بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

مضامین سورۂ یونس

اس سورہ میں عقیدہ توحیدربوبیت اوربعثت بعدالموت کوبڑے ہی مدلل اندازسے بیان کیاگیاہے،کلام کے آغازمیں فرمایا کہ لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پرحیران ہیں حالانکہ ہرامت میں کوئی نہ کوئی رسول آتارہاہے،اور اس پاکیزہ پیغام کو ساحری کاالزام دے رہے ہیں حالانکہ جودعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کررہے ہیں اس میں کوئی چیزبھی نہ توعجیب ہی ہے اورنہ سحروکہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے،ہماراپیغمبر تو تمہیں دواہم حقیقتوں سے تم کوآگاہ کررہاہے ایک یہ کہ اللہ نے اس عظیم الشان کائنات کواپنی قدرت کاملہ سے تخلیق کیا ہے اور وہی اکیلااس کانظام چلا رہاہے صرف وہی تمہارامعبودحقیقی ہے اس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے،اس لیے یہ اسی کا حق ہے کہ تم ہرطرف سے منہ موڑکر اس کی بندگی کرواوراسی پر توکل کرو ،دوسرا یہ کہ موجودہ زندگی توبس چندگھڑیاں ہی ہیں ،اپنے ازلی دشمن شیطان کے پنجے میں پھنس کراگراس قیمتی وقت کو اگرتم نے دنیاکی رنگینیوں میں ضائع کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرکے آخروی زندگی میں کامیاب وکامران ہونے کا سامان نہ کیاتواس کے بعدپھرکوئی مہلت نہیں ملے گی ،اس لئے مہلت کی ان چند گھڑیوں کو غنیمت جان کران سے فائدہ اٹھاؤ اورہمیشہ کی زندگی کے لئے تگ ودوکرو ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کاپچھتاؤا تمہارامقدرہوگا، کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں کے انجام بدکو ظاہر کرنے کے لئے نوح علیہ السلام اورموسٰی کی امتوں کے حالات بیان کر کے مشرکین پر واضع کیا گیا کہ یہ بھی ہمارے ایسے ہی پیغمبرہیں جیسے نوح اور موسٰی ہمارے پیغمبر تھے ،اگرتم ان کی رسالت پر ایمان نہ لائے اورہماری نازل کردہ ہدایات کی پیروی نہ کی تو تمہارا انجام بھی ان قوموں جیساہی ہوگا،اورجب ہماراعذاب آ جاتاہے تو پھرنہ توایمان لانامعتبرہوتاہے اور نہ ہی توبہ قبول ہوتی ہے، مسلمانوں کو بھی خوشخبری دی گی کہ عنقریب حالات تبدیل ہوں گے اورپھر تنبیہ کی گئی کہ اللہ نے جو احکامات تم پر نازل کیے ہیں ان میں قیامت تک کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی ،جواسے قبول کرے گا وہ اپناہی بھلا کرے گا اور جواس کوچھوڑکرغلط راہوں پربھٹکے گاوہ اپناہی کچھ بگاڑے گا،اس لئےاقتدار ملنے کے بعداگرتم بھی پہلی امتوں کی طرح بہک گئے توعبرت کے طورپرسابقہ امتوں کے حالات بیان کردیئے گئے ہیں ،ہماراقانون اٹل ہے پھر تمہارا انجام بھی ویسا ہی دردناک ہوگا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الر ۚ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِیمِ ‎﴿١﴾‏ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ یُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِیعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٣﴾‏(یونس)
ا لف۔ لام۔ ر ا،یہ پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں ، کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر و مرتبہ ملے گا، کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے ، بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش قائم ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ،اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں ، ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو ،کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔

ا ل ر،اہل مکہ کلام الٰہی کوجادوکہتے تھے ،انہیں تنبیہ کی گئی کہ یہ جادونہیں بلکہ حکمت ودانش سے لبریز کتاب کی آیات ہیں ،کیالوگوں کے لئے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خودانہی کی قوم کے ایک فرد کوجونسل انسانی سے ہے ،اس کومنصب نبوت ورسالت پرفائزکردیاہے تاکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو جہنم کے المناک عذاب سے متنبہ کردے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کاذکرفرمایاجنہوں نے بشررسول پرتعجب سے کہاتھا:

 ۔۔۔فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا۔۔۔۝۶ [1]

ترجمہ: انہوں نے کہا کیا انسان ہی ہمیں ہدایت دیں گے ؟ ۔

ہود علیہ السلام اورصالح علیہ السلام کی قوم نے جب بشررسول پر حیرت کااظہارکیاتوان کے پیغمبروں نے فرمایاتھا

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ۔۔۔۝۰۝۶۹ [2]

ترجمہ:کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے؟ ۔

پہلی قوموں کی طرح کفاربھی قریش بے شماردیوی دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے ،ہرقبیلہ کااپناہی معبودتھاہرگھرکااپنابت تھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی توانہوں نے بھی بڑی حیرت سے کہاتھا

اَجَعَلَ الْاٰلِـہَةَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [3]

ترجمہ:کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا رَسُولًا أَنْكَرَتِ الْعَرَبُ ذَلِكَ، أَوْ مَنْ أَنْكَرَ مِنْهُمْ، فَقَالُوا: اللَّهُ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ یَكُونَ رَسُولُهُ بَشَرًا مِثْلَ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ}[4]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیاہےجب اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کورسول بناکرمبعوث فرمایاتوتمام یابعض عربوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہاکہ اللہ کی شان اس سے کہیں بلندہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیساکوئی بشراس کارسول ہو،اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ ’’کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی ۔‘‘ نازل فرمائی۔[5]

اور جو صدق دل سے اس پاکیزہ دعوت پرایمان لے آئیں ان کورب کی خوشنودی اور لازوال انواع واقسام کی نعمتوں بھری جنت کی خوشخبری دیدے،اوریہ کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس سچی عزت وسرفرازی ہے؟کیااس کلام کی اثرپذیری کودیکھ کر منکرین پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص توکھلا جادوگرہے،اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت ، الوہیت اورعظمت بیان کرتے ہوئے فرمایابیشک تمہارارب وہی اللہ وحدہ لاشریک ہے جس نے ساتوں آسمانوں اورزمین کوچھ دنوں میں پیداکیا ،

قِیلَ: كَهَذِهِ الْأَیَّامِ،وَقِیلَ: كُلُّ یَوْمٍ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ

ان چھ دنوں کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وہ ہمارے دنیاکے ان دنوں ہی کی طرح تھے اوردوسراقول یہ ہے کہ ان میں سے ہرایک دن ہماری دنیاکے ایک ہزارسال کے برابرتھا۔[6]

اس تخلیق کے بعدوہ کائنات کے تخت حکومت پراپنی عظمت کے لائق جلوہ گرہوا،جیسے فرمایا

 اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ ۔۔۔۝۵۴ [7]

ترجمہ: درحقیقت تمہارارب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کوچھ دنوں میں پیداکیا،پھراپنے تخت سلطنت پرجلوہ فرما ہوا۔

فرمایاکائنات کی تخلیق کے بعدٹھک کروہ سونہیں گیا،کسی نے اسےمعطل نہیں کردیااورنہ ہی اس نے اس عظیم الشان کائنات کو دوسروں کے حوالے کردیاہےکہ وہ جیساچاہیں تصرف کریں بلکہ وہی اکیلاوحدلاشریک ہی اس عظیم الشان کائنات کا انتظام چلارہا ہے، اورتمام قدرتیں ،تمام اختیارات اسی کے اپنے دست قدرت میں ہیں ،مشرکین کا عقیدہ تھاکہ ان کے اپنے ہاتھوں سے من مانی شکلوں سے تراشے ہوئے بت اورفرشتے جن کی وہ پرستش کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے اوراللہ کے عذاب سے چھڑوالیں گے ان کے اس عقیدے کے ردمیں فرمایا دنیاکی تدبیروانتظام میں کسی دوسرے کادخیل ہوناتودرکنارکوئی اتنااختیاربھی نہیں رکھتاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرکوئی شفاعت کرسکے ،جیسے فرمایا

۔۔۔مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۔۔۔ ۝۲۵۵ [8]

ترجمہ:کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ ۔

۔۔۔اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ۝۲۸ [9]

ترجمہ: وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجزاس کے جس کے حق میں سفارش سننے پراللہ راضی ہواوروہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَـیْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللهُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَرْضٰى۝۲۶ [10]

ترجمہ: آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجودہیں ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سنناچاہے اوراس کوپسندکرے۔

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ ۝۲۳ [11]

ترجمہ:اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔

اللہ جوکائنات کاخالق ہے،وہی اس کاہمہ وقت مدبرومنتظم ہے اوروہی تمام اختیارات کاکلی طور پر مالک ہے،لہذاتم ہرطرف سے منہ موڑکرصرف اسی کی عبادت کرو،اسی کے بندہ وغلام بن کررہواوراسی کے حکم کی اطاعت اوراس کے قانون کی پیروی کرو،اب جبکہ حقیقت تم پرواضح کردی گئی ہے توپھرکیاتم دعوت حق پرایمان نہ لاؤگے ۔

إِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِینَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا كَانُوا یَكْفُرُونَ ‎﴿٤﴾‏ هُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٥﴾‏ إِنَّ فِی اخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَّقُونَ ‎﴿٦﴾‏(یونس)
تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے، اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ جزا دےاور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے ، وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بےفائدہ نہیں پیدا کیں ، وہ یہ دلائل ان کو صاف صاف بتلا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں ،بلاشبہ رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے دلائل ہیں جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں ۔

وقوع قیامت کے بعدایک وقت مقررہ پرتم سب کومیدان محشرمیں اسی کی بارگاہ میں حاضرہوناہے،یہ اللہ کاپکاوعدہ ہےجوپوراہوکررہے گا،بے شک اللہ ہی نے پہلی مرتبہ انسان کوپیداکیاہے اور پھر وہی تمہیں دوبارہ پیداکرے گایعنی جوتخلیق کی ابتداکرنے کی قدرت رکھتاہے وہ اس کے اعادے پربھی قادرہے اوریہ اس کے لئے آسان تر ہے،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَیْہِ۔۔۔۝۰[12]

ترجمہ:وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔

اس حقیقت کوبعیدازقیاس سمجھنادرست نہیں ،اوریہ اس لئے ضروری ہے تاکہ جولوگ صدق دل سے ایمان لائیں اور اعمال صالحہ اختیار کریں ان کوپوری پوری جزادے کر جنت کی انواع واقسام کی لازوال نعمتوں میں داخل کرے اورجو دعوت حق ورسالت کی تکذیب کریں اور طاغوت کی بندگی پراصرارکریں انہیں جہنم میں داخل کرے جہاں وہ تکذیب کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پیئیں گے جوان کے چہروں کوجھلساکررکھ دے گااورانتڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اورقسم قسم کے دردناک سزابھگتیں ،جیسے فرمایا:

 ھٰذَا۝۰ۙ فَلْیَذُوْقُوْہُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙوَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِہٖٓ اَزْوَاجٌ۝۵۸ۭ [13]

ترجمہ:یہ ہے ان کے لیے ، پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی اور پیپ لہواور اس قسم کی دوسری تلخیوں کا۔

ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُكَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۴۳ۘیَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ [14]

ترجمہ:(اس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرمین جھوٹ قرار دیا کرتے تھے،اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔

اس کی کمال قدرت اوراس کی عظیم سلطنت کی نشانی یہ ہے کہ اس نے سورج کو حرارت وتپش اورچمکنے والا اور چاندکونوربنایا اورچاندکے گھٹنے بڑھنے کی اٹھائیس منازل کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا ،جیسے فرمایا

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹ [15]

ترجمہ:اورچاندکے لئے ہم نے منزلیں مقررکردیں ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتاہواوہ کھجورکی سوکھی شاخ کے مانندرہ جاتاہے ۔

فرمایاکہ سورج ،چاندستاروں کایہ نظام خودبخودقائم نہیں ہوگیابلکہ ہرطرح کی کجی سے پاک یہ نظام اللہ قادرمطلق نے قائم کیاہے۔

۔۔۔ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ [16]

ترجمہ:یہ زبردست علیم ہستی کاباندھاہواحساب ہے ۔

تاکہ تم سورج کے ساتھ دن اورچاند کے ساتھ مہینے اورسال کا حساب معلوم کرو،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا۔۔۔ ۝۹۶ [17]

ترجمہ: اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ۔

اوراسی طلوع ہلال سے حج ،صیام رمضان ،اشہرحرم اوردیگرعبادات کاتعین کرو،اللہ نے یہ عظیم الشان کائنات کھیل تماشہ کے طور پرنہیں بلکہ بامقصدہی بنائی ہے،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚ فَوَیْلٌ لِّــلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ۝۲۷ۭ [18]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کر دیا ہے یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے ، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے ۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیْمِ۝۱۱۶ [19]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟پس بالا و برتر ہے اللہ، بادشاہ حقیقی، کوئی الٰہ اس کے سوا نہیں ، مالک ہے عرش بزرگ کا ۔

اللہ اہل علم کو اپنے دلائل وبراہین کھول کھول کرپیش کررہاہے،یقیناًرات اوردن کے ردوبدل میں ،ان کے برابرجانے آنے میں ، رات پردن کاآنا،دن پررات کاچھا جانا ، ایک دوسرے کے برابرپیچھے لگاتارآناجانا،جیسے فرمایا:

۔۔۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا۔۔۔۝۰۝۵۴ [20]

ترجمہ:جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔

اورہراس چیزمیں جواللہ نے زمین اورآسمانوں میں پیداکی ہے سب اللہ کی عظمت کی منہ بولتی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جوغلط بینی وغلط روی سے بچناچاہتے ہیں ۔

إِنَّ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِینَ هُمْ عَنْ آیَاتِنَا غَافِلُونَ ‎﴿٧﴾‏ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٨﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ یَهْدِیهِمْ رَبُّهُم بِإِیمَانِهِمْ ۖ تَجْرِی مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ ‎﴿٩﴾‏ دَعْوَاهُمْ فِیهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِیَّتُهُمْ فِیهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٠﴾‏ ۞ وَلَوْ یُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ إِلَیْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ‎﴿١١﴾(یونس)
جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں ، ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے،یقیناً جو لوگ ایمان لائےاور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی ’’ سبحان اللہ ‘‘ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا ’’ السلام علیکم‘‘ اور ان کی اخیر بات یہ ہوگی تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے،اور اگر اللہ لوگوں پر جلدی سے نقصان واقع کردیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لیے جلدی مچاتے ہیں تو ان کا وعدہ کبھی سے پورا ہوچکا ہوتا، سو ہم نے ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے ان کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔

جولوگ وقوع قیامت،حیات بعدالموت،میدان محشرمیں اللہ کی بارگاہ میں حاضرہوکر اعمال کی جوابدہی ،جزاوسزااورجنت ودوزخ کوبعیدازقیاس سمجھتے ہیں وہ دنیاکی رنگینیوں اوردلفریبیوں میں گم ہوگئے ہیں ،آخرت کی جوابدہی سے بے خوف ہوکرنہایت برے اخلاق واوصاف کااکتساب کرتے ہیں ، اورجولوگ ہماری ہرسوبکھری نشانیوں پرغوروفکرکرنے کے بجائے غفلت میں مبتلا ہیں ،جیسے فرمایا

وَكَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ [21]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے۔

قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۱[22]

ترجمہ:اِن سے کہو زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں ۔

اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۝۹ۧ [23]

ترجمہ:کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں ، درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۝۱۹۰ۚۙ [24]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں ۔

ان کاآخری ٹھکاناجہنم ہوگاان برائیوں کی پاداش میں جن کااکتساب وہ اپنے غلط عقیدے اورغلط طرزعمل کی وجہ سے کرتے رہے،اور جن لوگوں نے ان صداقتوں کوقبول کرلیاجواس کتاب میں پیش کی گئی ہیں یعنی ہرکام میں ،ہرشعبہ زندگی میں ،ہرانفرادی واجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیارکیااورنیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کارب ان کے ایمان کی وجہ سے پل صراط جوبال سے زیادہ باریک اورتلوارکی دھارسے زیادہ تیزہے سے گزرناآسان فرما دے گا اورلازوال انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھری جنتوں میں داخل فرمادے گاجہاں گھنے شاداب درختوں کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہوں گی،جہاں اہل جنت سامان عیش پربھوکوں کی طرح نہیں ٹوٹ پڑیں گے بلکہ جس طرح دنیامیں وہ اللہ کی حمدوثناکرتے تھے اسی طرح وہاں بھی ہروقت اللہ کی حمدوتسبیح میں رطب اللسان ہوں گے ،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ یَأْكُلُونَ فِیهَا وَیَشْرَبُونَ، وَلَا یَتْفُلُونَ وَلَا یَبُولُونَ وَلَا یَتَغَوَّطُونَ وَلَا یَمْتَخِطُونَ قَالُوا: فَمَا بَالُ الطَّعَامِ؟ قَالَ: جُشَاءٌ وَرَشْحٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ، یُلْهَمُونَ التَّسْبِیحَ وَالتَّحْمِیدَ، كَمَا تُلْهَمُونَ النَّفَسَ،

جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت والے جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے اور تھوکیں گے نہیں اور نہ ہی پیشاب کریں گے اور نہ ہی پاخانہ کریں گے اور نہ ہی ناک صاف کریں گے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تو پھر کھانا کدھر جائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ڈکار اور پسینہ آئے گا اور پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا اور ان کو تسبیح یعنی سبحان اللہ اور تحمید یعنی الحمدللہ کا الہام ہوگا جس طرح کہ انہیں سانس کا الہام ہوتا ہے۔[25]

یعنی جس طرح بے اختیار سانس کی آمدورفت رہتی ہے اسی طرح اہل جنت کی زبانوں پربغیراہتمام کے حمدوتسبیح الٰہی کے ترانے رہیں گے ،وہ ایک دوسرے کو ملاقات کے وقت سلامتی کی دعادیں گے ، جیسے فرمایا

تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ۝۰ۖۚ وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا۝۴۴ [26]

ترجمہ:جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہوگا۔

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۝۲۵ۙاِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ [27]

ترجمہ:وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے،بس سلام ہی سلام کی آواز سنائی دے گی۔

سَلٰمٌ۝۰ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۝۵۸ [28]

ترجمہ:رب رحیم کی طرف سےان کو سلام کہا گیاہے ۔

فرشتے بھی انہیں یہی دعادیں گے۔

۔۔۔ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ۝۲۳ۚسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ۔۔۔ ۝۲۴ۭ [29]

ترجمہ:ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔

اوران کی ہربات کاخاتمہ اللہ رب العالمین کی تعریف پرہوگا ،کیونکہ انسانی فطرت میں جلدبازی ہےاس لئے وہ خیرطلب کرنے میں جلدی کرتاہےاوراسی طرح وہ عذاب طلب کرنے میں بھی جلدبازی کامظاہرہ کرتا ہےاوربے خوف ہوکر پیغمبروں سے کہتاہے کہ لے آؤوہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو ، فرمایا اگر اللہ ان کے اس مطالبہ پر جلدی عذاب نازل کردے تویہ کبھی کے صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے ہوتےلیکن ہم مہلت دے کرانہیں سنبھلنے کا پورا پورا موقع دیتے ہیں یایہ کہ جس طرح انسان اپنے لئے خیروبھلائی کی دعائیں مانگتارہتاہےجنہیں ہم قبول کرتے ہیں اسی طرح جب انسان غصے یاتنگی میں ہوتاہے تواپنے لئے اوراپنی اولادوغیرہ کے لئے بددعائیں کرتاہےجنہیں ہم ازراہ لطف وکرم اس لئے نظراندازکردیتے ہیں کہ یہ زبان سے توہلاکت مانگ رہاہے مگر اس کے دل میں ایساکوئی ارادہ نہیں ہےلیکن اگرہم انسانوں کی بددعاؤں کے مطابق انہیں فورا ًہلاکت سے دوچارکرناشروع کردیں توپھرجلدہی یہ لوگ موت وتباہی سے ہمکنارہوجایاکریں ،جیسے فرمایا

وَیَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بِالْخَیْرِ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا۝۱۱ [30]

ترجمہ: انسان شراس طرح مانگتاہے جس طرح خیرمانگنی چاہیے انسان بڑا ہی جلدبازواقع ہواہے ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَوْلَادِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى خَدَمِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ، لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَاعَةَ نَیْلٍ فِیهَا عَطَاءٌ، فَیَسْتَجِیبَ لَكُمْ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے آپ کو بددعانہ دو،اپنی اولادکوبددعانہ دو، اپنے خادموں کوبددعانہ دو اوراپنے مالوں کو بددعانہ دو،ایسانہ ہوکہ وہ اللہ کی طرف سے عطاوقبولیت کی گھڑی ہو(ادھرتم کوئی بد دعاکروکہ اللہ تعالیٰ اسے)تمہارے لئے قبول فرمالے۔[31]

وَقَالَ مُجَاهِدٌ فِی تَفْسِیرِ هَذِهِ الْآیَةِ: {وَلَوْ یُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ} هُوَ قَوْلُ الْإِنْسَانِ لِوَلَدِهِ وَمَالِهِ إِذَا غَضِبَ عَلَیْهِ:اللَّهُمَّ لَا تُبَارِكْ فِیهِ وَالْعَنْهُ،فَلَوْ یُعَجِّلُ اللَّهُ الِاسْتِجَابَةَ لَهُمْ فِی ذَلِكَ كَمَا یُسْتَجَابُ فِی الْخَیْرِ لَأَهْلَكَهُمْ

مجاہد رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ’’اوراگراللہ لوگوں پرجلدی سے نقصان واقع کردیاکرتاجس طرح وہ فائدہ کے لئے جلدی مچاتے ہیں ۔‘‘ کی تفسیرمیں فرمایاہے کہ اس کامفہوم یہ ہے کہ انسان غصے کی حالت میں اپنی اولاد یااہل کے لیے یہ کہہ دیتاہے کہ اے اللہ!اس میں برکت نہ دینا اور وہ ان پرلعنت بھیجنے لگ جاتاہے اگراللہ تعالیٰ ان کی بددعاکوبھی اسی طرح قبول فرمانے لگ جائے جس طرح ان کی دعاکوقبول فرماتاہے توانہیں ہلاک کرڈالے۔[32]

اس لئے ہم ان لوگوں کوجوہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لئے چھوٹ دے دیتے ہیں ۔

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ یَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِینَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِیُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿١٣﴾‏ ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِی الْأَرْضِ مِن بَعْدِهِمْ لِنَنظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٤﴾‏(یونس)
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی، بیٹھے بھی، کھڑے بھی، پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لیے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا، ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لیے اس طرح خوشنما بنادیا گیا ہے، اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کردیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دلائل لے کر آئے، اوروہ ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے؟ ہم مجرموں لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ، پھر ان کے بعد ہم نے دنیا میں بجائے ان کے تم کو جانشین کیا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو۔

انسان کاحال یہ ہے کہ جب اس پرکوئی سخت وقت آتاہے تووہ قلق واضطراب میں مبتلاہوجاتاہے،جزع فزع کرتاہے اورکھڑے ،بیٹھے اورلیٹے گڑگڑاکر ہم کوپکارتاہے،توبہ واستغفارکااہتمام کرتاہےمگرجب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مصیبت کایہ کڑاوقت نکال دیتاہے توپھربارگاہ الٰہی میں شکرکرنے کے بجائے دعاوتضرع سے غافل ہوجاتا ہے ، جیسے فرمایا

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ۝۰ۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِیْضٍ۝۵۱ [33]

ترجمہ: انسان کوجب ہم نعمت دیتے ہیں تووہ منہ پھیرتاہے اوراکڑ جاتاہے اورجب اسے کوئی آفت چھوجاتی ہے تولمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتاہے۔

اس قماش کے لوگوں کی مذمت میں فرمایااس طرح شیطان نے یاانسان کے نفس نے حدسے گزرجانے والوں کے لئے انکے کرتوت خوشنمابنادیے ہیں ،مگراہل ایمان ،اعمال صالحہ اختیارکرنے والے ایسے نہیں ہوتے ،جیسے فرمایا

اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔۔۔[34]

ترجمہ:اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والےاور نیکوکار ہیں ۔

عَنْ صُهَیْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَیْرٌ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، وَإِنَّ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، وَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَلَیْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کی حالت پرتعجب ہے ،اس کے لئے ہرالٰہی فیصلہ اچھاہی اچھاہوتاہے،اسے جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے وہ اس پر صبرواستقامت اختیارکرتاہے تواسے نیکیاں ملتی ہیں اوراگراسے کوئی راحت پہنچتی ہے تووہ شکرکرتاہے اس پربھی اسے نیکیاں ملتی ہیں ، یہ بات مومن کے سواکسی کوحاصل نہیں ۔ [35]

لوگو!تم سے پہلے اپنے اپنے زمانہ میں برسرعروج قوموں نے جب ظلم وبغاوت کی روش اختیار کی اورانبیاء کی دعوت پرایمان نہ لائے توہم نے انہیں ہلاک کردیا،ہم نے اتمام حجت کے لئے رسول مبعوث کیے،انہوں نے اپنی اپنی قوموں کواپنی رسالت کی صداقت میں واضح نشانیاں دکھائیں مگرانہوں نے دعوت حق اوررسالت کی تکذیب کی،چنانچہ ایک مقررہ ڈھیل کے بعدانہیں نشانہ عبرت بنا دیاگیاہم مجرموں کواس طرح ان کے جرائم کابدلہ دیاکرتے ہیں ، ان تباہ شدہ قوموں کے بعدہم نے تم کوان کاقائم مقام بنایاہے ،تمہارے پا س سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوچکے ہیں ،ان پرحکمتوں سے بھری آخری کتاب نازل کردی گئی ہے تاکہ دیکھیں تم کیسے اعمال اختیار کرتے ہو ، اگرتم نے گزشتہ قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کی اوراللہ کی آیات کی اتباع اورانبیاء ورسل کی تصدیق کی توتم دنیاوآخرت میں نجات پاؤگے اوراگرتم نے بھی انہی قوموں کی پیروی کی توتم پربھی دردناک عذاب نازل کیاجاسکتاہے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الدُّنْیَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِیهَا، فَیَنْظُرُ كَیْفَ تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ كَانَتْ فِی النِّسَاءِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا سرسبز و شاداب اور شیریں ہے، اللہ تمہیں اس میں خلافت عطاء فرما کر دیکھے گا کہ تم کیا اعمال سرانجام دیتے ہو؟(رنگ وبوسے بھری اس)دنیااورعورتوں سے ہوشیاررہوبنی اسرائیل میں سب سے پہلافتنہ عورتوں سے شروع ہوا تھا۔[36]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَى:أَنَّ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِأَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: رَأَیْتُ فِیمَا یَرَى النَّائِمُ كَأَنَّ سَبَبًا دُلِّیَ مِنَ السَّمَاءِ فَانْتَشَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دُلِّیَ فَانْتَشَطَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ ذَرَعَ النَّاسُ حَوْلَ الْمِنْبَرِ، فَفَضُلَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلَاثِ أَذْرُعٍ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنَا مِنْ رُؤْیَاكَ لَا أَرَبَ لَنَا فِیهَا فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ قَالَ: یَا عَوْفُ رُؤْیَاكَ؟ قَالَ: وَهَلْ لَكَ فِی رُؤْیَایَ مِنْ حَاجَةٍ، أَوْ لَمْ تَنْتَهِرُنِی؟

عبدالرحمٰن بن ابولیلیٰ سے روایت ہے عوف بن مالک نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہامیں نے خواب میں یہ دیکھاہے کہ آسمان سے گویاایک رسی لٹکائی گئی ہےجس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواوپراٹھالیاگیاپھراس رسی کودوبارہ لٹکادیاگیااوراس کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اوپر اٹھا لیا گیاپھرمنبرکے اردگردلوگوں کی پیمائش کی گئی توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کی نسبت تین ہاتھ منبرکی جانب آگے بڑھ گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرفرمایابس رہنے دواپناخواب ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے،پھرجب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے توانہوں نے فرمایااے عوف رضی اللہ عنہ !وہ تمہاراخواب کیاتھا؟انہوں نے عرض کی کیاآپ کومیرے خواب کی کوئی ضرورت ہے؟کیاآپ نے مجھے خواب سناتے وقت ڈانٹانہیں تھا؟

قَالَ: وَیْحَكَ إِنِّی كَرِهْتُ أَنْ تَنْعِیَ لِخَلِیفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ فَقَصَّ عَلَیْهِ الرُّؤْیَا، حَتَّى إِذَا بَلْغَ ذَرَعَ النَّاسُ إِلَى الْمِنْبَرِ بِهَذِهِ الثَّلَاثِ الْأَذْرُعِ، قَالَ: أَمَّا إِحْدَاهُنَّ فَإِنَّهُ كَائِنٌ خَلِیفَةً، وَأَمَّا الثَّانِیَةُ فَإِنَّهُ لَا یَخَافُ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَمَّا الثَّالِثَةُ فَإِنَّهُ شَهِیدٌ. قَالَ: فَقَالَ یَقُولُ اللَّهُ: {ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِی الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُونَ} [37]فَقَدِ اسْتُخْلِفْتَ یَا ابْنَ أُمِّ عُمَرَ، فَانْظُرْ كَیْفَ تَعْمَلُ؛ وَأَمَّا قَوْلُهُ:فَإِنِّی لَا أَخَافُ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ فَمَا شَاءَ اللَّهُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ:فَإِنِّی شَهِیدٌ فَأَنَّى لِعُمَرَ الشَّهَادَةُ وَالْمُسْلِمُونَ مُطِیفُونَ بِهِ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاتجھ پرافسوس ہو!تم کوتومیں نے اس لیے خواب سنانے سے منع کیاتھاکہ میں نہیں چاہتاتھاکہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کوان کے سامنے ان کی موت کی خبرسناؤ،اس کے بعدعوف رضی اللہ عنہ نے اپنا خواب بیان کرناشروع کیا پھرجب وہ خواب بیان کرتے ہوئے لوگوں کی پیمائش کیے جانے اوراس پیمائش میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے تین ہاتھ کے بقدرآگے بڑھنے تک پہنچےتوآپ نے فرمایاان تینوں ہاتھوں میں سے ایک توخلیفہ ہونے کی طرف اشارہ ہےاوردوسرایہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت گرکی ملامت سے نہیں ڈرتےاورتیسرایہ کہ وہ شہیدہیں ،پھرانہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے’’ پھرہم نے ان کے بعدلوگوں کو زمین میں خلیفہ بنایاتاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔‘‘ام عمرکے بیٹے!اب تمہیں خلیفہ بنا دیا گیاہے لہذا اب دیکھوکہ تم کیسے عمل کرتے ہو،خواب میں جویہ کہاگیاہے کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت گرکی ملامت سے نہیں ڈرتا تویہ اسی صورت میں ہے کہ جب اللہ چاہےاور جو شہادت کی بات کہی گئی ہے توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کوشہادت کیسے مل سکتی ہے جبکہ مسلمان ہروقت ان کے گردوپیش جمع رہتے ہیں ۔[38]

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا یَكُونُ لِی أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِی ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَىٰ إِلَیَّ ۖ إِنِّی أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٥﴾‏ قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَیْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿١٦﴾‏ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآیَاتِهِ ۚ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ‎﴿١٧﴾‏(یونس)
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیےیا اس میں کچھ ترمیم کر دیجئے ،آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اس کی اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعے پہنچا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں ، آپ یوں کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی اطلاع دیتا کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں ، پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے، سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی۔

کفارکی بدترین حجتیں :

مشرکین مکہ قرآن کریم کواللہ کی طرف سے منزل نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف قراردیتے تھے جواللہ کی طرف منسوب کردیاگیاہے،قریش مکہ نے جب دیکھاکہ ان کے ظلم وستم سے معاملہ بگڑرہاہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جودین پیش کررہے ہیں وہ معاشرہ میں جڑپکڑرہاہے توانہوں نے ایک سیاسی چال چلی ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تجویزرکھی کہ آپ لوگ غیرنہیں بلکہ ہمارے بھائی بندہیں ،ہمیں آپ کی مخالفت کرکے خوشی نہیں بلکہ دکھ ہوتاہے ،آپ کے اخلاق وکردارکودیکھ کرہمیں توقع تھی کہ آپ بنی ہاشم کی قیادت کریں گےتوہم سب کے وقارمیں اضافہ ہوگا،چنانچہ ہماری خواہش ہے کہ آپ اپنی تعلیم کے ان حصوں میں جوہماری پریشانی کا باعث بنتے ہیں کچھ ترمیم کرکے ہم لوگوں کے لیے قابل قبول بنادیں کیونکہ ہماری عادات پختہ ہوچکی ہیں جس کے باعث آپ کے بتلائے ہوئے احکام کی موجودہ شکل میں لوگوں کے لیے ان پرعمل کرنابہت مشکل ہے،اگرآپ کچھ ردوبدل کردیں گے تولوگوں کے لیے آپ کی باتوں کومانناممکن ہوجائے گااوراس طرح وہ آپ کادین قبول کرلیں گے، انہی کے اس قول کے بارے میں فرمایاکہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت ووحدانیت کے واضح دلائل وبراہین پیش کیے جاتے ہیں تووہ لوگ جوحیات بعدالموت کے قائل نہیں ہیں ،ڈھٹائی اور تعصب سے کہتے ہیں کہ توحیدوآخرت،جزاوسزا اورقطعی اورحتمی اخلاقی پابندیوں کی بحث چھوڑواوراس کے بجائے کوئی اورقرآن تصنیف کروجس میں قوم کا بھلاہواوراگرتم اپنی دعوت کوبالکل ہی نہیں بدلناچاہتے توکم ازکم اتنی ہی لچک پیداکردوکہ ہمارے اورتمہارے درمیان کم وبیش پرمصالحت ہوسکے ،یہی مضمون ایک اورمقام پر بھی فرمایا

وَاِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ۝۰ۤۖ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا۝۷۳وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَـیْــــًٔـا قَلِیْلًا۝۷۴ۤۙاِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا۝۷۵ [39]

ترجمہ:اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑواگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنا لیتےاور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے،لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا پھر ہمارےمقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔

ان دونوں باتوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہومجھے یہ زیباہے نہ میرے لائق ہے کہ اپنی طرف سے کلام الٰہی میں کوئی تعیروتبدل کردوں ، میں توبس ایک رسول ہوں میرے اختیارمیں کچھ نہیں ہے ،میں تو اس وحی کاپیروہوں جومجھ پرنازل کی جاتی ہے، جیسے فرمایا

۔۔۔ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۔۔[40]

ترجمہ:میں توصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومجھ پرنازل کی جاتی ہے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ۔۔۔۝۲۰۳ [41]

ترجمہ: ان سے کہومیں توصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومیرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔

وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓى اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۔۔۔ ۝۲ۙ [42]

ترجمہ:پیروی کرواس بات کی جس کااشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیاجارہاہے۔

۔۔۔ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۔۔۔ ۝۹ [43]

ترجمہ:میں توصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومیرے پاس بھیجی جاتی ہے۔

اب اگرتم دین کوقبول کرتے ہوتوپورے کے پورے کوتسلیم کروورنہ پورے کے پورے کو رد کر دو ، جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَاۗفَّةً۔۔۔۝۰۝۲۰۸ [44]

ترجمہ:اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ۔

ایسا نہیں ہوسکتاکہ اپنے مطلب کاکچھ قبول کرلواورجوتمہیں ناپسندہوقبول نہ کرو،مزیدتاکیدکے طورپرفرمایااگرمیں اللہ کی نافرمانی کروں یا کلام الٰہی میں معمولی سی بھی کمی بیشی کاارتکاب کروں تومیں یوم عظیم کے عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتامجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کاڈرہے،اورکہواگراللہ کی مشیت یہی ہوتی تومیں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتااوراللہ تمہیں اس کی خبرتک نہ دیتا، آخردعویٰ نبوت سے قبل چالیس سال میں تمہارے درمیان گزارچکاہوں ،میری زندگی کاکوئی پہلوتم لوگوں سے چھپاہوانہیں ہے ،تم جانتے ہوکہ میں لکھناپڑھنانہیں جانتا، میں نے کبھی کسی سے درس اورتعلیم حاصل نہیں کی ہے ،دوسرے تم میری امانت وصداقت کے بھی قائل رہے ہو،جب میں نے انسانوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولاتواب کیامیں اللہ پرافتراباندھنا شروع کردوں کیاتم عقل سے کام نہیں لیتے،شاہ روم ہرقل نے ابوسفیان اوران کے ساتھیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات دریافت کرتے ہوئے پوچھاتھا

فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ مَا قَالَ؟ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: فَقُلْتُ: لَا

کیادعویٰ نبوت سے پہلے کبھی تم نے اس پردروخ گوئی کاالزام لگایا ہے؟توابوسفیان کوباوجوددشمن اورکافرہونے کے کہناپڑاکہ نہیں ،

یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جودشمنوں کی زبان سے بھی بے ساختہ ظاہرہوتی ہے ،

وَالفَضْلُ مَا شَهدَتْ بِهِ الأعداءُ ،الحق ماشھدت بہ الاعدائ

اورخوبی وہ ہے جس کادشمن بھی اعتراف کریں اور حق وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں ۔

تمام گفتگوکے بعدہرقل نے نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہاتھا

 فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ یَكُنْ لِیَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ یَذْهَبَ فَیَكْذِبَ عَلَى اللهِ

اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب وہ لوگوں کے معاملات میں توجھوٹ نہ بولے اور اللہ پرکیوں جھوٹ و بہتان باندھ لے۔[45]

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَهُ، وَقِیلَ: قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ثَلَاثًا، فَجِئْتُ فِی النَّاسِ، لِأَنْظُرَ، فَلَمَّا تَبَیَّنْتُ وَجْهَهُ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَیْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، فَكَانَ أَوَّلُ شَیْءٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ، أَنْ قَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّیْلِ، وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ مکرمہ سے مدینہ معظمہ) ہجرت کرکے تشریف لائے تولوگ آپ کودیکھنے کے لئے گئےاورکہنے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،اللہ کے رسول تشریف لائےتین بار، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھنے کے لئے گیاجب میں نےآپ کا چہرہ مبارک دیکھاتو پہچان گیاکہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کانہیں ہوسکتاجب میں قریب گیاتوسب سے پہلے آپ کی زبان سے یہ کلام سنااے لوگوسلام پھیلاؤ ،غریبوں مساکین کو کھانا کھلاؤاورصلہ رحمی قائم رکھواور راتوں کولوگوں کی نیندکے وقت تہجدکی نمازپڑھاکرو توسلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔[46]

پھراس سے بڑھ کرظالم اورکون ہوگاجوایک جھوٹی بات گھڑکراللہ کی طرف منسوب کرے یااللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے،جیسے فرمایا

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللهُ۔۔۔۝۹۳ [47]

ترجمہ:اوراس شخص سے بڑاظالم اورکون ہوگاجواللہ پرجھوٹابہتان گھڑے یاکہے کہ مجھ پروحی آئی ہے درآں حالے کہ اس پرکوئی وحی نازل نہ کی گئی ہویاجواللہ کی نازل کردہ چیزکے مقابلے میں کہے کہ میں بھی ایسی چیزنازل کرکے دکھادوں گا؟۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا، أَوِ قَتَلَهُ نَبِیُّ، وَإِمَامُ ضَلَالَةٍ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روزسب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہوگا جس نےکسی نبی کوقتل کیاہوگا یانبی نے اسے قتل کیاہوگااورکفروشرک کی نشرواشاعت کرنے والا،دین میں نئی نئی بدعتیں نکالنے والا،اللہ کی زمین میں فتنہ وفسادبرپاکرنے والا،ناحق قتل کرنے والا۔[48]

یقیناًمجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔

وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَلَا یَنفَعُهُمْ وَیَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿١٨﴾‏ وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیمَا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿١٩﴾‏(یونس)
اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں ، ن ہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ،وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ، اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیدا کرلیا اور اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔

یہ لوگ اللہ کی عبادت سے تجاوزکرکے ان کی پرستش کررہے ہیں جوان کو نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ نفع،یعنی وہ معبودہیں جن کے اختیارمیں کچھ بھی نہیں ، اورانہیں اللہ کے درمیان واسطہ اوروسیلہ سمجھ کرکہتے یہ ہیں کہ یہ اپنے عقیدت مندوں کو اللہ سے قریب اور سفارش کرکے ان کی ضرورتیں پوری کرادیتے ہیں ،اور بگڑی بنوادیتے ہیں ،اس غلط عقیدے کی تردیدمیں فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو اللہ جوعلام الغیوب ہے،جس نے آسمانوں اورزمین کی ہرچیزکااحاطہ کررکھاہے اس کوتواس بات کاعلم نہیں ہے کہ اس کاکوئی شریک ہے یااس کی بارگاہ میں سفارشی بھی ہوں گے ،اللہ تعالیٰ ہرطرح کے شرک سے جویہ لوگ کرتے ہیں پاک اوربالاوبرترہے،جیسے فرمایا

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ هُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَالْبَاطِلُ وَاَنَّ اللهَ هُوَالْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ۝۶۲ [49]

ترجمہ:یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اوروہ سب باطل ہیں جنہیں اللہ کوچھوڑکریہ لوگ پکارتے ہیں ،اوراللہ ہی بالادست اوربزرگ ہے۔

ابتداء سارے انسان ایک ہی دین اورایک ہی طریقے پرتھےاوروہ تھادین اسلام،بعدمیں انہوں نے اپنی خواہش نفس کے مطابق مختلف عقیدے اورمسلک بنالئے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ بَیْنَ نُوحٍ، وَآدَمَ، عَشْرَةُ قُرُونٍ، كُلُّهُمْ عَلَى شَرِیعَةٍ مِنَ الْحَقِّ، فَاخْتَلَفُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آدم علیہ السلام اورنوح علیہ السلام کے درمیان دس صدیوں یانسلوں کافاصلہ ہے وہ سب کے سب شریعت حقہ پر(کاربند)تھے،بعدمیں لوگوں میں اختلاف رونماہوگیااوربتوں وغیرہ کی پرستش کی جانے لگی۔[50]

اوراگرتیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کرلی گئی ہوتی کہ نافرمانوں کومہلت دینی ہے اوران کے گناہوں کی پاداش میں ان کافوری مواخذہ نہیں کرنا توجس چیزمیں وہ باہم اختلاف کررہے ہیں اس کافیصلہ کردیاجاتا، پھرمومن کامیاب رہتے اورکافرناکام۔

وَیَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَیْبُ لِلَّهِ فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِینَ ‎﴿٢٠﴾وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِی آیَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ ‎﴿٢١﴾‏ هُوَ الَّذِی یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِی الْفُلْكِ وَجَرَیْنَ بِهِم بِرِیحٍ طَیِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِیحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِیطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ لَئِنْ أَنجَیْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِینَ ‎﴿٢٢﴾‏ فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ یَبْغُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ۗ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٣﴾(یونس)‏
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان پر ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی ؟ سو آپ فرما دیجئے کہ غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے سو تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ،اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑچکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ اور دریا میں چلاتا ہے ،یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے ،(اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے،پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو بچا لیتا ہے تو فوراً ہی وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں ، اے لوگو ! یہ تمہاری سرکشی تمہارے لیے وبال ہونے والی ہے دنیاوی زندگی کے (چند) فائدے ہیں ، پھر ہمارے پاس تم کو آنا ہے پھر ہم سب تمہارا کیا ہوا تم کو بتلا دیں گے۔

معجزہ طلب کرنے والے :

اوریہ مکذبین تفریح طبع کے طورپر کہتے ہیں کہ اس نبی پراس کی نبوت کی صداقت کے ثبوت کے طورپر کوئی بڑااورواضح معجزہ کیوں نہیں دکھایا جاتاجیسے صالح علیہ السلام کی قوم ثمودکے لئے اونٹنی کے معجزہ کاظہورہوا ،یایہ نبی صفاپہاڑی کوسونے کابنادے یامکہ مکرمہ کے چاروں طرف جلی ہوئی سنگلاخ پہاڑیوں کوختم کرکے ان کی جگہ نہریں اورباغات اگادے،یااسی قسم کاکوئی اورمعجزہ صادرکرکے دکھادے توہم اس کی رسالت کوتسلیم کرلیں گے،

قَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، فَإِنْ كُنْتَ غَیْرَ قَابِلٍ مِنَّا شَیْئًا مِمَّا عَرَضْنَاهُ عَلَیْكَ فَإِنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَیْسَ مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أَضْیَقَ بَلَدًا، وَلَا أَقَلَّ مَاءً، وَلَا أَشَدَّ عَیْشًا مِنَّا، فَسَلْ لَنَا رَبَّكَ الَّذِی بَعَثَكَ بِمَا بَعَثَكَ بِهِ، فَلْیُسَیِّرْ عَنَّا هَذِهِ الْجِبَالَ الَّتِی قَدْ ضَیَّقَتْ عَلَیْنَا، وَلْیَبْسُطْ لَنَا بِلَادَنَا، وَلْیُفَجِّرْ لَنَا فِیهَا أَنَهَارًا كَأَنْهَارِ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، وَلْیَبْعَثْ لَنَا مَنْ مَضَى مِنْ آبَائِنَا، وَلْیَكُنْ فِیمَنْ یُبْعَثُ لَنَا مِنْهُمْ قُصَیُّ بْنُ كِلَابٍ، فَإِنَّهُ كَانَ شَیْخَ صِدْقٍ، فَنَسْأَلَهُمْ عَمَّا تَقُولُ: أَحَقُّ هُوَ أَمْ بَاطِلٌ،

قریش نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!تم توجانتے ہوکہ کوئی شہرہمارے شہرسے زیادہ تنگ نہیں ہوگااورنہ ایسی پانی کی قلت ہوگی اورنہ کسی جگہ اس طرح گزارہ مشکل ہوگاجیساکہ ہمارے اس شہرمیں ہے لہذاتم اپنے اس الٰہ سے جس نے تم کونبی بنایاہے دعاکرو کہ وہ ان پہاڑوں کودورکردے جنہوں نے ہمارے شہرکوتنگ کررکھاہےاوریہاں ایسے چشمے بہادے جیسے ملک شام میں اورعراق میں بہتے ہیں ،اورہمارے باپ داداجومرگئے ہیں ان کوزندہ کردے تاکہ ہم ان سے تمہارے قول کی تصدیق کریں اوران میں قصیٰ بن کلاب بھی زندہ ہوکرآئے کیونکہ وہ بہت سچاشخص تھااس کی گواہی سے ہم کومعلوم ہوجائے گاکہ تم جوکہتے ہویہ حق ہے یاباطل،

فَإِنْ صَدَّقُوكَ وَصَنَعْتَ مَا سَأَلْنَاكَ صَدَّقْنَاكَ، وَعَرَفْنَا بِهِ مَنْزِلَتَكَ مِنْ اللَّهِ، قَالُوا: فَإِذَا لَمْ تَفْعَلْ هَذَا لَنَا،فَخُذْ لِنَفْسِكَ، سَلْ رَبَّكَ أَنْ یَبْعَثَ مَعَكَ مَلَكًا یُصَدِّقُكَ بِمَا تَقُولُ، وَیُرَاجِعُنَا عَنْكَ وَسَلْهُ فَلْیَجْعَلْ لَكَ جَنَانًا وَقُصُورًا وَكُنُوزًا مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ یُغْنِیكَ بِهَا عَمَّا نَرَاكَ تَبْتَغِی، فَإِنَّكَ تَقُومُ بِالْأَسْوَاقِ كَمَا نَقُومُ، وَتَلْتَمِسُ الْمَعَاشَ كَمَا نَلْتَمِسُهُ، حَتَّى نَعْرِفَ فَضْلَكَ وَمَنْزِلَتَكَ مِنْ رَبِّكَ إنْ كُنْتَ رَسُولًا كَمَا تَزْعُمُ،

اوراگران لوگوں نے تمہاری تصدیق کی توہم جان لیں گے کہ بے شک تمہیں اللہ نے بھیجاہے اورتمہاری عزت ومنزلت ہم پرثابت ہوجائے گی،اورکہنے لگے اگرتم ہمارے لیے یہ کام نہیں کرسکتے تواپنے لیے ہی یہ کام کرلو،اپنے پروردگارسے دعاکروکہ وہ تمہارے ساتھ کوئی فرشتہ تمہارے تصدیق کے لیے بھیجےاورتمہارے لیے تمہاراپروردگارنہریں اورباغ اورمحل پیداکردے اورسونے اورچاندی کے خزانے عنایت کردے تاکہ تمہیں وہ مشقت نہ اٹھانی پڑے جواب کرتے ہو تم بازاروں میں معاش کی تلاش میں چلتے پھرتے ہو جیسا کہ ہم چلتے پھرتے ہیں ، اگریہ باتیں ہوجائیں کہ بے شک تم رسول ہواورتمہارے لیے عزت ومنزلت ہے جیساکہ تم کہتے ہو۔[51]

اللہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال کے جواب میں ایک مقام پر فرمایا

تَبٰرَكَ الَّذِیْٓ اِنْ شَاۗءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۙ وَیَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا۝۱۰بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ۝۰ۣ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًا۝۱۱ۚ [52]

ترجمہ:بڑا بابرکت ہےوہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کر دہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے ، (ایک نہیں ) بہت سے باغ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں ، اور بڑے بڑے محل،اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھڑی کو جھٹلا چکے ہیں اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہوغیب کامالک ومختارتواللہ تعالیٰ ہی ہے،یعنی تمام امورومعاملات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اگروہ چاہے توتمہاری خواہشات کے مطابق وہ معجزے توظاہرکرکے دکھلاسکتاہے لیکن اس کے بعدبھی اگرتم ایمان نہ لائے توپھراللہ کاقانون یہ ہے کہ وہ ایسی قوم پر عذاب نازل کرکے صفحہ ہستی سے مٹادیتاہے ، اس لئے اس بات کاعلم صرف اسی کوہے کہ کسی قوم کے لئے اس کے مطالبہ کے مطابق معجزے ظاہرکردینااس کے حق میں بہترہے یانہیں ،اوراسی طرح اس بات کاعلم بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کوہے کہ ان کے مطلوبہ معجزے اگران کونہ دکھائے توانہیں کتنی مہلت دی جائے ،چنانچہ تم لوگ بھی اللہ کے فیصلہ کا انتظارکرومیں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ، اوراللہ تعالیٰ کومعلوم ہے کہ تمہارامطالبہ صرف ضداورہٹ دھرمی کی بنیادپرہے،اس لیےاگراللہ تعالیٰ کوئی نشانی ظاہرکربھی دے توتم اس پرایمان نہیں لاؤگے،جیسےفرمایا

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَ۝۱۴ۙلَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۝۱۵ۧ [53]

ترجمہ:اگرہم ان پرآسمان کاکوئی دروازہ کھول دیتے اوروہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کودھوکا ہو رہا ہے بلکہ ہم پرجادو کر دیا گیا ہے۔

وَاِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ۝۴۴ [54]

ترجمہ:یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں تو کہیں گے یہ بادل ہیں جو امڈے چلے آرہے ہیں ۔

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِیْنٌ۝۷ [55]

ترجمہ:اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !اگرہم تمہارے اوپرکوئی کاغذمیں لکھی لکھائی کتاب بھی اتاردیتے اورلوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوکربھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ توصریح جادوہے۔

وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللہُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ یَجْہَلُوْنَ۝۱۱۱ [56]

ترجمہ:اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، الا یہ کہ مشیَّت الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں ، مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں ۔

لوگوں کے ضمیرکاحال یہ ہے کہ جب اللہ نے قحط سالی کے بعدبارش برسادی جس سے شادابی آگئی اوران کی تکالیف دورہوگئیں تواس دوران اپنے خودساختہ معبودوں کی بے بسی اورلاچاری دیکھ کربھی یہ کفرپرجمے رہنے اورراہ راست اختیارنہ کرنے کے لئے ہزارقسم کی توجہات اور تاویلات کرنی شروع کردیتے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْٓا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ۝۰۝۸ [57]

ترجمہ:انسان پرجب کوئی آفت آتی ہے تووہ اپنے رب کی طرف رجوع کرکے اسے پکارتاہے پھرجب اس کارب اسے اپنی نعمت سے نوازتاہے تووہ اس مصیبت کوبھول جاتاہے جس پروہ پہلے پکاررہاتھااوردوسروں کواللہ کاہمسرٹھہراتاہے تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کرے ۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِیِّ، أَنَّهُ قَالَ:صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَیْبِیَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّیْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِی مُؤْمِنٌ بِی وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِی وَكَافِرٌ بِالكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِی وَمُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ

زیدبن خالدجہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں نمازفجرپڑھائی اوررات کوبارش ہوچکی تھی،نمازسے فارغ ہونے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیااورپھرپوچھاجانتے ہورات کوتمہارے رب نے کیافرمایاہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااللہ اوراس کارسول خوب جانتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے رب کاارشادہےکہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پرایمان لائے اورکچھ میرے منکرہوئے،جس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کی رحمت سے ہمارے لئے بارش ہوئی تووہ میرامومن ہے اورستاروں کامنکر اورجس نے کہاکہ فلاں تارے کی فلانی جگہ پرآنے سے بارش ہوئی وہ میرامنکرہے اورستاروں کامومن۔[58]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہواللہ کی تدبیراوراس کی حکمت عملی تم سے کہیں زیادہ بہترہے،اگرتم ایمان نہیں لاتے تواللہ ایک وقت مقررہ تک تمہیں ڈھیل دے گا،تمہارے رزق اورنعمتوں میں بے پناہ اضافہ فرمادے گا،پھردنیاکی رنگینیوں میں ڈوب کر جوکرتوت تم کرو گے اس کے مقررہ امین فرشتے تمہاری ہرطرح کی مکاریوں اورچالبازیوں کوقلم بندکرتے رہیں گے حتی کہ تم اچانک موت کے شکنجے میں کس دیے جاؤ گے ،پھرتمہارے یہ نامہ اعمال روزمحشر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے جن کا تمہیں حساب دیناہوگا،وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کوزمین پر چلنے کے لئے پاؤں اورسوارہونے کے لئے اونٹ اورگھوڑے وغیرہ مہیاکیے اور سمندروں میں سفرکرنے اور باربرداری کے لئے کشتیاں اوربڑے بڑے جہازتیارکرنے کی عقل وفہم دی ،چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوارہوکربادموافق پر فرحاں وشاداں سفرکررہے ہوتے ہواور پھر یکایک تندوتیززناٹے دارہوائیں چلناشروع ہوجاتی ہیں ،جس سے وہ سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اورتلاطم خیزموجوں میں گھر جاتے ہیں ،کشتی تنکے کی طرح جھکولے اورڈگمگانے لگتی ہے اورموت ان کوسامنے کھڑی نظرآنے لگتی ہے ،اس وقت کٹے سے کٹے مشرک اورسخت سے سخت دہریے جن کی فطرت میں توحیدکاسبق پڑاہواہے اپنے باطل عقائدکوبھول کرخشوع وخضوع سے صرف اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں کہ اگرتو نے ہم کواس بلاسے نجات دے دی تو باقی عمرہم تیرے شکر گزار بندے بن کررہیں گے،مگرجب وہ ان کوطوفان سے بچاکرزمین پرپہنچادیتاہے توپھروہی لوگ حق سے منحرف ہوکرگمراہی وضلالت کی وادیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷ [59]

ترجمہ:جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو، انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔

چنانچہ مروی ہے جب عکرمہ کو خبرملی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاخون مباح کردیاہے تو

أنه ركب البحر فأصابتهم ریح عاصف فنادى عِكْرِمَةُ: اللَّاتَ وَالْعُزَّى،فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِینَةِ أَخْلِصُوا فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِی عَنْكُمْ شَیْئًا هَاهُنَافَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللهِ لَئِنْ لَمْ یُنَجِّنِی فِی الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ مَا یُنَجِّینِی فِی الْبَرِّ غَیْرُهُ، اللهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَیَّ عَهْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَیْتَنِی مِمَّا أَنَا فِیهِ أَنْ آتِیَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ یَدِی فِی یَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِیمًا

یہ مکہ مکرمہ سے فرارہوکرساحل پرپہنچے اوریمن جانے کے لئے ایک کشتی میں سوارہوگئےمگراللہ کی قدرت کہ کشتی ابھی کچھ ہی دورگئی تھی کہ تندوتیزہواؤں نے کشتی کوگھیرلیاجس سے کشتی ڈوبنے لگی اورمسافروں کواپنی جان کے لالے پڑگئے ،اس خطرناک موقعہ پردوسرے مسافروں کی طرح عکرمہ نے بھی اپنے معبودلات وعزیٰ کومددکے لئے پکارا مگرکشتی کے ملاحوں نے کہااس وقت لات وعزیٰ کچھ کام نہ دیں گے ایک اللہ کوپکارووہی ہمیں اس طوفان سے نکال سکتاہے،اسی وقت عکرمہ کے دل میں خیال پیداہواکہ اگر دریامیں اللہ کے علاوہ کوئی مدد نہیں کرسکتاتوخشکی میں بھی اللہ کے سواکوئی مددگاراورحاجت روانہیں ہوسکتااسی وقت اپنے دل میں پکاعہدکرلیااے اللہ !میں تجھ سے پکا عہد کرتاہوں کہ اگرتو نے اس مصیبت سے نجات دے دی تومیں ضرورمحمدرسول اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گااوریقیناان کو بڑا معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والاپاؤں گا۔[60]

چنانچہ اللہ جو بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات دیتا ہے اس نے کشتی کو بحفاظت پار لگا دیا اور عکرمہ بن ابی جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر صدق دل سے اسلام قبول کر لیا۔

لوگو! دنیا کے چندٹکڑوں اوراس کامال و جاہ پراللہ کی یہ ناشکری اورسرکشی پرتمہارااپناہی نقصان ہورہاہے ،

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ یُعَجِّلَ اللَّهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِی الدُّنْیَا، مَعَ مَا یَدَّخِرُ لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِثْلُ الْبَغْیِ وَقَطِیعَةِ الرَّحِمِ

ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزادنیامیں بھی جلدی دے دے اوراس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزاجمع رکھے جیسے کہ ظلم وزیادتی اورقطع رحمی ہے۔[61]

تم اس دنیافانی کے چندروزہ مزے لوٹ لوآخرکارتمہیں ہماری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے،اس وقت ہم تمہیں تمہارے اعمال بد کی دردناک سزادیں گے ۔

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا یَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَیْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَیْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِیدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ وَاللَّهُ یَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَیَهْدِی مَن یَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٢٥﴾‏ لِّلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِیَادَةٌ ۖ وَلَا یَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَالَّذِینَ كَسَبُوا السَّیِّئَاتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ مَّا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۖ كَأَنَّمَا أُغْشِیَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّیْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢٧﴾‏(یونس)
پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں ، خوب گنجان ہو کر نکلی ،یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑاسو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی، ہم اس طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے، جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی، اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،اور جن لوگوں نے بد کام کیے ان کی بدی کی سزا اس کے برابر ملے گی اور ان کی ذلت چھائے گی، ان کو اللہ تعالیٰ سے کوئی نہ بچا سکے گا ، گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت لپیٹ دیے گئے ہیں ، یہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

لوگو!دنیاکی یہ چندروزہ زندگی جس کی رنگینیوں میں ڈوب کرتم ہماری ہرسوبکھری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہواس کی مثال ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایاتوزمین پرہرطرف ہریالی چھاگئی ،طرح طرح کی پیداوارنے نشوونماپائی اورخوب سرسبزو گنجان ہوکرنکلیں جسے آدمی اورچوپائے سب کھاتے ہیں ،پھرعین اس وقت جب کہ زمین کی پیداوار اپنی بہارپرتھی اورکھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اوران کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پرقادرہیں ناگہاں رات کویادن کوہماراعذاب آ گیا او ر ہم نے فصل کو ایساغارت کرکے رکھ دیاکہ گویاکل وہاں کوئی پیداوارتھی ہی نہیں ،

وَقَالَ قَتَادَةُ: {كَأَنْ لَمْ تَغْنَ} كَأَنَّ لَمْ تَنْعَمْ

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’گویاکل وہ موجودہی نہ تھی۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ گویاوہاں کسی نعمت کاوجودہی نہ تھا۔[62]

اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا

 وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ۔۔۔۝۴۵ [63]

ترجمہ: اوراے نبی!انہیں حیات دنیاکی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہوگئی اورکل وہی نباتات بھس بن کررہ گئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَهٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًا۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ۝۲۱ۧ [64]

ترجمہ:کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایاپھراس کوسوتوں اور چشموں اوردریاؤں کی شکل میں زمین کے اندرجاری کیا، پھراس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتاہے جن کی قسمیں مختلف ہیں ،پھروہ کھیتیاں پک کرسوکھ جاتی ہیں ،پھرتم دیکھتے ہوکہ وہ زردپڑگئیں ،پھرآخرکاراللہ ان کوبھس بنادیتاہے ،درحقیقت اس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لئے۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا ۔۔۔۝۲۰ [65]

ترجمہ:خوب جان لوکہ یہ دنیاکی زندگی اس کے سواکچھ نہیں کہ ایک کھیل اوردل لگی اورظاہری ٹیپ ٹاپ اورتمہاراآپس میں ایک دوسرے پرفخر جتانا اورمال واولادمیں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے،اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تواس سے پیداہونے والی نباتات کودیکھ کر کاشت کارخوش ہوگئے پھروہی کھیتی پک جاتی ہے اورتم دیکھتے ہوکہ وہ زردہوگئی پھر وہ بھس بن کررہ جاتی ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَةً، ثُمَّ یُقَالُ: یَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِیمٌ قَطُّ؟ فَیَقُولُ: لَا، وَاللهِ یَا رَبِّ وَیُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا، مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَیُصْبَغُ صَبْغَةً فِی الْجَنَّةِ، فَیُقَالُ لَهُ: یَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟ فَیَقُولُ: لَا، وَاللهِ یَا رَبِّ مَا مَرَّ بِی بُؤْسٌ قَطُّ، وَلَا رَأَیْتُ شِدَّةً قَطُّ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن اہل دوزخ میں سے اس شخص کولایاجائے گا جو دنیاداروں میں آسودہ تراورخوش عیش تھااسے دوزخ میں ایک بارغوطہ دیاجائے گااورپھراس پوچھاجائے گاکہ اے آدم کے بیٹے!کیاتونے کبھی دنیامیں آرام بھی دیکھاتھا ؟کیاکبھی تونے چین سے بھی گزاراتھا؟ وہ کہے گااللہ کی قسم !کبھی نہیں اے رب!اوراہل جنت میں سے اس شخص کولایاجائے گاجودنیامیں سب لوگوں سے زیادہ سخت تکلیف میں رہاتھااسے جنت میں ایک بارغوطہ دیاجائے گا اوراس سے پوچھاجائے گااے آدم کے بیٹے!تونے کبھی دنیامیں تکلیف بھی دیکھی ؟کیاکبھی تم پرشدت اوررنج بھی گزراتھا؟وہ جواب دے گااللہ کی قسم ! میں نے پوری زندگی میں کبھی رنج والم کانام بھی نہیں سنا۔[66]

اس طرح ہم سوچنے سمجھنے والوں کے لئے اپنی نشانیاں کھول کھول کرپیش کرتے ہیں ،تاکہ وہ عبرت حاصل کریں ،تم اپنی جہالت اورغفلت میں اس ناپائیدارزندگی کے طلسم میں مبتلاہورہے ہوجبکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہیں پکار پکار کراس طریقے کی طرف بلارہاہے جواخروی زندگی میں تمہیں جنت کامستحق بناد ے ، جو ہمیشہ کی نعمتوں اورابدی راحتوں والی جگہ ہے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا فَقَالَ:إِنِّی رَأَیْتُ فِیَ الْمَنَامِ كَأَنَّ جَبْرَائِیلَ عِنْدَ رَأْسِی وَمِیكَائِیلَ عِنْدَ رِجْلَیَّ، یَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اضْرِبْ لَهُ مَثَلًا فَقَالَ: اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُكَ، وَاعْقِلْ عَقَلَ قَلْبُكَ، إِنَّمَا مَثَلُكَ وَمَثَلُ أُمَّتِكَ كَمَثَلِ مَلِكٍ اتَّخَذَ دَارًا ثُمَّ بَنَى فِیهَا بَیْتًا ثُمَّ جَعَلَ فِیهَا مَأْدُبَةً ثُمَّ بَعَثَ رَسُولًا یَدْعُو النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ وَمِنْهُمْ مَنْ تَرَكَهُ فَاللَّهُ الْمَلِكُ، وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ، وَالْبَیْتُ الْجَنَّةُ، وَأَنْتَ یَا مُحَمَّدُ الرَّسُولُ؛ مَنْ أَجَابَكَ دَخَلَ الْإِسْلَامَ، وَمَنْ دَخَلَ الْإِسْلَامَ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَكَلَ مِنْهَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اورآپ نے فرمایامیں نے خواب میں دیکھاکہ جبریل علیہ السلام میرے سرکے پاس اورمیکائیل علیہ السلام میرے دونوں پاؤں کے پاس ہیں ،ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مثال بیان کیجئےتواس نے کہاسنیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان سنتے ہیں اورغورفرمائیں آپ کادل سمجھتاہے،آپ کی اورآپ کی امت کی مثال اس بادشاہ کی سی ہے جس نے ایک محل بنایاپھراس میں ایک گھر(کمرہ)بنایاپھراس گھرمیں ایک دسترخوان سجایاپھرایک پیغمبرکوبھیج دیاتاکہ وہ لوگوں کوبادشاہ کی طرف سے دعوت طعام دے،توکچھ لوگوں نے اس دعوت کوقبول کرلیااورکچھ نے انکارکردیا، چنانچہ(اس مثال کی وضاحت یہ ہے کہ)اللہ بادشاہ ہے اورمحل اسلام ہے اور گھر جنت ہےاوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ تعالیٰ کے پیغمبرہیں ،جوآپ کی دعوت کوقبول کرے گاوہ اسلام میں داخل ہوجائے گاجواسلام قبول کرے گاوہ جنت میں داخل ہوجائے گااورجوجنت میں داخل ہو گیا تووہ اس (جنت کی انواع واقسام کی لازوال نعمتوں )سے شادکام ہوگا۔[67]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَیْهَا مَلَكَانِ یُنَادِیَانِ، یُسْمِعَانِ أَهْلَ الْأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ فَإِنَّ مَا قَلَّ وَكَفَى خَیْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى

ابودردا رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہردن سورج کے طلوع ہونے کے وقت اس کے دونوں جانب دوفرشتے ہوتے ہیں جو بآواز بلند انسانوں اورجنوں کے سواسب کوسناکرکہتے ہیں اے لوگو!اپنے رب کی طرف آؤ،جوکم ہویاکافی ہووہ بہترہے اس سے جو زیادہ ہواورغافل کر دے۔[68]

ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے جس کوچاہتاہے راہ راست کی طرف رہنمائی کردیتاہے ،اس کے لئے اپنی رحمت کومختص کردیتاہے ،جن لوگوں نے دعوت حق قبول کی اور اعمال صالحہ ختیارکیے ان کے لئے دنیاوآخرت میں بھلائی ہی بھلائی ہے،روزمحشر اللہ اپنے فضل وکرم سے ان کے نیک عملوں کی جزاایک کے بدلے سات سوتک بڑھاکردے گا،اپنے مخصوص بندوں کو شفاعت کی اجازت بھی بخشے گا،اوران کی شفاعت قبول بھی فرمائے گااورپھرمزید اپنے دیدارسے بھی مشرف فرمائے گا،اوراس عظیم الشان نعمت کے مقابلے میں جنت کی تمام نعمتیں ہیچ ہوں گی ،جیسے فرمایا

هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ [69]

ترجمہ:نیکی کابدلہ نیکی کے سوااور کیا ہو سکتا ہے ۔

کفارومشرکین کی طرح ان کے چہرے ذلت ورسوائی اورلعنت و پھٹکارسے محفوظ ہوں گے بلکہ اہل ایمان کے چہرے تروتازہ اورروشن ہوں گے ،جیسے فرمایا:

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ۔۔۔ ۝۱۰۶ [70]

ترجمہ: جبکہ کچھ لوگ سرخ روہوں گے ۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ۝۳۸ۙضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ۝۳۹ۚ [71]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روزدمک رہے ہوں گے ، ہشاش بشاش اورخوش وخرم ہوں گے ۔

 تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِ۝۲۴ۚ [72]

ترجمہ:ان کے چہروں پرتم خوشحالی کی رونق محسوس کروگے ۔

فَوَقٰىہُمُ اللہُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَلَقّٰىہُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا۝۱۱ۚ [73]

ترجمہ:پس اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچالے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا ۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙاِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ [74]

ترجمہ:اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے،اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

(اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انہی میں شامل فرمادے)

اللہ انہیں دائمی طور پر حسن وجمال میں کامل جنت اوراس کی انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں میں داخل فرمائے گا جس پروہ اللہ کاشکراداکریں گے ،

عَنْ صُهَیْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، نَادَى مُنَادٍ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا یُرِیدُ أَنْ یُنْجِزَكُمُوهُ، فَیَقُولُونَ: وَمَا هُوَ؟ أَلَمْ یُثَقِّلْ مَوَازِینَنَا، وَیُبَیِّضْ وُجُوهَنَا، وَیُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَیُجِرْنَا مِنَ النَّارِ قَالَ:فَیُكْشَفُ لَهُمُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُونَ إِلَیْهِ قَالَ:فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ شَیْئًا أَحَبَّ إِلَیْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَیْهِ، وَلَا أَقَرَّ لِأَعْیُنِهِمْ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اہل جنت ،جنت میں داخل ہوجائیں گے،اوردوزخی جہنم میں داخل ہوجائیں گےاس وقت ایک پکارنے والاپکارے گاکہ اے جنتیو!اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے اور وہ اس کو پوراکرناچاہتاہے،اہل جنت کہیں گے وہ کیاوعدہ ہے؟کیااللہ نے ہمارے اعمال بھاری نہیں کردیئےاورہمارے چہرے نورانی نہیں کردیئےاورکیاہمیں جنت میں داخل نہیں کردیا اورجہنم سے نجات دے دی ،اب بھلا کون سی نعمت باقی رہتی ہے؟اسی وقت حجاب ہٹ جائے گااوریہ اپنے پروردگارکے چہرہ انورکادیدارکریں گے،واللہ! انہیں کسی چیزمیں وہ لذت وسرورحاصل نہ ہواہوگاجواللہ کے دیدارمیں ہوگا۔[75]

اورجن لوگوں نے دعوت حق کی تکذیب کی اور برے اعمال کرتے رہے، ان کی برائی کا بدلہ برائی کے مثل ہی ملے گا ،ذلت ومسکنت ان پر مسلط ہوگی ،جیسے فرمایا:

وَتَرٰىہُمْ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا خٰشِعِیْنَ مِنَ الذُّلِّ۔۔۔ ۝۴۵ [76]

ترجمہ:اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۝۰ۥۭ اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ۝۴۲ۙمُہْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِہِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُہُمْ۝۰ۚ وَاَفْــِٕدَتُہُمْ ہَوَاۗءٌ۝۴۳ۭ [77]

ترجمہ:اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ،سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں ۔

اللہ مالک یوم الدین کے عذاب سے ان کوبچانے والاکوئی نہ ہو گا ،جیسے فرمایا:

یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ۝۱۰ۚكَلَّا لَا وَزَرَ۝۱۱ۭ اِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ۝۱۲ۭ [78]

ترجمہ:اس وقت یہی انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں ؟ہرگز نہیں ، وہاں کوئی جائے پناہ نہ ہوگی،اس روز تیرے رب ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہوگا۔

نجات سے مایوس ہوکران کے چہروں پررات کی تاریکی کی مانندسیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔

 یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ۝۰ۣ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝۱۰۶وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَةِ اللہِ۝۰ۭ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۝۱۰۷ [79]

ترجمہ:جب کہ کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا، جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ ) نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا ؟ اچھا تو اب اس کفران نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو،رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حالت میں رہیں گے ۔

وُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ۝۳۸ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ۝۳۹ۚوَوُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْہَا غَبَرَةٌ۝۴۰ۙۙ [80]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گےہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے،اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی۔

وہ دائمی طورپرعذاب جہنم میں داخل کیے جائیں گے،یعنی عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔

وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِیدًا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٣٠﴾‏(یونس)
اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھہرو پھر ہم ان کی آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وہ شرکا کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ؟ سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواہ کے طور پر کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی ، اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کئے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا اور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے غائب ہوجائیں گے ۔

جس روزہم روئے زمین کےتمام انسانوں اورجنوں کومیدان محشرمیں جمع کریں گے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا۝۴۷ [81]

ترجمہ:اورہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیرکرجمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے)ایک بھی نہ چھوٹے گا۔

پھراہل ایمان اوراہل کفروشرک دونوں کوالگ الگ ایک دوسرے سے ممتازکردیاجائے گا۔

وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۵۹ [82]

ترجمہ:اوراے مجرمو!آج تم چھٹ کرالگ ہوجاؤ۔

وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ۝۱۴ [83]

ترجمہ:جس روز ساعت برپا ہوگی، اس دن (سب انسان) الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

۔۔۔یَوْمَىِٕذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ۝۴۳ [84]

ترجمہ:اس دن لوگ پھٹ کرایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔

پروردگارعالم ملائکہ کے جھرمٹ میں میدان محشرمیں تشریف لائے گااور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کوبرؤے کارلاکر فیصلے چکادے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ یَوْمَ القِیَامَةِ فَیَقُولُ: مَنْ كَانَ یَعْبُدُ شَیْئًا فَلْیَتْبَعْهُ، فَیَتْبَعُ مَنْ كَانَ یَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ،وَیَتْبَعُ مَنْ كَانَ یَعْبُدُ القَمَرَ القَمَرَ وَیَتْبَعُ مَنْ كَانَ یَعْبُدُ الطَّوَاغِیتَ الطَّوَاغِیتَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کوجمع کرے گااورفرمائے گا کہ تم میں جوکوئی جس چیزکی پوجاپاٹ کیاکرتاتھاوہ اس کے پیچھے لگ جائے،چنانچہ جوسورج کی پوجاکرتاتھاوہ سورج کے پیچھے ہوجائے گااورجوچاند کی پوجاکرتاتھاوہ چاندکے پیچھے ہوجائے گا،اورجو بتوں کی پوجاکرتاتھاوہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا(اسی طرح جواس دنیامیں جن کی پرستش کرتاہوگااسی کے پیچھے لگ جائے گا)۔[85]

پھراللہ ان لوگوں سے جو اپنے معبودحقیقی اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکرغیراللہ کی پرستش واطاعت کرتے تھے،ان کی رضاوخوشنودی کے لئے رسوم عبادات بجالاتے تھے،انہیں نفع ونقصان پہنچانے پرقادرسمجھتے ہوئےمشکلات وپریشانیوں میں ان کوپکارتے تھے فرمائے گا کہ تم اور تمہارے خودساختہ بنائے ہوئے معبود دونوں ٹھہرجاؤتاکہ تمہارے اورتمہارے معبودوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے ،پھر اللہ ان کے درمیان تمیز پیدا فرما دے گا،دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پرواضح ہوگی ،متبعین اورعقیدت مند جان لیں گے یہ تھے ہمارے وہ معبودجن کی ہم دنیامیں پرستش کرتے تھے اوران کے معبودجان لیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انہیں معبودبنائے رکھا، توفرشتے جن کودنیا میں دیویاں قرار دے کرپرستش کی گئی ،اورتمام جن ،ارواح ،اسلاف ، اجداد،انبیاء ،اولیاء اورشہداوغیرہ جن کواللہ کی صفات میں شریک ٹھہراکرپرستش و اطاعت کی گئی تھی اپنے متبعین ، پرستاروں اورعقیدت مندوں سے بیزاری کااظہارکرتے ہوئے کہہ دیں گے کہ تم لوگ ہماری عبادت تونہیں کرتے تھےاورنہ ہم نے تمہیں عبادت کرنے کاحکم دیاتھا۔

كَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [86]

ترجمہ:ہرگزنہیں ،وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گےاور الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا۔۔۔۝۱۶۶ [87]

ترجمہ:جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی اپنے پیروؤں سے بےتعلقی ظاہر کریں گے ۔

حقیقت تویہ ہے کہ تم نے شیطان مردودکی عبادت کی جس نے تمہیں شرک کی دعوت پیش کی ،جیسے فرمایا:

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [88]

ترجمہ:آدم کے بچو!کیامیں نے تم کوہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرووہ تمہارا کھلادشمن ہے۔

ہم تو اللہ تعالیٰ کواس سے پاک اورمنزہ گردانتے ہیں کہ اس کاکوئی شریک اورہمسرہو، اگرہم جھوٹ بول رہے ہوں توہمارے اورتمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے توہم تمہاری دعاؤں ، التجاؤں ، پکاروفریادوں ، نذرونیاز، چڑھاوے، تعریف ومدح ، سجدہ ریزیوں اورآستانہ بوسیوں سے بالکل بے خبر تھے ، جیسے فرمایا

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [89]

ترجمہ:آخراس شخص سے زیادہ بہکاہواانسان اورکون ہوگاجواللہ کوچھوڑکران کوپکارے جوقیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں کہ پکارنے والے ان کوپکار رہے ہیں اورجب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اوران کی عبادت کے منکرہوں گے۔

اس وقت ہرشخص اپنے کیے کامزاچکھ لے گا اگراعمال اچھے ہوئے تو جزاملے گی اوراگراعمال برے ہوئے توسزاملے گی ، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیردیے جائیں گے یعنی بہتانوں کی حقیقت واضح ہوجائے گی اور اللہ کی بارگاہ میں کوئی معبوداورمشکل کشا کام نہ آئے گا۔

قُلْ مَن یَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن یَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَن یُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَیَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿٣١﴾‏ فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ كَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِینَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٣٣﴾‏(یونس)
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہےیا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ’’ اللہ ‘‘ تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ، سو یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب حقیقی ہے، پھر حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے، پھر کہاں پھرے جاتے ہو ، اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ ایمان نہ لائیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے ۔

اہل مکہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت،مالکیت،ربوبیت اورمدبرالامورہونے کوتسلیم کرتے تھے لیکن غیراللہ کواس کی الوہیت میں شریک قراردیتے تھے،اس لئے ان پرحق واضح کرنے کے لئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے پوچھوتم کوآسمان سے بارش برساکراورزمین سے انواع و اقسام کی پیداواراورباغات اگاکر کون رزق بہم پہنچاتاہے؟اگراللہ تمہیں زرق دینابندکردے توتمہاراکونسامعبودتمہیں رزق دے گا۔

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَہٗ۔۔۔۝۰۝۲۱ [90]

ترجمہ:یا پھر بتاؤ ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنا رزق روک لے؟۔

یہ سماعت اوربنیائی کی قوتیں کس کے اختیارمیں ہیں ؟اگراللہ تمہیں ان قوتوں سے محروم کردے توتمہاراکونسامعبودتمہیں یہ قوتیں واپس دلادے گا۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللہُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَاْتِیْكُمْ بِہٖ۔۔۔۝۴۶ [91]

ترجمہ:اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کونسا الٰہ ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو ؟ ۔

کون بے جان میں جاندارکواورجاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟کون اس عظیم الشان کائنات کی تدبیرکررہاہے؟وہ فوراًگواہی دیں گے کہ یہ تمام امور اللہ وحدہ لاشریک کے اختیارمیں ہیں ،تب الزامی حجت کے طورپر ان سے کہوپھرحق کو چھوڑکرطاغوت کی بندگی کیوں کرتے ہو؟اللہ کے ساتھ غیراللہ کوشریک کیوں ٹھہراتے ہو؟بے راہ روی چھوڑکرتقویٰ اورپرہیزگاری کیوں اختیارنہیں کرتے ؟اللہ کی پکڑسے تم ڈرتے نہیں ،جب تم تسلیم کرتے ہوکہ کائنات کی ہرچیزکاخالق ومالک ، مدبر،متصرف اورموت وحیات کامالک اللہ ہی ہے توتمہاری بندگی وعبادت کامستحق اللہ ہی ہوا،پھر غیراللہ کو اس کی توحید الوہیت و ربوبیت میں کیوں شریک کرتے ہو؟ جو خودا پنی ذات کے لئے کسی نفع ونقصان ،موت وحیات اورزندہ کرنے پرقادرنہیں ،جیسے فرمایا:

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [92]

ترجمہ:لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔

جن کااقتدارمیں کسی بھی لحاظ سے ذرہ بھربھی حصہ اورشراکت نہیں ،جواس کی اجازت کے بغیر سفارش تک نہیں کرسکتے ،اتنی سی بات تمہاری عقل وفہم میں نہیں سماتی ؟آخر تم آنکھیں بندکرکے غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں دوڑے چلے جارہے ہو؟اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !دیکھوجس طرح یہ مشرکین تمام تراعتراف کے باوجوداپنے شرک پرقائم ہیں اورطاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی اوراطاعت کرنے کو تیار نہیں ہیں ،اسی طرح تمہارے رب کی بات ثابت ہوگئی کہ وہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھنے اورعام فہم دلیلیں سمجھانے کے باوجود ایمان نہیں لائیں گےاورخوداعتراف کرتے ہوئے کہیں گے۔

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ ۝۷۱ [93]

ترجمہ: (اس فیصلہ کے بعد) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ ہانکے جائیں گےیہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ؟ وہ جواب دیں گے ہاں ، آئے تھے مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا۔

قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن یَهْدِی إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ یَهْدِی لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَن یَهْدِی إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّن لَّا یَهِدِّی إِلَّا أَن یُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَیْفَ تَحْكُمُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ وَمَا یَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ ‎﴿٣٦﴾(یونس)
آپ یوں کہیے کہ تمہارے شرکاء میں کوئی ایسا ہے جو پہلی بار بھی پیدا کرے پھر دوبارہ بھی پیدا کرے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا، تم کہاں پھرے جاتے ہو ؟ آپ کہئے کہ تمہارے شرکاء میں کوئی ایسا ہے کہ حق کا راستہ بتاتا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی حق کا راستہ بتاتا ہے، تو پھر آیا جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو، اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں ،یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا، ی ہ جو کچھ کر رہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے ۔

ظن وتخمین بمقابلہ ایمان ویقین :

مشرکین کے معبودوں کی بے بسی ولاچاری اوران کے عقائدکے کھوکھلے پن کوواضح کرنے کے لئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے پوچھوجنہیں تم اللہ کاشریک گردانتے ہوکیاان میں کوئی بغیرکسی شریک کی شراکت اوربغیرکسی معاون کی مددکے تخلیق کی ابتداکرتا اورپھردوبارہ پیداکرنے پربھی قادرہے ؟وہ جانتے ہیں کہ یقینا ًوہ ایساکرنے سے یکسرعاجزوکمزورہیں ،اس لئے جب وہ جواب دینے میں تامل کریں توکہو صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی تخلیق کی ابتدا کرتاہے اوروہی دوبارہ زندہ کردینے پرقادرہے،پھرتم اپنے خیرخواہ بن کرسوچتے نہیں کہ جب پیداکرنے ،آسمان وزمین سے رزق دینے اورموت دینے والا اللہ ہی ہے تو کیوں ایسی ہستیوں کی عبادت کررہے ہو جوکچھ تخلیق کرنے سے قاصربلکہ خودمخلوق ہیں ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان منکرین سے پوچھوتم اللہ کے سواجن جن مذہبی معبودوں اورتمدنی خداؤں کی پرستش واطاعت کرتے ہوکیا ان میں کوئی ایسا بھی ہے جواپنے بیان اوررہنمائی یااپنے الہام اورتوفیق کے ذریعے راہ راست کی طرف رہنمائی کرتاہو؟جب وہ لاجواب ہوجائیں توکہوو ہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جو دلائل وبراہین اورالہام وتوفیق سے راست ترین راستے کی طرف گامزن ہونے میں مدددیتاہے ،پھربھلابتاؤجوحق کی طرف رہنمائی کرتاہے وہ اس کازیادہ مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے یاوہ جواندھے اوربہرے ہونے کی وجہ سے خودراستے پرچل نہیں سکتاجب تک کہ دوسرے لوگ اسے راستے پرنہ ڈال دیں ؟ جیسے فرمایا:

 اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰی وَجْهِهٖٓ اَهْدٰٓى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۲۲ [94]

ترجمہ:بھلاسوچوجوشخص منہ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والاہے یاوہ جو سراٹھائے سیدھاایک ہموارسڑک پرچل رہاہو؟۔

آخرتمہاری عقلوں کو کیا ہوگیاہےکہ واضح دلائل کے باوجودتمہیں حق نظرنہیں آتااورتم اس کی مخلوق کواس کی عبادت میں شریک کررہے ہو،حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس وتصورات کے پیچھے چلے جارہے ہیں حالاں کہ جانتے ہیں کہ دلائل کے مقابلے میں اوہام وخیالات اور ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا ،مگرہٹ دھرمی سے اوہام باطلہ اورظنون فاسدہ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ،جواعمال یہ کررہے ہیں اللہ ان کوخوب جانتاہےاوروہ انہیں اس ہٹ دھرمی کی پوری پوری سزادے گا۔

وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن یُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ الْكِتَابِ لَا رَیْبَ فِیهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ یُحِیطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا یَأْتِهِمْ تَأْوِیلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِینَ ‎﴿٣٩﴾‏ وَمِنْهُم مَّن یُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُم مَّن لَّا یُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّی عَمَلِی وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٤١﴾(یونس)
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہوبلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل (نازل) ہوچکی ہیں اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والاہے اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے، کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو، بلا لو اگر تم سچے ہو، بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کو اپنے احاطہ علمی میں نہیں لائے اور ہنوز ان کو اس کا اخیر نتیجہ نہیں ملا، جو لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی جھٹلایا تھا، سو دیکھ لیجئے ان ظالموں کا انجام کیسا ہوا؟ اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اس پر ایمان نہ لائیں گے،اور آپ کا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے، اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں ۔

تم لوگ کہتے ہوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عظیم الشان کلام خودتصنیف کرلیاہے حالانکہ قرآن کی فصاحت وبلاغت، جوپاکیزہ تعلیمات پیش کررہاہے،مضامین کی عمدگی جووہ بیان کررہاہے،صدیوں قبل تباہ شدہ اقوام کے عبرت ناک قصص و واقعات کومن وعن پیش کررہاہے اورمستقبل میں ظہورپذیرہونے والے واقعات سے خبردارکررہاہے وہ ایسا نہیں ہے جواللہ کی وحی وتعلیم کے بغیرتصنیف کرلیاجائے،جیسے فرمایا

لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [95]

ترجمہ:باطل نہ سامنے سے اس پرآسکتاہے نہ پیچھے سے،یہ ایک حکیم وحمیدکی نازل کردہ چیزہے۔

بلکہ یہ توپہلے نازل شدہ کتابوں کی تصدیق وتوثیق کرتا،ان میں جوتحریف ،تبدیل یا تاویل کی گئی ہے اسے بے حجاب کرتا، حق وباطل کافرق کرنے والا ، حلال وحرام اور جائزوناجائزکی تفصیل اوراحکام دینیہ بیان کرتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آخری کلام کو مالک الملک نے جو علام الغیوب ہے نے تمام دنیا کی ہدایت ورہنمائی کے لئے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاہے ،کفارومشرکین کادعویٰ تھاکہ یہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف کردہ کتاب ہے چنانچہ سورئہ ھودمیں چیلنج کیاگیاتھاکہ اگرتم قرآن مجیدکوپیغمبرکی تصنیف سمجھتے ہوتوتم تمام جن وانس مل کر اس جیسی صرف دس سورتیں ہی پیش کرو۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۳ [96]

ترجمہ:کیایہ کہتے ہیں کہ پیغمبرنے یہ کتاب خودگھڑلی ہے ؟کہواچھایہ بات ہے تواس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤاوراللہ کے سوااور جوجو (تمہارے معبود) ہیں ان کومددکے لئے بلاسکتے ہوتوبلالواگرتم(انہیں معبودسمجھنے میں )سچے ہو۔

اس مقام پرمزیدتخفیف کرتے ہوئےفرمایایہ لوگ پیغمبر پر بہتان لگاتے ہیں کہ اس عظیم الشان کلام کواس نے خودتصنیف کرلیاہے؟ببانگ دھل اعلان کردوان تمام حقائق ودلائل کے بعدبھی اگرتم اپنے دعویٰ میں سچے ہوتو اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکردنیابھرکے قابل ترین ادیبوں ، فصحاوبلغا،اہل علم ودانش اور قلم کاروں کواپنی مددکے لئے جمع کرلو اوراس قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورۂ کے مثل بناکر پیش کر دو ،مگر اپنی زبان پرعبوررکھنے کے باوجود ان کے شاعروں اورعالموں کی گردنیں خم ہوگئیں ،اورقرآن کایہ دعویٰ قیامت تک کے لئے ہے مگرابھی تک کوئی اہل دانش ایک سورۂ تصنیف نہیں کرسکاجوکہ قرآن کی حقانیت کی واضح دلیل ہے،جیسے فرمایا

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا۝۸۸ [97]

ترجمہ: کہہ دوکہ اگرانسان اورجن سب کے سب مل کراس قرآن جیسی کوئی چیزلانے کی کوشش کریں تونہ لاسکیں گے ،چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگارہی کیوں نہ ہوں ۔

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ۝۰ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ۝۲۴ [98]

ترجمہ:لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناً کبھی نہیں کر سکتے ، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔

موسیٰ علیہ السلام کے دورمیں جادوگروں کازورتھاچنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کواس دورکے لحاظ سےمعجزات عطافرمائے جنہیں دیکھ کومقابلے میں آئے ہوئے جادوگر بھی اللہ رب العالمین پرایمان لے آئے ، عیسی علیہ السلام کے دورمیں طب اورعلاج معالجے کافن عروج پرتھاچنانچہ اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کواس وقت کے لحاظ سے معجزات عطافرمائے جنہیں دیکھ کرماہرین طب کوعلم ہوگیاکہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اوررسول ہیں ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم کامعجزہ عطافرمایاجوقیامت تک رہے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا مِنْ نَبِیٍّ مِنَ الأَنْبِیَاءِ إِلا وَقَدْ أُعْطِیَ مِنَ الآیَاتِ مَا آمَنَ عَلَى مِثْلِهِ الْبَشَرُوَإِنَّمَا كَانَ الَّذِی أُتِیتُهُ وَحْیًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَیَّ،فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانبیائے کرام علیہ السلام میں سے ہرہرنبی کوایسی نشانیاں عطافرمائی گئیں کہ ان جیسی نشانیوں کودیکھ کرلوگ ایمان لے آتے تھے مجھے جونشانی عطافرمائی گئی ہے وہ وحی(قرآن مجید) ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میری طرف بھیجاہے، مجھے امیدہے کہ روزقیامت تمام انبیائے کرام کے پیروکاروں کی نسبت میری اتباع کرنے والوں کی تعدادبہت زیادہ ہوگی۔[99]

اصل یہ ہے کہ انہوں نے نہ تواس کتاب کے غلط ہونے کی عملی طورپر تحقیق کی ہے اورقرآن جوحقیقتیں بیان کررہاہے نہ وہ غلط ثابت ہوئی ہیں مگراس کو انہوں نے محض وہم وگمان کی بنیاد پر جھٹلادیا،اسی طرح توان سے پہلے کے لوگ بھی ازراہ جہالت وبے وقوفی جھٹلاچکے ہیں پھردیکھ لوجب انہوں نے ظلم وزیادتی ، کفروسرکشی سے حق کوقبول نہ کیااور ہمارے رسولوں کی تکذیب کی توان ظالموں کاکیا انجام ہوا،لہذا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والو!تم بھی ڈروکہ کہیں تمہارا انجام بھی ان جیسی قوموں جیسانہ ہو،تمہیں بھی اچانک عذاب نازل کرکے صفحہ ہستی سے نیست ونابودنہ کردیاجائے،اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !ان میں سے کچھ لوگ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اورکچھ نہیں لائیں گے اورکفرپرہی جان دیں گے،اور تیرارب ان مفسدوں کوخوب جانتا ہے،جو اپنے تعصبات،دنیاوی مفاد اور نفس کی خواہشات کی خاطرایمان لانے سے گریزکررہے ہیں ، اگریہ تجھے جھٹلاتے ہیں توان سے کج بحثیوں کی ضرورت نہیں بلکہ ببانگ دھل کہہ دے کہ اگرمیں اللہ پر جھوٹ گھڑ رہاہوں تو میں اپنے اعمال کاخودذمہ دارہوں ،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙلَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙوَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚوَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙوَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭلَكُمْ دِیْنُكُمْ وَلِیَ دِیْنِ۝۶ۧ [100]

ترجمہ:کہہ دو کہ اے کافرو!میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہواور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ،اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہےاور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ،تمہارے لئے تمہارادین ہے اور میرے لئے میرادین ۔

جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی مشرک قوم سے فرمایاتھا

۔۔۔اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۔۔۔ ۝۴ [101]

ترجمہ:ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں ۔

اوراگرتم کلام الٰہی کوجھٹلارہے ہوتواس کی ذمہ داری تم پرہے جس کاتمہیں جواب دینا ہوگا۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [102]

ترجمہ:جوکوئی نیک عمل کرے گااپنے ہی لئے اچھا کرے گا،جوبدی کرے گااس کاوبال اسی پر ہوگا اور تیر ا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔

وَمِنْهُم مَّن یَسْتَمِعُونَ إِلَیْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿٤٢﴾‏وَمِنْهُم مَّن یَنظُرُ إِلَیْكَ ۚ أَفَأَنتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ كَانُوا لَا یُبْصِرُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِینَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَإِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَإِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِیدٌ عَلَىٰ مَا یَفْعَلُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿٤٧﴾‏(یونس)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں ، کیا آپ بہروں کو سناتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ ہو؟ اور ان میں بعض ایسے ہیں آپ کو تک رہے ہیں ، پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو ؟ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ، اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں ) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں ، واقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے، اور جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں اس میں کچھ تھوڑا سا اگر ہم آپ کو دکھلا دیں یا (ان کے ظہور سے پہلے) ہم آپ کو وفات دے دیں ،سو ہمارے پاس تو ان کو آنا ہی ہے،پھر اللہ ان کے سب افعال پر گواہ ہے، اور ہر امت کے لیے ایک رسول ہے، سو جب ان کا وہ رسول آچکتا ہے ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔

رسول اللہ کوتسلی فرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان میں سے بہت سے لوگ بظاہرتمہاراپاکیزہ کلام کے ساتھ کلام الٰہی بھی سنتے ہیں ،مگران کامقصدچونکہ طلب رشد ہدایت نہیں بلکہ تکذیب اورکمزوریاں تلاش کرناہے اس لئے یہ فصیح وبلیغ کلام ان کے دلوں میں گھرنہیں کرتا ،پھرکیاتوبے عقل بہروں کوسنائیگاخواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں ؟ان میں سے بہت سے لوگ ہیں جوتیرے پاکیزہ اخلاق وکرداراورمعاملات کو دیکھتے ہیں ،مگرچونکہ وہ اپنے موروثی عقیدوں اورطریقوں کو چھوڑنانہیں چاہتے اس لئے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، پھر کیاتواندھوں کوراہ بتائے گاخواہ انہیں کچھ نہ سوجتاہو،حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسانوں کوطرح طرح کی صلاحیتیں اورقابلیتیں عطاکی ہیں ،حق وباطل میں تمیزکرنے کے لئے عقل وفہم اوربصیرت سے نوازاہے، غلط راہ پرچونکانے کے لئے ضمیردیے مگرلوگ ان صلاحیتوں کاصحیح استعمال کرکے راہ راست اختیارنہیں کرتے تو خودہی اپنے اوپرظلم کرتے ہیں ،اللہ نے توان پرکوئی ظلم نہیں کیاہے ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرواے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں ہدایت دوں تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں کھلاؤں تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا،اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں پہناؤں تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں تمہیں لباس پہناؤں گا، اے میرے بندو !تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دوں گا، اے میرے بندو! تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو

یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍمَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ

اے میرے بندو اگر تم سب اولین و آخرین اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کر سکتے، اے میرے بندو! اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں کچھ کمی نہیں کر سکتے، اے میرے بندو! اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں تو پھر بھی میرے خزانوں میں اس قدر بھی کمی نہیں ہوگی جتنی کہ سمندر میں سوئی ڈال کر نکالنے سے،

یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ

اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں ،پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گاتو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرےاور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔[103]

آج یہ دنیا کی رنگینیوں اوردلفریبیوں میں مست ہوکرآخرت کی تیاری سے غافل ہیں ،مگرجس روزاللہ ان کوان کی قبروں سے زندہ کرکے میدان محشرمیں اکٹھا کرے گاتومحشرکی سختیاں دیکھ کرانہیں دنیاکے سارے عیش وآرام اور لذتیں بھول جائیں گی اورآخرت کی دائمی زندگی دیکھ کر دنیاکی زندگی انہیں ایسی محسوس ہوگی گویایہ محض ایک گھڑی بھرکے لئے ایک دوسرے کوجان پہچان کے لئے ٹھہرے تھے،جیسے فرمایا

كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا۝۴۶ۧ [104]

ترجمہ:جس روزیہ لوگ اسے دیکھ لیں گے توانہیں یوں محسوس ہو گا کہ (دنیامیں یاحالت موت میں )یہ بس ایک دن کے پچھلے پہریااگلے پہرتک ٹھہرے ہیں ۔

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝۱۰۲یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا۝۱۰۳نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُہُمْ طَرِیْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا۝۱۰۴ۧۚۖ [105]

ترجمہ:اس دن جبکہ صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی،آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے،ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ) اس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہوگا وہ کہے گا کہ نہیں ، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی ۔

وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۰ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۝۵۵وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللہِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ۝۰ۡفَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۵۶ [106]

ترجمہ:اور جب وہ ساعت برپاہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھیرے ہیں ،اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے،مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ اللہ کے نوشتے تو تم روز حشر تک پڑے رہے ہو سو یہ وہی روز حشر ہے لیکن تم جانتے نہ تھے۔

یعنی دنیاکی یہ زندگی کتنی ہی لمبی ہو آخروی زندگی کے مقابلے میں نہایت ہی مختصرہے،جیسے فرمایا

 قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّیْنَ۝۱۱۳قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱۴  [107]

ترجمہ:پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا بتاؤ زمین میں تم کتنے سال رہے؟وہ کہیں گےایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھیرے ہیں شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے،ارشاد ہوگا تھوڑی ہی دیر ٹھیرے ہونا کاش! تم نے یہ اس وقت جانا ہوتا۔

اس وقت جن لوگوں نے حیات بعدالموت،حساب کتاب،اعمال کی جزاوسزا کو جھٹلایا تھا انہیں معلوم ہوجائے گاکہ دعوت حق کوقبول نہ کرکے وہ سخت گھاٹے میں رہے،جیسے فرمایا

وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ۝۱۰ۙ       [108]

ترجمہ:تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔

۔۔۔قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ۝۱۵[109]

ترجمہ: کہو، اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا، خوب سن رکھویہی کھلا دیوالیہ ہے ۔

اگران لوگ نے کفروشرک پراصرارجاری رکھاتوپچھلی تباہ شدہ قوموں کے عذاب کی طرح ان پربھی اچانک آسمان سے یازمین سے،رات کویادن میں عذاب نازل کیا جا سکتا ہے ،جیسے فرمایا

اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۴۵ۙاَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۴۶ۙاَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰی تَخَــوُّفٍ۔۔۔۝۴۷  [110]

ترجمہ:پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کے مخالف میں ) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بےخوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے ، یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو،یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے، یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں ؟ ۔

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًا۝۶۸ۙ   [111]

ترجمہ:اچھا تو کیا تم اس بات سے بالکل بےخوف ہو کہ اللہ کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دےیا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟۔

ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ۝۱۶ۙ [112]

ترجمہ:کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے؟۔

اوراگر ہم آپ کی زندگی میں بعض پرکوئی عذاب بھیج دیں تویہ بھی ممکن ہےجس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی،اوراگراس سے پہلے ہی آپ پرموت واردہوگئی تب بھی کوئی بات نہیں دنیامیں یہ کتنی ہی زندگی کیوں نہ گزارلیں بالآخران کوہمارے پاس ہی آناہے،وہاں یہ ہمارے عذاب سے بچ نہ سکیں گے ، ہم نے ہرامت میں رسول مبعوث کیاجوان کوطاغوت کی بندگی واطاعت سے روکتااوردعوت توحید پیش کرتاتھا،ایک قلیل التعداد لوگ تصدیق کرتے مگراکثریت جھٹلادیتی، جب رسول اپنافریضہ تبلیغ اداکرچکتااورحجت پوری ہوجاتی توپھرہم پیغمبراوراس پرایمان لانے والوں کوعذاب سے بچالیتے اورتکذیب کرنے والوں کوہلاک کردیتے رہے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵       [113]

ترجمہ: اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کوحق وباطل کافرق سمجھانے کے لئے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں ۔

اوراس پر ذرہ برابرظلم نہیں کیاجاتا ۔

دوسرامفہوم یہ ہے کہ اس دن ہرامت اپنے رسول کے ساتھ پیش کی جائے گی ،سب لوگوں کوان کے نامہ عمال تھمادیے جائیں گے،عدالتی کاروائی شروع ہوگی اورانصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کے لئے رسول اورفرشتے بطورگواہ پیش ہوں گے،اس طرح اللہ ہرامت اوراس کے رسول کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ چکادے گا،جیسے فرمایا

 وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۶۹     [114]

ترجمہ:زمین اپنے رب کے نورسے چمک اٹھے گی ،کتاب اعمال لاکررکھ دی جائے گی،انبیاء اورتمام گواہ حاضر کر دیے جائیں گے لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیاجائے گاان پرکوئی ظلم نہ ہوگا۔

ترتیب کے اعتبارسے امت محمدیہ سب سے آخری امت ہے مگرروزقیامت سب سے پہلے اس کافیصلہ کیاجائے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم(دنیامیں )تو بعدمیں آئے لیکن قیامت کے دن تمام مخلوقات سے پہلے ہمارافیصلہ کیاجائے گا۔[115]

وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِی ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَیَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنتُم بِهِ ۚ آلْآنَ وَقَدْ كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ‎﴿٥١﴾‏ ثُمَّ قِیلَ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ‎﴿٥٢﴾‏(یونس)
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا ؟ اگر تم سچے ہو،آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لیے تو کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا اللہ کو منظور ہو، ہر امت کے لیے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ اگے سرک سکتے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب رات کو آپڑےیا دن کو تو عذاب میں کونسی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں ،کیا پھر جب وہ آہی پڑے گا اس پر ایمان لاؤ گے، ہاں اب مانا ! حالانکہ تم جلدی مچایا کرتے تھے، پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ ہمیشہ کا عذاب چکھو، تم کو تو تمہارے کئے کا ہی بدلہ ملا ہے۔

مکذبین اللہ کے عذاب کومحال جان کربطوراستہزاپوچھتے ہیں اگرتمہاری عذاب کی یہ دھمکی جوتم ہمیں ایک عرصہ سے دے رہے ہوسچی ہے توآخریہ کب پوری ہوگی؟اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان کوکہومیں اللہ کارسول ہوں ،میراکام لوگوں کوپیغام حق پہنچانااوربیان کردیناہے ،مجھے کسی طرح کی کوئی قدرت حاصل نہیں یہاں تک کہ میں اپنے نفس کے لئے بھی نفع ونقصان کااختیار نہیں رکھتااورنہ مجھے اپنے بارے میں خیروشرکی خبرہے(جب سیدالامم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کونفع ونقصان پہنچانے پرقادرنہیں توانسانوں میں اورکون سی ہستی ایسی ہوسکتی ہے جوکسی کی حاجت براری اورمشکل کشائی پرقادرہو؟اسی طرح خوداللہ کے پیغمبرسے مددمانگنا،ان سے فریادکرنا،یارسول اللہ مدد،اور

أَغِثْنِی یَا رَسُولَ اللَّهِ،ادرکنی یَا رَسُولَ اللَّهِ

وغیرہ الفاظ سے استغاثہ واستعانت کرناکسی طرح بھی جائزنہیں ہے)تمہارے مطالبہ پرعذاب نازل ہوگایا نہیں ہوگا یاکب نازل ہوگااورکس صورت میں نازل ہوگاسب کچھ اللہ کی مشیت پرموقوف ہے،اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لئے سوچنے سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے ایک خاص مدت متعین فرمادی ہے جب یہ متعین مدت پوری ہوجاتی ہے اوروہ شخص یاگروہ اپنی باغیانہ روش سے بازنہیں آتاتب اللہ تعالیٰ اس پراپنافیصلہ نافذفرمادیتاہے اور پھرگھڑی بھر تقدیم ہوتی ہے نہ تاخیر ، جیسے فرمایا

 وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُہَا۔۔۔۝۱۱ۧ [116]

ترجمہ:حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکبھی تم لوگوں نے یہ بھی سوچاکہ اللہ تعالیٰ کے جس عذاب کے لئے تم جلدی مچارہے ہواگروہ اچانک رات کوآرام کے وقت یادن کومعاش میں مشغول ہوتے وقت نازل ہو جائےتوتم اپنے بچاؤمیں کیاکرسکتے ہو؟آخرعذاب میں کونسی خوبی ہے جس کے لئے مجرم جلدی مچارہے ہیں ؟حالاں کہ جب اجل سرپرآپہنچے گی توپھریہ نامرادشخص تمناکرے گااے کاش!مجھ سے ساری دنیالے کربھی ایک ساعت عذاب سے چھٹکارامل جائے کیایہ لوگ اس وقت ایمان لائیں گے جب اللہ کاعذاب ان پرٹوٹ پڑے گا ؟اورجس عذاب کے جلدی نازل ہونے کاتم تقاضاکررہے تھےاسے دیکھ کر ایمان لاناکچھ فائدہ نہیں دے گا،مگراس وقت وہ ایمان اورعمل کی باتیں کریں گے،کہیں گے

۔۔۔رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲      [117]

ترجمہ:اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ہمیں اب یقین آگیا ہے ۔

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَحْدَہٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِہٖ مُشْرِكِیْنَ۝۸۴ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ۝۰ۚ وَخَسِرَ ہُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۵ۧ [118]

ترجمہ:جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں ان سب معبودوں کا جنہیں ہم شریک ٹھیراتے تھے،مگر ہمارا عذاب دیکھ لینی کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نفع نہ ہو سکتا تھا کیوں کہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔

جب روزقیامت اعمال کی جزادی جائے گی تومشرکین کوذلیل ورسواکرنے کے لیے کہاجائے گاکہ اب ہمیشگی کے عذاب جہنم کامزاچکھو جس کے لئے تم جلدی مچارہے تھے ، جیسے فرمایا:

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا۝۱۳ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۴اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ۝۱۵ۭۚاِصْلَوْہَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا۝۰ۚ سَوَاۗءٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۶ [119]

ترجمہ:جس دن انہیں دھکے مار مار کر نار جہنم کی طرف لے چلا جائے گااس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے،اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھ نہیں رہا ہے ؟ جاؤ اب جھلسو اس کے اندر، تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو تمہارے لیے یکساں ہے تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔

تمہیں تمہارے کفروشرک ،دعوت حق و رسالت کی تکذیب اوربداعمالیوں کی پاداش میں عذاب جہنم دیا جا رہاہے۔

وَیَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِینَ ‎﴿٥٣﴾‏وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِیَ بَیْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ هُوَ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٥٦﴾‏(یونس)
اور وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کیا عذاب واقعی سچ ہے ؟ آپ فرما دیجئے کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی !وہ واقعی سچ ہے اور تم کسی طرح اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے،اور اگر ہر جان، جس نے ظلم (شرک) کیا ہے، کے پاس اتنا ہو کہ ساری زمین بھر جائے تب بھی اس کو دے کر اپنی جان بچانے لگے اور جب عذاب کو دیکھیں گے تو پشیمانی کو پوشیدہ رکھیں گے،اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگااور ان پر ظلم نہ ہوگا،یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کی ملک ہیں ، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن بہت سے آدمی علم ہی نہیں رکھتے، وہی جان ڈالتا ہے وہی جان نکالتا ہے اور تم سب اسی کے پاس لائے جاؤ گے ۔

پھریہ مکذبین طلب ہدایت کے لئے نہیں بلکہ عناداورنکتہ چینی کے قصدسے پوچھتے ہیں کیا معادوقیامت اورانسانوں کامٹی کے ساتھ مٹی ہونے کے بعددوبارہ زندہ ہونا،اعمال کی جزااورجنت ودوزخ واقعی برحق ہے ؟اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہومیرے رب کی قسم!یہ سراسر برحق ہے،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع کے بارے میں دواورمقامات پر قسم کھاکر فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَةُ۝۰ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّكُمْ۔۔۔۝۰۝۳ۤۙ [120]

ترجمہ:منکرین کہتے ہیں کیابات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آرہی ! کہوقسم ہے میرے عالم الغیب پروردگارکی وہ تم پرآکررہے گی۔

زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا۝۰ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ۔۔۔ ۝۷ [121]

ترجمہ:منکرین نے بڑے دعوے سے کہاہے کہ وہ مرنے کے بعدہرگزدوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے،ان سے کہونہیں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر ضرور تمہیں بتایاجائیگاکہ تم نے (دنیامیں )کیاکچھ کیاہے۔

اورتم اللہ تعالیٰ کودوبارہ اٹھانے سے عاجزاوربے بس نہیں کرسکتے ،جس طرح اللہ نے پہلی بار تمہیں پیداکیاجبکہ تم کوئی قابل ذکرچیزنہ تھے اسی طرح جب تم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤگے اس وقت بھی وہ تمہیں دوبارہ پیداکرنے کی قدرت رکھتاہے ،وہ جب کوئی کام کاارادہ فرماتاہے تواس کےلیے اسے اسباب ووسائل کی ضرورت نہیں ہوتی توبس حکم فرماتاہےاوروہ ہوجاتاہے،اللہ تعالیٰ نےاس مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا:

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷ [122]

ترجمہ:وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

۔۔۔اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ [123]

ترجمہ: وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔

وَہُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَیَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ۔۔۔ ۝۷۳    [124]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا ۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ  [125]

ترجمہ: ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

۔۔۔اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۳۵ۭ [126]

ترجمہ: وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے ۔

اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲  [127]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے ۔

ہُوَالَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ۝۰ۚ فَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَـقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۶۸ۧ  [128]

ترجمہ:وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی ہے موت دینے والا ہے وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہےبس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔

جب قیامت برپا ہو گی تو اس کے ہولناک مناظردیکھ کر ہرکافرومشرک شخص اس سے چھٹکاراپانے کے لئے زمین کاساراسونا چاندی وغیرہ فدیہ میں دینے پرآمادہ ہوجائے گا مگرروزمحشر تو صرف اعمال صالحہ ہی سرمایہ ہوں گی جوان کے پاس نہیں ہوں گی اس لئے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی ،حیات بعدالموت کے بعدجب یہ لوگ ان تمام حقیقتوں کومن وعن اپنے سامنے دیکھیں گے جنہیں دنیامیں جھٹلاتے رہے تھے تودل ہی دل میں ندامت وحسرت سے کہیں گے کہ کاش! میں نے رسول کی اطاعت کی ہوتی ،یعنی اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق زندگی گزری ہوتی، کاش! میں نے فلاں کودوست نہ بنایاہوتا،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹  [129]

ترجمہ:ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسو ل کا ساتھ دیا ہوتا،ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتااس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بےوفا نکلا۔

مگراب کیاحاصل،اللہ تعالیٰ ان کے درمیان عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کوپوراکرکے فیصلہ فرمادے گا ،کسی پرکسی قسم کاظلم وجور نہیں کیا جائیگا سنو!آسمانوں اور زمین میں جوکچھ ہے اللہ وحدہ لاشریک کی ملکیت ہے،سن رکھو!ایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوکررہے گی اللہ کاوعدہ برحق ہے مگراکثرانسان اس حقیقت سے غافل ہوکراس کے لئے تیاری نہیں کرتے، زندگی اور موت اسی کےقبضہ قدرت میں ہے اوراسی کی بارگاہ میں ہرنیک وبد کواعمال کی جوابدہی کے لئے فرداًفرداً حاضرہوناہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٥٧﴾‏ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوا هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ قُلْ أَرَأَیْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ وَمَا ظَنُّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٦٠﴾(یونس)
اے لوگوں ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے، آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں ، آپ کہیے یہ تو بتاؤ کہ اللہ نے تمہارے لیے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا، آپ پوچھئے کہ کیا تم کو اللہ نے حکم دیا تھا یا اللہ پر افتراہی کرتے ہو؟اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا باندھتے ہیں ان کا قیامت کی نسبت کیا گمان ہے؟ واقعی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے لیکن اکثر آدمی شکر نہیں کرتے ۔

اللہ تعالیٰ نے لوگوں پراپنے احسان کاذکرفرمایالوگو!تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے تمہارے رب کی طرف سے قرآن کریم کونازل کردیا ہےجوترغیب وترہیب دونوں طریقوں سے وعظ ونصیحت کرتاہے ،یہ ایساعظیم الشان کلام ہے جودلوں میں توحیدورسالت اورعقائدحقہ کے بارے میں پیداہونے والے شکوک وشبہات کاازالہ کرتا ہے ، کفروشرک اورنفاق کی گندگی وپلیدیگی کوصاف کرتاہے، ویسے تویہ تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے مگرخاص طورپرفرمایااورجواسے قبول کرلیں ان کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے،جیسے فرمایا:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۙ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا [130]

ترجمہ:ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کررہے ہیں جوماننے والوں کے لئے شفااوررحمت ہے،مگرظالموں کے لئے خسارے کے سوااورکسی چیزمیں اضافہ نہیں کرتا۔

۔۔۔قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَعَلَیْهِمْ عَمًى۔۔۔۝۰۝۴۴ۧ [131]

ترجمہ:ان سے کہویہ قرآن ایمان لانے والوں کے لئے توہدایت اورشفاہے مگرجولوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لئے یہ کانوں کی ڈاٹ اورآنکھوں کی پٹی ہے۔

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْهِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۲ ۙ [132]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ،ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہوکہ اللہ کی رحمت اور فضل وکرم پرتولوگوں کوخوشی منانی چاہیے کہ اس نے یہ عدم المثال ذکرالٰہی ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل فرمایاہےجو ان تمام عارضی اورفانی چیزوں سے بدرجہا بہترہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں ، مشرکین مکہ بعض جانوروں کواپنے بتوں کی خوشنودی کے لیے مخصوص نام رکھ کرپن کردیتے تھے اورپھران سے استفادہ حاصل کرناحرام سمجھتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس فعل کی مذمت کی اور فرمایا اے نبی! ان سے کہوتم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچاہے کہ اللہ نے جوعطاوبخشش تمہیں نصیب فرمائی ہےاس میں سے تم نے خودہی کسی چیز کوحرام اورکسی کوحلال ٹھہراکرحدبندیاں مقررکردیں ،ان سے پوچھوکیااللہ نے تم کوحلال وحرام کے قوانین وضوابط بنانے کاحکم دیاتھا یاتم اللہ پرجھوٹ گھڑرہے ہو؟یقیناًاللہ نے ایساکوئی حکم نہیں دیاتوفرمایاجولوگ اللہ پریہ جھوٹ گھڑتے ہیں ان کاکیاخیال ہے کہ روز قیامت اللہ ان سے کیامعاملہ فرمائے گا؟یعنی جواللہ پرجھوٹ گھڑتاہے وہ بدترین عذاب میں مبتلاہوں گے ،جیسے فرمایا:

وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَی اللهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ۝۰ۭ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ۝۶۰ [133]

ترجمہ:آج جن لوگوں نے اللہ پرجھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روزتم دیکھوگے کہ ان کے چہرے کالے ہوں گے،کیاجہنم میں متکبروں کے لئے کافی جگہ نہیں ہے ؟ ۔

عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ الْجُشَمِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: رَآنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَیَّ أَطْمَارٌ، فَقَالَ:هَلْ لَكَ مَالٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:مِنْ أَیِّ الْمَالِ؟ قُلْتُ: مِنْ كُلِّ الْمَالِ، قَدْ آتَانِی اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الشَّاءِ، وَالْإِبِلِ، قَالَ:فَلْتُرَ نِعَمُ اللَّهِ، وَكَرَامَتُهُ عَلَیْكَ،

ابوالاحوص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوااس وقت میری حالت یہ تھی کہ جسم میلاکچیلاتھابال بکھرے ہوئے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھاتمہارے پاس کچھ مال بھی ہے ؟میں نے عرض کیاجی ہاں ، فرمایاکس قسم کامال ہے ؟میں نے عرض کیا اونٹ، گھوڑے ، بکریاں اورغلام وغیرہ الغرض ہرطرح کامال ہے،فرمایاجب اللہ تعالیٰ نے تجھے سب کچھ عطا فرما رکھا ہے تواس کااثربھی تیرے جسم پراثرات بھی نظرآنے چاہئیں ،

ثُمَّ قَالَ: هَلْ تُنْتِجُ إِبِلُ قَوْمِكَ صِحَاحًا آذَانُهَا فَتَعْمَدُ إِلَى مُوسَى فَتَقْطَعُ آذَانَهَافَتَقُولُ: هَذِهِ بُحُرٌوَتَشُقُّهَا، أَوْ تَشُقُّ جُلُودَهَاوَتَقُولُ: هَذِهِ صُرُمٌ،وَتُحَرِّمُهَا عَلَیْكَ، وَعَلَى أَهْلِكَ،قَالَ: نَعَمْ،قَالَ: فَإِنَّ مَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ، وَسَاعِدُ اللَّهِ أَشَدُّ قَالَ: سَاعِدُ اللَّهِ أَشَدُّ مِنْ سَاعِدِكَ وَمُوسَى اللَّهِ أَحَدُّ مِنْ مُوسَاكَ

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیایہ بات نہیں ہے کہ تمہاری قوم کے اونٹ جب اپنے بچوں کوجنم دیتے ہیں توان کے کان صحیح ہوتے ہیں مگرتم لوگ استرے سے ان کے کان کاٹ دیتے ہو اورکہتے ہوکہ یہ بحیرہ ہیں ،ان (کانوں )کویاان کی کھالوں کوکاٹ دیتے ہو اورکہتے ہوکہ یہ صرم (کان کٹے)ہیں ، پھرانہیں اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لیے حرام قراردیتے ہو؟ میں نے جواب دیاجی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تمہیں جومال عطافرمائے وہ تمہارے لیے حلال ہے،اللہ تعالیٰ کا بازو تمہارے بازوسے زیادہ مضبوط اوراللہ تعالیٰ کااستراتمہارے استرے سے زیادہ تیزہے۔[134]

یہ تواللہ کالوگوں پرفضل واحسان ہے کہ دنیاکی نعمتیں بلاتفریق مومن وکافرسب کوعطافرماتاہے اورفوراً مواخذہ نہیں فرماتامگر اکثر انسان اپنے رب کی نعمتوں کاشکرادانہیں کرتے یاان نعمتوں کواللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں استعمال کرتے ہیں یاان میں سے بعض نعمتوں کوحرام ٹھہرا کر ان کوٹھکرادیتے ہیں ۔

وَمَا تَكُونُ فِی شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیهِ ۚ وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِی كِتَابٍ مُّبِینٍ ‎﴿٦١﴾‏أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ الَّذِینَ آمَنُوا وَكَانُوا یَتَّقُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِیلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٦٤﴾‏ وَلَا یَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا ۚ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٦٥﴾(یونس)
’’اور آپ کسی حال میں ہوں اورمنجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو ،اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ، یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں ، ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کچھ فرق ہوا نہیں کرتا، یہ بڑی کامیابی ہے،اور آپ کو ان کی باتیں غم میں نہ ڈالیں ، تمام تر غلبہ اللہ ہی کے لیے ہے وہ سنتا جانتا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسکین فرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم جس دنیاوی حال میں بھی ہوتے ہواوردعوت حق کی تبلیغ اورخلق خداکی اصلاح میں جس تن دہی وجاں فشانی اورجس صبروتحمل سے تم کام کررہے ہو ،اورمخالفین کوتنبیہ کی کہ دعوت حق کی راہ میں تم جوروڑے اٹکارہے ہو،مکروفریب کے جوجال بن رہے ہووہ سب ہماری نظروں میں رہتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ یَرَاكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجبرائیل علیہ السلام نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !احسان کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی عبادت اس طرح کرکہ گویاتواسے دیکھ رہاہے ،اگرتواسے نہیں دیکھ رہاتووہ توتجھے یقیناًدیکھ ہی رہا ہے۔[135]

آسمان اور زمین میں کوئی ذرہ برابرچیزچاہے وہ چھوٹی ہویا بڑی تیرے رب کی نظرسے پوشیدہ نہیں اورسب کچھ ایک صاف دفترمیں درج کیاگیا ہے،جیسے فرمایا

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹ [136]

ترجمہ:اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا،بحروبرمیں جوکچھ ہے سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسانہیں جس کااسے علم نہ ہو،زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسانہیں جس سے وہ باخبرنہ ہوخشک وترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھاہواہے۔

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ۝۰ۭ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ۔۔۔۝۳۸ [137]

ترجمہ:زمین میں چلنے والے کسی جانوراورہوامیں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کودیکھ لویہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں ، ہم نے ان کی تقدیرکے نوشتے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے۔

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶ [138]

ترجمہ:زمین میں چلنے والاکوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کارزق اللہ کے ذمے نہ ہواورجس کے متعلق وہ نہ جانتاہوکہ کہاں وہ رہتاہے اورکہاں وہ سونپا جاتا ہے،سب کچھ ایک صاف دفترمیں درج ہورہاہے ۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ فِیْ كِتٰبٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ۝۷۰ [139]

ترجمہ:کیاتم نہیں جانتے کہ آسمان وزمین کی ہرچیزاللہ کے علم میں ہے؟سب کچھ ایک کتاب میں درج ہےاللہ کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

سنو!اللہ کے محبوب بندے وہ ہیں جواللہ وحدہ لاشریک اور اس کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں اوررسولوں پرنازل شدہ کتابوں اورنورانی مخلوق فرشتوں اور روزآخرت اوراچھی بری تقدیرپرکامل ایمان لائے اورجنہوں نے اللہ کی اطاعت اورمعاصی سے اجتناب کرکے اللہ کاقرب حاصل کرلیا ،یعنی اولیاء اللہ کی دوبنیادی صفات ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ اہل یقین وایمان ہوتے ہیں اوردوسرے یہ کہ وہ اہل تقویٰ ہوتے ہیں ، ولایت کے لئے شعبدے بازی شرط نہیں ،ولایت کے لئے ہواؤں میں محو پرواز ہونا ، پانی پہ چلناکوئی لازمی شرط نہیں بلکہ یہ تواس بات کانام ہے کہ اللہ پرایمان ہو اورسیدالانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے گہراتعلق ہو،اتناگہراتعلق کہ انسان اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگ دے اوراسی کوتقویٰ کہتے ہیں ،قیامت کی ہولناکیوں ووحشت سے پھروہ غمگین نہ ہوں گےبلکہ امن وسعادت اورخیرکثیرہوگاجسے اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا، دنیا و آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے،یعنی دنیامیں بشارت سے مرادمومنوں کے دلوں میں محبت ومودت،مومن کااللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے بہرہ ورہونا،اللہ تعالیٰ کابہترین اعمال واخلاق کے راستوں کوآسان کردینااوربرے اخلاق سے دورکردینااورسچے خواب،

عَنْ رَجُلٍ، مِنْ أَهْلِ مِصْرَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، عَنْ هَذِهِ الآیَةِ {لَهُمُ البُشْرَى فِی الحَیَاةِ الدُّنْیَا} قَالَ: مَا سَأَلَنِی عَنْهَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا فَقَالَ: مَا سَأَلَنِی عَنْهَا أَحَدٌ غَیْرُكَ مُنْذُ أُنْزِلَتْ، فَهِیَ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ.

ایک مصری شخص سے منقول ہےانہوں نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس آیت’’ ان کے لئے دنیا کی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے۔‘‘ کی تفسیر پوچھی، انہوں نے فرمایا کہ جب سے میں نے اس کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی ہے مجھ سے کسی نے اس کے بارے میں نہیں پوچھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے تم پہلے شخص ہو جس نے اس کی تفسیر پوچھی ہے اس بشارت سے مراد مومن کا نیک خواب ہے جو وہ دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ [140]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ عِبَادًا یَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَالشُّهَدَاءُ . قِیلَ: مَنْ هُمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَعَلَّنَا نُحِبُّهُمْ؟ قَالَ:هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا فِی اللَّهِ مِنْ غَیْرِ أَمْوَالٍ وَلَا أَنْسَابٍ، وُجُوهُهُمْ مِنْ نُورٍ، عَلَى مَنَابِرٍ مِنْ نُورٍ، لَا یَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلَا یَحْزَنُونَ إِذَا حَزُنَ النَّاسُ ، وَقَرَأَ:{أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ} [141]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًکچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوں گے جن پرانبیاء وشہداء بھی رشک کریں گے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون (سعادت مند)لوگ ہوں گے تاکہ ہم بھی ان سے محبت کریں ؟فرمایاوہ لوگ جوکسی مالی لالچ یانسبی تعلق کے بغیرایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں گے،ان کے چہرے نورسے (منور)ہوں گےاوروہ نورکے منبروں پرجلوہ افروزہوں گے، جب لوگ خوف میں مبتلاہوں گے توانہیں کوئی خوف نہ ہوگااورجب لوگ غم ناک ہوں گے توانہیں کوئی غم نہ ہوگا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ’’یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ۔‘‘کی تلاوت فرمائی۔[142]

اورآخرت کی بشارتوں میں اولین بشارت یہ ہے کہ موت کے وقت جب فرشتے روح قبض کرنے کے لئے آتے ہیں توبشارت دیتے ہیں ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰نَحْنُ اَوْلِیٰۗــؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ  [143]

ترجمہ:جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارارب ہے اورپھروہ اس پرثابت قدم رہے یقیناًان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرونہ غم کرواورخوش ہو جاؤاس جنت کی بشارت سے جس کاتم سے وعدہ کیاگیاہے،ہم اس دنیاکی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی ، وہاں جوکچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمناکروگے وہ تمہاری ہوگی۔

اورآخرت میں ان کویہ خوشخبری ہوگی۔

 اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ۝۱۰۱ۙلَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا۝۰ۚ وَهُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۲ۚلَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ۝۰ۭ ھٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۱۰۳ [144]

ترجمہ: رہے وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے بھلائی کاپہلے ہی فیصلہ ہوچکاہوگاتووہ یقیناًاس سے دوررکھے جائیں گے،اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں گے اوروہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے ،سو انتہائی گھبراہٹ کاوقت ان کوذراپریشان نہ کرے گااورملائکہ بڑھ کر ان کوہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہاراوہی دن ہے جس کاتم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔

یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَبِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ هُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۲ۚ  [145]

ترجمہ: اس دن جبکہ تم مومن مردوں اورعورتوں کو دیکھو گے کہ ان کانوران کے آگے آگے اوران کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ)آج بشارت ہے تمہارے لئے،جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گےیہی ہے بڑی کامیابی۔

اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِیْلًا۝۴۳ [146]

ترجمہ: تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔

بلکہ اللہ نے جووعدہ کیاہے وہ حق ہے جس میں تغیروتبدل ممکن نہیں ،یہی بڑی کامیابی ہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جونکتہ چینی یہ مشرکین تم پراوردین حق پرکرتے ہیں اس پر رنجیدہ نہ ہو،یہ باتیں ان کوعزت فراہم کرسکتی ہیں نہ آپ کوکوئی نقصان دے سکتی ہیں ،بیشک عزت ساری کی ساری اللہ کے اختیارمیں ہےوہ جسے چاہتاہے عزت عطاکرتاہے اورجسے چاہتاہے ذلیل وخوارکردیتاہے،جیسے فرمایا:

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا ۔۔۔۝۱۰  [147]

ترجمہ:جوکوئی عزت چاہتاہواسے معلوم ہوناچاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے ۔

۔۔۔وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۸  [148]

ترجمہ:عزت تواللہ اوراس کے رسول اورمومنین کے لئے ہےمگریہ منافق جانتے نہیں ہیں ۔

اوراللہ اپنے بندوں کے اقوال کو سنتا اورتمام احوال کو جانتا ہے،کائنات کی کوئی چیزاس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الْأَرْضِ ۗ وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ اللَّیْلَ لِتَسْكُنُوا فِیهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَسْمَعُونَ ‎﴿٦٧﴾‏(یونس)
’’یا رکھو جتنے کچھ آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں یہ سب اللہ ہی کے ہیں اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکاء کی عبادت کر رہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں ، محض بے سندخیال کی اتباع کررہے ہیں اورمحض اٹکلیں لگا رہے ہیں ، وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن بھی اس طور بنایا کہ دیکھنے بھالنے کا ذریعہ ہے، تحقیق اس میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں ۔‘‘

آگاہ رہو!آسمان کے بسنے والے فرشتے ہوں یازمین میں بسنے والے انسان سب کے سب اللہ کی تخلیق اوراس کی ملکیت ہیں ،اوراس کے سامنے مسخراوراس کے دست تدبیرکے تحت ہیں ،کوئی مخلوق عبادت کاکچھ بھی استحقاق نہیں رکھتی اورکسی لحاظ سے بھی اللہ کی شریک نہیں بن سکتی ،اورجولوگ اللہ کے سواکچھ اپنے خودساختہ شریکوں کوپکار رہے ہیں وہ محض ظن وتخمین اوررائے وقیاس کی کرشمہ سازی ہے ،اورظن وگمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا،جیسے فرمایا:

وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۝۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَـیْــــًٔا۝۲۸ۚ [149]

ترجمہ:حالانکہ اس معاملہ کا علم انہیں حاصل نہیں ہے ، وہ محض گمان کی پیروی کر رہےہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے روزانہ مشاہدہ میں آنے والی چیزوں کے ذریعے سے اپناتعارف کرایاکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس کی تاریکی میں راحت وآرام، سکون واطمینان حاصل کرو،اگرسورج کی روشنی ہمیشہ برقراررہتی توتمہیں سکون وقرارنہ ملتااورمعاشی ضروریات اوردینی ودنیاوی مصالح کے لئے دن کوروشن بنایا،گردش لیل ونہارکی یہ نشانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں جو دل کے کانوں سے باتیں سنیں ،اوریہ یقین ان کے دل میں جاگزیں ہوجائے کہ رات دن کاآنا اور دنیاوی زندگی محدودعرصے کے لئے نفع اٹھانے کی غرض سے ہے یہ مستقل اورپائدارچیزنہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ سبھی کولوٹ کراپنے خالق کے حضورپیش ہوناہے۔

‏ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِیُّ ۖ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ قُلْ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِیقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا كَانُوا یَكْفُرُونَ ‎﴿٧٠﴾‏(یونس)
’’ وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے،سبحان اللہ ! وہ تو کسی کا محتاج نہیں اس کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں ،کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے،آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کامیاب نہ ہونگے،یہ دنیا میں تھوڑا سی عیش ہے پھر ہمارے پاس ان کو آنا ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھائیں گے۔‘‘

اہل کتاب یہودونصاری نے اپنے ظن وگمان میں کہا

قَالَتِ الْیَهُودُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِیحُ ابْنُ اللَّهِ [150]

یہودیوں نے کہاعزیز علیہ السلام اللہ کابیٹاہےاورعیسائیوں نے کہاعیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بیٹاہے ۔

مشرکین نے کہافرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔

وَیَجْعَلُوْنَ لِلهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ۝۰ۙ وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ۝۵۷ [151]

ترجمہ:یہ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں سبحان اللہ! اوران کے لیے وہ جو یہ خودچاہیں ؟۔

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى۝۲۱تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى۝۲۲ [152]

ترجمہ:کیا تمہارے لیے توہوں بیٹے اور اللہ کے لیے ہوں بیٹیاں ،یہ تو بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙ [153]

ترجمہ: یہ کہتے ہیں رحمان اولادرکھتاہے،سبحان اللہ ،وہ (یعنی فرشتے) توبندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے متعدددلائل دیتے ہوئے اس کاردفرمایا اللہ نے کسی کوبیٹایابیٹی نہیں بنایاہے، سبحان اللہ! وہ توتمام عیوب،نقائص اورکمزوریوں سے پاک ہے، اس کی طرف اولادکی نسبت کس طرح صحیح ہوسکتی ہے ،اس کی ذات کوفنانہیں اس لئے اسے اولادیابیوی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،اورآسمانوں میں بسنے والے فرشتے ہوں یا زمین میں آباد انسان ہوں سب اس کی ملک اوراس کے محتاج ہیں توپھر اس کے مملوک اس کی اولادکیسے بن سکتے ہیں ،تم لوگ جوبغیرسوچے سمجھے اللہ کے لئے اولاد تجویز کر رہے ہوکیا تمہارے پاس اس قول کے لئے کوئی معقول دلیل ہے؟کیاتم اللہ کے متعلق وہ بات کہتے ہو جوتمہارے علم میں نہیں ہیں ؟تمہاری اس نامعقول بات پرتوآسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہوجائے اورپہاڑ گر جائیں ، انہیں سرزنش کرتے ہوئے فرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚوَمَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝۹۲ۭاِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭلَقَدْ اَحْصٰىہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا۝۹۴ۭوَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [154]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کوبیٹابنایاہے،سخت بے ہودہ بات ہے جوتم لوگ گھڑلائے ہو ، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہوجائے اورپہاڑگرجائیں اس بات پرکہ لوگوں نے رحمان کے لئے اولادہونے کادعویٰ کیا،رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹابنالے،زمین اورآسمانوں کے اندرجوبھی ہیں سب اس کے حضوربندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ،سب پر وہ محیط ہے اور اس نے ان کو شمار کر رکھا ہےسب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہہ دوکہ جولوگ اللہ پرجھوٹے افتراباندھتے ہیں وہ اخروی دائمی زندگی میں ہرگز فلاح نہیں پاسکیں گے،یہ لوگ دنیاکی چندروزہ زندگی میں عیش کرلیں ،ہماری عطاکردہ نعمتوں کے مزے لوٹ لیں پھرایک دن ان سب کوتنہاتنہاہماری بارگاہ میں پیش ہوناہے، پھر اس کفرکی پاداش میں جس کاارتکاب وہ کررہے ہیں ہم ان کوبدترین عذاب کامزہ چکھائیں گے ۔

۔۔۔وَمَا ظَلَمَھُمُ اللهُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۱۱۷   [155]

ترجمہ: اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیادرحقیقت یہ خوداپنے اوپرظلم کررہے ہیں ۔

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ یَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُم مَّقَامِی وَتَذْكِیرِی بِآیَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَیَّ وَلَا تُنظِرُونِ ‎﴿٧١﴾‏ فَإِن تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿٧٢﴾‏(یونس)
’’ اور آپ ان کو نوح (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم ! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا اللہ پر ہی بھروسہ ہے، تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کرلوپھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہ ہونی چاہے، پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو ،پھر بھی اگر تم اعراض ہی کئے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں ۔‘‘

دس گیارہ سال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کومعقول دلائل کے ساتھ دعوت توحیدپہنچا چکے تھے ،ان کے باطل عقائد،خیالات اورطریقوں پرمتنبہ کرچکے تھے مگرقوم کسی طرح اپنی گمراہیوں پرنظرثانی کرنے کوتیارنہیں تھی بلکہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودکومکہ مکرمہ میں برداشت کرنے کوتیارنہیں تھے اورآپ کی جان کے دشمن ہورہے تھے،ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے چندانبیاء کے حالات بطورنمونہ ذکرفرمائےاورسب سے پہلے نوح علیہ السلام کاذکرفرمایاکہ جب انہوں نے قوم کوطویل مدت تک دلائل وبراہین کے ساتھ دعوت توحیدپہنچائی،جس پر قوم نے جتنی اذیتیں اورمصائب انہیں دیے انہوں نے سب کوخندہ پیشانی سے برداشت کیا،مگرقوم سرکشی پرتلی ہوئی تھی اور انہیں اپنی بستیوں میں برداشت کرنے کوتیارنہیں تھی فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! انہیں نوح علیہ السلام کا قصہ سناؤکہ جب نوح علیہ السلام نے ایک عرصہ درازکی وعظ وتبلیغ کے بعد اپنی قوم سے کہاتھاکہ اے برادران قوم !اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے تو تم اپنے ٹھہرائے ہوے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لواور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اس کو خوب سوچ لو تاکہ اس کاکوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے،یعنی تمہاری تدبیرواضح اورغیرمبہم ہونی چاہیے ،پھرمیرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ایک لمحے کی بھی مہلت نہ دو،میرا بھروسہ اﷲ پر ہے،

یہی بات ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کوفرمائی تھی۔

۔۔۔قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۵۴ۙمِنْ دُوْنِهٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ۔۔۔۝۰۝۵۶ [156]

ترجمہ: ہود علیہ السلام نے کہامیں اللہ کی شہادت پیش کرتاہوں اورتم گواہ رہوکہ یہ جواللہ کے سوادوسروں کوتم نے خدائی میں شریک ٹھیرارکھاہے اس سے میں بیزارہوں ،تم سب کے سب مل کرمیرے خلاف اپنی کرنی میں کسرنہ اٹھارکھواورمجھے ذرامہلت نہ دو،میرابھروسہ اللہ پر ہے جومیرارب بھی ہے اور تمہارارب بھی۔

تم نے دعوت حق کی تکذیب کی اوراطاعت سے منہ موڑا، میرا دعوی نبوت کامقصدمال ودولت یاکوئی مرتبہ حاصل کرنانہیں تھاکہ تم مجھ پرکوئی تہمت لگا سکو ، میرا اجروثواب تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود مسلم بن کر رہوں ،یعنی تمام انبیاء کادین اسلام ہی تھاگوشرائع اورمناہج متعدد رہے ، اوریہی بات متعددجگہوں پر بھی فرمائی گئی ہے۔

 قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَعِیْسٰى وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ۝۰ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝۰ؗۖ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ۝۱۳۶         [157]

ترجمہ:مسلمانو!کہوکہ ہم ایمان لائے اللہ پراوراس ہدایت پرجوہماری طرف نازل ہوئی ہے اورجوابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ،  اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب کی طرف نازل ہوئی تھی ،اورجوموسٰی اورعیسیٰ اوردوسرے تمام پیغمبروں کوان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی،ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اورہم اللہ کے مسلم ہیں ۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ۝۰ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللهِ وَكَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَاۗءَ۔۔۔۝۰۝۴۴   [158]

ترجمہ:ہم نے توراة نازل کی جس میں ہدایت اورروشنی تھی ، سارے نبی جو مسلم تھے اسی کے مطابق ان یہودیوں کے معاملات کافیصلہ کرتے تھے اوراسی طرح ربانی اوراحباربھی(اسی پرفیصلہ کامداررکھتے تھے)کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ داربنایاگیاتھااوروہ اس پر گواہ تھے ۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْكُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۔۔۔۝۰۝۴۸ۙ [159]

ترجمہ: پھر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ۔

 اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَلَهٗ كُلُّ شَیْءٍ۝۰ۡوَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۱ۙ [160]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو)مجھے تویہی حکم دیاگیاہے کہ اس شہر(مکہ معظمہ)کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایاہے اورجو ہر چیز کا مالک ہے ،مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں مسلم بن کر رہوں ۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُكِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۲ۙلَا شَرِیْكَ لَهٗ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِیْنَ۝۱۶ [161]

ترجمہ:کہو!میری نماز ،میرے تمام مراسم عبودیت ،میرا جینا اورمیرامرناسب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کاکوئی شریک نہیں ،اسی کامجھے حکم دیاگیاہے اورسب سے پہلے سراطاعت جھکانے والامیں ہوں ۔

۔۔۔رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا۝۰ۭ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِـمِیْنَ۝۱۲۶ۧ  [162]

ترجمہ:اے رب!ہم پرصبرکافیضان کراورہمیں دنیاسے اٹھاتواس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں ۔

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ۝۰ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۣ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ۝۱۰۱    [163]

ترجمہ:اے میرے رب!تونے مجھے حکومت بخشی اورمجھ کوباتوں کی تہ تک پہنچانا سکھایا ، زمین وآسمان کے بنانے والے! توہی دنیااورآخرت میں میرا سرپرست ہے ، میرا خاتمہ اسلام پر کر اورانجام کارمجھے صالحین کے ساتھ ملا ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَالْأَنْبِیَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِینُهُمْ وَاحِدٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم انبیاء ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد،دین ایک اوربعض احکام جداگانہ،پس توحید میں (ہم) سب یکساں ہیں ۔[164]

فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّیْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِی الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِینَ ‎﴿٧٣﴾‏ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِینَ ‎﴿٧٤﴾‏(یونس)
’’سو وہ لوگ ان کو جھٹلاتے رہے پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے ان کو نجات دی اور ان کو جانشین بنایا اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کردیا، سو دیکھنا چاہیے کیسا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ڈرائے جا چکے تھے،پھر نوح (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اور رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے پس جس چیز کو انہوں نے اول میں جھوٹا کہہ دیا یہ نہ ہوا کہ پھر اس کو مان لیتے، اللہ تعالیٰ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے۔‘‘

مگر۹۵۰سال شب وروزکی تمام ترکوششوں ،ہرطرح کے دلائل وبراہین،ہرطرح کی خوشخبریوں کے باوجودان کی قوم نے تکذیب کاراستہ نہیں چھوڑاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور اہل ایمان کو کشتی میں سوارکرکے پانی میں غرق ہونے سےبچالیا،جیسے فرمایا:

وَحَمَلْنٰهُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ۝۱۳ۙ [165]

ترجمہ:اورنوح کوہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی پرسوارکردیا۔

اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اورانسانوں کی آئندہ نسل انہی لوگوں سے چلائی ،اور باقی تمام قوم کو جنہوں نے ہماری دعوت کو جھٹلایا تھاطوفانی موجوں میں غرق کر دیا ، پس دیکھ لو کہ جن لوگوں کو اللہ کے عذاب پرمتنبہ کیا گیا تھامگروہ پھر بھی ایمان نہ لائے توان کاکیساعبرت ناک اوررسواکن انجام ہوا،پھرنوح علیہ السلام کے بعدہم نے مختلف پیغمبروں کوان کی قوموں کی طرف بھیجا،تمام پیغمبراپنی اپنی قوم کے پاس اپنی دعوت و رسالت کی حقانیت پرواضح دلائل ومعجزات لے کرآئے مگرجس پاکیزہ دعوت کو انہوں نے بغیر غوروفکرکے پہلے جھٹلادیاتھاپھرہرطرح کی فہماش، تلقین اور معقول سے معقول دلیل کے بعدبھی اس پرایمان نہ لائے ،اس طرح ہم کفروشرک کاراستہ اختیار کرنے والوں کے دلوں پرٹھپہ لگادیتے ہیں اورپھرانہیں کبھی راہ راست پرآنے کی توفیق نہیں ملتی،جیسے فرمایا:

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۔۔۔۝۱۱۰ۧ [166]

ترجمہ:ہم اسی طرح ان کے دلوں اورنگاہوں کوپھیررہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان نہیں لائے تھے ۔

‏ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَارُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآیَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِینَ ‎﴿٧٥﴾‏ فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا إِنَّ هَٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٧٦﴾‏ قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَٰذَا وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُونَ ‎﴿٧٧﴾‏ قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِیَاءُ فِی الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِینَ ‎﴿٧٨﴾‏(یونس)
’’ پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کو فرعون اور ان کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا، سو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ مجرم قوم تھے ، پھر جب ان کو ہمارے پاس سے صحیح دلیل پہنچی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یقیناً یہ صریح جادو ہے ،موسٰی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جب کہ تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے، حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے ،وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے۔‘‘

طویٰ کی مقدس وادی میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوخلعت رسالت سے نوازکرفرعون کے پاس جانے کاحکم فرمایا:

فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ۝۰ۭ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى۝۴۷اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۴۸   [167]

ترجمہ:جاؤاس کے پاس اورکہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے چھوڑدے اور ان کوتکلیف نہ دے ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لیکرآئے ہیں اورسلامتی ہے اس کے لئے جوراہ راست کی پیروی کرے، ہم کووحی سے بتایاگیا ہے کہ عذاب ہے اس کے لئے جوجھٹلائے اورمنہ موڑے ۔

اور فرمایا:

اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى۝۱۷ۡۖفَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى۝۱۸ۙوَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى۝۱۹ۚ  [168]

ترجمہ:فرعون کے پاس جاوہ سرکش ہو گیاہےاور اس سے کہنا کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے !اورمیں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو(اس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو؟۔

چنانچہ تعمیل حکم میں موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام فرعون کے دربارمیں پہنچے اوربھرے دربارمیں فرعون اور اس کے امراء کودعوت اسلام پیش کہ وہ طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر صرف اللہ رب العالمین کواپنارب اورالٰہ تسلیم کریں ،اورآخرت کے عذاب سے ڈرایا کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک دوسری ابدی زندگی ہے جس میں ہرشخص نے تنہااللہ مالک یوم الدین کے دربارمیں پیش ہوکراپنے اعمال کاحساب دیناہےاس لئے اس کے لئے تیاری کرلو، اور اپنی رسالت کی صداقت میں موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے اوردلائل کے انبارلگادیے ،توحیدکے دلائل سن کراورمعجزات دیکھ کر فرعون اوراس کے اکابرین کے دل توقائل ہوگئے مگران کانفس ایمان پرآمادہ نہ ہوا، جیسے فرمایا:

وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔۔۔۝۱۴ۧ [169]

ترجمہ:انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔

چنانچہ فرعون نے اپنی دولت وحکومت اورشوکت وحشمت کے نشے میں مدہوش ہوکراطاعت میں سرجھکانے کے بجائے تکبرواستکبار کا مظاہرہ کیااور کہنے لگا یہ تو کھلا جادوہے ، موسی علیہ السلام نے اس کوزجروتوبیخ کرتے ہوئے فرمایا کیاجوپاکیزہ دعوت تمہیں پیش کردی گئی ہے اسے جادوگردانتے ہو،؟کیا تم معجزات اور جادوکے فرق کونہیں سمجھتے ؟کیاتم نہیں جانتے کہ جادوگرکس سیرت وکردارکے حامل ہوتے ہیں ؟اورکن مقاصدکے لئے جادوگری کرتے ہیں ؟ کیاجادوگر اللہ وحدہ لاشریک اورطہارت نفس کی دعوت دیتے ہیں ؟ حالانکہ جادوگرنہ دنیامیں فلاح پاتے ہیں نہ آخرت میں ، دعوت حق کے مقابلے میں مشرکین پیغمبروں پر ہمیشہ تین ہی اعتراض کرتے رہے ہیں یہ کہ تم ہمیں ہمارے آباؤاجدادکے طریقوں سے پھیرناچاہتے ہواوردوسرے یہ کہ تم اپنی بڑائی قائم کرناچاہتے ہو،تیسرے یہ کہ بشررسول نہیں ہوسکتا ، چنانچہ پچھلی قوموں کی طرح فرعون اوراس کے درباریوں نے بھی یہی جواب دیاکیاتواس لئے آیا ہے کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور اپنے آباؤاجدادکے طریقوں کو چھوڑ دیں ،اور تمہاری اس دعوت کامقصدیہ ہے کہ ہم سے جاہ وریاست چھین کرخوداس پرقبضہ کرنااورہمیں ہماری زمینوں سے نکال باہرکرناچاہتے ہوہم تمہاری دعوت کوتسلیم نہیں کرتے ۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِی بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ‎﴿٧٩﴾‏ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَیُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٨١﴾‏ وَیُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٨٢﴾‏(یونس)
’’اور فرعون نے کہا میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو،پھر جب جادوگر آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو،سو جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے، یقینی بات ہے کہ اللہ اس کو بھی درہم برہم کئے دیتا ہے، اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا،اور اللہ تعالیٰ حق کو اپنے فرمان سے ثابت کردیتا ہے گو مجرم کیسا ہی ناگوار سمجھیں ۔‘‘

اپنے اکابرین سے مشورہ کرنے کے بعدفرعون نے حکم دیاکہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لئے ملک مصرکے ہرماہرفن جادوگر کومیرے دربارمیں حاضرکرو،تعمیل حکم میں ہرکارے پورے ملک میں دوڑے اور وقت مقررہ پرماہرفن جادوگروں کوجمع کرکے دارالحکومت میں پہنچ گئے ،جادو گروں کوبلانے کے علاوہ فرعون نے اپنی رعایاکوبھی مقابلہ دیکھنے کی دعوت دی اورصرف اعلان واشتہارہی پراکتفانہیں کیاگیا بلکہ اس غرض سے آدمی چھوڑے گئے کہ لوگوں کواکساکرمقابلہ دیکھنے کے لئے لائیں ، کیونکہ بھرے دربارمیں جو معجزات موسٰی نے دکھائے تھے ان کی خبر عام لوگوں میں پھیل چکی تھی اورفرعون کویہ اندیشہ تھاکہ اس سے ملک کے باشندے متاثرہوتے چلے جارہے ہیں ،جن حاضرین دربار نے معجزے دیکھے تھے اورباہرجن لوگوں تک اس کی معتبرخبریں پہنچی تھیں ان کے عقیدے اپنے آبائی دین ودھرم پرسے متزلزل ہوئے جارہے تھے اوراب ان کے دین کا دارومداربس اس پر رہ گیاتھاکہ کسی طرح جادوگربھی وہ کام کردکھائیں جوموسٰی نے کیا ہے،فرعون اوراس کے اعیان سلطنت اسے خودایک فیصلہ کن مقابلہ سمجھ رہے تھے ان کے اپنے بھیجے ہوئے آدمی عوام الناس کے ذہن میں یہ بات بٹھاتے پھرتے تھے کہ اگر جادوگر مقابلے میں کامیاب ہوگئے توہم سچے ہوں گے اور اپنے ابا ؤاجداد کے دین ودھرم پر قائم و دائم رہیں گے ورنہ ہمارے دین وایمان کی خیر نہیں اس طرح فرعون نے مقابلے کی خوب تیاری کرلی۔

فَجُمِــــعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۳۸ۙوَّقِیْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ۝۳۹ۙلَعَلَّنَا نَتَّبِـــعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ  ۝۴ [170]

ترجمہ:چنانچہ ایک روزمقررہ وقت پر جادوگراکھٹے کرلئے گئے اورلوگوں سے کہاگیاتم اجتماع میں چلوگے؟ شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگروہ غالب رہے۔

مقابلے کے میدان میں جہاں حق وباطل کامقابلہ دیکھنے کے لئے خلقت ٹوٹی پڑرہی تھی موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں سے کہانظرکی جوشعبدہ بازیاں تم دکھاناچاہتے ہودکھاؤ،یہ ملک کے نامی گرامی جادوگرتھے اورہرکاروں سےسارے حالات سن کراوراسی کے مطابق جادوتیارکرلائے تھےچنانچہ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پرجادوکیااور اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھنکیں جولوگوں کوسانپ بن کرمیدان میں دوڑتے اورلپکتے ہوئے محسوس ہونے لگے ،جیسے فرمایا:

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ۝۱۱۵قَالَ اَلْقُوْا۝۰ۚ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ۝۱۱۶  [171]

ترجمہ:پھرانہوں نے موسی علیہ السلام سے کہاتم پھینکتے ہویاہم پھینکیں ، موسی علیہ السلام نے جواب دیا تم ہی پھینکو،انہوں نے جواپنے انچھر پھینکے تونگاہوں کو مسحور اور دلوں کوخوف ذدہ کردیا اوربڑا ہی زبردست جادوبنالائے۔

حتی کہ موسیٰ علیہ السلام بھی اپنے دل میں خوف زدہ ہوگئے۔

فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَةً مُّوْسٰى۝۶۷ [172]

ترجمہ:اور موسی علیہ السلام اپنے دل میں ڈر گیا ۔

اسی موقع پرموسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں سے کہا جادووہ نہیں جومیں نے دکھایاتھابلکہ جادویہ ہے جو تم نے دکھایا ہے ،اللہ اس فسادکوچشم زدن میں مٹادے گااللہ قادرمطلق مفسدوں کے کام کو سدھرنے نہیں دیتااوراللہ دلائل وبراہین سے ہمیشہ حق کوسربلنداورباطل کوسرنگوں کرتاہے خواہ مجرموں کووہ کتناہی ناگوارہو۔

عَنْ لَیْث -وَهُوَ ابْنُ أَبِی سُلَیْمٍ -قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّ هَؤُلَاءِ الْآیَاتِ شِفَاءٌ مِنَ السِّحْرِ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى، تُقْرَأُ فِی إِنَاءٍ فِیهِ مَاءٌ، ثُمَّ یَصُبُّ عَلَى رَأْسِ الْمَسْحُورِ: الْآیَةُ الَّتِی مِنْ سُورَةِ یُونُسَ: {فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَیُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ وَیُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ} وَالْآیَةُ الْأُخْرَى: {فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ} [173] ، وَقَوْلُهُ {إِنَّمَا صَنَعُوا كَیْدُ سَاحِرٍ وَلا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ أَتَى} [174] .

لیث بن ابی سلیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان آیتوں میں اللہ کے حکم سے جادوکی شفاہے،ایک برتن میں پانی لے کراس پر یہ آیتیں

فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَیُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ وَیُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

اور

فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَس مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝، فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ۝،ۚوَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ۝،ۚۖقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝،ۙرَبِّ مُوْسٰی وَهٰرُوْنَ

اور

إِنَّمَا صَنَعُوا كَیْدُ سَاحِرٍ وَلا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ أَتَى

پڑھ کردم کردی جائیں اورجس پرجادوکردیاگیاہواس کے سر پروہ پانی بہا دیا جائے۔ [175]     

فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن یَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ وَقَالَ مُوسَىٰ یَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِینَ ‎﴿٨٤﴾‏ فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ ‎﴿٨٦﴾‏(یونس)
’’پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے، وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہوجاتا تھا، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم ! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو ، انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا، اے ہمارے پروردگار ! ہم کو ان ظالموں کیلئے فتنہ نہ بنااور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافر لوگوں سے نجات دے ۔‘‘

جادوگرتوحق کوپہچان کراہل ایمان ہوگئے اورمقابلے کے میدان میں بغیرکسی خوف کے اللہ تعالیٰ پراپنے ایمان کااعلان کردیا ،مگرقبطی قوم میں سچ اورجھوٹ کودیکھنے ،جاننے اورچاہنے کے باوجود فرعون جیسے ظالم وجابربادشاہ کے ظلم کے ڈرسے کہ جس کے جور و ستم کی کوئی حد نہیں تھی، اورقوم میں برسراقتدارمنصب داراورلشکروں کے سرداروں کے خوف سے کہ وہ بھی فرعون سے کم نہ تھے اس پرخطردورمیں حق کاساتھ دینے اورعلمبردارحق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرات چند نوجوانوں کے سواکسی نے نہ کی ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَى خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَنْ یَفْتِنَهُمْ} [176]قَالَ: كَانَتِ الذُّرِّیَّةُ الَّتِی آمَنَتْ لِمُوسَى مِنْ أُنَاسٍ غَیْرِ بَنِی إِسْرَائِیلَ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ یَسِیرٌ، مِنْهُمُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمُؤْمِنُ آلَ فِرْعَوْنَ، وَخَازِنُ فِرْعَوْنَ، وَامْرَأَةُ خَازِنِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ ’’پس موسیٰؑ پران کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی آیمان لائے،وہ بھی فرعون سے اوراپنے حکام سے ڈرتے ڈرتےکہ کہیں ان کوتکلیف پہنچائے۔‘‘ کی تفسیرمیں روایت ہے بنی اسرائیل کے علاوہ فرعون کی قوم کے صرف چندلوگ ہی ایمان لائے تھےجن میں فرعون کی بیوی اورمومن آل فرعون اورفرعون کاخازن اوراس خازن کی بیوی بطورخاص قابل ذکرہیں ۔[177]

مگر ماؤں ، باپوں اورقوم کے سن رسیدہ لوگوں کواس کی توفیق نصیب نہ ہوئی، ان پرمصلحت پرستی اوردنیاوی اغراض کی بندگی اورعافیت کوشی چھائی رہی اور وہ حق کاساتھ دینے پرآمادہ نہ ہوئے جس کاراستہ ان کوخطرات سے پرنظرآرہاتھا بلکہ وہ الٹے نوجوانوں ہی کوروکتے رہے کہ موسی علیہ السلام کے قریب بھی نہ جاؤورنہ تم خود بھی فرعون کے غیض وغضب میں مبتلاہو جاؤ گے اورہم پربھی آفت لاؤگے ،فرعون نے اپنی شکست سے جھنجلاکربنی اسرائیل کوشدیدایذائیں دیناشروع کردیں جس پرموسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے کہا:

 قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۔۔۔  [178]

ترجمہ:موسیٰ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اوراب تیرے آنے پربھی ستائے جارہے ہیں ۔

موسٰی نے قوم سے فرمایا اگرتم مسلمان ہواوررب پرایمان رکھتے ہوتوتمہارابھروسہ دنیاکے وسائل اورطاقت پرنہیں بلکہ اس رب پرہوناچاہیے جس کے ہاتھ میں تمام تدابیرہیں جو غیرمحسوس طریقہ پرعمل کرتی ہیں ،اسی کواپناوکیل اورکارسازبناؤوہ ہی تمہاری تکالیف دورفرمائے گاجیسے فرمایا

۔۔۔فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِ۔۔۔ ۝۱۲۳ۧ [179]

ترجمہ:تواسی کی بندگی کر اور اسی پربھروسہ رکھ۔

کیونکہ جوشخص اللہ تعالیٰ پربھروسہ رکھتاہے اللہ اس کےلیے کافی ہوجاتاہے،جیسے فرمایا

اَلَیْسَ اللہُ بِكَافٍ عَبْدَہٗ۔۔۔۝۰۝۳۶ۚ [180]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا للہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ ۔

۔۔۔وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۔۔۔۝۰۝۳ [181]

ترجمہ: جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے ۔

وہ چندنوجوان جوفرعون کے غیض وغضب سے بے خوف ہوکرمسلمان ہوئے تھے اورموسٰی کا ساتھ دینے پرآمادہ ہوئے تھے کہنے لگے ہم نے اللہ رب العالمین پربھروسہ کیا بیشک بھروسہ کرنے والوں کواسی پرہی بھروسہ کرناچاہیے، اوردعاکرنے لگے جواہل ایمان کے لئے ایک بہت بڑا ہتھیار بھی ہے اورسہارا بھی ،رب سے فریادکرنے لگے۔

۔۔۔رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ۝۸۵ۙوَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۝۸۶ [182]

ترجمہ : اے ہمارے رب ! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے ۔

یعنی اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لئے فتنہ نہ بناکہ وہ ہم پرغالب رہ کریہ نہ سمجھنے لگیں کہ اگریہ حق پرہوتے اوروہ باطل پرہوتے توہم پرغالب کیسے رہ سکتے تھے ، اے رب ہم پران کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرنا اورنہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پرنازل فرماناکہ لوگ کہنے لگیں کہ اگرہم مسلمان حق پرہوتے توہم سزائیں کیوں بھگتتے یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے ،اگریہ ہم پر غالب رہے توایسانہ ہوکہ یہ کہیں ہمارے سچے دین سے ہمیں ہٹانے کے لئے کوشش کریں ہمیں ہمارے ایمان ویقین پرثابت قدم رکھناان کے جور وستم کے آگے ہمیں صبر عطا فرمانا اور اے پروردگار اپنی رحمت خاص سے ان کفرومشرک قوم سے ہمیں نجات دے جنہوں نے حق کاانکارکردیا ہے ۔

وَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِیهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوتًا وَاجْعَلُوا بُیُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِینَةً وَأَمْوَالًا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوا عَن سَبِیلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّىٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ ‎﴿٨٨﴾‏قَالَ قَدْ أُجِیبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِیلَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٨٩﴾(یونس)
’’ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لیے مصر میں گھر برقرار رکھو اور تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو اور نماز کے پابند رہو اور آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں ،اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب ! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے، اے ہمارے رب ! (اسی واسطے دیئے ہیں کہ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں ، اے ہمارے رب ! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ،حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، سو تم ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں ۔ ‘‘

مساجدکی تعمیرکاحکم :

بنی اسرائیل قبطی قوم کے غلام تھے ان کے مکانات حکمران قوم کے گھروں سے دورمگرایک جگہ مجتمع نہ تھے بلکہ مصرکے تمام شہروں اورقصبوں میں بٹے ہوئے تھے ، مگرمنف(Mamphis )سے رعمسیس تک کے علاقہ میں ان کی ایک بڑی تعدادآبادتھی جہاں وہ بڑی زبوں حالی کی زندگی گزارتے،حکومت کے تشدد اور خودبنی اسرائیل کے اپنے ضعف ایمانی کی وجہ سے ان کے ہاں نمازباجماعت کانظام ختم ہوچکاتھااوریہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اوران کی دینی روح پرموت طاری ہو جانے کا ایک بہت بڑا سبب تھااس لئے موسٰی کوحکم دیا گیاکہ اس نظام کوازسرنوقائم کریں اورمتفرق طورپراپنی اپنی جگہ نمازپڑھ لینے کے بجائے اجتماعی نمازاداکریں ، رب نے وحی بھیجی کہ اے موسٰی !رب کویادکرنے اوراس کے حضور نیاز جبین جھکانے یعنی نمازادا کرنے کے لئے کچھ مکانات کابندوبست کرواورانہیں مساجدمقررکرلو یہ مساجداسلام کی طاقت کاسرچشمہ ثابت ہونگی اوران کوساری قوم کے لئے مرکز ٹھہراؤ ، اوراپنے گھروں ہی کوقبلہ بناکران میں ہی بے خوف وخطر نمازقائم کروتاکہ تمہیں عبادت کرنے کے لئے کہیں اور جانے کی ضرورت پیش نہ آئے جہاں تمہیں فرعون کے کارندوں کے ظلم وستم کاڈرہو بلکہ مسجدمیں داخل ہوکرتمہارے دل میں یہ خوف پیداہوکہ میں اللہ تعالیٰ کے گھرمیں داخل ہورہا ہوں ،ہماری عظمت کااحساس پیداہواوروہاں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ہماراذکرواذکارکرو،

عَنْ مُجَاهِدٍ:{بُیُوتَكُمْ قِبْلَةً} [183]قَالَ: نَحْوَ الْكَعْبَةِ، حِینَ خَافَ مُوسَى، وَمَنْ مَعَهُ مِنْ فِرْعَوْنَ أَنْ یُصَلُّوا فِی الْكَنَائِسِ الْجَامِعَةِ، فَأُمِرُوا أَنْ یَجْعَلُوا فِی بُیُوتِهِمْ مَسَاجِدَ مُسْتَقْبِلَةَ الْكَعْبَةِ یُصَلُّونَ فِیهَا سِرًّا

مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ بُیُوتَكُمْ قِبْلَةً کی تفسیرمیں فرمایاہےبنی اسرائیل نے جب یہ خوف محسوس کیاکہ فرعون کہیں انہیں کنیسوں میں نمازاداکرتے ہوئے قتل ہی نہ کرادے توانہیں یہ حکم دے دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں ہی کوقبلہ رخ مسجدیں قراردے لیں اوران میں چھپ کرنمازاداکرلیاکریں ۔[184]

اوراپنے پیروکاروں کوہماری طرف سے بشارت دے دوکہ ہم نے تمہاری دعائیں سن کرقبول کرلی ہیں عنقریب یہ کفرومشرک میں مبتلا قوم تباہ وبربادکردی جائے گی اورتم سربلندہوکر آزاد زندگی گزاروگے اور تمہیں کوئی ڈروخوف نہ ہوگا، زمانہ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں جب موسٰی نے دیکھاکہ فرعون اوراس کی قوم پروعظ ونصیحت کاکچھ بھی اثرنہیں ہوااور معجزات دیکھ کربھی ان کے اندرکوئی تبدیلی نہیں آئی توپھران کے حق میں بددعافرمائی اے ہمارے رب !تونے فرعون اوراس کے سرداروں کواس دنیاکی نعمتیں مال واولاد،حکومت کی طاقت وقوت ،رعب ودبدبہ عنایت کر رکھاہے کیایہ اس لئے ہے کہ ان نعمتوں سے وہ تیرے بندوں کوتیری راہ اختیارکرنے سے بھٹکائیں اے میرے رب! جن نعمتوں پروہ اتنااتراگئے ہیں توان کوغارت کردے،تباہ وبربادکردے، اوران کے دلوں پر دائمی مہرثبت فرمادے کہ اب یہ ایمان کی دولت حاصل ہی نہ کرسکیں اوراگریہ ایمان لائیں بھی تودردناک عذاب دیکھنے کے بعدلائیں جوان کے لئے نفع بخش نہ ہو،

نوح علیہ السلام نے بھی اپنی مشرک قوم پربدعاکی تھی۔

 وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا [185]

ترجمہ:اور نوح علیہ السلام نے کہا اے میرے رب! ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ،اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہو ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے جواب دیاتم دونوں کی دعاقبول کی جاتی ہے، تم دونوں بنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تبلیغ ودعوت اورفرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد جاری وساری رکھو میرے فرامین واحکام کے مطابق میری سیدھی راہ پرچلتے رہونمازقائم کرواورجاہل ومشرک لوگوں کے رسم ورواج،قانون کی پیروی ہرگزنہ کرو۔

وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْیًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿٩٠﴾‏ آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٩١﴾‏ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آیَةً ۚ وَإِنَّ كَثِیرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ‎﴿٩٢﴾‏(یونس)
’’اورہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ،(جواب دیا گیا کہ) اب ایمان لاتا ہے ؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا ،سو آج ہم تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔‘‘

فرعون کاغرق ہونا:

اﷲتعالیٰ معجزانہ طریق پرسمندر(بحرقلزم)میں بنے ہوئے بارہ خشک راستوں سے بنی اسرائیل کوبخیروعافیت ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر نکال کرلے گیا ، اتنی دیرتک پانی بلندپہاڑوں کی شکل میں کھڑارہاجب تک کہ لاکھوں بنی اسرائیل(جن میں صرف جنگجوؤں کی تعدادچھ لاکھ تھی) کامہاجرقافلہ اس میں سے گزرنہ گیا، فرعون اور اس کا لشکربھی بنی اسرائیل کو پکڑنےکے لئے کہ شکاربس قریب ہی تھاآؤدیکھانہ تاؤبنی اسرائیل کے تعاقب میں ان سمندری راستوں میں داخل ہوگیا،حالانکہ فرعون کو اتنی تو سمجھ ضرورہوگی کہ سمندرکااس طرح تقسیم ہو کر پہاڑوں کی طرح جم جانااوردرمیان میں کیچڑکی جگہ خشک راستے بن جانااوربنی اسرائیل کوراستہ دے دیناکسی عام انسان کے جادوکی طاقت ہرگزنہیں ہوسکتی ،اس میں یقیناً موسیٰ علیہ السلام کے رب کی قدرت کارفرما ہےمگراس کی فہم وفراست رب نے معطل فرمادی، اس کی زندگی کی مہلت ختم ہونے کوتھی، رب کریم اس کوہمیشہ کے لئے عبرت کی داستان بنانے والاتھا، جب فرعون اوراس کالشکربنی اسرائیل کے تعاقب میں سمندرکے ان بارہ راستوں کے درمیان میں پہنچے تواللہ تعالیٰ نے سمندرکوحسب سابق جاری ہو جانے کا حکم صادر فرمادیاجس کی تلاطم خیزموجوں نے دیکھتے ہی دیکھتے فرعون منفتاح سمیت سارے لشکرکو غرق کردیاجبکہ دوسرے کنارے پرکھڑے بنی اسرائیل قبطیوں کے ڈوبنے کاسارا عبرتناک منظردیکھ رہے تھے (جدید تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ۱۴۴۷ ق م کوپیش آیا)جب فرعون منفتاح (فرعون رعمسیس ثانی کے بیٹے)کواپنی ہلاکت کا یقین ہوگیاتواب اسے اپنے ایمان کی پڑی، کہنے لگامیں اس رب پرایمان لاتاہوں جس پربنی اسرائیل ایمان لائے ہیں بیشک اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورمیں فرماں برداروں میں سے ہوں ،مگرجب اللہ کی گرفت ہوتی ہے توپھراس وقت ایمان لاناکچھ فائدہ نہیں دیتا۔

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَحْدَہٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِہٖ مُشْرِكِیْنَ۝۸۴فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ۝۰ۚ وَخَسِرَ ہُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۵ۧ [186]

ترجمہ:جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں ان سب معبودوں کا جنہیں ہم شریک ٹھہراتے تھے،مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نفع نہ ہو سکتا تھا کیوں کہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔

اللہ تعالیٰ نے جواب دیااب تو تو ہماری گرفت میں آچکاہے اب ایمان لانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا ،جب ایمان لانے کاوقت تھااس وقت تو محض عناد وتکبر کی بنیادپر نافرمانیوں اورفسادانگیزیوں میں مبتلارہااس وقت تجھے عقل نہیں آئی ، اس وقت توتوابلیس کابڑاسرگرم ساتھی تھاوہ تجھے چھوڑکرکہاں چلاگیا،اس کے خوبصورت ، دلفریب وعدے کیا ہوئے اوروہ تیرے بے شمارمعبودکہاں گم ہوگئے جن کی تو عبادت کرتاتھااورلوگوں کوان کی عبادت کا حکم دیتاتھااب توہم صرف تیری لاش کو ہی بچائیں گے تاکہ تجھ جیسے نافرمان اور باغی کی لاش دیکھ کرآنے والی نسلیں عبرت حاصل کریں کہ شک وشبہ میں رہ کر ، ضد وہٹ دھرمی پرقائم رہ کر ، غرور وتکبرسے گردن اونچی کرکے دعوت حق کوقبول نہ کرنے کاانجام کیا ہوتا ہے، اس کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے والوں کے لئے بھی ایک نشانی ہے کہ ظلم وجبر،اس کی قوتیں اورطاقتیں چاہے کیسی ہی چھا جائیں مگراللہ تعالیٰ کاکلمہ ہی سربلند اورباطل ہمیشہ ہی سرنگوں رہتا ہے۔

۔۔۔وَكَلِمَةُ اللہِ ہِىَ الْعُلْیَا۔۔۔ ۝۴۰ [187]

ترجمہ:اور اللہ کا کلمہ تو سربلند ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاان عبرت ناک نشانیوں کودیکھ کربھی ائندہ نسلوں میں ایسے لوگ بھی پیداہوں گے جوہماری نشانیوں سے صرف نظر کریں گے، اس دنیااوراپنی خواہشوں کے بندے بن جائیں گے،رب وحدہ لاشریک کو بھول کرگزشتہ قوموں کی طرح بے شمارباطل معبودگھڑ لیں گے ،ان کے بھی ہرعلاقہ کےاپنے معبودہوں گے،وہ بھی جاہ ومنصب اورطاقت وقوت اورمال ودولت کے نشہ میں غرق ہوکر آخرت کوبھول جائیں گے ، وہ بھی ہماری پاکیزہ تعلیمات کومٹانے پر کمر بستہ ہوں گے اور شرک وکفر،فحاشی وبدکاری پھیلانے پرمسروروشاداں ہوں گے مگرانہیں گزشتہ اقوام سے یہ سبق ضرورحاصل کرلینا چاہیے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سواہرچیزکوفناہے ،جومظلوموں کے ساتھ ہے اگروہ صرف اللہ تعالیٰ پربھروسہ کریں ،اس کے دین کی اشاعت ونفاذکے لئے نکلیں ،اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں اس پر صبروصلواة کے ساتھ اس قادرمطلق سے مدد مانگیں تو وہ ہمیشہ حق کو سربلند اور باطل کوہمیشہ مٹاکرعبرت انگیزبنادیتاہے۔

(فرعون کے غرق ہونے کے بعدلوگوں کواس کی لاش پانی میں تیرتی ہوئی ملی،جہاں سے یہ لاش ملی اس مقام کوجبل فرعون کہتے ہیں ،دستورکے مطابق ہرفرعون کو قیمتی جواہرات اورضرورت کی اشیاء کے ہمراہ علیحدہ مقبرہ میں دفن کیاجاتاتھامگراس فرعون کوپانی سے نکال کرعجلت میں فرعون امنحوتب کے مقبرہ میں دفن کردیاگیا، اس مغرور ومردودفرعون منفتاح کی لاش پرسے ۱۹۰۷ء میں سرگرافٹن ایلٹ سمتھ نے اس کی ممی (مومیا)پرسے پٹیاں کھولی تھیں تواس کی لاش پر کافی سمندری نمک لگاہوا تھا اورناک کے سامنے کے حصہ کے علاوہ محفوظ تھی جومصری عجائب خانہ ( قاہرہ )میں رکھی ہوئی اپنی بے بسی ولاچاری کا اعلان کرتی رہی، پھربرٹش میوزیم بھجوادی گئی ۔

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ یَقْضِی بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿٩٣﴾‏ فَإِن كُنتَ فِی شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَیْكَ فَاسْأَلِ الَّذِینَ یَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ ‎﴿٩٤﴾‏ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِ اللَّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٩٥﴾‏
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ہم نے انھیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں ، سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم پہنچ گیا ،یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ کرے گا جن پر وہ اختلاف کرتے تھے، پھر اگر آپ اس کی طرف سے شک میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو آپ سے پہلی کتابوں کو پڑھتے ہیں ، بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے، آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ، اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا، کہیں آپ خسارہ پانے والوں میں سے نہ ہوجائیں ۔‘‘

بنی اسرائیل پراللہ کے انعامات :

فرعون کی غلامی سے نجات دے کرہم نے بنی اسرائیل کوشام اورفلسطین کے آس پاس بہت اچھاٹھکانادیاورانہیں نہایت عمدہ وسائل زندگی عطاکیے،مگردین میں صاف صاف ہدایتوں کے باوجود انہوں نےخواہشات نفس اوراغراض کے پیچھے لگ کر دین میں اختلاف شروع کردیااورنئے نئے عقائدبناکروہ فرقوں میں تقسیم ہوگئے، ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ،روزقیامت یقیناً تیرا رب ان کے اختلافات کافیصلہ فرمادے گا ،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَكَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ۝۰ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۝۱۵۹ [188]

ترجمہ:جن لوگوں نے دین کوٹکڑے ٹکڑے کردیااورگروہ گروہ بن گئے یقیناًان سے تمہاراکچھ واسطہ نہیں ان کامعاملہ تواللہ کے سپردہے وہی ان کوبتائے گاکہ انہوں نے کیا کچھ کیاہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ان لوگوں کوجودعوت حق کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلاتھے فرمایااب اگرتمہیں اس قرآن کے منزل من اللہ ہونےکے بارے میں کچھ بھی شک ہو توتورات وانجیل کے حامل منصف مزاج لوگوں سے پوچھ لو وہ اس امرکی تصدیق کریں گے کہ قرآن اسی چیزکی دعوت دے رہاہے جوپچھلے تمام انبیاء دیتے رہے ہیں ،فی الواقع تیرے اوپر رب العالمین کی طرف سے حق ہی نازل ہواہے،لہذاتوشک کرنے والوں میں سے نہ ہواوران لوگوں میں نہ شامل ہوجنہوں نے اللہ کی آیات کوجھٹلادیاہےورنہ تونقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آیَةٍ حَتَّىٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ ‎﴿٩٧﴾‏فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِیمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿٩٨﴾‏(یونس)
’’یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے،گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ،چنانچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے، جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا، اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لیے زندگی سے فائدہ اٹھانے (کا موقع )دیا۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ جوکفرومعصیت الٰہی میں اتنے غرق ہوچکے ہیں کہ ان میں قبول حق کی فطری استعدادوصلاحیت ختم ہوچکی ہے اس لئے کوئی وعظ ونصیحت ،کوئی دلیل و براہین ان پراثرنہیں کرتی،اس لیے اللہ تعالیٰ کی قضاوقدرمیں مقدرہوچکاہے کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے ،اللہ تعالیٰ نے ہربستی میں انسانوں پر اتمام حجت کے لئے بشر رسولوں کو کھڑا کیا مگر کوئی بستی بھی ان پراوران کی دعوت حقہ پر ایمان نہ لائی جوان کے لئے دنیا و آخرت میں فائدہ مندہوتااورہرقوم بالآخراپنی سرکشی ،غروروتکبرکی وجہ سے رب کے عذاب کی مستحق بنی اور انہیں عبرت کانشان بنادیاگیا،جیسے فرمایا:

یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ۝۰ۚؗ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۰   [189]

ترجمہ: افسوس! بندوں کے حال پر جورسول بھی ان کے پاس آیااس کاوہ مذاق ہی اڑاتے رہے ۔

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۵۲ۚ [190]

ترجمہ:یونہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون ۔

حَدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عُرِضَتْ عَلَیَّ الأُمَمُ، فَأَخَذَ النَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ الأُمَّةُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ العَشَرَةُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ الخَمْسَةُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ وَحْدَهُ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ كَثِیرٌ، قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ، هَؤُلاَءِ أُمَّتِی؟ قَالَ: لاَ، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ كَثِیرٌ، قَالَ: هَؤُلاَءِ أُمَّتُكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے سامنے امتیں پیش کی گئیں ،کسی نبی کے ساتھ توپوری امت گزری،کسی کے ساتھ چندآدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ دس آدمی گزرے،کسی نبی کے ساتھ پانچ آدمی گزرےاورکوئی نبی تنہاگزرا،اتنے میں ایک بڑاگروہ آیامیں سمجھاکہ یہ میری امت ہے، میں نے پوچھااے جبریل علیہ السلام کیایہ میری امت ہے؟انہوں نے کہانہیں یہ موسیٰ علیہ السلام اوران کی امت ہے،آپ آسمان کے کنارے کی طرف دیکھیں میں نے دیکھاتوایک اوربڑاگروہ تھا مجھ سے کہاگیاکہ اب دوسرے کنارے کی طرف دیکھیں دیکھاتوایک اوربڑاگروہ ہے،مجھ سے کہاگیایہ آپ کی امت ہے۔[191]

البتہ ان ہزاروں قوموں میں صرف یونس علیہ السلام کی قوم جوموصل کی بستی نینوٰی میں رہتی تھی دنیا میں واحدمثا ل ہے کہ انہوں نے بھی دعوت حقہ اوررسول کا انکار کیا تویونس علیہ السلام نے اپنی قوم میں اعلان کردیاکہ فلاں دن تم پرعذاب نازل ہوجائے گااوراللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیرخودوہاں سے چلے گئے، یونس علیہ السلام کے کہنے کے مطابق اسی گھڑی میں اللہ تعالیٰ کاعذاب بادل کی طرح امنڈآیا،عذاب کے ابتدائی آثاردیکھ کرآشوری ڈر گئے،اور اپنے بچوں ،عورتوں حتیٰ کہ جانوروں کولیکر ایک میدان میں جمع ہوگئے اور سب کے سب لوگوں نے باطل معبودوں سے تائب ہوکررب حقیقی کی الوہیت وربوبیت کااقرار کر لیا اوربارگاہ الہٰی میں عاجزی وانکساری سے توبہ واستغفارشروع کردیا، عذاب دیکھ کرایمان لانانافع نہیں ہوتالیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت وحکمت سے آشوریوں کے توبہ واستغفاراورایمان کوقبول فرمایااورانہیں اپنے اس قانون سے مستثنیٰ کردیا،چونکہ یونس علیہ السلام دعوت دین کی حجت قائم ہونے سے پہلے ہی بغیراذن اللہ ہجرت کرگئے تھے اور رب کریم اس وقت اپناعذاب نازل نہیں فرماتا جب تک اتمام حجت قائم نہ ہوجائےاس بناپراللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف نے اس قوم کوعذاب دیناپسندنہ فرمایااور ان لوگوں کی توبہ قبول فرماکران سے دنیاوی رسوائی کاعذاب ٹال دیااورموت کی گھڑیوں تک دنیاوی فائدے بھی دیئے جن سے وہ بہرہ مندہوئے،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ:{فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِیمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِینٍ} [192]یَقُولُ: لَمْ یَكُنْ هَذَا فِی الْأُمَمِ قَبْلَهُمْ لَمْ یَنْفَعْ قَرْیَةٌ كَفَرَتْ ثُمَّ آمَنَتْ حِینَ حَضَرَهَا الْعَذَابُ فَتُرِكَتْ، إِلَّا قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا فَقَدُوا نَبِیِّهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ الْعَذَابَ قَدْ دَنَا مِنْهُمْ، قَذَفَ اللَّهُ فِی قُلُوبِهِمُ التَّوْبَةَ وَلَبِسُوا الْمُسُوحَ وَأَلْهَوْا بَیْنَ كُلِّ بَهِیمَةٍ وَوَلَدِهَا، ثُم عَجُّوا إِلَى اللَّهِ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً. فَلَمَّا عَرَفَ اللَّهُ الصِّدْقَ مِنْ قُلُوبِهِمْ، وَالتَّوْبَةَ، وَالنَّدَامَةَ عَلَى مَا مَضَى مِنْهُمْ، كَشَفَ اللَّهُ عَنْهُمُ الْعَذَابَ بَعْدَ أَنْ تَدَلَّى عَلَیْهِمْ.

قتادہ رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ ’’چنانچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانااس کونافع ہوتاسوائے یونس ؑکی قوم کے،جب وہ ایمان لے آئے توہم نے رسوائی کے عذاب کودنیاوی زمدگی میں ان پرسے ٹال دیااوران کوایک وقت(خاص)تک کے لیے زندگی سے فائدہ اٹھانے(کاموقع)دیا۔‘‘کی تفسیرمیں لکھاہے قوم یونس کے سواایسی اورکوئی قوم نہیں کہ اس نے پہلے کفرکیاہواورعذاب الٰہی کودیکھنے کے بعدایمان لائی ہواوراسے چھوڑ دیا گیا ہواوراس کے ایمان نے اسے نفع دیاہو،قوم یونس نے جب یہ دیکھاکہ ان کے نبی موجودنہیں ہیں اوراللہ کاعذاب قریب آگیاہے تواللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ اب ان کے لیے توبہ کے سوااورکوئی چارہ کارہی نہیں ہے توانہوں نے پھٹے پرانے کپڑے پہن لیے اور جانوروں کوان کے بچوں سے الگ کردیااورچالیس دن اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتے اور فریادیں کرتے رہے، جب اللہ تعالیٰ کومعلوم ہوگیاکہ یہ لوگ اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کے لیے صدق دل سے توبہ اورندامت کا اظہار کر رہے ہیں تواللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پرمنڈلاتے ہوئے عذاب کودورفرمادیا۔[193]

چنانچہ رب کریم نے فرمایا اگردوسری قومیں بھی اپنی گمراہی سے تائب ہوکر ہمارے حضورجھک جاتیں توہم انہیں بھی اپنی رحمت سے معاف فرمادیتے،مگروقت کے ساتھ ساتھ آشوریوں نے جنہوں نے اللہ کے عذاب کواپنی آنکھوں سے دیکھاتھا شرک اوربداخلاقیوں میں مبتلاہوگئی،آشوریوں (اسیریا) کے اس وقت کے نبی ناحوم (۷۲۰ قبل مسیح تا۶۹۸ قبل مسیح)نے انہیں راہ راست پررکھنے کی بڑی کوشش کی مگران کی آنکھوں پرابلیس نے ایسی پٹی باندھی تھی کہ وہ متنبہ نہ ہوئے،اللہ تعالیٰ نے ایک اورنبی جن کا نام صفنیاہ(۶۴۰ قبل مسیح تا۶۰۹ قبل مسیح)بیان کیاجاتاہے ان کی طرف مبعوث فرمایااپنے پیشروکی طرح انہوں نے بھی اس قوم کوہرطور صراط مستقیم پرلانے کی جدوجہدکی مگرقوم کی آنکھیں اورکان بہرے ہوگئے ،چنانچہ اللہ نے ان کے دلوں پرمہرثبت کر دی،آخرایک لمبی مدت تک مہلت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ۶۰۲ ق م میں میڈیاوالوں کی شکل میں ان پر عذاب بھیجا، میڈیا کا بادشاہ شاہ بابل کی مددوقوت جمع کرکے آشوریوں کے علاقوں پرچڑھ دوڑا،آشوری اتنی بڑی طاقت وقوت سے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور شکست کھاکراپنے پایہ تخت نینویٰ جو۶۰میل کے دورمیں پھیلاہواتھا میں محصور ہو کر میڈیا والوں کامقابلہ کرتے رہے مگرکب تک جب اللہ تعالیٰ نے ان کومٹانا چاہا تو دریائے دجلہ میں طغیانی آگئی جس سے شہرپناہ کی دیوارٹوٹ گئی جس سے میڈیاوالوں کو شہرمیں داخل ہونے کاموقعہ مل گیا، میڈیاوالوں نے ہزاروں آشوریوں کوتہہ تیغ کر کے پورے شہراورآس پاس کے علاقوں کوآگ لگادی،بادشاہ سلامت کو فرار کا موقعہ نہ مل سکا،میڈیاوالوں کے ہاتھوں گرفتارہوکرتہہ تیغ ہونایا تنگ وتاریک زنداں میں ذلت کی زندگی گزارناناپسند کرکے اس نے خودہی اپنے محل کوآگ لگادی اور جل کرہلاک ہوگیا ،اس تباہی کے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آشوریوں کی سلطنت اوران کاتہذیب وتمدن ہمیشہ کے لئے عبرت نگاہ بنادیا۔

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ یَكُونُوا مُؤْمِنِینَ ‎﴿٩٩﴾‏ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِینَ لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿١٠٠﴾(یونس)
’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہوجائیں ، حالانکہ کسی شخص کا ایمان لانا اللہ کے حکم کے بغیر ممکن نہیں ، اور اللہ تعالیٰ بےعقل لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدیدخواہش تھی کہ سب لوگ طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکردین حق قبول لیں ،اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگرتیرے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں سب ایک ہی دین پرکاربنداور اطاعت گزارہی ہوں اورکفرونافرمانی کاسرے سے کوئی وجودنہ ہوتواللہ تعالیٰ کوایساکرنے کی پوری قدرت رکھتاہے ، جیسے فرمایا:

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ۝۱۱۸ۙاِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ۝۰ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَہُمْ۝۰ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۝۱۱۹ [194]

ترجمہ:بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بےراہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے، اسی (آزادی انتخاب و اختیاراورامتحان) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جن اور انسانوں سے بھر دوں گا۔

۔۔۔اَفَلَمْ یَایْــــــَٔـسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ یَشَاۗءُ اللہُ لَہَدَى النَّاسَ جَمِیْعًا۔۔۔۝۳۱ۧ [195]

ترجمہ:پھر کیا اہل ایمان مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟ ۔

مگریہ اس کی حکمت ومصلحت کاتقاضاہے کہ ان میں سے بعض لوگ ایمان لائیں اوربعض لوگ کافررہیں ،پھرکیاآپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ دعوت حقہ پر ایمان لے آئیں ؟ یعنی آپ اس پرقدرت رکھتے ہیں نہ آپ کے بس میں ہے اورنہ یہ چیزغیراللہ کے اختیاروقدرت میں ہے ،ہدایت وضلالت اللہ کے اختیارمیں ہے ،اس کی مشیت وارادہ کے بغیرکوئی متنفس ایمان نہیں لاسکتا اورنہ ہی راہ راست اختیارکرسکتاہے،جیسے فرمایا:

اِنَّكَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۝۵۶ [196]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتےمگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

۔۔۔فَاِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَاۗءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۸ [197]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔۔۝۲۷۲ [198]

ترجمہ:اے نبی ! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمّے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔

پس بندوں میں سے جواس کے قبول کرنے کے قابل ہوتاہے توایمان اس کے پاس پھلتاپھولتاہے ،اللہ اس کوتوفیق سے نوازتا اوراس کی رہنمائی فرماتاہے اس لئے اگریہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے توکیاتم خودکوہلاک کرڈالوگے ،جیسے فرمایا

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۝۳ [199]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اللہ کاطریقہ یہ ہے کہ جولوگ حق کے طالب بن کر اللہ کی آیات پر غوروتدبرنہیں کرتے،اللہ کے اوامرونواہی اوراس کے نصائح ومواعظ پرکان نہیں دہرتے ،تعصبات کے پھندوں سے نکلناہی نہیں چاہتے اورخودکونجاستوں کااہل بناتے ہیں تو اللہ ان کے نصیب میں یہی لکھ دیتاہے اوروہ عذاب کے مستحق قرارپاتے ہیں ۔

قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٠١﴾‏ فَهَلْ یَنتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَیَّامِ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِهِمْ ۚ قُلْ فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِینَ ‎﴿١٠٢﴾‏ ثُمَّ نُنَجِّی رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٠٣﴾(یونس)
’’آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں ،اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں ،سو وہ لوگ صرف ان لوگوں کے سے واقعات کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ اچھا تو تم انتظار میں رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں ، پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں ۔‘‘

دعوت غوروفکر:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں کوجومعجزات کامطالبہ کرتے ہیں ان سے کہواللہ تعالیٰ نے زمین وآسمانوں اوران کے درمیان جوکچھ تخلیق کیا ہے انہیں تفکراورعبرت کی آنکھوں سے دیکھوتوتمہیں ہرسوبے حدوحساب نشانیاں پھیلی ہوئی نظرآئیں گی جواس پردلالت کرتی ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبودمحمودہے،وہی صاحب جلال واکرام اور عظیم اسماء وصفات کامالک ہے ،ذراآنکھیں کھول کردیکھوکیابغیرستونوں کے بلندوبالاآسمان اوراس کی وسعت اللہ کی نشانی نہیں ہے،کیاآسمان کے نیچے دہکتاروشن سورج اورمیٹھی روشنی والا چانداللہ کی نشانی نہیں ہے ،کیادن ورات کااختلاف اللہ کی نشانی نہیں ہیں ،کبھی دن کاچھوٹاہونااورکبھی راتوں کاچھوٹاہوناکیااللہ کی نشانی نہیں ہے ،کیامختلف موسموں کابدلنااورموسم کے حساب سے نباتات کاپیداہونااللہ کی نشانی نہیں ہے ،آسمان سے بارش کابرسنااوراس ایک پانی سے مردہ زمین کاہرابھراہونااورطرح طرح کے نباتات اورمختلف ذائقوں ،رنگوں اورخوشبودار پھل ومیوہ جات پیداکرنااللہ کی نشانی نہیں ہے، دریاؤں کابلندیوں سے بہنااورسمندرمیں کھاری پانی کے ساتھ میٹھاپانی بہنااللہ کی نشانی نہیں ہے،کیاچھوٹی بڑی کشتیوں کاپانی پرتیرنااللہ کی نشانی نہیں ہے ، زمین پرچلنے والے پالتو جانور،جنگلوں میں طرح طرح کے درندے ،بے شماررنگ برنگے حشرات الارض،ہوامیں اڑتے رنگارنگ پرندے اوردریاؤں اورسمندروں کی مخلوقات کیااللہ کی نشانی نہیں ہیں ، مگرجولوگ ہرطرح کے دلائل وبراہین اورنشانیوں کودیکھنے کے باوجود ایمان لاناہی نہیں چاہتے،جن میں طلب حق اورقبول حق کی آمادگی ہی نہیں ہے، ان کے لئے نشانیاں اوردھمکیاں آخرکیامفید ہو سکتی ہیں ،اب کیا یہ لوگ اس بات کے منتظرہیں کہ ان پربھی اسی طرح عذاب نازل کرکے ہلاک کردیاجائے جس طرح پچھلی قوموں کوہلاک کیاجاچکاہے، اگراسی بات کاانتظارہے توتم اللہ کے فیصلے کاانتظار کرومیں بھی تمہارے ساتھ منتظرہوں ،ایسے لوگوں کی آنکھیں اس وقت کھلاکرتی ہیں جب اللہ کاقہروغضب اپنی ہولناک سخت گیری کے ساتھ ان پرٹوٹ پڑتاہے ،جیسے فرعون نے ڈوبتے وقت اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا۔

 حَتّٰٓی اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰ [200]

یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔

اس وقت ہم اپنی سنت کے مطابق اپنے رسولوں کواوراہل ایمان کواس عذاب سے بچالیاکرتے ہیں ،اورہم پریہ واجب ہے کہ مومنوں کوہم نجات دیں گے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ فِی كِتَابِهِ وَهُوَ یَكْتُبُ عَلَى نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَى العَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کوپیداکیاتواپنی کتاب میں اسے لکھا،اس نے اپنی ذات کے

متعلق بھی لکھااوریہ اب بھی عرش پر لکھا ہوا موجودہے کہ میری رحمت میرے غضب پرغالب ہے۔[201]

قُلْ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِی شَكٍّ مِّن دِینِی فَلَا أَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِی یَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٠٤﴾‏ وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّینِ حَنِیفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِینَ ‎﴿١٠٥﴾‏ وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَنفَعُكَ وَلَا یَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٠٦﴾‏وَإِن یَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن یُرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ یُصِیبُ بِهِ مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٠٧﴾(یونس)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک میں ہو تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، لیکن ہاں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے، اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں ،اور یہ کہ اپنا رخ یکسو ہو کر (اس) دین کی طرف کرلینا اور کبھی مشرکوں میں سے نہ ہونا، اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے، پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ،اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہیے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں ، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

جس مضمون کوشروع میں بیان کیاگیاتھااسی پرختم کرتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ببانگ دھل اعلان کردو کہ لوگو!اگرتم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہوتو سن لوکہ تم اللہ کے سواجن خودساختہ ہستیوں کی بندگی واطاعت کرتے ہومیں ان کی بندگی نہیں کرتا۔

لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ [202]

ترجمہ:میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔

کیونکہ نہ یہ پیداکرسکتے ہیں اورنہ موت پران کوقدرت ہےاورنہ ہی مرے ہوئے کوزندہ کرسکتے ہیں ، نہ یہ کسی کو رزق دےسکتے ہیں اورنہ اللہ کاعطافرمایاہوارزق روک سکتے ہیں اورنہ ہی تدبیرکائنات میں ان کاکوئی اختیارہے ،بلکہ میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرتاہوں جوکائنات کاخالق ومالک اوررازق ہے، جس کے قبضے میں تمہاری موت وحیات ہے،جس نے یہ عظیم الشان کائنات تخلیق کی ہے اوراس میں صرف اسی کاحکم چلتاہےاوریوم الدین کواسی کی طرف تم جمع ہونے والے ہو،پس وہی اکیلا اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اوراسی کے سامنے سجدہ ریزہواجائے ،اسی سے اپنی فریادیں اورالتجائیں کی جائیں اوراسی پربھروسہ رکھاجائے،خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہے مگراصل مخاطب امت محمدیہ ہے کہ مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں کامل ایمان لانے والوں میں سے ہوں اورمجھ سے فرمایاگیاہے کہ میں ہرطرف سے منہ موڑ کر مکمل طورپر اس دین پرقائم ہوجاؤں اورہرگزہرگزان لوگوں میں ہرگزشامل نہ ہوں جواللہ کی ذات وصفات اس کے حقوق واختیارات اورافعال میں دوسروں کوشریک کرتے ہیں اوریہ کہ اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑ کرکسی ایسی ہستی کونہ پکاروں جومجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان،جوخوداپنی زندگی وموت پربھی اقتدارنہیں رکھتے کجاکسی اورکی زندگی وموت کے مختارہوں ،اگرمیں ایساکروں گا توظالموں میں سے ہوجاؤں گا،اگراللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے توخوداس کے سواکوئی نہیں جواس مصیبت کوٹال دے اوراگروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کاارادہ کرے تواس کے فضل کوپھیرنے والابھی کوئی نہیں ہے،جیسے فرمایا:

مَا یَفْتَحِ اللهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا۝۰ۚ وَمَا یُمْسِكْ۝۰ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ۔۔۔۝۰۝۲ [203]

ترجمہ:اللہ جس رحمت کادروازہ بھی لوگوں کے لئے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اورجسے وہ بندکردے اسے اللہ کے بعدپھرکوئی دوسراکھولنے والا نہیں ۔

وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتاہے اعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے فضل سے نوازتاہے اور وہ درگزرکرنے والااوررحم فرمانے والاہے۔

قُلْ یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَیْكُم بِوَكِیلٍ ‎﴿١٠٨﴾‏ وَاتَّبِعْ مَا یُوحَىٰ إِلَیْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ یَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَیْرُ الْحَاكِمِینَ ‎﴿١٠٩﴾‏(یونس)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے، اس لیے جو شخص راہ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہ راست پر آئے گا اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا، اور آپ اس کااتباع کرتے رہیے جو کچھ آپ کے پاس وحی بھیجی جاتی ہے اور صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ہے ۔‘‘

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہہ دوکہ لوگوتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے جلیل القدرکلام قرآن کریم آچکاہے جوحق وباطل کے درمیان واضح فرق اورہدایت کی طرف رہنمائی کرتاہے ،اب جو راہ راست اختیارکرے اس کی راست روی اسی کے لئے فائدہ مند ہےاوروہ روزقیامت اللہ کے عذاب سے بچ جائے گااور جوگمراہی کی راہ اختیارکرے گا اس کاوبال اسی پرپڑے گااورروزقیامت جہنم کے درناک عذاب کامستحق ہوگا ، یعنی اگرکوئی راہ راست اختیارکرتاہے تواس سے اللہ کی طاقت میں اضافہ نہیں ہوجائے گا اور اگرکوئی کفروضلالت اختیارکرتاہے تو اس کی حکومت وطاقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا،اورمیں ایک داعی ہوں میراکام اہل ایمان کوخوشخبری دینااورنافرمانوں کواللہ کے عذاب سے ڈراناہے میں اس بات کامکلف نہیں ہوں کہ تمہارے اعمال کی نگرانی کروں اوران کاحساب کتاب رکھوں ،اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤجو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جارہی ہے ،وہ جس چیز سے روکاجائے رک جائیں اورکسی چیزمیں کوتاہی نہ کریں ،اوروحی کی اطاعت واتباع میں جوتکالیف آئیں ، مخالفین کی طرف سے جوایذائیں پہنچیں اوردعوت حق کی راہ میں جن دشواریوں سے گزرناپڑے ان پر صبر کریں اورثابت قدمی سے سب کامقابلہ کریں ،یہاں تک کہ اللہ آپ کے اورآپ کی تکذیب کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کردے اوراس کافیصلہ کامل عدل وانصاف پرمبنی ہے جوقابل تعریف ہے ۔

[1] التغابن۶

[2] الاعراف۶۹

[3] ص ۵

[4] یونس: 2 .

[5] تفسیرطبری۱۳؍۱۵

[6] تفسیرابن کثیر۲۴۶؍۴

[7] الاعراف۵۴

[8] البقرة۲۵۵

[9] الانبیائ۲۸

[10] النجم۲۶

[11] سبا۲۳

[12] الروم۲۷

[13] ص۵۷،۵۸

[14] الرحمٰن۴۳،۴۴

[15] یٰسین۳۹

[16](یٰسین۳۸)

[17] الانعام۹۶

[18] ص۲۷

[19] المومنون۱۱۵،۱۱۶

[20] الاعراف۵۴

[21] یوسف۱۰۵

[22] یونس۱۰۱

[23] سبا۹

[24] آل عمران۱۹۰

[25] صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعیمھابَابٌ فِی صِفَاتِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِهَا وَتَسْبِیحِهِمْ فِیهَا بُكْرَةً وَعَشِیًّا۷۱۵۲،مسندابی یعلی ۱۹۰۶

[26] الاحزاب۴۴

[27] الواقعة۲۵،۲۶

[28] یٰسین۵۸

[29] الرعد۲۳،۲۴

[30] بنی اسرائیل ۱۱

[31] سنن ابوداودکتاب الوتربَابُ النَّهْیِ عَنْ أَنْ یَدْعُوَ الْإِنْسَانُ عَلَى أَهْلِهِ وَمَالِهِ۱۵۳۲ ،صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ حَدِیثِ جَابِرٍ الطَّوِیلِ وَقِصَّةِ أَبِی الْیَسَرِ ۷۵۱۵،صحیح ابن حبان ۵۷۴۲

[32] تفسیرطبری۳۴؍۱۵

[33] حم السجدة۵۱

[34] ھود۱۱

[35]صحیح ابن حبان ۲۸۹۶،صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ۷۵۰۰، مسند احمد۲۳۹۳۰، المعجم الاوسط ۳۸۴۹،شعب الایمان ۴۱۶۹،سنن الدارمی ۲۸۱۹

[36] صحیح مسلم کتاب الذکر والدعا الرقاق بَابُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْفُقَرَاءُ وَأَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءُ وَبَیَانِ الْفِتْنَةِ بِالنِّسَاءِ ۶۹۴۸،شعب الایمان۵۰۲۹

[37] یونس: 14

[38] تفسیرطبری۳۹؍۱۵

[39] بنی اسرائیل۷۳تا۷۵

[40]۔الانعام۵۰

[41] الاعراف۲۰۳

[42] الاحزاب۲

[43] الاحقاف۹

[44] البقرة۲۰۸

[45] صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۷،صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ یَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ۴۶۰۷

[46] سنن ابن ماجہ کتاب الطعمة باب بَابُ إِطْعَامِ الطَّعَامِ ۳۲۵۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب حدیث افشوالسلام۲۴۸۵

[47] الانعام۹۳

[48] مسندالبزار۱۷۲۸

[49] الحج۶۲

[50] تفسیر طبری ۲۷۵؍۴

[51] ابن ہشام۲۹۶؍۱،الروض الانف۶۴؍۳

[52] الفرقان۱۰،۱۱

[53] الحجر۱۴،۱۵

[54] الطور۴۴

[55] الانعام ۷

[56] الانعام۱۱۱

[57] الزمر۸

[58] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ یَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ۸۴۶، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كُفْرِ مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِالنَّوْءِ ۲۳۱،مسنداحمد۱۷۰۶۱،السنن الکبری للبیہقی ۳۰۳۰

[59] بنی اسرائیل۶۷

[60] السنن الکبری للنسائی۳۵۱۶،دلائل النبوة للبیہقی ۵۸؍۵، البدایة والنہایة۳۴۱؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۲۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۵۶۵؍۳

[61] سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ البَغْیِ۴۹۰۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب یدخلون الجنة بغیر حساب۲۵۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْبَغْیِ ۴۲۱۱

[62] تفسیرطبری۵۸؍۱۵

[63] الکہف۴۵

[64] الزمر۲۱

[65] الحدید۲۰

[66] صحیح مسلم کتاب صفات المافقین بَابُ صَبْغِ أَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْیَا فِی النَّارِ وَصَبْغِ أَشَدِّهِمْ بُؤْسًا فِی الْجَنَّةِ ۷۰۸۸، مسنداحمد۱۳۱۱۲،شرح السنة للبغوی ۴۴۰۴

[67] تفسیرطبری۶۱؍۱۵

[68] مسنداحمد۲۱۷۲۱،شعب الایمان ۳۱۳۹

[69] الرحمٰن۶۰

[70] آل عمران۱۰۶

[71] عبس ۳۸ ، ۳۹

[72] المطففین۲۴

[73] الدھر۱۱

[74] القیامة۲۲،۲۳

[75] مسنداحمد۱۸۹۳۵، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْیَةِ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى ۴۴۹،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَةِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ۲۵۵۲،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۸۷

[76] الشوری۴۵

[77] ابراہیم۴۲،۴۳

[78] القیامة۱۰تا۱۲

[79] آل عمران۱۰۶،۱۰۷

[80] عبس۳۸تا۴۰

[81] الکہف۴۷

[82] یٰسین۵۹

[83] الروم۱۴

[84] الروم۴۳

[85] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ۷۴۳۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ ۴۵۱

[86] مریم۸۲

[87] البقرة۱۶۶

[88] یٰسین۶۰

[89] الاحقاف۵،۶

[90] الملک۲۱

[91] الانعام۴۶

[92] الفرقان۳

[93] الزمر۷۱

[94] الملک۲۲

[95] حم السجدة۴۲

[96] ھود ۱۳

[97]بنی اسرائیل ۸۸

[98] البقرة۲۴

[99] شرح السنة للبغوی۳۶۱۵، صحیح بخاری كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابٌ كَیْفَ نَزَلَ الوَحْیُ، وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ ۴۹۸۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِه ِ۳۸۵، مسنداحمد۹۸۲۸

[100] الکافرون۱تا۶

[101] الممتحنة۴

[102] حم السجدة۴۶

[103] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲،مسندالبزار۴۰۵۳،شرح السنة للبغوی ۱۲۹۱

[104] النازعات ۴۶

[105] طہ۱۰۲تا۱۰۴

[106] الروم۵۵،۵۶

[107] المومنون۱۱۲تا۱۱۴

[108] المطففین۱۰

[109] الزمر۱۵

[110] النحل۴۵تا۴۷

[111] بنی اسرائیل۶۸

[112] الملک۱۶

[113] بنی اسرائیل۱۵

[114] الزمر۶۹

[115] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ یَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ وَغَیْرِهِمْ؟۸۹۶ ، صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ هِدَایَةِ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِیَوْمِ الْجُمُعَةِ۱۹۸۲، مسند احمد ۷۷۰۶1

[116] المنافقون۱۱

[117] السجدة۱۲

[118] المومن۸۴،۸۵

[119] الطور۱۳تا۱۶

[120] سبا۳

[121]التغابن۷

[122] البقرة۱۱۷

[123] آل عمران۴۷

[124] الانعام۷۳

[125] النحل۴۰

[126] مریم۳۵

[127] یٰسین۸۲

[128] المومن۶۸

[129] الفرقان۲۷تا۲۹

[130] بنی اسرائیل۸۲

[131] حم السجدة۴۴

[132] البقرة۲

[133] الزمر۶۰

[134] مسنداحمد۱۵۸۸۷،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی غَسْلِ الثَّوْبِ وَفِی الْخُلْقَانِ۴۰۶۳،سنن نسائی کتاب الزینة باب الْجَلَاجِلُ ۵۲۲۵

[135]مسنداحمد۹۵۰۱،صحیح بخاری کتاب الایمانبَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ۵۰، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَان َبَابٌ الْإِیمَانُ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ۹۷

[136] الانعام۵۹

[137] الانعام۳۸

[138] ھود۶

[139] الحج۷۰

[140] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ یُونُسَ۳۱۰۶،مسنداحمد۲۷۵۱۰

[141] یونس: 62

[142] تفسیر طبری ۱۲۱؍۱۵، سنن ابوداودأَبْوَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِی الرَّهْنِ ۳۵۲۷عن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب

[143] حم السجدہ ۳۰،۳۱

[144] الانبیائ۱۰۱تا۱۰۳

[145] الحدید ۱۲

[146] فاطر۴۳

[147] فاطر۱۰

[148] المنافقون۸

[149] النجم۲۸

[150] التوبة۳۰

[151] النحل ۵۷

[152] النجم۲۱،۲۲

[153] الانبیائ۲۶

[154] مریم۸۸تا۹۵

[155] آل عمران۱۱۷

[156] ھود۵۴تا۵۶

[157] البقرة۱۳۶

[158] المائدة ۴۴

[159] المائدہ۴۸

[160] النمل۹۱

[161]۳الانعام۱۶۲،۱۶۳

[162] الاعراف۱۲۶

[163]یوسف ۱۰۱

[164] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا۳۴۴۳،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ۶۱۳۰، مسنداحمد۹۲۷۰

[165] القمر۱۳

[166] الانعام۱۱۰

[167] طہ۴۷،۴۸

[168] النازعات۱۷تا۱۹

[169] النمل۱۴

[170] الشعراء ۳۸،۴۰

[171] الاعراف۱۱۵،۱۱۶

[172] طہ۶۷

[173] الْأَعْرَافِ: 118 -122

[174] طه: 69

[175] تفسیرابن کثیر ۶۷۱؍۲بحوالہ ابن ابی حاتم

[176] یونس: 83

[177] تفسیر طبری ۱۶۴؍۱۵

[178] الاعراف ۱۲۹

[179] ھود۱۲۳

[180] الزمر۳۶

[181] الطلاق۳

[182] یونس۸۵،۸۶

[183] یونس: 87

[184] تفسیرطبری۱۷۴؍۱۵

[185] نوح۲۶،۲۷

[186] المومن۸۴،۸۵

[187] التوبة۴۰

[188] الانعام۱۵۹

[189] یٰسین۳۰

[190] الزاریات۵۲

[191] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ: یَدْخُلُ الجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ ۶۵۴۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى دُخُولِ طَوَائِفَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ ۵۲۶

[192] یونس: 98

[193] تفسیرطبری۲۰۷؍۱۵

[194] ھود۱۱۸،۱۱۹

[195] الرعد۳۱

[196] القصص۵۶

[197] فاطر۸

[198] البقرة۲۷۲

[199] الشعرائ۳

[200] یونس۹۰

[201] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَیُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ۷۴۰۴، صحیح مسلم کتاب التوبة بَابٌ فِی سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ۶۹۶۹،صحیح ابن حبان ۶۱۴۳،مسنداحمد۷۵۲۸

[202] الکافرون ۲

[203] فاطر۲

Related Articles