ہجرت نبوی کا آٹھواں سال

جنگ اوطاس

فرارہونے والوں کاتعاقب :

بنوہوزان اوربنوثقیف کاایک گروہ مغلوب ہوکر گرفتارہوگیا ،ایک شکست خردہ گروہ درید بن صمہ کی سربراہی میں فرارہوکر اوطاس پہنچ کرجمع ہوا ، جبکہ ایک گروہ طائف میں پناہ گرین ہوا،

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: لَمَّا فَرَغَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَیْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَیْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ،فَأَخَذَ بِخِطَامِ جَمَلِهِ وَهُوَ یَظُنّ أَنّهُ امْرَأَةٌ، وَذَلِكَ أَنّهُ كان فِی شِجَارٍ لَهُ فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ فَأَنَاخَ بِهِ، وَهُوَ شَیْخٌ كَبِیرٌ ، وَإِذَا هُوَ دُرَیْدُ بْنُ الصِّمَّةِ وَلَا یَعْرِفُهُ الْغُلَامُ، فَقَالَ لَهُ دُرَیْدٌ: مَاذَا تُرِیدُ بِی؟ قَالَ: قَتْلَكَ، قَالَ لَهُ دُرَیْدٌ: مَنْ أَنْتَ؟قَالَ: أَنَا رَبِیعَةُ بْنُ رُفَیْعٍ السّلَمِیّ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ حنین سے فارغ ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےابوعامراشعری رضی اللہ عنہ (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے چچا)کوجھنڈاعطافرماکرصحابہ کرام کی ایک تھوڑی سی جماعت پرامیر مقرر فرما کر اوطاس کی طرف روانہ کیا،وہاں درید بن صمہ اوراس کے ساتھیوں سے مقابلہ ہوا،ر بیعہ بن رفیع رضی اللہ عنہ نے درید بن صمہ کو جو کچاوے میں سوارتھاعورت سمجھ کرپکڑا مگر جب اس نے اونٹ کوبٹھایاتومعلوم ہواکہ کچاوے میں بوڑھادرید بن صمہ سوار ہے ، ربیعہ بن رفیع رضی اللہ عنہ اس کونہیں جانتے تھے،درید بولاتم میرے ساتھ کیاسلوک کرناچاہتے ہو؟ ربیعہ بن رفیع رضی اللہ عنہ نے کہامیں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں ،درید نے پوچھاتم کون ہو؟ اس نے کہامیں ربیعہ بن رفیع رضی اللہ عنہ سلمی ہوں ،

 فَضَرَبَهُ بِسَیْفِهِ فَلَمْ یُغْنِ شَیْئًا،قَالَ دُرَیْدٌ: بِئْسَ مَا سَلّحَتْك أُمّك! خُذْ سَیْفِی مِنْ وَرَاءِ الرّحْلِ فِی الشّجَارِ فَاضْرِبْ بِهِ وَارْفَعْ عَنْ الطعام واخفض عن الدّماغ، فإن كُنْت كَذَلِكَ أَقْتُلُ الرّجَالَ،ثُمّ إذَا أَتَیْت أُمّك فَأَخْبِرْهَا أَنّك قَتَلْت دُرَیْدَ بْنَ الصّمّةِ،فَرَبّ یَوْمٍ قَدْ مَنَعْت فِیهِ نِسَاءَك! زَعَمَتْ بَنُو سُلَیْمٍ أَنّ رَبِیعَةَ لَمّا ضَرَبَهُ تَكَشّفَ لِلْمَوْتِ عِجَانُهُ ، وَبُطُونُ فَخِذَیْهِ مِثْلَ الْقَرَاطِیسِ مِنْ رُكُوبِ الْخَیْلِ، فَلَمّا رَجَعَ رَبِیعَةُ إلَى أُمّهِ أَخْبَرَهَا بِقَتْلِهِ إیّاهُ فَقَالَتْ: وَاَللهِ لَقَدْ أَعْتَقَ أُمّهَاتٍ لَك ثَلَاثًا

پھرانہوں نے درید پرتلوار کا وار کیا مگرکارگرثابت نہ ہوا، درید بولا تیری ماں نے تجھے بڑے برے ہتھیارسے مسلح کیا ہے ، پالان کے پیچھے سے میری تلوارلے اوراس کے ساتھ مجھے قتل کر مگر خیال رکھناتلواردماغ کے نیچے اورہڈیوں سے اوپر پڑے میں لوگوں کواسی طرح قتل کیاکرتاتھا، پھرجب گھرپہنچو تواپنی ماں سے کہنا آج میں نے درید بن صمہ کوقتل کرآیاہوں ،واللہ!میں نے متعددجنگوں میں تیرے قبیلہ کی عورتوں کوقیدوبندسے بچایاہے،ربیعہ بن رفیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میں نے اس پر تلوار چلائی اوروہ گرپڑاتو بے پردہ ہوگیا،ننگی پیٹھ گھوڑوں پر بکثرت سواری کی وجہ سے اس کی ران اندرسے کاغذکی طرح سفیدتھی، واپس آکرجب ربیعہ نے اپنی ماں کو بتایاکہ میں درید کو قتل کرآیا ہوں تواس نے کہااللہ کی قسم!اس نے تیری ماں کوتین مرتبہ قیدوبندسے آزاد کیا تھا[1]

أَنَّ أَبَا عَامِرٍ الْأَشْعَرِیَّ لَقِیَ یَوْمَ أَوْطَاسٍ عَشَرَةَ إخْوَةٍ مِنْ الْمُشْرِكِینَ، فَحَمَلَ عَلَیْهِ أَحَدُهُمْ، فَحَمَلَ عَلَیْهِ أَبُو عَامِرٍ وَهُوَ یَدْعُوهُ إلَى الْإِسْلَامِ وَیَقُولُ: اللهمّ اشْهَدْ عَلَیْهِ، فَقَتَلَهُ أَبُو عَامِرٍ ثُمَّ حَمَلَ عَلَیْهِ آخَرُ، فَحَمَلَ عَلَیْهِ أَبُو عَامِرٍ، وَهُوَ یَدْعُوهُ إلَى الْإِسْلَامِ وَیَقُولُ:اللهمّ اشْهَدْ عَلَیْهِ، فَقَتَلَهُ أَبُو عَامِرٍ: ثُمَّ جَعَلُوا یَحْمِلُونَ عَلَیْهِ رَجُلًا رَجُلًا، وَیَحْمِلُ أَبُو عَامر وَهُوَ یَقُول ذَلِكَ، حَتَّى قَتَلَ تِسْعَةً، وَبَقِیَ الْعَاشِرُ، فَحَمَلَ عَلَى أَبِی عَامِرٍ، وَحَمَلَ عَلَیْهِ أَبُو عَامِرٍ، وَهُوَ یَدْعُوهُ إلَى الْإِسْلَامِ وَیَقُولُ: اللهمّ اشْهَدْ عَلَیْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: اللهمّ لَا تَشْهَدْ عَلَیَّ، فَكَفَّ عَنْهُ أَبُو عَامِرٍ، فَأَفْلَتْ، ثُمَّ أَسْلَمَ بَعْدُ فَحَسُنَ إسْلَامُهُ

امیردستہ ابوعامر رضی اللہ عنہ کی جنگ اوطاس میں مشرکین میں سے دس بھائیوں سے مقابلہ ہواابوعامر رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے ان میں سے نو جنگجوؤں کوخاک میں ملادیااورجب ابوعامر رضی اللہ عنہ حملہ کرتے تھے توپہلے دعوت اسلام دے کرکہتے تھے اے اللہ!اس پرگواہ ہوجا پھر اس شخص کوقتل کرتے ، اس طرح ان سے مقابلہ کرکے نو جنگجوؤں کوخاک میں ملادیا جب دسویں جنگجوکی باری آئی تواس کوبھی دعوت اسلام دے کرانہوں نے کہاکہ اے اللہ اس پرگواہ ہو جا اور پھر انہوں نے اس پرحملہ کرناچاہااس شخص نے کہااے اللہ!مجھ پرگواہ نہ رہنا،اس کی بات کوسن کر ابو عامر رضی اللہ عنہ نے اپناحملہ روک لیااوروہ شخص بھاگ گیا پھریہ مسلمان ہوااوراس کااسلام بہت اچھاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شخص کودیکھتے تو فرماتے تھے یہ عامرکابھگایاہواہے۔[2]

رَمَاهُ جُشَمِیٌّ بِسَهْمٍ فَأَثْبَتَهُ فِی رُكْبَتِهِ، فَانْتَهَیْتُ إِلَیْهِ فَقُلْتُ: یَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ؟فَأَشَارَ إِلَى أَبِی مُوسَى فَقَالَ: ذَاكَ قَاتِلِی الَّذِی رَمَانِی، فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِی وَلَّى، فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ : أَلاَ تَسْتَحْیِی؟ أَلَسْتَ عَرَبِیًّا؟ أَلاَ تَثْبُتُ، فَكَفَّ، فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَیْنِ بِالسَّیْفِ فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ قُلْتُ لِأَبِی عَامِرٍ: قَتَلَ اللهُ صَاحِبَكَ

ایک جشمی شخص نے ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں ایک تیر مارا جس سے وہ زخمی ہوگئے، میں نے ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکرپوچھااے چچاتمہیں کس نے تیرماراہے؟انہوں نے اشارہ سے بتلایاکہ فلاں شخص میراقاتل ہے ،ابوموسیٰ اس کے پاس پہنچے مگروہ شخص بھاگ کھڑاہوا،ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کاتعاقب کیااورکہتے جا رہے تھے تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تو عربی نہیں ہے؟ توٹھیرتاکیوں نہیں ہے؟بالآخروہ شخص ٹھیرگیا،پھرابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اوراس شخص کے درمیان تلوارکے دوچارہاتھ ہوئے اورابوموسیٰ نے اسے قتل کردیااس کوقتل کرنے کے بعدوہ ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس پلٹ کرآئے اورکہااللہ نے تمہارے قاتل کاہلاک کر دیاہے

قَالَ: فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ المَاءُ،قَالَ: یَا ابْنَ أَخِی أَقْرِئِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّلاَمَ، وَقُلْ لَهُ: اسْتَغْفِرْ لِی. وَاسْتَخْلَفَنِی أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، فَمَكُثَ یَسِیرًا ثُمَّ مَات،فخلفه أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِیُّ فقاتلهم حتى فتح الله علیه بأن هزم المشركین، وظفر المسلمون بالغنائم والسبایا فَرَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِهِ عَلَى سَرِیرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَیْهِ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِیرِ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَیْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِی عَامِرٍ وَقَالَ: قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِی

انہوں نے کہااچھاتویہ تیرنکالو،انہوں نے تیرنکالاتوزخم سے پانی بہنے لگا(شایدوہ تیرزہرآلودتھا) انہوں نے مرتے وقت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوجماعت کاامیرمقررکیااوران سے کہااے بھتیجے !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میراسلام عرض کرنا اور کہنا میرے لئے دعائے مغفرت فرمائیں ، پھر کچھ دیربعدوہ فوت ہوگئے، ان کے بعد ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بڑھ کررأیت(جھنڈا) اسلام سنبھالااورنہایت شجاعت اوربہادری سے مقابلہ کیایہاں تک کہ اللہ نے مسلمانوں کوفتح ونصرت سے نوازا، مشرکین کوشکست ہوئی اورمجاہدین اسلام کومال غنیمت اورقیدی ہاتھ آئے،ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جب اوطاس سے واپس ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں داخل ہوئے اس وقت آپ ایک ننگی چارپائی پرآرام فرمارہے تھے اورچارپائی کی رسیوں نے آپ کی پشت اورپہلوپرنشان ڈال دیئے تھے ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواوطاس کے تمام واقعات اپنے چچاکاسلام اوردعائے مغفرت کاپیغام عرض کیا

فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ فَقَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَیْدٍ أَبِی عَامِرٍ . وَرَأَیْتُ بَیَاضَ إِبْطَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ اجْعَلْهُ یَوْمَ القِیَامَةِ فَوْقَ كَثِیرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ،فَقُلْتُ: وَلِی فَاسْتَغْفِرْ فَقَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ قَیْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ یَوْمَ القِیَامَةِ مُدْخَلًا كَرِیمًا،قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: إِحْدَاهُمَا لِأَبِی عَامِرٍ، وَالأُخْرَى لِأَبِی مُوسَى

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت وضوکے لئے پانی منگوایااوروضوفرماکراپنے دست مبارک اتنے اوپر تک اٹھائے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظرآنے لگی ،پھر دعافرمائی اے اللہ!اپنے بندے عبید ابوعامر رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرما، اے اللہ!روزقیامت اس کوبہت سے بندوں سے اونچافرما،ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے بھی دعائے مغفرت فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اللہ عبداللہ قیس کے گناہوں کی مغفرت فرما اورروزقیامت اس کوعزت کی جگہ میں داخل فرما،ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعاابوعامر رضی اللہ عنہ کے لئے اوردوسری ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے لئے کی تھی۔[3]

اس جھڑپ میں خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکوچندگہرے زخم لگے جن سے وہ نڈھال ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے زخموں پردہن مبارک کالعاب لگایاجس سے وہ فوراًصحت یاب ہوگئے۔

مجاہدین کی ایک جماعت نے نخلہ کی طرف فرارہونے والے دشمن کاتعاقب میں گئی اور اسے گھیرلیا ۔اورتیسراگروہ جس نے طائف میں پناہ لی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت جمع کرنے کے بعدخوداس کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ بَعَثَ جَیْشًا إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقِیَ عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَیْهِمْ وَأَصَابُوا سَبَایَا فَكَأَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْیَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنَ الْمُشْرِكِینَ،فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی ذَلِكَ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ} [4]، أَیْ: فَهُنَّ لَكُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ حنین کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکراوطاس کی طرف روانہ فرمایاوہاں دشمنوں سے مقابلہ ہواوربہت سے قیدی ہاتھ آئے ،بعض مجاہدین کے حصہ میں لونڈیاں بھی آئیں ، انہوں نے اس خیال سے کہ ان کے مشرک شوہرموجودتھے ان سے خلوت کرنے کوبراسمجھا،اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی’’اوروہ عورتیں تم پرحرام ہیں جوکسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محصنات)البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو(جنگ میں ) تمہارے ہاتھ آئیں ،یہ اللہ کاقانون ہے جس کی پابندی تم پرلازم کردی گئی ہے ۔‘‘ عدت گزارنے کے بعدیہ تمہارے لیے حلال ہیں [5]

سریہ طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ عنہ (ذوالکفین کی طرف) شوال آٹھ ہجری

قَالُوا: وَلَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَسِیرَ إِلَى الطَّائِفِ،بَعَثَ الطُّفَیْلَ بْنَ عَمْرٍو إِلَى ذِی الْكَفَّیْنِ صَنَمِ عَمْرِو بْنِ حُمَمَةَ الدّوْسِیّ یَهْدِمُهُ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَسْتَمِدَّ قَوْمَهُ وَیُوَافِیَهُ بِالطَّائِفِ،فَخَرَجَ سَرِیعًا إِلَى قَوْمِهِ، فَهَدَمَ ذَا الْكَفَّیْنِ، وَجَعَلَ یَحُشُّ النَّارَ فِی وَجْهِهِ وَیُحَرِّقُهُ

طائف روانگی سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ عنہ کوجوایک بلندپایہ شاعرتھے عمروبن حممة دوسی کے لکڑی کے بت ذوالکفین کومنہدم کرنے کے لئے روانہ فرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اپنی قوم کے مسلمان افرادکواپنے ساتھ لے لینا اوراسے منہدم کرنے کے بعدطائف میں ہم سے آملنا،طفیل رضی اللہ عنہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے علاقہ کی طرف روانہ ہوئے،وہاں ان کے ساتھ چارسوافرادشامل ہوگئے،انہوں نے ذوالکفین کوتاخت وتاراج کردیا،آپ اس کے پیٹ میں آگ لگاکراسے جلاتے جارہے تھے اوریہ شعر پڑھتے جارہے تھے ۔

یَا ذَا الْكَفَّیْنِ لَسْتُ مِنْ عُبَّادِكَا،مِیلَادُنَا أَقْدَمُ مِنْ مِیلَادِكَا

اے ذوالکفین!میں تیرے پرستاروں میں سے نہیں ہوں ،ہماری پیدائش تیرے وجودسے بہت پہلے کی ہے

إِنِّی حَشَشْتُ النَّارَ فِی فُؤَادِكَا

میں نے تیرے دل میں آگ لگادی ہے۔

وَانْحَدَرَ مَعَهُ مِنْ قَوْمِهِ أَرْبَعُمِائَةٍ سِرَاعًا، فَوَافَوُا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالطَّائِفِ بَعْدَ مَقْدَمِهِ بِأَرْبَعَةِ أَیَّامٍ ، وَقَدِمَ بِدَبَّابَةٍ وَمَنْجَنِیقٍ

اور چار سو افراد پر مشتمل اپنی معیت میں وہاں سے نیچے اترے اوراپنی قوم کے ان افراداوردبابہ ومنجنیق کے ساتھ محاصرہ طائف کے چاردن بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوگئے۔[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ اوراس کے گرداگردبتوں کاصفایاکرادیاجن پرمشرکین گنبداورقبے بنایاکرتے تھےاورسال میں ایک مرتبہ میلہ لگاتےاورقربانیاں کیاکرتے تھے اوران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے نام پرجائیدادیں وقف کیاکرتے تھے،

وَمِنْهَا: أَنَّهُ لَا یَجُوزُ إِبْقَاءُ مَوَاضِعِ الشِّرْكِ وَالطَّوَاغِیتِ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَى هَدْمِهَا وَإِبْطَالِهَا یَوْمًا وَاحِدًا،فَإِنَّهَا شَعَائِرُ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ، وَهِیَ أَعْظَمُ الْمُنْكَرَاتِ، فَلَا یَجُوزُ الْإِقْرَارُ عَلَیْهَا مَعَ الْقُدْرَةِ الْبَتَّةَ، وَهَذَا حُكْمُ الْمَشَاهِدِ الَّتِی بُنِیَتْ عَلَى الْقُبُورِ الَّتِی اتُّخِذَتْ أَوْثَانًا وَطَوَاغِیتَ تُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ، وَالْأَحْجَارُ الَّتِی تُقْصَدُ لِلتَّعْظِیمِ وَالتَّبَرُّكِ وَالنَّذْرِ وَالتَّقْبِیلِ لَا یَجُوزُ إِبْقَاءُ شَیْءٍ مِنْهَا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَى إِزَالَتِهِ، وَكَثِیرٌ مِنْهَا بِمَنْزِلَةِ اللاتِ وَالْعُزَّى، وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الْأُخْرَى، أَوْ أَعْظَمُ شِرْكًا عِنْدَهَا، وَبِهَا، وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ

اس کے بارے میں علامہ حافظ ابن قیم رضی اللہ عنہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس سے ثابت ہوتاہے کہ شرک وطاغوت کی جگہوں کوایک دن بھی باقی رکھناجائزنہیں بشرطیکہ انہیں مٹانے اورختم کرنے کی استطاعت ہو کیونکہ یہ جگہیں شرک وکفرکی علامات ہیں جوتمام برائیوں کی جڑہے اس لئے استطاعت ہوتے ہوئے انہیں قائم رہنے دیناناجائزہے، اسی طرح قبروں پرگنبداورقبے کابھی حکم ہے کہ جنہیں بت بنا لیا گیا ہے اوراللہ کے علاوہ ان کی پوجاکی جاتی ہے ایسے پتھرجن کی تعظیم کی جاتی ہے ،نام کی نذرمانی جاتی ہے ،اسے بوسہ دیاجاتاہے انہیں مٹانے کی قوت ہوتے ہوئے زمین میں ان پرایک برائی بھی باقی رکھنا ناجائز ہے اور ان (مزارات)میں سے بیشترکی حالت لات،عزیٰ اورمنات کے برابرہے بلکہ یہاں تواس سے بھی زیادہ شرک کی حرکات کاارتکاب ہوتاہے

وَلَمْ یَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَرْبَابِ هَذِهِ الطَّوَاغِیتِ یَعْتَقِدُ أَنَّهَا تَخْلُقُ وَتَرْزُقُ وَتُمِیتُ وَتُحْیِی، وَإِنَّمَا كَانُوا یَفْعَلُونَ عِنْدَهَا وَبِهَا مَا یَفْعَلُهُ إِخْوَانُهُمْ مِنَ الْمُشْرِكِینَ الْیَوْمَ عِنْدَ طَوَاغِیتِهِمْ، فَاتَّبَعَ هَؤُلَاءِ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ، وَسَلَكُوا سَبِیلَهُمْ حَذْوَ الْقُذَّةِ بِالْقُذَّةِ، وَأَخَذُوا مَأْخَذَهُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ

اوران مشرکوں کایہ اعتقادنہ تھاکہ یہ بت پیداکرتے ،روزی دیتے مارتے اورزندہ کرتے ہیں بلکہ مشرکین بھی وہی کرتوت کرتے تھے جوآج کل ان کے مشرک بھائی اپنے ہاں صنم کدوں (مزارات)میں کرتے ہیں ،اس طرح آج (کے مشرکین)بھی اپنے سے پہلے کے (مشرکین)کے نقش قدم پرچل رہے ہیں اورایک ایک مرحلہ پرانہیں کی اتباع کررہے ہیں ،

وَغَلَبَ الشِّرْكُ عَلَى أَكْثَرِ النُّفُوسِ لِظُهُورِ الْجَهْلِ وَخَفَاءِ الْعِلْمِ، فَصَارَ الْمَعْرُوفُ مُنْكَرًا، وَالْمُنْكَرُ مَعْرُوفًا وَالسُّنَّةُ بِدْعَةً وَالْبِدْعَةُ سُنَّةً، وَنَشَأَ فِی ذَلِكَ الصَّغِیرُ، وَهَرِمَ عَلَیْهِ الْكَبِیرُ وَطُمِسَتِ الْأَعْلَامُ وَاشْتَدَّتْ غَرْبَةُ الْإِسْلَامِ، وَقَلَّ الْعُلَمَاءُ وَغَلَبَ السَّفَهَاءُ، وَظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ، وَتَفَاقَمَ الْأَمْرُ وَاشْتَدَّ الْبَأْسُ،وَلَكِنْ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنَ الْعِصَابَةِ الْمُحَمَّدِیَّةِ بِالْحَقِّ قَائِمِینَ، وَلِأَهْلِ الشِّرْكِ وَالْبِدَعِ مُجَاهِدِینَ، إِلَى أَنْ یَرِثَ اللهُ سُبْحَانَهُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا، وَهُوَ خَیْرُ الْوَارِثِینَ

جہالت کے غلبہ اورعلم کے خفاکے باعث اکثرلوگوں پرشرک قبضہ کر چکا ہے،ان کے نزدیک نیکی بدی بن چکی ہے اوربدی نیکی دکھائی دیتی ہے،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبدعت اوربدعت کوسنت سمجھنے لگے ہیں ،یہ بات ہرچھوٹے بڑے میں پیداہوچکی ہے،اورشعائراسلام غائب ہوچکے ہیں اورغربت اسلام نے شدت اختیارکرلی ہے، علماء حق کم ہو گئے ہیں اورسفہاءکاغلبہ ہوگیاہے،اورمعاملہ بگڑچکاہے اورتکلیف بڑھ گئی ہے،لوگوں کے کرتوتوں کے باعث فسادپیداہوگیاہے،لیکن جماعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک جماعت ضرورحق پرقائم رہے گی اوراہل شرک وبدعت کامقابلہ کرتی رہے گی، تاآنکہ اللہ تبارک وتعالیٰ زمین اوراہل زمین کاوارث بن جائے گا(قیامت قائم ہوجائے گی)اوروہی بہتروارث ہے،

وَمِنْهَا: جَوَازُ صَرْفِ الْإِمَامِ الْأَمْوَالَ الَّتِی تَصِیرُ إِلَى هَذِهِ الْمَشَاهِدِ وَالطَّوَاغِیتِ فِی الْجِهَادِ وَمَصَالِحِ الْمُسْلِمِینَ،فَیَجُوزُ لِلْإِمَامِ بَلْ یَجِبُ عَلَیْهِ أَنْ یَأْخُذَ أَمْوَالَ هَذِهِ الطَّوَاغِیتِ الَّتِی تُسَاقُ إِلَیْهَا كُلَّهَا، وَیَصْرِفَهَا عَلَى الْجُنْدِ وَالْمُقَاتِلَةِ، وَمَصَالِحِ الْإِسْلَامِ، كَمَا أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمْوَالَ اللاتِ، وَأَعْطَاهَا لأبی سفیان یَتَأَلَّفُهُ بِهَا، وَقَضَى مِنْهَا دَیْنَ عروة والأسود وَكَذَلِكَ یَجِبُ عَلَیْهِ أَنْ یَهْدِمَ هَذِهِ الْمَشَاهِدَ الَّتِی بُنِیَتْ عَلَى الْقُبُورِ الَّتِی اتُّخِذَتْ أَوْثَانًا، وَلَهُ أَنْ یُقْطِعَهَا لِلْمُقَاتِلَةِ، أَوْ یَبِیعَهَا وَیَسْتَعِینَ بِأَثْمَانِهَا عَلَى مَصَالِحِ الْمُسْلِمِینَ

اوراس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ امام کو حق حاصل ہے کہ وہ ام مزارات اورصنم کدوں کومٹانے کے بعدان کاسرمایہ جہادفی سبیل اللہ اوراہل اسلام کے مصالح پرخرچ کرے ، یہ صرف جائزہی نہیں بلکہ واجب ہے کہ ان صنم کدوں کاتمام مال قبضہ میں کرے اوراسے فوج اورجہادفی سبیل اللہ اوراہل اسلام کے مصالح پرخرچ کرے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لات کوتوڑکرتمام مال پرقبضہ کرلیا اور ابوسفیان کودے کراس کی تالیف قلب فرمائی اوراسی کے ذریعہ عروہ رضی اللہ عنہ اوراسود رضی اللہ عنہ کاقرضہ ادافرمایااسی طرح امام پرواجب ہے کہ قبروں پربنائے ہوئے گنبدوں اورقبوں کومٹادے جنہیں بت بناکررکھ دیاگیاہےاوراسے اس کی بھی اجازت ہے کہ یہ مال جنگ میں استعمال کرے یافروخت کرکے مصالح اہل اسلام پرخرچ کرے،

وَكَذَلِكَ الْحُكْمُ فِی أَوْقَافِهَا، فَإِنْ وَقَفَهَا فَالْوَقْفُ عَلَیْهَا بَاطِلٌ، وَهُوَ مَالٌ ضَائِعٌ،فَیُصْرَفُ فِی مَصَالِحِ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنَّ الْوَقْفَ لَا یَصِحُّ إِلَّا فِی قُرْبَةٍ وَطَاعَةٍ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ،فَلَا یَصِحُّ الْوَقْفُ عَلَى مَشْهَدٍ وَلَا قَبْرٍ یُسْرَجُ عَلَیْهِ،وَیُعَظَّمُ وَیُنْذَرُ لَهُ، وَیُحَجُّ إِلَیْهِ، وَیُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ، وَیُتَّخَذُ وَثَنًا مِنْ دُونِهِ، وَهَذَا مِمَّا لَا یُخَالِفْ فِیهِ أَحَدٌ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، وَمَنِ اتَّبَعَ سَبِیلَهُمْ

یہی حال ان کے وقف کا ہے کہ (ان مزارات) کاوقف باطل ہے اوران کامال بربادہے ،اسے اہل اسلام کے مقاصدپرخرچ کیاجائے گا وقف توصرف نیکی اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہوتاہے،اس لیے مزارپرپختہ قبرجوبدی کی علامت ہے کاوقف جائزنہیں کہ اس پرقبہ بنایاجائے اوراس کے متعلق تعظیم اورنذروغیرہ کی رسوم اداکی جائیں ، اوران کاحج کیاجائےاوراللہ کے سواان کی پرستش کی جائےاور اس صنم اور معبد کو من دون اللہ کا مقام دے دیا جائے اور اس رائے سدید میں ائمہ اسلام کا کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ [7]

غزوہ طائف  ،شوال آٹھ ہجری (فروری۶۳۰ء)

غزوہ حنین میں ہوزان اورثقیف کی شکست کے بعدیہ تین گروہ میں تقسیم ہوکراوطاس،نخلہ اورطائف کی طرف فرارہوگئے تھے،ابوعامراشعری رضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اوطاس میں ایک گروہ کوشکست دی جن کے ساتھ درید بن صمہ تھا،مجاہدین کی ایک جماعت نے نخلہ میں دوسرے گروہ کوشکست دی ،پھرمال غنیمت کوجعرانہ میں جمع کرکے آپ بنفس نفیس تیسرے گروہ کی طرف طائف روانہ ہوئے جن کاسربراہ مالک بن عوف تھا،خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکوایک ہزارجانبازوں کے ساتھ بطورمقدمة الجیش آپ کے آگے آگے تھے

فَسَلَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَخْلَةَ الْیَمَانِیَةِ، ثُمَّ عَلَى قَرْنٍ، ثُمَّ عَلَى الْمُلَیْحِ، ثُمَّ عَلَى بُحْرَةِ الرُّغَاءِ مِنْ لِیَّةَ ،فَابْتَنَى بِهَا مَسْجِدًا فَصَلَّى فِیهِ، أَنَّهُ أَقَادَ یَوْمَئِذٍ بِبُحْرَةِ الرُّغَاءِ، حِینَ نَزَلَهَا، بِدَمِ، وَهُوَ أَوَّلُ دَمٍ أُقِیدَ بِهِ فِی الْإِسْلَامِ، رَجُلٌ مِنْ بَنِی لَیْثٍ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ هُذَیْلٍ، فَقَتَلَهُ بِهِ،وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِلِیَّةَ، بِحِصْنِ مَالِكِ بْنِ عَوْفٍ فَهُدِمَ

طائف جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَخْلَةَ الْیَمَانِیَةِ سے قَرْنٍ المنازل اوریہاں سےالْمُلَیْحِ اورپھربُحْرَةِ الرُّغَاءِ مِنْ لِیَّةَ سے ہوتے ہوئے لیہ پہنچے، وہاں ایک مسجد بنائی اوراس میں نمازادافرمائی،وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہذیل کے ایک آدمی کے قصاص میں بنولیث کاایک آدمی قتل کیایہ پہلا قتل ہے جس کااسلام میں قصاص لیاگیا ، راستے میں مالک بن  عوف کے قلعہ سے گزرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھانے کاحکم دیاچنانچہ وہ مسمارکردیاگیا،

ثُمَّ سَلَكَ فِی طَرِیقٍ یُقَالُ لَهَا الضَّیْقَةُ،فَلَمَّا تَوَجَّهَ فِیهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ عَنْ اسْمِهَا، فَقَالَ: مَا اسْمُ هَذِهِ الطَّرِیقِ؟ فَقِیلَ لَهُ الضَّیْقَةُ،فَقَالَ: بَلْ هِیَ الْیُسْرَى، ثُمّ خَرَجَ عَلَى نَخِبٍ حَتّى نَزَلَ تَحْتَ سِدْرَةِ الصّادِرَةِ عِنْدَ مَالِ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ، فَأَرْسَلَ إلَیْهِ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إمّا أَنْ تَخْرُجَ وَإِمّا أَنْ نُحَرّقَ عَلَیْك حَائِطَك!فَأَبَى أَنْ یَخْرُجَ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِإِحْرَاقِ حَائِطِهِ وَمَا فِیهِ،وَمَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتّى نَزَلَ قَرِیبًا مِنْ حِصْنِ الطّائِفِ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے پرچلےجس کو الضَّیْقَةُ (تنگ) کہا جاتا تھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایااس راستے کاکیانام ہے ؟لوگوں نے عرض کیااس کوالضَّیْقَةُ کہاجاتاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں بلکہ یہ الْیُسْرَى ہے،پھر وہاں سے رخصت ہوکرآپ ثقیف کے ایک آدمی کے باغ کے قریب بیری کے ایک درخت کے نیچے جس کانام صادرہ تھااترے اوراس آدمی کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ باغ سے نکل جائے ورنہ اس باغ کوویران کردیاجائے گا اس شخص نے باغ سے نکلنے سے انکار کردیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باغ کوویران کرنے کاحکم فرمایا پھروہاں سے روانہ ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے قلعہ پرپہنچے۔[8]

قَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ عَلَى مُقَدِّمَتِهِ، وَكَانَتْ ثَقِیفٌ قَدْ رَمُّوا حِصْنَهُمْ، وَأَدْخَلُوا فِیهِ مَا یَصْلُحُ لَهُمْ لِسَنَةٍ، فَلَمَّا انْهَزَمُوا مِنْ أَوْطَاسٍ، دَخَلُوا حِصْنَهُمْ وَأَغْلَقُوهُ عَلَیْهِمْ وَتَهَیَّئُوا لِلْقِتَالِ، وَسَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ قَرِیبًا مِنْ حِصْنِ الطَّائِفِ،فَرَمَوُا الْمُسْلِمِینَ بِالنَّبْلِ رَمْیًا شَدِیدًا، كَأَنَّهُ رِجْلُ جَرَادٍ، حَتَّى أُصِیبَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِجِرَاحَةٍ، وَقُتِلَ مِنْهُمُ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلےجب خالد رضی اللہ عنہ بن ولید طائف پہنچے توبنوثقیف قلعہ کی مرمت کرکے اس میں ایک سال کی خوراک کابندوبست کرکے قلعہ بندہوچکے تھےاورجنگ کے لئے تیارتھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف کے قلعہ پرپہنچے تو قلعہ کے قریب پڑاؤ ڈال کراس کا محاصرہ کرلیاکیونکہ مسلمان دشمن کے تیروں کی زدمیں تھے اس لئے دشمن کے متعین دستوں نے قلعہ کے اوپرسے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑکردی جس سے بارہ مجاہدین شہید ہو گئے اورکئی مجاہدین زخمی ہوگئے،ان میں عبداللہ بن ابی بکرصدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے ان کازخم مندمل ہو گیا تھا لیکن کافی عرصہ بعدوہ زخم پھرہراہوگیااوراسی صدمہ سے وہ اپنے والدکی خلافت میں انتقال کرگئے۔

وروى الزّبیر من طریق سعید بن عبید الثّقفیّ، قال: رمیت أبا سفیان یوم الطّائف فأصبت عینه، فأتى النبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسلَّمَ، فقال: هذه عینی أصیبت فی سبیل الله، قال:إن شئت دعوت فردّت علیك، وإن شئت فالجنّة، قال: الجنّة

غزوہ طائف میں جب تیراندازی ہونے لگی تو ابوسفیان کی آنکھ میں ایک تیرآکرلگاجس سے آنکھ باہرنکل آئی، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہنے لگے میری یہ آنکھ اللہ کی راہ میں ضائع ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو یہ پسندکرے تومیں اللہ سے دعاکروں کہ وہ اسے ویسے ہی کردے یااگرتوچاہے تواس کے بدلے جنت حاصل کرلو،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہامجھے جنت چاہیے۔[9]

أن أبا سفیان رمى سعید بن عبید جده یوم الطائف بسهم فأصاب عینه فأتى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال:یا رَسُولُ الله إن هذه عینی أصیبت فی سبیل الله، فقال: إن شئت دعوت الله فرد علیك عینك، وإن شئت فعین فی الجنة، قال: عین فی الجنة،قال: بل عین فی الجنة ورمى بها وشهد الیرموك فقاتل وفقئت عینه الأخرى

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں غزوہ طائف میں سعیدبن عبیدنے ابوسفیان رضی اللہ عنہ پرتیرماراجوان کی ایک آنکھ میں آکرلگاجس سے ان کی آنکھ باہرنکل آئی ،وہ اپنی آنکھ ہاتھ میں لئے حاضرخدمت اقدس ہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری آنکھ ہے جواللہ کی راہ میں ضائع ہوگئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم چاہوتومیں اللہ سے دعاکروں تاکہ یہ آنکھ تمہیں واپس مل جائے اوراگر چاہوتواس کے عوض جنت میں دوسری اچھی آنکھ حاصل کرلو،انہوں نے عرض کیامجھے جنت کی آنکھ قبول ہے،یہ کہہ کراپنی آنکھ ہاتھ سے پھینک دی،ان کی دوسری آنکھ جنگ یرموک میں رومیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ضائع ہو گئی۔[10]

قال ابن مندة:وهذا غریب لا نعرفه إلا من هذا الوجه

ابن مندہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے ہم اس روایت کے علاوہ اور طریقہ نہیں جانتے۔[11]

فَارْتَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَوْضِعِ مَسْجِدِ الطَّائِفِ الْیَوْمَ، وَكَانَ مَعَهُ مِنْ نِسَائِهِ أم سلمة وزینب، فَضَرَبَ لَهُمَا قُبَّتَیْنِ، وَكَانَ یُصَلِّی بَیْنَ الْقُبَّتَیْنِ مُدَّةَ حِصَارِ الطَّائِفِ

یہ صورت حال دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام سے اٹھ کردوسری جگہ منتقل ہوگئے جہاں آج طائف کی مسجد ہےازواج مطہرات میں ام المومنین زینب رضی اللہ عنہ اورام سلمہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھیں ان دونوں کے لئے وہاں عارضی طورپردوجھونپڑیاں بنادی گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جھونپڑیوں کے درمیان خالی جگہ پر قصرنمازیں ادافرماتے رہے ،

عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدِی مُخَنَّثٌ، فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی أُمَیَّةَ: یَا عَبْدَ اللهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ فَتَحَ اللهُ عَلَیْكُمُ الطَّائِفَ غَدًا، فَعَلَیْكَ بِابْنَةِ غَیْلاَنَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ، وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ،وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ یَدْخُلَنَّ هَؤُلاَءِ عَلَیْكُنَّ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرتشریف لائےاس وقت گھرمیں ایک مخنث موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناوہ میرے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہاتھااگرکل طائف فتح ہو تو غیلان کی بیٹی کوضروردیکھناوہ بڑی حسین وجمیل ہےجب وہ آتی ہے تواس کے پیٹ پرچارشکنیں پڑتی ہیں اورجب جاتی ہے توآٹھ شکنیں ظاہرہوتی ہیں (یعنی خوب فربہ ہے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآئندہ یہ مخنث آپ کے پاس گھرنہ آیاکرے۔[12]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرمایاکہ وہ اس ذکرکووردزبان بنائیں اوراسی پراپنے عقیدہ کی بنیادرکھیں ۔

قُولُوا لَا إلَهَ إلّا اللهُ وَحْدَهُ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وحده!

اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ،وہ اکیلاہے،اس نے اپناوعدہ پوراکردیاہے ،اپنے بندے کی امدادفرمائی ہے اوردشمن فوجوں کواکیلے نے شکست دی ہے۔[13]

مسلمانوں نے دشمن کو ہتھیار ڈالنے پرمجبورکرنے کے لئے کئی تدابیراختیارکیں لیکن کوئی تدبیرکارگر ثابت نہ ہوئی،خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدروزانہ پڑاؤسے نکل کردشمن کودعوت مبارزت دیتے لیکن کبھی کسی کو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی اوروہ کہنے لگے ہمیں قلعہ سے اترنے کی ضرورت نہیں ،ہمارے پاس وافرمقدارمیں غلہ موجودہے جب یہ ختم ہوجائے گا تب ہم تلواریں لے کر اتریں گے اورمقابلہ کریں گے،

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِیقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےقلعہ کو توڑنے کے لئے طفیل دوسی رضی اللہ عنہ کی لائی ہوئی منجنیق نصب کرکے ان پرمتعددپتھربرسائے

(مَنْجَنِیقَ:

یہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعے سے ثقیل پتھردورتک پھینکے جاسکتے تھے ،اس سے قلعوں کومسمارکرنے کاکام لیاجاتاتھا۔

فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَمِلَ مَنْجَنِیقًا بِیَدِهِ، فَنَصَبَهُ عَلَى حِصْنِ الطّائِفِ، وَیُقَالُ: قَدِمَ بِالْمَنْجَنِیقِ یَزِیدُ بْنُ زَمْعَةَ وَدَبّابَتَیْنِ، وَیُقَالُ: الطّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو،وَیُقَالُ:خَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ قَدِمَ مِنْ جُرَشَ بِمَنْجَنِیقٍ وَدَبّابَتَیْنِ

واقدی نے لکھاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسلمان فارسی رضی اللہ عنہ کومنجنیق تیارکرنے کاحکم دیاتوانہوں نے اپنے ہاتھوں سے منجنیق تیارکی تھی۔یہ بھی کہاجاتاہےکہ یزیدبن زمعہ ایک منجنیق اوردودبابے لائے تھے۔ یہ بھی کہاجاتاہے طفیل بن عمرو،عمروبن حممہ کے بت (ذی الکفین)کومسمارکرنے کی مہم سے واپسی پردبابہ اورمنجنیق اپنے ساتھ لائے ، یہ بھی کہاجاتاہے کہ خالدبن سعید،جرش سے منجنیق اوردبابے لائے تھے)

وَهُوَ أَوَّلُ مَا رُمِیَ بِهِ فِی الْإِسْلَامِ،حَتَّى إِذَا كَانَ یَوْمُ الشَّدْخَةِ عِنْدَ جِدَارِ الطَّائِفِ، دَخَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ دَبَّابَةٍ، ثُمَّ دَخَلُوا بِهَا إِلَى جِدَارِ الطَّائِفِ لِیُحْرِقُوهُ، فَأَرْسَلَتْ عَلَیْهِمْ ثَقِیفٌ سِكَكَ الْحَدِیدِ مُحْمَاةً بِالنَّارِ، فَخَرَجُوا مِنْ تَحْتِهَا، فَرَمَتْهُمْ ثَقِیفٌ بِالنَّبْلِ، فَقَتَلُوا مِنْهُمْ رِجَالًا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ أَعْنَابِ ثَقِیفٍ، فَوَقَعَ النَّاسُ فِیهَا یَقْطَعُونَ

اسلام میں قلعہ شکن آلات یعنی منجنیق اوردبابہ کااستعمال پہلے پہل اسی محاصرہ میں ہواتھا،جس سے قلعہ کی دیوارمیں شگاف پڑگیا مسلمان جانبازوں کاایک گروہ دو دبابوں میں گھس کرنقب لگانے کے لئے قلعہ کی دیوارتک پہنچا لیکن دشمن نے ان پراوپرسے لوہے کے جلتے ہوئے ٹکڑے پھینکے اور تیربرسائے جس سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہیدہوگئے اور باقی لوگ واپسی پرمجبورہوگئے،یہ دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی حکمت عملی کے لئے کفارکے انگور کے باغات کاکاٹ پھینکنے اورجلادینے کاحکم فرمایا،حکم کی تعمیل میں مجاہدین نے ان کے بہت سے باغات ویران کردیئے گئے۔

قَالَ ابن سعد: فَسَأَلُوهُ أَنْ یَدَعَهَا لِلَّهِ وَلِلرَّحِمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :فَإِنِّی أَدَعُهَا لِلَّهِ وَلِلرَّحِمِ

ابن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں جب ان کے انگوراور کھجور کے کچھ درخت کاٹے گئے تو انہوں نے اللہ اور قرابت کاواسطہ دے کرقطع وبریدختم کرنے کی درخواست کی ،آپ نے فرمایا میں اللہ اورقرابتوں کے لئے ان کوچھوڑ دیتا ہوں ۔

فَنَادَى مُنَادِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، أَیُّمَا عَبْدٍ نَزَلَ مِنَ الْحِصْنِ وَخَرَجَ إِلَیْنَا فَهُوَ حُرٌّ،فَخَرَجَ مِنْهُمْ بَضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا مِنْهُمْ أبو بكرة، أَنّهُ نَزَلَ فِی بَكَرَةٍ مِنْ الْحِصْنِ

بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ کے قریب یہ آوازہ لگوایاکہ جوغلام ہم سے آکرمل جائے وہ آزادتصورہوگا،اس کے نتیجے میں دس سے زیادہ غلام قلعہ سے اترکر آپ سے آملےانہی میں ابو بکرہ نقیع بن حارث بن کلدہ بن عمروبھی تھےوہ قلعہ کی دیوار پرچڑھ کرایک چرخی کی مددسے جس کے ذریعے رہٹ سے پانی کھینچاجاتاہے لٹک کر نیچے آگئے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوبکرہ رکھ دی(عربی میں چرخی کو بکرہ کہتے ہیں )۔[14]

فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَدَفَعَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَمُونُهُ

غلاموں کااس طرح فرارقلعہ والوں کے لئے جانکاہ تھااورآپ نے وعدہ کے مطابق ان کی آزادی کااعلان فرمادیااور ہرایک کوکسی نہ کسی مسلمان کے سپرد کیا تاکہ وہ اس کے اخراجات برداشت کرے۔[15]

وَقَدْ اُخْتُلِفَ عَلَیْنَا فِی حِصَارِهِ فَقَالَ قَائِلٌ: ثَمَانِیَةَ عَشَرَ یَوْمًا،وَقَالَ قَائِلٌ: تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا، وَقَالَ قَائِلٌ: خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْمًا

اہل سیرمیں بعض نے محاصرے کے دنوں کے بارے میں اہل سیرمیں اختلاف ہےکچھ لوگ کہتے ہیں اٹھارہ روزمحاصرہ رہا،بعض لوگ کہتے ہیں انیس دن محاصرہ رہا، بعض کہتے ہیں پندرہ دن محاصرہ رہا۔[16]

وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: بِضْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَةً

اورابن اسحاق کہتے ہیں بیس سے زیادہ دن محاصرہ رہا۔[17]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاهُمْ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے ہم نے اہل طائف کاچالیس دن محاصرہ کیا۔[18]

مگرکچھ فائدہ نہ ہوا۔

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ:وَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال لأبی بكر وَهُوَ مُحَاصِرٌ ثَقِیفًا یَا أَبَا بَكْرٍ إِنِّی رَأَیْتُ أَنِّی أُهْدِیَتْ لِی قَعْبَةٌ مَمْلُوءَةٌ زُبْدًا فَنَقَرَهَا دِیكٌ فَهَرَاقَ مَا فِیهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: مَا أَظُنُّ أَنْ تُدْرِكَ مِنْهُمْ یَوْمَكَ هَذَا مَا تُرِیدُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا لَا أَرَى ذَلِك

ابن اسحاق کہتے ہیں بنی ثقیف کے محاصرہ کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھاکہ ایک دودھ کاپیالہ آپ کے سامنے پیش کیاگیاایک مرغ نے آکراس میں چونچ ماری جس سے وہ دودھ گرگیا،آپ نے یہ خواب سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے بیان کیاجوخواب کی تعبیرمیں بڑے ماہراورعرب میں مشہورتھے، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرا خیال ہےاس مرتبہ بنوثقیف سے جوآپ چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرسکیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیراخیال بھی یہی ہے۔[19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمّا مَضَتْ خَمْسَ عَشْرَةَ لَیْلَةً مِنْ حصارهم استشاروَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نوفل بن معاویة الدیلی،فَقَالَ: مَا تَرَى؟ فَقَالَ نَوْفَلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، ثَعْلَبٌ فِی جُحْرٍ، إنْ أَقَمْت عَلَیْهِ أَخَذْته، وَإِنْ تَرَكْته لَمْ یَضُرّك شَیْئًا فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب محاصرے کوتیس روز گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوفل بن معاویہ دیلی رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایاکہ ان حالات میں ہمیں کیاکرناچاہیے؟ نوفل نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے اگر آپ ڈٹ گئے توپکڑلیں گے اگرچھوڑ دیں گے تویہ آپ کاکچھ بھی نہیں بگاڑسکتی، ان کایہ مشورہ سن کر آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کوحکم دیاکہ لوگوں میں کوچ کااعلان کریں ۔[20]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الطَّائِفَ، فَلَمْ یَنَلْ مِنْهُمْ شَیْئًا، قَالَ:إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللهُ ، فَضَجَّ النَّاسُ مِنْ ذَلِكَ وَقَالُوا: نَرْحَلُ وَلَمْ یُفْتَحْ عَلَیْنَا الطَّائِفُ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ،فَغَدَوْا، فَأَصَابَتِ الْمُسْلِمِینَ جِرَاحَاتٌ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللهُ، فَسُرُّوا بِذَلِكَ وَأَذْعَنُوا، وَجَعَلُوا یَرْحَلُونَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَضْحَكُ،وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّةً، فَتَبَسَّمَ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروسے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کامحاصرہ کیااورکامیابی کی کوئی صورت نظرنہ آئی توآپ نے مال کازیاں سمجھ کر فرمایاہم ان شاء اللہ کل محاصرہ اٹھاکرواپس جائیں گے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ بات شاق گزری وہ کہنے لگے ہم طائف فتح کیے بغیرہی واپس چلے جائیں گے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاتوکل دشمن سے لڑنے کے لئے نکلو،چنانچہ وہ دشمن کے مقابلہ میں آئے توان کوبہت زخم لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایاہم ان شاء اللہ کل واپس چلیں گے،اب تووہ بہت خوش ہوئے یہ دیکھ کرآپ ہنس پڑے،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادیئے۔[21]

یعنی کل توواپس لوٹنے پرراضی نہ تھے اورلڑائی پرمستعدتھے مگرجب لڑائی میں زخمی ہوئے تو لوٹنے کوبہترسمجھااوراتنی جلدی رائے بدل گئی ۔

وَقِیلَ یَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ عَلَى ثَقِیفٍ،فَقَالَ:اللهُمَّ اهْدِ ثَقِیفًا وَائْتِ بِهِمْ مسلمین

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے گزارش کی اے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان کے حق میں بددعاکریں آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے اجازت نہیں دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلتے وقت یہ دعافرمائی اے اللہ !ثقیف کوہدایت دے اورانہیں مسلمان بناکرلے آ۔[22]

فَلَمَّا ارْتَحَلُوا وَاسْتَقَلُّوا، قَالَ قُولُوا:آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ

جب واپسی کے لئے کوچ فرمایاتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہدایت فرمائی کہ اب یہ کہو’’ہم واپس لوٹ رہے ہیں ،اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اوراسی کی حمدوثنابیان کرتے ہیں ۔‘‘

غزوہ طائف میں شہید اسلام :

مِنْ قُرَیْشٍ، ثُمَّ مِنْ بَنِی أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ: سَعِیدُ بْنُ سَعِیدٍ بْنِ الْعَاصِ بْنِ أُمَیَّةَ، وَعُرْفُطَةُ بْنُ جَنَّابٍ، حَلِیفٌ لَهُمْ، مِنْ الْأُسْدِ بْنِ الْغَوْثِ.قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَیُقَالُ: ابْنُ حُبَابٍ.وَمِنْ بَنِی تَیْمِ بْنِ مُرَّةَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقُ، رُمِیَ بِسَهْمِ، فَمَاتَ مِنْهُ بِالْمَدِینَةِ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.وَمِنْ بَنِی مَخْزُومٍ: عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ، مِنْ رَمْیَةٍ رُمِیَهَا یَوْمَئِذٍ.وَمِنْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبٍ: عَبْدُ اللهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ، حَلِیفٌ لَهُمْ.وَمِنْ بَنِی سَهْمِ بْنِ عَمْرٍو: السَّائِبُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسِ بْنِ عَدِیٍّ، وَأَخُوهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْحَارِثِ.وَمِنْ بَنِی سَعْدِ بْنِ لَیْثٍ: جُلَیْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ.

قریش میں سے بنی امیہ بن عبدشمس میں سے سعیدبن سعیدبن عاص بن امیہ اوربنی اسدبن غوث سے ان کے حلیف عرفطہ بن جناب ،اورابن ہشام کے مطابق ابن حباب۔بنی تیم بن مرہ سے عبداللہ بن ابی بکرایک تیرکے لگنے سے مدینہ منورہ آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شہید ہوئے۔اوربنی مخزوم میں سے عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ یہ بھی ایک تیرسے شہیدہوئے اوربنی عدی بن کعب سے ان کے حلیف عبداللہ بن عامربن ربیعہ۔اوربنی سہم بن عمروسے سائب بن حرث بن قیس بن عدی اوران کے بھائی عبداللہ بن حرث اوربنی سعدبن لیث سے جلیحہ بن عبداللہ شہیدہوئے۔

وَاسْتُشْهِدَ مِنْ الْأَنْصَارِ: مِنْ بَنِی سَلِمَةَ: ثَابِتُ بْنُ الْجَذَعِ.وَمِنْ بَنِی مَازِنِ بْنِ النَّجَّارِ: الْحَارِثُ بْنُ سَهْلِ بْنِ أَبِی صَعْصَعَةَ.وَمِنْ بَنِی سَاعِدَةَ: الْمُنْذِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ.وَمِنْ الْأَوْسِ: رُقَیْمُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ زَیْدِ بْنِ لَوْذَانَ بْنِ مُعَاوِیَةَ.فَجَمِیعُ مَنْ اُسْتُشْهِدَ بِالطَّائِفِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، سَبْعَةٌ مِنْ قُرَیْشٍ، وَأَرْبَعَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِی لَیْثٍ

انصارمیں سےبنی سلمہ سے ثابت بن جذع ۔اوربنی مازن بن نجارسے حارث بن سہل بن ابی صعصعہ،اوربنی ساعدہ میں سے منذربن عبداللہ شہیدہوئے۔اور اوس میں سے رقیم بن ثابت بن ثعلبہ بن زیدبن لوذان بن معاویہ۔چنانچہ صحابہ کرام میں سے کل بارہ مجاہدین اسلام نے غزوہ طائف میں جام شہادت نوش کیاان میں سات قریش میں سے اور چار انصار میں سے اورایک بنی لیث سے تھے۔[23]

قبائل عرب کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آخری جنگ تھی،اس کے بعدعرب کے دوردرازعلاقوں سے قبائل موج درموج اورفوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے ،جن قبائل یاجن افرادنے اپنے پرانے ادیان پرقائم رہنے پراصرارکیاان کے دین میں مداخلت کیے بغیرانہیں سیاسی حفاظت میں لے لیاگیا۔

مال غنیمت کی تقسیم:

رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِذِی الحُلَیْفَةِ، فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ، فَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًاوَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أُخْرَیَاتِ النَّاسِ،فَعَجِلُوا فَنَصَبُوا القُدُورَ، فَدُفِعَ إِلَیْهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشَرَةً مِنَ الغَنَمِ بِبَعِیرٍ،فَنَدَّ مِنْهَا بَعِیرٌ، وَكَانَ فِی القَوْمِ خَیْلٌ یَسِیرَةٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْیَاهُمْ، فَأَهْوَى إِلَیْهِ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللهُ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِهَذِهِ البَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الوَحْشِ، فَمَا نَدَّ عَلَیْكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا

رافع رضی اللہ عنہ بن خدیج سے مروی ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام الحُلَیْفَةِ (یہ مدینہ کے قریب والاذوالحلیفہ نہیں ہے)پہنچے توہمیں شدت سے بھوک لگی،ہمیں مال غنیمت میں کچھ اونٹ اوربکریاں ہاتھ لگی تھیں ہم نےبھوک کی شدت کی وجہ سے ان میں سے چنداونٹ یابکریوں کو(ذبح کرکے ان)کاگوشت برتنوں میں ڈال کرپکاناشروع کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سےکچھ پیچھے رہ گئے تھےجب آپ وہاں پہنچے توآپ نے حکم دیاکہ دیگچیاں اوندھادی جائیں (کیونکہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں تصرف حرام ہے )تعمیل فرمان میں فوراًدیگچیاں اوندھا دی گئیں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین میں مال غنیمت تقسیم فرمایااورایک اونٹ کودس بکریوں کے مساوی قراردیا،ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھاگاکیونکہ مجاہدین کے پاس گھوڑے بہت کم تھے اس لئے وہ اسے گھیرکرپکڑنہ سکے،بھاگتے بھاگتے تھک گئے،اتنے میں ایک مجاہدنے اسے تیرمارا (تیرمارتے ہی)اللہ نے اسے روک دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان جانوروں میں کبھی وحشی جانوروں کی طرح وحشت ہوجایاکرتی ہے لہذااگران میں سے کوئی جانورتم پرغالب آجائے توایساہی کیاکرو۔[24]

جب ثقیف کویقین ہوگیاکہ جب سب عرب مسلمان ہوچکے ہیں تو ہم اکیلے کیسے مسلمانوں کامقابلہ کرسکتے توانہوں نے اپنا ایک وفدرمضان المبارک نو ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس شرط پرمصالحت کر لی کہ وہ مسلمان ہوجائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرعثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کوامیرمقرر فرمایا

فَكَانَ غَزْوُهُمْ مِنْ تَمَامِ الْغَزْوَةِ الَّتِی شَرَعَ فِیهَا، وَالله أَعْلَمُ

اس طرح اہل عرب کے ساتھ جس جنگ کاآغازغزوہ بدرسے ہواتھاوہ غزوہ حنین میں ختم ہوگئی ۔واللہ اعلم

خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الطّائِفِ فَأَخَذَ عَلَى دَحْنَاثُمّ عَلَى قَرْنِ الْمَنَازِلِ ، ثُمّ عَلَى نَخْلَةَ حَتّى خَرَجَ إلَى الْجِعِرّانَةِ

طائف سے کوچ کرکے آپ دَحْنَا،قَرْنِ الْمَنَازِلِ اورنَخْلَةَ سے ہوتے ہوئے پانچ ذو القعدہ الحرام کوالْجِعِرّانَةِ پہنچے جہاں مال غنیمت پڑا ہوا تھا۔[25]

ثُمَّ قَسَمَ الْغَنَائِمَ هُنَاكَ فَجَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ بَعْدَ ذَلِكَ فَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ أَخَّرَ الْقَسْمَ لیحضروا فابطؤا وَقَوْلُهُ بِضْعَ عَشْرَةَ لَیْلَةً فِیهِ بَیَانُ مُدَّةِ التَّأْخِی

یہاں پہنچ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوزان کادس دن سے زیادہ انتظارکیاکہ شایدوہ اپنے اہل وعیال اورعزیزوں کوچھڑانے کے لئے آئیں لیکن اتناانتظارکے بعدبھی کوئی نہیں آیاتب آپ نے مال غنیمت غانمین پرتقسیم فرمایا۔[26]

اموال غنیمت کی تقسیم:

فتح مکہ میں جومعززین قریش اسلام میں داخل ہوئے تھے ابھی تک متذبذب تھے،ایمان ابھی ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہواتھاان کے مولفہ القلوب (دلداری،حسن سلوک)کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے

فَأَعْطَى أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ مِائَةَ بَعِیرٍ

اپنے پانچویں حصہ میں سےابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب کوسواونٹ عطا فرمائے۔[27]

ایک روایت میں ہے ابوسفیان اس وقت آپ کی خدمت میں حاضرہوئے جب نقدی اوردیگرہرقسم کامال ومتاع جمع تھا

فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَصْبَحْت أَكْثَرَ قُرَیْشٍ مَالًا!فَتَبَسّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَعْطِنِی مِنْ هَذَا الْمَالِ یَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: یَا بِلَالُ، زِنْ لِأَبِی سُفْیَانَ أَرْبَعِینَ أُوقِیّةً، وأعطوه مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ،قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: ابْنِی یَزِیدُ أَعْطِهِ!قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: زنوا لیزید أَرْبَعِینَ أُوقِیّةً، وَأَعْطُوهُ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ،قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: ابْنِی مُعَاوِیَةُ، یَا رَسُولَ الله! قَالَ: زِنْ لَهُ یَا بِلَالُ أَرْبَعِینَ أُوقِیّةً،وَأَعْطُوهُ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ، قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: إنّك الْكَرِیمُ، فِدَاك أَبِی وَأُمّی! وَلَقَدْ حَارَبْتُك فَنِعْمَ الْمُحَارَبُ كُنْت، ثُمّ سَالَمْتُك فَنِعْمَ الْمُسَالَمُ أَنْتَ، جَزَاك الله خَیْرًا!وَأَعْطَى حَكِیمَ بْنَ حِزَامٍ مِائَةَ بَعِیرٍثُمَّ سَأَلَهُ مِائَةً أُخْرَى فَأَعْطَاهُ

وہ دیکھ کرکہنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آج آپ قریش میں سب سے زیادہ غنی اوربڑے سرمایہ دارہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات سن کرمسکرائےاورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس مال سے ہماراحصہ ہمیں عطافرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ ان کوایک سواونٹ اورچالیس اوقیہ (تقریباً سو تولہ)چاندی دے دو،ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہنے لگے میرے لڑکے یزیدکاحصہ بھی دیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے فرزند یزید کے لئےبھی ایک سواونٹ اورچالیس اوقیہ چاندی دے دو، ابوسفیان رضی اللہ عنہ پھربولے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اورمیرے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کاحصہ ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بلال رضی اللہ عنہ ! ان کے فرزند معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئےبھی ایک سواونٹ اورچالیس اوقیہ چاندی دے دو ،اس طرح اس دن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے تین سواونٹ اورایک سوبیس اوقیہ چاندی حاصل کی،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں آپ لڑائی اورصلح میں بے حدکریم ہیں ، اللہ آپ کوجزائے خیردے ،آپ کی سخاوت انتہاکوپہنچی ہوئی ہے،حکیم بن حزام کوسواونٹ عطافرمائے،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواونٹ اورمانگے توآپ نے وہ بھی عطا فرما دیئے [28]

صفوان بن امیہ کوبھی ایک ایک سوکرکے تین سواونٹ دیئے،

وَأَعْطَى النَّضِیرَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ كِلْدَةَ مِائَةً مِنَ الإبل،وَأَعْطَى الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ،وَأَعْطَى صَفْوَانَ بْنَ أُمَیَّةَ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى حُوَیْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى مائة مِنَ الإِبِلِ،وَأَعْطَى العلاء بن حارثة الثقفی خَمْسِینَ،وَأَعْطَى الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ التَّمِیمِیَّ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ ،وَأَعْطَى عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ،وَأَعْطَى مَالِكَ بْنَ عَوْفٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ،وَأَعْطَى قَیْسَ بْنَ عَدِیٍّ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ،وأعطى أسید بن جاریة الثقفی مِائَةً مِنَ الإِبِلِ،وَأَعْطَى الْعَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ أَرْبَعِینَ مِنَ الإِبِلِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالدارمیں سے نضیربن حارث کے بھائی حارث بن حارث بن کلدہ کوسواونٹ عطافرمائے،اورابوجہل کے بھائی حارث بن ہشام مخزومی کوسواونٹ عطافرمائے،اورصفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطافرمائے،اورحویطب بن عبدالعزیٰ کوسواونٹ عطافرمائے،اورعلاء بن حارثہ ثقفی کوپچاس اونٹ عطا فرمائے،اوراقرع بن حابس تمیمی کوسواونٹ عطافرمائے،اور عیینہ بن حصن فزاری کوسواونٹ عطافرمائے،اورمالک بن عوف کوسواونٹ عطافرمائے اورقیس بن عدی کوسواونٹ عطافرمائے،اور اسیدبن جاریہ ثقفی کوسواونٹ عطافرمائے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن مرداس کو چالیس اونٹ عطافرمائے۔[29]

جس سے وہ ناراض ہوگیااوراس کے متعلق انہوں نے یہ اشعارکہے ۔

أَتَجْعَلُ نَهْبِی وَنَهْبَ الْعُبَیْدِ،دِبَیْنَ عُیَیْنَةَ وَالْأَقْرَعِ

آپ میری اورمیرے گھوڑے عبیدکی حاصل کی ہوئی غنیمت عیینہ اوراقرع کودیتے ہیں

فماكَانَ بدروَلَا حَابِسٌ،یَفْوَقَانِ مِرْدَاسَ فِی الْمَجْمَعِ

ان دونوں کے باپ بدراورحابس ،میرے باپ مرداس پرکسی مجمع میں کوئی فوقیت نہیں رکھتے تھے

وَمَا كُنْت دُونَ امْرِئٍ مِنْهُمَا،وَمَنْ تَضَعِ الْیَوْمَ لَا یُرْفَعِ

اورمیں خودان دونوں میں سے کسی سے کم نہیں ، جس کوآپ آج نیچاکردیں گے وہ کبھی اونچانہ ہوگا

فَأَتَمَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً

توآپ نے ان کے سواونٹ پورے کردیئے۔[30]

فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْطَعُوا لِسَانَهُ عَنّی. فَأَعْطُوهُ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ

ابن اسحاق کی روایت میں یہ لفظ زیادہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کوسواونٹ دے کراس کی زبان مجھ سے بندکرو۔[31]

درج ذیل لوگوں کوپچاس سے کم اونٹ عطافرمائے۔

طلیق بن سفیان بن امیہ بن عبدشمس ۔خالدبن اسیدبن ابی العاص ،شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ ،بنوعبدالدارسے ابوالسنابل بن بعکک بن حارث،ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے بھائی زہیربن امیہ مخزومی،خالدبن ہشام بن مغیرہ مخزومی،سائب بن ابی سائب مخزومی،بنوعدی سے مطیع بن اسود،ابوجہم بن حذیفہ عدوی،اححیہ بن عدی بن خلف جمحی، بنوبکربن عبدمناف سے نوفل بن معاویہ ،علقمہ بن علاثہ بن عوف ،خالدبن ہوذہ ،خالدبن ولیدکے بھائی ہشام بن ولید،عبدالاسدبن ہلال مخزومی ۔

أَنَّ قَائِلًاقَالَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِهِ یَا رَسُولَ اللهِ أَعْطَیْت عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنٍ وَالْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِائَةً وَتَرَكْت جُعَیْلَ بْنَ سُرَاقَةَ الضّمْرِیّ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاَلّذِی نَفْسُ مُحَمّدٍ بِیَدِهِ لَجُعَیْلُ بْنُ سُرَاقَةَ خَیْرٌ مِنْ طِلَاعِ الْأَرْضِ كُلّهِمْ مِثْلَ عُیَیْنَةَ بْنِ حِصْنٍ وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ وَلَكِنّی تَأَلّفْتهمَا لِیَسْلَمَا, وَوَكَلْت جُعَیْلَ بْنَ سُرَاقَةَ إِلَى إِسْلَامه

کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے عیینہ بن حصن اوراقرع بن حابس کوسوسواونٹ دے دیئے ہیں اورجعیل رضی اللہ عنہ بن سراقہ ضمری کو کچھ نہیں دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہےعیینہ جیسے آدمیوں سے زمین بھری پڑی ہوتوان سے اکیلاجعیل بن سراقہ بہتر ہے،میں نے تالیف قلب کے لئے انکواتنے اونٹ دیئے ہیں تاکہ وہ اسلام قبول کرلیں اورجعیل رضی اللہ عنہ کواس کے اسلام کے سپردکردیاہے۔[32]ابن سعداورمغازی واقدی میں ہے یہ سوال پوچھنے والے سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔

عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا وَمَنَعَ آخَرِینَ، فَكَأَنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَیْهِ، فَقَالَ:إِنِّی أُعْطِی قَوْمًا أَخَافُ ظَلَعَهُمْ وَجَزَعَهُمْ، وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللهُ فِی قُلُوبِهِمْ مِنَ الخَیْرِ وَالغِنَى، مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ،فَقَالَ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ

عمروبن تغلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال خمس میں سے کچھ لوگوں کومال دیااورکچھ لوگوں کونہیں دیاجن کومال نہیں دیاوہ ناراض ہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں ایسے لوگوں کودیتاہوں جس سے کجی اوربے صبری کامجھے اندیشہ ہوتاہے اورکچھ لوگوں کواس خیراورغنیٰ کے حوالے کردیتاہوں جوخیروغنیٰ اللہ نے ان کے دلوں میں پیداکردی ہےان ہی لوگوں میں عمروبن تغلب رضی اللہ عنہ بھی ہیں ،عمروبن تغلب رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری نسبت یہ جوکلمہ فرمایا اگر اس بات کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملتے توبھی میں اتناخوچ نہ ہوتا۔[33]

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَیْنٍ، فَلَمَّا التَقَیْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِینَ جَوْلَةٌ، فَرَأَیْتُ رَجُلًا مِنَ المُشْرِكِینَ قَدْ عَلاَ رَجُلًا مِنَ المُسْلِمِینَ، فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّیْفِ فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ،وَأَقْبَلَ عَلَیَّ فَضَمَّنِی ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِیحَ المَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ المَوْتُ فَأَرْسَلَنِی،فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ؟قَالَ: أَمْرُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ،ثُمَّ رَجَعُوا

ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین میں شریک ہوئے پہلے پہل مسلمانوں کوشکست ہوگئی،میں نے دیکھاکہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپرغالب ہورہاہے،میں نے پیچھے سے اس کوکندھے پرتلوارماری جس سے اس کی زرہ کٹ گئی اورکچھ کندھابھی کٹ گیا،وہ پیچھے پلٹ کرمجھ سے لپٹ گیا اورمجھے اتنی زورسے بھینچاکہ موت کی تصویرمیری آنکھوں میں پھرگئی،پھروہ زخموں کی تاب نہ لاکرگرپڑااوردم توڑدیااورمجھے چھوڑدیا،پھرمیری عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تومیں نے کہالوگوں کوکیاہوا؟وہ بولے یہی اللہ عزوجل کاحکم ہے، پھرمجاہدین اسلام واپس پلٹے(اوراللہ نے فتح ونصرت سے نوازا،جنگ ختم ہونے کے بعد)

وَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ:مَنْ قَتَلَ قَتِیلًا لَهُ عَلَیْهِ بَیِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ،فَقُلْتُ: مَنْ یَشْهَدُ لِی، ثُمَّ جَلَسْتُ،قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ ، فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ یَشْهَدُ لِی، ثُمَّ جَلَسْتُ ،قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ ، فَقُمْتُ فَقَالَ:مَا لَكَ یَا أَبَا قَتَادَةَ؟فَأَخْبَرْتُهُ ، فَقَالَ رَجُلٌ: صَدَقَ، وَسَلَبُهُ عِنْدِی، فَأَرْضِهِ مِنِّی،

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت تقسیم کرنے کے لئے بیٹھے توفرمایاجس نے کوئی آدمی قتل کیاہواوراس کے پاس اس کاکوئی ثبوت ہوتواس مقتول کامال واسباب اورہتھیار اس کومل جائے گا،میں نے اپنے دل میں کہاکہ میرے حق میں کون گواہی دے گا؟پھرمیں بیٹھ گیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اعلان فرمایاتو میں کھڑا ہو گیا،اس مرتبہ پھرمیں نے دل میں کہاکہ میرےلیے کون گواہی دے گا؟اور پھربیٹھ گیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بارپھراپنافرمان دہرایاتواس مرتبہ میں کھڑاہوگیاآپ نے فرمایاابوقتادہ رضی اللہ عنہ کیابات ہے ؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایاتواس وقت ایک آدمی (اسود رضی اللہ عنہ بن خزاعی اسلمی)نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ٹھیک کہتاہے جس آدمی کواس نے قتل کیاہے اس کاتمام مال واسباب میرے پاس ہےآپ اس کوراضی کردیں کہ یہ اس مال واسباب کومیرے پاس رہنے دے،

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لاَهَا اللهِ إِذًا، لاَ یَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللهِ، یُقَاتِلُ عَنِ اللهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیُعْطِیَكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صَدَقَ، فَأَعْطِهِ،فَأَعْطَانِیهِ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِی بَنِی سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِی الإِسْلاَمِ

اس پرسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جوپاس ہی کھڑے ہوئے تھےبولے اللہ کی قسم! ایساہرگزنہیں ہوسکتا،اللہ کے شیروں میں سے ایک شیرجو اللہ کی راہ میں اس کے رسول کے ساتھ مل کرجہادکرتاہے پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کاحق تجھے ہرگز نہیں دے سکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے ٹھیک کہاہے اس کامال واسباب اس کودے دو، چنانچہ اس شخص نے وہ مال واسباب مجھے دے دیاجس کوبیچ کرمیں نے بنوسلمہ میں ایک باغ خریدااوریہ میری پہلی جائدادہے جواسلام لانے کے بعدمیں نے پیداکی ۔[34]

ثُمَّ أَمَرَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ بِإِحْصَاءِ الْغَنَائِمِ وَالنَّاسِ، ثُمَّ فَضَّهَا عَلَى النَّاسِ، فَكَانَتْ سِهَامُهُمْ لِكُلِّ رَجُلٍ أَرْبَعًا مِنَ الْإِبِلِ وَأَرْبَعِینَ شَاةً. فَإِنْ كَانَ فَارِسًا أَخَذَ اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیرًا، وَعِشْرِینَ وَمِائَةَ شَاةٍ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کوحکم فرمایاکہ وہ بقیہ مجاہدین اوربکریوں کی گنتی پیش کریں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب مال باقی حضرات پربرابرتقسیم فرما دیا چنانچہ ہرمجاہدکے حصہ میں چارچاراونٹ اورچالیس چالیس بکریاں آئیں ،جوگھوڑے سوارتھے انہوں نے سہہ گناحصہ بارہ اونٹ اورایک سوبیس بکریاں حاصل کیں اگرکسی کے پاس ایک سے زیادہ گھوڑے تھے توان کاالگ حصہ نہیں لگایاگیا۔[35]

کیونکہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکرپربہت مال صرف کیاتھااس لئے انہیں جواد (سخی) کا اور ایک قول کے مطابق أنْتَ الفَیَّاضُکالقب عطافرمایا۔[36]

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ حُنَیْنٍ آثَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا فِی الْقِسْمَةِ، فَأَعْطَى الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عُیَیْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ الْعَرَبِ، وَآثَرَهُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْقِسْمَةِ،فَقَالَ رَجُلٌ: وَاللهِ، إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا عُدِلَ فِیهَا وَمَا أُرِیدَ فِیهَا وَجْهُ اللهِ،قَالَ فَقُلْتُ: وَاللهِ، لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ حنین میں آپ نے مال تقسیم کرتے وقت کچھ لوگوں کوزیادہ مال دیا،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع بن حابس کوسواونٹ دیئے ،اسی طرح عیینہ کوبھی اتنے اونٹ دیئے،عرب کے دوسرے ممتازآدمیوں سے بھی ترجیحی سلوک کیا،یہ دیکھ کرایک آدمی نے کہااس تقسیم میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیاگیااورنہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کاخیال رکھاگیاہے،عبداللہ کہتے ہیں میں نے کہامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبردوں گا۔

قَالَ: فَأَتَیْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ، قَالَ: فَتَغَیَّرَ وَجْهُهُ حَتَّى كَانَ كَالصِّرْفِ، ثُمَّ قَالَ:فَمَنْ یَعْدِلُ إِنْ لَمْ یَعْدِلِ اللهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: یَرْحَمُ اللهُ مُوسَى، قَدْ أُوذِیَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ قَالَ قُلْتُ: لَا جَرَمَ لَا أَرْفَعُ إِلَیْهِ بَعْدَهَا حَدِیثًا

چنانچہ میں نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس شخص کی یہ بات بتلائی،یہ سن کرآپ سخت ناراض ہوئے اورآپ کاچہرہ مبارک سرخ ہوگیایہاں تک کہ میں نے آرزوکی کہ کاش !میں آپ کویہ بات نہ بتاتا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ اوراس کارسول عدل نہیں کرے گاتوپھرکون عدل کرے گا؟پھرآپ نے فرمایااللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پررحم فرمائے ان کواس سے بھی زیادی تکلیف دی گئی تھی اورانہوں نے صبرسے کام لیاتھا(صبرعجیب نعمت ہے جوپیغمبروں کی خصلت ہے ،جس نے صبرکیاوہ کامیاب ہواآخرمیں اس کادشمن ذلیل وخوارہوا)عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس کے بعدمیں نے فیصلہ کرلیاکہ آئندہ میں اس قسم کی کوئی خبرآپ کونہیں دوں گا۔[37]

جس منافق کاذکرکیاگیاہے اس کم بخت نے اتنابھی غورنہیں کیاکہ دنیاکامال ودولت اسباب سب پروردگارکی ملک ہیں جس پیغمبرکواللہ تعالیٰ نے اپنارسول بناکردنیامیں بھیج دیااس کوپورااختیارہے کہ جیسی مصلحت ہواسی طرح دنیاکامال تقسیم کرے ،اللہ تعالیٰ کی رضامندی کاخیال جتنااس کے پیغمبرکوہوگااس کاعشرعشیربھی دوسروں کونہیں ہوسکتا مگر بدباطن قسم کے لوگوں کوشیوہ ہی یہ رہاہے کہ خواہ مخواہ دوسروں پرالزام بازی کرتے رہتے ہیں اوراپنے عیوب پرکبھی ان کی نظرنہیں جاتی ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ مُنْصَرَفَهُ مِنْ حُنَیْنٍ، وَفِی ثَوْبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْبِضُ مِنْهَا، یُعْطِی النَّاسَ ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، اعْدِلْ،قَالَ:وَیْلَكَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ؟لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ،فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: دَعْنِی، یَا رَسُولَ اللهِ فَأَقْتُلَ هَذَا الْمُنَافِقَ،فَقَالَ:مَعَاذَ اللهِ، أَنْ یَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّی أَقْتُلُ أَصْحَابِی، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ یَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، یَمْرُقُونَ مِنْهُ كَمَا یَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہے حنین سے واپسی کے بعدجعرانہ میں آپ کے پاس ایک آدمی آیااس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے دامن میں کچھ چاندی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھربھرکرلوگوں کودے رہے تھے،وہ بولامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )عدل سے کام لیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھ پرافسوس ہواگرمیں عدل نہیں کروں گا توکون عدل کرے گا؟ اگر میں نے عدل نہیں کیاتویقینا ًگھاٹے میں پڑااورخسارے میں رہا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگراجازت ہوتومیں اس منافق کوقتل کردوں ؟ آپ نے فرمایامعاذاللہ!لوگ کہیں گے میں اپنے ساتھیوں کوقتل کرتاہوں ،یہ اوراس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں گزرے گایہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیرکمان سے نکل جاتاہے۔[38]

أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ، قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقْسِمُ قَسْمًا، أَتَاهُ ذُو الْخُوَیْصِرَةِ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، اعْدِلْ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : وَیْلَكَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ؟قَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ ،فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ائْذَنْ لِی فِیهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں بنوتمیم کاایک آدمی آیاجس کوذوالخویصرہ کہا جاتا تھااس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال تقسیم کر رہے تھےوہ کھڑادیکھتارہا،پھرکہنے لگااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عدل کرو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم پرافسوس ہواگرمیں عدل نہیں کروں گاتوکون کرے گا؟اور بالکل بدنصیب اورمحروم ہوگیااگرمیں نے عدل نہ کیا ،اس پرسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت فرمائیں کہ میں اس کی گردن ماردوں ،

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِیَامَهُ مَعَ صِیَامِهِمْ، یَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَهُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا یَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ، یُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلَا یُوجَدُ فِیهِ شَیْءٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَلَا یُوجَدُ فِیهِ شَیْءٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلَى نَضِیِّهِ فَلَا یُوجَدُ فِیهِ شَیْءٌ – وَهُوَ الْقِدْحُ – ثُمَّ یُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا یُوجَدُ فِیهِ شَیْءٌ، سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کورہنے دواس لیے کہ اس کے ساتھ ایک جماعت ہوگی تم ان کی نمازوں کو اپنی نمازاوراپنے روزے کوان کے روزوں کے آگے حقیر سمجھوگے،یہ لوگ قرآن پڑھیں گے مگروہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا،دین کے بارے میں تشددکرتے کرتے اس سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکے جسم سے نکلتا ہے تیراندازاس کے پھل کودیکھتاہے توکوئی چیزنظرنہیں آتی،پھراس کی لکڑی میں دیکھتے ہیں تواس میں بھی کوئی چیزنہیں ملتی،پھرفوق میں دیکھتے ہیں تواس میں کچھ نظرنہیں آتاحالانکہ وہ خون اور گوبرسے ہوکرنکلتاہے۔[39]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے اپنی رائے کے موافق کس کی کم زیادہ دیاہوگاجب توذوالخویصرہ نے یہ اعتراض کیاکیونکہ باقہ چارحصے توبرابرسب مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں ،مگراس کااعتراض غلط تھاکہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ایساگمان کیاجب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کربنی نوع انسان میں کوئی عادل منصف پیدانہیں ہوااورنہ ہوگا۔

اموال غنیمت اورانصار:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ، قَسَمَ فِی النَّاسِ فِی المُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ، وَلَمْ یُعْطِ الأَنْصَارَ شَیْئًا، فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ یُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، فَخَطَبَهُمْ فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ اللَّهُ بِی، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ فَأَلَّفَكُمُ اللَّهُ بِی، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللَّهُ بِی» كُلَّمَا قَالَ شَیْئًا قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ،

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ حنین کے موقع پراللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوجوغنیمت دی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تقسیم کمزورایمان کے لوگوں میں (جوفتح مکہ کے بعدایمان لائے تھے)کردی اورانصارکواس میں سے کچھ نہیں دیاگویاکہ انہوں نے غصہ کیاکہ جومال دوسروں کوملاہے ان کوکیوں نہیں ملا،آپ نے کھڑے ہوکران کوخطاب کیااوراللہ تعالیٰ کی حمدوثناکے بعدفرمایااے جماعت انصار!کیایہ حقیقت نہیں کہ تم گمراہ تھے پھرتم کومیرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اورتم میں آپس میں دشمنی اورنااتفاقی تھی تواللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیداکی اورتم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک جملے پرانصارکہتے جاتے تھے کہ اللہ اوراس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مندہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری باتوں کاجواب دینے سے تمہیں کیاچیزمانع رہی ؟بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہراشارے پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اوراس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مندہیں

قَالَ: لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ: جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا،أَتَرْضَوْنَ أَنْ یَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالبَعِیرِ، وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ ، لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِیًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِیَ الأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا لأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌإِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أُثْرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِی عَلَى الحَوْضِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم چاہتے تو مجھ سے اس اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تولوگ آپ کوجھٹلارہے تھے لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پرخوش نہیں ہوکہ جب لوگ اونٹ اوربکریاں لے جا رہے ہوں توتم اپنے گھروں کی طرف اللہ کے رسول کولے جارہے ہوگے؟اگرہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی انصارکاآدمی بن جاتا،لوگ خواہ کسی وادی اورکسی گھاٹی کی طرف چلیں اورانصاردوسری وادی اورگھاٹی کی طرف چلیں تو میں اسی وادی اوراسی گھاٹی کی طرف چلوں گاجس کی طرف انصارچلیں گے،انصاراس کپڑے کی طرح ہیں یعنی استرجوہمیشہ جسم سے لگارہتاہے اوردوسرے لوگ اوپرکے کپڑے کی طرح ہیں یعنی ابرہ ، میرے بعدتم پردوسروں کوترجیح دی جائے گی اس وقت صبرسے کام لینایہاں تک کہ تم مجھ سے حوض پر آکرملو۔[40]

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ قَالُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حِینَ أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ یُعْطِی رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ المِائَةَ مِنَ الإِبِلِ، فَقَالُوا: یَغْفِرُ اللهُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یُعْطِی قُرَیْشًا وَیَدَعُنَا، وَسُیُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ،قَالَ أَنَسٌ: فَحُدِّثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَقَالَتِهِمْ،فَأَرْسَلَ إِلَى الأَنْصَارِ، فَجَمَعَهُمْ فِی قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، وَلَمْ یَدْعُ مَعَهُمْ أَحَدًا غَیْرَهُم

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے غزوہ حنین کے موقع پرانصارکے چندلوگوں نے کہاجب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواموال ہوزان میں سے کچھ مال بغیرلڑے بھڑے دلوادیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کےچندآدمیوں کوسواونٹ دیئے،توانصارمیں سے کچھ لوگوں نے کہااللہ تعالیٰ اپنے رسول کومعاف فرمائے آپ مال قریش کو دیتے ہیں اورہمیں نظراندازکرتے ہیں حالانکہ ابھی تک ہماری تلواروں سے ان کے خون کے قطرے ٹپکتے ہیں ،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاتذکرہ کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کوبلابھیجااوران کوچمڑے کے ایک خیمہ میں جمع کیا اس خیمہ میں انصار کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا

فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا كَانَ حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْكُمْ،قَالَ لَهُ فُقَهَاؤُهُمْ: أَمَّا ذَوُو آرَائِنَا یَا رَسُولَ اللهِ، فَلَمْ یَقُولُوا شَیْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِیثَةٌ أَسْنَانُهُمْ، فَقَالُوا: یَغْفِرُ اللهُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یُعْطِی قُرَیْشًا، وَیَتْرُكُ الأَنْصَارَ، وَسُیُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی أُعْطِی رِجَالًا حَدِیثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ

جب سب جمع ہوگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوران سے پوچھااے جماعت انصار! یہ میں کیابات سن رہاہوں ،انصارکے بڑوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سربرآوردہ اوراہل رائے میں سے کسی نے یہ نہیں کہاالبتہ بعض ناسمجھ نوجوانوں نے یہ کہاہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول کومعاف فرمائے آپ مال قریش کودیتے ہیں اورہمیں نظراندازکرتے ہیں حالانکہ ابھی تک ہماری تلواروں سے ان کے خون کے قطرے ٹپکتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں ان لوگوں کودیتاہوں جوابھی ابھی کفرچھوڑکراسلام لائے ہیں ،میری غرض تالیف قلب ہے

أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْهَبَ النَّاسُ بِالأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُوا إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَوَاللهِ مَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَیْرٌ مِمَّا یَنْقَلِبُونَ بِهِ، قَالُوا: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ رَضِینَا،فَقَالَ لَهُمْ:إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَةً شَدِیدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوُا اللهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الحَوْضِ،قَالُوا: سَنَصْبِرُ قَالَ أَنَسٌ فَلَمْ نَصْبِرْ

کیا تمہیں یہ منظورنہیں ہے کہ دوسرے لوگ اونٹ وبکریاں لے کر گھروں کو جائیں اورتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے ساتھ لے کرجاؤ،اللہ کی قسم !جوچیزتم لے کرجاؤگے وہ اس سے بدرجہ بہترہے جووہ لے کرجائیں گے،انصارنے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اس پرراضی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے بعدتمہیں سخت قسم کی کنبہ پروری کاسامناکرناپڑے گااس وقت صبرسے کام لیناحتی کہ تم اللہ اوراس کے رسول سے آملو،میں تمہیں حوض پرملوں گا،وہ بولے ہم ضرورصبرسے کام لیں گے،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں لیکن وقت آنے پروہ صبرنہ کرسکے۔[41]

ابن اسحاق ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے گروہ انصار!تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالُوا: بَلَى، اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ وَأَفْضَلُ، قَالَ: أَمَا وَاَللهِ لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ فَصَدَقْتُمْ: أَتَیْتنَا مُكَذّبًا فَصَدّقْنَاك، وَمَخْذُولًا فَنَصَرْنَاك .وَطَرِیدًا فَآوَیْنَاك، وَعَائِلًا فَآسَیْنَاك !وَجَدْتُمْ فِی أَنْفُسِكُمْ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِی شَیْءٍ مِنْ الدّنْیَا تَأَلّفْت بِهِ قَوْمًا لِیُسْلِمُوا، وَوَكَلْتُكُمْ إلَى إسْلَامِكُمْ ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَنْ یَذْهَبَ النّاسُ بِالشّاءِ وَالْبَعِیرِ وَتَرْجِعُوا بِرَسُولِ اللهِ إلَى رِحَالِكُمْ؟

وہ بولے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ کوکیاجواب دیں ؟اللہ اوراس کے رسول کاہی ہم پرفضل اوراحسان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میری بات کایہ جواب دے سکتے ہواے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )جب لوگوں نے آپ کوجھٹلایاہم نے آپ کی تصدیق کی،جب آپ بے یارومددگار تھے اس وقت ہم نے آپ کی امدادکی،جب آپ اپنے گھرسے نکالے گئے توہم نے آپ کواپنے گھروں میں جگہ دی ،جب آپ مفلس اورمحتاج تھے توہم نے اپنے مال آپ پرقربان کیے،اے گروہ انصار!کیاتم اس بات پررنجیدہ ہوئے کہ میں نے کچھ متاع قلیل چندلوگوں کوتالیف قلوب کے لئے دے دیئے تاکہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں اورتمہارے اسلام وایمان پربھروسہ کرکے تم کوچھوڑدیا،اے گروہ انصار! تمہیں یہ منظورنہیں ہے کہ دوسرے لوگ اونٹ وبکریاں لے کرجائیں اورتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے ساتھ لے کرجاؤ؟

وَاَلّذِی نَفْسُ مُحَمّدٍ بِیَدِهِ، لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْت امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النّاسُ شِعْبًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَسَلَكْت شِعْبَ الْأَنْصَارِقَالَ: إمّا لَا فَسَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتّى تَلْقَوْا اللهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنّ مَوْعِدَكُمْ الْحَوْضُ، اللهمّ ارْحَمْ الْأَنْصَارَ، وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءَ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ قَالَ: فَبَكَى الْقَوْمُ حَتّى أَخْضَلُوا لِحَاهُمْ،وَقَالُوا: رَضِینَا یَا رَسُولَ اللهِ حَظّا وَقَسْمًا. وَانْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرّقُوا

اللہ کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے اگرمیں نے ہجرت نہ کی ہوتی تومیں انصارکاآدمی بنتااگرلوگ ایک گھاٹی کوچلیں اورانصاردوسری گھاٹی کوچلیں تومیں انصارکی گھاٹی کواختیارکروں گا،میرے بعدتم پردوسروں کوترجیح دی جائے گی اس وقت صبرسے کام لینایہاں تک کہ تم مجھ سے حوض پرآکرملو، اے اللہ!توانصار،ان کی اولاداوراولادکی اولادسب پررحم فرما،راوی کہتے ہیں کہ انصارآپ کی یہ تقریرسن کراس قدرروئے کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں ترہوگئیں ، اوروہ کہنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم راضی ہیں کہ ہماری قسمت میں اللہ کے رسول آئے،پھرآپ واپس آئے اورلوگ اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔[42]

اسیروں کی واپسی:

وَقَدِمَ عَلَیْهِ أَرْبَعَةَ عَشَرَ رَجُلًا مِنْ هَوَازِنَ مُسْلِمِینَ، وَجَاءُوا بِإِسْلَامِ مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَكَانَ رَأْسَ الْقَوْمِ وَالْمُتَكَلّمَ أَبُو صُرَدٍ زُهَیْرُ بْنُ صُرَدٍ یَا رَسُولَ الله إنّا أَهْلُك وَعَشِیرَتُك، وَقَدْ أَصَابَنَا مِنْ الْبَلَاءِ مَا لَا یَخْفَى عَلَیْك . یَا رَسُولَ الله، إنّمَا فِی هَذِهِ الْحَظَائِرِ عَمّاتُك وَخَالَاتُك وَحَوَاضِنُك اللّاتِی كُنّ یَكْفُلْنَك، وَلَوْ أَنّا مَلَحْنَا لِلْحَارِثِ بْنِ أَبِی شِمْرٍ وَلِلنّعْمَانِ بْنِ الْمُنْذِرِ. ثُمّ نَزَلَا مِنّا بِمِثْلِ الّذِی نَزَلْت بِهِ، رَجَوْنَا عَطْفَهُمَا وَعَائِدَتَهُمَا ، وَأَنْتَ خَیْرُ الْمَكْفُولِی

غنائم کی تقسیم کے بعدقبیلہ ہوزان کاایک نویا چودہ رکنی وفد زہیربن صرد کی سربراہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا، اس وفد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی چچا ابوبرقان بھی شامل تھےجن کاتعلق بنوسعدسے تھا،انہوں نے اسلام قبول کیااورآپ کے ہاتھ پربیعت کی اوربعدازاں اس قبیلہ کے خطیب زہیربن صردنے کھڑے ہوکر عرض کیا،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان اسیروں میں آپ کی پھوپیاں اورخالائیں اورگودکھلانے والیاں ہیں اگرہم حارث بن شمریانعمان بن منذرکودودھ پلاتے توہم اس کے احسان اورمروت سے محروم نہ رہتے اورآپ کی شان توان سب سے اعلیٰ وارفع ہے،ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ پرمخفی نہیں آپ ہم پراحسان فرمائیں اللہ آپ پراحسان فرمائے گااورفی البدیہہ چندشعرپڑھے۔

أُمْنُنْ عَلَیْنَا رَسُولَ الله فِی كَرَمٍ ، ،فَإِنّك الْمَرْءُ نَرْجُوهُ وَنَدّخِرُ

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم پرکرم کریں اوراحسان کریں کیونکہ آپ ہی سے ہمارے تمام توقعات وابستہ ہیں

أُمْنُنْ عَلَى نِسْوَةٍ قَدْ عَاقَهَا قدر ،مُمَزَّق شَمْلُهَا، فِی دَهْرِهَا غِیَرُ

آپ ایسے خاندان پراحسان کریں جس کی آزادی آپ کے دست قدرت میں ہے اورجواس وقت سخت پریشان حال اوربدبختی زدہ ہے

أُمْنُنْ عَلَى نِسْوَةٍ قَدْ كُنْت تَرْضَعُهَا ، إذْ فوك مملوءة من محضها الدّرر

اللآلی إذْ كُنْت طِفْلًا كُنْت تَرْضَعُهَا ،وَإِذْ یَزِینُك مَا تَأْتِی وَمَا تَذَرُ

أَلَا تَدَارَكَهَا نَعْمَاءُ تَنْشُرُهَا ، یَا أَرْجَحَ النّاسِ حَتّى حِینَ یُخْتَبَرُ

لَا تَجْعَلَنّا كَمَنْ شَالَتْ نَعَامَتُهُ ، وَاسْتَبْقِ مِنّا فَإِنّا مَعْشَرٌ زُهُرُ

إنّا لَنَشْكُرُ آلَاءً وَإِنْ قَدُمَتْ ،وَعِنْدَنَا بَعْدَ هَذَا الْیَوْمِ مُدّخَرُ

فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أن أَحْسَنَ الْحَدِیثِ أَصْدَقُهُ، وَعِنْدِی مَنْ تَرَوْنَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَأَبْنَاؤُكُمْ وَنِسَاؤُكُمْ أَحَبّ إلَیْكُمْ أَمْ أَمْوَالُكُمْ؟قَالُوا: یَا رَسُولَ الله، خَیّرْتنَا بَیْنَ أَحْسَابِنَا وَبَیْنَ أَمْوَالِنَا، وَمَا كُنّا نَعْدِلُ بِالْأَحْسَابِ شَیْئًا، فَرُدّ عَلَیْنَا أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا! فَقَالَ النّبِیّ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمّا مَا لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ، وَأَسْأَلُ لَكُمْ النّاسَ، وَإِذَا صَلّیْت الظّهْرَ بِالنّاسِ فَقُولُوا، إنّا لَنَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ الله إلَى الْمُسْلِمِینَ، وَبِالْمُسْلِمِینَ إلَى رَسُولِ الله! فَإِنّی سَأَقُولُ لَكُمْ، مَا كَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ، وَسَأَطْلُبُ لَكُمْ إلَى النّاسِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اہل ہوزان !میں نے تمہارابہت انتظارکیامگرتم نے بہت دیرکردی اب غنائم مجاہدین اسلام میں تقسیم ہوچکے ہیں مجھے سب سے زیادہ وہ بات پسندہے جوسچی ہواب بتاؤ کہ تم اپنامال واسباب لیناپسندکرتے ہویااپنی اولاداورعورتیں ؟زہیر رضی اللہ عنہ بن صردنے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ہمیں مال واسباب اوراہل وعیال میں سے ایک چیزلینے کااختیاردیاہے،اونٹ ،بکریاں ،چاندی وغیرہ مال میں شامل ہے اوراہل وعیال عزت وناموس ہیں ،شرفاءناموس کے مقابلے میں مال کوترجیح نہیں دے سکتے ،آپ ازراہ احسان ہماری اولاداورعورتیں ہمیں عنایت فرمادیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اہل ہوزان ! میرے اورخاندان بنوہاشم وبنوعبدالمطلب کے حصہ میں جوکچھ آیاہےمجھے اس پراختیارہے اس لئے وہ سب تمہاراہے لیکن مسلمانوں کے حصہ میں جوکچھ جاچکاہے اس پرمیرااختیارنہیں ،ظہرکی نمازکے بعدتم کھڑے ہوکرکہناکہ ہم مسلمانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسفارشی بناتے ہیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسلمانوں کوسفارشی بناتے ہیں کہ ہماری عورتیں اوربچے جنہیں آپ نے لونڈی غلام بنایاہے واپس کردیں اوردیکھوان لوگوں کے سامنے یہ درخواست پیش کرنے سے پہلے اپنے قبول اسلام کا اظہار ضرورکردینامیں بھی تمہاری سفارش کروں گا

فَلَمّا صَلّى رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظّهْرَ بِالنّاسِ قَامُوا فَتَكَلّمُوا بِاَلّذِی أَمَرَهُمْ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: إنّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ الله إلَى الْمُسْلِمِینَ، وَبِالْمُسْلِمِینَ إلَى رَسُولِ الله! فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی المُسْلِمِینَ، فَأَثْنَى عَلَى اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاَءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِینَ، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْهِمْ سَبْیَهُمْ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُطَیِّبَ، فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ یَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِیَهُ إِیَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیءُ اللهُ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ؟

چنانچہ ہوزان کے خطباء نے نمازظہرکے بعد کھڑے ہوکرتقریریں کیں اورجس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاتھاوہی کہاکہ ہم مسلمانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسفارشی بناتے ہیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسلمانوں کوسفارشی بناتے ہیں کہ ہماری عورتیں اوربچے جنہیں آپ نے لونڈی غلام بنایاہے واپس کردیں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اورمسلمانوں کوخطاب فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاللہ کی شان کے مطابق حمدوثناکے بعد فرمایا امابعد!تمہارے یہ بھائی ہوزان مسلمان ہوکرآئے ہیں میں نے اپنا اور اپنے خاندان کاحصہ ان کودے دیاہے،اے لوگو!بنی ہوزان تمہارے بھائی ہیں وہ اسلام کے شرف سے بہرہ ورہوچکے ہیں میں مناسب سمجھتاہوں کہ دوسرے مسلمان بھی ان کے قیدی واپس کردیں ،جوشخص بخوشی ایساکرناچاہے وہ آزادکردے اورجوشخص مفت آزادنہ کرناچاہے تواس کے بدلے جتنے قیدی وہ آزادکردے گااتنے قیدی اس کو اولین حاصل ہونے والی غنیمت سے مل جائیں گے،

 فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَیَّبْنَا ذَلِكَ یَا رَسُولَ اللهِ لَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّا لاَ نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِی ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى یَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوافَهَذَا الَّذِی بَلَغَنَا عَنْ سَبْیِ هَوَازِنَ

لیکن تمام مہاجرین وانصاربیک آوازبولے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اپنے قیدی بطیب خاطرمفت آزادکرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااتنے عظیم مجمع میں پتہ نہیں چلتاکہ کس نے خوشی سے قیدی آزادکیے ہیں اورکس نے خوشی سے آزادنہیں کیے اس لئے تم سب اپنے اپنے ٹھکانوں پرجاؤتمہارے سرداراپنی اپنی قوم وبرادری سے پوچھ کربتائیں ،چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے اورسرداروں نے اپنے اپنے قبیلے والوں سے پوچھ کراطلاع دی کہ سب لوگ اپنی رضامندی سے اپنے اپنے قیدی آزاد کرتے ہیں ،چنانچہ ہوزان کے چھ ہزارقیدی بچوں اورعورتوں کورہاکردیا۔[43]

عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَیَّ اعْتِكَافُ یَوْمٍ فِی الجَاهِلِیَّةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ یَفِیَ بِهِ، قَالَ: وَأَصَابَ عُمَرُ جَارِیَتَیْنِ مِنْ سَبْیِ حُنَیْنٍ، فَوَضَعَهُمَا فِی بَعْضِ بُیُوتِ مَكَّةَ،قَالَ:فَمَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَبْیِ حُنَیْنٍ ، فَجَعَلُوا یَسْعَوْنَ فِی السِّكَكِ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا عَبْدَ اللهِ، انْظُرْ مَا هَذَا؟فَقَالَ:مَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّبْیِ،قَالَ: اذْهَبْ فَأَرْسِلِ الجَارِیَتَیْنِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !زمانہ جاہلیت میں میں نے ایک دن کے اعتکاف کی منت مانی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوراکرنے کاحکم فرمایاچنانچہ وہ مسجدالحرام میں اعتکاف کرنے کے لئے چلے گئے،حنین کے قیدیوں میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ کودوباندیاں ملی تھیں (صحیح مسلم میں ہے ایک لونڈی ملی تھی) توآپ نے انہیں مکہ مکرمہ کے کسی گھرمیں رکھا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدیوں پراحسان کیا اور تمام اسیروں کومفت رہاکردیاتووہ خوشی سے گلیوں میں دوڑنے لگے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاعبداللہ!دیکھوتویہ کیامعاملہ ہے؟انہوں نے بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پراحسان کیا ہے (اورحنین کے تمام قیدی مفت آزادکردیئے گئے ہیں ) سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہااے عبداللہ جاؤاوران لڑکیوں کو(جومجھے خمس میں ملی تھی)بھی آزادکردو۔[44]

وَمَنْ أَبَى مِنْكُمْ وَتَمَسّكَ بِحَقّهِ فَلْیَرُدّ عَلَیْهِمْ، وَلْیَكُنْ فَرْضًا عَلَیْنَا سِتّ فَرَائِضَ مِنْ أَوّلِ مَا یَفِیءُ الله بِهِ عَلَیْنَا!قالوا: رَضِینَا وسَلَّمْنَا، فَرَدُّوا عَلَیْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ

ابن اسحاق عمروبن شعیب سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنے قیدی مفت نہیں چھوڑناچاہتااسے ہرقیدی کے بدلے پہلی غنیمت سے جوہمیں حاصل ہوگی چھ غلام دیئے جائیں گے، صحابہ بیک زبان ہوکر کہنے لگے کہ ہم اس فیصلہ پر رضامند اور خوش ہیں لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے بنوہوزان کوان کی عورتیں اوربچے مفت واپس کردیئے۔[45]

قَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمّا أَنَا وَبَنُو تمیم فلا! وقال عیینة بن حصن:أَمّا أَنَا وَفَزَارَةُ فَلَا! وَقَالَ عَبّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ السّلَمِیّ: أَمّا أَنَا وَبَنُو سُلَیْمٍ فَلَا! قَالَتْ بَنُو سُلَیْمٍ: مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ الله! فَقَالَ الْعَبّاسُ:وَهّنْتُمُونِی !

مگرچندلوگوں نے قیدی رہاکرنے سے انکارکردیا،اقرع بن حابس نے کہالیکن جوکچھ میرااوربنوتمیم کاہے وہ آپ کے لئے نہیں ،عیینہ رضی اللہ عنہ بن حصن جو متشدد قسم کے دیہاتی تھے کہاجوکچھ میرااوربنوفزارہ کاہے وہ آپ کے لئے نہیں ہے، اور اس بڑھیاعورت کوواپس کرنے سے انکارکردیاجوان کے حصہ میں آئی تھی مگرکہنے سننے سے انہوں نے بھی اسے رہاکردیا،عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس نے کہاجوکچھ میرا اور بنوسلیم کاہے وہ بھی آپ کے لئے نہیں ہے،اس پربنوسلیم نے کہابالکل نہیں جوکچھ ہماراہے وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے ،اس پرعباس بن مرداس نے کہاتم لوگوں نے میری توہین کی ہے۔[46]

وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لوفد هوَازن، وَسَأَلَهُمْ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَوْفٍ مَا فَعَلَ؟ فَقَالُوا: هُوَ بِالطَّائِفِ مَعَ ثَقِیفٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَخْبِرُوا مَالِكًا أَنَّهُ إنْ أَتَانِی مُسْلِمًا رَدَدْتُ عَلَیْهِ أَهْلَهُ وَمَاله، وأعطیته مائَة مِنْ الْإِبِلِ

ابن اسحاق لکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوزان کے وفدسے پوچھامالک بن عوف نضری کہاں ہے؟انہوں نے کہاوہ بنوثقیف کے ساتھ طائف میں رہتاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو خبر کر دو اگر وہ مسلمان ہوکرآجائے تومیں اس کامال اوراس کے سب قیدی اس کوواپس کردوں گااورمزیداپنی طرف سے اس کوایک سواونٹ انعام دوں گا،

فَأَتَى مَالِكٌ بِذَلِكَ، فَخَرَجَ إلَیْهِ مِنْ الطَّائِفِ. وَقَدْ كَانَ مَالِكٌ خَافَ ثَقِیفًا عَلَى نَفْسِهِ أَنْ یَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ مَا قَالَ، فَیَحْبِسُوهُ، فَأَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَهُیِّئَتْ لَهُ، وَأَمَرَ بِفَرَسِ لَهُ، فَأُتِیَ بِهِ إلَى الطَّائِفِ، فَخَرَجَ لَیْلًا، فَجَلَسَ عَلَى فَرَسِهِ، فَرَكَضَهُ حَتَّى أَتَى رَاحِلَتَهُ حَیْثُ أَمَرَ بِهَا أَنْ تُحْبَسَ، فَرَكِبَهَا، فَلَحِقَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدْرَكَهُ بِالْجِعْرَانَةِ أَوْ بِمَكَّةَ،وَأَسْلَمَ فَحَسُنَ إسْلَامُهُ،فَرَدَّ عَلَیْهِ أَهْلَهُ وَمَاله، وَأَعْطَاهُ مائَة مِنْ الْإِبِلِ، فَاسْتَعْمَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَنْ أَسْلَمَ مِنْ قَوْمِهِ

جب مالک بن عوف کویہ خبرمعلوم ہوئی تواس نے خیال کیاکہ اگرثقیف کومیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی خبرہوگئی تووہ ضرورمجھے روکیں گےپس اس خیال سے اس نے اپنی اونٹنی کوطائف سے کچھ فاصلہ پرتیار کھڑاکر دیا اور پھررات کوگھوڑے پرسوارہوکرطائف سے نکل کراونٹنی پرسوارہوااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جعرانہ یامکہ مکرمہ میں ملااوراسلام سے مشرف ہوااوربہت اچھااسلام لایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب وعدہ اس کے اہل وعیال اور مال واپس کردیئے اوراس کوایک سواونٹ انعام میں بھی دیئے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کوان کی قوم سے حلقہ بگوش ہونے والے لوگوں پرامیرمقررفرمایا۔[47]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَئِذٍ: إنْ قَدَرْتُمْ عَلَى بِجَادٍ، رَجُلٍ مِنْ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، فَلَا یُفْلِتَنَّكُمْ، وَكَانَ قَدْ أَحْدَثَ حَدَثًا، فَلَمَّا ظَفِرَ بِهِ الْمُسْلِمُونَ سَاقُوهُ وَأَهْلَهُ، وَسَاقُوا مَعَهُ الشَّیْمَاءَ، بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى أُخْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الرَّضَاعَةِ،فَعَنُفُوا عَلَیْهَا فِی السِّیَاقِ، فَقَالَتْ لِلْمُسْلِمِینَ: تَعلَمُوا وَاللّهِ أَنِّی لَأُخْتُ صَاحِبِكُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ، فَلَمْ یُصَدِّقُوهَا حَتَّى أَتَوْا بِهَا إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اسی روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکرکے افسران سے کہاکہ اگربنی سعدمیں سے بجادتمہارے ہاتھ لگ جائے تواس کوہرگزنہ چھوڑنا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو گرفتار کیااوراس کے اہل وعیال کوساتھ لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ ہوئے اوراسی کے ساتھ شیماء بنت حارث بن عبدالعزیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن بھی تھیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان لوگوں کوراستہ میں جلدی چلنے کی تکلیف دی، شیماءنے کہااے لوگو!تم جانتے بھی ہوکہ میں تمہارے رسول کی دودھ شریک بہن ہوں تمہیں میری عزت وحرمت کا لحاظ رکھناچاہیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے قول کوتسلیم نہ کیایہاں تک کہ یہ قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا۔

قَالَ: فَلَمَّا اُنْتُهِیَ بِهَا إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنِّی أُخْتُكَ مِنْ الرَّضَاعَةِ،قَالَ: وَمَا عَلَامَةُ ذَلِكَ؟قَالَتْ: عَضَّةٌ عَضَضْتَنِیهَا فِی ظَهْرِی وَأَنَا مُتَوَرِّكَتُكَ،قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَلَامَةَ،فَبَسَطَ لَهَا رِدَاءَهُ، فَأَجْلَسَهَا عَلَیْهِ، وخیَّرها

جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیاگیاتوانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپناتعارف کراتے ہوئے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کی رضاعی بہن ہوں ،توآپ نے فرمایااس کاکیاثبوت ہے ؟ انہوں نے عرض کیاجب آپ بچپن میں بسلسلہ رضاعت ہمارے گھرمیں رہتے تھے توآپ نے مجھے کاٹ لیاتھااوریہ کہہ کرکاٹنے کانشان آپ کودکھایا،آپ کووہ واقعہ یادآگیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس نشان سے انہیں پہچان لیا،پھران کی عزت ومنزلت کے لئے کھڑے ہوگئے اوران کے بیٹھنے کے لئے اپنی چادرمبارک زمین پربچھادی پھر(اپنی بہن کودیکھ کراورحلیمہ رضی اللہ عنہا کویادکرکے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سے آنسوبہہ نکلے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتم مجھ سے سوال کروپوراکیاجائے گا،تم مجھ سے سفارش کروتمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔

روایت ہے کہ شیماء کی قوم والوں نے ان سے کہاتھامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )تمہارے بھائی ہیں جب تم ان کے سامنے جاؤتواپنی قوم کے حق میں ان سے سفارش کرناہمیں امیدہے کہ وہ ہماری مددفرمائیں گے چنانچہ شیماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کے قیدیوں کوجن کی تعدادچھ ہزارتھی اسے بخش دینے کی سفارش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیاضی اورعظیم مہربانی سے وہ سب انہیں بخش دیئے،

وَقَالَ: إنْ أَحْبَبْتِ فَعِنْدِی مُحَبَّةٌ مُكْرَمَةٌ، وَإِنْ أَحْبَبْت أَن أمعّك وَتَرْجِعِی إلَى قَوْمِكَ فَعَلْتُ، فَقَالَتْ: بَلْ تُمَتِّعُنِی وَتَرُدُّنِی إلَى قَوْمِی، وأعطاها النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثلاثة أعبد وجاریة ونعما وشاء كثیرا

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیماء کواختیاردیااورفرمایااگرآپ میرے پاس قیام کرناچائیں توآپ کومیرے پاس انتہائی محبت واحترام حاصل رہے گااوراگرآپ چائیں کہ میں آپ کو ضروری مال ومتاع دے دوں اورآپ اپنی قوم میں جاکررہیں تویہ بھی ہوسکتاہے،انہوں نے عرض کیامجھے یہی صورت قبول ہے کہ آپ جوعطافرماناچاہیں عطافرمادیں اورمیں اپنی قوم میں واپس چلی جاؤں ،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان فرماتے ہوئے انہیں بہت سے اونٹ،بکریاں ،تین غلام اورایک باندی عطافرمائی اوران کو اپنی قوم میں واپس بھیج دیا۔[48]

أَنَّهُ أَعْطَاهَا غُلَامًا لَهُ یُقَالُ لَهُ مَكْحُولٌ، وَجَارِیَةً، فَزَوَّجَتْ أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى، فَلَمْ یَزَلْ فِیهِمْ مِنْ نَسْلِهِمَا بَقِیَّةٌ

ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکحول نامی ایک غلام اورایک باندی عطافرمائی اوران کو اپنی قوم میں واپس بھیج دیا،شیماء رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی باہم شادی کردی اوران کی اولادان میں باقی رہے۔[49]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی نذر:

عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَیَّ اعْتِكَافُ یَوْمٍ فِی الجَاهِلِیَّةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ یَفِیَ بِهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ ہی میں قیام پذیرتھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے دورجاہلیت میں ایک دن اعتکاف کرنے کی نذرمانی تھی وہ میں نے ابھی تک پوری نہیں کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے پوراکرو۔[50]

بلال رضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری کوبشارت :

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَیْنَ مَكَّةَ وَالمَدِینَةِ، وَمَعَهُ بِلاَلٌ فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ: أَلاَ تُنْجِزُ لِی مَا وَعَدْتَنِی؟فَقَالَ لَهُ:أَبْشِرْ،فَقَالَ: قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَیَّ مِنْ أَبْشِرْ،فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِی مُوسَى وَبِلاَلٍ كَهَیْئَةِ الغَضْبَانِ، فَقَالَ:رَدَّ البُشْرَى، فَاقْبَلاَ أَنْتُمَا قَالاَ: قَبِلْنَا، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِیهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ یَدَیْهِ وَوَجْهَهُ فِیهِ وَمَجَّ فِیهِ، ثُمَّ قَالَ:اشْرَبَا مِنْهُ ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا وَأَبْشِرَافَأَخَذَا القَدَحَ فَفَعَلاَ، نَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ: أَنْ أَفْضِلاَ لِأُمِّكُمَا، فَأَفْضَلاَ لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے جومکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان میں ایک مقام ہے اتررہے تھے تومیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھےاسی مقام پرایک بدورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہنے لگاجووعدہ آپ نے کیاتھااسے پوراکیوں نہیں کرتے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابشارت قبول کرو،اس بدونے کہابشارت توآپ دے چکے(اب کچھ مال بھی عنایت کریں )، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوغصہ آگیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اوران دونوں سے فرمایااس شخص نے بشارت کوقبول نہیں کیاتم اسے قبول کرلو،دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کرام نے عرض کیاہم نے بشارت قبول کی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کاایک پیالہ منگوایاپھرآپ نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ دھوئے ،کلی کی اورمنہ دھویااس کے بعدفرمایاتم دونوں اسے پی لواوراپنے چہروں اورہنسیلیوں پرمل لواورخوشخبری حاصل کرو،ان دونوں نے وہ پیالہ اٹھالیااورآپ کے حکم کی تعمیل کی،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے پردہ کے پیچھے سے کہااپنی والدہ کے لئے بھی بچادو،ان کی بات سن کر انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے لئے کچھ پانی اس میں چھوڑدیا۔[51]

اس بدوی کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شایدکچھ روپے پیسے یامال غنیمت دینے کاوعدہ فرمایاہوگاجب وہ تقاضاکرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامال کی کیاحقیقت ہے جنت تجھ کو مبارک ہولیکن بدقسمتی سے وہ بے ادب گنواراس عظیم بشارت سے خوش نہ ہواآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیااورابوموسی رضی اللہ عنہ اوربلال رضی اللہ عنہ کویہ نعمت سرفرازفرمائی ۔

تہی دستاں قسمت راچہ سوداززہبرکامل،کہ خضرازآب حیون تشنہ می آردسکندررا

عمرہ کے متعلق ایک سوال:

صَفْوَانُ بْنُ یَعْلَى بْنِ أُمَیَّةَ،أَنَّ یَعْلَى كَانَ یَقُولُ: لَیْتَنِی أَرَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ یُنْزَلُ عَلَیْهِ، قَالَ: فَبَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَیْهِ ثَوْبٌ قَدْ أُظِلَّ بِهِ، مَعَهُ فِیهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَهُ أَعْرَابِیٌّ عَلَیْهِ جُبَّةٌ مُتَضَمِّخٌ بِطِیبٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَیْفَ تَرَى فِی رَجُلٍ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ فِی جُبَّةٍ بَعْدَمَا تَضَمَّخَ بِالطِّیبِ؟فَأَشَارَ عُمَرُ إِلَى یَعْلَى بِیَدِهِ: أَنْ تَعَالَ، فَجَاءَ یَعْلَى فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ،فَإِذَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُحْمَرُّ الوَجْهِ، یَغِطُّ كَذَلِكَ سَاعَةً،ثُمَّ سُرِّیَ عَنْهُ، فَقَالَ:أَیْنَ الَّذِی یَسْأَلُنِی عَنِ العُمْرَةِ آنِفًا،فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ فَأُتِیَ بِهِ،فَقَالَ:أَمَّا الطِّیبُ الَّذِی بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِی عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِی حَجِّكَ

صفوان بن یعلی بن امیہ سے مروی ہے سیدنایعلی رضی اللہ عنہ نے کہاکاش !میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس وقت دیکھ سکتاجب آپ پروحی نازل ہوتی ہے،ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں مقیم تھے ،دھوپ کی وجہ سے آپ پرکپڑے کاسایہ کردیاگیاتھااوراس میں چندصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے اتنے میں ایک اعرابی آیاوہ ایک جبہ پہنے ہوئے تھاجوخوشبومیں بساہواتھااس نے عرض کیااےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس شخص کے متعلق آپ کیافرماتے ہیں جس نے عمرہ کااحرام باندھاہواوراس سے خوشبومہلک رہی ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کاسوال سن کرخاموش ہوگئے،اتنے میں آپ پروحی نازل ہوناشروع ہوگئی، فوراًہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یعلی رضی اللہ عنہ کوآنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیایعلی رضی اللہ عنہ حاضر ہوگئے اور اپنا سر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھنے کے لیے)اندرکیا،(نزول وحی کی کیفیت سے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور زورزورسے سانس چل رہاتھا،وحی ختم ہونے پرجب یہ کیفیت جاتی رہی توآپ نے فرمایاعمرہ کے متعلق سوال کرنے والاشخص کہاں ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس شخص کوآپ کے سامنے پیش کردیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوخوشبوتمہارے بدن میں لگی ہوئی ہواسے تین مرتبہ دھوڈالو اوروہ (خوشبودار)جبہ اتاردواورپھروہی کروجوحج میں کرتے ہو۔[52]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ واپسی:

طائف سے واپس ہوکرپانچ ذوالقعدہ کومقام جعرانہ پرپہنچے اوروہاں تیرہ دن قیام فرمانے کے بعداٹھارہ ذوالقعدہ کومدینہ منورہ کاقصد فرمایا تو عمرہ کے لئے احرام باندھا اور مکہ معظمہ میں داخل ہوکرطواف،سعی اورسرمنڈانے کی رسم ادافرمائی۔(صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الشَّجَاعَةِ فِی الحَرْبِ وَالجُبْنِ عن جبیر رضی اللہ عنہ )

رات کاوقت تھاحاضرین کی تعدادکم تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم باب کعبہ پرکھڑے ہوئے اوراس کے دونوں بازودونوں ہاتھوں سے تھامے اور فرمایاکہ متعہ قیامت تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام کیاگیاہے، اس کے بعدبعض لوگ بے خبری میں متعہ کے مرتکب ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں پھراس کااعلان فرمایاپھراسی شب جعرانہ کوواپس ہو گئےجہاں رات گزارکرمکہ سے چھ میل دور مقام سرف پرپہنچے، پھرمَرّ الظّهْرَانِ(وادی فاطمہ ) سے ہوتے ہوئے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے،

وقد غاب عنهاشَهْرَیْن وَسِتَّة عشر یَوْمًا فقدم المدینة لثلاث بقین من ذِی الْقَعْدَةِ

اور دومہینے اورسولہ دن کے بعدستائیس ذی القعدہ کومع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔[53]

عَنْ جَبَّارِ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِیِّ، أَحَدِ بَنِی سَلِمَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِطَرِیقِ مَكَّةَ: مَنْ یَسْبِقُنَا إِلَى الْأُثَایَةِ؟ قَالَ: أَبُو أُوَیْسٍ: هُوَ حَیْثُ نَفَّرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَمْدُرَ حَوْضَهَا، وَیَفْرِطَ فِیهِ، فَیَمْلَأَهُ حَتَّى نَأْتِیَهُ قَالَ: قَالَ جَبَّارٌ: فَقُمْتُ فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ اذْهَبْ، فَذَهَبْتُ فَأَتَیْتُ الْأُثَایَةَ فَمَدَرْتُ حَوْضَهَا، وَفَرَطْتُ فِیهِ، وَمَلَأْتُهُ، ثُمَّ غَلَبَتْنِی عَیْنَایَ فَنِمْتُ، فَمَا انْتَبَهْتُ إِلَّا بِرَجُلٍ تُنَازِعُهُ رَاحِلَتُهُ إِلَى الْمَاءِ، وَیَكُفُّهَا عَنْهُ فَقَالَ: یَا صَاحِبَ الْحَوْضِ فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: نَعَمْ

جبار رضی اللہ عنہ بن صخر سے مروی ہے مکہ مکرمہ سے واپسی پر راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اثایہ نامی جگہ میں ہم سے پہلے کون پہنچے گا؟ابواویس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ وہ جگہ تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا تھا کہ حوض پر قبضہ کرے اور ہمارے وہاں پہنچنے تک اسے بھر کر رکھے میں نے اپنے آپ کو پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جاؤ، فرماتے ہیں وہاں پہنچ کرمیں نےادھرادھرسے پتھراکٹھے کر کے حوض بنایااوراس میں قریبی چشمے یاکنوئیں سے پانی بھراجب کام ختم ہوگیاتو میری آنکھ لگ گئی اور میں سوگیااور اس آدمی کی وجہ سے ہی آنکھ کھلی جس کی سواری اس کے ہاتھ سے نکلی جارہی تھی وہ اسے حوض سے روک رہا تھا وہ کہنے لگا کہ اے حوض والے اپنے حوض پر پہنچو میں نے دیکھا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے عرض کیابسروچشم،

قَالَ: فَأَوْرَدَ رَاحِلَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَنَاخَ ثُمَّ قَالَ:اتْبَعْنِی بِالْإِدَاوَةِفَتَبِعْتُهُ بِهَا فَتَوَضَّأَ وَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، وَتَوَضَّأْتُ مَعَهُ ثُمَّ قَامَ یُصَلِّی، فَقُمْتُ عَنْ یَسَارِهِ فَأَخَذَ بِیَدِی فَحَوَّلَنِی عَنْ یَمِینِهِ فَصَلَّیْنَا فَلَمْ یَلْبَثْ یَسِیرًا أَنْ جَاءَ النَّاسُ

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹ پر پہنچے تو میں نے اونٹنی کی لگام پکڑ لی اور اسے بٹھادیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن منگوا کر خوب اچھی طرح وضو کیا میں نے بھی وضو کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز عشا پڑھنے لگے،جبار رضی اللہ عنہ اپنے بیان کے مطابق وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلو میں کھڑے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کردائیں جانب کرلیا اور لوگوں کے آنے تک ہم نماز پڑھتے رہے۔[54]

سریہ خالد رضی اللہ عنہ بن ولید(یمن کی طرف) ذوالقعدہ آٹھ ہجری

عَنِ الْبَرَاءِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلَى أَهْلِ الْیَمَنِ یَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، قَالَ الْبَرَاءُ: فَكُنْتُ فِیمَنْ خَرَجَ مَعَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ فَأَقَمْنَا سِتَّةَ أَشْهُرٍ نَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَلَمْ یجِیبُوهُ،قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ عَلِیًّا بَعْدَ ذَلِكَ مَكَانَهُ فَقَالَ:مُرْ أَصْحَابَ خَالِدٍ، مَنْ شَاءَ مِنْهُمْ أَنْ یُعَقِّبَ مَعَكَ فَلْیُعَقِّبْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْیُقْبِلْ فَكُنْتُ فِیمَنْ عَقَّبَ مَعَهُ، قَالَ: فَغَنِمْتُ أَوَاقٍ ذَوَاتِ عَدَدٍ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےطائف سے واپسی پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکوقبیلہ ہمدان جویمن کاایک بہت بڑاقبیلہ ہے دعوت اسلام دینے کے لئے روانہ کیاخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدچھ ماہ تک انہیں دعوت اسلام دیتے رہے مگرکسی نے اسلام قبول نہیں کیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوروانہ کیا(تاکہ خالد رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی جوکافی عرصہ سے جہاد میں مصروف تھے اپنے گھرآسکیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوروانہ کرتے وقت ہدایت کی کہ خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے جوتمہارے ساتھ جاناچاہے چلاجائے اور جو مدینہ منورہواپس آناچاہے واپس آجائے،براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلاگیا اورکئی اوقیہ(چاندی)میرے حصہ میں آئی [55]

عروہ بن مسعودثقفی رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام

لَمْ یَحْضُرْ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَلا غَیْلانُ بْنُ سَلَمَةَ حِصَارَ الطَّائِفِ. كَانَا بِجُرَشَ یَتَعَلَّمَانِ صَنْعَةَ الْعَرَّادَاتِ وَالْمَنْجَنِیقِ والدبابات فقدما وقد انصرف رَسُولَ الله،ثُمَّ أَلْقَى اللهُ فِی قَلْبِ عُرْوَةَ الإِسْلامَ وَغَیَّرَهُ عَمَّا كَانَ عَلَیْهِ فَخَرَجَ إِلَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأسلم،ثُمَّ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْخُرُوجِ إِلَى قَوْمِهِ لِیَدْعُوَهُمْ إِلَى الإِسْلامِ ،فَقَالَ: [إِنَّهُمْ إِذًا قَاتِلُوكَ

ابن اسحاق لکھتے ہیں عروہ بن مسعوداورغیلان بن سلمہ طائف کے محاصرے میں موجودنہیں تھے یہ دونوں جرش میں پتھرمارنے اور قلعہ کی دیواروں میں سوراخ کرنے کافن اورگوپھن وغیرہ جنگی ہتھیاروں کی تربیت حاصل کررہے تھے یہ دونوں اس وقت آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کامحاصرہ اٹھاکرمدینہ منورہ واپس جاچکے تھے، اللہ تعالیٰ نے عروہ کے دل میں اسلام ڈال دیااورانہیں اس حالت سے بدل دیاجس میں وہ نکلے تھے وہ طائف سے نکل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوراسلام قبول کرلیا،اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت فرمائیں کہ اپنی قوم میں جاکر اپنے اسلام کااعلان کروں اورانہیں دعوت اسلام پیش کروں ،(آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ابھی تک ثقیف کے لوگوں میں پہلے کی طرح غروروتکبرباقی ہے ،اوران کی حالت میں فی الحال کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی،اس لئے )آپ نے فرمایاوہ لوگ تمہاری دعوت کوتسلیم نہیں کریں اورخطرہ ہے کہ وہ غیظ وغضب میں تمہیں قتل کردیں گے،

قَالَ: لأَنَا أَحَبُّ إِلَیْهِمْ مِنْ أَبْكَارِ أَوْلادِهِمْ

عروہ رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان کوان کے اکلوتے بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوں ،

اورایک روایت میں ہے میں ان کوان کی آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب ہوں (اورحقیقتاً اہل طائف ان سے بہت محبت کرتے اوران کے حکم کوواجب الاطاعت جانتے تھے)

ثُمَّ اسْتَأْذَنَهُ الثَّانِیَةَ ثُمَّ الثَّالِثَةَ،فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ فَاخْرُجْ،فَخَرَجَ فَسَارَ إِلَى الطَّائِفِ خَمْسًا فَقَدِمَ عِشَاءً فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَجَاءَ قَوْمُهُ فَحَیُّوهُ بِتَحِیَّةِ الشِّرْكِ. فَقَالَ: عَلَیْكُمْ بِتَحِیَّةِ أَهْلِ الْجَنَّةِ السَّلامِ. وَدَعَاهُمْ إِلَى الإِسْلامِ،فَخَرَجُوا مِنْ عِنْدِهِ یَأْتَمِرُونَ بِهِ

پھرعروہ نے دوبارہ اورسہہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم چاہوتوچلےجاؤ،عروہ مدینہ منورہ سے نکلے اورچاردن کی مسافت کے بعد طائف میں پہنچے جب عشاء کا وقت آیاتواپنے مکان میں چلے گئے ،ان کی قوم ان سے ملنے کے لیے آئی اوراہل شرک کی طرح عروہ رضی اللہ عنہ کوسلام کیاتوعروہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ تمہیں شرک کاسلام چھوڑکراہل جنت کاسلام اختیارکرناچاہیےجو(اسلام)ہے اوران لوگوں کودعوت اسلام پیش کی(انہیں امیدتھی کہ ان کی ہردلعزیزی کی وجہ سے لوگ ان کی مخالفت نہیں کریں گے) تووہ لوگ نکل کران کے متعلق مشورہ کرنے لگے

فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ أَوْفَى عَلَى غُرْفَةٍ لَهُ فَأَذَّنَ بِالصَّلاةِ فَخَرَجَتْ ثَقِیفٌ مِنْ كُلِّ نَاحِیَةٍ. فَرَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مَالِكٍ یُقَالُ لَهُ أَوْسُ بْنُ عَوْفٍ فَأَصَابَ أَكْحُلَهُ فَلَمْ یَرْقَأْ دَمُهُ،وَقَامَ غَیْلانُ بْنُ سَلَمَةَ وَكِنَانَةُ بْنُ عَبْدِ یَالِیلَ وَالْحَكَمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ وَهْبٍ وَوُجُوهُ الأَحْلافِ فَلَبِسُوا السِّلاحَ وَحَشَدُوا،فَلَمَّا رَأَى عُرْوَةُ ذَلِكَ قَالَ:قَدْ تَصَدَّقْتُ بِدَمِی عَلَى صَاحِبِهِ لأُصْلِحَ بِذَاكَ بَیْنَكُمْ

جب صبح ہوئی توعروہ نے بالاخانے پرجاکر کھڑکی میں کھڑے ہوکراذان کہی ،اذان کی آوازسن کرہرطرف سے لوگ نکل پڑے ،بنی مالک کے ایک نے جس کانام اوس بن عوف تھاعروہ کوتاک کرایک تیرماراجوان کی رگ ہفت میں آکرلگااورخون بندنہ ہوا،غیلان بن سلمہ ، کنانہ بن عبدیالیل ،حکم بن عمرواوربنووہب اورحلفاء کے معززین اٹھ کھڑے ہوئے اورانہوں نے جنگ کے لئے ہتھیارپہن لیے اورسب کے سب (انتقام کے لیے) تیار ہوگئے، عروہ رضی اللہ عنہ نے جویہ کیفیت دیکھی توکہامیں نے اپناخون کرنے والے کو معاف کردیاتاکہ اس کے ذریعے سے میں تمہارے درمیان صلح کرادوں ،

وَهِیَ كَرَامَةٌ أَكْرَمَنِی اللهُ بِهَا وَشَهَادَةٌ سَاقَهَا اللهُ إِلَیَّ. وَقَالَ: ادْفُنُونِی مَعَ الشُّهَدَاءِ الَّذِینَ قُتِلُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَاتَ فَدَفَنُوهُ مَعَهُمْ، وَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُهُ فَقَالَ: مَثَلُ عُرْوَةَ مَثَلُ صَاحِبِ یَاسِینَ، دَعَا قَوْمَهُ إلَى اللهِ عَزّ وَجَلّ فَقَتَلُوه

عروہ رضی اللہ عنہ بولےمجھے اللہ نے عزت بخش کرشہادت کی اعلیٰ موت سے نوازاہے،میراحکم ان شہداء کاحکم ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محاصرہ طائف کے دوران شہید ہوئےاورمجھے ان ہی کے ساتھ سپرد خاک کیاجائے چنانچہ ان کی وفات ہوگئی تولوگوں نے انہیں شہداء کے ساتھ دفن کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی شہادت کی خبردی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کی مثال وہی ہے جو صاحب یٰسین کی مثال اپنی قوم میں تھی،جس نے اپنی قوم کواللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اورانہوں نے اسے قتل کردیا۔[56]

[1] دلائل النبوة للبیہقی ۱۵۳؍۵، ابن ہشام ۴۵۳؍۲،الروض الانف ۲۹۸؍۷، مغازی واقدی ۹۱۴؍۳، السیرة النبویة لابن کثیر۶۴۰؍۳

[2] ابن ہشام ۴۵۷؍۲،الروض الانف ۳۰۱؍۷، البدایة والنہایة۳۸۷؍۴

[3] فتح الباری ۴۳۲۳،۴۲؍۸،شرح الزرقانی علی المواھب ۵۳۵؍۳،اسدالغابة۱۸۳؍۶، صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ أَوْطَاسٍ۴۳۲۳ ،صحیح مسلم الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی مُوسَى وَأَبِی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیَّیْنِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۶۴۰۶

[4] النساء: 24

[5] صحیح مسلم کتاب بَابُ جَوَازِ وَطْءِ الْمَسْبِیَّةِ بَعْدَ الِاسْتِبْرَاءِ، وَإِنْ كَانَ لَهَا زَوْجٌ انْفَسَخَ نِكَاحُهَا بِالسَّبْیِ۳۶۰۸

[6] عیون الآثر۲۴۹؍۲،ابن سعد۱۱۹؍۲، زادالمعاد۴۳۳؍۳

[7] زادالمعاد۴۴۲؍۳

[8] ابن ہشام ۴۸۲؍۲،مغازی واقدی۹۲۵؍۳

[9] الإصابة فی تمییز الصحابة ۳۳۴؍۳

[10] شرح الزرقانی علی المواھب۱۳؍۴  ، المواھب الدینة ۴۰۷؍۱، تاریخ الخمیس۱۱۲؍۲،سمط النجوم ۲۸۶؍۲

[11] مرویات غزوہ حنین وحصارالطائف۳۲۴؍۱

[12] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ۴۳۲۴

[13] مغازی واقدی۹۳۷؍۳

[14] زادالمعاد۴۳۵؍۳،مغازی واقدی ۹۳۱؍۳، عیون الآثر۲۵۱؍۲،ابن سعد ۱۲۰؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب ۱۱؍۴

[15] زادالمعاد۴۳۴؍۳

[16] مغازی واقدی۹۲۷؍۳

[17] زادالمعاد۴۳۴؍۳

[18] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ ۲۴۴۲

[19] البدایة والنہایة۴۰۱؍۴،ابن ہشام ۴۸۴؍۲

[20] زادالمعاد ۴۳۵؍۳،مغازی واقدی۹۳۱؍۳

[21] صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف۴۳۲۵، وکتاب الادب بَابُ التَّبَسُّمِ وَالضَّحِكِ۶۰۸۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ۴۶۲۰، مسنداحمد ۴۵۸۸، زادالمعاد۴۳۵؍۳،البدایة والنہایة ۴۰۱؍۴،دلائل النبوة للبیہقی ۱۶۵؍۵، شرح الزرقانی علی المواھب۱۴؍۴

[22] زادالمعاد۴۳۵؍۳،مغازی واقدی۹۳۷؍۳،ابن ہشام ۴۸۸؍۲،الروض الانف ۳۴۷؍۷،البدایة والنہایة ۴۰۴؍۴، ابن سعد۱۲۱؍۲

[23] ابن ہشام۴۸۶؍۲،الروض الانف۳۴۴؍۷

[24] صحیح بخاری کتاب الذبائح والقصیدبَابُ التَّسْمِیَةِ عَلَى الذَّبِیحَةِ، وَمَنْ تَرَكَ مُتَعَمِّدًا۵۴۹۸

[25] مغازی واقدی۹۳۹؍۳

[26] فتح الباری ۳۴؍۸،شرح الزرقانی علی المواھب۱۲۰؍۵

[27] ابن ہشام۴۹۲؍۲

[28] مغازی واقدی ۹۴۵؍۳، عیون الآثر۲۴۲؍۲،زادالمعاد۴۱۵؍۳

[29] عیون الآثر۲۴۲؍۲

[30] صحیح مسلم کتاب بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۳

[31] مغازی واقدی۹۴۷؍۳

[32] الروض الانف۳۶۱؍۷،ابن ہشام ۴۹۶؍۲،تاریخ طبری ۹۱؍۳،البدایة والنہایة۴۱۴؍۴،ابن سعد۱۸۶؍۴، مغازی واقدی۹۴۸؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۶۸۳؍۳

[33] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ۳۱۴۵، البدایة والنہایة۴۱۵؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۲۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۸۴؍۳

[34] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ. ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ سَكِینَتَهُ ۴۳۲۱

[35] زادالمعاد۴۱۵؍۳

[36] إنارة الدجى فی مغازی خیر الورى صلى الله علیه وآله وسلم ۴۳۴؍۱

[37] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۷

[38] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ۲۴۴۹

[39]صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ۲۴۵۶ 

[40] صحیح بخاری کتاب الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ۳۱۴۷ ، وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ۴۳۳۰

[41] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ۳۱۴۷، صحیح مسلم کتاب بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۳۶

[42] ابن ہشام ۴۹۶؍۲، مغازی واقدی۹۵۸؍۳  

[43] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِینَ ۳۱۳۱،۳۱۳۲،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی فِدَاءِ الْأَسِیرِ بِالْمَالِ ۲۶۹۳،عیون الآثر۲۴۴؍۲،مغازی واقدی۹۵۰؍۳

[44] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ۳۱۴۴ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ نَذْرِ الْكَافِرِ وَمَا یَفْعَلُ فِیهِ إِذَا أَسْلَمَ۴۲۹۴،البدایة والنہایة۴۲۰؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۹۳؍۳

[45] عیون الآثر۲۴۴؍۲،ابن سعد۱۱۷؍۲،مغازی واقدی۹۵۲؍۳

[46] مغازی واقدی۹۵۲؍۳

[47] ابن ہشام۴۹۱؍۲،الروض الانف۳۵۴؍۷،تاریخ طبری ۸۸؍۳، البدایة والنہایة۴۱۴؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۶۸۳ ؍۳

[48] تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۲۲۹؍۱

[49] ابن ہشام۴۵۸؍۲

[50] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ۳۱۴۴ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ نَذْرِ الْكَافِرِ وَمَا یَفْعَلُ فِیهِ إِذَا أَسْلَمَ۴۲۹۴،البدایة والنہایة۴۲۰؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۶۹۳؍۳

[51] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ۴۳۲۸ ،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی مُوسَى وَأَبِی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیَّیْنِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۶۴۰۵

[52] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ غَسْلِ الخَلُوقِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ مِنَ الثِّیَابِ۱۵۳۶،وکتاب فضائل القرآن بَابُ نَزَلَ القُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ وَالعَرَبِ وَقَوْلِ اللهِ تَعَالَى:۴۹۸۵،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ۴۳۲۹،صحیح مسلم  کتاب  الحج بَابُ مَا یُبَاحُ لِلْمُحْرِمِ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، وَمَا لَا یُبَاحُ وَبَیَانِ تَحْرِیمِ الطِّیبِ عَلَیْهِ۲۷۹۸،مسنداحمد۱۷۹۴۸

[53] شرح الزرقانی علی المواھب ۲۸؍۴

[54] مسنداحمد۱۵۴۷۱

[55] دلائل النبوة للبیہقی۳۹۶؍۵،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِیدِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، إِلَى الیَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ۴۳۴۹

[56] ابن سعد۲۳۷؍۱،مغازی واقدی ۹۶۰؍۳

Related Articles