بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

مضامین سورۂ الرحمٰن

اللہ تعالیٰ کے ایک صفاتی نام کے آغازکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت کبریٰ قرآن مجیدکے شرف و عظمت اوراللہ کی کتاب ہونے کا تذکرہ ہے،یہ پہلی سورت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں اوردوسری بااختیار مخلوق جنات کو براہ راست پرجوش اندازمیں خطاب فرمایاہے،اوردونوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمالات،اس کے بے حدوحساب احسانات،اس کے مقابلہ میں ان کی عاجزی وبے بسی اوراس کے حضوران کی جوابدہی کااحساس دلا کراس کی نافرمانی کے انجام ندسے ڈرایا گیا ہے اور فرمانبرداری کے بہترین نتائج سے آگاہ کیاگیاہے ،اس سورت میں قرآنی تعلیمات کوعین رحمت اورانسانیت کے لیے سراسر ہدایت ہونے کا بھی ذکرفرمایاگیا۔

اللہ تعالیٰ کی الوہیت اورتوحید کومختصراورتھوڑے تھوڑے الفاظ میں خوبصورت،دلکش اوردلنشین اندازمیں فرمایا۔

xاس عظیم الشان کائنات کانظام مشیت الٰہی اوراس کی تدبیروقدرت ہی سے چل رہاہے،کوئی چیزاللہ تعالیٰ کی قدرت اوراختیار سے باہرنہیں ،اوراللہ کے سوا کوئی دوسرانہیں جس کی کائنات میں خدائی چل رہی ہو۔

xاس کائنات کاسارانظام متوازن اورعدل پرقائم ہے،اورفطرت کاتقاضاہے کہ اس نظام کے اندررہنے والے سارے افراداپنے حدوداختیارمیں عدل و توازن کے دائرے میں رہ کرزندگی گزاریں اورتوازن نہ بگاڑیں ۔

xان چیزوں کاذکرفرمایاجن سے جن وانس فائدہ اٹھاتے ہیں ،فرمایایہ سبھی اشیاء اللہ رب العالمین نے اپنی قدرت وحکمت سے پیداکی ہیں اوراللہ تعالیٰ کے حکم سے جن وانس کے لیے مسخرکی گئی ہیں ۔

xاللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کائنات کی ہرشئے فناہونے والی ہے،فناسے مبراصرف اللہ وحدہ لاشریک کی ذات ہے جوازلی وابدی ہے اورکائنات کی ہرشئے اپنے وجود اور ضروریات وجودکے لیے اس کی محتاج ہے۔

xعنقریب وہ وقت آنے والاہے جب ہرذی اختیارمخلوق سے اس کے اعمال کی بابت بازپرس کی جائے گی اوران کے اعمال کے مطابق ہی ان کاانجام ہو گا ، روزقیامت اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات متقین کوملیں گے، کیونکہ یہ لوگ دنیاکی زندگی میں ہرعمل اس عقیدے کی بناپرکیاکرتے تھے کہ روزجزا ہماراخالق ہمارے ان اعمال کابدلہ دے گا اور ظالموں ،سرکشوں اورنافرمانوں کوجواس روزکی ملاقات کوجھٹلاتے تھے آگ کے شعلے اوردھواں ملے گا جس میں وہ سانس بھی نہیں لے سکیں گے،انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی دیاجائے گاجوان کی انتڑیوں کوکاٹ کررکھ دے گا۔

 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الرَّحْمَٰنُ ‎﴿١﴾‏ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ‎﴿٢﴾‏ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ‎﴿٣﴾‏ عَلَّمَهُ الْبَیَانَ ‎﴿٤﴾‏ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ‎﴿٥﴾‏ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ ‎﴿٦﴾‏ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ ‎﴿٧﴾‏ أَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ ‎﴿٨﴾‏ وَأَقِیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ ‎﴿٩﴾(الرحمٰن)
’’رحمٰن نے قرآن سکھایا، اسی نے انسان کو پیدا کیااور اسے بولنا سکھایا ،آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں اور ستارے اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں ، اسی نے آسمان کو بلند کیااور اسی نے ترازو رکھی تاکہ تولنے میں تجاوز نہ کرو، انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو ۔‘‘

مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فلاں شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کلام سکھاتاہے اورپھرآپ ا سے اللہ کی منسوب کرکے سناتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۰ۭ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ۝۱۰۳ [1]

ترجمہ:ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔

اس کے جواب میں فرمایا کہ اس عظیم الشان کلام کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ الر حمٰن نے اپنے پیغمبر پرنازل کیااورالفاظ ومعنی کی تعلیم دے کر اپنے بندوں پررحمت کی تکمیل کی ہے ،اسی نے اپنی حکمت ومشیت کے تحت انسان کو پہلے پہل اسی شکل و صورت میں مٹی سے پیداکیااورپھرنطفہ سے اس کا سلسلہ بڑھایا،جیسے فرمایا:

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَہُوَیُحَاوِرُہٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا۝۳۷ۭ [2]

ترجمہ:اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا ؟ ۔

 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ۔۔۔۝۵ [3]

ترجمہ:لوگو! اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہےپھر نطفے سے ۔

وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ۔۔۔۝۱۱ [4]

ترجمہ:اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے ۔

ہُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَةٍ۔۔۔ ۝۶۷ [5]

ترجمہ:وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیاپھر نطفے سے۔

اوراللہ نے اپنی بے شمارمخلوقات میں سے انسان کواپنےمافی الضمیرکے اظہارکے لئے عقل وشعور ،فہم وادراک ، تمیزوارادہ اور بولنے کی صلاحیت بخشی ،اوراللہ نے سورج جواپنے مدارپرپچیس کروڑسالوں میں ایک چکرمکمل کرتاہے بالکل اسی طرح جس طرح ہماری زمین ایک سال میں سورج کے گرد ایسا چکرمکمل کرتی ہے گویاسورج کاایک سال ہمارے پچیس کروڑسالوں کے برابرہےاوراس سے بھی بڑےاربوں کھربوں ستاروں اور چاندکوپیداکیا،ان کومسخرکیااوران کا ایک قانون وضابطہ مقررفرمایاجس کے تحت وہ اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں ،اوراس میں کوئی تغیررونما نہیں ہوتا ہے ،جیسے فرمایا

فَالِقُ الْاِصْبَاحِ۝۰ۚ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۝۹۶ [6]

ترجمہ: پردہ شب کو چاک کرکے وہی صبح نکالتا ہے اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرّر کیا ہے،یہ سب اسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں ۔ ۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ ۭ [7]

ترجمہ:اور سورج ، وہ اپنے محورپرگردش کرتاہےیہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔

سورج ،چاند،تارے اورکائنات کی ہرچھوٹی بڑی شئے اپنے رب کی مطیع فرمان اوراس کے قانون کے پابند ہیں ، جیسے فرمایا

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ۔۔۔ ۝۱۸ۭ۞ [8]

ترجمہ:کیاتم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ کے آگے سربسجودہیں وہ سب جوآسمانوں میں ہیں اورجوزمین میں ہیں ،سورج اور چاند اورتارے اورپہاڑاور درخت اورجانوراور بہت سے انسان ۔

یعنی کائنات کی کوئی چھوٹی بڑی چیز بھی خودمختارنہیں اورنہ ہی کسی اورکی اس کائنات میں ساجھے داری ہے ، کائنات میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہی حکومت ہے، اور وہی معبودحقیقی ہے لہذایکسوہوکراسی کی بندگی کرو ، اوراللہ نے ہی وسیع وعریض آسمان کوارضی مخلوقات کے لئے بغیرستونوں کے بلندکیا،جیسے فرمایا:

اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۲ [9]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ۔

اورکائنات کے پورے نظام کوعدل وانصاف پر قائم کر دیا اور لوگوں کوعدل و انصاف کا حکم دیا،جیسے فرمایا:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۔۔۔۝۲۵ۧ [10]

ترجمہ:ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اوران کے ساتھ کتاب اورمیزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔

اس کاتقاضایہ ہے کہ تم بھی عدل و انصاف کے ساتھ زندگی گزارو،اورجب وزن کروتو انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولواور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو، جیسےفرمایا

وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِیْمِ۝۱۸۲ ۚ [11]

ترجمہ: پیمانے ٹھیک بھرواورکسی کوگھاٹانہ دو۔

وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ ‎﴿١٠﴾‏ فِیهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ ‎﴿١١﴾‏ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّیْحَانُ ‎﴿١٢﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿١٣﴾‏(الرحمٰن)
ترجمہ:اوراسی نے مخلوق کے لئے زمین بچھادی جس میں میوے ہیں اورخوشے والے کھجورکے درخت ہیں اوربھس والااناج ہے اورخشبودارپھول ہیں ،پس (اے انسانوں اورجنو!)تم اپنےپروردگار کی کس کس نعمت کوجھٹلائوگے؟۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں ،احسانات اورقدرتوں کاذکرفرمایاجن سے جن وانس دونوں فیضیاب ہوتے ہیں فرمایا اللہ نے ہی اپنی حکمت سے زمین کو سب مخلوق کے رہنے ، بسنے اورزندگی بسرکرنے کے لئے ہموارفرش کی طرح بچھایا،جیسے فرمایا:

وَاِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ۝۲۰۪ [12]

ترجمہ:اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی ؟۔

اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہٰدًا۝۶ۙ [13]

ترجمہ:کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا ۔

وَاللہُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۝۱۹ۙ  [14]

ترجمہ:اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا۔

جس میں انواع و اقسام کے مختلف ذائقوں ،خوشبوؤں اوررنگوں والے بکثرت لذیذپھل اورمیوہ جات ہیں ، اورکھجورکے اونچے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ،اس میں تمہاری اورجانوروں کی خوراک کے لئے طرح طرح کے دانہ اوربھوسے والے اجناس ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں گنواکرپوچھاپس اے جن وانس!تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کوجھٹلاؤگے؟

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ‎﴿١٤﴾‏ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ ‎﴿١٥﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿١٦﴾رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ ‎﴿١٧﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿١٨﴾‏‏(الرحمٰن)
’’اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا، پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ وہ رب ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا، پس ( اے جنواورانسانو ! ) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟۔‘‘

انسان اورجن کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اورکاریگری کے آثاردکھائے ، انسان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا:

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۝۰ۭ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ۔۔۔ ۝۵۹ [15]

ترجمہ:عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا۔

ایک مقام پر فرمایاکہ انسان کی تخلیق گارے سے ہوئی۔

۔۔۔وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ [16]

ترجمہ:اور اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداگارے سے کی۔

ایک مقام پر فرمایاکہ تخلیق کی ابتدالیس دارگارے سے ہوئی۔

۔۔۔اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ۝۱۱ [17]

ترجمہ:ان کوتوہم نے لیس دارگارے سے پیداکیاہے۔

ایک مقام پر فرمایاانسان کی تخلیق اس گارے سے ہوئی جس میں بو پیدا ہوگئی تھی۔

 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ [18]

ترجمہ:ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا۔

یعنی انسان کی تخلیق مٹی کے اس گارے سے ہوئی جوپڑے رہنے کی وجہ سے لیس دارہوگیااورپھراس میں بوپیداہوگئی تھی، یہاں فرمایاہم نے انسان کوپہلے پہل پکی ہوئی مٹی جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایااور جن کوآگ کے بلندہونے والے شعلے سے پیداکیا ،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتے نورسے بنائے گئے اورجن آگ کی لوسے اورآدم علیہ السلام اس سے جوقرآن میں بیان ہوایعنی مٹی سے ۔[19]

پس اے جن وانس!تمہاری یہ پیدائش اورپھرتم سے مزیدنسلوں کوایک حقیر پانی جیسے ست سے چلایا ، جیسے فرمایا:

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِیْنٍ۝۸ۚ

ترجمہ:پھراس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جوحقیرپانی کی طرح کاہے۔

یہ تخلیق اللہ کی قدرتوں میں سے ہے ، پھرکیا تم اپنے رب کے عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے ، اللہ جودونوں مشرق اوردونوں مغرب کا سب کامالک وپروردگار ہے،جیسے فرمایا

فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ۝۴۰ۙ [20]

ترجمہ:پس نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی، ہم اس پر قادر ہیں ۔

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِیْلًا۝۹ [21]

ترجمہ:وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہےلہذا اسی کو اپنا وکیل بنا لو۔

اوراسی نے یہ حکیمانہ نظام قائم کیاہے یعنی سورج کا گرمیوں اورسردیوں کے مقامات طلوع وغروب کے مختلف ہونے کے اعتبارسے ذکرکیا ،پس اے جن وانس!تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کوجھٹلاؤ گے؟

مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ‎﴿١٩﴾‏ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ ‎﴿٢٠﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٢١﴾‏ یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ‎﴿٢٢﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٢٣﴾‏ وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِی الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ ‎﴿٢٤﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٢٥﴾(الرحمٰن)
’’اس نے دو دریا جاری کردیئے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ، ان دونوں میں سے ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے، پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے،ان دونوں میں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں ، پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟اور اللہ ہی کی (ملکیت میں ) ہیں جہاز جو سمندروں میں پہاڑ کی طرح بلند (چل پھر رہے) ہیں ، پس(اے انسانواورجنو!)تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟۔‘‘

اوریہ بھی اللہ کی قدرت کاکرشمہ ہے کہ اس نے کھاری اورمیٹھے دوسمندروں کو اکٹھاچھوڑدیاکہ باہم مل جائیں ،وہ میلوں دورتک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگروہ باہم نہیں ملتےکیونکہ اللہ نے اپنی قدرت سے ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے جس سے وہ تجاوزنہیں کرتے،جیسے فرمایا :

وَهُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ۝۰ۚ وَجَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا۝۵۳ [22]

ترجمہ:اوروہی ہے جس نے دوسمندروں کوملارکھاہے ایک لذیذوشیریں ،دوسراتلخ وشوراوردونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ،ایک رکاوٹ ہے جوانہیں گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے ۔

پس اے جن وانس!تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے ، اوریہ اس کی شان ربوبیت ہے کہ انسان کے ذوق وشوق کی تسکین کے لئے دونوں سمندروں سے کثرت سے موتی اورمونگے نکلتے ہیں ،جوزیب وزینت اورحسن وجمال کا مظہرہیں ،جیسے فرمایا

وَمَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ۝۰ۤۖ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَاۗىِٕــغٌ شَرَابُهٗ وَھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ۝۰ۭ وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا۝۰ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲ [23]

ترجمہ:اورپانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں ایک میٹھااورپیاس بجھان ے والاہے ،پینے میں خوشگوار اوردوسراسخت کھاری کہ حلق چھیل دے مگر دونوں سے تم تروتازہ گوشت حاصل کرتے ہو،پہننے کے لئے زینت کاسامان نکالتے ہو،اوراسی پانی میں تم دیکھتے ہوکہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جارہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرواوراس کے شکرگزاربنو۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ: یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ ،قَالَ: إِذَا أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ فَتَحَتِ الْأَصْدَافُ فِی الْبَحْرِ أَفْوَاهَهَا فَمَا وَقَعَ فِیهَا مِنْ قَطْرِ السَّمَاءِ فَهُوَ اللُّؤْلُؤُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےآیت کریمہ ’’ان دونوں میں سے موتی برآمدہوتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں روایت ہےجب آسمان سے بارش ہوتی ہے توسپیاں سمندرمیں اپنامنہ کھول دیتی ہیں ان میں بارش کے پانی کاجوقطرہ داخل ہوجائے وہ موتی بن جاتاہے۔[24]

پس اے جن وانس!تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے؟اوریہ بھی اللہ ہی کی جلیل القدر نعمت واحسان ہے کہ اس نے پانی کوان قواعدکاپابندکیاجن کی بدولت پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے اور ٹنوں وزنی جہاز سمندروں میں مختلف ضروریات کے لئے اس کا سینہ چیرتے ہوئے چلتے ہیں ،پس اے جن وانس!تم اپنے رب کے کن کن احسانات کوجھٹلاؤگے۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ ‎﴿٢٦﴾‏ وَیَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ‎﴿٢٧﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٢٨﴾‏ یَسْأَلُهُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِی شَأْنٍ ‎﴿٢٩﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٣٠﴾‏(الرحمٰن)
’’زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی،پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں ہر روز وہ ایک شان میں ہے، پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟۔‘‘

اس کائنات کی کوئی چیز لافانی اورلازوال نہیں بلکہ ایک وقت مقررہ پر فناہونے والی ہے ،اورصرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی ابدی اورازلی ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گااوریہ کائنات اس کی عظمت وکبریائی پر گواہی دے رہی ہے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ۔۔۔۝۸۸ۧ [25]

ترجمہ: ہرچیزہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔

پھراس کائنات کے فناہوجانے کے بعدجن وانسانوں کواعمال کی جوابدہی کے لئے دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور اس مقصدکے لئے میدان محشرمیں عدل و انصاف کااہتمام کیاجائے گا،پھرنیکو کاروں کوجنت اوربدکاروں کوجہنم میں ڈال دیاجائے گا، کیونکہ یہ بھی کمالات قدرت ہیں اس لئے فرمایا پس اے جن وانس!تم اپنے رب کے کن کن کمالات کوجھٹلاؤ گے ؟ وہ ساری مخلوق سے بے نیازاوربے پایاں جودوکرم کامالک ہے ،کائنات کی تمام مخلوقات خواہ وہ فرشتے ہوں یاانبیاء واولیاہوں ، چاند سورج ہوں یا اور کوئی مخلوق سب اپنی حوائج کے لئے اس وحدہ لاشریک کے درکے محتاج ہیں اور اپنی حاجتیں اسی سے مانگ رہے ہیں ،جب سب اللہ کے درکے سوالی ہیں اور اپنی ضروریات و مشکلات خود پوری نہیں کرسکتے توتمہاری مشکل کشائی کیاکریں گے ،اوروہ ہر وقت بندوں کے امورومعاملات کی تدبیر میں مصروف ہے،

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، {كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِی شَأْنٍ} قَالَ:یُجِیبُ دَاعِیًا وَیُعْطِی سَائِلًاأَوْ یَفُكَّ عَانِیًاقیدی کورہائی دیتا أَوْ یَشْفِی سَقِیمًا

عبیدبن عمیرسے روایت ہے’’ہرروزوہ ایک شان میں ہے۔‘‘کے معنی یہ ہیں اس کی شان یہ ہے کہ وہ دعاکرنے والے کی دعاکوشرف قبولیت سے نوازتاہے،مانگنے والے کوعطافرماتاہے اور بیمار کو شفا بخشتا ہے۔[26]

پس اے جن وانس!تم اپنے رب کی کن کن صفات حمیدہ کوجھٹلاؤگے۔

‏ سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَیُّهَ الثَّقَلَانِ ‎﴿٣١﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٣٢﴾‏ یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا ۚ لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ‎﴿٣٣﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٣٤﴾‏ یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ ‎﴿٣٥﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٣٦﴾(الرحمٰن)
’’ (جنوں اور انسانوں کے گروہو ! ) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہوجائیں گے ،پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ اے گروہ جنات و انسان ! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو ! بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے،پھر اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم مقابلہ نہ کرسکو گےپھر اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟۔‘‘

وعیدوتہدیدکے طورپرفرمایا اے گروہ جن وانس !جومیری زمین پربوجھ بنے ہوئے ہومیں بہت جلدتمہاری خبرلینے کے لئے فارغ ہواجاتاہوں یعنی جواعمال تم نے دنیامیں کیے ہیں ان کی جزاوسزا کامقررہ وقت قریب آگیاہے،آج تم قیامت ،حیات بعدالموت،حشرنشر،حساب کتاب اورجنت وجہنم کو بعید از امکان سمجھ کراس کامذاق اڑاتے ہو مگرجب تم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے اس وقت ہم دیکھ لیں گے کہ ہماری کس کس قدرت اوراحسانات کوتم جھٹلاتے ہو،اے گروہ جن وانس !اگرتم اللہ کی تقدیر اور قضاسے بھاگ کرکہیں جا سکتے ہوتوبخوشی چلے جاؤمگرتم بھاگ کرکہیں نہیں جا سکتے ،بعض کہتے ہیں یہ میدان محشرمیں کہا جائے گا جب کہ فرشتے چاروں جانب سات سات صفیں بنائے لوگوں کوگھیرے ہوئے ہوں گے اور انسان کہے گابھاگنے کی جگہ کدھرہے ؟جیسے فرمایا:

یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ۝۱۰ۚكَلَّا لَا وَزَرَ۝۱۱ۭاِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ۝۱۲ ۭ [27]

ترجمہ:اس وقت(مارے خوف وحیرت کے) یہی انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں ؟ہرگز نہیں ، وہاں کوئی جائے پناہ نہ ہوگی،اس روز تیرے رب ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہوگا۔

تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟اوراگر بھاگنے کی کوشش کرو گے بھی تو جہنم کے داروغے تم پریکے بعددیگرے آگ کاشعلہ اوردھواں چھوڑیں گے جس کاتم مقابلہ کرسکوگے اورنہ دفع کرسکوگے اوروہ تمہیں ہانک کر واپس لے آئیں گے ،اے گروہ جن وانس!تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کا انکارکروگے۔

‏ فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ ‎﴿٣٧﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٣٨﴾‏ فَیَوْمَئِذٍ لَا یُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ ‎﴿٣٩﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٤٠﴾‏یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیمَاهُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْأَقْدَامِ ‎﴿٤١﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٤٢﴾‏ هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی یُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ یَطُوفُونَ بَیْنَهَا وَبَیْنَ حَمِیمٍ آنٍ ‎﴿٤٤﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٤٥﴾(الرحمٰن)
’’پس جب کہ آسمان پھٹ کر سرخ ہوجائے جیسے کہ سرخ چمڑہ، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ اس دن کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہوں کی پرسش نہ کی جائے گی، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ گناہ گار صرف حلیہ سے ہی پہچان لیے جائیں گے اور ان کے پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لیے جائیں گے، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے، اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟۔‘‘

حشرکاایک منظر:

ہنگامہ عظیم کے وقت کیاہوگاجب عالم بالاکانظم درہم برہم ہوجائے گا،سورج اورچاندبے نورہوجائیں گے ،جیسے فرمایا

وَخَسَفَ الْقَمَرُ۝۸ۙوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۹ ۙ [28]

ترجمہ:اور چاند بےنور ہو جائے گااور چاند سورج ملا کر ایک کر دیے جائیں گے۔

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝۱۠ۙ [29]

ترجمہ:جب سورج لپیٹ دیا جائے گا ۔

یہ چمکتےستارے بکھرجائیں گے،جیسے فرمایا:

وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ۝۲ۙ [30]

ترجمہ:اور جب تارے بکھر جائیں گے۔

اوریہ بغیرستونوں کابلندوبالانیلا آسمان پھٹ پڑے گا، جیسے فرمایا:

وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِیَ یَوْمَىِٕذٍ وَّاهِیَةٌ۝۱۶ۙ [31]

ترجمہ:اس دن آسمان پھٹے گااوراس کی بندش ڈھیلی پڑجائے گی۔

اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ۝۱ۙ [32]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گا۔

اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ۝۱ۙ [33]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ پڑے گا۔

فرشتے زمین پراترآئیں گے اورآسمان نارجہنم کی شدت سے پگھل کر سرخ نری چمڑے کی طرح ہوجائے گا؟آج تم لوگ اس ہنگامہ عظیم کوبعیدازامکان کہتے ہومگرجب تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے تو اے جن و انس! اس وقت تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟اس روزہرانس و جن کے ہاتھ میں اس کانامہ اعمال تھمادیاجائے گاجس میں اس کاہر چھوٹا بڑا عمل لکھاہوگا،جیسے فرمایا

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ [34]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی!یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ کی گئی ہو، جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

اوراللہ تعالیٰ خودماضی ومستقبل کاعلم رکھتاہے اس لئے کسی انس و جن سے اس کاگناہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی،صرف یہ جواب طلبی ہوگی کہ جب حق وباطل،نیک وبدراہ دونوں کو واضح کردیاگیاتھا توپھر یہ گناہ کیوں کیے تھے ؟جیسے فرمایا

هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَ۝۳۵ۙوَلَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۝۳۶ [35]

ترجمہ: یہ وہ دن ہے جس میں وہ نہ کچھ بولیں گے اورنہ انہیں موقع دیا جائے گاکہ کوئی عذرپیش کریں ۔

ایک آیت میں مجرموں کو بولنااوران سے حساب لیاجانابھی بیان ہواہے ، جیسے فرمایا

فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۹۲ۙعَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۳ [36]

ترجمہ:قسم ہے تیرے رب کی!ہم ضروران سب سے پوچھیں گے کہ تم کیاکرتے رہے ہو ۔

پھرتم دونوں گروہ اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرتے ہو،جس طرح اہل ایمان کے چہرے تروتازہ اور ہشاش بشاش ہوں گے ، اور ان کے اعضائے وضو چمکتے ہوں گے ،اس طرح مجرموں کے چہرے سیاہ اورآنکھیں نیلگوں ہوں گی،

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۔۔۔ ۝۱۰۶  [37]

ترجمہ:جبکہ کچھ لوگ سرخ روہوں گے اورکچھ لوگوں کامنہ کالاہوگا۔

ذلت ومسکنت ان کے چہروں پربرس رہی ہوگی،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـیِّئَةٍؚبِمِثْلِہَا۝۰ۙ وَتَرْہَقُھُمْ ذِلَّةٌ۝۰ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ عَاصِمٍ۝۰ۚ كَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْہُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷ [38]

ترجمہ:اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں ان کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلّت ان پر مسلّط ہوگی ، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہوگا ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں ، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

خَاشِعَةً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّةٌ۔۔۔۝۴۳   [39]

ترجمہ:ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔

خَاشِعَةً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّةٌ۔۔۔۝۴۴ۧ [40]

ترجمہ:ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔

اس لئے وہ اپنے چہروں سے ہی پہچان لیے جائیں گے،داروغہ جہنم مجرموں کی گردنوں میں طوق ڈال کر سترہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ دیں گے ،جیسے فرمایا

خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ۝۳۰ۙثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ۝۳۱ۙثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْہُ۝۳۲ۭ [41]

ترجمہ:(حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو،پھر اسے جہنم میں جھونک دو،پھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو ۔

اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝۰ۭ یُسْحَبُوْنَ۝۷۱ۙفِی الْحَمِیْمِ۝۰ۥۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ۝۷۲ۚ [42]

ترجمہ:جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے، اور زنجیریں جن سے پکڑ کر وہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں گے اور پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔

اور پھر پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑپکڑکرمنہ کے بل گھسیٹے ہوے جہنم میں ڈال دیں گے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِی قَوْلِهِ: فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْأَقْدَامِ ،قَالَ: تَأْخُذُ الزَّبَانِیَةُ بِنَاصِیَتِهِ وَقَدَمَیْهِ، وَیُجْمَعُ فَیُكْسَرُ كَمَا یُكْسَرُ الْحَطَبُ فِی التَّنُّورِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ ’’اوران کے پیشانیوں کے بال اورقدم پکڑلیے جائیں گے۔‘‘کے بارے میں روایت ہے مجرم کواس کی پیشانی اورقدموں سے پکڑکراس طرح توڑدیاجائے گاجس طرح ایندھن توڑکرتنورمیں ڈالا جاتا ہے۔[43]

اس وقت تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کوجھٹلاؤگے؟اس وقت کہا جائے گایہ وہی جہنم ہے جس کومجرمین جھوٹ قراردیا کرتے تھے ،وہ کبھی جحیم میں جلائے جائیں گے اورکبھی حمیم پلائے جائیں گے ،یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے۔جیسے فرمایا:

تُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍ۝۵ۭ [44]

ترجمہ:کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کو دیا جائے گا۔

وہ کھولتاہواپانی ان کے چہروں کوجھلس اور آنتوں وپٹھوں کوکاٹ ڈالے گا، جیسے فرمایا:

وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝۱۵ [45]

ترجمہ: اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں کاٹ دے گا۔

عَنْ قَتَادَةَ :یَطُوفُونَ بَیْنَهَا وَبَیْنَ حَمِیمٍ آنٍ، قَالَ:أَنَى طَبْخُهَا مُنْذُ یَوْمِ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ

قتادہ رحمہ اللہ نےآیت کریمہ ’’اس کے اورکھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکرکھائیں گے۔‘‘کے بارے میں کہاہے اسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت سے پکایاہے جب سے اس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا فرمایا ہے۔[46]

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِیُّ: یُؤْخَذُ الْعَبْدُ فیحرّكُ بِنَاصِیَتِهِ فِی ذَلِكَ الْحَمِیمِ حَتَّى یَذُوبَ اللَّحْمُ وَیَبْقَى الْعَظْمُ وَالْعَیْنَانِ فِی الرَّأْسِ

محمدبن کعب قرظی کاقول ہے آدمی کوپیشانی سے پکڑ کر کھولتے ہوئے شدیدترین گرم پانی میں گھسیٹاجائے گا حتی کہ اس کاگوشت پگھل جائے گا اورسرکی ہڈیاں اورآنکھیں باقی رہ جائیں گی۔[47]

عِیَاذًا بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ،

پھراس وقت تم قیامت،حیات بعدالموت ،حساب کتاب اورجہنم کاانکارکرسکوگے ۔

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ ‎﴿٤٦﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٤٧﴾‏ ذَوَاتَا أَفْنَانٍ ‎﴿٤٨﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٤٩﴾‏ فِیهِمَا عَیْنَانِ تَجْرِیَانِ ‎﴿٥٠﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٥١﴾‏ فِیهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ ‎﴿٥٢﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٥٣﴾‏ مُتَّكِئِینَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ ‎﴿٥٤﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٥٥﴾‏ فِیهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ ‎﴿٥٦﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٥٧﴾‏ كَأَنَّهُنَّ الْیَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ ‎﴿٥٨﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٥٩﴾‏ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ‎﴿٦٠﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٦١﴾(الرحمٰن)
’’اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں ، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ (دونوں جنتیں ) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں ، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں (جنتوں ) میں دو بہتے ہوئے چشمے ہیں ، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میووں کی دو قسمیں ہونگی، پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے استرد بیز ریشم کے ہوں گے اور دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہوں گے، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ وہاں (شرمیلی) نیچی نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا،پس اپنے پالنے والے کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ وہ حوریں مثل یاقوت اور مونگے کے ہوں گی، پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے، پس اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟۔‘‘

اہل جنت کے لئے انعام واکرام:

مجرموں کے ساتھ کیے جانے والے سکوک کے بعداللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تقویٰ شعارلوگوں کی جزاکاذکرفرمایاکہ ہروہ شخص جواپنے دل میں اپنے رب کے حضور پیش ہونے کاخوف رکھتا ہو ، جو سرکشی وبغاوت کی راہ اختیارکرنے کے بجائے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتاہو ،جوحرام سے بچتا اورحلال پراکتفاکرتا رہا ہو، اور اللہ کی مقررہ حدووں کوپامال نہ کرتا ہو ، ،جوخواہش نفسی اوردنیافانی کی لذتوں کے پیچھے پڑکرآخرت کی فکر سے غافل نہ ہوگیاہوبلکہ آخرت کی فکرزیادہ کرتاہو،جیسے فرمایا

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۝۴۰  [48]

ترجمہ:اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا ۔

ایسے شخص کے لئے صلہ میں دومخصوص باغ ہیں جس میں اس کے قصر ہوں گے جن میں وہ اپنے متعلقین اورخدام کے ساتھ رہے گا،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ، آنِیَتُهُمَا وَمَا فِیهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، آنِیَتُهُمَا وَمَا فِیهِمَا، وَمَا بَیْنَ القَوْمِ وَبَیْنَ أَنْ یَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الكِبْرِ، عَلَى وَجْهِهِ فِی جَنَّةِ عَدْنٍ

عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ (ابوموسیٰ اشعری ) سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جنت میں ) دوباغ ہوں گےجن کے برتن اورتمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گے اوردودوسرےباغ ہوں گے جن کے برتن اورتمام دوسری چیزیں سونے کی ہوں گے اورجنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدارمیں کوئی چیزسوائے کبریائی کی چادرکے جواس کے منہ پرہوگی حائل نہ ہوگی۔[49]

اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤ گے؟

 أَنَّ أَبَا ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْهِ ثَوْبٌ أَبْیَضُ، وَهُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَیْتُهُ وَقَدِ اسْتَیْقَظَ، فَقَالَ:مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِی ذَرٍّ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ سفید کپڑے پہنے ہوئے سو رہے تھے، پھر میں حاضر ہوا تو آپ بیدار ہوچکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس بندہ نے بھی کلمہ لاالٰہ الااللہ(اللہ کے سواکوئی معبودنہیں )کومان لیااورپھراسی پروہ مراتوجنت میں جائے گا،میں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !چاہے اس نے زناکیاہو،چاہے اس نے چوری کی ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچاہے اس نے زناکیاہوچاہے اس نے چوری کی ہو،اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !چاہے اس نے زناکیاہو،چاہے اس نے چوری کی ہو ؟؟فرمایاچاہے اس نے زناکیاہوچاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے(حیرت کی وجہ سے پھر)عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !چاہے اس نے زناکیاہو،چاہے اس نے چوری کی ہو ؟فرمایاچاہے اس نے زناکیاہوچاہے اس نے چوری کی ہواگرچہ ابوالدرداء کی ناک خاک الودہ ہوجائے۔[50]

ان کے سرسبز و شاداب درختوں کا سایہ گنجان اورگہرا ہوگا اور ہرشاخ اورٹہنی اعلیٰ خوش ذائقہ پکے ہوئے پھلوں سے لدی ہوئی ہوگی،اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤگے؟دونوں باغوں میں دوچشمے رواں دواں ہیں ،

وَالْحَسَنِ: تَجْرِیَانِ بِالْمَاءِ الزُّلَالِ، إِحْدَى الْعَیْنَیْنِ التَّسْنِیمُ وَالْأُخْرَى السَّلْسَبِیلُ.

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک چشمہ کانام تسنیم اور دوسرے کا سلسبیل ہے۔[51]

وقال عطیة إِحْدَاهُمَا مِنْ مَاءٍ غَیْرِ آسِنٍ وَالْأُخْرَى مَنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِینَ

عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک چشمہ نتھرے پانی کا اوردوسرالذت والی بے نشے شراب کا۔[52]

جنتی ان چشموں سے جہاں چاہیں گے نہریں نکال کرلے جائیں گے ،اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤ گے ؟ دونوں باغوں میں انواع واقسام کے پھل دار درخت ہوں گے اور ہرپھل صورت، ذائقے ،لذت اورخوشبو کے اعتبارسے دوقسم کے ہوں گے،اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے ؟ جنتی لوگ ان گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے ، جہاں مختلف انواع کے چشمے رواں دواں ہوں گے،ان کے کنارے ایسی مسندوں پرتکیے لگائے تمکنت کے ساتھ بیٹھے ہوں گے جن کے استردبیزریشم کے ہوں گے ، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے اتنی جھکی ہوئی ہوں گی کہ جنتی انہیں بیٹھے بیٹھے یالیٹے لیٹے توڑسکیں گے،یاوہ ڈالیاں ازخودان کی طرف جھک جائیں گی جیسے فرمایا:

قُـطُوْفُهَا دَانِیَةٌ۝۲۳ [53]

ترجمہ: جس کے پھلوں کے گھچے جھکے پڑرہے ہوں گے۔

وَدَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَذُلِّـلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا۝۱۴ [54]

ترجمہ:جنت کی چھاؤں ان پر جھُکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی ، اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں انہیں توڑلیں ) ۔

اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے؟ان نعمتوں کے درمیان عفیفہ،پاکدامن اور حیادار حوریں ہوں گی جو اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پرنگاہ نہیں ڈالیں گی ، اور جن کے جسم کو ان جنتیوں سے پہلے کسی انسان یاجن نے چھوانہ ہوگایعنی یہ باکرہ دوشیزائیں ہوں گی اوراس شوہرسے پہلے کسی کے تصرف میں آئی ہوئی نہ ہوں گی، اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے؟یہ حوریں اپنی صفائی ، خوبی اورحسن میں یاقوت اورسفیدی وسرخی میں موتی یامونگے کی طرح ہوں گی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ القَمَرِ لَیْلَةَ البَدْرِ، لاَ یَبْصُقُونَ فِیهَا، وَلاَ یَمْتَخِطُونَ، وَلاَ یَتَغَوَّطُونَ، آنِیَتُهُمْ فِیهَا الذَّهَبُ، أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَمَجَامِرُهُمُ الأَلُوَّةُ، وَرَشْحُهُمُ المِسْكُ، وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، یُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الحُسْنِ، لاَ اخْتِلاَفَ بَیْنَهُمْ وَلاَ تَبَاغُضَ، قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ، یُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِیًّا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں داخل ہونے والے اول گروہ کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند،نہ تو جنت میں انہیں تھوک آئے گا نہ ناک کی ریزش نہ پاخانہ،ان کے برتن سونے کے ہونگے،ان کی کنگھیاں سونے چاندی کی،اور ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگتا رہے گا، ان کا پسینہ مشک (جیسا خوشبودار) ہوگااور ہر ایک کی دو دو بیویاں ہوں گی لطافت حسن کی وجہ سے ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا، اہل جنت کا آپس میں کوئی اختلاف نہ ہو گا اور نہ بغض و کدورت سب کے دل ایک ہوں گے، صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کریں گے۔[55]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الْمَرْأَةَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لِیُرَى بَیَاضُ سَاقِهَا مِنْ سَبْعِینَ حُلَّةِ حَرِیرٍ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ یَقُولُ: {كَأَنَّهُنَّ الْیَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ} [56]، فَأَمَّا الْیَاقُوتُ، فَإِنَّهُ حَجَرٌ لَوْ أَدْخَلْتَهُ سِلْكًا ثُمَّ اطَّلَعْتَ لَرَأَیْتَهُ مِنْ وَرَائِهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااہل جنت کی بیویوں میں سے ہرایک ایسی ہے کہ ان کی پنڈلی کی سفیدی سترسترحلوں کے پہننے کے بعدبھی نظرآتی ہے یہاں تک کہ اندرکاگودابھی جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے جیساکہ وہ یاقوت اورمرجان ہوں ، اورفرمایادیکھویاقوت ایک پتھرہے لیکن قدرت نے اس کی صفائی اور جوت ایسی رکھی ہے کہ اس کے بیچ میں دھاگہ پرودوتوباہرسے نظرآتاہے۔[57]

عَنْ حُمَیْدٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَرَوْحَةٌ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، أَوْ غَدْوَةٌ، خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ، أَوْ مَوْضِعُ قِیدٍ یَعْنِی سَوْطَهُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَیْنَهُمَا، وَلَمَلَأَتْهُ رِیحًا، وَلَنَصِیفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا

حمیدکہتے ہیں میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ سے یہ بھی روایت کرتے ہوئے سنا کہ اللہ کی راہ میں صبح و شام کو تھوڑی دیر بھی چلنا تمام دنیا و مافیہا سے اچھا ہے اور بیشک جنت میں تمہارا ایک چھوٹا سا مقام جو ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر ہو تمام دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت زمین کی طرف رخ کرے تو وہ تمام فضا کو جو آسمان اور زمین کے بیچ میں ہے روشن کردے گی اور اس کو خوشبو سے بھرے گی اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے تمام دنیا و مافیہا سے اعلیٰ و افضل ہے ۔[58]

تم لوگ اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤ گے،نیکی اور اطاعت الٰہی کاصلہ جنت اوراس کی نعمتوں کے سوااورکیا ہو سکتاہے، جیسے فرمایا

 لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ ۔۔۔۝۲۶  [59]

ترجمہ:جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہو اور مزید فضل۔

پھراے جنوو اورانسانوں !تم اپنے رب کے کن کن اوصاف حمیدہ کاتم انکارکروگے۔

وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ‎﴿٦٢﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٦٣﴾‏ مُدْهَامَّتَانِ ‎﴿٦٤﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٦٥﴾‏ فِیهِمَا عَیْنَانِ نَضَّاخَتَانِ ‎﴿٦٦﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٦٧﴾‏فِیهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ ‎﴿٦٨﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٦٩﴾‏ فِیهِنَّ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ ‎﴿٧٠﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٧١﴾‏ حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ ‎﴿٧٢﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٧٣﴾‏ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ ‎﴿٧٤﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٧٥﴾‏ مُتَّكِئِینَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ ‎﴿٧٦﴾‏ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎﴿٧٧﴾‏ تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ‎﴿٧٨﴾(الرحمٰن)
’’اور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں ، پس تم اپنے پرورش کرنے والے کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ جو دونوں گہری سبز سیاہی مائل ہیں ،بتائواب اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ ان میں دو (جوش سے) ابلنے والے چشمے ہیں ، پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں میں میوے اور کھجور اور انار ہوں گے،کیااب بھی رب کی کسی نعمت کی تکذیب کروگے ؟ ان میں نیک سیرت خوبصورت عورتیں ہیں ، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ (گوری رنگت کی) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ، پس (اے انسانواورجنو!)تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ ان کو ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان یا جن نے اس سے قبل، پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کے ساتھ تم تکذیب کرتےہو ؟ سبز مسندوں اور عمدہ فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے، پس(اے جنواورانسانو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ تیرے پروردگار کا نام بابرکت ہے جو عزت و جلال والا ہے۔‘‘

ان دوباغوں کے علاوہ دوباغ اورہیں جواصحاب یمین کے لئے ہیں اورپہلے دونوں باغوں سے شرف وفضل میں کم ہیں ،اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے؟یہ دونوں باغ کثرت سیرانی کی وجہ سے گھنے سرسبزشاداب ہیں ،اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤگے؟دونوں باغوں میں دوچشمے فواروں کی طرح ابلتے ہوئے ہیں ، اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤ گے؟ان میں بکثرت پھل دارکھجوریں اورانارکے درخت ہیں ، اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے؟ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اورحسن وجمال میں یکتا حوریں ہیں ، اپنے رب کے کن کن انعامات کوجھٹلاؤگے؟جوجنتی خیموں میں مستورہوں گی،

عَنْ أَبِی بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ خَیْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ مُجَوَّفَةٍ، عَرْضُهَا سِتُّونَ مِیلًا، فِی كُلِّ زَاوِیَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ مَا یَرَوْنَ الآخَرِینَ، یَطُوفُ عَلَیْهِمُ المُؤْمِنُونَ

ابوبکربن عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں کھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گےجن کاعرض ساٹھ میل ہوگااس کے ہرکنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہوگی ،ایک کنارے والی دوسرے کنارے والی کو نہیں دیکھ سکے گی،مومن ان سب کے پاس آتاجاتارہے گا۔[60]

ایک روایت میں ہے خیمے کی بلندی تیس میل ہوگی،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَیْسٍ الأَشْعَرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الخَیْمَةُ دُرَّةٌ، مُجَوَّفَةٌ طُولُهَا فِی السَّمَاءِ ثَلاَثُونَ مِیلًا، فِی كُلِّ زَاوِیَةٍ مِنْهَا لِلْمُؤْمِنِ أَهْلٌ لاَ یَرَاهُمُ الآخَرُونَ

عبداللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(جنتیوں کا)خیمہ کیاہے ایک موتی خولدارجس کی بلندی اوپرکوتیس میل تک ہے اس کے ہرکنارے پرمومن کی ایک بیوی ہوگی جسے دوسرے نہ دیکھ سکیں گے۔[61]

پس تم لوگ اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤگے؟ان حوروں کو جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یاجن نے چھوانہ ہوگا،اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے؟وہ جنتی ایسے تختوں پرتکیے لگاکرفروکش ہوں گے جس پر سبزرنگ کی مسندیں ،غالیچے اوراعلی قسم کے خوبصورت منقش فرش بچھے ہوں گے،اپنے رب کے کن کن انعامات کوتم جھٹلاؤگے؟بڑی برکت والاہے تیرے رب جلیل وکریم کانام،یعنی اس کی بھلائی بہت بڑی اوربہت زیادہ ہے،وہ بڑے جلال، بزرگی اوراپنے اولیاء کے لئے اکرام وتکریم کامالک ہے،

عَنْ رَبِیعَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:أَلِظُّوا بِیَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

ربیعہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سناذوالجلال والاکرام سے وابستہ ہوجاؤ۔[62]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے سلام پھیرنے کے بعداس قدربیٹھاکرتے کہ یہ کلمات پڑھے جاسکیں اے اللہ!توسلامتی والاہے تیری ہی طرف سے سلامتی ہے توبہت بابرکت ہے اے جلال وعزت کے مالک۔[63]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ لَمْ یَقْعُدْ إِلَّا مِقْدَارَ مَا یَقُولُ:اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے سلام پھیرنے کے بعدصرف اتنی ہی دیربیٹھتے تھے کہ یہ کلمات کہہ لیں ’’اے اللہ!توسلام ہے(یعنی ہرقسم کے عیب اورنقص سے پاک ہے) اورتجھی سے(لوگوں کو) سلامتی ملتی ہے ،اے احترام وعزت والے!توبابرکت ہے۔‘‘[64]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَرَأَ عَلَیْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَسَكَتُوا، فَقَالَ: لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الجِنِّ لَیْلَةَ الجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ، كُنْتُ كُلَّمَا أَتَیْتُ عَلَى قَوْلِهِ {فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ} قَالُوا: لاَ بِشَیْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الحَمْدُ.

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف آئے اور سورت رحمن شروع سے آخر تک تلاوت فرمائی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے یہ سورت جنوں کے سامنےپڑھی تھی تو ان لوگوں نے تم سے بہتر جواب دیاجب میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد’’تم اپنے پروردگارکی کوکون سی نعمت کوجھٹلاؤگے۔‘‘پر پہنچتاتھا تووہ اس کے جواب میں کہتے تھے اے ہمارے پروردگارہم تیری کسی نعمت کونہیں جھٹلاتے ، حمد تیرے ہی لئے ہے۔[65]

هَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ الوَلِیدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زُهَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ.قَالَ ابْنُ حَنْبَلٍ: كَأَنَّ زُهَیْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِی وَقَعَ بِالشَّامِ لَیْسَ هُوَ الَّذِی یُرْوَى عَنْهُ بِالعِرَاقِ، كَأَنَّهُ رَجُلٌ آخَرُ قَلَبُوا اسْمَهُ، یَعْنِی: لِمَا یَرْوُونَ عَنْهُ مِنَ الْمَنَاكِیرِ.وَسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِیلَ البُخَارِیَّ، یَقُولُ: أَهْلُ الشَّامِ یَرْوُونَ عَنْ زُهَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مَنَاكِیرَ، وَأَهْلُ العِرَاقِ یَرْوُونَ عَنْهُ أَحَادِیثَ مُقَارِبَةً.

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے ہم اس حدیث کو صرف ولید بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں ، ولید بن مسلم زبیر بن محمدسے نقل کرتے ہیں ۔ابن حنبل کا خیال ہے کہ زبیر بن محمد وہ نہیں ہوں جو شام کی طرف گئے ہیں اور اہل عراق ان سے روایت کرتے ہیں بلکہ شاید کوئی اور ہیں لوگوں نے ان کا نام بدل دیا کیونکہ لوگ ان سے منکر احادیث روایت کرتے ہیں میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ شام کے لوگ زبیر بن محمد منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں اور اہل عراق ان میں سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جو صحت کے قریب ہوتی ہیں ۔

[1] النحل۱۰۳

[2] الکہف۳۷

[3] الحج۵

[4] فاطر۱۱

[5] المومن۶۷

[6] الانعام۹۶

[7] یٰسین۳۸

[8] الحج۱۸

[9] الرعد۲

[10] الحدید۲۵

[11] الشعرائ۱۸۲

[12] الغاشیة۲۰

[13] النبا۶

[14] نوح۱۹

[15] آل عمران ۵۹

[16] السجدة۷

[17] الصافات۱۱

[18] الحجر۲۶

[19] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابٌ فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَةٍ۷۴۹۵، مسند احمد ۲۵۱۹۴، صحیح ابن حبان ۶۱۵۵،شعب الایمان ۱۴۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۰۹

[20] المعارج۴۰

[21] المزمل۹

[22] الفرقان۵۳

[23] فاطر۱۲

[24]تفسیرابن ابی حاتم۳۳۲۴؍۱۰،تفسیر طبری ۳۶؍۲۳

[25]القصص۸۸

[26] تفسیر طبری۳۹؍۲۳

[27] القیامة۱۰تا۱۲

[28] القیامة۸،۹

[29] التکویر۱

[30] الانفطار۲

[31] الحاقة۱۶

[32] الانشقاق۱

[33] الانفطار۱

[34] الکہف۴۹

[35] المرسلات ۳۵،۳۶

[36] الحجر۹۲،۹۳

[37] آل عمران ۱۰۶

[38] یونس۲۷

[39] القلم۴۳

[40] المعارج۴۴

[41] الحاقة۳۰تا۳۲

[42] المومن۷۱،۷۲

[43] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۲۵؍۱۰

[44] الغاشیة۵

[45] محمد۱۵

[46] تفسیر طبری۵۵؍۲۳

[47] تفسیرابن کثیر۵۰۰؍۷

[48] النازعات۴۰

[49] صحیح بخاری تفسیرسورۂ الرحمٰن بَابُ قَوْلِهِ وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ۴۸۷۸ ، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْیَةِ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى۴۴۸،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۸۶،مسنداحمد۱۹۶۸۲،صحیح ابن حبان ۷۳۸۶،السنن الکبری للنسائی ۷۷۱۷،مسندابی یعلی ۷۳۳۱

[50] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ الثِّیَابِ البِیضِ ۵۸۲۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَنْ مَاتَ لَا یُشْرِكُ بِاللهِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ مُشْرِكًا دَخَلَ النَّارَ ۲۷۳، مسنداحمد۸۶۸۳، السنن الکبری للنسائی ۱۰۸۹۸،شرح السنة للبغوی ۵۱

[51] تفسیر القرطبی ۱۷۸؍۱۷

[52] تفسیرالبغوی۳۴۱؍۴،تفسیرالقرطبی۱۷۹؍۱۷

[53] الحاقة۲۳

[54] الدھر۱۴

[55] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۵، صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعیمھابَابُ أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ وَصِفَاتُهُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ ۷۱۴۷، مسند احمد ۸۱۹۸

[56] الرحمن: 58

[57] صحیح ابن حبان ۷۳۹۶،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابٌ فِی صِفَةِ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ۲۵۳۳،تفسیر ابن ابی حاتم محققا۱۸۷۴۸،تفسیرقرطبی ۱۸۲؍۱۷

[58] صحیح بخاری کتاب الجھادبَابُ الحُورِ العِینِ، وَصِفَتِهِنَّ یُحَارُ فِیهَا الطَّرْفُ، شَدِیدَةُ سَوَادِ العَیْنِ، شَدِیدَةُ بَیَاضِ العَیْنِ ۲۷۹۶، مسند احمد ۱۲۶۰۳

[59] یونس۲۶

[60] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورۂ الرحمٰن بَابُ حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الخِیَامِ ۴۸۷۹، وکتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۳،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابٌ فِی صِفَةِ خِیَامِ الْجَنَّةِ وَمَا لِلْمُؤْمِنِینَ فِیهَا مِنَ الْأَهْلِینَ ۷۱۵۸

[61]صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۳

[62] مسنداحمد۱۷۵۹۶،السنن الکبری للنسائی ۷۶۶۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ النُّعُوتِ باب ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۷۶۶۹

[63] مسنداحمد۲۵۵۰۷،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ۱۳۳۵،سنن ابوداودکتاب أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ ۱۵۱۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا سَلَّمَ۲۹۸،السنن الکبری للنسائی۹۸۴۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ مَا یُقَالُ بَعْدَ التَّسْلِیمِ ۹۲۴

[64] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ۱۳۳۴ ،سنن ابوداودکتاب الوتر بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ۱۵۱۲،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا سَلَّمَ ۲۹۸،سنن نسائی کتاب الافتتاع باب الذِّكْرُ بَعْدَ الِاسْتِغْفَارِ۱۳۳۹،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا یُقَالُ بَعْدَ التَّسْلِیمِ۹۲۴

[65] جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآ ن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرَّحْمَنِ ۳۲۹۱

Related Articles