بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

مضامین سورۂ ھود

یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے جن میں تنبیہ کااندازکچھ زیادہ شدت اورسختی لئے ہوئے ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکچھ بڑھاپے کے آثارظاہرہونے لگے ، کچھ بال سفید ہوگئے

عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَیّبك؟قَالَ:شَیَّبَتْنِی هُودٌ، وَالْوَاقِعَةُ، وَعَمَّ یَتَسَاءَلُونَ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

تو عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پرتوبڑھاپاآنے لگاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے سورۂ ہود، واقعہ، النبااورسورۂ الشمس نے بوڑھا کر دیا۔[1]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ شِبْتَ،قَالَ:شَیَّبَتْنِی هُودٌ، وَالوَاقِعَةُ، وَالمُرْسَلَاتُ، وَعَمَّ یَتَسَاءَلُونَ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ بوڑھے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایامجھ کو سورۂ ھود،سورۂ واقعہ،سورۂ المرسلات،سورۂ النبااورسورۂ اذاالشمس کورت نے بوڑھاکردیا(یعنی ان میں جوقیامت کی خبریں ہیں اور عذاب کی جوآیتیں ہیں ان سے میں بوڑھاہوگیاہوں )۔[2]

عَنْ عَبْدِ اللهِ،أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا شَیَّبَكَ؟ قَالَ: هُودٌ، وَالْوَاقِعَةُ

اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ پرتو بوڑھاپاآنے لگا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے سورۂ ھوداورالواقعہ نے بوڑھاکردیا[3]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: شَیَّبَتْنِی هُودٌ وأَخَوَاتُهَا: الْوَاقِعَةُ، وَالْحَاقَّةُ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے سورۂ ہود اوراس جیسی سورتوں مثلاًواقعہ ،الحاقہ اوراذاالشمس کورت نے بوڑھاکردیاہے۔[4]

اس سورہ میں دعوت،فہمائش اورتنبیہ کومختصرلیکن زیادہ موثراورمدلل اندازمیں بیان کیا گیا۔

xدعوت یہ ہے کہ شرک جوظلم عظیم ہے سے بازآجاؤ،گزشتہ گناہوں سے توبہ کرواورغیراللہ کی بندگی سے تائب ہوکراپنے معبودحقیقی اللہ کے بندے بنواوراپنی دنیاوی زندگی کاسارانظام آخرت کی جوابدہی کے احساس پرقائم کرو،ورنہ قیامت کے روزسخت عذاب میں مبتلاہوگے۔

xفہمائش یہ ہے کہ اس دنیاکی ظاہری چمک دہمک سے دھوکانہ کھاؤجیساکہ تم سے پہلے امتوں نے دھوکاکھایااوراس میں الجھ کرانجام بدکوپہنچے ،بطورامثال قوم نوح ،قوم عاد ، قوم ثمود،قوم لوط، اصحاب مدین، بنی اسرائیل اورفرعون کے کرداروں کوپیش کیاگیااس لئے تم ہوش کے ناخن لوکہیں ایسانہ ہوجائے کہ یہ چندگھڑیوں کی زندگی آخرت میں جو ہمیشہ کی زندگی ہے تمہاری ذلت کا سامان بن جائے۔

xتنبیہ یہ ہے کہ ہم نے تمہیں مہلت کی جوچندگھڑیاں دی ہوئی ہیں یہ صرف تمہیں سوچنے اورسنبھلنے کاموقع فراہم کرنے کے لئے ہیں ورنہ جب ہمارا عذاب نازل ہوتا ہے تو کسی قسم کارشتہ ناطہ کام نہیں آتابلکہ ہرطرح کے رشتے ناطے اوررابطے ختم ہوجاتے ہیں اس وقت صرف رحمت الہٰی ہی کام دیتی ہے جورب پرایمان لانے والوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواستقلال واستقامت کاحکم دیاگیااورمومنین کوحکم دیاگیاکہ تم دائرہ دین سے ذرابھربھی باہرمت نکلواورکفارکی طرف مت جھکو،نمازکے اوقات کاذکرکیاگیا، فرمایا قرآن مجیدمیں مومنوں کے لیے نصیحت ہے،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے عمل سے غافل نہیں ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آیَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِیمٍ خَبِیرٍ ‎﴿١﴾‏ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۚ إِنَّنِی لَكُمْ مِنْهُ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ ‎﴿٢﴾‏ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَیُؤْتِ كُلَّ ذِی فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیرٍ ‎﴿٣﴾‏ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٤﴾‏ أَلَا إِنَّهُمْ یَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِیَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَهُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٥﴾‏۞ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِی كِتَابٍ مُبِینٍ ‎﴿٦﴾(ھود)
’’الف،لام، را ،یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ،اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا، اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے، تم کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے، یاد رکھو وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کئے دیتے ہیں تاکہ اپنی باتیں (اللہ) سے چھپا سکیں ، یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ،بالیقین وہ دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے،زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں ، وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔‘‘

تعارف قرآن کریم:

الف۔ لام۔ را ،یہ وہ پاکیزہ وعظیم کتاب ہے جس کی آیتیں الفاظ ونظم کے اعتبارسے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اورمعنی میں کوئی خلل نہیں ، اوراس میں احکام و شرائع ، مواعظ وقصص ،عقائد و ایمانیات اورآداب واخلاق کو گنجلک اورمبہم طورپر نہیں بلکہ ہربات کو وضاحت اورتفصیل کے ساتھ بیان کیاگیاہے،اس کتاب کی نظیرپچھلی کتابوں میں نہیں ملتی ،جسے ایک حکمت والی اورتمام امورومعاملات سے با خبرہستی نے نازل کیاہے، اس کی دعوت وہی ہے جوہرپیغمبرپیش کرتارہاہے کہ تم اللہ وحدہ لاشریک جو تمام بحروبرکی مخلوقات کاخالق ،مالک اوررازق ہے کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرو ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵       [5]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو ۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔۔۝۳۶ [6]

ترجمہ:ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ۔

میں اللہ کا پیغمبرہوں اوراس کے حکم سے یہ پاکیزہ دعوت تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ،جواس دعوت حق کے آگے سراطاعت خم کردیں اوراعمال صالحہ اختیارکریں انہیں دنیاوآخرت میں اللہ کی رحمت کی بشارت دے دوں ،اور جوتکذیب کریں اور گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کریں انہیں اللہ کے عذاب سے متنبہ کردوں ، اوریہ کہ تم خلوص نیت سے طاغوت کی بندگی و اطاعت سے تائب ہوکراپنے رب سے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی بخشش ومغفرت چاہو اور اعمال صالحہ اختیارکرو،اگرتم ایساکروگے تودنیاکی زندگی میں وہ اپنی پاکیزہ نعمتیں تم پربرسائے گااوربرکتوں سے نوازے گااوراہل احسان کواپنے فضل وکرم سے نوازے گا،جیسے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً۝۰ۚ وَلَـنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۷ [7]

ترجمہ: جوشخص بھی نیک عمل کرے گاخواہ ومردہویاعورت بشرطیکہ ہووہ مومن ،اسے ہم دنیامیں پاکیزہ زندگی بسرکرائیں گے اور (آخرت میں ) ایسے لوگوں کوان کے اجران کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُنِی وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ یَكْرَهُ أَنْ یَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ:یَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِی بِمَالِی كُلِّهِ؟ قَالَ:لاَ، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ:لاَ، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ:فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِیرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً یَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِی أَیْدِیهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِی تَرْفَعُهَا إِلَى فِی امْرَأَتِكَ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجة الوداع کے موقع پر)میری عیادت کوتشریف لائےمیں اس وقت مکہ میں تھااور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم !اس سرزمین پرموت کوپسندنہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کرچکاہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ ابن عفرائ(سعدبن خولہ رضی اللہ عنہ )پررحم فرمائے،میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے سارے مال ودولت کی وصیت کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں نے پوچھا پھرآدھے کی کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پربھی یہی فرمایاکہ نہیں میں نے پوچھا پھرتہائی کی کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں تہا ئی کی کرسکتے ہواورتہائی بھی بہت ہے،اگرتم اپنے وارثوں کواپنے پیچھے مالدارچھوڑوتویہ اس سے بہترہے کہ انہیں محتاج چھوڑوکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز(اللہ کے لئے خرچ کروگے)تووہ خیرات ہے یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جوتم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے گا(وہ بھی خیرات ہے اورتو اس کابھی اجرپائے گا)۔[8]

لیکن اگرتم مال واسباب،حیثیت ومرتبہ پرتکیہ کرکے ،دنیاکی رنگینیوں میں مست ہوکر ، شیطان کے جھوٹے وعدوں پربھروسہ کرکے روگردانی،اعراض کرتے ہو تومیں تمہارے حق میں قیامت کے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، ایک وقت مقررہ پریقیناًتم سب کو اللہ کی بارگاہ میں اعمال کی جوابدہی کے لئے حاضرہوناہے،اگراعمال نیک ہوں گے تواللہ بڑھاچڑھاکرجزادے گااوراگراعمال بدہوئے تواسی کے مطابق سزادے گا، اوروہ اپنے دوستوں سے احسان اوردشمنوں سے انتقام پرقادر ہے،بعض لوگ غلبہ شرم وحیاکی وجہ سے قضائے حاجت اورمجامعت کے وقت برہنہ ہوناپسندنہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہاہے ،اس لئے ایسے موقعوں پروہ شرم گاہ کوچھپانے کے لئے اپنے سینوں کودوہراکرلیتے تھے،

مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، یَقْرَأُ:أَلاَ إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِی صُدُورُهُمْ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْهَا. فَقَالَ:أُنَاسٌ كَانُوا یَسْتَحْیُونَ أَنْ یَتَخَلَّوْا فَیُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ، وَأَنْ یُجَامِعُوا نِسَاءَهُمْ فَیُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ فَنَزَلَ ذَلِكَ فِیهِمْ

محمدبن عبادبن جعفرنے فرمایامیں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سناکہ آپ آیت کی قرات أَلاَ إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِی صُدُورُهُمْ اس طرح کرتے تھےمیں نے ان سے اس آیت کے متعلق پوچھاتوانہوں نے کہاکہ کچھ لوگ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لئے بیٹھےمیں آسمان کی طرف سترکھولنے میں ،اسی طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سےحیاکرتے تھے تویہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی۔[9]

اللہ تعالی نے ان کے ظن باطل کوبیان کرتے ہوئے فرمایارات کے اندھیرے میں جب وہ اپنے بستروں میں اپنے آپ کوکپڑوں سے ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی وہ ان کودیکھتااوران کی چھپی اورعلانیہ باتوں کوجانتاہے ،وہ توایساباریک بین ہے کہ تمہارے سینوں میں چھپے ہوئے ارادوں ،وسوسوں اورسوچوں کوبھی جانتاہے،چنانچہ جب تم اس سے چھپ نہیں سکتے تواس غیرضروری تکلف کاکیافائدہ، اس آیت کاایک مفہوم یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کاچرچاہواتوبہت سے مشرکین ایسے بھی تھے جومخالفت میں توسرگرم نہیں تھے مگراس دعوت سے سخت بیزارتھے،قوم نوح علیہ السلام کی طرح ان لوگوں کارویہ یہ تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کے روادارنہیں تھے ، اگرآپ سرراہ ان کے سامنے آجاتے تودورسے ہی راستہ بدل لیتے،اگرایساممکن نہ ہوتاتو کپڑے سے سرڈھانپ لیتے تاکہ آپ انہیں مخاطب کرکے کچھ وعظ ونصیحت نہ کرنے لگیں ، کہیں مجلس میں بیٹھادیکھ لیتے توالٹے پاؤں واپس پھرجاتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرتے توچھپنے کے لئے سینہ موڑلیتے اورسرڈھانپ لیتے۔روئے زمین پر چلنے والی چھوٹی بڑی ہر مخلوق چاہے وہ انسان ہوں یاجن،چرنے والے جانورہوں یا خونخوار درندے،ہوامیں اڑنے والے پرندے ہوں یارینگنے والے حشرات الارض یا دریاؤں اورسمندروں کی ان گنت مخلوقات، اللہ ہرایک کواس کی نوعی یا جنسی ضروریات کے مطابق سامان زیست پہنچارہا ہے، اورجس کے متعلق وہ جل شانہ نہ جانتاہو کہ وہ کہاں رہتاہے اورکہاں اپنی جان جان آفرین کے سپردکردیتا ہے،سب کچھ ایک صاف دفترمیں تفصیل کے ساتھ درج ہے ،جیسے فرمایا:

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹          [10]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا،بحروبرمیں جوکچھ ہے سب سے وہ واقف ہے،درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسا نہیں جس کااسے علم نہ ہو ، زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسانہیں جس سے وہ باخبرنہ ہو،خشک وترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھاہواہے۔

اللہ نے ہرچیزکی تقدیرلکھ دی ہے ،ہرچیزپراس کی مشیت نافذہے اگرتم یہ گمان کرتے ہوکہ اس طرح شترمرخ کی طرح ریت میں منہ چھپاکریاکانوں میں انگلیاں ڈال کریاآنکھوں پرپردہ ڈال کراوردعوت حق کونہ سن کرتم اللہ کی پکڑسے بچ جاؤگے تویہ تمہاری نادانی ہے ،جیسے فرمایا

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ۝۰ۭ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ۝۳۸   [11]

ترجمہ:زمین میں چلنے والے کسی جانوراورہوامیں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کودیکھ لویہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں ،ہم نے ان کی تقدیرکے نوشتے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے ،پھریہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں ۔

وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِیَبْلُوَكُمْ أَیُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِنْ قُلْتَ إِنَّكُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُولَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِینٌ ‎﴿٧﴾‏ وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَعْدُودَةٍ لَیَقُولُنَّ مَا یَحْبِسُهُ ۗ أَلَا یَوْمَ یَأْتِیهِمْ لَیْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٨﴾‏(ھود)
’’اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے، اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لیے پیچھے ڈال دیں تو یہ ضرور پکار اٹھیں گے کہ عذاب کو کون سی چیز روکے ہوئے ہے، سنو ! جس دن وہ ان کے پاس آئے گا پھر ان سے ٹلنے والا نہیں پھر تو جس چیز کی ہنسی اڑا رہے تھے وہ انھیں گھیر لے گی ۔‘‘

مشرکین سوال کرتے تھے کہ آسمان وزمین کی پیدائش سے پہلے کیاتھا؟اس کاجواب ارشادہواکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کمال ہے کہ اس نے چھ دنوں میں ساتوں آسمانوں اور زمین کو پیداکردیااورپھراپنی شان کے لائق ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہواجبکہ اس سے پہلے اس کاعرش پانی پرتھا،

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْبَلُوا الْبُشْرَى یَا بَنِی تَمِیمٍ. قَالَ: قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا. قَالَ:اقْبَلُوا الْبُشْرَى یَا أَهْلَ الْیَمَنِ . قَالَ: قُلْنَا: قَدْ قَبِلْنَا، فَأَخْبِرْنَا عَنْ أَوَّلِ هَذَا الْأَمْرِ كَیْفَ كَانَ؟ قَالَ:كَانَ اللَّهُ قَبْلَ كُلِّ شَیْءٍ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَكَتَبَ فِی اللَّوْحِ ذِكْرَ كُلِّ شَیْءٍ قَالَ: وَأَتَانِی آتٍ فَقَالَ: یَا عِمْرَانُ انْحَلَّتْ نَاقَتُكَ مِنْ عِقَالِهَا. قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا السَّرَابُ یَنْقَطِعُ بَیْنِی وَبَیْنَهَا. قَالَ: فَخَرَجْتُ فِی أَثَرِهَا فَلَا أَدْرِی مَا كَانَ بَعْدِی

عمران بن حصین سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بنی تمیم!بشارت قبول کرلو،انہوں نے عرض کی آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو پھرعطافرمائیے،آپ نے فرمایااے اہل یمن!تم!بشارت قبول کرلو،انہوں نے عرض کی ہم نے اسے قبول کرلیا،آپ یہ فرمائیں کہ اس کائنات کی سب سے پہلے ابتداکس طرح ہوئی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرچیزسے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی تھی اوراللہ تعالیٰ کاعرش پانی پرتھااوراس دوران میں باہرچلاگیااس وقت اونٹنی دورجاچکی تھی،میں اس کی تلاش میں نکلامجھے معلوم نہیں کہ میرے بعدآپ نے کیافرمایاتھا۔[12]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:كَتَبَ اللهُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزارسال قبل مخلوقات کی تقدیرلکھی،اس وقت اس کاعرش پانی پرتھا۔[13]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْكَ، وَقَالَ: یَدُ اللَّهِ مَلْأَى لاَ تَغِیضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ، وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ یَغِضْ مَا فِی یَدِهِ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ، وَبِیَدِهِ المِیزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتاہے اے میرے بندو!(میری راہ میں ) خرچ کروتو میں تم پرخرچ کروں گااور فرمایااللہ کاہاتھ بھراہواہے ، رات اوردن کے مسلسل خرچ کرنے سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی،اورفرمایاتم نے دیکھانہیں جب سے اللہ نے آسمان وزمین کوپیداکیاہے مسلسل خرچ کئے جارہاہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی،اس کاعرش پانی پر تھااوراس کے ہاتھ میں میزان عدل ہےجسے وہ جھکاتا اور اٹھاتارہتا ہے۔[14]

اوراس عظیم الشان تخلیق کامقصدعبث وبلامقصدنہیں ،جیسے فرمایا

 اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [15]

ترجمہ: کیا تم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیداکیاہے اورتمہیں ہمارے طرف کبھی پلٹناہی نہیں ہے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚ فَوَیْلٌ لِّــلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ۝۲۷ۭ  [16]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کر دیا ہے یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے ، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے ۔

بلکہ اس کا مقصودیہ ہے کہ انسانوں کوخلافت کے اختیارات تفویض کراکےآزمائش کرے کہ ان میں کون ان اختیارات اور اخلاقی ذمہ داری کو احسن طور پر بجا لاتا ہے ، جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۝۲ۙ [17]

ترجمہ:جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔

مگر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرتم انہیں ان کا مقصد حیات سمجھاتے ہوکہ اللہ نے جنوں اورانسانوں کواپنی کی عبادت کے لئے بھیجاگیا ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ [18]

ترجمہ:میں نے جن و انس کواس لئے پیداکیاکہ وہ میری عبادت کریں ۔

اورروزمحشرہرایک کوتنہاتنہاا عمال کی جوابدہی کے لئے اللہ کی بارگاہ میں حاضرہوناہے۔

وَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [19]

ترجمہ:سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔

تومنکرین آخرت یہ تسلیم کرنے کے باوجودکہ آسمان و زمین کاخالق اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے،جیسے فرمایا

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۔۔۔ ۝۸۷ۙ      [20]

ترجمہ:اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۔۔۔ ۝۶۱ [21]

ترجمہ:اگر تم ان لوگوں سے پوچھوں کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔

مگر اپنے کفروعناد اوربغض کی بناشدت سے تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ توصریح جادو گری ہے ، حالانکہ جس نے چھ دنوں میں عظیم الشان کائنات کی تخلیق کردی ،جس نے پہلی مرتبہ انسان کوبدبودار مٹی کے گارے سےپیدا کردیا اورپھرنطفہ سے اس کا سلسلہ چلایا،جواپنی ہرطرح کی مخلوقات کورزق پہنچا رہاہےاس کے لئے انسان کو دوبارہ پیداکردیناکونسامشکل کام ہے جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۲۷ۧ [22]

ترجمہ: وہی ہے جوتخلیق کی ابتداکرتاہے ،پھروہی اس کااعادہ کرے گااوریہ اس کے لئے آسان تر ہے۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔۝۰ [23]

ترجمہ: تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا تو (اس کے لیے ) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جلا اٹھانا) ۔

اورہماری سنت ہے کہ ہم اپنے رحم وکرم سے مجرموں پرفوراًعذاب نازل نہیں کرتےبلکہ ایک مقررہ مدت تک سوچنے سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے مہلت دیتے ہیں تومکذبین عذاب کو ناممکن سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخر کس چیزنے اللہ کوعذاب نازل کردینے سے روک رکھا ہے؟سنو!جس روزاللہ کاعذاب اچانک نازل ہوگیا تووہ کسی کے ٹالے سے نہ ٹل سکے گا،اوروہی چیزان کو آ گھیرے گی جس کاوہ مذاق اڑارہے ہیں ۔

وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَیَئُوسٌ كَفُورٌ ‎﴿٩﴾‏ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَیَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّیِّئَاتُ عَنِّی ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ ‎﴿١٠﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ ‎﴿١١﴾(ھود)
’’اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا ناشکرا بن جاتا ہے، اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں ، یقیناً وہ بڑا اترانے والا شیخی خور ہے، سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں ، انھیں لوگوں کے لیے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا بدلہ بھی ۔‘‘

انسانی نفسیات کوانتہائی خوبصورتی سے بیان کیاگیا کہ اگرکبھی ہم انہیں صحت ،رزق،حیثیت ومرتبہ اوراولاد سے نوازنے کے بعداس سے چھین لیتے ہیں تووہ بلبلااٹھتا ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوس وناامید ہوجاتاہے اوراللہ کی ناشکری کرنے لگتاہے اوراگراس کے برعکس مصیبت کے بعد جو اس پرآئی تھی ہم اس پر اس کی خواہشات نفس کے موافق نعمتوں کی بارش برساتے ہیں تو نعمت کے نشے میں غرورمیں مبتلاہوجاتاہے اورسمجھتاہے سختیوں اورتکالیف کادورگزرگیااب کوئی تکلیف آنے والی نہیں ،پھروہ پھولانہیں سماتا اور دوسروں پرفخروغرور کااظہار کرنے لگتاہے ،مگراس مذموم اخلاق سے بس وہ اہل ایمان محفوظ ہیں جوراحت وفراغت ،تنگی وتکالیف دونوں حالتوں میں صبرواستقامت سے کام لیتے ہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا۝۱۹ۙاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا۝۲۰ۙوَّاِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا۝۲۱ۙاِلَّا الْمُصَلِّیْنَ۝۲۲ۙالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ۝۲۳۠ۙوَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙلِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵۠ۙوَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۝۲۶۠ۙوَالَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ۝۲۷ۚ  [24]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ انسان بےصبرا پیدا کیا گیا ہے ،جب اس پر مصیبت آتی ہے توگھبرااٹھتاہے اورجب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے توبخل کرنے لگتا ہے ، مگروہ لوگ(اس عیب سے بچے ہوئے ہیں ) جونمازپڑھنے والے ہیں ،جواپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں ،جن کے مالوں میں سائل اورمحروم کا ایک مقررحق ہے ،جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں ،جواپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔

عَنْ صُهَیْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَیْرٌ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، وَإِنَّ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، وَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَلَیْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کابھی عجب حال ہے اس کے ہرعمل میں خیرہے، اللہ تعالیٰ مومن کے لئے جوبھی فیصلہ فرماتاہے اس میں اس کے لئے بہتری ہوتی ہے اگراس کوخوشی وراحت حاصل ہوتی ہے تواس پراللہ کاشکراداکرتاہے اس میں بھی ثواب ہے اوراگرکوئی تکلیف یانقصان پہنچتا ہے تو صبر کرتاہے اس میں بھی ثواب ہے،یہ امتیازایک مومن کے سوا کسی کوحاصل نہیں ۔[25]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَأَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ وَصَبٍ وَلَا نَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةُ یُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ مِنْ خَطَایَاهُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان جب بھی کسی پریشانی،بیماری،رنج وملال،تکلیف اورغم میں مبتلاہوجاتاہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹابھی چبھتاہے تواللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کاکفارہ بنادیتاہے۔[26]

اوریہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بخشش ومغفرت بھی ہے اوران کی بھلائیوں پربڑااجربھی ۔

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا یُوحَىٰ إِلَیْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَنْ یَقُولُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنْتَ نَذِیرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ وَكِیلٌ ‎﴿١٢﴾‏أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٣﴾‏ فَإِلَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ‎﴿١٤﴾(ھود)
’’پس شاید کہ آپ اس وحی کے کسی حصے کو چھوڑ دینے والے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے اور اس سے آپ کا دل تنگ ہے، صرف ان کی اس بات پر کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترا ؟ یا اس کے ساتھ فرشتہ ہی آتا، سن لیجئے ! آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہیں اور ہر چیز کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے،کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے، جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو،پھر اگر وہ تمہاری بات کو قبول نہ کریں تو تم یقین سے جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، پس کیا تم مسلمان ہوتے ہو ۔‘‘

مشرکین کی تنقیدکی پرواہ نہ کریں :

مشرکین بطورتضحیک واستہزا مختلف قسم کے طعنہ دیتے رہتے تھے۔

 وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا۝۷ۙاَوْ یُلْقٰٓى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا۝۰ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۸  [27]

ترجمہ:کہتے ہیں یہ کیسارسول ہے جوکھاناکھاتاہے اوربازاروں میں چلتاپھرتاہے ؟کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجاگیاجواس کے ساتھ رہتااور(نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟یااورکچھ نہیں تواس کے لئے کوئی خزانہ ہی اتاردیاجاتایااس کے پاس کوئی باغ ہوتاجس سے یہ( اطمینان کی) روزی حاصل کرتا،اوریہ ظالم کہتے ہیں تم لوگ توایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ان بے سروپا باتوں پرسخت کوفت محسوس کرتے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ۝۹۷ۙ    [28]

ترجمہ:ہمیں معلوم ہے کہ جوباتیں یہ لوگ تم پربناتے ہیں ان سے تمہارے دل کوسخت کوفت ہوتی ہے۔

چنانچہ تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! کہیں ایسانہ ہوکہ مشرکین کی ان باتوں پر تمہاراسینہ تنگ ہواورجو وحی تمہاری طرف کی جارہی ہیں ان میں سے کسی چیزکوبے کم وکاست بیان کرنے سے چھوڑ دو ،آپ تومحض متنبہ کرنے والے ہیں اس لئے اپنافرض منصبی بے دھڑک بجالاتے رہیں ،آگے ہرچیزکاحوالہ داراللہ ہے،وہ ان کے اعمال کو محفوظ کررہاہے اورپھروہ ان کوان اعمال کی پوری جزادے گا،مشرکین کلام الٰہی پرایمان لانے کے بجائے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتصنیف کردہ سمجھتے تھے،چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ نے چیلنج دیا کہ اگرتم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تواس جیساکلام پیش کرکے دکھلادواوراس سلسلہ میں جس جس کی مدد لیناچاہو لے لولیکن تم ایساکرنے سے عاجزہی رہوگے ،جیسے فرمایا

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا۝۸۸   [29]

ترجمہ:کہہ دوکہ اگرانسان اورجن سب کے سب مل کراس قرآن جیسی کوئی چیزلانے کی کوشش کریں تونہ لاسکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگارہی کیوں نہ ہوں ۔

اب اللہ تعالیٰ نے چیلنج دیااگرتم پورا قرآن تصنیف کرکے پیش نہیں کرسکتے تواس جیسی دس سورتیں ہی بناکرپیش کردواوراس سلسلہ میں اللہ کے سوااپنے تمام معبودوں کی مددبھی حاصل کرلوایک مقام پر فرمایا:

 فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ۝۳۴ۭ [30]

ترجمہ:اگریہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تواسی شان کاایک کلام بنالائیں ۔

اب اگر تمہارے معبود جن کی اس کلام میں کھلم کھلا مخالفت کی گئی ہے توتمہارے معبودوں کو مددکرنی چاہئے ،لیکن اگراس فیصلہ کن گھڑی میں وہ تمہاری مددکونہیں پہنچتے توجان لوکہ یہ پاکیزہ کلام رسول کاتصنیف کردہ نہیں بلکہ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے اوریہ کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ،اوراس معبودحقیقی کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے،پھرکیاتم اس حقیقت کوتسلیم کرکے سرتسلیم خم کرتے ہو؟

مَنْ كَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا نُوَفِّ إِلَیْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِیهَا وَهُمْ فِیهَا لَا یُبْخَسُونَ ‎﴿١٥﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٦﴾‏(ھود)
’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی، ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے ،اور جو کچھ اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ۔‘‘

جولوگ آخرت کی جواب طلبی کونظراندازکرکے محض اسی دنیاکے مالی فائدوں کے دلدادہ ہیں اورجائزوناجائزطریقوں سے اسی دنیاکی زندگی کوبنانے کی جدوجہدمیں لگے ہوئے ہیں ، ان کے اچھے اعمالوں کی جزا ہم اسی دنیامیں ان کودے دیتے ہیں اوراس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی مگرآخرت میں ایسے لوگوں کے لئے عذاب جہنم کے سوا کچھ نہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،اوران کے عذاب میں کوئی وقفہ نہیں کیاجائے گاجیسے فرمایا:

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۱۸وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا۝۱۹  [31]

ترجمہ: جوکوئی (اس دنیامیں ) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہشمندہواسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دیناچاہیں ،پھراس کے مقسوم میں جہنم کولکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گاملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہوکر،اور جو آخرت کاخواہشمندہواوراس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہیے اور ہووہ مومن توایسے ہرشخص کی سعی مشکورہوگی۔

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۝۲۰ [32]

ترجمہ:جوکوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کوہم بڑھاتے ہیں اورجودنیاکی کھیتی چاہتاہے اسے دنیاہی میں سے دیتے ہیں مگرآخرت میں اس کاکوئی حصہ نہیں ہے ۔

ایک مقام پریوں فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَنُّوْا بِهَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۝۷ۙاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۸ [33]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جولوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اوردنیاکی زندگی ہی پر راضی اورمطمئن ہوگئے ہیں اورجو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ان کاآخری ٹھکانا جہنم ہوگاان برائیوں کی پاداش میں جن کااکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرزعمل کی وجہ سے )کرتے رہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الخَمِیصَةِ، إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِیكَ فَلاَ انْتَقَشَ، طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَشْعَثَ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِی الحِرَاسَةِ، كَانَ فِی الحِرَاسَةِ، وَإِنْ كَانَ فِی السَّاقَةِ كَانَ فِی السَّاقَةِ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ یُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ یُشَفَّعْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دینار اور درہم(روپے پیسے) کا بندہ ہلاک ہواچادراورکمبل کاپجاری ہلاک ہوااگریہ چیزیں اسے مل جائیں تو مسرور ہوتا ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناخوش ہوجاتا ہے،یہ برباداورذلیل وخوارہوااگراسے کانٹا چبھے تو کوئی نہ نکالے، اوراس شخص کے لیے بہت بڑی سعادت ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامےہوئے ہو، اس کے سر کے بال پر آگندہ اور پاؤں گرد آلود ہوں اگر اسے (اسلامی فوج کی) پاسبانی پر مقرر ہو تو حفاظت میں پوری تندہی سے لگا رہے اور اگر فوج کے پیچھے حفاظت کیلئے لگا دیا جائے تو لشکر کے پیچھے لگا رہے، اگر اندر آنے کی اجازت چاہے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کے حق میں سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو۔[34]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ:{مَنْ كَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا}[35] الْآیَةَ، وَهِیَ مَا یُعْطِیهِمُ اللَّهُ مِنَ الدُّنْیَا بِحَسَنَاتِهِمْ؛ وَذَلِكَ أَنَّهُمْ لَا یُظْلَمُونَ نَقِیرًا، یَقُولُ: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا الْتِمَاسَ الدُّنْیَا صَوْمًا أَوْ صَلَاةً أَوْ تَهَجُّدًا بِاللَّیْلِ لَا یَعْمَلُهُ إِلَّا لِالْتِمَاسِ الدُّنْیَا؛ یَقُولُ اللَّهُ: أُوَفِّیهِ الَّذِی الْتَمَسَ فِی الدُّنْیَا مِنَ الْمَثَابَةِ، وَحَبِطَ عَمَلُهُ الَّذِی كَانَ یَعْمَلُ الْتِمَاسَ الدُّنْیَا، وَهُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ ’’جوشخص دنیاکی زندگی اوراس کی زینت پرفریفتہ ہواچاہتاہوہم ایسوں کوان کے کل اعمال(کابدلہ)یہیں بھرپورپہنچادیتے ہیں اوریہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔‘‘کے بارے میں روایت ہے ریا کاروں کوان کی نیکیوں کادنیاہی میں بدلہ دے دیاجائے گااس لیے کہ ان پربھی ذرہ برابرظلم نہیں کیاجائے گااللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ جوشخص بھی نماز،روزہ یاتہجدوغیرہ کوئی عمل بھی دنیاکے لیے کرتاہے تومیں اس کی خواہش کے مطابق اسے دنیاہی میں اس کاصلہ اداکردیتاہوں پھراس کاوہ عمل اکارت جاتا ہے اورآخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔[36]

عَنْ قَتَادَةَ، یَقُولُ: مَنْ كَانَتِ الدُّنْیَا هَمُّهُ وَسَدَمُهُ وَطِلْبَتُهُ وَنِیَّتُهُ، جَازَاهُ اللَّهُ بِحَسَنَاتِهِ فِی الدُّنْیَا، ثُمَّ یُفْضِی إِلَى الْآخِرَةِ وَلَیْسَ لَهُ حَسَنَةٌ یُعْطَى بِهَا جَزَاءً. وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیُجَازَى بِحَسَنَاتِهِ فِی الدُّنْیَا وَیُثَابُ عَلَیْهَا فِی الْآخِرَةِ.

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس کاارادہ ونیت طلب دنیاہی ہو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کااسے دنیاہی میں بدلہ عطافرمادیتاہےاورآخرت میں ایسے شخص کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جس کااسے بدلہ دیاجائے، جبکہ مومن کواس کی نیکیوں کاصلہ دنیامیں بھی ملتاہے اورآخرت میں اجروثواب بھی اسے ضرورملے گا۔[37]

روزآخرت انہیں معلوم ہوجائے گاکہ آخرت سے غافل ہوکر دنیاوی ترقی کے لئے جو کچھ کیاتھاان کے کسی کام نہ آیااوراب ان کاسارا کیا دھرا محض باطل ہے۔

أَفَمَنْ كَانَ عَلَىٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَیَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ یُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَنْ یَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِی مِرْیَةٍ مِنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ یُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَیَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِینَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ ‎﴿١٨﴾‏ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ وَیَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ‎﴿١٩﴾‏(ھود)
’’ کیا وہ شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواہ ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (گواہ ہو) جو پیشوا و رحمت ہے (اوروں کے برابر ہوسکتا ہے؟)، یہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم ہے، پس تو اس میں کسی قسم کے شبہ میں نہ رہ، یقیناً یہ تیرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہیں ہوتے، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور سارے گواہ کہیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا، خبردار ہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرلیتے ہیں ،یہی آخرت کے منکر ہیں ۔‘‘

مومن کون ہیں :

ایک وہ شخص جومنکروکافرہے اورتاریکیوں وجہالتوں میں ڈوباہواہے ، اوراس کے مقابلے میں ایک دوسراشخص ہے جسے عقل سلیم سے اپنے وجودمیں ،آسمان وزمین کی ساخت میں ،کائنات کے نظم ونسق میں اللہ وحدہ لاشریک کی خالقیت،مالکیت،حاکمیت اوررزاقیت کی کھلی نشانیاں نظرآ رہی ہیں ،اس پرمزید قرآن کریم نے اس حقیقت کی فطری وعقلی شہادت کی تائیدکردی، اور تیسراشاہد الہامی کتاب تورات بھی جسے اللہ نے لوگوں کے لئے امام اوررحمت بنایاہے اللہ کی خالقیت ،مالکیت ،حاکمیت اوررزاقیت کی تائیدکرتی ہے ، اوروہ شخص دعوت ایمان پر ایمان لے آتاہے کیایہ دونوں مومن وکافر برابرہوسکتے ہیں ؟یعنی اللہ اوربندوں کے درمیان کسی طور پربرابرنہیں ہوسکتے ،جن لوگوں کے اندرمذکورہ اوصاف پائے جائیں گے،جن لوگوں کودلائل قائم کرنے کی توفیق عطاکی گئی ہے وہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران پرنازل کتاب قرآن کریم پر ایمان ہی لائیں گے،اور روئے زمین پرپائے جانے والے مذاہب یہودی ،عیسائی ،زرتشتی ،بدھ مت ،مجوسی اورمشرکین وکفاروغیرہ کوماننے والا جوبھی دعوت حق اور پیغمبر آخرالزماں پرایمان نہیں لائے گااس کاٹھکاناجہنم ہے ، جیسے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲ [38]

ترجمہ:یقین جانوکہ نبی عربی کوماننے والے ہوں یایہودی ، عیسائی ہوں یاصابی جوبھی اللہ اور روزآخرپرایمان لائے گااورنیک عمل کرے گااس کااجراس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لئے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَرُسُلِهٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللهِ وَرُسُلِهٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا۝۱۵۰ۙاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا۝۱۵۱وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۵۲ۧ [39]

ترجمہ:جولوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفرکرتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اورکہتے ہیں کہ ہم کسی کومانیں گے اورکسی کونہ مانیں گے اورکفروایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کاارادہ رکھتے ہیں ،وہ سب پکے کافرہیں ،اورایسے کافروں کے لئے ہم نے وہ سزامہیاکررکھی ہے جوانہیں ذلیل وخوارکردینے والی ہوگی،بخلاف اس کے جولوگ اللہ اوراس کے تمام رسولوں کومانیں اوران کے درمیان تفریق نہ کریں ان کوہم ضروران کے اجرعطاکریں گے اوراللہ بڑادرگزرفرمانے والااوررحم کرنے والا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اس امت کے جس یہودی یا عیسائی (یاکوئی اوردین والا) نے بھی میری نبوت کی بابت سنااورپھرمجھ پرایمان نہیں لایااوراس پرجس کومیں دے کر بھیجا گیاہوں (یعنی قرآن)وہ جہنم میں جائے گا۔[40]

پس اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہارے رب کی طرف سے تم پر حق نازل کیا گیا ہے،اس لئے تم اس چیزکی طرف سے ادنیٰ سے شک میں مبتلا نہ ہونا، جیسے فرمایا

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْهِ۔۔۔ ۝۲ۙ [41]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔

الۗمّۗ۝۱تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۲ۭ ۚ [42]

ترجمہ:ا،ل،م ،اس کتاب کی تنزیل بلا شبہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔

مگراکثرلوگ ظلم ،عناداوربغاوت کی بناپر حق کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳ [43]

ترجمہ:مگرتم خواہ کتناہی چاہوان میں سے اکثرلوگ مان کردینے والے نہیں ہیں ۔

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ۔۔۔۝۱۱۶ [44]

ترجمہ:اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے ۔

 وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۰ [45]

ترجمہ:ان کے معاملہ میں ابلیس نے اپناگمان صحیح پایااورانہوں نے اسی کی پیروی کی ، بجزایک تھوڑے سے گروہ کے جومومن تھا۔

اللہ تعالیٰ اپنی ذات گرامی کے بارے میں جھوٹ باندھنے والوں کاحال بیان فرمایا اوراس شخص سے بڑھ کر ظالم اورکون ہوگاجواللہ پر جھوٹ گھڑے کہ جن کواللہ نے کائنات میں تصرف کرنے یاآخرت میں شفاعت کا اختیارنہیں دیاہے ،ان کی بابت یہ کہے کہ اللہ نے انہیں یہ اختیار دیا ہے یایہ کہے کہ اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے کوئی نبی ہماری طرف مبعوث نہیں کیااورکوئی کتاب نازل نہیں کی یایہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان کائنات اورمخلوقات کوعبث پیداکیاہے اورروزآخرت کوجھٹلائے یانبوت کادعویٰ کرے ،روزمحشرجب ایسے لوگ اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے رب کے حضورپیش کیے جائیں گے اورگواہ ان کے خلاف کذب وافتراپر شہادت دیں گے توایسے ظالم لوگ اللہ کی رحمت سے دورہوں گے ،

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ المَازِنِیِّ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا أَمْشِی، مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا آخِذٌ بِیَدِهِ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: كَیْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی النَّجْوَى؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ یُدْنِی المُؤْمِنَ، فَیَضَعُ عَلَیْهِ كَنَفَهُ وَیَسْتُرُهُ، فَیَقُولُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ أَیْ رَبِّ، حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ، وَرَأَى فِی نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ، قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَیْكَ فِی الدُّنْیَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الیَوْمَ، فَیُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ،وَأَمَّا الكَافِرُ وَالمُنَافِقُونَ، فَیَقُولُ الأَشْهَادُ: {هَؤُلاَءِ الَّذِینَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ} [46]

صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہےمیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک بار ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے چلا جا رہا تھا کہ ایک شخص سامنے آیا اور کہا کہ تم نے سرگوشی کرنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح سنا ہے؟میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ فرماتے تھےروز قیامت اللہ عزوجل مومن کواپنے نزدیک بلالے گااوراس پراپناپردہ ڈال دے گااوراسے چھپالے گا ، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گاکیاتجھ کوفلاں گناہ یادہے؟کیاتجھ کو فلاں گناہ یادہے؟کیاتجھ کوفلاں گناہ یادہے؟وہ مومن کہے گا ہاں ،اے میرے پروردگار!آخرجب وہ اپنے گناہوں کااقرارواعتراف کرلے گا ،اوراسے یقین ہوجائے گا کہ بس اب وہ ہلاک ہوا،اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گامیں نے دنیامیں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھاتھااورآج بھی میں تیری مغفرت کرتاہوں چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافراورمنافق کا معاملہ ایسانہیں ہوگا انہیں گواہوں کے سامنے پکاراجائے گا اور گواہ گواہی دیں گے کہ ’’یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پرجھوٹ باندھاتھا ،خبردارہو جاؤ! ظالموں پراللہ کی پھٹکارہوگی۔‘‘[47]

أُولَٰئِكَ لَمْ یَكُونُوا مُعْجِزِینَ فِی الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ۘ یُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ۚ مَا كَانُوا یَسْتَطِیعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا یُبْصِرُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٢١﴾‏ لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِی الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ ۞ مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِیرِ وَالسَّمِیعِ ۚ هَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٢٤﴾(ھود)
’’ نہ یہ لوگ دنیا میں اللہ کو ہرا سکے اور نہ ان کا کوئی حمائتی اللہ کے سوا ہوا، ان کے لیے عذاب دگنا کیا جائے گا، نہ یہ سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ دیکھتے ہی تھے ، یہی ہیں جنہوں نے اپنا نقصان آپ کرلیا اور وہ سب کچھ ان سے کھو گیا جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا،بیشک یہ لوگ آخرت میں زیاں کار ہونگے، یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں ، ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے، بہرے اور دیکھنے، سننے والے جیسی ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں ؟ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘

پھرعالم آخرت کابیان فرمایاوہ ائمہ ضلالت جواللہ کے بندوں کومکروفریب،لالچ اورظلم وزیادتی کرکے اوراللہ کے سیدھے راستے میں کجیاں تلاش کرتے ،لوگوں کواتباع حق سے متنفرکرتے ہیں اور قیامت اور رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کو جھٹلاتے ہیں زمین میں اللہ کی گرفت اوراس کے دست قدرت سے بھاگ کرکہیں جانہیں سکتے تھے اورنہ ہی اللہ کے مقابلہ میں ان کاکوئی مددگار تھا ، روز قیامت اللہ انہیں خودگمراہ ہونے اوردوسروں کوگمراہ کرنے کے سبب دوہراعذاب دے گا،دنیامیں ان کا حق سے اعراض اوربغض اس انتہا پرپہنچاہواتھاکہ وہ دلائل حق کو سننے سے بہرے تھے،جیسے فرمایا

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَ۝۴۹ۙكَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ۝۵۰ۙفَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ۝۵۱ۭ  [48]

ترجمہ:آخران لوگوں کوکیا ہوگیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑرہے ہیں گویاجنگلی گدھے ہیں جوشیرسے ڈرکربھاگ پڑے ہیں ۔

اور وہ تباہ شدہ اقوام کے قصص سے عبرت حاصل کرتے اورنہ دعوت حق کو تفکر وتدبرکی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں ، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً۝۰ۡۖ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَیْءٍ ۔۔۔۝۲۶ۧ [49]

ترجمہ:ان کوہم نے کان،آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھے تھے ،مگرنہ وہ کان ان کے کسی کام آئے نہ آنکھیں نہ دل۔

جیساکہ جہنمی جہنم میں داخل ہوتے وقت اقرار کریں گے۔

وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰ [50]

ترجمہ:وہ کہیں گےکاش! ہم سنتے یاسمجھتے توآج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں شامل نہ ہوتے۔

اوراللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کے عذاب میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی کرتا رہے گا۔

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ۝۸۸  [51]

ترجمہ:جن لوگوں نے خود کفرکی راہ اختیارکی اور دوسروں کواللہ کی راہ سے روکاانہیں ہم عذاب پرعذاب دیں گے اس فسادکے بدلے جووہ دنیا میں برپا کرتے رہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [52]

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ظالم کوچندروزدنیامیں مہلت دیتاہے لیکن جب پکڑتاہے توپھرچھوڑتانہیں ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی’’اورتیرے پروردگارکی پکڑاسی طرح ہے ،جب وہ بستی والوں کوپکڑتاہے جو(اپنے اوپر)ظلم کرتے رہتے تھے ،بیشک اس کی پکڑبڑی تکلیف دینے والی اوربڑی ہی سخت ہے۔‘‘[53]

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود اپنی جانوں کوجہنم کاسزاوار ٹھہرایا اور دنیامیں انہوں نے اپنے باطل معبودوں ، سفارشیوں اورسرپرستوں کے بارے میں جو عقائدونظریات گھڑرکھے تھےاورجن کی طرف لوگوں کودعوت دیاکرتے تھے،جن کی وہ تحسین کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آئیں گے ،بلکہ ان کے معبودخودانہی سے اظہار لاتعلقی کریں گے،جیسے فرمایا:

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶   [54]

ترجمہ:جب وہ سزا دے گااس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوااور رہنما جن کی دنیامیں پیروی کی گئی تھی اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہرکریں گے ،مگرسزا پاکر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب ووسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [55]

ترجمہ:آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بےخبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔

یقیناًیہی لوگ روز آخرت سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہوں گے، ان کے برعکس وہ سعادت مند لوگ جو دعوت حق اور رسالت پرایمان لائے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں قولاًاورفعلاًاعمال صالحہ اختیار کیے اوربرائیوں سے اجتناب کیا اور یکسوہو کراپنے رب ہی کی عظمت کے سامنے سرافگندہ ہوگئے ،اللہ کی قوت واقتدارکے سامنے تذلل اورانکساری اختیارکی ، تو یقینا ًوہ جنتی لوگ ہیں جوجنت کی لازوال انواع و اقسام کی نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے ، ان بدبختوں اورنیک بختوں دونوں گروہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تواندھا و بہرا ہو اور دوسرادیکھنے اور سننے والاہوکیایہ دونوں اشخاص کاطرزعمل اور انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟یقیناًنہیں ،جیسے فرمایا:

لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰ [56]

ترجمہ: دوزخ میں جانے والے اورجنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے،جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں ۔

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙوَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ۝۲۰ۙوَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚوَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۝۲۲ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ۝۲۳ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ۝۲۴  [57]

ترجمہ:اندھااورآنکھوں والابرابرنہیں ہے،نہ تاریکیاں اورروشنی یکساں ہیں ،نہ ٹھنڈی چھاؤں اوردھوپ کی تپش ایک جیسی ہے،اورنہ زندے اورمردے مساوی ہیں ،تم تو بس ایک خبردار کرنے والے ہو،ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو ۔

کیاتم(اس مثال سے)کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

‏ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّی لَكُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ ‎﴿٢٥﴾‏ أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ أَلِیمٍ ‎﴿٢٦﴾‏ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِینَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأْیِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ أَرَأَیْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَىٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ‎﴿٢٨﴾‏وَیَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِینَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّی أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ وَیَا قَوْمِ مَنْ یَنْصُرُنِی مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٣٠﴾‏(ھود)
’’یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کردینے والا ہوں ،کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو ، مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے ،اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں ، اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بےسوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں ) ،ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہےبلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں ، نوح نے کہا میری قوم والو ! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو، پھر وہ تمہاری نگاہوں میں نہ آئی تو کیا یہ زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ دوں حالانکہ تم اس سے بیزار ہو ، میری قوم والو ! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا میرا ثواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے، نہ میں ایمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں ، انہیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو، میری قوم کے لوگو ! اگر میں ان مومنوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلے میں میری مدد کون کرسکتا ہے ،کیا تم کچھ بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔‘‘

ہم نے اولوالعزم رسول نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھااس نے اپنی قوم کودعوت توحیددیتے ہوئے کہااے لوگو!میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ طاغوت کی پرستش سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو ،جورب العالمین ہے،جس نے ایک مقصدکے لئے اس عظیم الشان کائنات کو تخلیق کیا ہے ، جوتمہاراخالق ، مالک اور رازق ہے،جوتمہاری پکاروں اورفریادوں کوسنتااورمشکل کشائی کرتاہے، اس کے سواکائنات میں کسی کوکوئی قدرت واختیارنہیں ہے اس لئے وہی اکیلا بندگی واطاعت کے لائق ہے ، اگرتم اس دعوت حقہ اور میری رسالت پرایمان نہ لائے تو تم عذاب الٰہی سے بچ نہ سکوگے ، مگر قوم کے سرداروں نے دعوت حقہ کی تکذیب کی اور بولےاے نوح علیہ السلام ! ہماری نظر میں تو ایک عام انسان کے سوا کچھ نہیں ہو ،تم ہماری طرح کھاتے پیتے ،چلتے پھرتے ،سوتے جاگتے اوراہل وعیال رکھتے ہو،پھرہم کیسے تسلیم کرلیں کہ اللہ نے تمہیں رسالت سے نوازا ہے ،ہم جانتے ہیں کہ ہماری قوم کے چندحقیر،کمتر اوربے حیثیت لوگوں نے بغیرغوروتدبر تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے، اور تم ٹٹ پونجیے لوگ مال ودولت ، حیثیت ومرتبہ اور خدام وحشم میں بھی ہم سے کمترہوتوہم تمہاری اطاعت کیسے کرلیں ،حقیقت تویہ ہے کہ ہم تمہیں اس دعویٰ نبوت ور سالت میں جھوٹا ہی گمان کرتے ہیں ، اورہرقوم کا خوشحال طبقہ ہی اپنے دنیاوی مقاصدکے لئے ہمیشہ دعوت انبیاء کی تکذیب کرتا رہاہے اورکمزورپیروی، جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ۝۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳ [58]

ترجمہ:اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہاکہ ہم نے اپنے باپ داداکوایک طریقے پرپایاہے اورہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔

اورشاہ روم ہرقل نے جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ صخر بن حرب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے بارے میں سوالات کیے توان میں ایک سوال یہ بھی تھا۔

 فَأَشْرَافُ النَّاسِ یَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ،۔۔۔ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ

اعلیٰ درجے کے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یاادنیٰ درجے کے لوگوں نے؟توانہوں نے یہی جواب دیاتھاکہ کمزورلوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے، یہ جواب سن کرہرقل نے کہاتھا پیغمبروں کے پیروکارکمزورلوگ ہی ہوتے ہیں ۔[59]

نوح علیہ السلام نے کہا اے برادران قوم! تم میرے اخلاق وکرداراور خیالات سے انجان نہیں ہو، اوراب تو اس رب نے مجھے نبوت ورسالت عطاکرکے اپنی رحمتوں کی بارش کردی ہے ، تم لوگ اس رحمت وکرم کی چھتری کے نیچے آکر مشاہدہ کرو تو سہی، صرف ضدو ہٹ دھرمی کواپنا شعار نہ بنالو بلکہ انصاف کرو،میں تمہارے پاس دوڑ دوڑ کر آتاہوں اورجس ہمدردی ، خیر خواہی دل جوئی دردمندی سے دعوت دیتاہوں تم اتنا ہی دور بھاگتے ہو ، اگرکوئی اور طریقہ وعظ ونصیحت کا ہے تو وہ بتاؤ،اللہ نے تمہارے دلوں میں حق وباطل کی تمیزرکھی ہے اور وہ میری دعوت حق کوتسلیم کرتے ہیں مگرتم شیطان کے ساتھی بن کراپنی کھوکھلی انا ضدو غرور وتکبر کے خول سے باہر نہیں آنا چاہتے تویہ تمہارا فیصلہ ہے، دین میں زوروزبردستی تو ہرگز ہرگز نہیں ہے اگر اس دعوت پر ایمان لاناہے تو خلوص نیت سے ایمان لے آؤ اسی میں تمہاری بھلائی اورعزت وشرف ہے ،اور اے برادران قوم!اپنے دماغوں سے یہ شبہ دور کر دوکہ میرا دعوائے نبوت کا مقصد مال ودولت ، حیثیت ومرتبہ حاصل کرنا ہے،میں یہ کام اللہ مالک الملک کے حکم پرسرانجام دے رہا ہوں اوروہی میری اس جدوجہدکا اجر عطا فرمائے گا ، قوم کے سرداروں نے مطالبہ کیاکہ تم ان کمتر و حقیر لوگوں کواپنی مجلس سے دورکردوتوہم تمہاری دعوت پر غورکریں گے،نوح علیہ السلام نے فرمایااے قوم کے لوگو!اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کوحقیروکمتر پیدانہیں کیامگرتم لوگوں نے انسانوں کے درمیان درجہ بندی کرتے ہوئے خودساختہ غیرفطری اونچ نیچ قائم کر رکھی ہے،مذہب کی حقانیت وصداقت کو پرکھنے کے لئے پیشہ یا مال ودولت کسوٹی نہیں ہوتے بلکہ اس کے حیات بخش اصول ہوتے ہیں اگرپیشے کے اعتبارسے تم ان گنے چنے مسلمانوں کوجو اللہ مالک الارض وسماوات پر ایمان لائے ہیں ، جن کا ذہن صاف ہے ،جوحقیقت کوسمجھنے اورتسلیم کرنے کی استعدادرکھتے ہیں ،جن کے اندراتنی صداقت پسندی موجودتھی کہ جب انہوں نے جان لیاکہ میری دعوت حق ہے تو اس حق وصداقت اورمحض اللہ کی رضاکے لئے ہر چیزکوقربان کردینے اورہرطرح کے مصائب سہنے کے لئے تیارہوگئے ،یہ لوگ جنہوں نے دنیائے ناپائدار کودل لگانے کے قابل نہ سمجھا،یہ لوگ جنکی اللہ کے ہاں قدرو منزلت ہے کوکمتر، گھٹیااور حقیر سمجھتے ہوتو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشہ صرف پیشہ ہوتاہے ،کوئی بھی پیشہ حقیر نہیں ہوتااور نہ ہی کوئی رزق حلال کمانے کے لئے پیشے کی وجہ سے گھٹیابن جاتا ہے اگر مال و دولت کی وجہ سے خود کوان سے بالا وارفع جانتے ہوتو یہ مال واسباب تمہیں میرے رب نے ہی دیاہے وہ جس کے لئے چاہے مال واسباب میں فراوانی کر دے اور جس کا رزق چاہے نپاتلا کر دے،یہ اس کی حکمت ومشیت ہے اس میں تمہاراکوئی عمل دخل یااستحقاق نہیں ہے وہ رب جس نے تمہیں مال ومتاع اور عزت ومرتبہ سے نوازا ہے جب چاہےسب واپس لینے کی قدرت بھی رکھتاہے اے میری قوم کے لوگو! تم لوگ مال و دولت اور جاہ واقتدارمل جانے کو عزت سمجھتے ہو،تم لوگ یہ سمجھتے ہوکہ اللہ  نے تمہارے سروں پر پیدائشی طورپرعزت وعظمت کاتاج نہیں رکھ دیا ہے اورجن کومال ودولت سے نہیں نوازا وہ پیدائشی ذلیل وحقیرہیں ،حقیقت میں ایسی بات نہیں اللہ نے جو کچھ تمہیں عطاکیاہے اس سے تم اس کے مقرب نہیں بن گئے ہو،وہ تو آزمائش کے لئے دیا گیا ہے اورجن کومفلسی دی ہے وہ اللہ کے مغضوب نہیں انکی بھی آزمائش ہورہی ہے ، اگر تم لوگ اپنی کفرانہ روش سے باز نہ آئے تو نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاؤگے ، میں ان اہل ایمان کوجن میں حق کوپہچاننے کی وسعت نظر،نیک نفسی ، صداقت وخودداری ،قوم کے آگے صحیح دعوت کوقبول کرنے پر مصائب قبول کرنے کی فراغ حوصلگی وبلندہمتی،اپنے بھائیوں کے لئے ایثاروقربانی کاجذبہ،راہ اللہ تکالیف پر صبرواستقامت اور اللہ کی عطاکردہ نعمتوں پرقناعت کے عمدہ اوصاف ہیں ،جن کونشست وبرخاست،عبادات،سماجی تقریبات،عام یااجتماعی زندگی میں کسی کوکسی پراولیت وفضیلت حاصل نہیں ،جن میں اونچ نیچ کے امتیازات نہیں ، تمہاری سطحی باتوں کی وجہ سے اپنے سے دو ر نہیں کرسکتا یہی تو میرا جمع کیا ہوا بے بہاقیمتی سرمایہ ہیں ، ان اہل ایمان کو حقیرسمجھنااورانہیں مجھ سے دورکرنے کامطالبہ کرناتمہاری جہالت پرمبنی ہے،کفارکے ذہن وطریقہ کار اورمطالبات ہمیشہ ایک ہی طرح کے رہے ہیں ،روسائے قریش مکہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ ان ادنیٰ طبقہ کے بے حیثیت لوگوں اوربصیرت سے محروم ضعیف الاعتقادغلاموں کواپنی مجلس سے دور کرو توہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کوتیارہیں ،اس موقع پراللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ۝۰ۭ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۵۲   [60]

ترجمہ:اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ،ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں ، اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ۔۔   [61]

ترجمہ:اوراپنے دل کوان لوگوں کی معیت پرمطمئن کروجواپنے رب کی رضاکے طلب گاربن کرصبح وشام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگزنگاہ نہ پھیرو۔

اور اے قوم !اگر میں ان اہل ایمان کو دھتکار دوں تویہ اللہ کے غضب اورناراضی کا باعث ہے کیا تم لوگ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ؟اب ان میں کوئی تھوڑے عمل کرتا ہے اور کہیں کمزوری دکھاتاہے او ر کوئی پوراکاپورا ڈوبا ہواہے تواس کا معاملہ رب کے اختیارمیں ہے۔

وَیَا قَوْمِ مَنْ یَنْصُرُنِی مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّی مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی أَعْیُنُكُمْ لَنْ یُؤْتِیَهُمُ اللَّهُ خَیْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِی أَنْفُسِهِمْ ۖ إِنِّی إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالُوا یَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ قَالَ إِنَّمَا یَأْتِیكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شَاءَ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِی إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ إِنْ كَانَ اللَّهُ یُرِیدُ أَنْ یُغْوِیَكُمْ ۚ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَیْتُهُ فَعَلَیَّ إِجْرَامِی وَأَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تُجْرِمُونَ ‎﴿٣٥﴾‏(ھود)
’’ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ،(سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ یہ میں کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں ، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں ، ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہوجائے گا، (قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح ! تو نے ہم سے بحث کرلی اور خوب بحث کرلی، اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے، جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ ہی لائے گا اگر وہ چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو ،تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں ، بشرطیکہ اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو، وہی تم سب کا پروردگار ہے اور اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے،کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے ؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو ۔‘‘

اے میری قوم !میرایہ دعویٰ نہیں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں کہ میں ان پرتصرف کروں ، جوبات اللہ مجھے بتلادے وہ مجھے معلوم ہوجاتی ہے اس کے علاوہ میں غیب کاعلم نہیں جانتاہوں ، میں توتمہاری طرح ایک انسان ہوں ،میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ میں فرشتہ ہوں اورنہ میں اس کاقائل ہوں کہ جن لوگوں کوتمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے توانہیں ایمان کی صورت میں خیرعظیم عطاکررکھاہے ،جس کی بنیادپروہ آخرت میں جنت کی نعمتوں سے لطف اندوزہوں گے ،ان کے باطن کاحال بھی مجھے نہیں بلکہ اللہ ہی کواس کاعلم ہے ،جوان کے انجام کی برائی کوکہے اس نے ظلم کیااورجہالت کی بات کہی،نوح علیہ السلام کواپنی قوم کونصیحت کرتے ہوئے نوسوپچاس(۹۵۰) سال گزر چکے تھے آپ علیہ السلام نے قوم کوہرپہلوسے سمجھایاباربار شرک سے منع کیا،اللہ کی  پکڑاوراس کے عذاب سے ڈرایا مگر گنے چنے لوگوں کے سوا پوری قوم کی آنکھوں پرپردے ہی پڑے رہے ،پوری قوم نے نوح علیہ السلام اور انکی نصیحت کو جھوٹ، فریب، لالچ، دیوانگی اور جنون سمجھ کر پائے حقارت سے ٹھکرادیااورکھلم کھلا اعلان کیاکہ اے نوح علیہ السلام ! تم جھوٹے ہو،ہم توتمہاری رسالت، دعوت اور تمہارے اکیلے رب پر ایمان لانے والے نہیں ،

وَالْبَلَاءُ مُوَكَّلٌ بِالْمَنْطِقِ

اور مصیبت انسان کی گفتگوسے آتی ہے۔

چنانچہ قوم نے کہا اے نوح علیہ السلام !تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا،اگرتم باتیں بنانے کے علاوہ کچھ کر سکتے ہوتو جس عذاب سے ہمیں ڈراتے آئے ہو توپھر لے آؤ وہ دردناک عذاب،نوح علیہ السلام نے جواب دیا میں تو رب العالمین کا رسول ہوں ،میرے اختیار میں کچھ نہیں ، میراکام اس کے پیغامات اور احکامات پوری امانت ودیانت سے تم تک پہنچادیناہے ، یہ تواللہ کی مشیت پرموقوف ہے کہ عذاب بھیجا جائے یا نہیں یاکب بھیجاجائے، مگریہ جان لوکہ اگر اس قادرمطلق نے عذاب نازل کردیاتو تم اسے روک نہیں سکو گے بلکہ اس میں پس کر رہ جاؤگے، اب جبکہ تم نے خودہی رب کے عذاب کا پوری ڈھٹائی وغرور سے مطالبہ کردیاہے تو اب تمہاری ضدوہٹ دھرمی اور عذاب کاچیلنج دینے کے بعد اگر میرے رب نے تمہارے خلاف فیصلہ کر لیاہو کہ ا ب تم لوگ اسکی رحمت کے مستحق نہیں رہے تو اب میں تمہارے لئے خیرخواہی کرنا بھی چاہوں تو لاحاصل ہے کیونکہ کوئی اس کے فیصلے کونہیں روک یا ٹال نہیں سکتا ، وہی تمہارا رب ہے اور تمام جن وانس کو اعمال کی جوابدہی کے لئے اس کی بارگاہ میں حاضرہونا ہے،مشرکین نے اعتراض کیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کے قصے ہم پرچسپاں کرنے کے لئے گھڑاکرتاہے ،چنانچہ سلسلہ کلام کوتوڑکراعتراض کاجواب دیاکہ اے نبی!یہ کفارومشرکین تم پربہتان لگاتے ہیں کہ یہ قرآن تم نے خودگھڑکراللہ کی طرف منسوب کردیاہے ؟ان سے کہواگرمیں نے یہ عظیم الشان کلام خود گھڑکراللہ کی طرف منسوب کردیاہے تویہ میراجرم ہے اوراس کی سزابھی میں بھگتوں گا، اوردعوت حق ورسالت اورکلام الٰہی کی تکذیب کرکے جوجرم تم کررہے ہواس کاوبال تم پرہی پڑے گامیں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔۔۔[62]

ترجمہ:کوئی شخص کسی کابوجھ نہیں اٹھائے گا۔

‏ وَأُوحِیَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَنْ یُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا یَفْعَلُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ‎﴿٣٧﴾‏وَیَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَأْتِیهِ عَذَابٌ یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُقِیمٌ ‎﴿٣٩﴾(ھود)
’’نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان لائے گا ہی نہیں ، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو، اورایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کراور ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کروہ پانی میں ڈبو دیئے جانے والے ہیں ،وہ (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرے وہ ان کا مذاق اڑاتے، وہ کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو،تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہمیشگی کی سزا اتر آئے۔‘‘

نوح علیہ السلام نے پشت درپشت قوم کے اجتماعی طرزعمل کودیکھ کرنہ صرف یہ اندازہ فرمالیاکہ ان کے اندرقبول حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے بلکہ یہ رائے بھی قائم کرلی کہ آئندہ ان کی نسلوں سے نیک اورایمان دارآدمیوں کے اٹھنے کی توقع نہیں ہے ، توانہوں نے ا پنے رب سے التجاکی ۔

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِ۝۱۱۷ۚۖفَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۱۸ [63]

ترجمہ:نوح علیہ السلام نے دعا کی اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلادیااب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے ۔

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰ [64]

ترجمہ:آخرکار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو چکا اب تو ان سے انتقام لے۔

اب توتجھی سے فریاد والتجا ہے،

وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝۲۷رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۝۲۸ۧ [65]

ترجمہ:اور نوح علیہ السلام نے کہا میرے رب! ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور انکی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا،میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے،اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام پر وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے جن لوگوں کے نصیب میں ایمان کی انمول دولت لکھی تھی وہ حاصل کر چکے اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا ،اس لئے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو ، اب جیسے ہم تمہیں طریقہ ہدایت کریں اس کے مطابق ایک بڑی کشتی تیارکروجس میں ہم تمام مسلم ،مومن بندوں اوربندیوں کو اپنی سنت کے مطابق نجات عطاکریں گے اوراے نوح علیہ السلام !اپنی قوم کوغرق ہوتے دیکھ کر تمہارادل پسیج نہ جائے اور ان مطالبہ عذاب کرنے والوں کے لئے رحمت کی دعا نہ کربیٹھنا اب ہم کسی کافرکومعاف نہیں کریں گے ، کشتی کی تیاری کرنے کاحکم پاکرآپ آبادی سے باہرکسی مقام پرجس جگہ کی نشان دہی کی گئی مادی اسباب لکڑی وغیرہ جمع کرکے اپنے رب کی نگرانی میں کشتی بناتے رہے یہ ایک بظاہر عجیب معاملہ تھااور کفارظاہرسے کس قدر دھوکا کھارہے تھے انہیں نوح علیہ السلام کا خشکی پر کشتی تیارکرناانتہائی مضحکہ خیز لگاچنانچہ انکوہنسی اڑانے کاایک موقعہ ہاتھ آگیا جس پر وہ ہنسی میں لوٹ پوٹ ہوکرکہتے کہ لوگو! لواب نیاکام دیکھو ہمیں سیدھی راہ پرگامزن کرنے والے بڑے میاں سٹھیا ہی گئے ، دیکھو اب یہ خشکی پر کشتی چلائیں گے بھلاکبھی ایسا ہوا بھی ہے کہ خشکی پرکشتی چلے، حالانکہ خود عذاب ربی کامطالبہ کرچکے تھے، نوح علیہ السلام کوکشتی بناتے دیکھ کر ان کے وہم وگمان میں بھی نہ آیاکہ بس اب عذاب آہی جائے گا،نوح علیہ السلام نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں بہت جلد تمہیں خود معلوم ہو جاے گا کہ کس پر وہ عذاب نازل ہوتا ہے جو ٹالے نہ ٹلے گا ، بالآخر کشتی مکمل ہوتے ہی سرکشوں کی مہلت بھی ختم ہوگئی۔

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِیلٌ ‎﴿٤٠﴾‏ ۞ وَقَالَ ارْكَبُوا فِیهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ‎﴿٤١﴾‏ وَهِیَ تَجْرِی بِهِمْ فِی مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِی مَعْزِلٍ یَا بُنَیَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ قَالَ سَآوِی إِلَىٰ جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ ۚ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِینَ ‎﴿٤٣﴾‏(ھود)
’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک مادہ) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑچکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے ، نوح علیہ السلام نے کہا اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے، وہ کشتی انھیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جا رہی تھی اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے لڑکے کو جو ایک کنارے پر تھا پکار کر کہا کہ اے میرے پیارے بچے! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ رہ، اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا ، نوح علیہ السلام نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے والا کوئی نہیں صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا، اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا

فَاَوْحَیْنَآ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ۝۰ۙ فَاسْلُكْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ۝۰ۚ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۝۰ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ۝۲۷ [66]

ترجمہ:پھرجب ہماراحکم آجائے اوروہ تنورابل پڑے توہرقسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑالے کراس میں سوارہوجااوراپنے اہل وعیال کوبھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہوچکاہے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا،یہ اب غرق ہونے والے ہیں ۔

طوفان نوح علیہ السلام کی پہلی ابتدائی نشانی ایک خاص تنورسے ظاہر ہوئی جس کے نیچے سے پانی کاچشمہ پھوٹ پڑا،

وَأَمَّا قَوْلُهُ: {وَفَارَ التَّنُّورُ} فَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: التَّنُّورُ: وَجْهُ الْأَرْضِ، أَیْ: صَارَتِ الْأَرْضُ عُیُونًا تَفُورُ، حَتَّى فَارَ الْمَاءُ مِنَ التَّنَانِیرِ الَّتِی هِیَ مَكَانُ النَّارِ، صَارَتْ تَفُورُ مَاءً، وَهَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ وَعُلَمَاءِ الْخَلَفِ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تنورسے مرادسطع زمین ہے یعنی زمین جوش مارتے ہوئے چشموں کی صورت اختیارکرگئی حتی کہ وہ تنور جو آگ کی جگہ ہوتی ہے وہاں سے بھی پانی پھوٹنے لگا جمہورعلمائے سلف وخلف کایہی قول ہے۔[67]

پھر اللہ کے حکم سے تند و تیز چکردار ہواکے بگولے اپناکام سرانجام دینے لگے( ان ہواؤں کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے شدت کی بارش ہوتی ہے اورسمندرکاپانی جوش میں آجاتاہے) اس طرح آسمان کی کھڑکیاں کھل گئیں اورتیز بارش شروع ہوگئی جوجم کربرسی اور رکنے کانام ہی نہ لیا دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے جہاں چشموں کاکوئی تصورہی نہ تھا زوردار چشمے پھوٹنے لگے، دریاؤں کے سب سوتے پھوٹ پڑے، دجلہ وفرات اپنے کناروں کی بندش سے آزاد ہوگئے آسمان وزمین سے بے قیاس و گمان لگاتار پانی جمع ہوکرپانچ دن تک ایک مخصوص بلندی تک بڑھتا رہاجس سے ہرطرف طوفانی موجیں اچھلنے لگیں ،جیسے فرمایا

فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْهَمِرٍ۝۱۱ۡۖوَّفَجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۝۱۲ۚ [68]

ترجمہ:تب ہم نے موسلادھاربارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اورزمین کوپھاڑکر چشموں میں تبدیل کردیااوریہ ساراپانی اس کام کوپوراکرنے کے لئے مل گیاجومقدرہوچکاتھا۔

حکم ربی کے مطابق نوح علیہ السلام نے اپنے گھروالوں ،اہل مردوعورتیں کوجوتعدادمیں تھوڑے ہی تھے،

فَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: كَانُوا ثَمَانِینَ نَفْسًا مِنْهُمْ نِسَاؤُهُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نوح علیہ السلام پرایمان لانے والے تمام مردوں اورعورتوں کی تعداداسی(۸۰)تھی۔[69]

اور ہرقسم کا ایک ایک جوڑا (یعنی پالتوجانور جیسے گائے بھیڑبکری گھوڑے اونٹ وغیرہ) کشتی میں سوارکرلیاتاکہ نئی زندگی کے آغاز میں کام آسکیں اور جہاں ہم اتاریں فوراً کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے، نوح علیہ السلام نے اپنے والدین اور مسلمانوں سے کہا

وَقَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللهِ مَجْؔــرٖىهَا وَمُرْسٰىهَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۴۱ [70]

ترجمہ:نوح نے کہا سوار ہو جاؤ اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَی الْفُلْكِ فَقُلِ الْـحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِیْنَ۝۲۸وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ۝۲۹   [71]

ترجمہ:پھرجب تواپنے ساتھیوں سمیت کشتی پرسوارہوجائے توکہہ شکرہے اس اللہ کاجس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی،اور کہہ پروردگار! مجھ کو برکت والی جگہ اتاراور تو بہترین جگہ دینے والا ہے ۔

کشتی اللہ کے حکم سے پانی کی سطح پر رواں دواں تھی

قَامَ الْمَاءُ عَلَى رَأْسِ كُلِّ جَبَلٍ خَمْسَةَ عَشَرَ رَأْسًا

اورپانی پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی پندرہ ہاتھ اوپرتھا۔[72]

قَالَ:أَغْرَقَ الْمَاءُ الْجِبَالَ فَوْقَهَا ثَمَانِینَ مِیلًا

اورایک قول کے مطابق اسی(۸۰)میل بلند تھا۔[73]

کہ اچانک نوح علیہ السلام نے دور اپنے بیٹے کوپانی میں ڈبکیاں کھاتے دیکھا جسے موجیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی تھیں جس سے وہ نڈھال ہوا جاتا تھا ، بیٹے کا یہ حال دیکھ کرنوح علیہ السلام برداشت نہ کرسکے اورتڑپ کراسے پکار ااے میرے بیٹے !میرے ساتھ آجااپنی قوم کے حال سے سبق سیکھ، مگر اس حال میں بھی وہ بدبخت اپنے باپ کے ساتھ ملنے کوتیارنہ ہوااورکہنے لگامیں ایک اونچے پہاڑ پرچڑھ کرطوفان باراں سے بچ جاؤں گا،اس کے شرک میں ڈوبے ہوئے ذہن نے اب بھی نہ جاناکہ جس عذاب کاہم نے مطالبہ کیاتھاوہ عذاب تو آچکاہے نوح علیہ السلام نے فرمایا یہ تیری نا عاقبت اندیشی ہے ،یہ تومیرے رب کا وہ عذاب ہے جس کا تم لوگوں نے مطالبہ کیا تھا، اللہ کے مقابلے میں آج کوئی چیز پناہ دینے والی نہیں ،آج توحق وباطل کے فیصلے کادن ہے ،آج توبس جسکو میرارب چاہے گا بچائے گا،اسی اثنا میں وہ ایک موج کی زد میں آگیا اور غرق ہوگیا۔

وَقِیلَ یَا أَرْضُ ابْلَعِی مَاءَكِ وَیَا سَمَاءُ أَقْلِعِی وَغِیضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِیِّ ۖ وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَنَادَىٰ نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِی مِنْ أَهْلِی وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِینَ ‎﴿٤٥﴾‏قَالَ یَا نُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّی أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی أَكُنْ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ قِیلَ یَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَیْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٤٨﴾‏ تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهَا إِلَیْكَ ۖ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿٤٩﴾‏(ھود)
’’فرمادیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کردیا گیا، اور کشتی ’’جودی ‘‘ نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو، نوح علیہ السلام نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہاکہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح! یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقاً علم نہ ہو ،میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے، نوح نے کہا میرے پالنہار! میں تیری ہی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہو اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا تو میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاؤنگا، فر ما دیا گیا کہ اے نوح ! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وہ امتیں ہونگی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا، یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انھیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، اس لیے کہ آپ صبر کرتے رہیے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لیے ہی ہے ۔‘‘

طوفان میں سوائے چالیس یا اسی(۸۰)گھروں کے اہل ایمان کے ساری کی ساری قوم پانی میں ڈوب کر غرق ہوگئی ،ان کے سب معبودجنہیں وہ مشکل کشااورحاجت روا سمجھتے تھے اوران کی خوشنودی کے لئے رسوم عبادات بجالاتے تھے اس برے وقت میں انکی دست گیری کونہ آئےبلکہ ان کے ساتھ وہ بھی فناہوگئے، پھرجب رب نے چاہا اپنی مخلوق آسمان کو حکم دیا بس اب برسنابندکردو اورایساہی حکم اپنی دوسری مخلوق زمین کوبھی دیا کہ اس سارے پانی کو جذب کرلے، دونوں نے فورا ًحکم کی تعمیل کی ،آسمان سے پانی برسنابند ہوگیااور زمین نے ساراپانی جذب کرلیا ،جیسے ہی پانی کم ہوا تیرتی ہوئی کشتی ایک بلند جگہ پر ٹک گئی،

عَنْ مُجَاهِدٍ:{وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِیِّ} [74]قَالَ: الْجُودِیُّ جَبَلٌ بِالْجَزِیرَةِ، تَشَامَخَتِ الْجِبَالُ یَوْمَئِذٍ مِنَ الْغَرَقِ وَتَطَاوَلَتْ، وَتَوَاضَعَ هُوَ لِلَّهِ فَلَمْ یَغْرَقْ، وَأُرْسِیَتْ سَفِینَةُ نُوحٍ عَلَیْهِ

مجاہد رحمہ اللہ آیت ’’اورکشتی جودی نامی پہاڑپرجالگی۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں جودی الجزیرہ کے علاقے کاایک پہاڑہے،اس دن جب دیگرتمام پہاڑاپنے آپ کوغرق ہونے سے بچانے کے لیے اپنی چوٹیوں کوبلنداورلمباکررہے تھےتویہ پہاڑاللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع وانکسارکااظہارکررہاتھااس لیے غرق نہ ہو اوراسی پرنوح علیہ السلام کی کشتی آکرٹھہرگئی۔[75]

وَقَالَ قَتَادَةُ: اسْتَوَتْ عَلَیْهِ شَهْرًا حَتَّى نَزَلَوا مِنْهَا، قَالَ قَتَادَةُ: قَدْ أَبْقَى اللَّهَ سَفِینَةَ نُوحٍ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، عَلَى الجُودی مِنْ أَرْضِ الْجَزِیرَةِ عِبرة وَآیَةً ،حَتَّى رَآهَا أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، وَكَمْ مِنْ سَفِینَةٍ قد كَانَتْ بَعْدَهَا فَهَلَكَتْ، وَصَارَتْ رَمَادًا

اورقتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کشتی اس پہاڑ پر ایک مہینہ ٹھہری رہی حتی کہ پھرلوگ اس سے اترگئے،قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے اس کشتی کونشانی اورعبرت بناکرسرزمین الجزیرہ کے اس جودی پہاڑکی چوٹی پرباقی رکھا حتی کہ ہماری اس امت کے ابتدائی لوگوں نے بھی اس کشتی کودیکھاتھا حالانکہ اس کے صدیوں بعدبننے والی کتنی ہی کشتیاں تباہ وبربادہوکرخاک میں مل گئی تھیں ۔[76]

اورکہہ دیاگیا ظالموں ، سرکشوں ، نافرمانوں اوربداعمالوں کی قوم ہلاک ہوئی،نوح علیہ السلام نے جواپنے بیٹے کوجواس بری طرح ڈوبتے دیکھاتواپنے دل میں قیاس کرکے کہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے رب کی طرف رجوع کیااپنی مانگی ہوئی دعااوررب کے فرمان کوبھول کر درخواست کی اے میرے رب! تیراوعدہ تھاکہ میرے گھروالوں کو توبچالے گا میرابیٹا بھی تومیرے گھرکافرد ہے اسے بچالے بیشک تو جوبھی فیصلہ کرتاہے خالص علم اورکامل انصاف کے ساتھ کرتا ہے اورسچی بات یہی ہے کہ اصل حاکم توتو ہی ہے،حاکم مطلق نے سخت الفاظ میں سرزنش کی ،اے نوح علیہ السلام !میری حکمتیں تونہیں جانتاتم تو ہروقت بذریعہ وحی ہم سے مستفید ہوتے رہتے ہو،ہماری وحی کاانتظارکیا ہوتاتمہیں بتا تو دیا تھا کہ یہ کشتی اہل نجات کے لئے بنائی گئی ہے تمہارا پورا کنبہ نجات یافتہ نہیں بلکہ تمہاری بیوی اور لڑکامیرے عذاب میں گرفتارہوچکے ہیں ،تمہارا یہ سوال تمہارے منصب رسالت ونبوت کے شایان شان نہیں ہے، اگروہ تمہارا بیٹا ہوتاتویقیناً ہم اپناوعدہ پوراکرتے مگر ہم اسے تمہارا بیٹا ہی تسلیم نہیں کرتے، اہل تووہ ہے جس کے اعمال اچھے ہوں جوتمہارا تابع فرمان ہوتا جوتمہیں سچاجان کرتمہاری دعوت کو قبول تسلیم کرتا اورنااہل وہ ہے جس کے اعمال اچھے نہیں جو اپنے باپ ہی کوجھوٹاجانتاہے لہٰذا تمہاری اسکی پرورش کی محنت مشقت ضائع ہوگئی،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: هُوَ ابْنُهُ غَیْرَ أَنَّهُ خَالَفَهُ فِی الْعَمَلِ وَالنِّیَّةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ بیٹاتونوح علیہ السلام ہی کاتھامگراس نے اپنے عمل اورنیت سے باپ کی مخالفت کی لہذااس کے اہل میں سے ہونے کی نفی کردی گئی ۔[77]

ہم نے تمہیں حقیقی علم اورمعرفت کی باتیں بتائی ہوئی ہیں ، جسے تم اپنابیٹا کہتے ہواسکی محبت سے باہر نکل آواورجاہلوں نادانوں بے وقوفوں والی باتیں نہ کرنے لگو،رب کی طرف سے یہ تنبیہ سن کرنوح علیہ السلام فوراً اپنے دل کے زخموں سے بے پرواہ ہوکر اپنے رب کے حضور گڑگڑانے لگے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ۝۰ۭ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۴۷ [78]

ترجمہ:نوح نے فوراً عرض کیا اے میرے رب ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجاؤں گا۔

چنانچہ جب کشتی رک گئی اور پانی زمین میں جذب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے کشتی سے نیچے اترنے کاحکم فرمایااورساکنان کشتی نے دوسری بارامن وسلامتی کے ساتھ اللہ کی زمین پر قدم رکھے ،اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام اور انکے ساتھیوں پر سلامتی اوربرکتیں نازل فرمائیں ،اللہ عالم غیب ہے دلوں کے بھیدجانتاہے فرمادیاکہ تم میں سے کچھ لوگوں کواس دنیا کا سازوسامان مال واسباب اور قوت دیں گے جس میں وہ رب کو بھول کر ان میں مگن ہوجائیں گے اپنی پرانی روش شرک وکفر پر لوٹ جائیں گے اوریہ توبنیادی اصول ہے کہ جواپنے رب کوبھولا وہ تباہ و برباد ہوااور جہنم میں داخل ہوا جومشرکوں سرکشوں نافرمانوں کا ابدی ٹھکانہ ہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ غیب کی خبریں ہیں جوہم تمہاری طرف وحی کررہے ہیں ،اس سے پہلے نہ تم ان کوجانتے تھے اورنہ تمہاری قوم،پس جو مصائب وشدائدتم پربیت رہے ہیں ،جن مشکلات میں تم گرفتارہواس پرصبرکرواورہمت واستقلال کے ساتھ اپنی دعوت جاری رکھوجس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کابول بالاہواتھااسی طرح تمہارااورتمہارے اصحاب بھی سربلندرہیں گے،جیسے فرمایا

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙ [79]

ترجمہ:یقین جانوکہ ہم اپنے رسولوں اورایمان لانے والوں کی مدداس دنیاکی زندگی میں بھی لازماًکرتے ہیں اوراس روزبھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۷۱ۚۖاِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳ [80]

ترجمہ: اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناًان کی مددکی جائے گی اورہمارالشکرہی غالب ہوکررہے گا ۔

وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۚ قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ یَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَى الَّذِی فَطَرَنِی ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٥١﴾‏ وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْكُمْ مِدْرَارًا وَیَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِینَ ‎﴿٥٢﴾‏ قَالُوا یَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِی آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِینَ ‎﴿٥٣﴾‏(ھود)
’’ اور قوم عاد کی طرف سے ان کے بھائی ہود کو ہم نے بھیجا، اس نے کہا میری قوم والو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تم صرف بہتان باندھ رہے ہو ،اے میری قوم ! میں تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا اجر اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے ، اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو ،اور اس کی جناب میں توبہ کرو تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت قوت بڑھا دےاور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو، انہوں نے کہا اے ہود ! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں ۔‘‘

اور سرزمین یمن میں وادی احقاف میں آبادمعروف قبیلہ عاد کی طرف ہم نے ان کی قوم کے ایک فرد ہود علیہ السلام کو مبعوث کیااس نے کہااے برادران قوم! اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی واطاعت کرواس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے،تم نے اللہ کی ذات وصفات اوراعمال میں دوسروں کوشریک کرکے اللہ پربہتان طرازی کررکھی ہے ،تمہارے ان معبودوں کوکسی قسم کی کوئی قدرت واختیارحاصل نہیں ہےاس لئے بندگی وپرستش کابھی ان کوکوئی استحقاق حاصل نہیں ہے ، اے برادران قوم !اس دعوت وتبلیغ اورتذکیرونصیحت پر میں تم سے کوئی مال ودولت،حیثیت ومرتبہ کاخواہشمندنہیں ہوں میرے اس کام کی جزا تو اللہ کے ذمہ ہے جس نے اس عظیم الشان کائنات کواورانسانوں کو پیدا کیا ہے،اوراپنی بحروبرکی چھوٹی بڑی مخلوقات کے لئے آسمان وزمین سے رزق مہیاکرتاہے،اللہ نے تمہیں عقل وفہم عطافرمائی ہے کیا تم اللہ کی نشانیوں پرغوروفکر نہیں کرتے؟اور اے میری قوم کے لوگو!طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکراپنے رب کی بندگی کرواوراپنے گناہوں پر توبہ واستغفارکرو جب تم اس کے بندے بن جاؤگے تو وہ تم پر آسمان سے بکثرت بارش برسائے گاجس سے تمہاری زمینیں سرسبزوشاداب ہوکر سونااگلناشروع کردیں گی ،تمہارے جانورہرابھراچارہ کھاکرفربہ ہوجائیں گے اورخوب دودھ دیں گے ،اس طرح تمہاری موجودہ قوت وطاقت میں مزید اضافہ ہوجائے گا،جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙیُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا۝۱۱ۙوَّیُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا۝۱۲ۭ [81]

ترجمہ: میں نے کہااپنے رب سے معافی مانگوبے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے،وہ تم پرآسمان سے خوب بارشیں برسائے گا،تمہیں مال اوراولادسے نوازے گا،تمہارے لئے باغ پیداکرے گااورتمہارے لئے نہریں جاری کر دیگا ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِیقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوپابندی سے استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہرفکرسے کشادگی ،اورہرتنگی سے راستہ بنادیتاہے اوراس کو ایسی جگہ سے روزی دیتاہے جواس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔[82]

حكم الألبانی : ضعیف ، اس کی سندمیں حکم بن مصعب مجہول راوی ہے ،

تاہم استغفارکی اہمیت وفضیلت قرآن واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس لئے استغفارکی کثرت ہر صاحب تقویٰ کاشیوہ ہے،جیسے فرمایا

 وَمَنْ یَّـتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۝۲ۙوَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۝۳   [83]

ترجمہ: جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گااور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔

اپنی طاقت وقوت کے نشے میں مغرورہوکراللہ کی بندگی سے روگردانی کرکے مجرم نہ بنو ،قوم نے دعوت کوٹھکراتے ہوئے ڈھٹائی سے جواب دیا اے ہود! علیہ السلام تو ہمارے پاس اپنی رسالت کی صداقت میں کوئی واضح دلیل لیکر نہیں آیا ہے اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ کر تیری رسالت اوردعوت پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔

إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ ۗ قَالَ إِنِّی أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ مِنْ دُونِهِ ۖ فَكِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِ ‎﴿٥٥﴾‏ إِنِّی تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّی وَرَبِّكُمْ ۚ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّی عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ‎﴿٥٦﴾‏ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَیْكُمْ ۚ وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّی قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَیْئًا ۚ إِنَّ رَبِّی عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ حَفِیظٌ ‎﴿٥٧﴾(ھود)
’’ بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود کے برے جھپٹے میں آگیا ہے، اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم شریک بنا رہے ہو، اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اورمجھے بالکل مہلت بھی نہ دو، میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے، یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے، پس اگر تم روگردانی کرو تو کرو ،میں تمہیں وہ پیغام پہنچا چکا جو دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا، میرا رب تمہارے قائم مقام اور لوگوں کو کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے، یقیناً میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘

تم ہماری دیویوں اوردیوتاؤں کی شان میں توہین اورگستاخی کے مرتکب ہوئے ہواس لئے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے ناراض ہوکر تیری عقل سلب کر کے تجھے جنون لاحق کردیاہے اورتونے ہذیان بولناشروع کردیاہے ، ہود علیہ السلام نے کہا اگرتم اپنے معبودان باطلہ کوچھوڑنے پرتیارنہیں تومیرافیصلہ بھی سن لومیں اللہ کوگواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ اللہ  کے سواجن ہستیوں کو تم نے اللہ کی خدائی میں شریک ٹھہرارکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں ، تمہارایہ عقیدہ کہ انہوں نے میرادماغ ماؤف کردیاہے بالکل غلط ہے ، مافوق الاسباب سے کسی کونفع یانقصان پہنچادینے کی انہیں کوئی قدرت نہیں ہے ،اگرتمہیں میری بات کایقین نہیں ہے توتم اورتمہارے سب معبود ملکرہرممکن طریقے سے مجھے نقصان پہنچانے کی بھرپورکوشش کرلو اور مجھ پرذراترس نہ کھاؤ، میرا بھروسہ اللہ وحدہ لاشریک پر ہے جو میرا معبودحقیقی ہے اور تمہارا بھی ،اسی ذات کے ہاتھ میں ہرچیزکاقبضہ وتصرف ہے ،اگرتم سب مل کرمجھے مصیبت میں مبتلاکرنے کی کوشش کرواوراللہ تعالیٰ تمہیں مجھ پرمسلط نہ کرے توتم اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے ، اوراگروہ تمہیں مجھ پرمسلط کردے تواس میں اس کی کوئی حکمت پنہاں ہے ،بیشک میرا رب جوتمہیں توحیدکی دعوت دے رہاہے یقینا ًیہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اسی پرچل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنارہوسکتے ہواوراس سے انحراف تباہی وبربادی کاباعث ہے ، اگر تم دعوت حقہ سے روگردانی کرتے ہو تو کرلومیں وہ دعوت تمہیں پیش کرچکاہوں جس کے لئے مجھے مبعوث کیاگیاتھااس کے بعدمیری ذمہ داری ختم ہوگئی،اب جبکہ تم حق کی تکذیب کرچکے ہوتو میرا رب تمہیں عبرت کانشانہ بناکراپنی حکمت ومشیت کے تحت دوسری قوم کو کھڑاکرے گاجواس کاحکم مانیں گے اورصرف اس سی کی عبادت کریں گے اور تم اللہ قادرمطلق کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے یقیناًمیرا رب ہر چیز پرنگران ہے وہ مجھے تمہارے مکروفریب اورسازشوں سے محفوظ رکھے گا۔

وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُودًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَنَجَّیْنَاهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِیظٍ ‎﴿٥٨﴾‏ وَتِلْكَ عَادٌ ۖ جَحَدُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ‎﴿٥٩﴾‏ وَأُتْبِعُوا فِی هَٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُوا رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِعَادٍ قَوْمِ هُودٍ ‎﴿٦٠﴾(ھود)
’’ اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ہود کو اور اس کے مسلمان ساتھیوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات عطا فرمائی اور ہم نے ان سب کو سخت عذاب سے بچا لیا ، یہ تھی قوم عاد، جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر ایک سرکش نافرمان کے حکم کی تابعداری کی ،دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی، دیکھ لو قوم عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، ہود کی قوم عاد پر دوری ہو ۔‘‘

آخرقوم عاد نے اللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکرمطالبہ عذاب کردیا،پھرجب ہماراتندوتیزآندھی کاعذاب نازل ہوگیاجوہرچیزکوبوسیدہ کردیتی تھی۔

مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِ۝۴۲ۭ [84]

ترجمہ:جس چیزپربھی وہ گزرگئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔

تواس مشکل گھڑی میں ہم نے اپنے فضل وکرم اوراپنے لطف ورحم سے ہو د علیہ السلام کواوران لوگوں کوجواس کے ساتھ ایمان لائے تھے اس المناک عذاب سے انہیں بچالیا،یہ تھی قوم عاد،جن پران کے ظلم کی پاداش میں یہ عذاب نازل ہوا،جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کوجھٹلایا ،اس کے رسولوں کی تکذیب کی اورحق کاراستہ روکنے کے لئے ہرسرکش دشمن حق کی پیروی کرتے رہے، آخرکاراس دنیامیں بھی ان پرپھٹکارپڑی اورقیامت کے روزبھی وہ ملعون ٹھہریں گے،سنوعادنے اپنے رب سے کفرکیا،سنو!ہود علیہ السلام کی قوم عاد اپنے کفروشرک کی پاداش میں اللہ کی رحمت سے دورپھینک دی گئی۔

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ ۚ إِنَّ رَبِّی قَرِیبٌ مُجِیبٌ ‎﴿٦١﴾‏ قَالُوا یَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَنْ نَعْبُدَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِی شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَیْهِ مُرِیبٍ ‎﴿٦٢﴾‏(ھود)
’’ اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اس نے کہا کہ اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیاہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے، پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو، بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے،انہوں نے کہا اے صالح ! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے، کیا تو ہمیں ان کی عبادت سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے، ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے ۔‘‘

اورتبوک اورمدینہ کے درمیان مدائن صالح (حجر)میں قیام پذیرقوم ثمودکی طرف ان ہی کی قوم وخاندان کے ایک فرد صالح علیہ السلام کومبعوث کیا،انہوں نے بھی نوح علیہ السلام اورہود علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کودعوت توحیدپیش کرتے ہوئے کہااے میری قوم کے لوگو!طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو،اللہ کے سوازمین وآسمان میں تمہاراکوئی معبودحقیقی نہیں ہے،جس نے تمہارے جدامجد آدم علیہ السلام کوزمین کے بے جان مادوں کی ترکیب سے پیداکیاہے اورتمام انسان ان کے صلب سے پیداہوئے ،اسی نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایااورپھیلایااورظاہری وباطنی نعمتوں سے نوازاہے۔

 قُلْ هُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ [85]

ترجمہ:اِن سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

اسی نے تمہیں زمین میں تمکن واقتدارعطاکیاہے،پھراللہ کے سواغیراللہ کوبندگی وپرستش کاحق کیسے حاصل ہوگیالہذاتم اس سے اپنے کفروشرک اوردیگرگناہوں کی بخشش ومغفرت چاہواورخلوص نیت سے اس کی طرف پلٹ آؤ،یقیناًمیرارب تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

 ۔۔۔وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱۶ [86]

ترجمہ:ہم اس کی رگ گردان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔

اوروہ بالاوبرترہونے کے باوجود بغیرکسی واسطہ اوروسیلہ کے ہر پکارنے والے کی پکارکو چاہے وہ اونچی آوازمیں کی گئی ہویادھیمی آوازمیں سننے اوربراہ راست مشکلات کودورکرنے والاہے۔

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌ۝۰ۭ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔۔۔۝۱۸۶ [87]

ترجمہ:اوراے نبی!میرے بندے اگرتم سے میرے متعلق پوچھیں توانہیں بتادوکہ میں ان سے قریب ہی ہوں ، پکارنے والاجب مجھے پکارتاہے میں اس کی پکارسنتا اور جواب دیتاہوں ۔

قوم نے کہااے صالح!اس دعوت سے پہلے توہمارے درمیان اخلاق وکردار،امانت ودیانت ، ہوشمندی،ذکاوت،فراست اورسنجیدگی ومتانت میں ممتازشخص تھا،تمہاری پروقارشخصیت کودیکھ کرہمیں تم سے بڑی توقعات وابستہ تھیں مگرتو ہمارے ظن وگمان کے بالکل خلاف نکلااور توحیدوآخرت اورمکارم اخلاق کانیاراگ چھیڑکرہماری ساری امیدوں کوخاک میں ملادیا ،اورہمیں ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش سے روکنےکی کوشش کرنے لگے جن کی پرستش ہمارے باپ داداکرتے چلے آرہے تھے؟جس طریقے کی طرف تو ہمیں دعوت دے رہاہے اس کے بارے میں ہم کوسخت شبہ ہے،اس دعوت نے ہمارااطمینان قلب رخصت کر رکھاہے۔

قَالَ یَا قَوْمِ أَرَأَیْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَىٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَنْصُرُنِی مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَیْتُهُ ۖ فَمَا تَزِیدُونَنِی غَیْرَ تَخْسِیرٍ ‎﴿٦٣﴾‏ وَیَا قَوْمِ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آیَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِی أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَیَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیبٌ ‎﴿٦٤﴾‏ فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِی دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ ۖ ذَٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوبٍ ‎﴿٦٥﴾‏ فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ ‎﴿٦٦﴾‏ وَأَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ‎﴿٦٧﴾‏ كَأَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا ۗ أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِثَمُودَ ‎﴿٦٨﴾‏(ھود)
’’اس نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو ! ذرا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی مضبوط دلیل پر ہوا اور اس نے مجھے اپنے پاس کی رحمت عطا کی ہو، پھر اگر میں نے اس کی نافرمانی کرلی تو کون ہے جو اس کے مقابلے میں میری مدد کرے ؟ تم تو میرا نقصان ہی بڑھا رہے ہو، اور اے میری قوم والو !یہ اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑ لے گا ،پھر بھی لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے، اس پر صالح نے کہا کہ اچھا تم اپنے گھروں میں تین تین دن تک رہ سہہ لو، یہ وعدہ جھوٹا نہیں ،پھر جب ہمارا فرمان آپہنچا ہم نے صالح کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے اسے بھی بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بھی، یقیناً تیرا رب نہایت توانا اور غالب ہے،اور ظالموں کو بڑے زور کی چنگھاڑ نے آدبوچا، پھر وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے ایسے کہ گویا وہ وہاں کبھی آباد ہی نہ تھے ،آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا، سن لو ان ثمودیوں پر پھٹکار ہے۔‘‘

صالح علیہ السلام نے کہااے برادران قوم!میں نے کبھی طاغوت کی بندگی نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہی اللہ کی ہرسوبکھری نشانیوں کودیکھ کراس پر ایمان ویقین رکھتاتھا،پھراس نے اپنی رحمت سے مجھے منصب رسالت اوروحی سے نواز دیا ، تمہاری خواہش کے مطابق اگرمیں اپنے فرض منصبی سے روگردانی کروں اورتمہیں دعوت حق نہ پہنچاؤں تواللہ کی پکڑسے مجھے کون بچائے گا،اگرمیں ایساکروں توتم مجھے خسارے میں ڈال دینے کے سوا کیافائدہ پہنچاسکتے ہو ،اوراے میری قوم کے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تمہارے مطالبے پراس اونٹنی کو معجزانہ طور پرتمہاری آنکھوں کے سامنے پہاڑ سے برآمدکردیا ہے ،اب اس کنوئیں سے ایک دن صرف یہ اونٹنی پانی پیئے گی اورایک دن تمہارے مویشیوں کی باری مقررہے ،تم پر اس کے چارے وغیرہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اللہ کی زمین میں چرنے کے لئے یہ آزاد ہوگی ،اوریادرکھناکسی برے ارادے سے اس کوہاتھ نہ لگانا ورنہ بہت جلد تم پراللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا،مگر قوم نے اس زبردست معجزے کے باوجودایمان لانے سے گریزکیااوراللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اس اونٹنی کوہلاک کردیا اور اللہ کے عذاب کوللکارا ، جیسے فرمایا

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷۷   [88]

ترجمہ: پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے ، اور صالح سے کہہ دیا کہ لے آوہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے۔

اس پرصالح علیہ السلام نے ان کو خبردارکردیاکہ صرف تین دن اپنے گھروں میں اورعیش وآرام کرلواس کے بعدتم پرعذاب نازل ہوجائے گاجس کوتم نے للکاراہے ،اورکسی غلط فہمی میں نہ رہنا تین دن کے بعد ہر حالت میں عذاب نازل ہو جاے گا ،آخرکارجب عذاب نازل ہونے کی گھڑی آگئی توہم نے اپنی رحمت سے صالح علیہ السلام اورتمام اہل ایمان مردوعورت کواس دردناک عذاب کی رسوائی اورفضیحت سے بچالیایعنی عذاب نازل ہونے سے پہلے ہجرت کاحکم فرمادیا، بیشک تیرارب ہی دراصل طاقتور اور بالادست ہے،اورجن لوگوں نے حق کی تکذیب ،رسالت کاانکاراور اللہ کی نشانی پرظلم کیاتھا ان کوایک زوردارکڑک نے دھرلیا جس سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اس کے ساتھ ہی بھونچال آگیا جس نے سب کچھ تہ وبالاکردیا،اوروہ اپنی بستیوں میں اوندھے منہ بے حس وحرکت پڑے کے پڑے رہ گئے کہ گویاوہ وہاں کبھی آبادہی نہ ہوئے تھے ، جیسے فرمایا:

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۷۸ [89]

ترجمہ:آخرکارایک دہلادینے والی آفت نے انہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

سنو! ثمود نے نمایاں نشان آجانے کے بعد اپنے رب کاانکارکیا ، سنو ! قوم ثمودکوحق کی تکذیب اورطاغوت کی بندگی پراصرارکی پاداش میں اللہ کی رحمت سے دورپھینک دیا گیا۔

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِیذٍ ‎﴿٦٩﴾‏ فَلَمَّا رَأَىٰ أَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ ‎﴿٧٠﴾‏ وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ ‎﴿٧١﴾قَالَتْ یَا وَیْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَٰذَا بَعْلِی شَیْخًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیبٌ ‎﴿٧٢﴾‏ قَالُوا أَتَعْجَبِینَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَیْكُمْ أَهْلَ الْبَیْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ‎﴿٧٣﴾(ھود)‏
’’اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور سلام کہا، انہوں نے بھی جواب میں سلام دیا اور بغیر کسی تاخیر کے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے،اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے ، انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں ،اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی، تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی، وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی ! میرے ہاں اولاد کیسے ہوسکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں ، یہ تو یقیناً بڑی عجیب بات ہے !فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے ؟ تم پر اے اس گھر کے لوگو! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ، بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔‘‘

جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کوان کے اعمال خبیثہ کے باعث صفحہ ہستی سے مٹانے اورابراہیم علیہ السلام کوایک بیٹا اورپوتادینے کافیصلہ فرمایاتوفرشتوں کوقوم لوط سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھیجا ،مک’طرف ہاتھ نہیں بڑھایاتوابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ انسانی شکل وصورت میں فرشتے ہیں مگردل میں خوف محسوس کرنے لگے کہ کہیں آپ کے گھروالوں سے یابستی کے لوگوں سے یاخودسے کوئی ایساقصورتوسرزدنہیں ہوگیاجس کی گرفت کے لئے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں ،جیسے فرمایا

اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا۝۰ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ۝۵۲   [90]

ترجمہ:جب وہ آئے اس کے ہاں اورکہاسلام ہوتم پر ، تو اس نے کہاہمیں تم سے ڈرلگتاہے۔

فرشتوں نے جب ابراہیم علیہ السلام کے چہرے پرخوف کے آثارمحسوس کیے تو کہااے ابراہیم علیہ السلام !ڈرونہیں ،ہمیں توتمہیں بشارت اورقوم لوط پرعذاب کے لئے بھیجاگیاہے ،ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ بھی پریشان ہوکرمہمانوں کے قریب کھڑی ہوئی تھی،مگرجب انہیں معلوم ہوگیاکہ ان کے گھریابستی پر کوئی آفت آنے والی نہیں ہے توان کی جان میں جان آئی اوروہ ہنس دی،بعض اس کی تفسیریوں کرتے ہیں کہ عرب میں جب کوئی شخص کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تویہ سمجھاجاتاتھاکہ وہ شخص مہمان کی حیثیت سے نہیں آیابلکہ کسی برے ارادے سے آیاہے ،اس بناپرجب ان اجنبی مہمانوں نے کھانے میں تامل کیاتوابراہیم علیہ السلام کوان کی نیت پرشبہ ہونے لگااورانہیں گمان ہواکہ یہ کہیں کسی دشمنی کے ارادے سے تونہیں آئے ، فرشتوں نے جب ابراہیم علیہ السلام کے چہرے پرخوف کے آثارمحسوس کیے تو کہااے ابراہیم علیہ السلام ! ڈرونہیں ،ہمیں توقوم لوط پر عذاب کے لئے بھیجاگیاہے ، قوم لوط کی ہلاکت کی خبرنے سارہ کوخوش کردیااوروہ ہنس پڑیں ، پھرفرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام جیساجلیل القدر بیٹا اوران کے بیٹے یعقوب علیہ السلام جیسےعالی شان پیغمبرکی بشارت دی،سارہ ا بانجھ تھیں اس لئے اولادکی نعمت سے محروم تھیں ان کے لئے تویہ ایک عظیم بشارت تھی اس لئے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اظہار تعجب کرتے ہوئے دوعذرکیے ہائے میری کم بختی!کیااب میرے ہاں اولادہوگی جب کہ میں بڑھیاپھونس ہوگئی اورمیرے میاں بھی بوڑھے ہوچکے؟یہ تو بڑی عجیب بات ہے،جیسے فرمایا

فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً۝۰ۭ قَالُوْا لَا تَخَـفْ۝۰ۭ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ۝۲۸فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ۝۲۹ [91]

ترجمہ:پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا، انہوں نے کہا ڈریے نہیں اور اُسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مُژدہ سنایا،یہ سن کراس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اوراس نے اپنامنہ پیٹ لیااورکہنے لگی بوڑھی،بانجھ!۔

ابراہیم علیہ السلام بھی یہ غیرمتوقہ طورپریہ خوشخبری سن کر بڑے حیران ہوئے ،جیسے فرمایا:

قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰٓی اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ۝۵۴    [92]

ترجمہ:ابراہیم علیہ السلام نے کہاکیاتم اس بڑھاپے میں مجھے اولادکی بشارت دیتے ہو؟ذراسوچوتوسہی یہ کیسی بشارت تم مجھے دے رہے ہو؟۔

فرشتوں نے کہا ابراہیم کے گھروالو !یعنی فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو اہل بیت میں شامل کیا ،ایک اورمقام پربھی امہات المومنین کو اہل بیت کہاگیا۔

۔۔۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا۝۳۳ۚ [93]

ترجمہ:اللہ تویہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کودورکر دے اورتمہیں پوری طرح پاک کر دے ۔

اللہ کے قضاوقدرپر تعجب کرتی ہوجبکہ اس کے لئے کوئی چیزمشکل ہے نہ اسے اسباب ووسائل کی ضرورت پیش آتی ہے،تم لوگوں پرتواللہ کی رحمت اوراس کی برکتیں ہیں ،تمہیں اس کی قدرت پرتعجب نہیں کرناچاہیے ،اوریقیناًاللہ اپنے تمام افعال واقوال میں قابل تعریف اوراپنی ذات وصفات میں قابل ستائش وتعظیم ہے۔

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِی لَیْلَى، قَالَ: لَقِیَنِی كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ، فَقَالَ: أَلاَ أُهْدِی لَكَ هَدِیَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَهْدِهَا لِی، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، كَیْفَ الصَّلاَةُ عَلَیْكُمْ أَهْلَ البَیْتِ، فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَیْفَ نُسَلِّمُ عَلَیْكُمْ؟ قَالَ:قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّیْتَ عَلَى إِبْرَاهِیمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ، إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِیمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّكَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہےانہوں نے بیان کیاکہ ایک مرتبہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی توانہوں نے کہاکیوں نہ میں تمہیں (حدیث کا ) ایک تحفہ پہنچادوں جومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا،میں نے عرض کیاجی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرورعنایت فرمایئے، انہوں نے بیان کیاکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ پراورآپ کے اہل بیت پرکس طرح درودبھیجاکریں ؟اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کاطریقہ توہمیں خودہی سکھادیاہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایوں کہاکرواے اللہ!اپنی رحمت نازل فرمامحمد صلی اللہ علیہ وسلم پراورآل محمدپرجیساکہ تونے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پراورآل ابراہیم پر،بے شک توبڑی خوبیوں والااوربزرگی والاہے، اے اللہ!اپنی برکت نازل فرمامحمد صلی اللہ علیہ وسلم پراورآل محمدپرجیساکہ تونے اپنی برکت نازل فرمائی ابراہیم پراورآل ابراہیم پر،بے شک توبڑی خوبیوں والااوربڑی عظمت والاہے۔[94]

فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ‎﴿٧٤﴾‏ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَحَلِیمٌ أَوَّاهٌ مُنِیبٌ ‎﴿٧٥﴾‏ یَا إِبْرَاهِیمُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُودٍ ‎﴿٧٦﴾‏(ھود)
’’جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے، یقیناً ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اللہ کی جانب جھکنے والے تھے،اے ابراہیم ! اس خیال کو چھوڑ دیجئے، آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے اور ان پر نہ ٹالے جانے والا عذاب ضرور آنے والا ہے ۔‘‘

پھرجب ابراہیم علیہ السلام کی گھبراہٹ دورہوگئی اوراولادکی بشارت سے اس کادل خوش ہوگیاتواس نے قوم لوط کے معاملہ میں فرشتوں سے جھگڑاشروع کیا،جیسے فرمایا:

قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا۝۰ۭ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا۝۰۪ۡ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ۝۰ۤۡ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ۝۳۲ [95]

ترجمہ:ابراہیم علیہ السلام نے کہاوہاں تولوط موجودہے ، انہوں نے کہاہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے ،ہم اسے اوراس کی بیوی کے سوا،اس کے باقی سب گھروالوں کوبچالیں گے ،اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی صفات جمیلہ کاذکرکرتے ہوئےفرمایاحقیقت میں ابراہیم علیہ السلام بڑاحلیم اورنرم دل آدمی تھااورہرحال میں ہماری طرف رجوع کرتاتھا، آخرکارہمارے فرشتوں نے اس سے کہااے ابراہیم علیہ السلام !بحث وتکرارکاکوئی فائدہ نہیں ،تمہارا رب فیصلہ کرچکاہے اب دردناک عذاب ان لوگوں کامقدرہوچکاہے جوکسی کے مجادلے سے رکے گانہ کسی کی دعاسے ٹلے گا ۔

وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَٰذَا یَوْمٌ عَصِیبٌ ‎﴿٧٧﴾‏ وَجَاءَهُ قَوْمُهُ یُهْرَعُونَ إِلَیْهِ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوا یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ ۚ قَالَ یَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِی هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِی ضَیْفِی ۖ أَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ ‎﴿٧٨﴾‏ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیدُ ‎﴿٧٩﴾‏ قَالَ لَوْ أَنَّ لِی بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِی إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِیدٍ ‎﴿٨٠﴾(ھود)
’’جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگےاور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے، اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی، لوط علیہ السلام نے کہا اے قوم کے لوگو ! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لیے بہت ہی پاکیزہ ہیں ، اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ، انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے ،اور توہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے، لوط علیہ السلام نے کہا کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا اسرا پکڑ پاتا ۔‘‘

ابراہیم علیہ السلام کوبیٹے اورپوتے کی بشارت سناکرجب ہمارے فرشتے خوبصورت نوعمرنوجوانوں کی شکل میں لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے،کیونکہ لوط علیہ السلام کوعلم نہیں تھاکہ یہ نوجوان اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اس لئے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظرلوط علیہ السلام انکی آمد سے سٹپٹاگیااورسخت خطرہ محسوس کیااور کہنے لگاآج بڑی مصیبت کادن ہے،جب اغلام بازی کے ان مریضوں کوعلم ہواکہ چندخوبرونوجوان لوط علیہ السلام کے گھرآئے ہیں تواسکی قوم کے لوگ بے اختیاراس کے گھر کی طرف دوڑپڑےاوراپنی غلط خواہشات کوپوری کرنے کے لئے انہیں ساتھ لے جانے پراصرارکرنے لگے ،قوم لوط پہلے سے ایسی ہی بدکاریوں کے رسیاتھی،لوط علیہ السلام نے ان سے کہابھائیو!میری قوم کی بیٹیاں موجود ہیں جونکاح کے بعد تمہاری جنسی تسکین کے لئے پاکیزہ ترہیں ،جیسے فرمایا:

 اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۵وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ۝۱۶۶ [96]

ترجمہ:کیا تم دنیا کی مخلوق میں سےمردوں کے پاس جاتے ہو ،اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔

قَالَ ہٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِیْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ۝۷۱ۭلَعَمْرُكَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَكْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۝۷۲ [97]

ترجمہ: لوط علیہ السلام نے( عاجز ہو کر) کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں !تیری جان کی قسم اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت ان پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ{هَؤُلَاءِ بَنَاتِی هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ} قَالَ: لَمْ یَكُنْ بَنَاتُهُ، وَلَكِنْ كُنَّ مِنْ أُمَّتِهِ، وَكُلُّ نَبِیٍّ أَبُو أُمَّتِهِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آپ کی اپنی حقیقی لڑکیاں نہ تھیں بلکہ یہ آپ کی امت کی لڑکیاں تھیں اورہرنبی اپنی اپنی امت کاباپ ہوتا ہے۔[98]

کچھ اللہ کا خوف کرواورمیرے مہمانوں کے ساتھ زیادتی اورزبردستی کرکے مجھے رسوانہ کروکیاتم میں کوئی سمجھدارآدمی نہیں ہے ، مگر سرکشوں نے ایک جائز اورفطری طریقے کوردکردیااور جواب دیااے لوط! تجھ کو معلوم ہی ہے کہ تیری قوم کی بیٹیوں سے ہمیں کوئی رغبت نہیں ہے اورتویہ بھی جانتا ہے کہ ہم صرف مردوں کے ساتھ بدکاری کرناچاہتے ہیں اور کہاتم اپنے کام سے کام رکھواور دنیاکے ٹھیکے دارمت بنو،

قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَــنْهَكَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۝۷۰    [99]

ترجمہ:وہ بولے کیاہم باربارتمہیں منع نہیں کرچکے ہیں کہ دنیابھرکے ٹھیکے دارنہ بنو۔

لوط علیہ السلام نے نہایت بے بسی کے عالم میں آرزو کی کہ کاش میرے اپنے پاس کوئی طاقت ہوتی یاکسی خاندان اورقبیلے کی پناہ اورمددمجھے حاصل ہوتی توآج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت ورسوائی نہ ہوتی،میں ان بدقماشوں سے نمٹ لیتااورمہمانوں کی حفاظت کرلیتا ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى لُوطٍ إِنْ كَانَ لَیَأْوِی إِلَى رُكْنٍ شَدِیدٍ ،فَمَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ نَبِیًّا إِلَّا فِی ذِرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی رحمت ہولوط علیہ السلام پرکہ وہ زورآورقوم کی پناہ لیناچاہتے تھے ،مراداس سے ذات اللہ تعالیٰ عزوجل ہے،آپ کے بعدجوپیغمبربھیجاگیاوہ اپنے آبائی وطن میں ہی بھیجاگیا۔[100]

قَالُوا یَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَصِلُوا إِلَیْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِیبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ ‎﴿٨١﴾‏فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ ‎﴿٨٢﴾‏ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ ‎﴿٨٣﴾(ھود)
’’اب فرشتوں نے کہا اے لوط ! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو،تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیے، بجز تیری بیوی کے اس لیے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا ،یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں ،پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر زبر کردیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے، تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے ۔‘‘

جب فرشتوں نے لوط علیہ السلام کی بے بسی اورقوم کی سرکشی کامشاہدہ کرلیاتوبولے اے لوط علیہ السلام !گھبرانے اورپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہےہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں تاکہ تیری قوم پرعذاب نازل کریں ، یہ لوگ ہم تک توکیاتجھ تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے بس توکچھ رات رہے اپنے اہل وعیال کولے کرجلدسے جلداس بستی سے نکل جاؤ اور خودان کے پیچھے رہو،اوردیکھوقوم کی آہ وبکااوردھماکوں کی آوازوں کوسن کرتم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کرنہ دیکھے،جیسے فرمایا:

فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْـعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِـــعْ اَدْبَارَهُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ۝۶۵   [101]

ترجمہ:لہذااب تم کچھ رات رہے اپنے گھروالوں کولیکر نکل جاؤاورخودان کے پیچھے پیچھے چلو،تم میں کوئی پلٹ کرنہ دیکھےبس سیدھے چلے جاؤجدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے۔

مگرتیری بیوی ساتھ نہیں جائے گی وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ مبتلائے عذاب ہوگی ،فرشتوں نے لوط علیہ السلام کی مزیدتشفی کے لئے کہا اللہ نے ان پرعذاب نازل کرنے کے لئے صبح کا وقت مقررفرمایاہے اورصبح ہونے ہی والی ہے ،چنانچہ لوط علیہ السلام صبح ہونے سے پہلے پہلے اپنے اہل وعیال کولے کراس بستی سدوم سے ہجرت کرگئے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍ۝۳۴ۙ [102]

ترجمہ:ان کوہم نے اپنے فضل سے رات کے پچھلے پہر بچا کر نکال دیا ۔

جب لوط علیہ السلام اپنے گھروالوں کے ہمراہ بخیروعافیت اس سرزمین سے جو زلزلوں کے اس علاقہ کے انتہائی حساس حصہ پرہے نکل گئے تو صبح کے آثار ہوتے ہی زلزلے کی ہولناک آواز نے انہیں آدبوچا،یہ عظیم زلزلہ زمین کے ایک سونوے میٹر کے فاصلے تک پھٹنے سے پیش آیا جس سے خوابیدہ آتش فشاں ایک ہولناک دھماکے سے پھٹ پڑا اس دھماکہ کے ساتھ ،بجلی،قدرتی گیس ،آتش زدگی، اور پکے ہوئے کنکرپتھر بھی اس تباہی میں شامل تھے جس نے پوری ہی بستی کوالٹ پلٹ کرزیروزبر کردیااس دوران خوابیدہ آتش فشاں سے بے شمارمواد بہہ نکلا، خوفناک زلزلے اورآتش فشاں کے پھٹنے کے دھماکے سے یہ زمین بحیرہ روم سے چارسو میڑ نیچے چلی گئی اورپانی اوپر ابھرآیااورایک جھیل بن گئی جس کی گہرائی چارسو میٹرہے ، اسے بحرمیت،مردار یا بحر لوط کہتے ہیں ، پھران پرنامزد کئے ہوئے پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کاانتہائی خطرناک مینہ برسایا،

عَنْ قَتَادَةَ، وَعِكْرِمَةَ{مُسَوَّمَةً} قَالَا: مُطَوَّقَةً بِهَا نَضْحٌ مِنْ حُمْرَةِ

قتادہ رحمہ اللہ اورعکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وہ پتھرنوکیلے تھے جوقدرے سرخ رنگ کے تھے۔[103]

اور پوری قوم کولوط علیہ السلام کی بیوی سمیت ہلاک کرکے نشان عبرت بنادیاتاکہ رہتی دنیاتک لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ اللہ کے بنیادی قانون عدل وانصاف کوتوڑنے کاانجام کیا ہوتا ہے ، چنانچہ مشرکین مکہ اوردیگرمکذبین کوسوچناچاہیے کہ حق کی تکذیب کی پاداش میں ان کابھی یہ حشرہوسکتاہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ وَجَدْتُمُوهُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ، وَالْمَفْعُولَ بِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے تم پاؤکہ وہ قوم لوط کاساعمل کرتے ہیں توفاعل اورمفعول(دونوں )کوقتل کردو۔[104]

وَإِلَىٰ مَدْیَنَ أَخَاهُمْ شُعَیْبًا ۚ قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَالْمِیزَانَ ۚ إِنِّی أَرَاكُمْ بِخَیْرٍ وَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ ‎﴿٨٤﴾‏ وَیَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ بَقِیَّتُ اللَّهِ خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیظٍ ‎﴿٨٦﴾‏(ھود)
’’ اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو میں تمہیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے،اے میری قوم ! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو ،لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچائو، اللہ تعالیٰ کا حلال کیا ہوا جو بچ رہے تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، میں تم پر کچھ نگہبان (اور دروغہ) نہیں ہوں ۔‘‘

قوم شعیب علیہ السلام :

ابتدابنی اسرائیل کی طرح یہ لوگ مسلمان ہی تھے ،سامی قوم کے پیشہ کی طرح ان کاپیشہ بھی گلہ بانی تھااورغالباًیہ دنیاکی پہلی قوم ہے جوتجارت بھی کرتی تھی جس سے ان کی تمدنی زندگی ترقی یافتہ تھی ،قبائل مدین ایک منظم زندگی رکھتے تھے ،مذہبی رسوم وآداب کی تلقین ومحافظت کے لئے شہرمیں مذہبی عہدہ دار(کاہن ) مقررہوتے تھے ، مگرابراہیم علیہ السلام کے چھ سات سوبرس تک مشرک اوربداخلاق قوموں کے درمیان رہنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ ان کے عقائدمیں مذموم صفات شرک،اور بداخلاقیوں میں بددیانتی ، قتل وغارت ،لوٹ مار وغیرہ دوسری بداخلاقیاں جگہ پاچکی تھیں ،یہ قوم اللہ قادرمطلق کوبھول ابلیس کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بنی ہوئی تھی،اللہ تعالیٰ کی عبادات کوترک کرکے ہرطرح کے شرکیہ اعمال کرنا ،بتوں کی پرستش اوران کی خوشنودی کے لئے قربانیاں کرناان کامذہب بن چکاتھا، ان کے نزدیک تمام قوتوں وطاقتوں کامنبہ اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ ان کے معبود ان باطلہ تھے ، ان کے سب سے بڑے معبودکانام بعل فعورتھا،انہیں قبروں سے دوبارہ زندہ ہوکراللہ رب کائنات کے حضورعدل وانصاف اور حساب کتاب کا کوئی خوف نہ تھا بلکہ زندگی کی چند عارضی سانسوں کوہی سب کچھ سمجھتے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کوبعیدازامکان تصورکرتے، اللہ نے اپنے بے بہاخزانوں سے ان کوبہت مال واسباب سے نوازاہواتھامگر لوٹ ماراورقتل وغارت کرنا مردوں کی زندگی کامعمولی پیشہ تھااس کے باوجوددولت کی حرص وحوس میں یہ لوگ ناپ تول میں کمی بیشی کرتے ،درہم ودینار میں بٹہ لگاتے ،سودکھاتے ،مسافروں کے راستے میں بیٹھ جاتے اورڈرا دھمکا کر ان کامال ومتاع زبردستی چھین لیتےاورمزاحمت پربے گناہ مسافروں کا قتل وغارت کرتے، اس طرح علاقہ میں دہشت گردی،خونریزی پھیلاکربدامنی پھیلاتے، قوم کی اخلاقی حالت اس درجہ پست ہوچکی تھی کہ شرفائے خاندان کی لڑکیاں انسانیت کابدترین نمونہ تھیں اس طرح ا عتقادی اوراخلاقی لحاظ سے یہ قوم تباہ وبرباد ہوچکی تھی مگرپھربھی خودکومدعی ایمان سمجھتے تھے ۔

اللہ تعالیٰ نے حجازوشام کے درمیان معان کے قریب آباد قبیلہ مدین کی طرف انہی کی قوم کے ایک فرد شعیب علیہ السلام کومبعوث کیا،انہوں نے بھی گزشتہ انبیاء کی طرح قوم کودعوت توحیدپیش کی ،اور کہااے میری قوم کے لوگو! اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو، جوتمہاراخالق ،مالک ،رازق اورمشکل کشا ہے ،اس لئے سارے ارباب اقتدار اورتمام الہوں کے سامنے ذلت سے جھکاہواسراٹھاؤ،ان کی عبادات سے منہ موڑکر صرف اللہ وحدہ لاشریک کواپناالٰہ اورصرف رب العالمین کواپنارب قراردو، اس کی حاکمیت اوراس کے اقتداراعلیٰ کوتسلیم کرکے اپنے خالق حقیقی کی طرف رجوع کرو ،اس کے سوازمین وآسمان میں تمہاراکوئی الٰہ نہیں ہے ، اللہ کے سواکوئی بھی عبادت کے لائق اورآقائی وفرمانروائی کامستحق نہیں ،اس لئے یکسوہوکراس کی ہی بندگی اختیارکرواوراعتراف بندگی میں اپنے سراس کے حضورجھکاؤ،صرف اپنی زبان سے آمَنَّاوَصَدَّقْنَا ہی نہ کہوبلکہ اس کی مخلصانہ اطاعت و فرمانبرداری کرو،یہ نہ دیکھوکہ تمہارادل اورتمہاری عقل کیاکہتی ہے ،تمہارے آباؤاجدادکیاکرگئے ہیں ،تمہارے خاندان وبرادری ودوست احباب کی کیامرضی ہے ،تمہارے رسم ورواج ،عقیدے اورخیالات کس رنگ ڈھنگ سے چلے آئے ہیں ، دعوت توحیدکے بعدقوم کی نمایاں اخلاقی خرابی کاذکرکیاکہ اے میری قوم!رزق ،عزت وطاقت ،ناموری اورحکومت سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے ،اللہ  نے اپنے نہ ختم ہونے والے خزانوں سے تمہیں مال ودولت کی فراوانی عطا کرکے خوش حالی دے رکھی ہے مگراس کے باوجود تم اپنی خواہشات نفسی کی بندگی کرکے ناپ تول میں کمی بیشی کے ناجائزاورذلیل طریقے اختیارکرکے لوگوں کاحق مارتے ہو،اس عمل بد کواپنے لئے نقصان دہ سمجھنے کے بجائے یہ سمجھتے ہوکہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے،دولت حاصل کرنے کے لئے تمہارے حرص وہوس کے رکیک جذبات ختم ہونے کانام نہیں لیتے ،دولت کی اس حرص وہوس سے بالآخر تم ہرآرام وراحت سے محروم ہوجاؤگے اورانجام کارمزیدمال ودولت کی خواہشوں کودل میں لئے ہوئے قبروں میں پہنچ جاؤگے اس لئے دل وعمل کی سچائی،دیانت و راست بازی اورمعاملات میں عدل وانصاف اختیار کرو جوہرچیزپرمقدم ہے، اے میری قوم !لوگوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے لینے اوردینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو،ناپ تول میں ڈنڈی مت مارو یہ بدترین خیانت ہے بلکہ اس کے برعکس انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپو اورتولو ، جیسے فرمایا:

وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ۝۱ۙالَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ۝۲ۙوَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ۝۳ۭ [105]

ترجمہ:تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کاحال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورالیتے ہیں اورجب ان کوناپ کریاتول کردیتے ہیں توانہیں گھٹادیتے ہیں ۔

اللہ  نے اس کائنات کی ہرچیزکو انصاف پرکھڑاکیا ہے اس لئے وہ تم کوبھی انصاف کرنے کا حکم دیتاہے اوراسے انصاف کرنے والے لوگ ہی پسندہیں ، تمہاری تجارت ،سیاست ، اور دوسرے دنیاوی معاملات جھوٹ ،بے ایمانی اور بداخلاقی کے بغیربھی چل سکتے اورخوب پھل پھول سکتے ہیں ،اپنے اس خیال بدسے نکل جاؤکہ ایمانداری اختیار کرنے سے تمہارے معاملات زندگی برباد ہو جائیں گے ،ایسا ہرگز ہرگزنہیں بلکہ اس کے برعکس رب تمہارے کاروبار اور معاملات میں برکت ڈالے گااورانہیں خوب ترقی دے گا ، اس لئے اللہ کی زمین میں نافرمانی سے بچواور تباہی وبربادی کے اس راستہ کوترک کردو،لوگوں کاحق مارکرنفع اٹھانے سے اللہ کادیاہوانفع تمہارے لئے حلال وطیب اور خیروبرکت کاباعث ہے، میں نے اللہ کے حکم سے تمہیں متنبہ کردیاہے ،اس پاکیزہ دعوت کوقبول کرنایانہ کرناتمہارے اختیارمیں ہے ، میں تمہارے اعمال کا نگران نہیں ہوں کہ زبردستی تمہیں منواؤں ۔

قَالُوا یَا شُعَیْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِی أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیدُ ‎﴿٨٧﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ أَرَأَیْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَىٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَرَزَقَنِی مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَیْهِ أُنِیبُ ‎﴿٨٨﴾‏وَیَا قَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِی أَنْ یُصِیبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِیدٍ ‎﴿٨٩﴾‏ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْهِ ۚ إِنَّ رَبِّی رَحِیمٌ وَدُودٌ ‎﴿٩٠﴾‏(ھود)
’’ انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب ! کیا تیری صلاة تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے ،کہا اے میری قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لیے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے، میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہارے خلاف کرکے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں ،میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے، میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ،اور اے میری قوم (کے لوگو ! ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں ، اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں ، تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے۔‘‘

دین ذاتی معاملہ نہیں

قوم شعیب کواپنے نبی سے یہ گلہ تھاکہ اس کی تعلیم مسجدتک محدودکیوں نہیں ،یہ نمازان کی پوری زندگی اوراس کے رسم ورواج پراثراندازکیوں ہورہی ہے ؟نمازاورنمازپڑھنے پڑھانے والوں کوکیوں لگام نہیں دی جاتی کہ وہ اپنادائرہ کاراورحلقہ اثرمسجدتک محدودرکھیں اوراپنی سرگرمیاں ایوان حکومت اورایوان تجارت تک نہ لے کرآئیں ،یہ عجیب نمازہوئی جوروزی کمانے کے طریقوں کومتاثرکرے !آخرنمازکااس بات سے کیاواسطہ کہ ہم اپنے مال کس طرح کمائیں کریں اورکس طرح خرچ کریں ؟مال ہماری ذاتی ملکیت ہے ،کیاانہیں تصرف میں لانے کے لئے بھی اللہ اوراس کے رسول سے پوچھناپڑے گاکہ کس طرح سے تصرف میں لائیں ،اوریہی وہ بنیادی اختلاف ہے جوہمیشہ اہل حق اوراہل باطل کے درمیان وجہ نزاع وقتال بنارہاہے،دورحاضرکی اسلامی حکومتیں بھی یہی کچھ چاہتی ہیں کہ بڑی بڑی مسجدیں ہوں ،بڑے بڑے دینی مدرسے اورجامعات ہوں ،بڑے بڑے دینی کتب خانے اورتبلیغی مراکزہوں اوران میں بڑے جلیل القدرعلماء اورمحققین ہوں ،ان کے خوبصورت جبے،عمامیں اور دستاریں ہوں اور وفادار ملازموں کی طرح ان مسجدوں اورمدرسوں کی چاردیواری میں بیٹھے رہیں ،اگرضرورت پیش آئے توحکومت وقت کے حق میں مناسب بیان اورمحتاط قسم کے فتوے صادر کر دیا کریں ،رہ گیادین کابطورسیاسی،معاشی اورسماجی نظام کے ابھرکے سامنے آجانابنیادپرستی ہے ،یہ ناقابل برداشت ہے ،یہ سیاست ہے،یہ توصرف جاگیرداروں ، وڈیروں ، کارخانہ داروں اورسرمایہ داروں کاپیدائشی اورجدی پشتی حق ہے ،اس میں ملاکاکیاعمل دخل ؟اس میں کتاب وسنت کاکیاکام؟اس میں اللہ اوررسول کا کیا کام؟ حکومت کرناتوایسے لوگوں کاکام ہے جودین کوایک طرف رکھ کرغیرملکی آقاؤں کی آشیربادپراپنی قوم سے وہ سلوک کریں جوبدیسی حکمران دیسی بھیڑوں کے ساتھ کیاکرتے ہیں اورپھراخبارات ،الیکڑانک میڈیا ان کی عبقریت کے گن گائیں ،یہی وہ بات ہے جسے سیکولرازم یالادینیت کہتے ہیں ،لادینیت دین سے انکارکانام نہیں بلکہ دین کودینوی معاملات سے نکال دینے کانام ہے ،چنانچہ قوم نے جواب دیااے شعیب علیہ السلام !کیاتیری عبادت تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں سے دستبردار ہوجائیں جن کی پرستش ہمارے آباؤاجداد کرتے چلے آئے ہیں ؟یایہ کہ ہم اپنے مال میں اپنی منشاکے مطابق تصرف نہ کریں ؟چنانچہ قوم نے بطوراستہزاوحقارت کے ساتھ شعیب علیہ السلام سے کہا ہماری قوم میں بس توہی توایک عالی ظرف اورراستبازآدمی رہ گیاہے!اوررشدوہدایت کے سواتجھ سے کچھ صادرنہیں ہوتا،اوررشدوہدایت کے سواکسی چیزکاحکم نہیں دیتا ، شعیب علیہ السلام نے کہابھائیو! اللہ کی ہرسوبکھری نشانیوں کودیکھ کرمیں اس کی وحدانیت اورربوبیت کاقائل تھااورپھراس نے مجھے منصب رسالت سے سرفرازفرمایاتواس کے بعدمیں تمہاری گمراہیوں اورحرام خوریوں میں تمہاراشریک حال کیسے ہوسکتاہوں ؟اورتم کبھی نہیں دیکھوگے کہ جن برائیوں سے میں تم کوروکتاہوں خودان کاارتکاب کروں ، میں تو جہاں تک میری طاقت اورمحنت کے ساتھ بس چلے اپنے تمام افعال ،اقوال ،احوال میں تمہاری اصلاح کرناچاہتاہوں اورجوکچھ میں کرناچاہتاہوں اس میں میری کوئی طاقت نہیں بلکہ اس کاتمام تر انحصاررب کی توفیق پرہےاوروہی ہوگا جووہ چاہے گا ،تدبیربھی وہی کرتاہے اورحکم بھی اس کا چلتاہے ، سب مخلوق اس کے حکم کے آگے بے بس اور لاچار ہے،میں اپنے تمام امورومعاملات میں اس پرہی بھروسہ کرتا اور اسی سے امید رکھتاہوں ،اے میری قوم !پہلی قوموں کی طرح مجھ سے مخالفت میں اورجوکچھ میں لایا ہوں اس سے بغض رکھ کراپنی جہالت وضلالت پر ڈٹ کراسے مٹانے پر کمربستہ نہ ہوجاؤ،حق کودبانے اورباطل کرسربلندکرنے کے درپے نہ ہوجاؤ،رب کی دعوت حق کے ساتھ تمسخرنہ کروکہیں ایسانہ ہوجائے کہ مجھ سے مخالفت برائے مخالفت میں رب کے عذاب ورسوائی میں گرفتارہوجاؤجس طرح قوم نوح علیہ السلام ،قوم ہود علیہ السلام ،اورقوم صالح علیہ السلام نے رب کے مبعوث کئے ہوئے رسولوں کی مخالفت کی ،ان سے تمسخرکیا ، ان کے قتل کے درپے ہوئے اورانجام کار اپنی سرکشی اورکفرکی وجہ سے نیست ونابودہوگئے،اورتم سے تقریباًچھ سات سوسال قبل قوم لوط علیہ السلام کاانجام جنہوں نے رب کے رسول کی تکذیب کی اوراپنے اعمال بدپرقائم رہےتم اچھی طرح جانتے ہو، اس قوم کی تباہ وبربادشدہ بستیوں کے آثار محل ومکان کے اعتبارسے تم سے دورنہیں ہیں ، ان کی بستیوں کی تباہی وویرانی دیکھ کر تم ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے،طاغوت کی بندگی واطاعت سے تائب ہوکراپنے معبودحقیقی سے بخشش ومغفرت چاہو اوریکسوہوکراس کی طرف پلٹ آؤ ، اگراپنے افعال پرنادم ہوکراس کی طرف پلٹوگے تواس کے دامن رحمت کواپنے لئے وسیع پاؤگے بیشک وہ اپنی مخلوق سے بے پایاں محبت رکھتاہے،

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَیْفَ تَقُولُونَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْهُ رَاحِلَتُهُ، تَجُرُّ زِمَامَهَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَیْسَ بِهَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ، وَعَلَیْهَا لَهُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَهَا حَتَّى شَقَّ عَلَیْهِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُهَا، فَوَجَدَهَا مُتَعَلِّقَةً بِهِ؟ قُلْنَا: شَدِیدًا، یَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا وَاللهِ لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ، مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِهِ

براء بن عاز ب رضی اللہ عنہ سے منقول ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اس شخص کے بارے میں کیاکہتے ہوجس کااونٹ ایک بے آب وگیاہ صحر میں جہاں نہ کھانا ہو اور نہ پینے کوپانی اوراس شخص کاکھانااورپانی اسی اونٹ پرلداہواہو اوروہ اپنی نکیل کھینچتاہوابھاگ جائے ،اوروہ شخص اس کوڈوھنڈڈوھنڈکرمایوس ہوچکاہوآخروہ اونٹ ایک درخت کی جڑپر گزرے اوراس کی نکیل اس جڑسے اٹک جائے پھروہ شخص اس اونٹ کواس درخت سے اٹکاہواپائے؟ ہم لوگوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس شخص کوبہت خوشی ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخبردارہوجاؤالبتہ اللہ کی قسم !اللہ کواپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔[106]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: قَدِمَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبْیٌ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْیِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْیَهَا تَسْقِی، إِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبْیِ أَخَذَتْهُ، فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتُرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِی النَّارِ قُلْنَا: لاَ، وَهِیَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لاَ تَطْرَحَهُ، فَقَالَ:لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا

ایک دوسری مثال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جنگی قیدی آئے ،قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھااوروہ دوڑرہی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملااس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگالیااوراس کودودھ پلانے لگی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کایہ حال دیکھ کرہم لوگوں سے پوچھاکیاتم لوگ یہ توقع کرسکتے ہوکہ یہ ماں اپنے بچے کوخوداپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟ہم نے عرض کیاہرگزنہیں ،جب تک اس کوقدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کوآگ میں نہیں پھینک سکتی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایااللہ اپنے بندوں پراس سے بھی زیادہ رحم کرنے والاہے جتنایہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے۔[107]

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَصَبِیٌّ فِی الطَّرِیقِ، فَلَمَّا رَأَتْ أُمُّهُ الْقَوْمَ خَشِیَتْ عَلَى وَلَدِهَا أَنْ یُوطَأَ، فَأَقْبَلَتْ تَسْعَى وَتَقُولُ: ابْنِی ابْنِی وَسَعَتْ فَأَخَذَتْهُ، فَقَالَ الْقَوْمُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُلْقِیَ ابْنَهَا فِی النَّارِ. قَالَ: فَخَفَّضَهُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: وَلَاءُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا یُلْقِی حَبِیبَهُ فِی النَّارِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ جارہے تھے ،راستہ میں ایک چھوٹابچہ تھاجب اس بچے کی ماں نے لوگوں کو دیکھا تو اسے اندیشہ لاحق ہواکہ کہیں اس کابچہ روندنہ دیاجائے ،وہ میرا بیٹا میرا بیٹا کہتی ہوئی دوڑی اوراپنے بچہ کواٹھالیا،یہ دیکھ کرصحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ممکن نہیں کہ یہ عورت اپنے بیٹے کوآگ میں ڈال دے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مدعاسمجھتے ہوئےفرمایانہیں واللہ!اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کوآگ میں نہیں ڈالے گا ۔[108]

اگرکوئی بندہ پرورد گار کے حضور حاضر ہوجائے اوراپنی لغزشوں ،عظیم گناہوں کی معافی مانگ لے تو وہ حیل وحجت نہیں کرتاکہ پہلے ایساکام کیوں کیاتھابلکہ ایسے لوگوں کو معاف کردیناپسندکرتاہے ،ہاں اگرکوئی حدسے ہی گزرجائے اوراللہ کی زمین میں فساد پھیلانے سے بازنہ آئے توتب وہ بادل ناخواستہ سزادیتاہے،پھراس کی پکڑ بڑی ہی شدید ہوتی ہے ۔

قَالُوا یَا شُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِینَا ضَعِیفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ ‎﴿٩١﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ أَرَهْطِی أَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِیًّا ۖ إِنَّ رَبِّی بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِیطٌ ‎﴿٩٢﴾‏ وَیَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّی عَامِلٌ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَأْتِیهِ عَذَابٌ یُخْزِیهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ۖ وَارْتَقِبُوا إِنِّی مَعَكُمْ رَقِیبٌ ‎﴿٩٣﴾(ھود)
’’انہوں نے کہا اے شعیب ! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں ،اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے، انہوں نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو ! کیا تمہارے نزدیک میرے قبیلے کے لوگ اللہ سے بھی زیادہ ذی عزت ہیں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے یقیناً میرا رب جو کچھ تم کر رہے ہو سب کو گھیرے ہوئے ہے، اے میری قوم کے لوگو ! اب تم اپنی جگہ عمل کیےجاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں ، تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کے پاس وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے، اور کون ہے جو جھوٹا ہے، تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔‘‘

یہ سچ ہے مشرک ہمیشہ ہی کم عقل ہوتاہے اگراسے عقل وشعور ہوتاتواپنے رب کی ہرسوبکھری نشانیوں کودیکھ کراور اس کی قدرتوں سے نہ پہچان لیتا،قوم کے لوگ جو اخلاقی لحاظ سے پست ترین درجے پراوراپنی خباثت کی انتہا کوپہنچے ہوئے تھے،وہ اپنے تعصبات ،اپنے نفس کی بندگی اورگمراہ سوچ پرشدت سے جم چکے تھے ان کی سوچ کااندازاس قدربگڑچکاتھاکہ شعیب علیہ السلام کی صاف اورسیدھی باتیں ان کی سمجھ میں ہی نہ آتی تھیں ، کہنے لگے اے شعیب علیہ السلام !تیری حقوق اللہ وحقوق العبادکی دعوت ،بعث بعدالموت ، حشرنشر اورجنت اور دوزخ وغیرہ کی باتیں ہماری سمجھ سے بالاترہیں اس لئے ہم توان پرایمان نہیں لائیں گے ،

قَالَ سُفْیَانُ: وَكَانَ یُقَالُ لَهُ خَطِیبُ الْأَنْبِیَاءِ

امام ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں شعیب علیہ السلام اس قدرقادرالکلام تھے کہ آپ کوخطیب الانبیاء کیاجاتاہے۔[109]

اورحقارت سے کہاہم جانتے ہیں کہ تیراشمارمستضعفین میں ہوتا ہے اورتوتن تنہا ہمارے جتھے کامقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ،تم نے ہمارے دینی ودنیاوی معاملات میں جو دخل درمعقولات شروع کررکھاہے وہ ناقابل برداشت ہے اس بنا پرہم توکبھی کاتجھے سنگسارکرچکے ہوتے مگرتیرے قبیلے کی وجہ سے ہاتھ روکے ہوئے ہیں جوقبائلی عصبیت کی وجہ سے تمہارے پیچھے کھڑا ہے ،ورنہ ہم میں تیری کوئی قدرو منزلت ، رفعت وعزت نہیں ،یہ سن کرشعیب علیہ السلام نے کہابھائیو!کیاتم میری قوم وقبیلہ کو اللہ سے زیادہ اہمیت و حیثیت دیتے ہو کہ تمہارے دلوں میں میری برادری کاتوخوف ہے مگراللہ کی کوئی عظمت نہیں جس نے تمہاری رشدو ہدایت کے لئے مجھے منصب نبوت سے نوازاہے اوراس کے حکم کوتم نے پس پشت ڈال دیاہے ،جان رکھوکہ جوکفروشرک اور دوسرے برے اعمال تم کررہے ہووہ اللہ تعالیٰ سے چھپے ہوئے نہیں ہیں ،جب شعیب علیہ السلام نے دیکھاکہ قوم اپنے کفروشرک پرمصرہے اوران کے وعظ ونصیحت کابھی کوئی اثرنہیں ہورہاتوانہوں نے تھک کر کہا اے میری قوم کے لوگو!تم اپنے احوال اوراپنے دین کے مطابق عمل کرتے رہو اور میں اپنے طریقے پرچلتارہوں گابہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گاکہ اللہ کے نزدیک کون جھوٹاہے اور کس پراللہ کی طرف سے رسواکن اورہمیشہ رہنے والا عذاب نازل ہوتاہے ،اب تم بھی اللہ کے فیصلے کا انتظارکروکہ میرے ساتھ کیا ہوتاہے اورمیں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں کہ تم پرکب عذاب نازل ہوتاہے۔

وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ‎﴿٩٤﴾‏ كَأَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا ۗ أَلَا بُعْدًا لِمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ ‎﴿٩٥﴾‏(ھود)
’’جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی ،اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندے پڑے ہوئے ہوگئے، گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، آگاہ رہو مدین کے لیے بھی ویسی ہی دوری ہو جیسی دوری ثمود کو ہوئی۔‘‘

آخرکار قوم کی فطری سرکشی وطغیان نے انہیں رب کی مکمل تکذیب پرآمادہ کرلیااوروہ ہنستے ہوئے کہنے لگے اگرتم اپنی دعوت میں سچے ہوتواپنی صداقت کے ثبوت میں جس آسمانی عذاب کی تم باتیں بناتے ہواس کاکوئی چھوٹاسا ٹکڑاہم پرگر ا کرہمیں فناکے گھاٹ اتاردواورہم جانتے ہیں تم باتیں کرنے کے سواایساہرگزنہیں کرسکتے،جیسے فرمایا

فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۸۷ۭ [110]

ترجمہ:اگرتوسچاہے توہم پرآسمان سے کوئی ٹکڑاگرادے ۔

ہرپیغمبرکی طرح شعیب علیہ السلام نے بھی وہی جواب دیاجوان کے پیشروکہتے چلے آئے تھے کہ جوتدابیراوراعمال تم کرتے پھرتے ہو میرارب اس سے غافل نہیں ،عذاب بھیجنے یانہ بھیجنے کا فیصلہ کرنامیراکام نہیں اورنہ میں ایساکام کرسکتاہوں ،میں توبذات خودکوئی حکم دینے یامنع کرنے کابھی حقدارنہیں یہ تواللہ تعالیٰ کاکام ہے کہ عذاب بھیجاجائے یا نہیں یاکب نازل کیاجائے ،تمہارے مطالبہ عذاب پراگراس نے عذاب کافیصلہ کردیاتو تمہاری ساری طاقتیں نیست ونابودکردی جائیں گی اور تم اپناکچھ بھی دفاع نہیں کر سکوگے اور پھررہتی دنیاتک عبرت کانشان بن کررہ جاوگے، مگریہ سراسر اس کا رحم وکرم ہے کہ وہ سزادینے میں جلدی نہیں کرتابلکہ سوچنے اورسمجھنے کے لئے ڈھیل پرڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اورعمر بھرکی نافرمانیوں کوصرف ایک توبہ پرمعاف کردینے کوتیاررہتاہے ، آخرکارجب ہمارے عذاب نازل ہونے کاوقت آپہنچاتوہم نے اپنی رحمت سے شعیب علیہ السلام اوراس کے مومن ساتھیوں کواس بستی سے ہجرت کرنے کاحکم دے دیااورشعیب علیہ السلام اپنے ساتھیوں سمیت یہ کہتے ہوئے بخیروعافیت بستی سے باہرنکل گئے،جیسے فرمایا

 فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ۝۰ۚ فَكَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۝۹۳ۧ [111]

ترجمہ:اور شعیب علیہ السلام یہ کہہ کران کی بستیوں سے نکل گیاکہ اے برادران قوم! میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچادئے اورتمہاری خیرخواہی کا حق اداکردیاہے اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے۔

جب تم اہل ایمان دیارکفرسے باہرنکل گے تواللہ تعالیٰ نے دونوں قبیلوں کی طرف ان کی مانگ وخواہش وطلب کے نتیجے میں مختلف شکلوں میں عذاب بھیجے، اصحاب الایکہ نے آسمانی عذاب مانگاتھااس لئے اللہ  تعالیٰ نے ان پرآندھی بھیجی جس سے ان کی حرکتیں بندہوگئیں ،ایک بادل بھیج دیااوروہ چھتری کی طرح ان پر چھاکر اس وقت تک آگ برساتارہاجب تک ان کو بالکل تباہ نہ کر دیا اوراصحاب مدین کو ایک زمینی بھونچال کے ساتھ زوردار چنگھاڑنے ان کوآلیاجس کی ہولناکی سے ان کے دل کلیجے پھٹ گئے اورپیغمبرکے خلاف چلتی ہوئی ان کی آوازیں بندہوگئیں ،جیسے فرمایا

 فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۹۱ۚۖۛ [112]

ترجمہ:ایک دہلادینے والی آفت نے ان کوآلیااوروہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۳۷ۡ  [113]

ترجمہ: آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آلیااوروہ اپنے گھروں میں پڑے کے پڑے رہ گئے ۔

انہیں رسول اورمومنوں سے اپنی بدکلامی،دھمکیوں ،رب کے راستے پرچلنے والوں کوروکنے ،ستانے اورناجائزذرائع سے مال ودولت جمع کرنے کا نتیجہ مل گیا،صبح ہوئی توسب لوگ جن کواپنی طاقت وقوت پرفخروغرورتھا، جن کے دل دولت کی حرص وہوس میں بھرتے ہی نہ تھے ،جاہ ومنصب کی وجہ سے جن کی آنکھیں انسان کوانسان نہیں سمجھتی تھیں ،جواپنی آخرت کوبھول چکے تھے ، عذاب کے بعداپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے گویاوہ کبھی وہاں آبادہی نہ تھے ،ان کے اجسام صرف ریت کے ڈھیربن کررہ گئے جن میں کوئی روح وحرکت وحواس نہ تھی ،کوئی بھی چیز جن پران کومان تھاان کے کام نہ آسکی ،کوئی بھی باطل معبود جنہیں وہ رب حقیقی کوچھوڑ کر پکاراکرتے تھے،جن پرانہیں بھروسہ تھا ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے بلکہ ہلاکت وبربادی کے سواانہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا ، ہمیشہ کی طرح حق وباطل کے معرکے میں فتح حق کی ہوئی ،سنو!مدین والے بھی قوم ثمودکی طرح کفروشرک اوردوسری بداعمالیوں کے سبب اللہ کی رحمت سے دورپھینک دیے گئے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآیَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِینٍ ‎﴿٩٦﴾‏ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیدٍ ‎﴿٩٧﴾‏یَقْدُمُ قَوْمَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ ‎﴿٩٨﴾‏ وَأُتْبِعُوا فِی هَٰذِهِ لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ ۚ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ ‎﴿٩٩﴾(ھود)
’’اور یقیناً ہم نے ہی موسیٰ کو اپنی آیات اور روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا تھا فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، پھر بھی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پیروی کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تھا ہی نہیں ، وہ قیامت کے دن اپنی قوم کا پیش رو ہو کر ان سب کو دوزخ میں جا کھڑا کرے گا، وہ بہت ہی برا گھاٹ ہے جس پر لا کھڑے کیے جائیں گے، ان پر اس دنیا میں بھی لعنت چپکا دی گئی اور قیامت کے دن بھی برا انعام ہے جو دیا گیا۔‘‘

اورہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی واضح نشانیوں کے ساتھ جوان کی دعوت کی صداقت پردلالت کرتی تھیں مثلاًعصااوریدبیضااوردیگرمعجزات جن کواللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہرفرمایا اورواضح دلیل کے ساتھ جوسورج کی مانندعیاں تھی سرکش فرعون اوراس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجامگرانہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت توحید کوردکردیااور فرعون کے مسلک،طریقے اوراسلوب کی پیروی کی،حالانکہ فرعون کاحکم سراسرگمراہی اور رشدوہدایت سے دورتھا،کیونکہ فرعون دنیامیں قبطی قوم کاپیش روتھااوروہ اپنی قوم کوضلالت اوربداخلاقی کی طرف دعوت دیتاتھااوروہ اس کی اطاعت کرتے تھے اس لئے روزقیامت بھی وہ اپنی قوم کے آگے ہوگااوراپنی قیادت میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گاجہاں اسے اپنی قوم کے مقابلہ میں دوگناعذاب دیاجائے گا ،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷ رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [114]

ترجمہ: اور کہیں گے اے رب ہمارے !ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بےراہ کر دیا،اے رب ! ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر ۔

کیسی بدترجائے ورودہے یہ جس پرکوئی پہنچے! دنیا میں بھی وہ اللہ کی رحمت سے دورہوکرعذاب کے مستحق بنے اورروزقیامت بھی عذاب جہنم میں مبتلاہوں گے،کیسابراعطیہ ہے یہ جوکسی کوملے۔

ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَىٰ نَقُصُّهُ عَلَیْكَ ۖ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِیدٌ ‎﴿١٠٠﴾‏ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ۖ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِی یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَیْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَمَا زَادُوهُمْ غَیْرَ تَتْبِیبٍ ‎﴿١٠١﴾‏ وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِیَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ ‎﴿١٠٢﴾(ھود)
’’بستیوں کی یہ بعض خبریں جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ان میں سے بعض تو موجود ہیں اور بعض (کی فصلیں ) کٹ گئی ہیں ،ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا، اور انھیں ان کے معبودوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھےجب کہ تیرے پروردگار کا حکم آپہنچا بلکہ اور ان کا نقصان ہی انہوں نے بڑھایا ،تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے، بیشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔‘‘

چندانبیاء اوران کی امتوں کے مختصرواقعات بیان فرماکرفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ چندبستیوں کی عبرتناک سرگزشت ہے جوہم تمہیں سنارہے ہیں تاکہ آپ اس کے ذریعے سے اپنی قوم کوڈرائیں شایدکہ وہ عبرت حاصل کریں ،ان میں سے بعض کے آثار و کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اوربعض بالکل ہی صفحہ ہستی سے معدوم ہوگئیں ہیں اوران کا وجودصرف تاریخ کے صفحات پرباقی رہ گیاہے ،ہم نے مختلف بستیوں پرمختلف قسم کے عذاب نازل کرکے کبھی کسی بستی پرظلم نہیں کیابلکہ ہرقوم نے طاغوت کی بندگی پر اصرار ، دعوت حق کی تکذیب اوررسالت کامذاق اڑاکرخودہی اللہ کے عذاب کوللکارا ،اللہ نے انہیں مہلت پرمہلت دی کہ شایدیہ پلٹ آئیں مگراس مہلت پر وہ اور دلیر ہو گئے ، پھر جب ایک وقت مقررہ پر اللہ کاعذاب ان پر نازل ہوگیاتوان کے وہ معبودجن کی رضاوخوشنودی کے لئے رسوم عبادات بجالاتے تھے ،اللہ کو چھوڑکرجنہیں مشکل کشا،حاجت روااورنفع ونقصان کامالک سمجھتے تھے،جنہیں اپنی پریشانیوں اورمشکلات میں پکاراکرتے تھے ،مشکل کی اس شدیدترین گھڑی میں ان کے کچھ کام نہ آسکے بلکہ فائدہ پہنچانے کے بجائے اپنی پرستش کرنے والوں کوان کی خواہشات کے برعکس ہلاکت وبربادی کے سوا کچھ نہ دیا،اورتیرارب جب کسی ظالم بستی کوپکڑتاہے توپھراس کی پکڑایسی ہی شدید ہوا کرتی ہے،فی الواقع اللہ کی پکڑبڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [115]

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ظالموں کوڈھیل پرڈھیل دیتاہےاورپھرجب ان پرگرفت کرنے پرآتاہے تواچانک دبا لیتاہے اور پھر مہلت نہیں دیتا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ’’اورتیرارب جب کسی ظالم بستی کوپکڑتاہے توپھراس کی پکڑایسی ہی ہواکرتی ہے،فی الواقع اس کی پکڑبڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔‘‘[116]

إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ۚ ذَٰلِكَ یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَٰلِكَ یَوْمٌ مَشْهُودٌ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَعْدُودٍ ‎﴿١٠٤﴾‏ یَوْمَ یَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ ‎﴿١٠٥﴾‏ فَأَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیهَا زَفِیرٌ وَشَهِیقٌ ‎﴿١٠٦﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیدُ ‎﴿١٠٧﴾‏ ۞ وَأَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ ‎﴿١٠٨﴾‏فَلَا تَكُ فِی مِرْیَةٍ مِمَّا یَعْبُدُ هَٰؤُلَاءِ ۚ مَا یَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا یَعْبُدُ آبَاؤُهُمْ مِنْ قَبْلُ ۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِیبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوصٍ ‎﴿١٠٩﴾‏(ھود)
’’یقیناًاس میں ان لوگوں کے لیے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں ،وہ دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے ، اسے ہم ملتوی کرتے ہیں وہ صرف ایک مدت معین تک ہے، جس دن وہ آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات بھی کر لے، سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت، لیکن جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ میں ہوں گے وہاں چیخیں گے چلائیں گے،وہ وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان و زمین برقرار رہیں سوائے اس وقت کے جو تمہارا رب چاہے ،یقیناً تیرا رب جو کچھ چاہے کر گزرتا ہے، لیکن جو نیک بخت کئے گئے وہ جنت میں ہوں گے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین باقی رہےمگر جو تیرا پروردگار چاہے، یہ بےانتہا بخشش ہے ، اس لیے آپ ان چیزوں سے شک و شبہ میں نہ رہیں جنہیں یہ لوگ پوج رہے ہیں ، ان کی پوجا تو اس طرح ہے جس طرح ان کے باپ دادوں کی اس سے پہلے تھی،ہم ان سب کو ان کا پورا پورا حصہ بغیر کسی کمی کے دینے والے ہی ہیں ۔‘‘

تاریخ کے یہ چندواقعات جوبطورعبرت کے لئے بیان کیے گئے ہیں ہراس شخص کے لئے ایک سبق ہے جوروزمحشراللہ کی بارگاہ میں جوابدہی کاخوف رکھتاہے،کیونکہ وہ ان واقعات پرغوروفکرکرے گاکہ وہ کیااعمال تھے جومکذبین کی ذلت ورسوائی کاباعث بنے اوروہ کیااعمال تھے جواہل ایمان کی نجات کاسبب بنے ،آخرت کاوہ ایسا دن ہوگاجس میں سب لوگ اعمال کی جزاکے لئے میدان محشرمیں جمع ہوں گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا۝۴۷ۚ [117]

ترجمہ:اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (گلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا ۔

وَاِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْـضَرُوْنَ۝۳۲ۧ  [118]

ترجمہ:ان سب کو بہرحال اکٹھا کر کے ہمارے حضور حاضر کیا جانا ہے۔

اور سب خلقت کے سامنے حاکم حقیقی کی بارگاہ میں عدل وانصاف کے لئے جوعدالتی کاروائی ہوگی ، قیامت قائم ہونے میں دیرکی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزازل سے ہی اس کے لئے ایک وقت مقررکررکھاہےپھرجب وہ وقت آجائے گاتوایک لمحے کی تاخیرنہیں ہو گی ، میدان محشرمیں تمام آوازیں رب رحمٰن کے سامنے پست ہوں گی ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ہَمْسًا۝۱۰۸ [119]

ترجمہ:اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔

اس پرجلال عدالت میں کسی بڑے سے بڑے انسان اورکسی معززفرشتے کوبھی اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کرنے کی مجال نہ ہوگی ،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا۝۰ۭۤۙ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۝۳۸    [120]

ترجمہ:جس روزروح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، أَخْبَرَهُمَا:قَالَ:وَلاَ یَتَكَلَّمُ یَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا الرُّسُلُ، وَكَلاَمُ الرُّسُلِ یَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس دن انبیاء کے علاوہ کسی کوگفتگوکی ہمت نہ ہوگی، اورانبیاء کی زبان پربھی اس دن صرف یہی ہوگاکہ یااللہ !ہمیں بچالے ، ہمیں بچالے۔[121]

چنانچہ فیصلے کے اس روز کچھ لوگ جنہوں نے رسول کی دعوت قبول کرنے سے انکارکیاہوگاوہ بدبخت ہوں گے اورکچھ لوگوں نے جنہوں نے دعوت حقہ پرلبیک کہاہوگاوہ نیک بخت ہوں گے، جیسے فرمایا

۔۔۔فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۝۷ [122]

ترجمہ: ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةَ {فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ} سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، فَعَلَى مَا نَعْمَلُ؟ عَلَى شَیْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ عَلَى شَیْءٍ لَمْ یُفْرَغْ مِنْهُ؟ قَالَ: بَلْ عَلَى شَیْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ وَجَرَتْ بِهِ الأَقْلاَمُ یَا عُمَرُ، وَلَكِنْ كُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب یہ آیت کریمہ’’سوان میں کوئی بدبخت ہوگااورکوئی نیک بخت۔‘‘ نازل ہوئی توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرہم عمل کیوں کریں ؟کیاعمل ایک ایسی چیزکی وجہ سے کریں جس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے یا ایسی چیزکی وجہ سے جس سے فراغت حاصل نہیں کی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک ایسی چیزکی بنیادپرجس سے فراغت حاصل کرلی ہے اورجس کے ساتھ قلم چل چکے ہیں اے عمر رضی اللہ عنہ !لیکن ہرشخص کے لیے اس کام کوآسان کردیاجائے گا جس کے لیے وہ پیداکیاگیاہے۔[123]

جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے جہاں گرمی اورپیاس کی شدت سے وہ ہانپیں گے اورپھنکارے ماریں گے، اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین وآسمان قائم ہیں ،یعنی اس موجودہ زمین کوآسمان کوبدل کرنئے قوانین کے تحت نئی کائنات بنائی جائے گی جس کو دوام اورہمیشگی حاصل ہوگی جیسے فرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ِ۔۔۔ ۝۴۸ [124]

ترجمہ:ڈراؤانہیں اس دن سے جبکہ زمین اورآسمان بدل کرکچھ سے کچھ کردیے جائیں گے ۔

الایہ کہ تیرارب کچھ اورچاہے،یعنی اہل توحید واہل ایمان گناہ گاروں کواس میں سے نکال لے، جیسے فرمایا:

۔۔۔ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۔۔۔ [125]

ترجمہ:اللہ فرمائے گااچھااب آگ تمہارا ٹھکانا ہے اس میں تم ہمیشہ رہوگے ،اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچاناچاہے گا۔

بے شک اللہ کوہرطرح کااختیارہے کہ وہ جوچاہے کرے،رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے تووہ انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنت میں جائیں گے اوروہاں ہمیشہ رہیں گے،جب تک زمین وآسمان قائم ہیں الایہ کہ تیرارب کچھ اورچاہے،یعنی دیگرجنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے بلکہ ابتداء میں ان کاکچھ عرصہ جہنم میں گزرے گااورپھرانبیاء اوراہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کیا جائے گا ، جیساکہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں ،جن گنہگاروں کوجہنم سے نکال کرجنت میں داخل کیاجائے گا وہ ہمیشہ کے لئے ہوگا اورتمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اوراس کی نعمتوں سے لطف اندوزہوتے رہیں گے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُجَاءُ بِالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، كَأَنَّهُ كَبْشٌ أَمْلَحُ – زَادَ أَبُو كُرَیْبٍ: فَیُوقَفُ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَاتَّفَقَا فِی بَاقِی الْحَدِیثِ – فَیُقَالُ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ وَیَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ: وَیُقَالُ: یَا أَهْلَ النَّارِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قَالَ فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ وَیَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ فَیُؤْمَرُ بِهِ فَیُذْبَحُ، قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، وَیَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِی غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ} [126]وَأَشَارَ بِیَدِهِ إِلَى الدُّنْیَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن موت ایک چت کہرے مینڈھے کی صورت میں لائی جائے گی،ایک آوازدینے والافرشتہ آوازدے گاکہ اے جنت والو!تمام جنتی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں گے، آوازدینے والا فرشتہ پوچھے گاتم اس مینڈھے کوبھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں گے کہ ہاں یہ موت ہے اوران سے ہرشخص اس کاذائقہ چکھ چکاہے، پھرفرشتہ آوازدے گاکہ اے جہنم والو!تمام جہنمی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں گے، آوازدینے والافرشتہ پوچھے گاتم اس مینڈھے کوبھی پہچانتے ہو؟وہ بولیں گے کہ ہاں یہ موت ہے اوران سے ہرشخص اس کاذائقہ چکھ چکاہے، پھراسے ذبح کردیاجائے گا،اورآوازدینے والاکہے گا اے جنتیو!اب تمہارے لئے ہمیشگی ہے ،تم پرکبھی موت نہیں آئے گی اوراے اہل جہنم!تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہناہے تم پربھی موت نہیں ، ’’اور ان لوگوں کو حسرت کی دن سے ڈرائیے جب ہر بات کا فیصلہ ہو جائے گا اور وہ غفلت میں پڑے ہیں ایمان نہیں لاتے۔‘‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے دنیا کی طرف ارشاہ فرما رہے تھے۔[127]

حَدَّثَهُ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، وَأَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یُنَادِی مُنَادٍ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااورمنادی کرنے والامنادی کردے گااے اہل جنت!بے شک تم ہمیشہ تندرست رہوگے اورکبھی بیمارنہیں ہوگے،تم اب ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہوگے اورکبھی نہیں مروگے، تم ہمیشہ ہمیشہ جوان رہوگے اورکبھی بوڑھے نہیں ہوگے، اورتم ہمیشہ ہمیشہ نازونعم میں رہوگے اورکبھی بدحال نہیں ہوگے۔[128]

سیدعرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم کوخطاب کرتے ہوئے عامتہ الناس کوفرمایاکہ کسی مسلمان کواس میں شک میں نہیں رہناچاہیے کہ یہ مشرک جومعبودوں باطلہ کی پرستش کرنے ،ان کی خوشنودی کے لئے رسوم عبادات اداکرنے اور ان کونفع ونقصان کامالک سمجھ کران کو پکارنے میں لگے ہوئے ہیں ،تویہ کسی تجربے یاحقیقی مشاہدے کی بناپرنہیں ہے بلکہ یہ لوگ بغیرکسی دلیل کے محض اپنے آباؤاجدادکی تقلیدمیں ان کی پرستش کیے جارہے ہیں اور روزقیامت ہم ان کے اعمال صلہ کچھ کمی بیشی کے بغیرپوراپورادیں گے،

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِی قَوْلِ اللَّهِ: {وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِیبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوصٍ}[129] قَالَ:مُوَفُّوهُمْ نَصِیبَهُمْ مِنَ الْعَذَابِ غَیْرَ مَنْقُوصٍ

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم آیت کریمہ ’’ہم ان سب کوان کاپوراپوراحصہ بغیرکسی کمی کے دینے والے ہی ہیں ۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں ہم انہیں ان کے عذاب کاحصہ پوراپورادینے والے ہیں ۔[130]

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِی شَكٍّ مِنْهُ مُرِیبٍ ‎﴿١١٠﴾‏ وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ ۚ إِنَّهُ بِمَا یَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿١١١﴾‏ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿١١٢﴾‏ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ ‎﴿١١٣﴾‏ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِینَ ‎﴿١١٤﴾‏ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١١٥﴾(ھود)
’’یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا، اگر پہلے ہی آپ کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ کردیا جاتا ، انھیں تو اس میں سخت شبہ ہے،یقیناً ان میں سے ہر ایک جب ان کے روبرو جائے گا تو آپ کا رب اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا ،بیشک وہ جو کر رہے ہیں ان سے وہ باخبر ہے، پس آپ جمے رہیئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کرچکے ہیں ، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے والا ہے، دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہیں جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے،دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ، یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے،آپ صبر کرتے رہیئے یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پرقرآن مجیدنازل کرنے سے پہلے ہم موسیٰ پربھی تورات نازل کرچکے ہیں اوراس کے بارے میں بھی بنی اسرائیل نے بہت اختلاف کیاتھا،ان میں سے کچھ لوگ اس پرایمان لائے اورکچھ نے تکذیب کی،جس طرح آج آپ پرمنزل کتاب کے بارے میں کیاجارہا ہے ،اس لئے آپ اپنی تکذیب سے بالکل نہ گھبرائیں ،اگرتیرے رب کی حکمت ومشیت سے فیصلہ کرنے اورعذاب کاایک وقت مقررنہ ہوتا توان اختلاف کرنے والوں کو کبھی کاہلاک کر چکا ہوتا ،جیسے فرمایا

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى۝۱۲۹فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَــقُوْلُوْنَ ۔۔۔۝۱۳۰ۭ  [131]

ترجمہ:اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور ان کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا،پس اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کلام الٰہی کی طرف سے شک اورخلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور روزقیامت تیرارب ان کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اوران کو وہی سزاوجزادے گاجس کے وہ مستحق ہوں گے ، یقیناًاللہ ان کے اچھے یابرے سب اعمال سے باخبرہے ، سیدھی راہ پراستقامت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایاپس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم اورتمہارے وہ ساتھی جوکفروبغاوت سے تائب ہوکر ایمان واطاعت کی طرف پلٹ آئے ہیں ، ہمارے حکم کے مطابق ٹھیک ٹھیک راہ راست پرثابت قدم رہواور بندگی کی حدسے تجاوزنہ کروجوکچھ تم کررہے ہواس پرتمہارارب نگاہ رکھتا ہے،اوران ظالموں کے ساتھ نرمی اختیار مت کروورنہ تم بھی ان کے ساتھ نارجہنم کے مستحق ہوجاؤ گے، اوراللہ کے سواتمہیں کوئی ایساولی وسرپرست نہ ملے گاجواللہ سے تمہیں بچاسکے اورنہ کہیں سے تم کو مدد ہی پہنچے گی ،اور دیکھو اللہ کی یادکے لئے نماز قائم کرودن کے دونوں سروں پراورکچھ رات گزرنے پر،بعض نے اس سے مرادصبح اورمغرب،بعض نے صبح اورعصر،بعض نے صرف عشااوربعض نے عشاء اورمغرب دونوں کاوقت مراد لیا ہے ،

وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ تَكُونَ هَذِهِ الْآیَةُ نَزَلَتْ قَبْلَ فَرْضِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ، فَإِنَّهُ إِنَّمَا كَانَ یَجِبُ مِنَ الصَّلَاةِ صَلَاتَانِ صَلَاةٌ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَصَلَاةٌ قَبْلَ غُرُوبِهَا وَفِی أَثْنَاءِ اللَّیْلِ قِیَامٌ عَلَیْهِ وَعَلَى الْأُمَّةِ، ثُمَّ نُسِخَ فِی حَقِّ الْأُمَّةِ، وَثَبَتَ وُجُوبُهُ عَلَیْهِ، ثُمَّ نُسِخَ عَنْهُ أَیْضًا

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ یہ آیت معراج سے قبل نازل ہوئی ہوجس میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں کیونکہ اس سے قبل صرف دوہی نمازیں ضروری تھیں ایک طلوع شمس سے قبل اورایک غروب سے قبل، اوررات کے پچھلے پہرمیں نمازتہجد،پھرنمازتہجدامت سے معاف کردی گئی، پھر اس کاوجوب بقول بعض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کر دیا گیا ۔[132]

درحقیقت نیکیاں برائیوں کودورکردیتی ہیں ،جیسے فرمایا

اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـیِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا۝۳۱ [133]

ترجمہ:اگرتم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیزکرتے رہوجن سے تمہیں منع کیاجارہاہے توتمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کوہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے اورتم کوعزت کی جگہ داخل کریں گے۔

عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَقُولُ: كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدِیثًا نَفَعَنِی اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ یَنْفَعَنِی، وَإِذَا حَدَّثَنِی أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِی صَدَّقْتُهُ، قَالَ: وَحَدَّثَنِی أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ عَبْدٍ یُذْنِبُ ذَنْبًا، فَیُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ: {وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ} [134]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

اسماء بن حکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھ کو اس پر عمل کی توفیق بخشتا جس قدر چاہتااور جب کوئی اور مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا تو میں اس کو قسم دیتا جب وہ قسم کھا لیتا تو مجھے یقین آجاتا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہاان کاکہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھےاور پھر اچھی طرح وضو کرے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھے اور پھر اللہ سے معافی چاہےاور اللہ اپنے بندے کے گناہوں کوبخش نہ دے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ’’ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ۔‘‘[135]

امیرالمومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے لوگوں کواس طرح وضوکرکے دکھایاجس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوفرمایاکرتے تھے،

ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رأیتُ رَسُولَ اللَّهِ یَتَوَضَّأُ وَقَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِی هَذَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ لَا یُحَدِّث فِیْهِمَا نَفْسَهُ،غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

پھرکہامیں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضوکیااورفرمایاجومیرے اس وضوکی طرح وضوکرے پھردورکعتیں اس طرح پڑھے کہ ان میں اپنے نفس سے بات نہ کرے یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھے تواس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔[136]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ نمازیں اورجمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ان کے مابین ہونے والے گناہوں کودور کرنے والے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔[137]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: “ أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ یَغْتَسِلُ فِیهِ كُلَّ یَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ یُبْقِی مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا: لاَ یُبْقِی مِنْ دَرَنِهِ شَیْئًا، قَالَ:فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، یَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَایَا

ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا) اس کے میل کو باقی رکھے گا؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیانہیں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہرگز نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایایہی حال پانچ وقت کی نمازوں کاہے، ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہوں اورخطاؤں کومٹادیتاہے۔[138]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ، فَقَالَ: امْرَأَةٌ جَاءَتْ تُبَایِعُهُ، فَأَدْخَلْتُهَا الدَّوْلَجَ، فَأَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ، فَقَالَ: وَیْحَكَ لَعَلَّهَامُغِیبٌ فِی سَبِیلِ اللَّهِ؟ قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: فَائْتِ أَبَا بَكْرٍ، فَاسْأَلْهُ، قَالَ: فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: لَعَلَّهَا مُغِیبٌ فِی سَبِیلِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُمَرَ، ثُمَّ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ:فَلَعَلَّهَا مُغِیبٌ فِی سَبِیلِ اللَّهِ؟،وَنَزَلَ الْقُرْآنُ: {وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ} [139]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِی خَاصَّةً، أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً؟ فَضَرَبَ عُمَرُ صَدْرَهُ بِیَدِهِ، فَقَالَ: لَا وَلا نَعْمَةَ عَیْنٍ، بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صَدَقَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی کہ ایک عورت کچھ خریدنے کے لیے میرے پاس آئی، میں نے اسے کوٹھڑی میں داخل کرلیا اورمقاربت کے سواسب کچھ کیا،انہوں نے کہا تجھ پر افسوس!شایدیہ ایسی عورت ہوجس کاشوہر جہادکے لیے گھرسے باہرہو، اس نے کہاجی ہاں ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس مسئلے کا حل تم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے معلوم کرو، چنانچہ اس نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کریہ مسئلہ پوچھا، انہوں نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرح یہی فرمایا کہ شاید اس کا شوہر اللہ کے راستہ میں جہاد کی وجہ سے موجود نہ ہوگا، پھراس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکریہ صورت حال بیان کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ شاید اس عورت کا خاوندجہادکے لیے گھرسے باہرہوگا پھراس کے بارے میں یہ مکمل آیت کریمہ’’ دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کیجئے، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں ۔‘‘ نازل ہوگئی،اس آدمی نے پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا قرآن کریم کا یہ حکم خاص طور پر میرے لئے ہے یا سب لوگوں کے لئے یہ عمومی حکم ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا تو اتنا خوش نہ ہو یہ سب لوگوں کے لئے عمومی حکم ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔[140]

یہ ان لوگوں کے لئے ایک یاددہانی ہے جو نمازقائم کرتے ہیں ،اورراہ حق میں جوتکالیف آئیں ان پرصبرکر ،اللہ نیکی کرنے والوں کااجرکبھی ضائع نہیں کرتابلکہ وہ ان کے اچھے اعمال کوقبول فرماتاہے اوران کوان کے اعمال کی بہترین جزاعطافرماتاہے۔

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِیَّةٍ یَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْأَرْضِ إِلَّا قَلِیلًا مِمَّنْ أَنْجَیْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِیهِ وَكَانُوا مُجْرِمِینَ ‎﴿١١٦﴾‏ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ‎﴿١١٧﴾‏وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ ‎﴿١١٨﴾‏ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ‎﴿١١٩﴾‏(ھود)
’’پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خبر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی، ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑگئے جس میں انھیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گناہ گار تھے ، آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں ، اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کردیتا،وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گےبجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے، انھیں تو اس لیے پیدا کیا ہے، اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا ۔‘‘

نیکی کی دعوت دینے والے چندلوگ:

جب اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی ہلاکت کاذکرفرمایاجنہوں نے اپنے رسولوں کوجھٹلایا،نیزیہ کہ ان میں سے اکثروہ لوگ تھے جنہوں نے کتب سماویہ کے ماننے والوں سے انحراف کیاحتی کہ ان لوگوں نے بھی جوکتب الٰہیہ کوماننے والے تھے ،جس کی وجہ سے گزشتہ ادیان انعدام واضمحلال کاشکارہوگئے ،اب تباہ شدہ قوموں کی تباہی کے اصل سبب پرروشنی ڈالی گئی کہ گزشتہ امتوں میں ایسے اصحاب خیرنہیں تھے جواہل شراوراہل منکر کوگمراہی کی تاریکیوں سے روکتے اوربصیرت کی روشنی دکھاتے ،جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ قوموں میں زوال پیداہوگیااور وہ قومیں بالآخراللہ کے غضب کی مستحق ہوئیں ، اوراگر گزشتہ امتوں میں کچھ اہل خیرنکلے بھی تووہ نہایت قلیل التعداد تھےاوران کی آوازاتنی کمزورتھی کہ وہ ظالموں کے شوروغوغا میں گم ہوگئی،مگرایسے اصحاب خیر کوہم اس وقت بچالیاکرتے تھے جب ان کی قوموں پرعذاب نازل ہوتاتھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ میں ایسی جماعت کی موجودگی کاقطعی حکم فرما

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴ [141]

ترجمہ: تم میں کچھ لوگ توایسے ضرورہی ہونے چاہئیں جونیکی کی طرف بلائیں ،بھلائی کا حکم دیں اوربرائیوں سے روکتے رہیں جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اورحدیث میں ہے

عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآیَةَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا یَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُمْ} [142] ، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ لَا یُغَیِّرُونَهُ، أَوْشَكَ أَنْ یَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ

قیس بن ابوحازم سے مروی ہے سیدناابوبکرخطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اوراللہ کی حمدوثناکے بعدفرمایااے لوگو!تم لوگ قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کرتے ہو’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو۔‘‘اورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے کہ لوگ جب برائی کودیکھیں اوراسے نہ بدلیں توقریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کواپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔[143]

ورنہ وہ ظالم اپنے ظلم پرقائم اورجن نعمتوں اورآسائشوں سے متمتع ہورہے تھے انہی میں مست رہے حتیٰ کہ بے خبری میں اللہ کے عذاب نے انہیں آلیااوران کی جڑکاٹ دی ،تیرارب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کوناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ، ہم توعتاب اس وقت نازل کرتے ہیں جب لوگ اپنی جانوں پرخودہی ظلم کرنے لگ جائیں اوران کے خلاف حجت قائم ہوجائے،جیسے فرمایا

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [144]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگااور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے ۔

بے شک تیرارب اگرچاہتاتوتمام انسانوں کو دین اسلام پر مجتمع کرکے انہیں ایک امت بناسکتاتھا،جیسے فرمایا

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِیْعًا۔۔۔۝۹۹ [145]

ترجمہ:اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں ) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے ۔

اس کی مشیت ایساکرنے سے قاصرنہ تھی ،مگراس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ادیان ،اعتقادات ،افکاروآراء میں اختلاف کرتے رہیں ،راہ راست کی مخالفت کریں اورجہنم کی طرف جانے والے راستوں پررواں دواں رہیں اورہرکوئی اپنی رائے کوحق اوردوسرے کے قول کوگمراہی سمجھے ، اوراللہ کی نافرمانیوں اور بداعمالیوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پرتیرے رب کی رحمت ہے،ایسے لوگ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولوں کی اطاعت اورفرمانبرداری میں لگے رہتے ہیں ،پس یہی لوگ ہیں کہ ان کے لئے سعادت کولکھ دیا گیاتھااورعنایت ربانی اورتوفیق الٰہی نے ان کو جا لیا تھا ، یہی لوگ فرقہ ناجیہ سے تعلق رکھتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:افْتَرَقَتِ الْیَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِینَ فِرْقَةً ،وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَةً ( كُلُّهَا فِی النَّارِ إِلَّا فِرْقَةً وَاحِدَةً )( قَالُوا: وَمَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللهِ؟)قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْهِ وَأَصْحَابِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہوداکہترفرقوں میں تقسیم ہوئے،نصاریٰ بہترفرقوں میں تقسیم ہوگئےاوریہ امت تہترفرقوں میں منقسم ہوجائے گیاورایک فرقے کے سوایہ تمام فرقے جہنم رسیدہوں گے،عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون لوگ ہوں گے فرمایاوہ جواس کے مطابق عمل کریں گے جس پرمیرااورمیرے صحابہ کاعمل ہے۔[146]

اس حدیث کے اجزامختلف طرق سے لیے گئے ہیں ۔

رہے دوسرے لوگ توان کوان کے نفسوں کے حوالے کردیاگیا، اسی آزمائش کے لئے تواللہ نے انہیں پیداکیاتھا ، اور اللہ کی تقدیراورقضاء میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جنت کے اورکچھ ایسے ہوں گے جو جہنم کے مستحق ہوں گے،اوراللہ جنت وجہنم کو انسانوں اورجنوں سے بھر دے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اخْتَصَمَتِ الجَنَّةُ وَالنَّارُ إِلَى رَبّهِمَا فَقَالَتِ الجَنَّةُ: یَا رَبِّ، مَا لَهَا لاَ یَدْخُلُهَا إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ ، وَقَالَتِ النَّارُ: یَعْنِی أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِینَ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِی أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِی وَقَالَ لِلنَّارِ: إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِی أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِی، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا فَأَمَّا الجَنَّةُ، فَإِنَّ اللَّهَ لاَ یَظْلِمُ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا وَإِنَّهُ یُنْشِئُ لِلنَّارِ مَنْ یَشَاءُ، فَیُلْقَوْنَ فِیهَا، فَتَقُولُ:هَلْ مِنْ مَزِیدٍ، ثَلاَثًا حَتَّى یَضَعَ فِیهَا قَدَمَهُ فَتَمْتَلِئُ، وَیُرَدُّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ، وَتَقُولُ: قَطْ قَطْ قَطْ،وَعِزَّتِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت اوردوزخ نے اپنے رب کے حضورمیں جھگڑاکیاجنت نے کہااے رب! کیا بات ہے کہ میرے اندروہی لوگ آئیں گے جو کمزوراورمعاشرے کے گرے پڑے لوگ ہوں گے ؟جہنم نے کہا میرے اندرتوبڑے بڑے جبار اورمتکبرقسم کے لوگ ہوں گے،اس پراللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت سے کہا تومیری رحمت کی مظہرہےتیرے ذریعے سے میں جس بندے پرچاہوں اپنارحم کروں گااور جہنم سے فرمایاتو میرے عذاب کی مظہرہے ،تیرے ذریعے سے میں جس بندے کوچاہوں سزا دوں گا،تم میں سے ہرایک بھرنے والی ہے،فرمایاجہاں تک جنت کاتعلق ہے تواللہ اپنی مخلوق میں کسی پرظلم نہیں کرے گا اوردوزخ کی اس طرح سے کہ اللہ اپنی مخلوق میں سے جس کوچاہے گادوزخ کے لئے پیداکرے گاوہ اس میں ڈالی جائے گی،جہنمیوں کی کثرت کے باوجودجہنم نعرہ بلندکرے گی اورکچھ مخلوق ہے(میں ابھی خالی ہوں )تین بارایساہی ہوگایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا پاؤ ں رکھ دے گا،اس وقت وہ بھرجائے گی ،ایک پرایک الٹ کرسمٹ جائے گی اورپکاراٹھے گی ،بس ،بس، بس ،تیری عزت وجلال کی قسم۔ [147]

‏ وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ۚ وَجَاءَكَ فِی هَٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٢٠﴾‏ وَقُلْ لِلَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ ‎﴿١٢١﴾‏ وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ ‎﴿١٢٢﴾‏ وَلِلَّهِ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَیْهِ یُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِ ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿١٢٣﴾‏(ھود)
’’رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لیے بیان فرما رہے ہیں ،آپ کے پاس اس سورت میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت و وعظ ہے مومنوں کے لئے، ایمان نہ لانے والوں سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے طور پر عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل میں مشغول ہیں ، اور تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں ، زمینوں اور آسمانوں کا علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے، پس تجھے اس کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بےخبر نہیں ۔‘‘

اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پیغمبروں کے احوال جو ہم تمہیں سنارہے ہیں اس میں یہ حکمت پنہاں ہے تاکہ اس ذریعے سے ہم تمہارے دل کومضبوط کردیں اورتمہیں کامل سکون واطمینان حاصل ہو جائے،اس سورہ مقدسہ کے ذریعہ تم کو حقیقت کاعلم ملا اور ایمان لانے والوں کونصیحت اوریاددہانی نصیب ہوئی،رہے وہ دشمنان اسلام جودین حق اور رسالت پر ایمان نہیں لاتے،جودلائل قائم ہوجانے کے بعدبھی راہ راست اختیار نہیں کرتے تو ان سے کہہ دوکہ تم اپنے مشرکانہ طریقہ پرکام کرتے رہو اور ہم اپنے اسلامی طریقے پرکیے جاتے ہیں ، ہم پرجوکچھ نازل ہوگاتم اس کا انتظارکرو اورتم پرجوکچھ نازل ہوگا ہم اس کے منتظرہیں ،بہت جلدتمہیں معلوم ہوجائے گاکہ حسن انجام کس کے حصہ میں آتاہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گاکہ ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے ،اللہ علام الغیوب ہے ، آسمانوں اورزمین کی سب مخفی چیزیں اورغیبی امور اس کے علم اور قبضہ قدرت میں ہیں ، اورتمام معاملات اسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں ،پھرایک وقت مقررہ پروہ ہرشخص کے ساتھ اس کی حیثیت واعمال کے مطابق معاملہ کرے گا، پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تواللہ وحدہ لاشریک کی جو رب العالمین ہے،جوجہانوں کاپالنہارہے،جوپکارکوسننے والااورجواب دینے والاہے،جو مالک یوم الدین ہے کی یکسوہوکر بندگی کرتے رہواوراپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسارکھو،کفرواسلام کی اس کشمکش میں دونوں گروہ جوکچھ کررہے ہیں تیرارب اس سے بے خبرنہیں ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ شِبْتَ، قَالَ: شَیَّبَتْنِی هُودٌ، وَالوَاقِعَةُ، وَالمُرْسَلاَتُ، وَعَمَّ یَتَسَاءَلُونَ، وَ {إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ توبوڑھے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسورۂ ھود،سورۂ واقعہ،سورۂ مرسلات، سورۂ نبااورسورۂ تکویرنے مجھے بوڑھاکردیاہے۔[148]

وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍأَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ شِبْتَ، قَالَ: شَیَّبَتْنِی هُودٌ وَأَخَوَاتُهَا

اورعقبہ بن عامرسے مروی ہے ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بوڑھے ہوگئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسورۂ ھوداوراس جیسی دیگرسورتوں نے بوڑھاکردیاہے۔[149]

[1] مسندابی یعلی۱۰۷

[2] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الوَاقِعَةِ ۳۲۹۷

[3] المعجم الکبیرللطبرانی ۱۰۰۹۱

[4] المعجم الکبیرللطبرانی۵۸۰۴

[5] الانبیائ۲۵

[6] النحل۳۶

[7] النحل۹۷

[8] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ أَنْ یَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَتَكَفَّفُوا النَّاسَ۲۷۴۲،صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ ۴۲۰۹

[9] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ ھودباب الاانھم ییثنون صدورھم ۴۶۸۱

[10] الانعام۵۹

[11]الانعام ۳۸

[12] مسنداحمد۱۹۸۷۶

[13] صحیح مسلم کتاب القدر بَابُ حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ ۶۷۴۸ ،جامع ترمذی ابواب القدرباب ۱۳۸۹،ح ۲۱۵۶،شرح السنة للبغوی ۶۷

[14] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ ھودبَابُ قَوْلِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۴۶۸۴،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ الْحَثِّ عَلَى النَّفَقَةِ وَتَبْشِیرِ الْمُنْفِقِ بِالْخَلَفِ۲۳۰۹،شرح السنة للبغوی ۱۶۵۶

[15] المومنون۱۱۵

[16] ص۲۷

[17] الملک۲

[18] الذاریات۵۶

[19] مریم۹۵

[20] الزخرف۸۷

[21] العنکبوت۶۱

[22] الروم۲۷

[23] لقمان۲۸

[24] المعارج۱۹تا۲۷

[25] صحیح ابن حبان ۲۸۹۶،صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ۷۵۰۰،شعب الایمان ۴۱۶۹،المعجم الاوسط ۳۸۴۹

[26] مسنداحمد۸۰۲۷،صحیح بخاری کتاب المرضیبَابُ مَا جَاءَ فِی كَفَّارَةِ المَرَضِ ۵۶۴۱،صحیح مسلم کتاب البر والصلةبَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِیمَا یُصِیبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ یُشَاكُهَا ۶۵۶۸، مسند البزار ۸۷۲۷،مصنف ابن ابی شیبة۱۰۸۰۶

[27] الفرقان۷،۸

[28] الحجر۹۷

[29] بنی اسرائیل ۸۸

[30] الطور۳۴

[31] بنی اسرائیل ۱۸،۱۹

[32] الشوریٰ۲۰

[33] یونس ۷، ۸

[34] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ۲۸۸۷

[35] هود: 15

[36] تفسیرطبری۲۶۳؍۱۵

[37] تفسیر طبری ۲۶۴؍۱۵

[38] البقرة۶۲

[39] النسائ۱۵۰تا۱۵۲

[40] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۶، مسند احمد ۸۲۰۳، شرح السنة للبغوی ۵۶

[41] البقرة۲

[42] السجدة۱،۲

[43] یوسف۱۰۳

[44] الانعام۱۱۶

[45] سبا۲۰

[46] هود: 18

[47] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ۲۴۴۱، مسند احمد ۵۴۳۶،المعجم الاوسط ۳۹۱۵،صحیح ابن حبان ۷۳۵۶

[48] المدثر۴۹تا۵۱

[49] الاحقاف۲۶

[50] الملک۱۰

[51]النحل ۸۸

[52] هود: 102

[53] صحیح بخاری تفسیر سورۂ ھود بَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ ۴۶۸۶،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ ۶۵۸۱، مسندالبزار۳۱۸۳،شعب الایمان۷۰۶۳،مسندابی یعلی۷۳۲۲

[54] البقرة۱۶۶

[55] الاحقاف۵،۶

[56] الحشر۲۰

[57] فاطر۱۹تا۲۴

[58] الزخرف ۲۳

[59] صحیح بخاری کتاب بَدْءِ الوَحْیِ كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ ۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ یَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ۴۶۰۷

[60] الانعام۵۲

[61] الکہف ۲۸

[62] الانعام۱۶۴

[63]الشعرآء ۱۱۷،۱۱۸

[64] القمر ۱۰

[65] نوح ۲۶تا۲۸

[66] المومنون۲۷

[67] تفسیرابن کثیر ۳۲۰؍۴

[68] القمر۱۱،۱۲

[69]تفسیرابن کثیر ۳۲۱؍۴

[70] ھود۴۱

[71] المومنون ۲۸،۲۹

[72] تفسیرابن ابی حاتم۲۰۳۶؍۶

[73] تفسیرابن ابی حاتم۲۰۳۶؍۶

[74] هود: 44

[75] تفسیر طبری ۳۳۷؍۱۵

[76] تفسیرابن کثیر۳۲۳؍۴

[77] تفسیرعبدالرزاق۱۹۰؍۲

[78] ھود۴۷

[79] المومن ۵۱

[80] الصافات ۱۷۱تا۱۷۳

[81]نوح ۱۰تا ۱۲

[82] سنن ابوداودکتاب الوتربَابٌ فِی الِاسْتِغْفَارِ۱۵۱۸،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ الِاسْتِغْفَارِ ۳۸۱۹

[83] الطلاق۲،۳

[84] الزاریات۴۲

[85] الملک۲۴

[86] ق۱۶

[87] البقرة۱۸۶

[88] الاعراف۷۷

[89] الاعراف۷۸

[90]الحجر ۵۲

[91] الذاریات۲۸،۲۹

[92] الحجر۵۴

[93] الاحزاب ۳۳

[94] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ باب ۳۳۷۰،صحیح مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بعْدَ التَّشهُّدِ۹۰۸،سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ التَّشَهُّدِ۹۷۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۹۰۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الوِتْرِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۸۳

[95] العنکبوت۳۲

[96] الشعرائ۱۶۵،۱۶۶

[97] الحجر۷۱،۷۲

[98] تفسیر طبری ۴۲۳؍۱۵

[99] الحجر۷۰

[100] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ یُوسُفَ۳۱۱۶،صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ إِبْرَاهِیمَ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ ۳۳۷۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ زِیَادَةِ طُمَأْنِینَةِ الْقَلْبِ بِتَظَاهُرِ الْأَدِلَّةِ۳۸۲

[101] الحجر۶۵

[102] القمر۳۴

[103] تفسیرطبری ۴۳۸؍۱۵

[104] سنن ابوداودكِتَاب الْحُدُودِ بَابٌ فِیمَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ۴۴۶۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حَدِّ اللُّوطِیِّ۱۴۵۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ ۲۵۶۱،مستدرک حاکم۸۰۴۷،صحیح ابن الجارود۸۲۰

[105] المطففین ۱ تا ۳

[106]صحیح مسلم کتاب التوبة بَابٌ فِی الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا ۶۹۵۹

[107] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ رَحْمَةِ الوَلَدِ وَتَقْبِیلِهِ وَمُعَانَقَتِهِ۵۹۹۹،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بابٌ فِی سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ ۶۹۷۸، المعجم الاوسط ۳۰۱۱،شرح السنة للبغوی ۴۱۸۱

[108] مسند احمد ۱۲۰۱۸

[109] تفسیرطبری۴۵۸؍۱۵

[110]الشعراء ۱۸۷

[111] الاعراف ۹۳

[112] الاعراف۹۱

[113] العنکبوت۳۷

[114] الاحزاب۶۷،۶۸

[115] هود: 102

[116] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ ھودبَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ ۴۶۸۶ ،صحیح مسلم کتاب البروالصلوة بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۱

[117] الکہف۴۷

[118] یٰسین۳۲

[119] طہ۱۰۸

[120] النبا۳۸

[121] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ ۸۰۶ ، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ ۴۵۱،مسنداحمد۷۷۱۷، مسند البزار ۷۷۹۱،صحیح ابن حبان ۷۴۲۹،السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۲۴،مسندابی یعلی ۶۳۶۰،شرح السنة للبغوی ۳۳۴۶

[122] الشوری۷

[123] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ۳۱۱۱

[124] ابراہیم۴۸

[125]الانعام۱۲۸

[126] مریم: 39

[127] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ کھیعص بَابُ قَوْلِهِ وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ۴۷۳۰، صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ ۷۱۸۱

[128] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابٌ فِی دَوَامِ نَعِیمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۷۱۵۷ ،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ ۳۲۴۶

[129] هود: 109

[130] تفسیرابن ابی حاتم ۲۰۸۹؍۶

[131] طہ۱۲۹،۱۳۰

[132] احسن البیان بحوالہ ابن کثیر

[133] النسائ۳۱

[134] آل عمران: 135

[135] سنن ابوداود کتاب الوتربَابٌ فِی الِاسْتِغْفَارِ۱۵۲۱،جامع ترمذی کتاب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عِنْدَ التَّوْبَةِ ۴۰۶، سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی أَنَّ الصَّلَاةَ كَفَّارَةٌ۱۳۹۵

[136] صحیح بخاری كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ الوُضُوءُ ثَلاَثًا ثَلاَثًا۱۵۹،وكِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَالیَابِسِ لِلصَّائِمِ۱۹۳۴،صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابُ صِفَةِ الْوُضُوءِ وَكَمَالِهِ۵۳۸

[137] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَالْجُمُعُةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانِ إِلَى رَمَضَانَ مُكفِّرَاتٌ لِمَا بَیْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ ۵۵۲

[138] صحیح بخاری کتاب المواقیت بَابٌ الصَّلَوَاتُ الخَمْسُ كَفَّارَةٌ ۵۲۸،صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ الْمَشْیِ إِلَى الصَّلَاةِ تُمْحَى بِهِ الْخَطَایَا، وَتُرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتُ۱۵۲۲

[139] هود: 114

[140] مسنداحمد۲۲۰۶

[141] آل عمران۱۰۴

[142] المائدة: 105

[143] مواردالظمان۱۸۳۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۰۵

[144] حم السجدة۴۶

[145] یونس۹۹

[146] صحیح ابن حبان۶۲۴۷،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۰۴۰۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَمُوتُ وَهُوَ یَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ۲۶۴۱

[147] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِیبٌ مِنَ المُحْسِنِینَ ۷۴۴۹، وکتاب تفسیرسورۂ ق بَابُ قَوْلِهِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِیدٍ ۴۸۵۰ ،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ ۷۱۷۳، مسنداحمد۱۳۴۰۲

[148] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الوَاقِعَةِ۳۲۹۷

[149] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۱۱۰۷۳

Related Articles