ہجرت نبوی کا پانچواں سال

غزوہ بنی قریظہ(ذوالقعدہ پانچ ہجری،بمطابق اپریل۶۲۷ء)

قال ابن إسحق:وَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ عَنِ الْخَنْدَقِ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِینَةِ وَالْمُسْلِمُونَ وَوَضَعُوا السِّلَاحَ، فَلَمَّا كَانَتِ الظُّهْرُ

ابن اسحاق کہتےہیں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سےفراغت کےبعد مدینہ منورہمیں واپس تشریف لائےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کےصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے ہتھیاراور زرہ بکترجسم سےاتارکرکچھ دیرآرام کیاکہ ظہر کاوقت ہوگیا،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: لَمَّا رَجَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلَّم مِنَ الْخَنْدَقِ وَوَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ أَتَاهُ جِبْرِیلُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس تشریف لائے اور ہتھیاراتارے اور غسل فرمارہے تھے اس وقت جبریل علیہ السلام حاضرخدمت ہوئے ۔[1]

قَالُوا: فَلَمّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخَنْدَقِ دَخَلَ بَیْتَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا فَغَسَلَ رَأْسَهُ وَاغْتَسَلَ، وَدَعَا بِالْمِجْمَرَةِ لِیُجْمِرَ، وَقَدْ صَلّى الظّهْرَ،

مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس تشریف لائے توام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوئے اوراپناسردھویا

اور غسل فرمایااورظہرکی نماز ادا فرمائی۔[2]

فَلَمَّا كَانَتْ الظُّهْرُ، أَتَى جِبْرِیلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب ظہرکاوقت ہوااس وقت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے۔[3]

 فَوَقَفَ عند مَوْضِع الجَنَائِزِ

ابن سعدکہتے ہیں موضع جنائز(یعنی مسجدسے علیحدہ جنازہ پڑھنے کی جگہ )پر تشریف لائے۔[4]

مُعْتَجِرًا بِعِمَامَةٍ مِنْ إِسْتَبْرَقٍ، عَلَى بَغْلَةٍ عَلَیْهَا رِحَالَةٌ، عَلَیْهَا قَطِیفَةٌ مِنْ دِیبَاجٍ ، فَقَالَ: أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلاحَ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ نَعَمْ، قَالَ جِبْرِیلُ: مَا وَضَعَتِ الْمَلائِكَةُ السلاح وَمَا رَجَعَتْ الْآنَ إلَّا مِن طَلَبِ الْقَوْمِ،إِنَّ اللهَ یَأْمُرُكَ یَا مُحَمَّدُ بِالسَّیْرِ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ،وَأَنَا عَامِدٌ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ،فَمُزَلْزِلٌ بِهِمْ حُصُونَهُمْ

انہوں نے استبرق کاعمامہ باندھاہواتھااور ایک مادیان خچرپرسوارتھے،جس پرچمڑے کی زین تھی اوراس پردیباج کی ریشمی چادر پڑی ہوئی تھی،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب ہوکرفرمایااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے ہتھیار اتار دیئے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ،جبرائیل علیہ السلام نے کہا حالانکہ فرشتوں نے ابھی تک اپنے ہتھیارنہیں اتارے اورنہ ابھی تک واپس ہوئے ہیں ،میں اس وقت دشمن ہی کے تعاقب سے آرہاہوں ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نے آپ کوبنی قریظہ کی طرف جانے کاحکم دیاہے،تیارہوجائیں اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوہمراہ لیکربنوقریظہ کی طرف چلیں ، اورمیں بھی انہیں کی طرف جا رہا ہوں اوران کے قلعوں کوہلاتاہوں ۔[5]

الماجشون قال: جاء جِبْرِیلُ. إلى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الأَحْزَابِ عَلَى فَرَسٍ عَلَیْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ قَدْ أَرْخَاهَا بَیْنَ كَتِفَیْهِ. عَلَى ثَنَایَاهُ الْغُبَارُ وَتَحْتَهُ قَطِیفَةٌ حَمْرَاءُ.فَقَالَ: أَوَضَعْتَ السِّلاحَ قَبْلَ أَنْ نَضَعَهُ؟ إِنَّ الله یأمرك أن تسیر إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ

اورالماجشون سے مروی ہے جبریل علیہ السلام یوم الاحزاب(غزوہ خندق)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گھوڑے پرآئے جوایک سیاہ عمامہ باندھے ہوئے تھے اوراس کے پلوپنے دونوں شانوں کے درمیان لٹکائے ہوئے تھے،ان کے دانتوں پرغبارتھااوران کے نیچے سرخ چارجامہ تھاانہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ آپ نے ہمارے ہتھیاراتارنے سے پہلے ہتھیاراتاردیئے آپ کواللہ تعالیٰ حکم دیتاہے کہ بنی قریظہ کی طرف چلیے۔[6]

فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ فِی النَّاس: مَنْ كَانَ سَامِعًا مُطِیعًا فَلَا یُصَلِّیَنَّ الْعَصْرَ إِلَّا فِی بَنِی قُرَیْظَةَ

جبرائیل کے جانے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نقیب کوحکم دیاکہ تمام مدینہ میں کوچ کااعلان کردے چنانچہ اس نے اعلان کیاکہ تمام اہل ایمان جوسمع وطاعت پرقائم ہیں وہ نمازعصربنوقریظہ میں اداکریں ۔[7]

وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ،وَقَدَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ بِرَایَتِهِ إلَى بَنِی قُرَیْظَةَ، فَسَارَ عَلِیّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، حَتّى إذَا دَنَا مِنْ الْحُصُونِ سَمِعَ مِنْهَا مَقَالَةً قَبِیحَةً لِرَسُولِ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلّمَ منهم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہا کومدینہ پرقائم مقام بنایااورسیدناعلی رضی اللہ عنہ کو چند انصار و مہاجرین صحابہ  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ جنگی جھنڈادے کرمقدمة الجیش کے طورپراپنے آگے بنوقریظہ کی طرف روانہ کیا،جب سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بنوقریظہ کے قلعہ کے قریب پہنچ کرجھنڈاگاڑدیاتویہودنے سمجھاشایدیہ محض دھمکانے آئے ہیں اس لئے اپنی دلی خباثت کامظاہرہ کرتے ہوئے کوٹھوں پرچڑھ کر کھلم کھلارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرسب وشتم کرناشروع کردیا[8]

تمام مہاجرین وانصارجن کی ابھی تھکن بھی نہ اتری تھی موذن کی آوازسن کرجھٹ پٹ مسجد نبوی میں جمع ہوگئےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کچھ دیرکیے بغیرفورا ًان کی کمان کرتے ہوئے یہودی قبیلہ بنوقریظہ کی طرف روانہ ہوئے

وَمَرَّ رَسُولُ الله صَلّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ بِالصُّورَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ، فَقَالَ: هَلْ مَرَّ بِكُمْ أَحَدٌ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ مَرَّ بِنَا دِحْیَةُ بْنُ خَلِیفَةَ الْكَلْبِیُّ، عَلَى بَغْلَةٍ بَیْضَاءَ، عَلَیْهَا رِحَالُهُ عَلَیْهَا قَطِیفَةُ دِیبَاجٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ جِبْرِیلُ، بُعِثَ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ یُزَلْزِلُ بِهِمْ حُصُونَهُمْ، وَیَقْذِفُ الرُّعْبَ فِی قُلُوبِهِمْ

راستہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کے قریب مقام صورین سے گزرے توان سے دریافت کیاکیا تمہارے پاس سے کوئی شخص گزراہے؟انہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم دحیہ بن خلیفہ کلبی ایک سفیدخچرپرزین پرسوارجس پرریشمی چادرپڑی ہوئی تھی ہمارے پاس سے گزرے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ جبرائیل علیہ السلام تھے جوبنوقریظہ کی طرف اس غرض سے بھیجے گئے ہیں کہ ان کے قلعوں میں زلزلہ برپاکردیں اوران کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت ڈال دیں ۔[9]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى الغُبَارِ سَاطِعًا فِی زُقَاقِ بَنِی غَنْمٍ، مَوْكِبَ جِبْرِیلَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ،حِینَ سَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں گویاکہ میں اس وقت اس غبارکواٹھتے ہوئے دیکھ رہاہوں جوجبرائیل علیہ السلام کے ساتھ سوار فرشتوں کی جماعت کی وجہ سے قبیلہ بنی غنم کی گلی میں اٹھاتھا گردوغبارسے بھر گیاتھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنوقریظہ کے خلاف چڑھ کرگئے تھے۔[10]

فَلَمَّا اتى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَنِی قُرَیْظَةَ، نَزَلَ عَلَى بِئْرٍ مِنْ آبَارِهَا فِی نَاحِیَةٍ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، یُقَالُ لَهَا بِئْرُ أَنَّا،، فَلاحَقَ بِهِ النَّاسُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنوقریظہ کے نزدیک پہنچے توان کے ایک انا نامی کنوئیں پر جوان کے کھیتوں کے کنارے پرواقع تھاپڑاؤڈال دیایہاں سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے۔[11]

دوسرے مسلمان جوپیچھے رہ گئے تھے وہ بھی منادی سنکربنوقریظہ کی طرف روانہ ہوگئے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ العَصْرَ فِی الطَّرِیقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ نُصَلِّی حَتَّى نَأْتِیَهَاوَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّی، لَمْ یُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ،فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بعض حضرات کی عصرکی نمازکاوقت راستے ہی میں ہوگیا،ان میں سے بعض صحابہ  رضی اللہ عنہم کہنےلگے کہ ہم راستے میں نمازنہیں پڑھیں گے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہم بنوقریظہ پہنچ کرنمازعصراداکریں گے اورکچھ صحابہ  رضی اللہ عنہم نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکامقصدیہ نہیں تھاکہ اگرراستہ میں نمازعصرکاوقت ہوجائے تو نماز اپنے وقت پر ادا نہ کریں بلکہ صرف یہ تھاکہ ہم فوراًبنوقریظہ کی طرف روانہ ہوجائیں ،چنانچہ انہوں نے راستے میں ہی اپنے وقت پرہی نمازپڑھ لی اورپھر جا کر اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کوبھی سرزنش نہیں فرمائی۔[12]

خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایاکہ جوبھی مسلمان سننے والااورفرمانبرداری کرنے والاہے اس کافرض ہے کہ نمازعصربنوقریظہ میں پہنچ کر ادا کرے۔

قَالَ بن الْقَیِّمِ فِی الْهَدْیِ مَا حَاصِلُهُ كُلٌّ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ مَأْجُورٌ بِقَصْدِهِ إِلَّا أَنَّ مَنْ صَلَّى حَازَ الْفَضِیلَتَیْنِ امْتِثَالَ الْأَمْرِ فِی الْإِسْرَاعِ وَامْتِثَالَ الْأَمْرِ فِی الْمُحَافَظَةِ عَلَى الْوَقْتِ،وَلَا سِیَّمَا مَا فِی هَذِهِ الصَّلَاةِ بِعَیْنِهَا مِنَ الْحَثِّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَیْهَا وَأَنَّ مَنْ فَاتَتْهُ حَبَطَ عَمَلُهُ،وَإِنَّمَا لَمْ یُعَنِّفِ الَّذِینَ أَخَّرُوهَا لِقِیَامِ عُذْرِهِمْ فِی الْتَمَسُّكِ بِظَاهِرِ الْأَمْرِ وَلِأَنَّهُمُ اجْتَهَدُوا فَأَخَّرُوا لِامْتِثَالِهِمُ الْأَمْرَ لَكِنَّهُمْ لَمْ یَصِلُوا إِلَى أَنْ یَكُونَ اجْتِهَادُهُمْ أَصْوَبَ مِنِ اجْتِهَادِ الطَّائِفَةِ الْأُخْرَى الخ،وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهِ الْجُمْهُورُ عَلَى عَدَمِ تَأْثِیمِ مَنِ اجْتَهَدَ لِأَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یُعَنِّفْ أَحَدًا مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ فَلَوْ كَانَ هُنَاكَ إِثْمٌ لَعَنَّفَ مَنْ أَثم

علامہ ابن قیم نے سبل الھدیٰ والرشادفی سیرة خیرالعبادمیں کہاہے کہ دونوں فریق اجروثواب کے حقدارہوئے مگرجس نے وقت ہونے پرراستہ ہی میں نمازاداکرلی اس نے دونوں فضیلتوں کوحاصل کرلیا پہلی فضیلت نمازعصرکی ،اس کے اول وقت میں اداکرنے کی کیونکہ اس نمازکواپنے وقت پراداکرنے کی خاص تاکیدہے اوریہاں تک ہے کہ جس کی نمازعصرفوت ہوگئی اس کاعمل ضائع ہوگیا،اور  اس طرح اس فریق کواول وقت نمازپڑھنے اورپھربنوقریظہ پہنچ جانے کاثواب حاصل ہوااوردوسرافریق جس نے نمازعصرمیں تاخیرکی اورظاہرفرمان رسول پرعمل کیاان پرکوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی کیونکہ انہوں نے اپنے اجتہادسے فرمان رسالت پرعمل کرنے کے لیے نمازکوتاخیرسے بنوقریظہ ہی میں جاکراداکیا،ان کااجتہادپہلی جماعت سے زیادہ صواب کے قریب رہا،اسی سے جمہورنے استدلال کیاہے کہ اجتہادکرنے والاگنہگارنہیں (اگروہ اجتہادمیں غلطی بھی کرجائے)اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قسم کے لوگوں میں سے کسی پربھی نکتہ چینی نہیں فرمائی،اگران میں کوئی گنہگارقرارپاتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضروراس کاتنبیہ فرماتے۔[13]

سَارَ إِلَیْهِمْ فی المُسْلِمِین وهم ثَلَاثَةَ آلَافٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین ہزارصحابہ کرام کے ساتھ گئے جن کے پاس صرف تیس گھوڑے تھے۔[14]

ثَلَاثُونَ فَرَسًا

تیس گھوڑے تھے۔[15]

غزوہ بدرمیں قریش کواسلحہ جات سے مدد،غزوہ احزاب میں موت وحیات کے نازک ترین لمحوں میں بدعہدی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اوردوران محاصرہ مسلمانوں کے خلاف سنگین ترین معاندانہ کاروائیوں کی سزادینے کے لئے ان کے قلعہ کاشدیدمحاصرہ فرمالیاجس سے ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے

وَمَاتَ أَبُو سِنَانِ بْنُ مِحْصَنٍ، فَدَفَنَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُنَاكَ،فَهُوَ فِی مَقْبَرَةِ بَنِی قُرَیْظَةَ الْیَوْمَ

دوران محاصرہ عکاشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ابوسنان بن محصن رضی اللہ عنہ وفات پاگئے اوربنوقریظہ کے قبرستان میں دفن کیے گئے[16]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ: حَاصَرَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَنِی قُرَیْظَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَیْلَةً

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ شب بنی قریظہ کامحاصرہ کیا۔[17]

فَحَاصَرَهُمْ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْمًا

نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ دن کا محاصرہ کیا۔[18]

ایک روایت میں ہےجب اکیس دن۔یاپچیس دن۔گزرگئے اور محاصرہ بھی سخت ہوگیا اور بنوقریظہ کویقین ہوگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے بغیرہرگزواپس نہیں ہوں گے توسردارقبیلہ کعب بن اسدنے ہر طرف سے مایوس ہوکر اس مصیبت سے نجات پانے کے لئے اپنے قبیلہ کے لوگوں کے سامنے تین شرائط پیش کیں ۔

 فو الله لَقَدْ تَبَیَّنَ لَكُمْ أَنَّهُ لَنَبِیٌّ مُرْسَلٌ، وَأَنَّهُ لَلَّذِی تَجِدُونَهُ فِی كِتَابِكُمْ، فَتَأْمَنُونَ عَلَى دِمَائِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَأَبْنَائِكُمْ وَنِسَائِكُمْ

اللہ کی قسم! تم لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے نبی اوررسول ہیں ،اوروہ وہی ہیں جن کے متعلق تم اپنی کتاب میں بشارت پاتے ہوان حالات میں ہم  لوگ اسلام قبول کرلیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں شامل ہوکر اپنی جان ومال کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کوبھی محفوظ کرلیں ۔

قَالُوا: لَا نُفَارِقُ حُكْمَ التَّوْرَاةِ أَبَدًا، وَلَا نَسْتَبْدِلُ بِهِ غَیْرَهُ

لوگوں نے جواب دیاکہ ہم تورات کے مذہب کوچھوڑنانہیں چاہتے اورنہ کوئی دوسرامذہب اختیارکرناچاہتے ہیں ،اس طرح انہوں اپنے سردارکی دین سے منحرف ہونے کی تجویزماننے سے انکارکردیا۔

  فَإِذَا أَبَیْتُمْ عَلَیَّ هَذِهِ، فَهَلُمَّ فَلْنَقْتُلْ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا،ثُمَّ نَخْرُجُ إلَى مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ رِجَالًا مُصْلِتِینَ السُّیُوفَ، لَمْ نَتْرُكْ وَرَاءَنَا ثَقَلًا، حَتَّى یَحْكُمَ اللهُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ، فَإِنْ نَهْلِكْ نَهْلِكُ، وَلَمْ نَتْرُكْ وَرَاءَنَا نَسْلًا نَخْشَى عَلَیْهِ، وَإِنْ نَظْهَرْ فَلَعَمْرِی لِنَجِدَنَّ النِّسَاءَ وَالْأَبْنَاءَ

اس نے کہا جب تم اس بات کوقبول نہیں کرتے تواپنی تلواریں کھینچ کرپوری تن دہی کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب پرٹوٹ پڑواورپہلے خوداپنے ہاتھوں سے اپنے بیوی بچوں کوقتل کر ڈالو، پھرہمیں ان کے متعلق کسی ظلم وبدسلوکی کاخطرہ باقی نہیں رہے گا پھرخودلڑ کرقتل ہوجاؤیاجیسااللہ فیصلہ فرمادے،اگرتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرغالب ہوئے تو تو میری عمرکی قسم ہمیں ازسرنو دوسری عورتیں اوربچے حاصل ہوجائیں گے۔

قَالُوا: نَقْتُلُ هَؤُلَاءِ الْمَسَاكِینِ! فَمَا خَیْرُ الْعَیْشِ بَعْدَهُمْ؟

اس کی قوم نے اس عمل سے انکارکرتے ہوئے کہاعورتوں اوربچوں کوبے گناہ قتل ہوجانے کے بعدزندگی میں کیالطف رہے گا۔

 فَإِنْ أَبَیْتُمْ عَلَیَّ هَذِهِ، فَإِنَّ اللیْلَةَ لَیْلَةُ السَّبْتِ، وَإِنَّهُ عَسَى أَنْ یَكُونَ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ قَدْ أَمَّنُونَا فِیهَا، فَانْزِلُوا لَعَلَّنَا نُصِیبُ مِنْ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ غِرَّةً

سردارکعب بن اسدنے کہا اگرتم یہ بات بھی تسلیم نہیں کرتے تویوں کرورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے مسلمان جانتے ہیں کہ ہم ہفتہ کے روزکوئی کام نہیں کرتے ، مسلمان اس دن بے خبراور مطمئن ہوں گے یہ دن یہودکے نزدیک بڑامحترم ہے اس لئے آج وہ کچھ نہیں کریں گے ،مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاکران پر شب خون مار دواوران کا زیادہ سے زیادہ نقصان کرگزرو۔

قَالُوا: نُفْسِدُ سَبْتَنَا عَلَیْنَا، وَنُحْدِثُ فِیهِ مَا لَمْ یُحْدِثْ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا إلَّا مَنْ قَدْ عَلِمْتُ، فَأَصَابَهُ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْكَ مِنْ الْمَسْخِ!

وہ کہنے لگےہم ہفتہ کے روزکیسے جنگ کرسکتے ہیں تجھے اچھی طرح علم ہے کہ اس محترم دن کی بے حرمتی کی وجہ سے ہمارے اسلاف بندراورسوربنادیئے گئے تھے اورتوہمیں اس طرح کاحکم دیتاہے،اس طرح اس کی قوم نے اس کی تینوں تجاویزکومستردکردیا۔

قَالَ: مَا بَاتَ رَجُلٌ مِنْكُمْ مُنْذُ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ لَیْلَةً وَاحِدَةً مِنْ الدَّهْرِ حَازِمًا

کعب بن اسدنے جھجلاکر قوم سے کہاجس دن سے تمہاری ماؤں نے تمہیں جناہے اس دن سے تم نے ایک دن بھی عقل وہوش کانہیں گزارا۔[19]

بنوقریظہ کے پاس اس محفوظ ومضبوط قلعہ میں وافرمقدارمیں کھانے کاسامان تھا،پینے کے لئے اندرچشمے اورکنوئیں بھی تھے،سردی سے بچاؤکے لئے مکانات اورگرم کپڑے تھے،لڑنے کے لئے وافرمقدارمیں سامان حرب بھی تھاجبکہ ان کے مقابلے میں مسلمان ایک سال سے لگاتار مسلسل جنگی مصروفیات میں تھے،اورابھی غزوہ احزاب کے باعث تکان سے چور چور تھے ا ورکھلے میدان میں خون کومنجمدکردینے والی سردی میں بھوک وپیاس کی سختیاں جھیل رہے تھے،ان کی خوراک صرف کھجوریں تھیں جوسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ لشکراسلام کے لئے بھیجاکرتے تھے ،یہود چاہتے تومیسروسائل کی بناپراورمسلمانوں کوکھلے میدان میں سردی کی شدت سے عاجزکرنے کے لئے ایک لمباعرصہ تک محاصرہ برداشت کرسکتے تھےمگر اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کارعب ودبدبہ ڈال دیاجس سے ان کے حوصلے پست ہوگئے اور ان کے اعصاب جواب دے گئے، چنانچہ انہوں نے سوچا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اوروہ ان کی قسمت کے بارے میں جوفیصلہ کریں تسلیم کرلیں ،لیکن ایساکرنے سے پہلے انہوں حفاظتی اقدام کے طورپراپنے بعض مسلمان حلیفوں سے رابطہ کرلینامناسب خیال کیا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اگروہ غیر مشروط طورپرہتھیارڈال دیں اورقلعہ کادروازہ کھول دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ کیاسلوک کریں گےاورآڑے وقت میں شایدہماری کوئی مددبھی کرسکیں ،

ثُمَّ إنَّهُمْ بَعَثُوا إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ ابْعَثْ إلَیْنَا أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، أَخَا بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَكَانُوا حُلَفَاءَ الْأَوْسِ، لِنَسْتَشِیرَهُ فِی أَمْرِنَا، فَأَرْسَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَیْهِمْ،فَلَمَّا رَأَوْهُ قَامَ إلَیْهِ الرِّجَالُ، وَجَهَشَ إلَیْهِ النِّسَاءُ وَالصِّبْیَانُ یَبْكُونَ فِی وَجْهِهِ، فَرَقَّ لَهُمْ،وَقَالُوا لَهُ: یَا أَبَا لُبَابَةَ! أَتَرَى أَنْ نَنْزِلَ عَلَى حُكْمِ مُحَمَّدٍ ؟قَالَ: نَعَمْ، وَأَشَارَ بِیَدِهِ إلَى حَلْقِهِ، إنَّهُ الذَّبْحُ

یہ فیصلہ کرکے انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجاکہ آپ سردارابولبابہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذربنوعمروبن عوف کے بھائی کوجواوس کے حلیف تھے اورانکے باغات اورآل واولاد بھی اسی علاقہ میں رہتے تھے ہمارے پاس بھیج دیں ،ہم ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فرمائش پر ابولبابہ رضی اللہ عنہ کواندرجانے کی اجازت فرمادی ،جب ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ ان کے قلعہ کے اندرپہنچے تومردحضرات ان کی طرف دوڑے اور عورتیں وبچے ان کے سامنے اپنی مصیبت کے دھڑے سنا کر دھاڑیں مارمارکررونے لگے،یہودکی یہ کیفیت دیکھ کر ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا دل بھی بھرآیا،اب یہودنے ان سے پوچھا اے ابولبابہ رضی اللہ عنہ !کیاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیارڈال دیں اورآپ کے فیصلے پرراضی ہوجائیں ؟ انہوں نے جواب دیاہاں ،لیکن ساتھ ہی غیرشعوری طورپرہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ بھی کردیا جس کامطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارادہ تمہیں ذبح کرنے کاہے،

قَالَ أَبُو لبَابَة: فَوَ الله مَا زَالَتْ قَدَمَایَ مِنْ مَكَانِهِمَا حَتَّى عَرَفْتُ أَنِّی قَدْ خُنْتُ اللهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْطَلَقَ أَبُو لُبَابَةَ عَلَى وَجْهِهِ وَلَمْ یَأْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ارْتَبَطَ فِی الْمَسْجِدِ إلَى عَمُودٍ مِنْ عُمُدِهِ . وَقَالَ:لَا أَبْرَحُ مَكَانِی هَذَا حَتَّى یَتُوبَ اللهُ عَلَیَّ مِمَّا صَنَعْتُ، وَعَاهَدَ اللهَ: أَنْ لَا أَطَأَ بَنِی قُرَیْظَةَ أَبَدًا، وَلَا أُرَى فِی بَلَدٍ خُنْتُ اللهَ وَرَسُولَهُ فِیهِ أَبَدًا،

ابو لبابہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد فورا ًہی انہیں احساس ہوگیاکہ میں نے اللہ عزوجل اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی ہے،چنانچہ جب وہ قلعہ سے واپس ہوئے تو سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے بجائے مسجد نبوی میں گئے او ر خود کو مسجدکے کھجورکے ایک ستون سے باندھ لیااورقسم کھائی کہ جب تک اللہ عزوجل میری توبہ قبول نہیں فرمائے گااور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنے دست مبارک سے انہیں اس ستون سے آکرکھولیں گے اورنہ توبنوقریظہ کے علاقہ کبھی قدم رکھوں گااورنہ اس شہرکودیکھوں گاجس میں اللہ اوراس کے رسول کی خیانت کی ہے،دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کاانتظار فرما رہے تھے اورمحسوس کررہے تھے کہ ان کی واپسی میں بہت دیرہوگئی ہے،

فَلَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَبَرُهُ، وَكَانَ قَدْ اَسْتَبْطَأَهُ، قَالَ: أَمَا إنَّهُ لَوْ جَاءَنِی لَاسْتَغْفَرْتُ لَهُ، فَأَمَّا إذْ قَدْ فَعَلَ مَا فَعَلَ، فَمَا أَنَا بِاَلَّذِی أُطْلِقُهُ مِنْ مَكَانِهِ حَتَّى یَتُوبَ اللهُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولبابہ بن المنذر رضی اللہ عنہ کی قسم اورمسجدکے ستون سے بندھنے کاعلم ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگروہ سیدھے میرے پاس آگئے ہوتے تومیں اللہ عزوجل سے ان کے لئے مغفرت وبخشش کی دعا کرتا لیکن جب وہ خودہی ایساکام کربیٹھیں ہیں تواب میں ان کوان کی جگہ سے نہیں کھول سکتاجب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔[20]

أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ صَاحَ وَهُمْ مُحَاصِرُو بَنِی قُرَیْظَةَ: یَا كَتِیبَةَ الْإِیمَانِ، وَتَقَدَّمَ هُوَ وَالزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَقَالَ: وَاَللَّهِ لَأَذُوقَنَّ مَا ذَاقَ حَمْزَةُ أَوْ لَأُفْتَحَنَّ حِصْنَهُمْ

بنوقریظہ کے حوصلے اس وقت اوربھی پست ہوگئے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے ان کے قلعہ کی طرف پیش قدمی کی، اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکارکرکہاکہ اللہ کی قسم اب میں بھی یاتوسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی طرح لڑتے ہوئے شہیدہوجاؤں گایاان کاقلعہ فتح کرکے رہوں گا۔

سازشوں ، مکاریوں اور پروپیگنڈا کے حامل قبیلہ وقوم نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کایہ عزم سنا توبہادری سے مقابلہ کرنے کے بجائےفوراًقلعہ کادروازہ کھول دیااورخودکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیاکہ وہ ان کے بارے میں جوبھی مناسب فیصلہ کریں ،اس طرح چارسوعورتیں اوربچوں اور چارسومردوں نے خودکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ مردوں کوباندھ دیا جائے ،انہوں نے حکم کی تعمیل میں سب مردوں کے ہاتھ باندھ دیئے اور عورتوں وبچوں کوان سے الگ کر دیا۔

ثُمَّ إنَّ ثَعْلَبَةَ بْنَ سَعْیَةَ، وَأُسَیْدَ بْنَ سَعْیَةَ، وَأَسَدَ بْنَ عُبَیْدٍ، وَهُمْ نَفَرٌ مِنْ بَنِی هُدَلٍ، لَیْسُوا مِنْ بَنِی قُرَیْظَةَ وَلَا النَّضِیرِ، نَسَبُهُمْ فَوْقَ ذَلِكَ، هُمْ بَنُو عَمِّ الْقَوْمِ، أَسْلَمُوا تِلْكَ اللیْلَةَ الَّتِی نَزَلَتْ فِیهَا بَنُو قُرَیْظَةَ عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجَ فِی تِلْكَ اللیْلَةِ عَمْرُو بْنُ سُعْدَى الْقَرَظِیُ، فَمَرَّ بِحَرَسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَیْهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ تِلْكَ اللیْلَةَ، فَلَمَّا رَآهُ قَالَ: مَنْ هَذَا؟

جب بنی قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پراپنے قلعوں سے نیچے اترآئے تب ثعلبہ بن سعیہ،اوراسیدبن سعیہ اوراسدبن عبیدجوبنی ہدل سے تھے یعنی نہ قریظہ میں سے اورنہ نضیرمیں سے بلکہ قریظہ کے چچازادبھائی تھے اسی رات اسلام لائے جس رات بنی قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پراترے تھےچنانچہ اسی رات عمروبن سعدقرضی بنی قرظی میں سے نکل کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہریدار محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرےجب محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کودیکھاتوللکاراکون ہے؟

قَالَ: أَنَا عَمْرُو بْنُ سُعْدَى ،وَكَانَ عَمْرٌو قَدْ أَبَى أَنْ یَدْخُلَ مَعَ بَنِی قُرَیْظَةَ فِی غَدْرِهِمْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: لَا أَغْدِرُ بِمُحَمَّدِ أَبَدًا فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمَةَ حِینَ عَرَفَهُ : اللهمّ لَا تَحْرِمْنِی إقَالَةَ عَثَرَاتِ الْكِرَامِ، ثُمَّ خَلَّى سَبِیلَهُ، فَخَرَجَ عَلَى وَجْهِهِ حَتّى أَتَى بَابَ مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ تِلْكَ اللّیْلَةَ ثُمّ ذَهَبَ فَلَمْ یُدْرَ أَیْنَ تَوَجّهَ مِنْ الْأَرْضِ إلَى یَوْمِهِ هَذَا، فَذُكِرَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَأْنُهُ فَقَالَ ذَاكَ رَجُلٌ نَجّاهُ اللهُ بِوَفَائِهِ

انہوں نے کہامیں عمروبن سعدہوں اوریہ وہ شخص تھے جنہوں نے بنی قریظہ کااس وقت ساتھ نہ دیاتھاجب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعہدتوڑاتھااورعمرونے اس وقت کہہ دیاتھاکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی غداری نہیں کروں گا،چنانچہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں پہچان کران کو کچھ نہ کہااورجان ومال اوربیوی بچوں سمیت چھوڑدیا،عمروبن سعدوہاں سے مسجدنبوی کے دروازے پرآئے اورپھران کاپتہ نہ چلاکہ وہ کہاں گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ ذکرکیاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ایساشخص تھاکہ اس کے عہدکوپورارکھنے کے سبب اللہ نے اسے نجات دی۔[21]

وَبَعْضُ النَّاسِ یَزْعُمُ أَنَّهُ كَانَ أَوْثَقَ بِرِمَّةٍ فِیمَنْ أَوْثَقَ مِنْ بَنِی قُرَیْظَةَ حِینَ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللهِ فَأَصْبَحَتْ رِمَّتُهُ مُلْقَاةً لا یُدْرَى أَیْنَ ذَهَبَ، فقال رَسُولُ اللهِ  فِیهِ تِلْكَ الْمَقَالَةَ ،وَاللهُ أَعْلَم

ایک روایت میں ہےبعض لوگوں کاخیال ہے کہ جب بنوقریظہ نے ہتھیارڈال دیئے اوران کواسیرکرکے رسیوں سے باندھ لیاگیاتواسے بھی ان کے ساتھ باندھ دیاگیاتھا،صبح کواس کی ڈوری پڑی ہوئی ملی ،کسی کوکچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گیا،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اسے اللہ نے اس کے ایفائے عہدکی وجہ سے بچادیا [22]

جس طرح خزرج اوربنونضیرمیں حلیفانہ تعلقات تھے ،اسی طرح اوس کے بنوقریظہ کے ساتھ حلیفانہ تعلقات تھے ،چنانچہ قبیلہ اوس کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح خزرج کے بنونضیرکے ساتھ حلیفانہ تعلقات تھے اسی طرح ہمارے بنوقریظہ کے ساتھ تعلقات ہیں ، جس طرح آپ نے خزرج کی التماس پر بنو نضیر کے ساتھ معاملہ فرمایاتھااسی طرح بنوقریظہ پراحسان فرمائیں ،

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْأَوْسِ أَنْ یَحْكُمَ فِیهِمْ رَجُلٌ مِنْكُمْ؟قَالُوا: بَلَى،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَذَاكَ إلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَلَمَّا حَكَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَنِی قُرَیْظَةَ، أَتَاهُ قَوْمُهُ فَحَمَلُوهُ عَلَى حِمَارٍ قَدْ وَطَّئُوا لَهُ بِوِسَادَةِ مِنْ أَدَمٍ ، وَكَانَ رَجُلًا جَسِیمًا جَمِیلًا، ثُمَّ أَقْبَلُوا مَعَهُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَهُمْ یَقُولُونَ: یَا أَبَا عَمْرٍو، أَحْسِنْ فِی مَوَالِیكَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إنَّمَا وَلَّاكَ ذَلِكَ لِتُحْسِنَ فِیهِمْ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَیْهِ، لقد أَنى لِسَعْدٍ أَنْ لَا تَأْخُذَهُ فِی اللهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے اوس کے لوگو!کیاآپ لوگ اس پرراضی نہیں کہ تمہارے ہی قبیلہ کاایک شخص بنی قریظہ کا فیصلہ کرے؟ اوس نے کہاکیوں نہیں ، ہم اس بات پرراضی ہیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتو پھریہ معاملہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے حوالے ہے وہ جوبھی فیصلہ کردیں ،اوس نے کہا ہمیں ان کی ثالثی منظورہے، سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ جوغزوہ احزاب میں زخمی ہونے کی وجہ سے مدینہ میں زیرعلاج تھے اس لئے لشکرکے ہمراہ نہیں آئے تھے انہیں بلانے کے لئے چندصحابہ کوبھیجا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کواس فیصلہ کاحکم مقررفرمایاتوانصاردوڑتے ہوئے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں ایک گدھے پرخوب نرم کپڑاڈال کرسوارکیا،سعدجسیم اور خوبصورت شخص تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اورراستہ میں ان سے کہنے لگے اے ابوعمرو!اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اوراحسان سے کام لیجئے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کواسی لئے حکم بنایاہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں ،اپنے لوگوں کے باربارکہنے کے باوجودوہ خاموش تھے اور کوئی جواب نہیں دے رہے تھےجب لوگوں نے بہت اصرار کردیا تو بولے سعد رضی اللہ عنہ ایساشخص نہیں ہے جس کواللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کاڈر ہو،ان کایہ جواب سن کرصحابہ کرام سمجھ گئے کہ وہ یہودکے بارے میں کیافیصلہ کرنے والے ہیں

 فَرَجَعَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ مِنْ قَوْمِهِ إلَى دَارِ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، فَنَعَى لَهُمْ رِجَالَ بَنِی قُرَیْظَةَ، قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إلَیْهِمْ سَعْدٌ، عَنْ كَلِمَتِهِ الَّتِی سَمِعَ مِنْهُ، فَلَمَّا انْتَهَى سَعْدٌ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:جقُومُوا إلَى سَیِّدِكُمْ،فَقَالَ لَهُ رسول الله: احْكُمْ فِیهِمْ،فَقَالَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ:عَلَیْكُمْ بِذَلِكَ عَهْدُ اللهِ وَمِیثَاقُهُ، أَنَّ الْحُكْمَ فِیهِمْ لَمَا حَكَمْتُ؟قَالُوا: نَعَمْ ،وعَلى من هَا هُنَا؟فِی النَّاحِیَةِ الَّتِی فِیهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُعْرِضٌ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إجْلَالًا لَهُ، قَدْ أَمَرَكَ اللهُ تَعَالَى أَنْ تَحْكُمَ فِیهِمْ

یہ جواب سن کربہت سے لوگ تواسی وقت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلے گئے اورسعد رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کرنے سے پہلے ہی فقط اسی بات کوسن کر بنو عبدالاشہل میں جاکربنی قریظہ کے قتل کی خبرمشہورکردی، جب سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے پاس پہنچے توآپ نے فرمایااپنے سردارکی تعظیم کے لئے اٹھو ،لوگوں نے آگے بڑھ کرانہیں اتارا،ان کے لئے چمڑے کاایک نرم گدابچھایاگیاجس پر وہ بیٹھ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ!ان کافیصلہ کرو ،سعد رضی اللہ عنہ دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دویہودی قبیلوں کومدینہ سے نکل جانے کاموقعہ دیاگیاتھاوہ کس طرح سارے عرب قبائل کوبھڑکاکرمدینے پردس بارہ ہزارکالشکرچڑھالائے تھے ،یہ معاملہ بھی ان کے سامنے تھاکہ اس آخری یہودی قبیلے نے عین بیرونی حملے کے موقعہ پربدعہدی کرکے اہل مدینہ کوتباہ وبربادکردینے کاکیاسامان کیاتھا،چنانچہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہودسے پوچھا کیاتم اللہ کے عہداورمیثاق پرقائم رہوگے اورجوحکم میں کروں اس کوتسلیم کروگے ؟انہوں کہاہاں ہم اسے تسلیم کریں گے، سعد رضی اللہ عنہ بن معاذرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے تھے،سعد رضی اللہ عنہ بن معاذنے پوچھاتوبیان کیا فیصلہ تمہاری کتاب کے مطابق کیاجائے یاہماری کتاب قرآن کے مطابق،انہوں نے اصرارکیاکہ ہماری کتاب کے بموجب فیصلہ کیاجائے، تورات کااس بارے میں یہ حکم ہے۔

جب کسی شہرپرحملہ کرنے کوجائے توپہلے صلح کاپیغام دے اگروہ صلح تسلیم کرلیں اورتیرے لئے دروازے کھول دیں توجتنے لوگ وہاں موجودہوں سب تیرے غلام ہوجائیں گے ،لیکن اگرصلح نہ کریں توان کامحاصرہ کراورجب تیراخداتجھ کوان پرقبضہ دلادے توجس قدرمردہوں سب کوقتل کردے،باقی بچے، عورتیں ، جانوراورجوچیزیں شہرمیں موجودہوں سب تیرے لئے مال غنیمت ہوں گے۔[23]

قَالَ سَعْدٌ: فَإِنِّی أَحُكْمُ فِیهِمْ أَنْ تُقْتَلَ الرِّجَالُ، وَتُقَسَّمُ الْأَمْوَالُ، وَتُسْبَى الذَّرَارِیُّ وَالنِّسَاءُ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِسَعْدٍ: لَقَدْ حَكَمْتَ فِیهِمْ بِحُكْمِ اللهِ مِنْ فَوْقِ سَبْعَةِ أَرْقِعَةٍ

اس حکم کے تحت سعد رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیاکہ جنگ کے قابل ہر مرد کوقتل کردیا جائے، عورتوں اوربچوں کواسیرکرلیاجائے اوران کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کردیئے جائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کافیصلہ سن کرفرمایااے سعد رضی اللہ عنہ !تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔[24]

 أَنَّهُمْ حُبِسُوا فِی دَارِ بِنْتِ الْحَارِثِ فِی دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ وَیُجْمَعُ بَیْنَهُمَا بِأَنَّهُمْ جُعِلُوا فِی بَیْتَیْنِ

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے انتہائی عدل وانصاف پرمبنی فیصلے کے بعدبنوقریظہ کی عورتوں اوربچوں کومدینہ لاکربنونجارمیں حارث کی لڑکی کے گھرمیں محبوس کردیاگیااورمردقیدیوں کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مکان پر قید کر دیا گیا۔[25]

فَحَبَسَهُمْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالمدینة فِی دَارِ بِنْتِ الْحَارِثِ، امْرَأَةٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ میں بنت حارث جوبنی نجارسے تھیں کے گھرمیں قیدکردیا۔[26]

أَتَى الزُّبَیْرَ بْنَ بَاطَا الْقُرَظِیُّ، وَكَانَ یُكَنَّى أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ- وَكَانَ الزُّبَیْرُ قَدْ مَنَّ عَلَى ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ فِی الْجَاهِلِیَّةِ . ذَكَرَ لِی بَعْضُ وَلَدِ الزُّبَیْرِ أَنَّهُ كَانَ مَنَّ عَلَیْهِ یَوْمَ بُعَاثٍ، أَخَذَهُ فَجَزَّ نَاصِیَتَهُ، ثُمَّ خَلَّى سَبِیلَهُ،فَجَاءَهُ ثَابِتٌ وَهُوَ شَیْخٌ كَبِیرٌ، فَقَالَ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، هَلْ تَعْرِفُنِی؟ قَالَ: وَهَلْ یَجْهَلُ مِثْلِی مِثْلَكَ،قَالَ: إنِّی قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أَجْزِیَكَ بِیَدِكَ عِنْدِی، قَالَ: إنَّ الْكَرِیمَ یَجْزِی الْكَرِیمَ،ثُمَّ أَتَى ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِلزُّبَیْرِ عَلَیَّ مِنَّةٌ، وَقَدْ أَحْبَبْتُ أَنْ أَجْزِیَهُ بِهَا، فَهَبْ لِی دَمَهُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ

ان قیدیوں میں زبیربن باطاقرظی بھی تھا جس نے زمانہ جاہلیت میں ثابت بن قیس بن شماس پرکچھ احسان کیاتھا ،یعنی جنگ بعاث میں جبکہ وہ گرفتارہوگئے تھے تب زبیربن باطانے ان کی پیشانی کے بال کترکران کوآزادکردیاتھا،اب اس موقع پروہ زبیرکے پاس آیااورکہااے ثابت!مجھے پہچانتے ہو؟ثابت نے کہاہاں مجھ جیساآدمی تجھ جیسے شخص کوکیوں نہیں پہچانے گا،زبیرنے کہااب میں چاہتاہوں کہ تم مجھے پناہ دلواؤ،ثابت نے کہااچھی بات ہے نیک آدمی نیکی کابدلہ دیتاہے،چنانچہ ثابت اس کے احسان کابدلہ چکانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور گزارش کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !زبیرکامجھ پراحسان ہے اورمیں چاہتاہوں کہ اس کے احسان کابدلہ اس کودے دوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم نے اس کوتجھے بخشا۔

فَأَتَاهُ فَقَالَ: إنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَهَبَ لِی دَمَكَ، فَهُوَ لَكَ،قَالَ: شَیْخُ كَبِیرٌ لَا أَهْلَ لَهُ وَلَا وَلَدٌ، فَمَا یَصْنَعُ بِالْحَیَاةِ؟قَالَ: فَأَتَى ثَابِتٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللهِ، هَبْ لِی امْرَأَتَهُ وَوَلَدَهُ، قَالَ: هُمْ لَكَ،قَالَ: فَأَتَاهُ فَقَالَ: قَدْ وَهَبَ لِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَكَ وَوَلَدَكَ، فَهُمْ لَكَ

ثابت نے زبیرسے آکرکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھےپناہ دے دی ہے اورتیراخون بخش دیاہے،زبیربن باطانے کہامیں ایک بوڑھاشخص ہوں جب میرے اہل وعیال زندہ نہیں رہیں گے تومیں زندہ رہ کرکیاکروں گا؟ثابت رضی اللہ عنہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں اس کی بیوی اوراولادکوبھی مجھے عنایت فرمادیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کوبھی تمہیں بخشا، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے زبیربن باطاسے آکر کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اورتمہارے اہل وعیال کومیرے لئے ہبہ کر دیاہے اور میں ان سب کوتمہارے حوالے کرتاہوں یعنی اب تم بیوی بچوں سمیت آزادہو۔

فو الله مَا فِی الْعَیْشِ بَعْدَ هَؤُلَاءِ مِنْ خَیْرٍ، فَمَا أَنَا بِصَابِرِ للَّه فَتْلَةَ دَلْوٍ نَاضِحٍ حَتَّى أَلْقَى الْأَحِبَّةَ. فَقَدَّمَهُ ثَابِتٌ، فَضُرِبَ عُنُقُهُ

لیکن جب زبیربن باطاکوعلم ہواکہ اس کی تمام قوم قتل کردی گئی ہےتواس نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہااے ثابت ! دوستوں کے بغیرکوئی زندگی نہیں پس تو مجھے بھی اپنے دوستوں کے پاس پہنچادوچنانچہ اس کی خواہش کے مطابق اس کے لڑکے عبدالرحمان بن زبیر کوچھوڑکرباقی سب کی گردن مارکرانہیں ان کے دوستوں کے پاس پہنچا دیا گیا۔عبدالرحمٰن بعدمیں مسلمان ہو گیا تھا۔[27]

أَنَّ سَلْمَى بِنْتَ قَیْسٍ، أُمَّ الْمُنْذِرِ، أُخْتَ سلیط بن أُخْت سُلَیْطِ بْنِ قَیْسٍ وَكَانَتْ إحْدَى خَالَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ صَلَّتْ مَعَهُ الْقِبْلَتَیْنِ، وَبَایَعَتْهُ بَیْعَةَ النِّسَاءِ سَأَلَتْهُ رِفَاعَةَ بْنَ سَمَوْأَلَ الْقُرَظِیَّ، وَكَانَ رَجُلًا قَدْ بَلَغَ، فَلَاذَ بِهَا، وَكَانَ یَعْرِفُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، هَبْ لِی رِفَاعَةَ، فَإِنَّهُ قَدْ زَعَمَ أَنَّهُ سَیُصَلِّی وَیَأْكُلُ لَحْمَ الْجَمَلِ، قَالَ:فَوَهَبَهُ لَهَا، فَاسْتَحْیَتْهُ

سلمیٰ بنت قیس منذرکی ماں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ بنی عدی بن نجارمیں سے تھیں اورانہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفاعہ بن شموئیل قرظی کی جان بخشی کاسوال کیا اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں رفاعہ کومجھے بخش دیجئےوہ کہتاہے میں نمازپڑھوں گااوراونٹ کاگوشت کھاؤں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کوبخش دیابعدمیں رفاعہ بھی مسلمان ہوگیا۔[28]

ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى سُوقِ الْمَدِینَةِ، الَّتِی هِیَ سُوقُهَا الْیَوْمَ، فَخَنْدَقَ بِهَا خَنَادِقَ، ثُمَّ بَعَثَ إلَیْهِمْ، فَضَرَبَ أَعْنَاقَهُمْ فِی تِلْكَ الْخَنَادِقِ ، یُخْرَجُ بِهِمْ إلَیْهِ أَرْسَالًا

باقی قیدیوں کوانجام تک پہنچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے بازارمیں تشریف لائے اوروہاں ایک طرف چند گھڑے کھودے گئے اوردو،دوچار،چارکی ٹولی کی شکل میں انہیں وہاں لے جاکران کی گردنیں ماردی گئیں ۔

فَقَالُوا لِكَعْبِ بْنِ أَسَدٍ: مَا تَرَى مُحَمّدًا مَا یَصْنَعُ بنا؟قال: ما یسوؤكم وما ینوؤكم، وَیْلَكُمْ! عَلَى كُلّ حَالٍ لَا تَعْقِلُونَ! أَلَا تَرَوْنَ أَنّ الدّاعِیَ لَا یَنْزِعُ، وَأَنّهُ مَنْ ذَهَبَ مِنْكُمْ لَا یَرْجِعُ؟هُوَ وَاَللهِ السّیْفُ،فَلَمْ یَزَلْ ذَلِكَ الدَّأْبُ حَتَّى فَرَغَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ الّذِینَ یَلُونَ قَتْلَهُمْ عَلِیّ وَالزّبَیْرُ

جب سزاکی کاروائی شروع ہوئی توباقی ماندہ قیدیوں نے کعب بن اسدسے پوچھاکہ آپ کا کیاخیال ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کیاسلوک کریں گے؟اس نے جھنجلاکرجواب دیاہرجگہ تمہاری دیت قبول نہ کی جائے گی کیاتم لوگ کچھ بھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے؟کیاتم نہیں دیکھتے کہ پکارنے والارک نہیں رہاہے اورجانے والے پلٹ کر نہیں آرہے؟اللہ کی قسم انہیں قتل کیاجارہاہے،بہرحال بنوقریظہ کے سردارکعب بن اسدقرظی سمیت چار سو یہودکی گرنیں ماردیں گئیں اوروہ اپنی کرنی کے پھل میں اپنے انجام کوپہنچے،بنوقریظہ کے قتل کاکام سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کے سپردتھا،ان لوگوں کے قتل کے وقت ان کی عورتیں دہاڑیں مار مار کر رونے لگیں ،انہوں نے اپنے گریبان چاک کرڈالے،اپنی چوٹیوں کوکھول کربالوں کوبکھیرلیااوراپنے منہ پیٹ لئے ،مدینہ شہرمیں ان کی آہ وبکاسے ایک حشربرپاتھا،

ثُمّ أُتِیَ بِحُیَیّ بْنِ أَخْطَبَ مَجْمُوعَةٍ یَدَاهُ إلَى عُنُقِهِ، عَلَیْهِ حُلّةٌ شَقْحِیّةٌ قَدْ لَبِسَهَا لِلْقَتْلِ، ثُمّ عَمَدَ إلَیْهَا فَشَقّهَا أُنْمُلَةً لِئَلّا یَسْلُبَهُ إیّاهَا أَحَدٌ،فَلَمَّا نَظَرَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ:أَمَا وَاَللَّهِ مَا لُمْتُ نَفْسِی فِی عَدَاوَتِكَ، وَلَكِنَّهُ مَنْ یَخْذُلُ اللهَ یُخْذَل،ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ،فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إنَّهُ لَا بَأْسَ بِأَمْرِ اللهِ، كِتَابٌ وَقَدَرٌ وَمَلْحَمَةٌ كَتَبَهَا اللهُ عَلَى بَنِی إسْرَائِیلَ، ثُمَّ جَلَسَ فَضُرِبَتْ عُنُقُهُ

جب سب سے بڑے مجرم سردارقبیلہ حیی بن اخطب کوقتل گاہ لایاگیااس وقت اس کے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے رسی سے اکٹھے بندھے ہوئے تھے اور اس وقت اس نے جوگلابی رنگ کاجولباس پہن رکھاتھااسے ہرجانب سے کچھ پھاڑرکھاتھاتاکہ اس کے لباس کوکوئی استعمال نہ کرسکے، جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتو مخاطب ہوکر کہا اللہ کی قسم ! میرے دل میں آپ کے خلاف جو بغض وعداوت ہے اس پرمیں اپنے نفس کوملامت نہیں کرتالیکن حق وسچ یہ ہے کہ جس کی اللہ مددنہ کرے اس کاکوئی مددگارنہیں ہوتا،پھرموجودلوگوں کو مخاطب ہوکر بولالوگو!اللہ کے فیصلے میں کوئی حرج نہیں ،اللہ نے بنی اسرائیل کے لئے جوسزامقدرکی تھی اورجومصیبت لکھ دی تھی وہ پوری ہوئی،اس کے بعدنیچے بیٹھ گیااوراس کی گردن ماردی گئی۔[29]

وَسَمَّاهَا نُبَاتَةَ امْرَأَةَ الْحَكَمِ الْقُرَظِیِّ، هِیَ الَّتِی طَرَحَتِ الرَّحَا عَلَى خَلَّادِ بْنِ سُوَیْدٍ فَقَتَلَتْهُ، یَعْنِی فَقَتَلَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهِ

ان تمام مردوں کے ساتھ نباتہ نامی ایک عورت کوجوحکم قرظی کی بیوی تھی، جس نےاپنے شوہر کے اشارے پر کوٹھے سے چکی کاپاٹ گراکر خلادبن سوید رضی اللہ عنہ کو قتل کیاتھاقصاص میں قتل کردیاگیا ۔[30]

فَقَالَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَهُ أَجْرُ شَهِیدَیْنِ!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایاان کودوشہیدوں کاثواب ملے گا۔[31]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمْ یُقْتَلْ مِنْ نِسَائِهِمْ إلَّا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ، وَاَللَّهِ إِنَّهَا لعندی تحدّث مَعِی، وَتَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْتُلُ رِجَالَهَا فِی السُّوقِ ، إذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا: أَیْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللهِ قَالَتْ: قُلْتُ لَهَا: وَیلك، مَالك؟قَالَتْ: أُقْتَلُ،قُلْتُ: وَلِمَ؟قَالَتْ: لِحَدَثِ أَحْدَثْتُهُ، قَالَتْ: فَانْطَلَقَ بِهَا، فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا فَكَانَتْ عَائِشَة تَقول: فو الله مَا أَنْسَى عَجَبًا مِنْهَا، طِیبَ نَفْسِهَا، وَكَثْرَةَ ضَحِكِهَا، وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں بنی قریظہ کی عورتوں میں سے ایک عورت کے سوااورکوئی عورت قتل نہیں کی گئی،اللہ کی قسم! وہ عورت میرے پاس ہنستی ہنساتی باتیں کررہی تھی کہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازارمیں ان کے مردوں کوقتل کرارہے تھے (اوروہ باہوش وحواس مجرموں کوپکارنے کی صداسن رہی تھی) کہ کسی شخص نے اس عورت کانام لیکرپکاراکہ فلاں کہاں ہے ؟اس نے کہامیں حاضرہوں ،عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہاتجھ پر تعجب ہے یہ تجھے کیا ہو گیا؟اس نے(جرات ودلیری سے) کہامجھے قتل کیاجائے گا ،میں نے کہاکیوں ؟ کہامیں نے ایک جرم کیاتھااس کی پاداش میں قتل کی جاؤں گی، فرماتی ہیں پس اسے میرے پاس سے لے جاکراس کی گردن اڑادی گئی،مزیدفرماتی ہیں کہ میں یہ حیرت انگیزمنظرکبھی نہ بھلا سکوں گی کہ اسے اپناقتل ہونامعلوم تھاپھربھی وہ خوش مزاجی سے ہنسی خوشی سے باتیں کررہی تھی ۔[32]

وعن عائشة رضى الله عنها قالت لم یقتل من نساء بنى قریظة الا امرأة واحدة وانها كانت عندى تتحدّث معى وتضحك ظهرا وبطنا ورَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یقتل رجالهم فى السوق اذ هتف هاتف باسمها این فلانة،قالت أنا والله ، قلت لها ویلك مالك قالت أقتل قلت ولم ولا تقتل امرأة

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےایک روایت میں ہےبنی قریظہ میں سے ایک صرف ایک عورت کوقتل کیاگیاوہ میرے پاس بیٹھی ہوئی ہنس رہی تھی جبکہ بازارمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنوقریظہ کےمردوں کو قتل کررہے تھےاتنے میں کسی نے باہرسے آوازدی کہ فلاں عورت کہاں ہے؟وہ عورت بولی میں یہاں ہوں وہ عورت اسی طرح ہنستی کھلکھلاتی اٹھی اورکہاکہ مجھے قتل کرنے کے لیے بلاتے ہیں ،میں نے کہاعورتوں کے قتل کرنے کادستورتونہیں ہے تجھے کس لیے قتل کیاجارہاہے؟

انى كنت زوجة رجل من بنى قریظة وكان بینى وبین زوجى كأشد ما یتحاب الزوجان فلما اشتدّ أمر المحاصرة قلت لزوجى یا حسرتى على أیام الوصال كادت أن تنقضى وتتبدل بلیالى الفراق وما أصنع بالحیاة بعدك قال زوجى والله لقد غلب علینا محمد سیقتل الرجال ویسبى النساء والذرارى فان كنت صادقة فى دعوى المحبة فتعالى فان جماعة من المسلمین جالسون فى ظل حصن الزبیر بن باطا فألقى علیهم حجر الرحا لعله یصیب واحدا منهم فیقتله فان ظفروا بنا یقتلونك بذلك ففعلت كذلك فهربت تلك الجماعة وأصاب الحجر خلاد بن سوید فقتل فالآن یطلبوننى للقصاص

اس نے کہامیں بنوقریظہ کے ایک مردکی بیوی ہوں ،میرے شوہرکومجھ سے کمال درجے کی محبت تھی اثنائے محاصرہ میں ایک دن اس نے مجھ سے کہاکہ مسلمان ہم پرقابو پائیں گے تومردوں کوقتل اورعورتوں کولونڈیاں بنالیں گے ،میں نے اس سے کہاکہ تیری جدائی میں برداشت نہ کرسکوں گی میراشوہربولا اگرتواپنی محبت میں سچی ہےتو یوں کرکہ چکی کاپاٹ ان مسلمانوں کے سرپرگرادے جوقلعہ کی دیوارکے نیچے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی مرگیا تومسلمان اس کے قصاص میں تجھے قتل کردیں گے اورتومجھ سے آن ملے گی ،میں نے ایساہی کیااورایک مسلمان مرگیا اسی کے قصاص میں مجھے قتل کے لیے بلاتے ہیں

فكانت عائشة تقول ما أنسى عجبا منها طیب نفس وكثرة ضحك وقد عرفت أنها تقتل

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مدت گزرگئی لیکن اس عورت کاقتل کے لیے کھلکھلاتے جانامجھے نہیں بھولتا۔[33]

عَطِیَّةُ الْقُرَظِیُّ، قَالَ:كُنْتُ مِنْ سَبْیِ بَنِی قُرَیْظَةَفَكَانُوا یَنْظُرُونَ، فَمَنْ أَنْبَتَ الشَّعْرَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ یُنْبِتْ لَمْ یُقْتَلْ

عطیہ قرظی کابیان ہے  میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھاچنانچہ مسلمانوں نے دیکھناشروع کیایعنی جس جس کے (زیرناف)بال اگ آئے تھے اسے قتل کردیاگیااورجس کے نہیں اگے تھے اسے قتل نہیں کیاگیاچنانچہ میں ان میں سے تھاجن کے بال نہیں اگے تھے۔[34]

اس طرح اس کاروائی کے بعدمدینہ منورہ سے چارسویاچھ سویاسات سو خطرناک زہریلےسانپوں کاخاتمہ ہوگیاجوہروقت مسلمانوں کوڈسنے کے لئے بے قراروبے چین تھے۔

مال غنیمت :

وجمع أمتعتهم وما وجد فِی حصونهم مِن الحلقة والأثاث والثیاب وُجِدَ فِیهَا أَلْفٌ وَخَمْسُمِائَةِ سَیْفٍ، وَثَلَاثُمِائَةِ دِرْعٍ، وَأَلْفَا رُمْحٍ، وَأَلْفٌ وَخَمْسُمِائَةِ تُرْسٍ وَحَجَفَةٍ . وَأَخْرَجُوا أَثَاثًا كَثِیرًا، وَآنِیَةً كَثِیرَةً، وَوَجَدُوا خَمْرًا وَجِرَارَ سَكَرٍ، فَهُرِیقَ ذَلِكَ كُلّهُ وَلَمْ یُخَمّسْ. وَوَجَدُوا مِنْ الْجِمَالِ النّوَاضِحِ عِدّةً، وَمِنْ الْمَاشِیَة كثیرة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کے اموال جمع کرنے کاحکم فرمایاچنانچہ بنوقریظہ کے قلعوں سے پندرہ سوتلواریں ،تین سوزریں ،دوہزارتیرنیزے اورپانچ سومختلف قسم کی ڈھالیں ،بہت سادوسراسازوسامان ،کثیرتعدادمیں برتن ،شراب اورشراب کے مٹکے تھے جوسب بہادیئے گئے،اس کاخمس نہیں نکالاگیا ،کھیتوں کوسیراب کرنے والے اونٹ ،بہت سے مویشی اوربکریاں ہاتھ لگے۔[35]

فَكَانَتْ السّهْمَانُ عَلَى ثَلَاثَةِ آلَافٍ وَاثْنَیْنِ وَسَبْعِینَ سَهْمًا، لِلْفَرَسِ سَهْمَانِ وَلِصَاحِبِهِ سَهْمٌ

تمام مال غنیمت کے تین ہزاربہترحصے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اموال کو خمس نکال کرپیدل و شہسوارمجاہدین میں تقسیم کردیا،گھوڑسوارمجاہدکوتین حصے دیئے گئے دوحصے گھوڑے کے لئے اورایک حصہ سوارکے لئے،اورپیدل مجاہدکوایک حصہ دیا گیا ۔[36]

ریحانہ بنت عمرو:

وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ اصْطَفَى لِنَفْسِهِ مِنْ نِسَائِهِمْ رَیْحَانَةَ بِنْتَ عَمْرِو بْنِ خُنَافَةَ ، إحْدَى نِسَاءِ بَنِی عَمْرِو بْنِ قُرَیْظَةَ ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَ عَلَیْهَا أَنْ یَتَزَوَّجَهَا، وَیَضْرِبَ عَلَیْهَا الْحِجَابَ، فَقَالَتْ:یَا رَسُولَ اللهِ، بَلْ تَتْرُكُنِی فِی مِلْكِكَ، فَهُوَ أَخَفُّ عَلَیَّ وَعَلَیْكَ، فَتَرَكَهَا،وَقَدْ كَانَتْ حِینَ سَبَاهَا قَدْ تَعَصَّتْ بِالْإِسْلَامِ، وَأَبَتْ إلَّا الْیَهُودِیَّةَ،فَعَزَلَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَوَجَدَ فِی نَفْسِهِ لِذَلِكَ مِنْ أَمْرِهَا، فَبَیْنَا هُوَ مَعَ أَصْحَابِهِ، إذْ سَمِعَ وَقْعَ نَعْلَیْنِ خَلْفَهُ، فَقَالَ: إنَّ هَذَا لِثَعْلَبَةَ بْنِ سَعْیَةَ یُبَشِّرُنِی بِإِسْلَامِ رَیْحَانَةَ، فَجَاءَهُ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ أَسْلَمَتْ رَیْحَانَةُ، فَسَرَّهُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کی قیدی عورتوں میں سے ریحانہ بنت عمروبن خنافہ کواپنے لئے منتخب فرمایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے تجویزرکھی کہ تم مجھ سے شادی کرلواورپردہ میں داخل ہوجاؤ،لیکن انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !عقدسے بہترہے کہ آپ مجھے اپنی ملک ہی میں رکھیں کہ یہ بات میرے اورآپ کے ہر د وکے لئے خفیف وسہل ہے ،پس آپ نے انہیں ان کے حال پررہنے دیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریحانہ سے اسلام کی بات کی تواس نے اسلام لانے سے انکار اور یہودیت پراصرارکیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے علیحدگی اختیارکی مگران کے اس انکاراوراصرارکی کھٹک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں برابرباقی تھی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روزاپنے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجوتوں کی آہٹ آئی ،فرمایایہ ثعلبہ بن سعیہ ریحانہ کے اسلام لانے کی خوش خبری لے کرآرہے ہیں کہ اتنے میں ثعلبہ آئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ریحانہ نے اسلام قبول کرلیاہے ،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بہت خوش ہوئے۔[37]

فَكَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّیَ

اورابن اسحاق کے مطابق وہ آپ کی وفات تک آپ کی ملکیت میں رہیں ۔[38]

لیکن ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےچھ ہجری میں انہیں آزادکرکے شادی کرلی تھی،

وماتت مرجعه من الحج، ودفنها بالبقیع.

جب آپ حجة الوداع سے واپس تشریف لائے توان کاانتقال ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بقیع میں دفن کیا۔[39]

 وَاسْتَسَرَّ رَیْحَانَةَ مِنْ بَنِی قُرَیْظَةَ ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَلَحِقَتْ بِأَهْلِهَا وَاحْتَجَبَتْ وَهِیَ عِنْدَ أَهْلِهَا

حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ نے لکھاہےریحانہ کو گرفتار کیا اور پھر آزاد کر دیا گیا تووہ اپنے خاندان میں چلی گئیں اورپردہ نشین ہوکررہیں ۔[40]

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ قَالَ:وَكَانُوا أَرْبَعَ مِائَةٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےقیدی عورتوں اوربچوں کی تعدادچارسوتھی۔[41] انہیں بنوعبدالاشہل کے بھائی سعدبن زید رضی اللہ عنہ انصاری کی زیر نگرانی فروخت کے لئے نجد اورشام بھیج دیا گیا اوران سے حاصل ہونے والی رقم سے مسلمانوں کے لئے گھوڑے اور اسلحہ خریداگیا۔

 ابولبابہ رضی اللہ عنہ کی توبہ کی قبولیت :

أَقَامَ أَبُو لُبَابَةَ مُرْتَبِطًا بِالْجِذْعِ سِتَّ لَیَالٍ تَأْتِیهِ امْرَأَتُهُ فِی كُلِّ وَقْتِ صَلَاةٍ، فَتَحُلُّهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ یَعُودُ فَیَرْتَبِطُ بِالْجِذْعِ،أَنَّ تَوْبَةَ أَبَى لُبَابَةَ نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ السَّحَرِ ، وَهُوَ فِی بَیْتِ أُمِّ سَلَمَةَ،فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ السَّحَرِ وَهُوَ یَضْحَكُ،قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِمَّ تَضْحَكُ یَا رَسُولَ اللهِ؟ أَضْحَكَ اللهُ سِنَّكَ،قَالَ: تِیبَ عَلَى أَبِی لُبَابَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَفَلَا أُبَشِّرُهُ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ: بَلَى، إنْ شِئْتِ، فَقَامَتْ عَلَى بَابِ حُجْرَتِهَا وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ یُضْرَبَ عَلَیْهِنَّ الْحِجَابُ، فَقَالَتْ: یَا أَبَا لُبَابَةَ، أَبْشِرْ فَقَدْ تَابَ اللهُ عَلَیْكَ،قَالَتْ : فَثَارَ النَّاسُ إلَیْهِ لِیُطْلِقُوهُ فَقَالَ: لَا وَاَللَّهِ حَتَّى یَكُونَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِی یُطْلِقُنِی بِیَدِهِ،فَلَمَّا مَرَّ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَارِجًا إلَى صَلَاةِ الصُّبْحِ أَطْلَقَهُ

ابولبابہ رضی اللہ عنہ چھ روزتک مسجدکے ستون سے بندھے رہےجب نمازیاقضاحاجت کاوقت ہوتاتوان کی بیوی انہیں کھول دیتی تھیں اورنمازکے بعدپھردوبارہ ان کوباندھ دیتی تھیں ، وہ نہ کچھ کھاتے تھے نہ کچھ پیتے تھے ،اور کہتے تھے کہ اسی طرح بندھارہوں گاحتی کہ مرجاؤں یااللہ عزوجل میری توبہ قبول فرمالے، ابولبابہ رضی اللہ عنہ کی توبہ کافرمان سحرکے وقت نازل ہوا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حجرےمیں تھےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے،ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کس بات پر ہنستے ہیں ؟اللہ تعالیٰ آپ کوہمیشہ ہنستا رکھے، فرمایاابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی،ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیاکیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں جاکر ابولبابہ رضی اللہ عنہ کوئی خوش خبری پہنچادوں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہیں اختیارہے،پس ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہجرہ کے دروازہ پرکھڑے ہوکرآوازدی، اوریہ اس وقت کی بات ہے جب عورتوں پر پردہ عائدنہیں ہواتھا، اے ابولبابہ رضی اللہ عنہ !تم کوخوش خبری ہوکہ تمہاری توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول کرلی ہے،لوگ دوڑپڑے کہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ کوستون سے کھول دیں مگر ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کومنع کردیاکہ کوئی مجھے ہاتھ نہ لگائے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خوداپنے دست مبارک سے کھولیں گے جب میں کھلوں گا،چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نمازکے لئے باہرتشریف لائے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابولبابہ رضی اللہ عنہ کوستون سے کھولا۔[42]

اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔

‏ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن یَتُوبَ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٠٢﴾‏(التوبة)
اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں ، جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھےکچھ بھلے اور کچھ برے ،اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔

جب بنوقریظہ کاقصہ تمام ہوچکاتوسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کازخم جوسینہ کے اوپروالی جانب گڑھے پرتھاپھرپھوٹ پڑااورخون بہہ نکلا

وَفِی المَسْجِدِ خَیْمَةٌ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، إِلَّا الدَّمُ یَسِیلُ إِلَیْهِمْ،  یَا أَهْلَ الخَیْمَةِ، مَا هَذَا الَّذِی یَأْتِینَا مِنْ قِبَلِكُمْ؟ فَإِذَا سَعْدٌ یَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا، فَمَاتَ مِنْهَا رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

مسجدمیں بنوغفارکابھی خیمہ تھاجب انہوں نے خون آتا دیکھا توکہنے لگےاے اہل خیمہ !تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف بہہ کرآرہاہے،جب ادھرجاکردیکھاتومعلوم ہواکہ سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون بہہ رہاہے جس کے نتیجے میں آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تھے[43]

عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ، قَالَ:لَمَّا انْفَجَرَتْ یَدُ سَعْدٍ بِالدَّمِ قَامَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَنَقَهُ وَالدَّمُ یَنْفَحُ فِی وَجْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلِحْیَتِهِ، لا یُرِیدُ أَحَدٌ أَنْ یَقِیَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – الدَّمَ إِلا ازْدَادَ مِنْهُ رَسُولُ اللهِ قُرْبًا حَتَّى قَضَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب سعد رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کاخون بہنے لگاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کران کی طرف گئے انہیں گلے سے لگایاحالانکہ خون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ اور داڑھی پربہہ رہاتھا، جس قدرزیادہ کوئی شخص آپ رضی اللہ عنہ کوخون سے بچاناچاہتاتھااسی قدرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قریب ہوتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ قضاکرگئے۔[44]

عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِقَالَ:لَمَّا قَضَى سَعْدٌ فِی بَنِی قُرَیْظَةَ ثُمَّ رَجَعَ انْفَجَرَ جُرْحُهُ،فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ فَأَخَذَ رَأْسَهُ فَوَضَعَهُ فِی حِجْرِهِ وَسُجِّیَ بِثَوْبٍ أَبْیَضَ، إِذَا مُدَّ عَلَى وَجْهِهِ خَرَجَتْ رِجْلاهُ. وَكَانَ رَجُلا أَبْیَضَ جَسِیمًافَقَالَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ إِنَّ سَعْدًا قَدْ جَاهَدَ فِی سَبِیلِكَ وَصَدَّقَ رَسُولَكَ وَقَضَى الَّذِی عَلَیْهِ فَتَقَبَّلْ رُوحَهُ بِخَیْرِ مَا تَقَبَّلْتَ بِهِ رُوحًافَلَمَّا سَمِعَ سَعْدٌ كَلامَ رَسُولِ اللهِ فَتْحَ عَیْنَیْهِ ثُمَّ قَالَ: السَّلامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ. أَمَا إِنِّی أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ،

ایک انصاری سے مروی ہےجب سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظہ کافیصلہ کردیااورواپس آئے توان کازخم پھٹ گیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے،ان کاسراٹھاکراپنی آغوش میں رکھ لیااورانہیں سفیدچادرسے ڈھانک دیاگیاجب وہ ان کے چہرے پرکھینچ دی گئی توان کے پاؤں کھل گئے وہ گورے موٹے تازے آدمی تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ!سعد رضی اللہ عنہ نے تیری راہ میں جہاد کیا،تیرے رسول کی تصدیق کی اورجوان کے ذمہ تھااورحقوق اسلام کو اداکردیااے اللہ!اس کی روح ساتھ ویساہی معاملہ کرجیساکہ اپنے دوستوں کے روح کے ساتھ کرتا ہے،سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سناتواپنی آنکھیں کھول دیں اورکہاالسلام علیکم اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔[45]

یہ کہہ کراپناسرزنوائے مبارک سے علیحدہ کر لیا۔اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجدسے ان کے گھرمنتقل کرادیاجہاں انہوں نے چندلمحوں کے بعدوفات پائی۔سعد رضی اللہ عنہ کی وفات پرمدینہ منورہ میں کہرام مچ گیاجس نے سناسرپکڑکربیٹھ گیایہاں تک کہ بڑے بڑے جلیل القدرصحابہ  رضی اللہ عنہم کواپنے آپ پرقابونہ رہااوروہ بے اختیاررونے لگے۔

قالت عائشة: فَحَضَرَهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فو الذى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، إِنِّی لأَعْرِفُ بُكَاءَ أَبِی بَكْرٍ مِنْ بُكَاءِ عُمَرَ وَإِنِّی لَفِی حُجْرَتِی قَالَتْ: وَكَانُوا كَمَا قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: رُحَماءُ بَیْنَهُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودان کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے گئے تھے اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بھی گئے تھے ،میں اپنے حجرے میں تھی کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کوروتے ہوئے سنااورپھران کے رونے سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رونے کی آوازسنی ،یہ رقت ان پراس لیے طاری ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کےارشادکے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی رحیم اورشفیق تھے۔[46]

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پرعرش ہل گیا۔[47]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ نَزَلَ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ مَا وَطِئُوا الْأَرْضَ قَبْلَهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکی موت پر ستر ہزار فرشتے جواس سے قبل آسمان سے نازل نہیں ہوئے تھے ان کی نمازجنازہ میں شریک ہوئے۔[48]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:لَمَّا حُمِلَتْ جَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ الْمُنَافِقُونَ: مَا أَخَفَّ جَنَازَتَهُ، وَذَلِكَ لِحُكْمِهِ فِی بَنِی قُرَیْظَةَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ الْمَلاَئِكَةَ كَانَتْ تَحْمِلُهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسعد رضی اللہ عنہ جسیم شخص تھے لیکن جب منافقوں نے ان کی میت اٹھائی توکہاہم نے اس سے قبل ان سے ہلکاجنازہ نہیں اٹھایا ،اوریہ طعن انہوں نے اس لئے کیاکہ سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظہ کے قتل کافیصلہ کیاتھااس پرلوگ کہنے لگے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی تو فرمایاکہ ان کے جنازہ کوتمہارے علاوہ ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔[49]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: وَجَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَیْنَ أَیْدِیهِمْ: اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنااورسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کاجنازہ ان کے آگے تھاکہ جب ان کی روح مبارک وہاں پہنچی تومارے خوشی کےرحمٰن کاعرش ہل گیا۔[50]

فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَاسْتَبْشَرَ بِهِ أَهْلُهَا

ایک روایت میں ہےآسمان کے سارے دروازے ان کے لئے کھول دیئے گئے اورآسمانوں کے فرشتے ان کی روح کے چڑھنے سے خوش ہوئے۔ [51]

الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ قَالَ: اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ فَرَحًا بِرُوحِهِ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکی موت پراللہ کاعرش ہل گیا اور آسمانوں کے فرشتے ان کی روح کے چڑھنے سے خوش ہوئے۔[52]

سعد رضی اللہ عنہ کے غسل میں کثیرالتعداد فرشتے بھی شامل ہوئے،

وَحَضَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یُغْسَلُ فَقَبَضَ رُكْبَتَهُ فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:دَخَلَ مَلَكٌ فَلَمْ یَكُنْ لَهُ مَكَانٌ فَأَوْسَعْتُ لَهُ

جس وقت سعد رضی اللہ عنہ کوغسل دیاجارہاتھااس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجودتھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناگھٹنہ سمیٹ لیااورفرمایاایک فرشتہ آیاجس کے لیے جگہ نہ تھی میں نے اس کےلیے گنجائش کردی۔[53]

إِبْرَاهِیمَ بْنِ الْحُصَیْنِ أَنَّ سَعْدًا غَسَّلَهُ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسِ بْنِ مُعَاذٍ وَأُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ. وَسَلَمَةُ بْنُ سَلامَةَ بْنِ وَقْشٍ، یَصُبُّ الْمَاءَ. وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَاضِرٌ فَغُسِلَ بِالْمَاءِ الْغَسْلَةَ الأُولَى،وَالثَّانِیَةَ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ  وَالثَّالِثَةَ بِالْمَاءِ وَالْكَافُورِ ، ثُمَّ كُفِّنَ فِی ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ صُحَارِیَّةٍ أُدْرِجَ فِیهَا إِدْرَاجًا وَأُتِیَ بِسَرِیرٍ كَانَ عِنْدَ النُّبَیْطِ یُحْمَلُ عَلَیْهِ الْمَوْتَى فَوُضِعَ عَلَى السَّرِیرِ، فَرُئِیَ رَسُولُ اللهِ یَحْمِلُهُ بَیْنَ عَمُودَیْ سَرِیرِهِ حِینَ رُفِعَ مِنْ دَارِهِ إِلَى أَنْ خَرَجَ

ابراہیم بن حصین کہتے ہیں  سعد رضی اللہ عنہ کوحارث بن اوس بن معاذ،اسیدبن حضیراورسلمہ بن سلامہ وقش نے غسل دیا،وہ پانی ڈال رہے تھے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجودتھے، پہلاغسل پانی سے دیاگیا اوردوسراپانی اوربیری سے،اورتیسراپانی اورکافورسے،انہیں تین صحاری(سوتی)چادروں میں کفن دیا گیا جس میں انہیں لپیٹ دیاگیا،اورتابوت لایاگیاجوالنبیط کے پاس تھا اورمردے اس پر اٹھائے جاتے تھے انہیں تابوت میں رکھ دیاگیا، جس وقت انہیں مکان سے لے چلے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاگیاکہ تابوت کے پایوں کے درمیان سے انہیں اٹھائے ہوئے تھے۔[54]

عَنْ رُبَیْحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ أَبِیهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كُنْتُ أَنَا مِمَّنْ حَفَرَ لِسَعْدٍ قَبْرَهُ بِالْبَقِیعِ، وَكَانَ یَفُوحُ عَلَیْنَا الْمِسْكُ كُلَّمَا حَفَرْنَا قَتَرَةً مِنْ تُرَابٍ حَتَّى انْتَهَیْنَا إِلَى اللحْدِ ثُمَّ صَلَّى عَلَیْهِ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ مِنَ النَّاسِ مَا ملأ البقیع،لَمَّا انْتَهَوْا إِلَى قَبْرِ سَعْدٍ نَزَلَ فِیهِ أَرْبَعَةُ نَفَرٍ: الْحَارِثُ بْنُ أَوْسِ بْنِ مُعَاذٍ وَأُسَیْدُ بْنُ الْحُضَیْرِ وَأَبُو نَائِلَةَ سِلْكَانُ بْنُ سَلامَةَ وَسَلَمَةُ بْنُ سَلامَةَ بْنِ وَقْشٍ. وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ عَلَى قَدَمَیْهِ

ربیع بن عبدالرحمٰن بن ابی سعیدخدری رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ داداسے روایت کی ہے میں بھی ان لوگوں میں شامل تھاجنہوں نے گورستان بقیع میں سعد رضی اللہ عنہ بن معاذکے لیے قبر کھودی تھی، جب ہم مٹی کاکوئی حصہ کھودتے تواس میں سے مشک کی خوشبوآتی یہاں تک کہ ہم لحدتک پہنچے پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھی، جنازے میں اتنے لوگ شامل تھے کہ بقیع ان سےبھرگیاتھا، جب لوگ سعد رضی اللہ عنہ کی قبرکے پاس پہنچے تواس میں چارآدمی اترے ،حارث بن اوس بن معاذ،اسیدبن حضیرابونائلہ ،سلکان بن سلامہ اورسلمہ بن سلامہ بن قش اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قدموں کے پاس کھڑے تھے۔[55]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرِهِ وَهُوَ یُدْفَنُ، فَبَیْنَمَا هُوَ جَالِسٌ إِذْ قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ مَرَّتَیْنِ، فَسَبَّحَ الْقَوْمُ، ثُمَّ قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ فَكَبَّرَ الْقَوْمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَهَذَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ شَدَّدَ اللهُ عَلَیْهِ فِی قَبْرِهِ حَتَّى كَانَ هَذَا حِینَ فُرِّجَ عَنْهُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب سعد رضی اللہ عنہ دفن کیے گئے اورہم قبرکے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ کہا اور باقی حضرات نے بھی آپ کے ساتھ سبحان اللہ کہا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر،اللہ اکبر کہاتوحاضرین نے بھی اللہ اکبر،اللہ اکبر کہا،پھرصحابہ نے دریافت کیا کہ آپ نے کس بات پرسبحان اللہ اوراللہ اکبر،اللہ اکبر فرمایا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نیک بندے کی قبرتنگ ہوگئی تھی مگراللہ تعالیٰ نے اس میں وسعت پیدافرمادی۔[56]

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَةً، وَلَوْ كَانَ أَحَدٌ نَاجِیًا مِنْهَا لَنَجَا مِنْهَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ایک دفعہ قبرمیت کوضروردباتی ہے اگرکوئی اس سے نجات پاسکتاتوسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اس سے ضرورنجات پاتے۔ [57]

وَلِسَعْدِ یَقُولُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ

سعد رضی اللہ عنہ کے مرثیے میں انصارکے کسی آدمی نے کہا۔

وَمَا اهْتَزَّ عَرْشُ اللهِ مِنْ مَوْتِ هَالِكٍ،سَمِعْنَا بِهِ إلَّا لِسَعْدٍ أَبِی عَمْرٍو

ہم نے نہیں سناکہ کسی کی موت پراللہ کے عرش نے حرکت کی ہے،ہاں !ابو عمرو رضی اللہ عنہ کی موت پرایساہواہے۔[58]

[1] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ الغَسْلِ بَعْدَ الحَرْبِ وَالغُبَارِ ۲۸۱۳،البدایة والنهایة۱۳۳؍۴

[2] مغازی واقدی۴۹۶؍۲

[3] ابن ہشام۲۳۳؍۲

[4] ابن سعد۵۷؍۲

[5]تاریخ طبری۵۸۱؍۲

[6] ابن سعد۵۹؍۲

[7] ابن ہشام ۲۳۴؍۲،الروض الأنف۲۲۳؍۶، عیون الأثر۱۰۰؍۲، البدایة والنهایة۱۳۴؍۴

[8] ۔ابن ہشام ۲۳۳؍۲،تاریخ طبری۵۸۱؍۲،البدایة والنہایة ۱۳۳؍۴،ابن سعد۵۷؍۲

[9] تاریخ طبری ۵۸۱؍۲،مغازی واقدی ۴۹۸؍۲

[10] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرْجِعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِیَّاهُمْ۴۱۱۸،ابن سعد۵۸؍۲

[11] ابن ہشام ۲۳۴؍۲،تاریخ طبری۵۸۲؍۲،عیون الآثر۱۰۱؍۲،الروض الانف۲۲۴؍۶

[12] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرْجِعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِیَّاهُمْ۴۱۱۹،البدایة والنہایة۱۳۴؍۴

[13] فتح الباری ۴۱۰؍۷

[14] مغازی واقدی۴۵۳؍۲

[15] ابن سعد۵۷؍۲

[16]۔مغازی واقدی۵۲۹؍۲،ابن ہشام۲۵۴؍۲

[17] ابن سعد۵۹؍۲

[18] ابن سعد۵۷؍۲،مغازی واقدی۱۷۷؍۱

[19] ابن ہشام۲۳۵؍۲،الروض الانف ۲۲۶؍۶، عیون الآثر۱۰۲؍۲،تاریخ طبری ۵۸۴؍۲،البدایة والنہایة۱۳۷؍۴، دلائل النبوة للبہیقی ۱۵؍۴

[20] ابن ہشام۲۳۶؍۲،البدایة والنہایة ۱۳۸؍۴، عیون الآثر۱۰۲؍۲،الروض الانف۲۲۶؍۶،تاریخ طبری ۵۸۴؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۱۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۳۰؍۳

[21] ابن ہشام۲۳۸؍۲،الروض الانف۲۳۰؍۶،تاریخ طبری۵۸۶؍۲،البدایة والنہایة۱۳۸؍۴

[22] تاریخ طبری ۵۸۶؍۲

[23]کتاب تثنیہ اصحاح ۲۰آیت۱۰

[24] ابن ہشام۲۳۸؍۲،زادالمعاد۱۲۱؍۳،الروض الانف۲۳۲؍۶،عیون الآثر۱۰۵؍۲،تاریخ طبری ۵۸۷؍۲،البدایة والنہایة۱۳۹؍۴،ابن سعد۳۲۳؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۸۳؍۳

[25] فتح الباری ۴۱۲؍۷

[26] عیون الآثر۱۰۶؍۲

[27] ابن ہشام۲۴۰؍۲، الروض الانف۲۳۸؍۶،عیون الآثر۱۰۷؍۲،تاریخ طبری۵۹۰؍۲

[28] ابن ہشام۲۴۳؍۲

[29] ابن ہشام ۲۳۹؍۲، الروض الانف ۲۳۵؍۶،عیون الآثر۱۰۶؍۲،تاریخ طبری۵۸۸؍۲، البدایة والنہایة۱۴۲؍۴،مغازی واقدی۵۱۰؍۲

[30] البدایة والنہایة۱۴۴؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۴۲؍۳

[31] مغازی واقدی۵۲۹؍۲

[32] سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی قَتْلِ النِّسَاءِ۲۶۷۱،ابن ہشام ۲۴۲؍۲،الروض الانف ۲۳۶؍۶،عیون الآثر۱۰۶؍۲،تاریخ طبری۵۸۹؍۲،البدایة والنہایة۱۴۴؍۴

[33] تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۴۹۸؍۱

[34] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابٌ فِی الْغُلَامِ یُصِیبُ الْحَدَّ ۴۴۰۴،۴۴۰۵،جامع ترمذی کتاب السیربَابُ مَا جَاءَ فِی النُّزُولِ عَلَى الحُكْمِ ۱۵۸۴،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ مَتَى یَقَعُ طَلَاقُ الصَّبِیِّ ۳۴۶۰،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ مَنْ لَا یَجِبُ عَلَیْهِ الْحَدُّ ۲۵۴۲

[35] ابن سعد۵۷؍۲،مغازی واقدی ۵۱۰؍۲

[36] ابن سعد۵۸؍۲،مغازی واقدی۵۲۲؍۲

[37] ابن ہشام ۲۴۴؍۲،الروض الانف۲۴۲؍۶،تاریخ طبری ۵۹۲؍۲

[38] ابن ہشام ۲۴۴؍۲

[39] الاصابة فی تمییز الصحابة ۱۴۶؍۸

[40] معرفة الصحابة لابن مندہ۹۸۰؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم ۳۲۰۴؍۶،البدایة والنہایة ۳۲۱؍۵، السیرة النبویة لابن کثیر۵۹۳؍۴

[41] جامع ترمذی أَبْوَابُ السِّیَرِ بَابُ مَا جَاءَ فِی النُّزُولِ عَلَى الحُكْمِ۱۵۸۲،صحیح ابن حبان۴۷۸۴

[42] ابن ہشام۲۳۶؍۲،مغازی واقدی ۵۰۸؍۲،الروض الانف ۲۲۸؍۶،عیون الآثر۱۰۳؍۲،تاریخ طبری ۵۸۵؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۷۹؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۱۶؍۴

[43]۔صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرْجِعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِیَّاهُمْ۴۱۲۲

[44] مغازی واقدی۵۲۶؍۲

[45] ابن سعد۳۲۶؍۳

[46] تاریخ طبری۵۹۲؍۲

[47] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۰۳،صحیح ابن حبان ۷۰۳۱، البدایة والنہایة۱۴۷؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۲۴۷؍۳

[48] البدایة والنہایة۱۴۸؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۴۶؍۳

[49] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۴۹،البدایة والنہایة۱۴۸؍۴

[50] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۴۸

[51]فتح الباری۱۲۴؍۷

[52] البدایة والنہایة ۱۴۸؍۴

[53] ابن سعد۳۲۸؍۳

[54] ابن سعد۳۳۰؍۳

[55] ابن سعد۳۲۹؍۳

[56]شرح مشکل الآثار۴۱۷۳

[57]مسنداحمد ۲۴۲۸۳ ،اثبات عذاب القبرللبیہقی۱۰۶

[58] ابن ہشام۲۵۲؍۲

Related Articles