ہجرت نبوی کا پانچواں سال

غزوہ دومة الجندل ربیع الاول پانچ ہجری(جولائی ۶۲۶ء)

غزوہ بدرصغریٰ میں ابوسفیان کامسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے بزدلانہ واپسی سے مسلمانوں کی ہرسودھاک بیٹھ گئی اورمدینہ منورہ میں مسلمانوں کوسکھ کاسانس لینا نصیب ہوا،چنانچہ غزوہ بدرصغریٰ کے بعد چھ ماہ تک آپ مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے اور اس دوران عرب کی آخری حدودتک مسلمانوں کارعب ودبدبہ قائم رکھنے کے لئے سوچ وبچار کرتے رہے،

 بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنّ بِدُومَةِ الْجَنْدَلِ جَمْعًا كَثِیرًاوَأَنّهُمْ یَظْلِمُونَ مَنْ مَرّ بِهِمْ مِنْ الضّافِطَةِ وَأَنّهُمْ یُرِیدُونَ أَنْ یَدْنُوا مِنْ الْمَدِینَةِ، وهی طرف مِن أفواه الشّامَ بینها وبین دِمَشْقُ خَمْسَ لَیَالٍ.وَبَیْنَهَاوَبَیْنَ الْمَدِینَةِخَمْسَ عَشْرَةَ أَوْ سِتَّ عَشْرَةَ لَیْلَة،فَنَدَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النّاسَ ،وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَةَ الْغِفَارِیَّ،وَخَرَجَ لِخَمْسِ لَیَالٍ بَقِینَ مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الأَوَّلِ، فِی أَلْفَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ،وَمَعَهُ دَلِیلٌ لَهُ مِنْ بَنِی عُذْرَةَ یُقَالُ لَهُ: مَذْكُورٌ،فَكَانَ یَسِیرُ اللیْلَ وَیَكْمُنُ النَّهَارَ، وَغَنِمَ الْمُسْلِمُونَ إِبِلًا وَغَنَمًا وُجِدَتْ لَهُمْ

اس کے بعدآپ کواطلاع ملی کہ شام کی سرحدوں کے قریب دومتہ الجندل (جومدینہ کی سمت شام کامدینہ منورہ سے سب سے قریبی شہر ہے جوتبوک کے قریب واقع ہے) کے گردآبادقبائل ادھرسے گزرنے والےشترسواروں اورمزدوروں کولوٹ رہے ہیں اورانہوں نے مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کاارادہ کرلیا ہے،دومتہ الجندل شام کے راستے کے کنارے پرہے ،اس کے اوردمشق کے درمیان پانچ رات کی مسافت ہے ،مدینہ منورہ سے پندرہ یاسولہ رات کی مسافت پرہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کومشاورت کے لئے بلایا ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کومدینہ کی حفاظت ونگرانی کے لئےپراپنانائب مقررفرمایااورپچیس ربیع الاول پانچ ہجری کوایک ہزار جانثاروں کے ساتھ شام کی حدود کی طرف روانہ ہوئے،دومتہ الجندل کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے بنوعذرہ کا مذکورنامی شخص کواجرت پررکھ لیا،دشمن پربے خبری میں اچانک حملہ کرنے کے لئے آپ نے یہ طریقہ کار بنایا کہ دن میں چھپے رہتے اوررات کے اندھیرے میں سفرکرتے،اسی طرح پندرہ راتوں کوسفرکرتے ہوئے جب منزل پرپہنچے تودومتہ الجندل والوں پرآپ کی ہیبت چھا گئی اوروہ منتشرہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اونٹوں اور بکریوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔[1]

فَأَصَابَ مَنْ أَصَابَ وَهَرَبَ مَنْ هَرَبَ فِی كُلِّ وَجْهٍ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مویشی اور چرواہوں پرحملہ کیاجومل گیاوہ مل گیاجوبھاگ گیاوہ بھاگ گیا۔[2]

وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَاحَتِهِمْ فَلَمْ یَلْقَ بِهَا أَحَدًافَأَقَامَ بِهَا أَیَّامًا، وَبَثَّ السَّرَایَا وَفَرَّقَهَا فرجعت ولم تُصِبْ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأُخِذَ مِنْهُمْ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ ْ فَقَالَ: هَرَبُوا حَیْثُ سَمِعُوا أَنَّكَ أَخَذْتَ نَعَمَهُمْ،فَعَرَضَ عَلَیْهِ الإِسْلامَ فَأَسْلَمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول چنددن وہیں قیام فرمایا اوردشمنوں کو گھیرنے کے لئے کئی اطراف میں چندچھوٹے چھوٹے دستے روانہ فرمائے لیکن دشمن دورنکل چکے تھے اس لئے کوئی ہاتھ نہ لگا،ایک شخص گرفتارہوااس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھیوں کے بارے میں دریافت فرمایااس نے کہاکہ وہ لوگ جب ہی بھاگ گئے جب انہوں نے یہ سناکہ آپ نے ان کے اونٹ پکڑ لئےہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پراسلام پیش کیا اور اس نے قبول کرلیا۔[3]

وَرَجَعَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الْمَدِینَةِ وَلَمْ یَلْقَ كَیْدًالِعَشْرِ لَیَالٍ بَقِینَ مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الآخَرِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیس ربیع الثانی کواس طرح واپس مدینہ تشریف لے آئے کہ آپ کوجنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔[4]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقدام سے بدووں اور اعراب کوکوئی منصوبہ بنانے کاحوصلہ نہ ہوا ، منافقین ویہودنے مایوس ہوکرخاموش رہنے میں اپنی عافیت جانی،اس طرح مدینہ کی مختصرریاست میں امن وامان قائم ہوگیا

فَأَقَامَ بِالْمَدِینَةِ بَقِیَّةَ سَنَتِهِ

اوربقیہ سال آپ مدینہ ہی میں تشریف فرمارہے۔[5]

وفدبنی مزینہ:

حَدَّثَنَا كَثِیرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِیُّ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:كَانَ أَوَّلَ مَنْ وَفَدَ عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من مُضَرَ أَرْبَعُمِائَةٍ مِنْ مُزَیْنَةَ

کثیربن عبداللہ المزنی نے اپنے والدسے اورانہوں نے ان کے داداسے روایت کی ہےمضرکاسب سے پہلاوفدجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواوہ قبیلہ مزینہ کاچارسوآدمیوں پرمشتمل تھا۔[6]

وَذَلِكَ فِی رَجَبٍ سَنَةَ خَمْسٍ

یہ وفدرجب پانچ ہجری میں بارگاہ رسالت میں حاضرہوا اورنعمت اسلام سےبہرہ ورہوا،اس وفد کےقائد بلال رضی اللہ عنہ بن حارث مزنی تھے۔

ایک روایت کے مطابق ان کے قائدنعمان بن مقرن تھے۔(غزوہ تبوک ازعلامہ محمداحمد با شمیل)

اس وفدمیں معرکہ نہاوندکے بطل خاص نعمان رضی اللہ عنہ بن مقرن اورخزاعی رضی اللہ عنہ بن عبدنہم بھی شامل تھے

وكان لمُزَیْنَةَ صَنَمٌ یُقَالُ لَهُ:نَهْم،ذَبَائِحُهُمْ الَّتِی یَتَقَرَّبُونَ بِهَا كَسَرَهُ سَادِنُهُ خُزَاعِیُّ بْنُ عَبْدِ نُهْمٍ،فَلَمَّا سَمِعَ بِأَمْرِ الرَّسُولُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ودَیْنُهُ الْجَدِید، ثَارَ عَلَى الصَّنَم وَكَسَرَهُ

مزینہ کا ایک بت تھاجسے نہم کہاجاتاتھااوراس کاتقرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کی جاتی تھی،اسلام قبول کرنے سے بیشترخزاعی رضی اللہ عنہ بن عبدنہم بنومزینہ کے بت نہم کے دربان(حاجب) تھے، مگر اللہ جیسے چاہئے ہدایت کے راستے پرگامزن کردے، جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے دین کے بارے میں سنا تو انہوں نے اس بت کوتوڑڈالااوریہ شعرپڑھے۔

ذَهَبَتْ إِلَى نهمٍ لأذبح عِنْده ،عَتِیرَةً نسكٍ كَالَّذی كُنْت أَفْعَلْ

میں نہم کے پاس گیاتاکہ اس کے سامنے بکری قربان کروں جیساکہ میرامعمول تھا

فَقُلْت لِنَفْسِی حِین رَاجَعْت عَقْلِهَا، أَهَذا إلهٌ أبكمٌ لَیْسَ یَعْقِل

جب میں نے عقل سے کام لے کرغورکیاتومیرے دل نے کہاکہ یہ گونگا اور بے عقل معبود ہے

أَبَیْتَ فَدِینِی الْیَوْم دین محمدٍ ، إِلَه السَّمَاء الْمَاجِد الْمُتَفَضِّلُ

میں نے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کادین قبول کرلیاہے،اورمیں نے آپنے آپ کواللہ بزرگ وبرترکے سپردکردیاہے۔

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکردین اسلام قبول کرلیا۔[7]

وكان ینزل الأشعر، والأجرد وراء المدینة، وكان یأتی المدینة

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق اس وفدمیں بوڑھے اوربچے بھی شامل تھے،وفدکے قائد بلال رضی اللہ عنہ بن حارث نے انہیں مدینہ منورہ کے باہرٹھیرایااورخوددوسرے سواروں کے ہمراہ بارگاہ نبوی میں حاضرہوئے۔[8]

فَجَعَلَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم الْهِجْرَةَ فِی دَارِهِمْ وَقَالَ: أَنْتُمْ مُهَاجِرُونَ حَیْثُ كُنْتُمْ فَارْجِعُوا إِلَى أَمْوَالِكُمْ،فَرَجَعُوا إِلَى بِلَادِهِمْ

(مزینہ کاعلاقہ مدینہ سے زیادہ دور نہیں تھا) یہ لوگ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرناچاہتے تھے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب یہی خیال کیاکہ وہ اپنے علاقے میں مقیم رہیں چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کوہدایت فرمائی کہ اپنے علاقے میں واپس جاؤتم جہاں بھی رہوگے تمہیں مہاجرین میں داخل سمجھا جائے گا، چنانچہ وہ اپنے گھروں کوواپس لوٹ گئے۔[9]

قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ – صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَمِائَةِ رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَةَ،فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَنْصَرِفَ، قَالَ: یَا عمر! زَوِّدِ الْقَوْمَ،فَقَالَ: مَا عِنْدِی إِلَّا شَیْءٌ مِنْ تَمْرٍ، مَا أَظُنُّهُ یَقَعُ مِنَ الْقَوْمِ مَوْقِعًا،قَالَ: انْطَلِقْ فَزَوِّدْهُمْ،قَالَ: فَانْطَلَقَ بِهِمْ عمر، فَأَدْخَلَهُمْ مَنْزِلَهُ ثُمَّ أَصْعَدَهُمْ إِلَى عُلِّیَّةَ، فَلَمَّا دَخَلْنَا، إِذَا فِیهَا مِنَ التَّمْرِ مِثْلُ الْجَمَلِ الْأَوْرَقِ،فَأَخَذَ الْقَوْمُ مِنْهُ حَاجَتَهُمْ،قَالَ النعمان: فَكُنْتُ فِی آخِرِ مَنْ خَرَجَ، فَنَظَرْتُ فَمَا أَفْقِدُ مَوْضِعَ تَمْرَةٍ مِنْ مَكَانِهَا

نعمان رضی اللہ عنہ بن مقرن سے مروی ہے ہم بنی مزینہ کے چارسوافرادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ،جب ہم مدینہ منورہ سے چلنے لگے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کہ ہمیں زادراہ عطافرمایاجائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کوہدایت فرمائی کہ انہیں زادراہ دو،انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے پاس کھجوروں کی کچھ مقدار موجود ہے مگروہ اتنے زیادہ آدمیوں کے لئے کافی نہیں ہوگی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤاوریہی کھجوریں ان میں تقسیم کردو،سیدناعمر رضی اللہ عنہ مجھے (نعمان رضی اللہ عنہ بن مقرن)ساتھ لے کراپنے بالا خانے پہنچے تومیں نے دیکھاکہ وہاں اونٹ کے برابرکھجوریں کاڈھیرپڑاہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھجوریں تقسیم کرناشروع کیں توسب کے سب اراکین وفدنے اپنااپناحصہ حاصل کیا، نعمان کہتے ہیں میں سب سے آخرمیں تھامیں نے دیکھاکہ کھجوروں کا ڈھیراسی طرح موجودتھاجیسے تقسیم سے پہلے تھااوراس میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی۔[10]

أَوَّلَ مَنْ قَدِمَ مِنْ مُزَیْنَةَ خُزَاعِیُّ بْنُ عَبْدِ نُهْمٍ وَمَعَهُ عَشَرَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَبَایَعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِسْلَامِ قَوْمِهِ، فیهم بلال بن الحارث، والنّعمان بن مقرّن،فَلَمَّا رَجَعَ إِلَیْهِمْ لَمْ یَجِدْهُمْ كَمَا ظَنَّ فِیهِمْ فَتَأَخَّرُوا عَنْهُ. فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ أَنْ یُعَرِّضَ بِخُزَاعِیٍّ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَهْجُوَهُ، فَذَكَرَ أَبْیَاتًا فَلَمَّا بَلَغَتْ

سب سے پہلاوفدجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواوہ قبیلہ مزینہ کاتھاجوخزاعی بن عندنہم کی سربراہی میں دس آدمیوں پرمشتمل تھا اورانہوں نےتمام قبیلہ مزینہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی،اس وفدمیں بلال رضی اللہ عنہ بن حارث اور نعمان رضی اللہ عنہ بن مقرن بھی شامل تھے، مگرانہوں نے ان لوگوں کی وہ کیفیت نہیں پائی جیساکہ ان کا خیال تھاوہ مقیم ہوگئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کوبلایااورفرمایاکہ خزاعی کاذکرکرواوران کی مذمت کرو،چنانچہ حسان بن ثابت نے کہا

أَلا أَبْلِغْ خُزَاعِیًّا رَسُولا ، بِأَنَّ الذَّمَّ یَغْسِلُهُ الْوَفَاءُ

خبردار!خزاعی کے پاس قاصدبھیج دے ،کہ وفاداری مذمت کودھودیتی ہے

وَأَنَّكَ خَیْرُ عُثْمَانَ بْنِ عَمْرٍو ،وَأَسْنَاهَا إِذَا ذُكِرَ السَّنَاءُ

تم عثمان بن عمروکی اولادمیں سب سے بہترہو،جب خوبی وبلندی کاذکرکیاجائے توان سب سے زیادہ بلندوخوب ترہو

وَبَایَعْتَ الرَّسُولَ وكان خیرا ،إلى خیر وأداك الثراء

تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اوروہ خیرتھی جوخیرکی طرف پہنچ گئی اورتمہیں دولتمندی نے پہنچادیا

فَمَا یُعْجِزْكَ أَوْ مَا لا تُطِقْهُ ، مِنَ الأَشْیَاءِ لا تَعْجِزْ عَدَاءُ

تم کوعاجزنہ کرے یاجن اشیاء کی تم کوطاقت نہیں ہے اس سے قوم عداء عاجزنہ ہو

قَالَ: فَقَامَ خُزَاعِیٌّ فَقَالَ:یا قوم خَصَّكُمْ شَاعِرُ الرَّجُلِ فَأُنْشِدُكُمُ اللهَ. قَالُوا: فَإِنَّا لا نَنْبُو عَلَیْكَ. قَالَ: وَأَسْلَمُوا وَوَافَدُوا عَلَى النبی،فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ الْفَتْحِ دَفَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِوَاءً مُزَیْنَةَ وَكَانُوا یَوْمَئِذٍ أَلْفًا

خزاعی اٹھ کھڑے ہوئے اورکہااے قوم!ان بزرگ کے شاعرنے تم کوخاص کیاہے لہذامیں تمہیں اللہ کاواسطہ دیتاہوں ،ان لوگوں نے کہاہم تم پراعتراض نہ کریں گےچنانچہ ساراقبیلہ مسلمان ہوگیااوربطوروفدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوا، فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ مزینہ کاجھنڈاخزاعی کودیااس دن وہ ایک ہزارآدمی تھے ۔[11]

وفد اشجع:

پانچ ہجری میں قبیلہ اشجع کاایک وفدمعاہدہ صلح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا،

وَهُمْ مِائَةُ رَجُلٍ وَرَئِیسُهُمْ مَسْعُودُ بْنُ رُخَیْلَةَ

یہ وفد ایک سو آدمیوں پرمشتمل تھااوران کاسردارمسعودبن رخیلہ تھا۔[12]

وَكَانُوا سَبْعَمِائَةِ رَجُلٍ

ایک روایت کے مطابق اراکین وفدکی تعدادسات سوتھی۔[13]

فَنَزَلُوا شِعْبَ سِلْعٍ، فَخَرَجَ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللهِ، وَأَمَرَ لَهُمْ بِأَحْمَالِ التَّمْرِ،فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدوَقَدْ ضقنا بِحَرْبِكَ وبِحَرْبٍ قَوْمِكَ. فَجِئْنَا نوادعك،فَوَادَعَهُمْ

یہ لوگ مدینہ آکرمحلہ شعب سلع میں قیام پذیرہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی آمدکی اطلاع ملی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کاانتظارنہ فرمایاکہ وہ لوگ خودبارگاہ نبوت میں حاضرہوں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خودان کے پاس تشریف لے گئے ،خیروعافیت پوچھی اوربڑی دیرتک کمال اخلاق اورمحبت کے ساتھ ان سے گفتگوفرماتے رہے،پھرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ اپنے مہمانوں کی کھجوروں سے تواضع کرو،وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے توآپ نے انہیں بڑی نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،انہوں نے جواب دیامحمد علیہ السلام ! ہماری آمدکی غرض وغایت یہ ہے کہ آپ سے امن اورصلح کامعاہدہ کریں کیونکہ آپ کی اورآپ کی قوم کی آئے دن کی لڑائیوں سے ہم تنگ آگئے ہیں ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندہ پیشانی سے فرمایاجوتم کہتے ہووہ ہمیں منظور ہے۔[14]

چنانچہ امن کا معاہدہ لکھاگیاجس کوفریقین نے تسلیم کرلیا،اس دوران میں اہل وفدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ معاہدہ صلح معرض تحریرمیں آنے کے معا بعدوہ سب پکاراٹھےاے محمد!آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اورآپ کادین برحق ہے،

فَوَادَعَهُمْ وَرَجَعُوا، ثُمَّ أَسْلَمُوا بَعْدَ ذَلِكَ

چنانچہ سب کے سب اراکین وفددولت اسلام سے بہرہ ور ہوکراپنے گھروں کولوٹے۔[15]

غزوہ خندق (غزوہ احزاب) شوال یاذی القعدہ پانچ ہجری

عسکری تاریخ کے مطالعہ سے ظاہرہے کہ آج تک صرف چندمحصورفوجوں نے محاصرہ کرنے والی فوجوں پرفیصلہ کن فتح حاصل کی ہے ،مگرغزوہ احزاب کوان میں خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس لڑائی میں مسلمانوں کی محصورفوج کی تعدادمحاصرہ کرنے والی فوج سے تین گناہ سے بھی کم تھی،عسکری تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ اس قدرکم تعداداورنیم مسلح فوج نے اپنے سے تین گناہ زیادہ بہترین اسلحہ سے لیس دشمن پرفیصلہ کن فتح حاصل کی ہواوران میں سے بیشترمحصورفوجوں سے تعدادمیں برتری،سامان رسدکے ذخیروں ، بہترین اسلحہ وغیرہ اورمحاصرہ توڑنے والی اپنی فوجوں کی فوری اورموثرکاروائی کی وجہ سے فیصلہ کن فتح حاصل کی ہو،جیساکہ تاریخ کے مطالعہ سے ظاہرہے ہرمحاصرے کی لڑائی میں طرفین کابہت جانی نقصان ہوتاہے مگرمدینہ منورہ کے محاصرہ میں صرف چندنفوس کاجانی نقصان ہواتھا،محصورہونے والی فوج کے کمانڈراعلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی بصیرت،بہترین تجزیہ اورحالات کے مطابق بدلتی فوری کاروائی کانتیجہ تھاکہ کفارکے اتنے بڑے لشکرپرمسلمانوں کوفیصلہ کن فتح حاصل ہوئی تھی،عسکری تاریخ میں یہ فتح ایک معجزہ سے کم نہیں مگرتعجب کی بات ہے کہ متعصب مورخین نے دنیاکے مشہورمحاصروں کاذکرکرتے ہوئے غزوہ خندق کے بارے میں کچھ نہیں لکھا،ایک محصورفوج کودفاع کے لئے خندق،پھسلن،عمودی رکاوٹوں ،مضبوط اوربلنددیواروں ،قلعوں ،سرنگوں ،خاردارتاروں اورزمین دوزمورچوں وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ،جب یہ لڑائی لڑی گئی تھی تواس زمانہ کے معیارکے مطابق ایک محصورفوج کے لئے مضبوط اوربلنددیواروں والاقلعہ لازم سمجھاجاتاتھا،یہی نہیں بلکہ قلعہ کی دیواروں کے باہرچوڑی اورگہری خندق اورپھسلن سب سے پہلی رکاوٹ ،دفاع کااہم حصہ ہواکرتاتھا،قلعہ کے کئی حصوں میں بلندبرج ہواکرتے تھے ،دیواروں پرجگہ جگہ کٹاؤرکھے جاتے تھے جہاں تیزانداز،نفت انداز ، پتھر برسانے والے اورگرم تیل پھینکنے والے حملہ آوردشمن کوروکنے کے لئے فوری کاروائی کرتے تھے،قلعہ میں خوراک اوراسلحہ کاذخیرہ ہواکرتاتھا،عورتیں اوربچے محفوظ مقام میں قلعہ کے اندرموجودہوتے تھے ،قلعے کے کئی حصارہواکرتے تھے اورہرحصارکامضبوط اوربلنددروازہ ہواکرتاتھا،اس قسم کے مضبوط قلعے عرب میں کئی جگہ موجود تھے ،جن کوبعدمیں قلیل تعدادمیں اسلامی لشکرنے دلیرانہ حیران کن کاروائی کے بعدفتح کرکے دشمنوں کوورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا،مگرغزوہ خندق میں دفاع کے لئے صرف ایک خندق تھی جس کی دیکھ بھال نیم مسلح مجاہدین کے سپردتھی،کوئی قلعہ یابرج تھانہ سامان رسدکاخاطرخواہ ذخیرہ تھا،مگرمسلمانوں میں ہرقسم کی قربانی دینے کابے پناہ جذبہ موجودتھااورلڑائی میں یہی جذبہ سب سے بہترین وارہواکرتاہے،اگرتعدادزیادہ بھی ہواورفوج کے پاس بہترین اسلحہ وغیرہ بھی ہومگرفوج میں جان کی قربانی دینے کاجذبہ موجودنہ ہوتوکامیابی ممکن نہیں ہواکرتی،جیت اس فوج کی ہواکرتی ہے جوحصول مقصدکے لئے فناہونے کے لئے کمربستہ ہوجائے ،اس طرح وہ تاریخ میں اپناخاص مقام پیدا کرجاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارکی تعدادوغیرہ میں برتری کے پیش نظرسیاست کاسہارابھی لیااورمدینہ میں موجودیہودی قبائل سے معاہدہ کرلیاکہ وہ لڑائی کے دوران بالکل غیرجانبداررہیں گے اورکفارکواپنے علاقے سے ہرگزنہ گزرنے دیں گے،مگرلڑائی کے دوران بنوقریظہ نے معاہدہ توڑدیاتونعیم رضی اللہ عنہ بن مسعودکی وساطت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاست کا سہارا لے کردشمن قبائل میں اختلاف پیداکرکے ان کی جانب سے لاحق خطرے کوٹال دیا،چونکہ محصورفوج کے لئے مشکوک باشندوں کی موجودگی ازحد نقصان دہ ثابت ہوتی ہوسکتی تھی اوراس سلسلہ میں ان سے لڑکرفوری بدلہ لینے کے مقابلہ میں اچھاسلوک نرمی اورسیاست زیادہ اہمیت رکھتے تھے ،مگرحصول مقصدکے بعد غداروں کے خلاف مناسب کاروائی کی جاسکتی تھی۔اورعہدشکنوں بنوقریظہ اورغزوہ احزاب کے سرکردہ یہودخیبرکے خلاف بھرپورکاروائی کرکے ان کی کمرتوڑدی گئی ۔

غزوہ احزاب کی تاریخ بارے اختلاف ہے کہ یہ کب واقع ہوا

قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ كَانَتْ فِی شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ

موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ غزوہ شوال چارہجری میں واقع ہوا۔

امام بخاری رحمہ اللہ ان کے ہم خیال ہیں ،ان کے پیش نظریہ روایت ہے

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَرَضَهُ یَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ یُجِزْهُ، وَعَرَضَهُ یَوْمَ الخَنْدَقِ، وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں غزوہ احدکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوااوراس وقت میں چودہ برس کاتھااس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرااس غزوہ میں شریک ہونامنظورنہیں فرمایا،پھرمیں غزوہ خندق والے دن پیش ہوااس وقت میں پندرہ برس کاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی اجازت فرمائی۔[16]

غزوہ احد بالاتفاق تین ہجری میں ہواتوظاہرہے کہ غزوہ خندق ایک سال بعدچارہجری میں واقع ہوا

وَقَالَ الشَّیْخ وَلِیّ الدّین بْن العراقی: وَالْمَشْهُور أَنَّهَا فِی السُّنَّةِ الرَّابِعَةِ

شیخ ولی الدین العراقی کہتے ہیں مشہوریہی ہے کہ یہ غزوہ چارہجری میں ہوا۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہی قول صحیح اورقابل اعتماد ہیں ،مگر ائمہ مغازی کا اس پراتفاق ہے کہ یہ غزوہ پانچ ہجری میں واقع ہوا،

لاحْتِمَال أَنْ یَكُونَ ابْنِ عُمَرَ فِی أُحُدٍ كَانَ فِی أَوَّلِ مَا طعن فِی الرَّابِعَةَ عَشَرَ وَكَانَ فِی الْأَحْزَابِ قَدِ اسْتَكْمَلَ الْخَمْسَ عَشْرَةَ[17]

اس کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں عجب نہیں کہ غزوہ احدکے وقت عبداللہ بن عمرپورے چودہ برس کے نہ ہوں بلکہ ہوسکتاہے کہ چودیں برس کا آغازہی ہواورغزوہ خندق کے وقت پورے پندرہ برس کے ہوں ،اس اعتبارسے غزوہ احداورغزوہ خندق میں دوبرس کا وقفہ ہوسکتاہے۔

أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ قَالَ لِلْمُسْلِمِینَ لَمَّا رَجَعَ مِنْ أُحُدٍ مَوْعِدُكُمُ الْعَامُ الْمُقْبِلُ بِبَدْرٍ فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ السَّنَةِ الْمُقْبِلَةِ إِلَى بَدْرٍ فَتَأَخَّرَ مَجِیءُ أَبِی سُفْیَانَ تِلْكَ السَّنَةِ لِلْجَدْبِ الَّذِی كَانَ حِینَئِذٍ وَقَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّمَا یَصْلُحُ الْغَزْوُ فِی سَنَةِ الْخَصْبِ فَرَجَعُوا

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غورہے غزوہ احدسے واپسی کے وقت ابوسفیان نے مسلمانوں سے کہاتھاکہ آئندہ برس بدرمیں ہمارااورتمہارامقابلہ ہوگا،جب دوسرے برس وعدہ کاوقت آیاتووعدہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقابلے کے لئے نکلے،ابوسفیان بھی مکہ مکرمہ سے باہرتونکلے مگرقحط سالی کا بہانہ کرکے واپس ہوگئے تھے،اس واقعہ کے ایک سال بعددس ہزارکی ایک بھاری جمعیت لیکرمدینہ پرحملہ آور ہوئے ےتھے جس کوغزوہ خندق یاغزوہ احزاب کہتے ہیں ،اس اعتبارسے معلوم ہواکہ غزوہ احداورغزوہ احزاب میں دوسال کاوقفہ ہے اوراسی پرائمہ مغازی متفق ہیں ۔[18]

أن ابن سعد وشَیْخُهُ قَالَا:كَانَت فِی ذِی الْقَعْدَةِ

ا بن سعداورواقدی کہتے ہیں یہ ذی القعدہ پانچ ہجری میں واقع ہوا۔[19]

وقَالَ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ: كَانَت فِی شَوَّال سَنَةٍ خَمْسَ، وَبِذَلِكَ جُزِمَ غَیْرُهُ مِن أَهْلِ الْمَغَازِی

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ یہ غزوہ شوال پانچ ہجری میں واقع ہوااس تاریخ پرتمام ائمہ مغازی اورعلماء سیرکااتفاق ہے ۔

بنوقینقاع کی جلاوطنی ،بنونضیرپرکسی جانی یامالی نقصان کے بغیرفتح ،غزوہ بدرثانیہ جس میں قریش کومسلمانوں کے رعب ودبدبہ سے مقابلہ کی ہمت ہی نہ ہوئی ،غزوہ دومتہ الجندل جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دورشام کے قریب تک چلے گئے مگردشمن قبائل مسلمانوں کی ہیبت سے لریزاں رہے اورمنتشرہوگئے،ایک سال سے زیادہ عرصلہ ان کاروائیوں سے قبائل عرب نے مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ دیکھ کر خاموشی اختیارکرلی، قریش مکہ بھی اب مسلمانوں کالوہامان چکے تھے ،ان کی طاقت اورہمت واستقلال سے سہم چکے تھے کہ ان سے ٹکربڑے بل بوتے کاکام ہے ،جس سے جزیرة العرب پرامن وسکون قائم ہوگیا،اس تمام عرصہ میں یہودمسلمانوں کی کاروائیاں کاجائزہ لیتے رہے مگرجب انہوں نے دیکھاکہ انہیں ہرطرف ہی کامیابیاں نصیب ہورہی ہیں اوران کی طاقت وحکمرانی کاسکہ عرب پربیٹھ گیاہے توان کے سینوں پرسانپ لوٹنے لگے ، چنانچہ قبیلہ بنونضیرنے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کا سخت دشمن بناہواتھااورمسلمانوں اوردین اسلام کودنیاسے مٹادیناچاہتاتھا انصارسے اپنابدلہ لینے اورمسلمانوں کاقلع قمع کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے اور وہ ان وسائل پر غوروحوض کرنے لگے جنہیں اختیار کر کے دوبارہ یثرب کے علاقہ میں اپنے قلعوں اوراپنے باغات وکھیتوں میں واپس جاسکیں ،آخر بڑی سوچ بچارکے بعدانہوں نے ایک عظیم الشان سازش تیارکی کہ مسلمانوں نے عرب قبائل کے چھوٹے چھوٹے منتشرگروہوں پرفتح توضرورپالی ہے اوران کارعب ودبدبہ بھی قائم ہوگیاہے لیکن اگرقریش مکہ اور تمام عرب قبائل کومسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے جمع کیاجائے اوروہ یکلخت اچانک مدینہ منورہ پرحملہ کردیں تومسلمان اپنی عددی کمتری،اسلحہ کے فقدان سے مقابلہ نہیں کرسکیں گے اور شکست کھاکرنیست ونابودہوجائیں گے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے بعدوہ اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد ہوجائیں ،

أَنَّهُ كَانَ مِنْ حَدِیثِ الْخَنْدَقِ أَنَّ نَفَرًا مِنَ الْیَهُودِ مِنْهُمْ سَلامُ بْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ النَّضْرِیُّ وَحُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ النَّضْرِیُّ، وَكِنَانَةُ بْنُ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ النَّضْرِیُّ، وَهَوْذَةُ بْنُ قَیْسٍ الْوَائِلِیُّ، وَأَبُو عَمَّارٍ الْوَائِلِیُّ، فِی نَفَرٍ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ وَنَفَرٍ مِنْ بَنِی وَائِلٍ، هُمُ الَّذِینَ حَزَّبُوا الأَحْزَابَ عَلَى رسول الله خَرَجُوا حَتَّى قَدِمُوا عَلَى قُرَیْشٍ بِمَكَّةَ، فَدَعَوْهُمْ إلَى حَرْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: إِنَّا سَنَكُونُ مَعَكُمْ عَلَیْهِ حَتَّى نَسْتَأْصِلَهُ

چنانچہ یہ خوفناک سازش تیار کرکے بنی نضیر کے بیس زعماءکی ایک جماعت جس میں سردار قبیلہ کنانہ بن ابی حقیق نضری ،سلام بن ابی الحقیق نضری ،حیی بن اخطب ،ہوذہ بن قیس،ابوعمار وائلی اور ابو عامرفاسق وغیرہ شامل تھے قریش کے پاس مکہ مکرمہ پہنچے اورقریش کے زخموں کوتازہ کیا اور انہیں اہل کے خلاف جنگ پر ابھارا اورانکی ہمت بڑھانے کے لئے کہنے لگے مسلمانوں سے ڈرنے یا سہم کربیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگاہم لڑنے والے لوگ ہیں اوراب ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں ، اورانہیں اطمینان دلایاکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استیصال تک تمہاراساتھ دیں گے اوراسی بات کاعہدکرنے کے لئے ہم تمہارے پاس آئے ہیں ۔[20]

قریش توہمیشہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیارتھے یہود کی اس طرح کی مکارانہ باتیں سنکرقریش میں ایک نیاجوش وولولہ پیداہوگیا،سوئے ہوئے جذبات پھربھڑک اٹھے ،ان کے دلوں میں اپنے سرداروں اوراپنی شکستوں کاانتقام لینے کوجذبہ تازہ ہوگیا،انہوں نے جب یہودکواپناہم خیال پایاتوخوب خاطرمدارت کی ۔

اسلام سے پہلے قریش مکہ اوریہودکے درمیان کوئی قدرمشترک نہ تھی،قریش مشرک اوربت پرست تھے اوریہودکوایک الٰہی قانون کے امین اورموحدہونے کادعویٰ تھاگوان میں ایک قبیلہ ایسابھی تھاجوعزیر علیہ السلام کواللہ کابیٹاسمجھ کران کی پرستش کرتاتھا،قریش تجارت پیشہ تھے اورتجارتی راستے کے اہم ناکے پریہودکواقتصادی برتری حاصل تھی اس لحاظ سے یہ برتری تجارتی مصلحتوں کی وجہ سے مکہ مکرمہ تک وسیع ہوگئی تھی اورمکہ مکرمہ کے قریشی کسی حدتک ان سے خائف بھی تھے،قیام اوراستحکام کی طرف بڑھتے ہوئے اسلام کے تیزقدموں نے دونوں کوبڑی حدتک مختلف اندازفکررکھنے والی جماعتوں کومل جانے کاایک مشترک پلیٹ فارم دے دیا،یہ پلیٹ فارم اسلام دشمنی تھی،اسی بنیادپرغزوہ احدکے موقع پر ابوسفیان کی سفارت کامیاب ہوئی اوربنوقینقاع کااستیصال ضروری قرارپایا،اب یہی وہ بنیادتھی جس پربنوقریظہ اورقریش کے رؤساکے درمیان مذاکرات ہوئے ، قریش کوایک بڑاذہنی شبہ یہ تھاکہ یہوداہل کتاب ہونے کی حیثیت سے مشرکین کی نسبت مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں ،ان کے کانوں میں وہ تمام باتیں پڑچکی تھیں جواسلام کی تعلیم کالاینفک جزوہیں اورجن کے مطابق کوئی مسلمان انبیاء کے متعلق بجزاحترام کے کوئی بات اپنے دل میں نہیں لاسکتا،دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہودیوں کایہ اعتقادمشہورومعلوم تھاکہ ایک نبی مبعوث ہونے والاہے اوریہودی اکثراس بات کاچرچاکیاکرتے تھے کہ اس کی بعثت کے بعدیہودی اس کی قیادت میں پورے عرب کوزیرکرلیں گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایاکہ آپ ہی وہ نبی موعودہیں جس کاانتظاریہودکررہے تھے اس شبہ کوصاف کرلینے کایہ موقع تھا،

عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ:جَاءَ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ وَكَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالُوا لَهُمْ: أَنْتُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ وَأَهْلُ الْعِلْمِ، فَأَخْبِرُونَا عَنَّا وَعَنْ مُحَمَّدٍ، فَقَالُوا: مَا أَنْتُمْ وَمَا مُحَمَّدٌ؟ فَقَالُوا: نَحْنُ نَصِلُ الْأَرْحَامَ، وَنَنْحَرُ الْكَوْمَاءَ، وَنَسْقِی الْمَاءَ عَلَى اللبَنِ، وَنَفُكُّ الْعُنَاةَ، وَنَسْقِی الْحَجِیجَ ، وَمُحَمَّدٌ صُنْبُورٌ، قَطَّعَ أَرْحَامَنَا، وَاتَّبَعَهُ سُرَّاقُ الْحَجِیجِ بَنُو غِفَارٍ، فَنَحْنُ خَیْرٌ أَمْ هُوَ؟ فَقَالُوا: أَنْتُمْ خَیْرٌ وَأَهْدَى سَبِیلًا.فَأَنْزَلَ اللَّهُ {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْكِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ كَفَرُوا هَؤُلاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلا

چنانچہ عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحیی بن اخطب اورکعب بن اشرف اہل مکہ کے پاس آئے توقریش نے ان سے پوچھاتم اہل کتاب اورصاحب علم ہوبھلابتاؤتوہم بہترہیں یامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )،انہوں نے کہاتم کیاہواوروہ کیاکرتے ہیں ؟تواہل مکہ نے کہاہم صلہ رحمی کرتے ہیں ،تیاراونٹنیاں ذبح کرکے دوسروں کوکھلاتے ہیں ،لسی پلاتے ہیں ،غلاموں کوآزادکرتے ہیں ،حاجیوں کوپانی پلاتے ہیں ،اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )توصنبورہیں ہمارے رشتے ناطے تڑواتے ہیں ،ان کاساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیاہے جوقبیلہ غفارمیں سے ہیں اب بتاؤہم اچھے ہیں یاوہ؟ ان بدبختوں نے فتوی دیا،کہاں سچ کہاں جھوٹ،کہاں حق کہاں باطل تم بہترہواورتم زیادہ سیدھے راستے پرہو،اس پراللہ تعالیٰ نےیہ آیت’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جِبْت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔‘‘ نازل فرمائی ۔[21]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:فَأَمَّا وَحْوَحُ وَأَبُو عَمَّارٍ وَهَوْذَةُ فَمِنْ بَنِی وَائِلٍ، وَكَانَ سَائِرُهُمْ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ،فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى قُرَیْشٍ قَالُوا هَؤُلَاءِ أَحْبَارُ یَهُودَ وَأَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكُتُبِ الْأُوَلِ فَسَلُوهُمْ: أَدِینُكُمْ خَیْرٌ أَمْ دِینُ مُحَمَّدٍ؟ فَسَأَلُوهُمْ ، فَقَالُوا: بَلْ دِینُكُمْ خَیْرٌ مِنْ دِینِهِ، وَأَنْتُمْ أَهْدَى مِنْهُ وَمِمَّنِ اتَّبَعَهُ،فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْكِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ كَفَرُوا هَؤُلاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلا. أُولَئِك الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ یَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِیرًا } إِلَى قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَآتَیْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِیمًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک روایت میں ہے بنووائل اوربنونضیرکے چندسردارجب اہل عرب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکانے میں لگے ہوئے تھے اورجنگ عظیم کی تیاریوں میں مصروف تھےاس وقت جب یہ لوگ قریش کے پاس آئے توقریشیوں نے انہیں عالم ودرویش جان کران سے پوچھاکہ بتاؤ ہمارادین بہترہے یامحمد کا ؟توان لوگوں نے قریشیوں کے ساتھ ساتھ پوری اسلامی دنیاکاذہن بھی اپنے بارے میں صاف کردیا،ان بدبختوں نے فتوی دیا ، کہاں سچ کہاں جھوٹ،کہاں حق کہاں باطل ، تمہارادین محمدکے دین سے بہتر ہے اورتم ان کے مقابلہ میں زیادہ حق پرہو۔اللہ تعالیٰ نےیہ آیت’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جِبْت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔ ‘‘ نازل فرمائی۔

اوراس کے علاوہ ہم انہیں اللہ کارسول مانتے ہی نہیں ہیں حالانکہ یہودخوب جانتے تھے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں ،جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے تھے تویہودی عالم ملاقات کے لئے گئے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچان بھی گئے تھے مگرمحض بغض وعناداورحسدکی وجہ سے انکارکردیااورسب سے بہترین بات تواللہ تعالیٰ کی ہے ، اس نے ان کے اس قول کاردفرمادیا

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَـمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۝۱۴۶ؔ [22]

ترجمہ:جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔

کیا آپ ان لوگوں کونہیں دیکھتے جنہیں آسمانی کتاب عطافرمائی گئی ہے مگر وہ جادو،کہانت (جوتش)فال گیری ،ٹونے ٹوٹکے،شگون اورمہورت اوردوسری وہمی وخیالی باتوں اورشیطانوں پرایمان لے آئے ہیں ،

قَطَنُ بْنُ قَبِیصَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: الْعِیَافَةُ، وَالطِّیَرَةُ، وَالطَّرْقُ مِنَ الجِبْتِ الطَّرْقُ: الزَّجْرُ، وَالْعِیَافَةُ: الْخَطُّ

قطن رضی اللہ عنہ بن قبیصہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھے عیافہ،طیرہ اورطرق جادواورکہانت میں سے ہیں طرق سے مراد پرندے اڑانااورعیافہ سے مرادلکیریں کھینچاہے۔[23]

حكم الألبانی: ضعیف

اورکفروحسد، ہٹ دھرمی سےکفارومشرکین کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایمانداروں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں ،ایسے ہی لوگ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے دھتکاردیا ہے اورجس کواللہ اپنی رحمت سے دورکردے تو پھرتم اس کاکوئی مددگارنہیں پاؤگے جواس کی سرپرستی کرے۔

یہودنے قریش کویہ جواب دے کر خوداپنے دین کی مخالفت کردی تھی جو ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کاداعی ہے،محض اس لئے کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کرکے انہیں مدینہ منورہ سے نکال باہرکرکے اپنے بھائیوں کودوبارہ وہاں آبادکردیں حالانکہ ان کے لئے بہتریہی تھاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک وفاق کی صورت میں زندگی بسرکریں اوردسیسہ کاریوں ،فتنہ پردرازیوں اوردشمنان اسلام سے میل جول سے بازرہیں ،بہرحال یہوداس طرح کی چکنی چپڑی باتیں کرتے رہے ،قریش کوجھوٹے بہلاوے دیتے رہے جس سے متاثرہوکرغزوہ بدراورغزوہ احدمیں اپنی شکستوں اورجانی ومالی نقصانات کی تلافی کے لئے ایک بارپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ پرآمادہ ہو گئےاورکہاجب تک جان میں جان ہے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے ہماری جنگ ہے،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کادین پھلے پھولے یہ کبھی نہیں ہوسکتا،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے دنیاکوپاک کرناہے اور اس کے دین کانام ونشان تک مٹاناہے،جب یہودکے حسب منشا جنگ کافیصلہ ہوگیاتودن وتاریخ بھی طے ہو گئی۔

وَخَرَجَ كِنَانَةُ بْنُ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ یَسْعَى فِی بَنِی غَطَفَانَ وَیَحُضُّهُمْ عَلَى قِتَالِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ لَهُمْ نِصْفَ ثَمَرِ خَیْبَرَ

یہودیوں کے زعمانے قریش کوہی آگ لگانے پربس نہیں کیاقریش سے فارغ ہوکریہ وفدقیس عیلان کے قبیلہ غطفان کے پاس پہنچا اور وہاں بھی فتنہ وفسادکے بیج ڈالے ،دھواں دھار تقاریر کیں ،لوگوں کومذہبی وعلاقائی عصبیتوں کو جگایااورانہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ پرابھارااورانہیں لالچ دلاتے ہوئے کہاکہ اگرتم ہماراساتھ دوگے توخیبرکی آدھی پیداوارتمہیں دے دیاکریں گے۔[24]

اوران سے قریش کی آمادگی کابھی ذکرکیا،یہ قبیلہ بھی مسلمانوں کے لئے پہلے سے تیارتھا،اس قبیلہ کے رئیس عامرنے پہلے ہی مسلمانوں کوحملہ کی دھمکی دے رکھی تھی،چنانچہ جب یہودنے خیبرکی آدھی کھجوروں کی پیشکش کی تو انہوں نے بھی فوراًان کی دعوت قبول کرلی۔

اس طرح یہ وفددوسر ے قبائل بنی سلیم جن کی قریش سے قرابت داری تھی،بنی اسدجوغطفان کے حلیف تھے ،بنی فزارہ، بنی اشجع اوربنی مرہ کے پاس بھی گئے اور ان سب کو نئے دین سے ہوشیاروخبردارکیااوراپنے مذہب پرکٹ مرنے کاجوش دلایا۔

ان یہودی زعماء کی کوششوں سے اب سارا عرب جن میں مشرکین بھی تھے اوریہودبھی سب ایک ہو چکے تھے،سارے شیطانی ارادے اورناپاک حوصلے اب اسلام کاچراغ بجھادینے پرمتفق تھے،خیبرکے یہودیوں اورکفارمکہ نے مدینہ منورہ میں موجودیہودی قبائل کے ساتھ بھی سازبازشروع کردی ،انہیں مدینہ کے مسلمانوں کے حالات کی اطلاع ہرلحظہ مل رہی تھی ،مدینہ منورہ کے اسلام دشمن یہودی قبائل اورمنافقین کفارمکہ کے لئے درپردہ ففتھ کالم کاکرداراداکررہے تھے ،مگروہ کھلم کھلادشمنی کا اظہار نہیں کرسکتے تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کی عسکری قوت سے خائف تھے ،کفارمکہ ،دشمن یہودی قبائل اورمنافقین کے جائزہ کے مطابق قلیل تعدادمسلمانوں کے مستقرکونیست ونابودکرنے اوران کی عسکری قوت کوتوڑنے کایہ بہترین موقع تھا،کفارکی عورتوں نے اپنے زیورتک فروخت کردیئے ،چنانچہ وقت مقررہ پرجنوب کی طرف سے قریش ،بنوکنانہ ، اہل تہامہ اوردیگرحلیف قبائل جن کی تعدادچارہزارتھی سفیان بن حرب کی قیادت میں روانہ ہوا ، جب یہ لشکرمَرِّ الظَّهْرَانِ پرپہنچاتوبنوسلیم بھی ان میں شامل ہوگئے،مشرق کی طرف سے قبیلہ غطفان کے قبائل بنوسلیم، بنو فزارہ،بنومرہ حارث بن عوف بن ابی حارثہ کی قیادت میں ،بنی اشجع واہل نجدچھ ہزارکی نفری کے ساتھ مسعودبن دخیلہ بن نویرہ بن طریف کی کمان میں تھا ،بنوسعداوربنواسد بڑھے ان کی قیادت مشہورسردار عینیہ بن حصن بن حذیفہ کر رہا تھا،بنی مرہ حارث بن عوف بن ابی حارثہ کی قیادت میں ،اوربنی اشجع واہل نجدچھ ہزارکی نفری کے ساتھ مسعودبن رخیلہ بن نویرہ بن طریف کی کمان میں تھا ،اورشمال سے بنی نضیراوربنوقینقاع کے وہ یہودی آئے جومدینہ منورہ سے جلاوطن ہوکر خیبراوروادی القری میں آبادہوئے تھے

وَكَانَ الْقَوْمُ جَمِیعًا الّذِینَ وَافَوْا الْخَنْدَقَ مِنْ قُرَیْشٍ، وَسُلَیْمٍ، وَغَطَفَانَ، وَأَسَدٍ، عَشَرَةَ آلَافٍ

اس طرح قریش ،بنوسلیم ،غطفان اوراسدوغیرہ مل کرجنہوں نے غزوہ خندق میں حصہ لیادس ہزارہوگئی۔[25]

چنانچہ دس ہزار خون کے پیاسے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر جس میں سات ہزارشمشیر زن ، ایک ہزار گھڑ سوار،دوہزارسانڈنی سوارجیسے حیران کن لڑاکا کاروائی کرنے والے دستے موجودتھے ،جن کے پاس سامان رسداورفالتوسامان حرب کی کوئی کمی نہ تھی

وَرَئِیسُ الْمُشْرِكِینَ یَوْمَئِذٍ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ

اس لشکرکفارمیں کمانڈرانچیف ابوسفیان بن حرب تھا۔

اوراس کی زیرکمان عنیہ بن حصن ، فزاری ،طلیحہ ،خالدبن ولید،عمروبن العاص ،ضراربن خطاب ،حارث بن لوف ،سفیان بن عبدالشمس ،جیرہ ،نوفل ،عمروبن عبدوداورعکرمہ بن ابوجہل جیسے دلیر سردار شامل تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کومٹانے کے عزم کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف بڑھا ،ان مختلف قبائل کا مدینے پر حملے کے نتائج کے متعلق بہت کم لوگوں کوشبہ رہاہوگا۔

مسلمانوں کے بہی خواہ مکہ مکرمہ سے پل پل ہرقسم کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارسال کررہے تھے ،یہ خبررسانی کے مضبوط نظام کی موجودگی کاثبوت ہے ،لشکرکفارتیاریوں میں مشغول تھاوہ مسلمانوں پراچانک حیران کن حملہ کرناچاہتے تھے اس لئے انہوں نے اپنی تیاری اورروانگی کومخفی رکھنے کی پوری کوشش کی مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہرقسم کی معلومات حاصل ہورہی تھیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارکی جنگ کے ارادہ سے روانگی کی اطلاع سنی کہ سارے عرب سے مسلمانوں کے خون کے پیاسے سیلاب کی طرح مسلمانوں کونیست ونابود کرنے اور مدینہ منورہ کوتہس نہس کرنے کے لئے بڑھے چلے آرہے ہیں ، تو آپ نے فوراًتمام حالات کاجائزہ لیا

وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ یَوْمَئِذٍ ثَلَاثَةَ آلَافٍ

اسلامی لشکرکی کل تعدادصرف تین ہزارتھی۔[26]

ان کے پاس کفارکے مقابلے میں سامان حرب کی بھی بہت کمی تھی ،ان کے پاس صرف چھتیس گھوڑے تھے ،کسی کے پاس تلوارتھی توکسی کے پاس نیزہ یاتیرکمان،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوچ میں پڑگئے کہ اس لشکرجرار کامقابلہ کیسے کریں ؟ان کی غارت گری سے محفوظ رہنے کی کیاترکیب کریں ، بربادیوں کے اس سیلاب کی روک تھام کیسے کریں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت میں داخل تھاکہ پہلی خبرملنے کے بعداپنے صحابہ میں سے معتمدترین ساتھی کوتصدیق کے لئے روانہ فرماتے تھے،تصدیق کے بعداگرضرورت محسوس فرماتے توجنگی کونسل کااجلاس طلب کرتے،اکثریہ ہواکہ اجلاس طلب نہیں کیاگیابلکہ سپریم کمانڈرکی حیثیت سے لشکرکوبراہ راست اقدام کاحکم دے دیاگیا،اجلاس طلب ہوتاتومنافقین کی موجودگی کے احساس کی وجہ سے یااپنے اصل منصوبے کوپوری طرح رازمیں رکھنے کی غرض سے اپنی رائے کااظہارنہ فرماتے،یااگرضروری ہوتاتوایسے مبہم اورمختلف المعنی الفاظ ادافرماتے جن کے بہت سے معنی نکل سکتے تھے اورجن کے استعمال سے منصوبے کے واضح خدوخال سننے والے کی سمجھ میں نہ آتےالبتہ مجلس مشاورت میں شامل ہونے والے تمام ارکان کے مشورے کوتوجہ سے سماعت فرماتے،اگرمشورہ پسندخاطرہوتاتواسے قبول فرمالیتے ورنہ مشورہ دینے والے کی دل شکنی کئے بغیراس سے اغراض فرماتے۔

اسلام عرب کی لامرکزیت اورلاقانونیت کے لئے اتنابڑاخطرہ بن گیاتھاکہ کوئی قبیلہ اس کے احساس وخیال سے خالی نہ تھا،یہودخیبرکی کوششوں نے اسی احساس وخیال کا استحصال کیا

فَلَمَّا بَلَغَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فصولهم مِن مكّة نَدَبَ النَّاسَ وَأُخْبِرُهُم خَبَرَ عَدُوِّهِمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ

اورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیاکہ یہ سیلاب آئے بغیرنہیں رہے گاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کومشاورت کے لئے طلب کیا اورمدینہ منورہ کی طرف بڑھتے لشکر کے بارے میں اگاہ کرکے انکی رائے طلب کی۔

سب نے کھلے میدان میں لڑنے کے خطرات ،اپنی عددی قوت اوراسلحہ کی کمی سے اگاہ کیا ،اورفیصلہ ہواکہ مدینہ سے باہرنہ نکلاجائے بلکہ مدینہ میں رہ کرہی داخلی دروازوں ،گلی کوچوں ،مکانوں کی چھتوں سے ہی مقابلہ کیاجائے، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایران کے رہنے والے تھے اوروہاں کے کچھ جنگی طریقوں سے واقف تھے ،اہل فارس جنگی مدافعت کے لئے اپنے یہاں خندقیں کھودایا کرتے تھے

أَوَّلُ مَنْ حَفَرَ الْخَنَادِقَ فِی الْحُرُوبِ: منوشهرُ بْنُ أیرجَ

سب سے پہلے منوشہر بن ایرج نے جنگی مقاصدکے لئے خندقیں کھودواکریہ طریقہ جنگ ایجادکیاتھا۔[27]

فَأَشَارَ عَلَیْهِ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ بِحَفْرِ خَنْدَقٍ یَحُولُ بَیْنَ الْعَدُوِّ وَبَیْنَ الْمَدِینَةِ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومشورہ دیا(کہ کھلے میدان میں نکل کر اتنے بڑے لشکرکامقابلہ کرنابہترنہیں )بہتریہ ہے کہ خندق کھودی جائےجومدینہ منورہ اوردشمن کے درمیان حائل ہو جائے(جس کے اندر مسلمانوں کالشکرجمع ہواوراندرسے ہی مدافعت کرتے رہیں تودشمن کایہ لشکر ہمیں کوئی بڑانقصان نہیں پہنچاسکے گا )ان کامشورہ سب نے پسند کیا۔[28]

قَالَ سَلْمَانُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا كُنَّا بِفَارِسٍ إِذَا حُوصِرْنَا خَنْدَقْنَا عَلَیْنَا

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں سلمان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومشورہ دیاکہ اہل فارس جب گھیرلئے جاتے تھے تووہ دشمن کے آگے خندق کھودلیاکرتے تھے۔ [29]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاایک اوراہم پہلوجوپوری دنیاکے لئے بالعموم اورمسلمانوں کے لئے بالخصوص توجہ طلب ہے ،یہ ہے کہ آپ جوفیصلہ فرمالیتے اس پرسختی سے عمل کرتے تھے،اس کے تمام تقاضوں کی چھوٹی سے چھوٹی جزئیات پرنگاہ رکھتے اورانہیں کسی بھی رکاوٹ کی پرواہ کئے بغیرپورافرماتے تھے ،جب خندق کھودنے کافیصلہ ہو گیا تو اس کی تیاری بھی عادت شریف کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست نگرانی میں ہوئی۔

مدینہ منورہ تین اطراف سے لاوے کی چٹانوں ،پہاڑوں مکانوں اورکھجورکے درختوں سے گھرا ہواتھالہذااس طرف سے فوج کے حملہ کاامکان کم تھا،جنوب میں باغات کی کثرت تھی ،جنوب مشرق کی جانب باغ،کھیت اورمختلف یہودقبائل کے مکان اور قلعے تھے ،اس لئے اس جانب سے بھی حملے کااندیشہ کم تھا،صرف شمال کی طرف جبل احد کا مشرقی ومغربی رخ پر کھلامیدان تھااوراسی سمت سے دشمن کی بھاری جمعیت کے حملے کاخدشہ تھا،اس کے علاوہ یہودقبائل سے لڑائی کے دوران غیر جانبداررہنے کامعاہدہ بھی تھا،بنی قریظہ کے ساتھ معاہدہ کو خاص اہمیت دی گئی کیونکہ عقب سے دشمن اس راستے سے حیران کن حملہ کرسکتاتھا،مغرب کی جانب علاقہ ٹوٹاپھوٹااورپھرمعمولی روکاوٹ بنا کر دشمن کی پیش قدمی کو روکا جا سکتا تھا ، حالات کے تجزیہ میں موسم کوبھی خاص اہمیت دی گئی کیونکہ عنقریب سردہواؤں کاموسم شروع ہونے والاتھا،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھاکہ لشکر کفاربارش اورسردہواؤں کی تاب نہ لاکرزیادہ عرصہ تک مدینہ کامحاصرہ کرنے کے قابل نہ رہ سکے گا اور کفارکوزیادہ عرصہ تک بغیرکسی فیصلہ کن جھڑپ کے محاصرہ میں الجھا لیاگیاتوموسم کی خرابی اورسامان کی کمی کی وجہ سے وہ ناکام ونامرادلوٹ جائیں گے ،اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی منصوبہ بنایاکہ چھوٹے چھوٹے گھات لگانے والے اورلڑاکاگشتی دستے دشمن کے پڑاؤاورآمدورفت کے راستوں پراچانک ضربیں لگاکرکفارکی مشکلات میں اضافہ کرسکتے ہیں ،حالات کامکمل جائزہ لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اطراف میں شامی رخ پرجلدسے جلدخندق کھودنے کاحکم دیا ،سردیوں کاموسم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ شہرسے نکلے اوراسی طرف مستعدی سے خندق کھودنے کی تیاریاں شروع کردیں ،خندق کاآغازحرہ واقم (حرہ بمعنی لاوا)کی سنگلاخ زمین سے کیاگیا

خَطَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْخَنْدَقَ لِكُلِّ عَشْرَةِ أُنَاسٍ عَشْرَةُ أَذْرُعٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کانشان ڈالاپھرہردس دس آدمیوں میں دس دس گز یاچالیس چالیس ہاتھ کے ٹکڑے تقسیم فرمادیئے۔[30]

وَاسْتَعَارُوا مِنْ بَنِی قُرَیْظَةَ آلَةً كَثِیرَةً مِنْ مَسَاحِی، وَكَرَازِینَ وَمَكَاتِلَ، یَحْفِرُونَ بِهِ الْخَنْدَق

مگرمسلمانوں کی بے سروسامانی کایہ عالم تھاکہ کھدائی کاسامان بنی قریظہ سے مستعارلیاگیا۔[31]

بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں مدینہ منورہ کے گردخندق کی کھدائی کے لئے سب سے پہلے کدال خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کراٹھایاتھا۔

مٹی ڈھونے کے لیے ٹوکریوں کاکوئی انتظام نہ تھالوگ کپڑوں میں مٹی ڈھوتےرہے،سامان خوراک کی کمی نے پیٹ پرپتھرباندھنے کی نوبت پہنچادی مگران تمام تکالیف کے باوجودمسلمانوں نے اپنے ایمان اوراطاعت رسول کاوہ ثبوت پیش کیاجوقیامت تک کے لیے ایک نمونہ ہے۔

وَكَانَ الْخَنْدَقُ مَا بَیْنَ جَبَلِ بَنِی عُبَیْدٍ بِخُرْبَى إلَى رَاتِجٍ، فَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ یَحْفِرُونَ مِنْ جَانِبِ رَاتِجٍ إلَى ذُبَابٍ، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ تَحْفِرُ مِنْ ذُبَابٍ إلَى جَبَلِ بَنِی عُبَیْدٍ،وَكَانَ سَائِرُ الْمَدِینَةِ مُشَبّكًا بِالْبُنْیَانِ فهی كَالْحِصْنِ.وَخَنْدَقَتْ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ علیها بما یَلِی رَاتِجٍ إلَى خَلْفِهَا، حَتّى جَاءَ الْخَنْدَقُ من وراء المسجد. وخندقت بَنُو دِینَارٍ مِنْ عِنْدِ خُرْبَى إلَى مَوْضِعِ دَارِ ابْنِ أَبِی الْجُنُوبِ الْیَوْمَ

خندق جبل بنی عبیدسے راتج تک کھودی گئی تھی،دیاربنی حارثہ کے قلعہ راتج سے جبل ذباب تک کاحصہ خندق کی کھودائی کے لئےمہاجرین کے سپردہوااورجبل ذباب سے جبل بنی عبید سے تک کاعلاقہ خندق کی کھودائی کے لئے انصارکے حوالے کیاگیا باقی مدینے میں عمارتیں باہم ملی ہوئی تھیں جس سے ایک قلعہ معلوم ہوتاتھا،بنی عبداشہل نے راتج سے اس کے پیچھے تک خندق کھودی اس طرح مسجدکی پشت تک آگئی،بنودینارنے خرباسے اس مقام تک خندق کھودی جہاں آج ابن ابی الجنوب کامکان ہے۔[32]

کھدائی کے وقت قدرتی نشیب وفراز کا پورا پورا استعمال کیاگیا۔

وَتَنَافَسَ النّاسُ یَوْمَئِذٍ فِی سَلْمَانَ الْفَارِسِیّ،فَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ: سَلْمَانُ مِنّا! وَكَانَ قَوِیّا عَارِفًا بِحَفْرِ الْخَنَادِقِ. وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: هُوَ مِنّا وَنَحْنُ أَحَقّ بِهِ! فَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَوْلُهُمْ فَقَالَ: سَلْمَانُ رَجُلٌ منا أهل الْبَیْتِ

اس موقع پرمہاجرین وانصارمیں سلمان رضی اللہ عنہ کے متعلق اختلاف پیداہوگیاجوقوی اورمضبوط شخص تھے ،انصارنے کہاکہ سلمان رضی اللہ عنہ ہم میں سے ہیں ،مہاجرین نے کہاہم میں سے ہیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سلیمان رضی اللہ عنہ ہمارے اہل بیت میں داخل ہیں ۔[33]

یہ روایت مستدرک حاکم۶۵۳۹، المعجم الکبیرللطبرانی۶۰۴۰،ابن سعد ۸۲؍۴، تاریخ أصبهان۸۰؍۱، دلائل النبوة للبیہقی ۴۰۰؍۳،اور تفسیرطبری ۲۲۳؍۲۰،تاریخ طبری۵۶۸ ؍۲میں ہے اور کثیربن عبداللہ بن عمروبن عوف المزنی عن ابیہ عن جدہ کی سندسے روایت کیاہےاوراس قصہ کوذکرکیاہے۔

یہ سندکمزورہے اس میں کثیربن عبداللہ بن عمروبن عوف المزنی ہے،

امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منکرالحدیث کہاہے،امام ابن معین نے فرمایایہ کچھ بھی نہیں ،امام نسائی نے کہایہ ثقہ نہیں ،امام شافعی اورامام ابوداودنے فرمایایہ جھوٹ کاایک رکن ہے،امام دارقطنی اوران کے علاوہ دیگر(محدثین)نے فرمایایہ متروک راوی ہے،امام ابن حبان نے فرمایایہ بہت زیادہ منکرالحدیث ہے،امام ذہبی نے فرمایاکمزورراوی ہے۔[34]

ضعیف جدا

شیخ البانی نے کہاہے سخت ضعیف ہے۔[35]

مسلمان فوراًہی کدال پھاوڑوں کابندوبست کرکے دلجمعی سے کھدائی کے کام میں لگ گئے

وَاسْتَعَارُوا مِنْ بَنِی قُرَیْظَةَ آلَةً كَثِیرَةً مِنْ مَسَاحِی، وَكَرَازِینَ وَمَكَاتِلَ، یَحْفِرُونَ بِهِ الْخَنْدَقَ

بنی قریظہ (جو اس وقت مسلمانوں کے حلیف تھے)سے مسلمانوں نے کھدائی کا سامان استعارة لیا تاکہ خندق کی کھدائی از جلد کی جاسکے۔[36]

کھدائی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخیمہ جبل ذباب پر کھڑا کر دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود بنفس نفیس خندق کھودنے اورمٹی ڈھونے میں مشغول ہوگئے ،

ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب آپ خندق کھودتے تھے تو یوں فرماتے تھے ۔

بِسْمِ اللهِ وَبِهِ بَدَیْنَا،،وَلَوْ عَبَدْنَا غَیْرَهُ شقینا

بسم اللہ،اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں ،  ،مبادااگراس کے سواکسی اورکی عبادت کریں توبڑے ہی بدنصیب ہیں

فحبذا رَبًّا وَحب دِینَا

وہ کیاہی اچھارب ہے اوراس کادین کیساہی اچھادین ہے۔[37]

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی سردہواؤں اورکئی کئی دن کے فاقوں کے باوجودنہایت جانفشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کھودنے میں مصرف تھے ،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَعَلَ المُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ الخَنْدَقَ حَوْلَ المَدِینَةِ، وَیَنْقُلُونَ التُّرَابَ عَلَى مُتُونِهِمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمہاجرین و انصارمدینہ منورہ کے گرد خندق کی کھودائی میں مصروف تھے ،مٹی کوکندھوں پراٹھاکرڈھورہے تھےاوریہ شعرپڑھتے جاتے تھے۔

نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدَا ،عَلَى الإِسْلاَمِ مَا بَقِینَا أَبَدَا

ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمدکے ہاتھ پربیعت کی ہے،جب تک جان میں جان ہے جہادکرتے رہیں گے

اور رسول اللہ ان کو جواب دیتے جاتے۔

اللهُمَّ إِنَّهُ لاَ خَیْرَ إِلَّا خَیْرُ الآخِرَهْ ،فَبَارِكْ فِی الأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ

اے اللہ زندگی توحقیقت میں آخرت کی زندگی ہے ،انصاراورمہاجرین میں برکت فرما۔[38]

ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے۔

 اللهُمَّ لاعَیْشُ إلا عَیْشُ الآخِرَة،فَأَكْرِمِ الأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ

اے اللہ!حقیقی عیش وآرام تو آخرت کی زندگی میں ہے،پس انصاراورمہاجرین پررحم وکرم فرما۔[39]

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔

اللهُمَّ إِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْآخِرَةِ،فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ

اے اللہ!اے اللہ بیشک حقیقی خیروبھلائی آخرت کی خیروبھلائی ہے،پس انصاراورمہاجرین کوسیدھی راہ پرچلادے۔[40]

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک ٹھنڈی صبح کومہاجرین وانصارخندق کھودنے کاکام کررہے تھے اورمٹی اپنے کاندھوں پراٹھااٹھاکرڈال رہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موجودہ تکالیف، بھوک اور دلجمعی سے یہ پرمشقت کام دیکھ کر تسلی کے لیے فرمایاکہ اصل آرام آخرت کاآرام ہے،دنیاکی تکالیف پرصبرکرنامومن کے لیے ضروری ہے۔

اللهُمَّ إِنَّ العَیْشَ عَیْشُ الآخِرَهْ،فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ

اے اللہ بیشک حقیقی خیروبھلائی آخرت کی خیروبھلائی ہے،پس انصارومہاجرین کی مغفرت فرما

حُمَیْدٍ سَمِعْتُ أَنَسًا قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْخَنْدَقِ فَإِذَا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ فِی غَدَاةٍ بَارِدَةٍ وَلَمْ یَكُنْ لَهُمْ عَبِیدٌ یَعْمَلُونَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ النَّصَبِ والجوع قال:

حمیدکہتے ہیں انس رضی اللہ عنہ سے سناجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوکبھی علی الصباح سردی سے کانپتے اوردھوپ میں پسینے سے شرابوراوربھوک کے پیاسے رہنے کے باوجود انتہائی تندہی سے خندق کی کھدائی میں مصروف دیکھاتوفرمایا۔

اللهُمَّ إِنَّ العَیْشَ عَیْشُ الآخِرَهْ،فَاغْفرْأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ

اے اللہ بیشک حقیقی خیروبھلائی آخرت کی خیروبھلائی ہے،پس انصارومہاجرین کی مغفرت فرما۔[41]

اللهُمَّ إِنَّ العَیْشَ عَیْشُ الآخِرَهْ،قَالَ بن بطال هُوَ قَول بن رَوَاحَةَ ،بَعْدَهُ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَةْ وَكِلَاهُمَا غَیْرُ مَوْزُونٍ ،وَلَعَلَّ أَصْلَهُ فَاغْفِرْ لِلَانْصَارِ وَالْمُهَاجِرَةْ

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں اے اللہ بیشک حقیقی خیروبھلائی آخرت کی خیروبھلائی ہے،ابن بطال کہتے ہیں یہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کاقول ہےاوراس کے بعدپس انصارومہاجرین کوبرکت دےغیرموزون ہے اصل دعایہ تھی پس انصارومہاجرین کوبخش دے۔[42]

انصارومہاجرین نے جہادفی سبیل اللہ سے محبت کے اظہارکے لئے یہ اشعارپڑھے ۔

نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدَا ،عَلَى الجِهَادِ مَا بَقِینَا أَبَدَا

ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمدکے ہاتھ پربیعت کی ہے،جب تک جان میں جان ہے جہادکرتے رہیں گے۔[43]

عام طورپردیکھاگیاہے کہ کوئی بھی لیڈرعام افرادقوم کے ساتھ مل کرخودکام نہیں کرتااوراس میں وہ اپنی ذلت وتوہین سمجھتاہے لیکن اسلام نے ایسے معاشرے کوپیش کیاہے جس میں لیڈراورعوام میں حقیقی مساوات ملتی ہے،اس کی مثال کسی دوسری جگہ تلاش کرنابے سودہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ دین ودنیاکے سردارتھے لیکن اس موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کی طرح مٹی بھی ڈھوئی ،کدال چلائے،مسلم سپاہ اگرفاقہ سے تھی تواس کاسربراہ بھی فاقہ کرتاتھا،جنگ ہویاامن ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاشرے کے ایک عام فردتھے اورکسی مشکل سے مشکل کام کے بجالانے میں کوئی عارنہ تھا،

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الأَحْزَابِ یَنْقُلُ التُّرَابَ، وَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَیَاضَ بَطْنِهِ، وَهُوَ یَقُولُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ احزاب کے موقع پرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنفس نفیس خندق کھودتے ہوئے دیکھا اس کے اندر سے آپ بھی مٹی اٹھااٹھاکرلارہے تھے،آپ کے بطن مبارک کی کھال مٹی سے اٹ گئی تھی ،آپ کے(سینے سے پیٹ تک)گھنے بالوں (کی ایک لکیرتھی)میں نے خودسناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے رجزیہ اشعار(جس میں اللہ کی حمدوستائش اورلڑائی میں ثابت قدمی کی دعابیان کی گئی ہے)مٹی اٹھاتے ہوئے باآوازبلندپڑھتے جاتے تھے ۔

وَاَللَّهِ لَوْلَا اللهُ مَا اهْتَدَیْنَا ، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا

اے اللہ!اگرتونہ ہوتاتوہم نہ ہدایت پاتے، نہ صدقے کرتے،نہ نمازیں پڑھتے

فَأَنْزِلَنْ سَكِینَةً عَلَیْنَا ، وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إنْ لَاقَیْنَا

لہذاہم پرسکینت(اطمینان)نازل فرما،اوردشمن سے مقابلہ ہوتوہمیں ثابت قدم ر

إنَّا إذَا قَوْمٌ بَغَوْا عَلَیْنَا ، وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَیْنَا

یہ لوگ ظلم کی نیت سے ہم پرچڑھ آئے ہیں ،اگریہ ہم کوگمراہی اورشرک پرمجبورکریں توہم قطعا ًانکارکریں گے

اورأَبَیْنَا ٓ،أَبَیْنَا بارباربابلندآوازسے فرماتےرہے۔[44]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودبھی خندق کی کھودائی میں شریک تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوساتھ دیکھ کرمخلص ساتھیوں میں اورجوش وخروش پیداہوتا اوروہ نہایت مستعدی سے کام کرتے

رِجَالٌ مِنْ الْمُنَافِقِینَ، وَجَعَلُوا یُوَرُّونَ بِالضَّعِیفِ مِنْ الْعَمَلِ، وَیَتَسَلَّلُونَ إلَى أَهْلِیهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا إذْنٍ

جبکہ منافقین کام میں سستی اورٹال مٹول سے کام لیتے اوررسول اللہ کی اجازت کے بغیر پہلے ہی کام چھوڑ کرواپس ہوجاتے ،ان پریہ مشقت گراں گزرتی تھی اوروہ تعویق وتاخیرسے کام لیتے تھے۔[45]

ثلاثة آلاف،وَقَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: خَرَجَ فِی سَبْعِمِائَةٍ، وَهَذَا غَلَطٌ

تین ہزارابن اسحاق کے مطابق سات سوساتھیوں کولے کرنکلے لیکن یہ غلط ہے۔ [46]

وَتِسْعِمِائَةِ

یاصرف نوسو(ابن حزم رحمہ اللہ )متبرک ہاتھ بھوکے پیاسےدن رات خندق کھودنے میں مصروف تھے۔

جَابِرًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ، وَلَبِثْنَا ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ لاَ نَذُوقُ ذَوَاقًا

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاس وقت(خندق کھودتے ہوئےبھوک کی شدت کی وجہ سے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیٹ پتھرسے بندھاہواتھاتین دن سے ہمیں ایک دانہ کھانے کے لئے نہیں ملاتھا۔[47]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: یُؤْتَوْنَ بِمِلْءِ كَفِّی مِنَ الشَّعِیرِ، فَیُصْنَعُ لَهُمْ بِإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، تُوضَعُ بَیْنَ یَدَیِ القَوْمِ، وَالقَوْمُ جِیَاعٌ، وَهِیَ بَشِعَةٌ فِی الحَلْقِ، وَلَهَا رِیحٌ مُنْتِنٌ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے پاس ایک مٹھی جو لایا جاتا تھا جس کوایسی چکنائی کے ساتھ پکادیاجاتاتھاجس کامزہ بھی بگڑچکاہوتاتھایہی کھانااہل خندق کے سامنے رکھ دیاجاتاتھا،صحابہ  رضی اللہ عنہم بھوکے ہوتے تھے ،اور(یہ کھانا)جس سے (چکنائی کی)مہک پھوٹتی رہتی تھے اور زبان کے لئے بے لذت ہوتاتھا(بھوک کی شدت سے کھالیتے تھے ) ۔[48]

عَنْ أَبِی طَلْحَةَ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم عَنِ بطنه عَنْ حَجَرَیْنِ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے بیتاب ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی اوراپنے پیٹ سے کپڑاکھول کردکھلایاجہاں ایک ایک پتھر باندھاہواتھا(عرب کی عادت تھی کہ سخت بھوک کی حالت میں پیٹ پرپتھرباندھتے تھے جس سے کمرنہیں جھکنے پاتی تھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شکم سے کپڑا ہٹا کر دکھلایاآپ کے شکم مبارک پردوپتھربندھے ہوئے تھے۔ [49]

اس روایت میں ایک راوی سیاربن حاتم عنزی ضعیف ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

هَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ:جِئْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا مَعَ أَصْحَابِهِ یُحَدِّثُهُمْ، وَقَدْ عَصَّبَ بَطْنَهُ بِعِصَابَةٍ ، قَالَ أُسَامَةُ: وَأَنَا أَشُكُّ عَلَى حَجَرٍ

اورصحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہےایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیامیں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہیں اورپیٹ پر ایک پٹی باندھے ہوئے ہیں ، راوی اسامہ کہتاہے کہ روایت میں شایدیہ الفاظ بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑاپتھرپرباندھ رکھاتھا۔[50]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَمَّا حُفِرَ الخَنْدَقُ رَأَیْتُ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِیدًا،فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِی، فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَیْءٌ؟ فَإِنِّی رَأَیْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِیدًا،فَأَخْرَجَتْ إِلَیَّ جِرَابًا فِیهِ صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ،وَلَنَا بُهَیْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا، وَطَحَنَتِ الشَّعِیرَ،فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِی، وَقَطَّعْتُهَا فِی بُرْمَتِهَا،ثُمَّ وَلَّیْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: لاَ تَفْضَحْنِی بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَنْ مَعَهُ، فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ ذَبَحْنَا بُهَیْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ،فَصَاحَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا أَهْلَ الخَنْدَقِ، إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا، فَحَیَّ هَلًا بِهَلّكُمْ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب خندق کھودی جارہی تھی تومیں نے معلوم کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوک میں مبتلاہیں ، میں فوراًاپنی بیوی کے پاس آیااورکہاکیاتمہارے پاس کوئی کھانے کی چیزہے؟میراخیال ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوکے ہیں ،میری بیوی ایک تھیلانکال کرلائیں جس میں ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جو تھےاورگھرمیں ہماراایک بکری کابچہ بھی بندھاہواتھا،میں نے بکری کے بچے کوذبح کیااورمیری بیوی نے جوکوچکی پرپیسا، جب میں فارغ ہواتووہ بھی جوپیس چکی تھیں میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹامیری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کردی تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرناچنانچہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر( بڑی رازداری سے)آپ کے کان میں یہ عرض کیاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے ایک چھوٹاسابچہ ذبح کرلیاہے اورایک صاع جوپیس لیے ہیں جوہمارے پاس تھے،اس لیے آپ اپنے دوایک ساتھیوں کے ساتھ تشریف لا کر کھاناتناول فرمائیں ،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلندآواز سے فرمایااے اہل خندق!جابر رضی اللہ عنہ نے تمہارے لیے کھاناتیارکروایاہےبس اب ساراکام چھوڑدواورجلدی جابر رضی اللہ عنہ کے گھرچلے چلو

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ، وَلاَ تَخْبِزُنَّ عَجِینَكُمْ حَتَّى أَجِیءَ، فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِی، فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِی قُلْتِ،فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِینًا فَبَصَقَ فِیهِ وَبَارَكَ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ، ثُمَّ قَالَ:ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِی، وَاقْدَحِی مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلاَ تُنْزِلُوهَاوَهُمْ أَلْفٌ، فَأُقْسِمُ بِاللهِ لَقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِیَ، وَإِنَّ عَجِینَنَا لَیُخْبَزُ كَمَا هُوَ

اس کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم !نے فرمایاکہ جب تک میں آنہ جاؤں ہانڈی چولھے پرسے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا،میں اپنے گھرآیا،ادھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو جوخندق کھودرہے تھے لے کرجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھرروانہ ہوئے،میں اپنی بیوی کے پاس آیاتووہ مجھے برابھلاکہنے لگیں ،میں نے کہاکہ تم نے جوکچھ مجھ سے کہاتھامیں نے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کردیاتھا، آخرمیری بیوی نے گندھاہواآٹانکالااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اوربرکت کی دعاکی،ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اوربرکت کی دعاکی،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اب روٹی پکانے والی کوبلاؤ،وہ میرے سامنے روٹی پکائے اورگوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولہے سے ہانڈی نہ اتارنا،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی تعدادہزارکے قریب تھی،میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتاہوں کہ اتنے ہی کھانے کوسب نے(شکم سیرہوکر)کھایااورکھانابچ بھی گیا،جب تمام لوگ واپس ہوگئے توہماری ہانڈی اسی طرح جوش کھارہی تھی جس طرح شروع میں تھی،اورآٹے کی روٹیاں برابرپکائی جارہی تھیں ۔[51]

قَالَ:كُلِی هَذَا وَأَهْدِی، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْهُمْ مَجَاعَةٌ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اب یہ کھاناتم خودکھاؤاورلوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجوکیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلاہیں ۔[52]

تاریخ کی کتابوں میں یوں مذکورہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: عَمِلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْخَنْدَقِ، فَكَانَتْ عِنْدِی شُوَیْهَةٌ، غَیْرُ جِدٍّ سَمِینَةٌ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاَللَّهِ لَوْ صَنَعْنَاهَا لرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ:فَأَمَرْتُ امْرَأَتِی، فَطَحَنَتْ لَنَا شَیْئًا مِنْ شَعِیرٍ، فَصَنَعَتْ لَنَا مِنْهُ خُبْزًا، وَذَبَحَتْ تِلْكَ الشَّاةَ، فَشَوَیْنَاهَا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَیْنَا وَأَرَادَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الِانْصِرَافَ عَنْ الْخَنْدَقِ قَالَ: وَكُنَّا نَعْمَلُ فِیهِ نَهَارَنَا، فَإِذَا أَمْسَیْنَا رَجَعْنَا إلَى أَهَالِیِنَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کے کھودنے میں مصروف تھے اورمیرے پاس ایک چھوٹی سے بکری تھی اور موٹی تازہ بھی نہ تھی،میں نے خیال کیاکہ اگراگراس بکری کوذبح کرکے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کروں توبہترہے،بیان کرتے ہیں پھرمیں نے اپنی بیوی سے کہاکہ گھرمیں جس قدرجوہوں ان کو پیس لواوربکری کاگوشت پکالومیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کروں گا، فرمانے لگے جب شام ہوئی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع تمام لوگوں کے گھروں کی طرف واپس ہوئے کیونکہ یہی قاعدہ تھاکہ دن بھرخندق کھودتے تھے اورشام کوگھرچلے آتے تھے،

قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنِّی قَدْ صَنَعْتُ لَكَ شُوَیْهَةً كَانَتْ عِنْدَنَا، وَصَنَعْنَا مَعَهَا شَیْئًا مِنْ خُبْزِ هَذَا الشَّعِیرِ، فَأُحِبُّ أَنْ تَنْصَرِفَ مَعِی إلَى مَنْزِلِی، وَإِنَّمَا أُرِیدُ أَنْ یَنْصَرِفَ مَعِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَحْدَهُ،قَالَ: فَلَمَّا أَنْ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ أَمَرَ صَارِخًا فَصَرَخَ: أَنْ انْصَرِفُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى بَیْتِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ ! قَالَ: فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَ النَّاسُ مَعَهُ، قَالَ: فَجَلَسَ وَأَخْرَجْنَاهَا إلَیْهِ. قَالَ: فَبَرَّكَ وَسَمَّى (اللهَ) ، ثُمَّ أَكَلَ، وَتَوَارَدَهَا النَّاسُ، كُلَّمَا فَرَغَ قَوْمٌ قَامُوا وَجَاءَ نَاسٌ، حَتَّى صَدَرَ أَهْلُ الْخَنْدَقِ عَنْهَا

میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے ایک بکری ذبح کرکے پکائی ہے اورجو کی کچھ روٹیاں بھی کیں ہیں چنانچہ آپ کی دعوت کرتاہوں ،آپ میرے گھرتشریف لے چلیں ، فرماتے ہیں میں یہ چاہتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہامیرے ساتھ تشریف لے آئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری دعوت قبول فرمالی اور پھر ایک شخص کوحکم دیاکہ پکارکرآوازدے دے کہ سب لوگ جابر رضی اللہ عنہ کے مکان پرچلے آئیں کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ نے دعوت کی ہے، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس بات کوسن کراناللہ واناالیہ راجعون کہا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع لوگوں کے میرے گھرتشریف لائے ،ہم نے کھانانکال کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسب لوگوں نے کھاناتناول کیا،کھاتے جاتے تھے اور چلتے جاتے تھے،یہاں تک کہ تمام اہل خندق کھاکرفارغ ہوگئے۔[53]

انہی دنوں اسی طرح خیروبرکت کادوسراواقعہ بھی پیش آیا

أُخْتِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ،قَالَتْ: دَعَتْنِی أُمِّی عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ، فَأَعْطَتْنِی حَفْنَةً مِنْ تَمْرٍ فِی ثَوْبِی، ثُمَّ قَالَتْ: أَیْ بُنَیَّةُ، اذْهَبِی إلَى أَبِیكَ وَخَالِكَ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ بِغَدَائِهِمَا، قَالَتْ: فَأَخَذْتهَا، فَانْطَلَقْتُ بِهَا،فَمَرَرْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَلْتَمِسُ أَبِی وَخَالِی، فَقَالَ: تَعَالَیْ یَا بُنَیَّةُ، مَا هَذَا مَعَكَ؟قَالَتْ:فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا تَمْرٌ، بَعَثَتْنِی بِهِ أُمِّی إلَى أَبِی بَشِیرِ بْنِ سَعْدٍ، وَخَالِی عَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ یَتَغَدَّیَانِهِ،قَالَ: هَاتِیهِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کہتی ہیں میری ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ نے میرے کپڑے میں تھوڑی سی کھجوریں دے کرکہاکہ بیٹی !یہ اپنے باپ اورماموں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کودے آؤاورکہناکہ یہ تمہاراصبح کاکھاناہے،کہتی ہیں میں ان کھجوروں کولے کرچلی اور میں اپنے باپ اورماموں کوڈھونڈھ رہی تھی ،جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزریں توآپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لڑکی یہ تیرے پاس کیاچیزہے؟میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں نےیہ کھجوریں میرے باپ بشیربن سعد رضی اللہ عنہ اور میرے ماموں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  کے لئے بھیجی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالاؤیہ مجھے دے دو،

قَالَتْ: فَصَبَبْتُهُ فِی كَفَّیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَمَا مَلَأَتْهُمَا، ثُمَّ أَمَرَ بِثَوْبِ فَبُسِطَ لَهُ، ثُمَّ دَحَا بِالتَّمْرِ عَلَیْهِ، فَتَبَدَّدَ فَوْقَ الثَّوْبِ،ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانِ عِنْدَهُ: اُصْرُخْ فِی أَهْلِ الْخَنْدَقِ: أَنْ هَلُمَّ إلَى الْغَدَاءِ،فَاجْتَمَعَ أَهْلُ الْخَنْدَقِ عَلَیْهِ، فَجَعَلُوا یَأْكُلُونَ مِنْهُ،وَجَعَلَ یَزِیدُ، حَتَّى صَدَرَ أَهْلُ الْخَنْدَقِ عَنْهُ، وَإِنَّهُ لَیَسْقُطُ مِنْ أَطْرَافِ الثَّوْبِ

میں نے وہ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں میں رکھ دیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کوایک کپڑے پرڈال دیا اور پھر ان کے اوپرایک کپڑاڈھک دیااورایک شخص سے فرمایاکہ لوگوں کوکھانے کے لیے بلالو،چنانچہ تمام خندق کے کھودنے والے جمع ہوگئے اوران کھجوروں کوکھانے لگے،تمام صحابہ  رضی اللہ عنہم ان کھجوروں کوکھاتے گئے اوروہ کھجوریں (کم ہونے کے بجائے) بڑھتی ہی گئیں یہاں تک کہ تمام صحابہ  رضی اللہ عنہم سیرہوکرچلے گئے ،مگرکھجوریں تھیں کہ کپڑے کے کناروں سے باہرنکلی جارہیں تھیں ۔[54]

جَابِرًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّا یَوْمَ الخَنْدَقِ نَحْفِرُ، فَعَرَضَتْ كُدْیَةٌ شَدِیدَةٌ، فَجَاءُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: هَذِهِ كُدْیَةٌ عَرَضَتْ فِی الخَنْدَقِ، فَقَالَ:أَنَا نَازِلٌ. ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ، وَلَبِثْنَا ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ لاَ نَذُوقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المِعْوَلَ فَضَرَبَ، فَعَادَ كَثِیبًا أَهْیَلَ، أَوْ أَهْیَمَ،

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہےہم غزوہ خندق کے موقع پرخندق کھود رہے تھے کہ زمین میں ایک جگہ سخت چٹان نکل آئی(جس پرکدال اورپھاوڑے کاکوئی اثرنہیں ہوتا تھااس لئے خندق کی کھدائی میں رکاوٹ پیداہوگئی) اس پرصحابہ  رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیاکہ خندق میں ایک چٹان ظاہرہوگئی ہے (جس پرکدال اورپھاوڑے کاکوئی اثرنہیں ہو رہا ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایامیں خوداندراترتاہوں ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلنے کے لئے کھڑے ہوگئے ،اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے )آپ کے شکم پرپتھر بندھا ہوا تھا اور ہم نے تین روزسے ہمیں ایک دانہ کھانے کے لیے نہیں ملا تھا، وہاں پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال اپنے دست مبارک میں لی اوراس چٹان پرماری تووہ چٹان (ایک ہی ضرب میں )ریت کے تودہ کی طرح ریزہ ریزہ ہوگئی۔[55]

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ، قَالَ: وَعَرَضَ لَنَا صَخْرَةٌ فِی مَكَانٍ مِنَ الخَنْدَقِ، لَا تَأْخُذُ فِیهَا الْمَعَاوِلُ، قَالَ: فَشَكَوْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَوْفٌ:، وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَضَعَ ثَوْبَهُ ثُمَّ هَبَطَ إِلَى الصَّخْرَةِ، فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ فَقَالَ:بِسْمِ اللَّهِ فَضَرَبَ ضَرْبَةً فَكَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ، وَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الشَّامِ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأُبْصِرُ قُصُورَهَا الْحُمْرَ مِنْ مَكَانِی هَذَا . ثُمَّ قَالَ:بِسْمِ اللَّهِ وَضَرَبَ أُخْرَى فَكَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ فَقَالَ:اللَّهُ أَكْبَرُ، أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ فَارِسَ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأُبْصِرُ الْمَدَائِنَ، وَأُبْصِرُ قَصْرَهَا الْأَبْیَضَ مِنْ مَكَانِی هَذَا ثُمَّ قَالَ:بِسْمِ اللَّهِ وَضَرَبَ ضَرْبَةً أُخْرَى فَقَلَعَ بَقِیَّةَ الْحَجَرِ فَقَالَ:اللَّهُ أَكْبَرُ أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الْیَمَنِ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأُبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَاءَ مِنْ مَكَانِی هَذَا

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمسلمانوں کی ایک جماعت اپنے معین کردہ رقبہ میں خندقیں کھودرہی تھیں کہ یکایک زمین سے ایک سفیدپتھرکی سخت چٹان برآمدہوئی جس نے وہاں کام کرنے والوں کی کدالیں توڑڈالیں مگرپتھرنہ ٹوٹا ،لوگوں نے کہا جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس چٹان کے نکلنے کی خبردیں ،چنانچہ لوگوں نے جاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس معاملہ کی اطلاع دی،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جا کر خودخندق میں اترے اور کدال لے کر بسم اللہ کہہ کرایک ضرب لگائی تو اس چٹان کے تہائی پتھر ٹوٹ کرادھرادھربکھرگئے ،آپ نے فرمایااللہ اکبر!مجھے ملک شام کی کنجیاں دے دی گئیں ،واللہ میں ابھی یہیں کھڑے ہوئے شام کے سرخ محلات دیکھ رہاہوں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر دوسری ضرب لگائی توچٹان کادوتہائی پتھر توڑ ڈالاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ اکبر! مجھے ملک فارس کی کنجیاں عطاکردی گئیں ہیں اللہ کی قسم!میں ابھی یہیں سے مدائن کے سفیدمحلات دیکھ رہاہوں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کرتیسری ضرب لگائی توباقی چٹان کوبھی کوٹ کررکھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا مجھے یمن کی کنجیاں بھی عطا فرما دی گئیں ہیں ، اللہ کی قسم! میں ابھی اسی جگہ سے شہر صنعاء (یمن کادارالسلطنت)کے دروازے دیکھ رہا ہوں ۔[56]

ایسی ہی ایک روایت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بھی ہےجس میں ذکرہے کہ ہرضرب کے ساتھ روشنی نکلتی تھی جس سے مدینہ منورہ روشن ہوجاتاتھا۔[57]

وَفَرّغُوا مِن حَفْرِهِ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ

بالآخرصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی لگن اور انتھک محنت سے خندق چھ دن میں تیارہوگئی۔[58]

قال السمهودی، وهوالْمَعْرُوف، عند موسى بن عقبة أنهم أَقَامُوا فی عَمَلَ الْخَنْدَق أی:مُدَّةٌ حَفْرِهِ،قَرِیبًا من عِشْرِینَ لَیْلَةً، وعند الواقدی: أَرْبَعًا وَعِشْرِینَ، وفی الهدی النبوی لابن القیم:أَقَامُوا شَهْرًا

علامہ سمہودی رحمہ اللہ بھی اس روایت کو معروف قرار دیتے ہیں ،جبکہ موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ خندق تقریباًبیس روزمیں تیارہوئی اورواقدی کے مطابق یہ چوبیس روزمیں تیار ہوئی ، اورابن قیم رحمہ اللہ ہدی میں لکھتے ہیں کہ اس کے پوراہونے میں ایک مہینہ لگاتھا۔[59]

خندق نہایت گہری کھودی گئی کہ نمی ظاہرہوگئی،

قَالَ عَمْرُو بْنُ عَوْفٍ:فَكُنْتُ أَنَا وَسَلْمَانُ، وَحُذَیْفَةُ بْنُ الْیَمَانِ، وَالنُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ الْمُزَنِیُّ، وَسِتَّةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فی أَرْبَعِینَ ذِرَاعًا،فَحَفَرْنَا تَحْتَ ذو باب حَتَّى بَلَغْنَا النَّدَى

عمرو رضی اللہ عنہ بن عوف کہتے ہیں  میں ، سلمان حذیفہ بن یمان ،نعمان رضی اللہ عنہ بن مقرن المزنی اورچھ اورانصاری چالیس گزکے ایک حصے میں کام کرتے تھے ہم نے ذوباب کے زیریں میں خندق کھودی جس سے پانی نکل آیا۔[60]

ایک روایت میں ہےمدینہ منورہ کے گرد چودہ گزچوڑی اوراسی قدرگہری خندق کھودی گئی ۔[61]

ایک روایت میں ہے کہ خندق کی گہرائی پانچ گزرکھی گئی۔

وَقَدْ جَعَلُوا لَهُ خَمْسَةَ أَذْرُعٍ طُولًا وَخَمْسًا فِی الْأَرْضِ

ایک روایت میں ہےخندق پانچ ہاتھ چوڑی اورپانچ ہاتھ گہری تھی۔[62]

اوردشمن کے پہنچنے سے پہلے تیارہوگئی۔

وَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخَنْدَقِ، أَقْبَلَتْ قُرَیْشٌ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے فارغ ہوئےتوقریش بھی آپہنچے۔[63]

جوچھ ہزارگزیاکوئی ساڑھے تین میل لمبی تھی ،شمال اورمغرب کی پہاڑیاں خندق کے اندررکھی گئی تھیں تاکہ ان پرچڑھ کردشمن کی نقل وحرکت کاجائزہ لیاجاسکے

وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہا کونائب مقررفرمایا۔

اورچند انصاراورمہاجرین صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوساتھ لے کر گھوڑے پرسوارہوکرشہرکے چاروں طرف کے علاقے کامعائنہ فرمایاتاکہ مختلف آطام میں جتنی عورتیں بچے اورمویشی رکھنے کی تجویزہواسی کے مطابق خوراک وغیرہ کاانتظام کیاجائے ،اس کے علاوہ مختلف مقامات پرمجاہدین کے لئے پڑاؤچنے گئے ،شہرکے طرف جس قدرباغات اوران کے گرداحاطے تھے ان کوبغوردیکھ کراوردشمن کے نفوذکے امکانات کومدنظررکھ کرطرح طرح کی مزاحمتیں پیداکی گئیں ،ایسے تنگ راستوں پرجہاں ایک وقت میں ایک اونٹ چل سکتاتھا چوکیاں مقررکی گئیں اوران کوقلعہ بند کر دیا گیا تاکہ دشمن تنگ گلیوں کوبھی استعمال نہ کرسکے،جنوبی علاقہ کی بستیوں کومستحکم احاطوں کے ذریعہ ملادیاگیا، خندق کے اندرونی کنارے پرجگہ جگہ نوکدارپتھروں کے ڈھیرلگادیئے گئے تاکہ زدمیں آئے ہوئے دشمن پر پتھر برسائے جاسکیں اور اس طرح تیرصرف ضروری اورخطرناک مواقع پراستعمال کئے جائیں ،سامان رسدمیں سب سے اہم مسئلہ پانی کاتھااس لیےپانی کے تمام کنوئیں خندق کے اندرہی رکھے گئے اورتمام کنوؤں کاجائزہ لینے کے بعد ان کی حفاظت وفراہمی کا پورا پورا بندوبست کیااورذباب میں ایک نیاکنواں کھدوایاگیا،اسلامی لشکرکوکئی حصوں میں تقسیم کیا،ہرچالیس گزپرخندق کے دروازہ مقررکرکے ہردروازے پردس مجاہدین کادستہ مقررکیاگیا،ہردستے کاکمانڈراپنے اپنے علاقے کے دفاع کاذمہ دارتھا،اس کے علاوہ اونچی اونچی چٹانوں اورآطاموں پر فوری جوابی کاروائی کے لئے چھوٹے چھوٹے تیزانداز دستے مقررفرمائے ،شب خون اورگھات لگانے کی غرض سے خندق کے پاربھیجنے کے لئے چنددستے بانٹ دیئے گئے ،اورزبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کوان سب کا امیر مقرر فرماکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ اگرلڑائی ہوتی دیکھیں تولڑناشروع کر دیں ، عورتوں اوربچوں کوجنوب مشرق کی جانب غسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فارع نامی قلعہ میں جوبنوقریظہ کے قریب ہی تھابھیج کر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کوان کی حفاظت پر مقرر کر دیا گیا ، عورتوں کی حفاظت کے لئے بھی آغاز جنگ میں ایک خاص دستہ رکھا گیا تھا مگر بعدمیں اسے ایک اوراہم علاقہ سونپ دیاگیا، مدینہ کا بچہ بچہ جوش سے بے خودتھا،جب مسلمان اس میدان کی طرف روانہ ہوئے توباپ بھائیوں کے ساتھ نوعمربچے بھی ساتھ ہوگئے ،جب لشکر اسلام میدان میں جمع ہوگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائزہ لیا، جو بچے پندرہ سال سے زیادہ عمر کے تھے انہیں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائی جو اس سے کم عمرتھے انہیں سمجھا بجھا کرواپس کر دیا، مدینہ منورہ ہی سے ملی ہوئی ایک پہاڑی ہے جوکوہ سلع کے نام سے مشہورہے ،خندق میں اوراس میں صرف چھ میل کافاصلہ تھا ،دونوں کے درمیان ایک لمباچوڑامیدان تھااس کو پشت پررکھ کر مسلمانوں نے بہترین نظم وضبط کے ساتھ ڈیرے ڈال دیئے ،اورکمانڈرانچیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جبل ذباب اورجبل سلع کے درمیان ایک محفوظ مقام پر سرخ رنگ کاایک خیمہ نصب کردیاگیاجہاں سے دشمن اورمغرب کاعلاقہ کافی دورتک دکھائی دیتاتھا،اب یہاں بطور یادگار ایک مسجدبنی ہوئی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں نائب سالاروں سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ،سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اورابوذر رضی اللہ عنہ کے لیے بھی خیمے نصب کیے گئے (وہاں بھی اب مسجدیں ہیں )ایک بڑاحصہ (غالباً لشکر کا پانچواں حصہ)فوری مدد اور جوابی حملہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زیرکمان ذباب اورجبل سلع کے علاقے میں رکھ لیاگیا ،اب مدینہ منورہ دشمن کی یلغارسے محفوظ تھا،اس طرح دشمن کی آمدسے پہلے ہی مسلمانوں نے اللہ کے سچے وعدوں کی سچائی پرپورابھروسہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اپنا دفاعی منصوبہ ہرلحاظ سے مکمل کرلیاتھا،ان تمام مادی وسیلوں کوبہترین طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی جوحاصل ہوسکتے تھے،اس کے بعد نتیجہ اللہ پرچھوڑدیا۔

اب دشمن فوج کے ہراول دستے مدینہ کے قریب دکھائی دینے لگے تھے ،سپہ سالارقریش ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوامیدتھی کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )احدپرملیں گے ،آپ وہاں نہ ملے تواس نے لشکرکومدینہ کی طرف بڑھایا

نَزَلَتْ قُرَیْشٌ بِمُجْتَمَعِ السُّیُولِ فِی عَشَرَةِ آلَافٍ مِنْ أَحَابِیشِهِمْ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنْ بَنِی كِنَانَةَ وَتِهَامَةَ وَنَزَلَ عُیَیْنَةُ فِی غَطَفَانَ وَمَنْ مَعَهُمْ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ إِلَى جَانِبِ أُحُدٍ

اور نہری کٹاؤاورجنگل کے درمیان دریامیں سیلابوں کے پانی مجمع ہونے کے مقام پر چار ہزارلشکرکے ساتھ پڑاؤ ڈالا ان میں حبوش اورقریش کے ساتھی کنانہ وتہامہ قبائلی شامل تھے ادھرغطفان اور ان کے نجدی ساتھی بھی ان سے آملے اورجبل احدکے کنارے خیمہ زن ہوئے۔[64]

اورجبل احدکی سمت بِذَنَبِ نَقْمَى کی پٹی کو اپنا ہیڈ کوارٹربنایا۔زَغَابَةَ نشیب میں ہے اورذَنَبِ نَقْمَى فرازمیں ۔

مسلمانوں نے کفارکااتنابڑا لشکردیکھا توان کاجذبہ ایمان واطاعت کواوربڑھادیا لیکن منافقین کے دل دھل گئے۔

وَكَانَ شِعَارُ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَئِذٍ حم لَا یُنْصَرُونَ

اس وقت ایک دوسرے کی پہچان کے لئے مسلمانوں کا خفیہ لفظ’’ان کی مددنہ کی جائے تھا۔‘‘[65]

لشکر کفارجبل احدکے علاقے میں جمع ہواان کاخیال تھاکہ مسلمان اس مرتبہ بھی مدینے سے باہرآکراحدکے علاقے میں لڑائی کریں گے مگروہاں اسلامی لشکرکانام ونشان نہ تھا، جس سے ظاہرہے کہ مدینہ منورہ میں موجودکفارمکہ کے جاسوس خندق کے بارے میں لشکرکفارکواطلاع دینے میں ناکام رہے تھے کیونکہ اسلامی دیکھ بھال اورلڑاکادستوں نے آمدورفت کے تمام راستوں کی ناکہ بندی کررکھی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودشمن کی نقل وحرکت کے بارے میں مکمل اطلاع مل رہی تھی ،اب دشمن کی ٹولیاں مسلمانوں کاحال معلوم کرنے کے لئے مدینہ منورہ کی طرف آئیں مگر جب وہاں پہنچے توایک نئی چیزجوان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کانظارہ کیا،ان کی عقلیں حیران رہ گئیں اوروہ سوچ میں پڑگئے کہ کیا ہمارا لشکراس پارجا سکے گا،جس کے لئے اتناجتن کیا گیا ہے ، اتنے پاپڑبیلے گئے ہیں کیاوہ کام ہوسکے گا ؟ کیاساراکھیل بگڑجائے گا ؟ کیامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )زندہ بچ جائیں گےاورہمارے معبودوں کوبرابھلاکہتے رہیں گے، یہ ٹولیاں واپس لشکر میں گئیں اور انہیں یہ نامبارک خبرسنائی ،جس نے سنا دنگ رہ گیا،بخدایہ توبالکل نئی چال ہے عرب میں توکبھی خندق کھودنے کارواج نہیں تھا، دوسرے دن قریش نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح خندق پارکرلیں لیکن مسلمانوں نے کچھ اس طرح سے ان پرپتھروں اورتیروں کی برسات برسائی کہ قریش کوخندق کے نزدیک آنے کی بھی جرات نہ ہوئی اور تاب نہ لاکرپیچھے ہٹ گئےاوردوردورسے تیروں کی بوچھاڑکر دی شام ہوگئی اوروہ اپنے ٹھکانوں پرچلے گئے ،دوسری صبح پھرقریش نے خندق عبور کرنے کی انتھک کوشش کی مگراس مرتبہ بھی ناکامی ان کے مقدرمیں رہی اورشام کوتلملاتے اور ہونٹ چباتے واپس چلے گئے۔

ویسے تواس غزوہ میں شامل ہرمرد،عورت اوربوڑھے نے اپنی عزیمت واستقامت اورصبرواستقلال کامظاہرہ کیااورصفحہ تاریخ پرایسے نقوش ثبت کیے جوابدالآبادتک فرزندان توحیدکے لیے مشعل راہ بنے رہیں گے مگراسی غزوہ میں پندرہ برس کی عمرکے ایک نوجوان اس جوش وجذبہ سے لڑے کہ لوگ دنگ رہ گئےاورسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی شجاعت اور جذبہ فدویت کی تحسین فرمائی،

عَنْ جابر بن عبد الله، قال: نَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سعدا بْنِ حَبْتَةَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ یُقَاتِلُ قِتَالا شَدِیدًا، وَهُوَ حَدِیثُ السِّنِّ، فَدَعَاهُ فَقَالَ لَهُ: مَنْ أنت یا فتى، فقال: أنا سعد بن حَبْتَة ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَسْعَدَ اللهُ جَدَّكَ،اقْتَرِبْ مِنِّی، فَاقْتَرَبَ مِنْهُ، فَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ خندق کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرسعد رضی اللہ عنہ بن حبتہ پرپڑی جوبڑی پامردی اورجوش وجذبہ سے مشرکین سے لڑرہے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس بلاکر پوچھا تمہارانام کیاہے؟انہوں نے کہامیرانام سعد رضی اللہ عنہ بن حبتہ ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تمہیں خوش نصیب کرے،میرے قریب اؤجب وہ قریب آئے تو پھرنہایت شفقت سے ان کے سرپراپنادست مبارک پھیرا۔[66]

اس طرح کئی دن گزرگئے مگرمشرکین کوکوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی ادھرمسلمان دن رات خندق کی حفاظت میں مشغول رہتے ،جنگی نقطہ نظرسے رکاوٹ کی حفاظت ضروری ہے اورجونہی دشمن رکاوٹ پارکرنے لگے اسے خوب نشانہ بناکرنقصان پہنچانا چاہیے،بغیردیکھ بھال اورجوابی کاروائی کے رکاوٹ بے کارہوتی ہے ، مسلمان اپنے اپنے علاقے کی حفاظت بڑی تندہی سے کررہے تھے ،کبھی کبھی مجاہدین خندق پارکرکے دشمن کے پڑاؤپرشب خون مارنے بھی چلے جاتے تھے ،محاصرہ طویل ہوتا چلا گیا،کفارفیصلہ کن لڑائی لڑنے آئے تھے مگراتنے دنوں بعدبھی لڑائی کسی مرحلے پرنہ پہنچی تھی ،محاصرہ جس قدرلمبا ہوتا گیا خودمحاصرین کی ہمت جواب دینے لگی،اس کی کئی وجوہ تھیں ،دس ہزارآدمیوں کوکھاناکھلاناآسان کام نہ تھا،اس لئے رسدمیں کمی آنے لگی،حملے کی کوئی تجویزکارگرنہ ہوسکی اور خندق کے مقابلے میں ہرکوشش ناکام ہوگئی،حملوں کی ناکامی سے بدحواس سوا تھی، بلاکی سردی تھی جس سے جسم کٹے اور رگوں میں خون جماجاتاتھا، چنانچہ محاصرے کے باوجود مسلسل ناکامی اورموسم کی سختی سے لشکرمیں بے دلی پھیل گئی، حیی بن اخطب نے لشکر کایہ حال دیکھاتوبہت ڈرا،اس نے اس لشکر کو اکٹھا کرنے کے لئے انتھک کوشش کی تھی ، کن کن مصیبتوں سے ساراانتظام کیاتھا،وہ سوچ میں پڑگیاکہ اگر لشکر میں یونہی بے دلی پھیلی رہی ،لڑنے والوں کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے تو مسلمانوں کودھرتی سےنیست ونابودکرنے کاسارا پلان ہی ناکام ہوجائے گا اور پھرکبھی ایسا شاندارموقعہ ملے گابھی کہ نہیں ،اس کے لئے فورا ًکچھ نہ کچھ کرنا چاہیے ،سوچتے سوچتے اس کی نگاہ مدینہ منورہ کے اندر اپنے ہم مذیب بنوقریظہ پررک گئیں اوراس نے گھرکے بھیدی کواپنے ساتھ ملانے کی سوچی تاکہ مسلمانوں کے اندرسے ان پروار کیا جا سکے، چنانچہ وہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد قرظی کواپنے ساتھ ملانے کے لئے ان کے قلعہ کی طرف لپکاجن کے پاس کم ازکم ڈھائی ہزارہتھیاربندجوان موجودتھے تاکہ مسلمانوں پرجنوب مشرق کی جانب سے اچانک حملہ کیا جائے ۔

بنوقریظہ کی عہدشکنی:

بنوقریظہ یثرب کے تین یہودی قبائل میں سے ایک قبیلہ تھاجوبنونضیرکارشتہ دارتھا،دونوں قبیلے مل کربنودریہ کہلاتے تھے ،ان کی بنوکعب اوربنوعمرو دو شاخیں تھیں ،ان کاسردار کعب بن اسدقرظی(ام امومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کاوالد)مدینہ منورہ سے باہر جنوب مشرقی گوشے وادی مہزورمیں اپنے ہم نسب قبیلے ہدل کی معیت میں رہتا تھا،یہ زرعی زمینوں کے مالک تھے ،اپنی زرعی پیداوار،تجارت کی بدولت بڑی فارغ البالی سے زندگی بسرکرتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت ان میں سات سوپچاس جنگجو تھے اوران کے پاس ہتھیاروں اورزرہوں کے بڑے ذخیرے تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت فرماکرتشریف لائے تھے اس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کے لئے باہم امن وآتشی سے رہنے کامعاہدہ کر چکا تھا ،بنونضیرکی جلاوطنی کے بعدبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تجدیدعہدکیاتھا

فَلَمَّا سَمِعَ كَعْبٌ بِحُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ، أَغْلَقَ دُونَهُ حِصْنَهُ فَاسْتَأْذَنَ عَلَیْهِ فَأَبَى أَنْ یَفْتَحَ لَهُ،فَنَادَاهُ حُیَیٌّ: یَا كَعْبُ، افْتَحْ لِی، قَالَ: وَیْحَكَ یَا حُیَیُّ! إِنَّكَ امْرُؤٌ مَشْئُومٌ،إِنِّی قَدْ عَاهَدْتُ مُحَمَّدًا فَلَسْتُ بِنَاقِضٍ مَا بَیْنِی وَبَیْنَهُ، وَلَمْ أَرَ مِنْهُ إِلا وَفَاءً وَصِدْقًا،قَالَ: وَیْحَكَ! افْتَحْ لِی أُكَلِّمْكَ،قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ: وَاللهِ إِنْ أَغْلَقْتَ دُونِی إِلا عَلَى جَشِیشَتِكَ أَنْ آكُلَ مَعَكَ مِنْهَا،فَأَحْفَظَ الرَّجُلُ، فَفَتَحَ لَهُ،فَقَالَ: وَیْحَكَ یَا كَعْبُ! جِئْتُكَ بِعِزِّ الدَّهْرِ وَبِبَحْرٍ طَامٍ

شب کی تاریکی میں جب اس نے حیی بن اخطب کی آمدکا سناتووہ تاڑگیاکہ حیی اس کے پاس کس مقصدکے تحت آیاہے اس لئے اس نے اپنے قلعہ کادروازہ بندکرلیا،حیی بن اخطب نے اندرآنے کی اجازت مانگی مگرکعب نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا،حیی نے کہاکعب مجھے اندرآنے دو،اس نے کہاتم منحوس اوربدبخت ہو،میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ دوستی کیاہے میں اس کی خلاف ورزی نہیں کرناچاہتااورانہوں نے اس معاہدہ کی صداقت اوردیانت سے پابندی کی ہے،حیی نے کہاتم پرافسوس !ذرادروازہ توکھولوتاکہ میں تم سے کچھ باتیں کروں ،کعب نے کہامیں اس کے لئے تیارنہیں ،پھرحیی اس کی غیرت کوللکارکربولاواللہ !تونے میرے سامنے اس لئے دروازہ بندکیاہے کہ تجھے مجھ کوکھاناکھلاناپڑے گا،یہ سنکرکعب کوطیش آگیااور وہ ملنے پرآمادہ ہوگیااور قلعہ کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا،حیی بن اخطب نے کعب سے مل کرکہااے کعب افسوس!میں تمہارے پاس ایسی دعوت لایاہوں جس میں تم کودائمی نیک نامی حاصل ہوگی،میں تیرے پاس فوج کاایک بحرذخارلایاہوں ،

جِئْتُكَ بِقُرَیْشٍ عَلَى قَادَتِهَا وَسَادَتِهَا، حَتَّى أَنْزَلْتُهُمْ بِمُجْتَمَعِ الاسیال من رومه، وَبِغَطَفَانَ عَلَى قَادَتِهَا وَسَادَتِهَا حَتَّى أَنْزَلْتُهُمْ بِذَنَبِ نُقْمَى إِلَى جَانِبِ أُحُدٍ،قَدْ عَاهَدُونِی وَعَاقَدُونِی أَلا یَبْرَحُوا حَتَّى یَسْتَأْصِلُوا مُحَمَّدًا وَمَنْ مَعَهُ،فَقَالَ لَهُ كَعْبُ بْنُ أَسَدٍ: جِئْتَنِی وَاللهِ بِذُلِّ الدَّهْرِ! بِجَهَامٍ قَدْ هَرَاقَ مَاءَهُ یُرْعِدُ وَیُبْرِقُ، لَیْسَ فِیهِ شَیْءٌ! وَیْحَكَ فَدَعْنِی وَمُحَمَّدًا وَمَا أَنَا عَلَیْهِ، فَلَمْ أَرَ مِنْ مُحَمَّدٍ إِلا صِدْقًا وَوَفَاءً!فَلَمْ یَزَلْ حُیَیٌّ بِكَعْبٍ یَفْتِلُهُ فِی الذُّرْوَةِ وَالْغَارِبِ، حَتَّى سَمَحَ لَهُ، عَلَى أَنْ أَعْطَاهُ عَهْدًا مِنَ اللهِ وَمِیثَاقًا: لَئِنْ رَجَعَتْ قُرَیْشٌ وَغَطَفَانُ وَلَمْ یُصِیبُوا مُحَمَّدًا أَنْ أَدْخُلَ مَعَكَ فِی حِصْنِكَ حَتَّى یُصِیبَنِی مَا أَصَابَكَ فَنَقَضَ كَعْبُ بْنُ أَسَدٍ عَهْدَهُ، وبریء مِمَّا كَانَ عَلَیْهِ فِیمَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

میں تیرے پاس قریش کوان کے تمام امراء اورروساء کے ساتھ لایاہوں اوران کومیں نے رومہ وادیوں کے سنگم پرفروکش کردیاہے،اسی طرح میں غطفان کوان کے تمام سرداروں سمیت کھینچ لایاہوں اوران کومیں نے احدکے پاس ذنب نقمی میں اتاراہے،ان تمام نے مجھ سے عہدواثق کیاہے کہ جب تک محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیخ کنی نہیں کرلیں گے اس جگہ سے نہیں ہٹیں گے، تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے کیاہوا عہد توڑ کر ہمارے لشکرکوراستہ دے دو،یہ لشکرایک بھرے ہوئے سیلاب کی طرح محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اورمسلمانوں کی طرف بڑھے گا اورہمیشہ کے لئے ان کوصاف کردے گاپھرپورے عرب پر ہمارا اثر ہو گا،ہمارے مذہب کے لئے بھی راستہ صاف ہوجائے گااورمدینہ کی ساری دولت اورجائدادپربھی قبضہ ہو جائے گا،کعب نے کہااللہ کی قسم !تومیرے پاس زمانہ بھرکی ذلت اورایساخالی خولی ابرلایاہے جس کاپانی ختم ہوچکاہو،وہ گرجتاچمکتاضرورہے مگراس میں پانی کاایک قطرہ باقی نہیں رہا ،تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے بارے میں مجھ سے کچھ مت کہواورمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے (باہمی امن وبھائی چارے کا)جومعاہدہ کرچکاہوں اس پرمجھے قائم رہنے دوکیونکہ انہوں نے اب تک معاہدہ دوستی کی پوری طرح پابندی کی ہے اورمجھے کوئی شکایت کاموقع نہیں دیا۔

لیکن حیی بن اخطب مسلسل اس کی خوشامدوچاپلوسی کرتارہااسے نیک نامی اورمادی فوائدکالالچ دیتارہاآخر حیی بن اخطب کاجادو کعب بن اسدپرچل گیااوروہ اپنی مروت کوختم کرنے پرراضی ہو گیا ، مگر قریش کے اتنے دنوں کی ناکامی دیکھ کرابھی بھی ہچکچارہاتھااورسوچ رہا تھاکہ اگرقریش وغطفان ہارگئے تواس کی غداری کاکیاانجام ہوگا،وہ لوگ تواپناراستہ پکڑیں گے اورمیں تنہا رہ جاؤں گااور بنونضیراوربنوقینقاع کی طرح ذلیل ورسواہوجاؤں گا،اس پرحیی بن اخطب نےاللہ کوشاہدبناکریہ پختہ عہدوپیمان کیاکہ اگر قریش اورغطفان محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے مقابلے میں ناکام ہوکر میدان چھوڑگئے تومیں خیبر چھوڑ کر تمہارے ساتھ قلعہ میں جا رہوں گاپھرجوکچھ ہوگاتمہارے ساتھ ملکرجھیلوں گا،یہ بات کعب بن اسدپراثرکرگئی اوروہ غداری کے لئے تیارہوگیااوراپنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان طے شدہ معاہدہ سے دست بردار ہوکراپنی قوم سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مخالف جماعتوں میں شامل ہوگیاجس سے دشمن کے لشکرکی تعدادمیں خاطرخواہ اضافہ ہوگیا ،حیی بن اخطب نے یہ خوش خبری ابوسفیان کوجاکرسنائی کہ اب بدل ہونے کی ضرورت نہیں بس اتنی دیر اور انتظارکرلوجب تک کہ بنوقریظہ تیارہو جائیں پھرفتح ونصرت تمہاری ہے۔

بنوقریظہ کی غداری کی خبراناًفاناً دونوں لشکروں میں پھیل گئی اورمسلمانوں پربجلی بن کرگری مسلمانوں کے لئے یہ ایک نئے خطرہ کی گھنٹی تھی ، اس راستہ سے دشمن کے لئے شہرمیں گھسنابالکل آسان ہوگیاتھا،اب ان کاشہراورلشکرخطرہ میں تھا،رسدرسانی کے لئے بھی اب کوئی راستہ نہ تھا ،اس واقعہ سے مسلمانوں میں کس قدرسراسمیگی پھیل گئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق حال کے لئے کسی کوروانہ کیاتاکہ اس خبرکی روشنی میں کوئی مناسب فوجی اقدام اٹھایاجاسکے ،اس شخص نے آکراس خبرکی تصدیق کی

بعث رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ امْرِئِ الْقَیْسِ أَحَدَ بَنِی عَبْدِ الأَشْهَلِ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ سَیِّدُ الأَوْسِ وَسَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ دُلَیْمٍ، أَحَدَ بَنِی سَاعِدَةَ بْنِ كَعْبِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ سَیِّدُ الْخَزْرَجِ وَمَعْهُمَا عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ أَخُو بَلْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَخَوَّاتُ بْنُ جُبَیْرٍ، أَخُو بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا حَتَّى تَنْظُرُوا: أَحَقٌّ مَا بَلَغَنَا عن هَؤُلاءِ الْقَوْمِ أَمْ لا؟ فَإِنْ كَانَ حَقًّا فَالْحِنُوا لِی لَحْنًا نَعْرِفُهُ، وَلا تَفُتُّوا فِی أَعْضَادِ النَّاسِ، وَإِنْ كَانُوا عَلَى الْوَفَاءِ فِیمَا بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ فَاجْهَرُوا بِهِ لِلنَّاسِ،فَخَرَجُوا حَتَّى أَتَوْهُمْ فَوَجَدُوهُمْ عَلَى أَخْبَثِ مَا بَلَغَهُمْ عَنْهُمْ،نَالُوا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَقَالُوا: مَنْ رَسُولُ اللهِ؟وَقَالُوا: لا عَقْدَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ وَلا عَهْدَ

مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید اطمینان کے لئے سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ اور سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کوجوبنوقریظہ کے حلیف تھے اورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اورخوات بن جبیرکو سردار بنو قریظہ کعب بن اسدکے پاس تحقیق حال اورفہمائش کے لئے بھیجااورفرمایااگرخبرصحیح ہوتوآکرچپکے سے بتانا تاکہ مسلمانوں میں بے دلی نہ پھیلے ورنہ بلندآوازسے اعلان کردینا،جب یہ دونوں صحابہ وہاں پہنچے تودیکھاکہ مسلمانوں کو بنوقریظہ کی نقض عہداورمخالفت کی خبرملی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خباثت اورشرارت پرآمادہ ہیں ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے الفاظ استعمال کیے اوراس بدبخت نے یہاں تک کہاکون ہے اللہ کارسول؟ اورکہاہم سے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کاکوئی عہد معاہدہ نہیں ،

فَشَاتَمَهُمْ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَشَاتَمُوهُ، وَكَانَ رَجُلًافِیهِ حَدّ، فَقَالَ له سعد ابن مُعَاذٍ: دَعْ عَنْكَ مُشَاتَمَتَهُمْ، فَمَا بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ أَرْبَى مِنَ الْمُشَاتَمَةِ، ثُمَّ أَقْبَلَ سَعْدٌ وَسَعْدٌ ومن معهما الى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمُوا عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالُوا: عَضَلٌ وَالْقَارَّةُ أَیْ كَغَدْرِ عَضَلٍ وَالْقَارَّةِ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابِ الرَّجِیعِ، خُبَیْبِ بْنِ عدى واصحابه

سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے جوکچھ تیز مزاج آدمی تھے ان کو برابھلاکہاانہوں نے بھی گالیاں دیں ،سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاگالیاں دیناچھوڑدواب جوصورت حال پیداہوئی اس پرزیادہ توجہ کی ضرورت ہے،دونوں سعداپنے ساتھیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورسلام کرکے ایک ضرب المثل میں عرض کیا جس طرح قبیلہ عضل اورقارہ نے اصحاب رجع یعنی خبیب رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ غدرکیااسی طرح انہوں نے بھی غداری کی۔[67]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنوقریظہ کی عہدشکنی سے صدمہ ہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے اس خبرکوپوشیدہ رکھنے کی کوشش کی مگریہ خبرچھپنے والی نہ تھی ، محاصرہ کی سختی ،مختلف گروہوں کے اجتماع سے خاص کر بنوقریطہ کی عہدشکنی اوردشمنوں سے جاملنے کے بعدمسلمانوں میں قدرے خوف وہراس پھیل گیا ، مسلمانوں پرکئی کئی فاقے گزرگئے اور مسلمانوں میں فتح سے ایک قسم کی ناامیدی پیداہوگئی ۔

محاصرہ کافی مدت سے تھا،مسلم سپاہ کی قلت ،دن بھرجنگ کے لئے مستعدی اوررات میں شب بیداریاں ،اپنے باغات اورتجارتی کاروبارکوچھوڑبیٹھنا،معاشی ضروریات کی تنگی ،ان تمام باتوں نے منافقین کے حوصلوں کوپانی پانی کردیاانہوں نے برملا مسلمانوں کو بہکانے،حوصلے پست کرنے کے لئے طرح طرح کے نفسیاتی حملے شروع کردیئے ،کوئی انہیں طعنہ دے کر جان کاخوف دلاتا

قَالَ معتب ابن قُشَیْرٍ، أَخُو بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ: كَانَ مُحَمَّدٌ یَعِدُنَا أَنْ نَأْكُلَ كُنُوزَ كِسْرَى وَقَیْصَرَ، وَأَحَدُنَا لا یَقْدِرُ أَنْ یَذْهَبَ إِلَى الْغَائِطِ!

بنوعمروبن عوف کامتعب بن قشیررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدگمان کرنے کے لئے کہنے لگا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں خوب بہلایا،خوب ہرے بھرے باغ دکھائے،کہتے تھے کہ قیصروکسریٰ کے خزانے ملیں گے اورآج یہ حال ہے کہ ضرورت کے لئے بھی جاناجان کاخطرہ ہے۔

كَانَ مُحَمَّدٌ یَعِدُنَا أَنْ نَأْكُلَ كُنُوزَ كِسْرَى وَقَیْصَرَ، وَأَحَدُنَا لَا یَأْمَنُ عَلَى نَفْسِهِ

ایک روایت میں ہے اس نے کہا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے تم مسلمانوں کوفارس وروم کی فتح قیصروکسریٰ کے قصورومحلات اوران کی دولت کثیرپرقبضے کے خواب دکھائے لیکن پہلے وہ ان سے صرف اپنی جان ہی بچاکردکھادیں ۔[68]

کسی نے میدان جنگ سے فراراور مسلمانوں کی ہمت شکنی کے لئے اس موقع کوغنیمت سمجھا۔

أَحَدُ بَنِی حَارِثَةَ بْنِ الْحَارِثِ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ بُیُوتَنَا لَعَوْرَةٌ مِنَ الْعَدُوِّ- وَذَلِكَ عَنْ مَلإٍ مِنْ رِجَالِ قَوْمِهِ- فَأْذَنْ لَنَا فَلْنَرْجِعْ إِلَى دَارِنَا، فَإِنَّهَا خَارِجَةٌ مِنَ الْمَدِینَةِ

بنوحارثہ وبنوسلمہ نے جن کے مکانات شمال مشرق کی جانب خندق سے باہرتھے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے گھربیرون مدینہ غیر محفوظ اورکھلے ہوئے پڑے ہیں ، ان کے اہل خانہ خطرہ میں ہیں ،یہ بات اس نے اپنی قوم کی ایک جماعت کی جانب سے کہی تھی اس لئے آپ ہمیں اجازت دیں کہ اپنے گھروں کوچلے جائیں کیونکہ وہ شہر مدینہ کے بیرون پرواقع ہیں ،اوریہ اپنے گھروں کوچلے گئے۔[69]

وَقَالَ رِجَالٌ مِمّنْ مَعَهُ: یَا أَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا

اورکچھ لوگوں نے کہااے اہل یثرب !اب تمہاراکوئی مقام نہیں چنانچہ واپس لوٹ چلو۔

فَأَرْسَلُوا الى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا نُعْطِیكُمُ الدِّیَةَ عَلَى أَنْ تَدْفَعُوهُ إِلَیْنَا فَنَدْفِنُهُ، فَرَدَّ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللهِ عَلَیْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ

نوفل بن عبداللہ مخزومی نے کہا  کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا کہ ہم آپ کو دیة دیں گے بشرطیکہ ان کے حوالے کردوہم بھی حوالے کردیں گے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو قبول نہ فرمایا۔[70]

یہ جنگ حقیقت میں ہتھیاروں کے بجائے اعصاب کی جنگ تھی ،مسلمانوں کامقابلہ خوف،دہشت ،رنج ،افتراق ،فریب اوربدعہدی سے تھااوروہ بھی نازک ترین حالات میں ، ان کیفیات سے نبردآزماہونانیزوں اورتلواروں کے دکھ سہنے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتاہے،ایک طرف تقاضائے ایمان اوررسول کی اطاعت تودوسری طرف حوصلہ شکن حالات اورجان لیوامحنت ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کی یہ گھڑی ایسی تھی کہ ہرشخص کاجس کے دل میں ذرہ برابربھی نفاق تھاپردہ فاش ہوگیااوروہ طبقہ اپنے ضعف ایمانی کی بناپرخودبخوداسلامی لشکرسے علیحدہ ہوگیالیکن صادق ومخلص صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جنہیں اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم پرکامل یقین تھا،وہ اس بات پرکامل یقین رکھتے تھے کہ دشمن کی طرف سے جوکچھ بھی ہواللہ کے وعدے کے مطابق سچے ثابت ہوں گے،اس ایقان نے انہیں غیرمتزلزل اورناقابل تسخیربنادیا ،وہ صبراور عزم واستقلال کے ساتھ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنے اپنے مورچوں پرڈٹے رہےاوران کے ایمان میں اضافہ ہی ہوگیا،ایسے وقت میں نظم وضبط کایہ عالم تھاکہ سارے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل میں جی جان سے حاضرخدمت رہے،اس کے بعدبنوقریظہ نے مدینہ منورہ کے امن وامان میں خلل ڈالناشروع کردیا اور عورتوں اوربچوں کوخطرہ میں ڈال دیا

فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُ سَلَمَةَ بْنَ أَسْلَمَ بْنِ حَرِیشٍ الْأَشْهَلِیّ فِی مِائَتَیْ رَجُلٍ

جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ رضی اللہ عنہ بن اسلم بن حریش کودوسو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ساتھ وہاں متعین فرمایاکہ بنوقریظہ کی طرف سے حملہ نہ ہونے پائے۔[71]

دوسرے معنوں میں بنوقریظہ کے ڈھائی ہزارجنگجوؤں کے مقابلے میں یہ دوسوکادستہ گویاموت کے منہ میں بھیجاجارہاتھا ۔

بنوغطفان سے معاہدہ کی کوشش :

جب حالات انتہائی نازک صورت اختیارکرگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوطبعاًجنگ سے نفرت کرتے تھے قریش کی جنگی قوت کوکمزورکرنے کے لئے اوراس اندیشہ کے پیش نظرکہ کہیں بشری تقاضہ سے ساتھی ہمت نہ ہارجائیں ،

فَلَمَّا اشْتَدَّ عَلَى النَّاسِ الْبَلَاءُ، بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى عُیَیْنَةَ بْنِ حِصْنِ بْنِ حُذَیْفَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَإِلَى الْحَارِثِ بْنِ عَوْفِ بْنِ أَبِی حَارِثَةَ الْمُرِّیِّ، وَهُمَا قَائِدَا غَطَفَانَ، فَأَعْطَاهُمَا ثُلُثَ ثِمَارِ الْمَدِینَةِ عَلَى أَنْ یَرْجِعَا بِمَنْ مَعَهُمَا عَنْهُ وَعَنْ أَصْحَابِهِ، فَجَرَى بَیْنَهُ وَبَیْنَهُمَا الصُّلْحُ، فَلَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَفْعَلَ، بَعَثَ إلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمَا، وَاسْتَشَارَهُمَا فِیهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان کے قائدوسردار عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر اورحارث بن عوف بن ابی حارثہ کے پاس ایک آدمی بھیجاکہ اگرتم لوگ جنگ نہ کرواورواپس چلے جاؤتومدینہ کی تہائی پیداوارتم کودیں گے ، غطفان بخوشی اس پرراضی ہوگئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومکمل کرناچاہاتوآپ نے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اورغطفان کے معاملےپران سے مشاورت مانگی،

فَقَالَا: یَا رَسُولَ اللهِ إنْ كَانَ اللهُ أَمَرَكَ بِهَذَا فَسَمْعًا وَطَاعَةً، وَإِنْ كَانَ شَیْئًا تَصْنَعُهُ لَنَا فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِیهِ،لَقَدْ كُنَّا نَحْنُ وَهَؤُلَاءِ الْقَوْمُ عَلَى الشِّرْكِ بِاللهِ وَعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، وَهُمْ لَا یَطْمَعُونَ أَنْ یَأْكُلُوا مِنْهَا ثَمَرَةً إلَّا قِرًى أَوْ بَیْعًا، فَحِینَ أَكْرَمَنَا اللهُ بِالْإِسْلَامِ، وَهَدَانَا لَهُ، وَأَعَزَّنَا بِكَ نُعْطِیهِمْ أَمْوَالَنَا؟وَاَللَّهِ لَا نُعْطِیهِمْ إلَّا السَّیْفَ حَتَّى یَحْكُمَ اللهُ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ

دونوں سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگریہ اللہ کا حکم ہے توانکارکی مجال نہیں ،اگریہ ارادہ ہم لوگوں کے خیال سے ہے توہمیں اس کی ضرورت نہیں ،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم اورہماری قوم سب مشرک تھی،اللہ عزوجل کوجانتے تک نہ تھے اوربتوں کوالٰہ سمجھ کرپوجتے تھے،اس وقت یہ لوگ صرف مہمانی یاخریدکی صورت میں ہی کھاسکتے تھےاب جبکہ اللہ عزوجل نے ہمیں اسلام سے عزت بخشی اورہمیں ہدایت کی لازوال اوربے مثال نعمت سے سرفرازفرمایااورآپ کی سرپرستی سے ہمیں عزت عطافرمائی ہے توآج ہم دب کر اپنامال ان کودے دیں ،یہ توناممکن ہے،اللہ کی قسم !ہمیں اپنامال ان کودینے کی کوئی ضرورت نہیں ؟اللہ کی قسم ! ان کے لئے ہمارے پاس اب صرف تلوارہے یہاں تک کہ اللہ ہمارااوران کافیصلہ کردے

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَأَنْتَ وَذَاكَ ،فَتَنَاوَلَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الصَّحِیفَةَ، فَمَحَا مَا فِیهَا مِنْ الْكِتَابِ، ثُمَّ قَالَ: لِیَجْهَدُوا عَلَیْنَا،قَالَ: وَاَللَّهِ مَا أَصْنَعُ ذَلِكَ إلَّا لِأَنَّنِی رَأَیْتُ الْعَرَبَ قَدْ رَمَتْكُمْ عَنْ قَوْسٍ وَاحِدَةٍ، وَكَالَبُوكُمْ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَكْسِرَ عَنْكُمْ مِنْ شَوْكَتِهِمْ إلَى أَمْرٍ مَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاتم کواختیارہے، پھر سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے صلح نامہ کی تحریرلیکراس کی تمام عبارت مٹادی اورکہاجوکچھ ان سے ہوسکے وہ کرلیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےاصحاب  رضی اللہ عنہم کی یہ ہمت واستقلال دیکھا تو اطمینان ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !یہ توتم ہی لوگوں کے لئے کررہاتھا میں نے سوچا اس طرح سے ان کی اجتماعی قوت اور زورٹوٹ جائے گا اورتم پر دشمن کادباؤکچھ کم ہوجائے گاکیونکہ عرب نے متفق ہوکرایک کمان سے تم پرتیرباری شروع کردی ہے،پھرآپ نے غطفان سے معاہدہ کرنے کا خیال چھوڑ دیا اور ان کا وفد ناکام واپس چلاگیا۔[72]

ایک روایت میں ہے کہ جب محاصرے کی مدت لمبی ہوگئی تولشکرقریش میں کاناپھوسی ہونے لگی ،جوقبائل لوٹ ماراورغارت گری کی امیدمیں شریک لشکرہوئے تھے وہ ناامید اوربددل ہونے لگے،غذااوررسدکی کمی ،جانوروں کے چارہ کی قلت نے ان کواپنے مفادمیں سوچنے پرمجبورکردیا،چنانچہ قبیلہ غطفان کے سرداروں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیش کش کی کہ اگرمدینہ کی فصل کاایک تہائی حصہ ہمیں دینے کاوعدہ کرلیاجائے توہم اپنے اورساتھ کے قبیلے کوواپس لے جانے پر تیار ہو جائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مدینہ منورہ کامعاملہ ہے جوانصارکے مشورہ کے بغیرطے نہیں کیاجاسکتالہذاان سے مشورہ کرنے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اورسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اوربنوغطفان کامطالبہ ان کے سامنے رکھا،انہوں نے عرض کیابنوغطفان ایک مدت سے مدینہ کے نخلستان سے فائدہ حاصل کرنے کے آرزومندہیں ،ہم نے جب حالت کفرمیں کسی کوخراج نہیں دیاتواب اسلام کے بعدہمارامددگاراللہ اوراس کارسول ہے ،لہذاایسے معاہدے کے لیے ہم تیارنہیں ۔

فَأَرَادَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعْطِیَ عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنٍ وَمَنْ مَعَهُ ثُلُثَ ثِمَارِ الْمَدِینَةِ عَلَى أَنْ یَرْجِعُوا، إلَّا الْمُرَاوَضَةُ فِی ذَلِكَ

ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساارادہ ہی فرمایاتھاکہ غطفان کے قائدوسردار عیینہ بن حصن اورحارث بن عوف کے پاس صلح کے لیے آدمی بھیجیں کہ اگر وہ مدینہ کی تہائی پیداوارپرراضی ہوتووہ اپنی قوم کولے کر واپس چلے جائیں ۔[73]

ایک روایت میں ہے کہ انصارکے جن سرداروں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیاان میں اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرالکتائب بھی تھے،ان کواہل غطفان کامطالبہ سن کراس قدرجوش آیاکہ اپنے نیزے سے دونوں کے سر کو ٹھوکا دیا اورکہالومڑیو!بھاگ جاؤ،عامرنے غضبناک ہوکرپوچھاتم کون ہو؟انہوں نے جواب دیااسیدبن حضیر،عامرنے کہا،حضیرالکتائب کے بیٹے؟ انہوں نے کہا ہاں ، عامربولاتمہاراباپ تم سے اچھاتھا،اسید رضی اللہ عنہ نے کڑک کرکہا ہرگز نہیں میرا باپ بھی کافرتھااورتم بھی کافرہواس لئے میں دونوں سے اچھاہوں ۔ (سیرانصارجلددوم)

دشمنوں میں اب ایک نیاجوش وخروش تھا،ان کے حوصلے پہلے سے کہیں زیادہ بلندتھے ،اب انہیں سردی کی بھی ذرافکرنہیں تھی،خندق کی بھی کوئی پرواہ نہ تھی کیونکہ بنوقریظہ ان کے ساتھ تھے ،اب دل کے ارمان نکالناآسان نظرآرہے تھے،انہوں نے محاصرے میں مزیدسختی پیداکرکے مسلمانوں پربے دردی سے تیربرسانے لگے،مسلمان سخت پریشان تھے ،وہ بالکل گھرکررہ گئے تھے ،ہرلمحہ یہ خوف تھاکہ کب قریش اوریہودی مدینہ میں داخل ہوجائیں اورگلی کوچوں میں ایک خوں ریزجنگ شروع ہوجائےاورکب عورتوں اور بچوں کے قلعہ پرحملہ آورہوجائیں مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی مسلسل گشت نے مجاہدین کاحوصلہ بلندرکھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت قدمی پروعظ فرماتے اورمجاہدین کوفتح کایقین دلاتے اس طرح مجاہدین ضرورت سے زیادہ ہوشیاراورخبرداررہنے لگے ،بہرحال ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آدمیوں کومقررفرمایاکہ رات بھرمدینہ منورہ میں گھوم پھرکرپہرہ دیں ،

جَابِرًا، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الأَحْزَابِ:مَنْ یَأْتِینَا بِخَبَرِ القَوْمِ ؟ فَقَالَ الزُّبَیْرُ: أَنَا،ثُمَّ قَالَ:مَنْ یَأْتِینَا بِخَبَرِ القَوْمِ؟فَقَالَ الزُّبَیْرُ: أَنَا،ثُمَّ قَالَ:مَنْ یَأْتِینَا بِخَبَرِ القَوْمِ؟فَقَالَ الزُّبَیْرُ: أَنَا،ثُمَّ قَالَ:إِنَّ لِكُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیَّ، وَإِنَّ حَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ

اورجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سےیوم خندق خطاب کرکے فرمایاکہ تم میں سے کوئی ہے جوباہرنکل کرمحاصرہ کرنے والوں کی خبرلائے گا ؟زبیر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی کوئی آوازنہ نکلی اور زبیربن العوام رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ میں اس کام کے لیے تیارہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرپوچھاکفارکے لشکرکی خبرکون لائے گا؟اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے کہامیں اس خدمت کے لیے حاضرہوں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ پوچھا کفار کے لشکرکی خبرکون لائے گا؟زبیر رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی اپنے آپ کوپیش کیا،اس پرسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقب عطا فرمایاکہ ہرنبی کے حواری ہوتے ہیں اورمیرے حواری زبیربن العوام رضی اللہ عنہ ہیں ۔[74]

یہودی اب عملاً جنگی کاروائیوں میں شریک ہوگئے تھے ،ان سے یہ بات بعیدنہ تھی کہ کسی موقع پرحملہ آورہوکرایک جرات مندانہ اقدام کرگزریں اوروہ راستہ قطع کردیں جس پرسے مسلمان مدینہ منورہ میں واپس آسکتے تھے اوراس طرح لڑائی کے میدان کووسیع ترکردیں اوردشمن کوموقعہ مل جائے کہ کسی شدیدمزاحمت سے دوچارہوئے بغیرخندق عبورکرنے میں کامیاب ہوجائے،چنانچہ اس مقصدکے لئے ان کی ایک ٹولی مسلمانوں کی کمزور جگہیں معلوم کرنے کے لئے نکلی تاکہ حملہ آسان ہواورناکامی کی کوئی راہ نہ رہے جائے،مگرمسلمان چوکنا تھے انہوں نے اس ٹولی کاپیچھا کیا اور یہودی بھاگ کھڑے ہوئے، پھرانہوں نے سوچاکہ مسلمان توقریش کے لشکرکامقابلہ کررہے ہیں ،اب موقعہ اچھاہے عورتوں اوربچوں کے قلعہ پر قبضہ کرلیاجائے اگروہ اپنا مقصد حاصل نہ بھی کرسکیں توبھی اس سے یہ فائدہ توہوہی جائے گاکہ مسلمان میدان جنگ سے پیٹھ پھیرکرانہیں بچانے کے لئے مورچے خالی کردیں گے اورقریش کوخندق عبورکرنے میں آسانی ہوجائے گی اس مقصدکے لئے ایک یہودی قلعہ تک پہنچ گیا اورمعلومات حاصل کرنے کے لئے اندرداخل ہونے کے لئے چاروں طرف چکرلگانے لگا ، قلعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب بھی تھیں وہ یہودی کودیکھ کر گھبرائیں

قَالَتْ:وَكَانَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ مَعَنَا فِیهِ، مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ، قَالَتْ صَفِیَّةُ، فَمَرَّ بِنَا رَجُلٌ مِنْ یَهُودَ، فَجَعَلَ یُطِیفُ بِالْحِصْنِ، وَقَدْ حَارَبَتْ بَنُو قُرَیْظَة،، وَقَطَعَتْ مَا بَیْنَهَا وَبَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَیْسَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ أَحَدٌ یَدْفَعُ عَنَّا، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ فِی نُحُورِ عَدُوِّهِمْ، لَا یَسْتَطِیعُونَ أَنْ یَنْصَرِفُوا عَنْهُمْ إلَیْنَا إنْ أَتَانَا آتٍ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا حَسَّانُ، إنَّ هَذَا الْیَهُودِیَّ كَمَا تَرَى یُطِیفُ بِالْحِصْنِ، وَإِنِّی وَاَللَّهِ مَا آمَنُهُ أَنْ یَدُلَّ عَلَى عَوْرَتِنَا مَنْ وَرَاءَنَا مِنْ یَهُودَ، وَقَدْ شُغِلَ عَنَّا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَانْزِلْ إلَیْهِ فَاقْتُلْهُ

وہ فرماتی ہیں حسان رضی اللہ عنہ اس قلعہ میں ہم عورتوں اوربچوں کے ساتھ تھے، صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک یہودی ہمارے قریب آیااورقلعہ کے اطراف گھومنے لگااورمیں جانتی تھی کہ بنوقریظہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدکوتوڑدیاہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کررہے تھے اورانہوں نے ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان راستہ کاٹ دیا تھا اورہمارے اوران کے درمیان کوئی ہمارادفاع کرنے والانہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان دشمنوں کے مقابلہ میں مصروف جنگ تھے اس لئے اگر کوئی شخص ہماری طرف آتاتووہ فریق مقابل کو چھوڑ کرہماری حفاظت کے لئے نہ آسکتے تھے،اس خیال سےمیں نے کہااے حسان رضی اللہ عنہ !جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ یہودی قلعہ کے اطراف میں گھوم پھرکرموقع محل دیکھ رہاہے اورمجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ ہماری پشت پر موجود یہودیوں کویہاں ہمارے چھپنے کی اطلاع نہ دے دے اور رسول اللہ اورصحابہ  رضی اللہ عنہم جنگی مشغولیت کی وجہ سے ہماری خبرگیری نہیں فرماسکتے اس لئے آپ اترکراسے قتل کر ڈالیں ،

قَالَ:یَغْفِرُ اللهُ لَكَ یَا بْنَةَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَاَللَّهِ لَقَدْ عَرَفْتُ مَا أَنَا بِصَاحِبِ هَذَا،قَالَتْ:فَلَمَّا قَالَ لِی ذَلِكَ، وَلَمْ أَرَ عِنْدَهُ شَیْئًا، احْتَجَزْتُ ثُمَّ أَخَذْتُ عَمُودًا، ثُمَّ نَزَلْتُ مِنْ الْحِصْنِ إلَیْهِ، فَضَرَبْتُهُ بِالْعَمُودِ حَتَّى قَتَلْتُهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهُ، رَجَعْتُ إلَى الْحِصْنِ، فَقُلْتُ: یَا حَسَّانُ، انْزِلْ إلَیْهِ فَاسْلُبْهُ، فَإِنَّهُ لَمْ یَمْنَعْنِی مِنْ سَلَبِهِ إلَّا أَنَّهُ رَجُلٌ، قَالَ: مَا لِی بِسَلَبِهِ مِنْ حَاجَة یَا بنت عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

انہوں نے جواب دیااے عبدالمطلب کی بیٹی! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اللہ کی قسم! آپ کوتومعلوم ہے ہی کہ میں جنگی آدمی نہیں ہوں ، فرماتی ہیں جب انہوں نے یہ جواب دیا تومیں سمجھی کہ ان میں ہمت نہیں ہے تومیں نے خیمہ کاایک بانس اکھاڑا اور چپکے سے نیچے اترگئیں اور یہودی کے سرپراس زورسے ماراکہ اس کا بھیجا باہرنکال دیا، فرماتی ہیں اس سے فارغ ہوکرقلعہ میں آئی تو حسان رضی اللہ عنہ سے کہااب نیچے جاکراس کے جسم سے اس کے ہتھیار تو اتار لاؤکیونکہ اجنبی وغیرمحرم ہونے کی وجہ سے میں نے خوداس کے ہتھیار نہیں اتارے،انہوں نے جواب دیااے بنت عبدالمطلب! مجھے اس کے ہتھیاروں کی ضرورت ہی نہیں ، صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہااچھا اس کاسرکاٹ کر میدان میں پھینک دیں تاکہ یہودی مرعوب ہوجائیں ، حسان رضی اللہ عنہ اس کے لئے بھی تیارنہ ہوئے تومجبوراًیہ کام بھی صفیہ رضی اللہ عنہا کو سرانجام دیناپڑا۔[75]

جب یہودیوں نے اپنے ساتھی کا کٹاہواسر دیکھاتوانہوں نے خیال کیاکہ اس قلعہ میں بھی عورتوں اوربچوں کی حفاظت کے لئے کوئی دفاعی اورحفاظتی دستہ موجودہے اس لئے پھرانہیں اس قلعہ پرحملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی ،مگر حیی بن اخطب نےاپنے اتحادکے ثبوت کے طورپر لشکرکی رسدکے لیے چوبیس اونٹ جو،کھجوراورچارہ سے لدے ہوئےبھیجے مگرمنزل پرپہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں ہی ایک مسلم دستہ نے اس پرقبضہ کرلیا۔

محاصرے کے کچھ دنوں بعدکفارنے جنگ کرنے کے دن اپنے بڑے بڑے سرداروں میں بانٹ لئے،چنانچہ اس دوران باری باری دن ابوسفیان ،خالدبن ولید،عمروبن العاص ،ضراربن الخطاب اورجبیرہ مسلمانوں سے لڑتے رہتے ،کیونکہ خندق کاعرض چوڑاتھااس لئے مشرکین اسے عبور کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے اور فریقین کے درمیان تیراندازی کے سواکوئی اورجنگی کاروائی نہیں ہوتی تھی ، سخت محاصرے کے باوجودمدینہ منورہ میں داخل ہونے کایہ طریقہ کارکامیاب نہیں ہورہاتھا،لشکرکے لئے پانی اورغذا اور چارے کی فراہمی مشکل سے مشکل ترہوتی چلی جارہی تھی جس سے وہ پیچ وتاب کھارہے تھے ،غیض وغضب سے کھول رہے تھے ،قریش کے لیے بڑی دشواری یہ تھی کہ ان کے لشکرکے پھیلاؤنے کوئی نظم وضبط باقی نہ رہنے دیا،لشکرکابڑاحصہ سپہ سالارسے بہت دوراورقابوسے باہرتھا،جیسے جیسے محاصرہ کی مدت بڑھتی جارہی تھی لشکرقریش کانظم وضبط ٹوٹتاجارہاتھااورلشکرمیں بددلی کے آثارپھیل رہے تھےچنانچہ صلاح ومشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹولیوں کی شکل میں حملہ کرنے کے بجائے سب قبائل مل کرعام حملہ کردیں تاکہ مسلمانوں کانظم وضبط ٹوٹ کران میں انتشارپیداہوجائےچنانچہ عام حملہ کے لئے لشکرجمع ہوگیا،ایک جگہ انہوں نے خندق کادہانہ تنگ پاکر اورپہرہ بھی کمزو ر دیکھ کر عرب کے مشہوربہادروں عکرمہ بن ابو جہل، ضراربن الخطاب،قبیلہ بنی مخزوم کا نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ اور

وَعَمْرٌو یَوْمَئِذٍ ثَائِرٌ، قَدْ شَهِدَ بَدْرًا فَارْتُثّ جَرِیحًا فَلَمْ یَشْهَدْ أُحُدًا، وَحَرّمَ الدّهْنَ حَتّى یَثْأَرَ مِنْ مُحَمّدٍ وَأَصْحَابِهِ

عمروبن عبدود جوایک ہزارسوارکے برابر مانا جاتا تھا جو غزوہ بدرمیں بھی شریک تھااورزخمی ہوکرواپس لوٹ گیاتھااورزخموں کی وجہ سے غزوہ احدمیں شامل نہیں ہوسکاتھااس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اوران کے رفقاسےمقتولین کاانتقام نہیں لے لوں گااپنے بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا۔

مگراب اس غزوہ میں بہادری کے جوہردکھلانے کے لئے نکلا تھا،اس نے خودکونمایاں کرنے کے لئے بدن پرخاص نشان لگارکھے تھے اس نے اپنے گھوڑوں کومہمیزکیا اور بدقت تمام اس طرف سے خندق میں داخل ہوگئے مگر خندق اور پہاڑی دراڑکی درمیانی دلدلی زمین میں پھنس گئے،یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب مسلمانوں کی ایک جماعت کولے کراس پر حملہ آورہوئے اور خندق عبورکرکے جس کنارے پر کفارنے قبضہ کرلیاتھااسے لڑکران سے واپس لے لیا

أَنَّ عَمْرًا كَانَ ابْن تِسْعِینَ سَنَةً

ادھرعمروبن عبدود جس کی عمراس وقت نوے سال کی تھی۔[76]

فَلَمَّا وَقَفَ هُوَ وَخَیْلُهُ، قَالَ: مَنْ یُبَارِزُ؟فقال عَلِیّ: أَنَا أُبَارِزُهُ،وفی كل مرة یَقُولُ عَلَى: أنا له یا نَبِیَّ الله،فَیَقُولُ: اجلس، إنه عَمْرٌو، فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَیْفَهُ، وَعَمّمَهُ، وَقَالَ: اللهُمَّ أعنه عَلَیْهِ

جب وہ گھوڑے کوایڑلگاکر خندق عبورکرگیاتواس نے پکارکرکہامیرے مقابلہ میں کون آتاہے؟ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں آتاہوں اوراس سے مقابلہ کے لئے لپکے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا، سیدناعلی رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے مگرکسی اورکو آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی ، عمروبن عبدودنے دوبارہ پکارا توپھرسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایااے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کے مقابلے میں جاتاہوں ،تیسری باربھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس کے مقابلے میں جاتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ خبربھی ہے یہ عمروبن عبدودہے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیاہاں میں خوب جانتاہوں کہ یہ عمروبن عبدودہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لڑنے کی اجازت دے دی،خود اپنے دست مبارک سے تلوارعنایت فرمائی ،سرپرعمامہ باندھااوردعافرمائی اے اللہ!علی رضی اللہ عنہ کوعبدودپر غلبہ عطافرما۔

قَالَ: وَأَقْبَلَ عَمْرٌو یَوْمَئِذٍ وَهُوَ فَارِسٌ وَعَلِیّ رَاجِلٌ، فَقَالَ لَهُ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ: إنّك كُنْت تَقُولُ فِی الْجَاهِلِیّةِ: لَا یَدْعُونِی أَحَدٌ إلَى وَاحِدَةٍ مِنْ ثَلَاثٍ إلّا قَبِلْتهَا! قَالَ: أَجَلْ! قَالَ عَلِیّ: فَإِنّی أَدْعُوك أَنْ تشهد أن لا إله إلا الله وأن مُحَمّدًا رَسُولُ اللهِ، وَتُسْلِمَ لِلّهِ رَبّ الْعَالَمِینَ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِی بِذَلِكَ،قَالَ: فَأُخْرَى، تَرْجِعُ إلَى بِلَادِك،قَالَ:هَذَا مَا لَا تَتَحَدّثُ بِهِ نِسَاءُ قُرَیْشٍ أَبَدًا، وَقَدْ نَذَرْت مَا نَذَرْت وَحَرّمْت الدّهْنَ،قَالَ: فَالثّالِثَةُ؟

اب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے مقابلہ میں تھے،عمروگھوڑے پرسوارتھاجبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پیدل تھے، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اسے کہااے عمرو!تونے جہالت میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہدنہیں کیاتھاکہ جب قریش کاکوئی شخص تیرے سامنے دوباتیں پیش کرے گاتوتوان میں سے ایک ضرورقبول کرے گا؟عمرونے کہاہاں ،میں نے یہ عہدکیاہے، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایاپھرمیں تجھے اللہ رب العالمین اوراس کے رسول کی طرف دعوت دیتاہوں اسلام قبول کرلے،مگرعمرونے قبول نہیں کیا او ر کہا مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ،پھرسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایالڑائی سے واپس لوٹ جا،عمرونے جواب دیا میں قریش کی عورتوں کے طنزوطعنہ نہیں سن سکتااورمیں نے نذرمانی ہے کہ اپنے اوپر تیل کو حرام قرار دے دیاہے،پھرسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرما یا تو تومجھ سے مقابلہ کر،

قَالَ فَضَحِكَ عَمْرٌو ثُمّ قَالَ: إنّ هَذِهِ الْخَصْلَةُ مَا كُنْت أَظُنّ أَنّ أَحَدًا مِنْ الْعَرَبِ یُرَوّمُنِی عَلَیْهَا! فمن أنت:قَالَ علی بن أبی طالب،یا ابن أخی من أَعْمَامِكَ مَنْ هُوَ أَسَنُّ مِنْكَ فَإِنِّی أَكْرَهُ أَنْ أُهْرِیقَ دَمَكَ؟ فَقَالَ لَهُ عَلِیٌّ: لَكِنِّی وَاللهِ لَا أَكْرَهُ أَنْ أُهْرِیقَ دَمَكَ،فغضب عمرو، فنزل عن فرسه وعقرها وسل سیفه، كأنه شعلة نار، ثم أقبل نحوه علی مغضبا

یہ سن کرعمردہنسااوربولامجھے امیدنہیں تھی کہ اس آسمان کے نیچے کوئی میرے سامنے یہ درخواست پیش کرے گا،یہ کہہ کرگھوڑے سے نیچے اترآیااورتلوارکے ایک ہی وارسے اپنے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور پوچھاتم کون ہو؟ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں علی بن ابوطالب ہوں ،عمرونے کہا اے بھتیجے! تم ابھی کمسن ہواپنے سے بڑے کو میرے مقابلہ کے لئے بھیجومیرادل تو نہیں چاہتاکہ تمہیں قتل کروں ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے جواب دیالیکن میں توتمہیں قتل کرناچاہتاہوں ،یہ سن کرعمروکوطیش آگیااورگھوڑے سے نیچے اتر آیا۔

اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر پوری طاقت سے تلوارکاایک بھرپوروارکیاجسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ڈھال پر روک لیا مگر تلوارڈھال میں سے نکل آئی اورپیشانی پرلگی ،گوزخم گہرانہ تھامگرپیشانی پرغزوہ احزاب کی یادگارکے طورپررہ گیا،پھر عمرو اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ بڑھ چڑھ کرایک دوسرے پروارکرنے لگے ،بالاخرسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خودآگے بڑھ کرتلوارکاوارکردیاجوعمروکاشانہ کاٹ کرنیچے اترآئی ،پھرلوگوں نے دیکھاکہ وہی عمروجوفحروغرورسے پکارکرکہہ رہاتھامیرے مقابلہ میں کون ہے؟ خاک وخون میں لتھڑاپڑاہے ،یہ دیکھ کرمسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلندکیااورفتح کااعلان ہوگیا ،کچھ دیر عمرو کے ساتھی ضراراورجبیرہ مقابلہ پررہے مگر مسلمانوں کے بے حددباؤسے مرعوب ہوکربھاگ کھڑے ہوئے

وَأَلْقَى عِكْرِمَةَ رُمْحَهُ یَوْمَئِذٍ،وَحَمَلَ ضِرَارُ بْنُ الْخَطّابِ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطّابِ بِالرّمْحِ، حَتّى إذَا وَجَدَ عُمَرُ مَسّ الرّمْحِ رَفَعَهُ عَنْهُ وَقَالَ: هَذِهِ نِعْمَةٌ مَشْكُورَةٌ

عکرمہ بن ابی جہل نے بھاگتے ہوئے اپنانیزہ بھی میدان جنگ میں چھوڑدیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے میدان جنگ سے فرار ہوتے ہوئے ضرار کا تعاقب کیااورقریب پہنچ گئے، اس نے پیچھے مڑکرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ پربرچھے کاوارکرناچاہالیکن اپناہاتھ روک لیااورکہااے عمر! اس احسان کویادرکھنا۔

سورج ڈوب چکاتھااورتاریکی پھیل چکی تھی اس تاریکی میں کچھ اور لوگوں کا حوصلہ بڑھاانہوں نے بھی جان پر کھیلنے کافیصلہ کرلیا،اس ٹولی میں ایک نامی گرامی شخص قبیلہ بنی مخزوم کا نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ بھی تھا

وَكَانَ اقْتَحَمَ الْخَنْدَقَ فَتَوَرَّطَ فِیهِ، فَرَمَوْهُ بِالْحِجَارَةِ، فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ، قِتْلَةً أَحْسَنَ مِنْ هَذِهِ!فَنَزَلَ إِلَیْهِ عَلِیٌّ فَقَتَلَهُ،فَبَعَثَ أَبُو سُفْیَانَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِدِیَتِهِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ , فَأَبَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:خُذُوهُ؛ فَإِنَّهُ خَبِیثُ الدِّیَةِ، خَبِیثُ الْجُثَّةِ

اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر خندق پار کرنی چاہی تھی لیکن تاریکی میں گھوڑے سمیت اس کے اندرہی گرگیا،مسلمانوں نے اس پرپتھرمارے ، اس نے پکارکرکہااے جماعت عرب! اس نیم جانی سے قتل کرڈالنا بہتر ہے، پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نیچے اتر کراس کاکام تمام کردیا، ابوسفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپناقاصد بھیجا کہ نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ کی لاش واپس کردی جائے تواس کے بدلہ میں ایک خون بہا یعنی سو اونٹ ملیں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی دیت خبیث ہے اور اس کا جثہ بھی بدبودار ہے۔[77]

وَقِیلَ: أَعْطُوا فِی جُثَّتِهِ عَشَرَةَ آلافٍ

یہ بھی کہاجاتاہے کہ مشرکین نے لاش لینے کے لیےدس ہزاردینار کی پیش کش کی تھی۔[78]

أَنِ ابْعَثْ إِلَیْنَا بِجَسَدِهِ ونُعْطِیهِمْ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا فَقَالَ: لا خَیْرَ فِی جَسَدِهِ وَلا فِی ثَمَنِهِ

ایک روایت میں ہےعمروبن عبدودکی لاش کی قیمت بارہ ہزاردینارلگائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی لاش میں کوئی خیرنہیں ہے اورنہ ہی اس لاش کی قیمت میں کوئی خیر ہے ۔[79]

وَقَدْ رَوَاهُ التِّرْمِذِیُّ: مِنْ حَدِیثِ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَالَ غَرِیبٌ

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کوسفیان ثوری رحمہ اللہ کی زبانی ابن ابی لیلیٰ، حکم،مقسم اورابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے بیان کرتے ہوئے اس روایت کو غریب بتایاہے[80]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاکہ وہ تمہاری ہے لے جاسکتے ہوہمیں نہ اس کاخون بہاکی ضرورت ہے اور نہ ہم مردے کی قیمت کھاتے ہیں ،مشرکوں نے اس کی لاش اٹھائی اور واپس چلے گئے۔

وَخَرَجَ نَوْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُغِیرَةِ المخزومى فَسَأَلَ الْمُبَارَزَةَ، فَخَرَجَ إِلَیْهِ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَضَرَبَهُ فَشَقَّهُ بِاثْنَتَیْنِ، حَتَّى فَلَّ فِی سَیْفِهِ، فَلًّا وَانْصَرَفَ وَهُوَ یَقُولُ:

ابن اسحاق کہتے ہیں غزوہ الاحزاب کے دوران میں ایک دن نوفل بن عبد الله بن مغیرہ مخزومی نے اپنی لشکرگاہ سے باہرنکل کرمسلمانوں کومقابلے کے لیے للکارا، زبیر رضی اللہ عنہ جھپٹ کر اس کے مقابل ہوئے اوراپنی تلوارسے اس کے دوٹکڑے کردیئے،اس موقع پران کی تلوارمیں ایک دندانہ پڑگیا، نوفل کوجہنم واصل کرنے کے بعدزبیر رضی اللہ عنہ یہ زجزپڑھتے ہوئے واپس آئے

إِنِّی امْرُؤٌ أَحْمِی وَأَحْتَمِی ، عَنِ النَّبِیِّ الْمُصْطَفَى الْأُمِّی

میں وہ شخص ہوں جواپنی بھی حفاظت کرتاہوں ،اورنبی مصطفی امی کی بھی حفاظت کرتاہوں ۔[81]

أَنَّ رَجُلًا من الْمُشْرِكِینَ قَالَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ: مَنْ یُبَارِزُ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ یَا زُبَیْر!فَقَالَتْ أُمَّهُ صَفِیّة:وَإِحْدَى یا رَسُولُ الله،فَقَالَ: قُمْ یَا زُبَیْرفَقَامَ فَقَتَلَهُ، ثم جاء بِسَلَبِهِ إلى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَنَفّلَهُ إیّاهُ

مشرکین میں سے ایک شخص نے غزوہ خندق کے دن مبارزت طلب کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمااے زبیر رضی اللہ عنہ مقابلے کے لیے کھڑے ہو،ان کی والدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے بیقرارہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میراکلوتاجگرگوشہ شہیدہوگا ان کی والدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرااکلوتا بیٹا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے زبیر رضی اللہ عنہ مقابلے کے لیے نکلو،چنانچہ زبیربن العوام رضی اللہ عنہ مقابلے کے لیے نکلے اورمقابلے میں اس مشرک کاکام تمام کردیاپھروہ اس کاسامان لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ زبیر رضی اللہ عنہ کوعطافرمادیا۔[82]

یہ عبرت ناک انجام دیکھ کرباقی ساتھیوں میں کیاہمت ہوسکتی تھی لہذاسب الٹے پاؤں ناکام ونامراد ہوکر واپس لوٹ گئے لیکن اب بھی وہ اپنی حرکات سے بازنہ آئے ،دشمن دن رات تیروں کی بوچھاڑکرکے خندق پار کرنے کی کوشش کرتے رہے ،اس مقصدکے لئے ایک ٹولی جاتی اور دوسری ٹولی آپہنچتی،دشمن تاک میں لگے تھے کہ مسلمان ذرا غافل ہوں ،حملہ کاموقعہ ملے اوربے تحاشہ ٹوٹ پڑیں ، اس دن خندق کے اطراف دن رات مسلسل لڑائی ہوتی رہی،مسلمانوں کی خندق پر نگراں ٹولیاں اپنی اپنی جگہ پرچوکس تھیں ،ایک حصہ خودآپ کی نگرانی میں تھا جہاں آپ دم لئے بغیر دشمنوں کوتیروں سے روک رہے تھے اگرکوئی ضرورت پیش آتی اوروہاں سے ہٹناپڑتاتواپنی جگہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو کھڑاکردیتے،جیسے ہی ضرورت پوری ہوتی فوراًاپنی جگہ آ کر سنبھال لیتے،اس طرح ایک طرف توآپ اپنے ساتھیوں کی ڈھارس بندھارہے تھے اوردوسری طرف بلندترین انسانیت کانمونہ بھی پیش فرمارہے تھے ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، جَاءَ یَوْمَ الخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، جَعَلَ یَسُبُّ كُفَّارَ قُرَیْشٍ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا كِدْتُ أَنْ أُصَلِّیَ، حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغْرُبَ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللهِ مَا صَلَّیْتُهَا،فَنَزَلْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَافَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَمَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب غزوہ خندق کے موقع پرسورج غروب ہونے کے بعد(لڑکر)واپس ہوئے،اور کفارقریش کوبرابھلاکہہ رہے تھے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !سورج غروب ہونے کوہے اورمیں عصرکی نمازابھی تک نہیں پڑھ سکا ،اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !نمازتومیں بھی نہیں پڑھ سکا ، جب لڑائی بند ہوئی توہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بطحان میں اترے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے لیےوضوفرمایااورہم نے بھی وضوکیااورسورج ڈوبنے کے بعدپہلے عصر کی نمازپڑھی اوراس کے بعدمغرب کی نمازپڑھی۔[83]

اس مشہورروایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عصرکی نمازکے علاوہ کوئی نمازفوت نہیں ہوئی تھی،

فَزَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ عَلَیْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ قَالَ: شَغَلُونَا عَنْ صَلاةِ الْعَصْرِ،مَلأَ اللهُ بُطُونَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعصرکی نمازفوت ہونے کااس قدرملال تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کفارنے جنگی مشغولیت کی بنا پرہمیں عصرکی نمازسے محروم کر دیا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیااللہ ان کے پیٹوں کو اور ان کی قبروں کوآگ سے بھردے۔[84]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ یَوْمَ الخَنْدَقِ: مَلَأَ اللهُ عَلَیْهِمْ بُیُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلاَةِ الوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ

اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے روزفرمایاجس طرح ان کفارنے ہمیں صلوٰة وسطیٰ (نمازعصر)نہیں پڑھنے دی اورسورج غروب ہوگیااللہ تعالیٰ ان مشرکین سمیت ان کے گھروں اورقبروں کوآگ سے بھردے۔[85]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ؛ أَنَّهُ قَالَ: مَا صَلَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، یَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغزوہ خندق کے موقع پر نمازظہراورعصرکوسورج غروب ہونے کے بعداداکیا۔[86]

عَنْ أَبِی عُبَیْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ الْمُشْرِكِینَ شَغَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللیل مَا شَاءَ اللهُ.قَالَ: فَأَمَرَ بِلَالًا فأذَّن ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فصلَّى الْعَصْرَ، ثمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوچارنمازوں ظہر ،عصر ،مغرب اورعشا ءکی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا،چنانچہ جنگ بندہونے کے بعد رسول اللہ اپنے حجرہ میں تشریف لائے تو بلال رضی اللہ عنہ کواذان دینے کاحکم دیا ، پھر تمام نمازظہر،عصر ، مغرب اورعشاء کے لئے الگ الگ تکبیرکہہ کہہ کرصحابہ سمیت نمازیں ادا فرمائیں ۔[87]

لَیْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسَ إلا أن أَبَا عُبَیْدَةَ لَمْ یَسْمَعْ من عَبْدِ الله، فَمَالَ ابْنِ الْعَرَبِیِّ إلى التَّرْجِیحِ فَقَالَ: الصَّحِیحُ أن الَّتِی اشْتَغَلَ عَنْهَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدَةٍ وَهِیَ الْعَصْر

زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابوعبیدہ کے سواہمیں کسی اورسندسے یہ روایت نہیں ملتی اورابوعبیدہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا،ابن العربی اس کوترجیح دیتے ہیں کہ صحیح یہی یہ ہے کہ کفارنے صرف عصرکی نمازمیں آپ کومشغول رکھا۔[88]

فَأَمَرَ بِلَالًا فأذَّن وَأَقَامَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فصلَّى الْعَصْرَ، ثمَّ أَمَرَهُ فَأَذَّنَ، وَأَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى الْعِشَاءَ

جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرہرنمازکے لئے الگ الگ اذان واقامت دونوں کہیں ۔[89]

وقال النووی: طَرِیقٍ الْجُمَعِ بَیْنَ هَذِهِ الرِّوَایَات، أن وَقْعَةَ الْخَنْدَق بَقِیَتْ أَیَّامًا فَكَانَ هذا فی بَعْضِ الْأَیَّامُ وهذا فِی بَعْضُهَا

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ یہ دونوں دوالگ الگ واقعے ہیں جوجنگ خندق کے دوران پیش آئے تھے کیونکہ یہ جنگ پندرہ دن تک جاری رہی تھی اسے اس پرمحمول کیاجاتاہے کہ ان ایام میں کسی دن یہ واقعہ بھی پیش آگیاتھا۔[90]

وَأَقَامَ أُسَیْدُ بْنُ الْحَضِیرِ عَلَى الْخَنْدَقِ فِی مِائَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ،وَكَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی خَیْلٍ من الْمُشْرِكِینَ یَطْلُبُونَ غرة من الْمُسْلِمِینَ، فَنَاوَشُوهُمْ سَاعَةً،وَمَعَ الْمُشْرِكِینَ وَحْشِیٌّ، فَزَرَقَ الطُّفَیْلَ بن النُّعْمَان من بَنِی سَلِمَة بزراقة فَقَتَلَهُ، وَانْكَشَفُوا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے نمازکے لیےجانے کے بعداسیدبن حضیردوسومسلمانوں کے ہمراہ خندق پرہی رہے،اسی اثنامیں خالدبن ولیدجومسلمانوں کی تلاش میں تھےمشرکین کے لشکرکے ساتھ پلٹے،تھوڑی دیرانہوں نے مقابلہ کیا،مشرکین کے ہمراہ وحشی بھی تھااس نے طفیل بن نعمان رضی اللہ عنہ کو جو بنوسلمہ میں سے تھے اپنانیزہ کھینچ کرمارااورانہیں قتل کرکے بھاگ گیا۔[91]

اس تمام دن میں زوروں کامقابلہ رہا،دشمن کے تیراندازخندق کوگھرے ہوئے تھے اوربے تکان تیر چلارہے تھے،لیکن مسلمان جوتھک چکے تھے ، بھوک وپیاس سے بدحال تھے پہاڑکی طرح اپنی جگہ اٹل تھے اورذرابھی پیچھے ہٹنے کانام نہیں لے رہے تھے،اسی اثنامیں انصار کا ایک بڑابازوٹوٹ گیا۔

عَائِشَةُ، قَالَتْ: خَرَجْتُ یَوْمَ الْخَنْدَق أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ، فو الله إِنِّی لأَمْشِی إِذْ سَمِعْتُ وَئِیدَ.الأَرْضِ خَلْفِی تَعْنِی حِسَّ الأَرْضِ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِسَعْدٍ، فَجَلَسْتُ إِلَى الأَرْضِ، وَمَعَهُ ابْنُ أَخِیهِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں قلعہ سے باہرنکل کرلشکرکاحال معلوم کرنے کے لئے پھررہی تھی کہ عقب سے کسی کے پاؤں کی آہٹ اوراس کے ہتھیاروں کی جھنکار محسوس ہوئی ،میں نے مڑکر دیکھا تو سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ ہاتھ میں حربہ لئے جوش کی حالت میں بڑی تیزی کے ساتھ لشکرکی طرف بڑھے چلے جارہے تھے ،ان کے ساتھ ان کابھائی حارث بن اوس رضی اللہ عنہ بھی تھا،ان کی زبان پریہ شعرتھا۔

لَبِّثْ قَلِیلًا یَشْهَدِ الْهَیْجَا حَمَلْ،لَا بَأْسَ بِالْمَوْتِ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ

ذراٹھیرجاناکہ لڑائی میں ایک اورشخص پہنچ جائے ،وقت جب آگیاتوموت سے کیاڈرہے

سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی والدہ کبیثیہ بنت رافع بن معاویہ بن عبیدبن ثعلبہ بن عبدبن ابجرانصاری جنہوں نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیت کی تھی اورجواس قلعہ میں تھیں ،

قَالَتْ لَهُ أُمُّهُ: الْحَقْ یَا بُنَیَّ، فَقَدْ وَاللهِ أَخَّرْتَ، یَحْمِلُ مِجَنَّهُ، وَعَلَى سَعْدٍ دِرْعٌ مِنْ حَدِیدٍ قَدْ خَرَجَتْ أَطْرَافُهُ مِنْهَاسقَالَتْ: وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لَهَا: یَا أُمَّ سَعْدٍ، وَاللهِ لَوَدَدْتُ أَنَّ دِرْعَ سَعْدٍ كَانَتْ أَسْبَغَ مِمَّا هِیَ! قَالَتْ: وَخِفْتُ عَلَیْهِ حَیْثُ أَصَابَ السَّهْمُ مِنْهُ،وَفِیهِمْ رَجُلٌ عَلَیْهِ تَسْبِغَةٌ لَهُ قَالَ مُحَمَّدُ: وَالتَّسْبِغَةُ الْمِغْفَرُ لا تُرَى إِلا عَیْنَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّكِ لَجَرِیئَةٌ، مَا جَاءَ بِكِ؟مَا یُدْرِیكِ لَعَلَّهُ یَكُونُ تَحَوُّزٌ أَوْ بَلاءٌ!فو الله مَا زَالَ یَلُومُنِی حَتَّى وَدَدْتُ أَنَّ الأَرْضَ تَنْشَقُّ لِی فَأَدْخُلَ فِیهَا

انہوں نے بیٹے کی آوازسن کرکہابیٹادوڑکرجاتونے دیرلگادی،سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے زرہ پہنی ہوئی تھی اوران کے ہاتھ میں ڈھال تھی،لیکن بڑے لمبے چوڑے تھے اورزرہ اس قدر چھوٹی تھی کہ ان کے دونوں ہاتھ باہرتھے،عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی والدہ سے کہااے ام سعد رضی اللہ عنہ !میں چاہتی تھی کہ سعد رضی اللہ عنہ کی زرہ پوری ہوتی،ان کی والدہ نے کہامجھے ڈرہے کہ کہیں ان کے جسم کے کھلے ہوئے حصہ پرکوئی تیرنہ لگے ،جب وہ مجھ سے آگے چلے گئے تومیں یہاں سے اورآگے بڑھی اورایک باغیچے میں جا کربیٹھ گئی جہاں چند مسلمان بیٹھے ہوئے تھے ،ان میں سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اورایک اورایساشخص تھاجس نے کامل خودپہن رکھاتھامحمد نے کہا کہ مغفر تھی جس میں سے صرف آنکھیں نظرآرہی تھیں ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا اور کہنے لگے تم بڑی دلیرہو؟یہاں کیوں آئی ہوتم نہیں جانتیں لڑائی ہورہی ہے ؟اللہ جانے کیانتیجہ نکلے ممکن ہے کہ بھاگناپڑے یاکسی اورمصیبت میں پڑجاؤ،اب وہ اس طرح ملامت کرنے میں میرے پیچھے پڑگئے کہ میں چاہتی تھی کہ زمین شق ہوجائے اورمیں اس میں دھنس جاؤں ،

فَكَشَفَ الرَّجُلُ التَّسْبِغَةَ عَنْ وَجْهِهِ، فَإِذَا هُوَ طَلْحَةُ،فَقَالَ: إِنَّكَ قَدْ أَكْثَرْتَ، أَیْنَ الْفِرَارُ، وَأَیْنَ التَّحَوُّزُ إِلا إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ!قَالَتْ: وَیَرْمِی سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ مِنْ قُرَیْشٍ، یُقَالُ لَهُ ابْنُ الْعَرِقَةِ، بِسَهْمٍ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَةِ،فَأَصَابَ أَكْحَلَهُ، فَقَطَعَهُ، أَنَّ سَعْدًا قَالَ: اللهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَیْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ أُجَاهِدَهُمْ فِیكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْرَجُوهُ، اللهُمَّ فَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الحَرْبَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ ، فَإِنْ كَانَ بَقِیَ مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْءٌ فَأَبْقِنِی لَهُ، حَتَّى أُجَاهِدَهُمْ فِیكَ، وَإِنْ كُنْتَ وَضَعْتَ الحَرْبَ فَافْجُرْهَا وَاجْعَلْ مَوْتَتِی فِیهَا

جن صاحب نے مغفرسے اپنا منہ چھپایاہواتھاانہوں نے سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کی یہ باتیں سن کراپنے سرسے لوہے کا ٹوپ اتارا،اب میں پہچان گئی کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے ، انہوں نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیاملامت شروع کررکھی ہے ،نتیجے کاکیاڈرہے ؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے؟کوئی بھاگ کے جائے گاکہاں ؟سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے، فرماتی ہیں کہ قریش میں سے حبان بن عرقہ عامری نامی ایک دشمن تاک میں تھا،اس نے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کونشانے پردیکھ کر یہ کہہ کر تیر چلایایہ تحفہ لواورمیں ابن عرقہ ہوں ، یہ تیرسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کوآکرلگاجس سے اکحل کی رگ کٹ گئی اورخون کافوارہ جاری ہوگیا،اس وقت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی،اورمالک کائنات سے التجاکی اے اللہ!توجانتاہے کہ اس سے زیادہ مجھے اورکوئی چیزپسندیدہ نہیں کہ تیرے راستے میں میں اس قوم سے جہادکروں جس نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور انہیں (ان کے وطن مکہ سے)نکالا،اے اللہ!لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ تونے ہمارے اوران کے درمیان لڑائی کاسلسلہ ختم کردیاہے،لیکن اگرقریش سے ہماری لڑائی کاکوئی بھی سلسلہ ابھی باقی ہے تومجھے اس کے لیے زندہ رکھ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہادکروں اوراگرلڑائی کے سلسلے کوتونے ختم ہی کردیاہے تومیرے زخموں کوپھرسے ہراکردے اوراسی میں میری موت واقع کردے۔[92]

فَقَالَ: اللهُمَّ لَا تُمِتْنِی حَتَّى تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ قُرَیْظَةَ

اوراے میرے رب!جب تک میری آنکھیں بنی قریظہ سے نہ ٹھنڈی ہولیں مجھ کوموت نہ دے۔[93]

فَثَقُلَ حَوَّلُوهُ عِنْدَ امْرَأَةٍ یُقَالُ لَهَا رُفَیْدَةُ. وَكَانَتْ تداوی الجرحى

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد کے صحن میں ایک خیمہ کھڑاکرایا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کوزخمی حالت میں خیمہ میں لے جایاگیاجہاں رفیدہ رضی اللہ عنہ نامی خاتون ان کے زخمیوں کی مرہم پٹی وغیرہ کا کام سرانجام دے رہی تھیں ۔[94]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون روکنے کے لئے خودمثقص کو دست مبارک میں لیکر زخم کوداغالیکن پھرورم آگیا،زخم کودوبارہ داغاگیالیکن کوئی فائدہ نہ ہوا،کئی دن کے بعدجب بنوقریظہ اپنے انجام کوپہنچ گئے توزخم دوبارہ کھل گیااورانہوں نے اسی زخم کی وجہ سے شہادت پائی۔

جنگ ایک دھوکاہوتی ہے:

کفارومشرکین تیراندازی کے بجائے خندق عبورکرکے مسلمانوں سے دست بدست لڑائی کرناچاہتے تھے مگراتنی شدت کی تیراندازی کے باوجود انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی اوروہ اس مقصدکے لئے بنوقریظہ کواستعمال کرناچاہتے تھے، مگر رب کی تدبیرکے آگے کس کی تدبیرچلتی ہے ،قبیلہ غطفان کی ایک شاخ اشجع کے ایک رئیس نعیم بن مسعودبن عامربن انیف بن ثعلبہ تھاقریش اوریہوددونوں ان کومانتے تھے،یہ اندرتومسلمان ہوچکے تھے مگر کسی وجہ سے اس کااظہارنہ کر سکے تھے

فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ، وَإِنَّ قَوْمِی لَمْ یَعْلَمُوا بِإِسْلامِی، فَمُرْنِی بِمَا شئت،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا أَنْتَ فِینَا رَجُلٌ وَاحِدٌ، فَخَذِّلْ عَنَّا إِنِ اسْتَطَعْتَ، فَإِنَّ الحَرْبُ خَدْعَةٌ،فَخَرَجَ نُعَیْمُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى أَتَى بَنِی قُرَیْظَةَ- وَكَانَ لَهُمْ نَدِیمًا فِی الْجَاهِلِیَّةِ، یَا بَنِی قُرَیْظَةَ، قَدْ عَرَفْتُمْ وُدِّی إِیَّاكُمْ، وَخَاصَّةَ مَا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ، قَالُوا: صَدَقْتَ، لَسْتَ عِنْدَنَا بِمُتَّهَمٍ،

وہ چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اسلام لے آیاہوں لیکن ابھی تک میری قوم کو میرے اسلام کاعلم نہیں ہے اس لئے آپ مجھے جوچاہیں حکم دے سکتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانعیم! تم واحدآدمی ہو(جواندرسے مسلمان ہومگرکفارتمہیں اپناساتھی سمجھتے ہیں )لہذااگر کر سکو تو مخالفین میں تفرقہ پیداکرکے ہمارے مقابلے سے ہٹادو،اس کے لئے تم جوچاہوکروتمہیں اجازت ہے کیونکہ جنگ نام ہی اصل میں حیلہ اورتدبیرکاہے ،یہ حکم پاکر نعیم جس طرح چپکے سے آئے تھے اسی طرح واپس ہوگئے اورسوچنے لگے کہ دشمنوں کے ناپاک عزائم کو کیوں کرناکام کروں ،آخرایک ترکیب ان کے ذہن میں آگئی کہ دشمن کوناکام کرناہے توان میں پھوٹ ڈال دو،اس سے بہتراورکوئی تدبیرنہیں ،نعیم بن مسعودزمانہ جاہلیت میں بنوقریظہ کے مصاحب وہمنشین تھے اوریہودی ان کی بڑی عزت کرتے تھے ، وہ بنو قریظہ کے پاس آئے اور انہوں نے ان کاپرتپاک خیر مقدم کیا، نعیم کچھ دیرتک ادھرادھرکی باتیں کرتے رہے پھرموقعہ پاکر ان سے کہااے بنی قریظہ! تم میری اپنے سے محبت خاص کرمیرے اپنے درمیان معاملات اخلاص سے بخوبی واقف ہو،وہ بولے تم نے سچ کہاہے تم ہمارے نزدیک متہم نہیں ہو،

فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّ قُرَیْشًا وَغَطَفَانَ قَدْ جَاءُوا لِحَرْبِ مُحَمَّدٍ، وَقَدْ ظَاهَرْتُمُوهُمْ عَلَیْهِ، وَإِنَّ قُرَیْشًا وَغَطَفَانَ لَیْسُوا كَهَیْئَتِكُم، الْبَلَدُ بَلَدُكُمْ، بِهِ أَمْوَالُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَنِسَاؤُكُمْ، لا تَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ تَحَوَّلُوا مِنْهُ إِلَى غَیْرِهِ ، وَإِنَّ قُرَیْشًا وَغَطَفَانَ أَمْوَالُهُمْ وَأَبْنَاؤُهُمْ وَنِسَاؤُهُمْ وَبَلَدُهُمْ بِغَیْرِهِ، فَلَیْسُوا كَهَیْئَتِكُمْ،إِنْ رَأَوْا نُهْزَةً وَغَنِیمَةً أَصَابُوهَا، وَإِنْ كَانَ غَیْرَ ذَلِكَ لَحِقُوا بِبِلادِهِمْ، وَخَلَّوْا بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ الرَّجُلِ بِبَلَدِكُمْ، وَلا طَاقَةَ لَكُمْ بِهِ إِنْ خَلا بِكُمْ

پھرانہوں نے ان سے کہاکہ قبائل قریش وغطفان محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے لڑنے آئے ہیں اورتم نے انہیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )پر(اپنی شرکت سے ) غالب بنادیاہے لیکن قریش وغطفان تمہاری طرح نہیں ہیں ،یہ شہرتمہاراشہرہے جس میں تمہارے اموال ،اولاداورعورتیں موجود ہیں تم انہیں یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کرسکتے برخلاف اس کے قریش وغطفان کے اموال اولاد اور عورتیں اوران کے شہردوسری جگہ ہیں ،اس لئے وہ تمہاری طرح نہیں ہیں ، اگرانہیں کوئی فائدہ ملااورمال غنیمت ہاتھ آیاتووہ اسے حاصل کر لیں گے اوراگرمعاملہ برعکس ہواتووہ اپنے شہروں کولوٹ جائیں گے پھرتمہارے اوراس شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے درمیان جھگڑاچھوڑجائیں گے اور اکیلے تمہارے اوراس کے درمیان مقابلہ ہواتوتم تنہااس کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے ،اس وقت تمہاری بنی قینقاع اوربنی نضیرسے بھی بری گت بنے گی،

فَلا تُقَاتِلُوا مَعَ الْقَوْمِ حَتَّى تَأْخُذُوا مِنْهُمْ رَهْنًا مِنْ أَشْرَافِهِمْ یَكُونُونَ بِأَیْدِیكُمْ، ثِقَةً لَكُمْ عَلَى أَنْ یُقَاتِلُوا مَعَكُمْ مُحَمَّدًا، حَتَّى تُنَاجِزُوه ، فَقَالُوا: لَقَدْ أَشَرْتَ بِرَأْیٍ وَنُصْحٍ،ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى أَتَى قُرَیْشًا، فَقَالَ لأَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ رِجَالِ قُرَیْشٍ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، قَدْ عَرَفْتُمْ وُدِّی إِیَّاكُمْ، وَفِرَاقِی مُحَمَّدًا، وَقَدْ بَلَغَنِی أَمْرٌ رَأَیْتُ حَقًّا عَلَیَّ أَنْ أُبَلِّغَكُمُوهَ نُصْحًا لَكُمْ، فَاكْتُمُوا عَلَیَّ، قَالُوا: نَفْعَلُ، قَالَ: فَاعْلَمُوا أَنَّ مَعْشَرَ یَهُودَ قَدْ نَدِمُوا عَلَى مَا صَنَعُوا فِیمَا بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ، وَقَدْ أَرْسَلُوا إِلَیْهِ أَنْ قَدْ نَدِمْنَا عَلَى مَا فَعَلْنَا، فَهَلْ یُرْضِیكَ عَنَّا أَنْ نَأْخُذَ مِنَ الْقَبِیلَتَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ وَغَطَفَانَ رِجَالا مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَنُعْطِیكَهُمْ،فَتَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، ثُمَّ نَكُونُ مَعَكَ عَلَى مَنْ بَقِیَ مِنْهُمْ؟فَأَرْسَلَ إِلَیْهِمْ أَنْ نَعَمْ

پس تم اس قوم کے ساتھ ہوکرجنگ نہ کرناجب تک ان کے بعض معززین کو اپنے پاس رہن نہ رکھ لوتاکہ وہ اس اعتمادکے لئے تمہارے قبضہ میں رہیں کہ جب تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ کروتووہ آخر تک تمہارے ساتھ رہ کران سے جنگ کرتے رہیں ،اس پر یہودی بولے واقعی تم نے ایک بہترمشورہ دیااور ایک عمدہ نصیحت کی ہے،پھروہ وہاں سے نکل کرابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اورابوسفیان بن حرب اوردوسرے سرداروں سے کہااے جماعت قریش!تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سے کتنی محبت رکھتاہوں اورمحمد سے بے تعلق ہوں ،مجھے ایک خبرمعلوم ہوئی ہے جسے میں نے آپ کی ہمدردی میں آپ تک پہنچاناضروری سمجھاآپ اسے رازمیں رکھیں ،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہاہم رازہی رکھیں گے،نعیم بن مسعود نے کہاآپ لوگوں کو معلوم ہوناچاہیے کہ یہودنے اپنے اورمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے درمیان جوعہدشکنی کی ہے وہ اب اس پرنادم ہیں اورپچھتارہے ہیں ،انہوں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس قاصدکے ذریعہ پیغام بھجوایاہے کہ ہم اپنے کیے پرشرمسارہیں کیاآپ ہم سے اس بات پر خوش ہوجائیں گے کہ ہم قریش وغطفان دونوں قبیلوں سے ان کے کچھ معززین حاصل کرکے آپ کودے دیں اورآپ ان کی گردنیں اڑادیں پھران میں سے باقی ماندہ لشکر کے مقابلہ کے لئے ہم آپ کے ساتھ شریک ہوجائیں ،اس پرمحمدنے کہلا بھیجاکہ ہم اس پرراضی ہیں ،

فَإِنْ بَعَثَتْ إِلَیْكُمْ یَهُودُ یَلْتَمِسُونَ مِنْكُمْ رَهْنًا مِنْ رِجَالِكُمْ، فَلا تَدْفَعُوا إِلَیْهِمْ مِنْكُمْ رَجُلا وَاحِدًا،ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى أَتَى غَطَفَانَ، فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ غَطَفَانَ، أَنْتُمْ أَصْلِی وَعَشِیرَتِی، وَأَحَبُّ الناس الى، ولا أراكم تتهموننى!قَالُوا: صَدَقْتَ، قَالَ: فَاكْتُمُوا عَلَیَّ،قَالُوا: نَفْعَلُ ،ثُمَّ قَالَ لَهُمْ مِثْلَ مَا قَالَ لِقُرَیْشٍ، وَحَذَّرَهُمْ مَا حَذَّرَهُمْ

چنانچہ اگریہود کسی کوبھیج کرتم سے تمہارے معززین رہن رکھنے کامطالبہ کریں توتم بھول کربھی انہیں اپناایک آدمی نہ دینا، پھر وہ وہاں سے نکل کرغطفان کے پاس پہنچے اوران سے کہا اے جماعت غطفان! تم لوگ میری ذات اور میراکنبہ ہو اورمیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو، میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ تم مجھے کسی بات سے متہم کرتےہوںگے، انہوں نے کہا تم نےسچ کہا ہے، اس نے کہا میں ایک رازتمہیں بتانا چاہتا ہوں تم اسے رازمیں رکھنے کاوعدہ کرو، انہوں نےکہا ہمیں منظورہے،پھران سےوہی بات دہرائی جوقریش سےکہہ آئےتھے اورجس بات سے انہیں ڈرایاتھا انہیں بھی ڈرایا،نعیم بن مسعود کی باتوں سے قریش وغطفان بہت پریشان ہوئے،سارےسرداراکٹھےہوئےاورسوچنے لگےکہ بنوقریظہ کے بارے میں کیا کیا جائے، لوگوں نے مختلف رائیں دیں آخریہ طے پایاکہ دونوں قبیلوں کے کچھ سردارجائیں اوربنوقریظہ سے گفتگو کریں کہ بہت دن ہوگئےاس سے زیادہ دیرٹھیرناہمارے بس میں نہیں اب فیصلہ ہوجاناچاہیے جتنی جلد ہوسکے تم لوگ بھی آکر مل جاؤ اورسب مل کرایک ساتھ زبردست حملہ کردیں

فَلَمَّا كَانَتْ لَیْلَةَ السَّبْتِ فِی شَوَّالٍ سَنَةَ خَمْسٍ، وَكَانَ مِمَّا صَنَعَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِرَسُولِهِ أَنْ أَرْسَلَ أَبُو سُفْیَانَ وَرُءُوسُ غَطَفَانَ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ عِكْرِمَةَ بْنَ أَبِی جَهْلٍ، فِی نَفَرٍ مِنْ قُرَیْشٍ وَغَطَفَانَ، فَقَالُوا لَهُمْ:إِنَّا لَسْنَا بِدَارِ مُقَامٍ، قَدْ هَلَكَ الْخُفُّ وَالْحَافِرُ، فَاغْدُوا لِلْقِتَالِ حَتَّى نُنَاجِزَ مُحَمَّدًا وَنَفْرُغَ مِمَّا بَیْنَنَا وَبَیْنَهُ،فَأَرْسِلُوا إِلَیْهِمْ أَنَّ الْیَوْمَ السَّبْتُ، وَهُوَ یَوْمٌ لا نَعْمَلُ فِیهِ شَیْئًاوَقَدْ كَانَ أَحْدَثَ فِیهِ بَعْضُنَا حَدَثًا فَأَصَابَهُ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْكُمْ،وَلَسْنَا مَعَ ذَلِكَ بِالَّذِینَ نُقَاتِلُ مَعَكُمْ حَتَّى تُعْطُونَا رَهْنًا مِنْ رِجَالِكُمْ، یَكُونُونَ بِأَیْدِینَا ثِقَةً لَنَا، حَتَّى نُنَاجِزَ مُحَمَّدًا، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ ضَرَسَتْكُمُ الْحَرْبُ، وَاشْتَدَّ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ، أَنْ تُشَمِّرُوا إِلَى بِلادِكُمْ وَتَتْرُكُونَا وَالرَّجُلُ فِی بَلَدِنَا، وَلا طَاقَةَ لَنَا بِذَلِكَ مِنْ مُحَمَّدٍ

چنانچہ ماہ شوال پانچ ہجری جمعہ اورہفتہ کی درمیانی رات کوابوسفیان اورغطفان کے معززین نے عکرمہ بن ابی جہل کوقریش وغطفان کی ایک جماعت کے ساتھ بنوقریظہ کے پاس روانہ کیا،انہوں نے ان سے کہاکہ ہم یہاں کے رہنے والے نہیں ہیں اورنہ ہماراقیام کسی مناسب جگہ پرہے ،سردی کی شدت سے ہمارے اونٹ اورگھوڑے ہلاک ہو رہے ہیں اس لئے تم کل صبح کوجنگ کے لئے تیارہوجاؤتاکہ ہم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے مقابلہ کرکے اپنے اوران کے درمیان جوجھگڑاہے اس سے فراغت حاصل کرلیں ،انہوں نے جواب دیا کہ لڑائی کا جو دن تم نے مقررکیاہے وہ ہفتہ کادن ہے اوراس دن ہم کوئی کام نہیں کرتے، ہم میں  پہلے کچھ لوگوں نے اس دن حکم ربانی کے منافی کام کرلیاتھا،جس کی پاداش میں عذاب سے دوچارہوناپڑااوروہ ہلاک ہوگئے تھے،دوسری بات یہ کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ کوتیارنہیں جب تک تم اپنے کچھ معززین کو ہمارے پاس رہن نہ رکھ دوتاکہ وہ ہمارے اعتمادواطمینان کے لئے ہمارے قبضہ میں رہیں اس کے بعدہم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے جنگ کریں گے کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگراس جنگ نے تمہیں پیس دیااورلڑائی تمہارے خلاف شدید ہو گئی توتم سمٹ کراپنے شہروں کو لوٹ جاؤگے اورہمیں اس شخص کے بامقابل ہمارے شہرمیں تنہا چھوڑ جاؤگےاس وقت ہم میں اکیلے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے لڑنے کی طاقت نہیں ہوگی،

فَلَمَّا رَجَعَتْ إِلَیْهِمُ الرُّسُلُ بِالَّذِی قَالَتْ بَنُو قُرَیْظَةَ، قَالَتْ قُرَیْشٌ وَغَطَفَانُ: تَعْلَمُونَ وَاللهِ أَنَّ الَّذِی حَدَّثَكُمْ نُعَیْمُ بْنُ مَسْعُودٍ لَحَقٌّ فَأَرْسِلُوا إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ: إِنَّا وَاللهِ لا نَدْفَعُ إِلَیْكُمْ رَجُلا وَاحِدًا مِنْ رِجَالِنَا، فَإِنْ كُنْتُمْ تُرِیدُونَ الْقِتَالَ فَاخْرُجُوا فَقَاتِلُوا،فَقَالَتْ بَنُو قُرَیْظَةَ حِینَ انْتَهَتِ الرُّسُلُ إِلَیْهِمْ بِهَذَا: إِنَّ الَّذِی ذَكَرَ لَكُمْ نُعَیْمُ بْنُ مَسْعُودٍ لَحَقٌّ، مَا یُرِیدُ الْقَوْمُ إِلا أَنْ یُقَاتِلُوا، فَإِنْ وَجَدُوا فُرْصَةً انْتَهَزُوهَا، وَإِنْ كَانَ غَیْرَ ذَلِكَ تُشَمِّرُوا إِلَى بِلادِهمْ، وَخَلُّوا بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ الرَّجُلِ فِی بِلادِكُمْ فَأَرْسَلُوا إِلَى قُرَیْشٍ وَغَطَفَانَ: إِنَّا وَاللهِ لا نُقَاتِلُ مَعَكُمْ حَتَّى تُعْطُونَا رَهْنًا،فَأَبَوْا عَلَیْهِمْ، وَخَذَّلَ اللهُ بَیْنَهُمْ

جب قاصدوں نے واپس پہنچ کر قریش کوبنوقریظہ کاپیغام سنایاتوقریش وغطفان بولے، بخدااب تم جان چکے کہ نعیم بن مسعودنے تم سے جوکچھ کہاتھاوہ بالکل صحیح تھا ، جواباً انہوں نے بنوقریظہ کو کہلا بھیجا کہ بخدا ہم اپناایک آدمی بھی نہ دیں گےاس کے بغیر اگر تم لڑنا چاہتے ہوتومیدان جنگ میں نکل آؤ،جب قاصدنے بنوقریظہ کویہ پیغام سنایا تو انہیں نعیم بن مسعودکی باتوں میں کوئی شک وشبہ نہ رہااوروہ کہنے لگے نعیم بن مسعود نے تم سے جوکہاتھاوہ بالکل درست نکلا،یہ لوگ (ہماری بات منظورکیے بغیر)صرف ہم سے جنگ کراناچاہتے ہیں ، اگر انہیں موقع مل گیاتواس سے (مال غنیمت)کافائدہ اٹھائیں گے اوراگراس کے برعکس ہواتووہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں گے اورتمہیں اوراس شخص محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوتمہارے شہرمیں مقابلہ کے لئے چھوڑجائیں گےچنانچہ انہوں نے قریش وغطفان کوکہلابھیجاکہ اللہ کی قسم! ہم تمہارے ساتھ مل کراس وقت تک جنگ نہ کریں گے جب تک تم ہمارے پاس اپنے کچھ آدمیوں کو بطور یرغمال نہ رکھ دو،انہوں نے اسے منظور کرنے سے صاف انکارکردیا اس طرح حق تعالیٰ نے ان میں تفریق پیدا کردی ،ان کاایک دوسرے پراعتماداٹھ گیا اور حوصلے پست ہوگئے۔[95]

كَانَ فِی أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ مَسْعُودٌ , وَكَانَ نَمَّامًا ،فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ الْخَنْدَقِ بَعَثَ أَهْلُ قُرَیْظَةَ إِلَى أَبِی سُفْیَانَ أَنِ ابْعَثْ إِلَیْنَا رِجَالًا یَكُونُونَ فِی آطَامِنَا حَتَّى نُقَاتِلَ مُحَمَّدًا مِمَّا یَلِی الْمَدِینَةَ , وَتُقَاتِلَ أَنْتَ مِمَّا یَلِی الْخَنْدَقَ , فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقَاتَلَ مِنْ وَجْهَیْنِ، فَقَالَ لِمَسْعُودٍ: یَا مَسْعُودُ , إِنَّا نَحْنُ بَعَثْنَا إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ أَنْ یُرْسِلُوا إِلَى أَبِی سُفْیَانَ فَیُرْسِلَ إِلَیْهِمْ رِجَالًا , فَإِذَا أَتَوْهُمْ قَتَلُوهُمْ، قَالَ: فَمَا عَدَا أَنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ: فَمَا تَمَالَكَ حَتَّى أَتَى أَبَا سُفْیَانَ فَأَخْبَرَهُ ، فَقَالَ: صَدَقَ وَاللهِ مُحَمَّدٌ، مَا كَذَبَ قَطُّ , فَلَمْ یَبْعَثْ إِلَیْهِمْ أَحَدًا،

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک ساتھی جس کا نام مسعود تھا جو توڑ جوڑ کا ماہر تھا، غزوة خندق کے موقع پر اہل قریظہ نے ابو سفیان کی طرف پیغام بھیجا کہ کچھ آدمیوں کو ہماری ضمانت کے طور پر بھیجے تاکہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے گرداور تم خندق میں جنگ کرنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں طرف سے لڑائی کرناگراں گزرا، مسعود سے کہا اے مسعود! ہم نے بنو قریظہ کی طرف پیغام بھیجا تھا کہ ابو سفیان کی طرف کچھ آدمی بھیجیں تو انہوں نے چند آدمی بھیجے جب وہ پہنچے تو انہیں قتل کر دیا گیا، فرمایا(عروہ) جانےسے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، مسعود سے رہا نہ گیا کہ وہ فوراً ابو سفیان کے طرف جاکرخبر کی، اور کہا واللہ! محمد سچے ہیں کبھی جھوٹ نہیں بولا چنانچہ انہوں نے کوئی آدمی بھی (بنوقریظہ) کی طرف نہ بھیجا۔[96]

لیکن سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ ،مغازی موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ اورابن اثیر رحمہ اللہ کے حوالے سے اس روایت کوصحیح ترقراردیتے ہیں کہ بنوقریظہ نے اس جنگ میں اس شرط کے ساتھ شرکت کی تھی کہ قریش ضمانت کے طورپرکچھ آدمی ان کے سپرد کردیں ،قریش نے معاہدے کی اس شرط کوپورانہیں کیاجس کی وجہ سے بنوقریظہ اورقریش کے درمیان بے اطمینانی پیدا ہو گئی چنانچہ بنوقریظہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رازدارانہ یہ پیغام بھیجاکہ اگربنونضیرکومدینہ منورہ میں واپس آنے کی اجازت دے دی جائے تووہ مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرنے پرتیارہیں ،اتفاق سے اتحادیوں ہی کے ایک قبیلہ غطفان کے ایک خاندان ثقف کے رئیس نعیم بن مسعودمسلمان ہونے کی غرض سے دربارنبوت میں حاضر تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ نعیم پیٹ کے کچھ ہلکے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کی پیشکش رازداری کے طورپران سے کہہ دی ،وہ یہاں سے گئے توقریظہ کی خفیہ کوششوں کی خبرقریشی لشکرگاہ میں عام ہوگئی ،دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیداہوگئیں ،لشکربدل ہوگیااوربنوقریظہ اورقریش کااتحادٹوٹ گیا۔[97]

رب کے حضوردعائیں :

مسلمانوں پرکئی راتیں ایسی گزرگئیں ،وہ بے چین تھے،خوف سے بدحال تھے،ان کی آنکھیں پتھراگئیں ،کلیجے منہ کوآگئے ،قلعہ میں عورتیں بے کل تھیں اوربچے بے چینی سے تڑپ رہے تھے، موت مسلمانوں کودبوچ لینے کے لئے بے تاب کھڑی تھی ،منافق غصہ سے تلملارہے تھے، ہرطرف مایوسی پھیلی ہوئی تھی،پوری فضا اداس تھی ،ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کابھروسہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکسو ہوکر بارگاہ الٰہی میں گڑگڑاتے،ہاتھ مبارک پھیلاپھیلاکراللہ کی بارگاہ سے مددکی التجائیں کرتے،صبروہمت کی بھگ مانگتے اوراسلام کی سربلندی اورغلبے کی درخواست کرتے ،ایسے میں دیکھاگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ انورخوشی سے تمتمارہاہے،آنکھیں میں عجیب وغریب چمک تھی جو بے انتہااطمینان کاپتہ دے رہی تھیں ،ایسالگ رہاتھاجیسے فتح کافرشتہ آپ کے سامنے کھڑاہو،مسلمانوں نے دیکھاتوان کے سارے غم دھل گئےاوروہ خوشی سے کھل اٹھے، اب وہ نہ فکرمندتھے اورنہ اداس تھے،ان کے ہونٹ مسکرارہے تھے کہ اب اللہ کی رحمت کوجوش آگیا،اب اللہ کی مددکاوقت آن پہنچا،

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِی أَوْفَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ: دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الأَحْزَابِ عَلَى المُشْرِكِینَ، فَقَالَ: اللهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، سَرِیعَ الحِسَابِ، اللهُمَّ اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اللهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ

عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پرمشرکین کے لیےیہ دعا مانگی اے اللہ !اے کتاب اتارنے والے ! جلدی حساب لینے والے !ان لشکروں کوشکست دے اور ان کوناکامی سے دوچارکر۔[98]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مَسْجِدَ یَعْنِی الْأَحْزَابَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَقَامَ، وَرَفَعَ یَدَیْهِ مَدًّا یَدْعُو عَلَیْهِمْ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد احزاب میں تشریف لائے اپنی چادر رکھی کھڑے ہوئے اور ہاتھوں کو پھیلا کراحزاب کے لیے بد دعاکرنے لگے۔ [99]

وفی روایة أبی نعیم: انتظر حتى زَالَتِ الشَّمْسُ

اورابی نعیم کی روایت میں ہے کہ یہ دعازوال کے بعد فرمائی۔ [100]

اللهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْهِمْ

ایک روایت میں یہ دعامذکورہے اے اللہ!انہیں شکست دے اورہمیں ان پرفاتح بنادے۔[101]

رُبَیْحُ بْنُ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:قُلْنَا یَوْمَ الْخَنْدَقِ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ مِنْ شَیْءٍ نَقُولُهُ؟ فَقَدْ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ قَالَ:نَعَمْ، اللهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا،قَالَ:فَضَرَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وُجُوهَ أَعْدَائِهِ بِالرِّیحِ، فَهَزَمَهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالرِّیحِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نے یوم خندق کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ڈرکے مارے ہمارے دل منہ تک آگئے ہیں ،کوئی ایسا ذکرہے جس کے پڑھنے سے سکون حاصل ہواورہم گھبراہٹ اورڈرسے نجات پائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں یوں دعامانگو، اے اللہ!ہمارے عیبوں کوچھپااورہمارے خوف کو دور کر،ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں زیادہ دیرنہیں ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمنوں کے مقابلہ میں آندھی اورفرشتوں کے لشکربھیج دیئے اوروہ دم دباکربھاگ کھڑے ہوئے۔[102]

نصرت الٰہی:

نعیم بن مسعودقریش اوربنوقریظہ میں بزدلی اورانتشارپھیلانے میں کامیاب ہوگئے،اب وقت مسلمانوں کاساتھ دے رہاتھا،لشکرکفارمیں ابتری اورخوف پھیل گیا،کہاں تووہ خودحملہ آوربن کرآئے تھے اوراب وہ خائف تھے کہ کہیں مسلمان خندق پارکرکے ان پرحملہ نہ کردیں ، دوسری طرف سخت سردی کی راتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان پرسخت آندھی اور بارش بھیجی جس سے کچھ ہی دیرمیں موسم بالکل بدل گیا،بادلوں کی گرج،بجلی کی کڑک چمک، ہواؤں کی تیزجھونکے جس سے دشمنوں کے کلیجے پھٹے جارہے تھے،وہ بے تحاشا اپنے خیموں کی طرف بھاگے ،لیکن ہواؤں کوان پرذرابھی رحم نہ آیاوہ تیزہوتی چلی گئی،اس کی خوفناکی بڑھتی چلی گئی اور لشکرکے خیموں کو اکھاڑ پھینکا ، رسیاں اورطنابیں ٹوٹ گئیں ،کھانے کی دیگچیوں کوچولھوں پراوندھاکردیا،سارے سامان بکھر بکھر گئے اوروہ کڑکڑاتی سردی سے ٹھٹھرنے لگے،اس برفانی ہوامیں ریت اور کنکریوں کاعذاب بھی پوشیدہ تھاجس سے ان کی آنکھیں پٹ گئیں ،کوئی کسی کودیکھتانہ تھا،تیزٹھنڈی برفیلی ہوا،ریت اورکنکریوں سے ان کے جانوراونٹ گھوڑے ہلاک ہو گئے ،ہواکے ساتھ ہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرشتوں کی مددبھی بھیجی جنہوں نے کفارکے دلوں میں خوف اورعب ڈال دیا،جس قریش کے دل کپکپااٹھے اوروہ بدحواس ہوکرچیخنے لگے ہائے تباہی ،ہائے بربادی ۔

تحقیق حال:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تاریکی میں دشمن کے حالات کی خبرلانے کے لئے دیکھ بھال کے دستے بھیجاکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکفارکی ہرچال اور ہر کمزوری کاعلم ہوجاتاتھا،

فَقَالَ حُذَیْفَةُ:لَقَدْ رَأَیْتُنِی بِالْخَنْدَقِ وَصَلَّى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هو یَا مَنْ اللیْلِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا فَقَالَ:من رَجُلٌ یَقُوم فَیَنْظُر مَا فَعَلَ الْقَوْمَ، ثُمَّ یَرْجِع بِشَرْطٍ له الرَّجْعَةَ، أَسْأَلُ اللهَ أَنْ یَكُونَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّة،وَمَا قَامَ رَجُلٌ وَاحِدٌ مِنْ شِدّةِ الْجُوعِ وَالْقُرّ وَالْخَوْفِ،فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ أَحَدٌ، فَقَالَ:من رَجُلٌ یَقُوم فَیَنْظُر مَا فَعَلَ الْقَوْمَ، ثُمَّ یَرْجِع بِشَرْطٍ له الرَّجْعَةَ، أَسْأَلُ اللهَ أَنْ یَكُونَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّة،وَمَا قَامَ رَجُلٌ وَاحِدٌ مِنْ شِدّةِ الْجُوعِ وَالْقُرّ وَالْخَوْفِ، فَقَالَ: یَا حُذَیْفَةُ! اذْهَبْ فَادْخُلْ فِی الْقَوْمِ، فَانْظُرْ مَاذَا یَفْعَلُونَ،فَقُلْتُ: أَخْشَى أن أؤسر إِنَّكَ لَنْ تؤسر

جس رات دشمن پسپاہوااس دن کے بارے میں حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے غزوہ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی رات تک نمازپڑھتے رہے، فارغ ہوکردریافت کیاکہ کوئی ہے جوجاکرلشکرکفارکی خبرلائے ؟ اللہ کے نبی اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا،کوئی کھڑانہ ہواکیونکہ خوف،بھوک اور سردی کی انتہاتھی ،پھرآپ دیرتک نمازپڑھتے رہے ،پھرفرمایاکوئی جوجاکریہ خبرلادے کہ مخالفین نے کیاکیا؟اللہ کے رسول اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرورواپس آئے گااورمیری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرارفیق کرے،جب کوئی بھی کھڑانہ ہوا،تودوبارہ فرمایا کوئی ہے جوجاکرلشکرکفارکی خبرلائے ؟اللہ کے نبی اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا،کوئی کھڑانہ ہواکیونکہ بھوک کے مارے پیٹ کمرسے لگ رہاتھا،سردی کے مارے دانت بج رہے تھے ،خوف کے مارے پتے پانی ہورہے تھے، بالآخرمیرانام لے کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی ،اب توکھڑے ہوئے بغیرچارہ ہی نہ تھا فرمانے لگے اے حذیفہ رضی اللہ عنہ ! توجااوردیکھ کہ وہ اس وقت کیاکررہے ہیں ،میں نے عرض کیاکہ کہیں میں پکڑانہ جاؤں ، آپ نے فرمایا توہرگزگرفتارنہیں ہوگااورمیرے لئے یہ دعافرمائی

اللهُمّ،احْفَظْهُ مِنْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ، وَعَنْ یَمِینِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ فَوْقِهِ وَمِنْ تَحْتِهِ!

ترجمہ:اے اللہ اس کے آگے اورپیچھے سے،دائیں اوربائیں سے اوپراورنیچے سے اس کی حفاظت فرما۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے میراخوف دورہوگیا،جب میں روانہ ہونے لگاتوفرمایا

یا حُذَیْفَہ! وَلا تُحَدِّثَنَّ فی القوم شَیْئًا حَتَّى تَأْتِیَنَاقَالَ: فَذَهَبْتُ فَدَخَلْتُ فیهم،فِی الْقَوْمِ وَالرِّیحُ وَجُنُودُ اللهِ تَفْعَلُ بِهِمْ مَا تَفْعَلُ، لا تُقِرٌّ لَهُمْ قِدْرًا وَلا نَارًا وَلا بِنَاء، فَقَامَ فقال أَبُو سُفْیَانَ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ: لِیَنْظُرْ امْرُؤٌ مَنْ جَلِیسُهُ؟ قَالَ حُذَیْفَةُ: فَأَخَذْتُ بِیَدِ الرَّجُلِ الَّذِی كَانَ إلَى جَنْبِی، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّكُمْ وَاللّهِ مَا أَصْبَحْتُمْ بِدَارِ مُقَامٍ، لَقَدْ هَلَكَ الْكُرَاعُ وَالْخُفُّ ،وَأَخْلَفَتْنَا بَنُو قُرَیْظَةَ، وَلَقِینَا مِنْ شِدَّةِ الرِّیحِ مَا تَرَوْن فَارْتَحِلُوا فَإِنِّی مُرْتَحِلٌ ووثب على جَمَلِهِ فما حُلّ عِقَالٍ یَدِهِ إلا وهو قَائِمٌ

اے حذیفہ! جب تک میرے پاس نہ آجاؤاورکسی سے کوئی بات بیان نہ کرنا، حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں حسب ارشاددشمن کی چھاونی میں آیااس وقت تیزوتندہوااوراللہ کی فوجوں نے دشمن کاناک میں دم کررکھاتھا،ہوااس قدرتندتھی کہ کوئی دیگچی چولہے پرٹھہرتی تھی اورنہ آگ جلتی تھی اورنہ کوئی خیمہ اپنی جگہ برقرارتھا،اوراس قدرتاریکی چھائی ہوئی تھی کہ کوئی چیزدکھائی نہیں دیتی تھی،لشکرکاسپہ سالارابوسفیان بن حرب اپنے لشکرکے سامنے کھڑا ہوا اور کہااے گروہ قریش! ہرشخص اپنے برابر والے پرنگاہ رکھے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے کہ کوئی ان سے ان کے بارے میں پوچھے فوراً اس قریشی نوجوان کاہاتھ پکڑاجوان کے قریب بیٹھا تھا اور پوچھا تم کون ہو؟اس نے کہامیں فلاں ابن فلاں ہوں ،میں نے کہا ہوشیار رہنا،پھرابوسفیان نے کہااے گروہ قریش!واللہ تم صحیح مقام پرنہیں ٹھیرے،ہمارے اونٹ،گھوڑے اوردوسرے جانورہلاک ہوگئے ،بنوقریظہ نے ہمیں چھوڑ دیا ،ان کے طرزعمل سے ہمیں بڑی مایوسی ہوئی ،ادھراس برفیلی تندوتیزہواسے جوتباہی آئی ہے وہ بھی تم دیکھ رہے ہوواللہ چولہے پرہماری دیگچیاں ٹھیرتی ہیں نہ آگ ٹھیرتی ہے نہ خیمے ہی رکتے ہیں ،رسدختم ہوچکی لہذا بہتر ہے کہ فوراًیہاں سے کوچ کرجاؤمیں توکوچ کا عزم کر چکا ہو ں ،

ثُمَّ قَامَ إلَى جَمَلِهِ وَهُوَ مَعْقُولٌ، فَجَلَسَ عَلَیْهِ، ثُمَّ ضَرَبَهُ، فَوَثَبَ بِهِ على ثَلَاث، فو الله مَا أَطْلَقَ عِقَالَهُ إلَّا وَهُوَ قَائِم، وَلَوْلَا عَهْدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَیَّ أَنْ لَا تُحْدِثَ شَیْئًا حَتَّى تَأْتِیَنِی ، ثُمَّ شِئْتُ، لَقَتَلْتُهُ بِسَهْمِ، قَالَ حُذَیْفَةُ: فَرَجَعْتُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی مِرْطٍ لِبَعْضِ نِسَائِهِ، مَرَاجِلُ،فَلَمَّا رَآنِی أَدْخَلَنِی إلَى رِجْلَیْهِ، وَطَرَحَ عَلَیَّ طَرَفَ الْمِرْطِ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، وَإِنِّی لِفِیهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَوَسَمِعَتْ غَطَفَانُ بِمَا فَعَلَتْ قُرَیْشٌ، فَانْشَمَرُوا رَاجِعِینَ إلَى بِلَادِهِمْ

وہ یہ کہہ کربدحواسی میں اپنے بندھے ہوئے اونٹ کے پاس پہنچے اوراس پربیٹھ کراس پرضرب لگائی ،وہ تین مرتبہ اچکامگراس کی رسی نہیں کھولی تھی اس لئے وہیں کھڑارہا،قریش اس طویل قیام سے اکتاچکے تھے اورجتنی مدت انتظارکرچکے تھے اس سے زیادہ انتظارمیں انہیں کوئی فائدہ نظر نہ آتاتھا ، تیز آندھی کے چلنے ،سردی کی شدت ، بنوقریظہ کے جنگ میں شریک نہ ہونے اور تعداد کثیرکے باوجود مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ مایوس اوربددل چکے تھے ،اب جب سالار لشکرنے ہی چلنے کاعزم کرلیا اور سواری پربھی سوار ہو گیاتوباقی لشکر کہاں ٹھیرسکتاتھاسپہ سالارکی کیفیت سارے لشکرمیں حلول کرگئی اورواپسی کے لئے ان میں بھگدڑمچ گئی، حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیاکہ ابوسفیان کوتیرسے مارڈالوں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت یادآگئی کہ اے حذیفہ! کوئی نئی بات نہ کرنااس لئے واپس لوٹ آیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی کسی بیوی کامنقش لبادہ اوڑھے کھڑی نمازپڑھ رہے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھاتومجھےاپنے پیروں کے بیچ میں داخل کرلیااورمجھ پرچادرڈال دی ،پھررکوع اورسجدہ کرکے سلام پھیرامیں نے ساراواقعہ عرض کیا،جب غطفان کوپتہ چلاکہ قریش نے ان سے مشورہ بھی نہیں کیااوررخت سفرباندھ لیا تووہ بھی دوسرے قبائل کے ساتھ اپنے بھاری سازوسامان کووہیں چھوڑ کرفوراًتیزی سے اپنے علاقوں کی طرف چل دیئے۔[103]

فَلَمَّا وَلَّیْتُ مِنْ عِنْدِهِ جَعَلْتُ كَأَنَّمَا أَمْشِی فِی حَمَّامٍ حَتَّى أَتَیْتُهُمْ، فَرَأَیْتُ أَبَا سُفْیَانَ یَصْلِی ظَهْرَهُ بِالنَّارِ فَوَضَعْتُ سَهْمًا فِی كَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِیَهُ فَذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَلَا تَذْعَرْهُمْ عَلَیَّ، وَلَوْ رَمَیْتُهُ لَأَصَبْتُهُ فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَمْشِی فِی مِثْلِ الْحَمَّامِ، فَلَمَّا أَتَیْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ، وَفَرَغْتُ قُرِرْتُ فَأَلْبَسَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَضْلِ عَبَاءَةٍ كَانَتْ عَلَیْهِ یُصَلِّی فِیهَا، فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ قَالَ:قُمْ یَا نَوْمَانُ

اورصحیح مسلم میں ہےمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے رخصت ہوکرآگے چلاتومجھے یوں محسوس ہورہاتھاکہ گویامیں گرم حمام میں جارہاہوں ، میں دشمن کے لشکرمیں پہنچاتو دیکھاکہ ابوسفیان اپنی پیٹھ آگ کی طرف کیے آگ سینک رہاہے، میں نے کمان میں تیرڈالا،تیرچلانے ہی لگاتھاکہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم یادآگیاکہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنااگرمیں تیرچلادیتاتویقیناًابوسفیان کی کمرمیں پیوست ہوجاتا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کرآپ کودشمن کی صورت حال سے مطلع کیاجب میں اس کام سے فارغ ہواتومجھے زبردست سردی لگنے لگی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چادراوڑھ کرنمازپڑھ رہے تھے اس کازائدحصہ آپ نے مجھے اوڑھادیاتومیں آرام سے سوتارہاحتی کہ صبح ہوگئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااٹھ اے گہری نیندسونے والے۔[104]

ان کایہ چھوڑاہواسامان مسلمانوں کے ہاتھ لگااوربنوقریظہ قلعوں میں گھس گئے اورغزوہ احزاب کاسب سے بڑاکردارحیی بن اخطب نضری بھی اپنے وعدہ کے مطابق بنوقریظہ کے ساتھ ان کے قلعہ میں چلاگیا،مدینہ منورہ کاافق بیس،بائیس دن تک غبارآلودرہنے کے بعدصاف ہوگیایوں اللہ تعالیٰ نے غیظ وغضب سے بھرپوردشمنوں کواپنے مقصدمیں ناکام واپس کیااورمسلمانوں کوان کے ساتھ جنگ کرنے سے بچالیا ، اس نے اپناوعدہ پورافرمایااوراپنے لشکر کو غلبہ دیا،اپنے رسول کی مددفرمائی اوراکیلے نے دشمن فوجوں کوشکست دی۔

ان کے جانے کے بعدبروزچہارشنبہ جب ذی القعدہ کے ابھی سات دن رہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان کے ہمراہ خندق سے مدینہ شہر واپس آگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پراللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوستائش کے یہ کلمات تھے

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ

اللہ کے سواکوئی معبودنہیں وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں ،ملک اسی کاہے اورحمداسی کے لئے ہے وہ ہرچیزپرقادرہے ،پس ہم واپس ہورہے ہیں ،توبہ کرتے ہوئے ،عبادت کرتے ہوئے اپنے رب کے حضورسجدہ کرتے ہوئے اوراس کی حمدکرتے ہیں ،اللہ نے اپناوعدہ سچاکردکھایااپنے بندے کی مددکی اورسارے لشکر کو تنہا شکست دے دی ۔[105]

وَحَاصَرَهُمْ الْمُشْرِكُونَ خَمْسَ عَشْرَةَ لَیْلَةً وَانْصَرَفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. یَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ لِسَبْعَ لَیَالٍ بَقِینَ مِنْ ذِی الْقَعْدَةِ سَنَةً خَمْسَ

ابن سعدکہتے ہیں مشرکین نے پندرہ روزمسلمانوں کامحاصرہ کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۳ذی القعدہ یوم چہارشنبہ پانچ ہجری کوواپس ہوئے۔[106]

قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ: حَاصَرَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكُونَ فِی الْخَنْدَقِ أَرْبَعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَةً

مسعید بن المسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں شرکین نے خندق میں چوبیس رات تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا۔[107]

وَأَقَامَ الْمُشْرِكُونَ مُحَاصِرِینَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں مشرکین نےایک ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محاصرہ میں رکھا۔[108]

تاریخ اسلام کی یہ فیصلہ کن جنگ تھی ،جس میں پوراعرب ہی شامل ہو گیاتھامگراللہ نے ان کے حوصلے پست اوردلوں میں رعب ودبدبہ ڈال دیا اورمشرکین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ مسلمانوں اوران کی چھوٹی سی ریاست کوختم کرناان کے بس کا روگ نہیں ،چنانچہ اس سےاسلام کی تبلیغ اورنشرواشاعت پربہت اچھااثرپڑا،مسلمان دفاع کے دورسے نکل کرہجوم کے دورمیں داخل ہوگئے اوراسلام کاپرچم تمام پرچموں سے بلندوبالانظرآنے لگا، اس موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بصیرت ناقدہ سے محسوس فرما لیا کہ مشرکین نے واپس جاکرایک نہایت نادراورقیمتی موقعہ کھودیاہےاوروہ بارباراتنابڑالشکرفراہم نہیں کرسکتے،اب انہیں ایساموقع کبھی میسرنہیں آئے گا،

سُلَیْمَانَ بْنَ صُرَدٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: حِینَ أَجْلَى الأَحْزَابَ عَنْهُ: الآنَ نَغْزُوهُمْ وَلاَ یَغْزُونَنَا، نَحْنُ نَسِیرُ إِلَیْهِمْ

سلیمان رضی اللہ عنہ بن صرد سے مروی ہےجس وقت اللہ تعالیٰ نے کفارکی فوجوں کوواپس کیاتومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا اس سال کے بعدقریش کبھی تم سے جنگ نہ کریں گے بلکہ ہم ہی ان پرفوج کشی کیا کریں گے۔[109]

اورواقعتاً ایساہی ہواجیساآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا روساء مکہ کی طرف سے دین اسلام کومٹانے کے لئے یہ آخری کوشش تھی گوطرفین کاجانی نقصان اس لڑائی میں معمولی تھا تاہم اس کے نتائج فیصلہ کن تھے ،اس فیصلہ کن لڑائی کی اہمیت یہ ہے کہ اس قدرمعمولی نقصان اٹھانے کے باوجودکفارکاعظیم لشکرلڑائی ہارگیاتھااورتاریخ میں ایسی کم ہی مثال ملے گی،اس فیصلہ کن لڑائی کے اسباب تنظیم،اتحاد اوریقین محکم کے اصولوں کے علاوہ دفاعی جنگ کے وہ تمام جنگی اصول ہیں جوآج کل فوج کوسکھائے جاتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادفاعی منصوبہ حالت کے تحت نہایت موزوں اورجارحانہ کاروائی کاعنصربھی رکھتاتھا،لشکرکفارکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسندیدہ زمین پرمجبورکرکے بروقت جوابی حملے سے دشمن کے حملے کی ترتیب کوہرباردرہم برہم کیا،یلغارکرتے ہوئے دشمن کوزدمیں لاکرتیروں کی بارش کے گارگرنشانہ سے مسلمانوں نے ہرباردشمن پرفوقیت حاصل کی۔ خندق کی موثر جارحانہ دیکھ بھال نے دشمن کوخندق سے دورہی رکھا،اس کے علاوہ دشمن پرکڑی نظررکھ کراس کی کمزوری اورچال کے بارے میں مکمل اورصحیح خبریں حاصل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کے مطابق مناسب کاروائی عمل میں لائے،اس فتح کاسب سے بڑاسبب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالات اورزمین کے بہترین جائزے پرمبنی دفاعی منصوبہ تھا،بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاکے عظیم ترین ہستی ہونے کے علاوہ عظیم ترین فوجی سپہ سالاربھی تھے۔

جبکہ متحدہ لشکرکے ناکامی کے اسباب یہ تھے ۔

لشکرکے لئےخندق کی کھودائی ایک بالکل نئی اورسراسرغیرمتوقع چیزتھی اس اسلوب جنگ سے عرب بالکل ناواقف تھے ۔

انہوں نے جنگ کے لئے موزوں موسم کاانتخاب نہیں کیابس لشکرجمع ہواورچل پڑا،ان کاخیال تھاکہ بس یہ لشکرمدینہ منورہ پہنچااورچنددنوں میں مسلمانوں کاصفایاہوجائے گااس لئے ان کے پاس شدیدسردی سے بچاؤکاکوئی سامان نہیں تھا۔

لشکرکے لئے کھانے پینے ،رہنے سہنے اورجانوروں کی خوراک کاکوئی بندوبست نہیں تھاجس کی وجہ سے وہ بے سروسامانی کے عالم میں مبتلاہوگئے،یہی سبب تھاکہ طویل محاصرہ ان کے لئے اکتاہٹ اورگھبراہٹ کاسامان بن گیا۔

لشکرکی قیادت نے اتنابڑا منصوبہ بناتے وقت مسلمانوں کے ہتھیاروں ،افرادی قوت ،کمزوریوں اورچالوں کومعلوم کرنے کے لئے سراغ رسانی کاکوئی خیال نہ رکھا۔

اس متحدہ لشکرمیں مختلف قبائل کے مابین باہمی اعتمادکی نوعیت اپنوں کے ساتھ کچھ اورتھی اوریہودیوں کے ساتھ کچھ اورتھی ،لیکن جوکچھ اورجتناکچھ بھی تھاوہ حددرجہ کمزورتھابلکہ نہ ہونے کے برابرتھا،قریش اس بات کے خواہش مندتھے کہ یہوداوراتحادی قبائل کے تعاون سے مسلمانوں کاکلی طورپرخاتمہ کردیاجائے جبکہ قبائل صرف مال غنیمت کے بھوکے تھے ،رہے یہودتوان کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اپنے سواکسی پراعتمادنہیں کرتے تھےالبتہ دوسروں کے تعاون وامدادسے کام نکالناچاہتے تھے یعنی قریش اوردوسرے قبائل اپناخون بہائیں ،جانیں قربان کریں ،جنگ کے مصائب برداشت کریں اوراس کاپھل یعنی مسلمانوں کااستیصال انہیں مل جائے۔

اعراب زیادہ عرصہ تک اپنے اہل وعیال سے جدارہنے کے خوگرنہیں تھے ،چنانچہ جب شدیدسردی ،بھوک پیاس کی حالت میں محاصرہ طویل ہوگیاتوان مصائب کو برداشت کرناان کے لئے ممکن نہ رہااس لئےوہ اسے اٹھالینے کی تاکیدکرنے لگے ۔

شہدائے غزوہ احزاب :اس غزوہ میں مسلمانوں کے چھ یاآٹھ مجاہدشہدہوئے ۔

قبیلہ اوس سے:سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ،انس بن اویس رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن سہیل ۔

قبیلہ خزرج سے:طفیل بن نعمان رضی اللہ عنہ ،ثعلبہ بن عنمہ رضی اللہ عنہ اورکعب بن زید رضی اللہ عنہ شہدہوئے۔

ان کے علاوہ دواورنام بھی لکھے جاتے ہیں قیس بن زید رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن ابی خالد رضی اللہ عنہ

کفارکے مقتولین :کفارکے مقتولین میں منبہ بن عبدالعبدری ،نوفل بن عبداللہ مخزومی اورعمروبن عبدودشامل تھے۔

[1] الکامل فی التاریخ۶۴؍۲

[2] ابن سعد ۴۸؍۲،البدایة والنہایة۱۰۵؍۴،مغازی واقدی ۴۰۳؍۱

[3] ابن سعد۴۷؍۲،عیون الآثر۸۲؍۲،مغازی واقدی ۴۰۴؍۱

[4] ابن سعد ۴۷؍۲

[5] البدایة والنہایة۱۰۵؍۴

[6] البدایة والنہایة۵۰؍۵،شرح زرقانی علی المواھب ۱۷۹؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۷۸؍۴،المنتظم فی تاریخ الملوک والامم۲۱۸؍۳

[7] خزانةالادب ولب الباب لسان العرب للبغدادی۲۳۱؍۷،تاریخ العرب القدیم۳۱۱؍۱،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ۲۷۷؍۱۱

[8] اسد الغابة۴۱۳؍۱

[9] البدایة والنہایة۵۰؍۵،الطبقات الکبریٰ۲۹۱؍۱

[10] شرح زرقانی علی المواھب۱۷۸،۱۷۹؍۵، دلائل النبوة للبیہقی۳۶۵؍۵ ، زادالمعاد ۵۴۵؍۳

[11] ابن سعد۲۲۲؍۱،سبل الہدی والرشاد فی سیرة خیرالعباد۴۱۱؍۶،سیرة النبویة لابن کثیر۷۸؍۴

[12] البدایة والنہایة ۱۰۶؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۶؍۴

[13] ابن سعد۲۳۳؍۱

[14] السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۶؍۴،البدایة والنہایة۱۰۶؍۵،ابن سعد۲۳۳؍۱

[15] ابن سعد۲۳۳؍۱،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۶؍۴

[16] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۰۹۷

[17] شرح الزرقانی علی المواھب ۲۰،۱۹؍۳،فتح الباری ۳۹۳؍۷

[18] فتح الباری۳۹۳؍۷

[19] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۹؍۳

[20] البدایة والنہایة۱۰۸؍۴،تاریخ طبری ۵۶۵؍۲

[21] تفسیرابن کثیر۳۳۴؍۲

[22]البقرة۱۴۶

[23] سنن ابوداودکتاب الطب بَابٌ فِی الْخَطِّ وَزَجْرِ الطَّیْرِ۳۹۰۷،مسنداحمد۱۵۹۱۵

[24] فتح الباری ۳۹۲؍۷

[25] زادالمعاد۲۴۲؍۳،ابن سعد۵۱؍۲،البدایة والنہایة۱۱۷؍۴،تاریخ طبری ۵۷۰؍۲،مغازی واقدی ۴۴۴؍۲،ابن ہشام ۲۱۹؍۲،فتح الباری ۳۹۳؍۷

[26] ابن ہشام۲۲۰؍۲ ،ابن سعد۵۱؍۲،البدایة والنہایة۱۱۷؍۴،تاریخ طبری۵۷۰؍۲،مغازی واقدی۴۵۳؍۲،فتح الباری ۳۹۳؍۷، شرح الزرقانی علی المواھب۲۲؍۲

[27] البدایة والنہایة۱۰۹؍۴،عیون الآثر۱۰۹؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۸۳؍۳، شرح الزرقانی علی المواھب۱۷؍۳

[28] ابن سعد۵۱؍۲،عیون الآثر۸۶؍۲،تاریخ طبری ۵۶۶؍۲،البدایة والنہایة۱۰۹؍۴،زادالمعاد۲۴۲؍۳

[29] فتح الباری ۳۹۲؍۷

[30] فتح الباری ۳۹۲؍۷، شرح الزرقانی علی المواھب ۱۷؍۳،البدایة والنہایة۱۱۴؍۴

[31] مغازی واقدی۴۴۵؍۲

[32] مغازی واقدی ۴۴۵؍۲،ابن سعد۵۱؍۲

[33] مغازی واقدی۴۴۵؍۲

[34] تہذیب التہذیب ۳۷۷؍۸،فتح الباری ۱۹؍۵،تاریخ امام عثمان بن سعیدالدارمی۱۹۵،کتاب المحجروحین لابن حبان۲۲۱؍۲،ابن جوزی کی الضعفائ۲۳؍۳، الکاشف۵؍۳، المحجر۲۶۱،ابن عبدالہادی کی بحرالدم۳۵۶،احوال الرجال جوزجانی۱۳۸، الموتلف والمختلف للدارقطنی۳۲۷؍۱، التاریخ ابن معین ۱۴۴؍۳

[35] الجامع۳۷۰۴

[36] مغازی واقدی۴۴۵؍۲

[37] فتح الباری۳۹۷؍۷،الروض الانف۲۰۲؍۶

[38] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ حَفْرِ الخَنْدَقِ ۲۸۳۵

[39] مسندالشافعی۴۲۱

[40] مسنداحمد۱۲۷۵۷،فضائل الصحابة لااحمد بن حنبل۱۴۶۳

[41] البدایة والنہایة۱۱۰؍۴

[42] فتح الباری ۳۹۲؍۷

[43] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ التَّحْرِیضِ عَلَى القِتَالِ ۲۸۳۴

[44] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ حَفْرِ الخَنْدَقِ۲۸۳۷،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۰۶،مصنف ابن ابی شیبة۲۶۰۶۹،سنن الدارمی ۲۴۹۹

[45] ابن ہشام۲۱۶؍۲،تاریخ طبری۵۶۶؍۲،الروض الانف۱۹۷؍۶، عیون الآثر۸۴؍۲

[46] زادالمعاد ۲۴۲؍۳

[47] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۰۱،شرح السنة للبغوی۳۷۹۳،فیض الباری علی صحیح البخاری ۴۱۰۱،۵۳؍۵،عمدة القاری شرح صحیح بخاری۴۱۰۱،۱۷۹؍۱۷،المسندالجماع۲۹۳۷،الخصائص الکبری ۳۷۶؍۱،امتاع الاسماع۷۵؍۵،منتهى السؤل على وسائل الوصول إلى شمائل الرسول صلى الله علیه وآله وسلم۱۶۴؍۲

[48] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۰۰

[49]جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی مَعِیشَةِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۲۳۷۱،البدایة والنہایة۶۰؍۶

[50] صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَیْرَهُ إِلَى دَارِ مَنْ یَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ، وَبِتَحَقُّقِهِ تَحَقُّقًا تَامًّا، وَاسْتِحْبَابِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ۵۳۲۳

[51] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۰۲

[52] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۰۱

[53] ابن ہشام ۲۱۸؍۲،البدایة والنہایة۱۱۳؍۴،الروض الانف ۲۰۱؍۶، عیون الآثر۸۷؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۱۹۰؍۳

[54] ابن ہشام۲۱۸؍۲ ،البدایة والنہایة۱۱۳؍۴،الروض الانف۲۰۰؍۶،السیرة النبویة لابن کثیر۱۹۰؍۳

[55] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۰۱،سنن الدارمی۴۳

[56] مسند احمد ۱۸۶۹۴،السنن الکبری للنسائی ۸۸۰۷،الروض الانف۲۰۱؍۶،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۹۴؍۳

[57] تاریخ طبری ۵۶۷؍۲

[58] ابن سعد۵۱؍۲

[59] شرح الزرقانی علی المواھب۳۳؍۳

[60] تاریخ طبری ۵۶۷؍۲

[61] البدایة والنہایة اردو ۷۸؍۴

[62] مغازی واقدی۴۴۷؍۲

[63] ابن ہشام ۲۱۹؍۲،الروض الانف۲۰۲؍۶،عیون الآثر۸۷؍۲، البدایة والنہایة۱۱۷؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۳۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۱۹۷؍۳

[64] فتح الباری ۴۰۰؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب۳۴؍۳

[65] زادالمعاد۲۴۳؍۳،مغازی واقدی۴۷۴؍۲،عیون الآثر۹۳؍۲،ابن سعد ۵۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۴۳؍۳

[66] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۵۸۴؍۲، اسد الغابة ۴۲۱؍۲، المؤتَلِف والمختَلِف للدارقطنی۸۷۵؍۲

[67] تاریخ طبری ۵۷۲؍۲،ابن ہشام ۲۱۲؍۲ ،عیون الآثر۸۹؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۳۹؍۳

[68] البدایة والنہایة۱۱۹؍۴

[69] تاریخ طبری ۵۷۲؍۲،عیون الآثر ۹۰؍۲، الروض الانف ۲۰۷؍۶،ابن ہشام ۲۲۲؍۲،مغازی واقدی۴۵۹؍۲

[70] شرح الزرقانی علی المواھب۴۰؍۳،عیون الآثر۹۰؍۲

[71] مغازی واقدی۴۶۰؍۲،عیون الآثر ۸۸؍۲،ابن سعد۵۱؍۲

[72] ابن ہشام ۲۲۳؍۲،الروض الانف ۲۰۹؍۶،البدایة والنہایة۱۲۰؍۴،زادالمعاد۲۴۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر ۲۰۲؍۳

[73] فتح الباری۴۰۰؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب۴۰؍۳،زادالمعاد۲۴۴؍۳،ابن ہشام ۲۲۳؍۲، الروض الانف۲۰۸؍۶

[74] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۱۳ ، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ طَلْحَةَ، وَالزُّبَیْرِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۶۲۴۳،مسنداحمد۱۴۹۳۶

[75] ابن ہشام۲۲۶؍۲،الروض الانف۲۱۸؍۶،تاریخ طبری ۵۷۷؍۲، البدایة والنہایة۱۲۴؍۴، مستدرک حاکم ۶۸۶۷،السیرة النبویة لابن کثیر۲۰۸؍۳

[76] عیون الآثر۹۱؍۲،ابن سعد۵۲؍۲،مغازی واقدی ۴۷۰؍۲

[77] مصنف ابن ابی شیبة۳۶۸۲۴،امتاع الاسماع۲۳۸؍۱

[78] مصنف ابن ابی شیبة۳۳۲۵۶

[79] تاریخ اسلام بشار۱۹۹؍۱،سیراعلام النبلائ۴۶۶؍۱

[80]۔البدایة والنہایة ۱۲۲؍۴

[81] السیرة النبویة لابن کثیر۲۰۶؍۳،تاریخ دمشق لابن عساکر ۷۸؍۴۲

[82] شرح الزرقانی علی المواھب۴۲؍۳،مصنف ابن ابی شیبة۳۶۸۲۳

[83] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ۴۱۱۲، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ الدَّلِیلِ لِمَنْ قَالَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى هِیَ صَلَاةُ الْعَصْرِ۱۴۲۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَیَّتِهِنَّ یَبْدَأُ۱۸۰،السنن الکبری للنسائی ۱۲۹۱،شرح الزرقانی علی المواھب۵۹؍۳،البدایة والنہایة۱۲۵؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۱۰؍۳

[84] عیون الآثر۹۴؍۲،البدایة والنہایة۱۲۵؍۴

[85] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۱۱،مسنداحمد۵۹۱

[86] موطاامام مالک کتاب صلوٰة الخوف باب صَلاَةُ الْخَوْفِ ۴

[87] مسند احمد ۳۵۵۵ ،مصنف ابن ابی شیبة۳۰۹،السنن الکبری للنسائی۱۶۳۸،مسندابی یعلی ۵۳۵۱، البدایة والنہایة ۱۲۶؍۴

[88] شرح الزرقانی علی المواھب۶۰؍۳

[89] البدایة والنہایة۱۲۷؍۴

[90] شرح الزرقانی علی المواھب۶۰؍۳

[91] ابن سعد۵۳؍۲،عیون الآثر۹۴؍۲

[92] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرْجِعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِیَّاهُمْ۴۱۲۲،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ جَوَازِ قِتَالِ مَنْ نَقَضَ الْعَهْدَ، وَجَوَازِ إِنْزَالِ أَهْلِ الْحِصْنِ عَلَى حُكْمِ حَاكِمٍ عَدْلٍ أَهْلٍ لِلْحُكْمِ۴۶۰۰،شرح السنة للبغوی۳۷۹۵،البدایة والنہایة۱۴۰؍۴،ابن سعد۳۲۵؍۳،تاریخ طبری ۵۷۵؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۲۳۵؍۳

[93] مسنداحمد۲۵۰۹۷، ابن ہشام ۲۲۶؍۲،الروض الانف۲۱۵؍۶،عیون الآثر۹۴؍۲،البدایة والنہایة ۱۴۱؍۴،تاریخ طبری ۵۷۵؍۲، مغازی واقدی۵۱۲؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۴۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۲۰۷؍۳

[94] ابن سعد۳۲۵؍۳

[95] شرح الزرقانی علی المواھب۴۶؍۳،ابن ہشام ۲۲۹؍۲،الروض الانف ۲۱۸؍۶،عیون الآثر۹۵؍۲، تاریخ طبری۵۷۸؍۲،البدایة والنہایة ۱۲۸؍۴،ابن سعد۲۰۹؍۴،زادالمعاد۲۴۴؍۳، مغازی واقدی ۴۸۱؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۲۱۴؍۳

[96] مصنف ابن ابی شیبة۳۶۸۱۰

[97] سیرة النبی۲۶۸؍۱

[98] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الدُّعَاءِ عَلَى المُشْرِكِینَ بِالهَزِیمَةِ وَالزَّلْزَلَةِ ۲۹۳۳،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۱۵،وکتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ عَلَى المُشْرِكِینَ۶۳۹۳،وکتاب التوحیدالجھمیة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالمَلاَئِكَةُ یَشْهَدُونَ ۷۴۸۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ اسْتِحْبَابِ الدُّعَاءِ بِالنَّصْرِ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ۴۵۴۳،جامع ترمذی ابواب الجہاد بَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ عِنْدَ القِتَالِ ۱۶۷۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجہادبَابُ الْقِتَالِ فِی سَبِیلِ اللهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى ۲۷۹۷، مسنداحمد۱۹۱۰۷

[99] مسند احمد ۱۵۲۳۰،ابن سعد۵۳؍۳

[100] شرح الزرقانی علی المواھب ۵۳؍۳

[101] البدایة والنہایة۱۲۷؍۴

[102] مسنداحمد۱۰۹۹۶

[103] مسنداحمد۲۳۳۳۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۹؍۳،ابن ہشام ۲۳۲؍۲،الروض الانف ۲۲۱؍۶، تاریخ طبری ۵۸۰؍۲،البدایة والنہایة۱۳۰؍۴

[104] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ الْأَحْزَابِ۴۶۴۰

[105] صحیح بخاری کتاب العُمْرَةِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا رَجَعَ مِنَ الحَجِّ أَوِ العُمْرَةِ أَوِ الغَزْوِ ۱۷۹۷ ،وکتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَوْ رَجَعَ۶۳۸۵، وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۱۶،وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ التَّكْبِیرِ إِذَا عَلاَ شَرَفًا۲۹۹۵

[106] ابن سعد۵۴؍۲

[107] ابن سعد۵۶؍۲

[108] زادالمعاد۲۴۲؍۳

[109] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۱۰

Related Articles