ہجرت نبوی کا پانچواں سال

مضامین سورةالاحزاب

اس سورہ کے اہم مضامین یوں ہیں ۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے امت محمدیہ کوایسے چارامورکاحکم دیاگیاجوحقیقت میں فلاح اورسعادت کے عناصرہیں ۔

یہ کہ اللہ سے ڈرتے رہیں ۔یہ کہ کافروں اورمنافقوں کی آراء کی اتباع نہ کریں ۔یہ کہ وحی الٰہی کی اتباع کرتے رہیں ۔یہ کہ اللہ پرکامل عتماداوربھروسہ کریں ۔

x زمانہ جاہلیت کے بعض معتقدات اورعادات کی تردیدکی گئی جن میں سے بعض عقلی اعتبارسے باطل تھیں اوربعض شرعی اعتبارسے قبیح تھیں ۔

مشرکین کاخیال تھاکہ بعض لوگوں کے سینے میں دودل ہوتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اللہ نے کسی آدمی کے پہلومیں دودل نہیں بنائے،دل توبس ایک ہی ہوتاہے یااس میں ایمان ہوگایاکفروشرک،ایک ہی دل میں کفروایمان دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔

x جاہلی ظہاریہ تھاکہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کویہ کہہ دیتاکہ تم میرے اوپرایسے ہوجیسے میری ماں کی پشت تواس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پرحرام ہوجاتی تھی،قرآن نے بتایاکہ یہ الفاظ کہہ دینے سے بیوی حرام نہیں ہوجاتی البتہ اسے حلال کرنے کے لیے تمہیں اس قسم کاکفارہ دیناپڑے گا۔

xجاہلیت کی ایک رسم یہ تھی کہ منہ بولابیٹاحقیقی بیٹے جیساہی ہے،قرآن نے جاہلیت کے اس غلط تصوراوراوہام ورسوم کی تردیدکی اوررسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبی کی مطلقہ سے نکاح فرماکراس رسم کوختم کر دیا ۔

xغزوات کے دوران مختلف قبائل کے کرداروں پرروشنی ڈالی گئی اورجنگ وصلح کے آداب بتائے گئے۔

xرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی حیثیت انتہائی تنگ حال تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں کئی کئی دنوں فاقہ ہوا کرتا تھاخانگی وعائلی زندگی کے سلسلے میں امہات المومنین کوانتخاب کااختیار دیا گیاکہ اگروہ عسرت وتنگ دستی پرشاکروصابر نہیں رہناچاہتیں تورسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہوجائیں یاانہیں حالات میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ پسندکریں ۔

xپردہ کے سلسلہ میں امہات المومنین سے آغازکیاگیااورجاہلیت جیسالباس پہننا وانداز،اورغیرمحرموں سے بات چیت اورمیل جول سے روکاگیا،آداب ملاقات ،غیرمردوں کی آمدروفت کاطریقہ اورسوال کرنے کے آداب بتائے گے، امہات المومنین کومسلمانوں کی مائیں کہاگیااورآپ کے وصال کے بعد ان سے نکاح کی حرمت کاذکر کیا گیا ، رضی اللہ عنہما طلاق کی ایک شق کااضافہ کیاگیا،تہمت وافتراء سے بچنے کی تلقین فرمائی ۔

xام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاربیویاں ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ،عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،حفصہ رضی اللہ عنہا اورام سلمہ رضی اللہ عنہا موجودتھیں ،زینب رضی اللہ عنہا پانچویں بیوی تھیں اس پر منافقین مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیداکرنے کے لیے پراپگنڈہ کرتے رہتے تھے ،اس سلسلہ میں مسلمانوں کوبتایاگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام کیاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان متعددپابندیوں سے مستثنٰی ہیں جوازواجی زندگی کے معاملہ میں عام مسلمانوں پرعائدکی گئیں ہیں ،اورخود رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کوکفارومنافقین کے جھوٹے پروپیگنڈے پرصبر تلقین فرمائی ،افواہیں اور افتراء سازی پرتنبیہ فرمائی اورمسلمان عورتوں کوحکم دیاگیاکہ اگرکسی ضرورت سے باہرنکلناپڑے توپردے کے بغیروہ باہرنہ نکلیں ۔

xغزوہ احزاب اورغزوہ بنی قریظہ کابیان اوران دونوں غزوات میں منافقین کاکردار۔

چنانچہ غزوہ احزاب وقریظہ کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف قبائل کے کرداراورواقعات پرروشنی ڈالی اورحسب ضرورت آداب جنگ وصلح بیان فرمائے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرًا ‎﴿٩﴾‏ إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا ‎﴿١٠﴾‏ هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا ‎﴿١١﴾‏(الاحزاب)
اے ایمان والوں ! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں ، پھر ہم نے ان پر تیز تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھاہی نہیں ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے، جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح گمان کرنے لگے، یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وہ جھنجھوڑ دیئے گئے۔

سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنے فضل و احسان عظیم کا ذکرفرماکرشکراداکرنے کی ترغیب دی کہ جب قریش کے اعوان وانصار،اورتمام اسلام دشمن قبائل غطفان ، ہوزان اورنجدکے دیگر کفارومشرکین اورخیبرسے یہود کا دس ہزارافرادپرمشتمل لشکرپوری طاقت اوراتحادسے ابوسفیان صخربن حرب کی قیادت میں مسلمانوں کاقلع قمع کرنے کے لئے ہرطرف سے مدینہ منورہ پرچڑھ آیااورکم وبیش ایک مہینے تک مدینہ منورہ کامحاصرہ قائم رکھاان کی کثیرتعداددیکھ کرسخت دہشت واضطراب سے مسلمانوں کی آنکھیں پتھراگئیں ،دل حلقوم تک پہنچ گئےاورمنافقین حسب عادت اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کر نے لگے کہ اللہ اپنے دین کی مددکرے گانہ اپنے کلمہ کی تکمیل کرے گا اور کفارمسلمانوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹ کرپھینک دیں گے،،ان سراسیمہ حالات میں اہل ایمان اس عظیم فتنے کے ذریعہ سے آزمائے گئے،اورسترمنافقین کوظاہرا ور مسلمانوں سے الگ کرنے کے لئے اہل ایمان کوخوف،قتال،بھوک اورمحاصرے میں مبتلاکرکے ان کوجانچاپرکھاگیاتاکہ مسلمانوں کاایمان واضح اوران کے ایقان میں اضافہ ہواورمنافقین کاگروہ الگ ہوگیا،جب غم کی شدت بڑھ گئی اورسختیوں نے گھیرلیاتوان سراسمیہ اورتلخ حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے غیبی امدادپہنچائی اور ایک برفیلی طوفانی آندھی بھیجی،جس نے ان کے خیموں کواکھاڑپھینکا،جانوررسیاں تڑواکربھاگ کھڑے ہوئے،ہانڈیاں الٹ گئیں اورایسی مخفی طاقتوں سے مددفرمائی جوفرشتوں کی ماتحتی میں غیرمحسوس طورپرانسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پرکام کرتی ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری مددصبا(مشرقی ہوا)سے کی گئی اورعاددبور(پچھمی )ہواسے ہلاک کیے گئے۔[1]

وَإِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ یَا أَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَیَسْتَأْذِنُ فَرِیقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُولُونَ إِنَّ بُیُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِیَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِن یُرِیدُونَ إِلَّا فِرَارًا ‎﴿١٣﴾‏ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا یَسِیرًا ‎﴿١٤﴾‏ وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّهَ مِن قَبْلُ لَا یُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ ۚ وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْئُولًا ‎﴿١٥﴾‏(الاحزاب)
اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا ، ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو !تمہارے لیے ٹھکانا نہیں چلو لوٹ چلو، اور ان کی ایک جماعت یہ کہہ کر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے، (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا ،اور اگر مدینے کے اطراف سے ان پر (لشکر) داخل کئے جاتے پھر ان سے فتنہ طلب کیا جاتا تو یہ ضرور اسے برپا کردیتے اور نہ لڑتے مگر تھوڑی مدت ، اس سے پہلے تو انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھریں گے ، اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدہ کی باز پرس ضرور ہوگی۔

منافق کی عادت ہے کہ مصیبت اورامتحان کے وقت اس کاایمان قائم نہیں رہتاچنانچہ جب محاصرے کوکافی دن ہوگئے تومنافقین مسلمانوں کوورغلانے اوران کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کے لئے کہنے لگے کہ اللہ اوراس کے رسول کاوعدہ تھاکہ اللہ کی تائیدونصرت مسلمانوں کوحاصل ہوگئی اورغلبہ آخرکارانہی کونخشاجائے گا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تویہ کہتے تھے میرادین مشرق ومغرب میں پھیلے گا،فارس روم اورصنعاء کے محلات مجھے دے دیئے گئے ہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ مسلمان قضائے حاجت کوبھی نہیں نہیں نکل سکتےمگریہ وعدہ محض ایک فریب ہی تھا،ابھی تک توکسی طرف سے کوئی مددنہیں آئی اورنہ کوئی امکان ہی نظرآتاہے ، حالت تو یہ ہے کہ ہم چاروں طرف سے کفارکے شدیدمحاصرہ میں ہیں آخرکب تک ہم ان کی دسترس سے دور رہیں گے ،اب نقشہ پلٹنے والاہے جب وہ داخل ہوجائیں گے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیں گے ،پھرعلاقائی تعصب کی طرف دعوت دیتے ہوئے کہا اے اہل یثرب!مسلمانوں کے لشکرمیں رہناسخت خطرناک ہے، تمام عرب قبائل کی دشمنی سے بچنے اورجان ومال اورآبرو کی حفاظت کے لئے اسلام پرقائم رہنے کے بجائے اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ جاؤ،جب جنوبی رخ سے بنوقریظہ کے جنگجو بھی مشرکین کے ساتھ مل گئے،اندراورباہردشمن ہی دشمن ہوگئے اوراندرون مدینہ جوخطرہ پیداہوا توبنوحارثہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکرسے نکل بھاگنے کے لئے ایک اچھابہانہ ہاتھ آگیااورانہوں نے مختلف قوم کے جھوٹے عذرکاناشروع کردیئے ،ایک گروہ نے یہ کہہ کررخصت طلب کرنی شروع کی کہ ہمارے گھروں پردشمن کی طرف سے حملے کوخطرہ ہے ،ہمیں ڈرہے کہ کہیں ہماری عدم موجودگی میں دشمن ہمارے گھروں پرحملہ نہ کردے لہذاہمیں رخصت دیں تاکہ ہم اپنے بال بچوں کی جان ومال اورآبروکی حفاظت کرسکیں ،

أَنَّ الْقَائِلَ لِذَلِكَ هُوَ أَوْسُ بْنُ قَیظیّ،، یَعْنِی: اعْتَذَرُوا فِی الرُّجُوعِ إِلَى مَنَازِلِهِمْ بِأَنَّهَا عَورة، أَیْ: لَیْسَ دُونَهَا مَا یَحْجُبُهَا عَنِ الْعَدُوِّ، فَهُمْ یَخْشَوْنَ عَلَیْهَا مِنْهُمْ

اوس بن قیظی نے بھی یہی کہاتھاکہ ہمارے گھروں میں دشمن کے گھس جانے کاخطرہ ہے اس لیے ہمیں اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دیں ۔[2]

حالانکہ یہ ان کاکوئی معقول عذرنہیں تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کی بدعہدی کی خبرپاکر فوراًہی ایک ٹولی کوخندق سے ہٹاکربنوقریظہ کی طرف تعینات کر دیا تھا اس لئے اس وقت فوری طورپرکوئی خطرہ درپیش نہیں تھا، اصل میں منافقین امتحان کی سختیوں کے وقت ثابت قدمی اوراستقامت کانظاہرنہیں کرتے چنانچہ اس وقت وہ اپنی جان کے خوف سے محاذجنگ سے فرارچاہتے تھےچنانچہ جوبھی اجازت لینے آیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں اجازت دیتے رہے جس سے خندق پرلوگوں کی تعدادکافی کم ہوگئی ،حقیقت میں انہیں زندگی بہت عزیزتھی اورموت سے خائف تھے اس لئے موت کے خوف سے میدان جنگ سے فرارحاصل کرنا چاہتے تھے ،ان منافقین کی ایمانی طاقت تویہ ہے کہ اگرکفارفاتح بن کرہرطرف سے مدینہ منورہ میں داخل ہوجاتے اوران کودعوت دیتے کہ اپنے ایمان کوچھوڑواوراپنے اباؤاجدادکادین اختیارکرکےہمارے ساتھ مل کرمسلمانوں کااستحصال کروتو فوراًان کی دعوت قبول کرکے بخوشی اس فتنہ میں شریک ہوجاتے ،یعنی جس طرف پلڑابھاری دیکھیں گے اس طرف جھک جائیں گے ، حالانکہ غزوہ احدکے موقعہ پرجوکمزوری انہوں نے دکھائی تھی ،اس کے بعدشرمندگی وندامت کااظہارکرکے ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اب اگر آزمائش کاکوئی موقع پیش آیاتوہم اپنے اس قصورکی تلافی کردیں گے،ان کے وہ قول وقرارکیاہوئے، کیایہ نہیں جانتے کہ یہ جووعدے انہوں نے اللہ سے کیے تھے اللہ ان کی بازپرس کرے گا؟جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۝۳۴ [3]

ترجمہ:عہد کی پابندی کرو، بےشک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔

تب ان کارب ان کے ساتھ کیاسلوک کرے گا؟

قُل لَّن یَنفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِن فَرَرْتُم مِّنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿١٦﴾‏ قُلْ مَن ذَا الَّذِی یَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ۚ وَلَا یَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿١٧﴾‏(الاحزاب)
کہہ دیجئے کہ تم موت سے یا خوف قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گااور اسوقت تم ہی کم فائدہ آٹھاؤ گے پوچھئے !توکہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے (یا تم سے روک سکے؟) اپنے لیے بجز اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مدد گار۔

منافقین کوموت کاخوف :اللہ نے میدان جنگ سے منافقین کے فرارپرانہیں ملامت کرتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان منافقین سے فرمادیں کہ اگر میدان جنگ سے بزدلوں کی طرح فرارہونے سے تم موت اورقتل ہونے سے بھاگتے ہوتوتمہارابھاگناتمہیں کچھ فائدہ نہ دے گا،اگرتم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تووہ لوگ جن کی تقدیرمیں قتل ہونالکھ دیاگیاہے اپنی قتل گاہوں میں پہنچ جاتے،موت سے کوئی صورت مفرنہیں ہےجیسے فرمایا

اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَةٍ۔۔۔۝۷۸ [4]

ترجمہ:رہی موت ، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو ۔

اگرموت اورقتل سے بچنے کے لئے فرار ہو جاؤ تاکہ دنیامیں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوزہوتوتم ان سے کم ہی فائدہ اٹھاسکوگے،کچھ عرصہ بعدموت کاپیالہ توپھربھی پیناہی پڑے گا ،جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۔۔۔۝۷۷ [5]

ترجمہ: ان سے کہو ، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے ۔

زرا سوچوتو اگراللہ تمہیں ہلاک کرنا،بیمارکرنایامال وجائیدادمیں نقصان پہنچانا یاقحط سالہ میں مبتلاکرنا چاہے تو ایسی کون سی ہستی ہے جوتمہیں اس نقصان سے بچاسکتی ہے؟ اوراسی طرح اگراللہ تم پرکوئی مہربانی کرناچاہئے تواس کے فضل وکرم کوروکنے والا کون ہے؟ اللہ کے ارادے کوکوئی طاقت نہیں روک سکتی ،جیسے فرمایا

سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا۝۰ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللہِ شَـیْـــــًٔا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا۝۰ۭ بَلْ كَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۝۱۱ [6]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ،یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ، ان سے کہنا اچھا یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے ۔

یادرکھواللہ کے مقابلہ میں نہ تمہاراکارسازہے جوتمہاری سرپرستی کرے اورنہ مددگارجوان کی مددکرکے ان سے ضرر رساں چیزوں کودورکردے،اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ ہرطرف سے منہ موڑکرخلوص نیت سے اس بالاتر ہستی کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ۔

قَدْ یَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِینَ مِنكُمْ وَالْقَائِلِینَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَیْنَا ۖ وَلَا یَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿١٨﴾‏ أَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَیْتَهُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْكَ تَدُورُ أَعْیُنُهُمْ كَالَّذِی یُغْشَىٰ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ یُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرًا ‎﴿١٩﴾‏ یَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوا ۖ وَإِن یَأْتِ الْأَحْزَابُ یَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِی الْأَعْرَابِ یَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِیكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٢٠﴾‏(الاحزاب)
اللہ تعالیٰ تم میں سے انہیں (بخوبی) جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ اور کبھی کبھی ہی لڑائی میں آجاتے، تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں ، پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو، پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں ، مال کے بڑے ہی حریص ہیں ، یہ ایمان لائے ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے ، سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش ! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا ؟ ) نہ لڑتے مگر برائے نام۔

منافقین کاطرزعمل :اللہ تعالیٰ نے منافقین کوسخت وعیدسنائی کہ یہ حقیقتاًاپنی طبعی بزدلی کی بناپرقتال و جہادسے کنی کتراتے ہیں اورموت کے خوف سےپیچھے رہ جانازیادہ پسند کرتے ہیں اوراس پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنے دوستوں ،کنبے قبیلے والوں کوبھی جوابھی جہادکے لئے نہیں نکلے ہمددانہ لحجہ میں روکتے ہیں کہ تم کیوں دین وایمان اورحق و صداقت کے چکرمیں پڑتے ہو ، کس کی باتوں میں آکراپنی زندگی اجیرن کر رہے ہو ،اپنے آپ کوخطرات اورمصائب میں مبتلاکرنے کے بجائے ہماری طرح عافیت کوشی کی پالیسی اختیارکرو،ان منافقین کی یہ بھی فطرت ہے کہ یہ اپنی جان ومال کے ذریعہ سے اللہ کے راستے میں جہادنہیں کرتے بلکہ جنگی ورفاع عامہ کے کاموں میں رخنہ ڈالتے ہیں ، نفاق اورعدم ایمان کے باعث ان کی بزدلی اورپست ہمتی کایہ حال ہے کہ اگرکبھی دکھلاوے کے لئے میدان جنگ میں آموجودہوتے ہیں تو آڑے وقت تمہیں مایوسانہ نگاہوں سے تکتے ہیں اور قتال کے خوف سے ان پرموت کی غشی چھاجاتی ہے ، ہاں جب خطرہ ٹل جاتاہے اور امن واطمینان کی حالت میں ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ اپنی شجاعت و مردانگی کی بابت ڈینگیں مارتے ہیں ، مال غنیمت کی تقسیم کے موقعہ پر اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کومتاثرکرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یعنی دین کے مفادپراپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ:فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ، أَمَّا عِنْدَ الْغَنِیمَةِ، فَأَشَحُّ قَوْمٍ، وَأَسْوَأُ مُقَاسَمَةٍ: أَعْطُونَا أَعْطُونَا، فَإِنَّا قَدْ شَهِدْنَا مَعَكُمْ، وَأَمَّا عِنْدَ الْبَأْسِ فَأَجْبَنُ قَوْمٍ، وَأَخْذَلُهُ لِلْحَقِّ

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ’’مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آجاتے ہیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اس کامفہوم یہ ہے کہ غنیمت کے وقت یہ لوگ حددرجہ بزدل اوراس کی تقسیم کے اعتبارسے یہ بہت برے ثابت ہوتے ہیں اورمسلسل کہتے رہتے ہیں کہ ہمیں دو ہمیں دو ہم بھی تمہارے ساتھ شریک جنگ تھےلیکن جنگ کے وقت یہ لوگ سب سے زیادہ بزدل اورحق کوسب سے زیادہ نیچادکھانے والے ثابت ہوتے ہیں ۔[7]

اصل میں ان کے دل کفروعنادسے بھرے ہوئے ہیں ،انہوں نے خلوص نیت سےاسلام قبول ہی نہیں کیا ، اس لئے انہوں نے بظاہر جو بھی نیک کام کیے ہیں اللہ ان سب کوکالعدم قراردے دے گااوریہ ان کاکوئی اجرو ثواب حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ اللہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں بلکہ اس ظاہرکی تہہ میں ایمان اورخلوص کودیکھ اجروثواب دیتاہے ، اس لئے اللہ کو ان کے اعمال ضائع کرنا چندہ گراں نہیں گزرے گا ، ان کی بزدلی،کم ہمتی اور خوف ودہشت کایہ حال ہے کہ کافروں کے جتھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اکٹھے ہوکرآئے تھے اگرچہ ناکام و نامرادہوکرلوٹ چکے ہیں مگریہ ڈرکے مارے اندرہی گھسے ہوئے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ دشمن ابھی تک اپنے مورچوں اورخیموں میں موجود ہیں اورمسلمان ایسی افواہیں اڑارہے ہیں کہ وہ چلے گئے ہیں ،بالفرض اگرکفارکی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تومنافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ منورہ کے اندریااس کے قرب وجوارمیں رہنے کے بجائے دوردرازصحرامیں بدویوں کے ساتھ رہ رہے ہوں تاکہ حق وباطل کی کشمکش کی لپیٹ میں نہ آجائیں اوروہاں لوگوں سے تمہاری بابت معلومات لیتے رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوراس کے ساتھی ہلاک ہوئے یانہیں ؟یالشکرکفارکامیاب رہایاناکام؟ پس ان کے لئے ہلاکت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری ہے،اوراگرمحض عارکے ڈرسے یاہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے وہ تمہارے درمیان ہوں توبیکارہیں ،یہ بزدل اوربے حمیت لوگ کیالڑیں گے اورکیابہادری کے جوہردکھائیں گے ،اس لئے آپ ان کی کچھ پرواہ نہ کریں اورنہ ان کی حالت پر کچھ افسوس کریں ۔

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ یَرْجُو اللَّهَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِیرًا ‎﴿٢١﴾(الاحزاب)
یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے، اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ۔

اسوہ رسول بہترین نمونہ :

غزوہ احزاب کے موقع پرقلق واضطراب اورخوف وگھبراہٹ کااظہارکرنے والوں کوفرمایااے مسلمانوں ومنافقو!تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے دعویٰ دارہوتوکیاابھی ابھی تم لوگوں نے ان کاکردار،صبروتحمل ،ہمت و استقلال اوربے مثال شجاعت کاعملی مظاہرہ نہیں دیکھا ، ہمیشہ ہمیشہ یادرکھورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے اندرتمہارے لئے زندگی گزارنے کابہترین نمونہ ونظیر اورمنبع البرکات ہے،یہی راستہ ہی صراط المستقیم ہے اورآخرت میں یہی راستہ ہی اللہ تعالیٰ کے اکرام وتکریم کاباعث ہوگا،اس کے سواکوئی راستہ اللہ کی خوشنودی کاباعث نہیں ،اس لئے آپ کے تمام اقوال، افعال اوراحوال میں مسلمانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداضروری ہے ،چاہے اس کاتعلق عبادت سے ہویامعاشرت سے ،معیشت سے ہو یاسیاست سے زندگی کے ہر شعبے ، ہرپہلو میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ۔۔۔ ۝۳۱ [8]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔

۔۔۔وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ۝۰ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا۔۔۔۝۰۝۷ۘ [9]

ترجمہ:جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ۔

اور احمدمجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ،محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ،سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ،امام المتقین صلی اللہ علیہ وسلم ،سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم ،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کووہی شخص اپنائے گاجن کو تین صفات کی توفیق بخشی گئی ہے ۔

۱۔جواٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے ،اورزندگی کے دوسرے معاملات میں کثرت سے اللہ کویادکرنے والاہیں ۔

۲۔جودنیاوآخرت میں اللہ کے فضل وکرم اوراس کی عنایات کے امیدوارہیں ۔

۳۔اورروزآخرت،اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا اوراعمال کی جزاوسزا پرکامل یقین رکھتاہیں ۔

کیونکہ ان کاسرمایہ ایمان،اللہ تعالیٰ کاخوف،اس کے ثواب کی امیداوراس کے عذاب کاڈرانہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے پرآمادہ کرتاہے۔

‏ وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِیمَانًا وَتَسْلِیمًا ‎﴿٢٢﴾‏ مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن یَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا ‎﴿٢٣﴾‏ لِّیَجْزِیَ اللَّهُ الصَّادِقِینَ بِصِدْقِهِمْ وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِینَ إِن شَاءَ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٢٤﴾‏(الاحزاب)
اور ایمانداروں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بےساختہ) کہہ اٹھے !کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہ فرماں برداری میں اور اضافہ کردیا ،مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا ، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی، تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے، اور اگر چاہے تو منافقوں کو سزا دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا بہت ہی مہربان ہے۔

سچے مسلمانوں کاطرزعمل :

منافقین کااللہ سے عہدتھاکہ وہ میدان جنگ سے پیٹھ پھیرکرنہیں بھاگیں گے مگرانہوں نے اس عہدکوتوڑدیاتھا،مگرآزمائش کی اس گھڑی میں سچے مسلمانوں کاطرزعمل منافقین سے بالکل مختلف تھا، جب انہوں نے چاروں طرف سے عرب قبائل کے امنڈتے لشکروں اورحالات کی سنگینی وہولناکی کو دیکھاتومنافقین نے توکہاکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے عرب وعجم پرفتح ونصرت اورقیصروکسریٰ کے خزانوں کے وعدے محض جھوٹ اور فریب تھے مگراس کے برعکس مسلمانوں کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اورزیادہ بڑھ گئے ، اورجنگ سے کنی کترانے ،پہلوتہی کرنے کے بجائے اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے عزم واستقلال کے ساتھ جہادکے لئے جم گئے،اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کے حصول کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی اورکہنے لگے بیشک اللہ نے جوہم سے وعدہ فرمایاتھاکہ پچھلی قوموں کی طرح تمہیں بھی آزمایا جائے گا، تم پرسختیاں اورمصیبتیں آئیں گی ، پھر ابتلاء وامتحان سے گزرنے کے بعدتمہیں فتح ونصرت سے ہمکنارکیاجائے سچاثابت ہوگیا ،انہی کفارپرتوفتح ونصرت کاوعدہ فرمایا گیا تھااوراللہ اوراس کے رسول کاوعدہ غلط نہیں ہوسکتا،جیسےفرمایا

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللهِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِیْبٌ۝۲۱۴ [10]

ترجمہ:پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں ، ہلا مارے گئے حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی( اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝۲وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ۝۳ [11]

ترجمہ:کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ۔

ان صادقین میں کوئی تواللہ کاکلمہ سربلندکرنے کے لئے جہادفی سبیل اللہ میں اپنی جان ومال کا نذرانہ دے کراپنے عہد کوسچاثابت کرچکاہے اورکوئی جوابھی تک عروس شہادت سے ہمکنارنہیں ہوئے ہیں اپنے عہدکوثابت کرنے کے لئے ہمہ وقت شہادت کی سعادت کے آرزومندہیں اوراس کے لئے کوشاں ہیں ،انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے اپنے عہدکونہ بدلابلکہ قائم ودائم ہیں ۔

روایت میں ہے کہ یہ آیت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جوغزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے جس کاانہیں بڑاقلق تھا،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: نرى هذه الآیة نزلت فی أنس بن النضر رضی الله عنه مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صدقوا ما عاهدوا الله عَلَیْهِ

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔‘‘ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔[12]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: غَابَ عَمِّی أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللهِ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلْتَ المُشْرِكِینَ، لَئِنِ اللهُ أَشْهَدَنِی قِتَالَ المُشْرِكِینَ لَیَرَیَنَّ اللهُ مَا أَصْنَعُ،فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ أُحُدٍ، وَانْكَشَفَ المُسْلِمُونَ، قَالَ:اللهُمَّ إِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلاَءِ یَعْنِی أَصْحَابَهُ وَأَبْرَأُ إِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلاَءِ، یَعْنِی المُشْرِكِینَ،ثُمَّ تَقَدَّمَ ، فَاسْتَقْبَلَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: یَا سَعْدُ بْنَ مُعَاذٍ، الجَنَّةَ وَرَبِّ النَّضْرِ إِنِّی أَجِدُ رِیحَهَا مِنْ دُونِ أُحُدٍ،قَالَ سَعْدٌ: فَمَا اسْتَطَعْتُ یَا رَسُولَ اللهِ مَا صَنَعَ، قَالَ أَنَسٌ: فَوَجَدْنَا بِهِ بِضْعًا وَثَمَانِینَ ضَرْبَةً بِالسَّیْفِ أَوْ طَعْنَةً بِرُمْحٍ، أَوْ رَمْیَةً بِسَهْمٍ وَوَجَدْنَاهُ قَدْ قُتِلَ وَقَدْ مَثَّلَ بِهِ المُشْرِكُونَ ، فَمَا عَرَفَهُ أَحَدٌ إِلَّا أُخْتُهُ بِبَنَانِهِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیرے چچاانس رضی اللہ عنہ بن نضرغزوہ بدرمیں شریک نہیں ہوسکے تھےاس لیے انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہاجوآپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگراب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کاموقع دیاتواللہ تعالیٰ دیکھ لے گاکہ میں کیاکرتاہوں ، پھرجب غزوہ احدکاموقع آیااورمسلمان بھاگ نکلے توانس رضی اللہ عنہ بن نضرنے کہاکہ اے اللہ !جوکچھ مسلمانوں نے کیامیں اس سے معذرت کرتا ہوں اورجوکچھ ان مشرکین نے کیاہے میں اس سے بیزارہوں ،پھروہ آگے بڑےتوسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے سامناہواان سے انس رضی اللہ عنہ بن نضرنے کہااے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ !میں توجنت میں جاناچاہتاہوں اور نضر (ان کے والد)کے رب کی قسم !میں جنت کی خوشبواحدپہاڑکے قریب پاتاہوں ،سعد رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جوانہوں نے کردکھایااس کی مجھ میں ہمت نہ تھی ، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ اس کے بعدہم نے انس رضی اللہ عنہ بن نضرکو(شہدوں )میں پایاتوان کے جسم پرتلوار،نیزے اورتیرکے تقریباًاسی زخم تھےوہ شہید ہوچکے تھے ، مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دیئے تھے اورکوئی شخص انہیں پہچان نہیں سکاتھاصرف ان کی ہمشیرہ نے انہیں ان کی انگلی کے پورسے پہچانا۔[13]

عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِیهِ طَلْحَةَ قَالَ:  لَمَّا أَنْ رَجَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أُحُدٍ، صَعِدَ الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، وعَزّى الْمُسْلِمِینَ بِمَا أَصَابَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ بِمَا لَهُمْ فِیهِ مِنَ الْأَجْرِ وَالذُّخْرِ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ:رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ،فَقَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ هَؤُلَاءِ؟فَأَقْبَلْتُ وَعَلَیّ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ حَضْرَمیَّان فَقَالَ:أَیُّهَا السَّائِلُ، هَذَا مِنْهُمْ

طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ احد کے بعدجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تومنبرپرچڑھ کراللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان فرمائی ، مسلمانوں سے ہمدردی کااظہارفرمایا اورجولوگ شہیدہوگئے تھے ان کی درجات کی خبردی،پھر آیت’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔‘‘ کی تلاوت فرمائی، مسلمانوں میں سے ایک شخص کھڑاہوااور پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت میں جن لوگوں کاذکرکیاگیاہے وہ کون ہیں ؟ اس وقت میں حضرمی سبزرنگ کے دوکپڑے پہنے ہوئے مسجدکے دروازہ سے نکلا یعنی اندرآیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھاتومیری طرف اشارہ کرکے فرمایااے پوچھنے والے یہ بھی ان ہی میں سے ہیں (جواللہ سے اپنے عہد کو پورا کر چکے ہیں )۔[14]

اوریہ آزمائش، مصائب اور زلزلے محض اس لئے تھے کہ اللہ جوعلام الغیوب ہے مجاہدین صابرین،راست بازوں اورمنافقین کوظاہرکردےجیسے فرمایا

 مَا كَانَ اللهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔۔۔۝۰۝۱۷۹ [15]

ترجمہ:اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ۝۰ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ۝۳۱ [16]

ترجمہ:ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں ۔

اور اہل ایمان کوان کی سچائی وثابت قدمی اوراطاعت رسول کے سلے میں بے نظیرانعام واکرام سے نوازے، جیسےفرمایا

قَالَ اللهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ۝۰ۭ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا۝۰ۭ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۱۹ [17]

ترجمہ:تب اللہ فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے ، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے ، یہی بڑی کامیابی ہے ۔

اورمنافقوں کوچاہے تو دردناک سزادے اورچاہے توان کے اندرکوئی بھلائی دیکھ کراپنے رافت ورحمت سے انہیں قبول اسلام کی توفیق بخش دے ،بیشک اللہ معاف فرمانے والانہایت مہربان ہے،اس لئے اپنی جانوں پرظلم کرنے والے جب توبہ کرتے ہیں توخواہ ان کے گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں وہ ان کوبخش دیتاہے ۔

‏ وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوا خَیْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِیًّا عَزِیزًا ‎﴿٢٥﴾‏(الاحزاب)
اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا ، اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا، اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔

اللہ کی نصرت :اوراللہ تعالیٰ نے اپنااحسان جتلایاکہ اس نے مشرکوں کو جو مسلمانوں کانام ونشان مٹادینے کے لئے مختلف جہات سے جمع ہوکرآئے تھےانہیں سخت ذلت ورسوائی کے ساتھ محاصرہ ہٹاناپڑا،اللہ نے انہیں اپنے غیظ وغضب میں دانت پیستے، پیچ وتاب کھاتے خائب وخاسر واپس لوٹادیا،نہ دنیاکامال ومتاع ان کے ہاتھ لگاجس کے وہ حریص تھےاورنہ آخرت میں وہ اجروثواب کے مستحق ہوں گے ،اس طرح انہیں کسی قسم کی خیرحاصل نہیں ہوئی،کفارکے پاس وسائل تھے ،ان کے لشکروں نے انہیں دھوکے میں مبتلا کردیا تھا ، ان کی جتھے بندیوں نے ان کوخود پسندی میں مبتلا کردیا تھا،انہیں اپنی عددی برتری اورحربی سازوسامان پربڑانازتھامگرمسلمانوں کوان سے دوبدو لڑائی لڑنے کی نوبت ہی پیش نہیں آئی اللہ تعالیٰ نے مشرق کی طرف سے طوفان بادوباراں اورنظرنہ آنے والے لشکر(فرشتوں ) کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچادیا،جس نے ان کے عسکری مراکزکوتلپٹ کردیا،ان کے خیموں کو اکھاڑدیا،ان کی ہانڈیوں کوالٹ دیا ،ان کے حوصلوں کوتوڑدیااورہمیشہ کے لیےان کی کمرتوڑ دی ،بیشک اللہ بڑی قوت والااورزبردست ہے،جوکوئی اس پر غالب آنے کی کوشش کرتاہے مغلوب ہو کررہ جاتاہے ،جوکوئی اس سے مددمانگتاہے اسے غلبہ نصیب ہوتاہے ، وہ جس چیزکاارادہ کرتاہے کوئی اسے عاجزنہیں کرسکتا،اگراللہ اپنی قوت وعزت سے اہل قوت وعزت کی مدد نہ کرے توان کی قوت وعزت انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَعَزَّ جُنْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَغَلَبَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ، فَلاَ شَیْءَ بَعْدَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک اللہ کے سواکوئی معبودنہیں جس نے اپنے لشکرکوفتح بخشی ،اپنے بندے(یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مددکی ، اورتمام گروہوں کواکیلے اس نے ہی شکست دے دی پس اس کے بعدکوئی شے اس کے مدمقابل نہیں ہوسکتی۔[18]

یہ دعاحج ، عمرہ، جہاداورسفرسے واپسی پربھی پڑھنی چاہیے۔

وَأَنزَلَ الَّذِینَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَیَاصِیهِمْ وَقَذَفَ فِی قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِیقًا ‎﴿٢٦﴾‏ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِیَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرًا ‎﴿٢٧﴾‏(الاحزاب)
اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کرلی تھی انہیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں  (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو،اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا وارث کردیا، اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں ، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

اوربنوقریظہ کے بارے میں فرمایاکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے اپنے عہدوپیمان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عین موقعہ پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاپناامن ودفاع کامعاہدہ توڑکر مشرکوں اوردوسرے یہودیوں کاساتھ دیاتھااورمدینہ منورہ میں امن وآمان کامسئلہ کھڑاکر دیا تھا اور مسلمانوں کے دشمنوں کو رسدمہیاکی تھی،اس جرم عظیم کی پاداش میں اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کارعب ودبدبہ ڈال دیا،خوف ودہشت سے ان کے دل الٹنے لگے جس سے ان میں لڑنے کی قوت باقی نہ رہی اور وہ کھانے پینے اور لڑنے کے تمام وسائل رکھنے کے باوجودہتھیارڈال کرقلعہ سے نیچے اترآئے ، پھران کے اپنے منتخب کردہ حکم کے حکم سے لڑائی کے قابل مردوں کی گردنیں اڑا دی گئیں ،عورتوں اوربچوں کوقیدکرکے فروخت کردیاگیا،اس طرح اللہ نے تمہیں بغیرکسی لڑائی کے ان کے گھروں ،مال واسباب اورعلاقہ کامالک بنادیا،اوروہ علاقہ بھی تمہیں دے دیاجسے تم نے کبھی پامال نہ کیاتھا۔

قِیلَ: خَیْبَرُ ، وَقِیلَ: مَكَّةُ، رَوَاهُ مَالِكٌ، وَقِیلَ: فَارِسُ وَالرُّومُ. وَقَالَ ابْنُ جَرِیرٍ: یَجُوزُ أَنْ یَكُونَ الْجَمِیعُ مُرَادًا

بعض کہتے ہیں خیبرکی زمین۔ بعض کہتے ہیں مکہ مکرمہ کی زمین۔امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں فارس وروم کی زمین۔اورابن جریرکہتے ہیں اورممکن ہے کہ کل خطے ہی مراد ہوں ۔ یقیناًاللہ ہرچیزپرقادرہے۔

قیس رضی اللہ عنہ بن نشبہ یاتسیبہ کاقبول اسلام

غزوہ احزاب کے بعدجب کفارناکام ونامرادہوکراپنے گھروں کولوٹ گئے تو

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ یُقَالُ لَهُ قَیْسُ بْنُ نُشْبَةَ، فَسَمِعَ كَلَامَهُ فَسَأَلَهُ عَنِ السَّمَوَات،فَذَكَرَ لَهُ النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّمَوَات السَّبْعِ والْمَلَائِكَةَ وعِبَادَتِهِمْ، وذَكَرَ الْأَرْضِ وما فیها، فَأَسْلَمَ ،ورَجَعَ إِلَى قَوْمَهُ، فَقَالَ:بَنِی سُلَیْم، قَدْ سَمِعْتُ تَرْجَمَةِ الرُّومَ وَفَارِسَ، وإِشْعَار الْعَرَبِ وَالْكُهَّانُ، ومقاول حِمْیَر، وماكَلَامُ مُحَمَّد یُشْبِهُ شیئًا من كَلَامِهِمْ، فَأَطِیعُونِی فِی مُحَمَّد فإنكم أَخْوَالَهُ، فإن ظَفِرَ تَنْتَفِعُوا بِهِ وتسعدوا، وَإِن تَكُنْ الْأُخْرَى لَمْ تَقَدَّمَ الْعَرَبِ عَلَیْكُم

قبیلہ بنی سلیم کے ایک شخص قَیْسُ بْنُ نُشْبَةَ(بروایت دیگرتسیبہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ کاکلام سنااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمانوں ،زمینوں اورفرشتوں کے متعلق کچھ سوالات پوچھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوسات آسمانوں ،زمین میں جوکچھ ہے ، فرشتوں ا وران کی عبادت کا ذکر فرمایا،جواب سے مطمئن ہوکرانہوں نے اسلام قبول کرلیا،اورپھر اپنے قبیلہ کی طرف لوٹ گئےوہاں پہنچ کرانہوں نے اپنی قوم سے کہااے بنی سلیم!میں نے اہل روم و فارس کاکلام،عرب کے کاہنوں کی کہانتیں اورقبیلہ حمیرکے لوگوں کی باتیں سنی ہیں مگرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ان سب سے منفردہے،پس تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میری پیروی کرواگرانہیں غلبہ نصیب ہواتوتم سب اس سے بہرہ مندہوگئے اور اگرصورت اس سے مختلف ہوئی توپھربھی عرب تمہاری طرف پیش قدمی نہیں کریں گے ،قیس رضی اللہ عنہ بن نشبہ کی باتیں سن کربنوسلیم کے کچھ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے

وَقَدْ كَانَ رَاشِدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ السُّلَمِیُّ یَعْبُدُ صَنَمًا، فَرَآهُ یَوْمًا وَثَعْلَبَانِ یَبُولَانِ عَلَیْهِ

اسی قبیلہ کے ایک شخص راشد بن عبد ربہ سلمی بھی تھے جواپنے قبیلے کے بت سواع کے نگران تھے، ایک دن وہ معبد میں اپنے معبودکے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ دو لومڑیاں معبد کے اندرگھس آئیں اورانہوں نے سواع کی مورتی پرپیشاب کرناشروع کر دیا یہ حالت دیکھ کر غادی بن ظالم کی دنیاہی بدل گئی وہ اچھی طرح سمجھ گئے کہ جومعبوداتنے بے خبر ہیں کہ لومڑیاں ان پرپیشاب کرگئیں اورانہیں خبرتک نہ ہوئی ،وہ پرستش کرنے والوں کی پکار کوکیسے سن سکتے ہیں ،جو خود اتنے بے بس وبے کس ہیں کہ اپنے سرپر لومڑیوں کوبھی پیشاب کرنے سے نہیں روک سکتے وہ دوسرے حاجت مندوں کی حاجت روائی کیسے کرسکتے ہیں ،اس وقت انہوں نے یہ شعرپڑھا۔

 أربٌ یبولُ الثَّعلبان بَرَأْسِهِ،لَقَدْ ذَلَّ مَنْ بالتْ عَلَیْهِ الثَّعَالِبُ

بلاشبہ وہ ذلیل ہواجس پرلومڑیوں نے پیشاب کیا،کیاوہ ذات رب ہوسکتی ہے جس کے سرپردولومڑیاں پیشاب کریں       

ثُمَّ شَدَّ عَلَیْهِ فَكَسَّرَهُ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: ظَالِمٌ،فَقَالَ: بَلْ أَنْتَ رَاشِدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ

بس پھرکیاتھاانہوں نے اپنے آباواجدادکے معبودسواع کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئےاوراسلام قبول کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتمہارانام کیاہے؟توانہوں نے کہاظالم ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ ناپسندیدہ ناموں کواچھے ناموں میں بدل دیاکرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارا نام راشدبن عبدربہ ہے۔[19]

بعض جگہوں پرراشدبن عبداللہ اورراشدبن عبدرب بھی لکھاہے،چنانچہ انہوں نے اسی نام سے شہرت پائی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت قدرومنزلت فرماتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حجازمیں واقع موضع رُهَاطٌ میں زمین کا ایک ٹکڑاعطافرمائی اور یہ تحریرلکھ دی۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هَذَا مَا أَعْطَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ رَاشِدَ بْنَ عَبْدِ رب السلمى، أعطَاهُ غلوتین وغلوة بِحجر برهاط ، فَمن خافه فَلَا حَقَّ لَهُ وَحَقُّهُ حَقٌّ

وَكَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ وہ عطیہ ہے جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راشدبن عبدرب السلمی کودیا،آپ نے ان کوموضع رھاط میں دوتیرکی زدکے بقدر(طول میں )اورایک پتھرکی زد کے بقدر(عرض میں ) زمین عطافرمائی ،پس جوشخص بھی اس پراپناحق جتائے گااس کاحق تسلیم نہیں کیاجائے گااوراصل حق انہیں کاہے۔

کاتب خالدبن سعید۔[20]

فَأَسْلَمَ وَحَسُنَ إِسْلَامُهُ وشهد الْفَتْحَ مع النّبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم:خَیْرقریٰ عَرَبِیَّة خَیْبَرَ وَخَیْرُبَنِی سُلَیْم رَاشِد،وَعَقَدَ لَهُ عَلَى قَوْمِهِ

ایک روایت میں ہےجب راشدبن عبد رب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیااوران کااسلام بہترین تھااوروہ فتح مکہ کے موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشادفرمایا عرب کی بستیوں میں بہترین بستی خیبرکی ہے اوربنی سلیم میں بہترین آدمی راشدہیں اورانہیں اپنی قوم پرعامل مقررفرمایا۔[21]

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاقبول اسلام

وذكر الزّبیر بن بكّار أنّ رجلاقَالَ لِعَمْرِو: ما أبطأ بك عن الإسلام وأنت أنت فی عقلك؟قال: إنا كنا مع قوم لهم علینا تقدّم ،وكانوا ممّن یواری حلومهم الخبال فلما بعث النبیّ صلى الله علیه وسلّم، فأنكروا علیه فلذنا بهم ، فلما ذهبوا وصار الأمر إلینا نظرنا وتدبّرنا فإذا حقّ بیّن،  فوقع فی قلبی الإسلام،فعرفت قریش ذلك منی من إبطائی عما كنت أسرع فیه من عونهم علیه فبعثوا إلیّ فتى منهم،فناظرنی فی ذلك، فقلت: أنشدك الله ربك وربّ من قبلك ومن بعدك، أنحن أهدى أم فارس والروم؟ قال: نحن أهدى، قلت: فنحن أوسع عیشا أم هم؟قال: هم، قلت: فما ینفعنا فضلنا علیهم إن لم یكن لنا فضل إلا فی الدنیا، وهم أعظم منا فیها أمرا فی كل شیء.وقد وقع فی نفسی أن الّذی یقوله محمد من أنّ البعث بعد الموت لیجزی المحسن بإحسانه والمسیء بإساءته حقّ، ولا خیر فی التمادی فی الباطل

زبیربن بکارکہتے ہیں ایک شخص نے عمرو بن عاص سے پوچھا اتنے دانشمندوسمجھدار ہوکرتم اتنی دیرتک اسلام سے کیوں دوررہے ؟ انہوں نے کہاہم اس قوم کے ساتھ تھے جنہیں ہم پرتقدم تھا اوران کی عقلیں پہاڑوں کامقابلہ کرتی تھیں پس ہم ان کی پناہ میں رہے،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی توانہوں نے ان کاانکارکیاہم نے بھی ان کی تقلیدمیں انکارکردیا،جب وہ اس دنیاسے چلے گئے اورمعاملات ہمارے ہاتھ میں آگئے توہم نے اس بات پرغووفکراورتدبرشروع کردیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق پرہیں یاہم،اس غوروفکرسے اسلام کی حقیقت مجھ پرکھلنے لگی اوردل ودماغ برابرمتاثرہوتے چلے گئے یہاں تک کہ میں نے مسلمانوں کی مخالفت سے اپناہاتھ کھینچ لیا،میرارویہ دیکھ کرقریش نے ایک آدمی حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے میرے پاس بھیجا اس نے آکرمجھ سے بحث شروع کردی،میں نے اس سےپوچھاکیاتم اللہ کے بارے میں یہ گواہی دیتے ہوکہ وہ پہلے بھی تھااوربعدمیں بھی ہوگا،کیا ہم حق پرہیں یااہل فارس وروم؟اس نے کہابیشک ہم حق پرہیں ،اس پرمیں نے اس سے سوال کیادولت اورعیش وآرام ان کومیسرہے یاہمیں ؟ اس نے کہایہ توان کومیسرہیں ،میں نے کہاتوپھریہ ہماری حق پرستی (یعنی بت پرستی)کس دن کام آئے گی جبکہ اس دنیامیں باطل پرستوں کے مقابلے میں ہم تنگ حال ہیں اوروہ ہم پرہرطرح کی فضیلت رکھتے ہیں ،اس لیے میں سوچ رہاہوں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی یہ تعلیم کتنی صحیح اوردل لگتی ہے کہ مرنے کے بعدایک دوسراعالم ہوگاجہاں ہرشخص کواس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔[22]

اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ غزوہ احزاب کے بعد عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص نے صحیح خطوط پرسوچناشروع کردیاتھایہی غوروفکران کے قبول اسلام کی بنیادبن گئی۔

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص نے اپنے قبول اسلام کاواقعہ خودبیان کیاہے ،مسنداحمدمیں ان کی زبانی روایت ہے۔

عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مِنْ فِیهِ، قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنَ الْأَحْزَابِ عَنِ الْخَنْدَقِ، جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ كَانُوا یَرَوْنَ مَكَانِی، وَیَسْمَعُونَ مِنِّی، فَقُلْتُ لَهُمْ: تَعْلَمُونَ، وَاللهِ إِنِّی لَأَرَى أَمْرَ مُحَمَّدٍ یَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا كَبِیرًا، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَأْیًا، فَمَا تَرَوْنَ فِیهِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَیْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِیِّ فَنَكُونَ عِنْدَهُ، فَإِنْ ظَهَرَ مُحَمَّدٌ عَلَى قَوْمِنَا، كُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِیِّ، فَإِنَّا أَنْ نَكُونَ تَحْتَ یَدَیْهِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَنْ نَكُونَ تَحْتَ یَدَیْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَهَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عُرِفُوا، فَلَنْ یَأْتِیَنَا مِنْهُمْ إِلَّا خَیْرٌ، فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّأْیُ

جب ہم لوگ غزوہ احزاب سے واپس (مکہ مکرمہ)آئے توجولوگ میرے مرتبے سے واقف اور میری بات سنتے تھے کوبلابھیجاجب وہ آگئے تومیں نے ان سے کہا اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ناپسندیدہ طور پر بہت سے معاملات میں غالب آتے جا رہے ہیں ،میری ایک رائے ہے معلوم نہیں تم اس کوکیساسمجھتے ہو؟انہوں نے پوچھاکیارائے ہے؟ میں نے کہامیراخیال ہے کہ ہم لوگ نجاشی کے پاس حبش جاکرمقیم ہوجائیں اگرمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہماری قوم پرغالب آگئے توہم لوگ وہیں نجاشی کے پاس ٹھیرجائیں گے کیونکہ نجاشی کے پاس رہنامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ماتحت ہوکررہنے سے بہترہے اوراگرہماری قوم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )پرغالب آگئی توہمارے ساتھ اس کابرتاؤاچھاہی ہوگاکیونکہ ہم معززلوگ ہیں ، وہ کہنے لگے کہ یہ تو بہت عمدہ رائے ہے،

قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: فَاجْمَعُوا لَهُ مَا نُهْدِی لَهُ، وَكَانَ أَحَبَّ مَا یُهْدَى إِلَیْهِ مِنْ أَرْضِنَا الْأَدَمُ، فَجَمَعْنَا لَهُ أُدْمًا كَثِیرًا، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَیْهِ ، فَوَاللهِ إِنَّا لَعِنْدَهُ إِذْ جَاءَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّةَ الضَّمْرِیُّ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ بَعَثَهُ إِلَیْهِ فِی شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ،  قَالَ: فَدَخَلَ عَلَیْهِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: هَذَا عَمْرُو بْنُ أُمَیَّةَ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَى النَّجَاشِیِّ فَسَأَلْتُهُ إِیَّاهُ فَأَعْطَانِیهِ، فَضَرَبْتُ عُنُقَهُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ رَأَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْهَا حِینَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَیْهِ، فَسَجَدْتُ لَهُ كَمَا كُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِیقِی، أَهْدَیْتَ لِی مِنْ بِلَادِكَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ أَیُّهَا الْمَلِكُ، قَدْ أَهْدَیْتُ لَكَ أُدْمًا كَثِیرًا قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُهُ إِلَیْهِ، فَأَعْجَبَهُ وَاشْتَهَاهُ

میں نے ان سے کہا کہ پھر نجاشی کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے کچھ جمع کرو، اس وقت ہمارے علاقوں میں سب سے زیادہ بہترین ہدیہ چمڑا ہوتا تھا لہذا ہم نے بہت سا چمڑا جمع کر لیا اور روانہ ہوگئے یہاں تک کہ حبشہ پہنچ گئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ابھی اس کے پاس ہی تھے کہ عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نجاشی کے پاس آگئے جنہیں رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے پاس گیا تو اس سے درخواست کروں گا کہ عمرو کو میرے حوالے کر دے، اگر اس نے اسے میرے حوالے کر دیا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور قریش کے لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ جب میں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قاصد کو قتل کر دیا تو ان کی طرف سے بدلہ چکا دیا،چنانچہ میں نے نجاشی کے پاس پہنچ کر اسے سجدہ کیا جیسا کہ پہلے بھی کرتا تھا، نجاشی نے کہا کہ میرے دوست کو خوش آمدید، کیا تم اپنے علاقے سے میرے لئے کچھ ہدیہ لائے ہو؟ میں نے کہا جی، بادشاہ سلامت! میں آپ کے لئے بہت سا چمڑا ہدیئے میں لے کر آیا ہوں یہ کہہ کر میں نے وہ چمڑا اس کی خدمت میں پیش کر دیاجو اسے وہ بہت پسند آیا

ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: أَیُّهَا الْمَلِكُ إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِكَ، وَهُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا، فَأَعْطِنِیهِ لِأَقْتُلَهُ، فَإِنَّهُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِیَارِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ ثُمَّ مَدَّ یَدَهُ فَضَرَبَ بِهَا أَنْفَهُ ضَرْبَةً ظَنَنْتُ أَنْ قَدْ كَسَرَهُ، فَلَوِ انْشَقَّتْ لِی الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِیهَا فَرَقًا مِنْهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَیُّهَا الْمَلِكُ، وَاللهِ لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّكَ تَكْرَهُ هَذَا مَا سَأَلْتُكَهُ،فَقَالَ: أَتَسْأَلُنِی أَنْ أُعْطِیَكَ رَسُولَ رَجُلٍ یَأْتِیهِ النَّامُوسُ الْأَكْبَرُ الَّذِی كَانَ یَأْتِی مُوسَى لِتَقْتُلَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَیُّهَا الْمَلِكُ أَكَذَاكَ هُوَ؟ فَقَالَ: وَیْحَكَ یَا عَمْرُو، أَطِعْنِی وَاتَّبِعْهُ، فَإِنَّهُ وَاللهِ لَعَلَى الْحَقِّ، وَلَیَظْهَرَنَّ عَلَى مَنْ خَالَفَهُ كَمَا ظَهَرَ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ وَجُنُودِهِ

پھر میں نے اس سے کہا کہ بادشاہ سلامت! میں نے ابھی آپ کے پاس سے ایک آدمی کو نکلتے ہوئے دیکھا جو ہمارے ایک دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اسے قتل کر سکوں کیونکہ اس نے ہمارے بہت سے معززین اور بہترین لوگوں کو زخم پہنچائے ہیں ، یہ سن کر نجاشی غضب ناک ہوگیا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ میں سمجھا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے اس وقت اگر زمین شق ہوجاتی تو میں اس میں اتر جاتا، میں نے کہا بادشاہ سلامت! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو یہ بات اتنی ناگوار گذرے گی تو میں آپ سے کبھی اس کی درخواست نہ کرتا، نجاشی نے کہا کہ کیا تم مجھ سے اس شخص کا قاصد مانگتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو موسی علیہ السلام کے پاس آتا تھا تاکہ تم اسے قتل کردو؟میں نے پوچھا بادشاہ سلامت! کیا واقعی اسی طرح ہے؟ نجاشی نے کہا عمرو! تم پر افسوس ہے، میری بات مانو تو ان کی اتباع کرلو، واللہ وہ حق پر ہیں اور وہ اپنے مخالفین پر ضرور غالب آئیں گے جیسے موسی علیہ السلام فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے،

قَالَ: قُلْتُ: فَبَایِعْنِی لَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، قَالَ: نَعَمْ، فَبَسَطَ یَدَهُ وَبَایَعْتُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِی وَقَدْ حَالَ رَأْیِی عَمَّا كَانَ عَلَیْهِ، وَكَتَمْتُ أَصْحَابِی إِسْلَامِی، ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأُسْلِمَ، فَلَقِیتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَذَلِكَ قُبَیْلَ الْفَتْحِ وَهُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَكَّةَ، فَقُلْتُ: أَیْنَ یَا أَبَا سُلَیْمَانَ؟ قَالَ: وَاللهِ لَقَدِ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِیٌّ، أَذْهَبُ وَاللهِ أُسْلِمُ، فَحَتَّى مَتَى؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللهِ مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ

میں نے کہا کیا آپ ان کی طرف سے مجھے اسلام پر بیعت کرتے ہیں ؟نجاشی نے ہاں میں جواب دے کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس سے اسلام پر بیعت کرلی، پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا تو میری حالت اور رائے پہلے سے بدل چکی تھی، میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے اسلام کو مخفی رکھا اور کچھ ہی عرصے بعد قبول اسلام کے لئے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے روانہ ہوگیا، راستے میں خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سے ملاقات ہوئی یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے ،میں نے ان سے پوچھا ابو سلیمان! کہاں کاقصد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم!حالات درست ہوچکے، وہ شخص یقیناً نبی ہے اور اب میں اسلام قبول کرنے کے لئے جا رہا ہوں آخرہم کب تک کفرکی ظلمتوں میں بھٹکتے رہیں گے؟ میں نے کہااللہ کی قسم ! میں بھی اسلام قبول کرنے کے لئے حبشہ سے آرہا ہوں ،

قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَأَسْلَمَ وَبَایَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أُبَایِعُكَ عَلَى أَنْ تَغْفِرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی، وَلَا أَذْكُرُ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَمْرُو، بَایِعْ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَإِنَّ الْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا قَالَ: فَبَایَعْتُهُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ:وَقَدْ حَدَّثَنِی مَنْ لَا أَتَّهِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ كَانَ مَعَهُمَا أَسْلَمَ حِینَ أَسْلَمَا

چنانچہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی، پھر میں نے آگے بڑھ کر عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس شرط پر آپ سے بیعت کرتا ہوں کہ آپ میری پچھلی خطاؤں کو معاف کر دیں بعد کے گناہوں کا میں تذکرہ نہیں کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو! بیعت کر لو کیونکہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس طرح ہجرت بھی پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادسن کرمیں مطمئن ہوگیااور بیعت کرلی اور واپس مکہ مکرمہ لوٹ آیا،ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے بعض بااعتماد لوگوں نے بتایا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ بن طلحہ بن ابی طلحہ بھی تھے اور انہوں نے بھی ان دونوں کے ساتھ ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔[23]

عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الدَّارِ، وَأُمُّهُ بِنْتُ سَعِیدِ بْنِ سُمَیَّةَ، مِنْ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ مِنْ أَهْلِ قُبَاءَ، وَكَانَ إِسْلَامُهُ وَإِسْلَامُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی وَقْتٍ وَاحِدٍ

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے علاوہ عثمان رضی اللہ عنہ بن طلحہ عبدری نے بھی اسی وقت اسلام قبول کیا۔[24]

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے صحیفہ حیات میں حب رسول ،شجاعت ،شوق جہاد،انفاق فی سبیل اللہ ،شرافت ،نرم دلی اورتدبیروسیاست سب سے نمایاں ابواب ہیں ۔

فزع أهل المدینة فزعا فتفرقوا فنظرت إلى سالم مولى أبی حذیفة فی المسجد علیه سیف مختفیا، ففعلت مثله، فخطب النبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: ألا یكون فزعكم إلى الله ورسوله، ألا فعلتم كما فعل هذان الرّجلان المؤمنان

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک افواہ پرشدیداضطراب اورہیجان پیداہوگیاسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت چندصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجدنبوی میں تشریف فرماتھے چونکہ حقیقت حال کاکسی کوعلم نہیں تھااس لیے عام بھگدڑمچ گئی، اس نازک وقت میں صرف سالم رضی اللہ عنہ مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہا اور عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص شمشیربدست مسجدمیں کھڑے رہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکوئی آنچ نہ آنے دیں اورضرورت پڑے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پراپنی جانیں قربان کردیں ، صورت حال ذراپرسکون ہوئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشادفرمایاجس میں فرمایاتم لوگ اللہ اوررسول کی پناہ میں کیوں نہ آئے اور عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص اورسالم رضی اللہ عنہ کوکیوں نہ نمونہ بنایا۔[25]

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعددموقعوں پر عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کوکھلے لفظوں میں تعریف فرمائی ،ایک مرتبہ ان کے ایمان کی تعریف میں فرمایا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ عَمْرٌو وَهِشَامٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عاص بن وائل کے دونوں بیٹے ہشام رضی اللہ عنہ اور عمرو رضی اللہ عنہ سچے مومن ہیں ۔ [26]

قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ مِنْ صَالِحِی قُرَیْشٍ

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص قریش کے صالح لوگوں میں سے ہیں ۔[27]

عن جابرأن النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دخل على عمرو بن العاص فقال: نعم أهل البیت أبو عبد الله وأم عبد الله وعبد الله

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے پاس پہنچے اور فرمایاابوعبداللہ( عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص)ام عبداللہ اورعبداللہ کیااچھے گھرانے کے لوگ ہیں ۔[28]

عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ أَسْلَمَ النَّاسُ، وَآمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ

اورعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ عمروبن عاص لوگوں میں سب سے زیادہ سلامتی والااورامن والاہے ۔[29]

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص ثروت کے لحاظ سے عرب کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے لیکن جس قدرآپ امیراورصاحب جائدادتھے اسی قدردریادل بھی تھے ،اپنامال بے دریغ اللہ کی راہ میں لٹاتے رہتے تھے خودفرماتے تھے سب سے بڑاسخی وہ ہے جودنیاکودین کی بہتری میں صرف کرے۔خودسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان کے جذبہ انفاق فی سبیل اللہ کی تین مرتبہ تعریف فرمائی،

عن جابرأَن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللهُمَّ اغْفِرْ لِعَمْرٍو ثَلاثًا،فَإِنِّی كُنْتُ إِذَا انْتَدَبْتُهُ لِلصَّدَقَةِجاءنی بها

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاالٰہی! عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کی مغفرت فرماکہ میں نے جب بھی ان کوصدقہ کے لیے بلایاوہ فوراصدقہ لائے۔[30]

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ رِمْثَةَ الْبَلَوِیِّ، أَنَّهُ قَالَ:بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ إِلَى الْبَحْرَیْنِ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَرِیَّةٍ ،وَخَرَجْنَا مَعَهُ فَنَعَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ، فَقَالَ:رَحِمَ اللهُ عَمْرًا، قَالَ: فَتَذَاكَرْنَا كُلَّ إِنْسَانٍ اسْمُهُ عَمْرٌو، فَنَعَسَ ثَانِیًا فَاسْتَیْقَظَ، فَقَالَ:رَحِمَ اللهُ عَمْرًا،ثُمَّ نَعَسَ الثَّالِثَةَ، ثُمَّ اسْتَیْقَظَ، فَقَالَ:رَحِمَ اللهُ عَمْرًا، فَقُلْنَا: مَنْ عَمْرٌو یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ ، قَالُوا: مَا بَالُهُ؟ قَالَ: ذَكَرْتُهُ إِنِّی كُنْتُ إِذَا نَدَبْتُ النَّاسَ إِلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَ بِالصَّدَقَةِ فَأَجْزَلَ فَأَقُولُ لَهُ: مِنْ أَیْنَ لَكَ هَذَا؟ فَیَقُولُ: مِنْ عِنْدِ اللهِ  وَصَدَقَ عَمْرٌو إِنَّ لِعَمْرٍو خَیْرًا كَثِیرًا

علقمہ رضی اللہ عنہ بن رمثہ بلوی کایہ بیان ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کوکسی مہم پربحرین بھیجااورخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسری مہم پرتشریف لے گئے ،ہم لوگ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے اثنائے راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرغنودگی طاری ہوگئی ، بیدارہوئے توفرمایااللہ عمرو رضی اللہ عنہ پررحم فرمائے، یہ سن کرہم میں سے ہرشخص عمرو رضی اللہ عنہ نام کے اشخاص کاذکرکرنے لگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبارہ پھرآنکھ لگ گئی بیدارہوئے توفرمایااللہ عمرو رضی اللہ عنہ پررحم فرمائے،تیسری مرتبہ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرغنودگی طاری ہوگئی ،بیدارہوئے توفرمایااللہ عمرو رضی اللہ عنہ پررحم فرمائے، توہم میں تاب ضبط نہ رہی اورہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کااشارہ کس عمرو رضی اللہ عنہ کی طرف ہے؟ ارشادفرمایا عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کی طرف،ہم نے اس عنایت کاسبب دریافت کیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے وہ وقت یادآگیاجب میں لوگوں سے صدقہ منگواتاتھاتووہ کثیرصدقہ لاتے تھے میں پوچھتاکہاں سے لائے، توکہتے اللہ نے دیا۔[31]

شرافت اورنرم دلی میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے۔

جنگ بلبیس میں مقوقس کی بیٹی گرفتارہوکران کے سامنے پیش ہوئی تواس کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے اوربحفاظت اس کے باپ کے پاس واپس بھیج دیا۔

بغاوت اسکندریہ میں ایک قبطی رئیس طلماگرفتارہوکران کے سامنے پیش ہواتواس کے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤکیااورمتنبہ کرکے آزادکردیاکیونکہ قبطیوں نے عام طور پر بغاوت میں حصہ نہیں لیاتھااورجوچندایک شریک ہوگئے تھے ان کورومیوں نے گمراہ کیاتھا۔

تدبیروسیاست اورفہم وفراست کے اعتبارسے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاشمارعرب کے چوٹی کے مدتبرین (وہاة عرب)میں ہوتاتھاان کی سیرت پربغورنظرڈالیں تویہی نتیجہ اخذ کرنا پڑے گاکہ دماغی قابلیت کے لحاظ سے وہ یکتائے عصرتھے ان کی اصابت رائے کااس سے بڑھ کرکیاثبوت ہوسکتاہے کہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صائب رائے فرمایا ،

وَعَنْ طَلْحَةَ یَعْنِی ابْنَ عُبَیْدِ اللَّهِ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یَا عَمْرُو، إِنَّكَ لَذُو رَأْیٍ سَدِیدٍ فِی الْإِسْلَامِ

طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایااے عمرو رضی اللہ عنہ !تم اسلام میں صاحب رائے کے آدمی ہو۔[32]

مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رَشِیدُ الأَمْرِ

موسی بن طلحہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص ایک صاحب رائے آدمی ہیں ۔[33]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ جیسے مردم شناس عبقری کہاکرتے تھے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص حکومت کے لیے موزوں ہیں ۔وہ جب کسی ناپختہ اورضعیف رائے کے آدمی کودیکھتے تویہ کہہ کرحیرت کااظہارکرتے اللہ اکبر!اس شخص کااور عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاخالق ایک ہے۔

وَاسْتَعْمَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَانَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمان کاوالی مقررفرمایا۔[34]

عمان میں لوگوں میں دنیاطلبی کارجحان بڑھتے دیکھاتوبہت رنج ہوا،لوگوں کے سامنے اکثرخطبہ دیتے اوران کواتباع سنت کی ہدایت کرتے ۔

عن علی بن رباح قال: سمعت عمرو بن العاص یقول على المنبر:مَا أَبْعَدَ هَدْیَكُمْ مِنْ هَدْیِ نَبِیِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَمَّا هُوَ فَكَانَ أَزْهَدَ النَّاسِ فِی الدُّنْیَا، وَأَنْتُمْ أَرْغَبُ النَّاسِ فِیهَا

علی بن رباح سے مروی ہےمیں نے منبر پر عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کوخطبہ دیتے ہوئے سنا لوگو!یہ تمہاری کیاحالت ہوگئی ہے کہ دنیامیں پھنس کرآخرت سے غافل ہوتے جارہے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امورسے اجتناب فرماتے تھے تم لوگ ان کی طرف راغب ہورہے ہوحالانکہ تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاطلبی سے کتنے کنارہ کش رہتے تھے۔[35]

لما فتحت مصر أتى أهلها عمرو بن العاص حین دخل یوم من أشهر العجم فقالوا: یا أیها الأمیر إن لنیلنا هذا سنة لا یجری إلا بها، قال: وما ذاك؟ قالوا: إذا كان إحدى عشرة لیلة تخلو من هذا الشهر عمدنا إلى جاریة بكر بین أبویها فأرضینا أبویها وجعلنا علیها من الثیاب والحلی أفضل ما یكون ثم ألقیناها فی هذا النیل

عہد امیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں جب عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے مصرفتح کیاتوسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مصرکا گورنرمقررفرمایا ،ایک دن بہت سے مصری ان کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہاکہ ہماری زراعت کاانحصاردریائے نیل کے پانی پرہے جب دریائے نیل خشک ہوجاتاہے ہے توجب تک ہم ایک رسم جوقدیم زمانے سے چلی آتی ہے ادانہ کریں اس میں پانی نہیں چڑھتا، عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے پوچھاوہ کیارسم ہے؟ انہوں نے جواب دیاہم چاندکی گیارہ تاریخ(بروایت دیگرہرسال جون کی بارہ تاریخ) کوایک کنواری لڑکی کاانتخاب کرتے ہیں اوراس کے والدین کی مرضی سےاس کوبیش قیمت زیوارت اورکپڑے پہناتے ہیں پھراس کودریائے نیل کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں اس طرح دریامیں پانی چڑھ جاتاہے،آج کل بھی دریامیں پانی بہت کم ہوگیاہے اس لیے آپ ہمیں اپنی یہ قدیم رسم اداکرنے کی اجازت دیں ،

فقال لهم عمرو: إن هذا لا یكون أبدًا فی الإسلام، وإن الإسلام یهدم ما كان قبله، فأقاموا والنیل لا یجری قلیلاً ولا كثیرًا، حتى هموا بالجلاء، فلما رأى ذلك عمرو كتب إلى عمر بن الخطاب بذلك، فكتب له أن: قد أصبت بالذی قلت، وإن الإسلام یهدم ما كان قبله، وبعث بطاقة فی داخل كتابه وكتب إلى عمرو: إنی قد بعثت إلیك ببطاقة فی داخل كتابی فألقها فی النیل، فلما قدم كتاب عمر إلى عمرو بن العاص أخذ البطاقة ففتحهافإذا فیها

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے فرمایاجوکچھ تم نے کہایہ محض توہم پرستی ہےاسلام ایسے اوہام اورلغویات کومٹانے کے لیے آیاہے میں تم کوکسی بے گناہ لڑکی پرایساظلم کرنے کی اجازت ہرگزنہ دوں گا،مصری مایوس ہوکرچلے گئے ،اتفاق سے دریائے نیل میں پانی بالکل کم ہوگیااوربہت سے لوگ قحط کے ڈرسے وطن چھوڑنے کی تیاری کرنے لگے، عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے اس صورت حال کی اطلاع امیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کودی، توانہوں نے لکھاالحمدللہ!تم نے مصریوں کوٹھیک جواب دیافی الحقیقت اسلام ایسی رسوم باطلہ کومٹانے آیاہے میں اس خط کے ساتھ ایک رقہ بھیج رہاہوں اس کودریائے نیل میں ڈال دو، عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کویہ خط ملاتوانہوں نے رقعہ کودریائے نیل میں ڈالنے سے پہلے اس کی عبارت پڑھی جویوں تھی ۔

من عبد الله عمر بن الخطاب أمیر المؤمنین إلى نیل مصر:

 أما بعد، فإن كنت تجری من قبلك فلا تجرِ، وإن كان الله یجریك فأسأل الله الواحد القهار أن یجریك

اللہ کے بندے عمر رضی اللہ عنہ امیرالمومنین کی طرف سے دریائے نیل کو

امابعد!معلوم ہوکہ اگرتواپنے اختیارسے بہہ رہاہے تورک جااوراگرتواللہ تعالیٰ کے حکم سے بہہ رہاہے تومیں اللہ تعالیٰ کے حضوردعاکرتاہوں کہ وہ تجھے پہلے کی طرح رواں کردے۔

فألقى البطاقة فی النیل قبل الصلیب بیوم، فأصبحوا وقد أجراه الله تعالى ستة عشر ذراعًا فی لیلة واحدة، فقطع الله تلك السنّة عن أهل مصر إلى الیوم

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص اوران کے ساتھی یہ رقعہ دریامیں ڈال کرواپس آگئے،اگلی صبح کوجب اہل مصرنیندسے بیدارہوئے توانہوں نے قدرت الٰہی کاعجیب منظردیکھاکہ دریائے نیل میں پانی سولہ ہاتھ اٹھ گیاتھااورزمین سیراب ہورہی تھی(یعنی دریائے نیل عقل وشعورسے مالامال تھا) یہ منظردیکھ کربہت سے مصری حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اوراہل مصرمیں یہ ظالمانہ رسم ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔[36]

یہ روایت منکرہے،اس قصہ کوبیان کرنے والے کاکوئی سراغ ہی نہیں ملتاکہ وہ کون تھااورکیساتھا،ایک مجہول نامعلوم شخص ہے جس نے یہ قصہ بیان کیا۔

أن الناس بالمدینة أصابهم جهد شدید فی خلافة عمر بن الخطاب فی سنة الرمادة

لیث بن سعدسے مروی ہے اکیس ہجری میں مدینہ منورہ اوراس کے نواح میں خشک سالی نے قیامت ڈھادی ،نالے ندیاں جن سے مدینہ منورہ کے کھیت اورنخلستان سیراب ہوتے تھے سوکھ گئے ، تاجروں نے مدینہ آنابندکردیا،انسان اورمویشی سوکھ کر کانٹابن گئے ،بازارمیں کھانے پینے کی چیزیں نہ ملتیں اوراگرملتیں توگراں قیمت پر،ساٹھ ہزار بدوبھوک سے بے تاب ہوکرصحراؤں سے نکل پڑے اورمدینہ کو گھیر لیا۔

امیرالمومنین سیدنافاروق رضی اللہ عنہ نے اس قحط پرقابوپانے کے لیے عراق ،شام اورمصرکے گورنروں سے مدد طلب کی ،معاویہ رضی اللہ عنہ والی شام نے غلہ سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ اوراتنے ہی کپڑے بھیجے،والی کوفہ نے دوہزاراونٹ بھیجے ،اسی طرح عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے اونٹوں کاایک بہت بڑاقافلہ غلہ اورکپڑوں سے لدواکربھیجاچونکہ مصرخشکی کاراستہ بہت دورتھااس لیے غلہ پہنچنے میں دیرہوئی توامیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کویہ خط لکھا

 من عبد الله عمر أمیر المؤمنین إلى العاص بن العاص، سلام!

 أما بعد فلعمری یا عمرو! ما تبالی إذا شبعت أنت ومن معك أن أهلك أنا ومن معی، فیا غوثاه! ثم یا غوثاه

عبداللہ عمرامیرالمومنین کی طرف سے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کوسلام علیک

امابعد!میری جان کی قسم عمرو!اگرتمہارااورتمہارے ساتھیوں کاپیٹ بھرارہے اورمیں اورمیرے ساتھی بھوکوں مریں توتمہیں پرواہ نہ ہو،المدد،المدد۔

ایک روایت کے مطابق اس خط کے یہ الفاظ تھے۔

مدد،مدد،عربوں کی مدد،اونٹوں کاایک قافلہ جس کااگلاحصہ میرے پاس ہواورپچھلاتمہارے پاس ،عباؤں میں آٹابھرکرمیرے پاس روانہ کرو۔

فكتب إلیه عمرو بن العاص

لعبد الله عمر أمیر المؤمنین من عمرو بن العاص

 أما بعد فیا لبیك! ثم یا لبیك! وقد بعثت إلیك بعیر أولها عندك وآخرها عندی، والسلام علیك ورحمة الله وبركاته

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کویہ خط لکھا۔

اللہ کے بندے عمر رضی اللہ عنہ امیرالمومنین کی طرف عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاخط

امابعد!لبیک لبیک اے امیرالمومنین!جلدہی آپ کے پاس غلہ سے لدے ہوئے اونٹوں کااتنابڑاقافلہ پہنچے گاکہ اس کااگلاحصہ آپ کے پاس ہوگااور پچھلا میرے پاس ہوگا ، والسلام علیک ورحمة اللہ وبرکاتہ

ایک روایت میں ہے

أمابعد؛ فیا لبیك ثم یا لبّیك، أتتك عیر أوّلها عندك وآخرها عندى، مع أنى أرجو أن أجد السبیل إلى أن أحمل إلیك فى البحر

امابعد!لبیک لبیک اے امیرالمومنین!جلدہی آپ کے پاس غلہ سے لدے ہوئے اونٹوں کااتنابڑاقافلہ پہنچے گاکہ اس کااگلاحصہ آپ کے پاس ہوگااور پچھلا میرے پاس ہوگا،مجھے امیدہے کہ ایسی صورت بھی نکل آئے گی کہ آپ کے پاس سمندرکی راہ سے غلہ بھیج سکوں گا۔[37]

فبعث عمرو إلیه بعیر عظیمة فكان أولها بالمدینة وآخرها بمصر یتبع بعضها بعضا

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے غلہ اورکپڑوں پرمشتمل اتنابڑاقافلہ روانہ کیاکہ اس کااگلاحصہ مدینہ منورہ میں تھااورآخری حصہ مصرمیں تھااوروہ ایک دوسرے کے پیچھے چل رہے تھے۔[38]

امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سمندری راستے کے بارے میں عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاارادہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی

فكتب إلیه: إنى نظرت فى أمر البحر فإذا هو عسر لا یلتأم ولا یستطاع

لیکن چنددن بعدانہیں عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کاخط ملاکہ سمندری راستہ کھولنااتنادشواراورمہنگاہے کہ اس پرعمل کرناممکن نہیں ۔[39]

اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سخت غضبناک ہوئے اور عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کولکھاکہ تم نیل سے سمندرتک نہرکھدواؤچاہے اس پرتمہیں مصرکاساراخراج صرف کرناپڑے۔

وكتب إلى عمرو بن العاص یقدم علیه هو وجماعة من أهل مصر، فقدموا علیه ،فقال عمر: یا عمرو؛ إن الله قد فتح على المسلمین مصر، وهی كثیرة الخیر والطعام، وقد ألقى فی روعی لما أحببت من الرفق بأهل الحرمین، والتوسعة علیهمأن أحفر خلیجًا من نیلها حتى یسیل فی البحر، فهو أسهل لما نرید من حمل الطعام إلى المدینة ومكة؛ فإن حمله على الظهر یبعد ولا نبلغ معه ما نرید

علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے حسن المحاضرہ میں لکھاہےامیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کوخط لکھاکہ وہ مصرکے لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ آئیں ،وہ حاضرہوگئے توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایااے عمرو رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کومصرپرفتح نصیب فرمائی ہے ،وہاں خوشحالی ہے،اگرایک نہرکھودکردریائے نیل کوسمندرسے ملادیاجائے تومکہ اورمدینہ میں مصرسے غلہ آنے میں آسانی ہوگئی اورعرب میں قحط اورگرانی کاکبھی اندیشہ نہ ہوگاورنہ خشکی کی راہ سے غلہ لانادقت سے خالی نہیں ۔[40]

فانصرف عمرو، وجمع لذلك من الفعلة ما بلغ منه ما أراد،ثم احتفر الخلیج الذی فى حاشیة الفسطاط، الذی یقال له خلیج أمیر المؤمنین، فساقه من النیل إلى القلزم؛ فلم یأت الحول حتى جرت فیه السفن، فحمل فیه ما أراد من الطعام إلى المدینة ومكّة، فنفع الله بذلك أهل الحرمین، وسمّى خلیج أمیر المؤمنین.

چنانچہ عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص واپس مصرآئے اورلوگوں کوجمع کرکے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ارادہ سے آگاہ کیااورانہوں نے فوراًکام شروع کردیااورفسطاط کے قریب دریائے نیل سے بحرہ قلزم تک تقریباً۶۹میل لمبی نہرچھ ماہ کے اندرتیارکرادی ،جہازاس نہرکے ذریعے دریائے نیل سے چل کربحرقلزم میں آتے تھے اوروہاں سے جدہ پہنچ کرلنگراندازہوتے تھے، یہ نہرنہرامیرالمومنین کے نام سے مشہورہوئی اورمدتوں جاری رہی ،سالہاسال بعدحکام کی لاپروائی سے یہ نہربندہوگئی۔

علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق میں لکھاہے۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے بحرروم وبحرقلزم کوبراہ راست ملادینے کاارادہ کیاچنانچہ اس کے لیے موقع اورجگہ کی تجویزبھی کرلی تھی اور چاہا تھا کہ فرماکے پاس سے جہاں بحرروم وبحرقلزم میں صرف سترمیل کافاصلہ رہ جاتاہے نہرنکال کردونوں سمندروں کوملادیاجائے لیکن امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ارادے سے اطلاع ہوئی تو نارضامندی ظاہرکی اورلکھ بھیجاکہ اگرایساہواتویونانی جہازوں میں آکرحاجیوں کواڑالے جائیں گے ،اگر عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کو اجازت مل جاتی تونہرسویزکی ایجادکافخردرحقیقت عرب کے حصے میں آتا۔

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے اپنے حسن سلوک سے مصریوں کے دل موہ لیے تھے اوروہ ان کواپنامربی سمجھتے تھے کبھی کبھارغصہ آجاتاتھالیکن عام طورپرنہایت شریں گفتاراورخوش اخلاق تھے ،ایک دفعہ ایک بڈھے خچرپرسوارہوکرکہیں جارہے تھے ایک صاحب دیکھ کربولے کہ آپ امیرمصرہوکرایسے جانورپرسوارہوتے ہیں ،فرمایاجانورجب تک بوجھ اٹھائے،بیوی جب تک وفاشعاررہے، دوست جب تک رازداررہے میں کسی سے بیزارنہیں ہوتا۔

عَنْ عَوَانَةَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ: عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ یَقُولُ: عَجَبًا لِمَنْ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ وَعَقْلُهُ مَعَهُ كَیْفَ لَا یَصِفُهُ، فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ قَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: یَا أَبَتِ إِنَّكَ كُنْتَ تَقُولُ: عَجَبًا لِمَنْ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ وَعَقْلُهُ مَعَهُ كَیْفَ لَا یَصِفُهُ , فَصِفْ لَنَا الْمَوْتَ وَعَقْلُكُ مَعَكَ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ الْمَوْتُ أَجَلُّ مِنْ أَنْ یُوصَفَ، وَلَكِنِّی سَأَصِفُ لَكَ مِنْهُ شَیْئًا: أَجِدُنِی كَأَنَّ عَلَى عُنُقِی جِبَالُ رَضْوَى، وَأَجِدُنِی كَأَنَّ فِی جَوْفِی شَوْكَ السِّلَاءِ، وَأَجِدُنِی كَأَنَّ نَفَسِی یَخْرُجُ مِنْ ثَقْبِ إِبْرَةٍ

عوانہ بن الحکم کہتے ہیں عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص زندگی میں اس بات پرحیرت کا اظہار کرتے تھے کہ بعض لوگ موت کے وقت پورے ہوش وہواس میں ہوتے ہیں لیکن وہ موت کی حقیقت نہیں بیان کرسکتے، نزع کے وقت ان کے فرزندنے کہااباجان!آپ کے ہوش وحواس پوری طرح قائم ہیں ذراموت کی کیفیت توبیان کیجئے، فرمایا بیٹا! اس کی کیفیت حدبیان سے باہرہے بس مجھ کوایسامحسوس ہوتاہے کہ جبل رضوی میری گردن پرٹوٹاپڑتاہے ،میری آنتوں کوکھجورکے کانٹوں پرگھسیٹاجارہاہے اورمیری جان سوئی کے ناکے سے نکل رہی ہے۔[41]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَاهُ قَالَ:یَا بُنَیَّ إِذَا مِتُّ فَاغْسِلْنِی غَسْلَةً بِالْمَاءِ ثُمَّ جَفِّفْنِی فِی ثَوْبٍ.ثُمَّ اغْسِلْنِی الثَّانِیَةَ بِمَاءٍ قُرَاحٍ ثُمَّ جَفِّفْنِی فِی ثَوْبٍ. ثُمَّ اغْسِلْنِی الثَّالِثَةَ بِمَاءٍ فِیهِ شَیْءٌ من كافور ثُمَّ جَفِّفْنِی فِی ثَوْبٍ. ثُمَّ إِذَا أَلْبَسْتَنِی الثِّیَابَ فَأَزِرَّ عَلَیَّ فَإِنِّی مُخَاصِمٌ. ثُمَّ إِذَا أَنْتَ حَمَلْتَنِی عَلَى السَّرِیرِ فَامْشِ بِی مَشْیًا بَیْنَ الْمَشْیَتَیْنِ وَكُنْ خَلْفَ الْجَنَازَةِ فَإِنَّ مُقَدَّمَهَا لِلْمَلائِكَةِ وَخَلْفَهَا لِبَنِی آدَمَ، فَإِذَا أَنْتَ وَضَعْتَنِی فِی الْقَبْرِ فَسُنَّ عَلَیَّ التُّرَابَ سَنًّا

عبداللہ بن عمرونے کہااے اباجان مجھے کوئی وصیت فرمائیں ،فرمایا جب میرادم نکل جائے توپہلے معمولی پانی سے مجھے غسل دینااورجسم کوکپڑے سے خشک کرناپھرتازہ اور صاف پانی سے نہلانااورتیسری مرتبہ ایسے پانی سے جس میں کافورکی آمیزش ہوپھرکپڑے سے خشک کرنا،کفناتے وقت ازارکس کرباندھنا،جب مجھے چارپائی پرلٹاناتوجنازہ کو نہ تیزلے کرچلنااورنہ آہستہ، لوگوں کوجنازہ کے پیچھے پیچھے رکھنااس کے آگے فرشتے چلتے ہیں اورپیچھے انسان،قبرمیں رکھنے کے بعدمٹی آہستہ آہستہ دینا۔[42]

وَسُنُّوا عَلَیَّ التُّرَابَ سَنًّا فَإِنَّ جَنْبِیَ الْأَیْمَنَ لَیْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِی الْأَیْسَرِ وَلَا تَجْعَلَنَّ فِی قَبْرِی خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا فَإِذَا وَارَیْتُمُونِی فَاقْعُدُوا عِنْدِی قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِیعِهَا أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ

ایک روایت میں ہےمجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا اور سب طرف بکھیر دینا کیونکہ دایاں پہلو بائیں پہلو سے زیادہ حق نہیں رکھتا، میری قبر پر کوئی لکڑی یا پتھر نہ گاڑنا اور جب تم مجھے قبر کی مٹی میں چھپا کر فارغ ہوجاؤ تو اتنی دیر قبر پر رکنا کہ جس میں ایک اونٹ ذبح کر کے اس کے ٹکڑے بنا لئے جائیں تاکہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں ۔[43]

ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ إِنَّكَ أَمَرْتَنَا فَرَكِبْنَا وَنَهَیْتَنَا فَأَضَعْنَا فَلا بَرِیءَ فَأَعْتَذِرُ وَلا عَزِیزَ فَأَنْتَصِرُ وَلَكِنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ. مَا زَالَ یَقُولُهَا حتى مات

پھردعامیں مصروف ہوگئے کہ الٰہ العالمین تونے حکم دیامیں نے عدول حکمی کی ،تونے ممانعت کی میں نے نافرمانی کی ،بری نہیں کہ معذرت کروں ،طاقتوارنہیں کہ غالب آجاؤں ہاں لاالٰہ الااللہ یہی کہتے کہتے آخری ہچکی لی اورہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔[44]

وكان موته بمِصْرَ لَیْلةُ عیدالفِطْرِ، وصَلَّى عَلَیْهِ ابنهُ عَبْدُ اللهِ، ودفن بالمقطم، ثُمَّ صَلَّى العِیدِ

عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص مصرمیں عیدالفطرکی رات کو فوت ہوئے ،ان کی نمازجنازہ ان کے صاحبزادے عبداللہ نے پڑھائی اوراسلام کے اس رجل عظیم کوجبل مقطم کے دامن میں سپردخاک کردیااورپھرعیدالفطرکی نماز پڑھی۔[45]

وفات کے وقت ان کی عمرنوے برس کی تھی۔

اہل سیرنے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے بہت سے اقوال حکمت نقل کیے ہیں ،ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔

سب سے بہادراورجری وہ ہے جس کے غضب (یاجس کی جہالت)پراس کاحلم غالب ہو۔

سب سے بڑاسخی وہ ہے جواپنی دنیاکودین کی بہتری میں صرف کرے۔

ایک ہزارلائق آدمیوں کے مرجانے سے اتنانقصان نہیں پہنچتاجتناایک نالائق صاحب اختیارہونے سے پہنچ جاتاہے۔

شریف بھوکاہوتاہے تومقابلہ کرتاہے اوررزیل کاپیٹ بھرجاتاہے توبالمقابل کھڑاہونے کی ہمت کرتاہے ،لہذابھوکے شریف اورشکم سیررزیل سے ڈرتے رہو،شریف کو کھانے کودواوررزیل کوقابومیں رکھو۔

میں نے خوداپنارازکسی دوست سے کہہ دیاہے اوراس نے عالم آشکارکردیاتوقابل ملامت وہ نہیں ،میں ہوں ۔

[1] صحیح بخاری کتاب الِاسْتِسْقَاءِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نُصِرْتُ بِالصَّبَا۱۰۳۵، صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ بَابٌ فِی رِیحِ الصَّبَا وَالدَّبُورِ۲۰۸۷،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۴۶، مسند احمد ۱۹۵۵، مسندالبزار۴۸۹۴، السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۰۳،صحیح ابن حبان۶۴۲۱،معرفة السنن والآثار ۷۲۷۵، شرح السنة للبغوی۱۱۴۹

[2] تفسیر طبری ۲۱۸؍۲۰

[3] بنی اسرائیل۳۴

[4] النسائ۷۸

[5] النسائ۷۷

[6] الفتح۱۱

[7] تفسیرطبری۲۳۲؍۲۰

[8] آل عمران۳۱

[9] الحشر۷

[10] البقرة۲۱۴

[11] العنکبوت۲،۳

[12] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۶۳۶

[13] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى مِنَ المُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ، فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا ۲۸۰۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِبَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِیدِ ۴۹۱۸،مسنداحمد۱۳۰۸۵

[14] تفسیرابن ابی حاتم ۳۱۲۵؍۹،تفسیرابن کثیر۳۹۴؍۶

[15] آل عمران۱۷۹

[16] محمد۳۱

[17] المائدة۱۱۹

[18] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۱۴ ،صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عُمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یُعْمَلْ ۶۹۱۰،مسنداحمد۸۰۶۷،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۳۶، مسند البزار ۸۴۳۸،شرح السنة للبغوی ۳۷۹۵

[19] ابن سعد۱۰۸؍۱،، البدایة والنہایة۱۰۷؍۵

[20] السیرة النبویة لابن کثیر۶۷۶؍۴، البدایة والنھایة ۳۵۶؍۵

[21] ابن سعد ۳۰۸؍۱

[22] الإصابة فی تمییز الصحابة۵۳۷؍۴

[23] مسنداحمد۱۷۷۷۷،المنتظم فی تاریخ الأمم والملوك۱۹۶؍۵،أسمى المطالب فی سیرة أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب رضی الله عنه ۶۷۰؍۲

[24] مستدرک حاکم۵۸۱۲

[25] الإصابة فی تمییز الصحابة ۵۳۷؍۴

[26] مسند احمد۸۰۴۲

[27] اسد الغابة۲۳۲؍۴،الإصابة فی تمییز الصحابة۵۳۷؍۴

[28] کنزالعمال ۵۴۸؍۱۳، الإصابة فی تمییز الصحابة۵۳۷؍۴

[29] مسنداحمد۱۷۴۱۳،مسند الرویانی ۲۱۲،فضائل الصحابة الاحمدبن حنبل۱۷۴۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۳۸۴۴

[30] الكامل فی ضعفاء الرجال۳۲۷؍۳، کنزالعمال۵۴۹؍۱۳،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۴۰؍۴۶

[31] مستدرک حاکم۵۹۱۶،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۳۵۲؍۹

[32] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۸۹۴،جامع المسانید والسُّنَن الهادی لأقوم سَنَن۴۲۷؍۴

[33] كشف الأستار عن زوائد البزار ۲۷۲۰

[34] اسدالغابة۲۳۲؍۴

[35] مسنداحمد۱۷۸۰۹،کنزالعمال۷۲۵؍۳

[36] تاریخ الخلفاء۱۰۳؍۱،حسن المحاضرة فی تاریخ مصر والقاهرة۳۵۳؍۲

[37] فتوح مصروالمغرب۱۹۲؍۱

[38] کنزالعمال۶۱۵؍۱۲،حیاة الصحابة۴۶۷؍۲

[39] فتوح مصروالمغرب۱۹۳؍۱

[40] حسن المحاضرة فی تاریخ مصر والقاهرة۱۵۶؍۱

[41] ابن سعد۱۹۶؍۴

[42] ابن سعد۱۹۶؍۴

[43] مسند احمد ۱۷۷۸۰

[44] ابن سعد۱۹۶؍۴

[45] اسد الغابة ۲۳۲؍۴

Related Articles