ہجرت نبوی کا پانچواں سال

پردہ کاابتدائی حکم

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِی مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِیمًا ‎﴿٥٣﴾‏ إِن تُبْدُوا شَیْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا ‎﴿٥٤﴾(الاحزاب)
اے ایمان والو ! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم بنی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا، جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے، نہ تمہیں جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو،(یاد رکھو) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا( گناہ) ہے، تم کسی چیز کو ظاہر کرد یا مخفی رکھو اللہ تو ہر چیز کا بخوبی علم رکھنے والا ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَمَا أَدْرِی آخْبَرْتُهُ أَوْ أُخْبِرَ أَنَّ القَوْمَ خَرَجُوا فَرَجَعَ، حَتَّى إِذَا وَضَعَ رِجْلَهُ فِی أُسْكُفَّةِ البَابِ دَاخِلَةً، وَأُخْرَى خَارِجَةً أَرْخَى السِّتْرَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ، وَأُنْزِلَتْ آیَةُ الحِجَابِ، فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ، فَأَلْقَى الحِجَابَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے یاکسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان تینوں کے جانے کی اطلاع دی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے آپ حجرے کے اندرداخل ہورہے تھے ایک پیراندرتھا اور ایک پیرباہرکہ اسی وقت پردہ کی آیت نازل ہوئی، میں نے بھی اندرداخل ہونے کاارادہ کیالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ ڈال دیا۔[1]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا یَسِیرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَیَّ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ}، [2]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ،أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآیَاتِ. وَحُجِبْنَ نِسَاءُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اورمیں حجرےمیں بیٹھ گیاپھرتھوڑی دیرہوئی ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف نکلے اوریہ آیتیں نازل ہوئیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہرنکل کرلوگوں کے اوپریہ آیات ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو،ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجاؤ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں ۔ پڑھیں ،انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے پہلے یہ آیتیں میں نے سنی ہیں اورمجھے پہنچی ہیں اوراس کے بعدامہات المومنین پردہ میں رہنے لگیں ۔[3]

اہل عرب میں یہ رواج عام تھااگرکسی شخص کواپنے دوست احباب یارشتہ دارسے ملناہوتاتووہ شخص دروازے پرکھڑاہوکرپکارنے یااجازت لیکرگھرمیں داخل ہونے کے بجائے وقت پر یابے وقت بلاتکلف گھرکے اندرداخل ہوجاتاتھا،بعض مرتبہ عورتیں اورلڑکیاں بے تکلف ،بے حجابانہ بیٹھی ہوتی تھیں جس سے بہت سی معاشرتی برائیاں پیداہوتی تھیں ،

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِیَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(گھروں میں اجنبی)عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو۔[4]

اہل عرب میں ایک بیہودہ عادت یہ بھی تھی کہ وہ عین کھانے کے وقت اپنے دوست یاعزیزکے گھرپہنچ جاتے اور اس غریب کو چارونچاران لوگوں کے لئے کھانے کا فوری بندوبست کرنا پڑتا ، ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ اگرکوئی شخص کھانے کی دعوت دے دیتاتومہمان کھانے سے فارغ ہونے کے بعدمنتشرہونے کے بجائے میزبان کے گھرمیں بیٹھے رہتے اورادھرادھرکی باتیں کرتے رہتے جس سے اہل خانہ کوبڑی زحمت ہوتی ،ایسارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی کئی مرتبہ ہوچکاتھامگرآپ شرم وحیاکی وجہ سے برداشت فرماتے ، مگرام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے کے دن دویا تین صحابہ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی ام المومنین کے آرام کاخیال کیے بغیر کافی رات گزرنے کے باوجود بیٹھے باتیں کرتے رہے اذیت رسانی کی حدعبورکرگئی ، اس حکم سے اسلامی معاشرے میں ان معاشرتی برائیوں کوروکنے کے لئے اصلاحی احکام کے نفاذکی ابتداکی گئی جو حجاب کے عنوان سے بیان کیے جاتے ہیں ،ان اصلاحات کاآغازاس سورے سے کیاگیااوران کی تکمیل ایک سال بعدسورۂ نورمیں کی گئی جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پربہتان کافتنہ کھڑاہوا،چنانچہ ان برائیوں کو روکنے کے لئے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرسے ابتداکی گئی جس میں تمام مسلمانوں کو تاکیدفرمائی گئی کہ کوئی شخص خواہ وہ قریبی دوست ہو یارشتہ دارآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بلااجازت داخل نہ ہو ،اور معاشرتی ضابطے مقررکرنے کے لئے عام حکم فرمایاکہ کسی گھرعین کھانے کے وقت جانے کے بجائے اس وقت جاؤ جب وہ تمہیں کھانے کی دعوت دے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا دُعِیَ أَحَدُكُمْ إِلَى الوَلِیمَةِ فَلْیَأْتِهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کودعوت دے تواسے وہ دعوت قبول کرلینی چاہیے خواہ وہ شادی کی دعوت ہویاکوئی اور۔[5]

اورکھاناکھانے کے بعدوہیں بیٹھ کربحث ومباحثہ کرنے کے بجائے منتشر ہو جاؤ اور پھرآیت حجاب نازل ہوئی ،اللہ تعالیٰ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوعقل سلیم ،بہترین کردار اورقوت مشاہدہ عطافرمایاتھاجس کی وجہ سے انہوں نے معاشرتی برائیوں کے خلاف جوبھی مشورہ دیااللہ تعالیٰ نے اسے پسند فرمایا اورحسب ضرورت انہیں دینی احکامات کادرجہ دیا ، انہی کی وجہ سے دومرتبہ شراب اورجوئے کے بارے میں احکامات نازل ہوچکے تھے ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے خیال کیاکہ معاشرے کی بہت سی برائیاں اورخرابیاں عورتوں کے پردہ نہ کرنے کی وجہ سے ہیں ،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللهِ یَدْخُلُ عَلَیْكَ البَرُّ وَالفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ المُؤْمِنِینَ بِالحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللهُ آیَةَ الحِجَابِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاس آیت کے نازل ہونے سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پہلے متعددمرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرچکے تھے کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ہاں اچھے اوربرے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں ، کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کوپردہ کرنے کاحکم دے دیں ،تو اللہ تعالیٰ آیت حجات اتاریں ۔[6]

ایک اورروایت میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگرآپ کے حق میں میری بات مانی جائے توکبھی میری نگاہیں آپ کونہ دیکھیں ۔

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خود قانون سازی میں خودمختیارنہ تھے اس لئے اللہ کے حکم کے منتظرتھے آخرکارحکم الٰہی آگیاجس میں حکم فرمایاگیاکہ کوئی بھی غیرمحرم شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیران کے گھرمیں داخل نہ ہواورنہ بغیرضرورت دیر تک بیٹھو،تمہاراوہاں بغیر ضرورت زیادہ دیرتک بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تکلیف کاباعث بنتاہے مگر وہ شرم وحیاکی وجہ سے تمہیں کچھ نہیں کہتے مگراللہ تعالیٰ تمہیں ایساحکم دینے میں نہیں شرماتاجس میں تمہارے لئے بھلائی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نرمی ہوخواہ یہ حکم کیساہی ہو،اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم شرم وحیااورعفت وعصمت کے پیکروں کوازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب فرمائے کہ اگرکسی کو ام المومنین سے کوئی بات کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے،یعنی کوئی چیز(برتن وغیرہ)لینا ہے ،کوئی دینی مسئلہ معلوم کرناہے تووہ پردے کے پیچھے سے معلوم کرو یہ تمہارے اوران کے دل کی پاکیزگی کے لئے بہترین طریقہ ہے،اس حکم کے نازل ہوتے ہی تمام امہات المومنین کے حجروں کے دروازوں پرپردے ڈال دیئے گئے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے بھی اس طریقہ کی پیروی کی اور انہوں نے بھی دروازوں پردے ڈال دیئے۔

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} یَقُولُ: وَإِذَا سَأَلْتُمْ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنِسَاءَ الْمُؤْمِنِینَ اللوَاتِی لَسْنَ لَكُمْ بِأَزْوَاجٍ مَتَاعًا {فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} یَقُولُ: مِنْ وَرَاءِ سِتْرٍ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُنَّ

طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’اورجب تم ان سے کچھ مانگوتوپردے کے پیچھے سے مانگو۔‘‘یعنی جب تم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے اوران مسلمان عورتوں سے جوکہ تمہاری بیویاں نہیں ہیں کوئی چیزمانگوتوپردے کے پیچھے سے مانگو۔[7]

سُؤَالُكُمْ إِیَّاهُنَّ الْمَتَاعَ إِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ ذَلِكَ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَطْهُرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ مِنْ عَوَارِضِ الْعَیْنِ فِیهَا الَّتِی تُعْرَضُ فِی صُدُورِ الرِّجَالِ مِنْ أَمْرِ النِّسَاءِ، وَفِی صُدُورِ النِّسَاءِ مِنْ أَمْرِ الرِّجَالِ، وَأَحْرَى مِنْ أَنْ لَا یَكُونَ لِلشَّیْطَانِ عَلَیْكُمْ وَعَلْیهِنَّ سَبِیلٌ

ایک مقام پرلکھتے ہیں تمہارا ان ازواج مطہرات سے کسی چیزکے بارے میں سوال کرناپردے کے پیچھے سے ہوناچاہیے یہ بات تمہارے دلوں اوران کے دلوں میں بھی آنکھ سے پیداہونے والے غلط جذبات اوران خیالات کوپاک کرنے والی ہے جومردوں کے دلوں میں عورتوں سے متعلق پیداہوجاتے ہیں اورعورتوں کے دلوں میں مردوں سے متعلق پیداہوتے ہیں اور زیادہ مطلوب یہی ہے کہ تمہارے معاملے میں یاان کے معاملے میں شیطان کوکوئی راستہ نہ مل سکے۔[8]

فِی هَذِهِ الْآیَةِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ اللهَ تَعَالَى أَذِنَ فِی مَسْأَلَتِهِنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، فِی حَاجَةٍ تَعْرِضُ، أَوْ مَسْأَلَةٍ یُسْتَفْتَیْنَ فِیهَا وَیَدْخُلُ فِی ذَلِكَ جَمِیعُ النِّسَاءِ بِالْمَعْنَى، وَبِمَا تَضَمَّنَتْهُ أُصُولُ الشَّرِیعَةِ مِنْ أَنَّ الْمَرْأَةَ كُلُّهَا عَوْرَةٌ، بَدَنُهَا وَصَوْتُهَا كَمَا تَقَدَّمَ، فَلَا یَجُوزُ كَشْفُ ذَلِكَ إِلَّا لِحَاجَةٍ

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پردے کے پیچھے سے کسی ضرورت کے تحت یافتوی طلب کرنے کی غرض سے ازواج مطہرات سے بات کرنے کی اجازت دی ہے،اوراس حکم میں تمام عورتیں شامل ہیں کیونکہ شریعت کے اصولوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت تمام کی تمام پردہ ہے،اس کاساراجسم بھی اورآوازبھی پردہ ہے، پس عورت کے لیے اپنے جسم کے کسی حصے کوبغیرضرورت کھولناجائزنہیں ہے۔[9]

وَمِنَ الْأَدِلَّةِ الْقُرْآنِیَّةِ عَلَى احْتِجَابِ الْمَرْأَةِ وَسِتْرِهَا جَمِیعَ بَدَنِهَا حَتَّى وَجْهَهَا قَوْلُهُ تَعَالَى: یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ ، فَقَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ مَعْنَى: یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ: أَنَّهُنَّ یَسْتُرْنَ بِهَا جَمِیعَ وُجُوهِهِنَّ

محمدالامین بن محمدالمختارالشقنیطی اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں عورت کے حجاب اورپورے بدن حتی کہ چہرے کوبھی ڈھانپنے کے قرآنی دلائل میں ایک دلیل یہ آیت مبارکہ ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ بھی ہے اوربہت سارے اہل علم نے کہاہے کہ اس آیت کامفہوم یہ ہے کہ وہ عورتیں اپنے سارے بدن اورچہرے کوڈھانپیں گی۔[10]

وَهَذَا الْحُكْمُ وَإِنْ نَزَلَ خَاصًّا فِی النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَالْمَعْنَى عَامٌّ فِیهِ وَفِی غَیْرِهِ إذْ كُنَّا مَأْمُورِینَ بِاتِّبَاعِهِ وَالِاقْتِدَاءِ بِهِ إلَّا مَا خَصَّهُ اللهُ بِهِ دُونَ أُمَّتِهِ

امام ابوبکرالجصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حکم اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں نازل ہواہے لیکن اس آیت کامفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیردونوں کوشامل ہے کیونکہ ہمیں ہربات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اورپیروی کاحکم دیاگیاہے سوائے ان احکامات کے کہ جن کواللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص کردیاہے۔[11]

وَمِنَ الْأَدِلَّةِ عَلَى أَنَّ حُكْمَ آیَةِ الْحِجَابِ عَامٌّ هُوَ مَا تُقَرَّرُ فِی الْأُصُولِ، مِنْ أَنَّ خِطَابَ الْوَاحِدِ یَعُمُّ حُكْمُهُ جَمِیعَ الْأُمَّةِ، وَلَا یَخْتَصُّ الْحُكْمُ بِذَلِكَ الْوَاحِدَ الْمُخَاطَبَ

علامہ شفقیطی مذکورہ اصول کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں آیت حجاب کے بیان کردہ حکم کے عام ہونے میں جودلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ قاعدہ بھی ہے جسے علم الاصول میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ واحدکاخطاب تمام امت کوشامل ہوتاہے اورحکم اس اکیلے محاطب سے متعلق نہیں ہوتا۔[12]

مذکورہ بالااصول سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آیت حجاب عام ہے اوراس کاحکم تمام مسلمان عورتوں کوشامل ہے۔

ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں چاربیویاں موجودتھیں ان سے نکاح کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجوالزام تراشیاں کی جارہی تھیں جس میں کفارومنافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے اس کے بارے میں فرمایاکہ تم لوگوں کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اپنی بے لگام زبانوں کے تیروں سے اورکسی فعل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاؤکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے بغیرکوئی بات یاکام نہیں کرتےاوریہ کام بھی انہوں نے اللہ کی منشاکے مطابق متنبی ٰ کی حیثیت کوظاہرکرنے کے لئے ہی کیا ہےتاکہ تم لوگوں پرکوئی تنگی نہ رہے ،اورامہات المومنین تمہا ری ماؤں سے بڑھ کرہیں اس لئے تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعدان کی بیویوں سے نکاح کرواللہ کے نزدیک یہ گناہ عظیم ہے ،اگرتم لوگوں میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یااہل بیت کے متعلق کوئی برا خیال رکھے گا تووہ اللہ سے جوعلام الغیوب ہے ، جو دلوں کے چھپے بھیداورآنکھوں کی خیانت بھی جانتاہے چھپا نہیں رہے گی اورایساشخص دردناک سزاکامستحق ہوگا۔

لَّا جُنَاحَ عَلَیْهِنَّ فِی آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِینَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدًا ‎﴿٥٥﴾‏ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى النَّبِیِّ ۚ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا ‎﴿٥٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِینًا ‎﴿٥٧﴾‏ وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِینًا ‎﴿٥٨﴾(الاحزاب)
ان عورتوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (میل جول کی) عورتوں اور ملکیت کے ماتحتوں (لونڈی غلام) کے سامنے ہوں ، (عورتو ! ) اللہ سے ڈرتی رہو اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر شاہد ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسواکن عذاب ہے، اورجو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذاء دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔

جب عورتوں کے لئے پردے کاحکم نازل ہواتوپھرگھرمیں موجوداقارب یاہروقت آنے جانے والے رشتے داروں کی بابت سوال ہواکہ ان سے بھی پردہ کیاجائے گاکہ نہیں چنانچہ محرم عزیزواقارب کواس حکم سے مستثنی ٰ قراردیتے ہوئے فرمایااگران کے والد،بیٹے،بھائی،بھتیجے،بھانجے،ملنے جلنے والی مومن عورتیں اورمملوک گھرمیں داخل ہوسکتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ۝۰۠ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕہِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۔۔۔۝۳۱ [13]

ترجمہ:اوراپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ،وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔

اور ایسا نہ ہوکہ شوہرکے سامنے توپردے کااہتمام کیاجائے اوراس کی عدم موجودگی میں کوئی پرواہ نہ کی جائے ،اوراے عورتو!اللہ کاتقویٰ اختیارکروتاکہ پردے کااصل مقصدقلب ونظر کی طہارت اورعصمت کی حفاظت حاصل کیاجاسکےورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچاسکیں گی ،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام ظاہری وباطنی اعمال دیکھ رہاہے ،ان کے تمام اقوال کوسن رہاہے اوران کی تمام حرکات کامشاہدہ کررہاہے ،پھروہ ایک وقت مقررہ پر ان کوان کے تمام اعمال کی پوری پوری جزادے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے مرتبہ ومنزلت کوبیان فرمایاجوملااعلیٰ(آسمانوں )میں آپ کوحاصل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ کی مدح وثنابیان کرتاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتیں بھیجتاہے اورفرشتے بھی آپ کی مدح وثناکرتے ہیں اورنہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے رحمت اور بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں ،

ثم فیه التنبیه على كثرتهم وأن الصلاة من هذا الجمع الكثیر الذی لا یحیط بمنتهاه غیر خالقه واصلة إلیه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على ممر الأیام والدهور مع تجددها كل وقت وحین ، وهذا أبلغ تعظیم وأنهاه وأشمله وأكمله وأزكاه

علامہ الوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں فرشتوں کی کثرت کے بارے میں تنبیہ ہے کہ ان کی اس قدرکثیرتعدادجس کااحاطہ ان کے خالق عزوجل کے سواکوئی نہیں کرسکتارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردوام اورتسلسل کے ساتھ سب دنوں اورزمانوں میں ہروقت درودپڑھ رہی ہےاوراس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع،کامل ،پاکیزہ اورانتہائی عظیم عزت وتکریم ہے۔[14]

اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی(اہل زمین)کوحکم فرمایاکہ وہ بھی اپنے ایمان کی تکمیل کے لئے ،آپ کی تعظیم کی خاطر،آپ سے محبت اورآپ کےاکرام وتکریم کے اظہارکے لئے ،اپنی نیکیوں میں اضافہ کے لئے اوراپنی برائیوں کے کفارہ کے لئے اے مومنو آپ پردرود وسلام بھیجاکرو تاکہ آپ کی تعریف میں علوی وسفلی کے لوگوں کااس پراجتماع ہوجائے ،جب یہ حکم نازل ہوا

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا السَّلاَمُ عَلَیْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَكَیْفَ الصَّلاَةُ عَلَیْكَ؟ قَالَ: قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّیْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ، إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ ، إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ

توکعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا طریقہ توہم جانتے ہیں یعنی نمازمیں

 التَّحِیَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینَ

پڑھتے اورملاقات کے وقت السلام علیک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کہتے ہیں ہم درودکس طرح پڑھیں ؟اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود ابراہیمی

 اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّیْتَ عَلَى إِبْرَاهِیمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ، إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِیمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِید

بیان فرمایاجونماز(کے دونوں تشہد)میں پڑھاجاتاہے۔[15]

اس کے علاوہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ ، ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ، بریدہ الخزاعی،طلحہ رضی اللہ عنہ ،سے معمولی لفظی اختلاف کے دوسرے درود بھی موجودہیں مگرمعنیٰ پرسب متفق ہیں نیز مختصراً صَلَّى اللهُ عَلَیّ رَسُولُ اللهِ وَسَلَّمَ بھی پڑھا جا سکتا ہے تاہم الصلوٰة والسَّلاَمُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ پڑھنااس لئے صحیح نہیں کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے اوریہ صیغہ نبی کریم سے عام درودکے وقت منقول نہیں ہے اور نماز میں السَّلاَمُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبِیّ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ،اوراذان سے قبل الصلوٰة والسَّلاَمُ عَلَیْكَ یارَسُولُ اللهِ پڑھنا بدعت ہے جو باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجنے کی بڑی فضیلت ہے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ یَوْمٍ وَالسُّرُورُ یُرَى فِی وَجْهِهِ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا لَنَرَى السُّرُورَ فِی وَجْهِكَ، فَقَالَ: إِنَّهُ أَتَانِی مَلَكٌ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَمَا یُرْضِیكَ أَنَّ رَبَّكَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: إِنَّهُ لَا یُصَلِّی عَلَیْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّیْتُ عَلَیْهِ عَشْرًا وَلَا یُسَلِّمُ عَلَیْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَیْهِ عَشْرًا قَالَ: بَلَى

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورآپ کے چہرہ اقدس سے مسرت کے آثارظاہرہورہے تھے،صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ کے چہرہ اقدس پرمسرت کےآثاردیکھ رہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے پاس ایک فرشتہ آیااوراس نے کہاہے اے محمد!کیاآپ اس بات پرخوش نہیں کہ آپ کے پروردگارعزوجل نے فرمایاہے کہ آپ کی امت میں سے جوبھی آپ پرایک باردرودبھیجے گامیں اس پردس رحمتیں نازل کروں گااورآپ کی امت میں سے جوآپ پرایک بارسلام بھیجے گاتومیں دس مرتبہ اس پرسلامتی نازل کروں گا، آپ نے فرماکیوں نہیں (اس سے بہت خوش ہوں )۔[16]

عَنْ أَبِی طَلْحَةَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا طَیِّبَ النَّفْسِ یُرَى فِی وَجْهِهِ الْبِشْرُ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، أَصْبَحْتَ الْیَوْمَ طَیِّبَ النَّفْسِ، یُرَى فِی وَجْهِكَ الْبِشْرُ قَالَ: أَجَلْ، أَتَانِی آتٍ مِنْ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ: مَنْ صَلَّى عَلَیْكَ مِنْ أُمَّتِكَ صَلَاةً كَتَبَ اللهُ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ، وَمَحَا عَنْهُ عَشْرَ سَیِّئَاتٍ، وَرَفَعَ لَهُ عَشْرَ دَرَجَاتٍ، وَرَدَّ عَلَیْهِ مِثْلَهَا

ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہشاش بشاش تھے اورآپ کے چہرہ اقدس سے مسرت کے آثارنمایاں ہورہے تھے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آج آپ بہت خوش وخرم ہیں اورخوشی ومسرت کے آثارچہرہ اقدس پرجھلک رہے ہیں ،فرمایاہاں ، میرے پاس میرے رب عزوجل کی طرف سے آنے والاایک آیااوراس نے کہاکہ آپ کی امت میں سے جوشخص آپ پرایک باردرودبھیجے گااللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دے گااوراس کے دس گناہ معاف کردے گااوراس کے دس درجات بلندکردے گا اوراس پراسی طرح درودبھیجے گا۔[17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَیَّ صَلاَةً صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ عَشْرًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص ایک بارمجھ پردرودپڑھتاہےاللہ تعالیٰ اس دس رحمتیں نازل کرتاہے۔[18]

قَالَ الْقَاضِی مَعْنَاهُ رَحْمَتُهُ وَتَضْعِیفُ أَجْرِهِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى مَنْ جاء بالحسنة فله عشرة امثالها

قاضی عیاض رحمہ اللہ کابیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص پردس مرتبہ اپنی رحمتیں نازل کرے گایادس گنازیادہ اس کوثواب عنایت کرے گاجیسے کہ پروردگارکاحکم ہے کہ جونیکی کاایک کام کرے گاتواللہ تعالیٰ اس کودس گناسے بھی زیادہ اچھائیاں عنایت کرے گا۔[19]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُرَیْحٍ الْخَوْلَانِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا قَیْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِی، یَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو، یَقُولُ:مَنْ صَلَّى عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ، وَمَلَائِكَتُهُ سَبْعِینَ صَلَاةً،فَلْیُقِلَّ عَبْدٌ مِنْ ذَلِكَ أَوْ لِیُكْثِرْ

عبدالرحمٰن بن مریح الخولانی کہتے ہیں میں نے ابوقیس مولی عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے سناوہ کہتے تھے میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کویہ کہتے ہوئے سنا جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایک مرتبہ درودپڑھااللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اس پرسترمرتبہ درودپڑھتے ہیں ،پس بندہ اس کوچاہے تواس کوکم کرے اورچاہے تواس کوزیادہ کرے ۔[20]

عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ، عَنْ أَبِیهِ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْبَخِیلُ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ، ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ

حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص بخیل ہے جس کے پاس میراذکرکیاگیاپھراس نے مجھ پردرودنہ بھیجا۔[21]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میراذکرکیاگیااوراس نے مجھ پردوردنہ بھیجا۔[22]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ان پربہت زیادہ درودپڑھاجائے۔

عَنِ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللیْلِ قَامَ فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللهَ اذْكُرُوا اللهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِیهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِیهِ، قَالَ أُبَیٌّ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی أُكْثِرُ الصَّلاَةَ عَلَیْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلاَتِی؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ، قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ، قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَیْرٌ لَكَ، قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَیْرٌ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَیْنِ،قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَیْرٌ لَكَ،قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلاَتِی كُلَّهَا، قَالَ: إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَیُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ پربہت زیادہ درودپڑھناچاہتاہوں (آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ)میں اپنے لیے کی ہوئی دعاؤں کاکتناحصہ آپ پردرودپڑھنے کے لیے مخصوص کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم جس قدرپسندکرو،میں نے کہاایک چوتھائی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم جس قدرپسندکرولیکن اگرتم زیادہ حصہ مخصوص کروگے توتمہارے لیے بہترہوگا،میں نے عرض کی توآدھاحصہ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم جس قدرپسندکرولیکن اگرتم زیادہ حصہ مخصوص کروگے توتمہارے لیے بہترہوگا، میں نے عرض کی تودوتہائی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم جس قدرپسندکرولیکن اگرتم زیادہ حصہ مخصوص کروگے توتمہارے لیے بہترہوگا ، میں نے عرض کی میں اپنے لیے دعاکرنے کی بجائے آپ پرہی درودپڑھوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوپھرتو(دنیاوآخرت میں )تمہارے غموں کی کفایت کی جائے گی، اورگناہوں کومعاف کیاجائے گا۔[23]

إِذَنْ یَكْفِیَكَ اللَّهُ هم الدُنْیَا وهم الْآخِرَةِ

ایک روایت میں ہےتب تمہیں اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت کی پریشانیوں سے بچالے گا۔[24]

عَنْ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ جَعَلْتُ صَلَاتِی كُلَّهَا عَلَیْكَ؟ قَالَ: إِذَنْ یَكْفِیَكَ اللهُ مَا أَهَمَّكَ مِنْ دُنْیَاكَ وَآخِرَتِكَ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں ہےایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس بارے میں کیاارشادفرماتے ہیں کہ میں اپنے لیے دعاکرنے کے بجائے آپ پرہی درودپڑھتارہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوپھراللہ تعالیٰ دنیاوآخرت کے غموں سے تمہاری کفایت کرے گا۔[25]

عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَوْلَى النَّاسِ بِی یَوْمَ القِیَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَیَّ صَلاَةً.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاسفرمایاقیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہوگاجوسب سے زیادہ مجھ پردوردبھیجے گا۔[26]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ. قال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَسِیَ الصَّلَاةَ علی خطئ طَرِیقَ الْجَنَّةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جوشخص مجھ پردرودبھیجنابھول جائے وہ جنت کے راستے سے ہٹ گیا۔[27]

درودپڑھنے کے متعددمواقع ہیں ،اذان کے بعددرودپڑھنا۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِی، یَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَیَّ صَلَاةً صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا لِی الْوَسِیلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِی الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِی إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ  وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِی الْوَسِیلَةَ،حَلَّتْ عَلَیْهِ الشَّفَاعَةُ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سناجب تم موذن کوسنوتواسی طرح کہوجس طرح وہ کہتاہےپھرمجھ پر درود بھیجوکیونکہ جس نے مجھ پرایک باردرودبھیجااللہ تعالیٰ اس پردس رحمتیں نازل فرمائے گا،پھراللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلے کاسوال کرو،وہ جنت کاایک مقام ہے جوبندگان الٰہی میں سے صرف ایک ہی بندے کوملے گااورمجھے امیدہے کہ وہ میں ہوں گا،پس جس نے میرے لیے وسیلے(مقام محمود) کاسوال کیا ، اس کے لیے میری شفاعت ثابت ہو جائے گی۔[28]

مسجدمیں داخل ہوتے اورنکلتے وقت درودپڑھنا۔

فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ،وَإِذَا خَرَجَ، صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِكَ

زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجدمیں داخل ہوتے تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرصلاة وسلام بھیجتے پھریہ دعاپڑھتے’’ اے اللہ!میرے گناہ معاف فرما دےاورمیرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘اورجب آپ مسجدسے باہرتشریف لے جاتے توپھربھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرصلاة وسلام بھیجتے پھریہ دعاپڑھتے’’اے اللہ!میرے گناہ معاف فرمادے اورمیرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘[29]

نمازجنازہ میں درودپڑھنا۔

فَإِنَّ السُّنَّةَ أَنْ یَقْرَأَ فِی التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى فَاتِحَةَ الْكِتَابِ، وَفِی الثَّانِیَةِ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَفِی الثَّالِثَةِ یَدْعُو لِلْمَیِّتِ، وَفِی الرَّابِعَةِ یَقُولُ:اللهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَهُ

سنت یہ ہے کہ نمازجنازہ میں پہلی تکبیرکے بعدسورۂ فاتحہ پڑھی جائے،دوسری تکبیرکے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھاجائے،تیسری تکبیرکے بعدمیت کے لیے دعاکی جائے اورچوتھی تکبیرکے بعدکہاجائے اے اللہ!توہمیں اس کے اجرسے محروم نہ کرنااوراس (کی وفات)کے بعدہمیں فتنہ وآزمائش میں مبتلانہ کرنا۔[30]

دعامیں درودپڑھنا۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، قَالَ: الدُّعَاءُ مَوْقُوفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا یَصْعَدُ حَتَّى تُصَلِّیَ عَلَى نَبِیِّكَ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے روایت ہے دعاآسمان وزمین کے درمیان موقوف رہتی ہے اوراس وقت تک اوپرنہیں چڑھتی جب تک تم اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرودنہ پڑھ لو۔[31]

دعائے قنوت میں درودپڑھنا۔

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ، قَالَ: عَلَّمَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِی قُنُوتِ الْوَتْرِ:اللَّهُمَّ اهْدِنِی فِیمَنْ هَدَیْتَ، وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنِی فِیمَنْ تَوَلَّیْتَ، وَبَارِكْ لِی فِیمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنِی شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِی وَلا یُقْضَى عَلَیْكَ، إِنَّهُ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ

حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وترمیں پڑھنے کے لیے مجھے دعاکے یہ کلمات سکھائے’’اے اللہ!جن لوگوں کوتونے ہدایت دی ہے ان کے زمرے میں تومجھے بھی ہدایت دے اورمجھے بھی ان لوگوں کے زمرے میں (دنیاوآخرت کی)عافیت دے جن کوتونے عافیت دی ہےاورجن لوگوں کاتوکارسازبناہے ان(کے زمرے)میں میرابھی کارسازبن جااورجوکچھ تونے مجھے عطافرمایاہے اس میں برکت دےاورجوتونے میرے لیے مقدرکیاہے اس کے شرسے بچااس لیے کہ بے شک تیراحکم سب پرچلتاہے اورتیرے اوپرکسی کاحکم نہیں چلتا،جس کاتومددگاربن گیاوہ کبھی ذلیل نہیں ہوتااورجس کوتونے اپنادشمن قراردے دیاوہ کبھی عزت نہیں پاسکتاتوہی برکت والاہے اے ہمارے پروردگار!اورتوہی سب سے بلندوبالاہے۔‘‘[32]

وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ

اورامام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بعدیہ الفاظ بھی روایت کیے ہیں اوراللہ تعالیٰ محمدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پررحمت نازل فرمائے۔[33]

جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنا۔

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِكُمْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِیهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیهِ قُبِضَ وَفِیهِ النَّفْخَةُ وَفِیهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَیَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِیهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَیَّ،فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ كَیْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَیْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ؟ – یَعْنِی بَلِیتَ، فَقَالَ:إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ

اوس بن اوس سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ ہے،اس دن آدم علیہ السلام پیداکیے گئے اوراسی دن فوت کیے گئےاوراسی دن صور پھونکا جائے گااوراسی دن سب لوگ بے ہوش ہوں گے،پس تم اس دن مجھ پرکثرت کے ساتھ درودپڑھاکرو، بے شک تمہارادرودمجھ پرپیش کردیاجائے گا،ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پرکیسے پیش کیاجائے گاجبکہ آپ بوسیدہ ہوجائیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پرحرام قراردیاہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کوکھائے۔[34]

اور مشرکین جواپنے خالق حقیقی کو چھوڑکرمظاہرقدرت کی پرستش کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَمِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ [35]

ترجمہ: اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند، سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو ۔

یہودونصاریٰ جو عزیر علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کے لئے اولادثابت کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۔۔۔۝۳۰ [36]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔

اللہ کی نافرمانی اوراس کے حلال کردہ چیزوں کوحرام کرکے اللہ تعالیٰ کواذیت پہنچاتے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ [37]

ترجمہ:اور یہ وہ تمہاری زبانیں جھو ٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو ،جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِیَدِی الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللیْلَ وَالنَّهَارَ

حدیث قدسی ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے ابن آدم مجھے ایذا دیتاہے ، زمانے کوگالی دیتاہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ،اس کے رات اوردن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔[38]

وَمَعْنَى هَذَا:أَنَّ الْجَاهِلِیَّةَ كَانُوا یَقُولُونَ: یَا خَیْبَةَ الدَّهْرِ، فَعَلَ بِنَا كَذَا وَكَذَا فَیُسْنِدُونَ أَفْعَالَ اللهِ تَعَالَى إِلَى الدَّهْرِ، وَیَسُبُّونَهُ، وَإِنَّمَا الْفَاعِلُ لِذَلِكَ هُوَ اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ، فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ

اس کامفہوم یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ کہاکرتے تھے ہائے زمانے کی بربادی!ہمارے ساتھ اس نے یہ یہ کیاہے،وہ اللہ تعالیٰ کے افعال کوزمانے کی طرف منسوب کرتے اوراسے گالی دیاکرتے تھے حالانکہ ان کافاعل اللہ عزوجل ہے لہذااس سے منع کردیاگیا۔[39]

اورمکذبین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے کے لئے انہیں زبان سے شاعر ، کذاب ساحروغیرہ کے القاب دے کرطعن کرتے اور اپنے فعل سے آپ کو اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی تنقیص واہانت کرکے انہیں ایذا پہنچاتے ہیں ،جیسے فرمایا

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍؚبَلِ افْتَرٰىہُ بَلْ ہُوَشَاعِرٌ۝۰ۚۖ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَـمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ۝۵ [40]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں بلکہ یہ اس کی من گھڑت ہےبلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝۳۰ [41]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص شاعر ہے جس کے حق میں ہم گردش ایام کا انتظار کر رہے ہیں ؟۔

وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ۝۰ۡوَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝۴ۖۚ [42]

ترجمہ:ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈراتے والا خود انہی میں سے آگیا منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحر ہے ، سخت جھوٹا ہے۔

اس جرم میں اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دھتکار دیا ہے،اوران کے لئے جہنم کارسواکن عذاب تیارکررکھاہے ،اور جو لوگ مومن مردوں وعورتوں کوبلاوجہ بدنام کرنے کے لئے ان پربہتان باندھتے ہیں ، ان کی ناجائزتنقیص وتوہین کرتے ہیں وہ صریح گناہ کابوجھ اٹھاتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الْغِیبَةُ؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا یَكْرَهُ،قِیلَ أَفَرَأَیْتَ إِنْ كَانَ فِی أَخِی مَا أَقُولُ؟قَالَ:إِنْ كَانَ فِیهِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ یَكُنْ فِیهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیاتم جانتے ہوکہ غیبت کیا ہے ؟لوگوں نے کہااللہ اوراس کارسول خوب جانتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیرااپنے بھائی کا ذکراس طرح کرناجواسے ناگوارہو،صحابہ  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اوراگر میرے بھائی میں وہ عیب موجودہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگراس میں وہ عیب موجود ہے جوتونے بیان کیاتوتونے اس کی غیبت کی اوراگروہ اس میں نہیں ہے توتونے اس پربہتان لگایا۔[43]

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِن جَلَابِیبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٥٩﴾(الاحزاب)
اے نبی ! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکالیا کریں ، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

كَانَ رجل من الْمُنَافِقین یتعرّض لنساء المؤمنین یؤذیهن،فَإِذَا قِیلَ لَهُ: قَالَ كُنْتُ أَحْسَبُهَا أَمَةً، فَأَمَرَهُنَّ اللهُ أَنْ یُخَالِفْنَ زِیَّ الإِمَاءِ وَیُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلابِیبِهِنَّ. تُخَمِّرُ وَجْهَهَا إِلا إِحْدَى عَیْنَیْهَا

محمدبن کعب القرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافقین کاٹولہ مومن عورتوں کوتکلیف پہنچاتالیکن جب روکاجاتاتووہ کہتامیں نے سمجھاکہ شایدلونڈی ہے،اس بناپراللہ تعالیٰ نے عورتوں کوحکم دیاکہ لونڈیوں کی سی وضع قطع نہ بنائیں اوراپنے اوپرچادرڈال لیں اس طرح کے بجز ایک آنکھ کے باقی سب چہرہ چھپ جائے۔[44]

كَانَ نَاسٌ مِنْ فُسَّاقِ أَهْلِ الْمَدِینَةِ یَخْرُجُونَ بِاللیْلِ حِینَ یَخْتَلِطُ الظَّلَامُ إِلَى طُرُقِ الْمَدِینَةِ، یَتَعَرَّضُونَ لِلنِّسَاءِ، وَكَانَتْ مَسَاكِنُ أَهْلِ الْمَدِینَةِ ضَیِّقة، فَإِذَا كَانَ اللیْلُ خَرَجَ النِّسَاءُ إِلَى الطُّرُقِ یَقْضِینَ حَاجَتَهُنَّ، فَكَانَ أُولَئِكَ الْفُسَّاقُ یَبْتَغُونَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ، فَإِذَا رَأَوُا امْرَأَةً عَلَیْهَا جِلْبَابٌ قَالُوا: هَذِهِ حُرَّةٌ، كُفُّوا عَنْهَا. وَإِذَا رَأَوُا الْمَرْأَةَ لَیْسَ عَلَیْهَا جِلْبَابٌ، قَالُوا: هَذِهِ أَمَةٌ. فَوَثَبُوا إِلَیْهَا

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں مدینہ منورہ میں بدمعاشوں کاایک گروہ تھاجورات کی تاریکی میں نکلتاتھااورعورتوں کوچھیڑتاتھا،مدینہ منورہ کے مکانات تنگ تھے رات کوجب عورتیں قضائے حاجت کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں تویہ بدمعاش ان سے براارادہ کرتے تھے،جس عورت کودیکھتے کہ چادرمیں چھپی ہوئے ہے اس کوشریف زادی سمجھ کرچھوڑدیتے تھے ورنہ کہتے یہ لونڈی ہے اوراس پر حملہ کر دیتے۔[45]

فأمرن أن یخالفن بزیهنّ عن زى الإماء بلبس الأردیة والملاحف وستر الرؤوس والوجوه

اورتفسیرکشاف میں ہےاس لیے ان کاحکم ہواکہ لونڈیوں کی وضع سے الک وضع اختیارکریں یعنی چادریں اوربرقع استعمال کریں اورسراورچہرہ چھپائیں ۔[46]

یعنی آزاداورلونڈیوں کے لباس اوروضع میں فرق تھاآزادعورتیں چادروں سے چہرہ چھپاتی تھیں اورلونڈیاں کھلے منہ نکلتی تھیں ۔

جیسے ایک شاعر سَبْرَةُ بْنُ عُمَرَ الْفَقْعَسِیُّ نے کہا

وَنِسْوَتُكُمْ فِی الروع باد وجوهها ، یُخَلْنَ إِمَاءً وَالْإِمَاءُ حَرَائِرُ

لڑائی میں تمہاری عورتوں کے چہرے کھل گئے تھے، اوراس وجہ سے وہ لونڈیاں معلوم ہوتی تھیں حالانکہ وہ آزادتھیں ۔

تواللہ تعالیٰ نے اس آیت کونازل فرمایاجسےآیت حجاب سے موسوم کیاگیاہے،اصطلاح شریعت میں حجاب کی تعریف یہ ہے

 سَتْرِ الْمَرْأَةِ جَمِیعَ بَدَنِهَا وزِینَتَهَا، بِمَا یَمْنَعُ الْأَجَانِبِ عنها من رؤیة شیء من بَدَنِهَا أوزِینَتَهَا التی تتزین بها

عورت اپنے بدن اورزینت کواس طرح چھپائے کہ کوئی بھی اجنبی(غیرمحرم)اس کے بدن اورزینت(جس کے ساتھ وہ مزین ہے)میں سے کچھ بھی نہ دیکھ سکے۔[47]

جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کوپردہ کاحکم فرمایا

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ۔۔۔[48]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔

کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !سب سے پہلے اپنی بیویوں اوربیٹیوں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی زینب رضی اللہ عنہا ہی نہیں تھیں بلکہ ایک سے زائد بیٹیاں زینب رضی اللہ عنہا ،رقیہ رضی اللہ عنہا اورام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی تھیں )کواورپھر تمام مومن عورتوں کوپردہ کاحکم فرمادیں کہ جب وہ کسی ضرورت سے گھر سے باہرنکلیں تواپنے جسم کی زینت کوچھپانے اور ہوسناک نگاہوں سے بچنے کے لئے اپنی بڑی سادہ چادرں کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹ لیاکریں اوراپنامنہ چھپانے کے لئے چادر کاایک حصہ اپنے اوپرسے لٹکالیاکریں تاکہ تمام جسم اورچہرہ چھپ جائے۔

قَالَهُ الْجَوْهَرِیُّ: الْجِلْبَابُ: الْمِلْحَفَةُ، قَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ هُذَیْلٍ تَرْثِی قَتِیلًا لَهَا

جوہری کہتے ہیں ’’جلباب ۔‘‘ایسی چادرکوکہتے ہیں جس سے جسم کوڈھانپ لیاجائے۔[49]

جلباب قمیص یاچادرکوکہتے ہیں اس کی جمع جلابیب ہے یہ جلبہ سے ہے اورجلبہ کہتے ہیں تہ بہ تہ پتھرجن میں جانوروں کے لیے راستہ باقی نہ رہے ، سبزکانٹے داردرخت ،بادل کاایک ٹکڑا، پالان پرلگایاجانے والاچمڑا الغرض کسی چیزکو محفوظ کرنے کے لیے جن دواعی کی ضرورت ہوتی ہے وہ سارے فہوم جلباب میں پنہاں ہیں اورخصوصا ًجب یُدْنِیْنَ  کا لفظ جوکہ الْإِدْنَاءِ سے ہے متعدی ہو،حرف علیٰ کے ساتھ تواس کامعنیٰ الارخاءہوتاہے اور الارخاء (لٹکانا) اوپرسے نیچے کی طرف ہوتا ہے توگویاجلباب سے مرادوہ کھلی چادرہے جوسرسے نیچے کولٹکائی جائے جس سے چہرے سمیت سارابدن ڈھک جائے ۔

 وَالْجِلْبَابُ فِی لُغَةِ الْعَرَبِ الَّتِی خَاطَبْنَا بِهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ مَا غَطَّى جَمِیعَ الْجِسْمِ، لَا بَعْضَهُ

امام ابن حزم رحمہ اللہ ’’جلباب ۔‘‘کی تشریح یوں کرتے ہیں عربوں کی زبان میں وہ زبان جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگوکرتے تھے اس کپڑے کوکہتے ہیں جوتمام بدن کوڈھانپ لے اورجوکپڑاتمام بدن کونہ ڈھانپے اسے جلباب نہیں کہتے۔[50]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَمَرَ اللهُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِینَ إذا خرجن من بیوتهن فی حَاجَةٍ أَنْ یُغَطِّینَ وُجُوهَهُنَّ مِنْ فَوْقِ رُؤُوسِهِنَّ بِالْجَلَابِیبِ، وَیُبْدِینَ عَیْنًا وَاحِدَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کوحکم دیتاہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کے سلسلہ میں گھرسے باہرنکلیں توجوچادروہ اوڑھتی ہیں اسے سرپرسے جھکاکرمنہ ڈھانپ لیا کریں صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔

وَقَالَ عِكْرِمَةُ: تُغَطِّی ثُغْرَة نَحْرِهَا بِجِلْبَابِهَا تُدْنِیهِ عَلَیْهَا

اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی چادر سے اپناگلاتک ڈھانپ لے۔

وَالْجِلْبَابُ ثَوبٌ وَاسِعٌ أَوْسَعَ من الْخِمَار ودُونَ الرِّدَاءُ تَلْوِیَهُ الْمَرْأَةُ على رَأْسَهَا وتَبْقَى مِنْهُ ماتُرْسِلْهُ على صَدْرِهَا

علامہ زمحشری رحمہ اللہ کہتے ہیں جلباب ایسی چادر یا کپڑاجو کہ دوپٹہ سے کشادہ اور چادر سے کم جو کہ عورت اپنے سر پر لپیٹے اور اس کے اطراف کو سینے پر لٹکائے ،عورتیں اپنے اوپر اپنی چادروں کاایک حصہ لٹکا لیا کریں اوراس سے اپنے چہرے اوراپنے اطراف کواچھی طرح ڈھانک لیں ۔[51]

عہد صحابہ وتابعین کےبعد جتنےبڑے بڑے مفسرین اور فقہاء تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالاتفاق اس آیت کا مطلب جسم کے ساتھ چہرے کاپردہ بیان کیا ہے

x ابن جریرطبری المتوفی ۳۱۰ہجری کہتے ہیں ۔

 لَا یَتَشَبَّهْنَ بِالْإِمَاءِ فِی لِبَاسِهِنَّ إِذَا هُنَّ خَرَجْنَ مِنْ بُیُوتِهِنَّ لِحَاجَتِهِنَّ، فَكَشَفْنَ شُعُورَهُنَّ وَوُجُوهَهُنَّ، وَلَكِنْ لِیُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ، لِئَلَّا یَعْرِضَ لَهُنَّ فَاسِقٌ، إِذَا عَلِمَ أَنَّهُنَّ حَرَائِرٌ بِأَذًى مِنْ قَوْلٍ

شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کرگھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اورسرکے بال کھلے ہوئے ہوں بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکالیاکریں تاکہ کوئی فاسق ان کوچھڑنے کی جرات نہ کرے۔[52]

x ابوزکریایحییٰ بن زیادالفراء المتوفی ۲۰۷ہجری کہتے ہیں ۔

والجِلباب: الرداء.حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَرَّاءُ، قَالَ حَدَّثَنِی یَحْیَى بْنُ الْمُهَلَّبِ أَبُو كُدَیْنة عَن ابن عون عَن ابن سیرین فِی قوله: یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ .هكذا: قَالَ تُغَطّی إحدى عینیها وجبهتها والشِّق الآخر، إلّا العین

جلباب سے مرادچادرہے ہم سے ابوالعباس نے بیان کیاانہوں نے کہاہم سے محمدنے بیان کیاانہوں نے کہاہم سے امام فراء نے بیان کیاانہوں نے کہامجھ سے یحییٰ بن مہلب نے بیان کیاوہ ابن عون سے اوروہ ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے قول’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘کے بارے میں کہ انہوں نے (ابن سیرین رحمہ اللہ )نے کہاکہ وہ(عورت)اپنی ایک آنکھ اورپیشانی کوڈھانپے گی اوردوسری طرف کوبھی ڈھانپے گی سوائے ایک آنکھ کے۔[53]

x ابوبکراحمدبن علی الرازی الجصاص رحمہ اللہ المتوفی ۳۷۰ہجری کہتے ہیں ۔

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِی هَذِهِ الْآیَةِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ الشَّابَّةَ مَأْمُورَةٌ بِسَتْرِ وَجْهِهَا عَنْ الْأَجْنَبِیِّینَ وَإِظْهَارِ السِّتْرِ وَالْعَفَافِ عِنْدَ الْخُرُوجِ لِئَلَّا یَطْمَعَ أَهْلُ الرِّیَبِ فِیهِنَّ. وَفِیهَا دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْأَمَةَ لَیْسَ عَلَیْهَا سَتْرُ وَجْهِهَا وَشَعْرِهَا; لِأَنَّ قوله تعالى: وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ ظَاهِرُهُ أَنَّهُ أَرَادَ الْحَرَائِرَ

ابوبکرنے اس آیت کی تفسیرمیں کہاہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کررہی ہے کہ نوجوان عورت کواجنبی مردوں سے اپنے چہرے کوچھپانے کاحکم دیاگیاہے ۔۔۔اوراس آیت میں اس بات کی طرف بھی رہنمائی موجودہے کہ لونڈی پراپنے چہرے اوربالوں کوچھپاناضروری نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قول’’ اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو ۔‘‘ سے یہ واضح ہورہاہے کہ یہاں مرادآزادعورتیں ہیں ۔[54]

x ابومحمدالحسین بن مسعودالفراء البغوی رحمہ اللہ المتوفی ۵۱۶ہجری کہتے ہیں ۔

جَمْعُ الْجِلْبَابِ وَهُوَ الْمُلَاءَةُ التی تشتمل بها امرأة فَوْقَ الدِّرْعِ وَالْخِمَارِ، وَقَالَ ابْنُ عباس و عبیدة: أمر نساء المؤمنین أن یغطین رؤوسهن وَوُجُوهَهُنَّ بِالْجَلَابِیبِ إِلَّا عَیْنًا وَاحِدَةً لِیُعْلَمَ أَنَّهُنَّ حَرَائِرُ

جلابیب جلباب کی جمع ہے اوریہ وہ چادرہے جسے عورت اپنی قمیص اوردوپٹے کے اوپراوڑھتی ہے اورابن عباس اورابوعبیدہ نے کہاعورتوں کوحکم دیاگیاکہ وہ اپنے سراورچہروں کواپنے جلباب(چادر) سے ڈھانپیں اورایک آنکھ کھلی رکھیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ آزادہیں ۔[55]

x ابوقاسم جاراللہ محمدبن عمرالزمخشری الخوارزمی المتوفی ۵۳۸ہجری کہتے ہیں ۔

ومعنى یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ یرخینها علیهنّ، ویغطین بها وجوههنّ وأعطافهنّ. یقال:إذا زل الثوب عن وجه المرأة: أدنى ثوبك على وجهك۔۔۔فإن قلت: ما معنى مِنْ فی مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ؟ قلت: هو للتبعیض، إلا أن معنى التبعیض محتمل وجهین، أحدهما: أن یتجلببن ببعض مالهنّ من الجلابیب، والمراد أن لا تكون الحرة متبذلة فی درع وخمار، كالأمة والماهنة ولها جلبابان فصاعدا فی بیتها.والثانی: أن ترخى المرأة بعض جلبابها وفضله على وجهها تتقنع حتى تتمیز من الأمة

اور’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘کامعنی یہ ہے کہ وہ ان جلابیب کواپنے اوپرلٹکالیں اوران کے ذریعے اپنے چہروں اورپہلوؤں کوڈھانپ لیں کیونکہ جب عورت کے چہرے سے کپڑاہٹ جائے توکہاجاتاہے اپنے کپڑے کواپنے چہرے پرلٹکالو۔۔۔پس اگرتویہ سوال کرے کہ’’ اپنی چادروں کے پلو ۔‘‘ میں مِنْ کاکیامطلب ہے تومیں یہ کہتاہوں کہ مِنْ یہاں تبعیض کے لیے ہے اوریہ ذہن میں رہے کہ یہاں تبعیض میں دواحتمالات ہیں ایک تویہ کہ عورت کے پاس جوبہت سارے جلابیب ہیں ان میں سے ایک جلباب اوڑھ لے یعنی مرادیہ ہے کہ آزادعورت لونڈی اورپیشہ ورخادمہ کی طرح(چہرہ کھلارکھتے ہوئے صرف)ایک لمبی قمیص اوراوڑھنی میں باہرنہ نکلے جبکہ اس کے پاس گھرمیں دویااس سے زائدجلباب موجودہوں ،دوسرامفہوم یہ ہے کہ عورت اپنے ایک ہی جلباب کابعض حصہ اپنے چہرے پرلٹکالے یعنی گھونگھٹ نکال لے تاکہ اس میں اورلونڈی میں فرق ہوسکے۔ [56]

x امام ابوالفرج جمال الدین عبدالرحمٰن بن علی بن محمدالجوزی البخدادی المتوفی ۵۹۷ہجری کہتے ہیں ۔

قال ابن قتیبة: یَلْبَسْنَ الأردیة. وقال غیره: یغطین رؤوسهنّ ووجوههنّ لیُعلَم أنهنَّ حرائر ذلِكَ أَدْنى أی: أحرى وأقرب أَنْ یُعْرَفْنَ أَنَّهُنَّ حَرَائِرُ

ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے کہاہے کہ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ چادریں اوڑھ لیں جبکہ دوسرے علماء کاکہناہے کہ وہ اپنے سراورچہرے کوڈھانپ لیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ آزادعورتیں ہیں ۔[57]

x امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ المتوفی ۶۰۶ہجری کہتے ہیں ۔

وَیُمْكِنُ أَنْ یُقَالَ الْمُرَادُ یُعْرَفْنَ أَنَّهُنَّ لَا یَزْنِینَ لِأَنَّ مَنْ تَسْتُرُ وَجْهَهَا مَعَ أَنَّهُ لَیْسَ بِعَوْرَةٍ لَا یُطْمَعُ فِیهَا أَنَّهَا تَكْشِفُ عَوْرَتَهَا فَیُعْرَفْنَ أَنَّهُنَّ مَسْتُورَاتٌ لَا یُمْكِنُ طَلَبُ الزِّنَا مِنْهُنَّ

اوریہ بھی ممکن ہے کہ یہ بات کہی جائے کہ ان کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے گاکہ وہ زانی عورتیں نہیں ہیں کیونکہ جس نے اپنے چہرے کوڈھانپ لیااس کے باوجودکہ وہ سترمیں داخل نہیں ہے اس سے یہ امیدکبھی نہ کی جائے گی کہ وہ اپنے سترکوکسی کے سامنے کھول دے گی ،پس ان کوپہچان لیاجائے گاکہ وہ پردے والی عورتیں ہیں اوران سے زناکامطالبہ بھی ممکن نہ ہوگا۔[58]

x قاضی ناصرالدین عبداللہ بن عمرالبیضاوی الشافعی المتوفی ۶۹۲ہجری کہتے ہیں ۔

یغطین وجوههن وأبدانهن بملاحفهن إذا برزن لحاجة، ومِنْ للتبعیض فإن المرأة ترخی بعض جلبابها وتتلفع ببعض

وہ اپنے چہروں اوربدنوں کواپنی چادروں سے ڈھانپ لیں جبکہ وہ کسی حاجت کے لیے باہرنکلیں اورمِنْیہاں پرتبعیض کے لیے ہے یعنی عورت اپنی چادرکے بعض حصے کولٹکالے اوربعض کولپیٹ لے۔[59]

x امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمدبن احمدبن محمودالنفسی الحنفی المتوفی ۷۰۱ہجری کہتے ہیں ۔

ومعنى یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ یرخینها علیهن ویغطین بها وجوههن وأعطافهن یقال إذا زال الثوب عن وجه المرأة إذن ثوبك على وجهك

’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ کامعنی یہ ہے کہ وہ جلابیب (چادروں )کواپنے اوپرلٹکالیں اوران سے اپنے چہروں اورپہلوؤں کوڈھانپ لیں اگرعورت کے چہرے سے کپڑاہٹ جائے توکہاجاتاہے اپنے کپڑے کواپنے چہرے پرلٹکالو۔[60]

x امام علاؤالدین علی بن محمدبن ابراہیم البغدادی الصوفی الشافعی المتوفی ۷۲۵ہجری کہتے ہیں ۔

یُدْنِینَ أی یرخین ویغطین۔۔۔قال ابن عباس: أمر نساء المؤمنین أن یغطین رؤوسهن ووجوههن بالجلابیب إلا عینا واحدة لیعلم أنهن حرائر

’’ لٹکالیا کریں ۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ وہ لٹکائیں یاڈھانپیں ۔۔۔(آگے چل کراس آیت کی تفسیرمیں بیان کرتے ہیں )عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ اہل ایمان کی عورتیں کویہ حکم دیاگیاکہ وہ اپنے سروں اورچہروں کواپنی چادروں سے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ آزادعورتیں ہیں ۔[61]

x امام محمدبن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان الاندلسی المتوفی ۷۵۴ہجری کہتے ہیں ۔

وعَلَیْهِنَّ:شَامِلٌ لِجَمِیعِ أَجْسَادِهِنَّ، أَوْ عَلَیْهِنَّ: عَلَى وُجُوهِهِنَّ، لِأَنَّ الَّذِی كَانَ یَبْدُو مِنْهُنَّ فِی الْجَاهِلِیَّةِ هُوَ الْوَجْهُ

’’ اپنے اوپر ۔‘‘ان عورتوں کے سارے جسم کوشامل ہے یا’’ اپنے اوپر ۔‘‘سے مرادصرف چہرہ ہے کیونکہ جاہلیت میں عورتیں جس چیزکوظاہرکرتی تھیں وہ چہرہ ہی توتھا۔[62]

x ابوعبداللہ محمدبن احمدالانصاری القرطبی رحمہ اللہ المتوفی ۶۷۱ہجری کہتے ہیں ۔

لَمَّا كَانَتْ عَادَةُ الْعَرَبِیَّاتِ التَّبَذُّلَ، وَكُنَّ یَكْشِفْنَ وُجُوهَهُنَّ كَمَا یَفْعَلُ الْإِمَاءُ، وَكَانَ ذَلِكَ دَاعِیَةً إِلَى نَظَرِ الرِّجَالِ إِلَیْهِنَّ، وَتَشَعُّبِ الْفِكْرَةِ فِیهِنَّ، أَمَرَ اللهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْمُرَهُنَّ بِإِرْخَاءِ الْجَلَابِیبِ عَلَیْهِنَّ إِذَا أَرَدْنَ الْخُرُوجَ إِلَى حَوَائِجِهِنَّ

چونکہ عرب خواتین میں (دور جاہلیت کا)کچھ چھچھوراپن باقی تھااوروہ لونڈیوں کی طرح اپنے چہرے کوکھلارکھتی تھیں اوران کایہ فعل مردوں کے ان کی طرف دیکھنے اوران کے حوالے سے منتشرخیالی کا باعث بن رہاتھاتواللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ حکم دیاکہ ان کواپنے اوپرچادریں لٹکانے کاحکم دیں جب بھی وہ اپنی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کاارادہ کریں ۔[63]

x حافظ عمادالدین اسماعیل بن کثیر رحمہ اللہ المتوفی ۷۴۷ہجری کہتے ہیں ۔

قَالَ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ: سَأَلْتُ عَبیدةَ السَّلْمَانِیَّ عَنْ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ، فَغَطَّى وَجْهَهُ وَرَأْسَهُ وَأَبْرَزَ عَیْنَهُ الْیُسْرَى

عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، قَالَ: سَأَلْتُ عُبَیْدَةَ، عَنْ قَوْلِهِ: {قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ}قَالَ: فَقَالَ بِثَوْبِهِ، فَغَطَّى رَأْسَهُ وَوَجْهَهُ، وَأَبْرَزَ ثَوْبَهُ عَنْ إِحْدَى عَیْنَیْهِ

محمدبن سیرین رحمہ اللہ نےعبیدہ السلمانی سے ( جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمان ہوچکے تھے مگرحاضرخدمت نہیں ہو سکے تھے،اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں مدینہ منورہ تشریف لائے، انہیں فقہ اور قضا میں قاضی شریح کاہم پلہ ماناجاتاتھا ) اس آیت’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ کامطلب پوچھاانہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادراٹھائی اوراسے اس طرح اوڑھاکہ پوراسراورپیشانی اور پورامنہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔[64]

x امام جلال الدین محمدبن احمدامحلی رحمہ اللہ المتوفی ۸۶۴ہجری کہتے ہیں ۔

أَیْ یُرْخِینَ بَعْضهَا عَلَى الْوُجُوه إذَا خَرَجْنَ لِحَاجَتِهِنَّ إلَّا عَیْنًا وَاحِدَة

یعنی وہ ان چادروں کابعض حصہ اپنے چہروں پرڈال لیں جب وہ کسی حاجت کے لیے نکلیں اورایک آنکھ کھلی رکھیں ۔[65]

x ابوحفص عمربن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی رحمہ اللہ المتوفی ۸۶۰ہجری کہتے ہیں

قال ابن عباس وابوعبیدة من نساء المومنین ان یغطین رووسھن ووجوھھن بالجلالیب الاعیناً واحدة لیعلم أَنَّهُنَّ حَرَائِرُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورابوعبیدہ نے کے بارے میں کہاہے کہ وہ اپنے سراورچہرے چادروں سے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ آزادعورتیں ہیں ۔[66]

x برہان الدین ابراہیم بن عمرالبقاعی رحمہ اللہ المتوفی ۸۸۵ہجری کہتے ہیں ۔

{یُدْنِینَ} أی یقربن {علیهن} أی على وجوهن وجمیع أبدانهن فلا یدعن شیئاً منها مكشوفاً۔

’’ لٹکالیا کریں  ۔‘‘ یعنی قریب کریں ۔‘‘’’ اپنے اوپر۔‘‘ اورچہروں اوراپنے تمام جسم پراورکسی چیزکوبھی کھلانہ چھوڑیں ۔[67]

x ابومحمدعبدالحق بن غالب بن عبدالرحمٰن بن عطیہ الاندلسی رضی اللہ عنہ المتوفی ۵۴۲ہجری کہتے ہیں ۔

لما كانت عادة العربیات التبذل فی معنى الحجبة وكن یكشفن وجوههن كما یفعل الإماء وكان ذلك داعیة إلى نظر الرجال إلیهن وتشعب الفكر فیهن أمر الله تعالى رسوله علیه السلام بأمرهن بإدناء الجلابیب، لیقع سترهن ویبین الفرق بین الحرائر والإماء، فیعرف الحرائر بسترهن

چونکہ عرب خواتین کی(دورجاہلیت کی)عادات سے چھچھوراپن ابھی باقی تھااوراسی کووہ پردہ خیال کرتی تھیں اوروہ اپنے چہروں کولونڈیوں کی طرح کھلارکھتی تھیں اوران کایہ فعل مردوں کے ان کی طرف دیکھنے اورمنتشرخیالی کاباعث بن رہاتھاتواللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیاکہ ان کوچادریں لٹکانے کاحکم دیں تاکہ وہ مستورہوں اورآزادعورتوں اورلونڈیوں کے درمیان فرق واضح ہوجائے اوران کے مستورہونے کے سبب ان کوآزادعورتیں خیال کیاجائے۔[68]

x الشیخ محمدطاہرابن عاشوراالمالکی التونسی المتوفی ۱۳۹۴ہجری کہتے ہیں ۔

وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مُدَّةَ خِلَافَتِهِ یَمْنَعُ الْإِمَاءَ مِنَ التَّقَنُّعِ كَیْ لَا یَلْتَبِسْنَ بِالْحَرَائِرِ وَیَضْرِبُ مَنْ تَتَقَنَّعُ مِنْهُنَّ بِالدِّرَّةِ ثُمَّ زَالَ ذَلِكَ بَعْدَهُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اپنے دورخلافت میں لونڈیوں کونقاب پہننے سے منع کرتے تھے تاکہ آزادعورتوں سے ان کی مشابہت نہ ہواورجوبھی ان میں سے نقاب اوڑھتی اس کو کوڑے سے مارتے تھے ،پھران کے بعدیہ عمل ختم ہوگیا۔[69]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:رَأَى عُمَرُ أَمَةً لَنَا مُتَقَنِّعَةً، فَضَرَبَهَا وَقَالَ:لَا تَشَبَّهِی بِالْحَرَائِرِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ہماری ایک لونڈی کودیکھاجس نے چہرہ چھپایا ہواتھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کومارااوراسے حکم دیاکہ آزادعورتوں کے ساتھ مشابہت اختیارنہ کرو۔[70]

أَنَّ صَفِیَّةَ بِنْتَ أَبِی عُبَیْدٍ حَدَّثَتْهُ قَالَت:خَرَجَتِ امْرَأَةٌ مُخْتَمِرَةٌ مُتَجَلْبِبَةٌ ،فَقَالَ عَمْرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: مَنْ هَذِهِ الْمَرْأَةُ؟فَقِیلَ لَهُ: هَذِهِ جَارِیَةٌ لِفُلَانٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِیهِ،فَأَرْسَلَ إِلَى حَفْصَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا فَقَالَ: مَنْ حَمَلَكِ عَلَى أَنْ تُخَمِّرِی هَذِهِ الْأَمَةَ وَتُجَلْبِبِیهَا، وَتُشَبِّهِیهَا بِالْمُحْصَنَاتِ حَتَّى هَمَمْتُ أَنْ أَقَعَ بِهَا، لَا أَحْسَبُهَا إِلَّا مِنَ الْمُحْصَنَاتِ؟لَا تُشَبِّهُوا الْإِمَاءَ بِالْمُحْصَنَاتِ

صفیہ بنت ابی عبیدسے مروی ہےایک عورت دوپٹہ اورچادردونوں اوڑھے ہوئے گھرسے نکلی، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے پوچھایہ عورت کون ہے؟بتایاگیایہ آپ کے فلاں بیٹے کی لونڈی ہے،آپ نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کوپیغام بھیجاتمہیں کیاہواکہ تم نے اس لونڈی کودوپٹہ اورچادرمیں ڈھانپ کرآزادعورتوں کے مشابہ بنادیاہے؟لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مثل نہ بناؤ۔[71]

یعنی آزادعورتیں اپنے پورے جسم کوڈھانپنے کے لیے دوپٹہ اورچادردونوں اکھٹااستعمال کرتی تھیں ۔

حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ یَزِیدَ قَالَ وَسَأَلْنَاهُ یَعْنِی الزُّهْرِیَّ هَلْ عَلَى الْوَلِیدَةِ خِمَارٌ مُتَزَوِّجَةٌ أَوْ غَیْرُ مُتَزَوِّجَةٍ؟ قَالَ عَلَیْهَا الْخِمَارُ إِنْ كَانَتْ مُتَزَوِّجَةً وَتُنْهَى عَنِ الْجِلْبَابِ لِأَنَّهُ یُكْرَهُ لهن أن یتشبهن بِالْحَرَائِرِ الْمُحْصَنَاتِ، وَقَدْ قَالَ اللهُ تَعَالَى:یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ

یونس بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم نے زہری رحمہ اللہ سے پوچھالونڈی کوشادی شدہ ہویاغیرشادی شدہ دوپٹہ اوڑھنابنتاہے؟ فرمایااس کے لیے شادہ شدہ ہونے کی صورت میں دوپٹہ اوڑھناضروری ہے ،دوپٹہ کے ساتھ چادرنہیں اوڑھ سکتی کیونکہ اس طرح وہ آزادعورتوں کے مشابہ ہوجائے گی جوکہ ناپسندیدہ ہے، اوراللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں اوربیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپراپنی چادرکے پلولٹکالیاکریں ۔[72]

x محمدبن علی بن محمدالشوکانی المتوفی ۱۲۵۰ہجری کہتے ہیں ۔

قَالَ الْوَاحِدِیُّ: قَالَ الْمُفَسِّرُونَ: یُغَطِّینَ وجوههنّ ورؤوسهنّ إِلَّا عَیْنًا وَاحِدَةً، فَیُعْلَمُ أَنَّهُنَّ حَرَائِرُ فَلَا یعرض لهن بِأَذًى.

واحدی نے کہاہے کہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیرمیں کہاہے کہ وہ اپنے چہرے اوراپنے سرڈھانپ لیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ یہ جان لیاجائے کہ وہ آزادعورتیں ہیں اوران کوتکلیف نہ دی جائے۔[73]

x ابوالفضل شہاب الدین سیدمحمودآلوسی المتوفی ۱۲۷۰ہجری کہتے ہیں ۔

والظاهر أن المراد بعلیهن على جمیع أجسادهن، وقیل: على رؤوسهن أو على وجوههن لأن الذی كان یبدو منهن فی الجاهلیة هو الوجه، واختلف فی كیفیة هذا التستر

اورظاہرمیں ’’ اپنے اوپر ۔‘‘سے مرادساراجسم ہے اورایک قول یہ بھی ہے کہ اپنے سروں یاچہروں پرڈال لوکیونکہ دورجاہلیت میں عورتیں جس چیزکوظاہرکرتی تھیں وہ ان کاچہرہ تھالیکن چہرہ ڈھانپنے کی اس کیفیت میں مفسرین کااختلاف ہے۔[74]

x صدیق بن حسن بن علی بن الحسین القنوجی البخاری المتوفی ۱۳۰۷ہجری کہتے ہیں ۔

قال الواحدی قال المفسرون: یغطین وجوههن ورؤوسهن إلا عیناً واحدة فیعلم أنهن حرائر فلا یعرض لهن بأذى، وبه قال ابن عباس

واحدی نے کہاہے کہ مفسرین نے کہاکہ وہ عورتیں اپنے چہرے اورسرڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ آزادعورتیں ہیں اوران کوتکلیف نہ پہنچائی جائے اوریہی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کابھی قول ہے۔[75]

x محمدبن عمرالجاوی المتوفی ۱۸۹۸م کہتے ہیں ۔

( أَدْنى) أی أحق بأن یعرفن أنهن حرائر، وأنهن مستورات لا یمكن طلب الزنا منهن، لأن من تستر وجهها لا یطمع فیها أن تكشف عورتها

’’مناسب طریقہ ۔‘‘ سے مرادیہ ہے کہ ان کوپہچان لیاجائے کہ وہ آزادعورتیں ہیں اس حال میں کہ انہوں نے اپنے آپ کوچھپایاہوایسی صورت میں ان سے زناکامطالبہ بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ جوعورت اپنے چہرے کوڈھانپ لے گی اس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیاجاسکتاکہ وہ اپناسترکھولے گی۔[76]

x شیخ الازہرعلامہ احمدبن مصطفی المراغی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

یُدْنِینَ: أی یرخین ویسدلن یقال للمرأة إذا زل الثوب عن وجهها أدنى ثوبك على وجهك، أدنى: أی أقرب

’’ لٹکالیا کریں ۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ وہ (اپنی چادریں )لٹکالیں ،عورت کاکپڑاجب اس کے چہرے سے ہٹ جائے توکہاجاتاہے اپنے کپڑے کواپنے چہرے کے قریب کر ۔[77]

x شیخ عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی رحمہ اللہ المتوفی ۱۳۷۶ہجری کہتے ہیں ۔

 أی: یغطین بها، وجوههن وصدورهن

یعنی اپنے چہرے اورسینے ان(جلابیب)کے ساتھ ڈھانپ لیں ۔[78]

x محمدالامین بن محمدالمختارالشقنیطی رحمہ اللہ المتوفی ۱۳۹۳ہجری کہتے ہیں ۔

وَمِنَ الْأَدِلَّةِ الْقُرْآنِیَّةِ عَلَى احْتِجَابِ الْمَرْأَةِ وَسِتْرِهَا جَمِیعَ بَدَنِهَا حَتَّى وَجْهَهَا قَوْلُهُ تَعَالَى:یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ  ، فَقَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ مَعْنَى:یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ: أَنَّهُنَّ یَسْتُرْنَ بِهَا جَمِیعَ وُجُوهِهِنَّ

عورت کے حجاب اورپورے بدن حتی کہ چہرے کوبھی ڈھانپنے کے قرآنی دلائل میں ایک دلیل یہ آیت مبارکہ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ بھی ہے اوربہت سارے اہل علم نے کہاہے کہ اس آیت’’اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ کامفہوم یہ ہے کہ وہ عورتیں اپنے سارے بدن اورچہرے کوڈھانپیں گی۔[79]

x ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ، أی عَلَى وُجُوهِهِنَّ

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں اوربیٹیوں اورمومنین کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپرچادریں لٹکالیاکریں ۔‘‘ یعنی اپنے چہروں پر۔[80]

x قاضی ثناء اللہ المظہری النقشبندی المتوفی ۱۲۲۵ہجری کہتے ہیں ۔

قال ابن عباس وابو عبیدة امر نساء المؤمنین ان یغطین رؤسهن ووجوههن بالجلابیب الا عینا واحدا لیعلم انهن الحرائر ومن للتبعیض لان المرأة ترخى بعض جلبابها

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورابوعبیدہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کاقول ہے کہ اہل ایمان کی عورتوں کوحکم دیاگیاکہ وہ اپنے سراورچہرے اپنی چادروں سے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ یہ جان لیاجائے کہ وہ آزادعورتیں ہیں اورمن تبعیض کے لیے ہے کیونکہ عورت اپنی چادرکابعض حصہ(اپنے چہرے پر)لٹکاتی ہے۔[81]

x الشیخ ابوبکرجابرالجزائری رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

 یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ: أی یرخین على وجوههن الجلباب حتى لا یبدو من المرأة إلا عین واحدة تنظر بها الطریق إذا خرجت لحاجة.

’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘کامطلب ہے کہ وہ جلباب اپنے چہرے پراس طرح لٹکالیں کہ سوائے ایک آنکھ کے عورت کے جسم کاکوئی حصہ نظرنہ آئے تاکہ جب وہ ضرورت کے تحت گھرسے باہرنکلے توراستہ دیکھ سکے۔[82]

x ابوالعباس احمدبن محمدبن المھدی ابن عجیبہ الحسنی رحمہ اللہ المتوفی ۱۲۲۴ہجری کہتے ہیں ۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ، أی: یُرخین على وجوههنّ من جلابیبهن فیغطین بها وجوهَهن

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘سے مرادیہ ہے کہ وہ اپنے جلباب کاکچھ حصہ اپنے چہرے پرلٹکالیں اوراس سے اپنے چہرے کوڈھانپ لیں ۔[83]

x ڈاکٹروھبہ الزحیلی کہتے ہیں ۔

یُدْنِینَ الإدناء: التقریب، والمراد الإرخاء والسدل على الوجه والبدن، وستر الزینة، ولذا عدّی بعلى مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ جمع جلباب، وهو الملاءة التی تشتمل بها المرأة فوق القمیص، أو الثوب الذی یستر جمیع البدن. ومِنْ للتبعیض، فإن المرأة تغطی بعض جلبابها وتتلفع ببعض، والمراد: یرخین بعضها على الوجوه إذا خرجن لحاجتهن إلا شیئا قلیلا كعین واحدة

’’ پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘الإدناءسے مرادچہرے اورسارے بدن پرلٹکاناہے اورزینت کوچھپاناہے اسی وجہ سے اسے علی کے ساتھ متعدی کیاگیا۔۔۔ اور مِنْ تبعیض کے لیے ہے کیونکہ عورت اپنے جلباب کے بعض حصے سے اپناچہرہ ڈھانپتی ہے اوربعض حصے سے اپنے جسم کولپیٹتی ہے اس کامطلب ہے کہ جب عورتیں گھرسے باہرکسی ضرورت کے تحت نکلیں تواپنے جلباب کے ایک حصے کواپنے چہروں پرلٹکالیاکریں سوائے ایک آنکھ کھلی رکھنے کے۔[84]

x مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

اس آیت سے ثابت ہواکہ عورتوں کوجب کسی ضرورت کی بناپرگھرسے نکلناپڑے توبھی چادرسے تمام بدن چھپاکرنکلیں اوراس چادرکوسرکے اوپرسے لٹکاکرچہرہ بھی چھپا کرچلیں ،مروجہ برقع بھی اس کے قائم مقام ہے۔[85]

x سیدابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

موجودہ زمانے کے بعض مترجمین اورمفسرین مغربی ثقافت سے مغلوب ہوکراس لفظ کاترجمہ صرف لپیٹ لیناکرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلاجائے لیکن اللہ تعالیٰ کامقصوداگروہی ہوتاجویہ حضرات بیان کرناچاہتے ہیں تووہ یُدْنِیْنَ الَیْهِنَّ فرماتا،جوشخص بھی عربی زبان جانتاہے وہ کبھی یہ نہیں مان سکتاک ہیُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہوسکتے ہیں ،مزیدبرآں مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اورزیادہ مانع ہیں ،ظاہرہے کہ یہاں مِنْ تبعیض کے لیے ہے یعنی چادرکاایک حصہ،اوریہ بھی ظاہرہے کہ لپیٹی جائے گی توپوری چادرلپیٹی جائے گی نہ کہ اس کامحض ایک حصہ ،اس لیے آیت کاصاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کران کاایک پلواپنے اوپرلٹکا لیا کریں جسے عرف عام میں گھونگھٹ ڈالناکہتے ہیں ۔[86]

x مولاناابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

سورۂ الاحزاب آیت ۵۹ میں حجاب یعنی پردے کے احکام بیان فرمائے جوتمام مسلمان عورتوں کے لیے یکساں طورپرواجب ہیں ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عورتوں کوحکم دیاہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے باہرنکلیں تواپنی چادروں کے پلواپنے اوپرڈال کراپنامنہ چھپالیاکریں اورصرف آنکھیں کھلی رکھیں جمہورصحابہ وتابعین نے اس آیت کایہی مفہوم بیان کیاہے۔[87]

x مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

قرآن نے جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہرنکلیں تواس کاکچھ حصہ اپنے اوپرلٹکالیاکریں تاکہ چہرہ بھی مکمل طو رپر ڈھک جائے اورانہیں چلنے پھرنے میں زحمت بھی پیش نہ آئے،یہی جلباب ہے جوہمارے دیہاتوں کی شریف بڑی بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اوراسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقع کی شکل اختیارکرلی ہے،اس برقعہ کواس زمانے کے دلدادگان تہذیب اگرتہذیب کے خلاف قراردیتے ہیں تودیں لیکن قرآن مجیدمیں اس حکم کانہایت واضح الفاظ میں موجودہے جس کاانکارصرف وہی برخودغلط لوگ کرسکتے ہیں جواللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہیں ۔[88]

x پیرکرم شاہ الازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج ،اپنی دختران پاک نہاداورساری مسلمان عورتوں کویہ حکم دے دیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہرنکلیں توایک بڑی چادر سے اپنے آپ کواچھی طرح لپیٹ لیاکریں ،پھراس کاایک پلواپنے چہرے پرڈال لیاکریں تاکہ دیکھنے والوں کوپتہ چل جائے کہ یہ مسلمان خاتون ہے ،اس طرح کسی بدباطن کوتمہیں ستانے کی جرات نہ ہوگی۔[89]

x صلاح الدین یوسف کہتے ہیں ۔

جلابیب ،جلباب کی جمع ہے جوایسی بڑی چادرکوکہتے ہیں جس سے پورابدن ڈھک جائے ،اپنے اوپرچادرلٹکانے سے مراداپنے چہرے پراس طرح گھونگھٹ نکالناہے کہ جس سے چہرے کابیشترحصہ بھی چھپ جائے اورنظریں جھکاکرچلنے سے اسے راستہ بھی نظرآناچاہیے۔[90]

اس آیت سے صاف ظاہرہوتاہے کہ گھرسے نکلتے وقت عورت کواپناسراورچہرہ اوربدن چھپاناضروری ہے کہ کسی کواس کاچہرہ نظرنہ آئے اوریہی پردہ مروجہ ہے جوشروع اسلام سے اب تک مسلمانوں میں رائج ہے جس کواس زمانے کے شہوت پرست ختم کرناچاہتے ہیں ،اللہ ان کوہدایت دے اورمسلمانوں کوان کے فتنے سے بچائے۔[91]

x شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ

اے نبی!کہہ دیجئے اپنی عورتوں کواوراپنی بیٹیوں کواورمسلمانوں کی عورتوں کوکہ نیچے لٹکالیں اپنے اوپرتھوڑی سی اپنی چادریں ۔ یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادرکاکچھ حصہ سرسے نیچے چہرہ پربھی لٹکالیں ۔[92]

x عبدالماجددریاآبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

جب ضرورتاًباہرنکلناہوتواپنی چادریں اپنے اوپرسروں پرذرالٹکالیاکریں تاکہ چہرے کے اطراف توخوب ڈھک جائیں اورخودچہرے کی ٹکیابھی ایک حدتک،ہمارے ملک میں اسی گھونگھٹ نکالناکہتے ہیں ۔[93]

علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت حجاب ہے جوکہ تمام عورتوں کے لیے مشترک حکم ہے اوراس میں سراورمنہ کوڈھانپنے کووجوب بالکل واضح ہے کیونکہ اسی آیت سے صحابیات نے بھی یوں ہی چہرے اورسرکوڈھانپناسمجھا۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ:یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ، خَرَجَ نساء الأنصار كأن على رؤوسهن الْغِرْبَانُ مِنَ السَّكِینَةِ، وَعَلَیْهِنَّ أَكْسِیَةٌ سُودٌ یَلْبَسْنَهَا

چنانچہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ کے نازل ہونے کے بعد انصار کی عورتیں جب گھرسے نکلتی تھیں توایسے لگتاکہ ان کےاس طرح لکی چھپی چلتی تھیں کہ گویاان کے سروں پر کوے بیٹھےہیں ،اوروہ سیاہ چادریں اپنے اوپرڈال لیاکرتی تھیں ۔[94]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:كَانَ الرُّكْبَانُ یَمُرُّونَ بِنَا، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا، أَسْدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اورہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتی تھیں پس جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے توہم اپنے جلباب اپنے سرسے اپنے چہرے پرلٹکالیتی تھیں اورجب وہ قافلے آگے گزرجاتے توہم اپنے چہرے کھول دیتی تھیں ۔[95]

عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ فَإِذَا لَقِینَا الرَّاكِبَ أَرْسَلْنَا ثِیَابَنَا مِنْ فَوْقِ رُءُوسِنَا عَلَى وُجُوهِنَا فَإِذَا جَاوَزْنَا رَفَعْنَاهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں ہوتیں اورجب کسی اجنبی سوارکے گزرنے کی آہٹ محسوس ہوتی توہم اپناکپڑاسروں کے اوپرسے چہروں پرلٹکالیاکرتیں اورجب وہ اجنبی گزرجاتاتوہم اپناکپڑااٹھالیاکرتیں ۔[96]

قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:كُنَّا نَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ فَیَمُرُّ بِنَا الرَّاكِبُ فَتَسْدِلُ الْمَرْأَةُ الثَّوْبَ مِنْ فَوْقِ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم حالت احرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتیں اورجب کسی اجنبی مردکے گزرنے کی آہٹ محسوس کرتیں توہرعورت اپنی چادراپنے سرپرڈال کرچہرہ پرلٹکالیتی۔[97]

یعنی یہ صرف ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورام سلمہ رضی اللہ عنہا کاطرزعمل نہ تھابلکہ جتنی خواتین بھی سفرحج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتی تھیں وہ سب قافلوں کے قریب گزرنے پر اپنے چہرے اپنی چادروں سے ڈھانپ لیتی تھیں ۔

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَكَانَ رَآنِی قَبْلَ الحِجَابِ، فَاسْتَیْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِینَ عَرَفَنِی، فَخَمَّرْتُ وَجْهِی بِجِلْبَابِی

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا قصہ الافک والی روایت میں صفوان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتی ہیں اورانہوں نے مجھے حجاب(کے حکم کے نزول)سے پہلے دیکھاہواتھاان کے اناللہ واناالیہ راجعون کہنے کی وجہ سے میں بیدارہوگئی جبکہ انہوں نے مجھے پہچان لیاتھاپس میں نے اپناچہرہ اپنے جلباب سے ڈھانپ لیا۔[98]

عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّ أَفْلَحَ، أَخَا أَبِی القُعَیْسِ جَاءَ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْهَا، وَهُوَ عَمُّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ، بَعْدَ أَنْ نَزَلَ الحِجَابُ فَأَبَیْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ،فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْتُهُ بِالَّذِی صَنَعْتُ فَأَمَرَنِی أَنْ آذَنَ لَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب افلح جوابی القعیس کے بھائی تھے اورعائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچاتھے پردے کے نازل ہونے کے بعدآئے اوران کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے اجازت دینے سے انکارکردیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توانہوں نے اس بات کی خبردی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی توانہوں نے انہیں اندرآنے کی اجازت دی۔[99]

وَفِیهِ وُجُوبُ احْتِجَابِ الْمَرْأَةِ مِنَ الرِّجَالِ الْأَجَانِبِ

حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس (حدیث)میں اس بات کاوجوب ہے کہ عورت اجانب(غیرمحرموں )سے پردہ کرے گی۔[100]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَاأَنَّهَا ذَكَرَتْ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ، فَأَثْنَتْ عَلَیْهِنَّ، وَقَالَتْ لَهُنَّ مَعْرُوفًا وَقَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ سُورَةُ النُّورِ عَمِدْنَ إِلَى حُجُورٍ أَوْ حُجُوزٍ، شَكَّ أَبُو كَامِلٍ فَشَقَقْنَهُنَّ فَاتَّخَذْنَهُ خُمُرًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انصارکی عورتوں کاذکرفرمایاان کی تعریف کی اوران کے اچھے اعمال بیان کیے اورکہا جب سورۂ النورنازل ہوئی توان کی عورتوں نے پردوں کے کپڑے یامردوں کی چادریں لیں اور انہیں پھاڑکراپنے لئے پردے کی چادریں بنا لیں (یعنی موٹے کپڑے کی چادریں بنالیں ) ۔[101]

فَاخْتَمَرْنَ أَیْ غَطَّیْنَ وُجُوهَهُنَّ ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’ فَاخْتَمَرْنَ‘‘سے مرادہے کہ انہوں نے اپنے چہروں کوڈھانپ لیا۔[102]

عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ؛ أَنَّهَا قَالَتْ: كُنَّا نُخَمِّرُ وُجُوهَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ. وَنَحْنُ مَعَ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ

ففاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرماتی ہیں ہم اپنے چہروں کو خمار (چادر)سے ڈھانپتی تھیں اس حال میں کہ ہم حالت احرام میں ہوتیں اوراسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ہمارے ساتھ ہوتی تھیں ۔[103]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، قَالَتْ: أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الحُیَّضَ یَوْمَ العِیدَیْنِ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَیَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِینَ، وَدَعْوَتَهُمْ وَیَعْتَزِلُ الحُیَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ،قَالَتِ امْرَأَةٌ: یَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَیْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟قَالَ:لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا

ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہمیں حکم دیاگیاکہ ہم حیض والی اورپردہ نشین عورتوں کوعیدین کے دن نکالیں وہ مسلمانوں کی جماعت اوردعامیں حاضرہوں اورحیض والی عورتیں نمازکی جگہ سے علیحدہ رہیں ،ایک عورت نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرہم میں سے کسی کے پاس چادرنہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی سہیلی اس کواپنی چادرمیں شریک کرے۔[104]

یعنی صحابیات کویہ فہم تھااوراس آیت سے انہوں نے یہی سمجھاتھاکہ بغیرجلباب کے باہرنہیں نکل سکتیں ۔

عَطَاءُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ، قَالَ:قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلاَ أُرِیكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟قُلْتُ: بَلَى؟قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّی أُصْرَعُ، وَإِنِّی أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ لِی،قَالَ:إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللهَ أَنْ یُعَافِیَكِ، فَقَالَتْ: أَصْبِرُ ،فَقَالَتْ: إِنِّی أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ لِی أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ،فَدَعَا لَهَا

عطا ءبن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ کیامیں تجھے جنتی عورت نہ دکھلاؤں ؟میں نے کہاکیوں نہیں ؟فرمایاکہ یہ (کالے رنگ کی)عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئی اورعرض کرنے لگی مجھ پرمرگی کادورہ پڑتا ہے اورمیں بے پردہ ہوجاتی ہوں آپ اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعافرمائیں ،ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچاہوتوصبرکرلواورتمہیں جنت مل جائے اورچاہوتوتمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعاکردیتاہوں کہ وہ تم کواس مرض سے نجات دے دے،اس نے کہاکہ میں صبرکرلیتی ہوں ، پھرکہنے لگی کہ میں بے پردہ ہوجاتی ہوں اس بارے میں دعاکردیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں عورت کے حق میں دعافرمادی۔[105]

دیکھیں جنت کی عظیم بشارت مل جانے کے بعدبھی بیماری پرصبرکرنے کاکہنے کے باوجودبے پردگی کاخطرہ لاحق ہےلیکن آج کل کی مسلمان خواتین پردہ کوایک مصیبت خیال کرتی ہیں ۔

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، أَخْبَرَنِی عَطَاءٌ:أَنَّهُ رَأَى أُمَّ زُفَرَ تِلْكَ امْرَأَةً طَوِیلَةً سَوْدَاءَ، عَلَى سِتْرِ الكَعْبَةِ

ابن جریح رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے عطاءبن ابی رباح رحمہ اللہ نے یہ خبردی کہ انہوں نے ام زفرکوکعبہ کے پردے پردیکھاوہ ایک طویل اورکالی عورت ہیں ۔[106]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں مسندبزارکی ایک اورروایت نقل کی ہے کہ اس عورت کویہ تکلیف ایک جن کی وجہ سے تھی اورجب بھی اس کویہ تکلیف ہوتی تووہ کعبے کے پردے کے ساتھ لٹک جاتی تھی اورکہتی تھی

 أَنَّهَا قَالَتْ إِنِّی أَخَافُ الْخَبِیثَ أَنْ یُجَرِّدَنِی فَدَعَا لَهَا فَكَانَتْ إِذَا خَشِیَتْ أَنْ یَأْتِیَهَا تَأْتِی أَسْتَارَ الْكَعْبَةِ فَتَتَعَلَّقُ بِهَا

مجھے اس خبیث سے یہ ڈرلگتاہے کہ وہ مجھے ننگاکردے گاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعاکی توجب بھی اس عورت کویہ خوف محسوس ہوتاکہ وہ جن اس کے پاس آئے گاتووہ کعبہ کے پردوں کے پاس آکران سے لٹک جاتی تھی۔[107]

ایک شاعرنے کہا۔

فَمَنْ هَجَرَ اللذَّاتِ نَالَ الْمُنَى وَمَنْ ، أَكَبَّ عَلَى اللذَّاتِ عَضَّ عَلَى الْیَدِ

جولذات کوچھوڑدے وہ مقصدکوپالیتاہے،اورجولذات پراوندھاہوجائے پھروہ اپنے ہاتھ کوہی کاٹتاہے۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِامْرَأَةٍ وَهِیَ فِی خِدْرِهَا مَعَهَا صَبِیٌّ، فَقَالَتْ: أَلِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک عورت کے پاس سے گزرہوجوپردہ میں تھی اوراس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاتواس نے سوال کیاکیااس کے لیے بھی حج ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اورتیرے لیے اس کااجر ہے۔[108]

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ امْرَأَةً أَخْطُبُهَا،فَقَالَ:اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَكُمَا، فَأَتَیْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فَخَطَبْتُهَا إِلَى أَبَوَیْهَا، وَأَخْبَرْتُهُمَا بِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَكَأَنَّهُمَا كَرِهَا ذَلِكَ، قَالَ: فَسَمِعَتْ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ، وَهِیَ فِی خِدْرِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَكَ أَنْ تَنْظُرَ، فَانْظُرْ، وَإِلَّا فَأَنْشُدُكَ، كَأَنَّهَا أَعْظَمَتْ ذَلِكَ،قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَیْهَا فَتَزَوَّجْتُهَا، فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورمیں نے آپ کے سامنے ایک عورت کاتذکرہ کیاجس سے میں نکاح کرناچاہتاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاکر پہلے اس کو(ایک نظر)دیکھ لویہ بات تمہارے مابین محبت کاباعث ہوگی، میں انصارکی ایک عورت کے پاس آیاتومیں نے اس کے والدین سے نکاح کی بات کی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے بارے میں بتایامگروالدین نے لڑکی کے دیکھنے کو ناپسند کیا،مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس لڑکی نے میری بات سن لی اوروہ پردے میں کھڑی تھی اس لڑکی نے کہاکہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیاتوتم مجھے دیکھ لواوراگرایسانہیں ہے تومیں اللہ کی قسم کھاتی ہوں کہ ایسانہ کرنا(یعنی مجھے نہ دیکھنا) گویااس لڑکی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کوبڑاجانا، مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس لڑکی کودیکھااورپھربعدمیں اس سے نکاح کرلیا پھر انہوں نے اس کے ساتھ اپنی موافقت کا ذکر کیا ۔[109]

والخدر ستر یجعل للبكر فی جَنْبَ الْبَیْتِ

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھاہے خدراس پردے کوکہتے ہیں جوکنواری لڑکی کے لیے گھرکے ایک کونے میں بنایاجاتاہے۔[110]

الْخِدْرُ نَاحِیَةٌ فِی الْبَیْتِ یُتْرَكُ عَلَیْهَا سِتْرٌ فَتَكُونُ فِیهِ الْجَارِیَةُ الْبِكْرُ

اورلغات حدیث کی مشہورکتاب النہایة میں ہےخدرگھرکے اس کونے کوکہتے ہیں جہاں پردہ لٹکادیاجاتاہے اوروہاں کنواری لڑکی پردے کے پیچھے بیٹھتی ہے۔[111]

أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ، یَقُولُ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَیَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِی خِدْرِهَا

جیسےابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرم وحیامیں اس کنواری لڑکی سے بڑھ کرتھے جوپردے کے پیچھے بیٹھاکرتی ہے۔[112]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، قَالَ:خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّأُ لَهَا، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَیْهَا فِی نَخْلٍ لَهَا، فَقِیلَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا وَأَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِذَا أَلْقَى اللهُ فِی قَلْبِ امْرِئٍ خِطْبَةَ امْرَأَةٍ، فَلَا بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَیْهَا

محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے ایک عورت کی طرف نکاح کاپیغام بھیجااورمیں اس کوچوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرنے لگ گیاحتی کہ ایک دن وہ عورت اپنے باغ میں گئی تومیں نے (موقع پاکر)اس کودیکھ لیا،تولوگوں نے مجھ سے کہاآپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوکرایساکرتے ہیں ؟تومیں نے کہاکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے جب کسی مردکاکسی عورت سے شادی کاارادہ ہوتواس کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[113]

یعنی عام عورتیں بھی اس زمانے میں حجاب کرتی تھیں تب ہی توان کادیکھنامشکل تھااگروہ عورت بھی حجاب نہ کرتی ہوتی اورہروقت چہرہ ننگارکھتی تومحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کوچوری چھپے تکلف کرکے دیکھنے کی ضرورت نہ تھی۔

صاحب اغانی نے اخطل کے تذکرے میں لکھاہے کہ ایک دفعہ اخطل سعیدبن ایاس کامہمان ہواسعیدنے بڑے تپاک سے اس کی مہمانداری کی یہاں تک کہ اس کی دونوں لڑکیاں جن کانام زعوم اورامامہ تھااخطل کی خدمت گزاری میں مصروف رہیں ،دوسری دفعہ اخطل کویہ موقع پیش آیاتولڑکیاں جوان ہوچکی تھیں اس لیے اخطل کے سامنے نہ آئیں اغانی کےخاص الفاظ یہ ہیں

ثم نزل علیہ ثانیة وقدکبرتافحجبتاعنھماوقال این ابنتاک فاخبربکبرھما

اخطل دوبارہ سعیدکامہمان ہواتولڑکیاں بڑی ہوچکیں تھیں اس لیے انہوں نے پردہ کیااخطل نے پوچھاکہ تیری لڑکیاں کہاں ہیں ؟سعیدنے کہااب وہ بالغ ہوگئی ہیں ۔

یعنی عورتوں کاپردہ کرنااورمنہ چھپانامسلمانوں کی معاشرت تھی ۔

أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: كُنَّ نِسَاءُ المُؤْمِنَاتِ یَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ یَنْقَلِبْنَ إِلَى بُیُوتِهِنَّ حِینَ یَقْضِینَ الصَّلاَةَ، لاَ یَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الغَلَسِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےہم مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ فجر کی نماز میں اپنی چادروں میں لپٹ کر حاضر ہوتی تھیں جب نماز ختم کر چکتیں اور اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ کر جاتیں تو کوئی شخص اندھیرے کی وجہ سے ان پہچان نہ سکتا تھا۔[114]

یعنی بغیرچادرکے نہیں ہوتی تھیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنَ الثِّیَابِ فِی الإِحْرَامِ؟فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَلْبَسُوا القَمِیصَ، وَلاَ السَّرَاوِیلاَتِ، وَلاَ العَمَائِمَ، وَلاَ البَرَانِسَ إِلَّا أَنْ یَكُونَ أَحَدٌ لَیْسَتْ لَهُ نَعْلاَنِ، فَلْیَلْبَسِ الخُفَّیْنِ، وَلْیَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَیْنِ، وَلاَ تَلْبَسُوا شَیْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ، وَلاَ الوَرْسُ، وَلاَ تَنْتَقِبِ المَرْأَةُ المُحْرِمَةُ، وَلاَ تَلْبَسِ القُفَّازَیْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قمیص، پائجامہ، عمامہ اور ٹوپی نہ پہنے مگر یہ کہ کوئی ایسا آدمی جس کے پاس جو تیاں نہ ہو تو وہ موزے پہن سکتا ہے اور ٹخنے کے نیچے سے کاٹ دے اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگی ہو اور احرام والی عورت منہ پر نقاب نہ ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔[115]

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں لوگ ٹوپیاں اورپگڑیاں اکثروبیشترپہنے رہتے تھے ، اسی طرح عورتیں اپنے چہروں پرنقاب اوڑھے رہتی تھیں اورہاتھوں پردستانے بھی پہنتی تھیں اگریہ معمول نہ ہوتاتوحالت احرام سے بالخصوص ان کی ممانعت نہ ہوتی۔

یعنی پردہ کا حکم صرف امہات المومنین کے لیے نہیں تھابلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے کیونکہ جس حجاب کاحکم ازواج مطہرات کودیاجارہاہے اسی حجاب کاحکم عام مسلمان عورتوں کوبھی دیاجارہاہے اورتمام علماکااس بات پراتفاق ہے کہ ازواج مطہرات کے حجاب میں چہرے کاپردہ واجب ہے ۔

قوله تعالى: فَسْئَلُوهُنَّ مِنْ وَراءِ حِجابٍ أَمْرٌ بِسَدْلِ السَّتْرِ عَلَیْهِنَّ وَذَلِكَ لَا یَكُونُ إِلَّا بِكَوْنِهِنَّ مَسْتُورَاتٍ مَحْجُوبَاتٍ وَكَانَ الْحِجَابُ وَجَبَ عَلَیْهِنَّ ۔

امام رازی رحمہ اللہ آیت ’’ اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو کرو۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں یہ حکم ہے کہ وہ اپنے اوپرچادریں لٹکالیں اوریہ اسی وقت ممکن ہوگاجب کہ وہ پردے میں چھپی ہوئی ہوں اوران کاحجاب واجب تھا۔[116]

پھریہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی آیت مبارکہ سے اورایک ہی صیغہ

۔۔۔ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ۔۔۔[117]

ترجمہ:اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔

سے ازواج مطہرات کے لیے چہرے کاپردہ واجب ثابت ہورہاہواورعام مسلمان عورتوں کے لیے مستحب؟ اگر ازواج مطہرات کے لیے اس آیت مبارکہ سے چہرے کا پردہ واجب ثابت ہورہاہے توتمام مسلمان عورتوں کے لیے بھی واجب ہوگاجبکہ اگرازواج مطہرات کے لیے اس آیت مبارکہ سے چہرے کے پردے کااستحباب ثابت ہورہاہے توسب مسلمان عورتوں کے لیے بھی چہرے کاپردہ مستحب ہوگا۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ  : دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ الْحِجَابَ إنَّمَا أَمَرَ بِهِ الْحَرَائِرَ دُونَ الْإِمَاءِ

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ حجاب کاحکم آزادعورتوں کے لیے تھاجبکہ لونڈیوں کے لیے یہ حکم نہ تھا۔[118]

وَثَبَتَ فِی الصَّحِیحِ أَنَّ الْمَرْأَةَ الْمُحْرِمَةَ تُنْهَى عَنْ الِانْتِقَابِ وَالْقُفَّازَیْنِ وَهَذَا مِمَّا یَدُلُّ عَلَى أَنَّ النِّقَابَ وَالْقُفَّازَیْنِ كَانَا مَعْرُوفَیْنِ فِی النِّسَاءِ اللاتِی لَمْ یُحْرِمْنَ وَذَلِكَ یَقْتَضِی سَتْرَ وُجُوهِهِنَّ وَأَیْدِیهِنَّ.

ایک اورمقام پرلکھتے ہیں اورصحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حالت احرام میں عورت کونقاب پہننے اوردستانے پہننے سے منع کیا گیا ہے اوریہ بات اس چیزپردلالت کرتی ہے کہ نقاب اوردستانے پہننااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان عورتوں میں معروف تھاجوحالت احرام میں نہ ہوتی تھیں اوریہ چیزاس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ وہ اپنے چہروں اورہاتھوں کوڈھانپ کررکھیں ۔[119]

یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ،وَقَدْ حَكَى أَبُو عَبِیدٍ وَغَیْرُهُ: أَنَّهَا تُدْنِیهِ مِنْ فَوْقِ رَأْسِهَا فَلَا تُظْهِرُ إلَّاعَیْنَهَا وَمِنْ جِنْسِهِ النِّقَابُ: فَكُنَّ النِّسَاءُ یَنْتَقِبْنَ. وَفِی الصَّحِیحِ أَنَّ الْمُحْرِمَةَ لَا تَنْتَقِبُ وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَیْنِ فَإِذَا كُنَّ مَأْمُورَاتٍ بِالْجِلْبَابِ لِئَلَّا یُعْرَفْنَ وَهُوَ سَتْرُ الْوَجْهِ أَوْ سَتْرُ الْوَجْهِ بِالنِّقَابِ: كَانَ الْوَجْهُ وَالْیَدَانِ مِنْ الزِّینَةِ الَّتِی أُمِرَتْ أَلَّا تُظْهِرَهَا لِلْأَجَانِبِ

ایک اورمقام پر’’ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘کی تفسیرمیں لکھتے ہیں ابوعبیدہ وغیرہ ہم نے بیان کیاہے کہ عورت اپنے جلباب (چادر) کو اپنے سرسے لٹکائے گی اوراپنی ایک آنکھ کے علاوہ اپنے جسم کاکوئی حصہ ظاہرنہ کرے گی اوراس کی جنس میں نقاب بھی شامل ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں نقاب کرتی تھیں کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ حالت احرام میں عورت نقاب نہ کرے اورنہ ہی دستانے پہنے جیساکہ عورتوں کوجلباب کاحکم اس لیے دیاگیاکہ وہ پہچانی نہ جائیں تواس سے مرادچہرے کاچھپاناہے یعنی نقاب سے چہرے کاچھپانایہی وجہ ہے کہ چہرہ اوردونوں ہاتھ اس زینت میں شامل ہیں کہ جس کواجنبی مردوں کے سامنے عورت کوچھپانے کاحکم دیاگیا۔[120]

اورمسلمان عورتیں اس حکم کے نازل ہونے کے فوراًبعد پردے کااہتمام کرتی تھیں ۔

وَلَمَّا أَنْشَدَ النُّمَیْرِیُّ عِنْدَ الْحَجَّاجِ قَوْلَهُ:

چنانچہ نمیری نے جب حجاج کے سامنے یہ شعرپڑھا۔

یُخَمِّرْنَ أَطْرَافَ الْبَنَانِ مِنَ التُّقَى ،، وَیَخْرُجْنَ جُنْحَ اللیْلِ مُعْتَجِرَاتٍ

وہ تقوی کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کے پوروں کے کناروں کوبھی ڈھانپتی ہے ،اورجب رات کوبھی نکلتی ہے توپردے میں (چادرمیں )لپٹی ہوتی ہیں ۔

قَالَ الْحَجَّاجُ: وَهَكَذَا الْمَرْأَةُ الْحُرَّةُ الْمُسْلِمَةُ.

توحجاج بن یوسف نے فوراًکہااسی طرح مسلمان آزادعورت ہوتی ہے۔

ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِیَ مُنْتَقِبَةٌ ، تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا، وَهُوَ مَقْتُولٌ ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: جِئْتِ تَسْأَلِینَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ؟ فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِی فَلَنْ أُرْزَأَ حَیَائِی،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِیدَیْنِ، قَالَتْ: وَلِمَ ذَاكَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ

عبدالخبیربن ثابت بن قیس بن شماس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کا نام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی،یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہو گیا تھا، اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی نے اس سے کہا کہ تو اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہے اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے (یعنی پوری طرح اپنے حو اس میں ہے اور احکام شریعت کی پابندی برقرار ہے) ؟تواس نے جواب دیاکہ میرے بیٹے کی مصیبت آئی ہے میری حیاتوباقی ہے وہ توقتل نہیں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا،اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔[121]

حكم الألبانی : ضعیف

لہذاحیاء اورپردہ ایک ہی چیزکے دونام ہیں ،اگرحیاء نہیں توپردہ کہاں اوراگرپردہ ہوگاتوحقیقی معنوں میں توحیاء بھی ضروری ہوگی۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ یُهْلِكَ عَبْدًا نَزَعَ مِنْهُ الْحَیَاءَ فَإِذَا نَزَعَ مِنْهُ الْحَیَاءَ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا مَقِیتًا مُمْقَتًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی ہلاکت کاارادہ کرتاہے تواس سے حیاء کوکھینچ لیتاہے اورجب حیاء اس سے چھن جائے توپھراس کوعذاب میں لت پت اور معذب ہی پائے گا۔[122]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِكُلِّ دِینٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَیَاءُ

اورانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہردین کاکوئی نہ کوئی اخلاقی پہلوہے اوراسلام کااخلاقی پہلوحیاءہے۔[123]

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْحَیَاءُ مِنَ الْإِیمَانِ، وَالْإِیمَانُ فِی الْجَنَّةِ،وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ، وَالْجَفَاءُ فِی النَّارِ

ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحیاء ایمان میں سے ہے اورایمان جنت میں جانے کاسبب ہے،اورفحش گوئی بداخلاقی ہے اوربداخلاقی جہنم کاایندھن ہے۔[124]

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، وَهُوَ یَعِظُ أَخَاهُ فِی الحَیَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:دَعْهُ فَإِنَّ الحَیَاءَ مِنَ الإِیمَانِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) کسی انصاری صحابی کے پاس سے گذرے اور (ان کو دیکھا) کہ وہ اپنے بیٹے کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے(کہ شرمایہ نہ کرو) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے (شرم والی خصلت پرقائم)رہنے دو کیونکہ یہ بات شک سے بالاترہے کہ شرم ایمان کاحصہ ہے۔[125]

أَبُو مَسْعُودٍ عُقْبَةُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ، إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ

ابومسعود رضی اللہ عنہ عقبہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کلمات نبوت میں سے جو لوگوں نے پایا ہے یہ جملہ بھی ہے جب تمہیں حیا مانع نہ ہو تو جودل میں آئے کرلو۔[126]

قَالَ النَّوَوِیُّ فِی الْأَرْبَعِینَ الْأَمْرُ فِیهِ لِلْإِبَاحَةِ أَیْ إِذَا أَرَدْتَ فِعْلَ شَیْءٍ فَإِنْ كَانَ مِمَّا لَا تَسْتَحِی إِذَا فَعَلْتَهُ مِنَ اللهِ وَلَا مِنَ النَّاسِ فَافْعَلْهُ وَإِلَّا فَلَا وَعَلَى هَذَا مَدَارُ الْإِسْلَامِ

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث پرتبصرہ فرماتے ہوئے رقمطرازہیں کہ یہ حکم جائزکرنے کے لیے ہے یعنی جب تم کوئی کام کرناچاہوتواگراس کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کاانجام دیتے وقت تمہیں اللہ تعالیٰ سے شرم محسوس نہ ہونہ لوگوں سے توکرلوورنہ مت کرو اور اسی پراسلام کادارومدارہے۔[127]

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْحَیَاءُ وَالْإِیمَانُ قُرِنَا جَمِیعًا، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الْآخَرُ

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاحیااورایمان دونوں جوڑے گئے ہیں اگران دونوں میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا خودبخوداٹھ جاتاہے(یعنی حیاء اور ایمان دونوں لازم وملزوم ہیں )۔[128]

وأَلقى عَنْ وجْهه قِناعَ الحیاءِ

ایک ضرب المثل ہےاس نے اپنے چہرے سے حیاء کالبادہ اتاردیا۔[129]

یعنی اس نے چہرے سے پردہ اتاردیااوراس کی شرم و حیاءختم ہوگئی۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَحْیُوا مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَیَاءِ مَنِ اسْتَحْیَا مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَیَاءِ، فَلْیَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا حَوَى، وَالْبَطْنَ وَمَا وَعَى، وَلْیَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِینَةَ الدُّنْیَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ سے حیاکروجس طرح حیاکرنے کاحق ہے جواللہ تعالیٰ سے حیاکرتاہے جس طرح کرنے کاحق ہے تواس نے اپنے سرکواورجوکچھ اس میں ہے اورپیٹ کواورجس کووہ گھیرے ہوئے ہے محفوظ کرلیااورجوموت اور(اس کے بعد) بوسیدہ ہونے کویادکرے اورآخرت کاارادہ کرے وہ دنیاکی زندگانی کی زینت کوترک کردیتاہے۔[130]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَدْخُلُ بَیْتِی الَّذِی دُفِنَ فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی فَأَضَعُ ثَوْبِی، وَأَقُولُ إِنَّمَا هُوَ زَوْجِی وَأَبِی، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاللهِ مَا دَخَلْتُهُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَیَّ ثِیَابِی، حَیَاءً مِنْ عُمَرَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں اپنے گھرمیں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمیرے والدسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ مدفون ہیں تومیں اپنے پردے کے کپڑے رکھ دیتی تھی اورکہتی تھی کہ یہاں توصرف میرے شوہراورمیرے والدہی تومدفون ہیں لیکن جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ کودفن کیاگیاتواللہ کی قسم!میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے شرم وحیاکرتے ہوئے بدن پراپنے کپڑوں کوخوب لپیٹ کررکھتی تھی۔[131]

چنانچہ کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے۔

فَلَا وَاللهِ مَا فِی الْعَیْشِ خَیْرٌ ،، وَلَا الدُّنْیَا إذَا ذَهَبَ الْحَیَاءُ

جس دنیااورزندگی میں حیانہ ہواللہ کی قسم!اس میں کوئی خیرنہیں ،

یَعِیشُ الْمَرْءُ مَا اسْتَحْیَا بِخَیْرٍ ،، وَیَبْقَى الْعُودُ مَا بَقِیَ اللِّحَاءُ

آدمی خیرکی زندگی اس وقت تک گزارتاہے جب تک باحیارہے،اورلکڑی بھی (تروتازہ)اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کاچھلکااس پررہے۔[132]

ایک شاعرنے کہا۔

إنی كأنی أرى من لا حیاءَ لهُ ،،ولا أمانةَ بین الناسِ عُریانا

میں دیکھتاہوں کہ جوباحیااورامانتدارنہیں ، وہ گویاکہ لوگوں کے درمیان ننگاہے۔[133]

پردہ جہاں حیااورایمان کی دلیل ہے وہاں غیرت مندی کی بھی دلیل ہے۔

قال علیٌّ رضی الله عنه:بَلَغَنی أن نِسَاءَكُمْ یُزَاحِمْنَ الْعُلُوجَ – أی الرجال الكفار من العَجَم فی الأَسْوَاقِ , ألاتَغَارُونَ؟إِنَّهُ لَا خَیْرَ فیمَنْ لَا یَغَارُ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے خبرملی ہے کہ تمہاری عورتیں کفارمردوں کے ساتھ (جوکہ عجم سے ہیں )بازاروں میں بھیڑکرتی ہیں کیاتمہیں غیرت نہیں آتی بلاشبہ اس میں کوئی خیرنہیں ہیں جوغیرت مندنہ ہو۔[134]

اذارحلت الْغَیْرَةِ من القلب ترحلت المحبة بل ترحل الدین کلہ

اورعلامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب دل سے غیرت چلی جائے توپھرمحبت رخصت ہوجاتی ہے بلکہ پورادین رخصت ہوجاتاہے۔

مولاناحمیدالدین فراہی کے رہنمااوراستادمولاشبلی نعمانی چہرے کے پردے کے وجوب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں پردے کے متعلق تمام دنیامیں مسلمانوں کوجوطریق عمل رہاہے وہ یہ تھاکہ کبھی کسی زمانہ میں عورتیں بغیربرقع اورنقاب کے باہرنہیں نکلتی تھیں اورنامحرموں سے ہمیشہ چھپاتی تھیں یہاں تک کہ یہ امرمعاشرت کاسب سے مقدم مسئلہ بن گیاتھا۔[135]

وکذاعادة بلاداندلس لایظھر من المراة الاعینھاالواحدة

علامہ ابوالحیان اندلس میں مسلمان خواتین کے پردے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں بلاداندلس میں مسلمان خواتین اس طرح پردہ کرتی ہیں کہ ایک آنکھ کے سواان کے جسم کاکوئی حصہ کھلانہیں ہوتا۔

قاری حکیم محمدحمیدالدین سنبھلی ۱۹۳۴ء میں اپنے سفرنامہ حج کے صفحہ ۷۸،۷۹پرتحریرفرماتے ہیں تمام بدن پر(بجائے کپڑے کے)اس کی دھجیاں (ہوتیں )یعنی برہنہ پا یامثل برہنہ کےلیکن جوان عورتیں نقاب وبرقع میں ضرورہوتیں گوکہ کیساہی خستہ وبوسیدہ نقاب وبرقع ہوتا(اورچہرہ اس طرح چھپاہوتاکہ)ہم نے کسی جوان العمرعورت کی کہیں شکل تک نہیں دیکھی۔

قال أمرنا بقتلك قالت هذا أهون علی فنزلت فشدت درعها من تحت قدمیها وكمیها على أطراف أصابعها وخمارها فما رئی من جسدهاشئ

تاریخ دمشق میں عبدہ بنت عبداللہ کے ترجمہ میں ہے جب حکومت عباسیہ کانمائندہ ان کے پاس آیااورکہاکہ ہمیں تمہارے قتل کاحکم دیاگیاہے تو عبدہ نے فرمایا یہ میرے لیے بہت معمولی بات ہے(انتظارکرو)انہوں نے اپنی قمیص قدموں کے نیچے سے باندھ لی اورآستینوں سے اپنی انگلیوں کے کونوں تک کوچھپالیاپھرپوری چادراس طرح لپیٹ کی کہ(دوران حد)ان کے بدن کاکوئی حصہ دکھائی نہیں دے رہاتھا۔[136]

اورپردہ کی حکمت اوراس کے فائدے کابیان فرمایاکہ اگریہ پردہ نہیں کریں گی توبسااوقات ان کے بارے میں کوئی شخص اس وہم میں مبتلاہوسکتاہے کہ یہ پاک بازعورتیں نہیں ہیں اورکوئی بدکردار،اوباش شخص جس کے دل میں مرض ہے آگے بڑھ کرتعرض کرکے ان کوتکلیف پہنچائے گا،ان کی اہانت بھی ہوسکتی ہے ،اوراگرپردہ کریں گی تو ہردیکھنے والایہ جان لے کہ وہ خاندانی ،شریف ،باحیا اور باعصمت عورتیں ہیں اس طرح وہ چھیڑخانی سے محفوظ رہیں گی ،اگرتم اپنے طرزعمل کی اصلاح کرلوگی اورجان بوجھ کراس کی خلاف ورزی نہیں کروگی تواللہ اپنی رحمت سے تمہاری دورجاہلیت کی غلطیاں معاف فرمادے گا۔

آج کل کے نام نہادروشن خیال محققین کہتے ہیں کہ آیت مبارکہ

 یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ۔۔۔[137]

’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔‘‘میں (چہرے کے پردے کا)جوحکم دیا گیا ہے وہ وقتی تدبیراورعارضی حکم ہے جیساکہ قرآن کے سیاق وسباق سے ظاہرہوتاہے۔

چنانچہ مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں

 ۔۔۔ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ۔۔۔[138]

ترجمہ:یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔

اس ٹکڑے سے کسی کویہ غلط فہمی نہ ہوکہ یہ ایک وقتی تدبیرتھی جواشرارکے شرسے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لیے اختیارکی گئی اوراب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی،اول تواحکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تووہ احکام کالعدم ہوجائیں ،دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیاگیاتھاکیاکوئی ذی ہوش یہ دعوی کرسکتاہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزاردرجہ زیادہ خراب ہیں البتہ حیااورعفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔[139]

عورت کے پردے کے بارے میں سعودی کبارعلماء کی کمیٹی کافتوی ہے۔

یجب على المرأة ستر وجهها وكفیها عن الرجال الأجانب

عورت پراجنبی مردوں سے اپنے چہرے اورہاتھوں کوڈھانپے رکھناواجب ہے۔[140]

الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کافتوی ہے۔

احتجاب المرأة المسلمة عن الرجال الأجانب وتغطیة وجهها وسائر مفاتنها أمر واجب دل على وجوبه الكتاب والسنة وإجماع السلف الصالح

مسلم خاتون کااجنبی مردوں سے پردہ کرنااوراپنے چہرے کوڈھانپے رکھناایک امرواجب ہے اس کے وجوب پرقرآن ،حدیث اورسلف صالحین کااجماع دال ہے۔[141]

فضیلة الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کافتوی ہے۔

النصوص الشرعیة والمعقولات العقلیة کلھاتدل علی وجوب سترالمراة وجھھا

تمام شرعی دلائل اورعقلی شہادتیں عورت کے چہرے کے پردے کے وجوب پردال ہیں ۔[142]

ان مذکورہ دلائل وبراہین کوپڑھنے کے بعدبھی کوئی انکارکرتاہے تواس کے انکارپریہی کہاجاسکتاہے۔

قد تُنْكِرُ العینُ ضوءَ الشمسِ مِنْ رَمَدٍ ،ویُنكِرُ الفَمُ طَعْمَ الماءِ مِنْ سَقَمِ

آنکھ میں جب گردہوتوسورج کی روشنی دیکھنے سے وہ انکارکردیتی ہے، اوربسااوقات بیماری کی وجہ سے منہ کاذائقہ خراب ہوتاہے توپانی بھی کڑوالگتاہے۔

اورقرآن وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرکوئی بھی روشن دلائل نہیں ہوسکتے،اس کے انکارکرنے والوں کے لیے شاعرنے کہا۔

وَلَیْسَ یَصِحُّ فِی الْأَذْهَانِ شَیْءٌ ، إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِیلٍ

جب(سورج چڑھاہواہو)دن نکلاہوتواس کے لیے بھی دلیل مانگی جائے کہ کیادلیل ہے توپھراس کے دماغ کے صحت بارے کیاریمارکس جاری کیے جائیں

بوقت ضرورت گھروں سے نکلنے کی اجازت:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ: {یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ}، [143]، خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِهِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الأَكْسِیَةِ

پردہ کاحکم نازل ہوچکاتھااور ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب عورتوں کے متعلق یہ حکم نازل ہو’’ وہ اپنے اوپراپنی چادریں لٹکالیاکریں ۔‘‘تواس کے بعدانصارکی عورتیں جب گھرسے باہر نکلتی تواسے لگتاتھاکہ ان کے سروں پرکوے بیٹھے ہوں ،ان سیاہ چادروں کی وجہ سے جووہ اپنے سروں پراوڑھنے لگی تھیں ۔[144]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ یَقُولُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: احْجُبْ نِسَاءَكَ، قَالَتْ: فَلَمْ یَفْعَلْ،وَكَانَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْرُجْنَ لَیْلًا إِلَى لَیْلٍ قِبَلَ المَنَاصِعِ،فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ، وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِیلَةً، فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ وَهُوَ فِی المَجْلِسِ، فَقَالَ: عَرَفْتُكِ یَا سَوْدَةُ،قَالَ: یَا سَوْدَةُ، وَاللهِ مَا تَخْفَیْنَ عَلَیْنَا، فَانْظُرِی كَیْفَ تَخْرُجِینَ،قَالَتْ: فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِی وَإِنَّهُ لَیَتَعَشَّى وَفِی یَدِهِ عَرْقٌ، فَدَخَلَتْ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی خَرَجْتُ، فَقَالَ لِی عُمَرُ: كَذَا وَكَذَا،قَالَتْ: فَأُوحِیَ إِلَیْهِ، ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَإِنَّ الْعَرْقَ فِی یَدِهِ مَا وَضَعَهُ، فَقَالَ:إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمگر(جذبہ احترام رسول کے تحت) سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکرتے تھے کہ آپ ازواج مطہرات کاپردہ کرائیں ،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعورتوں کوپردے کاحکم نہیں دیاتھا،اوران دنوں میں گھروں کے اندرقضائے حاجت کابندوبست نہ ہوتاتھااس لئے امہات المومنین سورج غروب ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لئے باہر چلی جاتی تھیں ،ایک مرتبہ ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا جولمبے قد اور بھاری جثہ کی عورت تھیں رات کوقضائے حاجت کے لئے اپنے حجرے سے نکلیں ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جواس وقت کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر پہچان لیااورکہنے لگے اے سودہ رضی اللہ عنہا ! اللہ کی قسم تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں ،دیکھوتم کس طرح نکلتی ہو، ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کویہ بات ناگوارگزری اس لئے شکایت کرنے کے لئے ضرورت سے لوٹ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرے میں کھاناتناول فرمارہے تھےاوراس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی،ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے کسی کام سے باہرگئی تھی اور(مجھے دیکھ کر) سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس طرح کہا،ابھی ان کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہونے لگی ، کچھ دیربعدجب وحی کی کیفیت دورہوئی، اورہڈی ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے تمہیں اپنے کام سے باہرنکلنے کی اجازت دے دی ہے[145]

‏ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا ‎﴿٤٠﴾(الاحزاب)
 (لوگو) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا(بخوبی) جاننے والا ہے ۔

ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کاہوناتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈے کاایک طوفان یکلخت اٹھ کھڑاہوا،مشرکین اورمنافقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پے درپے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے ،غزوہ احدکے بعدغزوہ احزاب اورغزوہ بنی قریظہ تک دوسال کی مدت میں جس طرح وہ زک پرزک اٹھاتے چکے گئے تھے اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں آگ سلگ رہی تھی ،وہ اس بات سے بھی مایوس ہوچکے تھے کہ اب وہ کھلے میدان میں لڑکرکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیر کرسکیں گے ،اس لئے انہوں نے اس نکاح کے معاملے کواپنے لئے ایک خدادادموقع سمجھا اور خیال کیاکہ اب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اخلاقی برتری کوختم کرسکیں گے جوان کی طاقت اوران کی کامیابیوں کااصل رازہے ،چنانچہ یہ افسانے تراشے گئے کہ (معاذاللہ)

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُتِیَ زیدا ذات یوم الحاجة فَأَبْصَرَ زَیْنَبَ قَائِمَةً فِی دِرْعٍ وَخِمَارٍ وَكَانَتْ بَیْضَاءَ جَمِیلَةً ذَاتَ خَلْقٍ مِنْ أَتَمِّ نِسَاءِ قُرَیْشٍ فَوَقَعَتْ فِی نَفْسِهِ وَأَعْجَبَهُ حُسْنُهَا، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللهِ مُقَلِّبِ الْقُلُوبِ،وَانْصَرَفَ،فَلَمَّا جَاءَ زَیْدٌ ذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَفَطِنَ زَیْدٌ فَأُلْقِیَ فِی نَفْسِ زَیْدٍ كَرَاهِیَتُهَا فِی الْوَقْتِ فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُفَارِقَ صَاحِبَتِی،قَالَ: ما لك أرا بك مِنْهَا شَیْءٌ؟ قَالَ: لَا وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ مَا رَأَیْتُ منها إلا خَیْرًا، وَلَكِنَّهَا تَتَعَظَّمُ عَلَیَّ لِشَرَفِهَا وَتُؤْذِینِی بِلِسَانِهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ زید رضی اللہ عنہ کے گھرمیں تشریف لے گئے توزینب رضی اللہ عنہا جوایک خوبصورت عورت تھی دوپٹہ لئے بیٹھی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ اس پرپڑگئی بس ایک ہی نگاہ میں دل ایسابے قابوہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے بھی بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے کہ  یعنی اللہ پاک ہے دلوں کے پھیرنے والے، یہ کہہ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹ گئے ، جب زید رضی اللہ عنہ (ان کا خاوند)آیاتوزینب رضی اللہ عنہا نے اس سے یہ واقعہ ذکرکیااوریہ سن کراس کے دل میں زینب کی طرف سے کچھ کراہت سی پیداہوگئی اوراس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرزینب رضی اللہ عنہا کوطلاق دینے کامنشاظاہرکیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیاتجھےاس کی کوئی بات ناپسندآئی ہے؟ زید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے اس میں سوابھلائی کے اورکچھ نہیں پایالیکن وہ اپنی خاندانی شرافت کی وجہ سے مجھ پرعلورکھتی ہے اورمجھے کمینہ جانتی ہے اورزبان کی بگوئی سے مجھے ایذادیتی ہے(یعنی زید رضی اللہ عنہ نے ناچاتی اورطلاق تک نوبت پہنچنے کے اسباب خودہی بتلائے ہیں )۔[146]

حالانکہ مخالفین کی یہ بات صریحاً لغو تھی ،تفسیرخازن میں لکھاہے

 هذا إقدام عظیم من قائله وقلة معرفة بحق النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وبفضله وكیف یقال رآها فأعجبته وهی بنت عمته ولم یزل یراها منذ ولدت ولا كان النساء یحتجبن منه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وهو زوجها لزید، فلا یشك فی تنزیه النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن أن یأمر زیدا بإمساكها، وهو یحب تطلیقه إیاها

ایساکہنے والے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پربہت بڑاحملہ کیاہے بھلایہ کیوں کرکوئی کہہ سکتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کواب دیکھاہوحالانکہ زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زادتھیں بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمرآپ کے سامنے گزری تھی،کسی وقت ان کو دیکھ کرعاشق ہوجانے کاسوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھااس وقت چونکہ پردہ کاحکم بھی نہ تھااس لئے عورتیں آپ سے چھپابھی نہ کرتی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودبااصرار زید رضی اللہ عنہ سے ان کانکاح کرایا تھا (ان کاسارا خاندان اس نکاح پرراضی نہ تھاکہ قریش کے اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ایک آزاد کردہ غلام سے بیاہی جائے ،خود ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا بھی اس رشتے سے ناخوش تھیں مگرسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مجبورہوگئے ،اور زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی شادی کر کے عرب میں اس امرکی پہلی مثال پیش کردی گئی کہ اسلام ایک آزادکردہ غلام کواٹھاکرشرفائے قریش کے برابر لے آیاہے) پھریہ کیونکرہوسکتاہےکہ آپ بظاہر تو زید رضی اللہ عنہ کو سمجھا دی کہ اسے مت چھوڑاوردل میں اس کی طلاق کی خواہش ہو۔ [147] اگرفی الواقع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی میلان زینب رضی اللہ عنہا کی جانب ہوتا تو زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کانکاح کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خودان سے نکاح کر سکتے تھے جب وہ سترہ برس کی دوشیزہ تھیں ،لیکن بے حیامخالفین نے اس سارے حقائق کے موجودہوتے یہ عشق کے افسانے تصنیف کیے ،خوب نمک مرچ لگالگاکران کو پھیلایا اور اس پروپیگنڈے کاصوراس زورسے پھونکاکہ خودمسلمانوں کے اندربھی ان کی گھڑی ہوئی روایات پھیل گئیں ،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَهَاقَالُوا: تَزَوَّجَ حَلِیلَةَ ابْنِهِ،فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ}

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی تولوگ کہنے لگے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی ہے تواللہ تعالیٰ نے( مسلمانوں کومخالفین کی اس مہم کے اثرات سے بچانے ، ان کے پھیلائے ہوئے شکوک وشہبات سے محفوظ کرنے اورانہیں مطمئن کرنے کے لئے) یہ آیت نازل فرمائی’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔‘‘[148]

آپ کے ہاں بیٹے پیداہوئے مگرسب بچپن میں ہی فوت ہوگئے، زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ تومتبنیٰ تھاوہ محمدبن عبداللہ کابیٹاہی کب تھا کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟یہودکادوسر اعتراض تھاکہ اگرمنہ بولا بیٹا حقیقی بیٹانہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کرلیناکچھ ضروری تونہ تھا،اس کے جواب میں فرمایا گیا

۔۔۔ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ ۔۔[149]

مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔

یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پریہ فرض عائدہوتاتھاکہ جس حلال چیزکوتمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کررکھاہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کردیں اوراس کی حلت کے معاملے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں پھر مزیدتاکیدکے لئے فرمایا اوروہ خاتم النبیین ہیں یعنی ان کے بعدکوئی رسول تو درکنارکوئی نبی تک آنے والانہیں ہے کہ اگر قانون اورمعاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذہونے سے رہ جائے توبعدکاآنے والانبی یہ کسرپوری کردے ،لہذایہ اوربھی ضروری ہوگیاتھاکہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خودہی کرکے جائیں ،

عَنْ الطُّفَیْلِ بْنِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِیهِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلِی فِی النَّبِیِّینَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَحْسَنَهَا، وَأَكْمَلَهَا، وَتَرَكَ فِیهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ لَمْ یَضَعْهَا فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِالْبُنْیَانِ وَیَعْجَبُونَ مِنْهُ وَیَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ هَذِهِ اللبِنَةِ، فَأَنَا فِی النَّبِیِّینَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللبِنَةِ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانبیوں میں میری مثال اس شخص کی مثال کی طرح ہے جس نے ایک گھربنایااسے بہت ہی خوب صورت اورمکمل بنایا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی اوراسے وہاں نہ رکھا، لوگوں نے اس گھرکودیکھنے کے لیے تانتاباندھ لیااوروہ اس کی خوب صورتی پرتعجب کرنے لگے اورکہنے لگے اگراس اینٹ کی جگہ بھی مکمل ہوجاتی توکیاخوب تھاتونبیوں میں اس اینٹ کی جگہ میں ہوں ۔[150]

اس کے بعدمزیدزوردیتے ہوئے فرمایاگیا اللہ ہرچیزکاعلم رکھنے والاہے یعنی اللہ کومعلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرادیناکیوں ضروری تھااورایسانہ کرنے میں کیاقباحت تھی۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِیرًا ‎﴿٤١﴾‏ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِیلًا ‎﴿٤٢﴾‏ هُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِیُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا ‎﴿٤٣﴾تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِیمًا ‎﴿٤٤﴾‏(الاحزاب)
مسلمانوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو، وہی ہے جو تم پر رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں ) تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے اور اللہ تعالیٰ مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے، جس دن یہ (اللہ سے) ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے۔

مسلمانوں کوتلقین فرمائی کہ جب ہرطرف سے دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرطعن وتشنیع کی بوچھاڑہورہی ہو،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کوہدف بناکراللہ کے دین کوزک پہنچانے کے لئے پروپیگنڈےکاطوفان کھڑاکیاجارہاہوتوان خرافات کواطمینان سے سننے،دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک وشہبات میں مبتلا ہونےکے بجائے عام دنوں سے بڑھ کراللہ کی تہلیل وتحمیداورتسبیح وتکبیر بیان کروتاکہ تم اللہ کاتقرب حاصل کرسکو ،

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِیكِكُمْ وَأَرْفَعِهَا فِی دَرَجَاتِكُمْ وَخَیْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالوَرِقِ،وَخَیْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَیَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ؟قَالُوا: بَلَى،قَالَ: ذِكْرُ اللهِ تَعَالَى،قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: مَا شَیْءٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ ذِكْرِ اللهِ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں تمہیں سب عملوں سے بہترعمل کی خبرنہ دوں ؟جوتمہارے مالک کوسب سے زیادہ پسندہے،اورتمہارے درجات کوبلندکرنے والااوراللہ کی راہ میں سونا اور چاندی خرچ کرنےسے بہترہے، اوراس سے بہترہےکہ تم اپنے دشمن سے ملواورتم ان کی گردنیں مارواوروہ تمہاری گردنیں ماریں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیاہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ اللہ تعالیٰ کا ذکرہے،معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایاذکرالٰہی سے بڑھ کرکوئی چیزاللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے ۔[151]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِیَّانِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: مَنْ خَیْرُ الرِّجَالِ یَا مُحَمَّدُ؟قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ طَالَ عُمْرُهُ، وَحَسُنَ عَمَلُهُ،وَقَالَ الْآخَرُ: إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَیْنَا، فَبَابٌ نَتَمَسَّكُ بِهِ جَامِعٌ؟قَالَ:لَا یَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللهِ

اورعبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدواعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اوران میں سے ایک نے کہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !سب سے اچھاشخص کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجولمبی عمرپائے اوراعمال صالحہ اختیارکرے،دوسرے نے پوچھاحضوراسلام کے احکام کوبہت سے ہیں آپ مجھے ان سب سے بہترعمل فرمائیں جس سے میں چمٹ جاؤں (یعنی جسے میں اٹھتے،بیٹھتےاورکھاتے پیتے اور تنہائی وصحبت اورجوانی وپیری ،صحت وبیماری اورسفروحضر میں کرتارہوں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہروقت اللہ کے ذکرسے اپنی زبان کوتررکھ۔[152]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:أَكْثِرُوا ذِكْرَ اللهِ حَتَّى یَقُولُوا: مَجْنُونٌ

اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہروقت اللہ کے ذکرمیں مشغول رہویہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں ۔ [153]

اور فضیلت کے حامل دونوں اوقات صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو،جیسے فرمایا

فَسُـبْحٰنَ اللهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ۝۱۷ [154]

ترجمہ:پس تسبیح کرو اللہ کی جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔

فَاذْكُرُوْنِیْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِیْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ [155]

ترجمہ:لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو کفرانِ نعمت نہ کرو ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ اللهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی،وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِی، فَإِنْ ذَكَرَنِی فِی نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِی نَفْسِی، وَإِنْ ذَكَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْهُمْ ،وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِی یَمْشِی أَتَیْتُهُ هَرْوَلَةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں ، اورجب بھی وہ مجھے یادکرتاہے تومیں اس کے ساتھ ہوں ،پس جب وہ مجھے اپنے دل میں یادکرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یادکرتاہوں ، اورجب وہ مجھے مجلس میں یادکرتاہے تواس سے بہترفرشتوں کی مجلس میں یاد کرتا ہوں ، اوراگروہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتاہے تومیں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتاہوں  اوراگروہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتاہے تومیں اس سے دوہاتھ قریب ہوجاتاہوں ،اوراگروہ میری طرف چل کرآتاہے تومیں اس کے پاس دوڑکرآجاتاہوں ۔[156]ذکرکی فضیلت اوررغبت دلانے کے لئے فرمایاوہی ہے جو تم پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت جس کے ذریعے سے تمہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی ہے،جس کے ذریعے تم کفروجاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کراسلام کی روشنی میں آئے ہورحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ اللہ عزوجل کے حضور تمہارے لیےدعائے رحمت کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَالْجَــحِیْمِ۝۷رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۸ۙوَقِهِمُ السَّیِّاٰتِ۝۰ۭ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ۝۰ۭ وَذٰلِكَ هُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۹ۧ [157]

ترجمہ:عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گردو پیش حاضر رہتے ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں ،وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں (وہ کہتے ہیں ) اے ہمارے رب !تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ، پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے،اے ہمارے رب ! اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (جنت میں پہنچا دے ) تو بلا شبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے،اور بچا دے ان کو برائیوں سے ، جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیایہی بڑی کامیابی ہے۔

چنانچہ وہ اپنی رحمت سےاپنے فرشتوں کی دعاکوقبول کرکے تمہیں کفروشرک کی تاریکیوں سے نکال کرہدایت ویقین کی روشنی میں نکال لاتا ہےاوروہ دنیاوآخرت میں مومنوں پر بہت مہربان ہے،مگرآخرت میں جوجلیل ترین رحمت اورافضل ترین ثواب عطافرمائے گااس کاکوئی تصوربھی نہیں کرسکتا، جس روز وہ اپنے رب سے ملیں گے توخوداللہ تعالیٰ سلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گاجیسے فرمایا

سَلٰمٌ۝۰ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۝۵۸ [158]

ترجمہ:ربِّ رحیم کی طرف سے اِن کو سلام کہا گیا ہے۔

یایہ کہ فرشتے ان کوسلام کہیں گے، جیسےفرمایا

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَیِّبِیْنَ۝۰ۙ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ۝۰ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۳۲ [159]

ترجمہ: ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام ہو تم پر ، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے۔

یایہ کہ خودایک دوسرے کوسلام کریں گے،

دَعْوٰىھُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ۝۰ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰ۧ [160]

ترجمہ:وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ پاک ہے تو اےاللہ! ان کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ہو اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔

اور ان کے لیے اللہ وحدہ لاشریک نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا ‎﴿٤٥﴾‏ وَدَاعِیًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِیرًا ‎﴿٤٦﴾‏ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِیرًا ‎﴿٤٧﴾‏ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِینَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِیلًا ‎﴿٤٨﴾‏(الاحزاب)
اے نبی ! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر)گواہیاں دینے والا، خوشخبری سنانے والا،آگاہ کرنے والا بھیجا ہے ،اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ، آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے،اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیے! اور جو ایذاء (ان کی طرف سے پہنچے) اس کا خیال بھی نہ کیجئے، اور اللہ پر بھروسہ کیے رہیں ،اورکافی ہے اللہ تعالیٰ کام بنانے والا۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوچندکلمات بطورِ تسکین ارشادفرمائےاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہیں اپنی امت کاگواہ بناکربھیجاہے تاکہ اللہ کادین جن حقائق اوراصولوں پرمبنی ہے تم دنیامیں ان کی صداقت کے گواہ بن کرکھڑے ہواورعملی طورپراپنااخلاق وکردارایک نمونہ کے طورپرپیش کرواور قیامت کے روزاللہ کی عدالت میں شہادت دوکہ تم نے اللہ کاپیغام پوری حق وصداقت کے ساتھ لوگوں تک پہنچادیاتھااور ان میں سے کون اللہ کے دین اسلام پر ایمان لایاتھااورکس نے تکذیب کی تھی ، اوراس کے ساتھ اللہ کے عطاکیے ہوئے یقینی علم کی بنیادپردیگرانبیاء کی گواہی دو کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم کواللہ کاپیغام بے کم وکاست پہنچادیاتھا ،جیسےفرمایا

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍؚبِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِیْدًا۝۴۱ۭ۬ [161]

ترجمہ:پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا۔۔۔۝۱۴۳ [162]

ترجمہ:اور اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

اورجودین اسلام پرایمان لائیں انہیں اللہ احکم الحاکمین کی طرف سے مغفرت اورانواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں کی بشارت دینے والااورجواس کی تکذیب کریں ،اس دعوت حق کاراستہ روکنے کی کوشش کریں ،اللہ کے دین میں نئی نئی باتیں گھڑکرداخل کریں ،اللہ تعالیٰ کی تعلیمات اوراس کے احکامات کی اپنی من مرضی کی تاویل کریں انہیں رب العالمین کی رحمت سے دوری اورجہنم کے ہولناک عذاب ڈرانے والا بنا کربھیجاہے،اللہ کے اذن سے قیامت تک دنیاکے تمام انسانوں وجنوں کی طرف دعوت حق دینے والا اور روشن چراغ بنا کربھیجاہے جس سے کفروشرک کی تاریکیوں دورہوتی ہیں ،

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: لَقِیتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العَاصِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قُلْتُ: أَخْبِرْنِی عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی التَّوْرَاةِ؟قَالَ: أَجَلْ، وَاللهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِی التَّوْرَاةِ بِبَعْضِ صِفَتِهِ فِی القُرْآنِ:یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا،وَحِرْزًا لِلْأُمِّیِّینَ، أَنْتَ عَبْدِی وَرَسُولِی، سَمَّیْتُكَ المتَوَكِّلَ لَیْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِیظٍ، وَلاَ سَخَّابٍ فِی الأَسْوَاقِ، وَلاَ یَدْفَعُ بِالسَّیِّئَةِ السَّیِّئَةَ، وَلَكِنْ یَعْفُو وَیَغْفِرُ وَلَنْ یَقْبِضَهُ اللهُ حَتَّى یُقِیمَ بِهِ المِلَّةَ العَوْجَاءَ، بِأَنْ یَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ ،وَیَفْتَحُ بِهَا أَعْیُنًا عُمْیًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا

عطابن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں کیاصفات بیان کی گئی ہیں ؟انہوں نے فرمایاہاں !اللہ کی قسم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات بیان کی گئی ہیں جوقرآن میں مذکورہیں جیسے کہ اے نبی!ہم نے تمہیں گواہ،خوشخبری دینے والا،ڈرانے والااوران پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والابناکربھیجاہے،  تم میرے بندے اوررسول ہومیں نے تمہارانام متوکل رکھاہے،تم نہ بدخوہو،نہ سخت دل اورنہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے (اورتورات میں یہ بھی لکھاہے کہ)، برائی کابدلہ برائی سے نہیں لے گابلکہ معاف اوردردگزرکرے گا،اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کرے گاجب تک ٹیڑھی شریعت کواس سے سیدھی نہ کرالے یعنی لوگ لاالٰہ الااللہ نہ کہنے لگیں (یعنی ابراہیم علیہ السلام کی شریعت جوپہلے بالکل سیدھی تھی لیکن پھرمشرکین عرب نے اس کوٹیڑھاکردیا)اوراس کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کوبینا،بہرے کانوں کوشنوااورپردہ پڑے ہوئے دلوں کے پردے کھول دے گا۔[163]

وقال وهب بن منبه: إِنَّ اللهَ أَوْحَى إِلَى نَبِیٌّ مِنْ أَنْبِیَاءِ بَنِی إِسْرَائِیلَ یُقَالُ لَهُ: شَعْیَاءُ -أَنْ قُمْ فِی قَوْمِكَ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَإِنِّی مَنْطِقٌ لِسَانَكَ بِوَحْیٍ ،وَأَبْعَثُ أُمِّیًّا مِنَ الْأُمِّیِّینَ، أَبْعَثُهُ مُبَشِّرًا لَیْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِیظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِی الْأَسْوَاقِ، لَوْ یَمُرُّ إِلَى جَنْبِ سِرَاجٍ لَمْ یُطْفِئْهُ، مِنْ سَكِینَتِهِ، وَلَوْ یَمْشِی عَلَى الْقَصَبِ لَمْ یُسْمَعْ مِنْ تَحْتِ قَدَمَیْهِ، أَبْعَثُهُ مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا، لَا یَقُولُ الْخَنَا، أَفْتَحُ بِهِ أَعْیُنًا كُمْهًا ، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا، أسَدّده لِكُلِّ أَمْرٍ جَمِیلٍ، وَأَهَبُ لَهُ كُلَّ خُلُقٍ كَرِیمٍ

اوروہب بن منبہ کہتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی شعیب علیہ السلام پراللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہوجاؤمیں تمہاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گااور میں امیوں میں سے ایک امی کوبھیجنے والاہوں جونہ بدخلق ہوگانہ بدگواورنہ بازاروں میں شوروغل کرنے والاہوگا،وہ اس قدرسکون وامن کاحامل ہوگاکہ اگرچراغ کے پاس سے بھی گزرجائے گاتووہ نہ بجھے گا اور اگربانسوں پربھی چلے گاتوپیروں کی چاپ معلوم نہ ہوگی،میں اسے خوشخبریاں سنانے والااورڈرانے والابناکربھیجوں گا،جوحق گوہوگااورمیں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کوکھول دوں گااوربہرے کانوں کوسننے والاکردوں گااورزنگ آلود دلوں کوصاف کردوں گا، ہربھلائی کی طرف اس کی رہبری کروں گا،ہرنیک خصلت اس میں موجودرکھوں گا

وَأَجْعَلُ السَّكِینَةَ لِبَاسَهُ،وَالْبِرَّ شِعَارَهُ،وَالتَّقْوَى ضَمِیرَهُ، وَالْحِكْمَةَ مَنْطِقَهُ، وَالصِّدْقَ وَالْوَفَاءَ طَبِیعَتَهُ، وَالْعَفْوَ وَالْمَعْرُوفَ خُلُقَهُ، وَالْحَقَّ شَرِیعَتَهُ، وَالْعَدْلَ سِیرَتَهُ، وَالْهُدَى إِمَامَهُ، وَالْإِسْلَامَ مِلَّتَهُ

اور دل جمعی اس کالباس ہوگا، نیکی اس کاوطیرہ ہوگااورتقویٰ اس کی ضمیرہوگی،اورحکمت اس کی گویائی ہوگی،اورصدق ووفااس کی عادت ہوگی،اور عفوودرگزراس کاخلق ہوگااورحق اس کی شریعت ہوگی،اور عدل اس کی سیرت ہوگی،اور ہدایت اس کی امام ہوگی،اوراسلام اس کادین ہوگا

وَأَحْمَدَ اسْمَهُ،أهْدِی بِهِ بَعْدَ الضَّلَالَةِ،وأعلِّم بِهِ مِنَ الْجَهَالَةِ،وأرْفَعُ بِهِ بَعْدَ الخمَالة،وَأُعْرَفُ بِهِ بَعْدَ النُّكْرَة،وَأُكْثِرُ بِهِ بَعْدَ الْقِلَّةِ وَأُغْنِی بِهِ بَعْدَ العَیلَة، وَأَجْمَعُ بِهِ بَعْدَ الْفُرْقَةِ ،وَأُؤَلِّفُ بِهِ بَیْنَ أُمَمٍ مُتَفَرِّقَةٍ، وَقُلُوبٍ مُخْتَلِفَةٍ،وَأَهْوَاءٍ مُتَشَتَّتَةٍ،وَأَسْتَنْقِذُ بِهِ فِئَامًا مِنَ النَّاسِ عَظِیمًا مِنَ الهَلَكة ،وَأَجْعَلُ أُمَّتَهُ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ،یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ، وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ، مُوَحِّدِینَ مُؤْمِنِینَ مُخْلِصِینَ، مُصَدِّقِینَ بِمَا جَاءَتْ بِهِ رُسُلی، أُلْهِمُهُمُ التَّسْبِیحُ وَالتَّحْمِیدُ وَالثَّنَاءُ وَالتَّكْبِیرُ وَالتَّوْحِیدُ فِی مَسَاجِدَهِمْ وَمَجَالِسِهِمْ وَمَضَاجِعِهِمْ وَمُنْقَلَبِهِمْ وَمَثْوَاهِمْ یُصَلُّونَ لِی قِیَامًا وَقُعُودًا وَیُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ صُفُوفًا وَزُحُوفًا، وَیَخْرُجُونَ مِنْ دِیَارِهِمِ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی أُلُوفًا

اوراس کانام احمد ہوگا، اس کے ذریعے سے میں گمراہوں کوہدایت بخشوں گااوراس کے ذریعے سے جاہلوں کوعلماء بنادوں گااورتنزل والوں کوبام عروج پرپہنچادوں گااور انجانوں کومشہورومعروف کردوں گااوراس کے ذریعے سے قلت کوکثرت تعدادسے ،فقیری کوامیری سے ،فرقت کوالفت سے اور اختلاف کواتفاق سے بدل دوں گامختلف اورمتضاددلوں کومتفق اورمتحدکردوں گا،اورجداگانہ خواہشوں کویکسوکردوں گااوراس کے ذریعے سے دنیاکوہلاکت سے بچالوں گاتمام امتوں سے اس کی امت کواعلیاورافضل بنادوں گاوہ دنیامیں لوگوں کوفائدہ پہنچانے کے لئے پیداکیے جائیں گے، وہ ہرنیکی کاحکم کریں گے اوربرائی سے روکیں گے،وہ موحدہوں گے مومن ہوں گے اخلاص والے ہوں گے رسولوں پرجوکچھ نازل ہواہے سب کوسچ ماننے والے ہوں گے،وہ اپنی مسجدوں ،مجلسوں اوربستروں پرچلتے پھرتے ،بیٹھتے اٹھتے میری تسبیح ،حمدوثنااوربڑائی بیان کرتے رہیں گے،کھڑے اوربیٹھے نمازیں اداکرتے رہیں گے ،دشمنان الٰہی سے صفیں باندھ کرحملے کرکے جہادکریں گے،ان میں سے ہزارہالوگ میری رضامندی کی جستجومیں اپناگھربارچھوڑکرنکل کھڑے ہوں گے،

یُطَهِّرُونَ الْوُجُوهَ وَالْأَطْرَافَ، وَیُشِدُّونَ الثِّیَابَ فِی الْأَنْصَافِ،قُرْبَانُهُمْ دِمَاؤُهُمْ، وَأَنَاجِیلُهُمْ فِی صُدُورِهِمْ، رُهْبَانٌ بِاللیْلِ لُیُوثٌ بِالنَّهَارِ، وَأَجْعَلُ فِی أَهْلِ بَیْتِهِ وَذُرِّیتِهِ السَّابِقِینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءَ وَالصَّالِحِینَ،أُمَّتُهُ مِنْ بَعْدِهِ یَهْدُونَ بِالْحَقِ وَبِهِ یَعْدِلُونَ، أُعِزُّ مَنْ نَصَرَهُمْ وَأُؤَیِّدُ مَنْ دَعَا لَهُمْ،وَأَجْعَلُ دَائِرَةَ السَّوْءِ عَلَى مَنْ خَالَفَهُمْ أَوْ بَغَى عَلَیْهِمْ أَوْ أَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَ شَیْئًا مِمَّا فِی أَیْدِیهِمْ،أَجْعَلُهُمْ وَرَثَةً لِنَبِیِّهِمْ،وَالدَّاعِیَةِ إِلَى رَبِّهِمْ،یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ، عَنِ الْمُنْكَرِ، وَیُقِیمُونَ الصَّلاةَ ویؤتون الزَّكَاة ویُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ، أختم بهم الخیر الذی بَدْأَتِهِ بِأَوَّلِهِمْ،ذَلِكَ فَضْلِی أُوتِیهِ مَنْ أَشَاءُ،وأنا ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ

وضومیں منہ ہاتھ دھویاکریں گےاورآدھی پنڈلی تک تہمدباندھیں گے،میری راہ میں قربانیاں دیں گے، ان کے سینوں میں میری کتاب ہوگی، وہ راتوں کوعابداوردنوں میں مجاہدہوں گے، میں اس نبی کی اہل بیت اوراولادمیں سبقت کرنے والے صدیق،شہیداورصالح لوگ پیدا کر دوں گا،اس کے بعداس کی امت دنیاکوحق کی ہدایت کرے گی اورحق کے ساتھ عدل وانصاف کرے گی،ان کی امدادکرنے والوں کومیں عزت والاکروں گااوران کی طرف بلانے والوں کی مددکروں گااوران کے مخالفین اوران کے باغی اوران کے بدخواہوں پرمیں برے دن لاؤں گا،میں انہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث کردوں گا،جولوگوں کواپنے رب کی طرف دعوت دیں گے، نیکیوں کی باتیں بتائیں گے اوربرائیوں سے روکیں گے اورنمازاداکریں گے ،زکوٰة دیں گے ،وعدے پورے کریں گے اس خیرکومیں ان کے ہاتھوں پوری کروں گاجوان سے شروع ہوئی تھی،یہ ہے میرافضل جسے چاہوں دوں ،اورمیں بہت بڑے فضل وکرم کامالک ہوں ۔[164]

یہ حدیث ضعیف ہے۔

اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں کوبشارت دے دو ! جو تم پر ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑااورجلیل القدرفضل ہےجس کااندازہ نہیں کیاجاسکتااورکفار و منافقین سےہر گز نہ دبو !اور ان کی اذیت رسانی کی کچھ پروا نہ کرو اوراپنے کام کی تکمیل اوردشمن کے خذلان میں اللہ وحدہ لاشریک پر بھروسہ کر و ، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کر دے۔

لَّئِن لَّمْ یَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَكَ فِیهَا إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٦٠﴾‏ مَّلْعُونِینَ ۖ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا ‎﴿٦١﴾‏ سُنَّةَ اللَّهِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِیلًا ‎﴿٦٢﴾‏(الاحزاب)
اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اوروہ لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کی (تباہی) پر مسلط کردیں گےپھر تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے، ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں ، ان سے اگلوں نے بھی اللہ کا یہی دستور جاری رہا، اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز رد و بدل نہیں پائے گا۔

چنانچہ منافقین اورایسے لوگوں کوجو بدنیتی،آوارگی اورمجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں ،

عن عكرمة فی قوله: لَئِنْ لَمْ یَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ،قال:هم الزناة

عکرمہ رحمہ اللہ نے آیت کریمہ’’اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے۔‘‘کے بارے میں کہاہے یہاں ان سے مرادزانی لوگ ہیں ۔[165]

اورمسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اوران کے حوصلے پست کرنے اوربدگمانیاں پیداکرنے کے لئے آئے دن مدینہ منورہ پرحملہ آورہونے کے لئے دشمنوں کے جمع ہونے یا مسلمانوں کے مغلوب ہونے اورازواج مطہرات اورمومن عورتوں کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے ان کوتنبیہ فرمائی کہ اگروہ ان حرکتوں سے بازنہ آئے تواللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے استیصال کے لئے کھڑاکردیں گے ، انکو تسلط وغلبہ عطاکریں گے،اگرہم نے یہ کام کیاتوان لوگوں میں آپ سے مقابلہ کرنے اوربچنے کی قوت وطاقت نہ ہوگی ، پھر وہ مدینہ منورہ میں چنددن ہی ٹھہرسکیں گے آپ انہیں قتل کردیں گے یاشہربدرکردیں گے،پھر یہ لوگ جہاں بھی رہیں گے اللہ کی رحمت ان سے دورہی ہوگی ،انہیں امن حاصل ہوگانہ قرار،انہیں ہمیشہ قتل قیداورعقوبتوں کا دھڑکا لگا رہے گا، اللہ کی ہمیشہ سے یہی سنت چلی آرہی ہے کہ اسلامی معاشرے میں اس طرح کے مفسدین کو کبھی پھلنے پھولنے کاموقعہ نہیں دیاجاتااوراسے سخت سزادی جاتی ہے اوراللہ تعالیٰ نے ازل سے جوضابطہ مقررفرمادیاہے اس میں کوئی تغیروتبدیلی نہیں ہوتی،جیسےفرمایا

۔۔۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِیْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِیْلًا۝۴ [166]

ترجمہ:تو تم اللہ کے طریقہ میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقررّ راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا ‎﴿٤٩﴾‏(الاحزاب)
اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے( ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو، پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پرانہیں رخصت کردو ۔

نکاح کے بعدجوان عورتوں کوجن سے خلوت ہوچکی ہواورانہیں طلاق مل جائے توان کی عدت تین حیض ہیں ،

وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ۔۔۔ ۝۲۲۸ۧ [167]

ترجمہ:جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین مرتبہ ایامِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۔

مگرانہی دنوں میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہواکہ کسی شخص نے نکاح کے بعدخلوت صحیحہ،مباشرت کرنے سے پہلے اپنی بیوی کوطلاق دے دی،اب مسئلہ یہ پیداہوگیاکہ اس عورت کوعدت گزارنی چاہیے یانہیں اوراس کاحق المہر کیا ہوگا ،چنانچہ اس اہم مسئلہ کی طرف رہنمائی فرمائی کہ اگرتم کسی مومن عورت سے نکاح کرولیکن ان سے خلوت کرنے سے پہلے کسی وجہ سے طلاق دے دو تو اس عورت پرعدت لازم نہیں ہے کیونکہ مباشرت ہوئی ہی نہیں اورحمل کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا ،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِیمَا لَا یَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لِابْنِ آدَمَ فِیمَا لَا یَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِیمَا لَا یَمْلِكُ، وَلَا یَمِینَ فِیمَا لَا یَمْلِكُ

عمروبن شعیب نے اپنے والدسے اورانہوں نے اپنے دادا(عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما )سے روایت کیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانسان جس خاتون کا (نکاح کے ذریعے) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے کا بھی حق نہیں رکھتا اپنے غیر مملوک کو آزاد کرنے کا بھی انسان کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی غیر مملوک چیز کی منت ماننے کا اختیار ہے اور نہ ہی غیر مملوک چیز میں اس کی قسم کا کوئی اعتبار ہے۔[168]

عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ، وَلَا عِتْقَ قَبْلَ مِلْكٍ

مسوربن مخزمہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نکاح سے قبل طلاق نہیں اور نہ ملک سے پہلے آزادی ہے (یعنی جب کسی چیز کا ان چیزوں میں سے تو مالک نہیں یا وجود نہیں تو رد کیسا)۔[169]

اوروہ عورت کہیں فوری نکاح کرناچاہیے توکرسکتی ہے،

هَذَا أَمْرٌ مُجْمَعٌ عَلَیْهِ بَیْنَ الْعُلَمَاءِ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا طُلِّقَتْ قَبْلَ الدُّخُولِ بِهَا لَا عِدَّةَ عَلَیْهَا فَتَذْهَبُ فَتَتَزَوَّجُ فِی فَوْرِهَا مَنْ شَاءَتْ، وَلَا یُسْتَثْنَى مِنْ هَذَا إِلَّا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، فَإِنَّهَا تَعْتَدُّ مِنْهُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَإِنْ لَمْ یَكُنْ دَخَلَ بِهَا بِالْإِجْمَاعِ أَیْضًا

اس بات پرعلماء کااجماع ہے کہ عورت کوجب دخول سے پہلے طلاق دے دی جائے تواس کے لیے کوئی عدت نہیں ہےلہذااگروہ چاہے توفوراًنکاح کرسکتی ہے،البتہ وہ عورت اس سے متثنیٰ ہے جس کاشوہرفوت ہوگیاہوکیونکہ اسے چارماہ دس دن کی عدت گزارناہوگی،خواہ اس کے ساتھ دخول نہ بھی کیاگیاہواوراس بات پربھی تمام علماء کااجماع ہے۔[170]

الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، فَإِنَّهُ إِذَا مَاتَ بَعْدَ الْعَقْدِ عَلَیْهَا، وَقَبْلَ الدُّخُولِ بِهَا كَانَ الْمَوْتُ كَالدُّخُولِ فَتَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

البتہ اگر خلوت سے قبل شوہرفوت ہوجائے توپھراسے مطلق عدت چارمہینے دس دن ہی عدت گزارنی پڑے گی۔[171]

اس لئے اس عورت سے عدت کاتقاضا نہ کرو بلکہ اگرمہر مقرر کردیاگیاتھاتو انہیں نصف حق المہر ادا کر کےرخصت کردینا چاہیے،جیسے فرمایا

 وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ ۔۔۔۝۲۳۷ [172]

ترجمہ: اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہو گا ۔

اور اگر مہر مقررنہ کیاگیاہوتوحسب توفیق کچھ اداکرکے عزت واحترام کے ساتھ بغیرکوئی ایذاپہنچائے رخصت کردو،جیسے فرمایا

لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَةً۝۰ۚۖ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۝۰ۚ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۝۰ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۲۳۶ [173]

ترجمہ:تم پر کچھ گناہ نہیں ، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو اس صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے،خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے ،یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ یَمِینُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَیْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِی هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِی أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُونَ عَلَیْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٥٠﴾‏(الاحزاب)
اے نبی ! ہم نے تیرے لیے وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہےاور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں ، اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں  اور تیری خلاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ باایمان عورتیں جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف تیرے لیے ہی ہے اور مومنوں کے لیے نہیں ، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں ، یہ اس لیے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑے رحم والا ہے۔

ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح سے قبل ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ،عائشہ رضی اللہ عنہا بنت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ،حفصہ رضی اللہ عنہا بنت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورام سلمہ رضی اللہ عنہا بنت ابوامیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقدمیں تھیں ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیاتویہودومنافقین نے مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کے لئےایک طوفان اٹھادیاتھاکہ عام لوگوں پرتوبیک وقت صرف چاربیویوں رکھنے کی اجازت ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچویں بیوی کرلی ہے،اس غلیظ پروپیگنڈےکے جواب میں مسلمانوں کومطمئن کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں چاہئے وہ کتنی ہی ہوں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں ،یعنی مسلمانوں کے لئے چاربیویوں کی قیدلگانے والے بھی ہم ہی ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے قیدسے متثنیٰ کرنے والے بھی ہم ہی ہیں ، خیبرکے قیدیوں میں ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاحق المہران کی آزادی کوقراردیاتھا اورام المومنین جویریہ بنت حارث نے جتنی رقم پرمکاتبہ کیاتھاوہ پوری رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کواداکرکے ان سے نکاح کیاتھا،اورام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کامہرشاہ حبشہ نجاشی نے اپنی طرف سے اداکیاتھاجوچارسودینارتھاان کے علاوہ سب بیویوں کاحق المہر جوبارہ اوقیہ یعنی پانچ سودرہم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنقدادافرمایاتھا،اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے یعنی کفارکے مال غنیمت سے تمہا ری ملکیت میں آئیں ،جیسےام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا اورام المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا ملکیت میں آئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزادکرکے نکاح فرمالیااورریحانہ رضی اللہ عنہا بنت شمعون نصریہ اورمقوقس مصرکی بھیجی ہوئی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بطورلونڈی آپ کے پاس رہیں اوران سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرزندابراہیم بھی ہوا تھا اور تمہاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے اللہ کے حکم سےاپنے دین کی حفاظت کے لئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی ہے ، اور وہ مومنہ عورت جس نے اپنانفس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ(مہرلینے کے بغیرنکاح میں آناچاہے) کیا ہواگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے توبغیرحق المہراپنے نکاح میں رکھ سکتاہے،

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی قَدْ وَهَبت نَفْسِی لَكَ فَقَامَتْ قِیَامًا طَوِیلًا ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللهِ، زَوّجنیها إِنْ لَمْ یَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَیْءٍ تُصدقها إِیَّاهُ؟فَقَالَ: مَا عِنْدِی إِلَّا إِزَارِی هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ أَعْطَیْتَهَا إِزَارَكَ جلستَ لَا إِزَارَ لَكَ، فَالْتَمِسْ شَیْئًافَقَالَ: لَا أَجِدُ شَیْئًا، فَقَالَ: الْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِیدٍ فَالْتَمَسَ فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْءٌ؟قَالَ: نَعَمْ؛ سُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا -لِسُوَرٍ یُسَمِّیهَافَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے آپ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہبہ کرتی ہوں ، اورپھروہ بہت دیرتک کھڑی رہی،تب ایک آدمی اٹھااورکہنے لگااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ کواس میں رغبت نہیں تواس کی شادی مجھ سے کر دیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتمہارے پاس کچھ ہے جواسے مہرکے طورپردے سکو؟وہ کہنے لگامیرے پاس توبس یہ تہ بندہی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اگراپناتہ بنداس کو دے دوگے توخودتہ بندکے بغیربیٹھ رہوگے کوئی اورچیزڈھونڈو،وہ کہنے لگامیرے پاس تواورکچھ نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاڈھونڈلاؤخواہ لوہے کاچھلہ ہی کیوں نہ ہو،اس شخص نے تلاش کیامگراسے کچھ نہ ملا،تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھاکیاتمہیں قرآن سے کچھ یادہے؟ وہ کہنے لگاہاں فلاں فلاں سورتیں مجھے یادہیں ،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس قرآن کے عوض جوتمہیں یادہے میں اس عورت کانکاح تمہارے ساتھ کرتاہوں ۔[174]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: الَّتِی وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِیمٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اپنے نفس کوہبہ کرنے والی عورت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔[175]

عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِیمِ بْنِ الْأَوْقَصِ، مِنْ بَنِی سُلَیم، كَانَتْ مِنَ اللاتِی وَهَبْن أَنْفُسَهُنَّ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عروہ سے روایت میں ہےاپنانفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہبہ کرنے والی عورت خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم بن الاوقص تھیں جوبنوسلیم سے تھیں ۔[176]

خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِیمٍ،وَكَانَتِ امْرَأَةً صَالِحَةً

ایک روایت میں ہے خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ پاکیزہ اطوارواعمال والی عورت تھیں ۔[177]

یہ رعایت خالصتا ً تمہارے لیے ہے دُوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے ،

قَالَ عِكْرِمَةُ: أَیْ: لَا تَحِلُّ الْمَوْهُوبَةُ لِغَیْرِكَ، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِرَجُلٍ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى یُعْطِیَهَا شَیْئًا

عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بخشی ہوئی عورت آپ کے سوااورکسی کے لیے حلال نہیں لہذااگرکوئی عورت اپنے آپ کوکسی مردکوبخش دے تووہ اس کے لیے حلال نہیں جب تک اسے بطورمہرکچھ نہ دے دے[178]

ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حُدُود عائد کیے ہیں یعنی کوئی شخص بیک وقت چارسے زائدبیویاں اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا،نکاح کے لئے ولی،گواہ،ایجاب وقبول اورحق مہرضروری ہے،البتہ جتنی چاہے لونڈیاں رکھ سکتاہے،مگرلونڈیوں کاسلسلہ ختم ہوچکاہے (تمہیں ان حُدُود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ جوکارعظیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپردکیاگیاہے اس کی ضروریات کے سلسلے میں تمہارے اوپرکسی سے نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔

تُرْجِی مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْیُنُهُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَا آتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ یَعْلَمُ مَا فِی قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَلِیمًا ‎﴿٥١﴾‏ لَّا یَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِینُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیبًا ‎﴿٥٢﴾(الاحزاب)
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے، اور تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں ، اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دیدے اس پر سب کی سب راضی ہیں ، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے اللہ( خوب) جانتا ہے، اللہ بڑاہی علم والا اور حلم والا ہے ،اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ یہ (درست ہے) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو ، مگر جو تیری مملوکہ ہوں ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا) نگہبان ہے

اوربیویوں کے درمیان باریاں مقررکرنے میں آپ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کی باری چاہیں موقوف کردیں اور جس سے چاہیں اپناتعلق قائم رکھیں اور جن بیویوں کی باریاں آپ نے موقوف کررکھی تھیں اگرآپ چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کاتعلق قائم کیاجائے تو اس معاملہ میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كُنْتُ أَغَارُ مِنَ اللاتِی وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقُولُ أَتَهَبُ المَرْأَةُ نَفْسَهَا؟ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى:تُرْجِیْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَتُـــــْٔوِیْٓ اِلَیْكَ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ قُلْتُ: مَا أُرَى رَبَّكَ إِلَّا یُسَارِعُ فِی هَوَاكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں ان عورتوں پرغیرت کیاکرتی تھی جواپنانفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردیتی تھیں ،میں کہتی تھی کہ کیاکوئی عورت خوداپنے آپ کوکسی مردکے لئے پیش کرسکتی ہے؟پھرجب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ ان میں سے جس کوچاہیں اپنے سے دوررکھیں اورجس کوچاہیں اپنے نزدیک رکھیں اورجن کوآپ نے الگ کررکھاتھاان میں سے کسی کوپھرطلب کرلیں جب بھی آپ پرکوئی گناہ نہیں ۔‘‘ تومیں نے کہاکہ میں توسمجھتی ہوں کہ آپ کارب آپ کی مرادبلاتاخیرپوری کر دینا چاہتا ہے ۔[179]

اس طرح مساوات قائم کرنے پروہ خوش رہیں گی اور جو کچھ بھی آپ ان کو دیں گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی،اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ اللہ کے حکم اوراجازت سے کررہے ہیں ، مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خصوصی اختیارکوسوائے ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کےاستعمال نہیں کیاانہوں نے سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے خودہی اپنی باری ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوہبہ کردی تھی اورتمام ازواج مطہرات سے یکساں برتاؤفرماتے تھے،اور اس اجازت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل وحرکت مشکل ہوگئی توازواج مطہرات سے اجازت لے کربیماری کے ایام ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں گزارے تھے، اللہ جانتا ہے کہ سب بیویوں کی محبت اورمیلان تمہارے دل میں یکساں نہیں ہےاور اللہ تعالیٰ وسیع علیم اورکثیرحلم والا ہے،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ بَیْنَ نِسَائِهِ فَیَعْدِلُ، ثُمَّ یَقُولُ:اللهُمَّ هَذَا فِعْلِی فِیمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِی فِیمَا لَا أَمْلِكُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات میں باریاں مقررفرمارکھی تھیں اورعدل فرماتے تھےپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھےاے اللہ!یہ میری تقسیم ہے جومیرے اختیارمیں ہے لیکن جس چیزپرتیرااختیارہے میں اس پراختیارنہیں رکھتااس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔[180]

اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کواختیاردیاتھاکہ اگروہ پسندکریں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہیں اوراگرچاہیں توعلیحدہ ہوجائیں مگرامہات المومنین میں سے کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے نکل جاناپسندنہیں کیااس پراللہ تعالیٰ نے ان کی قدردانی فرمائی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایاموجودہ ازواج مطہرات کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس کی اجازت ہے کہ اِن کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہواس طرح وہ طلاق اورسوکنوں سے محفوظ ومامون ہوگئیں ،اوردنیاوآخرت میں آپ کی بیویاں ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے درمیان کبھی جدائی نہیں ہوگی ، البتہ لونڈیوں رکھنےکی تمہیں اجازت ہے، اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔

یَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ ۚ وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِیبًا ‎﴿٦٣﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِینَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِیرًا ‎﴿٦٤﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۖ لَّا یَجِدُونَ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا ‎﴿٦٥﴾‏ یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا ‎﴿٦٦﴾‏ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِیلَا ‎﴿٦٧﴾‏ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیرًا ‎﴿٦٨﴾(الاحزاب)
لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے، آپ کو کیا خبر ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو، اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشن رہیں گے، وہ کوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے، اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے) کہیں گے کاش! ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے، اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا، پروردگار! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔

اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کفارومنافقین جن کوآخرت کاکچھ یقین نہیں ہے تم سے دل لگی اوراستہزاء کے طورپر پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی،جس دن اسے نہ ماننے والوں کوسزادی جائے گی جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا۔۔۔۝۱۸۷ [181]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ ۔

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۵ [182]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں اگر تم سچّے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟۔

 وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۸ [183]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ دوکہ اس کے صحیح وقت کامجھےعلم نہیں ہے ،ہاں اللہ کاوعدہ سچاہے ایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوکررہے گی جیسےفرمایا

۔۔۔اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَّالسَّاعَةُ لَا رَیْبَ فِیْهَا۔۔۔ ۝۳۲ [184]

ترجمہ:اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔

۔۔۔وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا۔۔۔۝۲۱ [185]

ترجمہ: اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی۔

 وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیهَا۔۔۔ [186]

ترجمہ:اور یہ (اس بات کی دلیل ہے ) کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی ، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ۔

إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیهَا۔۔۔ [187]

ترجمہ:یقیناقیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔

تمہارایہ سوال کہ قیامت کب قائم ہوگی تو اس گھڑی کاعلم صرف اللہ علام الغیوب کوہی ہے ، جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ۔۔۔۝۳۴ۧ [188]

ترجمہ: اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔

۔۔۔وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ۔۔۔ ۝۸۵ [189]

ترجمہ: اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے ۔

قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللهِ۝۰۠ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۲۶ [190]

ترجمہ:کہو اس کا علم تو اللہ کے پاس ہےمیں تو بس صاف صاف خبردار کر دینے والا ہوں ۔

مگر تمہیں کیاخبرشایدکہ وہ بالکل قریب ہی ہواس لئے اس کی تیاری کرو۔جیسے فرمایا

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۝۱ [191]

ترجمہ:قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ۚ [192]

ترجمہ: قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

بہرحال یہ یقینی امرہے کہ اللہ تعالیٰ نےبعث الموت کاانکارکرنے والوں کودنیاوآخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اوران کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی ہولناک آگ تیارکررکھی ہے جس میں انہیں سترہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑکراورگلے میں طوق ڈال کرذلت سے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے ڈال دیاجائے گااوریہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ، اوراس ہولناک عذاب میں نہ یہ زندہ رہ سکیں گے اورنہ ہی انہیں موت ہی آئے گی،جیسےفرمایا

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [193]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [194]

ترجمہ:پھر نہ اس میں مرے گا نہ جیئے گا ۔

اوراس عذاب سے بچنے کے لئےاس دن یہ اپناکوئی حامی ومددگارنہ پاسکیں گے،اورنہ اس دردناک عذاب میں کچھ کمی کی جائے گی ،جیسےفرمایا

۔۔۔فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ۝۸۶ۧ [195]

ترجمہ: لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی ۔

اس عذاب کی شدت سے یہ روئیں گے چلائیں گے،فریادیں کریں گے،دنیامیں واپس جانے کی خواہش کریں گے مگرکچھ شنوائی نہ ہوگی ،جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے مگرنکل نہ سکیں گے ،جیسےفرمایا

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا۔۔۔۝۰۝۳۷ [196]

ترجمہ:وہ چاہیں گے کہ دوزخ کی آگ سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے۔

اس روزان کے غروروتکبرسے اٹھے ہوئے چہرے آگ پرالٹ پلٹ کیے جائیں گے، اس وقت انہیں یقین آجائے گاکہ اللہ کےرسولوں نے جودعوت پہنچائی تھی وہ سچ تھی ، اور وہ اپنے گزشتہ اعمال پرحسرت وافسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم نے آنکھیں بندکرکے اپنے مشائخ واکابر کی تقلید کرنے کے بجائے اللہ اوراس کےرسول کی اطاعت کی ہوتی اوریوں اس المناک عذاب سے بچ جاتے اورثواب جزیل کے مستحق ہوتے،اورغیض وغضب سےکہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے دنیامیں اس یقین کے ساتھ اپنے سرداروں اوراپنے بڑوں کی اطاعت کی تھی کہ وہ ہمیں راہ راست پر چلائیں گے مگر اس کے برعکس انہوں نے ہمیں کفرومعاصی میں مبتلاکردیا،جیسے متعدد مقامات پر فرمایا

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ۔۔۔۝۰۝۲۹ [197]

ترجمہ:ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتااس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی۔

۔۔۔وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚۖ یَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۝۳۱ [198]

ترجمہ:کاش! تم دیکھو اِن کا حال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے ،جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔

رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِـمِیْنَ۝۲ [199]

ترجمہ:بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آجائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوتِ اسلام کو قبول کرنے سے ) انکار کر دیا ہے ،پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش! ہم نے(اللہ اوراس کے رسول کے آگے) سر تسلیم خم کر دیا ہوتا ۔

اوراے ہمارےرب!ان کواپنے کفروشرک اورہمیں گمراہ کرنے کے جرم میں دوہراعذاب دے اوران پرسخت لعنت کر،اللہ تعالیٰ فرمائے ہرایک کے لئے دوہراعذاب ہی ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِیهًا ‎﴿٦٩﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا ‎﴿٧٠﴾‏ یُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن یُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا ‎﴿٧١﴾‏(الاحزاب)
اے ایمان والو ! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی، پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا، اور اللہ کے نزدیک با عزت تھے،اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے ، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَیِیًّا سِتِّیرًا، لاَ یُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَیْءٌ اسْتِحْیَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ فَقَالُوا: مَا یَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ، إِلَّا مِنْ عَیْبٍ بِجِلْدِهِ: إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ: وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ یُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى، فَخَلاَ یَوْمًا وَحْدَهُ، فَوَضَعَ ثِیَابَهُ عَلَى الحَجَرِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِیَابِهِ لِیَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الحَجَرَ، فَجَعَلَ یَقُولُ: ثَوْبِی حَجَرُ، ثَوْبِی حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَرَأَوْهُ عُرْیَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا یَقُولُونَ، وَقَامَ الحَجَرُ، فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ، ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاموسیٰ علیہ السلام نہایت باحیااورجسم ڈھانپنے والےتھے ،ان کی حیاکی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا ،بنی اسرائیل کے جولوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے رہتے تھے وہ کیوں کربازرہ سکتے تھے ،چنانچہ ان لوگوں نے کہناشروع کیا کہ شایدموسیٰ علیہ السلام کے جسم میں کچھ عیب ہے یاکوڑھ ہے یاان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یاپھرکوئی اوربیماری ہے تب ہی تووہ ہروقت اپناجسم لباس سے ڈھانپ کررکھتے ہیں ،ادھراللہ تعالیٰ کویہ منظورہواکہ موسیٰ علیہ السلام کو ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے،ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام تنہائی میں غسل کرنے کے لئے آئے اورکپڑے اتارکرایک پتھر پر رکھ دیئے،پھرغسل شروع کیاجب فارغ ہوئے توکپڑے اٹھانے کے لئے بڑھے لیکن پتھر(اللہ کے حکم سے)کپڑوں سمیت بھاگ کھڑاہوا،موسیٰ علیہ السلام نے اپناعصااٹھایااور اپنے کپڑے لینے کے لئے پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑے،یہ کہتے ہوئے کہ پتھر!میراکپڑادے دےحتی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے،اوران سب نے آپ کوننگادیکھ لیاتوان کے سارے شبہات دورہوگئے ،موسیٰ علیہ السلام نہایت حسین وجمیل اورہرقسم کے داغ اورعیب سے پاک تھے ،اس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے معجزانہ طورپرپتھرکےذریعے سے ان کی اس الزام اورشبہے سے برات کردی جوبنی اسرائیل کی طرف سے ان پرکیاجاتاتھا،اب پتھربھی رک گیااورآپ نے کپڑااٹھاکرپہناپھرپتھرکواپنے عصاسے مارنے لگے،اللہ کی قسم !اس پتھرپرموسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یاچاریاپانچ جگہ نشان پڑگئے تھے۔[200]

اورموسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک باعزت تھے،اسی طرف اشارہ کرکے تنبیہ فرمائی کہ اے لوگوجوایمان لائے ہو!تم ہمارے پیغمبرآخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوجن کااکرام واحترام تم پرواجب ہےبنی اسرائیل کی طرح ایذامت پہنچاؤاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ایسی بات مت کروجسے سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم قلق اوراضطراب محسوس کریں ،

 عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمُ حُنَیْنٍ آثَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا فِی الْقِسْمَةِ، فَأَعْطَى الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عُیَیْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ الْعَرَبِ، وَآثَرَهُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْقِسْمَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَاللهِ، إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا عُدِلَ فِیهَا وَمَا أُرِیدَ فِیهَا وَجْهُ اللهِ، قَالَ فَقُلْتُ: وَاللهِ، لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَیْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ، قَالَ: فَتَغَیَّرَ وَجْهُهُ حَتَّى كَانَ كَالصِّرْفِ، ثُمَّ قَالَ: فَمَنْ یَعْدِلُ إِنْ لَمْ یَعْدِلِ اللهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:یَرْحَمُ اللهُ مُوسَى، قَدْ أُوذِیَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَقَالَ قُلْتُ:لَا جَرَمَ لَا أَرْفَعُ إِلَیْهِ بَعْدَهَا حَدِیثًا

جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےغزوہ حنین کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندلوگوں کوغنیمت کامال زیادہ دیاچنانچہ اقرع بن حابس کوسواونٹ دیے اورعیینہ کوبھی ایسے ہی اورسرداران عرب سے چندآدمیوں کوبھی ایساہی کچھ دیااوران کوتقسیم میں لوگوں سے مقدم کیا، ایک(منافق) شخص نے کہااللہ کی قسم !یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیاگیااورنہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصودہے،میں نے اپنے دل میں کہاکہ اللہ کی قسم !میں اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودوں گا،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورآپ کوخبردی،جب یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنے توآپ غضب ناک ہوئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ مبارک سرخ ہوگیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراللہ تعالیٰ اوراس کارسول عدل نہیں کرے گاتوکون کرے گا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاموسیٰ علیہ السلام پراللہ کی رحمت ہوانہیں اس سے کہیں زیادہ ایذاپہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبرکیااورمیں نے اپنے دل میں عہدکیاکہ آج سے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی بات کی خبرنہیں دوں گا(اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس میں تکلیف ہوتی ہے)۔[201]

اے ایمان لانے والو!اللہ سے ڈروجیسااس سے ڈرنے کاحق ہےاورہرمعاملہ میں حق وصداقت کی بات کیاکرو،

عَنِ أَبِومُوسَى الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللهُ، عَنْهُ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الظُّهْرِ، ثُمَّ قَالَ عَلَى مَكَانِكُمُ اثْبُتُوا، ثُمَّ أَتَى الرِّجَالَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ أَمَرَنِی أَنْ آمُرَكُمْ أَنْ تَتَّقُوا اللهَ وَأَنْ تَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ أَمَرَنِی أَنْ آمُرَكُنَّ أَنْ تَتَّقِینَ اللهَ وَأَنْ تَقُلْنَ قَوْلًا سَدِیدًا

ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن ظہرکی نمازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی اور نماز کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کی طرف متوجہ ہوئےکہ اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو پھرفرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایاہے کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اورحق و صداقت کی بات بولنے کاحکم دوں ،پھرعورتوں کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایاہے کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اورحق وصداقت کی بات بولنے کاحکم دوں ۔[202]

تمہارے قول سدیدکی نتیجے میں اللہ تمہارے اعمال درست کردے گااورمزیدعمل صالحہ کرنے اوراستغفارکرنےکی توفیق بخش دے گا اوراگرکچھ کمی وکوتاہی ہوجائے گی توتمہارے قصوروں سے درگزرفرمائے گا،جوشخص اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے گا اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ‎﴿٧٢﴾‏ لِّیُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِینَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَیَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٧٣﴾‏(الاحزاب)
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے، (مگر) انسان نے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے ،(یہ اس لئے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دےاور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے، اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: یَعْنِی بِالْأَمَانَةِ: الطَّاعَةُ ، وَعَرَضَهَا عَلَیْهِمْ قَبْلَ أَنْ یَعْرِضَهَا عَلَى آدَمَ فَلَمْ یُطِقْنَهَا فَقَالَ لِآدَمَ: إِنِّی قَدْ عرضتُ الأمانة على السموات وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَلَمْ یُطِقْنَهَا ، فَهَلْ أَنْتَ آخِذٌ بِمَا فِیهَا؟ قَالَ: یَا رَبِّ، وَمَا فِیهَا؟قَالَ: إِنْ أَحْسَنْتَ جُزِیتَ، وَإِنْ أَسَأْتَ عُوقِبْتَ ، فَأَخَذَهَا آدَمُ فتحمَّلهات، فَذَلِكَ قَوْلُهُ وَحَمَلَهَا الإنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ امانت سے مرادطاعت ہے،اللہ تعالیٰ نے اس امانت کوآسمانوں ،زمین اورپہاڑوں کے سامنے آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کرنے سے پہلے پیش کیاتھا مگرانہوں نے اس کے بارکے اٹھانے کی اپنے آپ میں طاقت نہ پائی،تواللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایامیں نے امانت کوآسمانوں ،زمین اورپہاڑوں کے سامنے پیش کیاتھامگرانہوں نے اس کے اٹھانے کی طاقت نہیں پائی تواس میں جوکچھ ہے کیااس کے ساتھ تم اسے اٹھاسکتے ہو؟انہوں نے عرض کی اے میرے رب!اس میں کیاہے؟ فرمایااگرتم نیکی کروگے تواچھی جزاملے گی اوربرائی کروگے توسزاملے گی،توآدم علیہ السلام نے اسے لے کراٹھالیااسی لیے فرمایا’’مگرانسان نے اسے اٹھالیا،بے شک وہ بڑاظالم اورجاہل ہے۔‘‘[203]

ہم نے ان احکام شرعیہ اورفرائض وواجبات کوجن کی ادائیگی پرثواب اوران سے اعراض وانکارپرعذاب ہوگاساتوں آسمانوں اورزمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا (اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس امانت کوآسمانوں اورزمین پرپیش کیا اس کیفیت کاسمجھناہمارے فہم وادراک سے بالاترہے)توآسمان وزمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑاپنی زبردست جسامت ومتانت کے باوجوداس امانت کے تقاضے کوپورانہ کرسکنے کے خوف سے تھرااٹھے اور اسے اٹھانے کے لیے تیارنہ ہوئے اوراس سے ڈر گئےمگرانسان نے ان کے عقوبت وتعزیرکے پہلوؤں پرغورکرنے کے بجائےان کے اجروثواب اوران کی فضیلت کودیکھ کر اس بارگراں کو اٹھانے پرخوشی خوشی تیارہوگیا،بے شک وہ بڑاظالم اورجاہل ہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَرْبَعٌ إِذَا كُنَّ فِیكَ فَلَا عَلَیْكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْیَا: حِفْظ أَمَانَةٍ، وصِدْق حَدِیثٍ، وحُسْن خَلِیقَةٍ، وعِفَّة طُعمة

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں چارچیزیں موجودہوں توپھردنیاکی کسی بھی چیزکے موجودنہ ہونے کاتمہیں کوئی غم نہیں ہوناچاہیے،حفظ امانت،سچ بولنا،حسن خلق اورحلال کھانا۔[204]

اس بارامانت کواٹھانے کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اورعورتوں اورمشرک مردوں اورعورتوں کوسزادے اورمومن مردوں اورعورتوں کی توبہ قبول کرے،بیشک اللہ اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزرفرمانے والااوررحیم ہے۔

[1] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الاحزاب بَابُ قَوْلِهِ لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ۴۷۹۱،۴۷۹۳ ،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ زَوَاجِ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَنُزُولِ الْحِجَابِ، وَإِثْبَاتِ وَلِیمَةِ الْعُرْسِ۳۵۰۵

[2] الأحزاب: 53

[3] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ زَوَاجِ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَنُزُولِ الْحِجَابِ، وَإِثْبَاتِ وَلِیمَةِ الْعُرْسِ۳۵۰۷

[4] صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا ذُو مَحْرَمٍ، وَالدُّخُولُ عَلَى المُغِیبَةِ۵۲۳۲،صحیح مسلم كتاب السَّلَامِ بَابُ تَحْرِیمِ الْخَلْوَةِ بِالْأَجْنَبِیَّةِ وَالدُّخُولِ عَلَیْهَا ۵۶۷۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِیبَاتِ۱۱۷۱، مسنداحمد۱۷۳۴۷

[5] صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ إِجَابَةِ الوَلِیمَةِ وَالدَّعْوَةِ، وَمَنْ أَوْلَمَ سَبْعَةَ أَیَّامٍ وَنَحْوَهُ۵۱۷۳،صحیح مسلم كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْأَمْرِ بِإِجَابَةِ الدَّاعِی إِلَى دَعْوَةٍ۳۵۰۹،سنن ابوداودكِتَاب الْأَطْعِمَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی إِجَابَةِ الدَّعْوَةِ۳۷۳۶

[6] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورة الاحزاب بَابُ قَوْلِهِ لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ۴۷۹۰

[7] تفسیرطبری۳۱۳؍۲۰

[8] تفسیرطبری۳۱۳؍۲۰

[9] تفسیرالقرطبی۲۲۷؍۱۴

[10] أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن۲۴۳؍۶

[11] احکام القرآن للجصاص ۲۴۲؍۵

[12] أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن۲۴۶؍۶

[13] النور۳۱

[14] روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی۲۵۲؍۱۱

[15]صحیح بخاری تفسیر سورة الاحزاب باب إِنَّ اللهَ وَمَلاَئِكَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى النَّبِیِّ۴۷۹۷،وکتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا۳۳۷۰

[16] مسنداحمد۱۶۳۶۳

[17] مسنداحمد۱۶۳۵۲

[18] مسنداحمد۸۸۵۴،صحیح مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بعْدَ التَّشهُّدِ۹۱۲،سنن ابوداودکتاب تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابٌ فِی الِاسْتِغْفَارِ۱۵۳۰ ،جامع ترمذی أَبْوَابُ الوِتْرِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۸۵،السنن الکبری للنسائی۱۲۲۰

[19]۔شرح النوی علی مسلم۱۲۸؍۴

[20] مسنداحمد۶۶۰۵

[21] مسنداحمد۱۷۳۶

[22] جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ باب۳۵۴۵

[23] جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب۲۴۵۷،مستدرک حاکم۳۵۷۸

[24] فضل الصلاة۱۳

[25] مسنداحمد۲۱۲۴۲

[26] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۸۴،صحیح ابن حبان ۹۱۱

[27] صحیح الجامع الصغیر وزیاداته۶۵۶۸،فضل الصلاة۴۳

[28] مسنداحمد۶۵۶۸،صحیح مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یَسْأَلُ لهُ الْوَسِیلَةَ۸۴۹،سنن ابوداود كِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ۵۲۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۶۱۴،السنن الکبری للنسائی۱۶۵۴

[29] مسنداحمد۲۶۴۱۶

[30] تفسیرابن کثیر ۴۷۱؍۶

[31] جامع ترمذی أَبْوَابُ الوِتْرِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۴۸۶

[32] مسنداحمد۱۷۱۸،مسندالبزار۱۳۳۷،صحیح ابن خزیمہ۱۰۹۵،صحیح ابن حبان۹۴۵،مستدرک حاکم۴۸۰۱،سنن ابوداودکتاب تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابُ الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ۱۴۲۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ الوِتْرِ بَابُ مَا جَاءَ فِی القُنُوتِ فِی الوِتْرِ۴۶۴،السنن الکبری للبیہقی ۳۱۳۸،سنن الدارمی۱۶۳۴

[33] السنن الکبری للنسائی۱۴۴۷

[34] سنن ابوداودکتاب تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ بَابُ فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَیْلَةِ الْجُمُعَةِ۱۰۴۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابٌ فِی فَضْلِ الْجُمُعَةِ ۱۰۸۵،السنن الکبری للنسائی۱۶۷۸، مسند احمد۱۶۱۶۲

[35] حم السجدة۳۷

[36] التوبة۳۰

[37] النحل۱۱۶

[38] صحیح بخاری تفسیر سورة الجاثیہ بَابُ وَمَا یُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۴۸۲۶، صحیح مسلم كتاب الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَیْرِهَا بَابُ النَّهْیِ عَنْ سَبِّ الدَّهْرِ۵۸۶۲، مسند احمد۷۲۴۵

[39] تفسیرابن کثیر۴۸۰؍۶

[40] الانبیائ۵

[41] الطور۳۰

[42] ص۴

[43] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الْغِیبَةِ ۶۵۹۳ ، مسنداحمد۸۹۸۵، سنن الدرامی۲۷۵۶،صحیح ابن حبان ۵۷۵۹، السنن الکبری للنسائی۱۱۴۵۴

[44] فتح القدیر۳۵۲؍۴، الدر المنثورفی التفسیربالماثور۶۵۹؍۶،فتح البیان فی مقاصدالقرآن۱۴۵؍۱۱،ابن سعد

[45] تفسیرابن کثیر۴۸۲؍۶

[46] الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل۵۶۰؍۳

[47] حِرَاسَةُ الْفَضِیلَةِ۲۶؍۱

[48] الاحزاب۵۹

[49] تفسیرابن کثیر۴۸۱؍۶

[50] المحلی بالآثار ۲۴۸؍۲

[51] الکشاف۵۵۹؍۳،روح البیان ۲۴۰؍۷

[52] جامع البیان فی تاویل القرآن ۱۸۰؍۱۹

[53] معانی القرآن۳۴۹؍۲

[54] احکام القرآن۴۸۶؍۳

[55] معالم التنزیل فی تفسیر القرآن = تفسیر البغوی۴۶۴؍۳

[56] الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل۵۶۰؍۳

[57] زاد المسیر فی علم التفسیر۴۸۴؍۳

[58] تفسیرالرازی۔مفاتیح الغیب التفسیر الكبیر۱۸۴؍۲۵

[59] أنوار التنزیل وأسرار التأویل۲۳۸؍۴

[60] تفسیر النسفی ۔مدارك التنزیل وحقائق التأویل۴۵؍۳

[61] تفسیرالخازن۔ لباب التأویل فی معانی التنزیل۴۳۶؍۳

[62] البحر المحیط فی التفسیر۵۰۴؍۸

[63] تفسیرالقرطبی۲۴۳؍۱۴

[64] تفسیرطبری۳۲۵؍۲۰

[65] تفسیرجلالین۵۶۰؍۱

[66] اللباب فی علوم الكتاب۵۸۹؍۱۵

[67] نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور۴۱۱؍۱۵

[68] تفسیرابن عطیة۔ المحرر الوجیز فی تفسیر الكتاب العزیز۳۹۹؍۴

[69] التحریر والتنویر تحریر المعنى السدید وتنویر العقل الجدید من تفسیر الكتاب۱۰۷؍۲۲ تفسیرابن عاشورا

[70] مصنف ابن ابی شیبة۶۲۳۶

[71] السنن الکبری للبیہقی۳۲۲۱

[72] تفسیرابن کثیر۴۲۵؍۶،تفسیرابن ابی حاتم ۳۱۵۴؍۱۰

[73] فتح القدیرللشوکانی۳۴۹؍۴

[74]تفسیرالالوسی۔روح المعانی۲۶۴؍۱۱

[75] فتح البیان فی مقاصدالقرآن۱۴۳؍۱۱

[76] مراح لبید لكشف معنى القرآن المجید۲۶۱؍۲

[77] تفسیرالمراغی۳۶؍۲۲

[78] تفسیرالسعدی۔تیسیر الكریم الرحمن فی تفسیر كلام المنان۶۷۱؍۱

[79] أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن۲۴۳؍۶

[80] تفسیرثنائی

[81] التفسیرالمظہری۳۸۴؍۷

[82] أیسر التفاسیر لكلام العلی الكبیر۲۹۰؍۴

[83] البحر المدید فی تفسیر القرآن المجید۴۶۲؍۴

[84] التفسیرالمنیرللزحیلی۱۰۶؍۲۲

[85] معارف القرآن۲۳۵؍۷

[86] تفہیم القرآن۱۲۹؍۴

[87] ترجمان القرآن۲۱۵؍۳

[88] تدبرقرآن۲۶۹؍۶

[89] ضیاء القرآن۹۵؍۴

[90] تفسیراحسن البیان۵۵۸

[91] معارف القرآن۵۴۵؍۵

[92] تفسیرعثمانی۵۶۸

[93] تفسیرماجدی

[94] تفسیرابن کثیر۴۸۲؍۶

[95] مسنداحمد۲۴۰۲۱،شرح السنة للبغوی۱۹۷۶،معرفة السنن والآثار۹۶۰۴،السنن الکبری للبیہقی۹۰۵۱،سنن ابوداودكِتَاب الْمَنَاسِكِ بَابٌ فِی الْمُحْرِمَةِ تُغَطِّی وَجْهَهَا ۱۸۳۳

[96] سنن الدارقطنی۲۷۶۳

[97] سنن الدارقطنی ۲۷۶۴

[98] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ حَدِیثِ ۴۱۴۱

[99] صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لَبَنِ الفَحْلِ۵۱۰۳،صحیح مسلم كِتَابُ الرِّضَاعِ بَابُ تَحْرِیمِ الرَّضَاعَةِ مِنْ مَاءِ الْفَحْلِ۳۵۷۱

[100] فتح الباری۱۵۲؍۹

[101] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ۴۱۰۰

[102] فتح الباری۴۹۰؍۸

[103] موطاامام مالک کتاب الحج تَخْمِیرُ الْمُحْرِمِ وَجْهَهُ

[104] صحیح بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ وُجُوبِ الصَّلاَةِ فِی الثِّیَابِ۳۵۱

[105] صحیح بخاری كِتَابُ المَرْضَى بَابُ فَضْلِ مَنْ یُصْرَعُ مِنَ الرِّیحِ۵۶۵۲،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِیمَا یُصِیبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ یُشَاكُهَا۶۵۷۱،مسنداحمد۳۲۴۰

[106] صحیح بخاری كِتَابُ المَرْضَى بَابُ فَضْلِ مَنْ یُصْرَعُ مِنَ الرِّیحِ۵۶۵۲

[107] فتح الباری۱۱۵؍۱۰

[108] سنن نسائی كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ باب الْحَجُّ بِالصَّغِیرِ۲۶۵۰

[109] سنن ابن ماجہ كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةِ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَهَا۱۸۶۶

[110] شرح النووی علی مسلم ۷۸؍۱۵

[111] تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی ۷۴؍۳

[112]صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ كَثْرَةِ حَیَائِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۰۳۲

[113] سنن ابن ماجہ كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةِ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَهَا۱۸۶۴

[114] صحیح بخاری كِتَابُ مَوَاقِیتِ الصَّلاَةِ بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ۵۷۸

[115] صحیح بخاری كتاب جزاء الصید بَابُ مَا یُنْهَى مِنَ الطِّیبِ لِلْمُحْرِمِ وَالمُحْرِمَةِ ۱۸۳۸

[116] تفسیرالرازی۔ مفاتیح الغیب التفسیر الكبیر۱۸۰؍۲۵

[117] الاحزاب۵۹

[118] مجموع الفتاوی ۴۴۸؍۱۵

[119] مجموع الفتاوی۳۷۱؍۱۵

[120] مجموع الفتاوی ۱۱۰؍۲۲

[121] سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابُ فَضْلِ قِتَالِ الرُّومِ عَلَى غَیْرِهِمْ مِنَ الْأُمَمِ۲۴۸۸

[122] تفسیرالقرطبی۱۱۷؍۴،فتح البیان فی مقاصدالقرآن۲۶۹؍۲

[123] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْحَیَاءِ۴۱۸۱

[124] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْحَیَاءِ۴۱۸۴ ،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الحَیَاءِ۲۰۰۹، مسند احمد ۱۰۵۱۲

[125]صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابٌ الحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ۲۴

[126] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الغَارِ۳۴۸۳

[127] فتح الباری ۵۲۳؍۱۰

[128] مستدرک حاکم۵۸

[129] لسان العرب۳۰۰؍۸

[130] الجامع الصغیروزیادته۹۳۷،حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء۲۰۹؍۴،شرح السنة للبغوی ۴۰۳۳، مصنف ابن ابی شیبة ۳۴۳۲۰

[131] مسنداحمد ۲۵۶۶۰، مستدرک حاکم ۶۷۲۱

[132] ادب الدنیا والدین ۲۴۸؍۱،روضة العقلاء ونزهة الفضلاء۵۷؍۱،الآداب الشرعیة والمنح المرعیة۲۲۷؍۲

[133] دیوان المعانی۱۳۹؍۱

[134] أرشیف ملتقى أهل التفسیر باب فضائل الحجاب

[135] چہرے کاپردہ۶۷

[136] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۶۳؍۶۹

[137] الاحزاب۵۹

[138] الاحزاب۵۹

[139] تدبرالقرآن۲۷۰؍۶

[140] فتاوى اللجنة الدائمة ۱۵۳؍۱۷

[141] مجموع فتاوی ابن باز۲۵۴؍۴

[142] دروس وفتاوی فی الحرم المکی۲۸۳

[143] الأحزاب: 59

[144] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیبِهِنَّ ۴۱۰۱

[145] صحیح بخاری کتاب الاستذان بَابُ آیَةِ الحِجَابِ ۶۲۴۰ ،وکتاب التفسیرسورة الاحزاب بَابُ قَوْلِهِ لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ ۴۷۹۵،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ إِبَاحَةِ الْخُرُوجِ لِلنِّسَاءِ لِقَضَاءِ حَاجَةِ الْإِنْسَانِ۵۶۶۸

[146] معالم التنزیل فی تفسیر القرآن = تفسیر البغوی۶۴۱؍۳،تفسیرالخازن۔ لباب التأویل فی معانی التنزیل۴۲۷؍۳،اللباب فی علوم الكتاب۵۵۳؍۱۵،السراج المنیر فی الإعانة على معرفة بعض معانی كلام ربنا الحكیم الخبیر۲۴۹؍۳

[147] تفسیرالخازن۔ لباب التأویل فی معانی التنزیل۴۲۷؍۳

[148]جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ۳۲۰۷

[149]۔الاحزاب۴۰

[150] مسنداحمد۲۱۲۴۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۱۳

[151] جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الذِّكْرِ۳۳۷۷،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ فَضْلِ الذِّكْرِ۳۷۹۰

[152] مسند احمد ۱۷۶۸۰،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الذِّكْرِ۳۳۷۵،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ فَضْلِ الذِّكْرِ۳۷۹۳

[153] مسنداحمد۱۱۶۷۴

[154] الروم۱۷

[155] البقرة۱۵۲

[156] صحیح بخاری کتاب التوحیدوالردالجھمیة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ ۷۴۰۵،صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ باب فضل الذکروادعاء بَابُ الْحَثِّ عَلَى ذِكْرِ اللهِ تَعَالَى۶۸۰۵ ،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ۳۸۲۲،جامع ترمذی ابواب الدعوات باب فی حسن الظن بالله عزوجل۳۶۰۳،السنن الکبری للنسائی ۷۶۸۳،صحیح ابن حبان۸۱۱،شرح السنة للبغوی۱۲۵۱

[157] المومن۷تا۹

[158] یٰسین۵۸

[159] النحل۳۲

[160] یونس۱۰

[161] النسائ۴۱

[162] البقرة۱۴۳

[163] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ كَرَاهِیَةِ السَّخَبِ فِی السُّوقِ۲۱۲۵،شعب الایمان ۱۳۴۵،شرح السنة للبغوی ۳۶۲۷

[164] تفسیرابن ابی حاتم۱۴۷۵۸

[165] تفسیر طبری۳۲۷؍۲۰

[166] فاطر۴۳

[167] البقرة۲۲۸

[168] مسنداحمد۶۷۸۰،سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی الطَّلَاقِ قَبْلَ النِّكَاحِ۲۱۹۰ ،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ۲۰۴۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الطَّلاَقِ وَاللِّعَانِ بَابُ مَا جَاءَ لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّكَاحِ ۱۱۸۱

[169] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ۲۰۴۸

[170] تفسیرابن کثیر۴۴۰؍۶

[171] فتح القدیر ۳۳۳؍۴

[172] البقرة۲۳۷

[173] البقرة۲۳۶

[174] سنن ابوداود کتاب النکاح بَابٌ فِی التَّزْوِیجِ عَلَى الْعَمَلِ یَعْمَلُ ۲۱۱۱، السنن الکبری للنسائی ۵۴۹۹،المعجم الکبیرللطبرانی ۵۹۱۵،مسنداحمد۲۲۸۵۰

[175] السنن الکبریٰ للبیہقی۱۳۳۵۳

[176] مصنف عبدالرزاق۱۲۲۶۸

[177] مصنف عبدالرزاق۱۴۰۳۸

[178]۔تفسیرابن ابی حاتم۳۱۴۴؍۱۰

[179] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورةالاحزاب بَابُ قَوْلِهِ تُرْجِئُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْكَ۴۷۸۸ ،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الَّتِی وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۲۰۰۱

[180] مسنداحمد۲۵۱۱۱،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْوِیَةِ بَیْنَ الضَّرَائِرِ۱۱۴۰،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الْقِسْمَةِ بَیْنَ النِّسَاءِ۱۹۷۲،سنن نسائی كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ باب مَیْلُ الرَّجُلِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ۳۳۹۸، صحیح ابن حبان ۴۲۰۵،مصنف ابن ابی شیبة ۱۷۵۴۱

[181] الاعراف۱۸۷

[182] الملک۲۵

[183] حم السجدة۲۸

[184] الجاثیة۳۲

[185] الکہف۲۱

[186] الحج۷

[187] المومن۵۹

[188] لقمان۳۴

[189] الزخرف۸۵

[190] الملک۲۶

[191] القمر۱

[192] الانبیائ۱

[193] طہ۷۴

[194] الاعلی۱۳

[195] البقرة۸۶

[196] المائدة۳۷

[197] الفرقان۲۷تا۲۹

[198]سبا۳۱

[199] الحجر۲

[200] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ حَدِیثِ الخَضِرِ مَعَ مُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ۳۴۰۴

[201] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِیَ إِیمَانُهُ۲۴۴۷،صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ باب قیل لبنی اسرائیل ادخلواالباب سجداوقولواحطة۳۴۰۵،مسنداحمد۳۹۰۲

[202] تفسیرابن ابی حاتم۱۷۸۰۶،۳۱۵۸؍۱۰

[203] تفسیرطبری۳۳۷؍۳

[204] مسنداحمد۶۶۵۲

Related Articles