ہجرت نبوی کا پانچواں سال

قتل عبداللہ یاسلام بن ابی الحقیق(ابورافع)

اس کانام عبداللہ بن ابی الحقیق اورابورافع اس کی کنیت تھی،اسے سلام بن ابی الحقیق بھی کہاجاتاتھا،یہ ایک مالدارتاجرتھااورخیبرکی ایک گڑھی میں رہتاتھا،یہ کعب بن اشرف کامعین اورمددگاراور یہودیوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسخت دشمن تھااورطرح طرح سے آپ کوایذاء وتکالیف پہنچاتارہتاتھا،یہی متعصب یہودی غزوہ احزاب میں قریش مکہ کومسلمانوں پرچڑھالایاتھااورہرممکن مالی امدادبھی کی تھی

وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ یُؤْذِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیُعِینُ عَلَیْهِ

ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت پہنچاتاتھااورآپ کے خلاف دشمنوں کی اعانت کرتاتھا۔[1]

یہ اپنی دولت بے دریغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی عداوت اوراسلام کاراستہ روکنے کے لئے خرچ کرتارہتا تھا،

ذكر بن عَائِذٍ مِنْ طَرِیقِ أَبِی الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّهُ كَانَ مِمَّنْ أَعَانَ غَطَفَانَ وَغَیْرَهُمْ مِنْ مُشْرِكِی الْعَرَبِ بِالْمَالِ الْكَثِیرِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابن عائدنے عروہ کے طریق سے یہ روایت نقل کی ہےاس نے غطفان وغیرہ مشرکین عرب کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں بہت روپیہ سے مدد دی تھی۔[2]

وَكَانَ سَلَّامُ بْنُ أَبِی الْحَقِیقِ وَهُوَ أَبُو رَافِعٍ – فِیمَنْ حَزَّبَ الْأَحْزَابَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں ہے سلام بن ابی الحقیق جو ابورافع کہلاتاتھااس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ احزاب میں فوجیں اکٹھی کی تھیں ۔[3]

قالَ: وَكَانَ ابْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ قَدْ أَجْلَبَ فِی غَطَفَانَ وَمَنْ حَوْلَهُ مِنْ مُشْرِكِی الْعَرَبِ، وَجَعَلَ لَهُمْ الْجُعْلَ الْعَظِیمَ لِحَرْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں ہےعبداللہ یاسلام بن ابی الحقیق(ابورافع) نے غطفان اوردوسرے مشرکین عرب کی ایک بہت بڑی جمعیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لئے اکٹھی کی تھیں ۔[4]

كَانَ یُظَاهِرُ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں ہےوہ کعب بن اشرف کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مدددیتاتھا۔[5]

ان تمام بیانات کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ وہ بھی کعب کی طرح خودکبھی میدان میں لڑنے نہیں آیاپس پردہ دشمنوں کومال ودولت اورفوجوں سے مدددے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کرتاتھا۔

أَنَّ الْأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ كَانَا یَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَیْنِ لَا تَصْنَعُ الْأَوْسُ شَیْئًا إِلَّا قَالَتِ الْخَزْرَجُ وَاللهِ لَا تَذْهَبُونَ بِهَذِهِ فَضْلًا عَلَیْنَا وَكَذَلِكَ الْأَوْسُ،فَلَمَّا أَصَابَتِ الْأَوْسُ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ تَذَاكَرَتِ الْخَزْرَجُ مَنْ رَجُلٌ لَهُ مِنَ الْعَدَاوَةِ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ لِكَعْبٍ فَذكرُوا بن أَبِی الْحُقَیْقِ وَهُوَ بِخَیْبَرَ، اسْتَأْذَنَتِ الْخَزْرَجُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَتْلِ سَلَّامِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ وَهُوَ بِخَیْبَرَ فَأَذِنَ لَهُمْ

اوس اورخزرج کاباہمی حال یہ تھاکہ یہ دونوں قبیلے آپس میں اس طرح رشک کرتے رہتے تھے جیسے دوسانڈآپس میں رشک کرتے ہیں ،جب قبیلہ اوس کے ہاتھوں کوئی اہم کام انجام پاتاتوخزرج والے کہتے کہ اللہ کی قسم اس کام کوکرکے تم فضیلت میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتےہم اس سے بھی بڑاکوئی کام انجام دیں گے،اوس کابھی یہی خیال رہتاتھا، قبیلہ اوس کے نوجوانوں نےکعب بن اشرف یہودی کو قتل کرکے سرخوئی حاصل کی تھی اب قبیلہ خزرج کے نوجوانوں کوخیال ہواکہ قبیلہ اوس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ،بارگاہ رسالت کے ایک گستاخ اوروریدہ دہن کعب بن اشرف کوقتل کر کے سعادت حاصل کررکھی ہے اس لئے ہم بھی اس سے بھی بڑے دشمن کاخاتمہ کریں گے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں اس سے بڑھ کرہوگا،چنانچہ انہوں نے ابن ابی الحقیق کاانتخاب کیا جو خیبر میں رہتاتھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں یہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھاہواتھا،یہ فیصلہ کرکے قبیلہ خزرج کے نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورابورافع کے قتل کی اجازت چاہی جوخیبرمیں رہتاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔[6]

عَبْدُ اللهِ بْنُ عَتِیكٍ وَمَسْعُودُ بْنُ سِنَانٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَیْسٍ وَأَبُو قَتَادَةَ وَخُزَاعِیُّ بْنُ أَسْوَدَفَأَمَّرَ عَلَیْهِمْ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَتِیكٍ، لَمَّا بَعَثَ إِلَى بن أَبِی الْحَقِیقِ نَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ آدمیوں عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ ،مسعودبن سنان رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ ،ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ، حارث بن ربعی رضی اللہ عنہ اور خزاعی بن اسود رضی اللہ عنہ کوابورافع کے قتل کے لئے روانہ فرمایااورعبداللہ بن عتیک کوان پر امیر مقرر فرمایا،جب وہ ابن ابی الحقیق کی طرف روانہ ہوئے تو تاکیدفرمائی کہ کسی عورت اوربچے کوقتل نہ کرنا۔[7]

فِی النّصْفِ مِنْ جُمَادَى الْآخِرَةِمِنْ هَذِهِ ألسنة

چنانچہ پندرہ جمادی الآخرتین ہجری کو۔[8]

وَقِیلَ فِی رَجَبٍ سَنَةَ ثَلَاثٍ،وَقِیلَ فِی ذِی الْحِجَّةِ سَنَةَ خَمْسٍ، قَالَ بن سَعْدٍ كَانَتْ فِی رَمَضَانَ سَنَةَ سِتٍّ

کہاجاتاہےرجب تین ہجری کو۔کہاجاتاہےذی الحجہ پانچ ہجری کو ۔ابن سعدکہتے ہیں رمضان چھ ہجری کو۔[9]

وَقَالَ الزُّهْرِیُّ هُوَ بَعْدَ كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ

زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ کعب بن اشرف یہودی کے بعدقتل ہوا ۔[10]

فَخَرَجُوا حتى قَدِمُوا خَیْبَر

بہرحال عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اورخیبرجاپہنچے۔[11]

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ، وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیہ لوگ غروب آفتاب کے بعدخیبرپہنچے جب لوگ اپنے جانورچراگاہ سے واپس لاچکے تھے۔[12]

دوسرے مالداریہودیوں کی طرح ابورافع بھی اپنی قلعہ نماحویلی میں رہتاتھا،

فَقَالَ عَبْدُ اللهِ لِأَصْحَابِهِ: اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ، فَإِنِّی مُنْطَلِقٌ، وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ، لَعَلِّی أَنْ أَدْخُلَ ، فَفَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ، قَالَ: فَخَرَجُوا بِقَبَسٍ یَطْلُبُونَهُ، قَالَ: فَخَشِیتُ أَنْ أُعْرَفَ، قَالَ: فَغَطَّیْتُ رَأْسِی وَجَلَسْتُ كَأَنِّی أَقْضِی حَاجَةً،وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ ، فَهَتَفَ بِهِ البَوَّابُ، یَا عَبْدَ اللهِ: إِنْ كُنْتَ تُرِیدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ، فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُغْلِقَ البَابَ،فَدَخَلْتُ ثُمَّ اخْتَبَأْتُ فِی مَرْبِطِ حِمَارٍ عِنْدَ بَابِ الحِصْنِ ثُمَّ عَلَّقَ الأَغَالِیقَ عَلَى وَتَدٍ

جب اس کی حویلی نزدیک آگئی توامیرجماعت عبداللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ تم لوگ اس جگہ چھپے رہومیں جارہاہوں اورحویلی میں داخل ہونے کے لئےدربان پر کوئی تدبیرکرتاہوں ، عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (قلعہ کے قریب پہنچ کر)میں اندرجانے کی تدابیرکرنے لگااتفاق سےقلعہ والوں کاایک گدھاگم ہوگیاتھاوہ مشعل لے کراسے ڈھونڈنے نکلے مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں قلعہ والے مجھے پہچان نہ لیں لہذامیں اپنے اوپرکپڑاڈھانک کراس طرح بیٹھ گئے جیسے کوئی قضاءحاجت کے لئے بیٹھاہواسی اثنامیں گدھامل گیااور قلعہ والے اندداخل ہوگئے،حویلی کے دربان نے انہیں اپنا ہی کوئی آدمی سمجھااورآوازدی کہ اگراندر آنا ہے توجلدی سے اندر آجامیں حویلی کادروازہ بندہی کرنے لگاہوں ،میں نے (موقع غنیمت سمجھااور) جلدی سے حویلی کے اندر داخل ہوگیا اورقلعہ کے دروازے کے پاس ہی جہاں گدھے باندھے جاتے تھے وہیں چھپ کربیٹھ گیاجب سب لوگ اندرداخل ہوگئے توپھاٹک بندکردیا گیا پھر کنجیوں کاگچھاایک کھونٹی پرلٹکادیا،

وَكَانَ فِی عَلاَلِیَّ لَهُ، فَتَعَشَّوْا عِنْدَ أَبِی رَافِعٍ، وَتَحَدَّثُوا حَتَّى ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنَ اللیْلِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى بُیُوتِهِمْ، فَلَمَّا هَدَأَتِ الأَصْوَاتُ، وَلاَ أَسْمَعُ حَرَكَةً خَرَجْتُ،قَالَ: فَقُمْتُ إِلَى الأَقَالِیدِ فَأَخَذْتُهَا، فَفَتَحْتُ البَابَ فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَیَّ مِنْ دَاخِلٍ،قُلْتُ: إِنِ القَوْمُ نَذِرُوا بِی لَمْ یَخْلُصُوا إِلَیَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ،فَانْتَهَیْتُ إِلَیْهِ، فَإِذَا هُوَ فِی بَیْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِیَالِهِ، لاَ أَدْرِی أَیْنَ هُوَ مِنَ البَیْتِ،فَقُلْتُ: یَا أَبَا رَافِعٍ ،قَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَأَهْوَیْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّیْفِ وَأَنَا دَهِشٌ، فَمَا أَغْنَیْتُ شَیْئًا

ابورافع اپنے خاص بالاخانے میں تھا، قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھراسے قصے سناتے رہے جب کچھ رات گئے قصہ گوئی کی مجلس ختم ہوئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کولوٹ گئے، جب سناٹاچھاگیااورکہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی تومیں اس طویلہ سے باہرنکلا،میں نے قلعہ کی کنجی اپنے قبضہ میں لے لی اورپھرسب سے پہلے قلعہ کادروازہ کھولا اوردروازے کھولتاہوابالاخانہ جا پہنچااورحفاظت کے پیش نظرجودروازہ کھولتاتھاوہ اندرسے بند کرتا چلا جاتا تاکہ لوگوں کو میری خبرہوبھی جائے توتب بھی بے خوف وخطر اپناکام کرگزروں ،جب میں بالاخانہ پہنچاتووہاں اندھیراتھااورابورافع اپنے اہل وعیال میں بے خبرسو رہا تھا ، مجھے معلوم نہیں تھا کہ ابورافع کہاں اورکدھرہے (میں نے معلوم کرنے کے لئے آوازدی)اے ابورافع!ابورافع نے کہاکون ہے؟جس جانب سے آوازآئی تھی ڈرتے ڈرتے تلوارکاوارکیامگر میراوارخالی گیا

وَصَاحَ، فَخَرَجْتُ مِنَ البَیْتِ،فَأَمْكُثُ غَیْرَ بَعِیدٍثُمَّ دَخَلْتُ إِلَیْهِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الصَّوْتُ یَا أَبَا رَافِعٍ؟ فَقَالَ: لِأُمِّكَ الوَیْلُ، إِنَّ رَجُلًا فِی البَیْتِ ضَرَبَنِی قَبْلُ بِالسَّیْفِ،قَالَ: فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ، ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّیْفِ فِی بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِی ظَهْرِهِ ،فَعَرَفْتُ أَنِّی قَتَلْتُهُ،فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ، فَوَضَعْتُ رِجْلِی، وَأَنَا أُرَى أَنِّی قَدِ انْتَهَیْتُ إِلَى الأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِی لَیْلَةٍ مُقْمِرَةٍ ،فَانْكَسَرَتْ سَاقِی

ابورافع نے ایک چیخ ماری تومیں کمرے سے باہرنکل آیااورتھوڑی دیرتک باہرہی ٹھیرارہاپھرمیں دوبارہ اندرگیااور آوازبدل کر ہمدردانہ لہجہ میں کہااے ابو رافع یہ کیسی آواز ہے؟ابورافع نے جو ڈرا سہما ہوا تھاآواز نہ پہچانی اور بولاتیری ماں غارت ہوابھی مجھ پرکسی شخص نے تلوارکاوارکیاتھا،اب کی بارمیں نے احتیاط سے آواز کی سمت میں تلوار کا دوسراوارکیاجس سے اس کو کاری زخم لگا (ابھی وہ سنبھلنے ہی نہ پایاتھا کہ) میں نے تلوارکی دھار اس کے پیٹ پررکھ کراس زورسے دبائی کہ پیٹ کوکاٹتی ہوئی اس کی پشت تک پہنچ گئی جس سے مجھے یقین ہوگیاکہ میں اس کا کام تمام کر چکا ہوں ،چنانچہ میں واپسی کے لئے چلااورایک ایک کرکے بنددروازے کھولتاہواایک سیڑھی سے اترنے لگامیں یہ سمجھاکہ زمین قریب آگئی ہے (جبکہ زمین ابھی کافی نیچے تھی)اس لئے اترنے میں نیچے گر پڑا چاندنی رات تھی اور (بلندی سے گرنے کی وجہ سے ) پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ،

فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى البَابِ، فَقُلْتُ: انْطَلِقُوا فَبَشِّرُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّی لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِیَةَ،فَلَمَّا صَاحَ الدِّیكُ قَامَ النَّاعِی عَلَى السُّورِ، فَقَالَ: أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الحِجَازِ قَالَ: فَقُمْتُ أَمْشِی مَا بِی قَلَبَةٌ،فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِی، فَقُلْتُ: النَّجَاءَ، فَقَدْ قَتَلَ اللهُ أَبَا رَافِعٍ،فَانْتَهَیْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ:ابْسُطْ رِجْلَكَ فَبَسَطْتُ رِجْلِی فَمَسَحَهَا، فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ

میں نےعمامہ کھول کرٹانگ کوباندھااورلنگڑاتے ہوئےاپنے چھپے ہوئے ساتھیوں تک پہنچ گیااور انہیں کہاتم جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوابورافع یہودی کے قتل کی بشارت سناؤ میں یہیں بیٹھتاہوں اورصبح اس کے قتل اور موت کااعلان سن کرآؤں گا،جب صبح ہوئی اورمرغ نے اذان دی توقلعہ کی فصیل سے ایک پکارنے والے نے کھڑے ہوکرپکاراکہ اہل حجازکے تاجرابورافع کی موت کا اعلان کرتاہوں ،تومیں وہاں سے روانہ ہوا(خوشی کی وجہ سے )مجھے چلنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اورمیں اپنے ساتھیوں سے آکرمل گیا اورانہیں کہا تیزچلواللہ نے ابورافع کوہلاک کردیاچنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوش خبری سنائی اورتمام واقعہ بیان کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو کہا اپنی ٹانگ پھیلاؤ،میں نے اپنی ٹانگ پھیلادی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹوٹی ہوئی ٹانگ پراپنا دست مبارک پھیرامجھے ایسے معلوم ہواکہ گویا ٹانگ ٹوٹنے کی کبھی کوئی شکایت ہی نہیں ہوئی تھی۔[13]

مضامین سورۂ المجادلہ

اس سورةمیں متفرق مسائل بیان کیے گئے ہیں اوراس بات کی سختی کے ساتھ متنبہ کیاگیا ہے کہ اسلام کے بعدبھی جاہلیت کے طریقوں پرقائم رہنا،اللہ کی مقررکی ہوئی حدوں کوتوڑنا،یاان کی پابندی سے انکارکرنا،یاان کے مقابلے میں اپنی دانست اورسوچ کے مطابق کچھ گھڑلینااوراپنی من مرضی کی قواعدوضوابط قررکرلینا حدود شرعیہ سے تجاوزہے جس کاانجام دنیاوآخرت میں ذلت ورسوائی کے علاوہ اورکچھ نہیں ۔

xسورۂ کے اوائل میں ظہارکاقانون مذکورہے ،اس کے بعدان منافقین کوسرزنش کی گئی ہے جومسلمانوں کے خلاف سرگوشیاں کرتے اورمنصوبے بناتے رہتے تھے اوراس کے پہلوبہ پہلومسلمانوں کوتسلی دی کہ ان کی منصوبہ بندیاں ،سازشیں اوربددعائیں تمہاراکچھ نہیں بگاڑسکیں گی،مسلمانوں کوتلقین کی گئی کہ جب باہم مل کربیٹھیں تونیکی وتقویٰ اور اس کی اشاعت کی بات گفتگوہونی چاہیے۔

xآداب مجلس کے ضمن میں بتایاگیاکہ اگرمجلس میں کوئی نوواردآجائے تواس کوجہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے البتہ جولوگ مجلس میں پہلے سے موجودہیں ان کوہدایت کی گئی کہ خودغرضی اورتنگ دلی کامظاہرہ کرنے کے بجائے کھلے دل اورعالی ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے نئے آنے والوں کے لیے جگہ بناناچاہیے ۔

xآداب ملاقات کے ضمن میں بتایاکہ بعض لوگ اہل علم کے پاس جاکربیٹھتے ہیں تووہاں سے ہلنے کانام نہیں لیتے،ان کوہدایت کی گئی کہ دوسرے لوگوں اوراہل خانہ کے آرام وراحت کاخیال کرنالازم ہے کیونکہ بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول برکت کے لیے حاضرہوتے اورکئی پہروں تک بیٹھے رہتے تھے جس کے سبب سے کئی اہم معاملات التواء کاشکارہوجاتے تھے،نیزیہ کہ جب مجلس برخاست کرنے کوکہاجائے توبرانہیں مانناچاہیے۔

xمخلص اورمنافق کی علامات کے ذیل میں بیان فرمایاکہ جولوگ ذاتی اغراض ومفادات کے لیے اہل ایمان کے ساتھ تعلق رکھیں اورموقع ملنے پرکفارسے گٹھ جوڑکریں ، ان کی منصوبہ بندیوں اورسازشوں میں شریک ہوں اورایمان کوڈھال کے طورپراستعمال کریں تووہ حِزْبُ الشَّیْطَانِ ہیں اوران کاٹھکانہ جہنم ہے ،اس کے مقابل جولوگ اپنے معاملات وتعلیمات پرعمل کے سلسلے میں والدین،اولاد،اعزہ واقارب اوردوستی کالحاظ نہ کریں بلکہ تقاضائے دین پرعمل پیراہوں تووہ حِزْبَ اللهِ ہیں اوریہی طبقہ فلاح وسعادت پانے والاہے۔

xسعادت مندوں کے لیے اللہ تعالی نے چارنعمتوں کااعلان فرمایا۔

یہ کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کوجمادیاہے۔یہ کہ ان کی غیبی مددکی جائے گی۔یہ کہ انہیں جنت میں داخل کیاجائے گا۔یہ کہ اللہ ان سے راضی ہوگیاہے اوروہ بھی اللہ کی نعمتوں اورعطاپرراضی ہوگئے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُكَ فِی زَوْجِهَا وَتَشْتَكِی إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ ‎﴿١﴾‏ الَّذِینَ یُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِی وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَیَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ‎﴿٢﴾‏ وَالَّذِینَ یُظَاهِرُونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿٣﴾‏ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْكِینًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٤﴾‏(المجادلة)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے، تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں ) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے، یقیناً یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں ، بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے اوربخشنے والا ہے، جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمے آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعے تم نصیحت کئے جاتے ہو ،اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے، ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمے دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے، یہ اس لیے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم بردری کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی وہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لیے دردناک عذاب ہے۔

دورجاہلیت میں عربوں میں جب میاں بیوی میں کسی بات پرلڑائی ہوتی توشوہر غصہ میں اپنی بیوی کواپنے اوپرحرام کرنے کے لئے ظہارکرتے ہوئے کہتے،

جَعَلَهَا عَلَیْهِ كَظَهْرِ أُمِّهِ

تومیرے اوپرایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔[14]

 أَنْتِ عَلَیَّ كَظَهْرِ أُمِّی

تومیرے اوپرایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔[15]

 أَنْتُنَّ عَلَیْهِ كَظَهْرِ أُمِّهِ

تم میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہو۔[16]

إِنْ قَرَبْتُهَا سَنَةً فَهِیَ عَلَیْهِ كَظَهْرِ أُمِّهِ

ایک سال میں اپنی بیوی سے مباشرت کرنامیر ے لئے ایساہے جیسے میں اپنی ماں (بہن،بیٹی) سے مباشرت کروں ۔[17]

فِی الرَّجُلِ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: إِنْ قَرَبْتُكِ فَأَنْتِ عَلَیَّ كَظَهْرِ أُمِّی

مردکا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ اگرمیں تجھ سے مباشرت کروں توایساہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ۔[18]

وَكَانَتِ الْجَاهِلِیَّةُ إِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ یُفَارِقَ امْرَأَتَهُ قَالَ لَهَا: أَنْتِ عَلَیَّ كَظَهْرِ أُمِّی

دورجاہلیت میں جب مرداپنی بیوی سے علیحدگی کاارادہ کرتاتوکہتاتومیرے اوپرایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔[19]

أَن یَقُول الرجل لامْرَأَته: أنتِ علیَّ كَظهر أُمِّی

مردکا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تومیرے اوپرایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔[20]

اہل عرب کے ہاں یہ طلاق بلکہ اس سے بھی زیادہ شدیدقطع تعلق کااعلان سمجھاجاتاتھا،اسی بناپراہل عرب کے نزدیک طلاق کے بعدتورجوع کی گنجائش ہوسکتی تھی مگرظہارکے بعدرجوع کاکوئی امکان باقی نہیں رہتاتھاچنانچہ وہ عورت اس گھرمیں لٹکی رہتی تھی،نہ وہ اسے طلاق دے کرچھوڑتے کہ کہیں اورجگہ وہ اپناگھربسالے اور نہ ہی صحیح طرح اپنے گھرمیں بساتے، اسلام میں ایساواقعہ سلمہ بن صخربیاضی رضی اللہ عنہ سے ہوچکاتھا،

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِیبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا یُصِیبُ غَیْرِی،فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِیبَ مِنَ امْرَأَتِی شَیْئًا یُتَابَعُ بِی حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى یَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ،فَبَیْنَا هِیَ تَخْدُمُنِی ذَاتَ لَیْلَةٍ، إِذْ تَكَشَّفَ لِی مِنْهَا شَیْءٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَیْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِی فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ امْشُوا مَعِی إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالُوا: لَا وَاللهِ،فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ،فَقَالَ:أَنْتَ بِذَاكَ یَا سَلَمَةُ؟قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ یَا رَسُولَ اللهِ مَرَّتَیْنِ وَأَنَا صَابِرٌ لِأَمْرِ اللهِ، فَاحْكُمْ فِیَّ مَا أَرَاكَ اللهُ

سلمہ بن صخربیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ایساشخص تھاجوعورتوں کواس قدرآتاتھاکہ کوئی اورکیاآتاہوگایعنی میں بڑی جنسی قوت والاتھا،جب رمضان المبارک کامہینہ آیا تو مجھےاندیشہ ہواکہ بیوی کے ساتھ کچھ کرنہ بیٹھوں کہ صبح تک الگ ہی نہ ہوسکوں سومیں نے رمضان کے پورے مہینے کے لئے بیوی سے ظہارکرلیا،اتفاق سے ایک رات (پندرہ رمضان کو) وہ میری خدمت کررہی تھی کہ اس کے جسم کاکچھ حصہ میرے سامنے ظاہرہواتومیں ضبط نہ کرسکااوربیوی کے پاس چلا گیا،جب صبح ہوئی تومیں اپنی قوم کے پاس گیااورانہیں اپناقصہ بتایااورانہیں کہامیرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو،وہ کہنے لگے نہیں اللہ کی قسم !(ہم تونہیں جاتے)پھرمیں اپنی حرکت پرنادم ہوکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرماجراعرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہااےسلمہ رضی اللہ عنہ !ارے تونے؟میں نے عرض کیاہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے دوبار کہا اور میں اللہ کے حکم پرصابر(راضی)ہوں میرے بارے میں جواللہ آپ کوسجھائے فیصلہ فرمادیجئے،

قَالَ:حَرِّرْ رَقَبَةً،قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَیْرَهَا، وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِی،قَالَ: َصُمْ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ،قَالَ: وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِی أَصَبْتُ إِلَّا مِنَ الصِّیَامِ، قَالَ:فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَیْنَ سِتِّینَ مِسْكِینًاقُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَیْنِ مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ:فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِی زُرَیْقٍ فَلْیَدْفَعْهَا إِلَیْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّینَ مِسْكِینًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ وَكُلْ أَنْتَ وَعِیَالُكَ بَقِیَّتَهَافَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِی، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّیقَ، وَسُوءَ الرَّأْیِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ، وَحُسْنَ الرَّأْیِ، وَقَدْ أَمَرَنِی أَوْ أَمَرَ لِی بِصَدَقَتِكُمْ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک غلام آزادکردو،میں نے کہااللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے !میں توبس اسی کامالک ہوں اورمیں نے اپنی گردن کی ایک جانب پرہاتھ مارا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادومہینے کے متواترروزے رکھو،میں نے عرض کیااوریہ جوکچھ میرے ساتھ ہواہےروزوں ہی کی وجہ سے توہوا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوپھرایک وسق(ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اورایک صاع میں چارمد،اس حساب سے ایک صاع کاوزن تقریباًڈھائی کلواورایک وسق کاوزن تین من اور تیس کلواوربعض علماء کے نزدیک تین من اورچھ کلوہوگا)کھجورساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو،میں نے کہاقسم اس ذات کی جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے!ہم تواس قدرغریب ہیں کہ رات بغیر کھائے سوئے ہیں ،ہمارے پاس کھانے کوکچھ نہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتو بنی زریق کے صدقہ کرنے والے کے پاس چلے جاؤوہ تمہیں کچھ دے گاتواس میں سے ایک وسق کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینااورباقی اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لئے بھی رکھ لینا، چنانچہ میں اپنی قوم کے پاس واپس آیااورانہیں کہاکہ میں نے تمہارے پاس تنگی اوربری رائے پائی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے وسعت اوربہترین رائے ملی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے صدقے(لینے)کاحکم فرمایا ہے۔[21]

عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ یُكَفِّرَ فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ،فَقَالَ:مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ بَیَاضَ سَاقِهَا فِی الْقَمَرِقَالَ:فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ

اسی طرح کاواقعہ عکرمہ (مولیٰ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما )سے منقول ہےایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیاپھرکفارہ اداکرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کرلی،اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااوراپناواقعہ بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتونے ایساکیوں کیا؟کہنے لگامیں نے چاندنی میں اس کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ لی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ اب اس سے دوررہنا جب تک کفارہ ادانہ کردو۔[22]

عَنْ أَبِی تَمِیمَةَ الْهُجَیْمِیِّ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِامْرَأَتِهِ: یَا أُخَیَّةُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أُخْتُكَ هِیَ؟فَكَرِهَ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْهُ

ابوتمیمہ سے مرسل روایت ہےایک شخص نے اپنی بیوی کوکہااے بہن! تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے سے فرمایاکیایہ تیری بہن ہے ؟پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز گفتگو کو ناپسند کیا اوراس سے منع فرمایامگرآپ نے اسے ظہارقرارنہیں دیا۔[23]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ نےاسےضعیف کہاہے،خالدنے ابوتمیمہ سے نہیں سنادرمیان میں ایک شخص ہے اوروہ مجہول ہے۔

اوراب یہ واقعہ ہواکہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ کے بھائی اوس بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل متعددباراپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ بن مالک بعض روایات میں خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ نام آیاہے کوجوقبیلہ خزرج سے تعلق رکھتی تھیں سے ظہارکرچکے تھے مگراسلام کے بعدجب وہ بوڑھے ہوکرکچھ چڑچڑے ہوگئے تھے انہوں نے ایک بار کسی بات پر خفاہوکرکہاتم میرے اوپرایسی ہوجیسی میری ماں کی پیٹھ اوراسے ظہارکہتے ہیں ،پھروہ نادم ہوئے اوریہ جاہلیت کاظہاروایلاء طلاق تھا،الغرض ان کے شوہرنے کہاتومجھ پرحرام ہے،خولہ بنت ثعلبہ بہت پریشان ہوئیں کہ بوڑھاپے میں طلاق ہوگئی،اس وقت تک ظہارکی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہواتھا،چنانچہ وہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئیں اوراتنی مدہم آوازمیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا جوقریب ہی موجودتھیں ان کی آوازنہ سن سکیں اپنے شوہرکے ظہاراوراپنی بربادی ومصیبت کاقصہ عرض کیااوردریافت کیاکہ کیا میری اورمیرے بچوں کی زندگی کوتباہی سے بچانے کے لئے رخصت کاکوئی پہلونکل سکتاہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھےابھی تک اس مسئلہ میں کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے،بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیراخیال ہے کہ تم اس پرحرام ہوگئی ہو،خولہ رضی اللہ عنہا نے باربارجرات کے ساتھ عرض کیامگرانہوں نے طلاق کے الفاظ تونہیں کہے ہیں اس لئے میں ان پرحرام نہیں ہوئی، آپ کوئی ایسی صورت بتلائیں جس سے میں ،میرے بچے اورمیرے بوڑھے شوہرکی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے ، مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کووہی جواب دیتے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب سن کروہ روروکراللہ سے فریاد کرنے لگیں ،عین اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہوئی اوروحی کے بعدآپ نے فرمایا اے خولہ !تیرے اورتیرے خاوندکے بارے میں آیات نازل ہوئی ہیں پھرآپ نے’’اللہ نے سن لی  اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں شوہر میں تم سے تکرار کر ہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ تک پڑھ کرسنایا۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا فِی نَاحِیَةِ الْبَیْتِ، تَشْكُو زَوْجَهَا، وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُولُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُكَ فِی زَوْجِهَا}، [24]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں سب تعریفات اورحمدوثنا اللہ کے لئے ہیں جس کی سمع نے جمیع آوازوں کو گھیر لیا ہے ، البتہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورمیں حجرے کے ایک کونے میں موجودتھی اوروہ اپنے شوہرکی شکایت کررہی تھی اور(وہ اتنی دھمی آوازمیں بات کررہی تھی کہ)میں نہ سن سکتی تھی کہ وہ کیاکہہ رہی تھی،پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’اللہ نے سن لی  اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں شوہر میں تم سے تکرار کر ہی ہے۔ اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ نازل فرمائی۔ [25]

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ:تَبَارَكَ الَّذِی أَوْعَى سَمْعُهُ كُلَّ شَیْءٍ ، إِنِّی لاسْمَعُ كَلامَ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ ویَخْفَى عَلَیَّ بَعْضُهُ، وَهِیَ تَشْتَكِی زَوْجَهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهِیَ تَقُولُ: یا رسول الله أكل شبابی ، ونثرت لَهُ بَطْنِی، حَتَّى إِذَا كَبُرَتْ سِنِّی ، وَانْقَطَعَ وَلَدِی، ظَاهِرَ مِنِّی، اللهُمَّ إِنِّی أَشْكُو إِلَیْكَ، قَالَتْ: فَمَا بَرِحَتْ حَتَّى نَزَلَ جِبْرِیلُ بِهَذِهِ الْآیَةِ :قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُكَ فِی زَوْجِهَا، وَقَالَ: وَزَوْجُهَا أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہابابرکت ہے وہ ذات جس کے کان ہرچیزکوخوب سنتے ہیں ، میں خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی بات کوسن رہی تھی گوان کی بات کا کچھ حصہ میں نہ سن سکی تھی، وہ اپنے شوہرکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کرتے ہوئے کہہ رہی تھی،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(اس نے میرامال کھایا)میرے ساتھ جوانی کی زندگی کوبسرکیااور میرے بطن سے اس کے بچے پیداہوئےاوراب جبکہ میری عمرزیادہ ہوگئی ہےاوراولادکاسلسلہ منقطع ہوگیاہے اس نے مجھ سے ظاہر کرلیا ہے ، اے اللہ!میں تیرے حضوراپنی التجاکرتی ہوں ،عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ خولہ رضی اللہ عنہا ابھی موجودہی تھیں کہ جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کرنازل ہوگئے’’اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہرکے معاملہ میں تم سے تکرارکررہی ہے۔‘‘عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایاکہ ان کے شوہرکانام اوس بن صامت تھا۔[26]

عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ قَالَتْ: فِیَّ – وَاللهِ – وَفِی أَوْسِ بْنِ صَامِتٍ أَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ صَدْرَ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ،قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَهُ وَكَانَ شَیْخًا كَبِیرًا قَدْ سَاءَ خُلُقُهُ وَضَجِرَقَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَیَّ یَوْمًا فَرَاجَعْتُهُ بِشَیْءٍ فَغَضِبَ،فَقَالَ: أَنْتِ عَلَیَّ كَظَهْرِ أُمِّی،قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَ فَجَلَسَ فِی نَادِی قَوْمِهِ سَاعَةً ثُمَّ دَخَلَ عَلَیَّ، فَإِذَا هُوَ یُرِیدُنِی عَلَى نَفْسِی،قَالَتْ: فَقُلْتُ: كَلَّا وَالَّذِی نَفْسُ خُوَیْلَةَ بِیَدِهِ، لَا تَخْلُصُ إِلَیَّ وَقَدْ قُلْتَ مَا قُلْتَ حَتَّى یَحْكُمَ اللهُ وَرَسُولُهُ فِینَا بِحُكْمِهِ،قَالَتْ: فَوَاثَبَنِی وَامْتَنَعْتُ مِنْهُ، فَغَلَبْتُهُ بِمَا تَغْلِبُ بِهِ الْمَرْأَةُ الشَّیْخَ الضَّعِیفَ، فَأَلْقَیْتُهُ عَنِّی

سخویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےسورۂ المجادلة کاابتدائی حصہ اللہ تعالیٰ نے میرے اوراوس بن صامت کے بارے میں نازل فرمایاہے، میں اس کی بیوی تھی وہ بہت بوڑھا اور تندمزاج ہوگیاتھا،ایک دن وہ میرے پاس آیااورکسی چیزکے بارے میں میری اس سے تکرارہوگئی تووہ ناراض ہوگیااوراس نے کہاتومیرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہے، پھروہ گھرسے باہرنکل گیاکچھ دیراپنی قوم کی مجلس میں بیٹھارہاپھروہ میرے پاس آیااورمیرے نفس کامجھ سے مطالبہ کرنے لگا،تومیں نے کہاہرگزنہیں ،اس ذات کی قسم خویلہ کی جان جس کے ہاتھ میں ہے !تومیرے پاس نہیں آسکتاکیونکہ تونے جوکہناتھاوہ کہہ دیاہے لہذاجب تک اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں فیصلہ نہیں فرمادیتے تومجھے ہاتھ نہیں لگاسکتا،وہ میری طرف لپکامگرمیں نے اپنے آپ کواس سے دورکرلیااورمیں اس طرح اس پرغالب آگئی جس طرح عورت کسی بوڑھے لاغر پرغالب آجاتی ہے،بہرحال میں نے اسے اپنے آپ سے دورہٹایا

قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى بَعْضِ جَارَاتِی فَاسْتَعَرْتُ مِنْهَا ثِیَابَهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ مَا لَقِیتُ مِنْهُ،فَجَعَلْتُ أَشْكُو إِلَیْهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا أَلْقَى مِنْ سُوءِ خُلُقِهِ،قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یَا خُوَیْلَةُ، ابْنُ عَمِّكِ شَیْخٌ كَبِیرٌ فَاتَّقِی اللهَ فِیهِ،قَالَتْ: فَوَاللهِ مَا بَرِحْتُ حَتَّى نَزَلَ فِیَّ الْقُرْآنُ،فَتَغَشَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ یَتَغَشَّاهُ

پھرمیں اپنی ایک پڑوسن کے پاس گئی اوراس سے کپڑے مستعارلیے، اورپھراپنے گھرسے نکل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرآپ کے سامنے بیٹھ گئی اور میں نے سارا ماجراآپ کی خدمت میں پیش کیااوراس کی بدخلقی کی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کرفرمایااےخویلہ رضی اللہ عنہا !تمہارایہ بردارعم زادبہت بوڑھاہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرو،لیکن اللہ کی قسم!میں ابھی وہاں تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں قرآن نازل فرمادیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروہ کیفیت طاری ہوئی جووحی نازل ہونے کے وقت طاری ہوتی تھی،

ثُمَّ سُرِّیَ عَنْهُ فَقَالَ لِی:یَا خُوَیْلَةُ، قَدْ أَنْزَلَ اللهُ فِیكِ وَفِی صَاحِبِكِ،ثُمَّ قَرَأَ عَلَیَّ: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُكَ فِی زَوْجِهَا وَتَشْتَكِی إِلَى اللَّهِ، وَاللَّهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا، إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ}، [27]إِلَى قَوْلِهِ: {وَلِلْكَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ}،فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مُرِیهِ فَلْیُعْتِقْ رَقَبَةً، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ مَا عِنْدَهُ مَا یُعْتِقُ،قَالَ:فَلْیَصُمْ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ شَیْخٌ كَبِیرٌ مَا بِهِ مِنْ صِیَامٍ،قَالَ:فَلْیُطْعِمْ سِتِّینَ مِسْكِینًا، وَسْقًا مِنْ تَمْرٍا قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ مَا ذَاكَ عِنْدَهُ،

پھرجب یہ کیفیت ختم ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایااے خویلہ رضی اللہ عنہا !اللہ نے تمہارے اورتمہارے خاوندکے بارے میں (قرآن)نازل کیاہے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے’’اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں شوہر میں تم سے تکرار کر ہی ہے۔ سے لے کر’’ اور کافروں کے لیے درد ناک سزا ہے۔تک کی آیات پڑھ کرسنائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس سے کہوکہ وہ ایک غلام کوآزادکردے،میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس کے پاس آزادکرنے کے لیے کوئی غلام نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھروہ متواتردومہینے روزے رکھے،میں نے عرض کی اللہ کی قسم !وہ بہت بوڑھاہے وہ روزے نہیں رکھ سکتا،ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ساٹھ مسکینوں کوایک ایک وسق کھجوریں کھلا دے،میں نے عرض کی واللہ!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس کے پاس اتنی کھجوریں بھی نہیں ہیں

قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :فَإِنَّا سَنُعِینُهُ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَأَنَا یَا رَسُولَ اللهِ سَأُعِینُهُ بِعَرَقٍ آخَرَقَالَ:قَدْ أَصَبْتِ وَأَحْسَنْتِ، فَاذْهَبِی فَتَصَدَّقِی عَنْهُ ثُمَّ اسْتَوْصِی بِابْنِ عَمِّكِ خَیْرًاقَالَتْ: فَفَعَلْتُ

تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک ٹوکراکھجوروں کے ساتھ ہم اس کی مددکردیتے ہیں ،میں نے عرض کی کہ کھجوروں کے ایک ٹوکرے کے ساتھ میں بھی اس کی مددکردیتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابہت خوب جاؤاوریہ کھجوریں اس کی طرف سے صدقہ کردواورپھراپنے برادر عم زادکے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو،خویلہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے اسی طرح کیا۔[28]

جس میں فرمایااے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !جوعورت آپ سے اپنے شوہرکے بارے میں تکرار اوراللہ سے شکایت کرتی تھی اللہ نے اس عورت کی دعاسن کرقبول کرلی جواپنے شوہرکے بارے میں آپ سے مجادلہ کررہی تھی ،اللہ مخلوقات کی فریادوں کو سننے اوران کی حالتوں کو دیکھنے والاہے، اللہ نے جاہلیت کے اس قانون کومنسوخ کر دیااور فرمایاکہ تم میں سے جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کے’’تجھ سے مباشرت کرنامیرے لیے ایساہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ۔‘‘کہنے سے وہ ان کی مائیں ،بہن یابیٹی نہیں بن جاتیں ،نہ اس کووہ حرمت حاصل ہوسکتی ہے جوماں کوحاصل ہے تمہاری مائیں توصرف وہی ہی ہیں جنہوں نے تمہیں جنم دیا ہے ، اپنا دودھ پلایاہے اوران کوہی یہ ابدی حرمت حاصل ہے،یہ لوگ اپنی بیوی کوماں بہن یابیٹی سے تشبیہ دے کرنہایت بیہودہ اورشرمناک اورجھوٹی بات منہ سے نکالتے ہیں حقیقت تویہ ہے کہ ایسے شخص کوسخت سزاملنی چاہیے لیکن اللہ نے جاہلیت کے اس قانون کومنسوخ کرکے تمہاری خانگی زندگی کوتباہی سے بچالیا،اللہ وحدہ لاشریک ہی تمہارے گناہوں کومعاف فرمانے والا اورتمہاری لغزشوں ، کوتاہیوں سے درگزرفرمانے والا ہے ، اس لئے اس نے کفارے کواس قول منکراورجھوٹ کی معافی کاذریعہ بنا دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان لغواورغلط کلمات کے کفارہ کی تفصیل بیان فرمایاکہ جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں یعنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیاتھاپھررجوع کرناچاہیں یعنی پھراسے پلٹ کراپنے لئے حلال کرناچاہیں تو مباشرت کرنے سے قبل بطور کفارہ ایک غلام (چاہئے مردہویاعورت مگرمومن ہو)آزادکرناہوگا،یہ حکم تمہاری تادیب کے لئے دیاجارہاہے تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ جاہلیت کی اس بری عادت کو چھوڑ دیں اورتم میں سے کوئی شخص اس بیہودہ حرکت کاارتکاب نہ کرے،اوراگرچپکے سے ظہار کرو گے اوربغیرکفارہ مباشرت کروگے تواللہ تمہارے عملوں سے پوری طرح باخبرہے ،لہذاوہ ہرعمل کرنے والے کواس کے عمل کی جزاوسزادے گا ، اوراگرکوئی شخص غلام آزادکرنے کے لئے غلام نہ پائے یااس کی استعدادنہ رکھتاہوتومجامعت سے پہلے بطورکفارہ دومہینے مسلسل بغیر منقطع کیے روزے رکھےاورجوشخص روزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتاہو یعنی بڑھاپے ،مرض یامباشرت سے پرہیزنہ کر سکتا ہوتو وہ مروج خوراک میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھا دے،

وَلَا یَلْزَمُهُ أَنْ یَجْمَعَهُمْ مَرَّةً وَاحِدَةً، بَلْ یَجُوزُ لَهُ أَنْ یُطْعِمَ بعض الستین فی یوم، وَبَعْضَهُمْ فِی یَوْمٍ آخَر

ایک ہی مرتبہ ساٹھ مسکینوں کوکھلانابھی ضروری نہیں بلکہ متعدداقساط میں یہ تعدادپوری کی جاسکتی ہے۔[29]

تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعدادپوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائزنہیں ، جوشخص اللہ کے اس حکم کو سننے کے بعدبھی جاہلیت کے پرانے رواجی قانون کی پیروی کرتارہے اس کایہ طرزعمل ایمان کے منافی ہوگا ،یہ اللہ کی مقررکردہ حدودہیں ،ان کی پابندی کرواورجوکفرکریں یعنی اللہ کی حدودکاانکارکریں توایسے لوگوں کے لئے دنیاوآخرت میں دردناک عذاب ہے، جیساکہ حج کی فرضیت کاحکم دینے کے بعد فرمایا

۔۔۔ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۝۹۷ [30]

ترجمہ:اور جو کفر کرے ( یعنی اس حکم کی اطاعت نہ کرے)تواللہ دنیاوالوں سے بے نیازہے۔

ظہارکے مسائل

xاگرکوئی شخص ماں کے علاوہ دیگرمحرمات مثلاًبیٹی،بہن،پھوپھی اورخالہ وغیرہ کے ساتھ تشبیہ دے توکیاظہارہوجائے گا۔

عَنْ أَبِی حَنِیفَةَ وَأَصْحَابِهِ وَالْأَوْزَاعِیِّ وَالثَّوْرِیِّ وَالْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ وَزَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ وَالنَّاصِرِ وَالْإِمَامِ یَحْیَى وَالشَّافِعِیِّ فِی أَحَدِ قَوْلَیْهِ أَنَّهُ یُقَاسُ الْمَحَارِمُ عَلَى الْأُمِّ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب اورامام اوزاعی رحمہ اللہ ،ثوری رحمہ اللہ ،حسن بن صالح رحمہ اللہ ،زیدبن علی رحمہ اللہ ، ناصر رحمہ اللہ اور امام یحیی رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ دیگرمحارم کوبھی ماں پرقیاس کیا جائے گا،ایک روایت کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے۔

جمہورکاموقف ہے کہ ظہار صرف ماں کے ساتھ خاص ہے جیساکہ قرآن میں اُمَّهٰتِهِمْ کاہی ذکرہے۔[31]

اوریہی موقف راجح ہے۔[32]

مگر اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے میں دونوں احتمال ہیں یعنی معززہونے میں بھی ماں کی طرح ہوسکتی ہے اورحرام ہونے میں بھی

فلا یقع ظهارا لعدم نیته له

اس کاحکم نیت کے ساتھ ملحق ہے اگریہ الفاظ کہنے والوں کونیت ظہارکی ہوگی توظہارہوجائے گابصورت دیگر نہیں ہوگا۔[33]

چنانچہ ظہارکرنے والااگررجوع کرے گاتوقرآن کےمطابق

وَالَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّـتَـمَاۗسَّا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۳فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَـاۗسَّا۝۰ۚ فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِـتِّیْنَ مِسْكِیْنًا۔۔۔۝۰۝۴ [34]

ترجمہ:جولوگ اپنی بیویوں سے ظہارکریں پھراپنی بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی(یعنی اس بات کاتدارک کرناچائیں جوانہوں نے کہی تھی یایہ کہ اس چیزکواپنے لئے حلال کرناچاہیں جسے یہ بات کہہ کرانہوں نے حرام کرناچاہا تھا ) توقبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کوہاتھ لگائیں ایک غلام آزاد کرنا ہو گا،اس سے تم کونصیحت کی جاتی ہے اورجوکچھ تم کرتے ہواللہ اس سے باخبرہے ،اورجوشخص غلام نہ پائے وہ دومہینے کے پے درپے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کوہاتھ لگائیں ، اورجواس پربھی قادرنہ ہوں وہ ساٹھ مسکینوں کوکھاناکھلائے۔

پہلے غلام آزاد کرے ،اگریہ نہیں کرسکتاتودوماہ کے مسلسل روزے رکھے یاپھرساٹھ مساکین کوکھاناکھلائے(یعنی دووقت کاپیٹ بھرکرکھانادے خواہ پکاہواہویاسامان خوراک کی شکل میں )سلمہ بن صخربیا ضی سے مروی روایت میں بھی یہی کفارہ اسی قرآنی ترتیب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیاہے۔[35]

عَلَى التَّرْتِیبِ الْإِعْتَاقُ ثُمَّ الصِّیَامُ ثُمَّ الْإِطْعَامُ

کفارہ دیتے ہوئے مذکورہ ترتیب کاملحوظ رکھناواجب ہے ۔

xکیاکفارے میں غلام کامومن ہوناضروری ہے۔

لِأَنَّ اللهَ تَعَالَى أَطْلَقَ الرَّقَبَةَ فِی هَذِهِ الْكَفَّارَةِ، فَوَجَبَ أَنْ یُجْزِئَ مَا تَنَاوَلَهُ الْإِطْلَاقُ،أَنَّهُ لَا یُجْزِئُ عَنْ الرَّقَبَةِ الَّتِی عَلَیْهِ إلَّا مُؤْمِنَةٌ، وَلِأَنَّهُ تَكْفِیرٌ بِعِتْقٍ، فَلَمْ یَجُزْ إلَّا مُؤْمِنَةً، كَكَفَّارَةِ الْقَتْلِ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہےکہ کافرغلام بھی کفایت کرجائے گاکیونکہ قرآن میں مطلقاًرَقَبَةٍ کوئی گردن کاحکم ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کاموقف ہے غلام کامومن ہوناضروری ہے رَقَبَةٍ کوقتل کے کفارے رَقَبَةٍ مومنة کے ساتھ مقیدکیاجائے گا۔[36]

راجح یہ ہے کہ غلام کا مومن ہوناضروری نہیں ۔

xروزوں کاتسلسل برقراررہے۔

یعنی اگردرمیان میں بغیرکسی شرعی عذر(بیماری یاسفروغیرہ)کے روزہ چھوڑدیاتونئے سرے سے پورے دوماہ کے روزے دوبارہ رکھنے پڑیں گے۔

بَطَلَ التَّتَابُعُ فِی قَوْلِ الشَّافِعِیِّ،وَقَالَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِیفَةَ: یَبْطُلُ بِكُلِّ حَالٍ وَوَجَبَ عَلَیْهِ ابْتِدَاءُ الْكَفَّارَة

امام شافعی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ،امام مالک اورابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ بیماری کی وجہ سے بھی اگرروزہ چھوڑاتونئے سرے سے روزے رکھے گا۔[37]

xکفارے کی ادائیگی سے پہلے ہم بستری کرنا۔

کفارے سے پہلے ہم بستری جائزنہیں ،کیونکہ قرآن کے مطابق ہم بستری سے قبل ایک غلام آزادکرنایا جماع سے پہلے لگاتار دو ماہ کے روزے رکھنالازم ہےالبتہ مساکین کو کھلانے سے پہلے یہ قیدنہیں ،لہذااگرروزوں کی تکمیل سے پہلے ہم بستری کرلی تونئے سرے سے مکمل روزے رکھے گااوراگر ساٹھ مساکین کومکمل کرنے سے پہلے ہم بستری کر لی تودوبارہ پہلے مسکین سے کھلاناشروع نہیں کرے گا۔

xہرمسکین کوکتناکھاناکھلایاجائے۔

قال ابن عبد البرّ: والأفضل مُدَّان بمُدِّ النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم

ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ افضل یہ ہے کہ (ہرمسکین کو) دومدکھانا کھلایا جائے۔[38]

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ ہرمسکین کوایک صاع ( تقریباً اڑھائی کلو)کھجوریامکئی،جویامنقی کھلانایانصف صاع گندم کھلاناواجب ہے۔

 إنَّ الْوَاجِبَ لِكُلِّ مِسْكِینٍ مُدٌّ

امام شافعی رحمہ اللہ کوکہناہے ہرمسکین کے لئے ایک مددیناواجب ہے۔ [39]

اوریہی راجح کہ ہرمسکین کواتناکھاناکھلایاجائے جس سے وہ شکم سیرہوجائے۔

xکیاتمام مساکین کواکٹھاکھاناکھلانا ضروری ہے یا وقفے وقفے سے بھی کھلایاجاسکتاہے۔

ساٹھ مساکین کوایک دن اکٹھاکھاناکھلاناضروری نہیں بلکہ وقفے وقفے سے بھی کھلایاجاسکتاہے یاایک آدمی کوساٹھ دن کھلایاجاسکتاہے۔

ولا یجزىء عند مالك، والشافعی رَضِیَ اللهُ عَنْهما أن یطعم أقل من ستین مسكیناً وقال أبو حنیفة رَضِیَ اللهُ عَنْه: لو أطعم مسكیناً واحداً كل یوم نصف صاعٍ حتى یكمل العدد أجزأه وعن أحمد رَضِیَ اللهُ عَنْه إذا لم یجد إلاَّ مسكیناً واحداً ردد علیه بعدد الأیام.

امام مالک رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ ساٹھ مساکین سے کم کوکھاناکھلادیناکفایت نہیں کرے گا۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ اگرایک ہی مسکین کوروزانہ نصف صاع کھلا دے حتی کہ عددمکمل کردے توکفایت کرجائے گا۔امام احمد رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ اگرایک شخص کوصرف ایک ہی مسکین ملے اوروہ اسے ساٹھ دنوں کی تعدادکے برابرکھاناکھلادے تو درست ہے۔[40]

xاگرکوئی شخص فقیرہو،روزے کی طاقت نہ رکھتاہوتوکیاحاکم کے لئے جائزہے کہ بیت المال سے اس کی اعانت کرےاورکیاوہ شخص اعانت کے مال کواپنے اوراپنے اہل وعیال پرصرف کرسکتاہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ بن صخربیاضی رضی اللہ عنہ کوان کے بھوک وافلاس کی التجاکرنے پرانہیں صدقے کی کھجوریں دینے کاحکم دیااورانہیں کہا

فَأَطْعِمْ سِتِّینَ مِسْكِینًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ وَكُلْ أَنْتَ وَعِیَالُكَ بَقِیَّتَهَا

ساٹھ مساکین کوکھلادواوراس سے جو باقی بچ جائے خودبھی کھاؤاوراپنے گھروالوں کوبھی کھلاؤ۔[41]

xاگرظہارمقررمدت تک ہوتوکیاوہ صرف مدت کے ختم ہونے پرہی ختم ہوجائے گا۔

ظہارکی مدت مقررہویانہ ہوہرصورت میں کفارہ واجب ہے کیونکہ کتاب وسنت میں مطلقاًکفارہ ظہارکاحکم دیاگیاہے اورایسی کوئی تقسیم کہیں موجودنہیں ۔

xاگرکوئی شخص کفارے سے پہلے ہم بستری کرلے تو؟

عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ یُكَفِّرَ فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ،قَالَ: رَأَیْتُ بَیَاضَ سَاقِهَا فِی الْقَمَرِ قَالَ : فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ

عکرمہ سے مروی ہےایک آدمی نے اپنی بیوی سے ظہارکیااورپھرکفارہ اداکرنے سے پہلےاس سے ہم بسترہوگیاپھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیاکہ میں نے کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی فَقَالَ:مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتونے ایساکیوں کیا؟ کہنے لگامیں نے چاندنی میں اس کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ لی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب اس وقت تک اس کے پاس نہ جاناجب تک کہ اپناکفارہ ادانہ کرلو۔[42]

وقد وقع الخلاف أیضا إذا وطئ المظاهر قبل التكفیر، فقیل: تجب علیه كفارتان، وقیل: ثلاث، وقیل: تسقط الكفارة، وذهب الجمهور إلى أن الواجب كفارة واحدة ؛ وهو الحق كما تفیده الأدلة المذكورة

پس ثابت ہواکہ کفارے کی ادائیگی سے قبل عورت سے مباشرت جائزنہیں اوراس پراتفاق ہے لیکن اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اگرکوئی کفارے کی ادائیگی سے پہلے مباشرت کرلے توایک ہی کفارہ اداکرے گایادگنا،بعض علماکہتے ہیں کہ اس پردوکفارے اداکرنالازم ہے ،بعض کہتے ہیں کہ تین کفارے اداکرے گا،بعض کے نزدیک ہم بستری سے کفارہ ہی ساقط ہوجائے گا اورجمہور علماءایک ہی کفارے کوواجب کہتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا ادلة اس کی تائید کرتی ہیں ۔

جمہوراورائمہ اربعہ کا موقف ہے کہ ایسے شخص پرصرف ایک کفارہ ہی واجب ہے۔[43]

اوریہی قول راجح ہے۔

إِنَّ الَّذِینَ یُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنزَلْنَا آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِرِینَ عَذَابٌ مُّهِینٌ ‎﴿٥﴾‏ یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۚ أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ‎﴿٦﴾‏أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۖ مَا یَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَیْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ یُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٧﴾(المجادلة)
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کیےگئے تھے،اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لیے تو ذلت والا عذاب ہے،جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھائے گا پھر انہیں ان کے کئے ہوئے عمل سے آگاہ کرے گا ،جسے اللہ نے شمار کر رکھا ہے جسے یہ بھول گئے تھے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے، تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے، اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے، اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔

اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کوذلت آمیزعذاب کی وعیدسنائی فرمایاجولوگ اللہ اوراس کے رسول کی مخالفت ونافرمانی کرتے ہیں ،یعنی جو اللہ کی مقررکی ہوئی حدوں کونہیں مانتے اورکچھ دوسری حدیں مقررکرلیتے ہیں ،

اِنَّ الَّذِیْنَ یُخالِفُونَ الله فِی حُدُودَهُ وفَرَائِضَهُ، فَیَجْعَلُونَ حُدُودًا غیر حُدُودَهُ

ابن جریرطبری نے اس کی تفسیریوں کی ہےوہ لوگ جواللہ کی حدوداوراس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اوراس کی مقررکی ہوئی حدوں کی جگہ دوسری حدیں تجویزکرلیتے ہیں ۔[44]

إِنَّ الَّذِینَ یُحَادُّونَ اللهَ وَرَسُولَهُ یعادونهما فإن كلاً من الْمُتَعَادِیَیْنِ فی حد غیر حد الآخر، أویَضَعُونَ أو یَخْتَارُونَ حُدُودًا غیر حُدُودَهُمَا

بیضاوی رحمہ اللہ نے اس کی تفسیریوں کی ہے جو لوگ اللہ اوراس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں یاان کی مقررکی ہوئی حدوں کے سوادوسری حدیں خودوضع کرلیتے ہیں یادوسروں کی وضع کردہ حدوں کواختیارکرتے ہیں ۔[45]

آلوسی رحمہ اللہ نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیرسے اتفاق کیاہے۔[46]

وہ اسی طرح ذلیل وخوارکیے جائیں گے جیساکہ گزشتہ امتوں کو جب انہوں نے اللہ کی شریعت کے خلاف خودقوانین بنائے یااللہ کی شریعت کے خلاف دوسروں کے بنائے ہوئے قوانین کواختیارکیاتب وہ اللہ کے فضل اوراس کی نظرعنایت سے محروم ہوئے، ان کے اعمال کے سبب ان کو ذلیل ورسوا کردیاگیا ، اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اوربراہین نازل فرمادیئے ہیں جس کسی نے ان کی اتباع کی اوران پرعمل پیراہواوہی ہدایت یافتہ ہوگااوران آیات کاانکارکرنے والوں کے لئے دنیا کی ذلت ورسوائی کے بعدآخرت میں بھی اہانت والاعذاب دیاجائےگا،جس روزاللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کوان کی قبروں سے دوبارہ زندہ فرماکر میدان محشر میں جمع کرے گااور ان کوان کے اچھے یابرے اعمال سے آگاہ فرمائے گا، وہ اپنے ہرطرح کےاعمال فراموش کرچکے ہیں مگران کے بھول جانے سے معاملہ رفت گزشت نہیں ہوگیاہے ،اللہ کے نزدیک یہ کوئی معمولی چیزنہیں ہے،اس نے ان لوگوں کے ہرطرح کے اعمال لوح محفوظ میں درج کررکھے ہیں جس کی حفاظت پر معززفرشتے مامورہیں ،اللہ تمام ظاہری باتوں اور چھپی ہوئی چیزوں کو دیکھتاہے،منافقین کے طرزعمل پرگرفت کی گئی جومسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اورفتنے برپاکرنے کے لئے خفیہ سرگوشیوں کرتے اور نئی نئی افواہیں گھڑتے رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے لامحدودعلم کے بارے میں خبردی اورآگاہ فرمایاکہ اس کاعلم آسمانوں اورزمین کی ہرچھوٹی بڑی چیزکااحاطہ کئے ہوئے ہے،یقین رکھیں وہ ایسی ہستی ہے کہ اگرکسی جگہ تین اشخاص نہایت پاشیدگی کے ساتھ باتیں کریں مگرچوتھاوہ ہوتاہے ،نہ کہیں پانچ اشخاص کی سرگوشی ہوتی ہے مگر چھٹا وہ ہوتاہے ،نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ اشخاص سرگوشی کرتے ہیں بہرحال وہ ان کے ساتھ ہوتاہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں چاہئے یہ خلوت میں ہوں یا جلوت میں ،شہروں میں ہوں یاجنگل صحراؤں میں ،آبادیوں میں ہوں یابے آباد پہاڑوں ، بیابانوں اور غاروں میں ،وہ ان کے حال سے مطلع ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَہُوَمَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۴ [47]

ترجمہ: وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۷۸ۚ [48]

ترجمہ:کیالوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگیوں کواوران کی سرگوشیوں کوبخوبی جانتاہے اور اللہ تعالیٰ تمام غیبوں پراطلاع رکھنے والاہے ۔

اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ۝۰ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَكْتُبُوْنَ۝۸۰ [49]

ترجمہ: کیا ان کایہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اورخفیہ مشوروں کوسن نہیں رہے؟برابرسن رہے ہیں اورہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجودہیں جولکھتے جارہے ہیں ۔

پھرروزقیامت اللہ ان کوان کے اعمال کے مطابق جزادے گا،نیک کواس کی نیکیوں کی جزااوربدکواس کی بدیوں کی سزا ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَیَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللَّهُ وَیَقُولُونَ فِی أَنفُسِهِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ یَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿٨﴾‏(المجادلة)
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں اور آپس میں گناہ کی اور ظلم کی زیادتی کی اورنافرمانی پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں ، اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہااور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا، ان کے لیے جہنم کافی( سزا) ہے جس میں یہ جائیں گے، سو وہ برا ٹھکانا ہے۔

جب مسلمان منافقین ویہودکے پاس سے گزرتے تویہ باہم سرجوڑکراس طرح سرگوشیاں اورکاناپھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شایدان کے خلاف یہ کوئی سازش کررہے ہیں ،یامسلمانوں کے کسی لشکرپردشمن نے حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچایاہے جس کی خبران کے پاس پہنچ گئی ہے ،یااکیلامسلمان یہ گمان کرتاکہ شایدیہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کررہے ہیں ،یامیرے خلاف اورایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں ،مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہوجاتے ،جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو سرگوشیوں ،کاناپھوسی سے منع فرمادیاتھامگرکچھ ہی عرصہ بعدانہوں نے پھریہ مذموم سلسلہ شروع کردیا توبراہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہواجس میں منافقوں کی بدفطرتی پران کوتنبیہ کی گئی کہ کیاآپ نے ان لوگوں کونہیں دیکھاجنہیں مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے خفیہ منصوبے بنانے،بے سروپاافواہیں پھیلانے سے منع کردیاگیاتھامگروہ اپنی حرکتوں سے بازنہیں آئے اوربرابرچھپ چھپ کرغیبت،الزام تراشی،بے ہودہ گوئی ،ایک دوسرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پراکسانے،اوراسلام کی مخالفت کے منصوبوں پرکاربندہیں ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ منافقین اوریہوددونوں نے سلام کایہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا کہ جب حاضر ہوتے توالسَّلَامُ عَلَیْكَ کے تلفظ کوبگاڑ کر السَّامُ عَلَیْكُمْ یاعَلَیْكَ کہتے یعنی دعاکے بجائے کہتے تجھے موت آئے۔[50]

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواب میں صرف یہ فرمایاکرتے تھے وَعَلَیْكُمْ یاوَعَلَیْكَ(اورتم پرہی ہو)۔

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ یَهُودِیًّا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مَعَ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: السَّامُ عَلَیْكُمْ فَرَدَّ عَلَیْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَدْرُونَ مَا قَالَ؟قَالُوا: نَعَمْ ،قَالَ: السَّامُ عَلَیْكُمْ، قَالَ: رُدُّوا عَلَیَّ الرَّجُلَ،فَرَدُّوهُ،فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُلْتَ: كَذَا وَكَذَا؟قَالَ: نَعَمْ،فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَلَّمَ عَلَیْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقُولُوا: عَلَیْكَ أَیْ: عَلَیْكَ مَا قُلْتَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب  رضی اللہ عنہم کی مجلس میں تشریف فرماتھے کہ ایک یہودی نے آکرکہاصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے جواب دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے دریافت کیااس نے کیا کہاتھا؟انہوں نے کہاسلام کیاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں اس نے کہاتھا تمہارادین مغلوب ہو،پھرآپ نے حکم دیاکہ اس یہودی کوبلاؤ، جب وہ آگیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسچ سچ بتاکیاتونے السام علیکم نہیں کہاتھا؟اس نے کہاہاں میں نے یہی کہاتھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کبھی کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے توتم جواب میں کہا کروتونے جوکہاہے وہ تجھ پرہی واردہو۔[51]

أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ الیَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَیْكُمْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ: وَعَلَیْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَهْلًا یَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الأَمْرِ كُلِّهِ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قُلْتُ: وَعَلَیْكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے السَّامُ عَلَیْكُمْ کہایعنی السَّلَامُ عَلَیْكُ کاتلفظ کچھ اس اندازسے کہاکہ سننے والاسمجھے سلام کہاہے،مگردراصل انہوں نے السَّامُ کہاتھاجس کے معنی موت کے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایاتم پربھی،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اس کامفہوم سمجھ گئی اورمیں نے جواب دیاموت تمہیں آئے اوراللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے، فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاٹھیرو اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اورملائمت کو پسند کرتا ہے،میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سنانہیں کہ انہوں نے کیاکہاتھا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے ان سے کہہ دیااورتم پربھی۔[52]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک بدترین خصلت بیان فرمائی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ نے توسلام کاطریقہ یہ بتلایاہے کہ تم السَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ کہولیکن یہ منافقین ویہودجب آپ کے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جو اللہ نے نہیں بتلایا،اللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت کے تحت منافقین ویہودکی ریشہ دانیوں پرانہیں ڈھیل فرما رہا تھا جس پروہ یہ سمجھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ،اگریہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبرہوتے تو ہماری شب وروز اس طرح کی قبیح حرکتوں ،چال بازیوں پراللہ کاعذاب نازل ہوجاناچاہیے تھا،اللہ تعالیٰ نے فرمایااگراللہ نے اپنی مشیت اورحکمت بالغہ کے تحت دنیامیں ان کوفوری گرفت نہیں فرمائی توکیایہ آخرت میں جہنم کے دردناک ، ہولناک عذاب سے بھی بچ جائیں گے ؟نہیں یقینانہیں ،جہنم ان کی منتظرہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوں گے ،اورجہنم بہت ہی براٹھکاناہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٩﴾‏ إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّیْطَانِ لِیَحْزُنَ الَّذِینَ آمَنُوا وَلَیْسَ بِضَارِّهِمْ شَیْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١٠﴾‏(المجادلة)
اے ایمان والو ! تم جب سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیاں گناہ اور ظلم (زیادتی) اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہو بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے، (بری)سرگوشیاں پس شیطانی کام ہے جس سے ایمانداروں کو رنج پہنچے، گو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایمان والوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ رکھیں ۔

مومن کی سرگوشی :اللہ تعالیٰ نے مومنوں کوآداب سکھائے کہ اگرتم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہوتو تم منافقوں اوریہودیوں کی طرح گناہ ،زیادتی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ،اللہ کی مقررفرمائی ہوئی حدوں کی خلاف ورزی اورکاناپھوسی وغیرہ جس سے مسلمانوں کوتکلیف ہوکے کام نہ کروبلکہ آپس میں ایسی باتوں کروجس میں خیرہی خیر ہو اور جواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پرمبنی ہو،گناہ ،سرکشی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پرمبنی سرگوشیاں توایک شیطانی کام ہے کیونکہ شیطان ہی ان پرآمادہ کرتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کوغم وحزن میں مبتلاکرے،لیکن یہ سرگوشیاں اورشیطانی حرکتیں مومنوں کوکچھ نقصان نہیں پہنچاسکتیں الایہ کہ اللہ کی مشیت ہو،اس لئے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہواکروبلکہ اللہ پرہی بھروسہ رکھو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب مجلس کی تعلیم فرمائی ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كُنْتُمْ ثَلاَثَةً، فَلاَ یَتَنَاجَى رَجُلاَنِ دُونَ الآخَرِ حَتَّى تَخْتَلِطُوا بِالنَّاسِ، أَجْلَ أَنْ یُحْزِنَهُ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود سے مروی ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم تین آدمی ہوتودومل کرکان میں منہ ڈال کرباتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤاس سے تیسرے کادل میلاہوگا۔[53]

اور اگرساتھی کی اجازت ہو توپھرکوئی حرج نہیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ، فَلَا یَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جب تم تین آدمی ہوتوتم تین آدمیوں میں سے دوتیسرے کی مرضی کے بغیر سرگوشی نہ کرو۔[54]

بلکہ ان کے برخلاف نیکی اور خوف خداکی باتیں کرو ،ایک وقت مقررپرتمہیں موت آئے گی اورپھرجب اللہ چاہئے گا تمہیں تمہاری قبروں سے دوبارہ جسم وجاں کے ساتھ کھڑاکرے گا،اعمال کی جزاکے لئےمیدان محشرمیں انصاف کا ترازوقائم کردیاجائے گاجس کے پلڑے میں تمہارے اعمال تولے جائیں گے اور تمہیں ہرچھوٹی ،معمولی نیکی وبدی کی جزاوسزادے گا،جیسے فرمایا

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [55]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگاجن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گےاور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گےکیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ [56]

ترجمہ:اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیاوہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۶ فَہُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭوَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۸ۙفَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ۝۹ۭوَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِیَہْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ ۧ [57]

ترجمہ:پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ دل پسند عیش میں ہوگا،اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی اور تمہیں کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟بھڑکتی ہوئی آگ۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [58]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

اورمومنوں کواللہ ہی پربھروسہ رکھنا چاہیے ،

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ المَازِنِیِّ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا أَمْشِی، مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا آخِذٌ بِیَدِهِ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: كَیْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی النَّجْوَى؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ یُدْنِی المُؤْمِنَ، فَیَضَعُ عَلَیْهِ كَنَفَهُ وَیَسْتُرُهُ، فَیَقُولُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ أَیْ رَبِّ، حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ، وَرَأَى فِی نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ، قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَیْكَ فِی الدُّنْیَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الیَوْمَ، فَیُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الكَافِرُ وَالمُنَافِقُونَ، فَیَقُولُ الأَشْهَادُ: {هَؤُلاَءِ الَّذِینَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ}،[59]

صفوان بن محرززمانی نے بیان کیامیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جارہاتھاکہ ایک شخص سامنے آیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا آپ نے (قیامت میں اللہ اوربندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی کے بارے میں کیاسناہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ روزقیامت اللہ تعالیٰ مومن کواپنے قریب بلائے گااوراس پر اپناپردہ ڈال دے گااوراسے چھپالے گااللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گاکیاتجھ کوفلاں گناہ یادہے؟کیافلاں گناہ تجھ کویادہے؟ مومن کہے گاہاں اے میرے پروردگار!آخرجب وہ اپنے گناہوں کااقرارکرلے گااوراسے یقین ہوجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا،اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گادنیامیں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اورآج بھی میں  تیری مغفرت کرتاہوں ، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کانامہ اعمال دیاجائے گالیکن کفارومنافق کے متعلق توگواہ (ملائکہ،انبیاء اورتمام جن وانس)پکارکرکہہ دیں گے ’’ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگارپر جھوٹ باندھاتھا خبردارہوجاؤان ظالموں پراللہ کی لعنت ہے۔‘‘[60]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قِیلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِیلَ انشُزُوا فَانشُزُوا یَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿١١﴾‏(المجادلة)
اے مسلمانو ! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشادہ کردو اللہ تمہیں کشادگی دے گا، اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہوجاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے۔

آداب مجلس:

عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ قَالَ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ یَوْمَ جُمُعة وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ فِی الصُّفَّةِ، وَفِی الْمَكَانِ ضِیقٌ، وَكَانَ یُكْرِمُ أَهْلَ بَدْرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِفَجَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَقَدْ سَبَقُوا إِلَى الْمَجَالِسِ، فَقَامُوا حِیَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ. فَرَدَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَلَّمُوا عَلَى الْقَوْمِ بَعْدَ ذَلِكَ، فَرَدُّوا عَلَیْهِمْ، فَقَامُوا عَلَى أَرْجُلِهِمْ یَنْتَظِرُونَ أَنْ یُوَسَّعَ لَهُمْ، فَعَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا یَحْمِلُهُمْ عَلَى الْقِیَامِ، فَلَمْ یُفْسَح لَهُمْ، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ، مِنْ غَیْرِ أَهْلِ بَدْرٍ:قُمْ یَا فلان، وأنت یا فلان. فلم یزل یُقِیمُهُمْ بِعِدَّةِ النَّفَرِ الَّذِینَ هُمْ قِیَامٌ بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى مَنْ أُقِیمَ مِنْ مَجْلِسِهِ، وَعَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْكَرَاهَةَ فِی وُجُوهِهِمْ،

مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت جمعہ کے دن نازل ہوئی اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صفہ میں بیٹھے ہوئے تھے ،آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ بدری مہاجر وانصار کی بڑی عزت وتکریم فرماتے تھےاس دن اتفاق سے چندبدری صحابہ  رضی اللہ عنہم ذرادیرسے آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کھڑے ہوگئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کہانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب فرمایا پھرانہوں نے اہل مجلس کوسلام کیاانہوں نے بھی سلام کا جواب دیااب یہ اسی امیدپرکھڑے رہے کہ مجلس میں ذراکشادگی دیکھیں توبیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلاجوان کے لئے جگہ ہوتی،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھاتورہانہ گیااورنام لے لے کربعض لوگوں کوان کی جگہ سے کھڑاکیااوران بدری صحابیوں کوبیٹھنے کو فرمایا ،جن لوگوں کواپنی جگہ سےکھڑاکیاگیاتھاانہیں ذرابھاری پڑااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہروں پرکراہت محسوس کی

فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: أَلَسْتُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا یَعْدِلُ بَیْنَ النَّاسِ؟ وَاللهِ مَا رَأَیْنَاهُ قبلُ عَدَلَ عَلَى هَؤُلَاءِ، إِنَّ قَوْمًا أَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ وَأَحَبُّوا الْقُرْبَ لِنَبِیِّهِمْ، فَأَقَامَهُمْ وَأَجْلَسَ مَنْ أَبْطَأَ عَنْهُ،فَبَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:رَحِمَ اللهُ رَجُلًا فَسَح لِأَخِیهِ، فَجَعَلُوا یَقُومُونَ بَعْدَ ذَلِكَ سِرَاعًا، فَتَفَسَّحَ القومُ لِإِخْوَانِهِمْ

ادھرمنافقین اس بات کولے اڑےاورکہنے لگے دیکھیں یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جولوگ شوق سے مسجدمیں آئے ،سب سےپہلے آئے اوراپنے نبی کے قریب جگہ لی اوراطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے توان کوان کی جگہ سے کھڑاکردیااوردیرسے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوادی،یہ کس قدرناانصافی کی بات ہے، ادھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ان کے دل میلے نہ ہوں دعاکی کہ اللہ اس پررحم کرے جواپنے مسلمان بھائی کے لئے مجلس میں جگہ کردے،اس حدیث کوسنتے ہی صحابہ  رضی اللہ عنہم نے فوراًخودبخوداپنی جگہ سے ہٹنااورآنے والوں کوجگہ دیناشروع کردیا۔[61]

عَنْ قَتَادَةَ كَانُوا یَتَنَافَسُونَ فِی مَجْلِسِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَوْهُ مُقْبِلًا ضَیَّقُوا مَجْلِسَهُمْ فَأَمَرَهُمُ اللهُ تَعَالَى أَن یُوسع بَعضهم لبَعض

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتشریف لاتے ہوئے دیکھتے تووہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اورجگہ پکڑنے کی کوشش کیاکرتے تھے اس پران کومجلس میں کھل کربیٹھنے کاحکم دیاگیا۔[62]

بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کومجلس کے آداب میں سے اہم ترین ادب کی تعلیم فرمائی کہ نشست وبرخاست میں ایک دوسرے کاخیال ولحاظ رکھو،چنانچہ جب تم اپنی مجلسوں (وعظ ونصیحت کی مجلس،جمعہ کی مجلس) میں بیٹھوتوکھل کربیٹھو ،دائرہ تنگ مت رکھوکہ بعدمیں آنے والوں کو کھڑا رہناپڑے یاکسی بیٹھے ہوئے کو اٹھاکراس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یُقِیمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَقْعَدِهِ، ثُمَّ یَجْلِسُ فِیهِ وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی شخص کسی دوسرے شخص کواس کی جگہ سے اٹھاکرخودنہ بیٹھے اس لئے مجلس کے دائرے کوفراخ اوروسیع کرلو۔[63]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ یُفَرِّقَ بَیْنَ اثْنَیْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا

اور عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ دوآدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیردھنس جائے۔ [64]

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، إِذَا قَامَ لَهُ رَجُلٌ عَنْ مَجْلِسِهِ، لَمْ یَجْلِسْ فِیهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لئے جب کوئی اپنی جگہ سے اٹھتاتووہ اس جگہ پرنہیں بیٹھتے تھے۔[65]

جوکوئی اپنے بھائی کے لئے کشادگی پیداکرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کشادگی پیدا کر دیتا ہے ،جوکوئی اپنے بھائی کے لئے وسعت پیداکرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے وسعت پیدا کرتا ہے،اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ جہاں بھی تم وسعت وفراخی کے طالب ہوگے مثلاً مکان ،رزق ،قبر اورجنت میں وسعت وفراخی عطافرمائے گااس لئے کہ ہرعمل کابدلہ اسی جیساہوتاہے ،

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا، فَإِنَّ اللهَ یَبْنِی لَهُ بَیْتًا أَوْسَعَ مِنْهُ فِی الْجَنَّةِ

اسما بنت یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے مسجدبنادے اللہ اس کے لئے جنت میں اس سے بڑا گھربنادے گا۔ [66]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ، وَمَنْ یَسَّر عَلَى مُعْسِر یَسَّر اللهُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ،وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ،وَاللهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیهِ،وَمَنْ سَلَكَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِیقًا إِلَى الْجَنَّةِ،وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللهِ، یَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَیَتَدَارَسُونَهُ بَیْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْهِمِ السَّكِینَةُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِیمَنْ عِنْدَهُ،وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ یُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ

ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جوشخص کسی مومن پرسے دنیاکی کوئی سختی دورکرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پرسے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دورکردے گااورجوشخص مفلس کومہلت دے (یعنی اپنے قرض کے لئے اس پرتقاضااورسختی نہ کرے) تواللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں اس پرآسانی کرے گا اورجوشخص دنیا میں کسی مسلمان کاعیب ڈھانکے گاتو اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں اس کاعیب ڈھانکے گا، جوشخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مددمیں لگارہے اللہ تعالیٰ خوداپنے اس بندے کی مددپرلگارہے گا، جوشخص علم (علم دین)حاصل کرنے کے لئے چلے گااللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کاراستہ سہل کردے گا،اورجولوگ اللہ کے گھر (مدرسہ یارباط)میں اللہ کی کتاب پڑھنے اورایک دوسرے کوپڑھانےکے لئے جمع ہوں توان پراللہ کی رحمت نازل ہوگی جوان کوڈھانپ لے گی اورفرشتے ان کوچاروں طرف سے گھیرلیں گے اوراللہ تعالیٰ اپنے قریب رہنے والوں (فرشتوں ) میں ان کاذکرفرمائے گا (یعنی بندے کوجزاہمیشہ اسی طرح کی ملتی ہے جیسااس نے عمل کیاہو،یعنی جیساکروگے ویسابھروگے)اورجواپنےعمل میں کوتاہی کرے گاتواس کا خاندان(نسب)اس کے کچھ کام نہیں آئے گا (یعنی پیغمبروں اوربزرگوں کی اولادہوناکچھ فائدہ نہیں دے گابلکہ عمل صالحہ فائدہ دے گا)۔[67]

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کرجانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی تکلیف ہوتی تھی ،آپ کے آرام اور کاموں میں بھی خلل پڑتاتھااوران لوگوں کوبھی تکلیف ہوتی تھی جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خلوت میں کوئی گفتگوکرناچاہتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروت میں کچھ نہ فرماتے چنانچہ اللہ نے فرمایاکہ جب تمہیں کسی عمل خیر، نماز یا جہادیاکسی مصلحت کے تحت کہاجائے کہ اٹھ جاؤاوراپنی مجالس کوچھوڑدوتواس مصلحت کے حصول کی خاطردل میں کوئی خیال کیے بغیر فوراًاٹھ جایاکرو،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَاِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا۔۔۔۝۲۸ [68]

ترجمہ:اگرتم سے لوٹ جانے کوکہاجائے تولوٹ جاؤ۔

تمہیں کشادگی پیداکرنے یااٹھ جانے کاکہنے سے تمہارادرجہ نہیں گرجائے گا،رفع درجات کا اصل ذریعہ تو ایمان اورعلم ہے اور اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے درجے غیراہل ایمان پراوراہل علم کے درجے اہل ایمان پربلندفرمائے گا،اللہ تعالیٰ ہراس عمل سے جوتم کرتے ہو خوب خبردار ہے،وہ ہرعمل کرنے والے کوان کے عمل کی جزادے گا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٢﴾‏(المجادلة)
اے مسلمانو ! جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ تر ہے، ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوبھی شخص علیحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتاآپ اسے ردنہ فرماتے تھے ،یہاں تک کہ منافقین ایسے معاملات میں بھی آپ کوتکلیف دینے لگے جن میں تخلیہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی اس سے مسلمان تکلیف محسوس کرتے تھے ،قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں دوسروں پراپنی بڑائی جتانے کے لئے بھی بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلوت میں بات کرتے تھے ،اس وقت ساراعرب ریاست مدینہ منورہ کے خلاف برسرپیکارتھا،جب لوگ اس طرح علیحدگی میں باتیں کرتے توشیطان لوگوں کے دلوں میں پھونک دیتا کہ وہ شخص فلاں قبیلے کے حملہ آورہونے کی خبرلایاتھاجس سے مدینہ منورہ میں افواہوں کابازارگرم ہوجاتاتھا،منافقین کوبھی باتیں کرنے کاموقعہ مل جاتاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو کانوں کے کچے ہیں ہرایک کی سن لیتے ہیں ،اس رجحان عام کی حوصلہ شکنی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگادی کہ تم میں سے جوشخص آپ سے خلوت میں باتیں کرناچاہتاہے وہ پہلے پاک وصاف ہونے کے لئے میری راہ میں صدقہ اداکرے،یہ تمہارے لئے بہتراورپاکیزہ ترہے ،یعنی ایساکرنے سے تمہیں ہرقسم کی گندگی سے طہارت حاصل ہوگی اور تمہاری بھلائی اوراجرمیں اضافہ ہوگا، البتہ کوئی غریب ومسکین شخص صدقہ اداکرنے کی طاقت واستعداد نہیں پاتا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والاہے،اس حکم سے وہ لوگ جوغیرضروری طورپر یااپنی بڑائی جتانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخلیہ کی درخواست کرتے تھے میں بات کرنےسے باز آگئے۔

أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَیْكُمْ فَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٣﴾(المجادلة)
کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے ؟ پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا تو اب (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو زکوة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو، تم جو کچھ کرتے ہو اس (سب) سے اللہ (خوب) خبردار ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخلیہ میں گفتگوکرنے کے لئے صدقہ کاحکم مسلمانوں کے لئے شاق تھا،

إِنَّهَا مَنْسُوخَةٌ: مَا كَانَتْ إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَالَ عِكْرِمَةُ وَالْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ فِی قَوْلِهِ نَسَخَتْهَا الْآیَةُ الَّتِی بَعْدَهَا،عَنْ قَتَادَةَ ومقاتل ابن حَیَّانَ: سَأَلَ النَّاسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ، فَقَطْعَهُمُ اللهُ بِهَذِهِ الْآیَة،قَالَ عَلِیٌّ: مَا عَمِلَ بِهَا أَحَدٌ غَیْرِی حَتَّى نُسِخَتْ وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَمَا كَانَتْ إِلَّا سَاعَةً

اس لئے قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک دن سے بھی کم مدت تک باقی رہاپھرمنسوخ کردیاگیا، عکرمہ رحمہ اللہ اورحسن بصری رضی اللہ عنہ اس قول کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حکم بعدمیں منسوخ ہوگیا، قتادہ رحمہ اللہ اورمقاتل بن حیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل پوچھنے میں کترانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کومنسوخ کردیا، سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حکم کونازل ہوئے دن کاتھوڑاہی حصہ ہواتھااور صرف میں ہی عمل کرسکاتھاکہ منسوخ ہوگیا ۔بہرحال لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے پھراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تکلیف کے پیش نظر دوسرے حکم میں اس کومعاف فرمادیا اورفرائض واحکام کی پابندی کو اس صدقے کابدل قراردے دیاگیافرمایاکہ جوکچھ بھی تم اعمال کرتے ہواللہ جوعلام الغیوب ہے اس سے اچھی طرح باخبرہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَیَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿١٤﴾‏ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا ۖ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٥﴾‏ اتَّخَذُوا أَیْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِیلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِینٌ ‎﴿١٦﴾‏ لَّن تُغْنِیَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَیْئًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿١٧﴾‏ یَوْمَ یَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا یَحْلِفُونَ لَكُمْ ۖ وَیَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَىٰ شَیْءٍ ۚ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ ‎﴿١٨﴾‏ اسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّیْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿١٩﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ فِی الْأَذَلِّینَ ‎﴿٢٠﴾‏ كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ ‎﴿٢١﴾‏(المجادلة)
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہوچکا ہے، نہ یہ (منافق) تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں ، باوجود علم کے پھر بھی جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ،تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں برا کر رہے ہیں ، ان لوگوں نے تو اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے، ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ ّآئیں گی ، یہ تو جہنمی ہیں ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے، جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ ) کے سامنے بھی قسمیں کھانے لگیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ بھی کسی (دلیل) پر ہیں ، یقین مانو کہ بیشک وہی جھوٹے ہیں ،ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا ہے اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے، یہ شیطانی لشکر ہے کوئی شک نہیں کہ شیطانی لشکر ہی خسارے والا ہے بیشک اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہی لوگ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں ، اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے، یقیناً اللہ تعالیٰ زورآور اور غالب ہے۔

دوغلے لوگوں کاکردار:منافقین کاذکرفرمایاکہ کیاآپ نے منافقین کاعمل وکردارمشاہدہ فرمایاجنہوں نے یہودیوں کوجواللہ کے مغضوب ہیں اپنارفیق بنارکھاہے،حالانکہ ان لوگوں کے مخلصانہ تعلقات نہ تواہل ایمان کے ساتھ ہیں اورنہ ہی یہودیوں کے ساتھ،نہ یہ ادھرکے ہیں نہ ادھرکے ،جیسے فرمایا

مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ۝۰ۤۖ لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاۗءِ۔۔۔۝۰۝۱۴۳ [69]

ترجمہ:وہ کفرو ایمان کے دریمان ڈانوا ڈول ہیں نہ پورے اس طرف ہیں نہ پورے اس طرف۔

انہوں نے محض اپنی اغراض کے لئے مسلمانوں اوریہودیوں دونوں کے ساتھ رشتہ جوڑرکھاہے،یہ لوگ جھوٹے ہیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوکربے دھڑک جھوٹی قسمیں کھاکرکہتے ہیں کہ وہ اسلام قبول کرچکے ہیں ،اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول کے اطاعت گزارہیں اوراسلام اوراہل اسلام کے ساتھ مخلص ہیں ،اپنی اس روش کی بناپروہ خودکوبڑا سمجھدار اور دور اندیش تصور کرتے ہیں مگراللہ ان کے دلوں کے بھیدخوب جانتاہے کہ وہ بڑے ہی برے گفتاروکردار کے حامل ہیں اوراللہ نے ان کے دوہرے کردار کے سبب ان کے لئے جہنم کاسخت عذاب تیارکررکھاہے، ایک طرف تووہ اپنے ایمان اوروفاداری کی قسمیں کھاکرمسلمانوں کی گرفت سے بچے رہتے ہیں اور دوسری طرف اسلام ،مسلمانوں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کے دلوں میں ہرطرح کے شکوک و شبہات پیداکرتے ہیں تاکہ وہ اسلام قبول کرنے سے بازرہیں ،ان کی اس دوہری چال،تکبر اور اللہ کے نام کی بے توقیری پر روزقیامت ان کوذلت ورسوائی کاعذاب دیاجائے گا،اس روزاللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچانے کے لئے نہ توان کومال ہی کچھ فائدہ دے گاجن کویہ گن گن کررکھتے ہیں اورنہ ہی اولادکے جتھے جن پران کوبہت غرورہے،پس یہ جہنم کے عذاب میں ہی ہمیشہ ہمیشہ گرفتاررہیں گے،ان کی بدبختی اورسنگ دلی کی انتہاہے کہ دنیامیں انسانوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے کھاتے کفرونفاق اوران کے باطل عقائدان کے دل ودماغ میں اس طرح رس بس گئے ہیں کہ جب اللہ انسانوں کوان کی قبروں سے زندہ کرکے میدان محشرمیں جمع فرمائے گا،پھرفرشتے ان کے نامہ اعمال ان کے ہاتھوں میں تھمادیں گے ،تمام گواہ میدان محشرمیں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے،اعمال کے وزن کے لئےترازوعدل قائم کردیاگیاہوگا ،دوزخ اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے دھک رہی ہوگی اوراس میں سے بڑی خوفناک آوازیں آرہی ہوں گی خوداللہ تعالیٰ کے سامنے بھی یہ جھوٹی قسمیں کھانے سے نہ چوکیں گے اوریہ خیال کریں گے کہ جس طرح دنیامیں جھوٹی قسمیں کھانے سے وقتی طورپریہ کچھ فائدے اٹھالیتے تھے اس دن بھی اللہ کے عذاب سے بچ جائیں گے،مشرک بھی اس وقت قسمیں کھائیں گے کہ اللہ کی قسم جوہمارارب ہے ہم نے شرک نہیں کیا،خوب جان لویہ انتہائی جھوٹے لوگ ہیں جو مکمل طور پرشیطان کی گرفت میں ہیں ،

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا مِنْ ثَلَاثَةٍ فِی قَرْیَةٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِیهِمُ الصَّلَاةُ إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطَانُ، فَعَلَیْكَ بِالْجَمَاعَةِ،فَإِنَّمَا یَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَةَ،قَالَ زَائِدَةُ: قَالَ السَّائِبُ: یَعْنِی بِالْجَمَاعَةِ: الصَّلَاةَ فِی الْجَمَاعَةِ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے کسی گاؤں یاجنگل میں جب تین آدمی ہوں اوروہ نمازقائم نہ کریں توان پرشیطان قبضہ جمالیتاہے، لہذاجماعت کواختیارکرو ریوڑسے الگ ہوجانے والی بکری کوبھیڑیاکھاجاتاہے، زائدہ کہتے ہیں کہ سائب نے کہاکہ جماعت سے مرادنمازباجماعت اداکرناہے۔[70]

اوراس نے ان کے اعمال بد مزین کردیئے ہیں اوران کے دلوں سے اللہ کاخوف،عذاب سکرات الموت کاخوف ، اندھیری قبرمیں منکرنکیرکے سوال جواب کاخوف ،عذاب قبرکاخوف ،آخرت میں حساب کتاب کاخوف نکال دیاہے اوران کوجھوٹی تسلی دے رکھی ہے کہ تم نے کلمہ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ پڑھ رکھاہے، اب چاہئے جوکچھ کرو اللہ غفورورحیم ہے وہ بخشنے والاہے اوربخش دینے کوپسندفرماتاہے ،

إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ

وہ بخشنے والاہے بخش دینے کوپسندفرماتاہے۔ [71]

اوروہ سب کوبخش کرانواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنتوں میں داخل فرما دے گا ،یادرکھویہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں ، جواپنے دین ودنیا،اپنے اہل وعیال اورگھربار کے بارے میں خسارہ اٹھاکراپنے پیشواوررہبر کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کیے جائیں گے، جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ [72]

ترجمہ:بس وہ تواپنے گروہ کے لوگوں کواپنی راہ پراس لئے بلاتاہے تاکہ وہ جہنم والوں میں شامل ہوجائیں ۔

یقیناًوہ لوگ جواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدیدمخالفت،عناداورجھگڑا کرتے ہیں ذلیل ترین،بے وقار،اللہ کی رحمت سے دور مخلوقات ہیں ،جس طرح گزشتہ امتوں میں سے اللہ تعالیٰ اوراس کےرسول کے مخالفوں کوذلیل وتباہ وبربادکیاگیاان کاشماربھی انہیں اہل ذلت میں ہوگااوران کے حصے میں بھی دنیاوآخرت کی ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا،جبکہ اللہ نے روزاول سے ہی فیصلہ فرماکر لوح محفوظ میں لکھ دیاہے کہ شیطان اوراس کی پاڑٹی اللہ اوراس کے رسول کے مقابلے میں کچھ بھی کریں اللہ کاکلمہ ہی سربلندرہے گا

۔۔۔ وَكَلِمَةُ اللهِ هِىَ الْعُلْیَا۔۔۔۝۰۝۴۰ [73]

ترجمہ: اور اللہ کاکلمہ تو اُونچا ہی ہے ۔

غلبہ ہمیشہ حق وسچ ہی کاہوگا ،حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب پرغالب اورنہایت زورآورہے توپھراورکون ہے جواس فیصلے میں تبدیلی کرسکے۔

لَّا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِیرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِی قُلُوبِهِمُ الْإِیمَانَ وَأَیَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَیُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٢٢﴾‏(المجادلة)
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے، اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں ، یہ خدائی لشکر ہے، آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں ۔

اللہ کے دشمنوں سے عداوت :اللہ تعالیٰ نے ایک اصولی اورایک امرواقعی بات فرمائی کہ آپ کبھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ ایک شخص جواللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کادم بھرتاہو،اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کادعویٰ دارہو،یوم آخرت پرکامل ایمان رکھتاہومگراس کے ساتھ ساتھ اس نے ان لوگوں سے بھی رشتہ محبت واخوت جوڑرکھا ہو جو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں ،جویوم آخرت کامذاق اڑاتے ہیں چاہئے وہ ان کے باپ ہوں ، بیٹے، بھائی یا خاندان کے قریبی رشتہ دارہوں ،یعنی یہ دونوں رویے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ،اس لئے کہ ان کاایمان ان کوان کی محبت سے روکتاہے اورایمان کی رعایت ،ابوت ، نبوت، اخوت اورخاندان وبرادری کی محبت ورعایت سے زیادہ اہم اورضروری ہے ،جیسے فرمایا

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً۔۔۔۝۰۝۲۸ [74]

ترجمہ:مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یارو مددگار ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ، ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کر جاؤ ۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِیْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۴ۧ [75]

(آپ کہہ دیجئے کہ) اگرتمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیویاں اورتمہارے کنبے قبیلے اورتمہارے کمائے ہوئے مال اوروہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہواوروہ حویلیاں جنہیں تم پسندکرتے ہواگریہ تمہیں اللہ سے اوراس کے رسول سے اوراس کی راہ میں جہادسے بھی زیادہ عزیزہیں توتم انتظارکروکہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے ،اللہ تعالیٰ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔

چنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے ان سب چیزوں کی محبت کوایک طرف ڈال کر عملاًایساکرکے دکھایاجیساکہ غزوہ بدرمیں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کوقتل کردیا۔

أبو عبیدة ومن مناقبه انه قتل أباه عبد الله بن الجرّاح یوم بدر غیرة على الدین

ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح نے اپنے مشرک والدعبداللہ بن جراح کوقتل کردیا۔[76]

مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبیدبن عمیرکوقتل کردیا۔

وقتل مصعب بن عمیر أخاه عبید بن عمیر

مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے اپنے مشرک بھائی عبیدبن عمرکوختم کردیا۔[77]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کوقتل کردیا،

قتل الفاروق عمر بن الخطاب خاله العاص بن هشام بن المغیرة

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کوقتل کردیا۔[78]

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبدالرحمٰن سے لڑنے کے لئے تیارہوگئے۔

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ،سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اورعبیدہ بن الحارث نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ ،شیبہ اور ولیدکو مقابلے میں خاک نشین کردیا۔

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسیران غزوہ بدرکے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ ان سب کوقتل کردیاجائے اورہم میں سے ہرایک اپنے رشتہ دارکوقتل کرے ۔

وَلَكِنِّی أرى أن تمكنا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، فَتُمَكِّنُ عَلِیًّا مِنْ عَقِیلٍ فَیُضْرَبُ عنقه، وتمكنی مِنْ فُلَانٍ (نَسِیبًا لِعُمَرَ) فَأَضْرِبُ عُنُقَهُ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَصَنَادِیدُهَا

میری رائے تویہ ہے کہ آپ حکم فرمائیں کہ ان سب کی گردن اڑادی جائے ،مسلمان خوداپنے قریبی عزیزوں کوقتل کریں مثلاًعقیل کوسیدناعلی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیاجائے کہ وہ ان کی گردن اڑادیں ،مجھے میرافلاں عزیزدے دیاجائے تاکہ میں اس کی گردن ماردوں کیونکہ یہ کفرکے سرداراورمہرے ہیں ۔[79]

اسی غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادابوالعاص گرفتارہوکرآئے اوران کے ساتھ رسول کی دامادی کی بناپرقطعاًکوئی امتیازی سلوک نہ کیاگیاجودوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا،چنانچہ یہ دکھایاجا چکاتھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اوراللہ اوراس کے دین کے ساتھ ان کاتعلق کیساہواکرتاہے ،اس وصف کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو راسخ اورمضبوط کردیاہے ،ان کے دلوں میں ایمان نہ کبھی متزلزل ہوسکتاہے اورنہ شکوک وشبہات اس پراثراندازہوسکتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت خاص کے ذریعے سے طاقت وربنایاہے ،یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے اس دنیامیں حیات طیبہ ہے اورآخرت میں ان کے لئے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سےبھری جنتیں ہیں جہاں ہروہ چیزہوگی جوان کےدل چاہیں گے ،جس سے ان کی آنکھیں لذت اندوزہوں گی اوروہ اسے پسندکریں گی،اللہ تعالیٰ ان پراپنی رضانازل فرمائے گااوران سے کبھی ناراض نہی ہوگا

رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [80]

اللہ ان سے راضی ہے اوروہ اللہ سے خوش ہیں ،یہ اللہ کاگروہ ہے اوریقیناًیہی گروہ مومنین فلاح سے ہمکنارہوگا ۔

 

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی رَافِعٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی الحُقَیْقِ ۴۰۳۹، فتح الباری ۳۴۳؍۷

[2] فتح الباری۳۴۳؍۷

[3] البدایة والنہایة۱۵۶؍۴،تاریخ طبری ۴۹۵؍۲،الروض الانف ۲۷۹؍۶،ابن ہشام ۲۷۳؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۴۱؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۲۶۱؍۳

[4] ابن سعد۷۰؍۲،عیون الآثر۱۱۵؍۲،مغازی واقدی ۳۹۴؍۱

[5] الکامل فی التاریخ ۳۷؍۲

[6] فتح الباری ۳۴۲؍۷

[7] تاریخ طبری ۴۹۸؍۲،فتح الباری ۱۴۷؍۶

[8] تاریخ طبری۴۹۳؍۲

[9] فتح الباری ۳۴۲؍۷

[10] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی رَافِعٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی الحُقَیْقِ،فتح الباری ۳۴۲؍۷

[11] تاریخ طبری ۴۹۵؍۲

[12] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی رَافِعٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی الحُقَیْقِ۴۰۳۹

[13] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی رَافِعٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی الحُقَیْقِ عن براء بن عازب  ۴۰۳۹،۴۰۴۰، وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ قَتْلِ المُشْرِكِ النَّائِمِ ۳۰۲۲،فتح الباری ۳۴۳؍۷، البدایة والنہایة ۱۵۹؍۴

[14] مصنف عبدالرزاق۱۱۴۷۷،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۳۳۱،مستدرک حاکم ۲۸۱۶

[15] مسنداحمد۲۷۳۱۹،صحیح ابن حبان ۴۲۷۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۱۶

[16] مصنف عبدالرزاق۱۱۵۶۶

[17] مصنف ابن ابی شیبة۱۸۸۳۳۰

[18] مصنف ابن ابی شیبة۱۸۳۳۶

[19] السنن الکبری للبیہقی ۱۵۲۵۶

[20] شرح السنة للبغوی ۲۳۶۴

[21] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الظِّهَارِ۲۲۱۳،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمَنْ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ ۳۲۹۹،سنن ابن ماجہ کتاب الظہاربَابُ الظِّهَارِ۲۰۶۲، السنن الدارمی ۲۳۱۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۳۳۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۲۵۷

[22] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الظِّهَارِ۲۲۲۱،السنن الکبری للنسائی ۵۶۲۴،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۲۶۱

[23] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: یَا أُخْتِی ۲۲۱۰،۲۲۱۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۱۴۶

[24] المجادلة: 1

[25] سنن ابن ماجہ المقدمة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۸۸، مسند احمد ۲۴۱۹۵،السنن الکبری للنسائی ۵۶۲۵

[26] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۴۲؍۱۰، تفسیر طبری۲۲۶؍۲۳

[27] المجادلة: 1

[28] مسنداحمد۲۷۳۱۹،سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ خُلُقُهُ وَضَجِرَ ۲۲۱۴

[29] فتح القدیر۲۱۷؍۵

[30] آل عمران۹۷

[31] نیل الاوطار۳۰۸؍۶

[32] السیل الجرار ۴۴۱؍۱

[33] السیل الجرار۴۴۳؍۱

[34]المجادلة۳،۴

[35] صحیح ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الظِّهَارِ۲۲۱۳

[36] المغنی لابن قدامہ۸/۲۲

[37] تفسیرالقرطبی ۲۷۹؍۱۷

[38] اللباب فی علوم الکتاب ۵۲۸؍۱۸، الاستندکارلابن عبدالبر۶۰؍۶

[39]نیل الاوطار۳۰۹؍۶

[40] اللباب فی علوم الکتاب۵۲۸؍۱۸، المبسوط ۱۷؍۷

[41] صحیح ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الظِّهَارِ۲۲۱۳،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمَنْ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ ۳۲۹۹، سنن الدارمی ۱۷۵۷

[42] السنن الکبری للبیہقی۱۵۲۶۱،صحیح ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الظِّهَارِ۲۲۲۱،جامع ترمذی ابواب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُظَاهِرِ یُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ یُكَفِّرَ ۱۱۹۹

[43] الدراری المضیة شرح الدرر البهیة ۲۳۱؍۲

[44] تفسیرطبری ۲۳۵؍۲۳

[45] تفسیرالبیضاوی۱۹۳؍۵

[46] تفسیرروح المعانی۲۱۴؍۱۴

[47] الحدید۴

[48] التوبة ۷۸

[49] الزخرف۸۰

[50]تفسیرطبری۲۳۸؍۲۳

[51] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ ۲۱۶۵، مسنداحمد۱۳۲۴۰

[52] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الرِّفْقِ فِی الأَمْرِ كُلِّهِ۶۰۲۴، صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ۵۶۵۶،جامع ترمذی ابواب الاستیذان بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْلِیمِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ ۲۷۰۱،السنن الکبری للنسائی ۱۰۱۴۱، مسندابی یعلی ۴۴۲۱،مصنف عبدالرزاق۹۸۳۹، مسنداحمد۲۵۶۳۳،صحیح ابن حبان ۶۴۴۱،شرح السنة للبغوی ۳۳۱۴

[53] صحیح بخاری کتاب الاستذان بَابُ إِذَا كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثَةٍ فَلاَ بَأْسَ بِالْمُسَارَّةِ وَالمُنَاجَاةِ ۶۲۹۰،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ تَحْرِیمِ مُنَاجَاةِ الِاثْنَیْنِ دُونَ الثَّالِثِ بِغَیْرِ رِضَاهُ ۵۶۹۶،جامع ترمذی ابواب الادب بَابُ مَا جَاءَ لاَ یَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ ثَالِثٍ۲۸۲۵ ،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی التَّنَاجِی۴۸۵۱، سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ لاَ یَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ ثَالِثٍ ۳۷۷۵، مسنداحمد۳۵۶۰، سنن الدارمی ۲۶۹۹،شرح السنة للبغوی۳۵۱۰

[54] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ تَحْرِیمِ مُنَاجَاةِ الِاثْنَیْنِ دُونَ الثَّالِثِ بِغَیْرِ رِضَاهُ۲۱۸۳،مسنداحمد۵۵۰۱،مسندابی یعلی ۵۲۲۰،شعب الایمان۱۰۶۴۶،شرح السنة للبغوی ۳۵۰۸

[55] الاعراف۸،۹

[56] المومنون۱۰۲

[57] القارعة۶تا۱۱

[58] الانبیائ۴۷

[59] هود: 18

[60] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى أَلاَ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّالِمِینَ۲۴۴۱، ۴۶۸۵، ۶۰۷۰، ۷۵۱۴،صحیح مسلم کتاب التوبة بَابُ قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ۷۰۱۵،سنن ابن ماجہ کتاب السنةبَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۸۳،صحیح ابن حبان۷۳۵۵

[61] تفسیرابن ابی حاتم ۱۸۸۴۶، ۳۳۴۴؍۱۰،تفسیرابن کثیر۴۶؍۸

[62] فتح الباری ۶۲؍۱۱

[63] صحیح بخاری كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابٌ لاَ یُقِیمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ ۶۲۷۰،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ تَحْرِیمِ إِقَامَةِ الْإِنْسَانِ مِنْ مَوْضِعِهِ الْمُبَاحِ الَّذِی سَبَقَ إِلَیْهِ۵۶۸۴

[64] مسنداحمد۶۹۹۹،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَجْلِسُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ بِغَیْرِ إِذْنِهِمَا۴۸۴۵ ،جامع ترمذی ابواب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الجُلُوسِ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ بِغَیْرِ إِذْنِهِمَا۲۷۵۲

[65] صحیح بخاری کتاب الاستئذان بَابُ إِذَا قِیلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِی المَجْلِسِ، فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللهُ لَكُمْ وَإِذَا قِیلَ انْشِزُوا فَانْشِزُوا۶۲۷۰،صحیح مسلم کتاب السلام باب تحریم اقامة الانسان من موضعہ المباح ۵۶۸۶،جامع ترمذی ابواب الادب بَابُ كَرَاهِیَةِ أَنْ یُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ یُجْلَسُ فِیهِ۲۷۵۰

[66] مسنداحمد ۲۷۶۱۲،صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا۴۵۰ ،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ فَضْلِ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ وَالْحَثِّ عَلَیْهَاعن عبیداللہ خولانی۱۱۸۹،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ بُنْیَانِ الْمَسْجِدِعن عثمان بن عفان ۳۱۸

[67] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ ۶۸۵۳،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الْمَعُونَةِ لِلْمُسْلِمِ ۴۹۴۶،جامع ترمذی ابواب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ ۱۹۳۰،سنن ابن ماجہ کتاب السنةبَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ ۲۲۵، مسنداحمد۷۴۲۷

[68] النور۲۸

[69] النساء ۱۴۳

[70] سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابٌ فِی التَّشْدِیدِ فِی تَرْكِ الْجَمَاعَةِ۵۴۷

[71] مسنداحمد۲۵۳۸۴

[72] فاطر۶

[73] التوبة۴۰

[74] آل عمران ۲۸

[75] التوبة۲۴

[76] تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۲۴۴؍۲

[77] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۱۴۸؍۲

[78] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۱۴۸؍۲

[79] البدایة والنہایة۳۶۲؍۳،تاریخ طبری ۴۷۶؍۲، السنن الکبری للبیہقی۱۲۸۴۴، تفسیرالقرطبی۵۲؍۸، تفسیر ابن کثیر۷۷؍۴

[80] المجادلة۲۲

Related Articles