ہجرت نبوی کا آٹھواں سال

غزوہ حنین(غزوہ ہوازن،غزوہ اوطاس) شوال آٹھ ہجری

فتح مکہ میں قریش کی شکست اورمسلمانوں کی اچانک فتح ونصرت سے اردگردکے قبائل حیران ہوکررہے گئے ،کیونکہ ان میں اتنی قوت وطاقت نہ تھی کہ سب مل کربھی مسلمانوں کے دس ہزارنفری پرمشتمل جانبازوں سے مقابلہ کرسکیں اس لئے ہوزان اورثقیف کے علاوہ مکہ کے اردگردکے سب قبائل حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اورانہوں نے اطاعت قبول کرلی ،مکہ مکرمہ کے اندراوراردگردکے قبائل سے بت پرستی کاخاتمہ ہوچکاتھا مگرقریش کے شرک وکفرکااستیصال پورے حجازکے کفروشرک کااستیصال نہ تھا،یہ درست ہے کہ قریش اسلام دشمنی میں سب سے آگے تھے اوراسلام کی ترویج واشاعت اوراس کے قوانین کی افادیت کودنیامیں عام کرنے کے راستے کاگراں ترین پتھرقریش ہی تھے لیکن یہ اس کام میں تنہانہ تھامکہ کے نواح میں کچھ اورقبائل بھی آبادتھے جوبے حدجنگجو،بہادراورفنون جنگ کے ماہرہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کوقریش کاہم مرتبہ اور ہمسرجانتے تھے ،ان میں بنوہوزان اوربنوثقیف خاص طورپرتاریخ میں نمایاں ہیں ،یہ دونوں قبائل حنین اوراوطاس کی وادیوں میں گرمائی مقام صحت طائف میں رہتے تھے ، ہوزان جنگجوئی اوربہادری میں ان دونوں سے آگے تھا،یہ قبیلہ تیزاندازی میں اپناجواب نہیں رکھتاتھااوراس کے جوانوں کاچلایاہواکوئی تیرخطانہیں جاتاتھا،یہ صورت دیکھ کران میں سراسمیگی کی لہردوڑگئی ، اب یہ دونوں قبائل سمجھنے لگے کہ قریش کے بعداب مسلمانوں کا اگلا ہدف اور نشانہ ہم ہی ہوں گے،اگروہ اردگردکاسیاسی جائزہ لیتے توعزت سے ہتھیارڈال کرحلقہ بگوش اسلام ہوجاتے مگرانہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیارڈال دینا اپنی عزت نفس کے منافی سمجھا،چنانچہ ان کے سردارکہنے لگے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جنگ ان لوگوں سے ہوئی ہے جوناتجربہ کاروجاہل تھے اورانہیں فنون حرب کا کوئی تجربہ ومعلومات نہ تھیں ،آپ نے ان پرفتح حاصل کی ہے اوراب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے لئے ہم تک پہنچنے میں کوئی روکاوٹ نہیں اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے حملہ آورہونے سے پہلے ہی ان پرفوج کشی کر دیناچاہیے،چنانچہ انہوں نے لڑنے کاتہیہ کرلیا،ہوزان کے تیس سالہ سردارمالک بن عوف نصری نے اپنے قبیلے اورثقیف کو اکٹھا کر لیا ، اردگردکے قبائل بنونصر،جشم، سعد بن بکر (جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا زمانہ شیرخواری گزاراتھا)اور بنوہلال کے کچھ لوگ بھی ان سے مل گئے ،البتہ ہوزان میں سے کعب اورکلاب کے قبائل شریک نہ ہوئے ،قیس عیلان کے یہی قبائل اس جنگ میں شریک ہوئے ،یہ چارہزارجانبازتھے ،بنوجشم میں ایک جہاندیدہ اورفنون حرب کاماہر شخص درید بن صمہ بھی تھاجس کی عمرایک سوبیس سال یااس سے زائد ہوچکی تھی اوراس کی نظربھی جاتی رہی تھی،کبرسنی کی وجہ سے وہ لڑائی میں حصہ تونہیں لے سکتا تھا البتہ اس کے مشورے ، جنگی تجربے اور مہارت ومعرفت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا، بنو ثقیف کا سردارکنانہ بن عبدیالیل تھا(جنہوں نے بعدمیں اسلام قبول کرلیا)اس کے ساتھ قارب بن اسودبن مسعودبن معتب بھی اہم شخص تھا،بنومالک میں ذوالخمار سبیع بن حارث اور اس کابھائی احمربن حارث تھےلیکن تمام لوگوں کااصل قائدمالک بن عوف نصری ہی تھا،اس نے تمام سپہ گروں کو تاکیدکردی تھی کہ ہرشخص کے اہل وعیال ،مال ودولت اور مویشی ساتھ لے چلیں تاکہ میدان جنگ میں وہ جم کرمقابلہ کریں اورکوئی شخص اپنے اہل وعیال،مال ودولت کوچھوڑکربھاگ نہ سکے

فَلَمَّا نَزَلَ قَالَ:بِأَیِّ وَادٍ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: بِأَوْطَاسٍ، قَالَ: نِعْمَ مَجَالُ الْخَیْلِ! لَا حَزْنٌ ضِرْسٌ ، وَلَا سَهْلٌ دَهْسٌ،مَا لِی أَسْمَعُ رُغَاءَ الْبَعِیرِ، وَنُهَاقَ الْحَمِیرِ، وَبُكَاءَ الصَّغِیرِ، وَیُعَارَ الشَّاءِ ؟قَالُوا: سَاقَ مَالِكُ بْنُ عَوْفٍ مَعَ النَّاسِ أَمْوَالَهُمْ وَنِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ، قَالَ: أَیْنَ مَالِكٌ؟ قِیلَ: هَذَا مَالِكٌ وَدُعِیَ لَهُ،فَقَالَ: یَا مَالِكُ، إنَّكَ قَدْ أَصْبَحْتَ رَئِیسَ قَوْمِكَ، وَإِنَّ هَذَا یَوْمٌ كَائِنٌ لَهُ مَا بَعْدَهُ من الأیّام. مَا لی أَسْمَعُ رُغَاءَ الْبَعِیرِ، وَنُهَاقَ الْحَمِیرِ، وَبُكَاءَ الصَّغِیرِ، وَیُعَارَ الشَّاءِ؟

جب وہ وادی اوطاس میں پہنچاتو درید نے دریافت کیایہ کونسامقام ہے؟لوگوں نے کہایہ مقام اوطاس ہے، درید نے کہاہاں یہ گھوڑوں کی جولانگاہ کے لئے نہایت موزوں اورمناسب مقام ہے ،یہاں کی زمین نہ سخت ہے جس سے گھوڑے زخمی ہوں اورنہ نرم کہ پاؤں دھنس جائیں ،پھرکہنے لگایہ اونٹوں کے بلبلانے ، گدھوں کے ہینگنے،بکریوں کے منمنانے اوربچوں کے رونے کی آوازیں کیوں آرہی ہیں ؟ لوگوں نے کہامالک بن عوف لوگوں کومع اہل وعیال اور جان ومال لے کرآیاہے تاکہ لوگ ان کے خیال سے سینہ سپرہوکرلڑیں ، درید نے کہا مالک کو بلاؤ ،مالک کوبلایاگیاجب وہ آگیا تودرید نے کہااےمالک !اورتوسارے لشکرکاسرداربناہے اورجانتاہے کہ اس جنگ کااثر بعدکی جنگوں پربھی پڑے گاپھر کیاوجہ ہے کہ مجھے اونٹوں اورگدھوں اوربکریوں اوربچوں کی آوازیں آرہی ہیں تومجھے اس کاسبب بتلا،

قَالَ: سُقْتُ مَعَ النَّاسِ أَمْوَالَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ وَنِسَاءَهُمْ، قَالَ: وَلِمَ ذَاكَ؟ قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَجْعَلَ خَلْفَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أَهْلَهُ وَمَالَهُ، لِیُقَاتِلَ عَنْهُمْ، قَالَ: فَأَنْقَضَ بِهِ . ثُمَّ قَالَ: رَاعِی ضَأْنٍ وَاَللَّهِ! وَهَلْ یَرُدُّ الْمُنْهَزِمَ شَیْءٌ؟ إنَّهَا إنْ كَانَتْ لَكَ لَمْ یَنْفَعْكَ إلَّا رَجُلٌ بِسَیْفِهِ وَرُمْحِهِ، وَإِنْ كَانَتْ عَلَیْكَ فُضِحْتُ فِی أَهْلِكَ وَمَالِكَ، ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَتْ كَعْبٌ وَكِلَابٌ؟قَالُوا: لَمْ یَشْهَدْهَا مِنْهُمْ أَحَدٌقَالَ: غَابَ الْحَدُّ وَالْجِدُّ، وَلَوْ كَانَ یَوْمَ عَلَاءٍ وَرِفْعَةٍ لَمْ تَغِبْ عَنْهُ كَعْبٌ وَلَا كِلَابٌ، وَلَوَدِدْتُ أَنَّكُمْ فَعَلْتُمْ مَا فَعَلَتْ كَعْبٌ وَكِلَابٌ ،

مالک نے کہامیں لوگوں کوان کے بال بچوں اوران کے اموال کے ساتھ لایاہوں ، درید نے کہاتم انہیں ساتھ کیوں لائے ہو؟مالک نے کہامیں لوگوں کے مال واسباب اورآل اولاد کواس لیے ساتھ لایاہوں تاکہ ہرشخص ان کے خیال سے خوب جان توڑکرلڑے، دریدنے کہامالک بن عوف تم نے سخت غلطی کی ہے ، شکست کھاکر بھاگنے والے کوکوئی چیزنہیں روک سکتی ،جنگ میں سوائے نیزہ اورتلوارکے کوئی شئے کام نہیں آتی ،اگرتجھ کو شکست اورہزیمت ہوئی توتمام اہل وعیال کی ذلت ور سوائی اس پر مزید ہوگی ، پھر درید نے پوچھاکعب وکلاب کے قبائل بھی تمہارے ساتھ ہیں ؟اس نے کہاان میں سے ایک آدمی بھی اس جنگ میں شریک نہیں ہوا،درید نے کہاپھرخوش بختی اور لازمی جدوجہدسے محروم ہواگربلندی اور رفعت کی امیدہوتی تووہ غائب نہ ہوتے ،کاش تم بھی وہی کرتے جوکلاب اورکعب نے کہاہے

فَمَنْ شَهِدَهَا مِنْكُمْ؟قَالُوا: عَمْرُو بْنُ عَامِرٍ، وَعَوْفُ بْنُ عَامِرٍقَالَ:ذَانِكَ الْجَذَعَانِ مِنْ عَامِرٍ، لَا یَنْفَعَانِ وَلَا یَضُرَّانِ، یَا مَالِكُ، إنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ بِتَقْدِیمِ الْبَیْضَةِ بَیْضَةِ هَوَازِنَ إلَى نُحُورِ الْخَیْلِ شَیْئًا، ارْفَعْهُمْ إلَى مُتَمَنَّعِ بِلَادِهِمْ وَعُلْیَا قَوْمِهِمْ، ثُمَّ الْقَ الصُّبَاءَ عَلَى مُتُونِ الْخَیْلِ، فَإِنْ كَانَتْ لَكَ لَحِقَ بِكَ مَنْ وَرَاءَكَ، وَإِنْ كَانَتْ عَلَیْكَ أَلْفَاكَ ذَلِكَ قَدْ أَحْرَزْتُ أَهْلَكَ وَمَالَكَ، قَالَ: وَاَللَّهِ لَا أَفْعَلُ ذَلِكَ، إنَّكَ قَدْ كَبِرْتُ وَكَبِرَ عقلك. وَالله لتطعینّن

اچھایہ بتاؤ، تمہارے ساتھ کون کون سے قبائل شامل ہیں ؟اس نے جواب دیا عمروبن عامراورعوف بن عامرہمارے ساتھ ہیں ، درید نے کہایہ دوایسے مینڈھے ہیں جن کی موجودگی سودمندنہیں اورنہ نقصان دہ ہے،پھردرید نے کہااےمالک !تم نے ہوزان کے بال بچوں اورمال ومتاع کودشمن کے سامنے لاکر اچھے تدبرکامظاہرہ نہیں کیامیری رائے یہ ہے کہ تم ان کوواپس محفوظ جگہ پربھیج دوپھرگھوڑوں پرسوارہوکردشمن کا مقابلہ کرو،اگرتمہیں فتح نصیب ہوئی تویہ تم سب سے آملیں گے اوراگرشکست ہوئی تو دشمن کی دستبرد سے محفوظ رہیں گے،مگر کمانڈرانچیف مالک بن عوف نے(جواس جنگ میں درید کاعمل دخل پسندنہیں کرتاتھا) جوش شباب میں کہااللہ کی قسم ! بڑھاپے سے اس کی عقل خراب ہوگئی ہے،لہذاتمہاری رائے پراعتماد نہیں کیا جا سکتا،

یَا مَعْشَرَ هوَازن أَو لأتّكسئنّ عَلَى هَذَا السَّیْفِ حَتَّى یَخْرُجَ مِنْ ظَهْرِی،وَكَرِهَ أَنْ یَكُونَ لِدُرَیْدِ بْنِ الصِّمَّةِ فِیهَا ذِكْرٌ أَوْ رَأْیٌ، فَقَالُوا: أَطَعْنَاكَ، فَقَالَ دُرَیْدُ بْنُ الصِّمَّةِ: هَذَا یَوْمٌ لَمْ أَشْهَدْهُ وَلَمْ یَفُتْنِی،یَا مَعْشَرَ هوَازن أَو لأتّكسئنّ عَلَى هَذَا السَّیْفِ حَتَّى یَخْرُجَ مِنْ ظَهْرِی

پھراس نے بنوہوزان کو مخاطب ہوکرکہااے گروہ ہوزان !واللہ ! اگرتم نے میری اطاعت نہ کی تومیں اپنی تلوارسے خودکشی کرلیتا ہوں ، مالک نے اپنی قوم کو یہ دھمکی اس لیے دی تاکہ کوئی شخص درید کی بات نہ مانے،اس پر ہوازن نے کہاہم سب ہرطرح تمہارے تابعدار ہیں ، درید نے مایوس ہوکرکہامیں اس جنگ میں نہ حاضر ہوں اورنہ غیرحاضر، مالک نے اپنی قوم سے کہااے گروہ ہوزان!جب تم مسلمانوں کودیکھوتواپنی تلواروں کے میان توڑکرپھینک دواورننگی تلواریں لے کرایک دم اس طرح جاپڑوجیسے ایک آدمی جاپڑتاہے۔[1]

چنانچہ اس نے بیس ہزارسے زائد جنگجووں کے ساتھ ہوزان کے علاقے میں وادی اوطاس میں پڑاؤڈالادیا۔

مولاناشبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق بنوثقیف اورہوزان کے لشکرکی تعداد چارہزارتھی۔

وما وقع فی البیضاوی والبغوی ونحوهما: أن ثقیف وهوازن كانوا أربعة آلاف

بیضاوی رحمہ اللہ اوربغوی رحمہ اللہ کے مطابق بنوثقیف اورہوزان کی تعداد چارہزارتھی۔[2]

پرانے مورخین حنین اوراوطاس کومکہ اورطائف کے درمیان دووادیاں بتاتے ہیں ،ان کے بقول حنین اس علاقے کے قریب واقعہ ہے جہاں عرب کامشہور بازار ذوالمجار لگا کرتا تھا یہ مقام عرفہ سے تین میل کے فاصلے پرہے،جدیدمحققین کوحنین کے محل وقوعہ سے اختلاف نہیں لیکن قدیم مورخین نے ابن ہشام کی پیروی میں اوطاس کو حنین سے ملحق قرار دیاہے،ڈاکٹرحمیداللہ نے اس علاقے میں گھوم پھرکردیکھاہے وہ لکھتے ہیں کہ مکہ اورطائف کے درمیان اوطاس نام کی کوئی وادی یاپہاڑنہیں البتہ طائف کے شمام مشرق میں کوئی تیس چالیس میل پرایک مشہورمقام بتایاجاتاہے۔

ہوزان کے جاسوس :

أَنَّ مَالِكَ بْنَ عَوْفٍ بَعَثَ عُیُونًا مِنْ رِجَالِهِ، فَأَتَوْهُ وَقَدْ تَفَرَّقَتْ أَوْصَالُهُمْ، فَقَالَ: وَیْلَكُمْ! مَا شَأْنُكُمْ؟فَقَالُوا: رَأَیْنَا رِجَالًا بِیضًا عَلَى خیل بلق، فو الله مَا تَمَاسَكْنَا أَنْ أَصَابَنَا مَا ترى، فو الله مَا رَدَّهُ ذَلِكَ عَنْ وَجْهِهِ أَنْ مَضَى عَلَى مَا یُرِیدُ

مالک بن عوف نے لشکراسلامی کے حالات معلوم کرنے کے لئے اپنے جاسوس روانہ کیے جواس کے پاس انتہائی شکست خوردہ حالت میں واپس آئے ان کے جسم زخمی اوربعض اعضاکٹے ہوئے تھے،مالک نے پوچھایہ تمہارے ساتھ کیابیتی ہے؟وہ بولے ،ہمیں چندگورے رنگ کے آدمی ملے جوچتکبرے گھوڑوں پرسوارتھے اللہ کی قسم!ہم اپنے آپ کو اس حالت سے نہیں بچاسکے جوتم دیکھ رہے ہو۔[3]مالک بن عوف یہ عبرتناک منظردیکھ کربھی اپنے ارادہ سے بازنہیں آیااورمسلمانوں سے تصادم کے لئے نکل کھڑاہوا۔

مسلمانوں کاتحقیق وتفشیش کرنا:

وَلَمَّا سَمِعَ بِهِمْ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إلَیْهِمْ عَبْدَ اللهِ ابْن أَبِی حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِیَّ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَدْخُلَ فِی النَّاسِ، فَیُقِیمَ فِیهِمْ حَتَّى یَعْلَمَ عِلْمَهُمْ، ثُمَّ یَأْتِیَهُ بِخَبَرِهِمْ،فَتَبَسّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وقال:تِلْكَ غَنِیمَةُ الْمُسْلِمِینَ غَدًا إنْ شَاءَ اللهُ!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان حالات اورواقعات کی اطلاع پہنچی توعبداللہ بن ابی حدرداسلمی رضی اللہ عنہ کوتحقیق وتفتیش کے لئے ہوزان کے لشکر کی طرف روانہ فرمایا انہوں نے کئی روزوہاں گھوم کرتمام حالات معلوم کیے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی جنگی تیاریوں کی اطلاع دی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کیااورارشادفرمایاان شاء اللہ کل یہ سب کچھ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنے گا۔[4]

تمام معلومات حاصل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مقابلے کاسامان شروع کیا ۔

فَلَمَّا أَجْمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّیْرَ إلَى هَوَازِنَ لِیَلْقَاهُمْ، ذُكِرَ لَهُ أَنَّ عِنْدَ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ أَدْرَاعًا لَهُ وَسِلَاحًا فَأَرْسَلَ إلَیْهِ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ مُشْرِكٌ فَقَالَ: یَا أَبَا أُمَیَّةَ، أَعِرْنَا سِلَاحَكَ هَذَا نَلْقَ فِیهِ عَدُوَّنَا غَدًافَقَالَ صَفْوَانُ:أَغَصْبًا یَا مُحَمَّدُ؟قَالَ: بَلْ عَارِیَةٌ وَمَضْمُونَةٌ حَتَّى نُؤَدِّیَهَا إلَیْكَ،قَالَ: لَیْسَ بِهَذَا بَأْس، فَأعْطَاهُ مائَة دِرْعٍ بِمَا یَكْفِیهَا مِنْ السِّلَاحِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوزان کے مقابلہ پرجانے کی تیاری کی توکسی نے عرض کیا کہ صفوان بن امیہ کے پاس وافر مقدار میں زرہیں اورہتھیارہیں تواس سے زرہیں مع سازوسامان مستعار مانگیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان کے پاس جومشرک تھے آدمی بھیجاکہ بطورمستعارتم اپنی زرہیں اورہتھیارہمیں دے دوتاکہ ہم ان کے ساتھ اپنے دشمن سے جنگ کریں ،صفوان نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!کیاآپ میرااسلحہ مجھ سے چھینناچاہتے ہو؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں بلکہ مستعار مانگتے ہیں اور جنگ کے بعد واپس کردیں گے، وہ بولے پھرکوئی حرج نہیں ،چنانچہ اس نے سو زرہیں اور دوسراضروری اسلحہ مستعاردے دیا۔

ویقال: إنه استعار منه أربعمائة درع بما یصلها

یہ بھی کہاجاتاہے کہ اس نےچارسوزرہیں اوردوسراضروری اسلحہ مستعاردے دیا۔[5]

فَزَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ أَنْ یَكْفِیَهُمْ حَمْلَهَافَفَعَلَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایااس کومحاذجنگ پرپہنچاؤ چنانچہ اس نے اس اسلحہ کومحاذجنگ پرپہنچایا۔[6]

واستعار صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ثلاثة آلاف رمح، فقال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كأنی أنظر إلى رماحك هذه تقصف ظهر المُشْرِكِینَ

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازادبھائی نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے تین ہزارنیزے مستعارلئے اورفرمایامجھے نظرآرہاہے کہ تمہارے یہ نیزے مشرکوں کی کمروں کوچھیدرہے ہیں ۔[7]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس اونٹ اورتیس زرہیں یعلیٰ بن امیہ سے بھی مستعار لیے،

وكنیته أبو خلف، ویقال أبو خالد، ویقال أبو صفوان

ان کی کنیت ابوخلف تھی،بعض ابوخالد اوربعض ابوصفوان کہتے ہیں ۔[8]

أسلم یوم الفتح، وشهد حنینًا والطائف وتبوك

انہوں نےفتح مکہ کے موقع پراسلام قبول کیااورحنین،طائف اورتبوک کے معرکوں میں شریک ہوئے۔[9]

ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواسلحہ اوردوسری چیزیں بھیجیں ۔

عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى أَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَأُنَاسٍ مِنْ قُرَیْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِینَ بِشَیْءٍ، فَقَبِلَ بَعْضُهُمْ وَرَدَّ بَعْضٌ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَنَا أَقْبَلُ مِمَّنْ رَدَّ قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ أَبُو سُفْیَانَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسِلَاحٍ وَأَشْیَاءَ فَقَبِلَ مِنْهُ

عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب اورقریش کےدوسرے مشرک لوگوں کے پاس سے کچھ چیزیں بھیجیں ، بعض لوگوں نے قبول کرلیں اوربعض نے قبول نہ کیں ،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے ان چیزوں کوقبول کرنازیادہ پسندکیا پھرابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومختلف اسلحہ اورکچھ چیزیں بھیجیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا[10]

مکہ مکرمہ سے روانگی :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:أَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ مکرمہ میں قیام کیے ہوئے انیس دن گزرگئے۔[11]

وَخَلَّفَ مَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، یُفَقِّهُ النَّاسَ فِی الدِّینِ، وَیُعَلِّمُهُمْ الْقُرْآنَ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم عتاب رضی اللہ عنہ بن صاسیدبن ابی عیص کوگورنرمقررفرماچکے تھےاب معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل کوامام مقررفرمایا اور انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ اہل مکہ کودینی احکام اورشرعی قوانین کاعلم سکھائیں ۔[12]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔ وَخَرَجَ مِنْ كُدًا مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےپھرسنیچرچھ شوال آٹھ ہجری(۲۸جنوری ۶۳۰ئ) کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پرکدیٰ(مکہ مکرمہ کے نیچے کی طرف ایک ٹیلہ ہے) کی طرف سے نکلے۔ [13]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: افْتَتَحْنَا مَكَّةَ، ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَیْنًا

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے اورحنین کی طرف روانہ ہوئے۔[14]

قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ أَلْفَانِ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ مَعَ عَشَرَةِ آلَافٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الَّذِینَ خَرَجُوا مَعَهُ، فَفَتَحَ اللهُ بِهِمْ مَكَّةَ، فَكَانُوا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزارفتح مکہ والا لشکر اور دو ہزارمکہ کے نومسلم ،اس طرح کل بارہ ہزارلشکرکے ساتھ ہوازن کی مہم پرروانہ ہوئے۔[15]

لیکن اس لشکراورپہلے اسلامی لشکروں کے درمیان بڑے نمایاں اوراہم فرق تھے ،اب مقدمة الجیش خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکی افسری میں تھا،اس میں ایسے نوجوان شامل تھے جوحال ہی میں اسلام لائے تھے ،ان کاجوش وخروش اپنی جگہ پربڑاحقیقی اورہرشک وشبہ سے بالاتھالیکن پرانے خیالات ومعتقدات ان کے ذہن میں پیوست تھے ،اللہ کی نصرت کے متعلق پرانے جاہلانہ تصورات اسلام کے پاکیزہ تصورات سے پوری طرح متاثرنہیں ہوئے تھے اورمال غنیمت کے متعلق اسلام نے جوتعلیم دی تھی وہ ابھی ان کے فکروعمل کاجزونہیں بن سکی تھی ،انہیں ان تمام مسائل کوپوری طرح سمجھنے اوران پرراسخ ہونے کا انہیں وقت نہ ملاتھا،ان کے علاوہ متعددوہ سے لوگ جوکلمہ طیبہ پڑھ کراسلام تولاچکے تھے لیکن اسلام کی تعلیمات اوراس کے فکری نظام سے ابھی تک واقف نہیں ہوئے تھے ۔ شریعت کی اصطلاح میں ان حضرات کوطلقاکے لفظ سے یادکیاجاتاہے ،ان کی تعداددوہزارتھی ،اسی طرح مکہ مکرمہ کی کچھ عورتیں اورکچھ کم عمربچے بھی مال غنیمت کے شوق میں لشکرمیں شامل ہوگئے تھے ،گویابارہ ہزارکے اس لشکرمیں مہاجرین اورانصارکے دوستوں کے علاوہ ایک بڑی تعدادایسے لوگوں کی شامل تھی جوباقاعدہ منظم اوراسلام کے جنگی قوانین میں تربیت یافتہ نہیں تھے ، تعداداورسازوسامان کی کثرت توتھی مگرتربیت کاوہ عنصرکم ہوگیاتھاجس نے پہلے معرکوں میں اپنے جوہردکھائے تھے، بارہ ہزار کا یہ لشکرجرارجب حنین کی طرف بڑھاتو اپنی کثرت کودیکھ کرچند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے

لَنْ نُغْلَبَ الْیَوْمَ مِنْ قِلَّةٍ

آج ہم افرادی قلت کی وجہ سے شکست نہ کھائیں گے۔

غرورونازکے یہ اندازبارگاہ ایزدی میں پسندنہ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس بے فخروغرور اورخودپسندی کانوٹس لیااوراس پرتنبیہ فرمائی،

فَجَاءَ رَجُلٌ فَارِسٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی انْطَلَقْتُ بَیْنَ أَیْدِیكُمْ حَتَّى طَلَعْتُ جَبَلَ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا أَنَا بِهَوَازِنَ عَلَى بَكْرَةِ آبَائِهِمْ بِظُعُنِهِمْ، وَنَعَمِهِمْ، وَشَائِهِمْ، اجْتَمَعُوا إِلَى حُنَیْنٍ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:تِلْكَ غَنِیمَةُ الْمُسْلِمِینَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللهُ

شام کے وقت ایک گھوڑسوارآیا اورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کے آگے آگے چلتارہاحتی کہ فلاں فلاں پہاڑپرچڑھ گیا تو دیکھاکہ قبیلہ ہوزان کے سب لوگ اپنی عورتوں ،چوپاؤں اوربکریوں سمیت حنین کی طرف جمع ہورہے ہیں ،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اورفرمایاان شاء اللہ یہ مال غنیمت مسلمانوں کوملے گا۔[16]

ثُمَّ، قَالَ:مَنْ یَحْرُسُنَا اللیْلَةَ؟قَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیُّ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:فَارْكَبْ ، فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اسْتَقْبِلْ هَذَاالشِّعْبَ حَتَّى تَكُونَ فِی أَعْلَاهُ، وَلَا نُغَرَّنَّ مِنْ قِبَلِكَ اللیْلَةَ،فَلَمَّا أَصْبَحْنَا، خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مُصَلَّاهُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ:هَلْ أَحْسَسْتُمْ فَارِسَكُمْ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاآج رات ہم پرپہراکون دے گا؟انس بن ابی مرثدغنوی رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آج میں پہرادوں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوسوارہوجاؤچنانچہ وہ اپنے گھوڑے پرسوارہوگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس گھاٹی کی طرف چلے جاؤحتی کہ اس کے اوپرچڑھ جاؤاور دشمن کاخیال رکھوایسانہ ہوکہ رات میں ہم تمہاری طرف سے دھوکہ کھاجائیں چنانچہ انہوں نے حسب ہدایت تمام رات چوکنا ہو کرپہرادیا، جب صبح ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پرتشریف لائے اوردورکعتیں پڑھیں پھردریافت فرمایاکیاتم نے اپنے سوارکودیکھاہے؟

قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَحْسَسْنَاهُ فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی، وَهُوَ یَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ حَتَّى إِذَا قَضَى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ قَالَ:أَبْشِرُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ فَارِسُكُمْ، فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَى خِلَالِ الشَّجَرِ فِی الشِّعْبِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّی انْطَلَقْتُ حَتَّى كُنْتُ فِی أَعْلَى هَذَا الشِّعْبِ حَیْثُ أَمَرَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اطَّلَعْتُ الشِّعْبَیْنِ كِلَیْهِمَا فَنَظَرْتُ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہانہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے اس کونہیں دیکھاپھرنمازکے لیے تکبیرکہی گئی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھانے لگے اوراس دوران میں آپ گھاٹی کی طرف بھی دیکھتے رہے حتی کہ جب نمازمکمل کرلی اورسلام پھیرلیاتوفرمایاخوشخبری ہوتمہاراسوارآگیاہے،پس ہم بھی درختوں میں سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے تووہ سامنے آگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرکھڑاہوا،اس نے سلام کیااورکہامیں (آپ کے ہاں سے)روانہ ہواحتی کہ اس گھاٹی کے اوپرچڑھ گیاجہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھا جب صبح ہوئی تومیں نے دونوں گھاٹیوں میں دیکھاتومجھے کوئی شخص نظرنہیں آیا

فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ نَزَلْتَ اللیْلَةَ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا مُصَلِّیًا أَوْ قَاضِیًا حَاجَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ أَوْجَبْتَ فَلَا عَلَیْكَ أَنْ لَا تَعْمَلَ بَعْدَهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیارات کو(گھوڑے سے)نیچے بھی اترے تھے ؟انہوں نے عرض کیا وضوکرنے یاقضائے حاجت کرنے اورنماز کے سوا میں نیچے نہیں اترا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے اپنے لیے (جنت)لازم کرلی ،تم اس کے بعد اورکوئی عمل نہ بھی کروتوکوئی مواخذہ نہیں ۔[17]

جہادفی سبیل اللہ میں پہریداری کاایک آسان عمل کا جب یہ اجرہے توقتال ومعرکہ آرائی کے فضائل کس قدرزیادہ ہوں گے۔

عَنْ أَبِی وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ، خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى حُنَیْنٍ وَنَحْنُ حَدِیثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِیَّةِ، قَالَ: فَسِرْنَا مَعَهُ إلَى حُنَیْنٍ،قَالَ: وَكَانَتْ كُفَّارُ قُرَیْشٍ وَمَنْ سِوَاهُمْ مِنْ الْعَرَبِ لَهُمْ شَجَرَةٌ عَظِیمَةٌ خَضْرَاءُ، یُقَالُ لَهَا ذَاتُ أَنْوَاطٍ، یَأْتُونَهَا كُلَّ سَنَةٍ، فَیُعَلِّقُونَ أَسْلِحَتَهُمْ عَلَیْهَا، وَیَذْبَحُونَ عِنْدَهَا، وَیَعْكُفُونَ عَلَیْهَا یَوْمًا قَالَ: فَرَأَیْنَا وَنَحْنُ نَسِیرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِدْرَةً خَضْرَاءَ عَظِیمَةً، قَالَ: فَتَنَادَیْنَا مِنْ جَنَبَاتِ الطَّرِیقِ: یَا رَسُولَ اللهِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللهِ هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ

ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ (حارث بن عوف) کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوزان کے مقابل مقام حنین میں گئے اورابھی ہمیں جاہلیت چھوڑکرحلقہ بگوش اسلام ہوئے تھوڑاہی عرصہ گزرا تھا، ذات انواط نامی ایک درخت تھاقریش اور تمام عرب سال بھرمیں ایک روزاس درخت پرمیلہ لگاتے تھے اوراس کے پاس چڑھاوے کے جانورذبح کرتے اور اپنے ہتھیاراس درخت پرلٹکاتے تھے اور ایک دن حاضررہتے تھے،حنین کے سفرمیں جب ہم بیری کے ایک بہت بڑے سرسبز وشاداب درخت کے نزدیک پہنچے توہم نے چاروں طرف سے آپ کوآوازدی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح مشرکوں کے لئے ذات انواط ہے ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت کرتے ہوئے فرمایاسبحان اللہ! یہ تووہی بات ہوئی کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بت پرستوں کو بتوں کی عبادت کرتے دیکھا توکہااے موسی علیہ السلام ! ان کے بتوں کی طرح ہمارے لئے بھی ایک بت بنادے، یہ تواندھی تقلیدہے ،اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ایک وقت آئے گاکہ تم ایسے ہی ان کی اندھی تقلید کرنے لگ جاؤگے ۔[18]

دوستو!جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کومحض مشرکوں کی مشابہت کی وجہ سے انکارفرمادیاتواس سے بڑے خالص شرک کا کیاحال ہوگا،جب درخت کے پاس جمع ہونا،اس پرہتھیارلٹکانااوراس کے پاس جانور ذبح کرنا اللہ کے ساتھ اس کوشریک ٹھیرانااورمعبودبناناہے حالانکہ وہ اس سے حاجتیں نہیں مانگتے تھے اورنہ اس کی عبادت کرتے تھے توپھرقبروں پرجمع ہوناان سے حاجات طلب کرنااورفیوض وبرکات کے لئے ان پرچلہ کشی کرناکیوں شرک نہ ہو گا۔

أنه أتاه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ زَالَتْ الشّمْسُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس شوال کو وادی حنین (یہ مکہ اورطائف کے درمیان ایک تنگ اوردشوارگزار، غیر آباد اور بے آب وگیاہ گھاٹی تھی) میں شام کے وقت پہنچے۔[19]

عَنْ أَنَسٍ،أَنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ اتَّخَذَتْ یَوْمَ حُنَیْنٍ خِنْجَرًا، فَكَانَ مَعَهَا، فَرَآهَا أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذِهِ أُمُّ سُلَیْمٍ مَعَهَا خِنْجَرٌ،فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا هَذَا الْخِنْجَرُ؟قَالَتْ: اتَّخَذْتُهُ إِنْ: دَنَا مِنِّی أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ، بَقَرْتُ بِهِ بَطْنَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَضْحَكُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےام سلیم رضی اللہ عنہا (ان کی والدہ)بھی ایک خنجرلے کرمیدان جنگ میں پہنچیں ،یہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (ان کے شوہر)نے دیکھاتوعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ام سلیم ہے اوران کے پاس ایک خنجرہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھایہ خنجرکیساہے؟انہوں نے عرض کیااگرکوئی مشرک میرے پاس آئے گاتواس خنجرسے اس کاپیٹ پھاڑدوں گی،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔[20]

 صفوف کی ترتیب اورجھنڈوں کی تقسیم :

وَعَبَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ وَصَفّهُمْ صُفُوفًا فِی السّحَرِ، وَوَضَعَ الْأَلْوِیَةَ وَالرّایَاتِ فِی أَهْلِهَا، مَعَ الْمُهَاجِرِینَ لِوَاءٌ یَحْمِلُهُ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ، وَرَایَةٌ یَحْمِلُهَا سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقّاصٍ، وَرَایَةٌ یَحْمِلُهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَفِی الْأَنْصَارِ رَایَاتٌ، مَعَ الْخَزْرَجِ لِوَاءٌ یَحْمِلُهُ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ- وَیُقَالُ لِوَاءُ الْخَزْرَجِ الْأَكْبَرُ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ- وَلِوَاءُ الْأَوْسِ مَعَ أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ

پچھلی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکرکی صف بندی کی اور بڑے اورچھوٹے مختلف جھنڈے تیارکیے اورکمانڈروں میں تقسیم فرمائے ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کومہاجرین کالواء (چھوٹاعلم) عطافرمایا،سعد بن ابی وقاص اور کو سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو بڑاعلم عطافرمایا۔خزرج کالوائ(چھوٹاجھنڈا) حباب بن منذرکواورکہاجاتاہے خزرج کاایک دوسراجھنڈاسعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کواوراوس کاجھنڈااسیدبن حضیرکوعطافرمایا

وَفِی كُلّ بَطْنٍ مِنْ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ لِوَاءٌ أَوْ رَایَةٌ یحملها رَجُل منهم مسمى

اوس اورخزرج کے ہربطن (شاخ قبیلہ)میں لواء یارایت تھاجسے انہیں کاایک نامزد شخص اٹھائے ہوئے تھا

وقَبَائِلِ الْعَرَبِ فیهم الْأَلْوِیَةَ وَالرّایَاتِ یحملها قوم منهم مسمون

قبائل عرب میں سب کے پاس الواء ورایات(چھوٹے بڑے جھنڈے تھے)جنہیں انہیں کی نامزد جماعت اٹھائے ہوئے تھی۔[21]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے قبائل کوترتیب دے کران میں بھی چھوٹے بڑے علم تقسیم فرمائے۔

ولبس دِرْعَیْنِ والمغفر وَالْبَیْضَةَ، ثم رَكِبَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَتِهِ الْبَیْضَاءِ دُلْدُلُ لطیفة

پھر دو زرہیں زیب تن کیں ، سرپر خود رکھا اور خودکے نیچے جالی دارٹوپی پہنی،اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچردلدل پرسوار ہوئے۔[22]

وَكَانَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قد قدم سلیما مِن یوم خرج مِن مكّة وَاسْتَعْمَلَ علیهم خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ. فلم یزل عَلَى مقدمته حتى وردالْجِعِرّانَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس روزمکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیم کومقدمہ بنایااورخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکواس لشکرپرامیرمقررفرمایاجوآپ کے آگے آگے چل رہاتھاحتی کہ آپ مقام جعرانہ پرپہنچے۔[23]

آغازجنگ :

یہ لشکرجب میدان جنگ میں پہنچاتوپہلی بات جوواضح ہوئی یہ تھی کہ دشمن سبقت کرکے فوجی اہمیت کی چوکیوں پرقابض ہوچکاہے ،پہاڑی درے اورگھاٹیاں اس کے قبضے میں تھیں جہاں تیراندازپناہ لے سکتے تھے ،جس زمین پروہ صف آراہواتھانہ اتنی سخت تھی کہ پاؤں زخمی ہوجائیں اورنہ اتنی نرم کہ اس میں پیردھنس جائیں ،اس کے مقابلے میں مسلمانوں کوجس میدان میں صفیں باندھنے پرمجبورہوناپڑاوہ اس قدرنشیب میں تھی کہ پاؤں نہیں ٹکتے تھے اورلشکردشمن کی زدمیں تھا اورمالک بھی عوف نے اپنے لشکرکو ہدایت کردی گئی تھی وہ تلواروں کے نیام توڑکرپھینک دیں اورجب لشکراسلام ادھرسے آئے توتلواروں اور نیزوں سے ایک شخص واحدکی طرح یک دم ان پرسخت ہلہ بول دیں ۔ مگرمجاہدین دشمن کی ان تباہ کن کاروائیوں سے قطعا ًبے خبرتھے ،

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا اسْتَقْبَلْنَا وَادِیَ حُنَیْنٍ انْحَدَرْنَا فِی وَادٍ مِنْ أَوْدِیَةِ تِهَامَةَ أَجْوَفَ حَطُوطٍ ، إنَّمَا نَنْحَدِرُ فِیهِ انْحِدَارًا، قَالَ: وَفِی عَمَایَةِ الصُّبْحِ ، وَكَانَ الْقَوْمُ قَدْ سَبَقُونَا إلَى الْوَادِی، فَكَمَنُوا لَنَا فِی شِعَابِهِ وَأَحْنَائِهِ وَمَضَایِقِهِ وَقَدْ أَجْمَعُوا وتهیّؤا وأعدّوا، فو الله مَا رَاعَنَا وَنَحْنُ مُنْحَطُّونَ إلَّا الْكَتَائِبُ قَدْ شَدُّوا عَلَیْنَا شَدَّةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، وَانْشَمَرَ النَّاسُ رَاجِعِینَ، لَا یَلْوِی أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ

ابن اسحاق جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جب مجاہدین اسلام حنین کی وادی میں پہنچے تویہ وادی بہت نشیب میں تھی ،صبح کاوقت تھااورمجاہدین اس میں بے خوف وخطراترنے لگے اوردشمن ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچ کرٹیلوں اورگڑھوں میں چھپ چکاتھااورمجاہدین کواس کی کچھ خبرنہ تھی،اب جومجاہدین بے دھڑک اس وادی میں اترے تویکبارگی چاروں طرف سے کمین گاہوں میں چھپے ہوئے آدمیوں نے شخص واحدکی طرح ہم پرحملہ کردیا،ہمیں سنبھلنے کاموقعہ نہ ملا اورمجاہدین وہاں سے الٹے پھرے ، دوسری طرف کفار کے گھڑ سوار جنگجو نے مسلمان لشکر پر حملہ کردیا۔[24]

فَانْكَشَفَتْ خَیْلِ بنی سُلَیْم ٍمُوَلّیَةً لتقدم كثیر ممن لا خبرة له بالحرب، وغالبهم من شبان مَكّةَ، وَتَبِعَهُمْ أَهْلُ مَكّةَ

ادھر ہوزان اورثقیف کے تیرانداز دستوں نے مسلمانوں کے گھوڑوں پریکبارگی تیروں کی بوچھاڑکردیں جس سے بنوسلیم کاسواردستہ بھی شکست خوردہ ہوکربھاگاجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک جنگ تھا،اسے بھاگتادیکھ کرنومسلم اورکئی بدوجن کے پاس ہتھیاربھی نہیں تھے اور دوسرے مجاہدین میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ سراسمیہ ہوکر منتشر ہو گیا۔[25]

جنگ کے ابتدائی حالات کے متعلق محققین سیرت کی دوآراء ہیں مولاناشبلی نعمانی کاخیال ہے کہ دشمن کے ساتھ پہلی جھڑپ میں ہراول دست کے پیراکھڑگئے اوراس کی وجہ سے پورے لشکرمیں ابتری پھیل گئی،اس کے مقابلے میں مولاناسلیمان ندوی کی تحقیق یہ ہے کہ مسلمانوں کوپہلے کامیابی ہوئی لوگ غنیمت پرٹوٹ پڑے،دشمن کے تیر اندازوں نے موقع پاکرتیراندازی شروع کردی جس سے مسلمانوں کی صفوں میں بے ترتیبی،انتشاراورپراگندی پیداہوگئی،اس سلسلہ میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔

قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:إِنَّ هَوَازِنَ كَانُوا قَوْمًا رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا لَقِینَاهُمْ حَمَلْنَا عَلَیْهِمْ، فَانْهَزَمُوا فَأَقْبَلَ المُسْلِمُونَ عَلَى الغَنَائِمِ، وَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّهَامِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہوزان کے لوگ (جن سے لڑائی میں مقابلہ تھا)بڑے تیراندازتھے جب ہماراان سے سامناہواتوشروع میں ہم نے حملہ کرکے انہیں شکست دے دی پھرمسلمان مال غنیمت پرٹوٹ پڑے اوردشمن نے ہم پرتیروں کی بارش شروع کردی۔[26]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی :

صورت حال جوبھی ہواس جھڑپ کانتیجہ یہ ہواکہ مسلمان پسپاہوگئے اورلشکرمیں ایسی بھگدڑمچی کہ اس افراتفری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صرف نو،دس

النَّوَوِیُّ فِی شَرْحِ مُسْلِمٍ أَنَّهُ ثَبَتَ مَعَهُ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا

اورامام نووی رحمہ اللہ کے مطابق بارہ مجاہدین ساتھ رہے گئے۔[27]

قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ فَوَلَّى عَنْهُ النَّاسُ، وَبَقِیتُ مَعَهُ فِی ثَمَانِینَ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ، فَنَكَصْنَا عَلَى أَقْدَامِنَا نَحْوًا مِنْ ثَمَانِینَ قَدَمًا، وَلَمْ نُوَلِّهِمُ الدُّبُرَ

اور امام احمد رحمہ اللہ اورحاکم رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہےمیں غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھادشمن کے تیروں سے بچنے کے لئے لوگ پیٹھ پھیرکرفرارہونے لگے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی (۸۰) مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ ثابت قدم رہے ،ہم پیدل تھے اورمیدان جنگ سے پیٹھ نہیں پھیری۔[28]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا یَوْمَ حُنَیْنٍ وَإِنَّ النَّاسَ لِمُوَلِّینَ، وَمَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِائَةُ رَجُلٍ

جبکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہےحنین کے روزمیں نے اپنے لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے میدان جنگ سے پیٹھ پھیرلی ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو آدمی بھی نہیں تھے۔[29]

ولم یثبت معه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یومئذ إلا الْعَبّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطّلِبِ، وعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ،والْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطّلِبِ ، وأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وأُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، فی أناس من أهل بیته وأصحابه.قال العباس: وأنا آخذ بلجام بغلته أكفها مخافة أن تصل إلى العدو، وفعل ذلك العباس لأنه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كان یتقدم فی نحر العدو، وأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخذ بركابه

قریبی جاں بازرسالت رضی اللہ عنہ جن میں سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ، اسامہ بن زید اور اہل بیت اور صحابہ سے کچھ لوگ ہی ثابت قدم رہے ،عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جوآپ کے شہبازنامی خچر کی دائیں رکاب پکڑے ہوئے تھے اور ابوسفیان بن حارث بائیں رکاب پکڑے ہوئے تھے ، فضل رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ ربیعہ رضی اللہ عنہ بن حارث،ابولہب کے بیٹے عتبہ رضی اللہ عنہ ،معتب ایمن بن ام ایمن رضی اللہ عنہا اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ شامل تھے ثابت قدم رہے۔[30]

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَیْنٍ، فَلَمَّا التَقَیْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِینَ جَوْلَةٌ،فَرَأَیْتُ رَجُلًا مِنَ المُشْرِكِینَ عَلاَ رَجُلًا مِنَ المُسْلِمِینَ،فَاسْتَدَرْتُ حَتَّى أَتَیْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّى ضَرَبْتُهُ بِالسَّیْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ، فَأَقْبَلَ عَلَیَّ فَضَمَّنِی ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِیحَ المَوْتِ ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ المَوْتُ، فَأَرْسَلَنِی،فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ؟قَالَ: أَمْرُ اللهِ

ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو(ابتدامیں )اسلامی لشکرہارنے لگا، اتنے میں میں نے دیکھاکہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص مسلمان پرغالب آرہاہے،اس لیے میں فوراًہی گھوم کرجلدی سے اس کے پیچھے آیا اورآکراس کی گردن پر تلوار کا وار کیا تلوارکی ضرب سے اس کی زرہ کٹ گئی،اوروہ اس مسلمان کو چھوڑکرمجھ پرٹوٹ پڑااورمجھے پکڑکراس زورسے دبوچاکہ میری روح جیسے قبض ہونے کوتھی لیکن (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی ضرب کاری تھی وہ اس کی تاب نہ لاسکااور)جب اس کو موت نے آدبوچا تب کہیں جاکراس نے مجھے چھوڑا،اس کے بعدمجھے سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ملے تومیں نے ان سے پوچھامسلمان اب کس حالت میں ہیں ؟(یعنی یہ کیوں بھاگ رہے ہیں ) سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاجواللہ کاحکم تھاوہی ہوا۔[31]

مکہ معظمہ کے نومسلموں کے خیالات :

ابن اسحاق لکھتے ہیں جب مسلمانوں کوشکست ہوئی توآپ کے ساتھ حاضرہونے والے مکہ کے اہل جفانے اپنی پوشیدہ دشمنی کا اظہار کیا

فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ: لَا تَنْتَهِی هَزِیمَتُهُمْ دُونَ الْبَحْرِ، وَإِنَّ الْأَزْلَامَ لَمَعَهُ فِی كِنَانَتِهِ

ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نے جوابھی چنددن پہلے ہی فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے کہایہ شکست ان کوسمندرمیں لے ڈوبے گی،اس نے قسمت آزمائی کے تیربھی اپنے ترکش میں رکھے ہوئے تھے ۔

وَصَرَخَ جَبَلَةُ بْنُ الْحَنْبَلِ قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: كَلَدَةُ بْنُ الْحَنْبَلِ وَهُوَمَعَ أَخِیهِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ مُشْرِكٌ فِی الْمُدَّةِ الَّتِی جَعَلَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا بَطَلَ السِّحْرُ الْیَوْمَ!فَقَالَ لَهُ صَفْوَانُ: اُسْكُتْ فَضَّ الله فَاك ، فو اللهُ لَأَنْ یَرُبَّنِی رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ یَرُبَّنِی رَجُلٌ مِنْ هَوَازِنَ

صفوان بن امیہ کاماں کی جانب سے بھائی جبلہ یاکلدہ بن حنبل چلاکربولاآج محمد کا جادوٹوٹ گیاہے،صفوان بن امیہ جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیاتھانے اس سے کہا خاموش رہ! اللہ تیرے دانتوں کوتوڑدے،اللہ کی قسم !مجھے قریش کے آدمی کی حکومت ہوزان کے کسی آدمی کی حکومت سے زیادہ محبوب ہے ۔

وَقَالَ شَیْبَةُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، أَخُو بَنِی عَبْدِ الدَّارِ:قُلْتُ: الْیَوْمَ أُدْرِكُ ثَأْرِی (مِنْ مُحَمَّدٍ) ، وَكَانَ أَبُوهُ قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ، الْیَوْمَ أَقْتُلُ مُحَمَّدًا ،قَالَ: فَأَدَرْتُ بِرَسُولِ اللهِ لِأَقْتُلَهُ، فَأَقْبَلَ شَیْءٌ حَتَّى تَغَشَّى فُؤَادِی، فَلَمْ أُطِقْ ذَاكَ، وَعَلِمْتُ أَنَّهُ مَمْنُوعٌ مِنِّی

بنوعبد الدارسے شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ (جن کا والد غزوہ احدمیں قتل ہوگیاتھا) نے کہاآج میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے اپنے باپ کابدلہ لوں گا(اس کاباپ غزوہ احدمیں ماراگیا تھا ) مگرجب آپ کے قریب بڑھاتوفوراًغشی طاری ہوگئی اور آپ تک نہ پہنچ سکااب وہ سمجھ گیاکہ اللہ نے مجھے آپ تک پہنچنے سے روکاہے بعدمیں یہ مسلمان ہوگئے۔[32]

كَانَ شَیْبَةُ بْنُ عُثْمَانَ یَقُولُ:لَمّا رَأَیْت رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَزَا مَكّةَ فَظَفِرَ بِهَا وَخَرَجَ إلَى هَوَازِنَ، قُلْت: أَخْرُجُ لَعَلّی أُدْرِكُ ثَأْرِی! وَذَكَرْت قَتْلَ أَبِی یَوْمَ أُحُدٍ، قَتَلَهُ حَمْزَةُ، وَعَمّی قَتَلَهُ عَلِیّ،قَالَ: فَلَمّا انْهَزَمَ أَصْحَابُهُ جِئْته عَنْ یَمِینِهِ، فَإِذَا الْعَبّاسُ قَائِمٌ، عَلَیْهِ دِرْعٌ بَیْضَاءُ كَالْفِضّةِ یَنْكَشِفُ عَنْهَا الْعَجَاجُ ، فَقُلْت: عَمّهُ لَنْ یَخْذُلَهُ!قَالَ: ثُمّ جِئْته عَنْ یَسَارِهِ فَإِذَا بِأَبِی سُفْیَانَ ابن عمّه، فقلت:ابْنُ عَمّهِ لَنْ یَخْذُلَهُ!

ابن ابی خثیمہ نے شیبہ کی یہی حدیث بیان کرتے ہوئے لکھاہےشیبہ بن عثمان نے کہاجب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوغزوہ مکہ میں دیکھاجس میں وہ کامیاب وکامران ہوئے تھےاورپھربنوہوزان کی طرف نکلےمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلاکہ شایدمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرکے اپنابدلہ لینے میں کامیاب ہوجاؤں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کرمجھے اپناباپ جن کوحمزہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیاتھااورچچاجن کوسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے قتل کیاتھا یادآگیا، جب صحابہ کرام منتشرہوئے تومیں آپ کے دائیں جانب پہنچاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاعباس رضی اللہ عنہ کوسفیدزرہ میں ملبوس کھڑے پایا میں نے سوچایہ آپ کاچچاہے جو آپ کی مددکرے گا،پھرمیں بائیں جانب آیاتو ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حارث کوموجودپایامیں نے کہایہ آپ کے چچاکالڑکاہے یہ ہرگزآپ کی مددسے بازنہ آئے گا،

فَجِئْته مِنْ خَلْفِهِ فَلَمْ یَبْقَ إلّا أُسَوّرُهُ بِالسّیْفِ إذْ رُفِعَ مَا بَیْنِی وَبَیْنَهُ شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ كَأَنّهُ بَرْقٌ، وَخِفْت أَنْ یَمْحَشَنِی وَوَضَعْت یَدَیّ عَلَى بَصَرِی وَمَشَیْت الْقَهْقَرَى، وَالْتَفَتَ إلَیّ، فَقَالَ: یَا شَیْبَ، اُدْنُ مِنّی!فَوَضَعَ یَدَهُ عَلَى صَدْرِی وَقَالَ: اللهُمّ، أَذْهِبْ عَنْهُ الشّیْطَانَ!قَالَ: فَرَفَعْت إلَیْهِ رَأْسِی وَهُوَ أَحَبّ إلَیّ مِنْ سَمْعِی وَبَصَرِی وَقَلْبِی،ثُمّ قَالَ:یَا شَیْبَ، قَاتِلْ الْكُفّارَ!

پھرمیں آپ کے پیچھے آیااوردبے پاؤں آپ کے نزدیک پہنچاصرف تلوارکے ایک وارکی کسرباقی تھی کہ برق رفتارسے آگ کاایک شعلہ میری طرف بڑھاجس سے پیچھے بھاگ کرمیں نے بمشکل جان بچائی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیااورفرمایاشیبہ نزدیک آجاؤ!میں نزدیک آیاتوآپ نے اپناہاتھ میرے سینہ پررکھااوردعاکی اےاللہ شیطان کواس کے دل سے نکال دے،میں نے سراٹھاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھاتوآپ مجھے اپنی آنکھ اورکان سے زیادہ محبوب نظرآئے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہوکرفرمایااے شیبہ! کفارسے لڑائی کرومیں اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کرکفارسے لڑرہاتھا۔[33]

لَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ، دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَنْوَةً، قُلْتُ: أَسِیرُ مَعَ قُرَیْشٍ إِلَى هَوَازِنَ بِحُنَیْنٍ، فَعَسَى إِنِ اخْتَلَطُوا أَنْ أُصِیبَ مِنْ مُحَمَّدٍ غِرَّةً فَأَثْأَرَ مِنْهُ، فَأَكُونَ أَنَا الَّذِی قُمْتُ بِثَأْرِ قُرَیْشٍ كُلِّهَا، وَأَقُولُ: لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ أَحَدٌ إِلَّا اتَّبَعَ مُحَمَّدًا، مَا تَبِعْتُهُ أَبَدًا، وَكُنْتُ مُرْصِدًا لَمَّا خَرَجْتُ لَهُ لَا یَزْدَادُ الْأَمْرُ فِی نَفْسِی إِلَّا قُوَّةً، فَلَمَّا اخْتَلَطَ النَّاسُ اقْتَحَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَغْلَتِهِ فَأَصْلَتَ السَّیْفَ، فَدَنَوْتُ أُرِیدُ مَا أُرِیدُ مِنْهُ

ایک روایت میں ہےفتح مکہ کے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تومیں بھی قریش کے ہمراہ حنین میں بنوہوزان کے مقابلہ پرگیااس خیال سے کہ شاید مجھے کوئی موقع مل جائے اورمیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بدلہ لے سکوں بلکہ تمام قریش کی جانب سے میں ہی بدلہ لے لوں ،اورمیں اپنے دل میں کہہ رہاتھاکہ (نعوذباللہ)اگرتمام عرب اورعجم نے بھی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی بیعت کرلی توبھی میں اس کااتباع نہیں کروں گا،اورجب میں نکلاتومیرایہ ارادہ پختہ ترہی ہورہاتھاچنانچہ جب(میدان جنگ)میں لوگوں کااختلاط ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچرسے نیچے اترآئے ،میں نے تلوارسونتی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیااورمیں نے جوارادہ کرناتھاکرلیا،

وَرَفَعْتُ سَیْفِی حَتَّى كِدْتُ أُشْعِرَهُ إِیَّاهُ، فَرُفِعَ لِی شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ كَالْبَرْقِ كَادَ یَمْحَشُنِی، فَوَضَعْتُ یَدَیَّ عَلَى بَصَرِی خَوْفًا عَلَیْهِ، فَنَادَانِی:یَا شیب ادْنُ مِنِّی،فَدَنَوْتُ مِنْهُ،فَمَسَحَ صَدْرِی، ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ أَعِذْهُ مِنَ الشَّیْطَانِ،قَالَ: فَوَاللهِ لَهُوَ كَانَ سَاعَتَئِذٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ سَمْعِی وَبَصَرِی وَنَفْسِی ، وَأَذْهَبَ اللهُ مَا كَانَ فِی نَفْسِی، ثُمَّ قَالَ ادْنُ فَقَاتِلْ

میں نے تلواراٹھابھی لی تھی اورمیں سمجھ رہاتھاکہ اب یہ خاص انہیں پرجارہی ہے کہ اچانک آگ کاایک شعلہ میرے سامنے بلندہواجیسے بجلی ہو اور وہ مجھے بھسم کرکے رکھ دیناچاہتاہومیں نے ڈرکراپناہاتھ اپنی آنکھوں پررکھ لیااورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آوازدی اے شیب!میرے نزدیک ہوجاؤ،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیا،آپ نے میرے سینہ پرہاتھ پھیرااورفرمایاالٰہی!اس کوشیطان سے بچا،اللہ کی قسم !اس کے بعدآپ مجھے اپنی آنکھ اورکان سے بھی زیادہ محبوب لگتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے آپ کی دشمنی نکال دی،آپ نے فرمایاآگے آؤاوردشمن سے لڑو،

فَتَقَدَّمْتُ أَمَامَهُ أَضْرِبُ بِسَیْفِی، اللهُ یَعْلَمُ أَنِّی أُحِبُّ أَنْ أَقِیَهُ بِنَفْسِی كُلَّ شَیْءٍ، وَلَوْ لَقِیتُ تِلْكَ السَّاعَةَ أَبِی لَوْ كَانَ حَیًّا، لَأَوْقَعْتُ بِهِ السَّیْفَ ، فَجَعَلْتُ أَلْزَمُهُ فِیمَنْ لَزِمَهُ، حَتَّى تَرَاجَعَ الْمُسْلِمُونَ، فَكَرُّوا كَرَّةَ رَجُلٍ وَاحِدٍوَخَرَجَ فِی أَثَرِهِمْ حَتَّى تَفَرَّقُوا فِی كُلِّ وَجْهٍ، وَرَجَعَ إِلَى مُعَسْكَرِهِ فَدَخَلَ خِبَاءَهُ، فَدَخَلْتُ عَلَیْهِ مَا دَخَلَ عَلَیْهِ أَحَدٌ غَیْرِی حُبًّا لِرُؤْیَةِ وَجْهِهِ، وَسُرُورًا بِهِ،فَقَالَ:یَا شیب الَّذِی أَرَادَ اللهُ بِكَ خَیْرٌ مِمَّا أَرَدْتَ لِنَفْسِكَ ، ثُمَّ حَدَّثَنِی بِكُلِّ مَا أَضْمَرْتُ فِی نَفْسِی مَا لَمْ أَكُنْ أَذْكُرُهُ لِأَحَدٍ قَطُّ،قَالَ فَقُلْتُ: فَإِنِّی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ قُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِی، فَقَالَ غَفَرَ اللهُ لَكَ

چنانچہ میں آپ کے آگے ہوکر لڑنے لگااگراس وقت میراباپ بھی میرے سامنے آجاتاتومیری تلوارسے نہ بچ پاتا،جب مسلمان واپس پلٹے توانہوں نے بڑے جوش سے شخص واحدکی طرح حملہ کیاجس کی تاب نہ لاکرکفارپسپاہوگئے اورجدھرکسی کامنہ ہوا ادھربھاگ نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے خچرپرسوارہوکرکچھ دوران اِن کے پیچھے گئےجب وہ چاروں طرف منتشرہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لشکرگاہ میں واپس تشریف لے آئے اوراپنے خیمہ میں داخل ہوگئے،میں بھی آپ کے پیچھے آپ کے خیمہ میں داخل ہواتوآپ نے فرمایااےشیبہ! تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ کاارادہ تمہارے اپنے ارادسے بہتر ہے ، پھرآپ نے مجھے وہ سب باتیں بتائیں جومیں نے اپنے دل میں چھپارکھی تھیں اوران کا کسی سے تذکرہ نہیں کیاتھا، میں نے عرض کیا میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اوربیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حق میں میرے جرائم کی بخشش کی دعافرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے اسلام لانے کی وجہ سے تمہارے سارے گناہ معاف فرمادیئے ہیں ۔[34]

یہ کیفیت دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کے دائیں جانب کھڑے ہو کر تین بارپکارکرکہا

قَالَ:إِلَى أَیْنَ أَیُّهَا النَّاسُ؟ هَلُمَّ إِلَیَّ أَنَا رَسُولُ اللهِ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ

اے لوگو!ادھرآؤمیں اللہ کارسول ہوں ،میں محمدبن عبداللہ ہوں ۔[35]

مگربے سود!سب بھاگے جارہے تھے،لشکرکے اجزائے ترکیبی ۔میدان جنگ کے وہ طبعی حالات جس میں مسلمانوں کوجنگ کرناپڑی۔ اوردشمن کے ساتھ پہلی جھڑپ کانتیجہ ۔ یہ تینوں عوامل جنگی نقطہ نگاہ سے ایسے تھے کہ مسلمانوں کوحتمی شکست بعیدازقیاس نہ تھی ،اس نہایت نازک اورپرخطرموقع پرسالارلشکرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم وثبات ،خوداعتمادی اورجرات ودلیری کی نادرمثال قائم فرمائی اورجنگ کاپانسہ پلٹ دیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ ہرچہارسمت سے تیروں کامینہ برس رہاہے ، چندگنے چنے رفیقوں کے علاوہ دوسرے ساتھی میدان چھوڑکرمنتشرہوچکے ہیں توآپ نے ہمت نہیں ہاری بلکہ بے مثال جرت وبہادری اورکمال شجاعت کامظاہرہ فرماتے ہوئے اپنے سفید خچر شہباز کوجوفروہ بن نفاثہ جذامی نے آپ کوتحفتاً بھیجاتھاہوزان وثقیف کے سیلاب کی طرف دوڑانا شروع کردیا،عباس رضی اللہ عنہ اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن حارث دونوں ہی آپ کی حفاظت کے لئے خچرکوآگے جانے سے روکتے تھےمگرآپ نہایت استغنااوراطمینان کے ساتھ اپنانبوت کے اعتبارسے بھی اورخاندانی اعتبارسے بھی بلندآوازسے تعارف فرمارہے تھے۔

أَنَا النَّبِیُّ لا كَذِبْ ،أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں سچارسول ہوں ،اللہ نے مجھ سے فتح ونصرت کاجووعدہ کیاہے وہ سچ ہے اورمیں عبدالمطلب کابیٹاہوں (کیونکہ عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کے داداعبدالمطلب ہی کی طرف منسوب کرتے تھے ،جومشہورہستی تھے اورعبداللہ ان کے سامنے ہی فوت ہوچکے تھے)

وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَیْسٍ أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ؟فَقَالَ: لَكِنْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَفِرَّ كَانَتْ هَوَازِنُ رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَیْهِمْ انْكَشَفُوا، فَأَكْبَبْنَا عَلَى الغَنَائِمِ، فَاسْتُقْبِلْنَا بِالسِّهَامِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ البَیْضَاءِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ الحَارِثِ آخِذٌ بِزِمَامِهَا فَنَزَلَ فَاسْتَنْصَرَقَالَ اللهُمَّ أَنْزِلْ نَصْرَكَ

براء رضی اللہ عنہ بن عازب سے مروی ہےقبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھااے ابوعمارہ!کیاتم حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑکربھاگ گئے تھے ؟ انہوں نے کہالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے،اس کی وجہ یہ تھی کہ ہوزان کے لوگ بڑے ماہرتیراندازتھے ،جب ہم نے ان پرحملہ کیاتوپہلے بظاہروہ شکست کھاکربھاگ کھڑے ہوئے جب لوگ غنیمت لوٹنے لگے توانہوں نے مڑ کرہم پرتیروں کی بارش برسادی جس سے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے،میں نے دیکھااس وقت آپ اپنے سفیدخچر پر سوار تھے ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حارث نے سفید خچرکی لگام پکڑی ہوئی تھی،آپ نیچے اترے ، اللہ تعالیٰ سے مددطلب کی ،اورفرمایاالٰہی !اپنی مددنازل فرما۔[36]

قال ابن عقبة: فرفع صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یدیه وهو على البغلة یدعو:اللهُمَّ إِنِّی أَنْشُدُكَ مَا وَعَدْتَنِی، اللهُمَّ لَا یَنْبَغِی لَهُمْ أَنْ یَظْهَرُوا عَلَیْنَا

ابن عقبہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک اٹھائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم خچرپرسوارتھے اوردعافرمائی اے اللہ!تو نے اپنا وعدہ مجھ سے پورا کر دیا، اے اللہ! یہ زیبا نہیں کہ حنین والے ہم پر غالب آجائیں ۔

عن أنس كان من دعائه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوم حنین:اللهُم إنك إِنْ تَشَأْ لاَ تُعْبَدْ بَعْدَ الیَوْمِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں دعاکی تھی اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری کوئی عباد ت نہ کی جائے تو شکست ہی ہمارے مقدرسہی۔

وَكَانَ دُعَاءُ النّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ حِینَ اللهُمّ، لَك الْحَمْدُ، وَإِلَیْك الْمُشْتَكَى، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ!

اورواقدی کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں یہ دعافرمائی تھی اے اللہ! تو تمام تعریفوں کے لائق ہے اور تیری طرف ہی ہم شکوہ کرتے ہیں اور تو ہی مستعان ہے۔

وَدُعَاءُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ , وَدُعَاءٌ لِكُلِّ مَكْرُوبٍ: كُنْتَ وَتَكُونُ وَأَنْتَ حَیٌّ لَا تَمُوتُ , تَنَامُ الْعُیُونُ وَتَنْكَدِرُ النُّجُومُ وَأَنْتَ حَیٌّ قَیُّومٌ , لَا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ

اورامام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں یہ دعافرمائی تھی یہ ہر غمزدہ کی دعا ہے کہ تو ہی زندہ وجاوید ہستی ہے کبھی موت کا خیال بھی درکنار، آنکھیں سوجاتی ہیں اور ستارے بجھ جاتے ہیں لیکن تیری ذات حی وقیوام ہے اور تجھے نیند کیا اونگھ تک نہیں آتی ، حی وقیوم والی ذات تیری ہی ذات ہے۔[37]

وَكَانَ یَقُولُ: اللهُمَّ أَنْتَ عَضُدِی وَأَنْتَ نَصِیرِی، وَبِكَ أُقَاتِلُ

ایک روایت ہےیہ دعافرمائی اے اللہ! تو ہی مجھے طاقت دیتاہے اور میری نصرت ومدد کرتاہے اور تیرے ہی راتے میں میں لڑ رہا ہوں ۔[38]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔

أَنَا النَّبِیُّ لا كَذِبْ ،أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں سچارسول ہوں ،اللہ نے مجھ سے فتح ونصرت کاجووعدہ کیاہے وہ سچ ہے اورمیں عبدالمطلب کابیٹاہوں ۔[39]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: افْتَتَحْنَا مَكَّةَ ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَیْنًا، قَالَ: فَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَیْتُ، قَالَ: فَصَفَّ الْخَیْلَ ثُمَّ صَفَّ الْمُقَاتِلَةَ، ثُمَّ صَفَّ النِّسَاءَ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ، ثُمَّ صَفَّ الْغَنَمَ، ثُمَّ صَفَّ النَّعَمَ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےہم نے فتح مکہ کے بعدحنین پرچڑھائی کی،مشرکین بہت اچھی صفیں بناکرسامنے آئے،صفوں کی اتنی اچھی ترتیب میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں ،سب سے پہلے گھڑسواروں کی صفیں تھیں ،ان کے پیچھے پیدل دستوں کی صفیں تھیں اوران کے پیچھے عورتوں اوربچوں کی صفیں تھیں اوران کے پیچھے ان کے مال ومویشی تھے اوربہت لوگ تھے۔[40]

خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ

لشکراسلامی کے سواروں کے میمنہ پرخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدمقررتھے۔

مگرچاروں طرف کمین گاہوں میں چھپے دشمن کے برسات کی طرح برستے تیروں سے بچنے کے لئے ہماری پشت کے پیچھے پناہ حاصل کرنے لگےمگرکہیں پناہ نہ پاکرسواردستے بھاگ کھڑے ہوئے،ان کے ساتھ نومسلم اعراب بھی بھاگ اٹھے اوروہ لوگ بھی فرارہونے لگے جنہیں تم جانتے ہو۔

قَالَ عَبَّاسٌ:فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیْ عَبَّاسُ، نَادِ أَصْحَابَ السَّمُرَةِ فَقَالَ عَبَّاسٌ: وَكَانَ رَجُلًا صَیِّتًافَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِی: أَیْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ؟

عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کوجو بلندآوازتھے حکم فرمایااے عباس رضی اللہ عنہ !اصحاب سمرہ (مہاجرین وانصار)کوآوازدیں ،وہ کہتے ہیں نے باآواز بلندنعرہ لگایا اے وہ لوگوں جنہوں نے کیکرکے درخت کے نیچے بیعت کی تھی کہاں ہیں ؟

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُنَادَى: یَا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ

انس رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ وہ بلندآوازسے پکاریں اے اصحاب سورۂ بقرہ!۔[41]

قَالَ: فَوَاللهِ، لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِینَ سَمِعُوا صَوْتِی عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا، فَقَالُوا: یَا لَبَّیْكَ، یَا لَبَّیْكَ قَالَ: فَاقْتَتَلُوا وَالْكُفَّارَ

اللہ کی قسم !میری آوازسنتے ہی وہ اس طرح لبیک لبیک پکارتے ہوئے اس طرح پلٹ پڑے جس طرح گائے اپنے بچے کی آوازکی طرف دوڑتی آتی ہے اورکفارسے لڑنے لگے۔

فَأَقْبَلُوا كَأَنَّهُمُ الإِبِلُ إِذَا حَنَّتْ إِلَى أَوْلادِهَا

ایک روایت میں ہےوہ اس طرح پلٹ پڑے جس طرح اونٹ اپنے بچے کی آوازکی طرف دوڑتا آتا ہے۔[42]

(اس سے معلوم ہواکہ وہ دورنہیں بھاگے تھے اورنہ سب بھاگے تھے بلکہ بعض نومسلم وغیرہ وفعتاًتیروں کی بارش سے لوٹے اورگڑبڑہوگئی)

وَالدَّعْوَةُ فِی الْأَنْصَارِ یَقُولُونَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالَ: ثُمَّ قُصِرَتِ الدَّعْوَةُ عَلَى بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَقَالُوا: یَا بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، یَا بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ

پھرانصارکویوں بلایااےانصارکے لوگو!اےانصارکے لوگو !وہ بھی آگئے،پھراے بنی خزرج ! اے بنی خزرج! کہہ کرآوازدی وہ بھی پلٹ آئے۔[43]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: التَفَتَ عَنْ یَمِینِهِ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ،ثُمَّ التَفَتَ عَنْ یَسَارِهِ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ

انس بن مالک کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود بنفس نفیس آوازدے رہے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داہنی طرف آوازدی اے انصارکی جماعت! آواز کا سننا تھاکہ یک دم سب پلٹ پڑے اورجواب دیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم حاضرہیں آپ کوبشارت ہوہم آپ کے ساتھ لڑنے کو تیار ہیں ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف متوجہ ہوئے اورآوازدی اے انصارکی جماعت !انہوں نے ادھرسے جواب دیاکہ ہم حاضرہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بشارت ہوہم آپ کے ساتھ ہیں ۔[44]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:فَنَادَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا لَلْمُهَاجِرِینَ، یَا لَلْمُهَاجِرِینَ ، ثُمَّ قَالَ:یَا لَلْأَنْصَارِ، یَا لَلْأَنْصَارِ. قَالَ: قُلْنَا: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی اے گروہ مہاجرین !اے گروہ مہاجرین! پھرآوازدی اے گروہ انصار! اے گروہ انصار!دونوں نے آوازسن کر کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم حاضرہیں ۔[45]

اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازسن کر صحابہ کرام چندلمحوں میں پروانہ وارآکرشمع نبوت کے گردجمع ہوگئے۔

إِیَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ:فَوَلَّى صَحَابَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا، وَعَلَیَّ بُرْدَتَانِ مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا مُرْتَدِیًا بِالْأُخْرَى، فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِی فَجَمَعْتُهُمَا جَمِیعًا، وَمَرَرْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُنْهَزِمًا وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ رَأَى ابْنُ الْأَكْوَعِ فَزَعًا

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بھی شکست کھاکر بھاگتا ہوا لوٹا اورمیرے پاس دوچادریں تھیں ایک چادرباندھ رکھی تھی اوردوسری اوڑھ رکھی تھی،اتنے میں میراتہ بندکھلنے لگاتومیں نے دونوں چادروں کواکٹھاکرکے(تہ بند)باندھ لیا،جب سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شھباء نامی خچر پر سوار تھے توانہیں دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااکوع کابیٹاگھبراکرلوٹاہے ۔[46]

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ فَقَالَ: یَا عباس اصْرُخْ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، یَا مَعْشَرَ أَصْحَابِ السَّمُرَةِ ، فَأَجَابُوا: لَبَّیْكَ لَبَّیْكَ ، قَالَ: فَیَذْهَبُ الرَّجُلُ لِیُثْنِیَ بَعِیرَهُ، فَلَا یَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ، فَیَأْخُذُ دِرْعَهُ فَیَقْذِفُهَا فِی عُنُقِهِ، وَیَأْخُذُ سَیْفَهُ وَقَوْسَهُ وَتُرْسَهُ، وَیَقْتَحِمُ عَنْ بَعِیرِهِ وَیُخَلِّی سَبِیلَهُ وَیَؤُمُّ الصَّوْتَ، حَتَّى یَنْتَهِیَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى إِذَا اجْتَمَعَ إِلَیْهِ مِنْهُمْ مِائَةٌ، اسْتَقْبَلُوا النَّاسَ، فَاقْتَتَلُوا

جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عباس رضی اللہ عنہ !اے گروہ انصار،اے گروہ انصار،اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والےگروہ ،اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والےگروہ کہہ کرآوازدو،یہ آوازسن کروہ لبیک لبیک پکارتے ہوئے دوڑے،گھمسان کی وجہ سے اگرکوئی آدمی اپناگھوڑایااونٹ نہ موڑسکتاتھاتووہ زرہ کواونٹ کی گردن پرڈال دیتا اورہاتھ میں تلواراورڈھال لے کراونٹ سے کود پڑتا اورآوازکی طرف دوڑآتاحتی کہ آپ کے پاس ایک سوآدمی جمع ہوگئے اوردشمن کے سامنے سینہ سپرہوکرلڑنے لگےجس سے دفعتاًلڑائی کارنگ بدل گیا۔[47]

فو الله مَا رَجَعَتْ رَاجِعَةُ النَّاسِ مِنْ هَزِیمَتِهِمْ حَتَّى وَجَدُوا الْأُسَارَى مُكَتَّفِینَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کہتے ہیں آخری لوگوں کے واپس آنے تک کفارکومکمل شکست ہوچکی تھی اورزنجیروں میں جکڑے ہوئے اورمشکیں باندھے ہوئے قیدی آپ کی خدمت میں پیش ہونے لگے۔[48]

وَقَالَ بُجَیْرُ بْنُ زُهَیْرِ بْنِ أَبِی سُلْمَى فِی یَوْمِ حُنَیْنٍ:

بجیربن زہیربن ابی سلمیٰ نے غزوہ حنین میں ایک قصیدہ کہا۔

وَاَللَّهُ أَكْرَمَنَا وَأَظْهَرَ دِینَنَا ، وَأَعَزَّنَا بِعِبَادَةِ الرَّحْمَنِ

اللہ نے ہمیں عزت دی اورہمارے دین کاظاہرکیا،اوراللہ رحمٰن نے (یعنی اپنی)عبادت کے ساتھ ہمیں عزت دی

وَاَللَّهُ أَهْلَكَهُمْ وَفَرَّقَ جَمْعَهُمْ ،وَأَذَلَّهُمْ بِعِبَادَةِ الشَّیْطَانِ

اوراللہ نے ان کوہلاک کیااوران کی جمعیت کوپریشان کیا،اورشیطان کی عبادت کرنے کی وجہ سے ان کوذلیل ورسواکیا

إذْ قَامَ عَمُّ نَبِیِّكُمْ وَوَلِیُّهُ ، یَدْعُونَ: یَا لَكَتِیبَةِ الْإِیمَانِ

جبکہ تمہارے نبی کے چچااوران کے ولی کھڑے ہوئے،اورآوازدی کہ اے ایمان کے لشکروکہاں جاتے ہیں

أَیْنَ الَّذِینَ هُمْ أَجَابُوا رَبَّهُمْ ، یَوْمَ الْعُرَیْضِ وَبَیْعَةِ الرِّضْوَانِ

اورکہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کے احکام قبول کیے تھےعریض اوربیت الرضوان کے دن

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ: یَا أَبَا عُمَارَةَ، أَفَرَرْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ؟قَالَ: لَا وَاللهِ، مَا وَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ، وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا، لَیْسَ عَلَیْهِمْ سِلَاحٌ أَوْ كَثِیرُ سِلَاحٍ ،فَلَقُوا قَوْمًا رُمَاةً لَا یَكَادُ یَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ، جَمْعَ هَوَازِنَ وَبَنِی نَصْرٍفَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا یَكَادُونَ یُخْطِئُونَ،أَقْبَلُوا هُنَاكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَیْضَاءِ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَقُودُ بِهِ ، فَنَزَلَ فَاسْتَنْصَرَ

ابن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک شخص نے براء بن عازب سے کہااے ابوعمارہ!کیاتم غزوہ حنین کے دن فرارہوئے تھے ؟انہوں نے کہااللہ کی قسم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں موڑی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اصحاب میں سے چند نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے پاس تیروں سے بچنے کے لئے زرہیں اورخودنہیں تھے یاپورے ہتھیارنہیں تھے نکلے،ان کامقابلہ ہوزان اوربنی نصرکے ایسے تیراندازوں سے ہواجن کاکوئی تیرنشانہ سے نہیں چوکتاتھاانہوں نے یک بارگی تیروں کی ایسی بوچھاڑکی کوئی تیرخطانہ ہوااوروہ وہ مقابلہ کی تاب نہ لاکرپیچھے ہٹ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفیدخچرپرسوارتھے اورابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اسے چلارہے تھے،یہ دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خچرسےنیچے اترے اوراللہ تعالیٰ سے مددطلب کی اورفرمایاالٰہی اپنی مددنازل فرما۔[49]

قَالَ: وَالْتَفَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ إلَى أَبِی سُفْیَانَ بْنِ الْحَارِثِ وَهُوَ مُقَنّعٌ فِی الْحَدِیدِ، وَكَانَ مِمّنْ صَبَرَ یَوْمَئِذٍ، وَهُوَ آخِذٌ بِثَفَرِ بَغْلَةِ النّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ هَذَا؟قَالَ: ابْنُ أُمّك یَا رَسُولَ اللهِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جومڑکردیکھاتو ابوسفیان بن حارث کواپنے پاس پایایہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں صبرکیاتھااوران کااسلام بہت اچھاتھا اورآپ کی خچرکی رکاب تھامے ہوئے تھے،آپ نے ان کودیکھ کر پوچھایہ کون ہے؟انہوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ہوں آپ کا چچا زاد بھائی ہوں ۔[50]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کوحکم دیاکہ دشمن پرسخت اوربہادرانہ حملہ کروجوشخص جسے قتل کرے گااس کاسب سامان اسی کاہوگااس پرمجاہدین نے دشمن پرسخت حملہ کیا،جب گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی اورمیدان کارزارگرم ہوگیامیں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوخچرپرسوارتھے اونچے ہوکرلڑائی کودیکھا

فَقَالَ: الْآنَ حَمِیَ الْوَطِیسُ

اورملاحظہ کرکے فرمایاہاں اب لڑائی کا تنور خوب گرم ہواہے۔[51]

أَنَّ أبا طلحة قَتَلَ یَوْمَ حُنَیْنٍ عِشْرِینَ رَجُلًا، فَأَخَذَ أَسْلَابَهُمْ

چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کفارکے بیس آدمیوں کوجہنم وصل کیااوراس کامال حاصل کیا۔[52]

برا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں واللہ!جب گھمسان کی جنگ شروع ہوئی توہم آپ کے پیچھے ہوکراپنابچاؤکرتے تھےاورہم میں سے وہ آدمی بڑاشجاع سمجھا جاتاتھا جو آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہوکردشمن کامقابلہ کرتاتھا۔

مشرکین نے چاروں طرف سے آپ کوگھیررکھاتھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچرسے نیچے اترے اوراللہ سے نصرت کی دعا مانگی ، فرمایا اے اللہ!اپنی مددنازل فرما،آپ یہ بھی فرماتے جاتے تھے ۔

أَنَا النَّبِیُّ لا كَذِبْ ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں سچارسول ہوں ،اللہ نے مجھ سے فتح ونصرت کاجووعدہ کیاہے وہ سچ ہے اورمیں عبدالمطلب کابیٹاہوں ۔

إِیَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ: فَلَمَّا غَشُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ، ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، فَقَالَ:شَاهَتِ الْوُجُوهُ، فَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَیْنَیْهِ تُرَابًا بِتِلْكَ الْقَبْضَةِ

سلمہ رضی اللہ عنہ بن اکوع سے مروی ہےجب کفارنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھانپ لیاتوآپ نے خچرسے اترکرایک مٹھی مٹی لی اورشَاهَتِ الْوُجُوهُ کہہ کردشمن کی طرف پھینکی اور فرمایا دشمنوں کے منہ رسواہوگئےکوئی آدمی ایسانہ تھاکہ جس کی آنکھ میں وہ مٹی نہ بھرگئی ہو۔[53]

اسی وقت اللہ کی مددنازل ہوگئی،اللہ نے اپنے رسول اورمسلمانوں پرتسکین نازل فرمائی اورایسے لشکروں کوبھیج دیاجونظرنہ آتے تھے۔

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ لَقَدْ رَأَیْتُ قَبْلَ هَزِیمَةِ الْقَوْمِ وَالنَّاسُ یَقْتَتِلُونَ یَوْمَ حُنَیْنٍ مِثْلَ الْبِجَادِ الْأَسْوَدِ، أَقْبَلَ مِنَ السَّمَاءِ حَتَّى سَقَطَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا نَمْلٌ أَسْوَدُ مَبْثُوثٌ قَدْ مَلَأَ الْوَادِیَ، فَلَمْ یَكُنْ إِلَّا هَزِیمَةَ الْقَوْمِ، فَلَمْ أَشُكَّ أَنَّهَا الْمَلَائِكَةُ

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ راوی ہیں ہوزان کی شکست اورپسپائی سے کچھ پہلے ایک سیاہ چادرمیں نے آسمان سے اترتے دیکھی ،وہ چادرہمارے اوردشمن کے درمیان آگری،دفعتاًاس میں سے سیاہ چیونٹیاں نکلیں اورتمام وادی میں پھیل گئیں ،مجھے ان کے فرشتہ ہونے میں زرہ برابرشک نہ تھاان کااترناتھا کہ دشمنوں کوشکست ہوئی۔ [54]

وَقَالَ: انْهَزِمُوا، وَرَبّ الْكَعْبَةِ!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ کوملاحظہ کرکے فرمایاقسم ہے محمدکے رب کی !انہوں نے شکست کھائی ،قسم ہے محمدکے رب کی ! انہوں نے شکست کھائی۔[55]

قَالَ عَبَّاسٌ: فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَیْئَتِهِ فِیمَا أَرَى، قَالَ: فَوَاللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَیَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِیلًا، وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا قَالَ: وَكَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَرْكُضُ خَلْفَهُمْ عَلَى بَغْلَتِهِ

عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سراٹھاکردیکھاتومعلوم ہواکہ ابھی لڑائی بددستورجاری ہے مگرآپ کے کنکرپھینکنے کے بعدان کاجوش ٹوٹنے لگااورقوت کمزورپڑنے لگی ، اور ایک لمحہ میں بہادران ہوزان کے باوجود قوت وشوکت کے پاؤں اکھڑگئے، میں نے دیکھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے اپناخچردوڑارہے تھے۔ [56]

وَلَمَّا انْهَزَمَتْ هَوَازِنُ اسْتَحَرَ الْقَتْلُ مِنْ ثَقِیفٍ فِی بَنِی مَالِكٍ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلا، وَلَمَّا انْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ أَتَوُا الطَّائِفَ، وَمَعَهُمْ مَالِكُ بْنُ عَوْفٍ، وَعَسْكَرَ بَعْضُهُمْ بِأَوْطَاسَ، وَتَوَجَّهَ بَعْضُهُمْ نَحْوَ نَخْلَةَ،وَكَانَتْ رَایَةُ الْأَحْلَافِ مَعَ قَارِبِ بْنِ الْأَسْوَدِ، فَلَمَّا انْهَزَمَ النَّاسُ أَسْنَدَ رَایَتَهُ إلَى شَجَرَةٍ، وَهَرَبَ هُوَ وَبَنُو عَمِّهِ وَقَوْمُهُ مِنْ الْأَحْلَافِ، فَلَمْ یُقْتَلْ مِنْ الْأَحْلَافِ غَیْرُ رَجُلَیْنِ: رَجُلٍ مِنْ غِیَرَةَ، یُقَالُ لَهُ وَهْبٌ، وَآخَرُ مِنْ بَنِی كُبَّةَ ، یُقَالُ لَهُ الْجُلَاح

جب ہوزان شکست سے دوچارہوئے توثقیف کے قبیلے بنومالک میں سخت خونریزی ہوئی ان کے جھنڈے کے نیچے ان کے سترآدمی کام آئے ان میں عثمان بن عبداللہ بن ربیعہ بھی تھاجس نے قوم کے سردار ذی الخمارکے قتل ہونے کے بعدبنوثقیف کا جھنڈا اٹھا رکھا تھااوراحلاف کاجھنڈاقارب بن اسودکے ہاتھ میں تھاجب شکست ہوئی توقارب اوراس کی قوم احلاف میدان چھوڑکر بھاگ گئےان کے صرف دوآدمی جنگ میں کام آئے،ایک بنی غبرہ میں سے جس کووہب کہتے تھے اوردوسرابنی کبہ میں سے جس کانام جلاح تھا،شکست کے بعدہوزان وثقیف کاسرداروسپہ سالارمالک بن عوف نصری ایک جماعت کے ساتھ بھاگااورطائف میں جا کر دم لیااورکچھ لوگوں نے بھاگ کرمقام اوطاس میں پناہ لی اورکچھ لوگ جن کے ساتھ درید بن صمہ تھابھاگ کرنخلہ میں پہنچے، ان میں بہت سوں کومسلمانوں نے اسیر کر لیا اور بہت کچھ مال واسباب ہاتھ آیا۔[57]

عَنْ أَنَسٍ،قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، اقْتُلْ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَاءِ انْهَزَمُوا بِكَ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، إِنَّ اللهَ قَدْ كَفَى وَأَحْسَنَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفتح کے بعدام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کے رسول!یہ طلقاء جوہمارے ساتھ ہیں اورآپ کی معیت کے باوجودبھاگ کھڑے ہوئے انہیں قتل کردیں (یعنی ان کاایمان صحیح معلوم نہیں ہوتااگرصحیح معنوں میں مسلمان ہوتے توآپ کوتنہا چھوڑ کر فرارنہ ہوتے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ام سلیم!اللہ کافی ہوگیااوراس نے بڑااحسان کیا۔[58]

دشمن کاجاسوس:

سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، فَبَیْنَا نَحْنُ نَتَضَحَّى مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ ،فَأَنَاخَهُ، ثُمَّ انْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقَبِهِ، فَقَیَّدَ بِهِ الْجَمَلَ، ثُمَّ تَقَدَّمَ یَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ،وَجَعَلَ یَنْظُرُ وَفِینَا ضَعْفَةٌ وَرِقَّةٌ فِی الظَّهْرِ، وَبَعْضُنَا مُشَاةٌ، إِذْ خَرَجَ یَشْتَدُّ، فَأَتَى جَمَلَهُ، فَأَطْلَقَ قَیْدَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ، وَقَعَدَ عَلَیْهِ، فَأَثَارَهُ فَاشْتَدَّ بِهِ الْجَمَلُ ،فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ،

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین میں جہادکیا ابھی لشکرمجاہدین حنین ہی میں تھاکہ ایک دن صبح کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صبح کاکھاناتناول کررہے تھے کہ ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کرآیااس نے اپنے اونٹ کی کمرسے ایک تسمہ نکال کراسے باندھ دیاپھروہ آگے بڑھااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھ کرکھاناکھانے لگاکھانا کھاتے ہوئے وہ(مشکوک انداز میں )ادھرادھربھی دیکھتاجاتاتھا،ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ وہ شخص تیزی کے ساتھ اپنے اونٹ کے طرف لپکااور اس کاتسمہ کھولا اور اسے بٹھاکراس پرسوار ہوا اور تیزی کے ساتھ اسے دوڑایا،ایک مجاہدنے ایک خاکی رنگ کی اونٹنی پراس شخص کاتعاقب کیا،مجاہدین میں ہر ایک کے پاس سواری نہیں تھی لشکرمیں بہت سے پیادہ بھی تھے اور جنگی سازوسامان کے لحا ظ سے بھی کمزورتھے،سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی انہی لوگوں میں تھے،

قَالَ سَلَمَةُ: وَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ فَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ،ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ فَأَنَخْتُهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ فِی الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَیْفِی، فَضَرَبْتُ رَأْسَ الرَّجُلِ، فَنَدَرَثُمَّ جِئْتُ بِالْجَمَلِ أَقُودُهُ عَلَیْهِ رَحْلُهُ وَسِلَاحُهُ،فَاسْتَقْبَلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ،فَقَالَ:مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ:لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ

کہتے ہیں میں نے بغیرسواری کے اس شخص کاتعاقب کیامیں برابراس کے پیچھے بھاگتے رہایہاں تک کہ میں اونٹنی کے سرین تک پہنچ گیاپھرمیں نے اورتیزی دکھائی اورآگے بڑھ کراونٹ کی نکیل کوپکڑلیااور اونٹ کوبٹھایاجیسے ہی اونٹ نے اپناگھٹنازمین پر رکھا میں نے تلوارکھینچ لی اوراس شخص کے سرپرایک وارکیا(جس کی ضرب سے وہ سوارمرگیا)

پھرمیں اس شخص کے اونٹ کومع پالان اورہتھیاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے مجاہدین نے میرااستقبال کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیااس شخص کوکس نے قتل کیا،سب نے کہاسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کاساراسامان اسی کاہے۔[59]

غزوہ حنین کے شہدا:

اس غزوہ میں صرف چارمسلمان شہیدہوئے۔

مِنْ قُرَیْشٍ ثُمَّ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ: أَیْمَنُ بْنُ عُبَیْدٍ

قریش کی شاخ بنوہاشم میں سے ایمن رضی اللہ عنہ بن عبید۔

وَمِنْ بَنِی أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى: یَزِیدُ بْنُ زَمَعَةَ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدٍ، جَمَحَ بِهِ فَرَسٌ لَهُ یُقَالُ لَهُ الْجَنَاحُ، فَقُتِلَ.

بنی اسدبن عبدالعزیٰ میں سے یزید رضی اللہ عنہ بن زمعہ بن اسودبن مطلب بن اسد،ان کے گھوڑے نے جس کانام جناح تھابے قابوہوکران کوشہیدکیا۔

وَمِنْ الْأَنْصَارِ: سُرَاقَةُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَدِیٍّ، مِنْ بَنِی الْعَجْلَانِ.

انصارمیں سے سراقہ رضی اللہ عنہ بن حارث بن عدی جن کا تعلق بنو عجلان سے تھا۔

وَمِنْ الْأَشْعَرِیِّینَ: أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِیُّ.

اوربنی اشعرمیں سے ابوعامراشعری رضی اللہ عنہ ۔[60]

کفارکے مقتولین :

جبکہ اس جنگ میں کفارکے سترسے زیادہ آدمی جہنم وصل ہوئے۔

اموال غنیمت:

وَكَانُوا سِتَّةَ آلَافِ نَفْسٍ مِنَ النِّسَاءِ وَالْأَطْفَالِ

چھ ہزارعورتیں اوربچے ۔[61]

وَكَانَ السَّبْیُ سِتَّةَ آلَافِ رَأْسٍ، وَالْإِبِلُ أَرْبَعَةً وَعِشْرِینَ أَلْفًا، وَالْغَنَمُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِینَ أَلْفَ شَاةٍ، وَأَرْبَعَةَ آلَافِ أُوقِیَّةً فِضَّةً

چھ ہزارچارچہ جات ،چوبیس ہزاراونٹ ،چالیس ہزار سے زائدبکریاں ،چارہزاراوقیہ چاندی (ایک اوقیہ ساڑھے دس درہم یعنی اڑھائی تولہ وزن کاہےاس طرح چاندی کامجموعی وزن دس ہزارتولہ سے کچھ زائدتھا)کئی ہزاربوریاں اجناس ۔[62]

ثُمَّ جُمِعَتْ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبَایَا حُنَیْنٍ وَأَمْوَالُهَا، وَكَانَ عَلَى الْمَغَانِمِ مَسْعُودُ بْنُ عَمْرٍو الْغِفَارِیُّ، وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّبَایَا وَالْأَمْوَالِ إلَى الْجِعْرَانَةِ، فَحُبِسَتْ بِهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے تمام اموال غنیمت اورقیدیوں کوجمع کرکے مسعود رضی اللہ عنہ بن عمروغفاری کو حکم فرمایاکہ انہیں مقام جعرانہ میں لے جاکرمقیدرکھو۔[63]

وقال البلاذری: بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِیُّ

بلاذری رحمہ اللہ کہتے ہیں بدیل رضی اللہ عنہ بن ورقاء الخزاعی کوحکم فرمایاتھا۔[64]

أخذ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوم حنین وبرة من سنام بعیر من الغنائم، فجعلها بین أصبعه،أَیُّهَا النَّاسُ وَاللهِ مَا لِی مِنْ فَیْئِكُمْ وَلَا هَذِهِ الْوَبَرَةِ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْكُمْ، فَأَدُّوا الْخِیَاطَ وَالْمَخِیطَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ عَارٌ وَنَارٌ وَشَنَارٌ عَلَى أَهْلِهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ، فَجَاءَ أنصاری بِكُبَّةٍ خیط مِنْ خُیُوطِ شَعَرٍ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ أَخَذْتُ هَذِهِ الوبرة لأخیط بِهَا بَرْذَعَةَ بَعِیرٍ لِی دَبِرَ فقال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا حَقِّی مِنْهَا لَكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَمَّا إِذْ بَلَغَ الْأَمْرُ هَذَا فَلَا حَاجَةَ لِی بِهَا، فَرَمَى بِهَا مِنْ یَدِهِ

جب غنیمت جمع ہوگئی توابن اسحاق میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر(اونٹ کا ایک بال پکڑکر)فرمایالوگو!تمہاری اس غنیمت سے بجزخمس میرے لئے اس بال جتنی چیزبھی حلال نہیں اورخمس بھی تم میں تقسیم کیاجاتاہےاس لئے سوئی اوردھاگے جتنی چیزبھی مال غنیمت میں جمع کراؤ،غنیمت کے مال میں چوری کرنایااس سے کچھ چھپالیناقیامت کے دن رسوائی اورعذاب کاموجب ہوگا،یہ سن کرانصارکاایک آدمی مٹھی بھراون لایا اوربولااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنے اونٹ کاگداسینے کے لئے غنیمت کے مال سے یہ اون لی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس میں جو میرا حصہ ہے وہ میں تمہیں دیتاہوں ، وہ شخص بولا اگراس سلسلہ میں اس قدرسختی ہے تو مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں پھراسے غنیمت کے مال میں پھینک دیا۔[65]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحلم :

جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ:أَنَّهُ بَیْنَمَا هُوَ یَسِیرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَیْنٍ، فَعَلِقَهُ النَّاسُ یَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ، فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَوَقَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَعْطُونِی رِدَائِی، لَوْ كَانَ لِی عَدَدُ هَذِهِ العِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ بَیْنَكُمْ،ثُمَّ لاَ تَجِدُونِی بَخِیلًا، وَلاَ كَذُوبًا، وَلاَ جَبَانًا

جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس تشریف لارہے تھے میں بھی دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ کے ہمراہ چل رہا تھا راستہ میں بدؤوں نے آپ کوگھیرلیاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ ہمیں بھی کچھ دیں ،وہ آپ کوگھسیٹتے گھسیٹتے ایک ببول کے درخت کے نیچے لے گئے جس کے کانٹوں میں الجھ کرآپ کی چادرمبارک آپ کے بدن سے اترگئی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اورفرمایامجھے میری چادردواگراس جنگل میں اگنے والے درختوں جتنے بھی میرے پاس بکریاں ہوتیں تومیں تمہارے درمیان تقسیم کردیتاپھرتم مجھے بخیل،بزدل اوروعدہ خلافی کرنے والانہ پاتے۔[66]

وفدبنی ربیعہ:

یہ قبیلہ بنوعامربن صعصعہ کی ایک شاخ تھا،غزوہ حنین کے بعدخالدبن ہوذہ اپنے دوبیٹوں عداء بن خالدبن ہوذہ اورعمروبن خالدبن ہوذہ کے ساتھ وفدکی صورت میں بارگاہ رسالت میں حاضرہوئےاوراسلام قبول کرلیااس موقع پرعداء بن خالد رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی یاغلام خریداجس کے لئے باقاعدہ ایک تحریر لکھی گئی۔

قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِیدِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ لِی الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، أَلَا نُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَهُ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، فَأَخْرَجَ لِی كِتَابًا، فَإِذَا فِیهِ:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، اشْتَرَى مِنْهُ عَبْدًا أَوْ أَمَةً، لَا دَاءَ، وَلَا غَائِلَةَ، وَلَا خِبْثَةَ، بَیْعَ الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ

عبدالمجیدبن الوہب(ابویزید)سے مروی ہے کہ ایک دن عداء بن خالدبن ہوذہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہاکیامیں تم کووہ مکتوب نہ سناؤں جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے تحریر کروایاتھا، میں نے کہاضرور،توانہوں نے ایک مکتوب نکالاجس میں تحریرتھا

بسم الله الرحمن الرحیم :یہ وہ سوداہے جوعداء بن خالدبن ہوذہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاتھا،غلام یا لونڈی کی بابت جس میں نہ کوئی مرض ہے نہ کوئی عیب نہ کوئی خرابی،مسلمان کاسودامسلمان سے ہے۔[67]

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عداء رضی اللہ عنہ بن خالدبن ہوذہ سے کچھ خریداتھا۔

عَنِ العَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: كَتَبَ لِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا مَا اشْتَرَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مِنَ العَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ ، بَیْعَ المُسْلِمِ مِنَ المُسْلِمِ، لاَ دَاءَ وَلاَ خِبْثَةَ، وَلاَ غَائِلَةَ وَقَالَ قَتَادَةُ :الغَائِلَةُ الزِّنَا، وَالسَّرِقَةُ، وَالإِبَاقُ

عداء رضی اللہ عنہ بن خالدبن ہوذہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہاکہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع نامہ لکھ دیاتھایہ وہ تحریرہے جس میں محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاعداء بن خالدسے خریدنے کابیان ہے،یہ بیع مسلمان کی مسلمان کے ہاتھ ،نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق وفجور،نہ کوئی بدباظنی ہے ، اور قتادہ نے کہاغائلہ زنا،چوری اوربھاگنے کی عادت کوکہتے ہیں ۔[68]

قال القاضی عیاض هذا مقلوب، والصواب كما فی الترمذی والنسائی وابن ماجة وابن منده موصولاً لأن المشتری العداء من مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس روایت کے بارے میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھاہے کہ یہ حدیث مقلوب ہے اورصحیح بات وہی ہے جس کوامام ترمذی رحمہ اللہ ،امام نسائی رحمہ اللہ ،امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اورابن مندہ رحمہ اللہ نے سندمتصل کے ساتھ بیان کیاہے کہ مشتری عداء رضی اللہ عنہ بن خالدتھے اورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خریداتھا۔[69]

فَكَتَبَ لَهُ كِتَابًا: اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ لکھاہے عداء رضی اللہ عنہ بن خالد بن ہوزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غلام خریداتھاجس کابیع نامہ بھی ان کے پاس موجودتھا،جمہورمحدثین اورارباب سیرکی بھی یہی رائے ہے کہ بیچنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اورخریدنے والے عداء بن خالد رضی اللہ عنہ تھے۔ [70]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عداء بن خالد رضی اللہ عنہ اوران کے قبیلے بنوربیعہ کوایک جاگیربھی عطافرمائی جس کے لئے یہ دستاویزلکھی گئی۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

ھذامااعطی محمدرَسُولُ اللهِ( صلی اللہ علیہ وسلم )لِلْعَدَّاءِ بْنِ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ وَمَنْ تَبِعَهُ مِنْ عَامِرِ بْنِ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ أَعْطَاهُمْ مَا بَیْنَ الْمِصْبَاعَةِ إِلَى الزِّحِّ وَلِوَابَةَ. یَعْنِی لِوَابَةَ الْخَرَّارِ.

 وَكَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ وہ عطیہ ہے جومحمدرسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے بنوربیعہ کوجوعامربن عکرمہ میں سے ہیں (عامربن صعصعہ کے جدامجدکانام عکرمہ تھااس لئے قبیلہ عامربن صعصعہ کوعامربن عکرمہ بھی کہاجاتاہے) دیا،آپ نے ان کومصباعہ(بعض کتابوں میں اس کومضیاعہ اوربعض میں ضباعہ تحریرکیاگیاہے،مگرکچھ اہل علم کے قیاس کے مطابق صحیح لفظ مضیاعہ ہے) سے لے کرزج اورلوابہ تک عطا فرمایا ۔

کاتب خالدبن سعید۔[71]

اہل سیرنے تصریح کی ہے کہ زج ایک چشمہ تھااس کے قریب ہی لواثہ نام کاایک گاؤں تھااس لئے دونوں کاتذکرہ ایک ساتھ کیاجاتاہے۔

[1] ابن ہشام ۴۳۸؍۲،الروض الانف ۲۷۶؍۷،عیون الآثر۲۳۷؍۲،تاریخ طبری ۷۱؍۳،البدایة والنہایة۳۶۹؍۴،زادالمعاد۴۰۹؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۱۱؍۳

[2] شرح الزرقانی علی المواھب۵۰۶؍۳

[3] ابن ہشام۴۳۹؍۲،الروض الانف ۲۷۸؍۷،تاریخ طبری۷۲؍۳،البدایة والنہایة۳۷۰؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۶۱۲؍۳

[4] مغازی واقدی۸۹۴؍۳

[5] شرح الزرقانی علی المواھب۴۹۹؍۳

[6] ابن ہشام۴۴۰؍۲،الروض الانف ۲۷۹؍۷، عیون الآثر۲۳۸؍۲، تاریخ طبری ۷۳؍۳،البدایة والنہایة۳۷۰؍۴،زادالمعاد۴۱۰؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر ۶۱۳؍۳

[7] شرح الزرقانی علی المواھب ۴۹۹؍۳،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۱۲؍۵،السیرة الحلبیة۱۵۳؍۳

[8] الإصابة فی تمییز الصحابة ۵۳۸؍۶

[9] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۵۸۵؍۴

[10] ابن سعد۷۲؍۱

[11] صحیح بخاری  كِتَابُ المَغَازِی بَابُ مَقَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ زَمَنَ الفَتْحِ۴۲۹۸،۴۲۹۹

[12] ابن ہشام۵۰۰؍۲،الروض الانف۳۶۷؍۷، تاریخ طبری ۹۴؍۳،البدایة والنہایة۴۲۲؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۲۰۲؍۵

[13]صحیح بخاری کتاب الحج بَابٌ مِنْ أَیْنَ یَخْرُجُ مِنْ مَكَّةَ؟۱۵۷۸،صحیح مسلم کتاب الحج  بَابُ اسْتِحْبَابِ دُخُولِ مَكَّةَ مِنَ الثَّنِیَّةِ الْعُلْیَا وَالْخُرُوجِ مِنْهَا مِنَ الثَّنِیَّةِ السُّفْلَى وَدُخُولِ بَلَدِهِ مِنْ طَرِیقٍ غَیْرَ الَّتِی خَرَجَ مِنْهَا۳۰۴۳

[14] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة  بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۲

[15] ابن ہشام۴۴۰؍۱، صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف عن انس۴۳۳۳،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۱

[16] شرح الزرقانی علی المواھب۴۹۹؍۳،سنن ابوداودکتاب بَابٌ فِی فَضْلِ الْحَرْسِ فِی سَبِیلِ اللهِ تَعَالَى۲۵۰۱

[17] سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی فَضْلِ الْحَرْسِ فِی سَبِیلِ اللهِ تَعَالَى ۲۵۰۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۲۵؍۵،البدایة والنہایة۳۷۲؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۵۰۳؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۱۷؍۳

[18] جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ۲۱۸۰،ابن ہشام۴۴۲؍۲،الروض الانف۲۸۳؍۷،البدایة والنہایة ۳۲۱؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۲۴؍۵،مغازی واقدی۸۹۰؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۹۹؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۱۶؍۳

[19] شرح الزرقانی علی المواھب۵۰۶؍۳

[20] صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ غَزْوَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ ۴۶۸۰

[21] ابن سعد۱۱۳؍۲،مغازی واقدی۸۹۵؍۳

[22] شرح الزرقانی علی المواھب ۵۰۶؍۳، مغازی واقدی ۸۹۷؍۳

[23] ابن سعد۱۱۴؍۲

[24] زادالمعاد ۴۱۱؍۳،ابن ہشام۴۴۲؍۲،الروض الانف۲۸۴؍۷،عیون الآثر۲۳۹؍۲،تاریخ طبری۷۴؍۳

[25] شرح الزرقانی علی المواھب۵۰۶؍۳

[26] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ مَنْ قَادَ دَابَّةَ غَیْرِهِ فِی الحَرْبِ ۲۸۶۴

[27] فتح الباری ۳۰؍۸

[28] مستدرک حاکم ۲۵۴۹،مسنداحمد۴۳۳۶،شرح الزرقانی علی المواھب۵۱۳؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۱۴۲؍۵

[29] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْجِهَادِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی الثَّبَاتِ عِنْدَ القِتَالِ ۱۶۸۹،فتح الباری۳۰؍۸

[30] شرح الزرقانی علی المواھب۵۰۷؍۳

[31] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَنْ لَمْ یُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِیلًا فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُخَمِّسَ، وَحُكْمِ الإِمَامِ فِیهِ۳۱۴۲، وکتاب المغازی بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ. ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ سَكِینَتَهُ۴۳۲۱،صحیح مسلم کتاب الجہاد بَابُ اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِیلِ۴۵۶۸،فتح الباری ۳۷؍۸،البدایة والنہایة۳۷۶؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۱۴۸؍۵،مغازی واقدی۹۰۸؍۳،زادالمعاد۴۳۰؍۳

[32] ابن ہشام۴۴۳؍۲،الروض الانف ۲۸۵؍۷،عیون الآثر۲۴۰؍۲، زادالمعاد ۴۱۲؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۵۰۸؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۱۲۶؍۵،مجمع الزوائد۱۰۲۶۶

[33] مغازی واقدی۹۱۰؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۱۴۵؍۵،البدایة والنہایة ۳۸۱؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۳۲؍۳

[34] زادالمعاد ۴۱۲؍۳، عیون الآثر ۲۴۰؍۲

[35] زادالمعاد۴۱۱؍۳،ابن ہشام۴۴۳؍۲،الروض الانف ۲۸۴؍۷،عیون الآثر۲۳۹؍۲،تاریخ طبری ۷۴؍۳،البدایة والنہایة۳۷۳؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۱۲۶؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۵۰۶؍۳

[36] زادالمعاد۸۹؍۳

[37] شرح الزرقانی علی المواھب ۵۰۷تا۵۰۸؍۳

[38] زادالمعاد۸۹؍۳

[39] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ. ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ سَكِینَتَهُ ۴۳۱۷ ،صحیح مسلم کتاب الجہاداواسیر  بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ ۴۶۱۵،مسنداحمد۱۸۴۶۸

[40] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة  بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۲ ،دلائل النبوة للبیہقی ۱۷۱؍۵،البدایة والنہایة۵۰۸؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۵۱۷؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۷۳؍۳

[41] مسندابی یعلی۳۶۰۶،المعجم الكبیرللطبرانی عن عتبة بن فرقد ۳۲۸

[42] مغازی واقدی ۸۹۸؍۳

[43] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابٌ فِی غَزْوَةِ حُنَیْنٍ ۶۴۱۲

[44] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ ۴۳۳۷

[45] دلائل النبوة للبیہقی۱۷۱؍۵

[46]صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ فِی غَزْوَةِ حُنَیْنٍ عن سلمہ بن اکوع۴۶۱۹

[47] دلائل النبوة للبیہقی ۱۲۹؍۵،زادالمعاد۴۱۳؍۳، مغازی واقدی ۸۹۸؍۳،ابن ہشام ۴۴۵؍۲،الروض الانف ۲۸۷؍۷،عیون الآثر۲۴۱؍۲، تاریخ طبری ۷۵؍۳

[48] ابن ہشام۴۴۵؍۲ ،الروض الانف ۲۸۸؍۷،عیون الآثر۲۳۹؍۲،تاریخ طبری ۷۶؍۳،البدایة والنہایة ۳۷۳؍۴، زادالمعاد۴۱۲؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۱۲۶؍۵

[49] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر  بَابٌ فِی غَزْوَةِ حُنَیْنٍ۴۶۱۵

[50] ابن ہشام۴۴۶؍۲،الروض الانف۲۸۸؍۷  ،مغازی واقدی۹۰۰؍۳

[51]صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابٌ فِی غَزْوَةِ حُنَیْنٍ۴۶۱۲

[52]

[53] صحیح مسلم کتاب اجہادالسیر بَابٌ فِی غَزْوَةِ حُنَیْنٍ۴۶۱۹،فتح الباری ۳۲؍۸، زادالمعاد۴۱۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۱۴۰؍۵،عیون الآثر ۲۴۱؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۵۱۱؍۳

[54] فتح الباری ۳۱۲؍۷، زادالمعاد۴۱۴؍۳،مغازی واقدی ۹۰۵؍۳،ابن ہشام۴۴۹؍۲،الروض الانف ۲۹۳؍۷،عیون الآثر۲۴۱؍۲،تاریخ طبری ۷۷؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۵۱۵؍۳

[55] ابن سعد۱۱۵؍۲، مغازی واقدی۸۹۹؍۳

[56]صحیح مسلم کتاب  الجہاد والسیر  بَابٌ فِی غَزْوَةِ حُنَیْنٍ۴۶۱۲،۴۶۱۳ 

[57] عیون الآثر۲۴۱؍۲،ابن ہشام ۴۴۹؍۲

[58] صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ غَزْوَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ۴۶۸۰

[59] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِیلِ۴۵۷۲

[60] ابن ہشام ۴۵۹؍۲

[61] فتح الباری۴۸؍۸

[62] زادالمعاد۴۱۵؍۳،عیون الآثر۲۴۲؍۲،ابن سعد۱۱۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۱۹؍۴

[63] ابن ہشام ۴۵۹؍۲، الروض الانف ۳۰۵؍۷

[64] شرح الزرقانی علی المواھب۶؍۴

[65] شرح الزرقانی علی المواھب۱۸؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۱۹۴؍۵،ابن ہشام ۴۹۲؍۲،الروض الانف ۳۵۶؍۷، تاریخ طبری ۸۹؍۳،البدایة والنہایة ۴۰۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۶۹؍۳

[66] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ الشَّجَاعَةِ فِی الحَرْبِ وَالجُبْنِ۲۸۲۱، مسنداحمد۱۶۷۵۶،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۶؍۴،البدایة والنہایة۴۰۶؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۷۰؍۳

[67] جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی كِتَابَةِ الشُّرُوطِ۱۲۱۶،سنن ا بن ماجہ کتاب  التجارات بَابُ شِرَاءِ الرَّقِیقِ۲۲۵۱،السنن الکبری للنسائی۱۱۶۸۸ ،ابن سعد۳۷؍۷، شرح الزرقانی علی المواھب۵۸؍۵

[68] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ إِذَا بَیَّنَ البَیِّعَانِ وَلَمْ یَكْتُمَا وَنَصَحَا

[69] إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری ۲۳؍۴

[70] الاستیعاب ۱۲۳۷؍۳

[71] ابن سعد۲۰۹؍۱

Related Articles