بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

ابوطالب کی وفات

وَهُوَ یَوْمَئِذٍ ابْنُ بِضْعٍ وَثَمَانِینَ سَنَةً

ابوطالب کی عمراسی سال سے زیادہ ہوچکی تھی ،سفاکانہ عہدنامہ پھاڑنے کے چھ ماہ بعدوہ بیمارہوگئے تورجب میں جب مرض نے شدت اختیارکرلیا

أَن أَبَا طَالب لما حَضرته الْوَفَاة دَعَا بنی عبد الْمطلب فَقَالَ لن تزالوا بِخَیر مَا سَمِعْتُمْ من مُحَمَّد وَمَا اتبعتم امْرَهْ فَاتَّبعُوهُ وأعینوه ترشدوافقال له رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عند ذلك: تأمرهم بالنصیحة وتدعها لنفسك؟! فقال له عمه: أجل لو سألتنی هذه الكلمة وأنا صحیح لها لا تبعتك على الذی تقول، ولكنی أكره الجزع عند الموت وترى قریش أنی أخذتها عند الموت، وتركتها وأنا صحیح

جب ابوطالب کو اپنی موت کایقین ہوگیاتوانہوں نے بنو عبدالمطلب کو بلایا اورانہیں نصیحت کی کہ تم جب تک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات مانتے رہوگے اوراس کااتباع کرتے رہوگے تب تک بھلائی پررہوگے ،چنانچہ تم پرلازم ہے کہ ان کا اتباع وتصدیق کرو اوران سے ہدایت حاصل کرورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہاآپ دوسروں کونصیحت کررہے ہیں اورخودکوچھوڑرہے ہیں ،توچچانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااگرمیں اس کلمہ کوصحیح جانتاتوجوتم کہتے میں اس کی اتباع کرتامگرمیں موت کے وقت یہ کہناپسندنہیں کرتاتاکہ میرے بعدقریش یہ کہتے پھریں کہ ابوطالب نے اپنی زندگی میں تو کلمہ کا اقرار نہیں کیا لیکن موت کے خوف سے یہ کلمہ پڑھاتھاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتےمگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔‘‘[1]

مَشَوْا إلَى أَبِی طَالِبٍ فَكَلَّمُوهُ، وَهُمْ أَشْرَافُ قَوْمِهِ: عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَأَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ، وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ، فِی رِجَالٍ مِنْ أَشْرَافِهِمْ،فَقَالُوا: یَا أَبَا طَالِبٍ، إنَّكَ مِنَّا حَیْثُ قَدْ عَلِمْتَ، وَقَدْ حَضَرَكَ مَا تَرَى، وَتَخَوَّفْنَا عَلَیْكَ، وَقَدْ عَلِمْتَ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَ ابْنِ أَخِیكَ، فَادْعُهُ، فَخُذْ لَهُ مِنَّا، وَخُذْ لَنَا مِنْهُ، لِیَكُفَّ عَنَّا، وَنَكُفَّ عَنْهُ، وَلِیَدَعَنَا وَدِینَنَا، وَنَدَعَهُ وَدِینَهُ ،فَبَعَثَ إلَیْهِ أَبُو طَالِبٍ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ: یَا بن أَخِی: هَؤُلَاءِ أَشْرَافُ قَوْمِكَ، قَدْ اجْتَمَعُوا لَكَ، لِیُعْطُوكَ، وَلِیَأْخُذُوا مِنْكَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ ، كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُونِیهَا تَمْلِكُونَ بِهَا الْعَرَبَ، وَتَدِینُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَمُ

قریش کوجب اندازہ ہواکہ ابوطالب کی رحلت کاوقت قریب آلگاہے تو تقریباًپچیس معززین جن میں عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام،امیہ بن خلف،ابوسفیان بن حرب شامل تھے ابوطالب کے پاس آئے،اورکہااے ابوطالب!قریش میں آپ کاجومرتبہ ومقام ہے وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ،اس وقت آپ بیماری کی جس حالت سے گزررہے ہیں وہ بھی آپ بخوبی جانتے ہیں ہماراخیال ہے کہ آپ اس بیماری سے جانبرنہ ہوسکیں گے ، ہمارے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جومعاملہ چل رہاہے اس سے بھی آپ خوب واقف ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کوبلائیں اوران کے بارے میں ہم سے عہدوپیمان لیں اورہمارے بارے میں انہیں کسی عہدوپیمان کاپابندکریں ،یعنی وہ ہمیں ہمارے آبائی دین پرچھوڑدے اورہم انہیں ان کے دین پرچھوڑدیں ،قریش کے وفدکی بات سن کر ابو طالب نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلوایا،جب آپ وہاں تشریف لائے توابوطالب نے کہااے بھتیجے!یہ تمہارے قبیلہ قریش کے معززین یہاں جمع ہیں اورآپ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں ان کے حال پرچھوڑدیں اورآپ انہیں ان کے حال پرچھوڑدو،چچاکی بات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معززین قریش سے فرمایااگرمیں اس سے بھی بہتر بات آپ کے سامنے پیش کروں جسے آپ قبول کرلیں توعرب وعجم کے بادشاہ بن جائیں گے اورعجم مغلوب ہوکر انہیں جزیہ پیش کریں گے۔[2]

فَقَالَ:یَا عَمِّ إِنِّی إِنَّمَا أُرِیدُهُمْ عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، تَدِینُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی إِلَیْهِمْ بِهَا الْعَجَمُ الْجِزْیَةَ

ایک روایت ہےاپنے چچاکومخاطب ہوکرفرمایامیں ان کے سامنے وہ بات پیش کرناچاہتا ہوں جسے اگریہ قبول کرلیں توساراعرب ان کے زیرفرمان ہوجائے اوراہل عجم مغلوب ہوکرانہیں جزیہ اداکریں ۔[3]

قَالَ: فَبَعَثَ إِلَیْهِ أَبُو طَالِبٍ،فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال: یا بن أَخِی، هَؤُلَاءِ مَشْیَخَةُ قَوْمِكَ وَسَرَوَاتُهُمْ، وَقَدْ سَأَلُوكَ النَّصَفَ، أَنْ تَكُفَّ عَنْ شَتْمِ آلِهَتِهِمْ وَیَدَعُوكَ وَإِلَهَكَ، قَالَ: أَیْ عَمِّ، أَوَلَا أَدْعُوهُمْ إِلَى مَا هُوَ خَیْرٌ لَهُمْ مِنْهَا؟ قَالَ: وَإِلَامَ تَدْعُوهُمْ؟ قَالَ: أَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ یَتَكَلَّمُوا بِكَلِمَةٍ تَدِینُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ، وَیَمْلِكُونَ بِهَا الْعَجَمَ

ایک روایت ہےابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلابھیجا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں داخل ہوئے توابوطالب نے کہااے بھتیجے!یہ ہماری قوم کے بڑے اورسردارہیں اورانہوں نے کہاہے کہ ہم اس بات پرمتفق ہوجائیں کہ آپ ان کے معبودوں کوبرابھلاکہناچھوڑدیں اوروہ تمہیں اورتمہارے خداکوچھوڑدیتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے مخاطب ہوکر کہااے چچا!آپ انہیں اس بات کی طرف کیوں نہ بلائیں جوان کے حق میں بہترہے،ابوطالب نے کہاآپ انہیں کس بات کی طرف بلاناچاہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں انہیں ایک ایسی بات کی طرف دعوت دیتاہوں جسے یہ قبول کرلیں تو جزیرة العرب ان کے زیرنگیں ہوجائے اوراہل عجم پران کی بادشاہت قائم ہو جائے۔[4]

قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ ،كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُونِیهَا تَمْلِكُونَ بِهَا الْعَرَبَ، وَتَدِینُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَم، قَالَ: فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: نَعَمْ وَأَبِیكَ، وَعَشْرَ كَلِمَاتٍ،قَالَ: تَقُولُونَ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَتَخْلَعُونَ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ،قَالَ: فَصَفَّقُوا بِأَیْدِیهِمْ، ثُمَّ قَالُوا: أَتُرِیدُ یَا مُحَمَّدُ أَنْ تَجْعَلَ الْآلِهَةَ إلَهًا وَاحِدًا، إنَّ أَمْرَكَ لَعَجَبٌ!(قَالَ) : ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ: إنَّهُ وَاَللَّهِ مَا هَذَا الرَّجُلُ بِمُعْطِیكُمْ شَیْئًا مِمَّا تُرِیدُونَ، فَانْطَلِقُوا وَامْضُوا عَلَى دِینِ آبَائِكُمْ، حَتَّى یَحْكُمَ اللَّهُ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُ،قَالَ: ثُمَّ تَفَرَّقُوا

ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایااے معززین قریش!آپ لوگ صرف ایک بات قبول کرلیں توآپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اورعجم آپ کے زیرفرمان ہوگا ، الغرض آپ کی بات سن کرمعززین قریش سٹپٹائے اورشش وپنج میں مبتلا ہو گئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیابات پیش کرناچاہتے ہیں جسے قبول کرنے سے ہم عرب وعجم کے بادشاہ بن سکتے ہیں ، کچھ توقف کے بعد ابوجہل نے پوچھاٹھیک ہے آپ وہ بات بتلائیں ہم ایسے دس کلمات ماننے کوتیارہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآپ لوگ معبودان باطلہ کی پرستش چھوڑکر کلمہ لاالٰہ الااللہ کوقبول کرلیں تو عرب وعجم کے مالک بن جائیں گے،یہ بات سن کروہ لوگ تالیاں پیٹنے لگے اورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ بڑی عجیب بات کرتے ہو،آپ توچاہتے ہی یہ ہوکہ ہم اپنے تمام معبودوں کوترک کرکے بس ایک ہی الٰہ بنالیں ،یہ توبڑاعجیب معاملہ ہے،پھرایک دوسرے کومخاطب کرکے کہاواللہ!محمدتوتمہاری کوئی بات ماننے کوتیارنہیں ،تم لوگ اپنے آبائی دین پرمضبوطی سے جم جاؤ یہاں تک کہ اللہ ہمارے اوران کے درمیان کوئی فیصلہ کردے،پھروہ گھرسے نکل کراپنی اپنی راہ پرچل پڑے۔[5]

جب ابوطالب کاآخری وقت آیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل خیرخواہی کے ساتھ اپنی حدتک انتہائی کوشش کی کہ ہمدرداورغم گسار چچا کلمہ لاالٰہ الااللہ پڑھ لے تاکہ اس کاخاتمہ بالخیر ہواور روز قیامت اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کر سکیں ،

أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَبِی طَالِبٍ عِنْدَ مَوْتِهِ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی أُمَیّةَ، فَقَالَ:یَا عَمّ قُلْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَك بِهَا عِنْدَ اللهِ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ وَابْنُ أَبِی أُمَیّةَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلّةِ عَبْدِ الْمُطّلِبِ

مروی ہےابوطالب کی موت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھرمیں داخل ہوئے لیکن وہاں دوسرے رؤسائے قریش کے ساتھ ابوجہل اورعبداللہ بن ابی امیہ بھی موجودتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےچچاآپ کلمہ لاالٰہ الااللہ کوپڑھ لیں تاکہ قیامت کے روزمیں اللہ کی بارگاہ میں گواہی دوں اورآپ کی شفاعت کرسکوں ،ابوجہل اورعبداللہ بن امیہ کہنے لگے اے ابوطالب! کیاتواپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھرجائے گا؟ ابو طالب کی زبان سے آخرکلمہ یہی نکلاکہ میں ملت عبدالمطلب پرہی جان دیتاہوں اس طرح کفرپرہی ان کاخاتمہ ہوگیا۔[6]

أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ المُسَیِّبِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الوَفَاةُ، جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ المُغِیرَةِ، فَقَالَ:أَیْ عَمِّ قُلْ: لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ “ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ: أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ؟ فَلَمْ یَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُهَا عَلَیْهِ ، وَیُعِیدَانِهِ بِتِلْكَ المَقَالَةِ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ یَقُولَ: لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِینَ} [7]وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِی أَبِی طَالِبٍ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّكَ لا تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ} [8]

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے (اس وقت) ابوطالب کے پاس ابوجہل اورعبداللہ بن امیہ بھی موجود تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے میرے چچا !صرف ایک کلمہ لاالٰہ الااللہ کہہ دیجئے تو میں اللہ کے ہاں اس کی وجہ سے (آپ کی بخشش کے لئے) عرض و معروض کرنے کا مستحق ہو جاؤں گاتو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابوطالب تم عبدالمطلب کے دین سے پھرے جاتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارباران سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف یہی ایک کلمہ پڑھ لیں )اوریہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بارباردہراتے رہے(کہ کیاتم عبدالمطلب کے مذہب سے پھرجاؤگے؟) حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی کہ (میں ) عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کے لئے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے روکا نہ جائے، تو اللہ تعالیٰ نےیہ آیت نازل فرمائی’’ نبی اور ایمان والوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہوں جب کہ انہیں یہ ظاہر ہو چکا کہ وہ دوزخی ہیں ۔‘‘اورخاص ابوطالب کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیا کہ’’ آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے البتہ اللہ ہدایت دیتاہے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتاہے۔‘‘[9]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا یَوْمَ القِیَامَةِ فَقَالَ: لَوْلاَ أَنْ تُعَیِّرَنِی بِهَا قُرَیْشٌ أَنَّ مَا یَحْمِلُهُ عَلَیْهِ الْجَزَعُ، لأَقْرَرْتُ بِهَا عَیْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّكَ لاَ تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ}.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے چچا!لاالٰہ الااللہ پڑھ لومیں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا،ابوطالب نے کہااگرمجھے قریش کے اس طعنے کاخوف نہ ہوتاکہ میں نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کلمہ پڑھ لیاتومیں اسے کہہ کرتیری آنکھوں کوٹھنڈی کردیتاتواللہ عزوجل نے یہ آیت ’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے البتہ اللہ ہدایت دیتاہے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتاہے۔‘‘ نازل فرمائی ۔[10]

قَالَ: لَمّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ اسْتَغْفَرَ لَهُ رسول الله صلى الله علیه وسلم وقال:لَأَسْتَغْفِرَنّ لَك حَتّى أُنْهَى! فَاسْتَغْفَرَ الْمُسْلِمُونَ لَمَوْتَاهُمْ مِنْ الْمُشْرِكِینَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحابُ الْجَحِیمِ

جب ابوطالب کاانتقال ہو گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نعش سے مخاطب ہوکرکہااللہ آپ پررحم فرمائے اورآپ کوبخش دے،جب تک اللہ مجھے منع نہ کردے میں آپ کے لئے مغفرت کی دعاکرتارہوں گا، یہ سن کرتمام مسلمان اپنے ان مردوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے لگے جوشرک پر مرے تھے،اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ’’نبی اورمومنین کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کی مغفرت کی دعاکیاکریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پریہ بھی واضح ہوچکاہے کہ مشرکین دوزخی ہیں ۔‘‘[11]

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّیْخَ الضَّالَّ مَاتَ فَمَنْ یُوَارِیهِ؟ قَالَ: اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، وَلَا تُحْدِثَنَّ حَدَثًا حَتَّى تَأْتِیَنِی، فَوَارَیْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ، فَأَمَرَنِی فَاغْتَسَلْتُ، وَدَعَا لِی، وَذَكَرَ دُعَاءً لَمْ أَحْفَظْهُ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے(جب میرے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے اب انہیں کون(زمین میں ) چھپائے (دفن کرے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو (زمین میں )چھپاؤ(دفن کرو)اورمیرے پاس واپس آنے سے پہلے کوئی اور کام نہ کرنا، میں ان کودفنانے کےبعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوا، پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لیے(صبروتحمل) دعا فرمائی لیکن وہ دعامجھے یادنہیں ۔[12]

ابوطالب کے چاربیٹے تھے طالب،عقیل،جعفر رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،کیونکہ مسلمان کافرکاوارث نہیں ہو سکتااس لیے جعفر رضی اللہ عنہ اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے والدکے چھوڑے ہوئے ورثہ کے وارث نہ ہوئے۔

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،وَكَانَ عَقِیلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ یَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلاَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، شَیْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَیْنِ، وَكَانَ عَقِیلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَیْنِ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعقیل اور طالب ابوطالب کے وارث ہوئے اور جعفر رضی اللہ عنہ اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی چیز کے بھی وارث نہ ہوئے اس لئے کہ وہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب کافر تھے۔[13]

حَدَّثَنَا العَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَغْنَیْتَ عَنْ عَمِّكَ، فَإِنَّهُ كَانَ یَحُوطُكَ وَیَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ:هُوَ فِی ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلاَ أَنَا لَكَانَ فِی الدَّرَكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے مروی ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے ابوطالب کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لئے دوسروں پر غصہ ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! وہ جہنم میں کم گہرائی پر ہیں اگر میں نہ ہوتا وہ جہنم کے سب سے پست طبقہ میں ہوتے۔ [14]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ، فَقَالَ:لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِی یَوْمَ القِیَامَةِ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ یَبْلُغُ كَعْبَیْهِ، یَغْلِی مِنْهُ دِمَاغُهُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (ابو طالب) کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امید ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کچھ نفع دے جائے گی کہ وہ آگ کے درمیان درجہ میں کردیئے جائیں گے کہ آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔[15]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ مُنْتَعِلًا بِنَعْلَیْنِ یَغْلِی مِنْهُمَا دِمَاغُهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجہنمیوں میں سب سے ہلکاعذاب ابوطالب کوہوگاانہیں آگ کی دوجوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے ان کاداماغ ابلنے لگے گا۔[16]

[1] سیرة ابن اسحاق ۲۳۷؍۱،السیرة الحلبیة۴۹۷؍۱

[2]السیرة النبوة لابن کثیر۱۲۴؍۲

[3]مسنداحمد۲۰۰۸

[4] تاریخ طبری ۳۲۴؍۲

[5] ابن ہشام۴۱۷؍۱، الروض الانف۱۷؍۴،عیون الآثر۱۵۲؍۱

[6] الروض الانف۱۹؍۴

[7] التوبة: 113

[8] القصص: 56

[9] صحیح بخاری کتاب تفسیر سورۂ القصص بَابُ قَوْلِهِ إِنَّكَ لاَ تَهْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ۴۷۷۲،سیرة ابن اسحاق۲۳۸؍۱

[10] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ القَصَصِ ۳۱۸۸

[11] مغازی واقدی۱۰۷۴؍۳

[12] سنن ابوداودكِتَاب الْجَنَائِزِ بَابُ الرَّجُلِ یَمُوتُ لَهُ قَرَابَةٌ مُشْرِكٌ۳۲۱۴،سنن نسائی كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مُوَارَاةِ الْمُشْرِكِ۲۰۰۸

[13] صحیح بخاری كِتَابُ الحَجِّ بَابُ تَوْرِیثِ دُورِ مَكَّةَ، وَبَیْعِهَا وَشِرَائِهَا، وَأَنَّ النَّاسَ فِی المَسْجِدِ الحَرَامِ سَوَاءٌ خَاصَّةً۱۵۸۸

[14]صحیح بخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ قِصَّةِ أَبِی طَالِبٍ۳۸۸۳

[15] صحیح بخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ قِصَّةِ أَبِی طَالِبٍ۳۸۸۵

[16] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا۵۱۵ ،دلائل النبوة للبیہقی۳۴۸؍۲،عیون الآثر۱۵۳؍۱، تاریخ الخمیس ۳۰۰؍۱،السیرة الحلبیة ۴۹۵؍۱

Related Articles