحِمار یُقَال لَهُ: یَعفور وأثواب، وقَباء سُنْدُس مُخوَّص بِالذَّهَب، فَقَرَأَ النبیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كتابَه، وقِبل هدیته،وفرّق الأثواب فِی نِسَائِهِ، وَأعْطى القَباء مخرَمَة بن نَوْفَل

اسی زمانے میں بنوجذام کے ایک شخص فروہ بن عمروقسطنطنیہ کی رومی سلطنت کی طرف سے عرب کے شمالی حصے کے گورنرتھے،ان کادارالحکومت عمان تھااورفلسطین کامتصلہ علاقہ بھی انہی کی حکومت میں تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں دعوت اسلام ملی توانہوں نے اسے دل وجاں سے قبول کرلیاپھرایک قاصد کواپنے اسلام قبول کرنے کی اطلاع دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں روانہ کیااوراس کےساتھ انہوں نے فضہ نامی سیاہ وسفیدخچر،ضرب نامی گھوڑا،ایک گدھاجس کانام یعفورتھا(وہ یعفوردوسراتھاجووالی مصرمقوقس نے ہدیتہ بھیجاتھا)اورایک قیمتی کپڑے سندس کی قباجس پرسنہری کام کیا ہواتھاان کے علاوہ بہت سے کپڑے اوردوسری اشیاء بھی تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانامہ پڑھا اوراس کے یہ تحائف قبول فرمالئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے ازواج مطہرات میں تقسیم فرمادیئے اورقیمتی کپڑے کی قبامخرمہ بن نوفل کوعطافرمادی۔[50]

فَلَمَّا بَلَغَ الرُّومَ ذَلِكَ مِنْ إسْلَامِهِ، طَلَبُوهُ حَتَّى أَخَذُوهُ، فَحَبَسُوهُ عِنْدَهُم،فَلَمَّا أَجَمَعَتْ الرُّومُ لِصَلْبِهِ عَلَى مَاءٍ لَهُمْ، یُقَالُ لَهُ عَفْرَاءُ بِفِلَسْطِینَ

جب شاہ روم کوفروہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تواس نے انہیں اپنے پاس بلایاپہلے تو انہیں اسلام ترک کرنے کی ترغیب دی مگرانہوں نے اس بے بہا نعمت کوترک کرنے سے انکارکردیا چنانچہ انہیں زندان میں ڈال دیاگیاجب قیدوبندکے دوران ظلم وستم بھی فروہ رضی اللہ عنہ کواسلام سے منحرف کرنے میں ناکام ہوگئیں توانہیں پھانسی پرلٹکانے کاحکم صادرکردیاگیاچنانچہ انہیں فلسطین میں عفرانامی ایک چشمہ یاتالاب کے کنارے پھانسی دینے کااہتمام کیاگیاجب فروہ رضی اللہ عنہ بن عمروکوپھانسی کی جگہ لایاگیاتوانہوں نے کہا۔

أَلَا هَلْ أَتَى سَلْمَى بِأَنَّ حَلِیلَهَا،عَلَى مَاءِ عِفْرَى فَوْقَ إِحْدَى الرَّوَاحِلِ

کیاسلمیٰ کویہ خبرمل چکی ہے کہ اس کاشوہر،عفراتالاب کے کنارے ایک سواری پرسوارہے

عَلَى نَاقَةٍ لَمْ یَضْرِبْ الْفَحْلُ أُمَّهَا، یشدّ به أَطْرَافُهَا بِالْمَنَاجِلِ

وہ ایسی اونٹنی پرسوارہے جس کی ماں کے پاس نرنہیں گیا،اوراس کے ہاتھ پاؤں درانتیوں سے کاٹ دیئے گئے ہیں

جان دینے سے قبل انہوں نے یہ شعربھی پڑھا۔

بَلِّغْ سَرَاةَ الْمُسْلِمِینَ بِأَنَّنِی ،سِلْمٌ لِرَبِّی أَعْظُمِی وَمَقَامِی

مسلمانوں کے سردارکویہ خبرپہنچادوکہ میں ،اپنی ہڈیوں اوراپنے مقام کواپنے رب کے سپردکرنے والاہوں ۔

اس کے بعدانہوں نے ہنسی خوشی جام شہادت نوش فرمالیا۔[51]

سریہ عمرو ؓ بن العاص(ذات السلاسل کی طرف)،جمادی الآخرہ آٹھ ہجری(اکتوبر۶۲۹ء)

وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ نُزُولَهُمْ عَلَى مَاءٍ لِجُذَامَ، یُقَالُ لَهُ: السَّلْسَلُ، قَالَ: وَبِذَلِكَ سُمِّیَتْ ذَاتَ السَّلَاسِلِ

ابن اسحاق کے مطابق مجاہدین اسلام قبیلہ جذام کی سرزمین میں واقع سلسل نامی ایک کنویں پراترے تھے اس لئے اس سریہ کانام ذات السلاسل پڑگیا۔[52]

وقیل سمیت كذلك لأن المشركین ارتبط بعضهم إلى بعض وقیل لأن الأرض التی كانوا فیها ذات رمل ینعقد بعضه على بعض كالسلسلة

ایک روایت ہےاور کہا جاتاہے مشرکوں نے اس خوف سے کہ ان کے آدمی جنگ سے بھاگ کرنہ جائیں اس لئےایک دوسرے کوزنجیروں سے باندھ رکھاتھااس لئے اس معرکہ کانام ذات السلاسل پڑگیا ۔

بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ جَمْعًا مِنْ قُضَاعَةَ قَدْ تَجَمَّعُوا یُرِیدُونَ أَنْ یُدْنُوا إِلَى أَطْرَافِ الْمَدِینَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ قضاعہ کے لوگ غزوہ موتہ میں مسلمانوں کی شکست سے فائدہ اٹھاکرمدینہ منورہ پرحملہ کے لئے جمع ہورہے ہیں ۔

غزوہ موتہ میں خالدبن ولید رضی اللہ عنہ رومی فوج کے مقابلہ میں اپنی اعلیٰ جنگی صلاحیت ومہارت کاسکہ بٹھا چکے تھے ،چنانچہ اس کے ایک ماہ بعدعمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی باری آئی ،

عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، یَقُولُ:بَعَثَ إِلَیَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:خُذْ عَلَیْكَ ثِیَابَكَ وَسِلَاحَكَ ، ثُمَّ ائْتِنِی فَأَتَیْتُهُ وَهُوَ یَتَوَضَّأُ فَصَعَّدَ فِیَّ النَّظَرَ ثُمَّ طَأْطَأَهُ، فَقَالَ:إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَبْعَثَكَ عَلَى جَیْشٍ فَیُسَلِّمَكَ اللهُ وَیُغْنِمَكَ، وَأَزْعبُ لَكَ مِنَ الْمَالِ رَغْبَةً صَالِحَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَسْلَمْتُ مِنْ أَجْلِ الْمَالِ، وَلَكِنِّی أَسْلَمْتُ زَعْبَةً فِی الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَكُونَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ:یَا عَمْرُو، نِعْمًا بِالْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اپنے کپڑے اور اسلحہ زیب تن کر کے میرے پاس آؤ، میں جس وقت حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا پھر نظریں جھکا کر فرمایا میرا ارادہ ہے کہ تمہیں ایک لشکر کا امیر بنا کر روانہ کروں ، اللہ تمہیں صحیح سالم اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے گااور میں تمہارے لئے مال کی اچھی رغبت رکھتا ہوں ،میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے مال و دولت کی خاطر اسلام قبول نہیں کیا، میں نے دلی رغبت کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اور اس مقصد کے لئے کہ مجھےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہو جائے،آپ نے فرمایااے عمرو رضی اللہ عنہ !حلال وطیب مال ایک صالح ومتقی کے لئے بہترین نعمت ہے۔[53]

فَعَقَدَ لَهُ لِوَاءً أَبْیَضَ، وَجَعَلَ مَعَهُ رَایَةً سَوْدَاءَ، وَبَعَثَهُ فِی سَرَاةِ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ فِی ثَلَاثِمِائَةِ، عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَصُهَیْبُ بْنُ سِنَانٍ، وَأَبُو الْأَعْوَرِ سَعِیدُ بْنُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقّاصٍ، وَمِنْ الْأَنْصَارِ: أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، وَعَبّادُ بْنُ بِشْرٍ، وَسَلَمَةُ بْنُ سَلَامَةَ، وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ ،وَمَعَهُمْ ثَلَاثُونَ فَرَسًا وَأَمَرَهُ أَنْ یَسْتَعِینَ بِمَنْ مَرَّ بِهِ مِنْ بَلِیٍّ، وَعُذْرَةَ، وَبَلْقَیْنِ

پھرآپ نے ان کوایک سفید رنگ کا اور ایک سیاہ رنگ کاجھنڈادیااور تین سوسرکردہ مہاجرین ونصار کا لشکر دے کرقضاعہ کی سرکوبی کے لئے مدینہ منورہ سے دس منزل دور شام کی سرحدپرواقع مقام ذات السلاسل کی طرف روانہ کیااورلشکراسلام میں عامربن ربیعہ ،صہیب بن سنان ، ابوالاعورسعیدبن زیدبن عمروبن نفیل ،سعدبن ابی وقاص اورانصارمیں سے اسیدبن حضیر،عبادبن بشر،سلمہ بن سلامہ اورسعدبن عبادہ شامل تھےاور مجاہدین اسلام کے پاس تیس گھوڑے بھی تھےاورانہیں ہدایت فرمائی کہ جاتے ہوئے قبائل بلی،عذرہ اوربلقین سے بھی مددحاصل کرلیں (بلی ایک بڑاقبیلہ تھاجوبلی بن عمروبن الحاف بن قضاعہ کی طرف اورعذرہ ،عذرہ بن قضاعہ کی طرف منسوب تھااور ان قبائل کی بستیاں ذات القریٰ کے سرے پرواقع تھیں )

فَسَارَ اللیْلَ، وَكَمَنَ النَّهَارَ فَلَمَّا قَرُبَ مِنَ الْقَوْمِ بَلَغَهُ أَنَّ لَهُمْ جَمْعًا كَثِیرًا، فَبَعَثَ رافع بن مكیث الجهنی إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَمِدُّهُ،فَبَعَثَ إِلَیْهِ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فِی مِائَتَیْنِ، وَعَقَدَ لَهُ لِوَاءً، وَبَعَثَ لَهُ سَرَاةَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ، وَفِیهِمْ أبو بكر وعمر، وَأَمَرَهُ أَنْ یَلْحَقَ بعمرو، وَأَنْ یَكُونَا جَمِیعًا وَلَا یَخْتَلِفَافَلَمَّا لَحِقَ بِهِ أَرَادَ أبو عبیدة أَنْ یَؤُمَّ النَّاسَ فَقَالَ عمرو: إِنَّمَا قَدِمْتَ عَلَیَّ مَدَدًا وَأَنَا الْأَمِیرُ فَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ: كَلّا، بَلْ أَنْتَ أَمِیرُ أَصْحَابِك وَهُوَ أَمِیرُ أَصْحَابِهِ،فَلَمّا رَأَى أَبُو عُبَیْدَةَ الِاخْتِلَافَ وَكَانَ حَسَنَ الْخُلُقِ، لَیّنَ الشّیمَة، قَالَ : إذَا قَدِمْت عَلَى صَاحِبِك فَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَاوَإِنّك وَاَللهِ إنْ عَصَیْتنِی لَأُطِیعَنّكَ!

رازداری کے پیش نظر مجاہدین دن کے وقت چھپے رہتے اور رات میں سفرجاری رکھتے،جب محاذ جنگ کے قریب پہنچے تومعلوم ہواکہ دشمن کی فوج زیادہ ہےاس لئے مزیدمدد ونصرت کے لئے انہوں نے رافع بن مکیث جہنی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کودوسوآدمیوں کالشکرجن میں سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے دے کران کی مدد کے لئے روانہ کیااورتاکیدفرمائی کہ محاذجنگ پرمل کرکام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا،جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تونمازکاوقت ہوگیاابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے امامت کرنی چا ہی،اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے مرتبے اورشان کے لحاظ سے پوری طرح امارت کے مستحق تھے لیکن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے کہاامیرلشکرمیں ہوں آپ تو میری مددکے لئے آئے ہیں اس لئے نمازکی امامت میراحق ہے،مہاجرین نے کہا ہرگزنہیں آپ اپنے دستہ کے امیرہیں اوریہ اپنے دستہ کا امیرہوں گےابوعبیدہ رضی اللہ عنہ جونرم مزاج اوردینوی شان وشوکت اورحکومت سے لاپرواہ واقع ہوئے تھے نے جب اختلاف دیکھاتو کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلتے وقت مجھے ہدایت فرمائی تھی کہ آپس میں متفق رہنااورباہم اختلاف نہ کرنالہذامیں تمہاری اطاعت کروں گااگرچہ تم میری مخالفت کرو!

فَأَطَاعَ أَبُو عُبَیْدَةَ، فَكَانَ عَمْرٌو یُصَلّی بِالنّاسِ ، وَكُلّمَا انْتَهَى إلَى مَوْضِعٍ بَلَغَهُ أَنّهُ كَانَ بِهَذَا الْمَوْضِعِ جَمَعَ فَلَمّا سَمِعُوا بِهِ تَفَرّقُوا، حَتّى انْتَهَى إلَى أَقْصَى بِلَادِ بَلِیّ وَعُذْرَةَ وَبَلْقَیْن، وَلَقِیَ فِی آخِرِ ذَلِكَ جَمْعًا لَیْسَ بِالْكَثِیرِ، فَقَاتَلُوا سَاعَةً وَتَرَامَوْا بِالنّبْلِ، وَرُمِیَ یَوْمئِذٍ عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ بِسَهْمٍ فَأُصِیبَ ذِرَاعُهُ. وَحَمَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلَیْهِمْ فَهَرَبُوا، وَأَعْجَزُوا هَرَبًا فِی الْبِلَادِ وَتَفَرّقُوا عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ثُمَّ أَنِّی بُعِثْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِفَتْحٍ

ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اطاعت اختیارکرلی اورعمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے لوگوں کونمازجمعہ پڑھائی،پھرسب مجاہدین مل کربنوقضاعہ میں پہنچے اور ان پرحملہ کردیا،کچھ دیرتک لڑائی ہوتی رہی اورفریقین ایک دوسرے پرتیر برساتے رہےبالآخرکفار شکست کھا کر بھاگ گئے اورمختلف اطراف میں منتشر ہو گئے، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی بشارت اوراپنی واپسی کی اطلاع دینے کے لئے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔[54]

قَالَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ: فَقَدِمْت عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی السّحَرِ وَهُوَ یُصَلّی فِی بَیْتِهِ، فَسَلّمْت عَلَیْهِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ؟ قُلْت: عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ یَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: صَاحِبُ الْجَزُورِ؟ قُلْت: نَعَمْ، وَلَمْ یَزِدْ عَلَى هَذَا شَیْئًا ثُمّ قَالَ:أَخْبِرْنِی! فَأَخْبَرْته بِمَا كَانَ فِی مَسِیرِنَا وَمَا كَانَ بَیْنَ أَبِی عُبَیْدَةَ بْنِ الْجَرّاحِ وَبَیْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَمُطَاوَعَةِ أَبِی عُبَیْدَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَرْحَمُ اللهُ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرّاحِ!

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے ہجرےمیں نمازپڑھ رہے تھے،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاعوف بن مالک ہیں ؟میں نے عرض کیاے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عوف بن مالک ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالشکرکاامیر؟ میں نے عرض کیاجی ہاں ،اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں کہا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاہاں کے حالات بیان کرو، چنانچہ میں نے وہاں کے تمام احوال اورابوعبیدہ بن الحراح رضی اللہ عنہ اورعمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے درمیان جوکچھ ہواوہ بھی عرض کیایہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ پررحم فرما۔[55]

امیرلشکرعمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے غلبہ کے بعد اردگردکے قبائل پرمسلمانوں کااثرونفوذاوررعب ودبدبہ قائم کرنے کے لئے کچھ روزوہاں قیام کیااورمختلف اطراف میں سوار دستوں کو روانہ فرماتے رہے ،وہ اونٹ اور بکریاں وغیرہ پکڑکرلاتے اورمجاہدین پکاکرانہیں کھاتے رہے،اس سفرمیں ایک واقعہ پیش آیا

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: فَاحْتَلَمْتُ فِی لَیْلَةٍ بَارِدَةٍ شَدِیدَةِ الْبَرْدِ، فَأَشْفَقْتُ إِنْ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلَكَ، فَتَیَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّیْتُ بِأَصْحَابِی صَلَاةَ الصُّبْحِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:یَا عَمْرُو، صَلَّیْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی احْتَلَمْتُ فِی لَیْلَةٍ بَارِدَةٍ شَدِیدَةِ الْبَرْدِ، فَأَشْفَقْتُ إِنْ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلَكَ، وَذَكَرْتُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیمًا} [56] فَتَیَمَّمْتُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ ذات السلاسل میں مجھے احتلام ہوگیا شدیدسردیوں کے دن تھے،غسل کرنے میں انہیں اپنی جان کاخطرہ لاحق ہوا اس لئے میں نے غسل نہ کیااورتیمم کرکے اپنے ساتھیوں کو نمازفجر پڑھائی،واپسی پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمرو رضی اللہ عنہ !تونے اپنے ساتھیوں کو جنابت کی حالت میں نمازپڑھائی،میں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان کاخطرہ تھا’’اوراللہ تعالیٰ کافرمان ہےاور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اُوپر مہربان ہے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کاجواب سن کرمسکرائے اورکچھ نہ فرمایا۔[57]

فضائل ومحاسن اوراخلاق وعادات کے اعتبارسے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نہایت ارفع واعلی مقام پر فائز تھے ،

عمر بن الخطاب أَرْسَلَ إِلَى أَبِی عُبَیْدَةَ بِأَرْبَعَةِ آلافِ دِرْهَمٍ وَأَرْبَعِمِائَةِ دِینَارٍ. وَقَالَ لِلرَّسُولِ: انْظُرْمَا یَصْنَعُ ،قَالَ فَقَسَمَهَا أَبُو عُبَیْدَةَ ، قَالَ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مُعَاذٍ بِمِثْلِهَا وَقَالَ لِلرَّسُولِ مِثْلَ مَا قَالَ. فَقَسَمَهَا مُعَاذٌ إِلا شَیْئًا قَالَتِ امْرَأَتُهُ نَحْتَاجُ إِلَیْهِ، فَلَمَّا أَخْبَرَ الرَّسُولُ عُمَرَ قَالَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَ فِی الإِسْلامِ مَنْ یَصْنَعُ هَذَا

ابن سعدمیں ہےایک مرتبہ سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں چارسودیناراورچارہزاردرہم بھیجے اور قاصد سے کہایہ دیکھناکہ وہ اس رقم کاکیاکرتے ہیں ،ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حصے کی تمام رقم فوج میں تقسیم کردی، اورپھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ نےمعاذ رضی اللہ عنہ کوبھی چارسو دینار اور چار ہزاردرہم بھیجےاورقاصدسے کہایہ دیکھناکہ وہ اس رقم کاکیاکرتے ہیں ، معاذ رضی اللہ عنہ نے نے بھی چند درہم ودینارکے سواجوانہوں نے اپنی اہلیہ کے کہنے پر گھریلو ضروریات کے لیے رکھ لیے تھے تمام رقم مستحقین میں تقسیم کردی،جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ کومعلوم ہوا تو بے اختیار ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے الحمداللہ کہ مسلمانوں میں ایسےلو گ بھی موجودہیں جن کی نظروں میں سیم وزرکی کچھ حقیقت نہیں ۔[58]

انہوں نے طاعون عمواس میں شام میں وفات پائی،

ابُو عُبَیْدَةَ یَوْمَ مَاتَ ابْنُ ثَمَانٍ وَخَمْسِینَ سَنَةً

جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اس وقت ان کی عمراٹھاون برس تھی۔

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے تجہیزتکفین کاسامان کیا،ان کی نمازجنازہ پڑھائی ،عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص اورضحاک رضی اللہ عنہ بن قیس قبرمیں اترے اوراسلام کے اس آفتاب جہانتاب کوسپردخاک کردیا۔

سریہ حارث رضی اللہ عنہ بن ربعی انصاری(ابوقتادہ ) رضی اللہ عنہ (خضرہ کی طرف) شعبان آٹھ ہجری

قَالُوا: بَعَثَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا قَتَادَةَ وَمَعَهُ خَمْسَةَ عَشَرَ رَجُلا إِلَى غَطَفَانَ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَشُنَّ عَلَیْهِمُ الْغَارَةَ،فَسَارَ اللیْلَ وَكَمَنَ النَّهَارَ فَهَجَمَ عَلَى حَاضِرٍ مِنْهُمْ عَظِیمٍ فَأَحَاطَ بِهِ، فَصَرَخَ رجل منهم یا خضرة ، وقاتل منهم رجال فقتلوا من أشرف لَهُمْ، وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ فَكَانَتِ الْإِبِلُ مِائَتَیْ بَعِیرٍ وَالْغَنَمُ أَلْفَیْ شَاةٍ وَسَبَوْا سَبْیًا كَثِیرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااطلاع ملی کہ بنوغطفان قبیلہ محارب کے علاقہ میں خضرہ نامی جگہ پرلوگ جمع کررہے ہیں ان کی سرکوبی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث رضی اللہ عنہ بن ربعی جن کی کنیت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تھی کو پندرہ مجاہدین کاامیرمقررفرماکرخضرہ کی جانب روانہ کیاجونجدکے علاقہ میں ہے،اورانہیں ہدایت فرمائی کہ وہ بنوغطفان پراچانک حملہ کریں ، رازی داری کے پیش نظر مجاہدین اسلام کایہ دستہ دن میں چھپارہتااوررات میں سفرکرتارہا اورانہوں نے جاکران پراچانک حملہ کیاجس میں دشمن کے متعددبڑے لوگ لوگ قتل ہوگئے اور کچھ اسیرہوگئے،انہوں نے مال غنیمت میں دوسواونٹ ، دو ہزار بکریاں اوربہت سامال حاصل کیا۔[59]

اورپندرہ دن کے بعد مدینہ منورہ واپس آگئے۔[60]

[1] البدایة والنہایة۳۴۴؍۵

[2] البدایة والنہایة۲۷۲؍۴،دلائل النبوة للبیہقی ۳۴۹؍۴، مغازی واقدی۷۴۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۴۵۱؍۳،المنهج الحركى للسیرة النبویة۸۵؍۳

[3] ابن ہشام۲۷۸؍۲،مغازی واقدی۷۴۵؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۳۴۳؍۴،البدایة والنہایة۲۷۱؍۴

[4] مغازی واقدی۷۴۵؍۲

[5]  الاصابة فی تمیز الا صحابة ۵۳۷؍۴، الأساس فی السنة وفقهها – السیرة النبویة۱۹۵۹؍۴

[6] ابن سعد۹۹؍۴،امتاع الاسماع۲۴۸؍۶

[7] ابن سعد۹۴؍۲،زادالمعاد۳۲۰؍۳

[8] مغازی واقدی ۸۶۲؍۲،إمتاع الأسماع۴۰۰؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۲۵۷؍۵

[9] ابن سعد ۹۶؍۲

[10] ابن سعد۹۷؍۲،عیون الآثر۱۹۵؍۲

[11] معجم قبائل العرب ۱۷۴؍۱

[12] معجم قبائل العرب۹۵۸؍۳

[13] ابن سعد۹۷؍۲،مغازی واقدی۷۵۲؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۳۵۷؍۴، عیون الآثر۱۹۶؍۲،البدایة والنہایة۲۷۴؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۴۵۴؍۳

[14] فتح الباری۵۱۱؍۷

[15] ابن سعد۹۷؍۲

[16] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ۴۲۶۱ ، مسنداحمد۲۲۵۶۶،السنن الکبری للنسائی۸۱۹۲،دلائل النبوة للبیہقی۳۵۸؍۴،ابن ہشام ۳۷۳؍۲اسی وجہ سے اس جنگ کانام جَیْشَ الْأُمَرَاءِ رکھاگیا مسنداحمد۲۲۵۶۶،السنن الکبریٰ للنسائی ۸۱۹۲

[17] البدایةوالنہایة۲۷۵؍۴، مغازی واقدی۷۵۶؍۲ ،دلائل النبوة للبیہقی ۳۵۸؍۴

[18] ابن سعد۹۸؍۲،ابن ہشام ۳۷۳؍۲،مغازی واقدی ۷۵۸؍۲

[19] رحمةللعالمین۲۷۱؍۲

[20] ابن ہشام۳۷۳؍۲، الروض  الانف ۱۶۵؍۷،عیون الآثر۱۹۷؍۲،تاریخ طبری ۳۷؍۳،البدایة والنہایة ۲۷۵؍۴، زادالمعاد ۳۳۷؍۳، دلائل النبوة للبیہقی۳۵۸؍۴

[21] ابن ہشام۳۷۴؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۳۵۸؍۴،عیون الآثر۱۹۷؍۲

[22] ابن سعد۹۹؍۲

[23] ابن ہشام۳۸۰؍۲

[24] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ۴۲۶۵

[25] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ۴۲۶۶

[26] فتح الباری ۵۱۳؍۷،مغازی واقدی۷۶۴؍۲، دلائل النبوة للبیہقی۳۶۹؍۴،البدایة والنہایة۲۸۲؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۴۶۷؍۳

[27] فتح الباری ۵۱۳؍۷

[28] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ ۴۲۶۲،البدایة والنہایة۲۷۹؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۳۶۷؍۴،تاریخ طبری ۴۱؍۳

[29] البدایة والنہایة۲۸۲؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۳۶۹؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۴۶۷؍۳

[30] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۵۴۶؍۲،شجرة النور الزكیة فی طبقات المالكیة۹۴؍۲

[31] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۴۱۳؍۱

[32] اکمال تہذیب الکمال ۱۴۱؍۵،شرف المصطفی ۲۶۵؍۳،الإصابة فی تمییز الصحابة۴۹۷؍۲،تہذیب التہذیب ۴۰۲؍۳

[33] مسنداحمد۲۲۵۵۱

[34] فتح الباری۵۱۳؍۷،البدایة والنہایة۲۷۹؍۴

[35] تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس ۷۳؍۲، تاریخ دمشق۳۶۸؍۱۹

[36] سیراعلام النبلائ۸۹؍۲،ابن سعد۳۲؍۳

[37] زادالمعاد۳۳۹؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۳۶۵؍۴

[38] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ ۴۲۶۳

[39] ابن ہشام۳۷۹؍۲،الروض الانف۱۷۷؍۷

[40] صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ موتہ من ارض الشام۴۲۶۰

[41] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ۴۲۶۱

[42] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَخِی عَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۷۶۳،مستدرک حاکم۴۹۳۵

[43] المعجم الاوسط ۶۹۳۶

[44]المعجم الکبیر للطبرانی۱۹۰

[45] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺبُاب مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ الهَاشِمِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۷۰۹،دلائل النبوة للبیہقی ۳۷۱؍۴،البدایة والنہایة۲۸۰؍۴

[46] مسنداحمدالرسالة۲۶۲؍۳

[47] ابن سعد ۹۸؍۲،مغازی واقدی۷۶۳؍۲، المواہب اللدینة۳۶۲؍۱،شرح الزرقانی علی المواھب۳۴۸؍۳

[48] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ ۴۲۶۲

[49] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الرَّجُلِ یَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَیِّتِ بِنَفْسِهِ۱۲۴۶

[50] المختصرالکبیرفی سیرة الرسول۱۱۹؍۱

[51] البدایة والنهایة ۸۷؍۵،زادالمعاد۵۶۴؍۳

[52] زادالمعاد۳۴۱؍۳

[53] مسنداحمد۱۷۷۶۳،السِّیرةُ النّبویة – عرضُ وقائع وَتحلیل أحدَاث۷۴۴؍۱،الأدب المفرد ۱۱۲؍۱،فتح الباری ۷۵؍۸

[54] عیون الآثر۲۰۲؍۲، زادالمعاد۳۴۱؍۳،مغازی واقدی ۷۷۱؍۲،ابن سعد ۱۰۰؍۲، البدایة والنہایة۳۱۱؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۳۰۸؍۶

[55] مغازی واقدی۳۷۳؍۲،دلائل النبوة للبہیقی۴۰۱؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۵۱۹؍۳،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۱۷۱؍۶،السیرة الحلبیة = إنسان العیون فی سیرة الأمین المأمون۲۶۹؍۳

[56] النساء: 29

[57] مسنداحمد۱۷۸۱۲،دلائل النبوة للبیہقی ۴۰۲؍۴،البدایة والنہایة۳۱۲؍۴

[58] ابن سعد۳۱۶؍۳

[59] عیون الآثر۲۰۶؍۲،ابن سعد۱۰۱؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۳۷۰؍۳

[60] رحمة للعالمین۲۳۳؍۲

Related Articles