ہجرت نبوی کا پانچواں سال

واقعہ ایلاء

بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھالینے کوایلاء کہتے ہیں ،ہجرت مدینہ منورہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں بے انتہا بڑھ گئیں ،ایک طرف منصب رسالت کی ذمہ داریاں تھیں تودوسری طرف سربراہ مملکت کی حیثیت سے مدینہ کے باشندوں کی جان ومال کی حفاظت بھی آپ کی ذمہ داری تھی ،اس پر منافقین کی سازشوں ،کفارمکہ اور ارد گرد کے قبائل کی شورشوں کی وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائی چارسال تک اپنی معاشی ضروریات کاکوئی بندوبست نہ کرسکے، ۴ہجری میں بنی نضیرکی مدینہ سے جلاوطنی کے بعدان کی متروکہ زمینوں کاایک حصہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کی ضروریات کے لئے مخصوص کردیاگیا مگروہ بھی اتناکم تھاکہ آپ کے کنبے کے لئے ناکافی تھااس لئے ان دنوں میں مالی حیثیت سے آپ انتہائی تنگ حال تھے ،

وَعَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، فَرَأَیْتُهُ مُتَغَیِّرًا، قُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی، مَا لِی أَرَاكَ مُتَغَیِّرًا؟ قَالَ: مَا دَخَلَ جَوْفِی مَا یَدْخُلُ جَوْفَ ذَاتِ كَبِدٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ . قَالَ: فذهبت، فَإِذَا یَهُودِیٌّ یَسْقِی، فَسَقَیْتُ لَهُ عَلَى كُلِّ دلو بتمرفَجَمَعْتُ تَمْرًا فأتیت به النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال من أین لك یا كعب فأخبرته

کعب بن عجرہ بلوی کہتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوامیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انورپرنظرڈالی تواسے(بھوک کی وجہ سے) متغیرپایا،یہ خیال کرکے کہ معلوم نہیں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کوکب سے فاقہ ہے بے چین ہوگیا (لیکن خودبھی نادارآدمی تھے گھرمیں کوئی چیزنہ تھی کہ لاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے لیکن پھربھی انہیں یہ گوارانہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے رہیں اسی وقت کوئی چیزتلاش کرنے اٹھے)راستے میں ایک یہودی ملاجواپنے اونٹ کوپانی پلاناچاہتا تھا میں نے اسی پیش کش کی کہ میں کنوئیں سے پانی کھینچ دوں اوروہ فی ڈول ایک چھوہارادے دے،اس نے منظورکرلیاچنانچہ میں نے کئی ڈول پانی کے نکالے جب کچھ چھوہارے جمع ہوگئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور چھوہارے پیش کیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایااے کعب رضی اللہ عنہ !یہ چھوہارے کہاں سے آئے؟تومیں نے ساراواقعہ بیان کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور چھوہارے کھاکران کے لیے دعائے خیرکی۔[1]

اصحاب صفہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی حالت کچھ مختلف نہ تھی ،کئی کئی دن تک گھروں میں فاقہ رہتا تھا اور روشنی کے لئے دیاتک نہیں جلتاتھااس صورت حال میں ازواج مطہرات سخت پریشان تھیں ، آخرایک دن تمام ازواج مطہرات نے جمع ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھرکے خرچہ کامطالبہ کیا،ایک طرف حددرجہ مالی مشکلات تھیں تودوسری طرف کفرواسلام کی کشمکش انتہائی عروج پرتھی،ان حالات میں ازواج مطہرات کے تقاضے کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیااورناراضگی کااظہارکیا،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ یَسْتَأْذِنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ النَّاسَ جُلُوسًا بِبَابِهِ، لَمْ یُؤْذَنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ، قَالَ: فَأُذِنَ لِأَبِی بَكْرٍ، فَدَخَلَ،ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَوَجَدَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا حَوْلَهُ نِسَاؤُهُ، وَاجِمًا سَاكِتًا، فَقَالَ: لَأَقُولَنَّ شَیْئًا أُضْحِكُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ رَأَیْتَ بِنْتَ خَارِجَةَ، سَأَلَتْنِی النَّفَقَةَ، فَقُمْتُ إِلَیْهَا، فَوَجَأْتُ عُنُقَهَا،فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:هُنَّ حَوْلِی كَمَا تَرَى، یَسْأَلْنَنِی النَّفَقَةَ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ یَجَأُ عُنُقَهَا فَقَامَ عُمَرُ إِلَى حَفْصَةَ یَجَأُ عُنُقَهَا، كِلَاهُمَا یَقُولُ: تَسْأَلْنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا لَیْسَ عِنْدَهُ ، فَقُلْنَ: وَاللهِ لَا نَسْأَلُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا أَبَدًا لَیْسَ عِنْدَهُ ، ثُمَّ اعْتَزَلَهُنَّ شَهْرًا أَوْ تِسْعًا وَعِشْرِینَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہونے کی اجازت چاہی اورلوگوں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرجمع ہیں مگرکسی کواندرجانے کی اجازت نہیں ملی اورجب سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کواجازت ملی تووہ اندرداخل ہوگئے، پھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ آئے ان کوبھی اندرجانے کی اجازت مل گئی،جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ اندرداخل ہوئے تو دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کے گردآپ کی ازواج مطہرات(اس وقت ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ، عائشہ رضی اللہ عنہا ، حفصہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں ،ابھی زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح نہیں ہوا تھا ) خاموش اورغمگین بیٹھی ہوئی ہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سوچاکہ میں کوئی ایسی بات کروں جس سے آپ مسکرا دیں ، چنانچہ یہ سوچ کرانہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ خارجہ کی بیٹی(ان کی بیوی)کودیکھتے کہ اگروہ مجھ سے خرچ مانگتی تومیں کھڑے ہوکراس کا گلا گھونٹتا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی بات سنکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادیئے اور فرمایایہ سب میرے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورمجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھے اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کاگلاگھونٹنے لگے،اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوراپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کاگلاگھونٹنے لگے، اور دونوں کہنے لگے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتنگ کرتی ہواوروہ چیزمانگتی ہوجوآپ کے پاس نہیں ہے،وہ دونوں کہنے لگیں اللہ کی قسم ہم وہ چیزآپ سے کبھی نہیں مانگیں گےجوآپ کے پاس نہ ہو،اس کے بعدسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ وسیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے،ان دونوں کے جانے کے بعد(کفرواسلام کی انتہائی کشمکش کے زمانے میں )ازواج مطہرات کے خرچہ کے تقاضے پرناراض ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک ماہ تک)ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔[2]

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر مبارک میں موچ آگئی تھی اس لئے آپ ایک بالاخانہ پررہائش پذیرہوگئے،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، وَكَانَتْ انْفَكَّتْ قَدَمُهُ

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی اور(ایلاء کے واقعہ سے پہلے پانچ ہجری میں )آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں موچ آگئی تھی۔[3]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قسم کے بارے میں کوئی خبر نہ ہوئی،وہ مدینہ منورہ کی بلندی پربنوامیہ بن زیدکے محلہ میں رہتے تھے۔

 قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِی مِنَ الأَنْصَارِ فِی بَنِی أُمَیَّةَ بْنِ زَیْدٍ، وَهُمْ مِنْ عَوَالِی المَدِینَةِ،وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَنْزِلُ یَوْمًا وَأَنْزِلُ یَوْمًا،فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِمَا حَدَثَ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الیَوْمِ مِنَ الوَحْیِ أَوْ غَیْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ،وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الأَنْصَارِ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، فَصَخِبْتُ عَلَى امْرَأَتِی فَرَاجَعَتْنِی، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِی

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں اورمیرے ایک انصاری پڑوسی جوبنوامیہ بن زیدسے تھے اورعوالی مدینہ میں رہتے تھے،ہم نے (عوالی سے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے باری مقررکر رکھی تھی ،ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں ، جب میں حاضرہوتاتواس دن کی تمام خبریں جووحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا (اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا)اورجس دن وہ حاضرہوتے تووہ بھی ایسے کرتے تھے، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پرغالب تھے لیکن جب ہم ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تویہ ایسے لوگ تھے جواپنی عورتوں سے مغلوب تھے،ہماری عورتوں نے بھی انصارکی عورتوں کاطریقہ سیکھناشروع کردیا،ایک دن میں نے اپنی بیوی کوڈانٹاتواس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا، میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پرناگواری کااظہارکیا،

قَالَتْ: وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ؟ فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الیَوْمَ حَتَّى اللیْلِ،فَأَفْزَعَنِی ذَلِكَ وَقُلْتُ لَهَا: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ، ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی، فَنَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا: أَیْ حَفْصَةُ، أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الیَوْمَ حَتَّى اللیْلِ؟قَالَتْ: نَعَمْ،فَقُلْتُ قَدْ خِبْتِ وَخَسِرْتِ، أَفَتَأْمَنِینَ أَنْ یَغْضَبَ اللهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِی؟ لاَ تَسْتَكْثِرِی النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ تُرَاجِعِیهِ فِی شَیْءٍ وَلاَ تَهْجُرِیهِ ، وَسَلِینِی مَا بَدَا لَكِ،وَلاَ یَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ عَائِشَةَ

تواس نے کہاکہ میراجواب دیناتمہیں براکیوں لگتاہے اللہ کی قسم !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی ان کو جواب دے دیتی ہیں اوربعض تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن رات تک الگ رہتی ہیں ،میں اس بات پرکانپ اٹھااورکہاکہ ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیایقیناًوہ نامرادہوگئی،پھرمیں نے اپنے کپڑے پہنے اور(مدینہ منورہ کے لئے)روانہ ہوا، پھرمیں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھرگیااورمیں نے اس سے کہااے حفصہ رضی اللہ عنہا !کیاتم میں سے کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایک دن رات تک غصہ رہتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں (کبھی ایساہوجاتاہے)اس پر میں نے کہاکہ پھرتم نے اپنے آپ کوخسارہ میں ڈال لیااورنامرادہوئی ،کیاتمہیں  اس بات کاکوئی ڈرنہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ تم پرغصہ ہوجائے اور پھر تم تنہاہوجاؤگی،خبردار!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات نہ کیاکرواورنہ کسی معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجواب دیاکرواگرتمہیں کوئی ضرورت ہوتومجھ سے مانگ لیا کرو ، تمہاری سوکن جوتم سے زیادہ خوبصورت ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتم سے زیادہ پیاری ہے،ان کی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں مبتلانہ ہوجاناان کااشارہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا،

قَالَ عُمَرُ: وَكُنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الخَیْلَ لِغَزْوِنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِی الأَنْصَارِیُّ یَوْمَ نَوْبَتِهِ، فَرَجَعَ إِلَیْنَا عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِی ضَرْبًا شَدِیدًا، وَقَالَ: أَثَمَّ هُوَ؟فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَیْهِ، فَقَالَ: قَدْ حَدَثَ الیَوْمَ أَمْرٌ عَظِیمٌ، قُلْتُ: مَا هُوَ، أَجَاءَ غَسَّانُ؟قَالَ: لاَ، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَهْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ،فَقُلْتُ: خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا یُوشِكُ أَنْ یَكُونَ،فَجَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی، فَصَلَّیْتُ صَلاَةَ الفَجْرِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِیهَا(قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: یَا بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ، أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِكِ أَنْ تُؤْذِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا لِی وَمَا لَكَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، عَلَیْكَ بِعَیْبَتِكَ)

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ان دنوں میں مدینہ منورہ اکثریہ چرچا تھا کہ(امیرشام) غسان مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے ،میرے انصاری ساتھی اپنی باری کے دن مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے اور رات گئے واپس لوٹے اورمیرے دروازہ پربڑی زورزورسے دستک دی اورکہاکہ کیاسیدناعمر رضی اللہ عنہ گھرمیں ہیں ؟میں گھبراکرباہرنکلا تو اس انصاری نے کہاآج توایک بڑاحادثہ ہو گیا،چونکہ غسان کاچرچاتھااس لئے میں نے پوچھا کیاغسان چڑھ آئے ہیں ؟انصاری نے کہانہیں اس سے بھی بڑااورخوفناک حادثہ ہوگیاہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق دے دی ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاحفصہ رضی اللہ عنہا نقصان میں رہی اورنامرادہوگئی میں پہلے ہی سمجھ رہاتھاکہ بہت جلدایساہوجائے گا،صبح میں کپڑے پہن کرگھرسے روانہ ہوا اورنمازفجرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی ، نمازکے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانہ پرتشریف لے گئے اوروہاں تنہائی اختیارکرلی ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ ازواج مطہرات کے حجروں کی طرف آئے توکیادیکھتے ہیں کہ ہر گھر میں رونا ہو رہا ہے اور ہر بیوی کے گھروالے اس کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں ،  میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوا اوران سے کہااے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی!تمہارایہ کیاحال ہوگیاہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے لگی ہو،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاتم کومجھ سے اورمجھ کو تم سے کیامطلب تم اپنی گٹھڑی (ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا )کی خبرلو(یعنی اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کوسمجھاؤمجھے کیانصیحت کرتے ہو)

وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِیَ تَبْكِی،فَقُلْتُ: مَا یُبْكِیكِ أَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ هَذَا(وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَا یُحِبُّكِ، وَلَوْلَا أَنَا لَطَلَّقَكِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ)أَطَلَّقَكُنَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَتْ: لاَ أَدْرِی( فَبَكَتْ أَشَدَّ الْبُكَاءِ)هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِی المَشْرُبَةِ،خَرَجْتُ فَجِئْتُ إِلَى المِنْبَرِ،فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ یَبْكِی بَعْضُهُمْ(یَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، وَیَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ)

میں وہاں سے اٹھ کرام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیاتو وہ رورہی تھیں ،میں نے کہااب کیوں تم رورہی ہو؟میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیاتھا(کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نامناسب بات نہ کہنا)اللہ کی قسم تم جانتی ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو(زیادہ)نہیں چاہتے اورمیں نہ ہوتاتوابھی تک تم کوطلاق دے چکے ہوتے،اچھایہ بتاؤ کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہامجھے معلوم نہیں ، پھر زارو قطار رونے لگیں ،میں نے پوچھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں ؟ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے بالاخانہ پرتنہاتشریف فرماہیں ،میں وہاں سے نکل کرمنبرکے پاس آیااس کے اردگردکچھ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے اوران میں سے بعض رو رہے تھے کنکریاں الٹ پلٹ کررہے تھے(جیسے کوئی بڑی فکراورترددمیں ہوتاہے)اورکہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کوطلاق دے دی ،

جَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِیلًا،ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ،فَجِئْتُ المَشْرُبَةَ الَّتِی فِیهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ(فَدَخَلْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَاعِدًا عَلَى أُسْكُفَّةِ الْمَشْرُبَةِ)فَقُلْتُ لِغُلاَمٍ لَهُ أَسْوَدَ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ،فَدَخَلَ الغُلاَمُ فَكَلَّمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: كَلَّمْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ،فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِینَ عِنْدَ المِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ فَجِئْتُ فَقُلْتُ لِلْغُلاَمِ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ،دَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ،فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِینَ عِنْدَ المِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الغُلاَمَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَفَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیَّ فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ

میں کچھ دیران لوگوں کے پاس بیٹھارہااس کے بعدمیری بے چینی نے مجھ پرغلبہ کیاتومیں نے سوچاکہ میں اس معاملہ کی تحقیق کروں ،میں بالاخانہ پرچڑھاجہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے، میں بالاخانہ پرگیاتومیں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبشی غلام رباح رضی اللہ عنہ دروازے کی چوکھٹ پربیٹھے ہوئے تھے ،میں نے ان سے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اندرآنے کی اجازت لے لو،غلام اندرگیا اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکرکے واپس آگیا،اس نے مجھ سے کہاکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے لئے اجازت طلب کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیاچنانچہ میں وہاں سے واپس چلا آیا اوران لوگوں کے پاس بیٹھ گئے جومنبرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے،کچھ دیربعد میری بے چینی نے پھرمجھ پر غلبہ کیااورمیں پھربالاخانہ پرگیا اورغلام سے کہاعمر رضی اللہ عنہ لئے اجازت طلب کرو،رباح رضی اللہ عنہ پھر اندرگئے اورواپس آکرکہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،میں پھرواپس آگیااور منبر کے پاس جولوگ موجودتھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا،کچھ دیرکےبعد پھر میری بے چینی نے مجھ پر غلبہ کیااورمیں بالاخانہ پرگیا اوررباح رضی اللہ عنہ سے کہا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اجازت طلب کرو،وہ اندرگئے اور پھرواپس آکرکہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،

(ثُمَّ رَفَعْتُ صَوْتِی، فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِی عِنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ظَنَّ أَنِّی جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَةَ، وَاللهِ، لَئِنْ أَمَرَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِضَرْبِ عُنُقِهَا)  فَلَمَّا وَلَّیْتُ مُنْصَرِفًا، قَالَ: إِذَا الغُلاَمُ یَدْعُونِی، فَقَالَ: قَدْ أَذِنَ لَكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَدَخَلْتُ()فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِیرٍ، لَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِیفٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْه، ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟فَرَفَعَ إِلَیَّ بَصَرَهُ فَقَالَ: لاَ

پھرمیں نے بلند آوازسے کہا شایدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خیال ہے کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے(سفارش کرنے)آیاہوں ،اللہ کی قسم اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گردن مارنے کاحکم دیں تومیں اس کی گردن مار دوں ،یہ کہہ کرواپس روانہ ہوا ہی تھا کہ یکایک غلام نے آوازدی اورکہانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کواجازت دے دی ہے میں اندرگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناتہ بنداچھی طرح لپیٹ لیا،اس تہ بندکے علاوہ آپ کے پاس کوئی اورکپڑانہیں تھا،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس بان کی چارپائی پرجس سے چٹائی بنی جاتی ہے لیٹے ہوئے تھے ،چٹائی پر کوئی بستروغیرہ نہیں تھابان کے نشان آپ کے پہلومبارک پرپڑے ہوئے تھے ،جس تکیہ پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، اورکھڑے ہی کھڑے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ نے اپنی ازواج کوطلاق دے دی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظرمبارک اٹھاکران کو دیکھا اور فرمایا نہیں ،

فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ،ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ رَأَیْتَنِی وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا المَدِینَةَ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ لَوْ رَأَیْتَنِی وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا: لاَ یَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ، وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَبَسُّمَةً أُخْرَى، فَجَلَسْتُ حِینَ رَأَیْتُهُ تَبَسَّمَ

میں (خوشی کی وجہ سے)کہہ اٹھااللہ اکبر،پھرمیں نے کھڑے ہی کھڑےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوش کرنے کے لئے کہاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کومعلوم ہے ہم قریش کے لوگ عورتوں پرغالب رہاکرتے تھے ، پھر جب ہم مدینہ منورہ آئے تویہاں کے لوگوں پران کی عورتیں غالب تھیں ،نبی اکرم یہ سن کرمسکرادیئے،پھرمیں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کومعلوم ہے میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مرتبہ گیاتھااوراس سے کہہ آیاتھاکہ اپنی سوکن کی وجہ سے جوتم سے زیادہ خوبصورت اورتم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعزیزہے،دھوکامیں مت رہنا،ان کااشارہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا،اس پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرادیئے،میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومسکراتے دیکھا توبیٹھ گیا،

فَرَفَعْتُ بَصَرِی فِی بَیْتِهِ، فَوَاللهِ مَا رَأَیْتُ فِی بَیْتِهِ شَیْئًا یَرُدُّ البَصَرَ، غَیْرَ أَهَبَةٍ ثَلاَثَةٍ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ فَلْیُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ قَدْ وُسِّعَ عَلَیْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْیَا، وَهُمْ لاَ یَعْبُدُونَ اللهَ( قَالَ: فَابْتَدَرَتْ عَیْنَایَ،قَالَ:مَا یُبْكِیكَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ،قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، وَمَا لِی لَا أَبْكِی وَهَذَا الْحَصِیرُ قَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِكَ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِیهَا إِلَّا مَا أَرَى، وَذَاكَ قَیْصَرُ وَكِسْرَى فِی الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفْوَتُهُ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ) فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا( فَقَالَ:یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْیَا؟)فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ اسْتَغْفِرْ لِی

پھرنظراٹھاکرمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکاجائزہ لیااللہ کی قسم !میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں کوئی ایسی چیزنہیں دیکھی جس پرنظررکتی،سواتین چمڑوں کے(جووہاں موجودتھے) پس میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ سے اپنی امت پر رزق کی کشادگی کی دعا کیجیے ، فارس اور روم پر اللہ نے کشادگی دنیا میں ہی کر دی تھی لیکن بدبختی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی نہ کی،عسرت کایہ عالم دیکھ کرمیری آنکھیں بھرآئیں اورمیں رونے لگا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابن خطاب کیوں روتے ہو؟میں نے کہامیں کیسے نہ روؤں آپ رسول اللہ ہیں اوریہ آپ کی کل کائنات ہے ،چٹائی کے نشان بازوپرپڑگئے ہیں ، یہ فارس اورروم کے لوگ ہیں کہ پھلوں اور نہروں میں عیش کررہے ہیں ،ان کوخوب وسعت اورفراغی دی گئی ہے ، دنیاکی کونسی نعمت ہے جوانہیں نہ ملی ہوحالانکہ وہ (خالص)اللہ کی پرستش نہیں کرتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے یہ سنکرسیدھے بیٹھ گئے، اورفرمایا اے ابن خطاب !کیاتم اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لئے دنیاہواورتمہارے لئے آخرت ، میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے استغفار کیجئے(کہ میں نے دنیاوی شان وشوکت کے متعلق یہ غلط خیال دل میں رکھا)

(فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا یَشُقُّ عَلَیْكَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ؟ فَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ، فَإِنَّ اللهَ مَعَكَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَجِبْرِیلَ، وَمِیكَائِیلَ، وَأَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَكَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَالْمُسْلِمُونَ یَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، یَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ،فَأُخْبِرَهُمْ أَنَّكَ لَمْ تُطَلِّقْهُنَّ، قَالَ:نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ ،فَلَمْ أَزَلْ أُحَدِّثُهُ حَتَّى تَحَسَّرَ الْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ، وَحَتَّى كَشَرَ فَضَحِكَ، وَكَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا، فَقُمْتُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَنَادَیْتُ بِأَعْلَى صَوْتِی، لَمْ یُطَلِّقْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ)

یہ کہہ کرمیں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو اپنی ازواج کے متعلق پریشان ہونے کی کیاضرورت ہے ،اگرآپ انہیں طلاق بھی دے دیں تواللہ اس کے فرشتے ، میں اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورتمام مسلمان آپ کے ساتھ ہیں ،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں مسجدمیں داخل ہواتومسلمان کنکریاں الٹ پلٹ کررہے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کوطلاق دیدی،کیامیں انہیں مطلع کردوں کہ آپ نے طلاق نہیں دی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم چاہو تو مطلع کردو،میں کچھ دیراورباتیں کرتے رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاغصہ بالکل زائل ہوگیا،آپ مسکرائے اور مسکراتے وقت اتنے اچھے معلوم ہوتے تھے کہ اتنے اچھے دوسرے لوگ مسکراتے وقت معلوم نہیں ہوتے (پھر میں واپس آگیا اور)مسجدکے دروازہ پرکھڑے ہوکراعلان کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق نہیں د ی،

ثُمَّ نَزَلَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَزَلْتُ، فَنَزَلْتُ أَتَشَبَّثُ بِالْجِذْعِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا یَمْشِی عَلَى الْأَرْضِ مَا یَمَسُّهُ بِیَدِهِ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّمَا كُنْتَ فِی الْغُرْفَةِ تِسْعَةً وَعِشْرِینَ،قَالَ:إِنَّ الشَّهْرَ یَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ، فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَةً دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ كُنْتَ قَدْ أَقْسَمْتَ أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَیْنَا شَهْرًا، وَإِنَّمَا أَصْبَحْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ لَیْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّافَقَالَ:الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَةًفَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَة،قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى آیَةَ التَّخَیُّرِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورمیں بالاخانہ سے اترے،میں توکھجورکے تنے کوپکڑتے ہوئے اترا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اترے گویابے تکلف زمین پرچل رہے ہوں ،آپ نے کسی چیز کو ہاتھ بھی نہ لگایا، میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ انتیس دن بالاخانہ میں رہے(یعنی مہینہ ابھی پورانہیں ہوا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامہینہ انتیس دن کابھی ہوتاہے، جب انتیس دن گزرگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے،انہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے توقسم کھائی تھی کہ ایک مہینہ تک ہمارے پاس نہیں آئیں گے میں نے یہ دن گن گن کرکاٹے ہیں ابھی انتیس دن ہی ہوئے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامہینہ انتیس دن کابھی ہوتاہے اوریہ مہینہ انتیس دن ہی کاہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اسی اثنامیں آیت تخییر نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کواختیار دے دیاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لیں یا دنیاکو۔[4]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ،دوہری لائن کے الفاظ صحیح بخاری میں ہے۔

أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَالَ:إِنِّی ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلا عَلَیْكِ أَنْ لا تَسْتَعْجِلِی حَتَّى تَسْتَأْمِرِی أَبَوَیْكِ ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَیَّ لَمْ یَكُونَا یَأْمُرَانِی بِفِرَاقِهِ،قَالَتْ:ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللهَ قَالَ

چنانچہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایامیں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں ضروری نہیں کہ تم اس میں جلد بازی سے کام لو بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کرسکتی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ میرے والدکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کامشورہ نہیں دے سکتے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کافرمان ہے۔

‏ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا ‎﴿٢٨﴾‏ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٢٩﴾‏ یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ مَن یَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرًا ‎﴿٣٠﴾‏۞ وَمَن یَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیمًا ‎﴿٣١﴾‏ یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ‎﴿٣٢﴾‏ وَقَرْنَ فِی بُیُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیرًا ‎﴿٣٣﴾‏ وَاذْكُرْنَ مَا یُتْلَىٰ فِی بُیُوتِكُنَّ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا ‎﴿٣٤﴾‏(الاحزاب)
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں ، اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں ، اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو بھی کھلی بےحیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے، اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے، اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو، اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو، اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوة دیتی رہو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو، اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو ! تم سے وہ (ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے، اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے۔

ازواج مطہرات کی رفعت :اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں سے کہو اگرتم دنیاکاعیش وآرام کی طرف مائل ہواوراس کے فقدان پرناراض ہوتومجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں تو آؤ میرے پاس جوسروسامان ہے وہ تمہیں بغیرکسی ناراضی اورسب وشتم کے دے کر آزادکر دیتاہوں ،لیکن اگرتم اللہ کی خوشنودی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاچاہتی ہواورآخرت کےگھرکی انواع واقسام کی لازوال نعمتیں تمہارامطلوب ومقصودہے تو میرے ساتھ قناعت میں صبروشکرکے ساتھ زندگی گزارواورایسامطالبہ نہ کروجوآپ پرشاق گزرے ، توجان لواللہ نے تم میں سے نیکوکارعورتوں کے لئے بڑااجرتیارکررکھاہے ،لیکن اگرتم میں سے کسی نے اپنے مرتبہ سے گرا ہوا کوئی کام کیاتوتمہیں عذاب بھی دوگنادیاجائے گا ، اللہ کے لئے یہ مشکل کام نہیں ہے، اورجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت شعارہوں گی اورتھوڑایابہت عمل صالحہ اختیارکریں گی ہم انہیں دوگنااجر عظیم عطافرمائیں گے،اورہم نے ان کے لئے جنت کی عظیم لازوال نعمتیں تیارکررکھی ہے ،اے نبی کی بیویوں !نبی کی بیوی ہونے کی وجہ سے تمہاری حیثیت ومرتبہ عام عورتوں کاسانہیں ہے بلکہ تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اس لئے تم امت کی مائیں ہو ،اور اسلامی معاشرے میں تمہارامقام بہت بلندہے (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آوازمیں بھی فطری طور پر دلکشی،نرمی اورنزاکت رکھی ہے جومردکواپنی طرف کھینچتی ہے)اس لئے اگرکوئی مرد تم سے کوئی چیزلینے دینے یا دین کے بارے میں کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے آئے تو ان سے دھیمے،نرم لہجے اوررغبت دلانے والی نرم کلام سے گفتگوکرنے کے بجائے قصداً(درشت لہجے اوربداخلاقی سے نہیں )قدرے سخت لہجے میں بات کیاکرو ،ہوسکتاہے وہ مردجس کے دل میں روگ ہووہ تمہاری طرف مائل ہوجائے ،یعنی نرم لہجے سے بات کرنابھی فتنہ انگیزہےاورحکم فرمایا

 وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى۔۔[5]

اپنے گھروں میں ٹک کررہواورسابق دورجاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

تَــبَرُّجَ باب تفعل کامصدرہے ،تبرجت الْمَرْأَة لغت میں اس وقت کہاجاتاہے جب عورت اجنبیوں کواپنی زینت اورمحاسن دکھلائے اورتبرجت السَّمَاء اس وقت کہاجاتاہے جب ستاروں کے ساتھ آسمان مزین ہوجائے اوربرج الشی کالغت میں معنی کسی چیز کا ظاہر ہونا اور بلندہوناہے اورالبرج کامعنی ستون،قلعہ،مینار،گنبدہے اورالبارجة بڑی جنگی کشتی کوکہتے ہیں اورمافلان الابارجة  کامعنی ہے فلاں شخص شریر ہے توخلاصہ کلام یہ نکلاکہ لغت میں  تَــبَرُّجَ کہتے ہیں عورت زیب وزیبائش کے ساتھ اس طرح غیرمحارم اوراجنبی لوگوں کے سامنے ظاہراوربلند ہوجس طرح ستون اورمحل ومیناروگنبدوقلعہ اورجنگی کشتی دورسے نظرآتے ہیں ،انسان کادل للچانے لگتاہے کہ کاش مجھے مل جائے اوراس کے دل میں شرارت اورہوس سی پیداہوتی ہے اور آخرکار دنیا اس کامطمع نظربن جاتی ہے اورپھردیوانوں کی طرح وہ دنیاکا پجاری بن جاتاہے اور دین کویکسرترک کرنے لگتا ہے۔[6]

أَنْ تُبْدِیَ الْمَرْأَةُ مِنْ زِینَتِهَا وَمَحَاسِنِهَا مَا یَجِبُ عَلَیْهَا سَتْرُهُ، مِمَّا تَسْتَدْعِی بِهِ شَهْوَةَ الرَّجُلِ

اصطلاح شریعت میں تبرج کہتے ہیں عورت اپنی اس زینت ومحاسن کوظاہر کرے جس کو چھپانااس پرواجب ہے تاکہ اس زینت ومحاسن کے ظہورکے ساتھ مردکی شہوت کو طلب اورللکاراجائے اورتاکہ اس کے ظہورسے مردکی شہوت کاابھرنالازم قرار پائے۔[7]

اورقرآن مجیدنے اسی تبرج سے منع کیاہے ،چنانچہ قدیم جاہلیت کے تبرج کے معنی میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام ومفسرمجاہد رحمہ اللہ کاقول نقل کیاہے

كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَخْرُجُ تَمْشِی بَیْنَ یَدَیِ الرِّجَالِ، فَذَلِكَ تَبَرُّجُ الْجَاهِلِیَّةِ

عورت اپنے گھرسے نکلتی اورمردوں کے آگے چلناشروع کردیتی تھی یہی جاہلیت کاتبرج ہے۔[8]

وَالتَّبَرُّجُ: أَنَّهَا تُلْقِی الْخِمَارَ عَلَى رَأْسِهَا، وَلَا تَشُدُّهُ فَیُوَارِی قَلَائِدَهَا وَقُرْطَهَا وَعُنُقَهَا، وَیَبْدُو ذَلِكَ كُلُّهُ مِنْهَا، وَذَلِكَ التَّبَرُّجُ

اورمقاتل بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ سج دھج ۔‘‘ کامطلب یہ ہے کہ عورت اپنے دوپٹے کوسرپرلٹکالے اوراپنے ہار،اپنے جھمکے اوراپنے گلے کونہ چھپائے بلکہ ان سب چیزوں کو نمایاں کر دے اوریہ ہی سج دھج تھا۔[9]

قال اللیث: ویقال تبرجت المرأة إذا أبدت محاسنها من وجهها وجسدها ویرى مع ذلك من عینها حسن نظر

امام لیث’’ سج دھج ۔‘‘ کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں عورت کااپنے چہرے اورجسم کے محاسن کوظاہر کرنا سج دھج ہے ،ساتھ ساتھ اس کی نگاہوں سے حسن نظریعنی اشتیاق جھلکتاہو۔[10]

وتَبَرَّجَتِ المرأَةُ: أَظهرت وَجْهَه

لسان العرب میں ہےعورت کااپنے چہرہ کوننگاکرناہی سج دھج ہے۔[11]

چنانچہ قرآن مجیدنےلفظ

 تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الأولَى

سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

سے واشگاف الفاظ میں بتلادیاکہ جہالت میں بے پردگی تھی اوراسلام میں پردہ ہے اور لغوی واصطلاح شریعت میں تَــبَرُّجَ کامعنی یہ سمجھ میں آیاکہ عورت اپنی زینت اور سنگھارکوجب غیرمحرموں کے سامنے کرکے آئے تووہ بے پردہ ہےچہ جائیکہ وہ گلے میں (دوپٹہ جوکہ زینت کوچھپانے کے لیے لیناتھا)جہالت وبے پردگی کاپھندابناکرگلی کوچوں اورسڑکوں بازاروں میں دندناتی پھرے ۔

چنانچہ فرمایااوراپنے گھروں میں جو تمہارے لئے زیادہ حفاظت اورسلامتی کامقام ہیں ٹک کررہواورامورخانہ داری سرانجام دو اور بغیرضروری حاجت کے گھرسے باہرنہ نکلو،

فَقَالَتْ:یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ قِصَّتُكُنَّ كُلُّهَا وَاحِدَةٌ أَحَلَّ اللهُ لَكُنَّ الزِّینَةَ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایااے عورتو!تم سب کامعاملہ ایک ہی ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زینت حلال کی ہے مگرتبرج کے بغیر۔[12]

وَلَقَدْ دَخَلْتَ نَیِّفًا عَلَى أَلْفِ قَرْیَةٍ مِنْ بَرِیَّةٍ، فَمَا رَأَیْت نِسَاءً أَصْوَنَ عِیَالًا، وَلَا أَعَفَّ نِسَاءً مِنْ نِسَاءِ نَابُلُسَ، الَّتِی رُمِیَ فِیهَا الْخَلِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ بِالنَّارِ، فَإِنِّی أَقَمْت فِیهَا أَشْهُرًا، فَمَا رَأَیْت امْرَأَةً فِی طَرِیقٍ، نَهَارًا، إلَّا یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُنَّ یَخْرُجْنَ إلَیْهَا حَتَّى یَمْتَلِئَ الْمَسْجِدُ مِنْهُنَّ، فَإِذَا قُضِیَتْ الصَّلَاةُ، وَانْقَلَبْنَ إلَى مَنَازِلِهِنَّ لَمْ تَقَعْ عَیْنِی عَلَى وَاحِدَةٍ مِنْهُمْ إلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى

ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے ایک ہزارسے زائدبستیوں میں جانے کاموقع ملاہے، میں نے نابلس کی عورتوں سے زیادہ اپنے بچوں اوراپنی عزت وآبروکی حفاظت کرنے والی عورتیں نہیں دیکھیں ،نابلس وہ شہرہے جس میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کوآگ میں ڈالاگیاتھا،میں نے نابلس میں کئی مہینے قیام کیامیں نے جمعہ کے دن کے علاوہ دن کے وقت کسی راستے پرکبھی کوئی عورت نہیں دیکھی،نابلس کی عورتیں جمعہ کے روزنکلاکرتی تھیں حتی کہ پوری مسجدان سے بھرجایاکرتی تھی،اورجب نماز ادا ہو جاتی تووہ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ آتیں اورپھراگلے جمعہ تک کوئی خاتون دکھائی نہ دیتی۔[13]

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، عَن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَرْأَة عَورَة وَإِنَّهَا ذَا خَرَجَتْ من بَیتهَا اسْتَشْرَفَهَا الشَّیْطَان وَإِنَّهَا لَا تكون أقرب إِلَى الله مِنْهَا فِی قَعْر بَیتهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورت پردے کانام ہے اورجب یہ اپنے گھرسے نکلتی ہے توشیطان اس کوجھانکتاہے (ورغلاتا ہے ) اور اللہ تعالیٰ کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے گھرکے اندرہو۔[14]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّیْطَانُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی مردکسی عورت کے ساتھ الگ ہوتوتیسراشیطان ہوتاہے۔[15]

لایفظ الْمَرْأَةُ الابیتھاأَوْ قَبْرِهَاأَوْ زَوْجُهَا

اورقدیم مقولہ ہےعورت کی حفاظت یاتوگھرکرسکتاہے یا قبر کر سکتی ہے یا خاوند کرسکتا ہے۔

عَنْ مَیْمُونَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، وَكَانَتْ خَادِمًا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلُ الرَّافِلَةِ فِی الزِّینَةِ، فِی غَیْرِ أَهْلِهَا، كَمَثَلِ الظُّلْمَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَا نُورَ لَهَا

میمونہ بنت سعدجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ تھیں کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ عورت جواپنی زینت میں نازسے اپنے اہل کے علاوہ چلتی ہے وہ اس تاریکی کی طرح ہے جوقیامت کوہوگی جس کانورنہیں ہوگا۔[16]

اور اگرکسی ضرورت سے نکلنابھی پڑے توجاہلیت کے دورکی طرح بناؤ سنگارکرکے ،خوشبولگاکربے پردہ جس سے تمہارا سر، بازواورچھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے باہرنہ گھومتی پھروبلکہ بغیرخوشبولگائے ، سادہ لباس میں ملبوس اورباپردہ باہرنکلو ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ، وَلَكِنْ لِیَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی بندیوں کواللہ کی مسجدوں (میں جانے)سے منع نہ کرولیکن انہیں زیب وزینت کے بغیرنکلناچاہیے۔[17]

مُوسَى بْنُ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ أَبِی أُذَیْنَةَ الصَّدَفِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَشَرُّ نِسَائِكُمُ الْمُتَبَرِّجَاتُ

موسی بن علی بن رباح کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری سب سے بدترین عورت وہ ہے جوبے پردہ گھومتی پھرتی ہیں ۔[18]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا كَانَتْ إِذَا قَرَأَتْ هَذِهِ الْآیَةَ تَبْكِی حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا،وَذَكَرَ أَنَّ سَوْدَةَ قِیلَ لَهَا: لِمَ لَا تَحُجِّینَ وَلَا تَعْتَمِرِینَ كما یفعل أَخَوَاتُكِ؟ فَقَالَتْ: قَدْ حَجَجْتُ وَاعْتَمَرْتُ، وَأَمَرَنِی اللهُ أَنْ أَقِرَّ فِی بَیْتِی، قَالَ الرَّاوِی: فَوَاللهِ مَا خَرَجَتْ مِنْ بَابِ حُجْرَتِهَا حَتَّى أُخْرِجَتْ جِنَازَتُهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب آیت’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ پڑھتیں تواس قدرروتیں کہ ان کادوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا ،ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے پوچھااے عائشہ رضی اللہ عنہا !تواپنی دوسری بہنوں کی طرح حج وعمرہ کیوں نہیں کرتی؟توجواب دیاکہ میں نے حج وعمرہ کر لیا ہے اوراللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں اپنے گھرمیں ٹھیری رہوں ،راوی حدیث کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم!عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے کے دروازے سے باہرنہ نکلتی تھیں حتی کہ ان کے جنازے نے ہی ان کوباہرنکالا۔[19]

اورنیکی اختیارکرنے کے متعلق فرمایاکہ اللہ کی یادکے لئے فرض نماز اور نوافل کا اہتمام کرو،اپنے مالوں سے مستحقین کوزکواة کے علاوہ بھی صدقہ وخیرات کیاکرو اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی بلاچوں وچرا تعمیل کرو،اے اہل البیت !اللہ نے تمہیں جن چیزوں کاحکم دیااورجن سے روکاہے اس کامقصد صرف یہ ہے کہ وہ تم سے گندگی،شراورناپاکی کودورکردے اورتمہیں خوب پاک کردےاورتمہارے گھروں میں جواللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کویادرکھواوران پرعمل کرو،بیشک اللہ تعالیٰ باریک بین اورخبردارہے۔

أَفِی هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَیَّ، فَإِنِّی أُرِیدُ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ،( أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَا تُخْبِرْ نِسَاءَكَ أَنِّی اخْتَرْتُكَ، فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ أَرْسَلَنِی مُبَلِّغًا، وَلَمْ یُرْسِلْنِی مُتَعَنِّتًا)ثُمَّ خَیَّرَ نِسَاءَهُ كُلَّهُنَّ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ

یہ آیات مبارکہ سننے کے بعد ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فورا ًکہاکیا میں اس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟میں تواللہ اوراس کے رسول اوردارآخرت کواختیارکرتی ہوں ،اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول آپ یہ بات کسی اوربیوی کونہ بتائیں کہ میں نے آپ کواختیارکرلیاہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے ضرور بتاؤں گاکیونکہ اللہ نے مجھے مبلغ ،معلم اورآسانی پہنچانے والابناکربھیجاہے ،اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی اورتنگی میں ڈالنے والا بنا کر نہیں بھیجا ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرنے کے بعدآپ نے دوسری بیویوں ( ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ، حفصہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا ) کوبھی اختیاردیااورسب ازواج نے وہی جواب دیاجوعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیاتھایعنی کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کردنیاکے عیش وآرام کوترجیح نہیں دی۔[20]

خط کشیدہ عبارتیں صرف صحیح مسلم میں ہیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَیَّرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، فَلَمْ یَعُدَّهَا عَلَیْنَا شَیْئًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیاردے دیاتھامگرہم نے آپ ہی کاانتخاب کیاتوآپ نے اسے کوئی چیز(طلاق وغیرہ)شمارنہیں کی۔[21]

إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِینَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِینَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِینَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِینَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِینَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِینَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٣٥﴾‏(الاحزاب)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ،صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ،(ان سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الأَنْصَارِیَّةِ، أَنَّهَا أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: مَا أَرَى كُلَّ شَیْءٍ إِلاَّ لِلرِّجَالِ وَمَا أَرَى النِّسَاءَ یُذْكَرْنَ بِشَیْءٍ؟ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةَ {إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالمُسْلِمَاتِ وَالمُؤْمِنِینَ وَالمُؤْمِنَاتِ} الآیَةَ.

ام عمارہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہاکہ کیابات ہے اللہ تعالیٰ ہرجگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتاہے عورتوں سے نہیں ،جس پریہ آیت’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی۔[22]

أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَنَا لَا نُذْكَرُ فِی الْقُرْآنِ كَمَا یُذْكَرُ الرِّجَالُ؟ قَالَتْ: فَلَمْ یَرُعْنِی مِنْهُ یَوْمَئِذٍ إِلَّا وَنِدَاؤُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَتْ: وَأَنَا أُسَرِّحُ شَعْرِی، فَلَفَفْتُ شَعْرِی، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى حُجْرَةٍ مِنْ حُجَرِ بَیْتِی، فَجَعَلْتُ سَمْعِی عِنْدَ الْجَرِیدِ، فَإِذَا هُوَ یَقُولُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ یَقُولُ فِی كِتَابِهِ: {إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}،[23] ، إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، {أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا} ،[24]

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےوہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کیابات ہے ہماراقرآن مجیدمیں اس طرح ز کرنہیں ہوتاجس طرح مردوں کاذکرہوتاہے؟ ایک دن اچانک میں نے یہ دیکھاکہ آپ منبرپراعلان فرمارہے تھے میں اس وقت اپنے بالوں میں کنگھی کررہی تھی،میں نے اپنے بال سمیٹےاوراپنے گھرکے حجرے کی طرف نکلی،اورمیں نے آپ کے اعلان کوسننے کے لیے کان لگادیے،آپ منبرکے پاس فرمارہے تھے لوگو!بے شک اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے’’ بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۔‘‘ [25]

ازواج مطہرات کے ذکر کے بعددوسری عورتوں کے بارے میں فرمایاکہ یہ انعامات صرف ام المومنین کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان مسلمان مروو عورتیں کے لئے بھی مغفرت اوراجرعظیم تیارکررکھاہے جوظاہری طورپرنہیں بلکہ خلوص نیت سے اسلام کی رہنمائی کوحق مانتے ہیں اورعملاًاطاعت کرتے ہیں ،جواپنے کردارو گفتار اور معاملات میں سچے ہیں ،کیونکہ سچ بولناایمان کی کی اورجھوٹ بولنانفاق کی نشانی ہے ،جس شخص نے سچ بولاوہ نجات پاگیا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَلَیْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِی إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَهْدِی إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى یُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّیقًا، وَإِیَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ یَهْدِی إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ یَهْدِی إِلَى النَّارِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَكْذِبُ وَیَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى یُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسچ کواختیارکروبے شک سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتاہےاورنیکی جنت میں لے جاتی ہے،اورآدمی ہمیشہ سچ بولتارہتاہے اورسچ تلاش کرتارہتاہے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے بہت سچالکھ دیاجاتاہے،اورجھوٹ سے اجتناب کرو،بے شک جھوٹ برائی کی طرف رہنمائی کرتاہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے،اورآدمی ہمیشہ جھوٹ بولتارہتاہے اورجھوٹ کوتلاش کرتارہتاہے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے بہت جھوٹالکھ دیاجاتاہے۔[26]

اوراس راستے پریعنی صراط مستقیم پرچلنے میں اوراللہ کے کلمہ کو سر بلندکرنے میں انہیں جومصائب وآلام اور نقصانات وخطرات پیش آتے ہیں اسے صبر اور پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ،جوتکبراوراستکباراورغرورنفس میں مبتلاہونے کے بجائے عاجزی اختیار کرتے ہیں ،جواپنے مالوں سے فرض زکواة کے علاوہ بھی حداستطاعت تک مستحقین کے لئے صدقہ وخیرات کرتے رہتے ہیں ،

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أُعِیذُكَ بِاللَّهِ یَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ مِنْ أُمَرَاءَ یَكُونُونَ مِنْ بَعْدِی، فَمَنْ غَشِیَ أَبْوَابَهُمْ فَصَدَّقَهُمْ فِی كَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلاَ یَرِدُ عَلَیَّ الحَوْضَ، وَمَنْ غَشِیَ أَبْوَابَهُمْ أَوْ لَمْ یَغْشَ وَلَمْ یُصَدِّقْهُمْ فِی كَذِبِهِمْ، وَلَمْ یُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْهُ، وَسَیَرِدُ عَلَیَّ الحَوْضَ، یَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ الصَّلاَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ حَصِینَةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِیئَةَ كَمَا یُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، یَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ، إِنَّهُ لاَ یَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلاَّ كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ.

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے کعب بن عجرہ !میں تجھے ان امراء سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں جو میرے بعد ہوں گے، جو شخص ان کے دروازوں پر آکر ان کے جھوٹ کو سچ اور ان کے ظلم میں ان کی اعانت کرے گااس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ،اور وہ حوض پر نہ آسکے گااور جو ان کے دروازوں کے قریب آئے یا نہ آئے لیکن نہ تو اس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی،اور نہ ہی ظلم پر انکا مددگار ہواوہ مجھ سے اور میں اس سے وابستہ ہوں ،ایسا شخص میرے حوض پر آسکے گا ،اے کعب بن عجرہ نماز دلیل وحجت اور روزہ مضبوط ڈھال ہےاور صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے کہ پانی آگ کو،اے کعب بن عجرہ کوئی گوشت ایسا نہیں جو حرام مال سے پرورش پاتا ہو اور آگ کا حقدار نہ ہو۔[27]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى فِی ظِلِّهِ یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَدْلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِی عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِی اللَّهِ، اجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ یَمِینُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِیًا، فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن کہ سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا، حاکم عادل ،اور وہ نوجوان جواللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہواہو،اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو،اور وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لئے دوستی کریں جب جمع ہوں تو اسی کے لئے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لئے،اور وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لئے نہیں آسکتا، اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا، اور وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں ۔[28]

بعض احادیث میں اوربھی ایسے اعمال صالحہ کاذکرآیاہےجن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا،بعض علمانے اس موضوع پرمستقل رسالے تحریرفرمائے ہیں اوران جملہ اعمال صالحہ کاذکرکیاہے جوقیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کاذریعہ بن سکیں گے ،بعض نے اس فہرست کوچالیس تک بھی پہنچادیاہے۔صدقہ صرف مال ودولت سے ہی نہیں ہوتابلکہ اوربھی کئی طرح سے صدقہ ہوتاہے، دوسروں کونقصان پہنچانے سے بچناصدقہ ہے،

 عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِیمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِی سَبِیلِهِ، قُلْتُ: فَأَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:أَعْلاَهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ:تُعِینُ ضَایِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ،: قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ:تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ

ابوذر رضی اللہ عنہ غفاری سے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا عمل افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ،میں نے پوچھا کس قسم کا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بہت زیادہ بیش قیمت ہو اور اس کے مالکوں کو بہت پسند ہو،میں نے پوچھا اگر میں یہ نہ کر سکوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کاریگر کی مدد کرو یا کسی بےہنر کے لئے کام کر دو،انہوں نے پوچھا اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھ (یعنی ان کے ساتھ برائی کرنے سے باز آ) اس لئے کہ وہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے آپ پر کرتا ہے۔[29]

اندھے کوراستہ بتاناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ مِنْ نَفْسِ ابْنِ آدَمَ إِلَّا عَلَیْهَا صَدَقَةٌ فِی كُلِّ یَوْمٍ طَلَعَتْ فِیهِ الشَّمْسُ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِنْ أَیْنَ لَنَا صَدَقَةٌ نَتَصَدَّقُ بِهَا؟، فَقَالَ:إِنَّ أَبْوَابَ الْخَیْرِ لَكَثِیرَةٌ: التَّسْبِیحُ، وَالتَّحْمِیدُ، وَالتَّكْبِیرُ، وَالتَّهْلِیلُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَتُمِیطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِیقِ، وَتُسْمِعُ الْأَصَمَّ، وَتَهْدِی الْأَعْمَى، وَتُدِلُّ الْمُسْتَدِلَّ عَلَى حَاجَتِهِ، وَتَسْعَى بِشِدَّةِ سَاقَیْكَ مَعَ اللَّهْفَانِ الْمُسْتَغِیثِ، وَتَحْمِلُ بِشِدَّةِ ذِرَاعَیْكَ مَعَ الضَّعِیفِ، فَهَذَا كُلُّهُ صَدَقَةٌ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ

ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرروزجب آفتاب نکلتاہےابن آدم کے ہرہر جوڑ پرصدقہ واجب ہوتاہے،لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم (غریب اورمفلس لوگ )کیسے صدقہ اداکریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماصدقہ کے بہت سے طریقے ہیں ،سبحان اللہ کہنا،الحمداللہ کہنا،اللہ اکبرکہنااورلاالٰہ الااللہ کہنا،نیکی کاحکم دینااوربرائی سے روکنااور راستے سے تکلیف دہ چیزوں کوہٹادینااور بہرے کواس طرح بتاناکہ وہ سمجھ سکے اوراندھے کوصحیح راستہ پرلگادینااور حاجت مند آدمی کی مددکرنا اورمددکے لیے پکارنے والے کی دوڑ کر مددکرنا،اوربوڑھے کی مقدروبھرمددکرنا،یہ تمام صدقہ ہیں جوتواپنے نفس پرکرتاہے۔[30]

اپنے ڈول سے کسی بھائی کوپانی دیناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَبَسُّمُکَ فِی وَجْهِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَةٌ وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْیُکَ عَنْ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِی أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَةٌ وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِیئِ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَةٌ وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنْ الطَّرِیقِ لَکَ صَدَقَةٌ ،وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِی دَلْوِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَةٌ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا ،نیکی کا حکم دینا اور بڑائی سے روکنا سب صدقہ ہے، پھر کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتانا، نابینے کے ساتھ چلنا، راستے سے پتھر، کانٹا، یا ہڈی وغیرہ ہٹا دینا اور اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔[31]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ وَمِنْ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِی إِنَائِهِ

اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہرنیکی صدقہ ہے اور یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے مل لو یا اس کے برتن میں اپنے ڈول سے کچھ پا نی ڈال دو۔[32]

اللہ کاذکرناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:یُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِیحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِیدَةٍ صَدَقَةٌ،وَكُلُّ تَهْلِیلَةٍ صَدَقَةٌ ، وَكُلُّ تَكْبِیرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌوَنَهْیٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَیُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ یَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى

ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب آدمی پرصبح ہوتی ہے تواس کے ہرجوڑپرایک صدقہ واجب ہوتاہے، پھرہربارسبحان اللہ کہناایک صدقہ ہےاورہربارالحمداللہ کہناایک صدقہ ہے ،اورہربارلاالٰہ الااللہ کہناایک صدقہ ہے،اور ہرباراللہ اکبرکہناصدقہ ہے،اوراچھی بات کاحکم کرناایک صدقہ ہےاوربری بات سے روکناایک صدقہ ہے،اورچاشت کی دورکعتیں ان سب سے کافی ہوجاتی ہے جس کووہ پڑھ لیتاہے۔[33]

ثواب کی نیت سے اپنے گھروالوں پرخرچ کرناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍعَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ یَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل وعیال پرخرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔[34]

کسی آدمی کوسواری پربیٹھانایااس کاسامان اٹھاکرسواری پررکھواناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کُلُّ سُلَامَی مِنْ النَّاسِ عَلَیْهِ صَدَقَةٌ کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیهِ الشَّمْسُ یَعْدِلُ بَیْنَ الِاثْنَیْنِ صَدَقَةٌ وَیُعِینُ الرَّجُلَ عَلَی دَابَّتِهِ فَیَحْمِلُ عَلَیْهَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ وَالْکَلِمَةُ الطَّیِّبَةُ صَدَقَةٌ وَکُلُّ خُطْوَةٍ یَخْطُوهَا إِلَی الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ وَیُمِیطُ الْأَذَی عَنْ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کے بدن کے جوڑ پر طلوع آفتاب کے ساتھ ایک صدقہ واجب ہوجاتا ہے دو آدمیوں میں انصاف و عدل کرا دینا صدقہ ہے کسی آدمی کو اس کے سوار ہونے میں مدد دینا یا اس کی سواری پر اس کا مال و اسباب لاد دینا صدقہ ہے کسی سے اچھی بات کہنا صدقہ ہے اور ہر وہ قدم جو نماز کے لئے اٹھے صدقہ ہے اور تکلیف دینے والی چیز کو راستہ سے ہٹا دینا صدقہ ہے۔[35]

خودکھانا،اپنے بیٹے کوکھلانا کھلانااپنے خادم کوکھلاناصدقہ ہے۔

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ ،وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ زَوْجَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ خَادِمَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم جو اپنے آپ کو کھلا دو وہ صدقہ ہے، جو اپنے بچوں کو کھلا دو وہ بھی صدقہ ہے،جو اپنی بیوی کو کھلا دو وہ بھی صدقہ ہے اور جو اپنے خادم کو کھلا دووہ بھی صدقہ ہے۔[36]

کسی مصیبت زدہ حاجت مندکی مددکرناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ قِیلَ أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَجِدْ،قَالَ یَعْتَمِلُ بِیَدَیْهِ فَیَنْفَعُ نَفْسَهُ وَیَتَصَدَّقُ، قَالَ قِیلَ أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ، قَالَ یُعِینُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ، قَالَ قِیلَ لَهُ أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ، قَالَ یَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ أَوْ الْخَیْرِ قَالَ أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَفْعَلْ، قَالَ یُمْسِکُ عَنْ الشَّرِّ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ

ابوموسی سے روایت ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے عرض کیا گیا اگر یہ نہ ہو سکے تو کیا حکم ہے؟ فرمایا اپنے ہاتھوں سے کمائے اور اپنے آپ کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے،عرض کیا اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا حکم ہے؟ فرمایا ضرورت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا اگر یہ بھی نہ ہو سکے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی کا حکم کرے، عرض کیااور یہ بھی نہ کر سکے تو آپ کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا برائی سے رک جائے اس کے لئے یہ بھی صدقہ ہے۔[37]

اپنے بھائی سے مسکراکرملناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَبَسُّمُكَ فِی وَجْهِ أَخِیكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالمَعْرُوفِ وَنَهْیُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِی أَرْضِ الضَّلاَلِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِیءِ البَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُكَ الحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالعَظْمَ عَنِ الطَّرِیقِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِی دَلْوِ أَخِیكَ لَكَ صَدَقَةٌ

ابوزرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا نیکی کا حکم دینا اور بڑائی سے روکنا سب صدقہ ہے پھر کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتانا نابینے کے ساتھ چلنا، راستے سے پتھر، کانٹا، یا ہڈی وغیرہ ہٹا دینا اور اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔[38]

اپنے بھائی کاقرض اتارناصدقہ ہے۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ، قَالَ: مَاتَ أَخِی وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِینَارٍ، وَتَرَكَ وَلَدًا صِغَارًا فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَ عَلَیْهِمْ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَخَاكَ مَحْبُوسٌ بِدَیْنِهِ فَاذْهَبْ، فَاقْضِ عَنْهُ، قَالَ: فَذَهَبْتُ، فَقَضَیْتُ عَنْهُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ قَضَیْتُ عَنْهُ، وَلَمْ یَبْقَ إِلَّا امْرَأَةً تَدَّعِی دِینَارَیْنِ، وَلَیْسَتْ لَهَا بَیِّنَةٌ،قَالَ:أَعْطِهَا، فَإِنَّهَا صَادِقَةٌ

سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیرا ایک بھائی فوت ہوگیا، اس نے تین سو دینار ترکے میں چھوڑے اور چھوٹے بچے چھوڑے،میں نے ان پر کچھ خرچ کرنا چاہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا بھائی مقروض ہو کر فوت ہوا ہے لہذا جا کر پہلے ان کا قرض ادا کرو، چنانچہ میں نے جا کر اس کا قرض ادا کیا اور حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے بھائی کا سارا قرض ادا کر دیا ہے اور سوائے ایک عورت کے کوئی قرض خواہ نہیں بچا، وہ دو دیناروں کی مدعی ہے لیکن اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سچا سمجھو اور اس کا قرض بھی ادا کرویہ بھی صدقہ ہے ۔[39]

ملنے والے کوسلام کرناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنَ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ، تَسْلِیمُهُ عَلَى مَنْ لَقِیَ صَدَقَةٌ،وَأَمْرُهُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْیُهُ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُهُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ، وَبُضْعَتُهُ أَهْلَهُ صَدَقَةٌ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ یَأْتِی شَهْوَةً، وَتَكُونُ لَهُ صَدَقَةٌ؟ قَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْ وَضَعَهَا فِی غَیْرِ حَقِّهَا أَكَانَ یَأْثَمُ؟قَالَ: وَیُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ رَكْعَتَانِ مِنَ الضُّحَى

ابوذر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ابن آدم کے جسم کے ہرجوڑ پر صبح ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، پس ہر ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے ،اسے نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اسے برائی سے روکنا صدقہ ہےاورراستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے،اپنی بیوی سے جماع کرنا صدقہ ہے،صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو اپنی شہوت پوری کرتا ہے اور یہ شہوت کی تکمیل اس کے لئے صدقہ ہوگی؟آپ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ یہ شہوت غلط مقام میں پوری کرتا تو گناہ گار ہوتا؟ اور فرمایا کہ ان سب صدقات کو چاشت کی دو رکعات کافی ہیں ۔[40]

دوآدمیوں کے درمیان عدل کرناصدقہ ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ أَحَادِیثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کُلُّ سُلَامَی مِنْ النَّاسِ عَلَیْهِ صَدَقَةٌ کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیهِ الشَّمْسُ ، قَالَ تَعْدِلُ بَیْنَ الِاثْنَیْنِ صَدَقَةٌ، وَتُعِینُ الرَّجُلَ فِی دَابَّتِهِ فَتَحْمِلُهُ عَلَیْهَا أَوْ تَرْفَعُ لَهُ عَلَیْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ ، قَالَ وَالْکَلِمَةُ الطَّیِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ خُطْوَةٍ تَمْشِیهَا إِلَی الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، وَتُمِیطُ الْأَذَی عَنْ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ہر آدمی کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے، فرمایا دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہےاورآدمی کو اس کی سواری پر سوار کرنا یا اس کا سامان اٹھانا یا اس کے سامان کو سواری سے اتارنا صدقہ ہے، اور پاکیزہ بات کرنا صدقہ ہےاور نماز کی طرف چل کر جانے میں ہر قدم صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔[41]

تمہارے درخت یافصل سے جوکچھ کھائے وہ تمہارے لیے صدقہ ہے۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا کَانَ مَا أُکِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ وَمَا أَکَلَتْ الطَّیْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ وَلَا یَرْزَؤُهُ أَحَدٌ إِلَّا کَانَ لَهُ صَدَقَةٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مسلمان نے کوئی پودا لگایا تو اس درخت سے جو کھایا گیا وہ اس کے لئے صدقہ ہے جو اس سے چوری کیا گیا وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے اور جو درندوں نے کھایا وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے اورجوپرندے کھاجائیں اس میں بھی صدقہ کاثواب ملے گااور کوئی اسے کم نہیں کرے گا مگر وہ اس پودا لگانے والے کے لئے صدقہ کا ثواب ہوگا۔[42]

پانی پلاناصدقہ ہے۔

عَنْ سَعِیدٍ،أَنَّ سَعْدًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَیُّ الصَّدَقَةِ أَعْجَبُ إِلَیْکَ قَالَ الْمَائُ

سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا پانی پلانا۔[43]

علم سیکھ کرمسلمان بھائی کوسکھاناصدقہ ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ یَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان شخص علم حاصل کر کے اپنے مسلمان بھائی کو سکھا دے (یعنی پہلے خود علم حاصل کرے چاہے ایک حدیث مبارکہ کا ہی ہو اور اس کو دیگر لوگوں تک پہنچا دے، یہ علم کا پہنچانا بھی صدقہ جاریہ ہے)۔[44]

حكم الألبانی:ضعیف

 صدقہ کے فضائل ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إن الصَّدَقَةَ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مَیْتَةَ السُّوءِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو بجھاتا اور بری موت کو دور کرتا ہے۔[45]

عَنْ عَمْرِو بْنِ مُعَاذٍ الْأَشْهَلِیِّ الْأَنْصَارِیِّ، عَنْ جَدَّتِهِ ؛عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مِسْكِینًا سَأَلَهَا وَهِیَ صَائِمَةٌ وَلَیْسَ فِی بَیْتِهَا إِلَّا رَغِیفٌ ،فَقَالَتْ لِمَوْلَاةٍ لَهَا أَعْطِیهِ إِیَّاهُ، فَقَالَتْ لَیْسَ لَكِ مَا تُفْطِرِینَ عَلَیْهِ، فَقَالَتْ أَعْطِیهِ إِیَّاهُ،قَالَتْ فَفَعَلْتُ، قَالَتْ فَلَمَّا أَمْسَیْنَا أَهْدَى لَنَا أَهْلُ بَیْتٍ أَوْ إِنْسَانٌ مَا كَانَ یُهْدِی لَنَا شَاةً وَكَفَنَهَا فَدَعَتْنِی عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ فَقَالَتْ كُلِی مِنْ هَذَا هَذَا خَیْرٌ مِنْ قُرْصِكِ، و حَدَّثَنِی عَنْ مَالِك قَالَ بَلَغَنِی أَنَّ مِسْكِینًا اسْتَطْعَمَ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ وَبَیْنَ یَدَیْهَا عِنَبٌ فَقَالَتْ لِإِنْسَانٍ خُذْ حَبَّةً فَأَعْطِهِ إِیَّاهَا فَجَعَلَ یَنْظُرُ إِلَیْهَا وَیَعْجَبُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ أَتَعْجَبُ كَمْ تَرَى فِی هَذِهِ الْحَبَّةِ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ

عمرو بن معاذ اشہلی انصاری سے مروی ہےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فقیر آیا مانگتا ہوا اور آپ روزہ دار تھیں اور گھر میں سوائے ایک روٹی کے کچھ نہ تھا، آپ نے اپنی لونڈی سے کہا یہ روٹی فقیر کو دیدے، وہ بولی آپ کے افطار کے لئے کچھ نہیں ہے، آپ نے کہا دیدے،لونڈی نے وہ روٹی فقیر کے حوالے کردی، شام کو ایک گھر سے بکری کےگوشت کا پکا ہواحصہ آیا، عائشہ نے لونڈی کو بلا کر کہا کھا یہ تیری روٹی سے بہتر ہے، امام مالک نے کہا کہ ایک مسکین نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےسوال کیااور ان کے سامنے انگور رکھے تھے، انہوں نے ایک آدمی سے کہا ایک دانا انگور کا اٹھا کر اس کو دے، وہ شخص تعجب سے دیکھنے لگا، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہاتم تعجب کرتے ہو ایک دانہ کئی ذروں کے برابر ہے اور ایک ذرے کا ثواب بھی ضائع نہ ہوگا۔ [46]

جوفرض روزوں کے علاوہ اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے کثرت سے نفلی روزے رکھتے ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِكُلِّ شَیْءٍ زَكَاةٌ وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرچیزکی زکوٰة ہےاورجسم کی زکوٰة روزہ ہے۔[47]

عَن سعید بن جُبَیر رَضِی الله عَنهُ فِی قَوْله {وَالصَّاۗىِٕـمِیْنَ وَالصّٰۗىِٕمٰتِ}قَالَ: من صَامَ شهر رَمَضَان وَثَلَاثَة أَیَّام من كل شهر فَهُوَ من أهل هَذِه الْآیَة

سعیدبن جبیرنے آیت ’’ روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں ۔‘‘کے بارے میں کہاہے جوشخص رمضان کے اورہرمہینے کے تین روزے رکھ لے وہ روزے داروں میں داخل ہوجاتاہے۔[48]

جوبرہنگی وعریانی اور زنا کاری سے اجتناب کرتے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝۲۹ۙاِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۝۳۰ۚفَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۝۳۱ۚ [49]

ترجمہ:جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی بیویوں کے یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ،البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔

وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝۵ۙاِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۝۶ۚفَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۝۷ۚ [50]

ترجمہ:اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر(محفوظ رکھنے میں ) وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں ۔

جواپنی فرصت ومشغولیت، کھانے پینے ،سونے واٹھنے ،خوشی ورنج ،مشکلات ومصائب ،تنگی وترشی کے دوران اللہ کی یادسے غافل نہیں ہوتے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا اسْتَیْقَظَ الرَّجُلُ مِنَ اللیْلِ وَأَیْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَصَلَّیَا رَكْعَتَیْنِ، كُتِبَا مِنَ الذَّاكِرِینَ اللهَ كَثِیرًا وَالذَّاكِرَاتِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی شخص رات کوبیدارہوجائے اوراپنی بیوی کوبیدارکرے اور دونوں (اس رات)دو(دو)رکعت نمازپڑھ لیں تووہ اللہ تعالیٰ کاکثرت سے ذکرکرنے والے مردوں اورعورتوں میں لکھ دیے جاتے ہیں ۔[51]

اللہ نے ان کے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کوبخش دیااوران کے لئے بھی اجرعظیم(یعنی جنت کو) تیارکررکھاہے،جس میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کوکسی آنکھ نے نہیں دیکھا،نہ کسی کان نے سناہے اورنہ کسی انسان کے دل میں اس کاخیال ہی گزراہے(اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انعام پانے والے لوگوں میں شامل کرے۔آمین)یعنی عبادت واطاعت الٰہی اوراخروی درجات وفضائل میں مردوعورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔

ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش رضی اللہ عنہ سے نکاح(ذی القعدہ یاذی الحجہ۵ہجری)

غزوہ احداورغزوہ احزاب کے درمیان دوسال کایہ زمانہ اگرچہ ہنگاموں کازمانہ تھاجن کی بدولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوایک دن کے لئے بھی امن اوراطمینان نصیب نہ ہواتھالیکن اس پوری مدت میں مسلم معاشرے کی تعمیراورہرپہلوزندگی کی اصلاح کاکام برابرجاری وساری رہا،یہی زمانہ تھاجس میں مسلمانوں کے قوانین نکاح وطلاق کے احکام وقوانین قریب قریب مکمل ہوگئے ،قانون میراث کی تفصیلات بیان کی گئیں ،شراب اورجوئے کی حرمت اورمعیشت ومعاشرت کے دوسرے بہت سے پہلوں میں معاشرتی اصلاحات ہوچکی تھیں مگراس سلسلے کاایک اہم مسئلہ جواصلاح کاتقاضاکررہاتھاوہ گودلینے یابیٹا(متبنیٰ)بنانے کامسئلہ تھا،اہل عرب جب کسی بچے کومتبنیٰ بنالیتے تھے تووہ بالکل ان کی حقیقی اولادکی طرح سمجھاجاتاتھااورحقیقی بیٹے جیساسلوک کیاجاتاتھا،مثلاًوہ بچہ وراثت کاحقداربنتا ،اس سے منہ بولی ماں اورمنہ بولی بہنیں وہی خلا ملا رکھتی تھیں جوحقیقی بیٹے اوربھائی سے رکھاجاتاہے،اس کے ساتھ منہ بولے باپ کی بیٹیوں کااوراس باپ کے مرجانے کے بعداس کی بیوہ کانکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھاجس طرح سگی بہن اورحقیقی ماں کے ساتھ کسی کانکاح حرام ہوتاہے اوریہی معاملہ اس صورت میں بھی کیاجاتاتھاجب منہ بولابیٹامرجائے یااپنی بیوی کوطلاق دے دے،منہ بولے باپ کے لئے وہ عورت سگی بہوکی طرح سمجھی جاتی تھی ،یہ رسم قدم قدم پرنکاح اورطلاق اوروراثت کے ان قوانین سے ٹکراتی تھی جواللہ تعالیٰ نے سورۂ البقرة اورسورہ النساء میں مقرر فرمائے تھے ،ان کی روسے جولوگ حقیقت میں وراثت کے حقدارتھے ،یہ رسم ان کاحق مارکرایک ایسے شخص کودلواتی تھی جوسرے سے کوئی حق ہی نہیں رکھتاتھا،ان کی رو سے جن عورتوں اورمردوں کے درمیان رشتہ نکاح حلال تھایہ رسم ان کے باہمی نکاح کوحرام کرتی تھی ،اورسب سے زیادہ یہ کہ اسلامی قانون جن بداخلاقیوں کا سدباب کرنا چاہتا تھا یہ رسم ان کے پھیلنے میں مددگارتھی ،کیونکہ رسم کے طورپرمنہ بولے رشتے میں خواہ کتناہی تقدس پیداکردیاجائے بہرحال منہ بولی ماں ، منہ بولی بہن اورمنہ بولی بیٹی حقیقی ماں بہن اوربیٹی کی طرح نہیں ہوسکتی ،ان مصنوعی رشتوں کی رسمی تقدس پربھروسہ کرکے مردوں اورعورتوں کے درمیان جب حقیقی رشتہ داروں کا سا خلاملا ہو تو برے نتائج پیدکیے بغیرنہیں رہ سکتا،ان وجوہ سے اسلامی قانون نکاح وطلاق،قانون وراثت اورقانون حرمت زناکایہ تقاضاتھاکہ متبنیٰ کوحقیقی اولادکی طرح سمجھنے کے تخیل کا قطعی استیصال کردیاجائے ،لیکن یہ تخیل محض ایک قانونی حکم کے طورپراتنی سی بات کہہ دینے سے ختم نہیں ہوسکتاتھاکہ منہ بولارشتہ کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے ، صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات اورادہام محض اقوال سے نہیں بدل جائے ،حکماًلوگ اس بات کومان بھی لیتے کہ یہ رشتے حقیقی رشتے نہیں ہیں پھربھی منہ بولی ماں اورمنہ بولے بیٹے کے درمیان منہ بولے بھائی اوربہن کے درمیان ،منہ بولے باپ اوربیٹی کے درمیان ،منہ بولے خسر اور بہوکے درمیان نکاح کولوگ مکروہ ہی سمجھتے ،نیزان کے درمیان خلاملابھی کچھ باقی رہ جاتا، اس لئے ناگزیرتھاکہ یہ رسم عملا توڑی جائے اورخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کوتوڑیں کیونکہ جوکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکیاہواوراللہ کے حکم سے کیا ہواس کے متعلق کسی مسلمان کے ذہن میں کراہت کاتصورباقی نہ رہ سکتاتھا،اسی بناپرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوغزوہ احزاب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاراحکامات جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بھی بطورخاص عمل پیراتھے مگران کی اہمیت کے پیش نظران کودہرایاگیاتاکہ امت کے افرادان کی عظمت کوجان لیں کا اشارہ کرکے چندمعاشرتی رسوم کی اصلاح کے لئے حکم دیا گیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِینَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿١﴾‏ وَاتَّبِعْ مَا یُوحَىٰ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ‎﴿٢﴾‏ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِیلًا ‎﴿٣﴾‏(الاحزاب)
اے نبی ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے ،جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں ، (یقین مانو)کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے، آپ اللہ ہی پر توکل رکھیں ، وہ کارسازی کے لیے کافی ہے ۔

x جیسے اب تک آپ کامعمول رہاہے اسی طرح تقویٰ پرمداومت اورتبلیغ ودعوت میں استقامت رکھیں ۔

x کافروں ومنافقین جوخواہ کتنابڑاجتھابنالیں کا بعض معاملات میں اپنی طرف جھکانے کے لئے عیارانہ مشورہ دیں جوتقویٰ کے متناقض ہیں پرکاربندہرگزنہ ہونا ۔

x جوآپ پروحی خفی یاوحی غیرمتلو (قرآن وسنت)کی گئی ہے اس کی اتباع کریں ۔

x تمام معاملات اوراحوال کواللہ کے سپردفرمادیں اوراسی پر بھروسہ کریں ،اوروہی تنہاذات ہی بھروسہ کرنے کے لائق ہے وہی نفع یانقصان کامالک ہے ،اسی کے ہاتھ میں رزق ہے

۔۔۔ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۲۷ [52]

ترجمہ: اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے ۔

۔۔۔وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۔۔۔۝۲۶ [53]

ترجمہ:وہ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے ۔

۔۔۔ مَنْ یَّشَاِ اللهُ یُضْلِلْهُ۝۰ۭ وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۳۹ [54]

ترجمہ:اللہ جس کوچاہتاہے گمراہ کردیتاہے اورجس کوچاہتاہے راہ ہدایت نصیب فرمادیتاہے۔

۔۔۔قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللهِ۝۰ۚ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۷۳ۚۙ [55]

ترجمہ:فضل و شرف اللہ کے اِختیار میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ۔

۔۔۔وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَاۗءُ ۔۔۔  [56]

ترجمہ:اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ۔

یُؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَاۗءُ ۔۔۔۝۲۶۹ [57]

وہ جس کوچاہتاہے حکمت اوردانائی فرمادیتاہے۔

اوراس سے تمہاری کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی ۔

مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِی تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ یَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ یَهْدِی السَّبِیلَ ‎﴿٤﴾‏ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّینِ وَمَوَالِیكُمْ ۚ وَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا ‎﴿٥﴾(الاحزاب)
کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے، اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا، یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے، لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے، پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو، اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔

قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَیْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِهِ}،[58] مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا یُصَلِّی، قَالَ: فَخَطَرَ خَطْرَةً، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِینَ یُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلَا تَرَوْنَ لَهُ قَلْبَیْنِ، قَالَ: قَلْبًا مَعَكُمْ، وَقَلَبًا مَعَهُمْ؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ ’’اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘کے بارے میں مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکچھ خطرہ محسوس ہوا،اس پرمنافقین جونمازمیں شامل تھے کہنے لگے دیکھواس کے دودل ہیں ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اوردوسرادل کفراورکافروں کے ساتھ ہے،اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘ نازل فرمائی۔[59]

فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:مَا جَعَلَ اللهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِهِ

اس کی تردیدمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ ہم نے کسی شخص کے دودل نہیں بنائے۔‘‘ کہ وہ آدمی بیک وقت مومن اورمنافق ،سچا اور جھوٹا ، بدکار اور نیکو کار ہو ، ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہوسکتی ہے، اور بیوی کوماں کہنے یاماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی(اس کوظہارکہاجاتاہے جس کی تفصیل سورہ مجادلہ میں بیان کی گئی ہے) ماں توبس وہی ہے جس نے جنم دیاہے ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕــہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ۝۰ۭ اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا۝۲ [60]

ترجمہ:تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے، یہ لوگ ایک سخت ، ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔

جس طرح کسی کی دومائیں نہیں ہوسکتیں اسی طرح تمہارے متنبی (لے پالک،منہ بولے بیٹے) بھی تمہارے حقیقی بیٹوں کی طرح نہیں ہو جاتےوہ تواپنے باپ کے ہی بیٹے رہیں گے اس کے دوباپ کیسے بن جائیں گے ، تمہارے بیٹے وہ ہیں جوتم میں سے ہیں اورجن کوتم نے جنم دیاہے یہ تمہارے اختیارکیے ہوئے باطل رسم ورواج ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،مگراللہ کی بات سچ ہوتی ہے ا س لئے اس نے تمہیں اس کی اتباع کاحکم دیاہے اوروہی تمہیں صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتاہے،اس لئے اپنے منہ بولے بیٹوں کوان کے باپوں کی نسبت سے پکارو،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَیْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ القُرْآنُ، {ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ}، [61]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکیے ہوئے غلام زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کوہم ہمیشہ زیدبن محمدکہہ کرپکاراکرتے تھےیہاں تک کہ قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کروکہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اورٹھیک بات ہے،چنانچہ اس حکم کے بعدلوگوں نے زید رضی اللہ عنہ کو زیدبن محمدکے بجائے زیدبن حارثہ کہناشروع کر دیا۔[62]

اوریہ بات حرام قراردے دی گئی کہ کوئی شخص اپنے حقیقی والدکے سواکسی اورکی طرف اپنانسب منسوب کرے،

عَنْ سَعْدٍ: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَیْرِ أَبِیهِ، وَهُوَ یَعْلَمُ أَنَّهُ غَیْرُ أَبِیهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَیْهِ حَرَامٌ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نےجانتے بوجھتے اپنے آپ کو غیر باپ کی طرف منسوب کیااوروہ جانتاہے کہ وہ اس کاباپ نہیں ہےاس پرجنت حرام ہے۔[63]

اوراگرتمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہوتواس صورت میں بھی یہ درست نہیں کہ اس کانسب خوامخواہ کسی سے ملا دیا جائے،وہ بس تمہارے دینی بھائی اورموالی ،دوست کہلائیں گے،اوراگرپوری کوشش کے باوجودغلطی سے بعض کوغیرحقیقی باپ کی طرف منسوب کردوتو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے،اس آیت کے نزول کے مع بعدابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں ایک مسئلہ کھڑاہوگیاانہوں نے سالم کو(لے پالک) بیٹا بنایا ہوا تھا (جب متنبیٰ کوحقیقی بیٹاسمجھنے سے روک دیاگیاتووہ غیرمحرم ہوگیااوراس سے پردہ کرنا بھی ضروری ہوگیا)

عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّ سَالِمًا، مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ كَانَ مَعَ أَبِی حُذَیْفَةَ وَأَهْلِهِ فِی بَیْتِهِمْ، فَأَتَتْ تَعْنِی ابْنَةَ سُهَیْلٍ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا قَدْ بَلَغَ مَا یَبْلُغُ الرِّجَالُ، وَعَقَلَ مَا عَقَلُوا وَإِنَّهُ یَدْخُلُ عَلَیْنَا وَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّ فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ مِنْ ذَلِكَ شَیْئًافَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِیهِ تَحْرُمِی عَلَیْهِ، وَیَذْهَبِ الَّذِی فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ، رَجَعَتْ فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ أَرْضَعْتُهُ. فَذَهَبَ الَّذِی فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ

چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کامولیٰ سالم ابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے گھرمیں رہتے تھے اور سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا (ابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کی بیوی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ سالم حدبلوغ کوپہنچ گیاہے اورمردوں کی باتیں سمجھنے لگاہے،وہ ہمارے گھرمیں آتاجاتاہےاورمیں خیال کرتی ہوں کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کے دل میں اس سے کراہت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےفرمایا پھر کیاہے تم سالم کواپنادودھ پلادواس طرح تم اس پرحرام ہو جاؤ گی اوروہ کراہت جوابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کے دل میں ہے جاتی رہے گی،پھروہ لوٹ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورعرض کی کہ میں نے سالم کودودھ پلادیاہے اورابوحذیفہ رضی اللہ عنہا کے دل سے کراہت چلی گئی ہے۔[64]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں ۔[65]

النَّبِیُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِی كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُهَاجِرِینَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِیَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِی الْكِتَابِ مَسْطُورًا ‎﴿٦﴾‏وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ وَعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّیثَاقًا غَلِیظًا ‎﴿٧﴾‏ لِّیَسْأَلَ الصَّادِقِینَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِینَ عَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿٨﴾‏(الاحزاب)
پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ، اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدارہیں (ہاں ) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو، یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے، اور ہم نے ان سے (پکا اور) پختہ عہد لیا ، تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت فرمائے، اور کافروں کے لیے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامسلمانوں سے اورمسلمانوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتعلق ہے اس کے بارے میں فرمایا کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ماں باپ، اولاداوراپنی جان سے بھی بالاتررکھیں ،دنیاکی ہرچیزسے زیادہ آپ کی محبت مقدم رکھیں ،جس طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاواقعہ ہے ،

زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هِشَامٍ، قَالَ:كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْكَ مِنْ نَفْسِكَ،فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الآنَ یَا عُمَرُ

زہرہ بن معبدنے بیان کیاانہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن ہشام سے سناانہوں نے بیان کیاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !خوداپنے نفس کوچھوڑکرآپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا نہیں نہیں عمر رضی اللہ عنہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے(ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیزنہ ہوجاؤں ،یہ سنکرسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیااللہ کی قسم اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعمر رضی اللہ عنہ !اب تیراایمان پوراہوا۔[66]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ

اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کواس کے باپ اوراولادسے اورتمام انسانوں سے بڑھ کرمحبوب نہ ہوں ۔[67]

اپنی رائے اوراپنے فیصلے پرآپ کے فیصلے کومقدم رکھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی شخص کے قول کاخواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہومقابلہ نہ کریں اور آپ کے ہرحکم کواپنی تمام ترخواہشات سے اہم ترقراردے کراس کے آگے سرتسلیم خم کردیں جیسےفرمایا

فَلَا وَرَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَــرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا۝۶۵ [68]

ترجمہ:نہیں ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں ، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى یَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی تمام عقائدونظریات اورخواہشات کواس کے تابع نہیں کردیتاجومیں لے کرآیاہوں ۔[69]

اورازواج مطہرات کی تعظیم وتکریم تمام مسلمانوں پرواجب ہے اوران سے نکاح نہیں کیاجاسکتاوہ ان کے لئے اسی طرح حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں ان پر حرام ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ}، [70](وَالَّذِینَ عَاقَدَتْ أَیْمَانُكُمْ) قَالَ: كَانَ المُهَاجِرُونَ حِینَ قَدِمُوا المَدِینَةَ یَرِثُ الأَنْصَارِیُّ المُهَاجِرِیَّ دُونَ ذَوِی رَحِمِهِ، لِلْأُخُوَّةِ الَّتِی آخَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ: {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ}،[71] قَالَ: نَسَخَتْهَا: (وَالَّذِینَ عَاقَدَتْ أَیْمَانُكُمْ)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت’’اور ہم نے ہر اس ترکے کے حق دار مقرر کردیئے ہیں ۔‘‘اور’’ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں ۔‘‘ کے متعلق بتلایاکہ مہاجرین جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے تووارثوں کے علاوہ انصارومہاجرین بھی ایک دوسرے کی وراثت پاتے تھے اس بھائی چارگی کی وجہ سے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان کرائی تھی ،پھرجب آیت’’اور ہم نے ہر اس ترکے کے حق دار مقرر کردیئے ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی توفرمایاکہ اس آیت نے’’ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں ۔‘‘ کومنسوخ کردیا۔[72]

فرمایااب مہاجرین اخوت اورموالات کی وجہ سے انصارکی وراثت کے حقدار نہیں ہوں گے بلکہ جس طرح اللہ نے اپنی کتاب میں ہر حقدارکے حصے مقررفرمادیئے ہیں اسی طرح تقسیم ہوگی گو عارضی طورپربھائی چارہ کراکرمصلحتا ًدوسروں کوبھی وارث قراردے دیا گیا تھا، مگر اللہ نے لوح محفوظ میں رازاول سے اسی طرح لکھ رکھاہے کہ وراثت قریبی عزیزوں کوہی ملے گی اوراسی حکم کوبغیرکسی تغیروتبدل کےبحال کردیاگیاہے ،ہاں اگر کوئی شخص ہدیے ، تحفے یاوصیت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی،غیررشتہ دارکے لئے احسان کرناچاہے توان کے لئے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کرسکتاہے،اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس پختہ عہدوپیمان کویاد رکھو جوہم نے تمام انبیائے کرام سے عام طور پراورآیت کریمہ میں پانچ الولوالعزم رسولوں نوح علیہ السلام ،ابراہیم علیہ السلام ،موسیٰ  علیہ السلام ،عیسیٰ  علیہ السلام ابن مریم اورتم سے بھی سے خاص طورپر لیاہے کہ تم اللہ کے دین پر اوراس کے راستے میں جہادپرقائم رہو گے تاکہ ان کارب ان کے متبعین سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے کہ کیاانہوں نے اس عہدکوپوراکیااوراپنے عہد پر پورے اترے تاکہ انہیں انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنت میں داخل کرےاوریاانہوں نے کفرکیاتاکہ انہیں دردناک عذاب دے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن یَكُونَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن یَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِینًا ‎﴿٣٦﴾‏(الاحزاب)
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔

زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ أُخْتَ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَحْشٍ

زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ۔[73]

وَكَانَ اسْم زَیْنَب بنت جحش: برة، سَمَّاهَا رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

زینب بنت جحش کاحقیقی نام برہ تھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقدہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام زینب تجویز فرمایا۔[74]

كَانَ اسْمِی بَرَّةَ فَسَمَّانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَیْنَبَ

ان کانام برہ تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کرزینب رکھ دیا۔[75]

وَأُمُّهَا أُمَیْمَةُ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمِ عَمَّةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب بن ہاشم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ۔[76]

وكانت قدیمة الإسلام

زینب قدیم اسلام تھیں ۔[77]

وَكَانَ زَیْدٌ رَجُلا قَصِیرًا آدَمَ شَدِیدَ الأَدَمَةِ . فِی أَنْفِهِ فَطَسٌ

زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ن کاقدپست،ناک چپٹی اوررنگ گہراگندمی تھا۔[78]

فَوَهَبَتْهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ النُّبُوَّةِ

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے جنہیں انہوں نے نبوت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردیاتھا۔[79]

وَزَیْدٌ یَوْمُئِذٍ ابْنُ ثَمَانِیّةِ أَعْوَامٍ

اس وقت زید کی عمرآٹھ سال کی تھی ،

وَهُوَ ابْن ثَمَان سِنِین

اس وقت ان کی عمرآٹھ سال کی تھی۔[80]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزادفرما کر اپنا متنبیٰ (منہ بولابیٹا)بنالیاتھا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت ومحبت اور اس وقت کے دستورکے مطابق وہ زیدبن محمدکہہ کرپکارے جاتے تھے ،

أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ وَقَامَ بِهِ إلَى الْمَلَإِ مِنْ قُرَیْشٍ، فَقَالَ:اشْهَدُوا أَنّ هَذَا ابْنِی، وَارِثًا وَمَوْرُوثًا فَطَابَتْ نَفْسُ أَبِیهِ عِنْدَ ذَلِكَ ، وَكَانَ یُدْعَى: زَیْدَ بْنِ مُحَمّدٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدکاہاتھ پکڑااورانہیں بیت اللہ میں قریش کے سامنے لے آئے اورفرمایاگواہ رہنایہ میرابیٹاہے ،یہ میراوارث بنے گااورمیں اس کاوارث بنوں گا،اس دن سے وہ زیدبن محمدکہلانے لگے[81]

۱ بعثت نبوت میں جب زینب بنت جحش اسدیہ رضی اللہ عنہا سترہ سال کی خوبصورت دوشیزہ تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ بن شراحیل جوقبیلہ کلب سے تعلق رکھتے تھے ،ان کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہ قبیلہ طے کی ایک شاخ بنی مغن سے تھیں کا رشتہ مانگا جواس سے قبل ام ایمن رضی اللہ عنہا سے شادی کرچکے تھے اور اس وقت ان کی عمر پینتیس سال کی تھی ،

عن ابن عباس، قالا:وقالت: أنا خیر منه حسبًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں زینب رضی اللہ عنہا نے کہامیں اس سے نسب میں بہترہوں ۔[82]

یَا رَسُولَ اللهِ لا أَرْضَاهُ لِنَفْسِی وَأَنَا أَیِّمُ قُرَیْشٍ

ایک روایت ہے کہ انہوں نے جواب میں کہا تھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اسے اپنے لئے پسندنہیں کرتی میں قریش کی شریف زادی ہوں ۔[83]

اس کے علاوہ ان کے مزاج میں تیزی تھی اس لئے ان کے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔

جب ان کی بہن حمنہ کو علم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب کانکاح زید رضی اللہ عنہ سے کرناچاہتے ہیں تووہ بھی غصہ ہوئیں

فَغَضِبَتْ حَمْنَةُ غَضَبًا شَدِیدًا , وَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ أَتُزَوِّجُ ابْنَةَ عَمِّكَ مَوْلَاكَ؟

توحمنہ شدیدغصہ ہوئیں اوربولیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ اپنی پھوپھی کی بیٹی کوایک غلام کے نکاح میں دیناچاہتے ہیں ؟ ۔[84]

فإن العرب كانوا یكرهون تزویج بناتهم من الموالی

اوراہل عرب اپنی بیٹیوں کاغلاموں سے نکاح پسندنہیں کرتے تھے۔[85]

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زوردیاکہ وہ زید رضی اللہ عنہ سے عقدکرلیں ، اس پر انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس کے متعلق سوچوں گی ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی آئین کا اصل الاصول قانون نازل فرمایا

 فَأَنْزَلَ اللهُ {وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ یَكُونَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَوِّجْنِی مِمَّنْ شِئْتَ

’’ اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں ۔‘‘چنانچہ توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیغام بھیجاکہ آپ جہاں چاہیں میرانکاح فرمادیں ۔[86]

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الْأَسْلَمِیِّ،أَنَّ جُلَیْبِیبًا كَانَ امْرَأً یَدْخُلُ عَلَى النِّسَاءِ، یَمُرُّ بِهِنَّ وَیُلَاعِبُهُنَّ فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: لَا یَدْخُلَنَّ عَلَیْكُمْ جُلَیْبِیبٌ؛ فَإِنَّهُ إِنْ دَخَلَ عَلَیْكُمْ، لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ. أَمْ لَاجلیبیب،قَالَ: وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ إِذَا كَانَ لِأَحَدِهِمْ أَیِّمٌ لَمْ یُزَوِّجْهَا حَتَّى یَعْلَمَ هَلْ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَا حَاجَةٌ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ:زَوِّجْنِی ابْنَتَكَ، فَقَالَ: نِعِمَّ وَكَرَامَةٌ یَا رَسُولَ اللهِ وَنُعْمَ عَیْنِی

ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جلبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں مزاح بہت تھایہاں تک کہ خواتین سے بھی مزاح کی باتیں کرجاتے تھے( جو بعض طبائع کوناگوارگزرتی تھیں ) میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گاتاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے حسن کردارپر پور ا اعتماد تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پربڑی شفقت فرماتے تھے، انصار کامعمول تھاکہ جب ان کی کوئی خاتون بیوہ ہوجاتی تووہ اس کادوسرانکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیے بغیرنہ کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس سے کوئی ضرورت نہیں ہے؟ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری سے فرمایاکہ اپنی بیوہ بیٹی کانکاح مجھے کرنے دو،انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ توآپ کا کرم اورانعام ہوگا،

قَالَ:إِنِّی لَسْتُ أُرِیدُهَا لِنَفْسِی، قَالَ: فَلِمَنْ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ:لِجُلَیْبِیبٍ: قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أُشَاوِرُ أُمَّهَافَأَتَى أُمَّهَافَقَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ ابْنَتَكِ،فَقَالَتْ: نِعِمَّ. وَنُعْمَةُ عَیْنِی، فَقَالَ: إِنَّهُ لَیْسَ یَخْطُبُهَا لِنَفْسِهِ إِنَّمَا یَخْطُبُهَا لِجُلَیْبِیبٍ، فكره أبو الجاریة وأمها ذلك، فسمعت الجاریة بما أراد رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فقالت قبلت: وَما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ یَكُونَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ، إن كان رضیه لكم فأنكحوه، ادفعونی إلیه فإنه لن یضیّعنی ، وقالت: رضیت وسلمت لما رضی لی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ به ، فذهب أبوها إلى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: إن كنت رضیته فقد رضیناه ، قال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فإنی قد رضیته

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں خوداس سے نکاح کاارادہ نہیں رکھتا،انصاری نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھرآپ کس کے ساتھ میری بیٹی کارشتہ کرناچاہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجلیبیب رضی اللہ عنہ کے ساتھ، انصاری نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی بیوی کے ساتھ مشورہ کرلوں ؟ چنانچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمایا اپنی بیوہ بیٹی کانکاح مجھے کرنے دو، میں نے عرض کیایہ توآپ کاکرم اور انعام ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اپنے لئے نہیں بلکہ جلیبیب کے لئے پیغام دے رہاہوں ،جلبیب رضی اللہ عنہ کی کم روئی کی وجہ سے اورکچھ ان کی مزاحیہ طبیعت کی وجہ سے ماں باپ رشتہ دینے میں متذبذب ہوئے،ادھر وہ لڑکی جوبڑی زیرک اورمخلص مومنہ تھی پردے کے پیچھے سے سن رہی تھی باہم صلاح و مشورے کے بعد جب وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع کرنے کے لئے روانہ ہونے لگا تواس نے والدین کواللہ کایہ حکم یاددلایاکہ جب اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کافیصلہ کردیں توکسی مسلمان کواس میں چوں وچراکی گنجائش نہیں ،اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نکاح سے راضی ہیں توآپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیں وہ مجھے کبھی ضائع نہ ہونے دیں گےاورکہامیری مرضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے تابع ہے اورمجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بسروچشم منظورہے،اس لڑکی کاباپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوااورعرض کیاجس بات پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں ہم بھی اسی پرراضی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اس نکاح پرراضی ہوں ۔

فانطلق أبوها إلى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأخبره، فدعا لها رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اللهُمَّ صُبَّ عَلَیْهَا الْخَیْرَ صَبًّا، وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَهَا كَدًّا كَدًّا قَالَ فَمَا كَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْهَا،فَقَالَ: شَأْنَكَ بِهَا فَزَوَّجَهَا جُلَیْبِیبًا، فَقَالَ یَا رَسُولَ اللهِ إذاتَجِدُنِی كَاسِدًا،فقال: إنك عِنْدَ اللهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ، قَالَ: هَلْ تَعْلَمْ مَا دَعَا لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ فَمَا كَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْهَا

ایک روایت میں ہے چنانچہ اس لڑکی کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورساراواقعہ گوش گزارکردیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکی کی سعادتمندی پربہت مسرور ہوئے اوراس کے حق میں یہ دعامانگی الٰہی!اس لڑکی پرخیرکی کثرت کردے اوراس کی زندگی کو گدلا اور مکدرنہ کر! پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیبیب رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ فلاں لڑکی سے تمہارا نکاح کرتاہوں ،انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے کھوٹاپائیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں تم اللہ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیبیب رضی اللہ عنہ کانکاح اس لڑکی سے کردیا،کیاتمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکاکیا اثرہوا؟ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی گھریلوزندگی کوجنت بنا دیا اوروہ نہایت آسودہ حال ہوگئے انصارمیں کوئی عورت اس خاتون سے زیادہ تونگراورشاہ خرچ نہ تھی۔[87]

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَیْ لَا یَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِی أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ‎﴿٣٧﴾‏ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا ‎﴿٣٨﴾‏ الَّذِینَ یُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَیَخْشَوْنَهُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِیبًا
 (یاد کرو) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا کہ جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈراور تو نے اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اسے ڈرے ، پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں ،اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا تھا، جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے مقرر کی ہیں ان میں نبی پر کوئی حرج نہیں ، (یہی) اللہ کا دستور ان میں بھی رہا جو پہلے ہوئے، اور اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کئے ہوئے ہیں ، یہ سب ایسے تھے کے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے، اوراللہ تعالیٰ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔

تب سب خاندان والوں نے بلاتامل سراطاعت خم کردیااور زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے ذاتی اورقومی خیالات کوچھوڑکرعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاآپ نے زید رضی اللہ عنہ کومجھ سے نکاح پرراضی کر لیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، انہوں نے عرض کیاتب میں رسول اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتی میں نے خودکوان کے عقدمیں دے دیا،اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح پڑھایا

قال مقاتل بن حبان:وَكَانَ صَدَاقُهُ لَهَا عَشَرَةَ دَنَانِیرَ، وَسِتِّینَ دِرْهَمًا وخماراً ومِلْحَفَة ودرعاً وخَمْسِینَ مداً وَعَشَرَةَ أَمْدَادٍ مِنْ تَمْرٍ

مقاتل بن حبان کہتے ہیں زید رضی اللہ عنہ نے مہرمیں دس دیناراورساٹھ درہم اداکیے ،کپڑوں میں ایک دوپٹہ ،ایک چادراورایک کرتااور گھرکے خرچے کے لئے پچاس مداناج اوردس مدکھجوریں بھیجوائیں ۔[88]

زینب رضی اللہ عنہا نے اگرچہ اللہ اوراس کے رسول کاحکم مان کرنکاح میں جاناقبول کرلیاتھالیکن وہ اپنے دل سے اس احساس کوکسی طرح نہ مٹاسکیں کہ وہ عرب کے ایک اعلی نسب اورشریف ترین گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور زید رضی اللہ عنہ ایک آزادکردہ غلام ہیں اوران کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں اوروہ ایک کمتردرجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں ،اس احساس برتری کی وجہ سے ازواجی زندگی میں انہوں نے کبھی زید رضی اللہ عنہ کواپنے برابرکادرجہ نہ دیاجس وجہ سے ان کی خانگی زندگی خوشگوار نہ ہوئی ،اس احساس برتری کی وجہ سے زید رضی اللہ عنہ کو تکلیف پہنچتی اوردونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں ،

قَالَهُ مُقَاتِلُ بْنُ حَیَّانَ، فَمَكَثْتُ عِنْدَهُ قَرِیبًا مِنْ سَنَةٍ أَوْ فَوْقَهَا، ثُمَّ وَقَعَ بَیْنَهُمَا، فَجَاءَ زَیْدٌ یَشْكُوهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ یَقُولُ لَهُ: أَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ، وَاتَّقِ اللَّهَ

مقاتل بن حبان کہتے ہیں ایک سال یاکچھ اوپرتک یہ گھربسالیکن پھرناچاقی شروع ہوگئی، زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باربار شکایت کرتے رہتے تھے اس کے علاوہ اورکوئی نسوانی نقص بھی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھاتے کہ اللہ سے ڈرواوراپناگھربربادمت کرواور اللہ کے اس احسان کویادرکھوکہ اس نے تمہیں اسلام کی توفیق بخشی،غلامی سے نجات دی اور تمہاری شادی ایک معززاورشریف گھرانے میں کی ہے اس لئے اپنی بیوی سے وابستگی باقی رکھو،یعنی طلاق مت دواورنبھانے کی کوشش کرو۔[89]

 لَا وَلَكِنَّ اللهَ أَعْلَمَ نَبِیَّهُ أَنَّهَا سَتَكُونُ مِنْ أَزْوَاجِهِ قَبْلَ أَنْ یَتَزَوَّجَهَا

اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اشارہ فرماچکا تھاکہ زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے طلاق واقع ہوکررہے گی اوراس کے بعد آپ کو ان کی مطلقہ سے آپ کونکاح کرناہوگا۔ [90]

تاکہ جاہلیت کی اس رسم پرایک کاری ضرب لگاکرواضح کردیاجائے کہ منہ بولا بیٹااحکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اوراس کی مطلقہ سے نکاح جائزہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عرب معاشرے میں متنبی کی مطلقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے ، دشمنوں کے ہاتھ میں پروپیگنڈاکرنے کاایک نادرموقعہ مل جائے گااس لئے آپ اس شدیدآزمائش میں پڑنے سے ہچکچارہے تھے،

فَلَمَّا أَتَاهُ زَیْدٌ لِیَشْكُوَهَا إِلَیْهِ قَالَ: اتَّقِ اللهَ، وَأَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ

اسی بناپرجب زید رضی اللہ عنہ نے زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کاارادہ ظاہرکیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ اللہ سے ڈرواوراپنی بیوی کوطلاق نہ دو۔

منشایہ تھاکہ نہ یہ طلاق دیں اورنہ میں اس آزمائش میں گرفتار ہوں حالانکہ جب اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اس رسم کاخاتمہ کراناتھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ خوف اگرچہ فطری تھااس کے باوجود آپ کوتنبیہ فرمائی گئی،لیکن زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ جواپنے علم وتقویٰ سے ام ایمن رضی اللہ عنہا جیسی بیوی کے ساتھ جوعمرمیں ان سے تقریباًدوچندبڑی بیوہ اورحبشی الاصل تھی خوش خوش زندگی بسرکررہے تھے، وہ ان کے ساتھ نباہ نہ کرسکے اور بالآخردوسال میں انہیں طلاق دے دی ،کیونکہ اس نکاح سے اسلام ایک آزادکردہ غلام کواٹھاکرشرفائے قریش کے برابرلے آیاتھااس طلاق سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا،اس کے بعدزید رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بہن کوپناہ دینے کے لئے جوعدت کے بعدبیوگی کی زندگی گزاررہی تھیں اورلاولدہونے اوران کی تیززبانی کے باعث کوئی قبول نہیں کر رہا تھا،جس نے محض آپ کی تعمیل ارشادمیں اپنی مرضی کے خلاف زید رضی اللہ عنہ سے شادی کی تھی اورساتھ ہی متنبیٰ کی رسم ختم کرنے کی خاطر ان سے نکاح کاارادہ فرمایا ،

عَنِ أَنَسٍ قَالَ:لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَیْنَبَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِزَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ: اذْهَبْ فَاذْكُرْهَا عَلَیَّ، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَاهَا وَهِیَ تُخَمِّر عَجینها، قَالَ: فَلَمَّا رَأَیْتُهَا عَظُمَتْ فِی صَدْرِی حَتَّى مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَنْظُرَ إِلَیْهَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَهَا فَوَلَّیْتُهَا ظَهْرِی وَنَكَصْتُ عَلَى عَقِبِی وَقُلْتُ: یَا زَیْنَبُ، أَبْشِرِی، أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَذْكُرُكِ ، قَالَتْ: ما أنا بصانعة شیئا حتى أُؤَامِرَ رَبِّی، عَزَّ وَجَلَّ فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَاوَنَزَلَ الْقُرْآنُ

چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب زینت کی عدت طلاق مکمل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو نکاح کاپیغام دے کران کی طرف بھیجا،جب زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ، زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں پہنچے اس وقت وہ آٹاگوندرہی تھیں ، زید رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھاتوان کے دل میں زینب رضی اللہ عنہا کی عظمت اتنی بڑھ گئی کہ وہ ان کی طرف دیکھ نہ سکے،اس کیفیت کے پیداہونے کا سبب صرف یہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تھا، چنانچہ زید رضی اللہ عنہ پیٹھ موڑی اورایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے اورکہااے زینب رضی اللہ عنہا !خوش ہوجاؤرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نکاح کاپیغام بھیجاہے،زینب رضی اللہ عنہا نے انکارنہیں کیا اور کہامیں اس وقت تک کوئی کام نہیں کرتی جب تک کہ اپنے رب سے مشورہ نہ کرلوں ،یہ فرماکروہ اپنی نمازکی جگہ پرکھڑی ہوگئیں (یعنی استخارہ کرنے کے لئے کھڑی ہو گئیں )اسی دوران میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔[91]

جس میں فرمایاکہ جب زید رضی اللہ عنہ نے خوش دلی اوربے رغبتی کے باعث طلاق دے دی اور زینب رضی اللہ عنہا عدت سے فارغ ہوگئیں تو(آپ کی خواہش پرنہیں )ہم نے آپ کے متنبی زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ زینب رضی اللہ عنہا کانکاح تم سے کردیاتاکہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت لے پالک بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیاجاسکے اوریہ حکم جوتقدیرالٰہی میں لکھاہواتھابہرصورت پورا ہو کر رہنا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے جوبیویاں مقررکی ہیں چونکہ اس نے آپ کے لئے کثرت ازواج کواسی طرح مباح کیاہے جس طرح آپ سے پہلے دیگر انبیاء کے لئے مباح کیا تھا اس لئے یہ نکاح آپ کے لئے حلال ہے اس میں کوئی گناہ اورتنگی والی بات نہیں ہے ، گزشتہ تمام انبیاء بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پرفرض قراردیئے جاتے تھے چاہئے قومی اورعوامی رسم ورواج ان کے خلاف ہی ہوتے،اللہ کے کام دینوی حکمرانوں کی طرح وقتی اورفوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ ایک خاص حکمت ومصلحت پرمبنی ہوتے ہیں اورایک وقت مقرر مطابق وہ وقوع پذیرہوتے ہیں ،اس لئے کسی کاڈریاسطوت انہیں اللہ کاپیغام پہنچانے میں مانع ہوتاتھااورنہ طعن وملامت کی انہیں پرواہ ہوتی تھی ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کامحاسبہ کرنے اوران کے اعمال کی نگرانی کرنے کے لئے کافی ہے

عَنْ أَنَسٍ، وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَیْهَا بِغَیْرِ إِذْنٍ

ان آیات کے نزول ہونے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب رضی اللہ عنہا کے مکان میں بغیراجازت تشریف لے گئے۔[92]

اس وقت انکی عمربتیس سال کی تھی ،

قَالَ أَنَسٌ: فَكَانَتْ زَیْنَبُ تَفْخَرُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: زَوَّجَكُنَّ أَهَالِیكُنَّ، وَزَوَّجَنِی اللهُ تَعَالَى مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا اس نکاح پربڑافخرکرتی تھیں اورازواج مطہرات سے کہتی تھیں کہ تمہارانکاح تو تمہارے گھروالوں نے کیا اور میرانکاح اللہ نے ساتوں آسمانوں کے اوپرکیا۔[93]

یعنی اس روایت سے یہ معلوم ہواکہ نہ توایجاب و قبول ہوا،نہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھایاگیا اورنہ ہی حق مہراداکیاگیا،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَحْشٍ قَالَ: تَفَاخَرَتْ زَیْنَبُ وَعَائِشَةُ، فَقَالَتْ زَیْنَبُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهَا : أَنَا الَّتِی نَزَلَ تَزْوِیجِی مِنَ السَّمَاءِ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَنَا الَّتِی نَزَلَ عُذْری مِنَ السَّمَاءِ، فَاعْتَرَفَتْ لَهَا زَیْنَبُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهَا

محمدبن عبداللہ بن جحش سے روایت ہےام المومنین زینب رضی اللہ عنہا اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے باہم ایک دوسرے پرفخرکیازینب رضی اللہ عنہا نے کہامیں تووہ ہوں کہ جس کی شادی آسمان سے نازل ہوئی تھی،اورعائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیتے ہوئے کہامیں وہ ہوں جن کی پاک دامنی کاحکم آسمان سے نازل ہوا، یہ جواب سن کرزینب رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کااعتراف کرلیا۔[94]

مگرکچھ لوگوں کااس نکاح کے بارے میں نقطہ نظر مختلف ہے،وہ یوں کہتے ہیں

x  اس روایت میں سب سے بڑی عجیب بات تویہ ہے کہ پیغام نکاح کے لئے اس شخص کومنتخب کیاگیاجواس عورت کوطلاق دے چکاتھا جس کی اس عورت سے کبھی نہ بنی تھی ، زید رضی اللہ عنہ بیٹوں کی جگہ تھاحالاں کہ پیغام لے جانے کے لئے بڑے لوگوں کوبھیجاجاتاہے اوراس وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان رضی اللہ عنہ زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ موجود تھے ۔

x قرآن مجیدکے الفاظ زَوَّجْنٰكَهَا کامطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نکاح خودفرمادیاتھااورزمین پرکوئی نکاح نہیں ہواتھابلکہ اس کامطلب صرف اتناہے کہ ہم نے اس نکاح کافیصلہ کردیااورجوروکاوٹ اس میں تھی کہ زینب رضی اللہ عنہا آپ کی بہولگتی تھی وہ روکاوٹ ہم نے دورکردی۔

 زَوَّجَهُ إیَّاهَا أَخُوهَا أَبُو أَحْمَدَ بْنِ جَحْشٍ، وَأَصْدَقَهَا رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَربع مائَة دِرْهَمٍ

صحیح بخاری کے علاوہ ایک اور روایت ہےان کا نکاح ان کے بھائی ابواحمدبن جحش رضی اللہ عنہ نے کیاتھااورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چارسودرہم مہر ادا فرمایا تھا۔[95]

اورقرآن مجیدبھی اس کی تائید کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ۔۔۔ ۝۵۰ [96]

ترجمہ:اے نبی !ہم نے تمہارے لئے حلال کردیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہرتم نے اداکیے ہیں ۔

ا س سے صاف طورپرواضح ہوتاہے کہ گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہوااور نکاح پڑھایاگیااورحق مہربھی اداکیا گیا کیونکہ یہ باتیں نکاح کالازمی جزوہیں ،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے تھے کہ بغیرایجاب وقبول اورحق مہرادا کیے ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کواپنی زوجیت میں لے لیں ۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:(كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَیْنَبَ، فَقَالَتْ لِی أُمُّ سُلَیْمٍ: لَوْ أَهْدَیْنَا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَدِیَّةً ، فَقُلْتُ لَهَا: افْعَلِی،فَعَمَدَتِ الى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ، فَاتَّخَذَتْ حَیْسَةً فِی بُرْمَةٍ)فَقَالَتْ: یَا أَنَسُ، اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْ: بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَیْكَ أُمِّی وَهِیَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِیلٌ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّی تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِیلٌ یَا رَسُولَ اللهِ،فَقَالَ:ضَعْهُ،فَإِنَّهُ ذَبَحَ شَاةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَنَا الْخُبْزَ وَاللحْمَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیاتونکاح کی صبح کومیری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہااگر اس وقت ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ ہدیہ بھیجیں توبہترہوگا، میں نے کہامناسب ہے،انہوں نے ایک برتن میں کچھ کھجوروں ،گھی اورپنیرکامالیدہ تیارکیااورایک طباق میں رکھا،اورکہااے انس رضی اللہ عنہ !اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤاورعرض کرناکہ میری والدہ نے آپ کوسلام کہاہے اوریہ آپ کی خدمت میں بھیجاہے اوروہ عرض کرتی ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہماری طرف سے چھوٹاساہدیہ ہے،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں وہ طباق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیااورمیں نے عرض کیامیری والدہ نے آپ کوسلام کہاہے اورمجھے آپ کی خدمت میں بھیجاہے کہ یہ ہماری طرف سے آپ کی خدمت میں تھوڑاساہدیہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے رکھ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک بکری ذبح کی تھی،اوررسول اللہ نے لوگوں کوگوشت اورروٹی کھلائی تھی،

ثُمَّ قَالَ:اذْهَبْ، فَادْعُ لِی فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا، وَمَنْ لَقِیتَ ، وَسَمَّى رِجَالًا، قَالَ: فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى، وَمَنْ لَقِیتُ،قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: عَدَدَ كَمْ كَانُوا؟ قَالَ: زُهَاءَ ثَلَاثِمِائَةٍ،وَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَنَسُ، هَاتِ التَّوْرَقَالَ: فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلَأَتِ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ،وَوَضَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ عَلَى الطَّعَامِ، فَدَعَا فِیهِ، وَقَالَ فِیهِ مَا شَاءَ اللهُ(ثُمَّ جَعَلَ یَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً یَأْكُلُونَ مِنْهُ، وَیَقُولُ لَهُمْ:اذْكُرُوا اسْمَ اللهِ، وَلْیَأْكُلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا یَلِیهِ) قَالَ: حَتَّى تَصَدَّعُوا كُلُّهُمْ عَنْهَا، فَخَرَجَ مِنْهُمْ مَنْ خَرَجَ، فَقَالَ لِی:یَا أَنَسُ، ارْفَعْ ، قَالَ: فَرَفَعْتُ، فَمَا أَدْرِی حِینَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ، أَمْ حِینَ رَفَعْت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے انس رضی اللہ عنہ !فلاں فلاں آدمیوں کو بلا لاؤ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندآدمیوں کے نام لئے اورپھرفرمایاجس جس کوتم ملواس کو بلا کر لے آؤ،چنانچہ میں ان کوبھی بلالایاجن کانام لیاگیاتھااورجوبھی مجھے مل گیا،راوی کہتاہے میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہاکہ پھروہ سب لوگ گنتی میں کتنے تھے؟انہوں نے کہاتین سوکے قریب تھے ، اورمجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے انس رضی اللہ عنہ !کھانے کاوہ طباق اٹھالاؤ،اوروہ لوگ اندرآئے یہاں تک کہ صفہ اورحجرہ بھرگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنامبارک ہاتھ کھانے پررکھااوردعاکی اورجواللہ تعالیٰ نے چاہااس پرپڑھا،پھرمیں نے دس دس آدمیوں کوکھانے کے لئے بلاناشروع کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے جاتے تھے کہ اللہ کانام لواورہرایک شخص اپنے آگے سے کھائے ، یہاں تک کہ سب لوگ کھاکرگھرکی طرف چل دیئے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاکہ انس رضی اللہ عنہ !دسترخوان اٹھالوجب میں نے اس برتن کواٹھایاتویہ معلوم نہیں ہوتاتھاکہ جب میں نے طباق رکھاتھاتواس وقت اس میں کھانازیادہ تھایاجب میں نے اسے اٹھایاتواس وقت زیادہ تھا

قَالَ: وَجَلَسَ طَوَائِفُ مِنْهُمْ یَتَحَدَّثُونَ فِی بَیْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّیَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ،قَالَ:فَأَخَذَ كَأَنَّهُ یَتَهَیَّأُ لِلْقِیَامِ، فَلَمْ یَقُومُوا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ، فَلَمَّا قَامَ قَامَ مَنْ قَامَ مِنَ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَعَدَ ثَلَاثَةٌ،قَالَ: وَجَعَلْتُ أَغْتَمُّ ،فَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَحْیِی مِنْهُمْ أَنْ یَقُولَ لَهُمْ شَیْئًا

اوربعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں بیٹھے باتیں کرنے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں بیٹھے ہوئے تھے اور ام المومنین زینب بھی پیٹھ موڑے دیوارکی طرف منہ کئے بیٹھی تھیں ( دسترخوان اٹھانے کے بعد)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اٹھنے کی تیاری فرمائی لیکن وہ لوگ پھربھی نہ اٹھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے تواورسب آدمی بھی کھڑے ہوگئے اور اپنے گھروں کولوٹ گئے صرف تین آدمی باقی رہ گئے(بعض روایات میں دواشخاص کاذکرہے)ان لوگوں کے اس طرح بیٹھے رہنا مجھے گراں گزرا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کچھ کہتے ہوئے شرماتے تھے،

(ثُمَّ خَرَجَ إِلَى حُجَرِ أُمَّهَاتِ المُؤْمِنِینَ كَمَا كَانَ یَصْنَعُ صَبِیحَةَ بِنَائِهِ، فَیُسَلِّمُ عَلَیْهِنَّ وَیُسَلِّمْنَ عَلَیْهِ، وَیَدْعُو لَهُنَّ وَیَدْعُونَ لَهُ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْكُمْ أَهْلَ البَیْتِ وَرَحْمَةُ اللهِ،فَقَالَتْ: وَعَلَیْكَ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ ،كَیْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ بَارَكَ اللهُ لَكَ،فَتَقَرَّى حُجَرَ نِسَائِهِ كُلِّهِنَّ، یَقُولُ لَهُنَّ كَمَا یَقُولُ لِعَائِشَةَ، وَیَقُلْنَ لَهُ كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ رَجَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا ثَلاَثَةٌ مِنْ رَهْطٍ فِی البَیْتِ یَتَحَدَّثُونَ،وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَدِیدَ الحَیَاءِ، فَخَرَجَ مُنْطَلِقًا نَحْوَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ) فَرَجَعَ فَرَجَعَتْ،

پھرآپ ازواج مطہرات کے حجروں کی طرف روانہ ہوگئے اورہرنکاح کی صبح کوآپ کایہی دستورتھاکہ آپ تمام ازواج کے پاس جایاکرتے تھے اوران کے حق میں دعاکرتے اورامہات المومنین رضی اللہ عنہا بھی آپ کوسلام کرتیں اورآپ کے لئے دعاکرتی تھیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہرنکلے اورسب سے پہلےعائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جاکرفرمایااے گھروالوتم پراللہ کی سلامتی اوراللہ کی رحمتیں ہوں ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی اللہ کی سلامتی اوراللہ کی رحمتیں ہوں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے اپنی بیوی کوکیساپایا؟اللہ برکت عطافرمائے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکے بعد دیگرے تمام ازواج کے پاس تشریف لے گئے،ہرایک کوآپ نے اسی طرح سلام کیاجس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کوکیاتھااورہربیوی نے وہی جواب دیاجو عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تووہ تین آدمی اب بھی بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی شرمیلے تھے لہذاآپ بغیرکچھ کہے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف چلے گئے،جب ان تین آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوواپس تشریف لے جاتے دیکھاتوفوراًاٹھ کرچل پڑے۔[97]

خط کشیدہ الفاظ صحیح بخاری میں ہیں ۔

[1] تاریخ دمشق لابن عساکر۱۴۶؍۵۰،تاریخ الاسلام بشار۵۳۴؍۲

[2] صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ بَیَانِ أَنَّ تَخْیِیرَ امْرَأَتِهِ لَا یَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّیَّةِ ۳۶۹۰، مسند احمد ۱۴۵۱۵، السنن الکبریٰ للنسائی۹۱۶۴،السنن الکبری للبیہقی۱۳۲۶۸

[3] صحیح بخاری كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّیَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَیْرِ المُشْرِفَةِ فِی السُّطُوحِ وَغَیْرِهَا ۲۴۶۹

[4] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا ۵۱۹۱، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ۳۶۹۱

[5]۔الاحزاب۳۳

[6] المعجم الوسیط۴۶؍۱

[7] فتح القدیر۳۲۰؍۴

[8] تفسیر عبدالرزاق۳۷؍۳

[9] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۴۲؍۸

[10] تفسیرالالوسی ۔روح المعانی۱۸۹؍۱۱

تفسیرالالوسی ۔روح المعانی۱۸۹؍۱۱

[11] لسان العرب۲۱۲؍۲

[12] تفسیرابن ابی حاتم محققا ۱۴۸۴۹

[13] احکام القرآن لابن العربی۵۶۹؍۳

[14] جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِیبَاتِ۱۱۷۳،الترغیب والترھیب للمنذری۵۱۴

[15] جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِیبَاتِ۱۱۷۱،مسنداحمد۱۷۷

[16] المعجم الکبیر للطبرانی۷۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الزِّینَةِ۱۱۶۷، كتاب الأمثال فی الحدیث النبوی لابی الشیخا الاصبھانی۲۶۵

[17] سنن ابوداود كِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ۵۶۵

[18] السنن الکبری للبیہقی ۱۳۴۷۸

[19] تفسیر القرطبی ۱۸۰؍۱۴

[20] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الاحزاب بَابُ قَوْلِهِ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا۴۷۸۵، وکتاب النکاح بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا۵۱۹۱، وکتاب الظلم بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّیَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَیْرِ المُشْرِفَةِ فِی السُّطُوحِ وَغَیْرِهَا ۲۴۶۸، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ بَیَانِ أَنَّ تَخْیِیرَ امْرَأَتِهِ لَا یَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّیَّةِ ۳۶۸۱، و بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ عن عائشہ وعمر ۳۶۹۶، مسند احمد ۱۴۵۱۵،السنن الکبری للنسائی۹۱۶۴

[21] مسنداحمد۲۴۲۰۸

[22] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ۳۲۱۱،مسنداحمد ۲۶۵۷۵، مستدرک حاکم ۳۵۶۰

[23] الأحزاب: 35

[24] الأحزاب: 35

[25] مسند احمد ۲۶۶۰۳، السنن الکبری للنسائی۱۱۳۴۱،تفسیرطبری۲۷۰؍۲۰

[26] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ} التوبة: 119 وَمَا یُنْهَى عَنِ الكَذِبِ۶۰۹۴،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ قُبْحِ الْكَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِهِ۶۶۳۷ ،مسنداحمد۳۶۳۸

[27] جامع ترمذی أَبْوَابُ السَّفَرِ بَابُ مَا ذُكِرَ فِی فَضْلِ الصَّلاَةِ۶۱۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْحَسَدِ۴۲۱۰عن انس

[28] صحیح بخاری كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ الصَّدَقَةِ بِالیَمِینِ ۱۴۲۳،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ۲۳۸۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الحُبِّ فِی اللهِ ۲۳۹۱،مسنداحمد۹۶۶۵

[29] صحیح بخاری كِتَاب العِتْقِ بَابٌ: أَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ۲۵۱۸

[30] صحیح ابن حبان۳۳۷۷

[31] صحیح ابن حبان ۵۲۹، جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ  بَابُ مَا جَاءَ فِی صَنَائِعِ الْمَعْرُوفِ۱۹۵۶

[32] مسنداحمد۱۴۷۰۹

[33] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى۱۶۷۱

[34] صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابٌ مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّیَّةِ وَالحِسْبَةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى۵۵،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الْأَقْرَبِینَ وَالزَّوْجِ وَالْأَوْلَادِ، وَالْوَالِدَیْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِینَ ۲۳۲۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّفَقَةِ عَلَى الأَهْلِ۱۹۶۵،سنن نسائی كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ أَیُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ۲۵۴۵،صحیح ابن حبان۴۲۳۹

[35] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ مَنْ أَخَذَ بِالرِّكَابِ وَنَحْوِهِ۲۹۸۹

[36] مسنداحمد۱۷۱۷۹،السنن الکبری للنسائی۹۱۴۱

[37] سنن نسائی كِتَابُ الزَّكَاةِ باب صَدَقَةُ الْعَبْدِ ۲۵۳۸

[38] جامع ترمذی أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صَنَائِعِ الْمَعْرُوفِ ۱۹۵۶

[39] مسنداحمد۱۷۲۲۷،مسندابویعلی۱۵۱۰

[40] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی إِمَاطَةِ الْأَذَى عَنِ الطَّرِیقِ ۵۲۴۳

[41] صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ بَیَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَةِ یَقَعُ عَلَى كُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوفِ ۲۳۳۵

[42] صحیح مسلم كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ بَابُ فَضْلِ الْغَرْسِ وَالزَّرْعِ۳۹۶۷

[43] سنن ابوداود كِتَاب الزَّكَاةِ بَابٌ فِی فَضْلِ سَقْیِ الْمَاءِ۱۶۷۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ فَضْلِ صَدَقَةِ الْمَاءِ۳۶۸۴

[44] سنن ابن ماجہ کتاب افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابُ ثَوَابِ مُعَلِّمِ النَّاسَ الْخَیْرَ ۲۴۳

[45] جامع ترمذی ابواب الزكاة بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّدَقَةِ۶۶۴

[46] موطاامام مالک کتاب الصَّدَقَةُ التَّرْغِیبُ فِی الصَّدَقَةِ،۳۶۵۵، ۳۶۵۶

[47] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابٌ فِی الصَّوْمِ زَكَاةُ الْجَسَدِ۱۷۴۵

[48] الدر المنثور۶۰۸؍۶

[49] المعارج۲۹تا۳۱

[50] المومنون۵تا۷

[51] تفسیرابن ابی حاتم۳۱۳۴؍۹

[52] آل عمران۲۷

[53] آل عمران۲۶

[54] الانعام۳۹

[55] آل عمران۷۳

[56] الحدید۲۹

[57] البقرة۲۶۹

[58] الأحزاب: 4

[59] مسنداحمد۲۴۱۰

[60] المجادلة۲

[61] الأحزاب: 5

[62] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورة الاحزاب بَابُ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ۴۷۸۲،صحیح مسلم کتاب الفضائلبَابُ فَضَائِلِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۶۲۶۲،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ۳۲۰۹، ۳۸۱۳، مسنداحمد۵۴۷۹

[63] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ نِسْبَةِ الیَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِیلَ ۳۵۰۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ حَالِ إِیمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِیهِ وَهُوَ یَعْلَمُ ۲۱۹،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَنْتَمِی إِلَى غَیْرِ مَوَالِیهِ ۵۱۱۳،مسنداحمد۲۰۳۹۶

[64] صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ رِضَاعَةِ الْكَبِیرِ ۳۶۰۰،سنن نسائی کتاب النکاح بَابُ رَضَاعِ الْكَبِیرِ۳۳۲۱

[65] صحیح بخاری کتاب الشھادات بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الأَنْسَابِ، وَالرَّضَاعِ المُسْتَفِیضِ، وَالمَوْتِ القَدِیمِ ۲۶۴۵،صحیح مسلم کتاب الرضاع بَابُ تَحْرِیمِ ابْنَةِ الْأَخِ مِنَ الرَّضَاعَةِ ۳۵۸۳

[66] صحیح بخاری كِتَابُ الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۶۳۲

[67] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِیمَانِ۱۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللهِ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنَ الْأَهْلِ وَالْوَلَدِ، وَالْوَالِدِ والنَّاسِ أجْمَعِینَ، وَإِطْلَاقِ عَدَمِ الْإِیمَانِ عَلَى مَنْ لمْ یُحِبَّهُ هَذِهِ الْمَحَبَّةَ۱۶۸، مسنداحمد ۱۲۸۱۴، السنن الدارمی ۲۷۸۳

[68] النسائ۶۵

[69] شرح السنة للبغوی ۱۰۴

[70] النساء: 33

[71] النساء: 33

[72] صحیح بخاری کتاب الفرائض بَابُ ذَوِی الأَرْحَامِ ۶۷۴۷

[73]دلائل النبوة للبیہقی۴۶۵؍۳

[74] ابن ہشام۴۷۱؍۱،البدایة والنهایة۱۱۹؍۷

[75] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۸۵۵؍۴

[76] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۸۴۹؍۴،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۲۶؍۷،دلائل النبوة للبیہقی۲۸۲؍۷،حدائق الأنوار ومطالع الأسرار فی سیرة النبی المختار۳۱۶؍۱

[77] اسد الغابة فی معرفة الصحابة ۱۲۶؍۷

[78] ابن سعد ۳۲؍۳،تاریخ دمشق۳۵۱؍۱۹، سیر أعلام النبلاء ۸۹؍۲

[79] السیرة النبویة لابن كثیر۴۸۰؍۳،سیر أعلام النبلاء۸۹؍۲

[80] وسیلة الإسلام بالنبی علیه الصلاة والسلام۶۸؍۱

[81]۔الروض الأنف۲۹۲؍۲

[82]شرح الزرقانی علی المواھب۱۶۷؍۷

[83] ابن سعد۸۰؍۸

[84] سنن الدارقطنی۳۷۹۶

[85] نور الیقین فی سیرة سید المرسلین۱۵۱؍۱

[86] سنن الدارقطنی ۳۷۹۶

[87] مسند احمد ۱۹۷۸۴، السیرة الحلبیة۴۱۲؍۳، الصَّحیِحُ من أحادیث السّیرة النبویة۳۰۲؍۱

[88] البدایة والنہایة۱۶۶؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۷۸؍۳

[89] تفسیرابن کثیر ۴۲۴؍۶

[90] تفسیرابن ابی حاتم۳۱۳۵؍۹

[91] مسنداحمد۱۳۰۲۵،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ زَوَاجِ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَنُزُولِ الْحِجَابِ، وَإِثْبَاتِ وَلِیمَةِ الْعُرْسِ۳۵۰۲ ،ابن سعد۸۲؍۸،تفسیرابن ابی حاتم۳۱۳۵؍۹،تفسیرابن کثیر۴۲۶؍۶

[92] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ زَوَاجِ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَنُزُولِ الْحِجَابِ، وَإِثْبَاتِ وَلِیمَةِ الْعُرْسِ عن انس ۳۵۰۲

[93] صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ ۷۴۲۰

[94] تفسیرطبری۱۱۸؍۱۹

[95] ابن ہشام۶۴۴؍۲،الروض الانف۵۶۲؍۷

[96] الاحزاب ۵۰

[97] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الاحزاب بَابُ قَوْلِهِ لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ ۴۷۹۳، ۴۷۹۴،۵۱۶۳، صحیح مسلم کتاب النکاحبَابُ زَوَاجِ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَنُزُولِ الْحِجَابِ، وَإِثْبَاتِ وَلِیمَةِ الْعُرْسِ ۳۵۰۲، ۳۵۰۳، ۳۵۰۵، ۳۵۰۶،۳۵۰۷

Related Articles